وَٱلضُّحَىٰ

امین احسن اصلاحی

شاہد ہے وقت چاشت

’ضُحٰی‘ چاشت کے وقت کو کہتے ہیں جب دن کی سرگرمیوں کا آغاز ہوتا اور انسان رات میں آرام کے بعد، ازسرنو تازہ دم ہو کر، جدوجہد کے میدان میں اترتا ہے۔

رات اور دن کی باہمی سازگاری: رات کی شہادت قرآن میں، موقع کی مناسبت سے، مختلف پہلوؤں سے پیش کی گئی ہے جن کی وضاحت ان کے محل میں ہو چکی ہے۔ یہاں اس کے ساتھ ’اِذَا سَجٰی‘ کی قید لگی ہوئی ہے۔ ’سَجٰی‘ کے معنی ’رَکَد‘ اور ’سَکَن‘ یعنی ٹک جانے اور ساکن ہو جانے کے آتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہاں رات کا وقت پیش نظر ہے جب وہ دن کے شور و شغب اور ابتدائے شب کے ہنگاموں سے نکل کر اچھی طرح ٹک جاتی اور انسان کو سکون و راحت بخشنے کے قابل بن جاتی ہے۔ گویا لفظ ’ضُحٰی‘ سے جو حصہ دن کا مراد لیا گیا ہے ’وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی‘ سے اس کے بالمقابل شب کا حصہ مراد لیا گیا ہے۔
یہ دن اور رات غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اپنی شکل و صورت، اپنے مزاج اور اپنے اثرات کے لحاظ سے اگرچہ بالکل مختلف ہیں لیکن اس اختلاف کے باوجود انسان بھی اپنی زندگی کے لیے ان کا محتاج ہے اور یہ دنیا بحیثیت مجموعی بھی اپنی بقا کے لیے ان کی حاجت مند ہے اور خالق کائنات کی یہ بہت بڑی رحمت و عنایت ہے کہ اس نے دن کے ساتھ رات اور رات کے ساتھ دن کو وجود بخشا اور ان دونوں کے تفاعل سے وہ مصالح پورے ہوتے ہیں جو اس دنیا کے بقا کے لیے ضروری ہیں۔ قرآن نے ان دونوں کے تفاعل کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے، مثلاً:

ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْْلَ لِتَسْکُنُوۡا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا.؂۱ (یونس ۱۰: ۶۷)
’’وہی خدا ہے جس نے تمہارے لیے رات کو تاریک بنایا تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا تاکہ تم اس میں جدوجہد کرو۔‘‘

سورۂ قصص میں فرمایا ہے:

وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمْ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْکُنُوۡا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوۡا مِن فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ. (القصص ۲۸: ۷۳)
’’اور یہ اس کی رحمت میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن میں اس کے رزق و فضل کے طلب کرنے والے بنو اور تاکہ تم اپنے رب کے شکرگزار رہو۔‘‘

_____
؂۱ اس آیت میں حذف و ایجاز کا جو اصول ملحوظ ہے اس کی وضاحت آیت کی تفسیر میں ہو چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

دن گواہی دیتا ہے، جب وہ روشن ہو

اصل الفاظ ہیں: ’وَالضُّحٰی وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی‘۔ ’ضُحٰی‘ چاشت کے وقت کو کہتے ہیں۔ ’اِذَا سَجٰی‘ اِسی کے مقابل میں ہے۔ لہٰذا لفظ ’ضُحٰی‘ سے دن کا جو حصہ مراد لیا گیا ہے، رات کا بھی وہی حصہ مراد ہے۔

یعنی جس طرح دنیا کی زندگی کے لیے دن کی روشنی اور حرارت، اور رات کی تاریکی اور سکون، دونوں ضروری ہیں، اِسی طرح انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے لیے بھی رنج و راحت، دونوں ناگزیر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ دعوت کی مشکلات، مخالفتوں کا ہجوم اور توقعات کے خلاف قوم کا ردعمل اگر کمر شکن ہو رہا ہے تو اِس میں یہی حکمت ملحوظ ہے۔ وحی کے نزول میں بھی اِس طرح کی تمام حکمتیں ملحوظ رکھی جاتی ہیں۔ یہ تمھاری اور تمھارے ساتھیوں کی تربیت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ مطمئن رہو ، اِس معاملے میں سنت الٰہی یہی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے روز روشن کی۔

یہاں لفظ ضحی رات کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد روز روشن ہے۔ اس کی نظیر سورة اعراف کی یہ آیات ہیں : ” أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ” (97 ۔ 98) ” کیا بستیوں کے لوگ اس سے بےخوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آجائے جبکہ وہ سو رہے ہوں ؟ اور کیا بستیوں کے لوگ اس سے بےخوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن دہاڑے آجائے جبکہ وہ کھیل رہے ہوں ؟ ” ان آیات میں بھی چونکہ ضحی کا لفاظ رات کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد چاشت کا وقت نہیں بلکہ دن ہے۔

جونا گڑھی

قسم ہے چاشت کے وقت کی

 چاشت اس وقت کو کہتے ہیں، جب سورج بلند ہوتا ہے۔ یہاں مراد پورا دن ہے۔ 

وَٱلَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور شاہد ہے رات جب پرسکون ہو جاتی ہے

رات اور دن کی باہمی سازگاری: رات کی شہادت قرآن میں، موقع کی مناسبت سے، مختلف پہلوؤں سے پیش کی گئی ہے جن کی وضاحت ان کے محل میں ہو چکی ہے۔ یہاں اس کے ساتھ ’اِذَا سَجٰی‘ کی قید لگی ہوئی ہے۔ ’سَجٰی‘ کے معنی ’رَکَد‘ اور ’سَکَن‘ یعنی ٹک جانے اور ساکن ہو جانے کے آتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہاں رات کا وقت پیش نظر ہے جب وہ دن کے شور و شغب اور ابتدائے شب کے ہنگاموں سے نکل کر اچھی طرح ٹک جاتی اور انسان کو سکون و راحت بخشنے کے قابل بن جاتی ہے۔ گویا لفظ ’ضُحٰی‘ سے جو حصہ دن کا مراد لیا گیا ہے ’وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی‘ سے اس کے بالمقابل شب کا حصہ مراد لیا گیا ہے۔

یہ دن اور رات غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اپنی شکل و صورت، اپنے مزاج اور اپنے اثرات کے لحاظ سے اگرچہ بالکل مختلف ہیں لیکن اس اختلاف کے باوجود انسان بھی اپنی زندگی کے لیے ان کا محتاج ہے اور یہ دنیا بحیثیت مجموعی بھی اپنی بقا کے لیے ان کی حاجت مند ہے اور خالق کائنات کی یہ بہت بڑی رحمت و عنایت ہے کہ اس نے دن کے ساتھ رات اور رات کے ساتھ دن کو وجود بخشا اور ان دونوں کے تفاعل سے وہ مصالح پورے ہوتے ہیں جو اس دنیا کے بقا کے لیے ضروری ہیں۔ قرآن نے ان دونوں کے تفاعل کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے، مثلاً:

ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْْلَ لِتَسْکُنُوۡا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا.؂۱ (یونس ۱۰: ۶۷)
’’وہی خدا ہے جس نے تمہارے لیے رات کو تاریک بنایا تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا تاکہ تم اس میں جدوجہد کرو۔‘‘

سورۂ قصص میں فرمایا ہے:

وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمْ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْکُنُوۡا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوۡا مِن فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ. (القصص ۲۸: ۷۳)
’’اور یہ اس کی رحمت میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن میں اس کے رزق و فضل کے طلب کرنے والے بنو اور تاکہ تم اپنے رب کے شکرگزار رہو۔‘‘

