وَٱلذَّٰرِيَـٰتِ ذَرْوًا

امین احسن اصلاحی

شاہد ہیں تند ہوائیں جو اڑاتی ہیں غبار

’و‘ قسم کے لیے ہے اور قسم شہادت کے لیے: ’وَالذَّارِیَاتِ‘ میں ’و‘ قسم کے لیے ہے اور اس بات کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کرتے آ رہے ہیں کہ قرآن میں اس طرح اشیاء کی جو قسمیں کھائی گئی ہیں اس کا مقصود ان اشیاء کی تعظیم نہیں، بلکہ ان کو اس دعوے پر شہادت کے لیے پیش کرنا ہے جو قسم کے بعد مذکور ہوتا ہے یا سیاق کلام سے سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ یہ قسم بھی شہادت ہی کے لیے ہے۔ اس کا ترجمہ اگر شہادت کے لفظ سے کیا جائے تو ہمارا خیال ہے کہ یہ زیادہ معنی خیز ہو گا۔

’ذَارِیَاتٌ‘: ’ذَارِیَاتٌ‘۔ غبار اڑانے والی ہواؤں کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہواؤں کی صفت کے طور پر آتا ہے۔ لیکن یہ اپنے موصوف کے لیے اس طرح معروف ہو چکا ہے کہ اس کے قائم مقام کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے۔ ’ذَارِیَاتٌ‘ کے بعد لفظ ’ذَرْوًا‘ کے اضافے سے معنی میں اسی طرح کا اضافہ ہو گیا ہے جس طرح ’ضَرَبَ ضَرْبًا‘ کے اندر تاکید فعل کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے۔ اس طرح کی تاکیدات کا مفہوم اردو ترجمے میں منتقل کرنا بعض اوقات مشکل ہوتا ہے۔ یہاں اگر ہواؤں کے ساتھ ’تند‘ کا اضافہ کر دیا جائے تو ہمارا خیال ہے کہ یہ مفہوم ادا ہو جائے گا۔

جاوید احمد غامدی

تند ہوائیں گواہی دیتی ہیں جو غبار اڑاتی ہیں

اصل الفاظ ہیں: ’وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا‘۔ اِن میں ’ذَرْوًا‘ تاکید فعل کے لیے ہے۔ لفظ ’تند‘ سے ہم نے اِسی مفہوم کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ عربی زبان کا یہ خاص اسلوب ہے جسے اردو ترجمے میں منتقل کرنا آسان نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے اُن ہواؤں کی جو گرد اڑانے والی ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر ۔

 اس سے مراد ہوائیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔ 

فَٱلْحَـٰمِلَـٰتِ وِقْرًا

امین احسن اصلاحی

پھر اٹھا لیتی ہیں بوجھ۔

’ف‘ کے ساتھ عطف کے فوائد: ’فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا‘۔ جب صفات کا عطف ’ف‘ کے ساتھ ہو تو یہ دو باتوں پر دلیل ہوتا ہے۔ ایک اس بات پر کہ ان کے اندر ترتیب ہے، دوسری اس بات پر کہ یہ تمام صفتیں ایک ہی موصوف کی ہیں۔ عربیت کے اس قاعدے کی رو سے یہاں جو تین صفتیں ’ف‘ کے ساتھ بیان ہوئی ہیں وہ لازماً ہواؤں ہی کی ہوں گی۔ جن لوگوں نے ان کو الگ الگ چیزوں کی صفت مانا ہے ان کی رائے عربیت کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے نظائر کے بھی۔

سورۂ عادیات میں ہے:

وَالْعَادِیَاتِ ضَبْحاً ۵ فَالْمُورِیَاتِ قَدْحاً ۵ فَالْمُغِیْرَاتِ صُبْحاً ۵ فَأَثَرْنَ بِہِ نَقْعاً ۵ فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا (۱-۵)
’’گواہی دیتے ہیں وہ جو ہانپتے دوڑتے ہیں، پھر ٹھوکروں سے چنگاریاں نکالتے ہیں، پھر صبح کو دھاوا کرتے ہیں، پھر غبار اٹھاتے ہیں، پھر غول کے اندر گھس جاتے ہیں۔‘‘

ظاہر ہے کہ یہ تمام صفتیں الگ الگ چیزوں کی نہیں ہیں، بلکہ گھوڑوں ہی کی ہیں اور غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان کے بیان میں ترتیب بھی ملحوظ ہے۔
کلام عرب میں بھی اس اسلوب کی مثالیں بہت ہیں۔ ہم صرف ابن زیابہ کا ایک مشہور شعر نقل کرتے ہیں:

یا لھف زیابۃ للحارث
الصابح، فالغانم، فالاٰئب
(زیابہ کی طرف سے افسوس ہے حارث پر، جس نے غارت گری کی، لوٹا اور چل دیا)

’وِقْرٌ‘: ’وِقْرٌ‘ کے معنی بوجھ اور بار کے ہیں۔ یوں تو اس سے ہر وہ بوجھ اور بار مراد ہو سکتا ہے جس کو ہوائیں اٹھاتی ہیں، مثلاً غبار اور کنکر وغیرہ لیکن اس کا معروف استعمال بادلوں کے لیے ہے۔ مثلاً

وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْراً بَیْْنَ یَدَیْْ رَحْمَتِہِ حَتَّی إِذَا أَقَلَّتْ سَحَاباً ثِقَالاً سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِہِ الْمَآءَ (الاعراف ۵۷)
’’اور وہی ہے جو بھیجتا ہے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر اپنے باران رحمت سے پہلے۔ یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں ہم ان کو ہانکتے ہیں کسی مردہ زمین کی طرف اور وہاں بارش برسا دیتے ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

پھر (پانی سے لدے ہوئے بادلوں کا) بوجھ اٹھاتی ہیں

اصل میں ’فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اور اِس کے بعد کی دونوں صفتیں بھی ہواؤں کی ہیں، اِس لیے کہ ’ف‘ سے عطف ہوئی ہیں جو یہاں ترتیب پر دلالت کر رہا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھانے والی ہیں۔

اس امر پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ الذاریات سے مراد پراگندہ کرنے والی اور گردو غبار اڑانے والی ہوائیں ہیں، اور اَلْحٰمِلٰتِ وِقْراً ، (بھاری بوجھ اٹھانے والیوں) سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو سمندروں سے لاکھوں کروڑوں گیلن پانی کے بخارات بادلوں کی شکل میں اٹھا لیتی ہیں۔ یہی تفسیر حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر اور مجاہد، سعید بن جبیر، حسن بصری، قتادہ اور سدی (رضی اللہ عنہم) وغیرہ حضرات سے منقول ہے۔

جونا گڑھی

پھر اٹھانے والیاں بوجھ کو ۔

 وقر، ہر وہ بوجھ جسے کوئی جاندار لے کر چلے، حاملات، وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھائے ہوئے ہیں یا پھر وہ بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں جیسے چوپائے، حمل کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ 

