حمٓ

امین احسن اصلاحی

یہ حٰمٓ ہے

یہ اس سورہ کا قرآنی نام ہے اور یہی نام سابق سورہ کا بھی ہے۔ ناموں کا اشتراک مطالب کے اشتراک کی دلیل ہوتا ہے چنانچہ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ سابق سورہ کی آخری آیت میں قریش کو تکذیب رسول کے جس انجام کی دھمکی دی ہے اس سورہ میں اسی دھمکی کی تفصیل ہے۔ آگے کی آیات سے اس کی پوری وضاحت ہو جائے گی۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’حٰمٓ‘ ہے۔

پہلی سورتوں کی طرح اِس سورہ کا نام بھی ’حٰمٓ‘ ہے۔ یہ اشتراک مطالب پر دلیل ہے اور قرآن کا ہر طالب علم اِسے تمام حوامیم میں بالکل نمایاں دیکھ سکتا ہے۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ح م۔

n/a

جونا گڑھی

حم

​n/a

وَٱلْكِتَـٰبِ ٱلْمُبِينِ

امین احسن اصلاحی

قسم ہے واضح کر دینے والی کتاب کی

’و‘ یہاں قسم کے لیے ہے اور یہ وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے کہ عربی میں قسم کا اصل مقصد کسی دعوے پر شہادت پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مقسم علیہ کیا ہے؟ عام طور پر ہمارے مفسرین نے اس کا مقسم علیہ بعد والی آیت ’اِنَّا أَنزَلْنٰہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ....‘ کو قرار دیا ہے۔ اگرچہ زبان کے قواعد کے اعتبار سے اس میں کوئی خامی نہیں ہے لیکن مجھے اس پر پورا اطمینان نہیں ہے۔ قسم اور مقسم علیہ میں تعلق دلیل اور دعوے کا ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قرآن کا کتاب مبین ہونا اس بات کی دلیل کس طرح بن سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے۔ میرے نزدیک یہاں مقسم علیہ محذوف ہے۔ قرینہ اور موقع کلام اس محذوف پر دلیل ہے۔ بربنائے قرینہ مقسم علیہ کے محذوف ہونے کی نظیریں بہت ہیں۔ ایک واضح نظیر سورہ قٓ میں موجود ہے:

’قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ ۵ بَلْ عَجِبُوۡا أَن جَاء ہُمْ مُنذِرٌ مِّنْہُمْ ...‘ (۱-۲)
(یہ سورہ قٓ ہے، شاہد ہے قرآن بزرگ! بلکہ انھوں نے اس بات پر تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک شخص منذر بن کر اٹھا)۔

ظاہر ہے کہ یہاں مقسم علیہ محذوف ہے۔ اسی طرح آیت زیربحث میں بھی مقسم علیہ محذوف ہے۔ اس حذف کا فائدہ یہ ہے کہ یہاں وہ ساری بات محذوف مانی جا سکتی ہے جس کے لیے موقع کلام مقتضی ہو۔ اس حذف کو کھول دیجیے تو گویا پوری بات یوں ہو گی کہ یہ واضح کتاب، جو اپنے دعوے پر خود حجت قاطع ہے، اس بات کی شاہد ہے کہ یہ جھٹلانے والوں کو جس انجام بد سے ڈرا رہی ہے وہ ایک امر شدنی ہے، جو شخص اس کو پیش کر رہا ہے اس کو خبطی یا دیوانہ نہ سمجھو بلکہ وہ ایک رسول مبین ہے۔ اس کی دعوت تمام تر حکمت پر مبنی ہے۔ اس کو قبول کرنا باعث رحمت اور اس کو رد کرنا باعث نقمت ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ان باتوں کی دلیل ڈھونڈنے کے لیے قرآن سے کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں سے ہر حقیقت کو مبرہن کر دینے کے لیے یہ کتاب خود کافی ہے۔ جو لوگ اس کو جھٹلا رہے ہیں وہ اپنی شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

یہ واضح کتاب (آپ ہی اپنی) گواہی ہے۔

اصل میں ’وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’وَ‘قسم کے لیے ہے۔ اِس قسم کا مقسم علیہ محذوف ہے اور لفظ ’مُبِیْن‘ اِس کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ یہ واضح کتاب اپنے دعووں کی صداقت پر خود حجت قاطع ہے۔ اُن کے دلائل ڈھونڈنے کے لیے اِس سے کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے، اُنھیں مبرہن کرنے کے لیے یہ خود کافی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے اِس کتاب مبین کی۔

n/a

جونا گڑھی

قسم ہے اس وضاحت والی کتاب کی۔

​n/a

إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةٍ مُّبَـٰرَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ

امین احسن اصلاحی

بے شک اس کو ہم نے ایک مبارک رات میں اتارا ہے، بے شک ہم لوگوں کو آگاہ کر دینے والے تھے

یہ اس اہتمام خاص کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے اتارنے کے لیے فرمایا۔ مقصود اس اہتمام کے ذکر سے مخاطبوں پر یہ واضح کرنا ہے کہ اس کو کوئی ہنسی مسخری کی چیز یا کسی مجذوب کی بڑ نہ سمجھیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم اسکیم کا ایک نہایت عظیم حصہ ہے اور اس کے اتارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے وہ مبارک شب منتخب فرمائی جو اس کی طرف سے تمام امور حکمت کی تقسیم کے لیے خاص کی ہوئی ہے۔ مقصود اس کے اتارنے سے ان لوگوں کو انذار کرنا ہے جن کے آباء و اجداد کو انذار نہیں کیا گیا تھا تاکہ ان پر اللہ کی حجت تمام ہو جائے اور قیامت کے دن وہ یہ عذر نہ کر سکیں کہ ان کو انذار کے بغیر ہی پکڑ لیا گیا۔ اس اہتمام خاص کے بعض اور پہلو بھی ہیں جن کی تفصیل ان شاء اللہ سورۂ جن اور سورۂ قدر کی تفسیر میں آئے گی۔

’لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ‘ سے مراد ظاہر ہے کہ لیلۃ القدر ہے۔ چنانچہ سورۂ قدر میں یہ تصریح موجود ہے کہ اسی رات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن اتارا:

’إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ ۵ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ ۵ لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ ۵ تَنَزَّلُ الْمَلَاءِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ۵ سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ‘ (۱-۵)
(ہم نے اس کو اتارا ہے لیلۃ القدر میں۔ اور تم کیا سمجھے کہ لیلۃ القدر کیا ہے! لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اس میں ملائکہ اور جبریل اترتے ہیں، ہر باب میں اپنے رب کے اذن کے ساتھ۔ وہ سلامتی ہی سلامتی ہے۔ وہ طلوع فجر تک ہے)۔

یہ لیلۃ القدر لازماً رمضان شریف ہی کی کوئی رات ہو سکتی ہے اس لیے کہ قرآن میں یہ تصریح بھی موجود ہے کہ رمضان ہی کے مہینہ میں قرآن نازل ہوا:

’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ..... ‘ (البقرہ: ۱۸۵)
(رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا)۔

