حم

امین احسن اصلاحی

یہ حٰمٓ ہے

یہ دونوں آیتیں پچھلی سورہ کی تمہید میں بھی گزر چکی ہیں اور وہاں ان کی وضاحت بھی ہو چکی ہے۔ بعینہٖ اسی نام اور اسی تمہید سے اس سورہ کا آغاز نہایت واضح قرینہ اس بات کا ہے کہ دونوں میں نہایت واضح قدر مشترک موجود ہے۔ چنانچہ آگے کے مباحث سے ان کے اشتراک کا پہلو بھی سامنے آجائے گا اور جملہ حوامیم کا، جو پیچھے گزر چکی ہیں، خلاصہ بھی معلوم ہو جائے گا۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’حٰمٓ‘ ہے۔

پچھلی سورتوں کی طرح اِس سورہ کا نام بھی ’حٰمٓ‘ ہے۔ یہ اشتراک مطالب پر دلیل ہے اور قرآن کا ہر طالب علم اِسے تمام حوامیم میں بالکل نمایاں دیکھ سکتا ہے۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔ اِس کے بعد تمہید کی آیت ہے جس کی وضاحت پچھلی سورہ الجاثیہ (۴۵) کی تفسیر میں اِسی جگہ ہو چکی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ح۔ م۔

n/a

جونا گڑھی

حم۔

n/a

تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

امین احسن اصلاحی

یہ کتاب نہایت اہتمام کے ساتھ خدائے عزیز و حکیم کی طرف سے اتاری گئی ہے

یہ دونوں آیتیں پچھلی سورہ کی تمہید میں بھی گزر چکی ہیں اور وہاں ان کی وضاحت بھی ہو چکی ہے۔ بعینہٖ اسی نام اور اسی تمہید سے اس سورہ کا آغاز نہایت واضح قرینہ اس بات کا ہے کہ دونوں میں نہایت واضح قدر مشترک موجود ہے۔ چنانچہ آگے کے مباحث سے ان کے اشتراک کا پہلو بھی سامنے آجائے گا اور جملہ حوامیم کا، جو پیچھے گزر چکی ہیں، خلاصہ بھی معلوم ہو جائے گا۔

جاوید احمد غامدی

اِس کتاب کی تنزیل اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اِس کتاب کا نزول اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے ہے۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، سورة الزمر، حاشیہ 1، اور سورة الجاثیہ، حاشیہ 1، اس کے ساتھ سورة السجدہ، حاشیہ نمبر ایک بھی نگاہ میں رہے تو اس تمہید کی روح سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

جونا گڑھی

اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب حکمت والے کی طرف سے ہے۔

 یہ فواتح سورة ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے ان کے معانی و مطالب میں پڑنے کی ضرورت نہیں تاہم ان کے دو فائدے بعض مفسرین نے بیان کیے ہیں جنہیں ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں۔ 

مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ

امین احسن اصلاحی

ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو نہیں پیدا کیا مگر ایک غایت اور معین مدت کے لیے۔ اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اس چیز سے اعراض کیے ہوئے ہیں جس سے ان کو آگاہ کیا گیا ہے

یہ ان لوگوں کے حال پر اظہار افسوس ہے جو خدائے عزیز و حکیم کے اتارے ہوئے اس صحیفۂ گرامی کی تکذیب پر مصر اور اس چیز سے اعراض کرنے والے بنے ہوئے تھے جس سے آگاہ کرنے کے لیے اللہ نے اس کو نازل کیا تھا۔

اس دنیا کے بامقصد ہونے کا تقاضا ہے کہ اس کے بعد روز جزا ہو۔ ’عَمَّا أُنذِرُوْا‘ سے اشارہ ظاہر ہے کہ قیامت کی طرف ہے اور قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو نہ ماننے سے یہ سارا کارخانۂ عالم ایک بالکل عبث اور بے مقصد و بے غایت کھیل بن کے رہ جاتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ عالم ’بِالْحَقِّ‘ یعنی ایک غایت و مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ’عزیز‘ یعنی غالب و مقتدر ہونے کے ساتھ ’حکیم‘ بھی ہے۔ اگر قیامت نہ ہو تو اس دنیا کو دیکھ کر یہ بات تو ثابت ہو گی کہ اس کے بنانے والے کی قدرت بے نہایت ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ اس نے یہ ایک بالکل بے مقصد اور باطل کام کر ڈالا ہے۔ حالانکہ یہ بات اس کی ظاہر صفات کے بالکل منافی ہے۔ اس دنیا سے جس طرح اس کی قدرت ظاہر ہوتی ہے اسی طرح اس کی حکمت بھی مشاہدے میں آتی ہے اور یہ دونوں صفتیں بالکل پہلو بہ پہلو اس میں موجود ہیں۔ یہاں زبان کا وہ نکتہ یاد رکھیے جس کا ذکر اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کر چکے ہیں کہ جب صفات کا بیان بغیر حرف عطف کے ہو جس طرح ’العزیز الحکیم‘ میں ہے تو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ صفات موصوف میں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔
’بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّی‘ یعنی جس طرح اس کائنات کا ’بِالْحَقِّ‘ ہونا واضح ہے اسی طرح اس کے ’بالحق‘ ہونے کا ایک بدیہی تقاضا یہ بھی ہے کہ دنیا اسی طرح برابر چلتی نہ رہے بلکہ ضروری ہے کہ یہ ایک معین مدت تک کے لیے ہو جس کے بعد یہ ختم ہو۔ پھر اس کی عدالت قائم ہو۔ جس نے اس میں نیکی کمائی ہو اس کو اس کی نیکی کا صلہ ملے اور جس نے بدی کمائی ہو وہ اپنی بدی کی سزا بھگتے۔
ایک سوال اور اس کا جواب: یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہ بات تو معقول معلوم ہوتی ہے کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کی جزا یا سزا پائے لیکن اس کے لیے یہ کیا ضروری ہے کہ یہ پوری دنیا ایک معین مدت کے بعد ختم ہو جائے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ برابر قائم بھی رہے اور جو مرتے جائیں ان کی عدالت بھی ہوتی رہے؟ یہ سوال یوں تو ذہن میں متعدد غلط فہمیوں کے موجود ہونے کے سبب سے پیدا ہوتا ہے جن پر یہاں بحث کے لیے گنجائش نہیں ہے لیکن ایک چیز کی طرف ہم یہاں اشارہ کریں گے، وہ یہ کہ انسان کا ہر عمل خواہ نیکی کا عمل ہو یا بدی کا، اپنے اندر متعدی ہونے کی خصوصیات رکھتا ہے۔ ایک شخص ایک نیکی کا تخم بوتا ہے جس کی برکتوں سے صدیوں اور قرنوں تک اولاد آدم مستفید ہوتی ہے، اسی طرح ایک شخص ایک غلط اور گمراہ کن فلسفہ ایجاد کرتا ہے جس کی ضلالت ایک خلق کثیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پھر وہ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ اتنی مستحکم ہوتی جاتی ہے کہ اس کو اکھاڑنا تو درکنار، قوموں کے بعد قومیں اٹھتی اور اپنی صلاحیتیں ان کو پروان چڑھانے پر صرف کرتی ہیں۔ اس صورت حال کے سبب سے کسی کی نیکی یا بدی کا صحیح اندازہ اس کو کرانا ہو تو یہ ضروری ہو گا کہ ان کے بعید سے بعید اثرات اس کے سامنے لائے جائیں اور عناصر کائنات میں سے جو بھی اس کی کسی نیکی یا بدی کے گواہ ہوں ان کو پیش کیا جائے۔ اس کے بغیر کامل عدل ظہور میں نہیں آ سکتا۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہوا کہ ایک دن اس دنیا کی مدت پوری ہو اور اللہ تعالیٰ ایک ایسی عدالت میں لوگوں کا فیصلہ فرمائے جس میں سب حاضر ہوں۔ یہاں تک کہ آسمان اور زمین سے بھی اگر کسی معاملہ میں گواہی مطلوب ہو تو ان کو بھی ان کے سارے ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا جائے۔ یہ چیز ظاہر ہے کہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سب کا روز انصاف ایک ہو۔

جاوید احمد غامدی

زمین اور آسمانوں کو اور جو اُن کے درمیان ہیں، ہم نے غایت کے ساتھ اور ایک مقررمدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ منکرین اُس حقیقت سے اعراض کیے ہوئے ہیں، جس سے اِنھیں خبردار کیا گیا ہے۔

چنانچہ اِس کا بدیہی تقاضا ہے کہ یہ لازماً اپنے انجام کو پہنچے اور اُس عدل کامل کا ظہور ہو جس کی احتیاج ہر انسان ہوا اور پانی سے بھی بڑھ کر اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہ بات تو معقول معلوم ہوتی ہے کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کی جزا یا سزا پائے، لیکن اِس کے لیے یہ کیا ضروری ہے کہ یہ پوری دنیا ایک معین مدت کے بعد ختم ہو جائے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ برابر قائم بھی رہے اور جو مرتے جائیں، اُن کی عدالت بھی ہوتی رہے؟ یہ سوال یوں توذہن میں متعدد غلط فہمیوں کے موجود ہونے کے سبب سے پیدا ہوتا ہے جن پر یہاں بحث کے لیے گنجایش نہیں ہے، لیکن ایک چیز کی طرف ہم یہاں اشارہ کریں گے، وہ یہ کہ انسان کا ہر عمل، خواہ نیکی کا عمل ہو یا بدی کا، اپنے اندر متعدی ہونے کی خصوصیات رکھتا ہے۔ ایک شخص ایک نیکی کا تخم بوتا ہے جس کی برکتوں سے صدیوں اور قرنوں تک اولاد آدم مستفید ہوتی ہے، اِسی طرح ایک شخص ایک غلط اور گمراہ کن فلسفہ ایجاد کرتا ہے جس کی ضلالت ایک خلق کثیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور پھر وہ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ اتنی مستحکم ہوتی جاتی ہے کہ اُس کو اکھاڑنا تو درکنار، قوموں کے بعد قومیں اٹھتی اور اپنی صلاحیتیں اُس کو پروان چڑھانے پر صرف کرتی ہیں۔ اِس صورت حال کے سبب سے کسی کی نیکی یا بدی کا صحیح اندازہ اُس کو کرانا ہو تو یہ ضروری ہو گا کہ اِن کے بعید سے بعید اثرات اُس کے سامنے لائے جائیں اور عناصر کائنات میں سے جو بھی اُس کی کسی نیکی یا بدی کے گواہ ہوں، اُن کو پیش کیا جائے۔ اِس کے بغیر کامل عدل ظہور میں نہیں آسکتا۔ اِس وجہ سے یہ ضروری ہوا کہ ایک دن اِس دنیا کی مدت پوری ہو اور اللہ تعالیٰ ایک ایسی عدالت میں لوگوں کا فیصلہ فرمائے جس میں سب حاضر ہوں۔ یہاں تک کہ آسمان او رزمین سے بھی اگر کسی معاملہ میں گواہی مطلوب ہو تو اُن کو بھی اِن کے سارے ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا جائے۔ یہ چیز، ظاہر ہے کہ اُسی صورت میں ممکن ہے، جب سب کا روز انصاف ایک ہو۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۳۴۵)

