لوگو، اپنے پروردگار سے ڈرو۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا بھونچال بڑی ہی ہول ناک چیز ہے
یہ لفظ اگرچہ عام ہے، لیکن اِس سے مراد وہی متمردین قریش ہیں جو قیامت کو جھٹلاتے اور عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے تھے۔
یعنی اُس کے مقابلے میں سرکشی اختیار نہ کرو، اِس لیے کہ اُس کا عذاب پناہ مانگنے کی چیز ہے، وہ مطالبہ کرنے کی چیز نہیں ہے۔
لوگو، اپنے رب کے غضب سے بچو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی﴿ ہولناک﴾ چیز ہے۔
یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہوگا جبکہ زمین یکایک الٹی پھر نی شروع ہوجائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ یہ بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمہ اور شعبی نے بیان کی ہے کہ : یکون ذٰلک عند طلوع الشمس من مغربھا۔ اور یہی بات اس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو ابن جریر اور طبرانی اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے نقل کی ہے۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا ہے کہ نفخ صور کے تین مواقع ہیں۔ ایک نفخ فَزَع، دوسرا نفخ صَعْق اور تیسرا نفخ قیام لرب العالمین۔ یعنی پہلا نفخ عام سراسیمگی پیدا کرے گا، دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہوجائیں گے۔ پھر پہلے نفح کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ اس وقت زمین کی حالت اس کشتی کی سی ہوگی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں۔ اس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ مثلاً :
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً فَیَوْمَئِذٍ وَّ قَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ۔ (الحاقہ) ” پس جب صور میں ایک پھونک ماردی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ عظیم پیش آجائے گا “۔
اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا۔ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا۔ (الزلزال) ” جب کہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال پھینکے گی، اور انسان کہے گا یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔ ” یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ۔ قُلُوْ بٌ یُّوْمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ اَبْصَارُھَا خَاشِعَۃٌ۔ (النٰزعات 1) ” جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی “۔
اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا۔ (الواقعہ 1) ” جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اڑنے لگیں گے “۔
فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَاِ السَّمَآءُ مُنْفَطِرٌ بِہ۔ (المزمل۔ 1) ” اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہوگا۔
اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مردے زندہ ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور اس کی تائید میں متعدد احادیث بھی نقل کی ہیں، لیکن قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے قرآن اس کا وقت وہ بتارہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی، اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں کے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوگی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہوگا، کیونکہ قرآن کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہوچکے ہوں گے اور ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہوگا۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایات ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے۔
لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو ! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔
جس دن تم اسے دیکھو گے اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہے ہی بڑی ہولناک چیز
یہ اس دن کی ہولناکی کی تصویر ہے کہ وہ دن ایسی نفسی نفسی کا ہو گا کہ کسی کے اعوان و انصار اور اس کے اخوان و اقرباء اس کے ذرا کام نہ آئیں گے۔ اس دن مرضعہ، جس کو اپنا بچہ جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے، اپنے بچے کو بھول جائے گی اور حاملہ دہشت کے سبب سے اپنا حمل ڈال دے گی۔ لوگوں کا حال یہ ہو گا کہ بالکل مدہوش اور متوالے ہو رہے ہوں گے۔ لیکن یہ مدہوشی شراب کے نشہ کی نہیں ہو گی بلکہ عذاب الٰہی کی ہولناکی سب کو پاگل بنا کے رکھ دے گی!
آیت میں ایک ہی ساتھ مخاطب کے لیے جمع اور واحد دونوں کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ ہم دوسرے مقام میں یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ جمع کے لیے جب واحد کا صیغہ استعمال ہوتا ہے تو مخاطب گروہ کا ایک ایک شخص فرداً فرداً مراد ہوتا ہے اور اس میں جمع کے بالمقابل زیادہ زور ہوتا ہے۔
تم جس دن اُس کو دیکھو گے، ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حمل والی اپنا حمل ڈال دے گی، اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے، حالاں کہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہو گا
آیت میں مخاطبین کے لیے ایک جگہ جمع اور دوسری جگہ واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ہم دوسری جگہ وضاحت کر چکے ہیں کہ جمع کے لیے واحد کا صیغہ استعمال کیا جائے تو اُس میں مخاطبین کا ایک ایک شخص فرداً فرداً مراد ہوتا ہے اور کلام میں جمع کے بالمقابل زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔
جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔
آیت میں مُرْضِع کے بجائے مُرْضِعَہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربیت کے لحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مرضع اس عورت کو کہتے ہیں جو دودھ پلانے والی ہو، اور مرضِعَہ اس حالت میں بولتے ہیں جبکہ وہ بالفعل دودھ پلا رہی ہو اور بچہ اس کی چھاتی منہ میں لیے ہوئے ہو۔ پس یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ جب وہ قیامت کا زلزلہ آئے گا تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ نکلیں گی اور کسی ماں کو یہ ہوش نہ رہے گا کہ اس کے لاڈلے پر کیا گزری۔
واضح رہے کہ یہاں اصل مقصود کلام قیامت کا حال بیان کرنا نہیں ہے بلکہ خدا کے عذاب کا خوف دلا کر ان باتوں سے بچنے کی تلقین کرنا ہے جو اس کے غضب کی موجب ہوتی ہیں۔ لہٰذا قیامت کی اس مختصر کیفیت کے بعد آگے اصل مقصود پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔
جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مد ہوش، دکھائی دیں گیں، حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہونگے لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے ۔
آیت مذکورہ میں جس زلزلے کا ذکر ہے، جس کے نتائج دوسری آیت میں بتلائے گئے ہیں جس کا مطلب لوگوں پر سخت خوف، دہشت اور گھبراہٹ کا طاری ہونا، یہ قیامت سے قبل ہوگا اور اس کے ساتھ دنیا فنا ہو جائیگی۔ یا یہ قیامت کے بعد اس وقت ہوگا جب قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ بہت سے مفسرین پہلی رائے کے قائل ہیں۔