رہا یہ سوال کہ یہ رمضان کی کون سی رات ہے تو اس کا کوئی قطعی جواب مشکل ہے۔ روایات کی روشنی میں صرف اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرہ کی کوئی رات ہے۔ تعین کے ساتھ اس کے ظاہر نہ کرنے میں مصلحت الٰہی یہ معلوم ہوتی ہے کہ بندے اس کی جستجو کریں اور اس طرح ان کے ذوق و شوق اور طلب و تمنا کا امتحان ہو۔ بندوں کی اس طلب و تمنا کے اندر ہی اس لیلۃ القدر کی تمام برکتوں کا راز مضمر ہے۔
ان تصریحات سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ اس سے شعبان یا کسی اور مہینہ کی کوئی رات مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس رات میں قرآن کے اتارے جانے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ پورا قرآن اسی شب میں اتار دیا گیا ہو بلکہ یہ اس کے مبارک آغاز کا پتا دیا گیا ہے۔ جب ایک کام کا آغاز ایک مبارک ساعت میں ہو گیا اور اس کے پورے کیے جانے کا فیصلہ بھی ہو گیا تو گویا وہ کلام اسی مبارک ساعت میں ہو گیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو کوئی دوسرا تبدیل نہیں کر سکتا۔ قرآن میں اس اسلوب تعبیر کی مثالیں موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مستقبل میں پورے ہونے والے وعدے ماضی کے صیغے سے بیان کیے ہیں۔
’لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ‘ کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے۔ خاص خاص دنوں، مہینوں اور اوقات کا مبارک ہونا ان کی روحانی زرخیزی اور فیض بخشی کے پہلو سے ہے۔ جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں موسموں اور فصلوں کا لحاظ ہے۔ ہر موسم ہر چیز کی کاشت کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ اسی طرح روحانی عالم میں بھی ساعات و اوقات، سالوں اور مہینوں کا اعتبار ہے۔ جو عبادت اللہ تعالیٰ نے جس وقت، جس دن اور جس مہینہ کے ساتھ وابستہ کر دی ہے اس کی حقیقی برکت اسی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جب وہ اس وقت یا اس دن یا اس مہینہ کی پابندی کے ساتھ کی جائے۔ ورنہ جس طرح بے موسم کی بوئی ہوئی گندم بے حاصل رہتی ہے اسی طرح بے وقت کی نماز، بے وقت کے روزے اور بے موسم کے حج کا بھی کچھ حاصل نہیں اور اگر ہے تو بہت تھوڑا۔ ہمارے چوبیس گھنٹوں کے اوقات میں فجر، چاشت، ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور تہجد کے اوقات روحانی اعتبار سے اپنے اندر ایک خاص برکت رکھتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں ان کی یہ برکت واضح فرمائی گئی ہے۔ اسی طرح ہفتہ کے دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روحانی فیض بخشی کے اعتبار سے ایک مخصوص اہمیت حاصل ہے جو کسی دوسرے دن کو حاصل نہیں ۔۔۔ سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان یا حج کے مہینوں کو جو شرف خصوصی حاصل ہے اس میں دوسرے مہینے ان کے شریک و سہیم نہیں ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں سے ایک رات اللہ تعالیٰ نے مخصوص کر دی ہے جس میں وہ اپنے ملائکہ مقربین کے ذریعہ سے اس دنیا میں مامور ملائکہ کو اپنے سال بھر کے پروگرام سے آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ہر حکم کو اس کے مقررہ وقت پر نافذ کریں۔ اسی طرح کی ایک رات میں رب العزت نے قرآن نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو انذار کیا جائے اور اس دنیا کی ہدایت کے لیے ایک آخری رسول کی بعثت کی شکل میں جو رحمت مقدر تھی وہ ظہور میں آئے۔
اس کا حوالہ دینے سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس قرآن کا نزول نہ کوئی اتفاقی واقعہ ہے، نہ یہ کوئی بے وقت کی راگنی ہے، نہ یہ بے موسم کا کوئی خود رَو پودا ہے، نہ یہ کوئی من گھڑت چیز ہے؛ بلکہ یہ اس اسکیم کا ظہور ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی خلق کی اصلاح و ہدایت کے لیے پسند فرمائی ہے۔ چنانچہ اس مبارک رات میں اس کو اس نے اتارا ہے جو تمام امور حکمت کی تقسیم کے لیے خاص ہے۔ پس جن لوگوں کے لیے یہ اتاری گئی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اس کے شایان شان اس کی قدر کریں ورنہ یاد رکھیں کہ جو چیز اللہ نے اس شان و اہتمام کے ساتھ اتاری ہے اس کی ناقدری وہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔ یہ کوئی ہوائی چیز نہیں ہے کہ یہ اس کو مذاق میں اڑا دیں اور یہ اڑ جائے۔ اس کی تصدیق یا تکذیب دونوں ہی چیزیں نہایت اہم نتائج کی حامل ہیں اور یہ نتائج لازماً سامنے آ کے رہیں گے۔
ابدی بادشاہی یا ابدی ہلاکت: ’اِنَّا کُنَّا مُنذِرِیْنَ‘۔ یہ قرآن کے مقصد نزول کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں یہ بات رہی ہے کہ جس طرح پچھلی قوموں کو ان کی نافرمانیوں پر ہلاک کرنے سے پہلے ان کو تمام خیر و شر سے آگاہ کر دیا گیا اسی طرح اہل عرب کو بھی ان کی نافرمانیوں پر سزا دینے سے پہلے اچھی طرح آگاہ کر دیا جائے تاکہ ان میں سے جو ہدایت قبول کرنا چاہیں وہ ہدایت قبول کر لیں اور جو ہدایت نہ قبول کریں ان کے لیے کوئی عذر نہ باقی رہ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اس قرآن کا نزول اور اس رسول کی بعثت اللہ تعالیٰ کی طرف اتمام حجت کے لیے ہے اور سنت الٰہی یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد کسی قوم کو مہلت نہیں ملا کرتی اس وجہ سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ جو قدم اٹھائے یہ سوچ کر اٹھائے کہ ایک فیصلہ کن مرحلہ اس کے سامنے ہے۔ اس کو دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے ۔۔۔ ابدی بادشاہی یا ابدی ہلاکت!!

جاوید احمد غامدی

اِس میں کچھ شک نہیں کہ ہم نے اِسے ایک خیر و برکت والی رات میں اتارا ہے، اِس لیے کہ ہم لوگوں کو خبردار کرنے والے تھے۔

یعنی لیلۃ القدر۔ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱۸۵ میں قرآن نے تصریح کردی ہے کہ اُس کا نزول رمضان کے مہینے میں ہوا، لہٰذا یہ رمضان ہی کی کوئی رات تھی۔ آگے وضاحت ہے کہ یہ فیصلوں کی رات ہے۔ یہ فیصلے رحمت و نقمت، دونوں قسم کے امور سے متعلق ہو سکتے ہیں، لیکن چونکہ اُس ذات کی طرف سے ہوتے ہیں جس کا ہر فیصلہ رحمت و حکمت پر مبنی اور سراسر عدالت ہے، اِس وجہ سے باعتبار نتیجہ یہ مبارک ہی ہوتے ہیں۔ اِس کو خیر و برکت والی رات اِسی بنا پر کہا گیا ہے۔ اِس میں مخاطبین کے لیے یہ تنبیہ ہے کہ وہ اِسے کہانت یا نجوم یا شاعری کی قسم کی کوئی چیز سمجھ کر اپنے آپ کو اِس کی برکتوں سے محروم نہ کریں۔ یہ اُن کے لیے خدا کی عظیم رحمت ہے جس کی قدر اگر اُنھوں نے نہیں پہچانی تو اِس کے نتائج اُن کے لیے نہایت ہول ناک ہوں گے۔