_____
؂۱ اس آیت میں حذف و ایجاز کا جو اصول ملحوظ ہے اس کی وضاحت آیت کی تفسیر میں ہو چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور رات بھی جب وہ پرسکون ہو جائے (کہ انسان کی تربیت کے لیے بھی رنج و راحت، دونوں چاہییں)۔

اصل الفاظ ہیں: ’وَالضُّحٰی وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی‘۔ ’ضُحٰی‘ چاشت کے وقت کو کہتے ہیں۔ ’اِذَا سَجٰی‘ اِسی کے مقابل میں ہے۔ لہٰذا لفظ ’ضُحٰی‘ سے دن کا جو حصہ مراد لیا گیا ہے، رات کا بھی وہی حصہ مراد ہے۔

یعنی جس طرح دنیا کی زندگی کے لیے دن کی روشنی اور حرارت، اور رات کی تاریکی اور سکون، دونوں ضروری ہیں، اِسی طرح انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے لیے بھی رنج و راحت، دونوں ناگزیر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ دعوت کی مشکلات، مخالفتوں کا ہجوم اور توقعات کے خلاف قوم کا ردعمل اگر کمر شکن ہو رہا ہے تو اِس میں یہی حکمت ملحوظ ہے۔ وحی کے نزول میں بھی اِس طرح کی تمام حکمتیں ملحوظ رکھی جاتی ہیں۔ یہ تمھاری اور تمھارے ساتھیوں کی تربیت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ مطمئن رہو ، اِس معاملے میں سنت الٰہی یہی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہو جائے۔

اصل میں رات کے لیے سجی استعمال ہوا ہے جس میں صرف تاریکی چھانے ہی کا نہیں بلکہ سکوت اور سکون طاری ہوجانے کا مفہوم بھی شامل ہے۔ رات کی اس صفت کا اس مضمون سے گہرا تعلق ہے جو آگے بیان ہو رہا ہے۔

جونا گڑھی

اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے۔

 جب ساکن ہوجائے، یعنی جب اندھیرا مکمل چھا جائے، کیونکہ اس وقت ہر چیز ساکن ہوجاتی ہے۔ 

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ

امین احسن اصلاحی

کہ تیرے خداوند نے نہ تجھے چھوڑا اور نہ تجھ سے بیزار ہوا

رنج اور راحت دونوں انسان کی تربیت کے لیے ہیں: یہ وہ اصل مدعا ہے جس کو مبرہن کرنے کے لیے اوپر کے آفاقی شواہد کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اس دنیا میں سورج کی روشنی اور حرارت بھی ضروری ہے اور رات کی تاریکی اور سکون بھی اسی طرح انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے لیے عُسر اور یُسر، نرمی اور درشتی، فقر اور غنٰی کی آزمائشیں بھی ضروری ہیں۔ انہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ، جیسا کہ سورۂ فجر میں وضاحت فرمائی ہے، اپنے بندے کے صبر یا شکر کا امتحان کرتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اس وقت اگر تم مخالفوں کی مخالفت، اعوان و انصار کی قلت اور اسباب و وسائل کی کمی سے دوچار ہو یا آسمانی و روحانی کمک کی جتنی ضرورت محسوس کر رہے ہو اتنی تمہیں نہیں پہنچ رہی ہے تو اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ اب تمہارے رب نے تمہیں چھوڑ دیا ہے یا تم سے بیزار ہو گیا ہے بلکہ یہ تمہاری تربیت کے لیے تمہارا امتحان ہے تاکہ تم اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اچھی طرح تیار ہو جاؤ۔

اس آیت کے اندر یہ سارا مضمون مضمر ہے جو اوپر کی آیات سے بھی واضح ہو رہا ہے اور آگے کی آیات اور اس کے بعد کی سورہ سے بھی، جیسا کہ آپ دیکھیں گے، واضح ہو گا لیکن بتقاضائے ایجاز مقسم علیہ کی حیثیت سے سب سے نمایاں تسلی کے مضمون کے اسی پہلو کو کیا گیا ہے جس کے آپ اس دور میں خاص طور پر محتاج تھے یعنی یہ اطمینان دلا دیا گیا کہ جن حالات سے اس وقت آپ دوچار ہیں اس کی وجہ آپ کے معاملہ سے اللہ تعالیٰ کی بے تعلقی یا ناخوشی نہیں بلکہ سنت الٰہی کے مطابق آپ کی تربیت ہے۔
یہ امر واضح رہے کہ مکی دور میں قریش کی مخالفت جب زیادہ شدت اختیار کر گئی تو اس سے آپ کو خاص پریشانی جو ہوئی وہ یہی ہوئی کہ مبادا ان لوگوں کی اس بیزاری میں آپ کی کسی کوتاہی یا بے تدبیری کو کوئی دخل ہے جو اللہ تعالیٰ کے عتاب کا سبب ہوئی جس کے باعث یہ حالات پیش آ رہے ہیں۔ آپ کا یہ احساس ظاہر ہے کہ ایک نہایت کمرشکن احساس تھا چنانچہ آگے والی سورہ میں اس کو کمر شکن بوجھ سے تعبیر فرمایا بھی گیا ہے: ’وَوَضَعْنَا عَنۡکَ وِزْرَکَ ۵ الَّذِیْ أَنۡقَضَ ظَہْرَکَ‘ (الم نشرح ۹۴: ۲-۳)
وحی کے لیے شدت انتظار کی اصلی وجہ: اس پریشانی میں قدرتی طور پر آپ کو سب سے زیادہ بے چینی کے ساتھ وحی الٰہی کا انتظار ہوتا اس لیے کہ یہی واحد چیز ہے جو تاریک حالات میں روشنی بھی دکھا سکتی ہے اور اسی سے آپ کو یہ اندازہ بھی ہوتا کہ آپ فریضۂ دعوت رب کے منشا کے مطابق انجام دے رہے ہیں یا اس میں کوئی کوتاہی یا بے تدبیری ہو رہی ہے۔ لیکن وحی کا معاملہ تمام تر اللہ تعالیٰ کی حکمت پر مبنی ہے۔ ضروری نہیں کہ حضور کو انتظار اور پریشانی ہو تو وحی نازل بھی ہو جائے۔ چنانچہ ان حالات میں وحی کے وقفہ سے آپ کی پریشانی فطری طور پر دوچند ہو جاتی۔ حضور کی ان پریشانیوں کا ذکر مکی سورتوں میں جگہ جگہ ہوا ہے اور ہم ان کی پوری وضاحت کرتے آ رہے ہیں۔ تفصیل مطلوب ہو تو سورۂ طٰہٰ اور سورۂ قیامہ کی تفسیر میں متعلق مباحث پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
اس آیت میں آپ کو جو تسلی دی گئی ہے وہ اسی طرح کے حالات میں دی گئی ہے۔ ضروری نہیں کہ کفار میں سے کسی کے اس طعنہ کے جواب میں کہ ’’اس شخص کو اس کے رب نے چھوڑ دیا۔‘‘ یہ آیت اتری ہو۔ کفار یہ مانتے کب تھے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ کا یا آپ کی دعوت کا کوئی خاص ربط ہے اور وہ آپ پر وحی بھیجتا ہے! وہ تو آپ کو کاہن اور شاعر کہتے تھے۔ پھر یہ کہ وحی کے آنے یا نہ آنے کا تجربہ صرف حضور کو ہوتا تھا، کفار کو کیا معلوم کہ وحی کا سلسلہ قائم ہے یا بند ہے؟ جہاں تک تبلیغ و دعوت کا تعلق ہے وہ آپ نے ایک دن کے لیے بھی کبھی بند نہیں کی کہ کفار کو یہ طعنہ دینے کا موقع ملے کہ اب یہ شخص اپنے منصب پر مامور نہیں رہا یا اس کے رب نے اس کو چھوڑ دیا۔