جبکہ بعض مفسرین دوسری رائے کے اور اس کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں مثلا اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ذریت میں سے ہزار میں ٩٩٩ جہنم کے لیے نکال دے۔ یہ بات سن کر حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور لوگ مدہوش سے نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہونگے صرف عذاب کی شدت ہوگی یہ بات صحابہ پر بڑی گراں گزری ان کے چہرے متغیر ہوگئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھ کر فرمایا (گھبراؤ نہیں) یہ ٩٩٩ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور تم میں سے صرف ایک ہوگا۔ تمہاری (تعداد) لوگوں میں اس طرح ہوگی جیسے سفید رنگ کے بیل کے پہلو میں کالے بال یا کالے رنگ کے بیل کے پہلو میں سفید بال ہوں اور مجھے امید ہے کہ اہل جنت میں تم چوتھائی یا تہائی یا نصف ہو گے جسے سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بطور مسرت کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا (صحیح بخاری تفسیر سورة حج) پہلی رائے بھی بےوزن نہیں ہے بعض ضعیف احادیث سے ان کی بھی تائید ہوتی ہے اس لئے زلزلہ اور اس کی کیفیات سے مراد اگر فزع اور ہولناکی کی شدت ہے (ظاہر یہی ہے) تو سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی یہ کیفیت دونوں موقعوں پر ہی ہوگی اس لیے دونوں ہی رائیں صحیح ہوسکتی ہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر لوگوں کی کیفیت ایسی ہوگی جیسی اس آیت میں اور صحیح بخاری کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔
اور لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر کسی علم کے خدا کی توحید کے باب میں کٹ حجتی کرتے اور ہر سرکش شیطان خبیث کی پیروی کرتے ہیں
ایک خاص اسلوب بیان: ’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ‘ کے اسلوب بیان میں جب کوئی بات کہی جاتی ہے تو اس سے مقصود عام میں سے خاص کا ذکر ہوتا ہے۔ اگر موقع و محل تحسین کا ہو تو یہ اسلوب تحسین کے لیے بھی آتا ہے اور اگر موقع و محل تقبیح کا ہو، جیسا کہ یہاں ہے، تو اس سے تقبیح کی شدت نمایاں ہو گی۔ اگر اس اسلوب کو اپنی زبان میں ادا کرنا چاہیں گے تو کہیں گے کہ لوگوں میں ایسے جاہل، احمق اور بدھو بھی ہیں جو یوں کہتے یا یوں کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر اس گروہ کا ذکر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت، خاص طور پر توحید کی مخالفت میں، ہر وقت مناظرہ و مجادلہ کے لیے آستینیں چڑھائے رہتا تھا۔ اس طرح کے لوگ کسی معاشرہ میں بھی تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہوتے بلکہ ان کا ایک خاص طائفہ ہی ہوتا ہے۔ ان کا علم بھی بس سنی سنائی اور رٹی رٹائی باتوں پر مبنی ہوتا ہے لیکن زبان درازی میں طاق اور لاف زنی میں مشاق ہوتے ہیں اس وجہ سے شاطر لوگوں کے ایجنٹ بن کر بے چارے سادہ لوح عوانم کو گمراہ کرنے کی خدمت خوب انجام دیتے ہیں۔
مجادلہ بغیر علم کے: ’یُجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ‘۔ ’فِی اللّٰہِ‘ سے مراد فی توحید اللہ ہے اس لیے کہ کفار عرب خدا کے منکر نہیں تھے۔ وہ صرف خدا کی توحید کے منکر تھے اور توحید کے انکار کے لیے ان کے پاس دین آباء کی اندھی تقلید کے سوا کوئی دلیل نہیں تھی۔ آگے آیت ۸ میں وضاحت آئے گی کہ ان کے پاس اللہ کے دین کا کوئی علم تھا، نہ عقل و فطرت کی کوئی ہدایت، نہ کوئی قرآن و کتاب، بس یونہی، بغیر کسی دلیل اور علم کے، خدا کی توحید کے بارے میں مناظرہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ پیشہ ور مناظروں کے پاس زبان درازی کے سوا اور کوئی علم نہیں ہوتا، یہ صرف اپنے ضال و مضل لیڈروں سے الہام حاصل کرتے ہیں اور گلی گلی میں ان کا ڈھول پیٹتے پھرتے ہیں۔
شیطان سے مراد شیاطین جن و انس، دونوں ہیں: ’وَ یَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ‘۔ ’شیطان‘ سے مراد شیاطین جن و انس دونوں ہیں۔ لفظ ’کل‘ اس مفہوم کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ شیاطین جن اور شیاطین انس دونوں میں بڑا گہرا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ شیاطین جن، شیاطین انس ہی کو اپنی فتنہ انگیزیوں کا ذریعہ بناتے ہیں۔ شیاطین جن القا کرتے ہیں اور شیاطین انس ان کے القا کو مختلف ناموں سے ایک فلسفہ بناتے اور پھر اولاد آدمؑ کو گمراہ کرنے کے لیے اس کو تمام ذرائع سے پھیلاتے ہیں۔ قرآن نے اس طرح کے تمام ائمۂ ضلالت کے لیے شیطان ہی کا لفظ استعمال کیا ہے۔
’مَرِیْدٌ‘ کے معنی: ’مَرِیْدٌ‘ کے معنی شریر و خبیث اور متعری عن الخیر یعنی لا خیرے کے ہیں۔
’شَیٰطِیْنُ‘ خواہ شیاطین جن ہوں یا شیاطین انس، ظاہر تو ہوتے ہیں ہمیشہ خیر خواہ، ناصح، ہمدرد اور بہی خواہ قوم و وطن کے بھیس میں لیکن درحقیقت وہ نہایت ہی خبیث و شریر اور بالکل لا خیرے ہوتے ہیں۔ وہ خدا کے بندوں کو خدا کی راہ سے ہٹا کر اپنی ڈگر پر ڈال دیتے ہیں اور جو لوگ ان کے نقیب و چاؤش بن کر ان کے فتنوں کے پھیلانے میں ان کے آلۂ کار بن جاتے ہیں ان کو اپنے سمیت جہنم کا فرزند بنا دیتے ہیں۔ فرمایا کہ جو لوگ خدا کی توحید کے بارے میں ہمارے پیغمبر سے مباحثے اور مناظرے کر رہے ہیں وہ ایسے ہی خبیث اور لا خیرے شیطانوں کے پیرو ہیں۔
قیامت کے ذکر کے ساتھ توحید کے ذکر کی حکمت: قیامت کے ذکر کے ساتھ یہ معاً توحید کا ذکر اس لیے ہے کہ درحقیقت قیامت کی ساری اہمیت توحید کے ساتھ ہی ہے۔ اگر خدا کے ساتھ اس کے شرکاء و شفعاء کا وجود تسلیم کر لیا جائے تو قیامت کی ساری اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی روز عدالت ہے تو اس سے کیا اندیشہ ہو سکتا ہے اگر ایسے شرکاء و شفعاء موجود ہیں جواپنے زور و اثر یا سعی و سفارش سے اپنے نام لیواؤں کو خدا کی پکڑ سے بچا سکتے ہیں! اسی وجہ سے قرآن میں قیامت اور رد شرک دونوں مضمون ہمیشہ ساتھ ساتھ بیان ہوتے ہیں تاکہ لوگوں پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح کر دی جائے کہ خدا کی پکڑ سے کوئی بھی کسی کو بچانے والا نہیں بن سکے گا۔ سب کا معاملہ اسی کے حضور میں پیش ہو گا اور وہی تنہا ہر ایک کا فیصلہ فرمائے گا۔
اِدھر لوگوں (کا حال یہ ہے کہ اُن) میں ایسے (احمق) بھی ہیں جو بغیر کسی علم کے خدا کے بارے میں جھگڑتے اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرنے لگتے ہیں
’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ‘ کا یہ اسلوب تحسین اور تقبیح، دونوں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ یہ تقبیح کے لیے ہے۔ لفظ ’احمق‘ کے اضافے سے ہم نے اِسی کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