اِس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ پورا قرآن ایک ہی رات میں نازل ہوا ہو، بلکہ اِس کے نزول کا فیصلہ اگر اِس رات میں کر دیا گیا اور پہلی وحی نازل ہو گئی تو ’اَنْزَلْنٰہُ‘ کا جو لفظ اصل میں آیا ہے، وہ اِس صورت حال کی تعبیر کے لیے بالکل موزوں ہو گا۔
خدا خود لوگوں کو خبردار کرنے کا فیصلہ کرے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ چنانچہ اِس کے لیے وہ مبارک رات منتخب کی گئی جس کے بارے میں آگے فرمایا ہے کہ اُس میں مہمات امور کی تقسیم ہوتی ہے۔ اِس سے یہ بات بھی ضمناً معلوم ہوئی کہ جس طرح مادی عالم میں خاص چیزوں کے لیے موسم اور مہینے مقرر ہیں، اِسی طرح روحانی عالم میں بھی خاص خاص کاموں کے لیے دن اور مہینے مقرر کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِن کے ساتھ متعلق کر دیا جائے تو اُس کی تمام برکتیں اُسی دن اور مہینے کی پابندی سے حاصل ہوتی ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اِس رات کی جستجو میں رہے یا لوگوں کو اِس کی ترغیب دی تو اِس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔پروردگار کی طرف سے یہ جان لینے کے بعد کہ یہ بڑی رحمت و برکت کی رات ہے، ایک بندۂ مومن کاردعمل یہی ہو سکتا تھا۔ مسلمان آپ ہی کی اتباع میں ہر سال رمضان کے مہینے میں اِس کی جستجو کرتے اور اِس کے لیے عبادت و ریاضت میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

کتاب مبین کی قسم کھانے کا مطلب سورة زخرف حاشیہ نمبر 1 میں بیان کیا جا چکا ہے۔ یہاں بھی قسم جس بات پر کھائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں ہیں بلکہ ” ہم ” ہیں، اور اس کا ثبوت کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، خود یہ کتاب ہی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد مزید بات یہ فرمائی گئی کہ وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی جس میں اسے نازل کیا گیا۔ یعنی نادان لوگ، جنہیں اپنی بھلائی برائی کا شعور نہیں ہے، اس کتاب کی آمد کو اپنے لیے بلائے ناگہانی سمجھ رہے ہیں اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ لیکن در حقیقت ان کے لیے اور تمام نوع انسانی کے لیے وہ ساعت بڑی سعید تھی جب ” ہم ” نے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانے کے لیے یہ کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن ام الکتاب سے منتقل کر کے حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کردیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق حسب ضرورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر 23 سال تک نازل کیا جاتا رہا۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورة قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا کہ : اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیلَۃِ الْقَدْرِ ، اور یہاں فرمایا کہ : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی : شَھْرُ رَمَضَا نَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰن (البقرہ، 185) ۔

جونا گڑھی

یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں

 بابرکت رات (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ) سے مراد شب قدر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے (شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ) 2 ۔ البقرۃ :185) رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا، یہ شب قدر رمضان کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی رات اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے (جیسا کہ آگے آرہا ہے) چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (٨٣ سال ٤ ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے شب قدر یا لیلہ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اس رات آپ پر قرآن نازل ہوا، یا یہ مطلب ہے لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آ ّسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے ضرورت و مصلحت ٣٣ سالوں تک مختلف اوقات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتا رہا۔ 

فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ

امین احسن اصلاحی

اس رات میں تمام پر حکمت امور کی تقسیم ہوتی ہے

مخاطبوں کو ایک تنبیہ: یہ اسی شب مبارک کی تعریف ہے کہ اس میں تمام مبنی بر حکمت امور کی تقسیم ہوتی ہے۔ اس آیت کو اگر سورۂ قدر کی روشنی میں دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ مقربین کو زمین سے متعلق تمام امور کلیہ سے آگاہ فرماتا ہے اور وہ ان سے زمین میں مامور ملائکہ کو آگاہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے نقشہ کے مطابق اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

’اَمْر‘ کے ساتھ ’حَکِیْم‘ کی صفت اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ اللہ تعالی کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ بھی اس کے عدل و حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اگر کسی قوم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے تو وہ بھی اس کے عدل و حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ مخاطبوں کو تنبیہ ہے کہ اس وقت جو مرحلہ تمہارے سامنے ہے اس کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کرو۔ اگر تم نے لاابالیانہ روش اختیار کیے رکھی اور خدا کی ایک مبنی برحکمت اسکیم کے تقاضے پورے نہ کیے تو اس کے نتائج خود تمہارے حق میں نہایت مہلک ہوں گے۔

جاوید احمد غامدی

اِس رات میں تمام حکمت والے معاملات خاص ہمارے حکم سے تقسیم کیے جاتے ہیں-

یہ درحقیقت اُس فیصلے کی عظمت کا اظہار ہے جو اِس رات میں کیا گیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِس کا حوالہ دینے سے مقصود اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ اِس قرآن کا نزول نہ کوئی اتفاقی واقعہ ہے، نہ یہ کوئی بے وقت کی راگنی ہے، نہ یہ بے موسم کا کوئی خود رو پودا ہے، نہ یہ کوئی من گھڑت چیز ہے، بلکہ یہ اُس اسکیم کا ظہور ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی خلق کی اصلاح و ہدایت کے لیے پسند فرمائی ہے۔ چنانچہ اِس مبارک رات میں اِس کو اُس نے اتارا ہے جو تمام امور حکمت کی تقسیم کے لیے خاص ہے۔ پس جن لوگوں کے لیے یہ اتاری گئی ہے، اُن کا فرض ہے کہ وہ اِس کے شایان شان اِس کی قدر کریں، ورنہ یاد رکھیں کہ جو چیز اللہ نے اِس شان و اہتمام کے ساتھ اتاری ہے، اُس کی ناقدری وہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا۔ یہ کوئی ہوائی چیز نہیں ہے کہ یہ اِس کو مذاق میں اڑا دیں اور یہ اڑ جائے۔ اِس کی تصدیق یا تکذیب، دونوں ہی چیزیں نہایت اہم نتائج کی حامل ہیں اور یہ نتائج لازماً سامنے آ کے رہیں گے۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۲۶۹)

ابو الاعلی مودودی

یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ۔

اصل میں لفظ ” اَمْرٍ حَکِیْم ” استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حکم سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے، کسی غلطی یا خامی کا اس میں کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ایک پختہ اور محکم فیصلہ ہوتا ہے، اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں۔

