وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا

امین احسن اصلاحی

گواہی دیتے ہیں ہانپتے، دوڑنے والے گھوڑے

’عَادِیَاتٌ‘ سے مراد: ’عَادِیَاتٌ‘ کے معنی دوڑنے والے کے ہیں لیکن یہاں یہ جنگی گھوڑوں کی صفت کے طور پر آیا ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ آگے چار صفتیں، جو ترتیب کے ساتھ آئی ہیں، وہ جنگی گھوڑوں کے سوا کسی اور چیز پر منطبق نہیں ہوتیں۔ بعض لوگوں نے اس سے مزدلفہ میں اونٹوں کو مراد لیا ہے، لیکن اس کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ آگے کی صفتیں، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اونٹوں کی نہیں ہو سکتیں۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے غازیوں کے گھوڑے مراد ہیں۔ لیکن اس تخصیص کے لیے بھی کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ خاص طور پر مقسم علیہ سے تو یہ بات بالکل ہی بے جوڑ ہو جائے گی۔ مقسم علیہ یہاں

’إِنَّ الْإِنۡسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوۡدٌ‘ (۶)
(بے شک انسان اپنے رب کا نہایت ناشکرا ہے)

ہے، اس مقسم علیہ کو غازیوں اور مجاہدین کے گھوڑوں کے ساتھ کیا ربط ہو سکتا ہے!
یہ قول اور اوپر مزدلفہ کے اونٹوں سے متعلق جس قول کا حوالہ گزرا ہے یہ دونوں قول اس عام وہم پر مبنی ہیں کہ جس چیز کی قسم کھائی جائے ضروری ہے کہ وہ کوئی مقدس چیز ہو۔ ہم اس وہم کی تردید اس کتاب میں جگہ جگہ کر چکے ہیں کہ مقسم بہ کے لیے مقدس ہونا کوئی ضروری بات نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت رکھنے والی چیز اس کا اس دعوے پر شہادت ہونا ہے جو اس کے بعد مذکور ہوتا ہے۔ آگے ہم تفصیل سے بتائیں گے کہ گھوڑوں کی قسم کن کن پہلوؤں سے انسان کی ناشکری و ناسپاسی کی دلیل ہے۔
’ضَبْحٌ‘ وہ خاص آواز نکالنے کے لیے آتا ہے جو گھوڑے ہانپتے ہوئے اپنے نتھنوں سے نکالتے ہیں۔ ان کے ہانپنے کا یہ خاص انداز اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے ان کو انسان کی محکومی میں دیا ہے اس کو وہ نہایت وفاداری و جاں نثاری سے پورا کرنے والے اور انسان کی مقصد برآری میں اپنی طاقت کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر رکھ دینے والے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

ہانپتے دوڑتے گھوڑے گواہی دیتے ہیں

اصل میں لفظ ’الْعٰدِیٰت‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس کے معنی دوڑنے والے کے ہیں۔ آگے کی صفات سے واضح ہے کہ اِس سے مراد دوڑنے والے گھوڑے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے اُن (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں۔

آیت کے الفاظ میں یہ تصریح نہیں ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد گھوڑے ہیں، بلکہ صرف والْعٰدِيٰتِ (قسم ہے دوڑنے والوں کی) فرمایا گیا ہے۔ اسی لیے مفسرین کے درمیان اس باب میں اختلاف ہوا ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد کیا ہے۔ صحابہ و تابعین کا ایک گروہ اس طرح گیا ہے کہ اس سے مراد گھوڑے ہیں، اور ایک دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ اس سے مراد اونٹ ہیں۔ لیکن چونکہ دوڑتے ہوئے وہ خاص قسم کی آواز جسے ضبح کہتے ہیں، گھوڑوں ہی کی شدت تنفس سے نکلتی ہے، اور بعد کی آیات بھی جن میں چنگاریاں جھاڑنے اور صبح سویرے کسی بستی پر چھاپہ مارنے اور وہاں گرد اڑانے کا ذکر آیا ہے، گھوڑوں ہی پر راست آتی ہیں، اس لیے اکثر محققین نے اس سے مراد گھوڑے ہی لیے ہیں۔ ابن جریر کہتے ہیں ” دونوں اقال میں سے یہ قول ہی قابل ترجیح ہے کہ دوڑنے والوں سے مراد گھوڑے ہیں، کیونکہ اونٹ ضبح نہیں کرتا، گھوڑا ہی ضبح کیا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان دوڑنے والوں کی قسم جو دوڑتے ہوئے ضبح کرتے ہیں “۔ امام رازی کہتے ہیں کہ ” ان آیات کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مراد گھوڑے ہیں، کیونکہ ضبح کی آواز گھوڑے کے سوا کسی سے نہیں نکلتی، اور آگ جھاڑنے کا فعل بھی پتھروں پر سموں کی ٹاپ پڑنے کے سوا کسی اور طرح کے دوڑنے سے نہیں ہوتا، اور اسی طرح صبح سویرے چھاپہ مارنا بھی دوسرے جانوروں کی بہ نسبت گھوڑوں ہی کے ذریعہ سے سہل ہوتا ہے “۔