فَٱلْجَـٰرِيَـٰتِ يُسْرًا

امین احسن اصلاحی

پھر چلنے لگتی ہیں آہستہ

’جاریات‘ کا مفہوم اور ایک غلط فہمی کا ازالہ: ’فَالْجَارِیَاتِ یُسْرًا‘۔ یہ صفت بھی ہواؤں ہی کی ہے۔ جن لوگوں نے اس سے کشتیاں مراد لی ہیں ان کی رائے اس قاعدے کے خلاف ہے جس کا حوالہ ہم نے اوپر دیا ہے۔ ’یُسْرٌ‘ کے معنی آہستہ اور نرم کے ہیں۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ پہلے تند اور غبار انگیز ہوائیں چلتی ہیں جو مختلف سمتوں سے بادلوں کو ہانک ہانک کر لاتی اور جس علاقہ کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے، اس پر ان کو تہ بہ تہ جما دیتی ہیں۔ پھر ہوا کی رفتار نرم ہو جاتی ہے اور مینہ برسنا شروع ہو جاتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

پھر نرمی کے ساتھ چلتی ہیں

یہ برسنے سے پہلے ہواؤں کی کیفیت بیان ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...عام قاعدہ یہ ہے کہ پہلے تند اور غبار انگیز ہوائیں چلتی ہیں جو مختلف سمتوں سے بادلوں کو ہانک ہانک کر لاتی اور جس علاقے کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے، اُس پر اُن کو تہ بہ تہ جما دیتی ہیں۔ پھر ہوا کی رفتار نرم ہو جاتی ہے اور مینہ برسنا شروع ہو جاتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۷/ ۵۷۹)

ابو الاعلی مودودی

پھر سبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

پھر چلنے والی نرمی سے پھر ان کی جو آسانی سے رواں دواں ہوجاتی ہیں۔

 جاریات، پانی میں چلنے والی کشتیاں، یُسْرا آسانی سے۔ 

فَٱلْمُقَسِّمَـٰتِ أَمْرًا

امین احسن اصلاحی

پھر الگ الگ کرتی ہیں معاملہ

’تقسیم امر‘ کا مفہوم: ’فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْراً‘۔ ’قَسِّمَ الْاَمْرَ‘ کے معنی ہوں گے کہ جس کے لیے جو بات طے تھی یا جو امر مقدر تھا وہ اس کو پہنچا دیا۔ یعنی یہ ہوائیں بادلوں کو لاد کر لانے کے بعد اپنے رب کے حکم کے مطابق تقسیم امر کرتی ہیں۔ یعنی جس علاقہ کے لیے جتنا پانی برسانے کا حکم ہوتا اتنا ہی برسا دیتی ہیں۔ بعض کو جل تھل کر دیتی ہیں، بعض کو نیم تشنہ اور بعض کو خشک چھوڑ جاتی ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ ان کو حکم دے دیتا ہے تو بعض علاقوں پر وہ طوفان و سیلاب بن کر نازل ہوتی ہیں اور پورے علاقے کا علاقہ ان کی زد میں آ کر تباہ ہو جاتا ہے۔ ہواؤں کے تصرفات اور ان کے فرق و امتیاز کی نیرنگیاں نہایت حیرت انگیز ہیں۔ ایک قوم کے ساتھ ان کا معاملہ کچھ ہوتا ہے، دوسری قوم کے ساتھ کچھ۔ کسی قوم کے لیے یہ ابر رحمت کی بشارت بن کر ظاہر ہوتی ہیں۔ کسی قوم کے لیے طوفان عذاب بن کر۔ آگے، ان شاء اللہ، اس کی تفصیل آئے گی۔

جاوید احمد غامدی

پھر الگ الگ معاملہ کرتی ہیں

یعنی جہاں برسنا ہے، برستی ہیں اور جس علاقے کو نیم تشنہ اور خشک چھوڑنا ہوتا ہے، چھوڑ دیتی ہیں۔ اِسی طرح کسی قوم کے لیے ابر رحمت کی بشارت بنتی ہیں اور کسی کے لیے عذاب کا طوفان بلاخیز، جس کی زد میں جو آتا ہے، تباہ ہو جاتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پھر ایک بڑے کام (بارش) کی تقسیم کرنے والی ہیں۔

الجَارِیَاتِ یُسْراً اور المُقَسِّمٰتِ اَمْراً کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ نے اس بات کو ترجیح دی ہے، یا یہ مفہوم لینا جائز رکھا ہے کہ ان دونوں سے مراد بھی ہوائیں ہی ہیں، یعنی یہی ہوائیں پھر بادلوں کو لے کر چلتی ہیں اور پھر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، جہاں جتنا حکم ہوتا ہے، پانی تقسیم کرتی ہیں۔ دوسرے گروہ نے الجَارِیَاتِ یُسْراً سے مراد سبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی کشتیاں لی ہیں اور المُقَسِّمٰتِ اَمْراً سے مراد وہ فرشتے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کی مخلوقات کے نصیب کی چیزیں ان میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک روایت کی رو سے حضرت عمر (رض) نے ان دونوں فقروں کا یہ مطلب بیان کر کے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ سنا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ اسی بنا پر علامہ آلوسی اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کے سوا ان فقروں کا کوئی اور مطلب لینا جائز نہیں ہے اور جن لوگوں نے کوئی دوسرا مفہوم لیا ہے انہوں نے بےجا جسارت کی ہے۔ لیکن حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اس کی بنیاد پر قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فی الواقع حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نے ان فقروں کی یہ تفسیر فرمائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صحابہ و تابعین کی ایک معتد بہ جماعت سے یہی دوسری تفسیر منقول ہے، لیکن مفسرین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے پہلی تفسیر بھی بیان کی ہے اور سلسلہ کلام سے وہ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ شاہ رفیع الدین صاحب، شاہ عبدالقادر صاحب اور مولانا محمود الحسن صاحب نے بھی اپنے ترجموں میں پہلا مفہوم ہی لیا ہے۔

جونا گڑھی

پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں ۔

 مقسمات، اس سے مراد فرشتے ہیں جو کام کو تقسیم کرلیتے ہیں، کوئی رحمت کا فرشتہ ہے تو کوئی عذاب کا، کوئی پانی کا ہے تو کوئی سختی کا، کوئی ہواؤں کا فرشتہ ہے تو کوئی موت اور حوادث کا۔ بعض نے ان سب سے صرف ہوائیں مراد لی ہیں اور ان سب کو ہواؤں کی صفت بتایا ہے۔ جیسے کہ فاضل مترجم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ہم نے امام ابن کثیر اور امام شوکانی کی تفسیر کے مطابق تشریح کی ہے۔ قسم سے مقصد مقسم علیہ کی سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے یا بعض دفعہ صرف تاکید مقصود ہوتی ہے اور بعض دفعہ مقسم علیہ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں قسم کی یہی تیسری قسم ہے۔ آگے جواب قسم یہ بیان کیا گیا ہے کہ تمک سے جو وعدے کیے جاتے ہیں یقیناً وہ سچے ہیں اور قیامت برپا ہو کر رہے گی جس میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا پانی کو اٹھانا، سمندروں میں کشتیوں کا چلنا اور فرشتوں کا مختلف امور کو سر انجام دینا، قیامت کے وقوع پر دلیل ہے، کیونکہ جو ذات یہ سارے کام کرتی ہے جو بظاہر نہایت مشکل اور اسباب عادیہ کے خلاف ہیں، وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ بھی کرسکتی ہے۔ 

إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ

امین احسن اصلاحی

کہ جس عذاب کی تم کو وعید سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے

قسم کا مقسم علیہ: یہ اوپر کی قسم کا مقسم علیہ ہے۔ یعنی ہواؤں کے یہ عجائب تصرفات، جن کا تم برابر مشاہدہ کرتے رہتے ہو، اس بات پر شاہد ہیں کہ جس چیز کی تم کو وعید سنائی جا رہی ہے وہ بالکل سچ ہے اور جزا و سزا لازماً واقع ہو کے رہے گی۔

’توعدون‘ کا مفہوم: ’اِنَّمَا تُوۡعَدُوْنَ‘۔ استاذ امام فراہیؒ کے نزدیک ’تُوۡعَدُوْنَ‘ ’وعد‘ سے ہے جس کے تحت وہ تمام چیزیں داخل ہیں جن کا نبیوں کی زبانی وعدہ کیا گیا ہے، یعنی حشر نشر، جزا سزا اور رحمت و نقمت وغیرہ۔ وہ ’إِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ‘ کو اسی پر عطف خاص علی العام کی حیثیت دیتے ہیں؛ لیکن میرا رجحان اس طرف ہے کہ ’تُوۡعَدُوْنَ‘ ’وعید‘ سے ہے اور یہاں اس سے مراد وہ عذاب ہے جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازماً اس کے مکذبین پر نازل ہوتا ہے۔ گویا ہواؤں کے عجائب تصرفات کی قسم یہاں میرے نزدیک دو چیزوں پر کھائی گئی ہے۔ ایک اس بات پر کہ قریش کو جس عذاب کی بصورت تکذیب دھمکی دی جا رہی ہے اور جس کو وہ محض ایک دھونس گمان کر رہے ہیں وہ دھونس نہیں ہے بلکہ بالکل سچی دھمکی ہے اور اس طرح وہ جزا و سزا بھی ایک امر شدنی ہے جس کو وہ بہت بعید از امکان سمجھ رہے ہیں۔
میرے اس رجحان کے حق میں کئی باتیں جاتی ہیں، لیکن ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف تین باتوں کی طرف اشارہ کافی ہے۔
ایک یہ کہ اس طرح مقسم علیہ کے دونوں اجزاء کا محل بے تکلف الگ الگ معین ہو جاتا ہے۔
دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا۔ ایک اس عذاب سے جو اس دنیا میں ان پر نازل ہوا اگر وہ اپنی تکذیب پر اڑی رہ گئیں، دوسرے اس عذاب سے جس سے لازماً ان کو آخرت میں سابقہ پیش آئے گا اگر ان کا خاتمہ کفر ہی پر ہوا۔ ان دونوں عذابوں کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اور ہم اس کی وضاحت کرتے آ رہے ہیں۔ یہ حقیقت مقتضی ہے کہ یہاں ان دونوں عذابوں کا ذکر ہو جب کہ قسم ان دونوں پر شاہد ہے۔ اس کی وضاحت آگے آئے گی۔
تیسری یہ کہ آگے رسولوں کی تکذیب کرنے والی بعض قوموں کا حوالہ قرآن نے اسی وعید کی تصدیق کے طور پر دیا ہے۔ وہاں آپ دیکھیں گے کہ ان کی تباہی میں ہواؤں کے تصرفات کو قرآن نے خاص طور پر نمایاں فرمایا ہے۔
زبان کا ایک نکتہ: یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ عذاب دنیا کی وعید کا ذکر تو فعل سے کیا ہے اور آخرت کی جزا و سزا کا ذکر اسم ’دین‘ سے کیا ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ اس دنیا میں قوموں پر جو عذاب آتا ہے وہ ایک امر حادث اور مشروط بشرائط و حالات ہوتا ہے۔ لیکن جزا و سزا کا قانون اس دنیا کی خلقت کی غایت اور اس کا لازمی نتیجہ ہے اس وجہ سے پہلے کو فعل سے تعبیر فرمایا اور دوسرے کو اسم سے۔

جاوید احمد غامدی

کہ جس عذاب کی وعید تمھیں سنائی جا رہی ہے، وہ یقیناً سچ ہے

اِس سے مراد وہ عذاب ہے جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں اُن کی قوموں پر اِسی دنیا میں آ جاتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جا رہا ہے وہ سچی ہے۔

اصل میں لفظ تُوْعَدُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اگر وَعْد سے ہو تو اس کا مطلب ہوگا ” جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے “۔ اور وعید سے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ ” جس چیز کا تم کو ڈراوا دیا جا رہا ہے “۔ زبان کے لحاظ سے دونوں مطلب یکساں درست ہیں۔ لیکن موقع و محل کے ساتھ دوسرا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے، کیونکہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک اور فسق و فجور میں غرق تھے اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کبھی ان کو محاسبے اور جزائے اعمال سے بھی سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اسی لیے ہم نے تُوْعَدُوْنَ کو وعدے کے بجائے وعید کے معنی میں لیا ہے۔

جونا گڑھی

یقین مانو کہ تم سے جو وعدے کئے جاتے ہیں (سب) سچے ہیں

n/a

وَإِنَّ ٱلدِّينَ لَوَٰقِعٌ

امین احسن اصلاحی

اور جزاء و سزا بے شک واقع ہو کے رہے گی

قسم کا مقسم علیہ: یہ اوپر کی قسم کا مقسم علیہ ہے۔ یعنی ہواؤں کے یہ عجائب تصرفات، جن کا تم برابر مشاہدہ کرتے رہتے ہو، اس بات پر شاہد ہیں کہ جس چیز کی تم کو وعید سنائی جا رہی ہے وہ بالکل سچ ہے اور جزا و سزا لازماً واقع ہو کے رہے گی۔