یعنی عقل و فطرت، علم و استدلال اور کتاب الٰہی کی کسی شہادت کے بغیر ہی مناظرے اور مجادلے کے لیے آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس طرح کے لوگ کسی معاشرے میں بھی تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہوتے، بلکہ اِن کا ایک خاص طائفہ ہی ہوتا ہے۔ اِن کا علم بھی بس سنی سنائی اور رٹی رٹائی باتوں پر مبنی ہوتاہے۔ لیکن زبان درازی میں طاق اور لاف زنی میں مشاق ہوتے ہیں، اِس وجہ سے شاطر لوگوں کے ایجنٹ بن کر بے چارے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی خدمت خوب انجام دیتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۲۰۸)
یہ اُس جھگڑے کا ذکر ہے جو وہ خدا کی توحید اور اُس کے حضور میں جواب دہی کے متعلق پیدا کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ کسی طرح باور کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ قیامت برپا ہو گی اور بالفرض ہو گی تو اُنھیں تنہا خدا سے معاملہ پڑے گا اور اُن کے شرکا و شفعا وہاں اُن کے کام نہ آئیں گے۔
یعنی خواہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
بعض لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں،
آگے کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے بارے میں ان کے جس جھگڑے پر گفتگو کی جا رہی ہے وہ اللہ کی ہستی اور اس کے وجود کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے حقوق اور اختیارات اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات کے بارے میں تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے توحید اور آخرت منوانا چاہتے تھے، اور اسی پر وہ آپ سے جھگڑتے تھے۔ ان دونوں عقیدوں پر جھگڑا آخرکار جس چیز پر جا کر ٹھہرتا وہ یہی تھی کہ خدا کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا، اور یہ کہ کائنات میں آیا خدائی صرف ایک خدا ہی کی ہے یا کچھ دوسری ہستیوں کی بھی۔
بعض لوگ اللہ کے بارے میں باتیں بناتے ہیں اور وہ بھی بےعلمی کے ساتھ اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔
مثلًا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، یا اس کی اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔
جس کی یہ ڈیوٹی ہی مقرر ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا وہ اس کو گمراہ کر کے رہے گا اور اس کی رہنمائی وہ عذاب دوزخ کی طرف کرے گا
شیطان کی ڈیوٹی: قرآن میں جگہ جگہ یہ بات تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ شیطان نے قیامت تک کے لیے بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مہلت لی ہے اور اللہ نے اس کو یہ مہلت دی ہے کہ جا، جو تجھے اپنا دوست، مددگار اور رہنما بنائیں ان کو گمراہ کر لے، میں ان کو اور تجھ کو سب کو جہنم میں جھونک دوں گا۔ اسی حقیقت کو یہاں ’کُتِبَ عَلَیْہِ‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی یہ شیطان کی خدا کی طرف سے ایک مقررہ ڈیوٹی ہے کہ جو اس کو دوست بنائیں ان کو وہ گمراہ اور جہنم کی طرف ان کی رہنمائی کرے۔ ’فَاَنَّہٗ‘ کا عطف ’اَنَّہٗ‘ پر ہے اور ’مَنْ تَوَلَّاہُ‘ بطور بیان شرط کے ہے یعنی شیطان کا یہ فریضہ کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے اور ان کو جہنم کی راہ دکھائے بایں شرط مشروط ہے کہ جو لوگ اس کو اپنا ولی و کارساز بنائیں گے صرف وہی اس کے دام میں شکار ہوں گے۔ خدا کے ان بندوں پر اس کا کوئی زور نہیں چلے گا جو اس کو اپنا دشمن سمجھیں گے اور ہمیشہ اس کے فتنوں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جائے کہ زہر کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ہلاک کرے، احمق ہیں وہ جو اس کو تریاق سمجھیں اور نگل لیں۔ شیطان کو خدا نے جو مہلت دی ہے وہ لوگوں کے امتحان کے لیے دی ہے اس کو لیڈر بنانے اور اس سے الہام حاصل کرنے یا اس کی پیروی کے لیے نہیں دی ہے۔
جس کی نسبت لکھ دیا گیا ہے کہ جو اُس کو دوست بنائے گا تو اُس کو وہ گمراہ کرکے رہے گا اور اُس کو دوزخ کے عذاب کا راستہ دکھا دے گا
یہ اُس مہلت کی طرف اشارہ ہے جو خدا نے شیطان کو دے رکھی ہے اور اِس طرح گویا اُس کے لیے طے کر دیا ہے کہ قیامت تک وہ یہی خدمت انجام دیتا رہے۔
حالانکہ اس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذاب جہنم کا راستہ دکھائے گا۔
جس کے مقدر میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو کوئی اسے دوست بنائے گا تو وہ اس کو گمراہ کرے گا، اور اسے بھڑکتی دوزخ کے عذاب کی طرف لے جائے گا۔
یعنی شیطان کی بابت تقدیر الٰہی میں یہ بات ثبت ہے۔
اے لوگو! اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو دیکھو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر منی کے ایک قطرے سے، پھر ایک جنین سے، پھر ایک لوتھڑے سے، کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص۔ ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کر دیں اور ہم رحموں میں ٹھہرا دیتے ہیں جو چاہتے ہیں ایک مدت معین کے لیے۔ پھر ہم تم کو ایک بچہ کی شکل میں برآمد کرتے ہیں، پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے بعض پہلے ہی مر جاتے ہیں اور بعض بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچتے ہیں تاآنکہ وہ کچھ جاننے کے بعد کچھ بھی نہیں جانتے۔ اور تم زمین کو بالکل خشک دیکھتے ہو تو جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو وہ لہریں لینے لگتی اور اُپجتی ہے اور طرح طرح کی خوش نما چیزیں اُگاتی ہے
قیامت کا مشاہدہ اپنے اندر اور باہر: ’فِی رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ‘ قیامت کے باب میں مشرکین عرب کی روش صریح انکار کی نہیں بلکہ شک اور تردد ہی کی تھی۔ وہ اس کو ایک بہت ہی بعید چیز خیال کرتے تھے اور اس استبعاد کی بڑی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ مر کھپ جانے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا ان کے خیال میں بہت بعید از قیاس بات تھی۔ اپنے اس واہمہ کے سبب سے اول تو قیامت کو وہ کوئی اہمیت دیتے ہی نہیں تھے اور اگر ایک مفروضہ کے درجہ میں اس کو مانتے بھی تھے تو ان کو اپنے مزعومہ شرکاء و شفعاء پر یہ اعتماد تھا کہ وہ اپنی سفارش سے ان کو خدا کی بازپرس سے بچا لیں گے۔ قرآن نے قیامت کا جب اس شد و مد سے ذکر کیا کہ وہی اس زندگی اور اس کائنات کی اصل غائت قرار پا گئی اور ساتھ ہی ان کے تمام شرکاء و شفعاء کو بھی بے حقیقت ثابت کر دیا تو یہ چیز ان پر بہت شاق گزری۔ انھیں محسوس ہوا کہ ان کی ساری عمارت بالکل ریت پر ہے۔ اس کو بچانے کے لیے ان کے پاس واحد حربہ صرف یہ رہ گیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زچ کرنے کے لیے یہ مطالبہ کرتے کہ اگر قیامت ایسی ہی یقینی چیز ہے تو وہ اس کو دکھا دیں یا اس کی کوئی ایسی محسوس نشانی ’بشکل عذاب‘ دکھائی جس کے بعد وقوع قیامت میں کسی شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ قرآن نے ان کی اسی ذہنیت کو سامنے رکھ کر ان کو خود ان کے اپنے وجود اور اس دنیا میں روزمرہ کے مشاہدات کی طرف توجہ دلائی کہ قیامت اور توحید کی دلیل ڈھونڈھنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خدا نے انسان اور اس کائنات کو بنایا ہی اس طرح ہے کہ جو شخص آنکھیں رکھتا ہے وہ اپنے اندر اور باہر ہر وقت خدا اور قیامت کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