جونا گڑھی

ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم

 عادیات، عادیۃ کی جمع ہے۔ یہ عدو سے ہے جیسے غزو ہے غازیات کی طرح اس کے واؤ کو بھی یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تیز رو گھوڑے۔ ضبح کے معنی بعض کے نزدیک ہانپنا اور بعض کے نزدیک ہنہنانا ہے۔ مراد وہ گھوڑے ہیں جو ہانپتے یا ہنہناتے ہوئے جہاد میں تیزی سے دشمن کی طرف دوڑتے ہیں۔ 

فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا

امین احسن اصلاحی

ٹاپوں کی ٹھوکر سے چنگاریاں نکالنے والے

زبان کا ایک اسلوب: ’ف‘ کے ذریعہ سے جب عطف ہوتا ہے تو، جیسا کہ ہم اس کے محل میں وضاحت کر چکے ہیں، ترتیب پر بھی دلیل ہوتا ہے اور اس بات پر بھی کہ تمام صفتیں ایک ہی موصوف سے تعلق رکھنے والی ہیں۔

’مُوۡرِیَاتٌ‘، ’اِیْرَاءٌ‘ سے ہے جس کے معنی چقماق یا کسی چیز سے آگ نکالنے کے ہیں۔
’قَدْحٌ‘ ضرب لگانے، ٹھوکر لگانے اور ایک چیز کو دوسری سے ٹکرانے کے معنی میں یہاں ہے۔
انسان کی مقصد برآری میں گھوڑوں کی سرگرمی اور آتش زیرپائی: یہ انسان کی مقصد برآری میں گھوڑوں کی سرگرمی اور آتش زیر پائی کی تعبیر ہے کہ وہ اس طرح دوڑتے ہیں کہ ان کی سموں کی ٹھوکر سے چنگاریاں جھڑتی ہیں۔ گھوڑوں کے چونکہ آہنی نعل ہوتے ہیں اس وجہ سے جب وہ دشمن پر دھاوا کرنے کے لیے پتھریلی زمینوں پر دوڑتے ہیں تو ان کی سموں کی ضرب سے چقماق کی طرح چنگاریاں نکلتی ہیں۔ گویا وہ اپنے مالکوں کی رضا جوئی میں آگ کے انگاروں پر دوڑ رہے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

پھر ٹاپوں سے چنگاریاں جھاڑتے

یہ اور اِس سے آگے تمام صفات ’ف‘کے ساتھ عطف ہوئی ہیں۔ عربیت کی رو سے یہ عطف ترتیب پر بھی دلالت کرتا ہے اور اِس بات پر بھی کہ یہ تمام صفات ایک ہی موصوف سے متعلق ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

پھر (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں جھاڑتے ہیں۔

چنگاریاں جھاڑنے کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ گھوڑے رات کے وقت دوڑتے ہی، کیونکہ رات ہی کو ان کی ٹاپوں سے جھڑنے والے شرارے نظر آتے ہیں۔

جونا گڑھی

پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑنے والوں کی قسم

 موریات، ایراء سے ہے آگ نکالنے والے۔ قدح کے معنی ہیں۔ صبک چلنے میں گھٹنوں یا ایڑیوں کا ٹکرانا، یا ٹاپ مارنا۔ اسی سے قدح بالزناد ہے۔ چقماق سے آگ نکالنا۔ یعنی گھوڑوں کی قسم جن کی ٹاپوں کی رگڑ سے پتھروں سے آگ نکلتی ہے جیسے چقماق سے نکلتی ہے (جو کہ ایک قسم کا پتھر ہے) 

فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا

امین احسن اصلاحی

صبح کے وقت دھاوا کرنے والے

یہ وہ اصل مقصد بیان ہوا ہے جس کے لیے وہ یہ جان بازی کرتے ہیں یعنی وہ دشمنوں اور حریفوں پر شب خون مارتے ہیں۔ عرب میں حریفوں پر غارت گری کا سب سے موزوں وقت صبح ہی کا سمجھا جاتا تھا اس وجہ سے یہاں ’صُبْحًا‘ کی قید لگی ہوئی ہے۔ ان کے ہاں غارت گری کے الارم کے طور پر ’وَاصَبَاحًا‘ کا جو نعرہ تھا اس میں بھی صبح کا حوالہ اسی پہلو سے ہے، یہاں تک کہ لفظ ’صَبَّح‘ عربی میں حملہ اور غارت گری کے لیے ایک معروف لفظ بن گیا۔