یعنی قیامت سے، جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اِس کائنات کے ’بِالْحَقّ‘ ہونے کا بدیہی تقاضا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مگر یہ کافر لوگ اُس حقیقت سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام، حاشیہ ٤٦، جل دوم، یونس، حاشیہ ١١، ابراہیم، حاشیہ ٢٣، الحجر، حاشیہ ٤٧، النحل، حاشہ ٦، جلد سوم، الانبیاء، حواشی ١٥ تا ١٧، المومنون، حواشی ١٠٢، العنکبوت، حواشی ٧٥۔ ٧٦ جلد چہارم، تفسیر سورة لقمان، حاشیہ 51 ۔ الدخان، حاشیہ 34 ۔ الجاثیہ، حاشیہ 28 ۔

یعنی واقعی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نظام کائنات ایک بےمقصد کھلونا نہیں بلکہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام ہے جس میں لازماً نیک و بد اور ظالم و مظلوم کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہونا ہے، اور کائنات کا موجودہ نظام دائمی و ابدی نہیں ہے بلکہ اسکی ایک خاص عمر مقرر ہے جس کے خاتمے پر اسے لازماً درہم برہم ہوجانا ہے، اور خدا کی عدالت کے لیے بھی ایک وقت طے شدہ ہے جس کے آنے پر وہ ضرور قائم ہونی ہے، لیکن جن لوگوں نے خدا کے رسول اور اس کی کتاب کو ماننے سے انکار کردیا ہے وہ ان حقائق سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات کی کچھ فکر نہیں ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب انہیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان حقیقتوں سے خبردار کر کے خدا کے رسول نے ان کے ساتھ کوئی برائی کی ہے، حالانکہ یہ ان کے ساتھ بہت بڑی بھلائی ہے کہ اس نے محاسبے اور باز پرس کا وقت آنے سے پہلے ان کو نہ صرف یہ بتا دیا کہ وہ وقت آنے والا ہے، بلکہ یہ بھی ساتھ ساتھ بتا دیا کہ اس وقت ان سے کن امور کی باز پرس ہوگی تاکہ وہ اس کے لیے تیاری کرسکیں۔

آگے کی تقریر سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ انسان کی سب سے بڑی بنیادی غلطی وہ ہے جو وہ خدا کے متعلق اپنے عقیدے کے تعین میں کرتا ہے۔ اس معاملہ میں سہل انگاری سے کام لے کر کسی گہرے اور سنجیدہ فکر و تحقیق کے بغیر ایک سرسری یا سنا سنایا عقیدہ بنا لینا ایسی عظیم حماقت ہے جو دنیا کی زندگی میں انسان کے پورے رویے کو، اور ابدلآباد تک کے لیے اس کے انجام کو خراب کر کے رکھ دیتی ہے۔ لیکن جس وجہ سے آدمی اس خطر ناک سہل انگاری میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ سمجھ لیتا ہے اور اس غلط فہمی میں پڑجاتا ہے کہ خدا کے بارے میں جو عقیدہ بھی میں اختیار کرلوں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ یا تو مرنے کے بعد سرے سے کوئی زندگی نہیں ہے جس میں مجھے کسی باز پرس سے سابقہ پیش آئے، یا اگر ایسی کوئی زندگی ہو اور وہاں باز پرس بھی ہو تو جن ہستیوں کا دامن میں نے تھام رکھا ہے وہ مجھے انجام بد سے بچا لیں گی۔ یہی احساس ذمہ داری کا فقدان آدمی کو مذہبی عقیدے کے انتخاب میں غیر سنجیدہ بنا دیتا ہے اور اسی بنا پر وہ بڑی بےفکری کے ساتھ دہریت سے لے کر شرک کی انتہائی نامعقول صورتوں تک طرح طرح کے لغو عقیدے خود گھڑتا ہے یا دوسروں کے گھڑے ہوئے عقیدے قبول کرلیتا ہے۔

جونا گڑھی

ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی تمام چیزوں کو بہترین تدبیر کے ساتھ ہی ایک مدت معین کے لئے پیدا کیا ہے اور کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں۔

 یعنی آسمان اور زمین کی پیدائش کا ایک خاص مقصد بھی ہے اور وہ ہے انسانوں کی آزمائش۔ دوسرا اس کے لئے ایک وقت بھی مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو آسمان اور زمین کا موجودہ نظام سارا بکھر جائے گا۔ نہ آسمان، یہ آسمان ہوگا نہ زمین، یہ زمین ہوگی۔ یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات " سورة ابراھیم۔

یعنی عدم ایمان کی صورت میں بعث حساب اور جزا سے جو انہیں ڈرایا جاتا ہے وہ اس کی پرواہی نہیں کرتے اس پر ایمان لاتے ہیں نہ عذاب اخروی سے بچنے کی تیاری کرتے ہیں۔ 

قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَـٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

امین احسن اصلاحی

ان سے کہو کہ کبھی تم نے غور بھی کیا ان چیزوں پر جن کو اللہ کے سوا تم پوجتے ہو! مجھے دکھاؤ کہ زمین کی چیزوں میں سے انھوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے یا ان کا آسمانوں میں کون سا ساجھا ہے! میرے سامنے اس سے پہلے کی کوئی کتاب پیش کرو یا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو

شرک کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے: یہ ان لوگوں کے اعراض کے اصل سبب پر ضرب لگائی ہے کہ ان کا اعتماد چونکہ اپنے مزعومہ شرکاء و شفعاء پر ہے اس وجہ سے یہ قرآن کے انذار کی کوئی پروا نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اول تو قیامت محض ایک ڈراوا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور اگر اس کی کچھ حقیقت ہے بھی تو ہم جن معبودوں کی پرستش کر رہے ہیں وہ ہم کو ہر خطرے سے بچائیں گے۔ فرمایا کہ ان لوگوں سے کہو کہ تم اللہ کے سوا جن چیزوں کو پکارتے ہو کبھی ان پر غور بھی کیا ہے کہ ان کی کچھ حقیقت بھی ہے یا یہ محض تمہارے ذہن ہی کی ایجاد ہیں! اگر تم ان کی کچھ حقیقت سمجھتے ہو تو ذرا مجھے بھی دکھاؤ کہ انھوں نے زمین یا اس کی چیزوں میں سے کیا چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے! مطلب یہ ہے کہ خدا کے شریک بننے کے حق دار تو صرف اسی شکل میں وہ ہو سکتے ہیں جب آسمان و زمین کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ ہو۔ اگر اس میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے تو آخر ان کو اس خدا کے حقوق میں شریک کرنے کے کیا معنی جو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کا خالق ہے۔ وہ خالق ہو کر کس طرح گوارا کرے گا کہ اس کی پیدا کی ہوئی دنیا کے مالک دوسرے بن بیٹھیں! اور تم نے یہ کس طرح جائز سمجھا کہ اس کی اجازت کے بغیر دوسروں کو اس کی حکومت اور اس کے حقوق میں شریک بنا دو! یہ امر یہاں واضح رہے کہ مشرکین عرب ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ اس وجہ سے اس دلیل کی بنیاد ایک ایسی حقیقت پر ہے جو ان کے نزدیک بھی مسلم تھی۔

’اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَآ اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘۔ ’اَثَارَۃٍ‘ اس روایت کو کہتے ہیں جو سلف سے منقول ہوتی چلی آرہی ہو۔ ’الاثارۃ البقیۃ من العلم توثروھم علی اثارۃ من العلم ای بقیۃ منہ یاثرونھا من الاولین‘ (اقرب الموارد) اس کے ساتھ ’مِنْ عِلْمٍ‘ کی قید اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ اس روایت کی بنیاد محض وہم و گمان پر نہیں بلکہ علم پر ہے۔
خدا کی گواہی کے معلوم کرنے کا قابل اعتماد ذریعہ: یعنی اگر تم مدعی ہو کہ خدا نے تمہارے معبودوں کو اپنی خدائی میں شریک بنایا ہے تو اپنے اس دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے یا تو اس قرآن سے پہلے کی کوئی کتاب پیش کرو یا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد وہم و گمان پر نہیں بلکہ علم پر ہو۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کا کوئی شریک ہے یا نہیں؟ اس باب میں اصلی گواہی خود خدا ہی کی ہو سکتی ہے کہ اس نے اپنا شریک کسی کو بنایا ہے یا نہیں اور بنایا ہے تو کس کو؟ خدا کی گواہی کو جاننے کا واحد ذریعہ اس کی نازل کردہ کتابیں ہیں یا وہ روایات و آثار جو اس کے نبیوں اور رسولوں سے صحیح طور پر سلف سے خلف کو منتقل ہوئے۔ فرمایا کہ اس طرح کی کوئی چیز ہو تو اس کو پیش کرو، محض وہم کی بنیاد پر ایک ہوائی قلعہ تعمیر کر کے اپنی عاقبت نہ خراب کرو۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ علم یا تو اس کی کتابوں کے ذریعہ سے خلق کو منتقل ہوا ہے مثلاً تورات و انجیل وغیرہ کے ذریعہ سے یا روایات و آثار کے ذریعہ سے، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی تعلیمات بعد والوں کو روایات ہی کے ذریعہ سے پہنچیں۔ ان ذرائع سے جو علم منتقل ہوا اس میں کہیں شرک کے حق میں کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ تورات، انجیل اور دوسرے صحیفوں میں اگرچہ بہت سی تحریفات ہو چکی ہیں تاہم ان کے اندر شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق جو روایات، تورات، انجیل یا دوسرے صحیفوں میں نقل ہوئی ہیں ان میں بھی شرک کا کوئی جرثومہ نہیں ہے۔ مشرکین عرب اپنے باپ دادا کے طریقہ پر ہونے کے مدعی ضرور تھے لیکن قرآن کے بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ یہ ثابت کرنے سے قاصر رہے کہ ان کے باپ دادا کے طریقہ کی بنیاد کسی شرعی یا عقلی دلیل پر تھی۔ آخر تک وہ یہی کہتے رہے کہ جس طریقے پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اسی پر ہم چلتے رہیں گے، اس سے بحث نہیں کہ انھوں نے یہ طریقہ کہاں سے لیا۔

