يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ ٱتَّقِ ٱللَّـهَ وَلَا تُطِعِ ٱلْكَـٰفِرِينَ وَٱلْمُنَـٰفِقِينَ ۗ إِنَّ ٱللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

امین احسن اصلاحی

اے نبی، اللہ سے ڈرو اور اِن منکروں اور منافقوں کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ علیم و حکیم ہے

خطاب کی نوعیت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں ’یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ‘ سے جو خطاب فرمایا ہے یہ محض تعظیم و تکریم کے لیے نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے سمجھا ہے، بلکہ یہ لفظ آپ کے فریضۂ منصبی کی یاددہانی کے لیے یہاں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ کے نبی و رسول ہیں اس وجہ سے آپ کو صرف اپنے رب کی پروا ہونی چاہیے۔ آپ صرف اللہ سے ڈریں، کافروں اور منافقوں کی مخالفتوں سے بالکل بے پروا ہو کر لوگوں کو اللہ کی بات پہنچائیں۔ اسی طرح کا خطاب سورۂ مائدہ میں گزر چکا ہے:

’یٰٓاَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنۡزِلَ إِلَیْْکَ مِنۡ رَّبِّکَ‘ (المائدہ: ۶۷)
(اے رسول، تم اچھی طرح لوگوں کو وہ چیز پہنچا دو جو تم پر تمہارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے)۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ و تاکید

وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَالْمُنَافِقِیْنَ‘۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تنبیہ و تاکید اس لیے نہیں فرمائی گئی کہ خدانخواستہ اس بات کا کوئی اندیشہ تھا کہ آپ کفار و منافقین کی باتوں سے متاثر یا مرعوب ہو جائیں گے بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے مخالفین کو تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ اشرار کتنا ہی زور لگائیں اور کتنے ہی فتنے اٹھائیں لیکن تم ان کی باتوں پر ذرا کان نہ دھرنا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ آگے بعض ایسی باتوں کا ذکر آ رہا ہے جن کو کفار و منافقین نے آپ کے خلاف فتنہ انگیزی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔

کفار و منافقین کا باہمی رشتہ

یہاں کفار و منافقین کا ایک ساتھ ذکر اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہ یہ دونوں اصلاً ایک ہی چٹے کے بٹے ہیں۔ اسلام دشمنی میں دونوں متحد ہیں۔ فرق ہے تو یہ ہے کہ ایک کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے دوسرا اسلام کا کلمہ پڑھتے ہوئے، مسلمانوں کے اندر گھس کر، اسلام کی بیخ کنی کی کوشش کرتا ہے۔ اس وجہ سے انجام کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔

توکل علی اللہ کی دلیل

إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا‘۔ یہ اس بات کی دلیل ارشاد ہوئی ہے کہ کیوں پیغمبرؐ کو اپنے رب کے سوا سب سے بے خوف و بے پروا ہو کر صرف اس بات کی تبلیغ و تعمیل کرنی چاہیے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ فرمایا کہ اللہ علیم و حکیم ہے۔ اس وجہ سے اس نے جس بات کا حکم دیا ہے وہی بات صحیح علم و حکمت پر مبنی ہے۔ اس کے خلاف لوگ جو بکواسیں کر رہے ہیں ان کی خرافات لائق اعتنا نہیں ہیں۔ آگے آیت ۳۹ اور آیت ۴۸ سے اس کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔

جاوید احمد غامدی

اے نبی، اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ بے شک اللہ علیم و حکیم ہے

یہ اُن باتوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر آگے آئے گا اور جنھیں کفار اور منافقین نے آپ کے خلاف فتنہ انگیزی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ چنانچہ اِس میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کی تنبیہ کا رخ درحقیقت اُنھی کی جانب ہے۔

یعنی اُس نے اگر کوئی حکم دیا ہے تو وہی علم و حکمت کا تقاضا ہے۔ اُس کے خلاف کسی کی کوئی چیز بھی لائق التفات نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اے نبی ! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے۔

جیسا کہ ہم اس سورة کے دیباچے میں بیان کرچکے ہیں، یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید (رض) حضرت زینب (رض) کو طلاق دے چکے تھے۔ اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی یہ محسوس فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کے رسوم و اوہام پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے، اب آپ خود آگے بڑھ کر اپنے منہ بولے بیٹے (زید رضی اللہ عنہ) کی مطلقہ سے نکاح کرلینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے۔ لیکن جس وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاملہ میں قدم اٹھاتے ہوئے جھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھا کہ اس سے کفار و منافقین کو، جو پہلے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے زبردست ہتھیار مل جائے گا۔ یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی، دشمنوں کے پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر بہت سے لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں بدگمان ہوجائیں گے، بہت سے غیر جانبدار لوگ دشمنوں میں شامل ہوجائیں گے، اور خود مسلمانوں میں سے کمزور عقل و ذہن کے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں گے۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اٹھانا خلاف مصلحت ہے جس سے اسلام کے عظیم تر مقاصد کو نقصان پہنچ جائے۔

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :2

تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان اندیشوں کو رفع فرما دیا۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے، اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلاف مصلحت ہے۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین۔

جونا گڑھی

اے نبی ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا اللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے ۔

آیت میں تقویٰ پر مداومت اور تبلیغ و دعوت میں استقامت کا حکم ہے۔ طلق بن حبیب کہتے ہیں، تقویٰ کا مطلب ہے کہ اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق ترک کر دے، اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے (ابن کثیر)