جاوید احمد غامدی

(اِس لیے) تمھارے پروردگار نے تمھیں چھوڑا ہے، نہ وہ تم سے ناراض ہوا ہے

شب و روز کے تفاعل کی گواہی جس مدعا کو مبرہن کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے، یہ اُس کا وہ پہلو نمایاں کر دیا ہے جو اُس وقت آپ کی پریشانی کو دور کرنے اور آپ کی تسلی کے لیے ضروری تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...مطلب یہ ہوا کہ اِس وقت اگر تم مخالفوں کی مخالفت، اعوان و انصار کی قلت اور اسباب و وسائل کی کمی سے دوچار ہو یا آسمانی و روحانی کمک کی جتنی ضرورت محسوس کررہے ہو، اتنی تمھیں نہیں پہنچ رہی ہے تو اِس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ تمھارے رب نے تمھیں چھوڑ دیا ہے یا تم سے بیزار ہو گیا ہے، بلکہ یہ تمھاری تربیت کے لیے تمھارا امتحان ہے تاکہ تم اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اچھی طرح تیار ہو جاؤ۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۱۳)

ابو الاعلی مودودی

(اے نبیؐ) تمہارے رب نے تم کو ہرگز نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول بند رہا تھا۔ مختلف روایات میں یہ مدت مختلف بیان کی گئی ہے۔ ابن جریح نے 12 روز، کلبی نے 15 روز، ابن عباس نے 25 روز، سدی اور مقاتل نے 40 روز اس کی مدت بیان کی ہے۔ بہرحال یہ زمانہ اتنا طویل تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر سخت غمگین ہوگئے تھے اور مخالفین بھی آپ کو طعنے دینے لگے تھے، کیونکہ حضور پر جو نئی سورت نازل ہوتی تھی اسے آپ لوگوں کو سنایا کرتے تھے، اس لیے جب اچھی خاصی مدت تک آپ نے کوئی نئی وحی لوگوں کو نہیں سنائی تو مخالفین نے سمجھ لیا کہ وہ سرچشمہ بند ہوگیا ہے جہاں سے یہ کلام آتا تھا۔ جندب بن عبداللہ البجلی کی روایت ہے کہ جب جبریل کے آنے کا سلسلہ رک گیا تو مشرکین نے کہنا شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے۔ (ابن جریر، طبرانی، عبد حمید، سعید بن منصور، ابن مردویہ) ۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے، جو حضور کی چچی ہوتی تھی اور جس کا گھر حضور کے مکان سے متصل تھا، آپ سے کہا ” معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے “۔ عونی اور ابن جریر نے ابن عباس کی روایت نقل کی ہے کہ کئی روز تک جبریل کی آمد رک جانے سے حضور پریشان ہوگئے اور مشرکین کہنے لگے کہ ان کا رب ان سے ناراض ہوگیا ہے اور اس نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ قتادہ اور ضحاک کی مرسل روایات سے بھی قریب قریب یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ اس صورت حال میں حضور کے شدید رنج و غم کا حال بھی متعدد روایات میں آیا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ محبوب کی طرف سے بظاہر عدم التفات، کفر و ایمان کے درمیان جنگ چھڑ جانے کے بعد اسی ذریعہ طاقت سے بظاہر محرومی جو اس جاں گسل کشمکش کے منجدھار میں آپ کے لیے واحد سہارا تھا، اور اس پر مزید دشمنوں کی شماتت، یہ ساری چیزیں مل جل کر لا محالہ حضور کے لیے سخت پریشانی کی موجب ہو رہی ہوں گی اور آپ کو بار بار یہ شبہ گزرتا ہوگا کہ کہیں مجھ سے کوئی قصور تو نہیں ہوگیا ہے کہ میرا رب مجھ سے ناراض ہوگیا ہو اور اس نے مجھے حق و باطل کی لڑائی میں تنہا چھوڑ دیا ہو۔

اسی کیفیت میں یہ سورة حضور کو تسلی دینے کے لیے نازل ہوئی۔ اس میں دن کی روشنی اور رات کے سکون کی قسم کھا کر حضور سے فرمایا گیا ہے کہ تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑ دیا ہے اور نہ وہ تم سے ناراض ہوا ہے۔ اس بات پر ان دونوں چیزوں کی قسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح دن کا روشن ہونا اور رات کا تاریکی اور سکون لیے ہوئے چھا جانا کچھ اس بنا پر نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ دن کے وقت لوگوں سے خوش اور رات کے وقت ان سے ناراض ہوجاتا ہے، بلکہ یہ دونوں حالتیں ایک عظیم حکمت و مصلحت کے تحت طاری ہوئی ہیں، اسی طرح تم پر کبھی وحی بھیجنا اور کبھی اس کو روک لینا بھی حکمت و مصلحت کی بنا پر ہے اس کا کوئی تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہو تو وحی بھیجے اور جب وہ وحی نہ بھیجے تو اس کے معنی یہ ہوں کہ وہ تم سے ناخوش ہے اور اس نے تمہیں چھوڑ دیا ہے اس کے علاوہ دوسری مناسبت اس مضمون سے اس قسم کی یہ ہے کہ جس طرح دن کی روشنی اگر مسلسل آدمی پر طاری رہے تو وہ اسے تھکا دے، اس لیے ایک وقت خاص تک دن کے روشن رہنے کے بعد رات کا آنا ضروری ہے تاکہ اس میں انسان کو سکون ملے اسی طرح وحی کی روشنی اگر تم پر پے درپے پڑتی رہے تو تمہارے اعصاب اس کو برداشت نہ کرسکیں گے، اس لیے وقتا فوقتا فترۃ (نزول وحی کا سلسلہ رک جانے) کا ایک زمانہ بھی اللہ تعالیٰ نے مصلحت کی بنا پر رکھا ہے تاکہ وحی کے نزول سے جو بار تم پر پڑتا ہے اس کے اثرات زائل ہوجائیں اور تمہیں سکون حاصل ہوجائے۔ گویا آفتاب وحی کا طلوع بمنزلہ روز روشن ہے اور زمانہ فترۃ بمنزلہ سکون شب۔

جونا گڑھی

نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہوگیا ہے۔

 جیسا کہ کافر سمجھ رہے ہیں۔ 

وَلَلْـَٔاخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ ٱلْأُولَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور بعد کا دور تیرے لیے پہلے سے بہتر ہو گا

تسلی کے مضمون کی مزید وضاحت: یہاں ’اٰخِرَۃ‘ اور ’اُوْلٰی‘ کے الفاظ دنیا اور آخرت کے اصطلاحی مفہوم میں نہیں بلکہ عام مفہوم یعنی دعوت کے دور آخر اور دور اول یا اس کے حاضر و مستقبل کے مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔

یہ اسی تسلی کے مضمون کی مزید وضاحت ہے کہ اس وقت جو حالات ہیں وہ بدل جائیں گے اور مستقبل ماضی و حاضر سے بہت بہتر ہو گا۔ اس مضمون کی بشارت خفی اور جلی دونوں طرح قرآن نے جگہ جگہ دی ہے اور قدیم صحیفوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جو پیشین گوئیاں وارد ہیں ان میں آپ کی دعوت کے آغاز کو رائی کے دانے کی تمثیل سے سمجھایا ہے جو ہوتا تو نہایت چھوٹا ہے لیکن جب اُگتا ہے تو اس کا پودا سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ پرندے اس میں بسیرا لیتے ہیں۔
ایک جامع بشارت: لفظ ’خَیْرٌ‘ سے یہاں جو بشارت دی گئی ہے وہ ایک جامع بشارت ہے جس کے اندر دین کے غلبہ و تمکن، مکہ کی فتح، دشمنوں کی پامالی اور دین میں داخل ہونے والوں کی کثرت کے وہ سارے پہلو جمع ہو گئے ہیں جو سابق سورتوں میں بھی بیان ہوئے ہیں، آگے والی سورہ میں بھی ان کی طرف اشارہ ہے اور سورۂ نصر میں بھی ان کی وضاحت آئے گی۔

جاوید احمد غامدی

آنے والے دن تمھارے لیے اِن پہلے دنوں سے کہیں بہتر ہوں گے، (اے پیغمبر)۔

اصل میں ’الْاُوْلٰی‘ اور ’الْاٰخِرَۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اِس آیت میں دنیا اور آخرت کے اصطلاحی مفہوم میں نہیں،بلکہ اپنے عام معنی میں استعمال ہوئے ہیں، یعنی پہلے اور بعد کا دور۔ آیت میں جو بشارت دی گئی ہے، وہ ایک جامع بشارت ہے۔ اِس میں وہ تمام فتوحات شامل ہیں جو بعد میں آپ کو حاصل ہوئیں اور جن کے نتیجے میں پورے جزیرہ نماے عرب میں آپ کی حکومت قائم ہو گئی، بیت اللہ آپ کے حوالے کر دیا گیا، آپ کے دشمن پامال ہوگئے اور دین میں داخل ہونے والوں کے ہجوم کسی گنتی کرنے والے کی گنتی میں نہیں رہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے۔

یہ خوشخبری اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی حالت میں دی تھی جبکہ چند مٹھی بھر آدمی آپ کے ساتھ تھے ساری قوم آپ کی مخالف تھی بظاہر کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے۔ اسلام کی شمع مکہ میں ٹمٹما رہی تھی اور اسے بجھا دینے کے لیے ہر طرف اٹھ رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ابتدائی دور کی مشکلات سے آپ ذرا پریشان نہ ہوں۔ ہر بعد کا دور پہلے دور سے آپ کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔ آپ کی قوت، آپ کی عزت و شوکت اور آپ کی قدر و منزلت برابر بڑھتی چلی جائے گی اور آپ کا نفوذ و اثر پھیلتا چلا جائے گا۔ پھر یہ وعدہ صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے، اس میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ آخرت میں جو مرتبہ آپ کو ملے گا وہ اس مرتبے سے بھی بدرجہا بڑھ کر ہوگا جو دنیا میں آپ کو حاصل ہوگا۔ طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس کی روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا ” میرے سامنے وہ تمام فتوحات پیش کی گئیں جو میرے بعد میری امت کو حاصل ہونے والی ہیں۔ اس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا کہ آخرت تمہارے لیے دنیا سے بھی بہتر ہوگی “۔

جونا گڑھی

یقیناً تیرے لئے انجام آغاز سے بہتر ہوگا

 یا آخرت دنیا سے بہتر ہے، دونوں مفہوم معانی کے اعتبار سے صحیح ہیں۔ 

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰٓ

امین احسن اصلاحی

اور تیرا خداوند تجھے عطا فرمائے گا پس تو نہال ہو جائے گا

فرمایا کہ عنقریب تمہارا رب تمہیں دے گا اور تم نہال ہو جاؤ گے۔ یہاں اگرچہ واضح نہیں فرمایا کہ کیا دے گا لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد وہی خیر ہے جس کی بشارت اوپر والی آیت میں دی گئی ہے اور جو حاوی ہے ان تمام فیروز مندیوں اور کامرانیوں پر جو بعد کے ادوار میں اسلام کو حاصل ہوئیں۔ چونکہ ابھی یہ ساری باتیں پردۂ غیب میں تھیں اس وجہ سے ’یُعْطِیْکَ‘ کے مفعول ثانی کو ظاہر نہیں فرمایا لیکن اس کے بعد ’فَتَرْضٰی‘ کے لفظ نے کسی قدر اس شان دار مستقبل کی جھلک دکھا دی کہ اتنا دے گا کہ بس تم نہال ہو جاؤ گے! ۔۔۔ اس ایک ہی لفظ کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جو ایک دفتر میں بھی نہیں سما سکتا۔

جاوید احمد غامدی

اور تمھارا پروردگارعنقریب تمھیں اتنا دے گا کہ نہال ہو جاؤ گے

یعنی تمھاری اور تمھارے ساتھیوں کی وہ سب آرزوئیں پوری ہو جائیں گی جو اسلام کے مستقبل سے متعلق تم اپنے دلوں میں رکھتے ہو۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...چونکہ ابھی یہ ساری باتیں پردۂ غیب میں تھیں، اِس وجہ سے ’یُعْطِیْکَ‘ کے مفعول ثانی کو ظاہر نہیں فرمایا، لیکن اِس کے بعد ’فَتَرْضٰی‘ کے لفظ نے کسی قدر اِس شاندار مستقبل کی جھلک دکھا دی کہ اتنا دے گا کہ بس تم نہال ہو جاؤ گے! ۔۔۔اِس ایک ہی لفظ کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جو ایک دفتر میں بھی نہیں سما سکتا۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۱۵)

ابو الاعلی مودودی

اور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔

یعنی اگرچہ دینے میں کچھ دیر تو لگے گی۔ لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب تم پر تمہارے رب کی عطا و بخشش کی وہ بارش ہوگی کہ تم خوش ہوجاؤ گے۔ یہ وعدہ حضور کی زندگی ہی میں اس طرح پورا ہوا کہ سارا ملک عرب جنوب کے سواحل سے لے کر شمال میں سلطنت روم کی شامی اور سلطنت فارس کی عراقی سرحدوں تک، اور مشرق میں خلیج فارس سے لیکر مغرب میں بحر احمر تک آپ کے زیر نگین ہوگیا، عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ سر زمین ایک قانون اور ضابطہ کی تابع ہوگئی، جو طاقت بھی اس سے ٹکرائی وہ پاش پاش ہو کر رہ گئی، کلمہ ” لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلَ اللہِ ” سے وہ پورا ملک گونج اٹھا جس میں مشرکین اور اہل کتاب اپنے جھوٹے کلمے بلند رکھنے کے لیے آخری دم تک ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے، لوگوں کے سر ہی اطاعت میں نہیں جھک گئے بلکہ ان کے دل بھی مسخر ہوگئے اور عقائد، اخلاق اور اعمال میں ایک انقلاب عظیم برپا ہوگیا۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ ایک جاہلیت میں ڈوبی قوم صرف 23 سال کے اندر اتنی بدل گئی ہو۔ اس کے بعد حضور کی برپا کی ہوئی تحریک اس طاقت کے ساتھ اٹھی کہ ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر وہ چھا گئی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے اثرات پھیل گئے۔ یہ کچھ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دنیا میں دیا، اور آخرت میں جو کچھ دے گا اس کی عظمت کا تصور بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ (نیز دیکھو جلد سوم، طہ حاشیہ 112) ۔

جونا گڑھی

تجھے تیرا رب بہت جلد (انعام) دے گا اور تو راضی و خوش ہوجائے گا

 اس سے دنیا کی فتوحات اور آخرت کا اجر وثواب مراد ہے، اس میں وہ حق شفاعت بھی داخل ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے گناہ گاروں کے لئے ملے گا۔ 

أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَـَٔاوَىٰ

امین احسن اصلاحی

کیا اس نے تجھے یتیم پایا تو ٹھکانا نہ دیا!

