عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ

امین احسن اصلاحی

اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا

عبداللہ بن ام مکتوم کے واقعہ کی نوعیت: ’عَبَسَ‘ کا فاعل یہاں مذکور نہیں ہے لیکن آگے کی آیات سے واضح ہو جائے گا کہ فاعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ’اَعْمٰی‘ سے یہاں اشارہ، تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ عبداللہ بن ام مکتومؓ کی طرف ہے۔ یہ ایک وفادار اور نابینا صحابی تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے لیڈروں میں سے کسی سے یا ان کی کسی جماعت سے باتیں کر رہے تھے۔ آپ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تھا اور وہ اپنے اعتراضات و شکوک پیش کر رہے ہوں گے کہ اسی اثناء میں عبداللہ بن ام مکتومؓ تشریف لائے اور موقع کی نزاکت کا اندازہ نہ کر سکنے کے باعث وہ بھی مجلس میں پہنچ گئے۔ ان کا یہ بے موقع آ جانا حضورؐ کو ناگوار گزرا۔ اس ناگواری کی وجہ العیاذ باللہ یہ تو نہیں ہو سکتی کہ وہ نادار یا نابینا تھے، ناداروں اور نابیناؤں کی قدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون کر سکتا تھا، البتہ حضورؐ کو اندیشہ ہوا ہو گا کہ ان وحشیوں کو ذرا مانوس کرنے کا جو موقع میسر آیا ہے عبداللہ بن ام مکتومؓ کے آ جانے سے وہ ضائع ہو جائے گا۔ یہ بدک جائیں گے اور کہیں گے کہ جب تم نے اس طرح کے مفلسوں اور قلاشوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کیا ہے تو تمہاری مجلس میں بیٹھ کر کون اپنی عزت گنوائے گا۔

قریش کے لیڈروں کی نازک مزاجی: یہ امر واضح رہے کہ قریش کے فراعنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اعتراضات تھے ان میں ایک بڑا اہم اعتراض یہی تھا کہ آپ کے ساتھی قلاش اور مفلس لوگ ہیں۔ اس چیز کو وہ آپ کی نبوت کے خلاف ایک دلیل بنائے بیٹھے تھے۔ علاوہ ازیں آپ کے لیے یہ خیال بھی باعث تردد ہوا ہو گا کہ ممکن ہے یہ اپنی بڑائی کے نشہ میں آپ کے ایک محبوب صحابی کی کوئی توہین یا دل آزاری کر بیٹھیں جس سے مزید بدمزگی پیدا ہو۔
اسی واقعہ کو، جو بالکل اتفاق سے پیش آ گیا، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تعلیم دینے کا ذریعہ بنا لیا کہ آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز اپنے ان صحابہ کو بنائیں جوا پنی اصلاح و تربیت کے طالب اور شوق و ذوق سے آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں، ان لوگوں کے درپے زیادہ نہ ہوں جو بے نیاز ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ان کی نازبرداری کریں۔
مغروروں کو نظرانداز کرنے کی ہدایت: پچھلی سورتوں میں یہ بات جگہ جگہ واضح ہو چکی ہے کہ ابتدا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے لیڈروں کو دعوت دینے کا خاص اہتمام تھا۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ آپ کو اول اول، جیسا کہ آیت ’’وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ‘‘ (الشعراء ۲۶: ۲۱۴) سے واضح ہے، انہی کو خطاب کرنے کا حکم ہوا تھا۔ دوسری یہ کہ ان لوگوں کو پورے عرب کی سیادت و قیادت حاصل تھی۔ توقع تھی کہ اگر یہ دعوت قبول کر لیں گے تو پورے عرب میں دعوت کی کامیابی کی راہ کھل جائے گی۔ چنانچہ کچھ عرصے تک حضور نے اپنا سارا زور انھی پر صرف فرمایا اور ان کی طرف سے انتہائی رعونت اور توہین و دل آزاری کے اظہار کے باوجود آپ ان کو دعوت دینے میں لگے رہے لیکن جب ان کی رعونت بہت بڑھ گئی اور یہ واضح ہو گیا کہ یہ ہٹ دھرم نہ صرف یہ کہ کوئی اصلاح قبول کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے جو وقت ضائع ہو رہا ہے اس سے ان غریب مسلمانوں کی حق تلفی ہو رہی ہے جو ایمان لا چکے ہیں اور جو اپنی تعلیم و تربیت کے لیے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توجہ کے ان ناقدروں سے زیادہ مستحق ہیں تو آپ کو ان کے زیادہ درپے ہونے سے روک دیا گیا اور اس کے لیے عبداللہ بن ام مکتوم کے واقعہ نے ایک نہایت مناسب موقع تقریب پیدا کر دی۔

جاوید احمد غامدی

تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا

n/a

ابو الاعلی مودودی

ترش رو ہوا اور بےرخی برتی

n/a

جونا گڑھی

وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔

n/a

أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ

امین احسن اصلاحی

کہ آیا اس کے پاس نابینا

عبداللہ بن ام مکتوم کے واقعہ کی نوعیت: ’عَبَسَ‘ کا فاعل یہاں مذکور نہیں ہے لیکن آگے کی آیات سے واضح ہو جائے گا کہ فاعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ’اَعْمٰی‘ سے یہاں اشارہ، تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ عبداللہ بن ام مکتومؓ کی طرف ہے۔ یہ ایک وفادار اور نابینا صحابی تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے لیڈروں میں سے کسی سے یا ان کی کسی جماعت سے باتیں کر رہے تھے۔ آپ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تھا اور وہ اپنے اعتراضات و شکوک پیش کر رہے ہوں گے کہ اسی اثناء میں عبداللہ بن ام مکتومؓ تشریف لائے اور موقع کی نزاکت کا اندازہ نہ کر سکنے کے باعث وہ بھی مجلس میں پہنچ گئے۔ ان کا یہ بے موقع آ جانا حضورؐ کو ناگوار گزرا۔ اس ناگواری کی وجہ العیاذ باللہ یہ تو نہیں ہو سکتی کہ وہ نادار یا نابینا تھے، ناداروں اور نابیناؤں کی قدر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون کر سکتا تھا، البتہ حضورؐ کو اندیشہ ہوا ہو گا کہ ان وحشیوں کو ذرا مانوس کرنے کا جو موقع میسر آیا ہے عبداللہ بن ام مکتومؓ کے آ جانے سے وہ ضائع ہو جائے گا۔ یہ بدک جائیں گے اور کہیں گے کہ جب تم نے اس طرح کے مفلسوں اور قلاشوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کیا ہے تو تمہاری مجلس میں بیٹھ کر کون اپنی عزت گنوائے گا۔