پس وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس لئے نتائج کو وہی جانتا ہے اور اپنے اقوال و افعال میں وہ حکیم ہے

وَٱتَّبِعْ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۚ إِنَّ ٱللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

امین احسن اصلاحی

اور پیروی کرو اس چیز کی جو تم پر تمہارے رب کی جانب سے وحی کی جا رہی ہے، بے شک اللہ ان تمام چیزوں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو

اوپر جو بات منفی اسلوب سے فرمائی گئی ہے وہی بات مثبت پہلو سے ارشاد ہوئی ہے کہ اشرار کی تمام شر انگیزیوں سے بالکل بے پروا ہو کر تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی جانب سے آتی ہے اور یہ اطمینان رکھو کہ تمہارے ہر اقدام و عمل سے اللہ اچھی طرح باخبر رہتا ہے۔ اس آیت میں پہلا خطاب واحد سے ہے اور دوسرا ’بِمَا تَعْمَلُوۡنَ‘ جمع سے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو خطاب ہے یہ امت کے وکیل کی حیثیت سے ہے۔ جس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ دین کے معاملے میں یہی روش مسلمانوں کو بھی اختیار کرنی چاہیے۔

جاوید احمد غامدی

تم اُس چیز کی پیروی کرو جو تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اُن سب چیزوں سے با خبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو

اِن آیتوں میں خطاب تمام تر واحد کے صیغے میں ہے، لیکن یہاں جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔ اِس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ دین کے معاملے میں وہی رویہ ہر مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے، جس کی یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کی جا رہی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پیروی کرو اس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جا رہا ہے، اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو

اس فقرے میں خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ہے اور مسلمانوں سے بھی اور مخالفین اسلام سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ نبی اگر اللہ کے حکم پر عمل کر کے بدنامی کا خطرہ مول لے گا اور اپنی عزت پر دشمنوں کے حملے صبر کے ساتھ برداشت کرے گا تو اللہ سے اس کی یہ وفا دارانہ خدمت چھپی نہ رہے گی۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ نبی کی عقیدت میں ثابت قدم رہیں گے اور جو شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے، دونوں ہی کا حال اللہ سے مخفی نہ رہے گا۔ اور کفار و منافقین اس کو بدنام کرنے کے لیے جو دوڑ دھوپ کریں گے اس سے بھی اللہ بیخبر نہ رہے گا۔ لہٰذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہر ایک اپنے عمل کے لحاظ سے جس جزا یا سزا کا مستحق ہوگا وہ اسے مل کر رہے گی۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :3

اس فقرے میں خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ہے اور مسلمانوں سے بھی اور مخالفین اسلام سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ نبی اگر اللہ کے حکم پر عمل کر کے بدنامی کا خطرہ مول لے گا اور اپنی عزت پر دشمنوں کے حملے صبر کے ساتھ برداشت کرے گا تو اللہ سے اس کی یہ وفا دارانہ خدمت چھپی نہ رہے گی۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ نبی کی عقیدت میں ثابت قدم رہیں گے اور جو شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے، دونوں ہی کا حال اللہ سے مخفی نہ رہے گا۔ اور کفار و منافقین اس کو بدنام کرنے کے لیے جو دوڑ دھوپ کریں گے اس سے بھی اللہ بیخبر نہ رہے گا۔ لہٰذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہر ایک اپنے عمل کے لحاظ سے جس جزا یا سزا کا مستحق ہوگا وہ اسے مل کر رہے گی۔

جونا گڑھی

جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی تابعداری کریں (یقین مانو) کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے ۔

  یعنی قرآن کی اور احادیث کی بھی، اس لئے کہ احادیث کے الفاظ گو نبی کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے معانی و مفہوم من جانب اللہ ہی ہیں۔ اس لئے ان کو وحی خفی کہا یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔ 

وَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّـهِ ۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّـهِ وَكِيلًا

امین احسن اصلاحی

اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور بھروسے کے لیے اللہ کافی ہے

’وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً‘۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی ہر بات علم و حکمت پر بھی مبنی ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر بھی ہے تو اسی پر بھروسہ رکھو اور اپنے موقف پر ڈٹے رہو۔ اعتماد اور بھروسہ کے لیے اللہ کافی ہے۔ اس کے ہوتے تمہیں کسی دوسرے سہارے کی احتیاج نہیں ہے۔ لفظ ’وکیل‘ کی وضاحت ہم دوسرے مقام میں کر چکے ہیں کہ اس سے مراد وہ ذات ہے جس پر پورا اعتماد کر کے اپنے معاملات اس کے حوالہ کر دیے جائیں ۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ بندوں سے یہی ہے کہ وہ خدا کے دیے ہوئے احکام کی ہر حال میں تعمیل کریں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں کہ اس راہ میں جو مشکلیں پیش آئیں گی ان سے عہدہ برآ ہونے کی وہ توفیق بخشے گا۔

جاوید احمد غامدی

اور اللہ پر بھروسا رکھو اور بھروسے کے لیے اللہ کافی ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے ۔