جاوید احمد غامدی

(یہ کس بھروسے پر اعراض کر رہے ہیں)؟ اِن سے کہو، کبھی تم نے غور بھی کیا ہے کہ خدا کے سوا جن کو تم پکارتے ہو، ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ اُنھوں نے زمین میں کیا بنایا ہے یا اُن کا آسمانوں میں کچھ ساجھا ہے (کہ اُنھیں معبود بنا لیا جائے)؟ اِس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے سامنے پیش کرو یا کوئی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو، اگر تم سچے ہو۔

شرک کے لیے کوئی عقلی دلیل نہ اِس سے پہلے پیش کی جا سکی ہے، نہ قیامت تک پیش کی جا سکتی ہے۔ اِس کے لیے صرف خدا ہی کی سند ہو سکتی تھی۔ چنانچہ اِسی کا مطالبہ کیا ہے کہ اِس طرح کی سند یا خدا کی کسی کتاب سے پیش کی جا سکتی ہے یا انبیا علیہم السلام سے جو علم منتقل ہوا ہے، اُس کی کسی روایت سے۔ فرمایا کہ اگر تم سچے ہو تو اِن میں سے کوئی چیز پیش کرو۔ الہامی لٹریچر سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ ایسی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے کہ پیش کی جا سکے۔

ابو الاعلی مودودی

اے نبیؐ، اِن سے کہو، “کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا بھی کہ وہ ہستیاں ہیں کیا جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے، یا آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں ان کا کیا حصہ ہے۔ اِس سے پہلے آئی ہوئی کتاب یا علم کا کوئی بقیہ (اِن عقائد کے ثبوت میں) تمہارے پاس ہو تو وہی لے آؤ اگر تم سچے ہو۔”

چونکہ مخاطب ایک مشرک قوم کے لوگ ہیں اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ احساس ذمہ داری کے فقدان کی وجہ سے وہ کس طرح بےسوچے سمجھے ایک نہایت غیر معقول عقیدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کو خالق کائنات ماننے کے ساتھ بہت سی دوسری ہستیوں کو معبود بنائے ہوئے تھے، ان سے دعائیں مانگتے تھے، ان کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے، ان کے آگے ماتھے رگڑتے اور نذر و نیاز پیش کرتے تھے، اور یہ خیال کرتے تھے کہ ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کے اختیارات انہیں حاصل ہیں۔ انہی ہستیوں کے متعلق ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ انہیں آخر کس بنیاد پر تم نے اپنا معبود مان رکھا ہے ؟ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبودیت میں حصہ دار قرار دینے کے لیے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو آدمی کو خود کسی ذریعہ علم سے یہ معلوم ہو کہ زمین و آسمان کے بنانے میں واقعی اس کا بھی کوئی حصہ ہے۔ یا اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ فرمایا ہو کہ فلاں صاحب بھی خدائی کے کام میں میرے شریک ہیں۔ اب اگر کوئی مشرک نہ یہ دعویٰ کرسکتا ہو کہ اسے اپنے معبودوں کے شریک خدا ہونے کا براہ راست علم حاصل ہے، اور نہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب میں یہ دکھا سکے کہ خدا نے خود کسی کو اپنا شریک قرار دیا ہے تو لا محالہ اس کا عقیدہ قطعی بےبنیاد ہی ہوگا۔

اس آیت میں ” پہلے آئی ہوئی کتاب ” سے مراد کوئی ایسی کتاب ہے جو قرآن سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی ہو۔ اور علم کے ” بقیہ ” سے مراد قدیم زمانے کے انبیاء اور صلحاء کی تعلیمات کا کوئی ایسا حصہ ہے جو بعد کی نسلوں کو کسی قابل اعتماد ذریعہ سے پہنچا ہو۔ اور دونوں ذرائع سے جو کچھ بھی انسان کو ملا ہے اس میں کہیں شرک کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ تمام کتب آسمانی بالاتفاق وہی توحید پیش کرتی ہیں جس کی طرف قرآن دعوت دے رہا ہے۔ اور علوم اولین کے جتنے نقوش بھی بچے کھچے موجود ہیں ان میں بھی کہیں اس امر کی شہادت نہیں ملتی کہ کسی نبی یا ولی یا مرد صالح نے کبھی لوگوں کو خدا کے سوا کسی اور کی بندگی و عبادت کرنے کی تعلیم دی ہو۔ بلکہ اگر کتاب سے مراد کتاب الٰہی، اور بقیہ علم سے مراد انبیاء و صلحاء کا چھوڑا ہوا علم نہ بھی لیا جائے، تو دنیا کی کسی علمی کتاب اور دینی یا دنیوی علوم کے کسی ماہر کی تحقیقات میں بھی آج تک اس امر کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے کہ زمین یا آسمان کی فلاں چیز کو خدا کے سوا فلاں بزرگ یا دیوتا نے پیدا کیا ہے، یا انسان جن نعمتوں سے اس کائنات میں متمتع ہو رہا ہے ان میں سے فلاں نعمت خدا کے بجائے فلاں معبود کی آفریدہ ہے۔

جونا گڑھی

آپ کہہ دیجئے ! بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں کون سا حصہ ہے اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کوئی کتاب یا کوئی علم ہے جو نقل کیا جاتا ہو میرے پاس لاؤ ۔

 ارایتم یعنی اخبرونی یا ارونی یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں یا شخصیات کی تم عبادت کرتے ہو مجھے بتلاؤ یا دکھلاؤ کہ انہوں نے زمین و آسمان کی پیدائش میں کیا حصہ لیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب آسمان و زمین کی پیدائش میں بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر ان سب کا خالق صرف ایک اللہ ہے تو پھر تم ان غیر حق معبودوں کو اللہ کی عبادت میں کیوں شریک کرتے ہو۔

٤۔ ٢ یعنی کسی نبی پر نازل شدہ میں یا کسی منقول روایت میں یہ بات لکھی ہو تو وہ لا کر دکھاؤ تاکہ تمہاری صداقت واضح ہو سکے۔ بعض نے اثارہ من علم کے معنی واضح علمی دلیل کے کئے ہیں اس صورت میں کتاب سے نقلی دلیل اور اثارہ من علم سے عقلی دلیل مراد ہوگی یعنی کوئی عقلی اور نقلی دلیل پیش کرو پہلے معنی اس کے اثر سے ماخوذ ہونے کی بنیاد پر روایت کے کیے گئے ہیں یا بقیۃ من علم پہلے انبیاء علیم السلام کی تعلیمات کا باقی ماندہ حصہ جو قابل اعتماد ذریعے سے نقل ہوتا آیا ہو اس میں یہ بات ہو۔ 

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ

امین احسن اصلاحی

اور ان سے بڑھ کر گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کی دہائی دیتے ہیں جو تاقیامت ان کو جواب دینے والے نہیں ہیں اور وہ ان کی دعاؤں سے بے خبر بھی ہیں

مشرکین کے معبودوں کی بے حقیقتی اور بے خبری: یہ ان نادانوں کے حال پر اظہار افسوس ہے کہ ان لوگوں سے بڑھ کر گمراہ اور محروم القسمت کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان سے دعا و فریاد کر رہے ہیں جو قیامت تک ان کو کوئی جواب دینے والے نہیں ہیں اور جن کا حال یہ ہے کہ انھیں خبر بھی نہیں کہ کوئی ان سے دعا و فریاد کر رہا ہے! قیامت کے دن ان کی طرف سے کوئی مدد ملنا تو درکنار وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے۔

مشرکین جن کی پرستش کرتے تھے وہ یا تو فرضی ہستیاں تھیں جن کا کوئی مسمیٰ سرے سے موجود ہی نہ تھا، اس وجہ سے ان کے کسی چیز سے باخبر ہونے یا کسی دعا کے قبول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہی وہ ہستیاں جن کی کچھ حقیقت ہے مثلاً ملائکہ یا جنات جن کی پرستش مشرکین عرب کرتے تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام جن کی پرستش عیسائی کرتے تھے وہ تو بذات خود کسی کی دعا و فریاد سے واقف بھی نہیں ہو سکتے چہ چائیکہ اس کو قبول کر سکیں۔ سورۂ مائدہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قیامت کے دن سوال کرے گا کہ کیا تم نے لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بناؤ؟ وہ جواب دیں گے کہ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا تھا جس کا مجھے کوئی حق نہیں تھا! میں نے ان کو وہی بتایا جس کا تو نے مجھے حکم دیا۔ میرے بعد انھوں نے کیا بنایا اس کی خبر مجھے نہیں ہے۔ اس کو تو ہی جانتا ہے۔
سورۂ فرقان میں فرشتوں کا جواب ان الفاظ میں منقول ہے:

وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہَؤُلَاء أَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ ۵ قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاء وَلَکِن مَّتَّعْتَہُمْ وَآبَاء ہُمْ حَتَّی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْماً بُوۡرًا (الفرقان: ۱۷-۱۸)
’’اور اس دن کو یاد کرو جس دن اللہ ان کو اور ان سب کو جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، اکٹھا کرے گا۔ پس پوچھے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا یا انھوں نے خود راہ کھوئی؟ وہ جواب دیں گے تو پاک ہے۔ ہمارے لیے یہ زیبا نہ تھا کہ ہم تیرے سوا دوسرے کو کارساز بناتے۔ بلکہ یوں ہوا کہ تو نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو اپنی نعمتوں سے بہرہ مند کیا یہاں تک کہ وہ تیری یاددہانی بھول بیٹھے اور ہلاک ہونے والے بنے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ جہاں تک انبیاء اور صالحین کا تعلق ہے وہ تو ساری ذمہ داری ان لوگوں پر ڈال دیں گے جنھوں نے ان کی تعلیم کے بالکل خلاف ان کو شریک خدا ٹھہرایا اور ان کی پرستش کی۔ رہے دوسرے معبود یعنی جنات و شیاطین وغیرہ تو وہ جس طرح اپنے پرستاروں سے اعلان براء ت کریں گے اور ان کے پرستار جس طرح ان پر لعنت کریں گے اس کی تفصیلات مختلف سورتوں میں بیان ہوئی ہیں۔ ان سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قیامت کے دن ان کا کچھ نافع ہونا تو درکنار سب سے زیادہ بدتر دشمن اپنے پرستاروں کے وہی ہوں گے۔ سورۂ قصص کی آیات ۶۲-۶۴ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔

جاوید احمد غامدی

اُن سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا اُن کو پکارتے ہیں جو اُنھیں قیامت کے دن تک جواب دینے والے نہیں ہیں۔ اُن کو تو اِن لوگوں کی دعاؤں کی خبر بھی نہیں ہے۔

اِس لیے کہ کوئی نبی یا فرشتہ بھی ہو تو وہ بذات خود کسی کی دعا یا فریاد سے واقف نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ اُس کو قبول کر سکے۔ سورۂ مائدہ (۵) کے آخر میں مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو مکالمہ نقل ہوا ہے، اُس میں اُنھوں نے پوری صراحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد اُن کے پیرووں نے جو کچھ کیا ہے، وہ اُس سے واقف نہیں ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