’عَلَقَۃ‘ کے معنی: ’فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ‘۔ ’عَلَقَۃٌ‘ خون کی پھٹکی کو بھی کہتے ہیں اور چھوٹے جان دار کیڑے کو بھی۔ یہ نطفہ کے قرار پا جانے کے بعد کا درجہ ہے جب وہ خون اور ایک جنین کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اس کے اندر زندگی کی نمود پیدا ہو جاتی ہے۔
’مُضْغَۃٌ‘ کے معنی: ’مُضْغَۃٌ‘ گوشت کے لوتھڑے کو کہتے ہیں۔ یہ ’عَلَقَۃ‘ کے بعد کا مرحلہ ہے جب جنین گوشت کے ایک لوتھڑے کی شکل میں ایک جسم کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس ’مُضْغَۃٌ‘ کی بابت فرمایا کہ ان میں سے بعض کا ڈیزائن بالکل مکمل ہوتا ہے اور بعض کو قدرت نامکمل ہی چھوڑ دیتی ہے اور کسی کے بس میں بھی یہ نہیں ہے کہ اس کو مکمل کر دے۔
انسان کی اپنی خلقت ایک درس گاہ ہے: ’لِنُبَیِّنَ لَکُمْ‘ یہ وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے انسان کی خلقت کے ان تمام مراحل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کو وجود میں لانے کے لیے ان تمام مراحل اور اس سارے اہتمام کا محتاج نہیں تھا کہ پانی کی ایک بوند کسی مادہ کے رحم میں قرار پکڑے، پھر وہ خون اور جنین کی صورت اختیار کرے اور قدرت اپنے ڈیزائن کے مطابق اس کی نقاشی و مصوری کر کے اس کو حسین پیکر بنائے۔ اس تمام اہتمام و انتظام کے بغیر اگر خدا چاہتا تو بنے بنائے آدمی کسی دریا یا پہاڑ سے جھنڈ کے جھنڈ اور ریوڑ کے ریوڑ برآمد ہو جایا کرتے لیکن خدا نے یہ چاہا کہ انسان کی خود اپنی خلقت اس کے لیے خالق کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کی ایک درس گاہ بن جائے۔ جس میں وہ اپنے اور اس کائنات کے احسن الخالقین کی معرفت حاصل کرے۔ اس کا خود اپنا وجود اس پر شہادت دے کہ جس نے اس اہتمام و عنایت کے ساتھ اس کو پیدا کیا ہے اس نے اس کو محض ایک کھلونا نہیں بنایا ہے بلکہ اس کی خلقت کے پیچھے ایک عظیم غایت ہے، جو لازماً ظہور میں آ کے رہے گی۔ اس کے اپنے ہر بن مو سے اس کو یہ گواہی ملے کہ خالق نے اس کو مٹی کے خلاصہ اور پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا اور اس کو اس میں کوئی زحمت پیش نہیں آئی تو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا بھی اس کے لیے نہایت آسان ہے۔ بعینہٖ یہی مضمون سورۂ مومنون میں اس طرح بیان ہوا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ۵ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ۵ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلْقَنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ۵ ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ۵ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ (۲۳: ۱۲-۱۶)
’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک قرار کی جگہ میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو جنین کی شکل دی، پھر جنین کو ایک لوتھڑا بنایا، پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا، پھر اس کو ایک بالکل ہی مختلف مخلوق کی شکل میں مشکّل کر دیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ بہترین پیدا کرنے والا! پھر اس کے بعد تم لازماً مرو گے، پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔‘‘
سورۂ مومنون کی اس آیت میں وہ خلاصہ بھی سامنے رکھ دیا ہے جس پر انسان کی خلقت کے یہ تمام مراحل شہادت دے رہے ہیں لیکن ہمارے دور حاضر کے فلسفیوں اور سائنسدانوں کا یہ عجیب اندھا پن ہے کہ انھیں انسان کی خلقت کے یہ تمام مراحل و مدارج تو نظر آتے ہیں لیکن اس اصل حقیقت تک ان کی نظر نہیں پہنچتی جس کو واضح کرنے ہی کے لیے خدا نے یہ سارا اہتمام فرمایا۔
’وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا‘۔ ابھی اصل سلسلۂ کلام پورا نہیں ہوا تھا کہ بیچ میں ’لِنُبَیِّنَ لَکُمْ‘ کا ٹکڑا اچانک مخاطبوں کو جھنجھوڑنے کے لیے آ گیا تھا کہ بلادت کے سبب سے وہ سو نہ رہے ہوں۔ ان کو جھنجھوڑنے کے بعد پھر اصل سلسلۂ کلام کو لے لیا۔ فرمایا کہ اس کے بعد ایک مدت تک اس کو رحم میں ہم ٹھہراتے ہیں کہ وہ ایک پورے بچے کی شکل اختیار کر لے۔ ’مَا نَشَآءُ‘ یعنی یہ کلیۃً ہماری مشیت پر منحصر ہے کہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ، خوب صورت ہو یا بدصورت، ناقص ہو یا کامل، کسی دوسرے کے اختیار میں یہ نہیں ہے کہ وہ لڑکی کو لڑکا بنا دے یا بدصورت کو خوب صورت ’اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی‘ یعنی اسی طرح وضع حمل کے لیے ہم نے ایک مدت ٹھہرا دی ہے اور یہ چیز بھی کلیۃً ہمارے ہی اختیار میں ہے، کسی کے بس میں نہیں ہے کہ ہماری مقرر کی ہوئی مدت میں کوئی تغیر و تبدل کر دے۔
حذف کا ایک قرینہ: ’ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ‘ یہاں ’ل‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے پہلے فعل محذوف ہے۔ اس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں اور سورۂ مومن آیت ۶۷ میں بھی اس کی نہایت واضح مثال آئے گی۔ یعنی بچہ کی شکل میں تمہیں وجود بخشنے کے بعد ہم تمہیں ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی اور پختگی کو پہنچو اور یہ قانون بھی ہمارا ہی بنایا ہوا ہے، کسی کی مجال نہیں کہ وہ بچپن اور مراہقہ کے مراحل کو لانگ کر جوانی کے حدود میں قدم رکھ دے۔
’وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ‘ یہاں تقابل کے اصول پر، بربنائے وضاحت قرینہ، پہلے ٹکڑے میں ’فی صباہ او فی شبابہٖ‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ حذف ہیں اور دوسرے ٹکڑے میں ’ارذل العمر‘ کے الفاظ اس حذف کو واضح کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کتنے تو اپنے بچپن یا جوانی ہی میں مر جاتے ہیں اور کتنے ایسے ہوتے ہیں جو بڑھاپے کی آخری منزل تک پہنچتے ہیں اور یہ امر بھی کلیۃً خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ کوئی شخص اپنی مدت حیات میں نہ کمی کر سکتا ہے نہ بیشی۔
’ل‘ غایت و نہایت کے مفہوم میں: ’لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا‘ ’ل‘ غایت و نہایت کے مفہوم میں ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اس کا ترجمہ ’یہاں تک‘ یا ’تاآنکہ‘ ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ ’علم‘ کی تنکیر تحقیر کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور تفخیم کے لیے بھی۔ پہلی صورت میں اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ ایسی ارذل عمر کو پہنچ جاتا ہے کہ تھوڑا بہت علم جو اس کو حاصل ہوا ہوتا ہے وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں مفہوم یہ ہو گا کہ وہ بہت کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ بھی نہیں جانتا، ہر چیز اس کے حافظہ سے محو ہو جاتی ہے۔ ہم پہلے مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے کہ قرآن کے نظائر سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا ہے:
’اِنْ اُوْتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا‘
(تمہیں تو بس تھوڑا ہی علم عطا ہوا ہے)
اصل حقیقت یہی ہے کہ انسان چاہے سقراط و بقراط ہی کیوں نہ بن جائے لیکن علم کے بحر بیکراں کا ایک قطرہ ہی ہے جس کا وہ حامل بنتا ہے۔ اس سے زیادہ کے لیے وہ اپنے اندر ظرف ہی نہیں رکھتا۔ اور اس علم کا بھی حال یہ ہے کہ عمر کے ایک خاص حصہ میں وہ سب سلب ہو جاتا ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اپنے علم پر بھی کسی کو غرہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی خدا ہی کی دین ہے، وہی بخشتا ہے اور وہ جب چاہے اس کو چھین سکتا ہے۔
ایک نظر عامل خارج پر: ’وَتَرَی الْاَرْضَ ھَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْھَاالْمَآءَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَھِیْجٍ‘۔ انسان کی خلقت کے اندر قیامت کے جو دلائل ہیں ان کی طرف توجہ دلانے کے بعد اس کو باہر کی دنیا کی طرف توجہ دلائی کہ تم دیکھتے ہو کہ زمین بالکل خشک اور بے آب و گیاہ ہوتی ہے۔ پھر جب اس پر بارش ہوتی ہے تو وہ نرم و گداز ہو جاتی اور نوع بنوع خوشنما نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اس زمین کو بار بار مرتے اور جیتے دیکھتے ہو تو آخر اسی زمین سے اپنے ہی دوبارہ جی اٹھنے کو کیوں بعید از امکان سمجھتے ہو! ہر فصل و موسم میں یہ ریہرسل تو تمہارے سامنے تو اسی غرض سے ہو رہا ہے کہ قیامت کا مشاہدہ اس کے ہونے سے پہلے ہی تمہیں ہوتا رہے۔ ’لِنُبَیِّنَ لَکُمْ‘ کے الفاظ یہاں مقدر ہیں۔ چونکہ یہ نشانی بالکل واضح تھی اس وجہ سے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں تھی۔
لوگو، اگر تمھیں دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں کچھ شک ہے تو (غور کرو کہ) ہم نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے،پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے، جو پوری بھی ہوتی ہے اور ادھوری بھی۔ اِس لیے کہ تم پر (وہ حقائق) واضح کریں (جو تم کو سمجھنے چاہییں)۔ ہم جو چاہتے ہیں، ایک مقرر مدت تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں۔ پھر ایک بچے کی صورت میں تمھیں نکال لاتے ہیں۔ پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو ۔اور تم میں سے کوئی پہلے ہی بلا لیا جاتا ہے اور کوئی( بڑھاپے کی)نکمی عمر کو پہنچایا جاتا ہے کہ وہ بہت کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ بھی نہیں جانتا۔ (اِسی طرح) زمین کو دیکھتے ہو کہ خشک پڑی ہے۔ پھر جب ہم اُس پر پانی برسا دیتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور ابھرتی ہے اور ہر طرح کی خوش منظر چیزیں اگاتی ہے
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ مشرکین عرب قیامت کے بارے میں فی الواقع ایک نوعیت کے شک اور تردد میں مبتلا تھے، اُس کا صریحاً انکار نہیں کرتے تھے۔
یعنی ابتدا میں، جب انسان زمین کے پیٹ میں اُنھی مراحل سے گزر کر پیدا ہوا جن سے وہ اب ماں کے پیٹ میں گزرتا ہے۔
یہ اُن بڑے بڑے تغیرات کا ذکرکیا ہے جن سے اُس زمانے کا ایک عام بدو بھی واقف تھا۔
یعنی ضروری نہیں کہ پوری ہو کر بچے کی صورت اختیار کرے، بعض اوقات ادھوری ہی رہ جاتی ہے اور کسی کے بس میں نہیں ہوتا کہ اُسے مکمل کر دے۔
یہ سلسلۂ کلام کو بیچ میں چھوڑ کر مخاطبین کو جھنجھوڑنے کے لیے اصل مقصد کی طرف توجہ دلادی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کو وجود میں لانے کے لیے اِن تمام مراحل اور سارے اہتمام کا محتاج نہیں تھا کہ پانی کی ایک بوند کسی مادہ کے رحم میں قرار پکڑے، پھر وہ خون اور جنین کی صورت اختیار کرے اور قدرت اپنے ڈیزائن کے مطابق اُس کی نقاشی و مصوری کرکے اُس کو حسین پیکر بنائے۔ اِس تمام اہتمام و انتظام کے بغیر اگر خدا چاہتا تو بنے بنائے آدمی کسی دریا یا پہاڑ سے جھنڈ کے جھنڈ اور ریوڑ کے ریوڑ برآمد ہو جایا کرتے، لیکن خدا نے یہ چاہا کہ انسان کی خود اپنی خلقت اُس کے لیے خالق کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کی ایک درس گاہ بن جائے جس میں وہ اپنے اور اِس کائنات کے احسن الخالقین کی معرفت حاصل کرے۔ اُس کا خود اپنا وجود اِس پر شہادت دے کہ جس نے اِس اہتمام و عنایت کے ساتھ اُس کو پیدا کیا ہے، اُس نے اُس کو محض ایک کھلونا نہیں بنایا ہے، بلکہ اُس کی خلقت کے پیچھے ایک عظیم غایت ہے جو لازماً ظہور میں آکے رہے گی۔ اُس کے اپنے ہر بن مو سے اُس کو یہ گواہی ملے کہ خالق نے اُس کو مٹی کے خلاصہ اور پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا اور اُس کو اِس میں کوئی زحمت پیش نہیں آئی تو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا بھی اُس کے لیے نہایت آسان ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۲۱۷)
یہ فقرہ اصل میں محذوف ہے جس پر ’لِتَبْلُغُوْا‘ کا لام دلالت کررہا ہے۔
آیت میں آگے ’اَرْذَلِ الْعُمُرِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کے مقابل میں ’فی صباہ أو فی شبابہ‘ یا اِن کے ہم معنی الفاظ اصل میں محذوف ہیں۔ ترجمے میں یہ اضافہ اُنھی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
آیت میں ’ل‘ غایت و نہایت کے مفہوم میں ہے اور لفظ ’عِلْم‘ کی تنکیر تفخیم کے لیے ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ ’لِکَیْلَا یَعْلَمَ‘ کے مقابل میں آیا ہے۔ اِس سے انسان کے علم کی اصل حقیقت کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے جو علم کے بحر بے کراں میں ایک قطرہ ہی ہے۔
لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بےشکل بھی۔ ﴿یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں﴾ تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں۔ ہم جس ﴿نطفے﴾ کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں﴿ پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں﴾ تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کردی۔
اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم (علیہ السلام) سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گئے تھے، اور پھر آگے نسل انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا، جیسا کہ سورة سجدہ میں فرمایا : وَبَدَءَ خَلْقَ الْاِنْسَا نِ مِنْ طِیْنٍ ہ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ ۔ (آیات 7 ۔ 8) ” انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے “۔
یہ اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہوتا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے، اس لئے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :7
یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بیخبر ی میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پر ہنسنے لگتے ہیں۔