اس فقرے کے مخاطب پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ جو فرض تم پر عائد کیا گیا ہے اسے اللہ کے بھروسے پر انجام دو اور دنیا بھر بھی اگر مخالف ہو تو اس کی پروا نہ کرو۔ جب آدمی کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو کہ فلاں حکم اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے تو پھر اسے بالکل مطمئن ہوجانا چاہیے کہ ساری خیر اور مصلحت اسی حکم کی تعمیل میں ہے۔ اس کے بعد حکمت و مصلحت دیکھنا اس شخص کا اپنا کام نہیں ہے، بلکہ اسے اللہ کے اعتماد پر صرف تعمیل ارشاد کرنی چاہیے۔ اللہ اس کے لیے بالکل کافی ہے کہ بندہ اپنے معاملات اس کے سپرد کر دے۔ وہ رہنمائی کے لیے کافی ہے اور مدد کے لیے بھی، اور وہی اس امر کا ضامن بھی ہے کہ اس کی رہنمائی میں کام کرنے والا آدمی کبھی نتائج بد سے دو چار نہ ہو۔

جونا گڑھی

آپ اللہ ہی پر توکل رکھیں، وہ کار سازی کے لئے کافی ہے ۔

  اپنے تمام معاملات اور احوال میں۔ 

 ان لوگوں کے لئے جو اس پر بھروسہ رکھتے، اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ 

مَّا جَعَلَ ٱللَّـهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِى جَوْفِهِۦ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَٰجَكُمُ ٱلَّـٰٓـِٔى تُظَـٰهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَـٰتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَٰهِكُمْ ۖ وَٱللَّـهُ يَقُولُ ٱلْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى ٱلسَّبِيلَ

امین احسن اصلاحی

اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے اور نہ تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کر بیٹھتے ہو تمہاری مائیں بنایا اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنا دیا۔ یہ سب تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق کہتا ہے اور وہ صحیح راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے

اوپر کی تمہید کے بعد یہ بعض ایسے امور کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں قرآن کی اصلاحات کو کفار و منافقین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فتنہ انگیزی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔

فکر و ارادہ کا تضاد خلاف فطرت ہے: ’مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ‘۔ یہ ٹکڑا بعد کی باتوں کے ذکر کے لیے بطور تمہید ہے۔ چونکہ یہ باتیں فکر و ارادہ کے تضاد کا مظہر ہیں اس وجہ سے ان کے ذکر سے پہلے نفس تضاد ارادہ پر روشنی ڈالی کہ اللہ تعالیٰ کو اگر منظور ہوتا کہ انسان متضاد و متناقض ارادوں کی کشمکش ہی میں گرفتار رہے تو اس کو دل بھی ایک سے زیادہ دیتا لیکن اس نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اس نے انسان کے لیے یہ پسند نہیں فرمایا کہ وہ دو بالکل متناقض ارادے اپنے اندر جمع کر رکھے۔ لیکن یہ انسان کی عجیب کج فہمی ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی ساخت کے بالکل خلاف وہ اپنے اندر متناقض ارادے جمع کر لیتا ہے۔ وہ خدا پر ایمان کا دعویٰ بھی رکھتا ہے اور ساتھ ہی دوسرے شریکوں کی بندگی بھی کرتا ہے۔ رسول سے اطاعت و وفاداری کا عہد بھی باندھتا ہے اور اس کے خلاف اس کے دشمنوں سے سازباز اور اس کی تعلیمات کے خلاف سرگوشیاں اور سازشیں بھی کرتا ہے۔ حالانکہ اگر دل ایک ہے تو اس کے ارادوں میں تضاد و تناقض نہیں ہونا چاہیے بلکہ تمام ارادے بالکل ہم آہنگ و ہم رنگ ہونے چاہییں۔ اگر معاملہ اس کے خلاف ہو تو یہ دل کی خرابی و بیماری کی دلیل ہے اور ہر عاقل کا فرض ہے کہ وہ اس خرابی کی اصلاح کر کے اپنے ارادوں میں ہم آہنگی پیدا کرے۔
تناقض فکر کی ایک مثال: ’وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الّٰٓئِْ تُظٰھِرُوْنَ مِنْھُنَّ اُمَّھٰتِکُمْ‘۔ اب یہ اس تضاد فکر و ارادہ کی مثال کے طور پر ظہار کے معاملہ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کر بیٹھتا ہے تو اس کی بیوی اس کی ماں نہیں بن جاتی لیکن لوگوں نے زمانۂ جاہلیت میں اس طرح کی عورتوں کو ماؤں کی طرح محرمات میں شامل کر رکھا تھا۔ اب قرآن نے اس جاہلیت کی جو اصلاح کی تو منافقین و کفار جھاڑ کے کانٹوں کی طرح پیغمبرؐ کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ جو عورتیں ماؤں کی طرح حرام ہیں اس شخص نے اپنے پیرؤوں کے لیے ان کو بھی جائز کر دیا۔
ظہار: ’ظہار‘ عرب جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہہ بیٹھتا کہ

’اَنتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمّی‘
(اب تو میرے اوپر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے)