آخر اُس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اِس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے اُن کو پکار رہے ہیں۔

جواب دینے سے مراد جوابی کاروائی کرنا ہے نہ کہ الفاظ میں بآواز جواب دینا یا تحریر کی شکل میں لکھ کر بھیج دینا۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر ان معبودوں سے فریاد یا استغاثہ کرے، یا ان سے کوئی دعا مانگے، تو چونکہ ان کے ہاتھ میں کوئی طاقت اور کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے وہ اس کی درخواست پر کوئی کارروائی نفی یا اثبات کی شکل میں نہیں کرسکتے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، الزمر، حاشیہ نمبر 33)

قیامت تک جواب نہ دے سکنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ دنیا باقی ہے اس وقت تک تو معاملہ صرف اسی حد پر رہے گا کہ ان کی دعاؤں کا کوئی جواب ان کی طرف سے نہ ملے گا، لیکن جب قیامت آجائے گی تو اس سے آگے بڑھ کر معاملہ یہ پیش آئے گا کہ وہ معبود اپنے ان عابدوں کے الٹے دشمن ہوں گے، جیسا کہ آگے کی آیت میں آ رہا ہے۔

یعنی ان تک ان پکارنے والوں کی پکار سرے سے پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ خود اپنے کانوں سے اس کو سنتے ہیں، نہ کسی ذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ دنیا میں کوئی انہیں پکار رہا ہے۔ اس ارشاد الٰہی کو تفصیلاً یوں سمجھیے کہ دنیا بھر کے مشرکین خدا کے سوا جن ہستیوں سے دعائیں مانگتے رہے ہیں وہ تین اقسام پر منقسم ہیں۔ ایک، بےروح اور بےعقل مخلوقات دوسرے، وہ بزرگ انسان جو گزر چکے ہیں۔ تیسرے، وہ گمراہ انسان جو خود بگڑے ہوئے تھے اور دوسروں کو بگاڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ پہلی قسم کے معبودوں کا تو اپنے عابدوں کی دعاؤں سے بیخبر رہنا ظاہر ہی ہے۔ رہے دوسری قسم کے معبود، جو اللہ کے مقرب انسان تھے، تو ان کے بیخبر رہنے کے دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ الہ کے ہاں اس عالم میں ہیں جہاں انسانی آوازیں راہ راست تک نہیں پہنچتیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے بھی ان تک یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ جن لوگوں کو آپ ساری عمر اللہ سے دعا مانگنا سکھاتے رہے تھے وہ اب الٹی آپ سے دعائیں مانگ رہے ہیں، اس لیے کہ اس اطلاع سے بڑھ کر ان کو صدمہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہو سکتی، اور اللہ اپنے ان نیک بندوں کی ارواح کو اذیت دینا ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس کے بعد تیسری قسم کے معبودوں کے معاملہ میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کے بیخبر رہنے کے بھی دو ہی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ملزموں کی حیثیت سے اللہ کے ہاں حوالات میں بند ہیں جہان دنیا کی کوئی آواز انہیں نہیں پہنچتی۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچاتے کہ تمہارا مشن دنیا میں خوب کامیاب ہو رہا ہے اور لوگ تمہارے پیچھے تمہیں معبود بنائے بیٹھے ہیں، اس لیے کہ یہ خبریں ان کے لیے مسرت کی موجب ہوں گی، اور خدا ان ظالموں کو ہرگز خوش نہیں کرنا چاہتا۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو دنیا والوں کے سلام اور ان کی دعائے رحمت پہنچا دیتا ہے کیونکہ یہ چیزیں ان کے لیے فرحت کے موجب ہیں، اور اسی طرح وہ مجرموں کو دنیا والوں کی لعنت اور پھٹکار اور زجر و توبیخ سے مطلع فرما دیتا ہے جیسے جنگ بدر میں مارے جانے والے کفار کو ایک حدیث کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توبیخ سنوا دی گئی، کیونکہ یہ ان کے لیے اذیت کی موجب ہے۔ لیکن کوئی ایسی بات جو صالحین کے لیے رنج کی موجب، یا مجرمین کے لیے فرحت کی موجب ہو وہ ان تک نہیں پہنچائی جاتی۔ اس تشریح سے سماع موتیٰ کے مسئلے کی حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔

جونا گڑھی

اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا ؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بیخبر ہوں

 یعنی یہی سب سے بڑے گمراہ ہیں جو پتھر کی مورتیوں کو مدد کے لئے پکارتے ہیں جو قیامت تک جواب دینے سے قاصر۔ ہیں اور قاصر ہی نہیں بلکہ بالکل بیخبر ہیں۔ 

وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ

امین احسن اصلاحی

اور جب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے

مشرکین کے معبودوں کی بے حقیقتی اور بے خبری: یہ ان نادانوں کے حال پر اظہار افسوس ہے کہ ان لوگوں سے بڑھ کر گمراہ اور محروم القسمت کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان سے دعا و فریاد کر رہے ہیں جو قیامت تک ان کو کوئی جواب دینے والے نہیں ہیں اور جن کا حال یہ ہے کہ انھیں خبر بھی نہیں کہ کوئی ان سے دعا و فریاد کر رہا ہے! قیامت کے دن ان کی طرف سے کوئی مدد ملنا تو درکنار وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے۔

مشرکین جن کی پرستش کرتے تھے وہ یا تو فرضی ہستیاں تھیں جن کا کوئی مسمیٰ سرے سے موجود ہی نہ تھا، اس وجہ سے ان کے کسی چیز سے باخبر ہونے یا کسی دعا کے قبول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہی وہ ہستیاں جن کی کچھ حقیقت ہے مثلاً ملائکہ یا جنات جن کی پرستش مشرکین عرب کرتے تھے یا حضرت مسیح علیہ السلام جن کی پرستش عیسائی کرتے تھے وہ تو بذات خود کسی کی دعا و فریاد سے واقف بھی نہیں ہو سکتے چہ چائیکہ اس کو قبول کر سکیں۔ سورۂ مائدہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قیامت کے دن سوال کرے گا کہ کیا تم نے لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بناؤ؟ وہ جواب دیں گے کہ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا تھا جس کا مجھے کوئی حق نہیں تھا! میں نے ان کو وہی بتایا جس کا تو نے مجھے حکم دیا۔ میرے بعد انھوں نے کیا بنایا اس کی خبر مجھے نہیں ہے۔ اس کو تو ہی جانتا ہے۔
سورۂ فرقان میں فرشتوں کا جواب ان الفاظ میں منقول ہے:

وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہَؤُلَاء أَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ ۵ قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاء وَلَکِن مَّتَّعْتَہُمْ وَآبَاء ہُمْ حَتَّی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْماً بُوۡرًا (الفرقان: ۱۷-۱۸)
’’اور اس دن کو یاد کرو جس دن اللہ ان کو اور ان سب کو جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، اکٹھا کرے گا۔ پس پوچھے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا یا انھوں نے خود راہ کھوئی؟ وہ جواب دیں گے تو پاک ہے۔ ہمارے لیے یہ زیبا نہ تھا کہ ہم تیرے سوا دوسرے کو کارساز بناتے۔ بلکہ یوں ہوا کہ تو نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو اپنی نعمتوں سے بہرہ مند کیا یہاں تک کہ وہ تیری یاددہانی بھول بیٹھے اور ہلاک ہونے والے بنے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ جہاں تک انبیاء اور صالحین کا تعلق ہے وہ تو ساری ذمہ داری ان لوگوں پر ڈال دیں گے جنھوں نے ان کی تعلیم کے بالکل خلاف ان کو شریک خدا ٹھہرایا اور ان کی پرستش کی۔ رہے دوسرے معبود یعنی جنات و شیاطین وغیرہ تو وہ جس طرح اپنے پرستاروں سے اعلان براء ت کریں گے اور ان کے پرستار جس طرح ان پر لعنت کریں گے اس کی تفصیلات مختلف سورتوں میں بیان ہوئی ہیں۔ ان سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قیامت کے دن ان کا کچھ نافع ہونا تو درکنار سب سے زیادہ بدتر دشمن اپنے پرستاروں کے وہی ہوں گے۔ سورۂ قصص کی آیات ۶۲-۶۴ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔

جاوید احمد غامدی

اور اُس دن جب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور اُن کی عبادت کے منکر ہو جائیں گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے اُس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔

یعنی وہ صاف صاف کہہ دیں گے کہ نہ ہم نے ان سے کبھی یہ کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا، اور نہ ہمیں یہ خبر کہ یہ لوگ ہماری عبادت کرتے تھے۔ اپنی اس گمراہی کے یہ خود ذمہ دار ہیں۔ اس کا خمیازہ ان ہی کو بھگتنا چاہیے۔ ہمارا اس گناہ میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

جونا گڑھی

اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کر جائیں گے۔

  یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلا سورة یونس سورة مریم سورة عنکبوت وغیر ھا من الایات دنیا میں ان معبودوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو غیر ذی روح جمادات و نباتات اور مظاہر قدرت (سورج آگ) ہیں اللہ تعالیٰ ان کو زندگی اور قوت گویائی عطا فرمائے گا اور یہ چیزیں بول کر بتلائیں گی کہ ہمیں قطعا اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ ہماری عبادت کرتے اور ہمیں تیری خدائی میں شریک گردانتے تھے بعض کہتے ہیں کہ زبان قال سے نہیں ہے زبان حال سے وہ اپنے جذبات کا اظہار کریں گی واللہ اعلم معبودوں کی دوسری قسم وہ ہے جو انبیاء علیہم السلام ملائکہ اور صالحین میں سے ہیں جیسے عیسی، حضرت عزیر علیہما السلام اور دیگر عباد اللہ الصالحین ہیں یہ اللہ کی بارگاہ میں اسی طرح کا جواب دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب قرآن کریم میں منقول ہے علاوہ ازیں شیطان بھی انکار کریں گے جیسے قرآن میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ تبرأنا الیک ما کانوا ایانا یعبدون۔ القصص۔ ہم تیرے سامنے (اپنے عابدین سے) اظہار براءت کرتے ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے 

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَـٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ

امین احسن اصلاحی

اور جب ان کو ہماری نہایت واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ کافر لوگ حق کی بابت، جب کہ وہ ان کے پاس آ گیا، کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے

قرآن سے فرار کے بہانے: اب یہ ان بہانوں کا ذکر ہو رہا ہے جو قرآن سے فرار کے لیے وہ ایجاد کرتے تھے۔ فرمایا کہ جب ہماری نہایت واضح آیتیں درباب توحید و قیامت ان کو سنائی جاتی ہیں اور ان سے ان کا کوئی جواب نہیں بن آتا تو وہ اس قرآن کے باب میں کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ قرآن کو جادو کہنے کی وجہ کی وضاحت جگہ جگہ ہو چکی ہے۔ قریش کے لیڈروں کے لیے جب اس کی تاثیر و تسخیر کا لوہا مانے بغیر چارہ نہیں رہا تو انھوں نے اپنے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ہے تو یہ کلام نہایت پرزور اور پرتاثیر لیکن یہ زور و تاثیر اس کے خدائی کلام ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ محض الفاظ کی جادوگری ہے۔

’لِلْحَقِّ‘ کے بعد ’لَمَّا جَآءَ ہُمْ‘ کے الفاظ ان کے اس فعل کی شناعت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ اس حق کو انھوں نے جادو اس وقت قرار دیا جب کہ وہ ان کے پاس آ گیا۔ حق کے بارے میں کوئی مغالطہ اس وقت تک تو بعید نہیں ہے جب تک وہ سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن اس کے سامنے آ جانے کے بعد وہی لوگ اس قسم کی باتیں بناتے ہیں جو خود بھی مغالطہ میں رہنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو بھی مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اِنھیں جب ہماری کھلی کھلی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو یہ منکرین حق کے بارے میں، جبکہ وہ اِن کے پاس آگیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

یعنی زبان و بیان کی جادوگری ہے جو دلوں کو تسخیر کر لیتی ہے۔ یہ بات وہ اپنے لوگوں کو یہ باور کرانے کے لیے کہتے تھے کہ وہ اِسے خدا کا کلام نہ سمجھیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اپنی بے مثل فصاحت و بلاغت اور وجد آفریں خطابت اور اپنے بلند مضامین اور دل و دماغ کو تسخیر کر لینے والے انداز بیان کے لحاظ سے یہ بڑے اونچے درجے کی چیز ہے، لیکن ہے اُسی نوعیت کی چیز جو اِس سے پہلے اُن کے شاعر اور خطیب پیش کرتے رہے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اِن لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں اور حق اِن کے سامنے آ جاتا ہے تو یہ کافر لوگ اُس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کفار مکہ کے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو وہ صاف یہ محسوس کرتے تھے کہ اس کلام کی شان انسانی کلام سے بدرجہا بلند ہے۔ ان کے کسی شاعر، کسی خطیب، اور کسی بڑے سے بڑے ادیب کے کلام کو بھی قرآن کی بےمثل فصاحت و بلاغت، اس کی وجد آفرین خطابت، اس کے بلند مضامین اور دلوں کو برما دینے والے انداز بیان سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے کلام کی شان بھی وہ نہ تھی جو خدا کی طرف سے آپ پر نازل ہونے والے کلام میں نظر آتی تھی۔ جو لوگ بچپن سے آپ کو دیکھتے چلے آ رہے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کی زبان اور قرآن کی زبان میں کتنا عظیم فرق ہے، اور ان کے لیے یہ باور کرنا ممکن نہ تھا کہ ایک آدمی جو چالیس پچاس برس سے شب و روز ان کے درمیان رہتا ہے وہ یکایک کسی وقت بیٹھ کر ایسا کلام گھڑ لیتا ہے جس کی زبان میں اس کی اپنی جانی پہچانی زبان سے قطعاً کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی۔ یہ چیز ان کے سامنے حق کو بالکل بےنقاب کر کے لے آتی تھی۔ مگر وہ چونکہ اپنے کفر پر اڑے رہنے کا فیصلہ کرچکے تھے، اس لیے اس صریح علامت کو دیکھ کر سیدھی طرح اس کلام کو کلام وحی مان لینے کے بجائے یہ بات بناتے تھے کہ یہ کوئی جادو کا کرشمہ ہے۔ (ایک اور پہلو جس کے لحاظ سے وہ قرآن کو جادو قرار دیتے تھے، اس کی تشریح ہم اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ ٥۔ جلد چہارم، تفسیر سورة ص، حاشیہ 5) ۔

جونا گڑھی

اور انہیں جب ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو منکر لوگ سچی بات کو جب کہ ان کے پاس آچکی، کہہ دیتے ہیں کہ یہ صریح جادو ہے۔

n/a

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

امین احسن اصلاحی

کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ کہہ دو کہ اگر میں نے اس کو گھڑا ہے تو تم لوگ مجھے خدا سے ذرا بھی نہ بچا سکو گے اور تم جو سخن سازیاں کر رہے ہو وہ ان سے خوب واقف ہے، وہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے کافی ہے اور وہ بڑا ہی غفور رّحیم ہے

یہ قرآن کے مخالفین کے ایک پراپیگنڈے کا حوالہ ہے۔ چونکہ یہ نہایت ہی لغو پروپیگنڈہ تھا جس کا لغو ہونا خود ان لوگوں پر بھی واضح تھا جو اس کے مرتکب ہو رہے تھے اس وجہ سے اس کا ذکر نہایت استعجاب و حیرت کے انداز میں فرمایا ہے کہ اس کا کوئی جواب دینے کے بجائے معاملہ اللہ کے حوالہ کر دیا ہے کہ اگر تم لوگ میری مخالفت کے جنون میں اس حد تک اتر آئے ہو کہ اپنے ضمیر کے بالکل خلاف مجھے ایک مفتری قرار دینے میں بھی کوئی باک نہیں رہا تو اب تم سے کوئی بحث بے سود ہے۔ اس معاملہ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا۔

’قُلْ إِنِ افْتَرَیْتُہُ فَلَا تَمْلِکُوۡنَ لِیْ مِنَ اللہِ شَیْْئًا‘۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن ہے تو تمہاری اپنی تصنیف لیکن تم اس کو جھوٹ موٹ خدا کی وحی قرار دے رہے ہو تو ان سے کوئی بحث نہ کرو۔ بس یہ کہہ دو کہ اگر میں نے خدا پر اتنا بڑا افترا کیا ہے تو کوئی چیز مجھے اس کی پکڑ سے نہ بچا سکے گی اور اس وقت تم لوگ میرے کچھ کام آنے والے نہیں بنو گے کہ تم میرے اس جرم کا بار اپنے اوپر محسوس کرو۔
’ہُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِیْضُوۡنَ فِیْہِ‘۔ ’اَفَاضَ فی الحدیث‘ کے معنی کی وضاحت دوسرے مقام میں ہم کر چکے ہیں۔ اس کا اصلی مفہوم کسی بات میں نکتہ چینی کرتے کرتے اس کو اس حد تک بڑھا دینا ہے کہ رائی پربت بن جائے۔ مطلب یہ ہے کہ تم لوگ جو سخن سازیاں کرر ہے ہو اللہ تعالیٰ ان سے اچھی طرح آگاہ ہے اس وجہ سے میں معاملہ اسی کے حوالہ کرتا ہوں۔ وہی فیصلہ فرمائے گا کہ فی الواقع میں کوئی مفتری ہوں اس وجہ سے تم مجھے کوئی وزن نہیں دے رہے ہو یا مجھے ایک راست باز اور امین جانتے ہوئے محض اس وجہ سے مفتری قرار دے رہے ہو کہ میری دعوت تمہارے نفس کی خواہشوں کے خلاف ہے۔
ہٹ دھرموں کا معاملہ اللہ کے حوالہ کیا جائے: ’کَفٰی بِہِ شَہِیْدًا بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ‘۔ اس قضیہ میں اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے مابین گواہی کے لیے کافی ہے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ جب معلوم ہو کہ فریق مخالف ضد اور دھاندلی پر اتر آیا ہے اور جان بوجھ کر وہ ایک ایسی بات کہہ رہا ہے جو خود اس کے اپنے ضمیر کے بھی خلاف ہے تو ایسی صورت میں واحد چارۂ کار ایک معقول انسان کے لیے یہی باقی رہ جاتا ہے کہ وہ معاملہ اللہ کے حوالہ کر کے بحث ختم کر دے۔ یہ شریفانہ طریقہ بعض اوقات ضدی مخاطبوں کو بھی اپنے رویہ پر نظرثانی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ وہ اس سے متاثر نہ بھی ہوں جب بھی دعوت کے نقطۂ نظر سے بابرکت طریقہ یہی ہے۔ غیر جانبدارانہ ذہن کے لوگ اس سے ضرور متاثر ہوتے ہیں اور مخالفوں کے دل میں بھی داعی کی عظمت اس کی اس خود اعتمادی کے سبب سے دوچند ہو جاتی ہے۔
’وَہُوَ الْغَفُوۡرُ الرَّحِیْمُ‘۔ یعنی میں یہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ اس کا فیصلہ ضرور فرمائے گا اور یہ حقیقت سب پر واضح ہو جائے گی کہ میں مفتری ہوں یا تم لوگ جان بوجھ کر حق کو جھٹلانے والے ہو۔ اگر اس فیصلہ میں کچھ دیر بھی ہوئی جب بھی میرے لیے مایوسی اور پریشانی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرا پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے۔ وہ لوگوں کو پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ آخری حد تک مہلت دیتا ہے تاکہ جو توبہ و اصلاح کرنا چاہیں وہ توبہ و اصلاح کر کے اس کی رحمت کے سزاوار بن جائیں۔

جاوید احمد غامدی

کیا یہ کہتے ہیں کہ اِس شخص نے اِسے خود گھڑ لیا ہے؟ اِن سے کہو کہ اگر میں نے اِس کو خود گھڑا ہے تو تم خدا کی پکڑ سے مجھے کچھ بھی بچا نہ سکو گے۔ تم جو باتیں بنا رہے ہو، وہ اُن سے خوب واقف ہے۔ وہ میرے اور تمھارے درمیان گواہی کے لیے کافی ہے اور (یہ مہلت جو تم کو ملی ہوئی ہے تو محض اِس لیے کہ) وہ بڑا درگذر کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

کیا اُن کا کہنا یہ ہے کہ رسول نے اِسے خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو، “اگر میں نے اِسے خود گھڑ لیا ہے تو تم مجھے خدا کی پکڑ سے کچھ بھی نہ بچا سکو گے، جو باتیں تم بناتے ہو اللہ ان کو خوب جانتا ہے، میرے اور تمہارے درمیان وہی گواہی دینے کے لیے کافی ہے، اور وہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔”

اس سوالیہ طرز بیان میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا یہ لوگ اتنے بےحیا ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن خود گھڑ لانے کا الزام رکھتے ہیں ؟ حالانکہ انہیں خوب معلوم ہے کہ یہ ان کا تصنیف کردہ کلام نہیں ہو سکتا، اور ان کا اسے سحر کہنا خود اس امر کا صریح اعتراف ہے کہ یہ غیر معمولی کلام ہے جس کا کسی انسان کی تصنیف ہونا ان کے اپنے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے۔