’توعدون‘ کا مفہوم: ’اِنَّمَا تُوۡعَدُوْنَ‘۔ استاذ امام فراہیؒ کے نزدیک ’تُوۡعَدُوْنَ‘ ’وعد‘ سے ہے جس کے تحت وہ تمام چیزیں داخل ہیں جن کا نبیوں کی زبانی وعدہ کیا گیا ہے، یعنی حشر نشر، جزا سزا اور رحمت و نقمت وغیرہ۔ وہ ’إِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ‘ کو اسی پر عطف خاص علی العام کی حیثیت دیتے ہیں؛ لیکن میرا رجحان اس طرف ہے کہ ’تُوۡعَدُوْنَ‘ ’وعید‘ سے ہے اور یہاں اس سے مراد وہ عذاب ہے جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازماً اس کے مکذبین پر نازل ہوتا ہے۔ گویا ہواؤں کے عجائب تصرفات کی قسم یہاں میرے نزدیک دو چیزوں پر کھائی گئی ہے۔ ایک اس بات پر کہ قریش کو جس عذاب کی بصورت تکذیب دھمکی دی جا رہی ہے اور جس کو وہ محض ایک دھونس گمان کر رہے ہیں وہ دھونس نہیں ہے بلکہ بالکل سچی دھمکی ہے اور اس طرح وہ جزا و سزا بھی ایک امر شدنی ہے جس کو وہ بہت بعید از امکان سمجھ رہے ہیں۔
میرے اس رجحان کے حق میں کئی باتیں جاتی ہیں، لیکن ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف تین باتوں کی طرف اشارہ کافی ہے۔
ایک یہ کہ اس طرح مقسم علیہ کے دونوں اجزاء کا محل بے تکلف الگ الگ معین ہو جاتا ہے۔
دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا۔ ایک اس عذاب سے جو اس دنیا میں ان پر نازل ہوا اگر وہ اپنی تکذیب پر اڑی رہ گئیں، دوسرے اس عذاب سے جس سے لازماً ان کو آخرت میں سابقہ پیش آئے گا اگر ان کا خاتمہ کفر ہی پر ہوا۔ ان دونوں عذابوں کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اور ہم اس کی وضاحت کرتے آ رہے ہیں۔ یہ حقیقت مقتضی ہے کہ یہاں ان دونوں عذابوں کا ذکر ہو جب کہ قسم ان دونوں پر شاہد ہے۔ اس کی وضاحت آگے آئے گی۔
تیسری یہ کہ آگے رسولوں کی تکذیب کرنے والی بعض قوموں کا حوالہ قرآن نے اسی وعید کی تصدیق کے طور پر دیا ہے۔ وہاں آپ دیکھیں گے کہ ان کی تباہی میں ہواؤں کے تصرفات کو قرآن نے خاص طور پر نمایاں فرمایا ہے۔
زبان کا ایک نکتہ: یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ عذاب دنیا کی وعید کا ذکر تو فعل سے کیا ہے اور آخرت کی جزا و سزا کا ذکر اسم ’دین‘ سے کیا ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ اس دنیا میں قوموں پر جو عذاب آتا ہے وہ ایک امر حادث اور مشروط بشرائط و حالات ہوتا ہے۔ لیکن جزا و سزا کا قانون اس دنیا کی خلقت کی غایت اور اس کا لازمی نتیجہ ہے اس وجہ سے پہلے کو فعل سے تعبیر فرمایا اور دوسرے کو اسم سے۔

جاوید احمد غامدی

اور جزا و سزا واقع ہو کر رہے گی

یہ وہ بات ہے جس پر ہوا اور بادلوں کے عجائب تصرفات کی گواہی پیش کی گئی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں بارہا دیکھ چکے ہو کہ یہی ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی اور سرکش قوموں پر ایسا طوفان بنا کر برساتی رہی ہیں کہ چشم زدن میں وہ خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتی تھیں، اور یہی ہوائیں بہت سی قوموں کے لیے خدا کی رحمت و برکت اور دشمنوں سے اُن کی نجات کا ذریعہ بنتی رہی ہیں۔ لہٰذا بصیرت کی نگاہ ہو تو اب بھی دیکھ سکتے ہو کہ ہوا اور بادلوں کے ذریعے سے جزا و سزا کے یہ واقعات گواہی دے رہے ہیں کہ جس عذاب کی وعید تمھیں سنائی جا رہی ہے اور جس قیامت سے خبردار کیا جا رہا ہے، وہ آکر رہیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

اور جزائے اعمال ضرور پیش آنی ہے۔

یہ ہے وہ بات جس پر قسم کھائی گئی ہے۔ اس قسم کا مطلب یہ ہے کہ جس بےنظیر نظم اور باقاعدگی کے ساتھ بارش کا یہ عظیم الشان ضابطہ تمہاری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، اور جو حکمت اور مصلحتیں اس میں صریح طور پر کار فرما نظر آتی ہیں، وہ اس بات پر گواہی دے رہی ہیں کہ یہ دنیا کوئی بےمقصد اور بےمعنی گھروندا نہیں ہے جس میں لاکھوں کروڑوں برس سے ایک بہت بڑا کھیل بس یونہی الل ٹپ ہوئے جا رہا ہو، بلکہ یہ در حقیقت ایک کمال درجے کا حکیمانہ نظام ہے جس میں ہر کام کسی مقصد اور کسی مصلحت کے لیے ہو رہا ہے۔ اس نظام میں یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ یہاں انسان جیسی ایک مخلوق کو عقل، شعور، تمیز اور تصرف کے اختیارات دے کر، اس میں نیکی و بدی کی اخلاقی حس پیدا کر کے، اور اسے ہر طرح کے اچھے اور برے، صحیح اور غلط کاموں کے مواقع دے کر، زمین میں ترکتازیاں کرنے کے لیے محض فضول اور لایعنی طریقے سے چھوڑ دیا جائے، اور اس سے کبھی یہ باز پرس نہ ہو کہ دل و دماغ اور جسم کی جو قوتیں اس کو دی گئی تھیں، دنیا میں کام کرنے کے لیے جو وسیع ذرائع اس کے حوالے کیے گئے تھے، اور خدا کی بیشمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات اسے دیے گئے تھے، انکو اس نے کس طرح استعمال کیا۔ جس نظام کائنات میں سب کچھ با مقصد ہے، اس میں صرف انسان جیسی عظیم مخلوق کی تخلیق کیسے بےمقصد ہو سکتی ہے ! جس نظام میں ہر چیز مبنی بر حکمت ہے اس میں تنہا ایک انسان ہی کی تخلیق کیسے فضول اور عبث ہو سکتی ہے ؟ مخلوقات کی جو اقسام عقل و شعور نہیں رکھتیں ان کی تخلیق کی مصلحت تو اسی عالم طبعی میں پوری ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر وہ اپنی مدت عمر ختم ہونے کے بعد ضائع کردی جائیں تو یہ عین معقول بات ہے، کیونکہ انہیں کوئی اختیارات دیے ہی نہیں گئے ہیں کہ ان سے محاسبے کا کوئی سوال پیدا ہو۔ مگر عقل و شعور اور اختیارات رکھنے والی مخلوق، جس کے افعال محض عالم طبیعت تک محدود نہیں ہیں بلکہ اخلاقی نوعیت بھی رکھتے ہیں، اور جس کے اخلاقی نتائج پیدا کرنے والے اعمال کا سلسلہ محض زندگی کی آخری ساعت تک ہی نہیں چلتا بلکہ مرنے کے بعد بھی اس پر اخلاقی نتائج مترتب ہوتے رہتے ہیں، اسے صرف اس کا طبعی کام ختم ہوجانے کے بعد نباتات و حیوانات کی طرح کیسے ضائع کیا جاسکتا ہے ؟ اس نے تو اپنے اختیار و ارادہ سے جو نیکی یا بدی بھی کی ہے اس کی ٹھیک ٹھیک بمعنی و انصاف جزاء اس کو لازماً ملنی ہی چاہیے، کیونکہ یہ اس مصلحت کا بنیادی تقاضا ہے جس کے تحت دوسری مخلوقات کے برعکس اسکو ایک ذی اختیار مخلوق بنایا گیا ہے۔ اس سے محاسبہ نہ ہو، اس کے اخلاقی اعمال پر جزاء و سزا نہ ہو، اور اس کو بھی بےاختیار مخلوقات کی طرح عمر طبعی ختم ہونے پر ضائع کردیا جائے، تو لامحالہ اس کی تخلیق سراسر عبث ہوگی، اور ایک حکیم سے فعل عبث کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