تو اس کی بیوی اس کے اوپر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی۔ اسی لفظ ’ظھر‘ سے جس کے معنی پیٹھ کے ہیں ’ظہار‘ کی اصطلاح پیدا ہو گئی۔ لیکن اس کا اطلاق انہی الفاظ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ کوئی شخص اپنی بیوی کے کسی اور حصۂ جسم کو بھی، بارادۂ تحریم، اپنی محرمات میں سے کسی سے مشابہ قرار دے دے تو اس کا حکم بھی ظہار ہی کا ہو گا۔ عرب جاہلیت میں یہ صورت ایک طلاق مغلظ کی تھی جس کے بعد کسی شخص کے لیے اپنی بیوی سے مراجعت کی کوئی شکل باقی نہیں رہ جاتی تھی۔ قرآن نے، جیسا کہ سورۂ مجادلہ کی آیات ۲-۴ میں تفصیل آئے گی، اس طرح کی بات کو منکر اور جھوٹ قرار دیا اور یہ اجازت دے دی کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح کی بات کہہ بیٹھے اور وہ پھر اس کے ساتھ زن و شو کے تعلقات قائم کرنا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے اس لیے کہ اس طرح کی بیہودہ بات کہہ دینے سے کسی کی بیوی اس کی ماں نہیں بن جاتی لیکن اس نے چونکہ ایک منکر اور باطل بات کہی ہے اس وجہ سے ضروری ہے کہ ملاقات سے پہلے وہ ایک غلام آزاد کرے، اگر غلام میسر نہ ہو تو لگاتار دو ماہ روزے رکھے اور اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ اس اصلاح سے قرآن نے ان لوگوں کی گھریلو زندگی کو درہم برہم ہونے سے بچانے کی راہ بھی کھولی جو غصہ اور جھنجھلاہٹ میں آ کر، نتائج پر نگاہ کیے بغیر، فضول باتیں زبان سے نکال دیا کرتے ہیں اور ساتھ ہی آئندہ کے لیے ان کو اور دوسروں کو محتاط رہنے کا سبق بھی دے دیا لیکن کفار و منافقین نے، جو ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے لیے کسی شوشے کی تلاش میں رہتے تھے، اس چیز کو بھی فتنہ انگیزی کا ذریعہ بنا کر لوگوں میں یہ پھیلانا شروع کر دیا کہ اس شخص کو دیکھو، اس نے ماں اور بیوی کے درمیان کوئی فرق ہی باقی نہیں رکھا! اسی چیز کی طرف یہاں آیت میں اشارہ ہے کہ یہ لوگ دودلی اور تضاد فکر و ارادہ کی بیماری میں مبتلا ہیں ورنہ انھیں سوچنا چاہیے کہ مجرد ایک بدتمیزی و جہالت کی بات کہہ دینے سے کسی کی بیوی اس کی ماں کس طرح بن جائے گی! اس غلطی پر وہ تادیب و اصلاح کا مستحق تو ضرور ہے تاکہ اس کو بھی اور معاشرہ کے دوسرے لوگوں کو بھی سبق حاصل ہو لیکن اس سزا کا مستحق تو وہ نہیں ہے کہ اس کی عائلی زندگی کا شیرازہ بالکل درہم برہم ہو کر رہ جائے۔ یہاں ہم صرف اشارہ پر کفایت کرتے ہیں اس لیے کہ قرآن نے بھی اشارہ ہی کیا ہے۔ ان شاء اللہ سورۂ مجادلہ کی تفسیر میں ہم اس پر مفصل بحث کریں گے اور بتائیں گے کہ اس طریقۂ طلاق میں شریعت کے قراردادہ طریقہ کے مقابل میں کیا کیا مفاسد موجود ہیں جن کی قرآن نے اصلاح کی ہے۔
تضاد فکر کی دوسری مثال: ’وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَکُمْ اَبْنَآءَ کُمْ‘ اسی طرح کے تضاد فکر میں لوگ منہ بولے بیٹوں کے معاملے میں بھی مبتلا تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں منہ بولے بیٹوں کو بالکل صلبی بیٹوں کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے متبنیّٰ کی منکوحہ سے اس کی وفات یا طلاق کے بعد نکاح کر سکے۔ یہ چیز اس فطری نظام عائلی کے بالکل خلاف تھی جس کو اسلام نے ’اُولُوا الارحام بعضھم اولی ببعض‘ کے اصول پر قائم فرمایا ہے۔ اس وجہ سے جب اس کی اصلاح کا وقت آ گیا تو اللہ تعالیٰ نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ حضرت زیدؓ کی مطلقہ بیوی حضرت زینبؓ سے نکاح کر لیں تاکہ اس غلط رسم کا خاتمہ ہو جائے۔ حضرت زیدؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیّٰ کی حیثیت حاصل تھی اس وجہ سے اس رسم جاہلی کی اصلاح کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ یہی ہو سکتا تھا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے اقدام فرمائیں لیکن کفار و منافقین نے اس کو بھی آنحضرت صلعم کے خلاف فتنہ انگیزی کا ذریعہ بنایا کہ اس شخص نے اپنے منہ بولے بیٹے کی منکوحہ سے نکاح کر لیا۔ اسی فتنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ بھی ان لوگوں کی دودلی کا کرشمہ ہے کہ یہ صلبی بیٹے اور منہ بولے بیٹے میں فرق نہیں کر رہے ہیں، دونوں کو ایک ہی درجے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس واقعہ پر مفصل بحث فصل ۶ میں آگے آ رہی ہے اس وجہ سے ہم یہاں اشارے پر کفایت کرتے ہیں۔
قرآن فطرت کی راہ کی طرف رہنمائی کر رہا ہے: ’ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ‘۔ یعنی اس قسم کی تمام باتیں تمہاری اپنی زبانوں کی گھڑی ہوئی ہیں۔ ان کو عقل و فطرت اور اللہ کی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اس وجہ سے یہ باطل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ذریعے سے تمہیں حق بتا رہا ہے اور تمہاری رہنمائی فطرت کی صراط مستقیم کی طرف کر رہا ہے تو اس صراط مستقیم کو اختیار کرو اور جاہلیت کے رسوم و بدعات سے باہر نکلو۔