لوگو ! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور وہ بےنقشہ تھا یہ ہم تم پر ظاہر کردیتے ہیں اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو فوت کر لئے جاتے ہیں اور بعض بےغرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دئیے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بیخبر ہوجائے تو دیکھتا ہے کہ زمین بنجر اور خشک ہے پھر جب ہم اس پر بارش برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار نباتات اگاتی ہے ۔
یعنی نطفے (قطرہ منی) سے چالیس روز بعد عَلَقَۃٍ گاڑھا خون اور عَلَقَۃٍ سے مُضْغَۃٍ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے مُخَلَّقَۃٍ سے، وہ بچہ مراد ہے جس کی پیدائش واضح اور شکل و صورت نمایاں ہوجائے، اس کے برعکس، جس کی شکل و صورت واضح نہ ہو، نہ اس میں روح پھونکی جائے اور قبل از وقت ہی وہ ساقط ہوجائے۔ صحیح حدیث میں بھی رحم مادر کی ان کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ایک حدیث میں ہے کہ نطفہ چالیس دن کے بعد علقۃ (گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مضغۃ (لوتھرڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے (صحیح بخاری)
٥۔ ٢ یعنی اس طرح ہم اپنا کمال قدرت و تخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔
٥۔ ٣ یعنی جس کو ساقط کرنا نہیں ہوتا۔
٥۔ ٤ یعنی عمر اشد سے پہلے ہی۔ عمر اشد سے مراد بلوغت یا کمال عقل و کمال قوت وتمیز کی عمر، جو ٣٠ سے ٤٠ سال کے درمیان عمر ہے۔
٥۔ ٥ اس سے مراد بڑھاپے میں قوائے انسانی میں ضعف و کمزوری کے ساتھ عقل و حافظہ کا کمزور ہوجانا اور یادداشت اور عقل و فہم میں بچے کی طرح ہوجانا، جسے سورة یٰسین میں (وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ) 36 ۔ یس :68) اور سورة تین میں (ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ) 95 ۔ التین :5) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
٥۔ ٦ یہ احیائے موتی (مردوں کے زندہ کرنے) پر اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل، جو مذکورہ ہوئی، یہ تھی کہ جو ذات ایک حقیر قطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکر تراش سکتا ہے اور ایک حسین وجود عطا کرسکتا ہے، علاوہ ازیں وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا بڑھاپے کے ایسے اسٹیج پر پہنچا سکتا ہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتیں تک، سب ضعف و انحطاط کا شکار ہوجائیں۔ کیا اس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطا کردینا مشکل ہے ؟ یقینا جو ذات انسان کو ان مراحل سے گزار سکتی ہے، وہی ذات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے ایک نیا قالب اور نیا وجود بخش سکتی ہے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے لیکن اسے بارش کے بعد یہ کس طرح زندہ اور شاداب اور انواع و اقسام کے غلے، میوہ جات اور رنگ برنگ کے پھولوں سے مالا مال ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انسانوں کو بھی ان کی قبروں سے اٹھا کر کھڑا کرے گا۔
جس طرح حدیث میں ہے ایک صحابی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس طرح پیدا فرمائے گا اس کی کوئی نشانی مخلوقات میں سے بیان فرمائیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارا گزر ایسی وادی سے ہوا ہے جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اسے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو ؟ اس نے کہا ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بس اسی طرح انسانوں کی جی اٹھنا ہوگا۔ (مسند احمد جلد ٤)
یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اللہ ہی پروردگار حقیقی ہے۔ اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
خلاصۂ بحث: شروع سورہ سے لے کر یہاں تک جو کچھ بیان ہوا ان آیات میں اس کا خلاصہ سامنے رکھ دیا۔ یعنی خدا اور قیامت سے تمہیں ڈرتے رہنے کی یہ ہدایت جو کی جا رہی ہے اس لیے کی جا رہی ہے کہ معبود حقیقی صرف خدا ہی ہے، اس کے ماسوا جو تم نے اس کے شریک و سہیم بنا رکھے ہیں، اور ان کے بل پر تم خدا اور آخرت سے نچنت ہوئے بیٹھے ہو، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ محض تمہارے وہم کی ایجاد ہیں ’وَاَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی‘ یعنی اوپر جو دلائل مذکور ہوئے ان سے یہ بات ثابت ہے کہ خدا مردوں کو زندہ کرتا ہے اس لیے جب وہ چاہے گا تمہیں اٹھا کھڑا کرے گا۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو پانی کے ایک قطرے کو عاقل و بالغ انسان بنا دیتا اور زمین کو اس کے خشک اور چٹیل ہو جانے کے بعد باغ و بہار کر دیتا ہے، اس کے لیے دنیا کو ازسرنو زندہ کر دینا کیوں مشکل ہو جائے گا!
یہ سب اِس لیے کہ اللہ ہی پروردگار حقیقی ہے اور اِس لیے کہ وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور اِس لیے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے
n/a
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے، اور وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،
اس سلسلہ کلام میں یہ فقرہ تین معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ ہی سچا ہے اور تنہا یہ گمان محض باطل ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو۔ وہ نرا فلسفیوں کے خیال کا آفریدہ، واجب الوجود اور علت العلل (First Cause) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعل مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت، اپنے ارادے، اپنے علم اور اپنی حکمت سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ کھلنڈرا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے کھلونے بنائے اور پھر یونہی توڑ پھوڑ کر خاک میں ملا دے۔ وہ حق ہے، اس کے سب کام سنجیدہ اور با مقصد اور پر حکمت ہیں۔
یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہی مردوں کو جلاتا ہے اور ہر ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
اور قیامت آ کے رہے گی، اس کے آنے میں ذرا شبہ نہیں اور اللہ ان سب کو ایک دن زندہ کر کے اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں
خلاصۂ بحث: شروع سورہ سے لے کر یہاں تک جو کچھ بیان ہوا ان آیات میں اس کا خلاصہ سامنے رکھ دیا۔ یعنی خدا اور قیامت سے تمہیں ڈرتے رہنے کی یہ ہدایت جو کی جا رہی ہے اس لیے کی جا رہی ہے کہ معبود حقیقی صرف خدا ہی ہے، اس کے ماسوا جو تم نے اس کے شریک و سہیم بنا رکھے ہیں، اور ان کے بل پر تم خدا اور آخرت سے نچنت ہوئے بیٹھے ہو، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ محض تمہارے وہم کی ایجاد ہیں ’وَاَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی‘ یعنی اوپر جو دلائل مذکور ہوئے ان سے یہ بات ثابت ہے کہ خدا مردوں کو زندہ کرتا ہے اس لیے جب وہ چاہے گا تمہیں اٹھا کھڑا کرے گا۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو پانی کے ایک قطرے کو عاقل و بالغ انسان بنا دیتا اور زمین کو اس کے خشک اور چٹیل ہو جانے کے بعد باغ و بہار کر دیتا ہے، اس کے لیے دنیا کو ازسرنو زندہ کر دینا کیوں مشکل ہو جائے گا!