قریش کے لیڈروں کی نازک مزاجی: یہ امر واضح رہے کہ قریش کے فراعنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اعتراضات تھے ان میں ایک بڑا اہم اعتراض یہی تھا کہ آپ کے ساتھی قلاش اور مفلس لوگ ہیں۔ اس چیز کو وہ آپ کی نبوت کے خلاف ایک دلیل بنائے بیٹھے تھے۔ علاوہ ازیں آپ کے لیے یہ خیال بھی باعث تردد ہوا ہو گا کہ ممکن ہے یہ اپنی بڑائی کے نشہ میں آپ کے ایک محبوب صحابی کی کوئی توہین یا دل آزاری کر بیٹھیں جس سے مزید بدمزگی پیدا ہو۔
اسی واقعہ کو، جو بالکل اتفاق سے پیش آ گیا، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تعلیم دینے کا ذریعہ بنا لیا کہ آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز اپنے ان صحابہ کو بنائیں جوا پنی اصلاح و تربیت کے طالب اور شوق و ذوق سے آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں، ان لوگوں کے درپے زیادہ نہ ہوں جو بے نیاز ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ان کی نازبرداری کریں۔
مغروروں کو نظرانداز کرنے کی ہدایت: پچھلی سورتوں میں یہ بات جگہ جگہ واضح ہو چکی ہے کہ ابتدا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے لیڈروں کو دعوت دینے کا خاص اہتمام تھا۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ آپ کو اول اول، جیسا کہ آیت ’’وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ‘‘ (الشعراء ۲۶: ۲۱۴) سے واضح ہے، انہی کو خطاب کرنے کا حکم ہوا تھا۔ دوسری یہ کہ ان لوگوں کو پورے عرب کی سیادت و قیادت حاصل تھی۔ توقع تھی کہ اگر یہ دعوت قبول کر لیں گے تو پورے عرب میں دعوت کی کامیابی کی راہ کھل جائے گی۔ چنانچہ کچھ عرصے تک حضور نے اپنا سارا زور انھی پر صرف فرمایا اور ان کی طرف سے انتہائی رعونت اور توہین و دل آزاری کے اظہار کے باوجود آپ ان کو دعوت دینے میں لگے رہے لیکن جب ان کی رعونت بہت بڑھ گئی اور یہ واضح ہو گیا کہ یہ ہٹ دھرم نہ صرف یہ کہ کوئی اصلاح قبول کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے جو وقت ضائع ہو رہا ہے اس سے ان غریب مسلمانوں کی حق تلفی ہو رہی ہے جو ایمان لا چکے ہیں اور جو اپنی تعلیم و تربیت کے لیے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توجہ کے ان ناقدروں سے زیادہ مستحق ہیں تو آپ کو ان کے زیادہ درپے ہونے سے روک دیا گیا اور اس کے لیے عبداللہ بن ام مکتوم کے واقعہ نے ایک نہایت مناسب موقع تقریب پیدا کر دی۔

جاوید احمد غامدی

اِس پر کہ اُس کی مجلس میں وہ نابینا آ گیا

روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نابینا سے مراد یہاں ام المومنین سیدہ خدیجہ کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ام مکتوم ہیں۔ قریش کے سرداروں کے ساتھ آپ کی ایک مجلس میں یہ اچانک تشریف لے آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اِن کا آنا غالباً اِس لیے ناگوارہوا کہ مبادا قریش کے سردار اُنھیں دیکھ کربدک جائیں اور اِس طرح اپنی دعوت پہنچانے کا جو موقع آپ کو میسر ہوا ہے، وہ ضائع ہو جائے۔

سورہ کے لب و لہجے سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ نابینا سے بے رخی برتنے پر اِس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب فرمایا گیا ہے، لیکن پوری سورہ پر تدبر کیجیے تو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ عتاب کا رخ اصلاً فراعنۂ قریش کی طرف ہے۔شروع میں غائب کا اسلوب بھی اِسی لیے اختیار فرمایا ہے کہ براہ راست خطاب کی صورت میں تنبیہ تنبیہ نہ رہتی، فی الواقع عتاب بن جاتی،دراں حالیکہ معاملہ اِس سے زیادہ نہ تھا کہ خداکی خوشنودی کے لیے اپنی ذمہ داری کی حد سے آپ کچھ آگے بڑھ گئے تھے۔ اِس میں نفس کی کسی خواہش یا اخلاق کی کسی پستی کا، معاذ اللہ، کوئی شائبہ نہ تھا۔ چنانچہ آگے کی آیتوں سے واضح ہے کہ آپ کو یہاں جس بات پر توجہ دلائی گئی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ قریش کے سرداروں کے معاملے میں اُس سے زیادہ ذمہ داری آپ نے اپنے اوپر لے لی، جتنی خدا کی طرف سے آپ پر ڈالی گئی ہے۔ آپ نے اُن تک دعوت پہنچا دی،آپ کا فرض پورا ہو گیا۔ اِن ناقدروں کے پیچھے اب اپنے ساتھیوں کی حق تلفی آپ کو نہیں کرنی چاہیے۔ سدھرنے اور نصیحت پانے کے لیے جولوگ آپ کی مجلس میں آتے ہیں، وہی آپ کے التفات کے حق دار ہیں۔ یہ جو بے پروائی برت رہے ہیں، اِن کو اب اِن کے حال پر چھوڑیے۔ اِن کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔ امام حمید الدین فراہی نے اپنی تفسیر سورۂ عبس میں عتاب کے اِس رخ کو ایک تمثیل سے سمجھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اِس کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو، ایک نہایت مستعد اور فرض شناس چرواہا ہے۔ اُس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہو کر کھو جاتی ہے ۔ چرواہا اُس کی تلاش میں نکلتا ہے، ہر قدم پر اُس کی کھر کے نشانات ملتے جا رہے ہیں، جنگل کے کسی گوشے سے اُس کی آواز بھی آ رہی ہے۔ اِس طرح وہ کامیابی کی امیدمیں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصل گلے سے کچھ دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ جب وہ لوٹتا ہے تو آقا اُس کو ملامت کرتا ہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اُس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا، وہ اِسی کے لائق تھی۔ بتاؤ، اِس میں عتاب کس پر ہوا؟ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا رخ بظاہر تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضرور ہے، لیکن غصے کا سارا زور منکرین و مخالفین پر ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو اِس عتاب کے اندر نہایت دل نواز شفقتیں مضمر ہیں۔‘‘(نظام القرآن۲۸۰)

ابو الاعلی مودودی

اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا ۔

اس پہلے فقرے کا انداز بیان عجیب لطف اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگرچہ بعد کے فقروں میں براہ راست رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرمایا گیا ہے جس سے یہ بات خود ظاہر ہوجاتی ہے کہ ترش روئی اور بےرخی برتنے کا یہ فعل حضور ہی سے صادر ہوا تھا لیکن کلام کی ابتدا اس طرح کی گئی ہے کہ گویا حضور نہیں بلکہ کوئی اور شخص ہے جس سے اس فعل کا صدور ہوا ہے۔ اس طرز بیان سے ایک نہایت لطیف طریقے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو احساس دلایا گیا ہے کہ یہ ایسا کام تھا جو آپ کے کرنے کا نہ تھا۔ آپ کے اخلاق عالیہ کو جاننے والا اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ یہ آپ نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہے جو اس رویے کا مرتکب ہو رہا ہے۔