حضور کی زندگی کے بعض سبق آموز حالات کی طرف اشارہ: یہ اسی بات کو جو اوپر آیت ۴ میں ارشاد ہوئی کہ تمہارا مستقبل ماضی سے بہتر ہو گا، مؤکد کرنے کے لیے خود حضور ہی کی زندگی کے بعض سبق آموز حالات کی طرف توجہ دلائی کہ غور کرو تو تمہیں اپنی ہی زندگی اس حقیقت کی نہایت عمدہ تفسیر نظر آئے گی۔

سب سے پہلے آپ کی یتیمی کا حوالہ دیا۔ یتیمی اول تو خود ہی ایک بہت بڑی مصیبت ہے لیکن معاشرہ اگر اس حد تک بگڑا ہوا ہو جس کی تصویر پچھلی سورتوں میں کھینچی گئی ہے تو اس میں یتیم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ فرمایا ہے:

’کَلَّا بَل لَّا تُکْرِمُوۡنَ الْیَتِیْمَ‘ (الفجر ۸۹: ۱۷)
(ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم کی کوئی عزت نہیں کرتے)

اسی طرح حضور ہی کے خاندان کے بعض افراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

’فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ‘ (الماعون ۱۰۷: ۲)
(وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے)۔

لیکن حضورؐ کے حال پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہوا کہ باوجودیکہ آپ کے والد ماجد نے کوئی قابل ذکر ترکہ نہیں چھوڑا لیکن آپ کے دادا اور ان کے بعد آپ کے چچا نے آپ کی پرورش کی اور نہایت عزت اور شفقت کے ساتھ پرورش کی۔ عام حالات میں دادا کے دل میں یتیم پوتے کے لیے شفقت اور چچا کے دل میں یتیم بھتیجے کے لیے عزت و محبت کا پایا جانا کوئی نادر بات نہیں بلکہ انسانی فطرت کا ایک بدیہی تقاضا ہے لیکن ایک فاسد معاشرہ میں، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، یہ ایک نادر الوجود بات ہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی یتیم پر اپنے جمال محبت کا وہ پرتو ڈال دے جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ڈال دیا کہ ان کی پرورش ان کے سب سے بڑے دشمن فرعون نے اپنے محل میں کی۔

جاوید احمد غامدی

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اُس نے تمھیں یتیم دیکھا تو ٹھکانا دیا؟

یہاں سے آگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض اہم واقعات کی طرف توجہ دلا کر اُسی بات کو مؤکد کر دیا ہے جو اوپر ارشاد ہوئی ہے۔

یہ اُس عزت و محبت، سرپرستی اور شفقت کی طرف اشارہ ہے جو آپ کو پہلے اپنے دادا اور بعد میں چچا سے حاصل ہو گئی۔

ابو الاعلی مودودی

کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟

یعنی تمہیں چھوڑ دینے اور تم سے ناراض ہوجانے کا کیا سوال، ہم تو اس وقت سے تم پر مہربان ہیں جب تم یتیم پیدا ہوئے تھے حضور ابھی بطن مادر ہی میں چھ مہینے کے تھے جب آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا اس لیے آپ دنیا میں یتیم ہی کی حیثیت سے تشریف لائے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایک دن بھی آپ کو بےسہارا نہ چھوڑا۔ چھ سال کی عمر تک والدہ ماجدہ آپ کی پرورش کرتی رہیں۔ ان کی شفقت سے محروم ہوئے تو 8 سال کی عمر تک آپ کے جد امجد نے آپ کو اس طرح پالا کہ ان کو نہ صرف آپ سے غیر معمولی محبت تھی بلکہ ان کو آپ پر فخر تھا اور وہ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا ایک دن دنیا میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ ان کا بھی انتقال ہوگیا تو آپ کے حقیقی چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمے لی اور آپ کے ساتھ ایسی محبت کا برتاؤ کیا کہ کوئی باپ بھی اس سے زیادہ نہیں کرسکتا، حتی کہ نبوت کے بعد جب ساری قوم آپ کی دشمن ہوگئی تھی اس وقت دس سال تک وہی آپ کی حمایت میں سینہ سپر رہے۔

جونا گڑھی

کیا اس نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی

 یعنی باپ کے سہارے سے بھی محروم تھا، ہم نے تیری دست گیری اور چارہ سازی کی۔ 

وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدَىٰ

امین احسن اصلاحی

جویائے راہ پایا تو راہ نہ دکھائی

’وَوَجَدَکَ ضَآلّاً فَہَدٰی‘۔ یہ اس روحانی انعام کا بیان ہے جو آپ پر بعد کے دور میں ہوا۔

ایک جویائے راہ کی سرگردانیاں اور خدا کی دست گیری: معلوم ہے آپ کو جو رسوم و روایات خاندان کے بزرگوں سے وراثت میں ملیں ان پر آپ کی سلیم فطرت ایک لمحہ کے لیے بھی مطمئن نہ ہو سکی اور دوسری کوئی ایسی روشنی تھی نہیں جو آپ کے لیے سرمایۂ تسکین بن سکتی۔ آسمانی مذاہب کے پیرو جو آپ کے گرد و پیش تھے ان کا حال البقرہ، آل عمران اور دوسری مدنی سورتوں سے واضح ہو چکا ہے کہ ان کے عقائد و اعمال اس قدر مسخ ہو چکے تھے کہ کوئی جویائے حقیقت ان سے کوئی رہنمائی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اس صورت حال نے آپ کو ایک شدید قسم کی ذہنی کشمکش میں ڈال دیا تھا۔ آپ کی اسی کشمکش کو یہاں ’وَوَجَدَکَ ضَآلّاً‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ’ضَآلّ‘ یہاں گمراہ کے معنی میں نہیں بلکہ جویائے راہ کے معنی میں ہے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام بعثت سے پہلے بھی فطرت سلیم پر ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کے ابتدائی دور میں بھی فطرت کی بدیہیات سے کبھی منحرف نہیں ہوتے لیکن فطرت صرف عقائد و اعمال کی موٹی موٹی باتوں ہی میں رہنمائی کر سکتی ہے۔ تمام عقائد اور ان کے سارے تضمنات و لوازم کی نہ وہ تشریح کر سکتی اور نہ تمام اعمال و اخلاق کی صحیح صحیح حد بندی اس کے بس میں ہے اس وجہ سے فطرت پر ہونے کے باوجود ایک شخص یہ جاننے کا محتاج ہی رہتا ہے کہ جس خدا کے وجود پر اس کا دل گواہی دے رہا ہے اس کی صفات اور ان صفات کے تقاضے اور مطالبے کیا ہیں؟ اس کے کیا حقوق بندے پر عائد ہوتے اور وہ کس طرح ادا کرنے ہیں؟ زندگی کی ایسی ضابطہ بندی کس طرح کی جائے کہ وہ پوری کی پوری، اپنے بعید ترین گوشوں میں بھی، خالق کی پسند کے مطابق ہو جائے؟ جب تک یہ سوالات حل نہ ہوں اس وقت تک نہ انسان کو حقیقی اطمینان حاصل ہو سکتا اور نہ رب کے ساتھ اس کا تعلق ہی استوار ہو سکتا۔ یہی سوالات ہیں جو پوری شدت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر زندگی کے اس دور میں مستولی تھے جس کی طرف ’وَوَجَدَکَ ضَآلّاً‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ حالت نہ ضلالت کی ہے اور نہ اس کو ہدایت سے تعبیر کر سکتے بلکہ صحیح الفاظ میں یہ جستجوئے راہ کی سرگردانی ہے۔ گویا ایک شخص چوراہے پر کھڑا ہو اور فیصلہ نہ کر پا رہا ہو کہ کس سمت میں قدم بڑھائے۔ بعثت سے پہلے غار حراء کی تنہائیوں میں آپ انہی گتھیوں کو سلجھانے میں گم رہے۔
بعثت سے پہلے دین حنیفی کے پیروؤں کا حال: بعثت سے پہلے عرب میں دین حنیفی کے پیروؤں کا حال کتابوں میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ ان میں سے بعض افراد ایسی شدید الجھن میں مبتلا تھے کہ وہ بیت اللہ سے ٹیک لگا کر حرم میں بیٹھ جاتے اور نہایت حسرت کے ساتھ کہتے کہ ’’اے رب! ہم نہیں جانتے کہ تیری عبادت کس طرح کریں ورنہ اسی طرح کرتے۔‘‘ یہی حال اس وقت تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی رہا ہو گا جب تک آپ ایمان کی حقیقت اور کتاب سے روشناس نہیں ہوئے۔ چنانچہ قرآن میں اسی حالت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:

’وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوۡحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا کُنۡتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیْمَانُ وَلٰکِنۡ جَعَلْنٰہُ نُوۡرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا‘ (الشوریٰ ۴۲: ۵۲)
(اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف ایک روح وحی کی جو ہمارے امر میں سے ہے، نہ تم کتاب سے آشنا تھے اور نہ ایمان سے لیکن ہم نے اس وحی کو روشنی بنایا جس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں)۔

اسی حالت کو سورۂ یوسف میں ’غفلت‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے:

’وَإِنۡ کُنۡتَ مِنۡ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغَافِلِیْنَ‘ (یوسف ۱۲: ۳)
(اور بے شک اس سے پہلے تم اس سے بے خبروں میں سے تھے)۔

جاوید احمد غامدی

راستہ ڈھونڈتے دیکھا تو راستہ دکھایا؟

اصل میں لفظ ’ضَآلّ‘ آیا ہے۔ بعثت سے پہلے آپ جن الجھنوں کو سلجھانے میں گم رہے، یہ اُنھی کی تعبیر ہے۔ گویا ’ضَلَّ‘ یہاں ’لم یھتد الی الطریق‘ کے معنی میں ہے، اِس لیے ’ضَآلّ‘ کا ترجمہ گمراہ نہیں، بلکہ جویاے راہ کرنا چاہیے۔ یعنی وہ شخص جو راستے کی تلاش میں سرگرداں ہو، لیکن اُس کا کوئی سراغ اُسے نہ مل رہا ہو۔ عرب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دین حنیفی کے سب پیرو اِسی صورت حال سے دوچار تھے۔ تاریخ کی روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ وہ حرم کی دیواروں سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے اور بڑی حسرت کے ساتھ کہتے تھے: پروردگار، ہم نہیں جانتے کہ تیری عبادت کس طرح کریں، ورنہ اُسی طرح کرتے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...حضرات انبیا علیہم السلام بعثت سے پہلے بھی فطرت سلیم پر ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کے ابتدائی دور میں بھی فطرت کی بدیہیات سے کبھی منحرف نہیں ہوتے۔ لیکن فطرت صرف عقائد و اعمال کی موٹی موٹی باتوں ہی میں رہنمائی کرسکتی ہے۔ تمام عقائد اور اُن کے سارے تضمنات و لوازم کی نہ وہ تشریح کر سکتی اور نہ تمام اعمال و اخلاق کی صحیح صحیح حد بندی اُس کے بس میں ہے۔ اِس وجہ سے فطرت پر ہونے کے باوجود ایک شخص یہ جاننے کا محتاج ہی رہتا ہے کہ جس خدا کے وجود پر اُس کا دل گواہی دے رہا ہے، اُس کی صفات اور اِن صفات کے تقاضے اور مطالبے کیا ہیں؟ اُس کے کیا حقوق بندے پر عائد ہوتے اور وہ کس طرح ادا کرنے ہیں؟ زندگی کی ایسی ضابطہ بندی کس طرح کی جائے کہ وہ پوری کی پوری اپنے بعید ترین گوشوں میں بھی خالق کی پسند کے مطابق ہو جائے؟ جب تک یہ سوالات حل نہ ہوں، اُس وقت تک نہ انسان کو حقیقی اطمینان حاصل ہو سکتا اور نہ رب کے ساتھ اُس کا تعلق ہی استوار ہو سکتا ۔ یہی سوالات ہیں جو پوری شدت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر زندگی کے اُس دور میں مستولی تھے جس کی طرف ’وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ حالت نہ ضلالت کی ہے اور نہ اِس کو ہدایت سے تعبیر کر سکتے، بلکہ صحیح الفاظ میں یہ جستجوے راہ کی سرگردانی ہے۔ گویا ایک شخص چوراہے پر کھڑا ہو اور فیصلہ نہ کر پا رہا ہو کہ کس سمت میں قدم بڑھائے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۱۶)

ابو الاعلی مودودی

اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔

اصل میں لفظ ضالاً استعمال ہوا ہے جو ضلالت سے ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ایک معنی گمراہی کے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص راستہ نہ جانتا ہو اور ایک جگہ حیران کھڑا ہو کہ مختلف راستے جو سامنے ہیں ان میں سے کدھر جاؤں۔ ایک اور معنی کھوئے ہوئے کے ہیں، چنانچہ عربی محاورے میں کہتے ہیں ضل الماء فی اللبن، پانی دودھ میں گم ہوگیا۔ اس درخت کو بھی عربی میں ضالہ کہتے ہیں جو صحرا میں اکیلا کھڑا ہو اور آس پاس کوئی دوسرا درخت نہ ہو۔ ضائع ہونے کے لیے بھی لفظ ضلال کا لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً کوئی چیز ناموافق اور ناساز گار حالات میں ضائع ہو رہی ہو، غفلت کے لیے بھی ضلال کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کی مثال موجود ہے کہ ” لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ” (طہ۔ 52) ” میرا رب نہ غافل ہوتا ہے نہ بھولتا ہے “۔ ان مختلف معنوں میں سے پہلے معنی یہاں چسپاں نہیں ہوتے، کیونکہ بچپن سے قبل نبوت تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو حالات تاریخ میں موجود ہیں ان میں کہیں اس بات کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا کہ آپ کبھی بت پرستی، شرک یا دہریت میں مبتلا ہوئے ہوں، یا جاہلیت کے جو اعمال، رسوم اور طور طریقے آپ کی قوم میں پائے جاتے تھے ان میں سے کسی میں آپ ملوث ہوئے ہوں۔ اس لیے لا محالہ ووجدک ضالاً کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقیدے یا عمل کے لحاظ سے گمراہ پایا تھا۔ البتہ باقی معنی کسی نہ کسی طور پر یہاں مراد ہو سکتے ہیں، بلکہ ہوسکتا ہے کہ ایک ایک اعتبار سے سب مراد ہوں۔ نبوت سے پہلے حضور اللہ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کے قائل تو ضرور تھے، اور آپ کی زندگی گناہوں سے پاک اور فضائل اخلاق سے آراستہ بھی تھی، لیکن آپ کو دین حق اور اس کے اصول اور احکام کا علم نہ تھا، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ” مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ” (الشوریٰ ، آیت 52) ” تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ ایمان کی تمہیں کوئی خبر تھی “۔ یہ معنی بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں کہ حضور ایک جاہلی معاشرے میں گم ہو کر رہ گئے تھے اور ایک ھادی و رہبر ہونے کی حیثیت سے آپ کی شخصیت نبوت سے پہلے نمایاں نہیں ہو رہی تھی۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جاہلیت کے صحراء میں آپ ایک اکیلے درخت کی حیثیت سے کھڑے تھے جس میں پھل لانے اور ایک پورا باغ کا باغ پیدا کردینے کی صلاحیت تھی مگر نبوت سے پہلے یہ صلاحیت کام نہیں آ رہی تھی۔ یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی قوتیں آپ کو عطا کی تھیں وہ جاہلیت کے ناساز گار ماحول میں ضائع ہو رہی تھیں۔ ضلال کو غفلت کے معنی میں بھی لیا جاسکتا ہے، یعنی آپ ان حقائق اور علوم سے غافل تھے جن سے نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو آگاہ فرمایا۔ یہ بات خود قرآن میں بھی ایک جگہ ارشاد ہوئی ہے : ” وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ ” (یوسف 3) ۔ ” اور اگرچہ تم اس سے پہلے ان باتوں سے غافل تھے ” (نیز ملاحظہ ہو البقرہ آیت 282، اور الشعراء آیت 20) ۔