اور اِس لیے کہ قیامت آ کر رہے گی، اُس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اور اِس لیے کہ اللہ اُن سب کو ضرور اٹھائے گا جو قبروں میں پڑے ہیں
اوپر جن حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے، اُن کو دیکھنے کے بعد یہ بدیہی نتائج ہیں جن کا انکار کوئی عقل کا اندھا ہی کر سکتا ہے۔
اور یہ ﴿ اس بات کی دلیل ہے ﴾ کہ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، اور اللہ ضرور ان لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں جاچکے ہیں۔
ان آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار، زمین پر بارش کے اثرات، اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے :
1 : یہ کہ اللہ ہی حق ہے،
2 : یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے،
3 : یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے،
4 : یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اور
5: یہ کہ اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں۔
اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں۔
پورے نظام کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہوجائے کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کار فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو و نما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بےعلم و بےارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادر مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفس انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اس نطفے میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکم مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بیشمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیا ہے اور اس طرح استقرار حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضیٰ خلیے (egg Cell) کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خورد بین کے بغیر نہیں دیکھی جاسکتی۔ یہ حقیر سی چیز 9 مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بیشمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے ان میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیم فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے، یا گوشت کی بوٹی، یا ناتمام بچے کی شکل میں ساقط کردینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے ان گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح وسالم نکالنا ہے اور کسے اندھا، بہرا، گونگا یا ٹنڈا اور لنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بد صورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسی کو کند ذہن پیدا کرتا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے، اس کے دوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم 90 فی صدی فیصلے ان ہی مراحل میں ہوجاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں، قوموں کے، بلکہ پوری نوع انسانی کی مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد بچے دنیا میں آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہوجانا ہے، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے، اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں ؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ” حق ” ہے اور صرف اللہ ہی ” حق ” ہے تو بیشک وہ عقل کا اندھا ہے۔
دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ” اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے “۔ لوگوں کو تو یہ سن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مردوں کو زندہ کرے گا، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مردے جلا رہا ہے۔ جن مادوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے ان کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات، کچھ ہوائیں، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفس انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں۔ مگر ان ہی مردہ، بےجان مادوں کو جمع کر کے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنادیا گیا ہے۔ پھر انہی مادوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گرد و پیش کی زمین پر نظر ڈالیے۔ بیشمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا، اور بیشمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوند خاک ہوئی پڑی تھیں۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گرد و پیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مردوں کی قبر بنی ہوئی تھی۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی، اور ہر بےجان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ” اللہ ہر چیز پر قادر ہے ” ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اسی زمین کو لے لیجیے، اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کر کوئی صاحب عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدا بس وہی کچھ کرسکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا ؟ خدا تو خیر بہت بلندو برتر ہستی ہے، انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑیاں بنا سکتا ہے، ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتادیا کہ انسان کے ” امکانات ” کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اس کے صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے، خدا کی قدرت بہرحال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی۔
چوتھی اور پانچویں بات، یعنی یہ کہ ” قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی ” اور یہ کہ ” اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں “، ان تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ وہ جب چاہے قیامت برپا کرسکتا ہے اور جب چاہے ان سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کرسکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا۔ اور اگر اس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ یہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پورا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائیداد یا کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔ پھر اسی حکمت کی بنا پر آدمی ارادی اور غیر ارادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے، ارادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصور وابستہ کرتا ہے، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے “، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے، اور برے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے، حتیٰ کہ خود ایک نظام عدالت اس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے، کیا باور کیا جاسکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہوگا۔ کیا مانا جاسکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سر و سامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھول گیا ہے، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا ؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو برے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں، یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہوگی، اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعد موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعید از عقل ہے۔
اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ قبروں والوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔
اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو بغیر کسی علم، بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے (تکبر سے اینٹھتے ہوئے)، حجتیں کرتے ہیں
بے دلیل مجادلہ کبر ہے: آیت ۳ میں جن مجادلین کی طرف اشارہ فرمایا تھا یہ ان کے رویہ کی تفصیل ہے۔ وہاں ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ خدا کے بارے میں مشرکین کی اصلی مخاصمت عقیدۂ توحید سے تھی۔ جہاں تک خدا کا تعلق ہے اس کو تو وہ بلابحث و نزاع مانتے تھے لیکن اس کے ساتھ انھوں نے اس کے بہت سے دوسرے شریک بھی ٹھہرا لیے تھے جن کو ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ان پر عائد ہوتی تھی لیکن ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں تھی۔ بس زیادہ سے زیادہ جو چیز وہ پیش کرتے وہ یہ کہ ہمارے باپ دادا ان معبودوں کو پوجتے آئے ہیں اس لیے ہم ان کو پوجتے رہیں گے اور ان کی توہین کسی حال میں برداشت نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جب بحث کا تعلق دلیل کے بجائے مجرد آباء و اجداد کی اندھی تقلید سے رہ جائے تو یہ کبر و غرور ہے جس میں مبتلا ہو جانے کے بعد آدمی کے سامنے ساری منطق بے کار ہو کے رہ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس بے دلیل مجادلہ کو کبر قرار دیا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰھُمْلا اِنْ فِیْ صُدُوْرِھِمْ اِلَّا کِبْرٌ مَّا ھُمْ بِبَالِغِیْہِ (مومن ۵۶)
’’بے شک جو لوگ اللہ کی آیات کے بارے میں بغیر کسی دلیل کے، جو ان کے پاس آئی ہو، کٹ حجتی کرتے ہیں، ان کے دلوں میں صرف غرور ہے جس میں ان کو کامیابی حاصل ہونے والی نہیں ہے۔‘‘
دوسرے مقام میں یہ حقیقت بھی واضح فرما دی ہے کہ اس سارے مجادلے کی محرک طریقۂ آباء کی اندھی عصبیت ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ھُدًَی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ۵ وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا(لقمان ۲۰-۲۱)