جن نابینا کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد، جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں، مشہور صحابی حضرت ابن ام مکتوم ہیں۔ حافظ ابن عبدالبر نے الاستیعاب میں اور حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں بیان کیا ہے کہ یہ ام المومنین حضرت خدیجہ کے پھوپھی زاد بھائی تھے، ان کی ماں ام مکتوب اور حضرت خدیجہ کے والد خویلد آپس میں بہن بھائی تھے۔ حضور کے ساتھ ان کا یہ رشتہ معلوم ہوجانے کے بعد اس شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ نے ان کو غریب یا کم حیثیت آدمی سمجھ کر ان سے بےرخی برتی اور بڑے آدمیوں کی طرف توجہ فرمائی تھی، کیونکہ یہ حضور کے اپنے برادر نسبتی تھے، خاندانی آدمی تھے، کوئی گرے پڑے آدمی نہ تھے۔ اصل وجہ جس کی بنا پر آپ نے ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا، لفظ اعمی (نابینا) سے معلوم ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضور کی بےاعتنائی کے سبب کی حیثیت سے خود بیان فرما دیا ہے۔ یعنی حضور کا یہ خیال تھا کہ میں اس وقت جن لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں ان میں سے کوئی ایک آدمی بھی ہدایت پا لے تو اسلام کو تقویت کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے، بخلاف اس کے ابن مکتوب ایک نابینا آدمی ہیں، اپنی معذوری کے باعث یہ اسلام کے لیے اس قدر مفید ثابت نہیں ہو سکتے جس قدر ان سرداروں میں سے کوئی مسلمان ہو کر مفید ہوسکتا ہے، اس لیے ان کو اس موقع پر گفتگو میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، یہ جو کچھ سمجھنا یا معلوم کرنا چاہتے ہیں اسے بعد میں کسی وقت بھی دریافت کرسکتے ہیں۔

جونا گڑھی

(صرفٖ اس لئے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا

 ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اشراف قریش بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ابن ام مکثوم جو نابینا تھے، تشریف لے آئے اور آ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین کی باتیں پوچھنے لگے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر کچھ ناگواری محسوس کی اور کچھ بےتوجہی سی برتی۔ چنانچہ تنبیہ کے طور پر ان آیات کا نزول ہوا (ترندی، تفسیر سورة عبس) 

وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ

امین احسن اصلاحی

اور تمہیں کیا معلوم شاید وہ اپنی اصلاح کرتا

آنحضرت صلعم کو تنبیہ کی نوعیت: اوپر کی آیات سے صرف ایک واقعہ کی خبر سامنے آئی ہے، نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کس کا ہے اور نہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے ذکر سے مقصود کیا ہے لیکن یہاں ’یُدْرِیْکَ‘ کے خطاب سے یہ بات نکلتی ہے کہ واقعہ کا تعلق حضورؐ سے ہے اور آپ کو اس بات پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں بعض اوقات اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ گلے کی بھیڑوں کی دیکھ بھال میں کوتاہی ہو جاتی ہے۔

پہلے ٹکڑے میں خطاب کے نہ ہونے سے قاری کے ذہن میں یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ معلوم کرے کہ کس کا واقعہ بیان ہو رہا ہے لیکن چونکہ مخاطب واضح نہیں ہے اس وجہ سے اس کو اپنی ذات سے متعلق کوئی پریشانی پیدا ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ چنانچہ حضورؐ کے اندر بھی واقعہ سے متعلق سوال تو فوراً پیدا ہوا ہو گا لیکن خطاب چونکہ براہ راست نہیں تھا اس وجہ سے کچھ زیادہ پریشانی نہیں ہوئی ہو گی۔ برعکس اس کے اگر خطاب معین ہوتا تو یہ عتاب بہت سخت ہو جاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں یہ بات متعین ہو جاتی کہ آپ پر عتاب ہوا اور وجہ عتاب یہ ہے کہ آپ نے ایک نابینا کے آنے پر ترش رویہ اختیار فرمایا درآنحالیکہ واقعہ، جیسا کہ اوپر واضح ہوا اور آگے آ رہا ہے، یہ نہیں ہے۔
حضرات انبیاؑء کی لغزش کی نوعیت: آیات زیربحث میں خطاب اس لیے واضح فرمایا ہے کہ یہاں وہ بات بھی بیان فرما دی گئی ہے جس پرعتاب ہوا ہے۔ یہ بات کسی فرض میں کوتاہی کی نوعیت کی نہیں بلکہ ادائے فرض میں حد مطلوب سے تجاوز کی نوعیت کی ہے۔ ہم یہ حقیقت جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے کوئی لغزش صادر ہوتی ہے تو وہ نفس کی خواہشوں کی پاسداری کی نوعیت کی نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی وہ اپنے رب کی رضاطلبی کے جوش میں اس حد سے آگے نکل جایا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہوتی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شریعت دینے کے لیے طور پر بلایا تو اس کے لیے ایک خاص تاریخ بھی مقرر فرما دی لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام فرط شوق میں مقررہ تاریخ کا انتظار نہ کر سکے بلکہ اس سے پہلے ہی طور پر پہنچ گئے۔ ان کی اس عجلت پر گرفت ہوئی تو انھوں نے یہ معذرت پیش کی کہ اے رب، میں تیری رضا طلبی کے شوق میں جلدی چلا آیا ہوں۔ اس طرح کی لغزش ظاہر ہے کہ نہایت اعلیٰ جذبہ سے ہوتی ہے، لیکن حضرات انبیاء علیہم السلام حق و عدل کی کامل میزان ہوتے ہیں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی اس طرح کی لغزشوں پر بھی گرفت فرماتا ہے تاکہ میزان ہر پہلو سے درست رہے۔
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس لغزش پر گرفت فرمائی گئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے۔ سادات قریش کے ایمان لانے سے چونکہ آپؐ پورے عرب کے لیے دعوت کی راہ کھلنے کی توقع رکھتے تھے اس وجہ سے اس کام میں آپ کا انہماک اس قدر بڑھ گیا کہ نہ آپ کو اپنے ذاتی آرام کی کوئی فکر رہی، نہ اس امر کا کوئی خیال رہا کہ یہ لوگ آپ کی ذات اور آپ کی دعوت کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس انہماک سے یہ اندیشہ بھی پیدا ہو گیا کہ جو غریب مسلمان ایمان لا چکے ہیں ان کی تربیت کی جو ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اس کو ادا کرنے کے لیے بھی آپ مشکل ہی سے کچھ وقت نکال سکیں گے۔ اس صورت حال پر قرآن نے جگہ جگہ آپ کو نہایت محبت آمیز انداز میں ٹوکا اور آگاہ فرمایا ہے کہ آپ نے قریش کے معاملے میں اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ نے آپ پرڈالی ہے۔ آپ ان کے پیچھے اتنے ہلکان نہ ہوں۔ آپ پر اللہ کی بات پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی وہ آپ نے پہنچا دی، اب مزید ان کی نازبرداری کی ضرورت نہیں ہے۔ انہی حالات کے اندر عبداللہ بن ام مکتومؓ کا یہ واقعہ پیش آیا جس نے گویا اس بات میں ایک بالکل فیصلہ کن سورہ نازل کر دی۔ اس تمہید کی روشنی میں آیات زیربحث اور آگے کی آیات پر غور کیجیے۔
’وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ‘۔ یعنی تم پر اس نابینا کا آنا اس اندیشہ سے گراں گزرا کہ شاید اس کے آ جانے سے ان سادات کے پندار کو چوٹ لگے اور وہ بدک جائیں حالانکہ ہو سکتا ہے کہ تم ان کی نازبرداری میں ایک سچے طالب کو نظر انداز کر دو لیکن یہ پھر بھی نہ سنیں تو ایسے ناقدروں کے پیچھے اپنے ایک سزاوار تربیت ساتھی کی حق تلفی کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔
رسول کے توجہ کے اصلی مستحق: اس سے معلوم ہوا کہ رسول کا اصل مقصد لوگوں کا تزکیہ ہے۔ جو لوگ اس کے پاس تزکیہ کے طالب بن کر آئیں اس کی توجہ و دلداری کے اصل حق دار وہی ہیں۔ دوسرے لوگ، خواہ بظاہر کتنی ہی اہمیت رکھنے والے ہوں، ان میں اگر اصلاح و تربیت کی طلب نہیں ہے تو رسول کے مقصد کے اعتبار سے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
سچے طالب کی دو صفتیں: یہاں ایک سچے طالب کی دو صفتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ طالب تزکیہ ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ وہ یاددہانی سے فائدہ اٹھانے والا ہوتا ہے۔
یہ درحقیقت تربیت گاہ نبوی کے سچے شرکاء کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ ان میں بالعموم دو طرح کے لوگ ہوتے۔ ایک وہ جن کے سامنے اپنی اصلاح و تربیت سے متعلق کوئی سوال ہوتا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آتے، دوسرے وہ جن کے سامنے اگرچہ کوئی خاص سوال تو نہ ہوتا لیکن وہ مجلس میں حاضر ہوتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطور خود یا کسی سائل کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمائیں اس سے بہرہ مند ہوں۔ یہاں ’لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ‘ سے پہلی قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور ’یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی‘ کے الفاظ سے دوسری قسم کے لوگوں کی طرف۔ یہ دونوں ہی راہیں طلب علم کی ہیں اور مقصود ان دونوں کا حوالہ دینے سے یہ ہے کہ جس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آنا ہو وہ انہی میں سے کسی ایک مقصد کو سامنے رکھ کر آئے اور وہی پیغمبرؐ کے التفات کے حق دار ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اپنی نازبرداری کے خواہاں ہیں ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور اپنے انجام کا انتظار کریں۔