سورة قدر میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ ، ” اس رات ملائکہ اور جبریل اپنے رب کے اذن سے ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں۔ ” اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم و نسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کر کے اپنے فرشتوں کے حوالے کردیتا ہے۔ اور پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عمل درآمد کرتے رہتے ہیں۔ بعض مفسرین کو جن میں حضرت عکرمہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں، یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے، کیونکہ بعض احادیث میں اسی رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ابن عباس، ابن عمر، مجاہد، قتادہ، حسن بصری، سعید بن جبیر، ابن زید، ابو مالک، ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے، اس لیے کہ قرآن مجید خود اس کی تصریح کر رہا ہے، اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی دوسرے رائے نہیں قائم کی جاسکتی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ” عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے، اور ایسی روایات نصوص کے مقابلے میں نہیں لائی جاسکتیں۔ ” قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ ” نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے “۔ (احکام القرآن)

جونا گڑھی

اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے

​n/a

أَمْرًا مِّنْ عِندِنَآ ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ

امین احسن اصلاحی

خاص ہمارے امر سے۔ بے شک ہم رسول بھیجنے والے تھے

’اَمْرًا‘ کا نصب علیٰ سبیل الاختصاص ہے اور مقصود اس سے اس تقسیم امور کی اہمیت و عظمت کو واضح فرمانا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہوتا ہے خاص امر الٰہی سے ہوتا ہے۔ اس میں کسی اور کو دخل نہیں ہوتا اس وجہ سے بندوں پر واجب ہے کہ اس کو کائنات کے بادشاہ حقیقی کے خاص فرمان کی حیثیت سے قبول کریں اور سچے جذبۂ انقیاد کے ساتھ اس کے ہر حکم کی اطاعت کریں۔ اگر انھوں نے اس کو رد کیا، اس کا مذاق اڑایا اور اس کی تکذیب کی تو یاد رکھیں کہ یہ اس کائنات کے بادشاہ حقیقی سے بغاوت ہو گی جس کی سزا بڑی ہی ہولناک ہے۔

ان پیشین گوئیوں کی طرف اشارہ جو انبیاء سے منقول ہیں: ’اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ‘۔ یہ بالکل ’اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ‘ کے ہم وزن جملہ ہے۔ جس طرح اوپر والی آیت میں قرآن کے نزول کا مقصد انذار بتایا ہے اسی طرح اس آیت میں یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں یہ بات پہلے سے طے تھی کہ وہ بنی اسماعیل میں ایک رسول مبعوث فرمائے گا جو بنی اسماعیل کے لیے بھی باعث رحمت ہو گا اور تمام خلق کے لیے بھی۔ یہ اشارہ ان پیشین گوئیوں کی طرف ہے جو حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح علیہم السلام سے منقول ہیں اور جن کا حوالہ ان کے محل میں ہم دے چکے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اس رسول کی بعثت اسی اسکیم کے تحت ہوئی ہے اور ٹھیک اس رات میں ہوئی ہے جو اس طرح کے امور مہمہ کے ظہور کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور اِس لیے کہ خاص تیرے پروردگار کی رحمت سے ہم (اِن لوگوں کی طرف) رسول بھیجنے والے تھے۔

یعنی لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے محض ایک نبی نہیں، بلکہ رسول بھیجنے والے تھے۔ رسولوں کے بارے میں ہم کئی جگہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ زمین پر خدا کی عدالت بن کر آتے اور اپنی قوموں کا فیصلہ کرکے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو اُن پیشین گوئیوں کی طرف بھی اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح علیہم السلام سے بنی اسمٰعیل کے اندر آخری رسول کی بعثت سے متعلق منقول ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ اُن کے لیے ہماری اِس عظیم رحمت کاظہور ایک ایسی رات میں ہوا جو اِس طرح کے امور مہمہ کے ظہور کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ آیت میں ’رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ‘ کے الفاظ اِس تنبیہ کے لیے آئے ہیں کہ وہ اگر تمھاری تصدیق نہیں کریں گے تو تمھارا کچھ نہیں بگاڑیں گے، اپنے ہی کو خدا کی سب سے بڑی رحمت سے محروم کریں گے۔

ابو الاعلی مودودی

ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے۔ ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے۔

n/a

جونا گڑھی

ہمارے پاس سے حکم ہو کر ہم ہی ہیں رسول بنا کر بھیجنے والے۔

 یعنی سارے فیصلے ہمارے حکم و اذن اور ہماری تقدیر و مشیت سے ہوتے ہیں۔ 

رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ

امین احسن اصلاحی

خاص تیرے رب کی رحمت سے۔ بے شک سننے جاننے والا وہی ہے

آنحضرت صلعم کے رحمت ہونے کی طرف اشارہ: یہ ارسال رسول کا مقصد واضح فرمایا اور خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ تمہارے رب نے تم کو اپنی جانب سے ایک عظیم رحمت کے طور پر مبعوث فرمایا ہے۔ اگر لوگوں نے تمہاری قدر نہ کی تو تمہارا کچھ نہیں بگاڑیں گے، اپنے ہی کو اللہ کی سب سے بڑی رحمت سے محروم کریں گے۔ آیت ۳ میں رسول کے منذر ہونے کا ذکر تھا، اس آیت میں اس کے رحمت و بشارت ہونے کی طرف اشارہ ہو گیا۔ اور یہ دونوں باتیں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ جو چیز سب سے بڑی رحمت ہو گی وہ سب سے بڑی نقمت بھی بن سکتی ہے اگر اس کی قدر نہ کی جائے۔

یہاں یہ امر پیش نظر رہے کہ انذار کے پہلو کو مقدم رکھا ہے درآنحالیکہ قرآن کے نزول اور رسول کی بعثت سے اصل مقصود خلق پر رحمت ہوتا ہے اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف، سورہ کے عمود پر تقریر کرتے ہوئے، ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ اس سورہ کا اصل مزاج انذار ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سمع و علم کا لازمی تقاضا: ’اِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘۔ ان صفات کے حوالہ میں ایک پہلو یہ ملحوظ ہے کہ اس کائنات کا رب ایک دانا و بینا ہستی ہے، وہ اپنی خلق کو شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ سکتا۔ اس کے دانا و بینا ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ خلق کے حالات پر پوری نظر رکھے۔ لوگوں کو اپنے احکام و اوامر سے آگاہ کرے۔ اگر وہ ان کی تعمیل کریں تو دنیا و آخرت دونوں میں اس کا انعام دے اور اگر سرکشی کریں تو اس کی سزا دے۔ دوسرا یہ کہ اس وقت اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے ساتھ قریش کے لیڈر جو کچھ کر رہے ہیں خدائے سمیع و علیم اس سے بے خبر نہیں ہے۔ ہر بات اس کے علم میں ہے اور جب ہر بات اس کے علم میں ہے اور کوئی چیز بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے تو نبی اور اہل ایمان اطمینان رکھیں کہ جو کچھ اس کی حکمت کا تقاضا ہو گا وہ لازماً ظہور میں آئے گا۔ کوئی چیز بھی اس کی راہ میں مزاحم نہ ہو سکے گی۔
ان آیات کے مقدرات کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے سورۂ قصص کی آیات ۴۵-۴۶ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔

جاوید احمد غامدی

یقیناً وہی سمیع و علیم ہے۔ اُس پروردگار کی رحمت سے۔

یعنی سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِن صفات کے حوالے میں ایک پہلو یہ ملحوظ ہے کہ اِس کائنات کا رب ایک دانا و بینا ہستی ہے، وہ اپنی خلق کو شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ سکتا۔ اُس کے دانا و بینا ہونے کالازمی تقاضا ہے کہ وہ خلق کے حالات پر پوری نظر رکھے۔ لوگوں کو اپنے احکام و اوامر سے آگاہ کرے۔ اگر وہ اُن کی تعمیل کریں تو دنیا و آخرت ،دونوں میں اُس کا انعام دے اور اگر سرکشی کریں تو اُس کی سزا دے۔ دوسرا یہ کہ اِس وقت اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کے ساتھ قریش کے لیڈر جو کچھ کر رہے ہیں، خداے سمیع و علیم اُس سے بے خبر نہیں ہے۔ ہر بات اُس کے علم میں ہے اور جب ہر بات اُس کے علم میں ہے اور کوئی چیز بھی اُس کی قدرت سے باہر نہیں ہے تو نبی اور اہل ایمان اطمینان رکھیں کہ جو کچھ اُس کی حکمت کا تقاضا ہو گا، وہ لازماً ظہور میں آئے گا۔ کوئی چیز بھی اُس کی راہ میں مزاحم نہ ہو سکے گی۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۲۷۱)

ابو الاعلی مودودی

تیرے رب کی رحمت کے طور پر۔ یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

یعنی یہ کتاب دے کر ایک رسول کو بھیجنا نہ صرف حکمت کا تقاضا تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا بھی تھا، کیونکہ وہ رب ہے اور ربوبیت صرف اسی بات کی متقاضی نہیں ہے کہ بندوں کے جسم کی پرورش کا سامان کیا جائے اور انہیں تاریکی میں بھٹکتا نہ چھوڑ دیا جائے۔

اس سیاق وسباق میں اللہ تعالیٰ کی ان دو صفت کو بیان کرنے سے مقصود لوگوں کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ صحیح علم صرف وہی دے سکتا ہے، کیونکہ تمام حقائق کو وہی جانتا ہے۔ ایک انسان تو کیا، سارے انسان مل کر بھی اگر اپنے لیے کوئی راہ حیات متعین کریں تو اس کے حق ہونے کی کوئی ضمانت نہیں، کیونکہ پوری نوع انسانی یکجار ہو کر بھی ایک سمیع وعلیم نہیں بنتی۔ اس کے بس میں یہ ہے ہی نہیں کہ ان تمام حقائق کا احاطہ کرے جن کا جاننا ایک صحیح راہ حیات متعین کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ وہی سمیع وعلیم ہے، اس لیے وہی یہ بتا سکتا ہے کہ انسان کے لیے ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا، حق کیا ہے اور باطل کیا، خیر کیا ہے اور شر کیا۔

جونا گڑھی

آپ کے رب کی مہربانی سے وہی سننے والا جاننے والا۔

 یعنی انزال کتب کے ساتھ (رسولوں کا بھیجنا) یہ بھی ہماری رحمت ہی کا ایک حصہ ہے تاکہ وہ ہماری نازل کردہ کتابوں کو کھول کر بیان کریں اور ہمارے احکام لوگوں تک پہنچائیں۔ اس طرح مادی ضرورتوں کی فراہمی کے ساتھ ہم نے اپنی رحمت سے لوگوں کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کا بھی سامان مہیا کردیا۔ 

رَبِّ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَآ ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ

امین احسن اصلاحی

اس رب کی رحمت سے جو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا خداوند ہے اگر تم یقین کرنے والے بنو

مخالفین کو ایک سخت وعید: یہ مخالفین کو وعید اور بڑی ہی سخت وعید ہے۔ فرمایا کہ اس انذار و تبشیر کو محض ہوائی بات نہ سمجھو جو محض تم پر دھونس جمانے کے لیے کہی جا رہی ہو بلکہ یہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کے خداوند کی طرف سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہی ہر چیز کا مالک اور خداوند ہے تو کس کے امکان میں ہے کہ اس کے کسی ارادے میں مزاحم ہو سکے۔ اگر وہ لوگوں کو پکڑنا چاہے تو جب چاہے پکڑ لے کوئی اس کو بچا نہیں سکتا اور اگر وہ کسی کو کچھ بخشنا چاہے تو جو چاہے بخش دے کوئی اس کو چھین نہیں سکتا۔

’اِنْ کُنۡتُمۡ مُّوۡقِنِیْنَ‘۔ یہ مخاطبوں کو ملامت ہے کہ ہے تو یہ حقیقت بالکل بدیہی لیکن کسی چیز کے ماننے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ بالکل واضح اور بدیہی ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے اندر اس کے ماننے کا ارادہ پایا جاتا ہو۔ اگر یہ ارادہ کسی کے اندر موجود نہ ہو تو بدیہی سے بدیہی حقیقت کا بھی وہ انکار کر بیٹھتا ہے اور کوئی بڑے سے بڑا منطقی بھی اس کو قائل کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔

جاوید احمد غامدی

جو زمین اور آسمانوں اور اُن کے درمیان کی سب چیزوں کا پروردگار ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

آسمانوں اور زمین کا رب اور ہر اُس چیز کا رب جو آسمان و زمین کے درمیان ہے اگر تم لوگ واقعی یقین رکھنے والے ہو۔

اہل عرب خود اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات اور اس کی ہر چیز کا رب (مالک و پروردگار) ہے۔ اس لیے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم بےسوچے سمجھے محض زبان ہی سے یہ اقرار نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں واقعی اس کی پروردگاری کا شعور اور اس کے مالک ہونے کا یقین ہے، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ (1) انسان کی رہنمائی کے لیے کتاب اور رسول کا بھیجنا اس کی شان رحمت و پروردگاری کا عین تقاضا ہے، اور (2) مالک ہونے کی حیثیت سے یہ اس کا حق اور مملوک ہونے کی حیثیت سے یہ تمہارا فرض ہے کہ اس کی طرف سے جو ہدایت آئے اسے مانو اور جو حکم آئے اس کے آگے سر اطاعت جھکا دو۔

جونا گڑھی

جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔

n/a

لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ رَبُّكُمْ وَرَبُّ ءَابَآئِكُمُ ٱلْأَوَّلِينَ

امین احسن اصلاحی

اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، تمہارا بھی رب اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا بھی رب

یہ اوپر والے مضمون ہی کی مزید تاکید ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں جس کی سفارش تمہارے کچھ کام آ سکے۔ زندگی اور موت سب اسی کے اختیار میں ہے۔ وہی تمہارا بھی رب ہے اور وہی تمہارے اگلے آباء و اجداد کا بھی رب ہے۔ اگر تمہارے آباء و اجداد نے اس کے سوا کسی اور کو پوجا تو یہ ان کی سفاہت و جہالت ہے۔ ان کی تقلید کو اپنے لیے دلیل نہ بناؤ ورنہ پرائے شگون پر اپنی ناک کٹوا بیٹھو گے۔

جاوید احمد غامدی

اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے، تمھارا پروردگار اور تمھارے باپ دادوں کا پروردگار جو پہلے گزر چکے ہیں۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