’’اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم، بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی رہنما کتاب کے جھگڑتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی چیز کی پیروی کرو تو کہتے ہیں ہم اسی طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔‘‘
اِس کے باوجود لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن میں ایسے بھی ہیں جوبغیر کسی علم، بغیر کسی ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے [( تکبر سے) شانے جھٹکتے ہوئے] اللہ کے بارے میں حجتیں کرتے ہیں
یہ رویہ انسان میں اُسی وقت پیدا ہوتا ہے، جب وہ علم و استدلال کے بجاے مجرد آبا و اجداد کی اندھی تقلید کو اپنے ایمان و عقیدہ کا ماخذ بنا لیتا ہے۔ یہ اِسی طرح کے لوگوں کا ذکر ہے جو قرآن کی دعوت یہ کہہ کر رد کر دیتے تھے کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔
بعض اور لوگ ایسے ہیں کہ کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے، خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں
یعنی وہ ذاتی واقفیت جو براہ راست مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوئی ہو۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :11
یعنی وہ واقفیت جو کسی دلیل سے حاصل ہوئی ہو یا کسی علم رکھنے والے کی رہنمائی سے۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :12
یعنی وہ واقفیت جو خدا کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہوئی ہو۔
سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :13
اس میں تین کیفیتیں شامل ہیں : جاہلانہ ضد اور ہٹ دھرمی۔ تکبر اور غرور نفس۔ اور کسی سمجھانے والے کی بات کی طرف التفات نہ کرنا۔
بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن دلیل کے جھگڑتے ہیں۔
تکبر سے اینٹھتے ہوئے، (حجتیں کرتے ہیں) کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے برگشتہ کریں۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ہم قیامت کے دن ان کو آگ کا عذاب چکھائیں گے
’ثَانِیَ عِطْفِہٖ‘ ان کے کبر و غرور کی تصویر ہے۔ جب کوئی شخص غرور کے ساتھ کسی سے اپنا رخ موڑتا ہے تو شانے جھٹک کر موڑتا ہے۔ آدمی کے پاس دلیل نہ ہو اور وہ اپنے غلط موقف سے دست بردار ہونے کے لیے بھی تیار نہ ہو تو اس کے پندار کو بڑی چوٹ لگتی ہے اور اس کا انتقام وہ اپنے غرور کا مظاہرہ کر کے لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ’لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ یعنی یہ سارا طنطنہ اور یہ ساری حمیت کسی حق کی حمایت کے لیے نہیں بلکہ صرف اس لیے ہے کہ جس طرح وہ خود خدا کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے دوسروں کو بھی اسی طرح بھٹکا دے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ آدمی کا خدا کی راہ سے بھٹکا ہوا ہونا، اگر اس کو اپنی کمزوریوں کا احساس ہو، اس سے مایوس کر دینے والی چیز نہیں ہے، حق کی طرف اس کی بازگشت کا امکان ہے، لیکن جو شخص اپنے باطل کے حق میں اپنے پاس کوئی دلیل نہ رکھنے ہوئے بھی اس کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے، پوری رعونت کے ساتھ، اٹھ کھڑا ہو تو اس سے پھر کسی امید خیر کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
استکبار کی سزا دنیا اور آخرت کی رسوائی: ’لَہٗ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّنُذِیْقُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَذَابَ الْحَرِیْقِ‘۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب نار ہے۔ رسوائی اس لیے کہ انھوں نے حق کے مقابل میں استکبار کا مظاہرہ کیا اس وجہ سے وہ مستحق ہیں کہ دنیا میں بھی ذلیل ہوں۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیربحث رسول کے مخالفین ہیں۔ رسولوں کے مخالفین کے باب میں سنت الٰہی، جیسا کہ ہم متعدد مقامات میں واضح کر چکے ہیں، یہی ہے کہ اگر وہ حق کی مخالفت پر جمے رہ جاتے ہیں تو، اتمام حجت کے بعد، لازماً وہ اس دنیا میں بھی شکست اور ذلت سے دوچار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی جہنم کے سزاوار ٹھہریں گے۔
’عَذَابَ الْحَرِیْقِ‘۔ میں بھی عمل اور جزا کی مشابہت کا پہلو موجود ہے۔ یعنی چونکہ وہ اس دنیا میں حق کے خلاف غصہ، نفرت اور حسد سے جلتے اور کھولتے رہے اس وجہ سے وہ مستحق ہیں کہ آخرت میں جلنے کے عذاب کا مزا چکھیں۔
شانے جھٹکتے ہوئے [اللہ کے بارے میں حجتیں کرتے ہیں] کہ (لوگوں کو ) اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔ اُن کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور قیامت کے دن ہم اُن کو جلتی آگ کا عذاب چکھائیں گے
یہ رویہ انسان میں اُسی وقت پیدا ہوتا ہے، جب وہ علم و استدلال کے بجاے مجرد آبا و اجداد کی اندھی تقلید کو اپنے ایمان و عقیدہ کا ماخذ بنا لیتا ہے۔ یہ اِسی طرح کے لوگوں کا ذکر ہے جو قرآن کی دعوت یہ کہہ کر رد کر دیتے تھے کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔
یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ یہاں رسول کے مخاطبین زیر بحث ہیں جن کے بارے میں سنت الٰہی یہ ہے کہ اُن کے کبر و غرور کی سزا اُنھیں دنیا میں بھی لازماً ملتی ہے۔
تاکہ لوگوں کو راہ خدا سے بھٹکا دیں۔ایسے شخص کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور قیامت کے روز اس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔۔۔۔
پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جو خود گمراہ ہیں۔ اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خود ہی گمراہ نہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر تلے رہتے ہیں۔
جو اپنی پہلو موڑنے والا بن کر اس لئے کہ اللہ کی راہ سے بہکا دے، اسے دنیا میں رسوائی ہوگی اور قیامت کے دن بھی ہم اسے جہنم میں جلنے کا عذاب چکھائیں گے۔
ثانی اسم فاعل ہے موڑنے والا عطف کے معنی پہلو کے ہیں یہ یجادل سے حال ہے اس میں اس شخص کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو بغیر کسی عقلی اور نقلی دلیل کے اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے کہ وہ تکبر اور اعراض کرتے ہوئے اپنی گردن موڑتے ہوئے پھرتا ہے جیسے دوسرے مقامات پر اس کیفیت کو ان الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔ ( وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْهَا) 31 ۔ لقمان :7) ( لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ ) 63 ۔ المنافقون :5) ( اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ ) 17 ۔ الاسراء :83)
کہ یہ ہے تیرے اپنے ہی ہاتھوں کی کرتوت اور اللہ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں
زبان حال کی شہادت: ہم قرآن کے اس اسلوب کی وضاحت جگہ جگہ کرتے آئے ہیں کہ جہاں مقصود صورت حال کی تعبیر ہو وہاں بالعموم ’قیل‘ اور ’یقال‘ وغیرہ حذف کر دیے جاتے ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ یعنی زبان حال خود ان پر گواہی دے گی کہ یہ تمہاری اپنی ہی بوئی ہوئی بِس بھری فصل کا حاصل ہے جو تمہارے سامنے آیا ہے، خدا نے تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی ہے۔
جو بوئے گا وہی کاٹے گا: ’وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ‘۔ اس اسلوب کی وضاحت بھی متعدد جگہ ہو چکی ہے کہ جب مبالغہ پر نفی آئے تو اس سے مقصود مبالغہ فی النفی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ’لَیْسَ بِظَلَّامٍ‘ کے معنی ہوں گے اللہ تعالیٰ بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
آیت کا مقصود یہ ہے کہ آدمی اس دنیا میں جو بوئے گا اسی کی فصل آخرت میں کاٹے گا۔ اگر اس نے استکبار کی کاشت کی ہے تو استکبار کا حاصل رسوائی ہے، وہ رسوائی کی فصل کاٹے گا۔ اور اگر حق کے خلاف غصہ اور نفرت کی پرورش اس نے کی ہے تو اس کا حاصل جلنے کا عذاب ہے وہ اس سے دوچار ہو گا۔ غرض جو کچھ اس نے کیا ہو گا وہی اللہ تعالیٰ اس کے سامنے رکھ دے گا۔ سرمو اس کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہو گی!
یہ ہے تمھارے اعمال کا بدلہ جو تمھارے ہاتھوں نے آگے بھیجے تھے اور (تمھارے لیے خدا کا انصاف) کہ اللہ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے
مطلب یہ ہے کہ خدا نے تمھارے ساتھ کوئی بے انصافی نہیں کی ہے۔ یہ اُسی بِس بھری فصل کا حاصل ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں سے بوئی تھی۔ آیت میں یہ مضمون ’اَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اِس میں مبالغہ پر نفی مبالغہ فی النفی کے لیے ہے۔ یہ وہی بات ہے جو دوسرے مقامات میں ’اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ‘* (اللہ ذرے کے برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا) اور ’اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا‘** (اللہ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ اِس اسلوب کی مثالیں قرآن مجید اور کلام عرب، دونوں میں موجود ہیں۔
_____
* النساء ۴: ۴۰۔
** یونس ۱۰: ۴۴۔
یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔
یہ ان اعمال کی وجہ سے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھے تھے۔ یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔
امین احسن اصلاحی
اے لوگو! اپنے خداوند سے ڈرو بے شک قیامت کی ہلچل بڑی ہی ہولناک چیز ہے
’یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ‘ کا خطاب اگرچہ عام ہے لیکن مراد اس سے وہی متمردین قریش ہیں جو قیامت کی تکذیب کر رہے تھے اور عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے تھے۔ فرمایا کہ اپنے رب سے ڈرو، اس نے اپنی عنایت سے جو مہلت دے رکھی ہے اس کو غنیمت جانو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ وہ اپنی زحمت و رافت کے سبب سے دیرگیر ضرور ہے لیکن بڑا ہی سخت گیر بھی ہے۔ قیامت کو سہل چیز نہ سمجھو کہ اس ڈھٹائی کے ساتھ اس کا مطالبہ کر رہے ہو۔ اس کی ہلچل بڑی ہی ہولناک ہو گی۔ وہ پناہ مانگنے کی چیز ہے، مطالبہ کرنے کی چیز نہیں ہے!