جاوید احمد غامدی

تمھیں کیا معلوم، (اے پیغمبر) کہ شاید وہ (پوچھتا اور) سدھرتا

n/a

ابو الاعلی مودودی

تمہیں کیا خبر، شاید وہ سدھر جائے

n/a

جونا گڑھی

تجھے کیا خبر شاید وہ سنور جاتا

 یعنی وہ نابینا تجھ سے دینی رہنمائی حاصل کر کے عمل صالح کرتا، جس سے اس کا اخلاق و کردار سنور جاتا، اس کے باطن کی اصلاح ہوجاتی اور تیری نصیحت سننے سے اس کو فائدہ ہوتا۔ 

أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرَىٰ

امین احسن اصلاحی

یا نصیحت سنتا تو نصیحت اس کو نفع پہنچاتی

آنحضرت صلعم کو تنبیہ کی نوعیت: اوپر کی آیات سے صرف ایک واقعہ کی خبر سامنے آئی ہے، نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کس کا ہے اور نہ یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے ذکر سے مقصود کیا ہے لیکن یہاں ’یُدْرِیْکَ‘ کے خطاب سے یہ بات نکلتی ہے کہ واقعہ کا تعلق حضورؐ سے ہے اور آپ کو اس بات پر متنبہ فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں بعض اوقات اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ گلے کی بھیڑوں کی دیکھ بھال میں کوتاہی ہو جاتی ہے۔

پہلے ٹکڑے میں خطاب کے نہ ہونے سے قاری کے ذہن میں یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ معلوم کرے کہ کس کا واقعہ بیان ہو رہا ہے لیکن چونکہ مخاطب واضح نہیں ہے اس وجہ سے اس کو اپنی ذات سے متعلق کوئی پریشانی پیدا ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ چنانچہ حضورؐ کے اندر بھی واقعہ سے متعلق سوال تو فوراً پیدا ہوا ہو گا لیکن خطاب چونکہ براہ راست نہیں تھا اس وجہ سے کچھ زیادہ پریشانی نہیں ہوئی ہو گی۔ برعکس اس کے اگر خطاب معین ہوتا تو یہ عتاب بہت سخت ہو جاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں یہ بات متعین ہو جاتی کہ آپ پر عتاب ہوا اور وجہ عتاب یہ ہے کہ آپ نے ایک نابینا کے آنے پر ترش رویہ اختیار فرمایا درآنحالیکہ واقعہ، جیسا کہ اوپر واضح ہوا اور آگے آ رہا ہے، یہ نہیں ہے۔
حضرات انبیاؑء کی لغزش کی نوعیت: آیات زیربحث میں خطاب اس لیے واضح فرمایا ہے کہ یہاں وہ بات بھی بیان فرما دی گئی ہے جس پرعتاب ہوا ہے۔ یہ بات کسی فرض میں کوتاہی کی نوعیت کی نہیں بلکہ ادائے فرض میں حد مطلوب سے تجاوز کی نوعیت کی ہے۔ ہم یہ حقیقت جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے کوئی لغزش صادر ہوتی ہے تو وہ نفس کی خواہشوں کی پاسداری کی نوعیت کی نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی وہ اپنے رب کی رضاطلبی کے جوش میں اس حد سے آگے نکل جایا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہوتی ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شریعت دینے کے لیے طور پر بلایا تو اس کے لیے ایک خاص تاریخ بھی مقرر فرما دی لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام فرط شوق میں مقررہ تاریخ کا انتظار نہ کر سکے بلکہ اس سے پہلے ہی طور پر پہنچ گئے۔ ان کی اس عجلت پر گرفت ہوئی تو انھوں نے یہ معذرت پیش کی کہ اے رب، میں تیری رضا طلبی کے شوق میں جلدی چلا آیا ہوں۔ اس طرح کی لغزش ظاہر ہے کہ نہایت اعلیٰ جذبہ سے ہوتی ہے، لیکن حضرات انبیاء علیہم السلام حق و عدل کی کامل میزان ہوتے ہیں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی اس طرح کی لغزشوں پر بھی گرفت فرماتا ہے تاکہ میزان ہر پہلو سے درست رہے۔
یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جس لغزش پر گرفت فرمائی گئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے۔ سادات قریش کے ایمان لانے سے چونکہ آپؐ پورے عرب کے لیے دعوت کی راہ کھلنے کی توقع رکھتے تھے اس وجہ سے اس کام میں آپ کا انہماک اس قدر بڑھ گیا کہ نہ آپ کو اپنے ذاتی آرام کی کوئی فکر رہی، نہ اس امر کا کوئی خیال رہا کہ یہ لوگ آپ کی ذات اور آپ کی دعوت کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس انہماک سے یہ اندیشہ بھی پیدا ہو گیا کہ جو غریب مسلمان ایمان لا چکے ہیں ان کی تربیت کی جو ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اس کو ادا کرنے کے لیے بھی آپ مشکل ہی سے کچھ وقت نکال سکیں گے۔ اس صورت حال پر قرآن نے جگہ جگہ آپ کو نہایت محبت آمیز انداز میں ٹوکا اور آگاہ فرمایا ہے کہ آپ نے قریش کے معاملے میں اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ نے آپ پرڈالی ہے۔ آپ ان کے پیچھے اتنے ہلکان نہ ہوں۔ آپ پر اللہ کی بات پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی وہ آپ نے پہنچا دی، اب مزید ان کی نازبرداری کی ضرورت نہیں ہے۔ انہی حالات کے اندر عبداللہ بن ام مکتومؓ کا یہ واقعہ پیش آیا جس نے گویا اس بات میں ایک بالکل فیصلہ کن سورہ نازل کر دی۔ اس تمہید کی روشنی میں آیات زیربحث اور آگے کی آیات پر غور کیجیے۔
’وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ‘۔ یعنی تم پر اس نابینا کا آنا اس اندیشہ سے گراں گزرا کہ شاید اس کے آ جانے سے ان سادات کے پندار کو چوٹ لگے اور وہ بدک جائیں حالانکہ ہو سکتا ہے کہ تم ان کی نازبرداری میں ایک سچے طالب کو نظر انداز کر دو لیکن یہ پھر بھی نہ سنیں تو ایسے ناقدروں کے پیچھے اپنے ایک سزاوار تربیت ساتھی کی حق تلفی کس طرح جائز ہو سکتی ہے۔
رسول کے توجہ کے اصلی مستحق: اس سے معلوم ہوا کہ رسول کا اصل مقصد لوگوں کا تزکیہ ہے۔ جو لوگ اس کے پاس تزکیہ کے طالب بن کر آئیں اس کی توجہ و دلداری کے اصل حق دار وہی ہیں۔ دوسرے لوگ، خواہ بظاہر کتنی ہی اہمیت رکھنے والے ہوں، ان میں اگر اصلاح و تربیت کی طلب نہیں ہے تو رسول کے مقصد کے اعتبار سے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
سچے طالب کی دو صفتیں: یہاں ایک سچے طالب کی دو صفتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ طالب تزکیہ ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ وہ یاددہانی سے فائدہ اٹھانے والا ہوتا ہے۔
یہ درحقیقت تربیت گاہ نبوی کے سچے شرکاء کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ ان میں بالعموم دو طرح کے لوگ ہوتے۔ ایک وہ جن کے سامنے اپنی اصلاح و تربیت سے متعلق کوئی سوال ہوتا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنے کے لیے آتے، دوسرے وہ جن کے سامنے اگرچہ کوئی خاص سوال تو نہ ہوتا لیکن وہ مجلس میں حاضر ہوتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بطور خود یا کسی سائل کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمائیں اس سے بہرہ مند ہوں۔ یہاں ’لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ‘ سے پہلی قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور ’یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی‘ کے الفاظ سے دوسری قسم کے لوگوں کی طرف۔ یہ دونوں ہی راہیں طلب علم کی ہیں اور مقصود ان دونوں کا حوالہ دینے سے یہ ہے کہ جس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آنا ہو وہ انہی میں سے کسی ایک مقصد کو سامنے رکھ کر آئے اور وہی پیغمبرؐ کے التفات کے حق دار ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اپنی نازبرداری کے خواہاں ہیں ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور اپنے انجام کا انتظار کریں۔