جاوید احمد غامدی

اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیں (کہ ایک ہی وقت میں وہ دو متضاد باتوں کو مانتا رہے)۔ چنانچہ نہ اُس نے تمھاری بیویوں کو جن سے تم ظہار کر بیٹھتے ہو، تمھاری مائیں بنایا ہے اور نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا بیٹا بنادیا ہے۔ یہ سب تمھارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، مگر اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ دکھاتا ہے

یعنی ایک ہی وقت میں مومن بھی ہو اور منافق بھی، خدا پر ایمان کا دعویٰ بھی کرے اور اُس کے شریک بھی ٹھیرائے، خدا کے پیغمبر سے اطاعت و وفاداری کا عہد بھی باندھے اور اُس کے خلاف سازشوں میں بھی شامل ہو۔ ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے، اِس لیے کہ اُس کے سینے میں ایک ہی دل دھڑکتا ہے، خدا نے اُسے دو دلوں کے ساتھ پیدا نہیں کیا ہے۔ اِس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کوئی غیر فطری چیز کبھی خدا کے دین میں جائز نہیں ہو سکتی، وہ اُسے ہر حال میں ممنوع ٹھیرائے گا۔ چنانچہ اِسی اصول پر متفرع کرکے آگے جاہلیت کی بعض رسوم کی لغویت واضح فرمائی ہے۔

یہ عرب جاہلیت کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ شوہر نے بیوی کے لیے ’أنت علی کظھر أمی‘(تجھے ہاتھ لگایا تو گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگایا) کے الفاظ زبان سے نکال دیے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں بیوی کو اِس طرح کی بات کہہ دینے سے ایسی طلاق پڑ جاتی تھی جس کے بعد بیوی لازماً شوہرسے الگ ہو جاتی تھی۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ یہ الفاظ کہہ کر شوہرنہ صرف یہ کہ بیوی سے اپنا رشتہ توڑ رہا ہے، بلکہ اُسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے۔ لہٰذااُن کے نزدیک طلاق کے بعدتو رجوع کی گنجایش ہو سکتی تھی، لیکن ظہار کے بعد اِس کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
یعنی اگرکوئی شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے یا اُس کے کسی عضو کو ماں کے کسی عضو سے تشبیہ دیتا ہے تو اِس سے بیوی ماں نہیں ہو جاتی اور نہ اُس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا ایک امر واقعی ہے، اِس لیے کہ اُس نے آدمی کو جنا ہے۔ اُس کو جو حرمت حاصل ہوتی ہے، وہ اِسی جننے کے تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک ابدی اور فطری حرمت ہے جو کسی عورت کو محض منہ سے ماں کہہ دینے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔
مطلب یہ ہے کہ اُنھیں بالکل صلبی بیٹوں کا درجہ نہیں دیا ہے کہ اُن کے لیے میراث کا حق قائم ہو جائے یا اُن کی بیویوں کے ساتھ اُن کی وفات یا طلاق کے بعد نکاح کرنا ممنوع سمجھا جائے۔
یعنی اِن کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ اِن پر شریعت کے کسی حکم کی بنیاد رکھی جائے۔ خدا کی شریعت انسان کی فطرت پر مبنی ہے، اُس میں اِس طرح کے رسوم کی کوئی گنجایش نہیں ہو سکتی۔

ابو الاعلی مودودی

اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دل نہیں رکھے ہیں نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنادیا ہے ، اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے، اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

یعنی ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق، سچا اور جھوٹا، بدکار اور نیکو کار نہیں ہو سکتا۔ اس کے سینے میں دو دل نہیں ہیں کہ ایک دل میں اخلاص ہو اور دوسرے میں خدا سے بےخوفی۔ لہٰذا ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے۔ یا تو وہ مومن ہوگا یا منافق۔ یا تو وہ کافر ہوگا یا مسلم۔ اب اگر تم کسی مومن کو منافق کہہ دو یا منافق تو اس سے حقیقت نفس الامری نہ بدل جائے گی۔ اس شخص کی اصل حیثیت لازماً ایک ہی رہے گی۔

” ظِہار ” عرب کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ قدیم زمانے میں عرب کے لوگ بیوی سے لڑتے ہوئے کبھی یہ کہہ بیٹھتے تھے کہ ” تیری پیٹھ میری لئے میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے “۔ اور یہ بات جب کسی کے منہ سے نکل جاتی تھی تو یہ سمجھتا جاتا تھا کہ اب یہ عورت اس پر حرام ہوگئی ہے کیونکہ وہ اسے ماں سے تشبیہ دے چکا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے یا ماں کے ساتھ تشبیہ دے دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی۔ ماں تو وہی ہے جس نے آدمی کو جنا ہے۔ محض زبان سے ماں کہہ دینا حقیقت کو نہیں بدل دیتا کہ جو بیوی تھی وہ تمہارے کہنے سے ماں بن جائے۔ (یہاں ظہار کے متعلق شریعت کا قانون بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس کا قانون سورة مجادلہ۔ آیات ٢۔ ٤ میں بیان کیا گیا ہے ) ۔