کوئی معبود اُس کے سوا نہیں ہے۔ وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تمہارا رب اور تمہارے اُن اسلاف کا رب جو پہلے گزر چکے ہیں۔

معبود سے مراد ہے حقیقی معبود جس کا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت (بندگی و پرستش) کی جائے۔

یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ جس نے بےجان مادوں میں جان ڈال کر تم کو جیتا جاگتا انسان بنایا، اور جو اس امر کے کلی اختیارات رکھتا ہے کہ جب تک چاہے تمہاری اس زندگی کو باقی رکھے اور جب چاہے اسے ختم کر دے، اس کی تم بندگی نہ کرو، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرو، یا اس کے ساتھ دوسروں کی بندگی بھی کرنے لگو۔

اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہارے جن اسلاف نے اس کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنائے، ان کا رب بھی حقیقت میں وہی تھا۔ انہوں نے اپنے اصلی رب کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے کوئی صحیح کام نہ کیا تھا کہ ان کی تقلید کرنے میں تم حق بجانب ہو اور ان کے فعل کو اپنے مذہب کے درست ہونے کی دلیل ٹھہرا سکو۔ ان کو لازم تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کرتے کیونکہ وہی ان کا رب تھا۔ لیکن اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو تمہیں لازم ہے کہ سب کی بندگی چھوڑ کر اسی ایک کی بندگی اختیار کرو کیونکہ وہی تمہارا رب ہے۔

جونا گڑھی

کوئی معبود نہیں اس کے سوا وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے، وہی تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا۔

n/a

بَلْ هُمْ فِى شَكٍّۢ يَلْعَبُونَ

امین احسن اصلاحی

بلکہ وہ شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں

انکار کی اصل علت: یعنی یہ انذار و تبشیر ہے تو ایک امر واقعہ جس میں کسی ذی ہوش کے لیے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن یہ لوگ اپنی خواہشوں کے ایسے غلام ہیں کہ جب تک اس چیز کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں جس سے ان کو آگاہ کیا جا رہا ہے اس وقت تک ماننے والے نہیں ہیں، اس وجہ سے شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے اور اس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ زندگی کے معاملات میں جن لوگوں کی روش لاابالیانہ ہے ان کو قائل کرنا تمہارا کام نہیں ہے۔ یہ لوگ اس وقت قائل ہوں گے جب عذاب کا تازیانہ دیکھ لیں گے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔

جاوید احمد غامدی

(لیکن یہ ماننے والے نہیں ہیں)، بلکہ یہ شک میں پڑے ہوئے کھیل رہے ہیں۔

یعنی ایک انتہائی سنجیدہ معاملے میں ایسا رویہ اختیار کر رہے ہیں جو کوئی برخود غلط اور لاابالی شخص ہی اختیار کر سکتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

(مگر فی الواقع اِن لوگوں کو یقین نہیں ہے) بلکہ یہ اپنے شک میں پڑے کھیل رہے ہیں۔

اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دہریے ہوں یا مشرکین، ان سب پر وقتاً فوقتاً ایسی ساعتیں آتی رہتی ہیں جب ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھے بیٹھے ہو اس میں کہیں نہ کہیں جھول موجود ہے۔ دہریہ اپنے انکار خدا میں بظاہر خواہ کتنا ہی سخت ہو، کسی نہ کسی وقت اس کا دل یہ شہادت دے گزرتا ہے کہ خاک کے ایک ذرے سے لے کر کہکشانوں تک اور گھاس کی ایک پتی سے لے کر انسان کی تخلیق تک یہ حیرت انگیز، حکمت سے لبریز نظام کسی صانع حکیم کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ اسی طرح ایک مشرک اپنے شرک میں خواہ کتنا ہی گہرا ڈوبا ہوا ہو، کبھی نہ کبھی اس کا دل بھی یہ پکار اٹھتا ہے کہ جنہیں میں معبود بنائے بیٹھا ہوں یہ خدا نہیں ہو سکتے۔ لیکن اس قلبی شہادت کا نتیجہ نہ تو یہ ہوتا ہے کہ انہیں خدا کے وجود اور اس کی توحید کا یقین حاصل ہوجائے، نہ یہی ہوتا ہے کہ انہیں اپنے شرک اور اپنی دہریت میں کامل یقین و اطمینان حاصل رہے۔ اس کے بجائے ان کا دین در حقیقت شک پر قائم ہوتا ہے خواہ اس میں یقین کی کتنی ہی شدت وہ دکھا رہے ہوں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ شک ان کے اندر بےچینی کیوں نہیں پیدا کرتا، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو کیوں نہیں کرتے کہ یقین کی اطمینان بخش بنیاد انہیں مل سکے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں سنجیدگی ہی سے تو وہ محروم ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف دنیا کی کمائی اور اس کے عیش کی ہوتی ہے جس کی فکر میں وہ اپنے دل اور دماغ اور جسم کی ساری طاقتیں خرچ کر ڈالتے ہیں۔ رہے دین کے مسائل، تو وہ حقیقت میں ان کے لیے ایک کھیل، ایک تفریح، ایک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہوتے جن پر سنجیدگی کے ساتھ چند لمحے بھی وہ غور و فکر میں صرف نہیں کرسکتے۔ مذہبی مراسم ہیں تو تفریح کے طور پر ادا کیے جا رہے ہیں۔ انکار و دہریت کی بحثیں ہیں تفریح کے طور پر کی جا رہی ہیں۔ دنیا کے مشاغل سے اتنی فرصت کسے ہے کہ بیٹھ کر یہ سوچے کہ کہیں ہم حق سے منحرف تو نہیں ہیں اور اگر حق سے منحرف ہیں تو اس کا انجام کیا ہے۔

جونا گڑھی

بلکہ وہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں ۔

 یعنی حق اور اس کے دلائل کے سامنے آگئے۔ لیکن وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے شک میں مبتلا ہیں اور اس شک کے ساتھ استہزاء اور کھیل کود میں پڑے ہیں۔ 

فَٱرْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِى ٱلسَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ

امین احسن اصلاحی

پس انتظار کرو اس دن کا جس دن آسمان ایک کھلے ہوئے دھوئیں کے ساتھ نمودار ہو گا

ان کے لیے اس دن کا انتظار کرو جس دن آسمان ہر ایک کو نظر آنے والے دھوئیں کے ساتھ نمودار ہو گا جو سب پر چھا جائے گا اور وہ زبان حال سے اعلان کرے گا کہ یہ ایک دردناک عذاب ہے۔