جاوید احمد غامدی

پھر صبح دم دھاوا کرتے

یہ اِس لیے کہا ہے کہ عرب میں دشمنوں پر غارت گری کا سب سے موزوں وقت یہی سمجھا جاتا تھا۔ ’وا صباحا‘ کے نعرے میں صبح کا حوالہ اِسی پہلو سے ہے۔ لفظ ’صبح‘ اِسی بنا پر عربی زبان میں حملے اور غارت گری کے لیے ایک معروف لفظ بن گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پھر صبح سویرے چھاپہ مارتے ہیں۔

اہل عرب کا قاعدہ تھا کہ جب کسی بستی پر انہیں چھاپہ مارنا ہوتا تو رات کے اندھیرے میں چل کر جاتے تاکہ دشمن خبردار نہ ہوسکے، اور صبح سویرے اچانک اس پر ٹوٹ پڑتے تھے تاکہ صبح کی روشنی میں ہر چیز نظر آسکے، اور دن اتنا زیادہ روشن بھی نہ ہو کہ دشمن دور سے ان کو آتا دیکھ لے اور مقابلہ کے لیے تیار ہوجائے۔

جونا گڑھی

پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والوں کی قسم

 مغیرات، أغار یعیر سے ہے، شب خون مارنے یا دھاوا بولنے والے۔ صبحا صبح کے وقت، عرب میں عام طور پر حملہ اسی وقت کیا جاتا تھا، شب خون تو مارتے ہیں، جو فوجی گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں، لیکن اس کی نسبت گھوڑوں کی طرف اسلئے کی ہے کہ دھاوا بولنے میں فوجیوں کے یہ بہت زیادہ کام آتے ہیں۔ 

فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا

امین احسن اصلاحی

دوڑ سے غبار اٹھانے والے

’اِثَارَۃٌ‘ کے معنی اٹھانے اور ابھارنے کے اور ’نَقْعٌ‘ کے معنی گرد و غبار کے ہیں۔

’بِہ‘ میں ’ب‘ ظرف کے مفہوم میں لیجیے اور ضمیر کا مرجع ’صُبْحًا‘ قرار دیجیے تو مطلب یہ ہو گا کہ جب وہ صبح کو غارت گری کرتے ہیں تو اس وقت وہ گرد و غبار کا ایک طوفان اٹھا دیتے ہیں۔ یعنی ان کا حملہ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کسی جانب سے ایک طوفانی آندھی آ گئی۔
اور اگر ’بِہ‘ کو اس تگاپو سے متعلق مانیے جو ’عٰدِیٰت‘ کے اندر مضمر ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنی اس تگاپو سے غبار ابھار دیتے ہیں۔
دونوں ہی شکلوں میں مقصود اس کلام سے ان کی جنگی اہمیت کا اظہار ہے۔ یعنی ان کا آنا نسیم صبح کا آنا نہیں بلکہ ایک آندھی کا آنا ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

پھر اُس میں غبار اڑاتے

اصل الفاظ ہیں:’فَاَثَرْنَ بِہٖ نَقْعًا‘۔ اِن میں ’ب‘ ظرف کے لیے ہے اور ضمیر کا مرجع وہ تگاپو ہے، جو پیچھے لفظ ’مُغِیْرٰت‘ سے مفہوم ہوتی ہے، یعنی دھاوا کرنے کی اِس تگاپومیں غبار اڑاتے۔

ابو الاعلی مودودی

پھر اس موقع پر گرد و غبار اڑاتے ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

پس اس وقت گرد و غبار اڑاتے ہیں۔

 أثار، اڑانا۔ نقع، گرد و غبار۔ یعنی یہ گھوڑے جس وقت تیزی سے دوڑتے یا دھاوا بولتے ہیں تو اس جگہ پر گرد و غبار چھا جاتا ہے۔ 

فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا

امین احسن اصلاحی

اور غبار کے ساتھ غول میں گُھس جانے والے

’بِہٖ‘ میں ’ب‘ یہاں ملابست کے مفہوم میں اور ضمیر کا مرجع ’نَقْعًا‘ ہے۔ یعنی وہ اسی آندھی اور طوفان کے ساتھ دشمن کے ایک پورے غول کے اندر گھس جاتے ہیں اور اس کے نیزوں اور تلواروں کی ذرا پروا نہیں کرتے۔ انھیں اپنی جانوں سے زیادہ اپنے مالکوں کا مقصد عزیز ہوتا ہے۔ اس کی خاطر وہ ہر خطرے سے بے خوف ہو کر اقدام کرتے ہیں اور یہی ان کے شایان شان ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور اُسی کے ساتھ مجمع میں گھس جاتے

یعنی اُسی غبار کے ساتھ۔ اصل میں ’فَوَسَطْنَ بِہٖ جَمْعًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’ب‘ ملابست کے مفہوم میں ہے اور ضمیر کا مرجع’نَقْعًا‘ ہے۔