چونکہ ان کے الزام کا محض بےاصل اور سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی ہونا بالکل ظاہر تھا اس لیے اس کی تردید میں دلائل پیش کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ پس یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اگر واقعی میں نے خود ایک کلام تصنیف کر کے اللہ کی طرف منسوب کرنے کا جرم عظیم کیا ہے، جیسا کہ تم الزام رکھتے ہو، تو مجھے خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے تم نہ آؤ گے، لیکن اگر یہ خدا ہی کا کلام ہے اور تم جھوٹے الزامات رکھ رکھ کر اسے رد کر رہے ہو تو اللہ تم سے نمٹ لے گا۔ حقیقت اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے، اور جھوٹ سچ کا فیصلہ کرنے کے لیے وہ بالکل کافی ہے۔ ساری دنیا اگر کسی کو جھوٹا کہے اور اللہ کے علم میں وہ سچا ہو تو آخری فیصلہ لازماً اسی کے حق میں ہوگا۔ اور ساری دنیا اگر کسی کو سچا کہہ دے، مگر اللہ کے علم میں وہ جھوٹا ہو، تو آخر کار وہ جھوٹا ہی قرار پائے گا۔ لہٰذا الٹی سیدھی باتیں بنانے کے بجائے اپنے انجام کی فکر کرو۔

اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ فی الواقع یہ اللہ کا رحم اور اس کا درگزر ہی ہے جس کی وجہ سے وہ لوگ زمین میں سانس لے رہے ہیں جنہیں خدا کے کلام کو افترا قرار دینے میں کوئی باک نہیں اور نہ کوئی بےرحم اور سخت گیر خدا اس کائنات کا مالک ہوتا تو ایسی جسارتیں کرنے والوں کو ایک سانس کے بعد دوسرا سانس لینا نصیب نہ ہوتا۔ دوسرا مطلب اس فقرے کا یہ ہے کہ ظالمو، اب بھی اس ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ تو خدا کی رحمت کا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہوا ہے، اور جو کچھ تم نے اب تک کیا ہے وہ معاف ہوسکتا ہے۔

جونا گڑھی

کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے تو اس نے خود گھڑ لیا ہے آپ کہہ دیجئے ! کہ اگر میں ہی اسے بنا لایا ہوں تو میرے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے تم اس قرآن کے بارے میں جو کچھ سن رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے وہی کافی ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

 اس حق سے مراد جو ان کے پاس آیا قرآن کریم ہے اس کے اعجاز اور قوت تاثیر کو دیکھ کر وہ اسے جادو سے تعبیر کرتے پھر اس سے بھی انحراف کر کے یا اس سے بھی بات نہ بنتی تو کہتے کہ یہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہے۔

 

یعنی اگر تماری یہ بات صحیح ہو کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے پھر تو یقینا میں بڑا مجرم ہوں اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو پھر سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرتا بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الہی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ (وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بالْيَمِيْنِ 45؀ۙ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ 46؀ڮ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِـزِيْنَ 47؀) 69 ۔ الحاقہ :44)

یعنی جس جس انداز سے بھی تم قرآن کی تکذیب کرتے ہو، کبھی اسے جادو، کبھی کہانت اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے یعنی وہی تمہاری ان مذموم حرکتوں کا تمہیں بدلہ دے گا

وہ اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور وہی تمہاری تکذیب و مخالفت کا بھی گواہ ہے۔ اس میں بھی ان کے لئے سخت وعید ہے۔ 

اس کے لیے جو توبہ کرلے ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا کلام مان لے مطلب ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ توبہ کر کے اللہ کی مغفرت و رحمت کے مستحق بن جاؤ۔ 

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

امین احسن اصلاحی

ان سے کہو کہ میں کوئی پہلا رسول تو نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور نہ یہ جانتا کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ میں تو صرف اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو صرف ایک کھلا ہوا آگاہ کرنے والا ہوں

یعنی اگر تم میری مخالفت اس وجہ سے کر رہے ہو کہ میں تمہاری ہی طرح ایک بشر ہوں اور وہ عذاب دکھا نہیں سکتا جس سے تم کو ڈرا رہا ہوں تو یاد رکھو کہ میں دنیا میں پہلا شخص نہیں ہوں جو رسول بن کر آیا ہو۔ مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول آ چکے ہیں۔ وہ سب بشر ہی تھے۔ ان میں سے کوئی بھی مافوق بشر نہیں۔ رسولوں کے باب میں سنت الٰہی یہی رہی ہے کہ انسانوں کے اندر رسول ہمیشہ انسانوں ہی کے اندر سے آئے ہیں اور یہ بات بھی سن لو کہ اگر میں تمہاری طلب کے مطابق عذاب نہیں لا سکتا تو یہ چیز بھی میرے دعوائے رسالت کی نفی نہیں کرتی۔ میں نے رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے، خدا یا عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے۔ مجھے خود برملا یہ اعتراف ہے کہ مجھے کچھ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ کیا معاملہ کرے گا اور نہ یہ علم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرے گا۔ میں تو صرف اس چیز کی پیروی کر رہا ہوں جو مجھے وحی کی جاتی ہے اور اسی سے تم کو بھی آگاہ کر رہا ہوں۔ میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق تمہارے لیے ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔ بس اس سے زیادہ نہ میرے اوپر کوئی ذمہ داری ہے اور نہ میں اس سے زیادہ کچھ اور ہونے کا مدعی ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ مجھ سے اگر کوئی بحث کرنی ہے تو میرے اصل دعوے سے متعلق کرو، غیر متعلق سوالات چھیڑ کر نہ اپنے آپ کو الجھن میں ڈالو، نہ دوسروں کو۔

جاوید احمد غامدی

اِن سے کہو، میں کوئی پہلا رسول تو نہیں ہوں۔ (اِس سے پہلے بھی بشر ہی رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں) اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہونا ہے اور تمھارے ساتھ کیا، میں تو صرف اُس بات کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو صرف ایک کھلا خبردار کرنے والا ہوں

n/a

ابو الاعلی مودودی

اِن سے کہو، “میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں، میں نہیں جانتا کہ کل تمہارے ساتھ کیا ہونا ہے اور میرے ساتھ کیا، میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے اور میں ایک صاف صاف خبردار کر دینے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں۔”

اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آپ کو خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کیا تو مکے کے لوگ اس پر طرح طرح کی باتیں بنانے لگے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو بال بچے رکھتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، کھاتا پیتا ہے، اور ہم جیسے انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جس میں یہ عام انسانوں سے مختلف ہو اور ہم یہ سمجھیں کہ خاص طور پر اس شخص کو خدا نے اپنا رسول بنایا ہے۔ پھر وہ کہتے تھے کہ اگر اس شخص کو خدا نے رسول بنایا ہوتا تو وہ اس کی اردلی میں کوئی فرشتہ بھیجتا جو اعلان کرتا کہ یہ خدا کا رسول ہے، اور ہر اس شخص پر عذاب کا کوڑا برسا دیتا جو اس کی شان میں کوئی ذرا سی گستاخی کر بیٹھتا۔ یہ آخر کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کسی کو اپنا رسول مقرر کرے اور پھر اسے یونہی مکے کی گلیوں میں پھرنے اور ہر طرح کی زیادتیاں سہنے کے لیے بےسہارا چھوڑ دے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی ہوتا کہ خدا اپنے رسول کے لیے ایک شاندار محل اور ایک لہلہاتا باغ ہی پیدا کردیتا۔ یہ تو نہ ہوتا کہ اس کے رسول کی بیوی کا مال جب ختم ہوجائے تو اسے فاقوں کی نوبت آجائے اور طائف جانے کے لیے اسے سواری تک میسر نہ ہو۔ پھر وہ لوگ آپ سے طرح طرح کے معجزات کا مطالبہ کرتے تھے اور غیب کی باتیں آپ سے پوچھتے تھے۔ ان کے خیال میں کسی شخص کا رسول خدا ہونا یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ فوق البشری طاقتوں کا مالک ہو، اس کے ایک اشارے پر پہاڑ ٹل جائیں اور ریگ زار دیکھتے دیکھتے کشت زاروں میں تبدیل ہوجائیں، اس کو تمام : ماکان و ما یکون کا علم ہو اور پردہ غیب میں چھپی ہوئی ہر چیز اس پر روشن ہو۔

یہی باتیں ہیں جن کا جواب ان فقروں میں دیا گیا ہے۔ ان میں سے ہر فقرے کے اندر معانی کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔

فرمایا، ان سے کہو، ” میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں “۔ یعنی میرا رسول بنایا جانا دنیا کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ تو نہیں ہے کہ تمہیں یہ سمجھنے میں پریشانی لاحق ہو کہ رسول کیسا ہوتا ہے اور کیسا نہیں ہوتا۔ مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ہیں، اور میں ان سے مختلف نہیں ہوں۔ آخر دنیا میں کب کوئی رسول ایسا آیا ہے جو بال بچے نہ رکھتا ہو، یا کھاتا پیتا نہ ہو، یا عام انسانوں کی سی زندگی بسر نہ کرتا ہو ؟ کس رسول کے ساتھ کوئی فرشتہ اترا ہے جو اس کی رسالت کا اعلان کرتا ہو اور اس کے آگے آگے ہاتھ میں کوڑا لیے پھرتا ہو ؟ کس رسول کے لیے باغ اور محلات پیدا کیے گئے اور کس نے خدا کی طرف بلانے میں وہ سختیاں نہیں جھیلیں جو میں جھیل رہا ہوں ؟ کون سا رسول ایسا گزرا ہے جو اپنے اختیار سے کوئی معجزہ دکھا سکتا ہو یا اپنے علم سے سب کچھ جانتا ہو ؟ پھر یہ نرالے معیار میری ہی رسالت کو پرکھنے کے لیے تم کہاں سے لیے چلے آ رہے ہو۔

اس کے بعد فرمایا کہ ان کے جواب میں یہ بھی کہو ” میں نہیں جانتا کہ کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے “۔ یعنی میں علم الغیب نہیں ہوں کہ ماضی، حال، مستقبل سب مجھ پر روشن ہوں اور دنیا کی ہر چیز کا مجھے علم ہو۔ تمہارا مستقبل تو درکنار، مجھے تو اپنا مستقبل بھی معلوم نہیں ہے۔ جس چیز کا وحی کے ذریعہ سے مجھے علم دے دیا جاتا ہے بس اسی کو میں جانتا ہوں۔ اس سے زائد کوئی علم رکھنے کا میں نے آخر کب دعویٰ کیا تھا، اور کونسا رسول ایسے علم کا مالک کبھی دنیا میں گزرا ہے کہ تم میری رسالت کو جانچنے کے لیے میری غیب دانی کا امتحان لیتے پھرتے ہو۔ رسول کا یہ کام کب سے ہوگیا کہ وہ کھوئی ہوئی چیزوں کے پتے بتائے، یا یہ بتائے کہ حاملہ عورت لڑکا جنے گی یا لڑکی، یا یہ بتائے کہ مریض اچھا ہوجائے گا یا مر جائے گا۔