جاوید احمد غامدی

یا (تم سناتے)، وہ نصیحت سنتا اور یہ نصیحت اُس کے کام آتی

n/a

ابو الاعلی مودودی

یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو ؟

n/a

جونا گڑھی

یا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائدہ پہنچاتی۔

n/a

أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ

امین احسن اصلاحی

جو بے پروائی برتتا ہے

اصل تنبیہ: یہ وہ اصل تنبیہ ہے جو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمائی گئی کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو اپنی اصلاح کے طالب بن کر آئیں اور ان کے اندر خدا کے حضور پیشی کا خوف ہو وہ آپ کی توجہ کے اصل مستحق قرار پائیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جو بے پروا و بے نیاز ہیں آپ ان کو دعوت دینے کے لیے تو اپنے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں حالانکہ وہ اگر اپنی اصلاح نہیں چاہتے تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔ آپ پر اصل ذمہ داری ان لوگوں کی ہے جو ذوق و شوق سے آپ کے پاس آتے ہیں لیکن آپ ان سے غفلت برتتے ہیں۔

چند باتوں کی وضاحت:

ایک یہ کہ ان میں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عتاب ہے اس کا اصل رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ قریش کے ان نااہل لیڈروں کی طرف ہے جن سے کسی خیر کی امید باقی نہیں رہی تھی۔ اس وجہ سے ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ان سے صرف نظر کر کے اپنی ساری توجہ کا مرکز ان غریبوں کو بنائیں جو اسلام لا چکے تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت کے اصل حق دار تھے۔
دوسری یہ کہ حضورؐ کو کسی فرض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا گیا ہے بلکہ اس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ آپ نے اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے۔ گویا یہ اسی طرح کا پرمحبت و جاں نواز عتاب ہے جو

’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۳)
(معلوم ہوتا ہے تم اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کر کے رہو گے کہ وہ مومن نہیں بن رہے ہیں۔)

اور اس مضمون کی دوسری آیات میں گزر چکا ہے۔
تیسری یہ کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اسلام کی اصل دولت وہ غریب ہیں جن کے اندر خدا کی خشیت ہے نہ کہ وہ امیر جن کے سینے خدا کی خشیت سے خالی ہیں۔ اس وجہ سے آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز انہی کو بنائیں جو اہل ہیں۔ ان کے پیچھے اپنا وقت نہ ضائع کریں جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔
اس عتاب کی ایک حقیقت افروز تمثیل: استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۂ عبس میں اس عتاب کے رخ کو ایک تمثیل سے سمجھایا ہے جو نہایت حقیقت افروز ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’اس کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور فرض شناس چرواہا ہے۔ اس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہو کر کھو جاتی ہے۔ چرواہا اس کی تلاش میں نکلتا ہے ہر قدم پر اس کی کُھر کے نشانات ملتے جا رہے ہیں۔ جنگل کے کسی گوشے سے اس کی آواز بھی آ رہی ہے۔ اس طرح وہ کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصل گلے سے کچھ دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ جب وہ واپس لوٹتا ہے تو آقا اس کو ملامت کرتا ہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا، وہ اسی کے لائق تھی۔ بتاؤ، اس میں عتاب کس پر ہوا؟ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا رخ بظاہر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضرور ہے لیکن غصہ کا سارا زور منکرین و مخالفین پر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو اس عتاب کے اندر نہایت دل نواز شفقتیں مضمر ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

یہ جو بے پروائی برتتے ہیں

n/a

ابو الاعلی مودودی

جو شخص بےپروائی برتتا ہے

n/a

جونا گڑھی

جو بےپروائی کرتا ہے

 ایمان سے اور اس علم سے جو تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ یا دوسرا ترجمہ جو صاحب ثروت و غنا ہے۔ 

فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّىٰ

امین احسن اصلاحی

اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو

’تَصَدّٰی‘ دراصل ’تَتَصَدَّدُ‘ ہے جو ’صَدد‘ کے مادہ سے ہے جس کے معنی متوازی اور مقابل کے ہیں۔ اس میں جو تغیر ہوا ہے وہ عربیت کے قاعدے کے مطابق ہوا ہے جس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو بے نیازی برتتے ہیں ان سے تو آپ معترض ہوتے اور ان کو پرچانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ بوجھ اللہ تعالیٰ نے آپ پر نہیں ڈالا ہے۔