اس کے علاوہ آخرت اور جزاء و سزا کے وقوع پر ان چار مظاہر کائنات کی قسم کھانے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ منکرین آخرت زندگی بعد موت کو جس بنا پر غیر ممکن سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم جب مر کر خاک میں رل مل جائیں گے اور ہمارا ذرہ ذرہ جب زمین میں منتشر ہوجائے گا تو کیسے ممکن ہے کہ سارے منتشر اجزائے جسم پھر اکٹھے ہوجائیں اور ہمیں دوبارہ بنا کر کھڑا کیا جائے۔ اس شبہ کی غلطی ان چاروں مظاہر کائنات پر غور کرنے سے خود بخود رفع ہوجاتی ہے جنہیں آخرت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سورج کی شعاعیں روئے زمین کے ان تمام ذخائر آب پر اثر انداز ہوتی ہیں جن تک ان کی حرارت پہنچتی ہے۔ اس عمل سے پانی کے بےحد و حساب قطرے اڑ جاتے ہیں اور اپنے مخزن میں باقی نہیں رہتے۔ مگر وہ فنا نہیں ہوجاتے بلکہ بھاپ بن کر ایک ایک قطرہ ہوا میں محفوظ رہتا ہے۔ پھر جب خدا کا حکم ہوتا ہے تو یہ ہوا ان قطروں کی بھاپ کو سمیٹ لاتی ہے، اس کو کثیف بادلوں کی شکل میں جمع کرتی ہے، ان بادلوں کو لے کر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل جاتی ہے، اور خدا کی طرف سے جو وقت مقرر ہے ٹھیک اسی وقت ایک ایک قطرے کو اسی شکل میں جس میں وہ پہلے تھا، زمین پر واپس پہنچا دیتی ہے۔ یہ منظر جو آئے دن انسان کی آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے، اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کے اجزائے جسم بھی اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر جمع ہو سکتے ہیں اور ان انسانوں کو اسی شکل میں پھر اٹھا کھڑا کیا جاسکتا ہے جس میں وہ پہلے موجود تھے۔ یہ اجزا خواہ مٹی میں ہوں، یا پانی میں، یا ہوا میں، بہرحال رہتے اسی زمین اور اس کے ماحول ہی میں ہیں۔ جو خدا پانی کے بخارات کو ہوا میں منتشر ہوجانے کے بعد پھر اسی ہوا کے ذریعہ سے سمیٹ لاتا ہے اور انہیں پھر پانی کی شکل میں برسا دیتا ہے، اس کے لیے انسانی جسموں کے بکھرے ہوئے اجزاء کو ہوا، پانی اور مٹی میں سے سمیٹ لانا اور پھر سابق شکلوں میں جمع کردینا آخر کیوں مشکل ہو ؟

جونا گڑھی

اور بیشک انصاف ہونے والا ہے۔

n/a

وَٱلسَّمَآءِ ذَاتِ ٱلْحُبُكِ

امین احسن اصلاحی

شاہد ہے دھاریوں والا آسمان

’ذات الحبک‘ کی تحقیق: ’سَمَآءٌ‘ سے آسمان کو بھی مراد لے سکتے ہیں اور بادلوں کو بھی۔ یہ دونوں معنوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن آسمان کو مراد لیں گے تو یہاں لازماً ’ذات الحبک‘ کی صفت کے ساتھ ہی مراد لیں گے۔ اس وجہ سے اصل تحقیق طلب چیز یہ صفت ہی ہے۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر سورۂ ذاریات میں اس لفظ کی تحقیق کلام عرب کے شواہد کی روشنی میں بیان فرمائی ہے۔ ہم اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں یہاں درج کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

’’’حُبُکٌ‘ کے معنی باندھنے اور گرہ لگانے کے ہیں۔ یہیں سے یہ اس مضبوطی و استواری کے لیے استعمال ہوا جو کسی چیز کی بناوٹ میں پیدا کی جائے۔ اسی سے ’حَبَاک‘ ہے جس کی جمع ’حُبُک‘ آتی ہے۔ ’حُبُک‘ ان دھاریوں، شکنوں اور لہروں کو کہتے ہیں جو کسی گف اور مضبوط بناوٹ کے کپڑے میں نمایاں کی گئی ہوں ۔۔۔۔۔۔ فرّاء کی تحقیق یہ ہے کہ ’حُبُک‘ سے مراد وہ لہریں اور شکنیں ہیں جو ریت یا ساکن پانی میں، جب کہ اس پر ہوا چل گئی ہو، پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہیں سے یہ بادلوں کی تعریف میں استعمال ہونے لگا کیونکہ بادلوں کے ٹکڑے بھی آسمان میں تہ بہ تہ موجوں اور تو بر تو روئی کے گالوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ امروء القیس فلک بوس محلوں کی تعریف کرتے ہوئے، جن پر بادل چھائے ہوئے ہیں، کہتا ہے۔

مکللۃ حمراء ذات اسرۃ
لھا حبک کانھا من وصائل
(ان محلوں پر سرخ دھاریوں والے بادل چھائے ہوئے ہیں گویا کہ دھاریوں والی چادریں ہیں)

یہ موسم سرما کے بادلوں کی تعریف ہے اور یہ ان کے رنگ اور ان کی تہوں کی نہایت صحیح تصویر ہے ۔۔۔۔۔۔
جن لوگوں نے ’ذات الحبک‘ سے چرخ مکوکب مراد لیا ہے ، خواہ اس کی مضبوطی و استواری کے پہلو سے یا اس وجہ سے کہ اس میں تارے ٹنکے ہوئے ہیں، ہمارے نزدیک ان کی رائے صحیح نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔ لفظ دھاریوں، شکنوں، لہروں اور خطوط کے معنی پر استعمال ہوتا ہے۔‘‘

مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحقیق کی روشنی میں یہ قَسم سرما کے سرخ دھاریوں والے بادلوں کی ہے جو شمال کی بادتند کے ساتھ نمایاں ہوتے اور جن کو پچھلی معذّب قوموں کی تباہی میں، جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی، بڑا دخل رہا ہے۔ گویا ہواؤں کی قسم کے بعد یہ بادلوں کی قسم اسی قسم کی تکمیل ہے اس لیے کہ ہواؤں اور بادلوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے۔ اس قسم کے اضافے سے ہواؤں کی ہلاکت انگیزی کے پہلو کی طرف خاص طور پر اشارہ مقصود ہے۔