آخر میں فرمایا کہ ان سے کہہ دو ” میں ایک صاف صاف خبردار کردینے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں “۔ یعنی میں خدائی اختیارات کا مالک نہیں ہوں کہ وہ عجیب و غریب معجزے تمہیں دکھاؤں جن کے مطالبے تم مجھ سے آئے دن کرتے رہتے ہو۔ مجھے جس کام کے لیے بھیجا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے راہ راست پیش کروں اور جو لوگ اسے قبول نہ کریں انہیں برے انجام سے خبردار کر دوں۔

جونا گڑھی

آپ کہہ دیجئے ! کہ میں کوئی بالکل انو کھا پیغمبر نہیں نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا ۔ میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں تو صرف علی الاعلان کردینے والا ہوں۔

 یعنی پہلا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے بھی متعدد رسول آ چکے ہیں۔ 

یعنی دنیا میں، میں مکے میں ہی رہوں گا یا یہاں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑے گا، مجھے موت طبعی آئے گی یا تمہارے ہاتھوں میرا قتل ہوگا ؟ تم جلدی ہی سزا سے دو چار ہونگیں یا لمبی مہلت تمہیں دی جائے گی ؟ ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کل کیا ہوگا تاہم آخرت کے بارے میں یقینی علم ہے کہ اہل ایمن جنت میں اور کافر جہنم میں جائیں گے اور حدیث میں جو آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر جب ان کے بارے میں حسن ظن کا اظہار کیا گیا تو فرمایا واللہ ما ادری وانا رسول اللہ ما یفعل بی ولا بکم۔ صحیح بخاری۔ اللہ کی قسم مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کو میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اس سے کسی ایک معین شخص کے قطعی انجام کے علم کی نفی ہے الا یہ کہ ان کی بابت بھی نص موجود ہو جیسے عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ۔ 

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّـهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

امین احسن اصلاحی

ان سے پوچھو کہ اس وقت کیا ہو گا اگر یہ قرآن اللہ کی جانب سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک شاہد نے اس کے مانند کتاب کی گواہی بھی دی ہے سو وہ تو اس پر ایمان لایا اور تم نے تکبر کیا! بے شک اللہ ظالموں کو راہ یاب نہیں کرتا

یہاں جواب شرط محذوف ہے اور یہ حذف اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جواب شرط ایسے خوف ناک نتائج پر متضمن ہے کہ الفاظ اس کی تعبیر سے قاصر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اس کتاب کا انکار اور اس کو خدا کے اوپر میرا افترا قرار دے رہے ہو لیکن اگر یہ خدا کی طرف سے ہوئی تب کیا بنے گا!! ساتھ ہی یہ بات بھی تمہارے سوچ لینے کی ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شاہد اس طرح کی چیز کی گواہی دے چکا ہے، وہ تو اس پر ایمان لایا اور تم استکبار کی بنا پر اس سے اعراض کیے جا رہے ہو!

شاہد سے کون مراد ہے؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاہد سے کس کی طرف اشارہ ہے۔ اس سوال کے تین جواب ہمارے مفسرین نے دیے ہیں۔
عام رائے تو یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلامؓ ہیں لیکن ایک دوسرے گروہ نے اس پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ عبداللہ بن سلامؓ اس سورہ کے نزول کے بہت بعد مدینہ میں اسلام لائے تو اس مکی سورہ میں ان کے اسلام سے پہلے ہی ان کی گواہی کے حوالہ دینے کے کیا معنی، جب کہ کوئی ادنیٰ قرینہ بھی یہاں اس بات کا نہیں ہے کہ کم از کم اس آیت ہی کو مدنی قرار دیا جا سکے۔
دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے لیکن یہ قول بھی کچھ وزنی نہیں ہے۔ آگے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تورات کا ذکر قرآن کے حق میں ان کی شہادت ہی کا حوالہ دینے کے لیے مستقلاً، نام کی تصریح کے ساتھ، آ رہا ہے تو یہاں اشارے کی صورت میں ان کا حوالہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟
ایک تیسرے گروہ نے اس کو اسم جنس کے مفہوم میں لے کر اس سے ان عام لوگوں کی شہادت مراد لی ہے جو بنی اسرائیل میں سے قرآن پر ایمان لائے۔ اس گروہ میں ابن کثیرؒ بھی شامل ہیں لیکن یہ قول بالکل ہی بے بنیاد ہے۔ اس کو اسم جنس کے مفہوم میں لینا قواعد زبان کے بالکل خلاف ہے۔ لیکن ہم اس غیر ضروری بحث میں یہاں پڑنا نہیں چاہتے۔ اسلوب کلام یہاں خود شاہد ہے کہ نکرہ تفخیم شان کے لیے ہے نہ کہ تحقیر و تعمیم کے لیے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ اشارہ کسی ایسے شاہد کی طرف ہو جس کی شخصیت اور شہادت دونوں کا مرتبہ ایسا ہو کہ اس کو بطور ایک دلیل کے پیش کیا جاسکے۔
ہمارے نزدیک یہ اشارہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی طرف ہے۔ اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ پہلی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی بعثت کا خاص مقصد ہی یہ بتایا ہے کہ میں آنے والے کی راہ صاف کرنے آیا ہوں۔ آپ کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپؐ آخری نبی بھی ہیں اور آخری رسول بھی۔ اس وجہ سے اس ’آنے والے‘ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو مراد لینے کی کوئی ادنیٰ گنجائش بھی نہیں ہے۔ انجیلوں کا مطالعہ کیجیے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰؑ کو حضرت مسیح کی بشارت دینے کے لیے مبعوث فرمایا اسی طرح حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا کہ وہ آنے والے کی راہ صاف کریں۔ انجیلوں میں اصلی مضمون جو گوناگوں اسلوبوں سے سامنے آتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہی ہے۔ استاذ امامؒ نے خاص اس موضوع پر انگریزی میں ایک رسالہ لکھا ہے کہ انجیلوں کا اصل مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور تعارف ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جس آسمانی بادشاہت کا بار بار ذکر کیا ہے اور اس کی جو تمثیلیں بیان فرمائی ہیں وہ تمام تر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی دعوت ہی پر منطبق ہوتی ہیں۔
۲۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت اگرچہ تورات اور زبور وغیرہ میں بھی ہے جن کے حوالے ہم پچھلی سورتوں میں نقل کر آئے ہیں لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے نام کی تصریح کے ساتھ آپ کی بشارت دی ہے۔ سورۂ صف میں اس کا حوالہ یوں آیا ہے:

وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ إِنِّیْ رَسُولُ اللَّہِ إِلَیْْکُم مُّصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتِیْ مِن بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاء ہُم بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (الصف : ۶)
’’اور یاد کرو جب کہ عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں اللہ کی جانب سے تمہاری طرف رسول ہو کر آیا ہوں، مصداق بن کر ان پیشین گوئیوں کا جو میرے پہلے سے تورات میں موجود ہیں اور خوش خبری دیتا ہوا ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہو گا۔ پس جب وہ کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔‘‘

قرآن نے اس آیت میں جس بشارت کا حوالہ دیا ہے وہ انجیلوں میں موجود ہے۔ بعض انجیلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کی تصریح بھی باربار وارد ہوئی ہے۔ مثلاً برناباس کی انجیل میں ۔۔۔ عیسائی اسی وجہ سے اس انجیل کو مستند نہیں مانتے لیکن اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا، دوسری انجیلوں میں بھی آپ کا حوالہ موجود ہے۔ اگرچہ نام غائب کر کے صرف صفات کا حوالہ باقی رہنے دیا گیا ہے اور ترجموں کے ذریعہ سے ان صفات کو بھی مسخ و محرف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم جو شخص ایمان داری کے ساتھ ان پر غور کرے گا وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی دوسرا ان کا مصداق نہیں ہو سکتا۔ یہاں اشارے پر قناعت کیجیے۔ ان شاء اللہ سورۂ صف کی تفسیر میں اس مسئلہ پر ہم مفصل بحث کریں گے۔
۳۔ تیسری چیز یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی پیشین گوئیوں میں قرآن، قرآن کی دعوت، اس دعوت کے مزاج، دنیا پر اس دعوت کے غلبہ اور اس غلبہ کے مراحل و مدارج کا نہایت صاف الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ سورۂ اعراف کی تفسیر میں ہم بعض چیزوں کا حوالہ دے چکے ہیں۔ آگے سورۂ فتح کی آیت ۲۹ کے تحت بھی ہم اس مسئلہ پر بحث کرنے والے ہیں۔ قارئین کے اطمینان کے لیے بعض حوالے یہاں بھی ہم نقل کرتے ہیں:

’’یسوع نے ان سے کہا کہ کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معاروں نے رد کیا۔ وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے؟ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔ اور جو اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔‘‘ (متی: باب ۲۱: ۴۱-۴۴)

’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔‘‘ (یوحنا: باب ۱۴: ۱۷)

’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ سے اس کا کچھ نہیں۔‘‘ (یوحنا: باب ۱۴: ۳۱)

اسلامی دعوت کے تدریجی فروغ کی طرف بھی متعدد تمثیلوں میں اشارے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک تمثیل جس کی طرف سورۂ فتح میں قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے، یہ ہے:

’’اس نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے مگر جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہو جاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آ کر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔‘‘ (متی: باب ۱۳: ۳۱-۳۲)

۴۔ چوتھی اہم چیز یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس واضح شہادت کا یہ اثر تھا کہ عیسائیوں میں سے جو لوگ اصل نصرانیت پر قائم رہے، یعنی ان کے خلیفہ صادق شمعون کے پیرو، وہ قرآن کے نزول کے بعد بڑے جوش و خروش سے اس پر ایمان لائے اور قرآن نے نہایت شان دار الفاظ میں ان کی تعریف کی ہے۔ سورۂ مائدہ میں اس گروہ کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی ذَلِکَ بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَاناً وَأَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ ۵ وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ (المائدہ: ۸۲-۸۳)
’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور اہل ایمان کی محبت میں سب سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں علماء اور راہب ہیں اور وہ تکبر کرنے والے نہیں ہیں۔ یہ لوگ جب اس چیز کو سنتے ہیں جو رسول کی طرف اتاری گئی ہے تو حق کو پہچان لینے کے سبب سے تم دیکھتے ہو کہ اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو جاتی ہیں۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے رب ہم ایمان لائے تو ہم کو تو حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ۔‘‘