چند باتوں کی وضاحت:

ایک یہ کہ ان میں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عتاب ہے اس کا اصل رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ قریش کے ان نااہل لیڈروں کی طرف ہے جن سے کسی خیر کی امید باقی نہیں رہی تھی۔ اس وجہ سے ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ان سے صرف نظر کر کے اپنی ساری توجہ کا مرکز ان غریبوں کو بنائیں جو اسلام لا چکے تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت کے اصل حق دار تھے۔
دوسری یہ کہ حضورؐ کو کسی فرض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا گیا ہے بلکہ اس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ آپ نے اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے۔ گویا یہ اسی طرح کا پرمحبت و جاں نواز عتاب ہے جو

’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۳)
(معلوم ہوتا ہے تم اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کر کے رہو گے کہ وہ مومن نہیں بن رہے ہیں۔)

اور اس مضمون کی دوسری آیات میں گزر چکا ہے۔
تیسری یہ کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اسلام کی اصل دولت وہ غریب ہیں جن کے اندر خدا کی خشیت ہے نہ کہ وہ امیر جن کے سینے خدا کی خشیت سے خالی ہیں۔ اس وجہ سے آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز انہی کو بنائیں جو اہل ہیں۔ ان کے پیچھے اپنا وقت نہ ضائع کریں جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔
اس عتاب کی ایک حقیقت افروز تمثیل: استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۂ عبس میں اس عتاب کے رخ کو ایک تمثیل سے سمجھایا ہے جو نہایت حقیقت افروز ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’اس کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور فرض شناس چرواہا ہے۔ اس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہو کر کھو جاتی ہے۔ چرواہا اس کی تلاش میں نکلتا ہے ہر قدم پر اس کی کُھر کے نشانات ملتے جا رہے ہیں۔ جنگل کے کسی گوشے سے اس کی آواز بھی آ رہی ہے۔ اس طرح وہ کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصل گلے سے کچھ دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ جب وہ واپس لوٹتا ہے تو آقا اس کو ملامت کرتا ہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا، وہ اسی کے لائق تھی۔ بتاؤ، اس میں عتاب کس پر ہوا؟ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا رخ بظاہر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضرور ہے لیکن غصہ کا سارا زور منکرین و مخالفین پر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو اس عتاب کے اندر نہایت دل نواز شفقتیں مضمر ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

اِن کے تو تم پیچھے پڑتے ہو

اصل میں لفظ ’تَصَدّٰی‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ درحقیقت ’تَتَصَدَّدْ‘ ہے جس میں ایک ’ت‘ عربیت کے قاعدے سے حذف ہو گئی ہے اور ایک ’د‘ ’ی‘ میں بدل گئی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو،

n/a

جونا گڑھی

اس کی طرف تو پوری توجہ کرتا۔

n/a

وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ

امین احسن اصلاحی

حالانکہ تم پر کوئی ذمہ داری نہیں اگر وہ اپنی اصلاح نہ کرے

’وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی‘۔ یعنی آپ پر اصل ذمہ داری انذار و بلاغ کی تھی، وہ کر چکنے کے بعد آپ ان سے بری الذمہ ہوئے۔ یہ ذمہ داری آپ پر نہیں ہے کہ آپ انھیں لازماً مومن و مسلم بھی بنا دیں۔ یہ مضمون پیچھے کی سورتوں میں مختلف اسلوبوں سے گزر چکا ہے اور ہر جگہ اس کا مقصود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری سے زیادہ بوجھ اپنے اوپر نہ اٹھائیں اور اپنے کو غیرضروری مشقت میں نہ ڈالیں۔ اگر یہ محروم القسمت لوگ اپنی اصلاح نہیں چاہتے تو ان کو ان کی تقدیر کے حوالہ کریں۔

چند باتوں کی وضاحت:

ایک یہ کہ ان میں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عتاب ہے اس کا اصل رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ قریش کے ان نااہل لیڈروں کی طرف ہے جن سے کسی خیر کی امید باقی نہیں رہی تھی۔ اس وجہ سے ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ان سے صرف نظر کر کے اپنی ساری توجہ کا مرکز ان غریبوں کو بنائیں جو اسلام لا چکے تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت کے اصل حق دار تھے۔
دوسری یہ کہ حضورؐ کو کسی فرض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا گیا ہے بلکہ اس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ آپ نے اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے۔ گویا یہ اسی طرح کا پرمحبت و جاں نواز عتاب ہے جو

’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۳)
(معلوم ہوتا ہے تم اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کر کے رہو گے کہ وہ مومن نہیں بن رہے ہیں۔)

اور اس مضمون کی دوسری آیات میں گزر چکا ہے۔
تیسری یہ کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اسلام کی اصل دولت وہ غریب ہیں جن کے اندر خدا کی خشیت ہے نہ کہ وہ امیر جن کے سینے خدا کی خشیت سے خالی ہیں۔ اس وجہ سے آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز انہی کو بنائیں جو اہل ہیں۔ ان کے پیچھے اپنا وقت نہ ضائع کریں جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔
اس عتاب کی ایک حقیقت افروز تمثیل: استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۂ عبس میں اس عتاب کے رخ کو ایک تمثیل سے سمجھایا ہے جو نہایت حقیقت افروز ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’اس کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور فرض شناس چرواہا ہے۔ اس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہو کر کھو جاتی ہے۔ چرواہا اس کی تلاش میں نکلتا ہے ہر قدم پر اس کی کُھر کے نشانات ملتے جا رہے ہیں۔ جنگل کے کسی گوشے سے اس کی آواز بھی آ رہی ہے۔ اس طرح وہ کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصل گلے سے کچھ دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ جب وہ واپس لوٹتا ہے تو آقا اس کو ملامت کرتا ہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا، وہ اسی کے لائق تھی۔ بتاؤ، اس میں عتاب کس پر ہوا؟ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا رخ بظاہر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضرور ہے لیکن غصہ کا سارا زور منکرین و مخالفین پر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو اس عتاب کے اندر نہایت دل نواز شفقتیں مضمر ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

دراں حالیکہ یہ اگر نہ سدھریں تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے ؟

n/a

جونا گڑھی

حالانکہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر کوئی الزام نہیں۔

n/a

وَأَمَّا مَنْ جَاءَكَ يَسْعَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور جو تمہارے پاس شوق سے آتا ہے

’جَآءَ کَ یَسْعٰی‘۔ ’سَعْیٌ‘ کا اصل مفہوم کسی کام کو ذوق و شوق اور سرگرمی و مستعدی سے کرنا ہے۔ دوڑنا اس کے لیے لازم نہیں ہے۔ ’فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ‘ کے معنی ہوں گے پس اللہ کے ذکر کی طرف سرگرمی اور مستعدی سے لپکو۔ آیت میں یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے یعنی جو لوگ آپ کے پاس نہایت ذوق و شوق سے اس طرح آتے ہیں جس طرح تشنہ چشمہ کی طرف بڑھتا ہے۔

چند باتوں کی وضاحت:

ایک یہ کہ ان میں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عتاب ہے اس کا اصل رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ قریش کے ان نااہل لیڈروں کی طرف ہے جن سے کسی خیر کی امید باقی نہیں رہی تھی۔ اس وجہ سے ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ان سے صرف نظر کر کے اپنی ساری توجہ کا مرکز ان غریبوں کو بنائیں جو اسلام لا چکے تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت کے اصل حق دار تھے۔
دوسری یہ کہ حضورؐ کو کسی فرض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا گیا ہے بلکہ اس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ آپ نے اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے۔ گویا یہ اسی طرح کا پرمحبت و جاں نواز عتاب ہے جو

’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۳)
(معلوم ہوتا ہے تم اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کر کے رہو گے کہ وہ مومن نہیں بن رہے ہیں۔)

اور اس مضمون کی دوسری آیات میں گزر چکا ہے۔
تیسری یہ کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اسلام کی اصل دولت وہ غریب ہیں جن کے اندر خدا کی خشیت ہے نہ کہ وہ امیر جن کے سینے خدا کی خشیت سے خالی ہیں۔ اس وجہ سے آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز انہی کو بنائیں جو اہل ہیں۔ ان کے پیچھے اپنا وقت نہ ضائع کریں جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔
اس عتاب کی ایک حقیقت افروز تمثیل: استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۂ عبس میں اس عتاب کے رخ کو ایک تمثیل سے سمجھایا ہے جو نہایت حقیقت افروز ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’اس کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور فرض شناس چرواہا ہے۔ اس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہو کر کھو جاتی ہے۔ چرواہا اس کی تلاش میں نکلتا ہے ہر قدم پر اس کی کُھر کے نشانات ملتے جا رہے ہیں۔ جنگل کے کسی گوشے سے اس کی آواز بھی آ رہی ہے۔ اس طرح وہ کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصل گلے سے کچھ دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ جب وہ واپس لوٹتا ہے تو آقا اس کو ملامت کرتا ہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا، وہ اسی کے لائق تھی۔ بتاؤ، اس میں عتاب کس پر ہوا؟ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا رخ بظاہر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضرور ہے لیکن غصہ کا سارا زور منکرین و مخالفین پر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو اس عتاب کے اندر نہایت دل نواز شفقتیں مضمر ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

اور جو شوق سے تمھارے پاس آتا ہے

آیت میں ’یَسْعٰی‘ کا لفظ ہے۔ اِس کے اصل معنی کسی کام کو ذوق و شوق اور سرگرمی کے ساتھ کرنے کے ہیں۔ اِس کے لیے دوڑنا لازم نہیں ہے، یہ بعض اوقات اِس کے مفہوم میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہاں واضح ہے کہ یہ اپنے اصل معنی میں آیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے

n/a

جونا گڑھی

جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے

 اس بات کا طالب بن کر آتا ہے کہ تو خیر کی طرف اس کی رہنمائی کرے اور اسے واعظ نصیحت سے نوازے۔ 

وَهُوَ يَخْشَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور وہ خدا سے ڈرتا بھی ہے

’وَھُوَ یَخْشٰی‘۔ یہ مقابل میں ہے ’اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی‘ کے۔ یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جو اس دنیا کی مطلوبات و مرغوبات میں اس طرح کھوئے ہوئے ہیں کہ انھیں کبھی یہ فکر ستاتی ہی نہیں کہ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہے اور اس کے لیے بھی کوئی تیاری ضروری ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو اپنے اندر آخرت کی پیشی کا خوف رکھتے ہیں۔ اسی گروہ سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ وہ آپ کی باتیں سنے اور ان کو حرز جاں بنائے نہ کہ پہلے گروہ سے، لیکن آپ کا حال یہ ہے کہ آپ پتھروں میں جونک لگانے کے لیے تو رات دن سرگرم ہیں لیکن جن کے اندر اثرپذیری کی صلاحیت ہے ان کی طرف پوری توجہ کرنے کی فرصت آپ کو نہیں ملتی۔

چند باتوں کی وضاحت:

ایک یہ کہ ان میں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عتاب ہے اس کا اصل رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ قریش کے ان نااہل لیڈروں کی طرف ہے جن سے کسی خیر کی امید باقی نہیں رہی تھی۔ اس وجہ سے ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ان سے صرف نظر کر کے اپنی ساری توجہ کا مرکز ان غریبوں کو بنائیں جو اسلام لا چکے تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت کے اصل حق دار تھے۔
دوسری یہ کہ حضورؐ کو کسی فرض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا گیا ہے بلکہ اس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ آپ نے اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے۔ گویا یہ اسی طرح کا پرمحبت و جاں نواز عتاب ہے جو

’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۳)
(معلوم ہوتا ہے تم اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کر کے رہو گے کہ وہ مومن نہیں بن رہے ہیں۔)

اور اس مضمون کی دوسری آیات میں گزر چکا ہے۔
تیسری یہ کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اسلام کی اصل دولت وہ غریب ہیں جن کے اندر خدا کی خشیت ہے نہ کہ وہ امیر جن کے سینے خدا کی خشیت سے خالی ہیں۔ اس وجہ سے آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز انہی کو بنائیں جو اہل ہیں۔ ان کے پیچھے اپنا وقت نہ ضائع کریں جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔
اس عتاب کی ایک حقیقت افروز تمثیل: استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۂ عبس میں اس عتاب کے رخ کو ایک تمثیل سے سمجھایا ہے جو نہایت حقیقت افروز ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’اس کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور فرض شناس چرواہا ہے۔ اس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہو کر کھو جاتی ہے۔ چرواہا اس کی تلاش میں نکلتا ہے ہر قدم پر اس کی کُھر کے نشانات ملتے جا رہے ہیں۔ جنگل کے کسی گوشے سے اس کی آواز بھی آ رہی ہے۔ اس طرح وہ کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصل گلے سے کچھ دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ جب وہ واپس لوٹتا ہے تو آقا اس کو ملامت کرتا ہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا، وہ اسی کے لائق تھی۔ بتاؤ، اس میں عتاب کس پر ہوا؟ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا رخ بظاہر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضرور ہے لیکن غصہ کا سارا زور منکرین و مخالفین پر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو اس عتاب کے اندر نہایت دل نواز شفقتیں مضمر ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

اور (خدا سے) ڈرتا بھی ہے

اصل الفاظ ہیں: ’وَھُوَ یَخْشٰی‘۔ یہ ’اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی‘ کے مقابل میں ہیں۔ یعنی ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بے پروائی برتتے ہیں اور دوسری طرف خدا کا یہ بندہ ہے جو سراپا خشیت ہو کر تمھارے پاس آتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے ،

n/a

جونا گڑھی

اور وہ ڈر (بھی) رہا ہے

 خدا کا خوف بھی اس کے دل میں ہے۔ 

فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ

امین احسن اصلاحی

تو تم اس سے بے پروائی برتتے ہو

یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جو اس دنیا کی مطلوبات و مرغوبات میں اس طرح کھوئے ہوئے ہیں کہ انھیں کبھی یہ فکر ستاتی ہی نہیں کہ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہے اوراس کے لیے بھی کوئی تیاری ضروری ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو اپنے اندر آخرت کی پیشی کا خوف رکھتے ہیں۔ اسی گروہ سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ وہ آپ کی باتیں سنے اور ان کو حرز جاں بنائے نہ کہ پہلے گروہ سے، لیکن آپ کا حال یہ ہے کہ آپ پتھروں میں جونک لگانے کے لیے تو رات دن سرگرم ہیں لیکن جن کے اندر اثرپذیری کی صلاحیت ہے ان کی طرف پوری توجہ کرنے کی فرصت آپ کو نہیں ملتی۔