جاوید احمد غامدی

(یہ گواہی دیتی ہیں) اور دھاریوں والا آسمان بھی

یہ اُس آسمان کی تصویر ہے جس میں بادلوں کے ٹکڑے تہ بر تہ موجوں اور توبرتو روئی کے گالوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہواؤں کے بعد یہ بادلوں کی گواہی اُسی مضمون کی تکمیل کے لیے ہے جو ہواؤں کی گواہی سے بیان کرنا مقصود ہے۔ ہوا اور بادلوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے۔ پچھلی قوموں کی تباہی میں شمال کی باد تند اور سرما کے سرخ دھاریوں والے بادلوں کو بڑا دخل رہا ہے۔ چنانچہ ہواؤں کی ہلاکت خیزی کو نمایاں کرنے کے لیے یہ اضافہ کر دیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی۔

اصل میں لفظ ذاتِ الْحُبُکِ استعمال ہوا ہے۔ حبُک راستوں کو بھی کہتے ہیں۔ ان لہروں کو بھی کہتے ہیں جو ہوا کے چلنے سے ریگستان کی ریت اور ٹھرے ہوئے پانی میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اور گھونگھر والے بالوں میں جو لٹیں سے بن جاتی ہیں ان کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ یہاں آسمان کو حبک والا یا تو اس لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ آسمان پر اکثر طرح طرح کی شکلوں والے بادل چھائے رہتے ہیں جن میں ہوا کے اثر سے بار بار تغیر ہوتا ہے اور کبھی کوئی شکل نہ خود قائم رہتی ہے، نہ کسی دوسری شکل سے مشابہ ہوتی ہے۔ یا اس بنا پر فرمایا گیا ہے کہ رات کے وقت آسمان پر جب تارے بکھرے ہوتے ہیں تو آدمی دیکھتا ہے کہ ان کی بہت سی مختلف شکلیں ہیں اور کوئی شکل دوسری شکل سے نہیں ملتی۔

جونا گڑھی

قسم ہے راہوں والے آسمان کی

 دوسرا ترجمہ، حسن جمال اور زینت و رونق والا کیا گیا ہے چاند، سورج ستارے و سیارے، روشن ستارے، اس کی بلندی اور وسعت، یہ سب چیزیں آسمان کی رونق وزینت اور خوب صورتی کا باعث ہیں 

إِنَّكُمْ لَفِى قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ

امین احسن اصلاحی

بے شک تم ایک اختلاف میں پڑے ہوئے ہو

مخالفین کو ملامت: قرینہ شاہد ہے کہ یہ ٹکڑا جوابِ قَسم نہیں ہے بلکہ مخالفین کے رویہ پر ان کو ملامت ہے۔ جواب قسم اوپر گزر چکا ہے اور یہ دوسری قسم اوپر والی قسم ہی کی تکمیل ہے اس وجہ سے اس کے بعد جواب قسم کے اعادے کی ضروت نہیں تھی بلکہ اس کی جگہ مکذبین کو سرزنش کر دی گئی کہ تم لوگ ایک صریح قسم کے اختلاف اور تناقض فکر میں مبتلا ہو ورنہ شہادتوں کے ہوتے نہ وعید عذاب کو جھٹلانے کی گنجائش ہے، نہ وعدۂ جزاء و سزا میں شک کرنے کی۔

قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ وضاحت قرینہ کی بنا پر جواب قسم حذف کر کے اس کی جگہ کوئی سرزنش و ملامت کا جملہ رکھ دیا گیا ہے۔ اس کی ایک نہایت واضح مثال سورۂ قٓ میں گزر چکی ہے:

قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ ۵ بَلْ عَجِبُوا أَن جَاء ہُمْ مُنذِرٌ مِّنْہُمْ فَقَالَ الْکَافِرُونَ ہَذَا شَیْْءٌ عَجِیْبٌ (قٓ ۱-۲)
’’یہ قٓ ہے۔ قرآن بزرگ و برتر کی قسم (یہ کلام الٰہی ہے) بلکہ ان کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس ایک آگاہ کرنے والا انہی میں سے آیا تو کافروں نے کہا یہ تو عجیب بات ہے!‘‘

اس آیت میں دیکھ لیجیے جواب قسم مذکور نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ مخالفین کو ان کی صریح دھاندلی پر ملامت کر دی گئی ہے۔ یہی اسلوب سورۂ بروج میں بھی اختیار فرمایا گیا ہے:

وَالسَّمَاء ذَاتِ الْبُرُوجِ ۵ وَالْیَوْمِ الْمَوْعُودِ ۵ وَشَاہِدٍ وَمَشْہُودٍ ۵ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُوۡدِ (البروج ۱-۴)
’’قسم ہے برجوں والے آسمان کی اور وعدہ کیے ہوئے دن کی اور شاہد و مشہود کی! ناس ہوں آگ کی گھاٹی والے!‘‘

مخالفین کا تضاد فکر: ’قول مختلف‘ سے قیامت اور جزا و سزا کے باب میں ان کے تضاد فکر اور تضاد قول کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین عرب کے بارے میں ہم جگہ جگہ یہ لکھ چکے ہیں کہ ان میں سے قیامت کے کھلے منکر ہی نہیں تھے بلکہ انکار کرنے والوں کے ساتھ ان کے اندر ایک گروہ مذبذبین کا بھی تھا جو صریح طور پر انکار نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو ایک مستبعد بات سمجھتے تھے۔ اسی طرح ان کے اندر ایک بہت بڑا گروہ ان لوگوں کا بھی تھا جو قیامت کو بعید از امکان تو نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کا گمان یہ تھا کہ قیامت کے دن ان کا معاملہ ان کے شرکاء سے متعلق ہو گا، وہ اپنے پجاریوں کو اپنی شفاعت سے بچا لیں گے۔ یہ لوگ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے لیے وہ تمام صفتیں تسلیم کرتے تھے جو اس کی بدیہی اور لازمی صفات ہیں اور جو جزا و سزا کو لازم کرتی ہیں دوسری طرف ان کے بدیہی نتائج و لوازم کے بارے میں یا تو مبتلائے شک تھے یا ان کا انکار کرتے تھے۔ ان کی اسی ذہنی الجھن کی طرف یہاں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ مقصود ان کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ قرآن ان کو جس بات سے آگاہ کر رہا ہے وہ تو اس کائنات کی ایک بدیہی حقیقت ہے بشرطیکہ یہ لوگ اپنے ذہن کو سیدھی راہ پر سوچنے دیں، اس میں غیر فطری اڑنگے نہ ڈالیں۔ پچھلی سورہ میں ’فَہُمْ فِیْ أَمْرٍ مَّرِیْجٍ‘ (۵) کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔ ہمارے نزدیک دونوں جگہ ایک ہی حقیقت واضح فرمائی گئی ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ حقیقت ہے کہ تم لوگ ایک صریح تضاد میں مبتلا ہو

یعنی ایک چیز کو مانتے ہو اور اُسی کے لوازم اور مقتضیات کو ماننے سے انکار کر دیتے ہو۔