ابتدا سے یہاں تک یہ اُس غارت گری اور لوٹ مار کی تصویر ہے جس سے قریش کے سوا عرب کا کوئی قبیلہ اُس زمانے میں محفوظ نہ تھا۔

ابو الاعلی مودودی

پھر اِسی حالت میں کسی مجمع کے اندر جا گھستے ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

پھر اسی کے ساتھ فوجوں کے درمیان گھس جاتے ہیں۔

 فوسطن، درمیان میں گھس جاتے ہیں۔ اس وقت، یا حالت گرد و غبار میں۔ جمعا دشمن کے لشکر۔ مطلب ہے کہ اس وقت، یا جبکہ فضا گردوغبار سے اٹی ہوئی ہے یہ گھوڑے دشمن کے لشکروں میں گھس جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ کرتے ہیں۔ 

إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ

امین احسن اصلاحی

کہ انسان اپنے رب کا نہایت ناشکرا ہے

اصل دعویٰ: یہ وہ اصل بات ہے جس پر شہادت کے لیے اوپر کی قسمیں کھائی گئی ہیں۔

’کَنُوْدٌ‘ کے معنی ہیں ناشکرا، ناسپاس، تنہا خور، اپنے مالک کی عنایتوں کا ناقدرا۔
مطلب یہ ہے کہ جو انسان گھوڑوں کی یہ ساری جاں نثاریاں دیکھتا ہے اور ان کی قربانیوں سے بہرہ مندہ ہوتا ہے لیکن اسے یہ سونچنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ بھی اپنے رب کا غلام ہے اور اس پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بھی انہی کی طرح اپنے رب کی اطاعت میں سرگرم و سینہ سپر رہے، وہ نہایت ناشکرا اور لئیم ہے۔ کیونکہ وہ جانور ہو کر اپنے مالک کا حق پہچانتے ہیں اور یہ انسان ہو کر اپنے خداوند کا حق نہیں پہچانتا۔
گھوڑوں کے خاص طور پر ذکر کی وجہ: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ گھوڑوں کا ذکر بطور مثال ہے۔ یہی وفاداری و جاں نثاری ان تمام حیوانات میں پائی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مسخر کیے ہیں۔ چنانچہ قرآن نے جگہ جگہ ان کا بھی ذکر کر کے انسان کی حس شکر کو ابھارا ہے۔ خاص طور پر اونٹ کی صلاحیتوں اور خدمتوں کا ذکر تو قرآن میں متعدد جگہ آیا ہے۔ اس کی خدمت، اس کی جفاکشی اور اس کے صبر سے انسان کو سبق لینے کی دعوت دی گئی ہے کہ جس طرح وہ اپنے آقا کی تابع داری کرتا ہے اسی طرح انسان کا فرض ہے کہ اپنے اس آقا کی تابع داری کرے جس نے اونٹ جیسے عظیم اور کثیر المنافع جانور کو اس کی تابع داری میں دے دیا ہے۔
گھوڑوں کے خصوصیت سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ اور دفاع کے لیے خاص طور پر اس اس دور میں، بڑی اہمیت رکھتے تھے جب ہر خاندان اور قبیلہ کی حفاظت کی ذمہ داری خود خاندان و قبیلہ پر عائد ہوتی تھی۔ اس زمانے میں ہر شخص کو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لیے اصیل جنگی گھوڑے رکھنے پڑتے تھے اور ان گھوڑوں کی ان کے ہاں بڑی عظمت و اہمیت تھی۔ یہ گھوڑے عربی شاعری کا خاص موضوع ہیں۔ یہاں اشعار نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے محض ان کے ذوق کا اندازہ کرنے کے لیے کسی حماسی کا ایک شعر نقل کرتا ہوں جو بالکل بروقت زبان قلم پر آ گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے:

وفی فرس نھد عتیق جعلتہ
حجابا لبیتی ثم اخدمتہ عبدا

(اور میں اپنا مال ایک جوان اور اصیل گھوڑے کے لیے خرچ کرتا ہوں جس کو میں نے اپنے گھر کا پاسبان بنایا ہے اور پھر میں نے اس کی خدمت کے لیے ایک غلام رکھ چھوڑا ہے)

انسان کے لیے خاص درس: گھوڑوں کی یہ قدر و قیمت، ظاہر ہے کہ، ان کی خدمات اور جاں بازیوں کی بنا پر ہے جو وہ انسان کی انجام دیتے ہیں۔ اگر یہ خدمتیں وہ انجام نہ دیتے تو انسان نہ ان پر اپنا مال خرچ کرتا اور نہ اپنے قصیدوں میں ان کی مدح سرائی کرتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہے کہ غلام کی قدر و قیمت کا انحصار اس کی خدمات پر ہے لیکن خود اپنے معاملے میں وہ اس حقیقت کو فراموش کر جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ جس رب کا غلام ہے حکم تو اس کا ایک نہ مانے لیکن انعام دنیا اور آخرت دونوں میں سب سے بڑھ کر پائے۔
انسان کی ناشکری کا ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ انسان نہ گھوڑوں ہی کا خالق ہے اور نہ ان چیزوں ہی کا خالق ہے جن پر ان کی پرورش کا انحصار ہے تاہم وہ نہایت بے جگری سے انسان کی خدمت محض اس وجہ سے کرتے ہیں کہ خدا نے ان کو اس کی خدمت میں لگا دیا ہے۔ اس کے برعکس انسان کا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا بھی خالق ہے اور اس کے کام آنے والے تمام جانوروں اور معاش و معیشت کے جملہ اسباب و وسائل کا بھی لیکن وہ خدا کی بندگی کے حقوق و فرائض سے بے پروا ہے۔