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :7

یہ اصل مقصود کلام ہے۔ اوپر کے دونوں فقرے اسی تیسری بات کو ذہن نشین کرنے کے لئے بطور دلیل ارشاد ہوئے تھے۔

جونا گڑھی

کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھے ہو انھیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وہ سیدھی راہ سمجھاتا ہے۔

ٱدْعُوهُمْ لِـَٔابَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ ٱللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوٓا۟ ءَابَآءَهُمْ فَإِخْوَٰنُكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَمَوَٰلِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَآ أَخْطَأْتُم بِهِۦ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ ٱللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

امین احسن اصلاحی

منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت کے ساتھ پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک قرین عدل ہے اور اگر تم کو ان کے باپوں کا پتہ نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے شریک قبیلہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس باب میں تم سے جو غلطی ہوئی اس پر تم سے کوئی مواخذہ نہیں، البتہ تمہارے دلوں نے جس بات کا عزم کر لیا اس پر مواخذہ ہے۔ اور اللہ غفور رّحیم ہے

اسلام کے نظام میں کوئی خلاف فطرت چیز داخل نہیں ہو سکتی: ’اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ‘ یعنی منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت کے ساتھ پکارو تاکہ ان کے نسب کا امتیاز باقی رہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ کے قانون میں حق و عدل سے اقرب و اوفق ہے۔ اگر اس کی خلاف ورزی کر کے منہ بولے بیٹوں کو بالکل بیٹوں کے درجے میں کر دیا گیا تو وہ سارا نظام وراثت و قرابت و معاشرت بالکل تلپٹ ہو جائے گا جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے رحمی رشتوں اور انسانی فطرت کے جذبات و داعیات پر رکھی ہے۔ اسلام کے تمام احکام و قوانین خواہ وہ کسی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ نے عدل و قسط پر قائم کیے ہیں اس وجہ سے اس میں کوئی بات اس عدل و قسط کے خلاف داخل نہیں ہو سکتی۔

اہل عرب کا ایک معاشرتی اصول: ’فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْا اٰبَآءَھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ‘ یعنی اگر ان کے باپوں کا پتہ نہ ہو تو ان کی حیثیت دینی بھائیوں اور ’’موالی‘‘ کی ہو گی۔ دینی اخوت کے رشتہ سے تو عربوں کو اول اول اسلام نے آشنا کیا، جاہلیت میں عرب اس سے بالکل نا آشنا تھے، لیکن خاندانوں اور قبیلوں کے ساتھ وابستہ ہونے کا ایک طریقہ حلف اور وِلا کا ان کے ہاں موجود تھا۔ خاندان یا قبیلہ سے باہر کا کوئی شخص اگر کسی خاندان یا قبیلہ میں شامل ہونا چاہتا اور اس خاندان والے اس کو شامل کر لیتے تو وہ اس خاندان کا ’مولیٰ‘ سمجھا جاتا اور جملہ حقوق اور ذمہ داریوں میں شریک خاندان و قبیلہ بن جاتا۔ اگر وہ قتل ہو جاتا تو جس خاندان یا قبلہ کا وہ مولیٰ ہوتا اس کو یہ حق حاصل ہوتا کہ وہ اس کے قصاص کا مطالبہ کرے۔ اسی طرح اگر وہ کوئی اقدام کر بیٹھتا جس کی بنا پر کوئی ذمہ داری عائد ہونے والی ہوتی تو اس ذمہ داری میں بھی پورے خاندان و قبیلہ کو حصہ لینا پڑتا:

’مولی القوم منہم‘
(قوم کا مولیٰ انہی کے اندر کا ایک فرد شمار ہوگا)

عربوں میں ایک مسلم سماجی اصول تھا اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے بھی اس کو برقرار رکھا۔ کسی خاندان کے آزاد کردہ غلام کا وِلا بھی آزاد کرنے والے خاندان کو حاصل ہوتا۔ مثلاً اگر وہ آزاد کردہ غلام مرتا اور اس کا کوئی وارث نہ ہوتا تو وِلا کے تعلق کی بنا پر اس کی وراثت اس کے آزاد کرنے والوں کو پہنچتی۔ آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کسی کے متبنیٰ کے باپ کا علم نہ ہو تو اس کی حیثیت دینی بھائی اور مولیٰ کی قرار پائے گی لیکن کسی صورت میں اس کو صلبی بیٹے کی حیثیت حاصل نہ ہو گی۔
غلطی اور جرم میں فرق: ’وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا‘۔ یعنی اس معاملے میں جو غلطی بربنائے جہالت اب تک ہوئی ہے اس پر تو کوئی مواخذہ نہیں ہے، اللہ غفور رحیم ہے، لیکن اب اس تنبیہ و تعلیم کے بعد بھی اگر اسی غلط بات پر اصرار قائم رہا تو اس کی نوعیت غلطی کی نہیں بلکہ جرم کی ہو گی، اس لیے کہ یہ چیز تمہارے دلوں کے قصد و ارادہ اور دیدہ و دانستہ تعمد کا نتیجہ ہو گی جس پر اللہ تعالیٰ ضرور مواخذہ فرمائے گا۔

جاوید احمد غامدی

تم منہ بولے بیٹوں کو اُن کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔ پھر اگر اُن کے باپوں کا تم کو پتا نہ ہو تو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے حلیف ہیں۔ تم سے جو غلطی اِس معاملے میں ہوئی ہے، اُس کے لیے توتم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے

اِس لیے کہ اِسی سے نسب کا امتیاز قائم رہتا اور وہ معاشرت وجود میں آتی ہے جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے رحمی رشتوں کے تقدس اور انسان کے فطری جذبات و داعیات پر رکھی ہے۔ اِس سے ہٹ کر جو کام بھی کیا جائے گا، وہ حق و انصاف کے خلاف ہو گا جسے خدا کی شریعت کبھی قبول نہیں کر سکتی۔

یعنی حلف اور ولا کا جو طریقہ تمھارے ہاں موجود ہے، اُس کے مطابق تم اُنھیں اپنا مولیٰ بنا سکتے ہو۔ اِس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن کسی کو بالکل اُسی حیثیت سے بیٹا یا بیٹی نہیں بنا سکتے جو تمھاری صلبی اولاد کی ہے۔ استاذامام لکھتے ہیں:

’’... دینی اخوت کے رشتے سے تو عربوں کو اول اول اسلام نے آشنا کیا، جاہلیت میں عرب اِس سے بالکل ناآشنا تھے، لیکن خاندانوں اور قبیلوں کے ساتھ وابستہ ہونے کا ایک طریقہ حلف اور ولا کا اِن کے ہاں موجود تھا۔ خاندان یاقبیلے سے باہر کا کوئی شخص اگر کسی خاندان یا قبیلے میں شامل ہونا چاہتا اور اُس خاندان والے اُس کو شامل کر لیتے تو وہ اُس خاندان کا ’مولیٰ‘ سمجھا جاتا اور جملہ حقوق اور ذمہ داریوں میں شریک خاندان و قبیلہ بن جاتا۔ اگر وہ قتل ہوجاتا تو جس خاندان یا قبیلہ کا وہ مولیٰ ہوتا، اُس کو یہ حق حاصل ہوتا کہ وہ اُس کے قصاص کا مطالبہ کرے۔ اِسی طرح اگر وہ کوئی اقدام کر بیٹھتا جس کی بنا پر کوئی ذمہ داری عائد ہونے والی ہوتی تو اِس ذمہ داری میں بھی پورے خاندان و قبیلہ کو حصہ لینا پڑتا۔ ’مولی القوم منہم‘ (قوم کا مولیٰ اُنھی کے اندر کا ایک فرد شمار ہوگا) عربوں میں ایک مسلم سماجی اصول تھا اور اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے بھی اِس کو برقرار رکھا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۸۹)

یعنی اب تک ہوتی رہی ہے۔
یعنی تعلیم و تنبیہ کے بعد بھی اِسی غلط طریقے پر قائم رہنے پر اصرار کیا۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ یہ قصد و ارادہ کے ساتھ خدا کی نافرمانی کا ارتکاب ہو گا، اِسے سہو و نسیان یا غلطی پر محمول نہیں کیا جا سکتا جس پر خدا کی شریعت میں کوئی مواخذہ نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کی نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں نادانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرتے کرو اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے

اس حکم کی تعمیل میں سب سے پہلے جو اصلاح نافذ کی گئی وہ یہ تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کو زید بن محمد کہنے کے بجائے ان کے حقیقی باپ کی نسبت سے زید بن حارثہ کہنا شروع کردیا گیا۔ بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے یہ روایات نقل کی ہے کہ زید بن حارثہ کو پہلے سب لوگ زید بن محمد کہتے تھے۔ یہ آیت نازل ہونے کے بعد انہیں زید بن حارثہ کہنے لگے۔ مزید برآں اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دے دی گئی کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من ادعیٰ الیٰ غیر ابیہ وھو یعلم انہ غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام۔ ” جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا ‘ درآنحالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے ‘ اس پر جنت حرام ہے “۔ اسی مضمون کی دوسری روایات بھی احادیث میں ملتی ہیں۔ جن میں اس فعل کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔

یعنی اس صورت میں بھی یہ درست نہ ہوگا کہ کسی شخص سے خواہ مخواہ اس کا نسب ملایا جائے۔

مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیار سے بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح ماں، بیٹی، بہن، بھائی وغیرہ الفاظ میں بھی اگر کسی کے لیے محض اخلاقاً استعمال کرلیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس ارادے سے یہ بات کہنا کہ جسے بیٹا یا بیٹی وغیرہ کہا جائے اس کو واقعی وہی حیثیت دے دی جائے جو ان رشتوں کی ہے، اور اس کے لیے وہی حقوق ہوں جو ان رشتہ داروں کے ہیں، اور اس کے ساتھ ویسے ہی تعلقات ہوں جیسے ان رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہیں، یہ یقیناً قابل اعتراض ہے اور اس پر گرفت ہوگی۔

اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پہلے اس سلسلے میں جو غلطیاں کی گئی ہیں ان کو اللہ نے معاف کیا۔ ان پر اب کوئی باز پرس نہ ہوگی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نادانستہ افعال پر گرفت کرنے والا نہیں ہے۔ اگر بلا ارادہ کوئی ایسی بات کی جائے جس کی ظاہری صورت ایک ممنوع فعل کی سی ہو، مگر اس میں درحقیقت اس ممنوع فعل کی نیت نہ ہو، تو محض فعل کی ظاہری شکل پر اللہ تعالیٰ سزا نہ دے گا۔