ابو الاعلی مودودی

(آخرت کے بارے میں) تمہاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

اس اختلاف اقوال پر متفرق شکلوں والے آسمان کی قسم تشبیہ کے طور پر کھائی گئی ہے۔ یعنی جس طرح آسمان کے بادلوں اور تاروں کے جھرمٹوں کی شکلیں مختلف ہیں اور ان میں کوئی مطابقت نہیں پائی جاتی اسی طرح آخرت کے متعلق تم لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہو اور ہر ایک بات دوسرے سے مختلف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دنیا ازلی و ابدی ہے اور کوئی قیامت برپا نہیں ہو سکتی۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ نظام حادث ہے اور ایک وقت میں یہ جا کر ختم بھی ہوسکتا ہے، مگر انسان سمیت جو چیز بھی فنا ہوگئی، پھر اس کا اعادہ ممکن نہیں ہے۔ کوئی اعادے کو ممکن مانتا ہے، مگر اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے اچھے اور برے نتائج بھگتنے کے لیے بار بار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے۔ کوئی جنت اور جہنم کا بھی قائل ہے، مگر اس کے ساتھ تناسُخ کو بھی ملاتا رہتا ہے، یعنی اس کا خیال یہ ہے کہ گناہ گار جہنم میں بھی جا کر سزا بھگتتا ہے اور پھر اس دنیا میں بھی سزا پانے کے لیے جنم لیتا رہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ دنیا کی زندگی خود ایک عذاب ہے جب تک انسان کے نفس کو مادی زندگی سے لگاؤ باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ اس دنیا میں مر مر کر پھر جنم لیتا رہتا ہے، اور اس کی حقیقی نجات (نِروان) یہ ہے کہ وہ بالکل فنا ہوجائے۔ کوئی آخرت اور جنت و جہنم کا قائل ہے، مگر کہتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو صلیب پر موت دے کر انسان کے ازلی گناہ کا کفارہ ادا کردیا ہے، اور اس بیٹے پر ایمان لا کر آدمی اپنے اعمال بد کے برے نتائج سے بچ جائے گا۔ کچھ دوسرے لوگ آخرت اور جزا و سزا، ہر چیز کو مان کر بعض ایسے بزرگوں کو شفیع تجویز کرلیتے ہیں جو اللہ کے ایسے پیارے ہیں، یا اللہ کے ہاں ایسا زور رکھتے ہیں کہ جو ان کا دامن گرفتہ ہو وہ دنیا میں سب کچھ کر کے بھی سزا سے بچ سکتا ہے۔ ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں بھی اس عقیدے کے ماننے والوں میں اتفاق نہیں ہے، بلکہ ہر ایک گروہ نے اپنے الگ الگ شفیع بنا رکھے ہیں۔ یہ اختلاف اقوال خود ہی اس امر کا ثبوت ہے وحی و رسالت سے بےنیاز ہو کر انسان نے اپنے اور اس دنیا کے انجام پر جب بھی کوئی رائے قائم کی ہے، علم کے بغیر قائم کی ہے۔ ورنہ اگر انسان کے پاس اس معاملہ میں فی الواقع براہ راست علم کا کوئی ذریعہ ہوتا تو اتنے مختلف اور متضاد عقیدے پیدا نہ ہوتے۔

جونا گڑھی

یقیناً تم مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو

 یعنی اے اہل مکہ ! تمہارا کسی بات میں آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر کو تم میں سے کوئی جادو گر، کوئی شاعر، کوئی کاہن اور کوئی جھوٹا کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی قیامت کی بالکل نفی کرتا ہے، کوئی شک کا اظہار، علاوہ ازیں ایک طرف اللہ کے خالق اور رازق ہونے کا اعتراف کرتے ہو، دوسری طرف دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے۔ 

يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ

امین احسن اصلاحی

اس سے وہی روگردانی کرتے ہیں جن کی عقل الٹ دی گئی ہو

یہ جملہ ’قول مختلف‘ کی صفت نہیں بلکہ ایک مستقل جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے ذہن کو تناقض سے پاک کر کے سوچیں تو جزا و سزا کا معاملہ بالکل بدیہی حقیقت ہے لیکن جن لوگوں کی عقل الٹ جاتی ہے وہ اس سے برگشتہ کر دیے جاتے ہیں۔ ’اِفک‘ کے معنی الٹ دینے کے ہیں اور ’مافوک‘ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی عقل الٹ دی گئی ہو۔ یہ اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو ’فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللہُ قُلُوۡبَہُمْ‘ (الصف ۵) اور اس مضمون کی دوسری آیات میں بیان ہوئی ہے، یعنی ان لوگوں نے اپنی عقل صحیح طور پر استعمال نہیں کی اس وجہ سے قانون الٰہی کے مطابق ان کی عقل الٹ دی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کو وہ چیز بھی نظر نہیں آ رہی ہے جس کی شہادت اس کائنات کے ہر گوشے سے مل رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

(ہماری) اِس (وعید) سے وہی منہ موڑ سکتا ہے جس کی عقل الٹ دی گئی ہو

یعنی جو صحیح طریقے سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی سے محروم کر دیا گیا ہو۔ یہ ہدایت و ضلالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان جب اپنی عقل کو خواہشوں اور تعصبات کا تابع بنا لیتا ہے تو اُسے وہ چیز بھی نظر نہیں آتی جس کی شہادت خود اُس کے وجود سے اور اُس کے گردوپیش میں پھیلی ہوئی کائنات کے ہر گوشے سے مل رہی ہو۔

ابو الاعلی مودودی

اُس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے۔

اصل الفاظ ہیں یُؤْفَکْ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ اس فقرے میں عَنْہُ کی ضمیر کے دو مرجع ہو سکتے ہیں۔ ایک جزائے اعمال۔ دوسرے قول مختلف۔ پہلی صورت میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ” جزائے اعمال کو تو ضرور پیش آنا ہے، تم لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے مختلف عقیدے رکھتے ہو، مگر اس کو ماننے سے وہی شخص برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے۔ ” دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ ” ان مختلف اقوال سے وہی شخص گمراہ ہوتا ہے جو دراصل حق سے برگشتہ ہے “

جونا گڑھی

اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہو۔

 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے، یا حق سے یعنی بعث و توحید سے یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا، پہلے مفہوم میں ذم ہے اور دوسرے میں مدح۔ 