جاوید احمد غامدی

کہ (حرم کے سایۂ امن میں رہنے والا) یہ انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے

مطلب یہ ہے کہ بڑا ہی نا شکرا اورلئیم ہے وہ انسان جو اِس لوٹ مار اور غارت گری کو شب و روز اپنے گردوپیش میں دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ اگر اِس سے محفوظ ہے تو اِسی وجہ سے محفوظ ہے کہ اُسے حرم کی تولیت حاصل ہے، جانتا ہے کہ یہ گھر اور اِس کی برکتیں نہ ہوتیں تو اُس پر بھی اُسی طرح دھاوے ہوتے، جس طرح دوسروں پر ہو رہے ہیں، لیکن اِس کے باوجود سرکشی پر آمادہ ہے اور اُس خدا کو جھٹلا رہا ہے جس کی عنایتوں سے امن و آشتی کی یہ نعمت اُسے عطا ہوئی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔

یہ ہے وہ بات جس پر ان گھوڑوں کی قسم کھائی گئی ہے جو رات کو پھنکارے مارتے اور چنگاریاں جھاڑتے ہوئے دوڑتے ہیں، پھر صبح سویرے غبار اڑاتے ہوئے کسی بستی پر جا پڑتے ہیں اور مدافعت کرنے والوں کی جماعت میں گھس جاتے ہیں۔ تعجب اس پر ہوتا ہے کہ اکثر مفسرین نے ان گھوڑوں سے مراد غازیوں کے گھوڑے لیے ہیں اور جس مجمع میں ان کے جا گھسنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد ان کے نزدیک کفار کا مجمع ہے۔ حالانکہ یہ قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ ” انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے “۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ میں غازیوں کے گھوڑوں کی دوڑ دھوپ اور کفار کے کسی مجمع پر ان کا ٹوٹ پڑنا اس امر پر کوئی دلالت نہیں کرتا کہ انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے، اور نہ بعد کے یہ فقرے کہ انسان اپنی اس ناشکری پر خود گواہ ہے اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے، ان لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس سورة کی ابتدائی پانچ آیات میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں ان کا اشارہ دراصل اس عام کشت و خون اور غارت گری کی طرف ہے جو عرب میں اس وقت برپا تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں رات ایک بہت خوفناک چیز ہوتی تھی جس میں ہر قبیلے اور بستی کے لوگ یہ خطرہ محسوس کرتے تھے کہ نہ معلوم کون سا دشمن ان پر چڑھائی کرنے کے لیے آرہا ہو، اور دن کی روشنی نمودار ہونے پر وہ اطمینان کا سانس لیتے تھے کہ رات خیریت سے گزر گئی۔ وہاں قبیلوں کے درمیان محض انتظامی لڑائیاں ہی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ مختلف قبیلے ایک دوسرے پر اس غرض کے لیے بھی چھاپے مارتے رہتے تھے کہ ان کی دولت لوٹ لیں، ان کے مال مویشی ہانک لے جائیں، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیں۔ اس ظلم و ستم اور غارت گری کو جو زیادہ تر گھوڑوں پر سوار ہو کر ہی کی جاتی تھی، اللہ تعالیٰ اس امر کی دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ یعنی جس طاقت کو وہ جنگ و جدل اور غارت گری میں استعمال کر رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ اس سے یہ کام لیا جائے۔ پس درحقیقت یہ بہت بڑی ناشکری ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے ان وسائل اور اس کی بخشی ہوئی ان طاقتوں کو اس فساد فی الارض میں استعمال کیا جائے جو اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔

جونا گڑھی

یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔

 یہ جواب قسم ہے۔ انسان سے مراد کافر، یعنی بعض افراد ہیں۔ کنود بمعنی کفور، ناشکرا۔ 

وَإِنَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ لَشَهِيدٌ

امین احسن اصلاحی

اور وہ اپنے رویہ پر خود گواہ ہے

انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے: فرمایا کہ اس کے اس ناشکرے پن پر کوئی دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود اس پر سب سے بڑا گواہ ہے۔ یہ فقرہ اسی طرح کا ہے جس طرح سورۂ قیامہ میں فرمایا ہے:

’بَلِ الْإِنۡسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ۵ وَلَوْ أَلْقٰی مَعَاذِیْرَہُ‘ (القیامہ ۷۵: ۱۴-۱۵)
(بلکہ انسان خود اپنے اوپر حجت ہے اگرچہ وہ کتنے ہی عذرات تراشے)۔

جو باتیں انسان کی فطرت کے بدیہی مقتضیات میں سے ہیں وہ دلیل کی محتاج نہیں ہوتیں۔ ان کے حق میں سب سے بڑی گواہی خود انسان کی فطرت اور اس کے ضمیر کے اندر موجود ہوتی ہے۔ انسان اگر ان سے گریز اختیار کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ ان کے حق میں اس کو کوئی دلیل نہیں ملی بلکہ ان کو اپنے نفس کی سفلی خواہشوں کے خلاف پاتا ہے اس وجہ سے ان سے گریز کے لیے بہانے تلاش کرتا ہے۔ ورنہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ خود تو صرف انہی گھوڑوں کی قدر کرتا ہے جو اس کی کوئی قابل قدر خدمت انجام دیتے ہیں لیکن اپنے مالک اور رب کے متعلق یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کے ہاں نیکو کار اور بدکار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس نے ان کے ساتھ جو معاملہ اس دنیا میں کیا ہے اس سے بہتر معاملہ آخرت میں کرے گا، خواہ اس کے ایک حکم کی بھی وہ تعمیل نہ کرے بلکہ ساری زندگی اپنے نفس کی غلامی میں گزارے۔

جاوید احمد غامدی

حقیقت یہ ہے کہ وہ (اپنے) اِس (رویے) پر خود گواہ ہے

یعنی یہ بات محتاج دلیل نہیں ہے۔ اِس پر انسان کے اپنے ضمیر کی شہادت کافی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’جو باتیں انسان کی فطرت کے بدیہی مقتضیات میں سے ہیں، وہ دلیل کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اُن کے حق میں سب سے بڑی گواہی خود انسان کی فطرت اور اُس کے ضمیر کے اندر موجود ہوتی ہے۔ انسان اگر اُن سے گریز اختیار کرتا ہے تو اِس وجہ سے نہیں کہ اُن کے حق میں اُس کو کوئی دلیل نہیں ملی، بلکہ اُن کو وہ اپنے نفس کی سفلی خواہشوں کے خلاف پاتا ہے، اِس وجہ سے اُن سے گریز کے لیے بہانے تلاش کرتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۵۰۳)

ابو الاعلی مودودی

اور وہ خود اِس پر گواہ ہے۔

یعنی اس کا ضمیر اس پر گواہ ہے، اس کے اعمال اس پر گواہ ہیں، اور بہت سے کافر انسان خود اپنی زبان سے علانیہ ناشکری کا اظہار کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک خدا ہی سرے سے موجود نہیں کجا کہ وہ اپنے اوپر اس کی کسی نعمت کا اعتراف کریں اور اس کا شکر اپنے ذمے لازم سمجھیں۔

جونا گڑھی

اور یقیناً وہ خود بھی اس پر گواہ ہے۔

 یعنی انسان خود بھی اپنی ناشکری کی گواہی دیتا ہے۔ بعض لشہید کا فاعل اللہ کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے مفہوم کو راجح قرار دیا ہے، کیونکہ مابعد کی آیات میں ضمیر کا مرجع انسان ہی ہے۔ اس لیے یہاں بھی انسان ہی ہونا زیادہ صحیح ہے۔ 

وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ

امین احسن اصلاحی

اور وہ دولت کا رسیا ہے

کردار کی گواہی: یہ اس کے ناشکرے پن پر اس کے کردار سے دلیل پیش کی ہے کہ وہ مال کی محبت میں غرق ہے۔ وہ اپنے گھوڑوں کو تو دیکھتا ہے کہ وہ جان کی بازی لگا کر اور نیزوں کے مقابل میں سینہ سپر ہو کر جو کچھ حاصل کرتے ہیں سب مالک کے حوالے کرتے ہیں، اپنے کسی حق کا مطالبہ نہیں کرتے، مالک جو کچھ ان کے آگے ڈال دیتا ہے اس پر قانع رہتے ہیں، لیکن اس کا حال یہ ہے کہ یہ جو کچھ اپنے رب کی بخشش و عنایات سے پاتا ہے اس کو اپنی تدبیر و قابلیت کا کرشمہ سمجھتا ہے اور اس پر مار گنج بن کر بیٹھ رہتا ہے، اس میں مالک کا کوئی حق تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتا اور اگر کوئی اس کے لیے اس کو یاددہانی کرے تو اس کو جواب دیتا ہے کہ اس کے مال کو خدا سے کیا تعلق۔ یہ تو اس نے اپنی محنت و قابلیت سے حاصل کیا ہے:

’إِنَّمَا أُوۡتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِندِیْ‘ (القصص ۲۸: ۷۸)
(یہ تو مجھے اس علم کی بدولت ملا ہے جو میرے اپنے پاس ہے)۔

لفظ ’خَیْر‘ یہاں مال کے معنی میں ہے۔ اس معنی میں یہ عربی میں معروف ہے اور قرآن میں بھی یہ اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ محبت کی اصلی حق دار وہ ذات ہے جو انسان کی خالق و مالک ہے اور جس کے فضل سے انسان کو وہ سب کچھ ملتا ہے جو اس دنیا میں وہ پاتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے سچے اہل ایمان کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی مرحلہ ایسا آتا ہے جس میں ان کے نفس اور ان کے رب کے مطالبات میں تصادم ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کی محبت میں مضبوط ثابت ہوتے ہیں اور نفس کے مطالبے کو ٹھکرا دیتے ہیں:

’وَالَّذِیْنَ آمَنُوۡا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ‘ (البقرہ ۲: ۱۶۵)
(اور جو اہل ایمان ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ سخت اللہ کی محبت میں ہوتے ہیں)۔

اس کے برعکس حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو ناشکرے اور ناسپاس ہوتے ہیں، وہ اپنے رب سے زیادہ اپنے مال کے پرستار ہوتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اور حقیقت یہ ہے کہ وہ دولت کا متوالا ہے

یعنی حق و انصاف کے بجاے دولت کا متوالا ہے۔ چنانچہ یہی چیز اِس ناشکرے پن کا باعث بن گئی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے۔

اصل الفاظ ہیں وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ اس فقرے کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ ” وہ خیر کی محبت میں بہت سخت ہے “۔ لیکن عربی زبان میں خیر کا لفظ نیکی اور بھلائی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ مال و دولت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ سورة بقرہ آیت 180 میں خیر بمعنی مال و دولت ہی استعمال ہوا ہے۔ یہ بات کلام کے موقع و محل سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں خیر کا لفظ نیکی کے معنی میں ہے اور کہاں مال و دولت کے معنی میں۔ اس آیت کے سیاق وسباق سے خود ہی یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اس میں خیر مال و دولت کے معنی میں ہے نہ کہ بھلائی اور نیکی کے معنی میں، کیونکہ جو انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور اپنے طرز عمل سے خود اپنی ناشکری پر شہادت دے رہا ہے، اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نیکی اور بھلائی کی محبت میں بہت سخت ہے۔

جونا گڑھی

یہ مال کی محبت میں بھی بڑا سخت ہے

 خَیْر،ُ سے مراد مال ہے، اور ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نہایت حریص اور بخیل ہے جو مال کی شدید محبت کا لازمی نتیجہ ہے۔ 

أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ

امین احسن اصلاحی

کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب قبریں اگلوائی جائیں گی

زرپرست ناشکروں کو تنبیہ: یہ ناشکرے اور زرپرست انسانوں کو تنبیہ ہے کہ کیا وہ اس دن کو نہیں جانتے جب وہ سب کچھ جو قبروں میں ہے اگلوا لیا جائے گا اور جو کچھ لوگوں کے سینوں میں ہے وہ نکلوا لیا جائے گا۔ قبروں کے اندر سے مردوں کو نکلوانا تو بالکل واضح ہے لیکن یہاں یہ بات زرپرستوں کی تنبیہ کے سیاق میں فرمائی گئی ہے اس وجہ سے قرینہ دلیل ہے کہ اس سے وہ دفینے بھی مراد ہیں جو بخیل مال دار، خدا اور اس کے بندوں کے حقوق مار کر، زمینوں میں دفن کر چھوڑتے ہیں۔ ’بُعْثِرَ‘ کے معنی ہیں کسی جمع کی ہوئی چیز کو جائزہ لینے کے لیے پراگندہ اور متفرق کر دینا۔ یعنی اس دن کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں رہ جائے گی بلکہ ہر چیز سب کے سامنے آ جائے گی۔

جاوید احمد غامدی

پھر کیا وہ نہیں جانتا، جب قبریں اگلوائی جائیں گی

n/a

ابو الاعلی مودودی

تو کیا وہ اُس حقیقت کو نہیں جانتا جب قبروں میں جو کچھ (مدفون) ہے اُسے نکال لیا جائے گا۔

یعنی مرے ہوئے انسان جہاں جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے وہاں سے ان کو نکال کر زندہ انسانوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا۔