چند باتوں کی وضاحت:

ایک یہ کہ ان میں بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عتاب ہے اس کا اصل رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ قریش کے ان نااہل لیڈروں کی طرف ہے جن سے کسی خیر کی امید باقی نہیں رہی تھی۔ اس وجہ سے ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ان سے صرف نظر کر کے اپنی ساری توجہ کا مرکز ان غریبوں کو بنائیں جو اسلام لا چکے تھے اور آپ کی تعلیم و تربیت کے اصل حق دار تھے۔
دوسری یہ کہ حضورؐ کو کسی فرض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا گیا ہے بلکہ اس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ آپ نے اس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے۔ گویا یہ اسی طرح کا پرمحبت و جاں نواز عتاب ہے جو

’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۳)
(معلوم ہوتا ہے تم اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کر کے رہو گے کہ وہ مومن نہیں بن رہے ہیں۔)

اور اس مضمون کی دوسری آیات میں گزر چکا ہے۔
تیسری یہ کہ ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اسلام کی اصل دولت وہ غریب ہیں جن کے اندر خدا کی خشیت ہے نہ کہ وہ امیر جن کے سینے خدا کی خشیت سے خالی ہیں۔ اس وجہ سے آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز انہی کو بنائیں جو اہل ہیں۔ ان کے پیچھے اپنا وقت نہ ضائع کریں جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔
اس عتاب کی ایک حقیقت افروز تمثیل: استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر سورۂ عبس میں اس عتاب کے رخ کو ایک تمثیل سے سمجھایا ہے جو نہایت حقیقت افروز ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’اس کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور فرض شناس چرواہا ہے۔ اس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہو کر کھو جاتی ہے۔ چرواہا اس کی تلاش میں نکلتا ہے ہر قدم پر اس کی کُھر کے نشانات ملتے جا رہے ہیں۔ جنگل کے کسی گوشے سے اس کی آواز بھی آ رہی ہے۔ اس طرح وہ کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصل گلے سے کچھ دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ جب وہ واپس لوٹتا ہے تو آقا اس کو ملامت کرتا ہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا، وہ اسی کے لائق تھی۔ بتاؤ، اس میں عتاب کس پر ہوا؟ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا رخ بظاہر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ضرور ہے لیکن غصہ کا سارا زور منکرین و مخالفین پر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو اس عتاب کے اندر نہایت دل نواز شفقتیں مضمر ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

تو اُس سے تم بے پروائی برتتے ہو

سورہ کے جن مطالب پر اِس پیرے کی آیتوں سے روشنی پڑتی ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ایک یہ کہ اِن میں بظاہر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو عتاب ہے، اُس کا اصل رخ آپ کی طرف نہیں، بلکہ قریش کے اُن نااہل لیڈروں کی طرف ہے جن سے کسی خیر کی امید باقی نہیں رہی تھی۔ اِس وجہ سے ضروری ہو گیا تھا کہ آپ اِن سے صرف نظر کرکے اپنی ساری توجہ کا مرکز اُن غریبوں کو بنائیں جو اسلام لا چکے تھے اور آ پ کی تعلیم و تربیت کے اصل حق دار تھے۔
دوسری یہ کہ حضور کو کسی فرض کی ادائیگی میں کسی کوتاہی پر نہیں ٹوکا گیا ہے، بلکہ اِس بات پر ٹوکا گیا ہے کہ آپ نے اُس سے زیادہ ذمہ داری اپنے اوپر اٹھا لی ہے، جتنی اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے۔ گویا یہ اُسی طرح کا پر محبت و جاں نواز عتاب ہے جو ’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ‘* اور اِس مضمون کی دوسری آیات میں گزر چکا ہے۔
تیسری یہ کہ اِن میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رہنمائی دی گئی ہے کہ اسلام کی اصل دولت وہ غریب ہیں جن کے اندر خدا کی خشیت ہے نہ کہ وہ امیر جن کے سینے خدا کی خشیت سے خالی ہیں۔ اِس وجہ سے آپ اپنی توجہ کا اصل مرکز اُنھی کو بنائیں جو اہل ہیں۔ اُن کے پیچھے اپنا وقت نہ ضائع کریں جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۹/ ۲۰۰)

_____
* الشعراء ۲۶: ۳۔

ابو الاعلی مودودی

اس سے تم بےرخی برتتے ہو ۔

یہی ہے وہ اصل نکتہ جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبلیغ دین کے معاملہ میں اس موقع پر نظر انداز کردیا تھا، اور اسی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ابن ام مکتوم کے ساتھ آپ کے طرز عمل پر گرفت فرمائی، پھر آپ کو بتایا کہ داعی حق کی نگاہ میں حقیقی اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے اور کس کی نہ ہونی چاہیے۔ ایک وہ شخص ہے جس کی ظاہری حالت صاف بتا رہی ہے کہ وہ طالب حق ہے، اس بات سے ڈر رہا ہے کہ کہیں وہ باطل کی پیروی کر کے خدا کے غضب میں مبتلا نہ ہوجائے، اس لیے وہ راہ راست کا علم حاصل کرنے کی خاطر خود چل کر آتا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کا رویہ صریحا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں حق کی کوئی طلب نہیں پائی جاتی، بلکہ وہ اپنے آپ کو اس سے بےنیاز سمجھتا ہے کہ اسے راہ راست بتائی جائے۔ ان دونوں قسم کے آدمیوں کے درمیان دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہے کہ کون ایمان لے آئے تو دین کے لیے بہت مفید ہوسکتا ہے اور کس کا ایمان لانا دین کے فروغ میں کچھ زیادہ مفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ کون ہدایت کو قبول کر کے سدھرنے کے لیے تیار ہے اور کون اس متاع گراں مایہ کا سرے سے قدر دان ہی نہیں ہے۔ پہلی قسم کا آدمی، خواہ اندھا ہو، لنگڑا ہو، لولا ہو، فقیر بےنوا ہو، بظاہر دین کی طرف اسے توجہ کرنی چاہیے، کیونکہ اس دعوت کا اصل مقصد بندگان خدا کی اصلاح ہے، اور اس شخص کا حال یہ بتا رہا ہے کہ اسے نصیحت کی جائے گی تو وہ اصلاح قبول کرلے گا۔ رہا دوسری قسم کا آدمی، تو خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی با اثر ہو، اس کے پیچھے پڑنے کی داعی حق کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی روش علانیہ یہ بتا رہی ہے کہ وہ سدھرنا نہیں چاہتا، اس لیے اس کی اصلاح کی کوشش میں وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع ہے وہ اگر نہ سدھرنا چاہے تو نہ سدھرے، نقصان اس کا اپنا ہوگا، داعی حق پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔

جونا گڑھی

تو اس سے بےرخی برتتا ہے

 یعنی ایسے لوگوں کی قدر افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ ان سے بےرخی برتنے کی۔ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔ 

Page 1 of 5 pages  1 2 3 >  Last ›