یہ اس عذاب کی دھمکی ہے جس کا لوگ مطالبہ کر رہے تھے اور جس کو دیکھے بغیر نبی کے انذار کی تصدیق کے لیے تیار نہیں تھے۔
’دخان مبین‘ سے کیا مراد ہے: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’دُخَانٌ مُّبِیْنٍ‘ سے کیا مراد ہے؟ دخان کے معنی دھوئیں کے ہیں اور اس کے ساتھ ’مبین‘ کی صفت واضح مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ دھواں ایسا ہو گا کہ ہر کہ و مہ اور ہر چھوٹے بڑے کو بالکل نمایاں نظر آئے گا۔ کسی کے لیے بھی اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہو گی۔
مفسرین میں سے ایک گروہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ دھواں ظہور قیامت کے وقت ظاہر ہو گا۔ اس کی تائید میں انھوں نے ایک روایت بھی نقل کی ہے لیکن ناقدین حدیث نے اس روایت کو قصہ گویوں کی روایت قرار دے کر اس کی تردید کر دی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ روایت آیات کے سیاق و سباق کے بھی خلاف ہے۔ آگے آپ دیکھیں گے کہ سیاق کلام صاف ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ذکر قیامت کا نہیں بلکہ کسی ایسے عذاب کا ہے جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجہ میں ان کی قوموں پر آیا ہے، جس کی تفصیلات عاد، ثمود اور قوم شعیب وغیرہ کی سرگزشتوں میں گزر چکی ہیں۔
ایک دوسرے گروہ نے اس سے ایک قحط مراد لیا ہے جو ان کے بیان کے مطابق، ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے نتیجہ میں قریش پر آیا اور اس نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ لوگ مردار تک کھانے پر مجبور ہو گئے اور بھوک سے ہر شخص کا یہ حال ہوا کہ آسمان کی طرف لوگ نظر اٹھاتے تو وہ بالکل دھواں ہی دھواں نظر آتا۔
عام طور پر ہمارے مفسرین نے اسی دوسرے قول کو اختیار کیا ہے لیکن مجھے اس میں کئی باتیں کھٹکتی ہیں۔
اول یہ کہ اپنی پوری قوم کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس طرح کی بددعا کا ذکر صرف اس تفسیری روایت ہی میں ملتا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور شہادت اس کی موجود نہیں ہے کہ حضورؐ نے اپنی قوم کے لیے بددعا فرمائی ہو۔ آپ کی دعا اپنی قوم کے لیے ہمیشہ یہی رہی کہ

’رَبِّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ‘
(اے میرے رب، میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ جانتے نہیں)۔

سب سے زیادہ نازک موقع ہجرت کا تھا۔ ہجرت کے موقع پر بعض دوسرے رسولوں نے اپنی اپنی قوموں کے لیے بددعا کی بھی ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس موقع پر بھی کوئی بددعا کا کلمہ نہیں نکلا۔ آپ نے فرمایا تو بس یہ فرمایا کہ ’اے مکہ‘ تو مجھے بہت عزیز ہے لیکن کیا کروں، تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے؛ مختلف جنگوں کے مواقع پر بھی، جب کہ قریش اور مسلمانوں کی فوجیں آمنے سامنے ہوئی ہیں، آپ نے جو دعائیں کی ہیں وہ تمام تر اہل ایمان کے لیے ثبات قدم اور حق کے لیے نصرت کے مضمون پر مشتمل ہیں۔ دشمنوں کے خلاف کوئی کلمہ زبان مبارک سے نکلا ہے تو وہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ رعب ڈال دے اور ان کے قدموں کو متزلزل کر دے۔ مجھے یاد نہیں کہ ان مواقع پر بھی کبھی اپنی پوری قوم کے لیے آپ نے بددعا فرمائی ہو۔
دوسری یہ کہ ہجرت کے بعد سب سے زیادہ نازک موقع حدیبیہ کا موقع ہے جب قریش کی عصبیت جاہلیت بالکل عریاں ہو کر سامنے آئی اور مسلمانوں کے جذبات ان کے خلاف آخری حد تک مشتعل ہو گئے۔ لیکن اس موقع پر بھی آپؐ نے قریش کے لیے کوئی بددعا نہیں کی۔ صرف یہی نہیں کہ بددعا نہیں کی بلکہ مسلمانوں کے مشتعل جذبات کو دبایا اور ان کو جنگ سے روک دیا اور قرآن نے، جیسا کہ سورۂ فتح میں تفصیل آئے گی، اس جنگ کو روک دینے کی حکمت یہ واضح فرمائی کہ جنگ ہوتی تو اندیشہ تھا کہ اس سے ان لوگوں کو نقصان پہنچتا جو دل سے مسلمان تھے لیکن اپنی مجبوریوں کے باعث ابھی مکہ سے ہجرت نہیں کر سکے تھے۔ غور کیجیے کہ جب مکہ کے ان مخفی مسلمانوں ہی کے خیال سے مسلمانوں نے اپنی کھینچی ہوئی تلواریں میانوں میں کر لیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کر لیا جو صحابہؓ کے عام جذبات کے خلاف تھا تو انہی اہل مکہ کے لیے کسی ایسے قحط کی بددعا آپؐ کیسے کر سکتے تھے جس میں لوگ مردار کھانے پر مجبور ہو جائیں؟ اس قسم کا کوئی قحط نمودار ہوتا تو اس کی زد میں مکہ اور طائف کے سردار ہی تو نہ آتے! اس کا اصلی حملہ تو غرباء اور عوام پر ہوتا جن کے اندر ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی تھی۔
تیسری یہ کہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کسی دعا کی ہدایت کی گئی ہے نہ کسی بددعا کی، بلکہ صبر کے ساتھ ایک ایسے دن کے انتظار کی ہدایت فرمائی گئی ہے جس دن آسمان ایک ایسے دھوئیں کے ساتھ نمودار ہو گا جو پوری قوم پر چھا جائے گا اور جو زبان حال سے یہ منادی کرے گا کہ یہ وہی دردناک عذاب ہے جس سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا لیکن لوگ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ گویا اس کی نوعیت ایک وعید کی ہے اور وعید حالات کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ قرآن میں قریش کو باربار اس طرح کے عذاب سے ڈرایا گیا جس طرح کے عذاب عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ پر آئے لیکن اس قسم کا کوئی عذاب ان پر نہیں آیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب کی اکثریت ایمان لائی۔ صرف تھوڑے سے اشرار اپنی شرارت پر اڑے رہے جو یا تو اہل ایمان کے ساتھ تصادم میں ختم ہو گئے یا فتح مکہ کے موقع پر انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے۔
چوتھی یہ کہ قحط کی تعبیر ’دخان مبین‘ سے کوئی موزوں تعبیر نہیں ہے۔ قحط کا مضمون عربی شاعری کا ایک پامال مضمون ہے۔ جس زمانے میں شمال کی ٹھنڈی ہوائیں چلتیں ملک میں ایک قحط کی سی حالت پیدا ہو جاتی۔ بعض علاقوں میں حالات نہایت سنگین بھی ہو جاتے۔ عرب شعراء اپنے قصائد میں ان حالات کی نہایت مؤثر تصویر کھینچتے ہیں اور مختلف استعارات، کنایات اور تشبیہات سے پورے حالات نگاہوں کے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی شاعر نے بھی کسی شدید سے شدید قحط کو بھی ’دخان مبین‘ سے تعبیر کیا ہو یا اس کے اثر کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب بیان اختیار کیا ہو۔
ان وجوہ سے قحط والی روایت اگر صحیح بھی ہے تو اس کا تعلق اس آیت سے نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی قحط پڑا ہو، یہ بھی امکان ہے کہ یہ قحط بہت سخت ہو گیا ہو۔ اللہ تعالی کی یہ سنت بھی رہی ہے کہ رسولوں کی بعثت کے دور میں ان کی قومیں ایسی آزمائشوں میں ڈالی گئی ہیں جس سے ان کے اندر تنبہ اور انابت پیدا ہو۔ اس سنت کے اشارات قرآن میں موجود ہیں۔ ان تمام امکانات کے باوجود اس آیت کا تعلق کسی ایسے قحط سے نہیں معلوم ہوتا جس کی شدت سے ہر شخص کا یہ حال ہو گیا کہ اس کو آسمان دھوئیں کی شکل میں نظر آنے لگا۔
’دخان مبین‘ کی تعبیر سے ذہن اگر منتقل ہوتا ہے تو قحط کی طرف نہیں بلکہ ’حاصب‘ کے عذاب کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ عرب کی پچھلی قوموں پر رسولوں کی تکذیب کے نتیجہ میں بیشتر یہی عذاب آیا ہے۔ عاد، ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ کی جو سرگزشتیں پیچھے گزر چکی ہیں ان میں اس عذاب کی تفصیلات بیان ہو چکی ہیں۔ شعرائے عرب کے کلام اور قرآن سے اس کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ ’دخان مبین‘ کی تعبیر سے بہت ملتی جلتی ہوئی ہے۔ اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ سیاہ غبار کا ایک ستون سا آسمان کی طرف اٹھتا نظر آتا ہے۔ اس غبار میں جب تک سورج بالکل چھپ نہیں جاتا اس کی شعاعیں بھی اس کے اندر مخلوط ہوتی ہیں جس سے دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی جنگل میں آگ لگی ہوئی ہے جس کا دھواں آسمان تک اٹھ رہا ہے۔ پھر جب ہوا کا زور بڑھتا ہے اور یہ طوفان کسی طرف کا رخ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابر سیاہ چھا رہا ہو جو بس برسنے والا ہی ہے۔ پھر یہ ایک ہولناک شکل اختیار کر لیتا ہے اور بستیوں کو ریت اور کنکر پتھر کی بارش سے ڈھانک دیتا ہے۔ قوم عاد پر جب عذاب آیا تو انھوں نے فضا کے سیاہ غبار کو ابرسیاہ خیال کیا۔ چنانچہ سورۂ احقاف میں ان کا ذکر یوں آیا ہے:

’فَلَمَّا رَأَوْہُ عَارِضاً مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِہِمْ قَالُوا ہَذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِہِ رِیْحٌ فِیْہَا عَذَابٌ أَلِیْمٌ‘ (۲۴)
(پس جب انھوں نے اس عذاب کو ایک ابر کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو بولے کہ یہ تو بادل ہے جو ہمیں سیراب کرنے والا ہے۔ نہیں بلکہ یہ وہی عذاب ہے جس کے لیے تم نے جلدی مچا رکھی تھی۔ ایک بادتند، جس کے اندر ایک دردناک عذاب ہے)۔

اسی عذاب کو قوم شعیب کی تباہی کے ذکر میں ’عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ‘ سے تعبیر فرمایا گیا:

’فَکَذَّبُوہُ فَأَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ ....‘ (الشعرا: ۱۸۹)
(پس انھوں نے اس کی تکذیب کر دی جس کے نتیجہ میں ان کو یوم ظلہ کے عذاب نے پکڑ لیا)۔

’ظلّۃ‘ چھتری اور سائبان اور شامیانے وغیرہ کے لیے بھی آتا ہے اور ابر کے لیے بھی۔
’حاصب‘ کا عذاب اپنے ابتدائی مرحلہ میں اٹھتے ہؤے ابر یا دھوئیں ہی کی شکل میں نظر آتا ہے اس وجہ سے قرین قیاس بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ اسی عذاب کی دھمکی ہو۔ یہ دھمکی نہایت واضح الفاظ میں قریش کو عاد اور ثمود وغیرہ کی سرگزشتیں سنا کر دی بھی گئی تھی۔ ہم نہایت وضاحت کے ساتھ پچھلی سورتوں کی تفسیر میں ان قوموں کے عذاب کی نوعیت واضح کر چکے ہیں۔ آگے کی سورتوں کی تفسیر میں بھی یہ تفصیلات آئیں گی۔ وہاں ہم استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بھی اس باب میں ان شاء اللہ پیش کریں گے۔
یہ دھمکی، جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں، اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ مخالفین اگر رسول کی تکذیب کر دیں گے تو ان پر عذاب آ جائے گا لیکن مشرکین قریش کی اکثریت، جیسا کہ معلوم ہے۔ آہستہ آہستہ مسلمان ہو گئی اور صلح حدیبیہ کے تو ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ بالتدریج معاندین کا زور بالکل ٹوٹ گیا، یہاں تک کہ فتح مکہ کے بعد ’یَدْخُلُوۡنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ أَفْوَاجًا‘ (النصر: ۲) کی پیشین گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ اس کی صداقت کا مشاہدہ ہر شخص نے اپنی آنکھوں سے کر لیا۔ ظاہر ہے کہ جو دھمکی تکذیب کی شرط کے ساتھ مشروط تھی اس تصدیق کے بعد اس کے ظہور میں آنے کے لیے کوئی وجہ باقی نہیں رہی چنانچہ قریش بحیثیت مجموعی اللہ کے عذاب سے محفوظ رہے۔ صرف ان کے وہ اشرار مسلمانوں کی تلواروں کی زد میں آئے جو ان پر حملہ آور ہوئے اور تلواروں سے بچ رہے انھوں نے فتح مکہ کے بعد گھٹنے ٹیک دیے۔

جاوید احمد غامدی

سو اُس دن کا انتظار کرو، (اے پیغمبر)، جب آسمان صریح دھوئیں کے ساتھ نمودار ہو گا۔

یہ ساف و حاصب کے طوفان کی تعبیر ہے جس سے رسولوں کی قومیں بالعموم ہلاک کی گئیں۔اِسے ’دُخَانٍ مُّبِیْن‘ یا صریح دھواں اِس لیے کہا گیا کہ اِس طرح کا طوفان اپنے ابتدائی مرحلے میں اٹھتے ہوئے ابر یا دھوئیں ہی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اِس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ سیاہ غبار کا ایک ستون سا آسمان کی طرف اٹھتا نظر آتا ہے۔ اِس غبار میں جب تک سورج بالکل چھپ نہیں جاتا، اُس کی شعاعیں بھی اُس کے اندر مخلوط ہوتی ہیں جس سے دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی جنگل میں آگ لگی ہوئی ہے جس کا دھواں آسمان تک اٹھ رہا ہے۔ پھر جب ہوا کا زور بڑھتا ہے اور یہ طوفان کسی طرف کا رخ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابر سیاہ چھا رہا ہے جو بس برسنے ہی والا ہے۔ پھر یہ ایک ہول ناک شکل اختیار کر لیتا ہے اور بستیوں کی بستیوں کو ریت اور کنکر پتھر کی بارش سے ڈھانک دیتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۲۷۵)

ابو الاعلی مودودی

اچھا انتظار کرو اُس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا۔

n/a

جونا گڑھی

آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا

 یہ کافروں کے لئے تہدید ہے کہ اچھا آپ اس دن کا انتظار فرمائیں جب آسمان پر دھوئیں کا ظہور ہوگا۔ 

Page 1 of 6 pages  1 2 3 >  Last ›