جونا گڑھی

کیا اسے وہ وقت معلوم نہیں جب قبروں میں جو (کچھ) ہے نکال لیا جائے گا

 بعثر، نثر وبعث یعنی قبروں کے مردوں کو زندہ کر کے اٹھا کھڑا کردیا جائے گا۔ 

وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ

امین احسن اصلاحی

اور دلوں کے بھید نکلوائے جائیں گے

اعمال کے ریکارڈ کے ساتھ محرکات اعمال کا ریکارڈ بھی خدا کے سامنے ہو گا: ’وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ‘۔ یعنی دفینوں کی طرح سینوں کے سارے راز بھی اکٹھے کر لیے جائیں گے تاکہ ہر شخص پر حجت قائم کی جا سکے کہ کس نے کون سا عمل کس محرک کے تحت کیا ہے۔ یہ امر واضح رہے کہ کوئی شخص کتنا ہی غلط کام کرے لیکن وہ اس کو جائز ثابت کرنے کے لیے کوئی اچھا محرک تلاش کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہے تاکہ اپنے ضمیر کو بھی چپ کر سکے اور دوسروں کی تنقید و تحقیر سے بھی اپنے کو بچا سکے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے کو مذہبی روپ میں پیش کرتے یا قیادت کے مقام پر فائز ہوتے یا ہونے کے متمنی ہوتے ہیں وہ تو اس کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتے۔ وہ اپنے باطن کو خلق کی نگاہوں سے چھپائے رکھنے کے لیے اس طرح کا کوئی لبادہ ضرور ایجاد کر لیتے ہیں۔ اس قسم کے شاطروں کو اس آیت میں متنبہ فرمایا گیا ہے کہ اس دن ان کے اعمال کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ ان کے محرکات کا سارا ریکارڈ بھی ان کے اور ان کے رب کے سامنے ہو گا۔ سابق سورہ ۔۔۔ الزلزال ۔۔۔ کی آخری آیات کے تحت جو کچھ لکھا گیا ہے اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے تاکہ اس کے سارے پہلو واضح ہو جائیں۔

جاوید احمد غامدی

اور سینوں میں جو کچھ ہے، وہ (اُن سے) نکال لیا جائے گا۔

اِس لیے کہ ہر شخص پر حجت قائم کی جاسکے کہ اُس نے کون سا عمل کس نیت سے اور کس محرک کے تحت کیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور سینوں میں جو کچھ (مخفی) ہے اُسے برآمد کر کے اس کی جانچ پڑتال کی جائے گی؟

یعنی دلوں میں جو ارادے اور نیتیں، جو اغراض و مقاصد، جو خیالات و افکار، اور ظاہری افعال کے پیچھے جو باطنی محرکات (Motives) چھپے ہوئے ہیں وہ سب کھول کر رکھ دیے جائیں گے اور ان کی جانچ پڑتال کر کے اچھائی کو الگ اور برائی کو الگ چھانٹ دیا جائے گا۔ بالفاظ دیگر فیصلہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا کہ انسان نے عملا کس غرض سے کیے۔ اس بات پر اگر انسان غور کرے تو وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اصل اور مکمل انصاف خدا کی عدالت کے سوا اور کہیں نہیں ہوسکتا۔ دنیا کے لا دینی قوانین بھی اصولی حیثیت سے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی شخص کے محض ظاہری فعل کی بنا پر اسے سزا نہ دی جائے بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس نے کس نیت سے وہ فعل کیا ہے۔ لیکن دنیا کی کسی عدالت کے پاس بھی وہ ذرائع نہیں ہیں جن سے وہ نیت کی ٹھیک ٹھیک تحقیق کرسکے۔ یہ صرف اور صرف خدا ہی کرسکتا ہے کہ انسان کے ہر ظاہری فعل کے پیچھے جو باطنی محرکات کارفرما رہے ہیں ان کی بھی جانچ پڑتال کرے اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس جزا یا سزا کا مستحق ہے۔ پھر آیت کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ محض اللہ کے اس علم کی بنا پر نہیں ہوگا جو وہ دلوں کے ارادوں اور نیتوں کے بارے میں پہلے ہی سے رکھتا ہے، بلکہ قیامت کے روز ان رازوں کو کھول کر علانیہ سامنے رکھ دیا جائے گا اور کھلی عدالت میں جانچ پڑتال کر کے یہ دکھا دیا جائے گا کہ ان میں خیر کیا تھی اور شر کیا تھا۔ اسی لیے وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُوْرِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ تحصیل کے معنی کسی چیز کو نکال باہر لانے کے بھی ہیں، مثلا چھلکا اتار کر مغز نکالنا، اور مختلف قسم کی چیزوں کو چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ لہذا دلوں میں چھپے ہوئے اسرار کی تحصیل میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔ ان کو کھول کر ظاہر کردینا بھی اور ان کو چھانٹ کر برائی اور بھلائی کو الگ کردینا بھی۔ یہی مضمون سورة طارق میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ ” جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی ” (آیت 9)

جونا گڑھی

اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کردی جائیں گی۔

 حصل، میز وبین یعنی سینوں کی باتوں کو ظاہر اور کھول دیا جائے گا۔ 

Page 1 of 2 pages  1 2 >