جونا گڑھی

اور تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی

 یعنی تجھے دین شریعت اور ایمان کا پتہ نہیں تھا، ہم نے تجھے راہ یاب کیا، نبوت سے نوازا اور کتاب نازل کی، ورنہ اس سے قبل تو ہدایت کے لئے سرگرداں تھا۔ 

وَوَجَدَكَ عَآئِلًا فَأَغْنَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور محتاج پایا تو غنی نہیں کیا

حقیقی غنا کا سرچشمہ ایمان اور معرفت الٰہی ہے: ’وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَأَغْنٰی‘۔ فرمایا کہ ہم نے تمہیں محتاج پایا تو غنی کر دیا۔ غنا اور فقر کا جتنا تعلق مادی اسباب و وسائل سے ہے اس سے زیادہ قلب کے احوال سے ہے۔ آدمی کا سینہ ایمان سے خالی ہو تو وہ محتاج ہے اگرچہ اس کے پاس قارون کا خزانہ ہو اور اگر ایمان سے اس کا سینہ معمور ہے تو وہ غنی ہے اگرچہ وہ حضرت یحییٰ کی طرح کمل کی پوشاک پہنتا اور جنگلی شہد اور ٹڈیوں پر گزارہ کرتا ہو۔ یہی حکمت یوں سمجھائی گئی ہے کہ

’الغنی غنی القلب‘
(حقیقی غنا دل کا غنا ہے)
یہ حقیقی غنا ایمان، اللہ کی معرفت اور اس کی کتاب کے نور سے پیدا ہوتا ہے جس کو یہ دولت حاصل نہیں ہوئی وہ دنیا کی حرص سے کبھی پاک نہیں ہو سکتا اور جو حریص ہے اس کا کاسۂ گدائی کبھی نہیں بھرتا۔

کاسۂ چشم حریصاں پُر نہ شد

یہ دنیا عالم اسباب ہے اس وجہ سے اس میں انسان اسباب کا محتاج ہے۔ اگر سید عالم صلی اللہ علی وسلم کو سیدہ خدیجہ کے مال سے کچھ فائدہ پہنچا تو یہ حضرت خدیجہ اور ان کے مال کی ایسی خوش بختی ہے جو اس زمین پر کسی مال اور کسی صاحب مال کو مشکل ہی سے حاصل ہوئی ہو گی لیکن وہ غنا جس کا یہاں ذکر ہے مجرد مال سے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، نہیں حاصل ہوتا بلکہ یہ اصلاً اس ہدایت کا ثمرہ ہے جس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہے اور جس کی صحیح تعبیر وہ ’’شرح صدر‘‘ ہے جس کی تفصیل بعد کی سورہ ۔۔۔ اَلَم نَشْرَحْ ۔۔۔ میں، جو اس کی توام ہے، آئے گی۔ جن لوگوں نے اس غنا کو تمام تر حضرت خدیجہ کے مال کا نتیجہ قرار دیا ہے ان کی نظر صرف ظاہر پر ٹک گئی حالانکہ اصل حقیقت اس سے ماورا ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی بلکہ صرف سمجھی جا سکتی ہے۔ یہاں اشارات پر قناعت فرمائیے۔ آگے آخری آیت کے تحت بھی اور سورہ ’اَلَم نَشْرَحْ‘ میں بھی اس کے بعض مخفی پہلو ان شاء اللہ زیربحث آئیں گے۔

جاوید احمد غامدی

اور محتاج دیکھا تو (وہ شرح صدر عطا فرمایا کہ) غنی کر دیا

یہ غنا اُس ہدایت کا ثمرہ ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا ہے۔ اِس کا حق آگے ’وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ اِس غنا کا تعلق اصلاً مال سے نہیں، بلکہ قلب کے احوال سے ہے۔ اِس کی صحیح تعبیر وہ شرح صدر ہے جس کا ذکر آگے سورہ ۔۔۔الم نشرح ۔۔۔ میں آئے گا۔ آدمی کو یہ چیز خدا کی سچی معرفت اور اُس قانون و حکمت سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے آتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑے محتاج وہی ہیں جو اِس دولت سے محروم ہیں۔ بعثت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی احتیاج سرگرداں کیے ہوئے تھی۔ یہ دولت حاصل ہو گئی تو آپ سے بڑھ کر کوئی غنی نہیں تھا۔

ابو الاعلی مودودی

اور تمہیں نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے آپ کے والد ماجد نے میراث میں صرف ایک اونٹنی اور ایک لونڈی چھوڑی تھی۔ اس طرح آپ کی زندگی کی ابتداء افلاس کی حالت میں ہوئی تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ قریش کی سب سے زیادہ مالدار خاتون، حضرت خدیجہ نے پہلے تجارت میں آپ کو اپنے ساتھ شریک کیا، اس کے بعد انہوں نے آپ سے شادی کرلی اور ان کے تمام تجارتی کاروبار کو آپ نے سنبھال لیا۔ اس طرح آپ نہ صرف یہ کہ مال دار ہوگئے، بلکہ آپ کی مالداری اس نوعیت کی نہ تھی کہ محض بیوی کے مال پر آپ کا انحصار ہو۔ ان کی تجارت کو فروغ دینے میں آپ کی اپنی محنت و قابلیت کا بڑا حصہ تھا۔

جونا گڑھی

اور تجھے نادار پا کر تونگر نہیں بنا دیا۔

 تونگر کا مطلب ہے کہ اپنے سوا تجھ کو ہر ایک سے بےنیاز کردیا، پس تو فقر میں صابر اور غنا میں شاکر رہا ہے۔ جیسے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تونگری کثرت ساز و سامان کا نام نہیں اصل تونگری تو دل کی تونگری ہے۔ (صحیح مسلم) 