قُتِلَ ٱلْخَرَّٰصُونَ

امین احسن اصلاحی

اٹکل کے تیر تکے چلانے والے ہلاک ہوں

گمان کا سہارا لینے والوں کی تباہی: یہ جملہ بھی ملامت و سرزنش کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اٹکل کے تیر تکے چلانے والے لوگ ہیں۔ انھوں نے اپنی عقل سے کام لینا چھوڑ دیا ہے اس وجہ سے آفاق و انفس اور ارض و سماء کی وہ تمام دلیلیں جن کی طرف قرآن ان کو توجہ دلا رہا ہے، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں۔ بصیرت سے محروم ہونے کے باعث اب ان کا تمام اعتماد قیاس و گمان پر رہ گیا ہے۔ اسی قیاس و گمان کے بل پر وہ اس واضح سے واضح حق کو بھی جھٹلانے پر کمربستہ ہیں جو ان کی خواہشوں کے خلاف ہے حالانکہ گمان کسی درجے میں بھی ان کے لیے حق کا بدل نہیں بن سکے گا بلکہ ایک دن ان پر واضح ہو جائے گا کہ حق کے انکار کے لیے انھوں نے وہم و گمان کا جو سہارا لیا یہی ان کی تباہی کا اصل سبب بنا۔
جو امور جتنے ہی اہم ہیں ان کے لیے اتنا ہی اہتمام ہے: ’خرص‘ کے معنی اندازہ اور تخمینہ کرنے کے ہیں ’خرص النخل والکرم‘ کے معنی ہیں کھجور کے درخت یا انگور کی بیل کے پھلوں کا اندازہ کیا۔ ’خرص فی الحدیث‘ کے معنی ہوں گے کہ ایک امر پر، غور کیے بغیر، اس کے بارے میں ایک اٹکل پچو بات اڑا دی۔
انسان کی زندگی سے متعلق جو امور جتنے ہی اہم اور دوررس نتائج کے حامل ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اتنا ہی زیادہ اہتمام فرمایا ہے۔ اٹکل اور اندازوں پر وہی امور اس نے چھوڑے ہیں جن کی انجام کار کے پہلو سے کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ جن امور کی خاص اہمیت ہے، جو دور رس نتائج کے حامل ہیں اور جن پر انسان کی صلاح و فلاح کا انحصار ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے قیاس و گمان پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ ان میں ہر پہلو سے اس نے حجت تمام کر دی ہے تاکہ انسان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ ان امور میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانا بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص اندھیری رات میں اللہ کی بخشی ہوئی روشنی کو گل اور اپنی آنکھیں بند کر کے محض اٹکل سے راستہ معلوم کرنے کی کوشش کرے۔
انسان کے لیے اس کی عاقبت کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے کسی پہلو کو بھی مبہم نہیں چھوڑا ہے بلکہ ہر جہت سے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما دی ہے تاکہ گمراہی کا اندیشہ نہ رہے۔ آسمان و زمین میں اس نے قدم قدم پر نشانات راہ گاڑ دیے ہیں جو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ آنکھیں دے دی ہیں جو ان نشانات کو دیکھ سکتی ہیں اگر انسان آنکھیں کھلی رکھے۔ عقل بخشی ہے جو ان اشاروں کو سمجھتی ہے یا سمجھ سکتی ہے بشرطیکہ انسان اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھائے۔ علاوہ ازیں انسان کی فطرت میں وہ تمام داعیات و محرکات ودیعت فرما دیے ہیں جو صحیح سمت میں قدم بڑھانے، خطرات کا مقابلہ کرنے اور انسان کو برابر بیدار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ پھر مزید اور سب سے اعلیٰ و اشرف انتظام یہ فرمایا کہ اپنے نبیوں، رسولوں اور اپنی اتاری ہوئی کتابوں کے ذریعہ سے اچھی طرح واضح فرما دیا کہ زندگی کی صحیح شاہراہ کیا ہے اور اس راہ کے لیے کیا زاد و راحلہ مطلوب ہے۔
اتنے گوناگوں اہتمام کے بعد بھی انسان ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے محض اپنی اٹکل سے اپنے لیے کوئی اور راہ ڈھونڈنے کے درپے ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسے روشنی سے نفرت ہے، وہ تاریکی ہی میں بھٹکنا چاہتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کے بارے میں) یہ اٹکل دوڑانے والے ہلاک ہوں

یعنی قیامت کو جھٹلانے کے لیے جن کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ محض اٹکل کے گھوڑے ہیں جنھیں وہ فکر و خیال کی وادیوں میں دوڑاتے رہتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے۔

ان الفاظ میں قرآن مجید ایک اہم حقیقت پر انسان کو متنبہ کر رہا ہے۔ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی اندازہ کرنا یا تخمینہ لگانا، دنیوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو کسی حد تک چل سکتا ہے، اگرچہ علم کا قائم مقام پھر بھی نہیں ہو سکتا، لیکن اتنا بڑا بنیادی مسئلہ کہ ہم اپنی پوری زندگی کے اعمال کے لیے کسی کے سامنے ذمہ دار و جواب دہ ہیں یا نہیں، اور ہیں تو کس کے سامنے، کب اور کیا جوابدہی ہمیں کرنی ہوگی، اور اس جوابدہی میں کامیابی و ناکامی کے نتائج کیا ہوں گے، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے متعلق آدمی محض اپنے قیاس و گمان کے مطابق ایک اندازہ قائم کرلے اور پھر اسی جوئے کے داؤں پر اپنا تمام سرمایہ حیات لگا دے۔ اس لیے کہ یہ اندازہ اگر غلط نکلے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آدمی نے اپنے کو بالکل تباہ و برباد کرلیا۔ مزید براں یہ مسئلہ سرے سے ان مسائل میں سے ہے ہی نہیں جن کے بارے میں آدمی محض قیاس اور ظن وتخمین سے کوئی صحیح رائے قائم کرسکتا ہو۔ کیونکہ قیاس ان امور میں چل سکتا ہے جو انسان کے دائرہ محسوسات میں شامل ہوں، اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس کا کائی پہلو بھی محسوسات کے دائرے میں نہیں آتا۔ لہٰذا یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قیاسی اندازہ صحیح ہو سکے۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر آدمی کے لیے ان ماورائے حس و ادراک مسائل کے بارے میں رائے قائم کرنے کی صحیح صورت کیا ہے، تو اس کا جواب قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ دیا گیا ہے، اور خود اس سورة سے بھی یہی جواب مترشح ہوتا ہے کہ (1) انسان براہ راست خود حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، (2) حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی ذریعہ سے دیتا ہے، اور (3) اس علم کی صحت کے متعلق آدمی اپنا اطمینان اس طریقہ سے کرسکتا ہے کہ زمین اور آسمان اور خود اس کے اپنے نفس میں جو بیشمار نشانیاں موجود ہیں ان پر غائر نگاہ ڈال کر دیکھے اور پھر بےلاگ طرز پر سوچے کہ یہ نشانیاں آیا اس حقیقت کی شہادت دے رہی ہیں جو نبی بیان کر رہا ہے، یا ان مختلف نظریات کی تائید کرتی ہیں جو دوسرے لوگوں نے اس کے بارے میں پیش کیے ہیں ؟ خدا اور آخرت کے متعلق علمی تحقیق کا یہی ایک طریقہ ہے جو قرآن میں بتایا گیا ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی اپنے قیاسی اندازوں پر چلا وہ مارا گیا۔

جونا گڑھی

بےسند باتیں کرنے والے غارت کردیئے گئے۔

​n/a

Page 1 of 6 pages  1 2 3 >  Last ›