تدبر قرآن میں ان آیات کی تفسیر غور سے پڑھ لیجیے۔ نصاریٰ کی تاریخ سے لوگ اچھی طرح واقف نہیں ہیں اس وجہ سے ان آیات کا صحیح مفہوم ان پر واضح نہیں ہو سکا۔ یہ پال کے پیروؤں کی تعریف نہیں ہے بلکہ شمعون کے پیروؤں کی ہے۔ پال کے پیرو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے بھی نہیں۔ وہ اس لفظ کو حقیر سمجھتے ہیں اور اس کی جگہ انھوں نے اپنے لیے مسیحی کا لفظ اختیار کیا ہے۔ شمعون کے پیرو بے شک اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے تھے۔ یہ لوگ اس شہادت کے حامل رہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام نے آخری رسول کی بعثت کے باب میں دی تھی اور جب وقت آیا تو انھوں نے پورے جوش و خروش اور نہایت سچے جذبۂ ایمانی کے ساتھ اس کی شہادت دی۔ اسی چیز کی طرف ’رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اس تکبر میں مبتلا نہیں ہوئے جس میں پال اور اس کے پیرو مبتلا ہوئے اس وجہ سے اسلام کی دولت سے بہرہ مند ہوئے۔ انہی لوگوں کے باب میں حضرت مسیح علیہ السلام نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ’’مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں، آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے۔‘‘ اوپر سورۂ مائدہ کی آیت میں ’وَأَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوۡنَ‘ کے الفاظ سے ان کے اسی وصف کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔
اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شہادت کی نوعیت ایک عام شہادت سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی بعثت ہی خاص اس مقصد سے ہوئی تھی کہ وہ آپؐ کی راہ صاف کریں اور خلق کو اس آسمانی بادشاہی کی بشارت دیں جس کا آپؐ کے ذریعہ سے ظہور ہونے والا تھا۔ اس حوالہ سے قرآن نے مشرکین پر بھی حجت قائم کی ہے اور اہل کتاب پر بھی۔ ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں کہ دعوت کے اس دور میں قریش کو اہل کتاب کی پشت پناہی بھی حاصل ہو گئی تھی اس وجہ سے ان کا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ قرآن نے یہاں یہی دکھایا ہے کہ اسلام کی مخالفت کے جنون میں آج یہودی اور مسیحی جو حرکتیں چاہیں کریں لیکن بنی اسرائیل کا ایک عظیم شاہد اس حق کی نہایت آشکارا الفاظ میں شہادت دے چکا اور اس پر ایمان لا چکا ہے۔ اس کے ایمان اور اس کی شہادت کے بعد جو لوگ محض استکبار کی بنا پر اس حق کی مخالفت کر رہے ہیں وہ اپنا انجام اچھی طرح سوچ لیں۔
’اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ‘۔ یہ ہدایت و ضلالت کے باب میں اس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر اس کتاب میں بار بار ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کبھی راہ یاب نہیں کرتا جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے اور اس کی بخشی ہوئی روشنی کی ناقدری کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس نے عقل کی رہنمائی اور آفاق و انفس کی گواہی کے ساتھ ساتھ اپنے نبیوں اور رسولوں کی شہادت کے ذریعہ سے بھی حق کو بالکل آشکارا کر دیا۔ اب جو لوگ ان ساری چیزوں کو ہدایت کا ذریعہ بنانے کے بجائے ان کو اپنی ضلالت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں ایسے لوگوں کو ہدایت کی راہ پر لا کھڑا کرنا اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو وہ بھٹکنے ہی کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِن سے پوچھو، کبھی سوچا بھی ہے کہ اُس وقت کیا ہو گا، اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے ہوا اور تم اِس کا انکار کر بیٹھے اور بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ اِسی طرح کی ایک کتاب کے نازل ہونے کی گواہی بھی دے چکا ہے۔ سو اُس نے تو مان لیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے۔ یقیناً اللہ ایسے ظالم لوگوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔

اِس جملے میں جواب شرط محذوف ہے۔ الفاظ جب کسی شے کی عظمت یا ہول ناکی کے باعث اُس کی تعبیر سے قاصر ہوں تو اِسی طرح حذف کر دیتے ہیں۔

سیدنا مسیح علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے جن کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ آنے والے پیغمبرکی بشارت دیں۔ اُن پر جو کتاب نازل ہوئی، اُس کانام اِسی بنا پر انجیل ہے جس کے معنی یونانی میں بشارت کے ہیں۔ اُنھوں نے یہ بشارت آپ کے نام کی تصریح کے ساتھ دی، جیسا کہ سورۂ صف میں بیان ہوا ہے اور آپ کی صفات اور آپ کی دعوت کے مدارج و مراحل کا ذکر نہایت واضح الفاظ میں فرمایا۔ اِس کے شواہد انجیلوں میں جگہ جگہ دیکھ لیے جا سکتے ہیں۔ اُن کے سچے پیرووں نے،جو اصل نصرانیت پر قائم تھے، اِنھی شواہد کی بنا پر پورے جوش و خروش کے ساتھ آپ کا استقبال کیا اور آپ پر ایمان لائے۔سیدنا مسیح نے فرمایا:

’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے ، یعنی روح حق ۔‘‘(یوحنا ۱۴: ۱۶۔۱۷)

’’...لیکن مددگار، یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا، وہی تمھیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے، وہ سب تمھیں یاددلادے گا۔‘‘(یوحنا ۱۴: ۲۶)

’’اِس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اُس کا کچھ نہیں۔‘‘ (یوحنا ۱۴: ۳۰)

’’...لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمھارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی روح حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے، تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۵: ۲۶)

’’...لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمھارے پاس نہ آئے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۶: ۷)

’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں، مگر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن وہ، یعنی روح حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، اِس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، لیکن جو کچھ سنے گا، وہی کہے گا اور تمھیں آیندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۶: ۱۲۔۱۳)

ابو الاعلی مودودی

اے نبیؐ، ان سے کہو “کبھی تم نے سوچا بھی کہ اگر یہ کلام اللہ ہی کی طرف سے ہوا اور تم نے اِس کا انکار کر دیا (تو تمہارا کیا انجام ہوگا)؟ اور اِس جیسے ایک کلام پر تو بنی اسرائیل کا ایک گواہ شہادت بھی دے چکا ہے۔ وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔”

یہ وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے ایک دوسرے طریقہ سے سورة حٰم السجدہ، آیت 52 میں گزر چکا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، تفسیر سورة مذکور، حاشیہ 69 ۔

مفسرین کے ایک بڑے گروہ نے اس گواہ سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام کو لیا ہے جو مدینہ طیبہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔ یہ واقعہ چونکہ مدینہ میں پیش آیا تھا اس لیے ان مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔ اس تفسیر کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص کا یہ بیان ہے کہ یہ آیت حضرت عبداللہ بن سلام کے بارے میں نازل ہوئی تھی (بخاری، مسلم، نسائی، ابن جریر) ، اور اسی بنا پر ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ضحاک، ابن سیرین، حسن بصری، ابن زید، اور عوف بن مالک الاشجعی جیسے متعدد اکابر مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے۔ مگر دوسری طرف عکرمہ اور شعبی اور مسروق کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام (رض) کے بارے میں نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پوری سورة مکی ہے۔ ابن جریر طبری نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ان کا کہنا یہ ہے اوپر سے سارا سلسلہ کلام مشرکین مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے چلا آ رہا ہے اور آگے بھی سارا خطاب انہی سے ہے، اس سیاق وسباق میں یکایک مدینے میں نازل ہونے والی ایک آیت کا آجانا قابل تصور نہیں ہے۔ بعد کے جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو قبول کیا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت کو رد نہیں کرتے، بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ یہ آیت چونکہ حضرت عبداللہ بن سلام کے ایمان لانے پر بھی چسپاں ہوتی ہے، اس لیے حضرت سعد نے قُدَماء کی عادت کے مطابق یہ فرمان دیا کہ یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب وہ ایمان لائے اس وقت ان ہی کے بارے میں یہ نازل ہوئی، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ اس آیت کے ٹھیک ٹھیک مصداق ہیں اور ان کے قبول ایمان پر یہ پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔

بظاہر یہی دوسرا قول زیادہ صحیح اور معقول محسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ اس ” گواہ ” سے مراد کون ہے۔ جن مفسرین نے اس دوسرے قول کو اختیار کیا ہے ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہیں لیکن بعد کا یہ فقرہ کہ ” وہ ایمان لے آیا اور تم اپنے گھمنڈ میں پڑے رہے “۔ اس تفسیر کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ زیادہ صحیح بات وہی معلوم ہوتی ہے جو مفسر نیسا پوری اور ابن کثیر نے بیان کی ہے کہ یہاں گواہ سے مراد کوئی شخص نہیں، بلکہ بنی اسرائیل کا عام آدمی ہے۔ ارشاد الہی کا مدعا یہ ہے کہ قرآن مجید جو تعلیم تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے یہ کوئی انوکھی چیز بھی نہیں ہے دنیا میں پہلی مرتبہ تمھارے ہی سامنے پیش کی گئی ہو اور تم یہ عذر کرسکو ہم یہ نرالی باتیں کیسے مان لیں جو نوع انسانی کے سامنے کبھی آئی ہی نہ تھیں۔ اس سے پہلے یہی تعلیمات اسی طرح وحی کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کے سامنے توراۃ اور دوسری کتب آسمانی کی شکل میں آ چکی ہیں ایک عام آ دمی ان کو مان چکا ہے، اور یہ بھی تسلیم کرچکا ہے کہ اللہ کی وحی ان تعلیمات کے نزول کا ذریعہ ہے۔ اس لیے تم لوگ یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ وحی اور یہ تعلیمات ناقابل فہم چیزیں ہیں۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ تمہارا غرور و تکبر اور بےبنیاد و گھمنڈ ایمان لانے میں مانع ہے۔

جونا گڑھی

آپ کہہ دیجئے ! اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو اور ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے سرکشی کی ہو تو بیشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔

 اس شاہد بنی اسرائیل سے کون مراد ہے ؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ بطور جنس کے ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکے میں رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی مراد ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے بعض کے نزدیک اس سے مراد عبد اللہ بن سلام ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں (صحیح بخاری) امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے (اس جیسی کتاب کی گواہی) کا مطلب تورات کی گواہی جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق ہے۔ کیونکہ قرآن بھی توحید و معاد کے اثبات میں تورات ہی کی مثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی گواہی اور ان کے ایمان لانے کے بعد اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لیے اس کے بعد تمہارے انکار استکبار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے تمہیں اپنے اس رویے کا انجام سوچ لینا چاہئے 

Page 1 of 4 pages  1 2 3 >  Last ›