فَأَمَّا ٱلْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ

امین احسن اصلاحی

تو جو یتیم ہے اس کو مت دبائیو۔

انعامات کا حق: قریش کے زور آوروں کو تنبیہ: یہ ان انعامات کا، جو اوپر مذکور ہوئے، حق بیان ہوا ہے اور انداز بیان ایسا ہے جس میں ان لوگوں پر نہایت لطیف تعریض بھی ہے جن کا حال پچھلی سورتوں میں بیان ہوا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائیں ان کو اس کا انعام سمجھنے اور اس کے شکرگزار ہونے کی بجائے وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہو گئے کہ یہ جو کچھ ان کو ملا ہے یہ اسی کے حق دار ہیں۔ فرمایا کہ تم یہ روش نہ اختیار کرنا بلکہ تمہاری یتیمی کی حالت میں تمہارے رب نے جس طرح تم کو پناہ دی اسی طرح تم یتیموں کو پناہ دینا، ان پر شفقت اور کرم کی نظر رکھنا اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنا۔ آیت ’وَتَأْکُلُوۡنَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَّمًّا‘ (الفجر ۸۹: ۱۹) کے تحت ہم واضح کر چکے ہیں؂۱ کہ جاہلی معاشرہ میں زور آور عصبات اور اقربا کمزور وارثوں اور یتیموں کے حقوق دبا بیٹھتے اور ساری وراثت تنہا سمیٹ لیتے۔ ’فَلَا تَقْہَرْ‘ کے الفاظ میں اسی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ ’فَلَا تَقْہَرْ‘ کے معنی یہ ہیں کہ یتیم کو کمزور پا کر اس کو دبانے اور اس کے حقوق غصب کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تنبیہ ظاہر ہے کہ اس بنا پر نہیں کی گئی کہ آپ سے اس قسم کے کسی جرم کے صدور کا امکان تھا بلکہ یہ بالواسطہ قریش کے ان زور آوروں کو تنبیہ ہے جن کو پچھلی سورتوں میں ان کے اسی قسم کے غصب حقوق پر سرزنش فرمائی گئی ہے لیکن وہ اپنے رویے کی اصلاح کے بجائے رسول کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اس سورہ میں ان کو نظر انداز کر کے رسول کو ہدایت فرما دی کہ دوسرے جو رویہ بھی اختیار کریں ان کو ان کے حال پر چھوڑو، تمہیں بہرحال یتیموں کے حقوق کی حفاظت کرنی ہے۔

_____
؂۱ ملاحظہ ہو تدبر قرآن۔ جلد ہشتم، صفحہ: ۳۵۹۔

جاوید احمد غامدی

اِس لیے (اب) یتیم ہو تو اُسے دباؤ نہیں

اوپر کی نعمتیں جس ترتیب سے مذکور ہیں، یہ اب اُسی ترتیب سے اُن کا حق بتا دیا ہے۔ اِس میں ، اگر غور کیجیے تو قریش کے اُن فراعنہ پر ایک لطیف تعریض بھی ہے جن کا رویہ خدا کی نعمتوں کے بارے میں اِس سے پہلے زیر بحث رہا ہے۔ وہ جب اپنے رویے کی اصلاح کے لیے آمادہ نہیں ہوئے تو اُنھیں نظر انداز کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرما دی ہے کہ اِنھیں چھوڑیے، آپ تو یتیمی کے احوال سے واقف ہیں، آپ کو بہرحال یتیموں کے حقوق کی حفاظت کرنی ہے، آپ کے ہاتھ سے اُن پر کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔

ابو الاعلی مودودی

لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو۔

یعنی تم چونکہ خود یتیم رہ چکے ہو، اور اللہ نے تم پر یہ فضل فرمایا کہ یتیمی کی حالت میں بہترین طریقے سے تمہاری دستگیری کی، اس لیے اس کا شکرانہ یہ ہے کہ تمہارے ہاتھ سے کبھی کسی یتیم پر ظلم اور زیادتی نہ ہونے پائے۔

جونا گڑھی

پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کر۔

 بلکہ اس کے ساتھ نرمی واحسان کا معاملہ کر۔ 

وَأَمَّا ٱلسَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْ

امین احسن اصلاحی

اور جو سائل ہو اس کو نہ جھڑکیو

دوسرے انعام کا حق: ’وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْ‘۔ یہ اس انعام کا حق بیان ہوا ہے جو اوپر ’وَوَجَدَکَ ضَالّاً فَہَدٰی‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ لفظ ’سائل‘ یہاں محدود معنی میں نہیں بلکہ وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے۔ خواہ سائل اپنے پیٹ اور تن کی کسی ضرورت کے تحت سوال کرے یا اپنی کسی ذہنی و عقلی الجھن سے متعلق سوال کرے یا اپنے دین سے متعلق سوال کرے، غرض جس طرح کی بھی مدد و رہنمائی کا طالب ہو حتی الامکان اس کی مدد و رہنمائی کی جائے اور اگر اس کا موقع نہ ہو تو خوبصورتی کے ساتھ اس کے سامنے معذرت پیش کر دی جائے، اس کو جھڑکا اور ڈانٹا نہ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات یاد رکھنا کہ ایک دور تم پر بھی ایسا گزرا ہے جب تم سراپا سوال تھے اور ان سوالوں نے تمہاری زندگی ضیق میں ڈال رکھی تھی بالآخر تمہارے رب نے تمہاری ہر خلش دور فرمائی اور تمہارے ہر سوال کا جواب دیا۔ اس کا حق یہ ہے کہ تم بھی سائلوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ان لوگوں کی روش نہ اختیار کرنا جن کا حال یہ ہے کہ خدا نے ان کو دے رکھا ہے تو مسکینوں اور سائلوں سے ترش روئی سے پیش آتے ہیں اور اگر ابھی کسی گردش میں خدا ان کو پکڑ لے تو کہیں گے کہ خدا نے مجھے ذلیل کر دیا، اس وقت ان کو یہ بات یاد نہیں آتی کہ انھوں نے خدا کے بندوں کو کس طرح ذلیل کیا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور پوچھنے والا ہو تو اُسے جھڑکو نہیں

ترتیب بیان کے لحاظ سے یہ جملہ ’وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ‘ سے متعلق ہے۔ لہٰذا پوچھنے والے سے مراد یہاں اصلاً وہ شخص ہے جو اپنی کسی ذہنی یا عقلی الجھن کو دور کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اپنے پیٹ یا تن کی ضرورت کے لیے سوال کرنے والے بھی اِسی کے تحت ہیں اور یقیناً مستحق ہیں کہ اُن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے اور خدمت کا موقع نہ ہو تو اُنھیں جھڑکا اور ڈانٹا نہ جائے، بلکہ خوبصورتی کے ساتھ معذرت پیش کر دی جائے۔

ابو الاعلی مودودی

اور سائل کو نہ جھڑکو۔

اس کے دو معنی ہیں اگر سائل کو مدد مانگنے والے حاجت کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مدد کرسکتے ہو تو کر دو، نہ کرسکتے ہو تو نرمی کے ساتھ معذرت کر دو، مگر بہرحال اسے جھڑکو نہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے جواب میں ہے کہ ” تم نادار تھے پھر اس نے تمہیں مالدار کردیا “۔ اور اگر سائل کو پوچھنے والے، یعنی دین کا کوئی مسئلہ یا حکم دریافت کرنے والے کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص خواہ کیسا ہی جاہل اور اجڈ ہو، اور بظاہر خواہ کتنے ہی نامعقول طریقے سے سوال کرے یا اپنے ذہن کی الجھن پیش کرے، بہرحال شفقت کے ساتھ اسے جواب دو اور علم کا زعم رکھنے والے بد مزاج لوگوں کی طرح اسے جھڑک کر دور نہ بھگا دو۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے جواب میں ہے کہ ” تم ناواقف راہ تھے پھر اس نے تمہیں ہدایت بخشی “۔ حضرت ابو الدردا، حسن بصری، سفیان ثوری اور بعض دوسرے بزرگوں نے اسی دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ ترتیب کلام کے لحاظ سے یہ ارشاد ” وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ ” کے جواب میں آتا ہے۔

جونا گڑھی

اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ۔

 یعنی اس سے سختی اور تکبر نہ کر، نہ درشت اور تلخ لہجہ اختیار کر، بلکہ جواب بھی دینا ہو تو پیار اور محبت سے دو۔ 

Page 1 of 2 pages  1 2 >