جونا گڑھی

لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔

  اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کردی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، حتی کہ قرآن کریم کی آیت ادعوھم لآبائھم نازل ہوگئی اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو حذیفہ کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہوجاؤ گی چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے۔ اب دوسری نسبتیں ختم کر کے انھیں کی طرف انھیں منسوب کرو۔ البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انھیں اپنا دینی بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔ 

 اس لئے کہ خطا معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔ 

 یعنی جو جان بوجھ کر انتساب کرے گا وہ سخت گناہگار ہوگا، حدیث میں آتا ہے، ' جس نے جانتے بوجھتے اپنے غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا (صحیح بخاری) 

ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَٰجُهُۥٓ أُمَّهَـٰتُهُمْ ۗ وَأُو۟لُوا۟ ٱلْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِى كِتَـٰبِ ٱللَّـهِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُهَـٰجِرِينَ إِلَّآ أَن تَفْعَلُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَوْلِيَآئِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِى ٱلْكِتَـٰبِ مَسْطُورًا

امین احسن اصلاحی

اور نبی کا حق مومنوں پر خود ان کے اپنے مقابل میں اَولیٰ ہے اور ازواج نبی کی حیثیت مومنین کی ماؤں کی ہے اور رحمی رشتے رکھنے والے آپس میں، دوسرے مومنین و مہاجرین کے مقابل، اَولیٰ ہیں، اللہ کے قانون میں۔ یہ اور بات ہے کہ تم اپنے اولیاء و اقرباء کے ساتھ کوئی حسن سلوک کرنا چاہو۔ یہ چیز کتاب میں نوشتہ ہے

اسلامی معاشرے میں فرق مراتب: یہ اس فرق مراتب کو واضح فرمایا ہے جو اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت ہوئی۔ اس وضاحت سے مقصود مسلمانوں کو اس خلط مبحث سے بچانا ہے جس کی بعض مثالیں اوپر گزر چکی ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ: ’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ‘۔ ’اَوْلٰی‘ کے معنی احق کے ہیں۔ مثلاً ’اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ‘ (آل عمران ۶۸) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہر مسلمان پر دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ خود اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔ اس مضمون کی وضاحت آگے اسی سورہ میں ان الفاظ میں ہو گئی ہے:

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا.(الاحزاب ۳۶)
“جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو کسی مومن اور مومنہ کے لیے ان کے معاملے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا۔”

اس سے معلوم ہوا کہ جس معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی فیصلہ صادر ہو جائے اس میں کسی مومن یا مومنہ کے لیے کسی چون و چرا کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ رسول جو کچھ فرماتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے فرماتا ہے اس وجہ سے ایمان کا لازمی تقاضا ہر مرد اور عورت کے لیے یہی ہے کہ وہ رسول کے احکام و ہدایات کی اللہ تعالیٰ کے احکام کی طرح بے چون و چرا تعمیل کرے۔ نہ دوسروں کی مخالفت و مزاحمت کی کوئی پروا کرے نہ اپنے مصالح و مفادات کی اور نہ اپنے جان و مال کی۔
ازواج مطہراتؓ کا درجہ: ’وَاَزْوَاجُہٗ اُمَّھٰتُہُمْ‘۔ یہ اس تعلق خاص کا قدرتی نتیجہ بیان ہوا ہے جو ہر امتی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا ہے یا ہونا چاہیے۔ اگر اس تعلق میں نفاق کی کوئی آلائش نہ ہو تو فطری طور پر ہر مسلمان کے جذبات ازواج مطہراتؓ کے معاملے میں وہی ہوں گے جو شریف بیٹوں کے اندر اپنی ماؤں کے لیے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کی بنا پر ان کے لیے دلوں میں ایسا احترام اور ان کی عظمت کا ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص ان کے ساتھ نکاح کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس سے الگ ہو کر اگر سوچ سکتے تھے تو صرف منافقین سوچ سکتے تھے اور وہ اپنے مفسدانہ اغراض کے لیے، تفصیل آگے آئے گی، ریشہ دوانیاں بھی کرتے رہتے تھے۔ اس آیت نے ان کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کر دیا اور آگے اسی بنیاد پر صاف الفاظ میں یہ ممانعت آ گئی:

’وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْم بَعْدِہٖٓ اَبَدًا‘(۵۳)
(اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ اس کے بعد کبھی اس کی بیویوں سے نکاح کرو)

یہاں اس اشارے پر قناعت کیجیے۔ آگے ان شاء اللہ ہم ان دینی مصالح پر روشنی ڈالیں گے جو اس ممانعت کے اندر مضمر تھے۔
مومنین کے باہمی حقوق کی بنیاد رحمی رشتوں پر: ’وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہراتؓ کو امت میں جو امتیازی مقام حاصل ہے اور جس پہلو سے حاصل ہے اس کو بیان کرنے کے بعد بقیہ سب کے تعلقات کے لیے اساس اس اصول کو قرار دیا ہے جو سورۂ نساء میں بیان ہو چکا ہے۔ یعنی رحمی رشتے رکھنے والے اقرب فالاقرب کے اصول پر ایک دوسرے کے حق دار ٹھہریں گے۔ ’فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ‘ سے مراد یہاں قرآن کی سورۂ نساء کی آیات ۷-۱۳ ہیں جن میں اسی فطری اصول کے مطابق تقسیم وراثت کا ضابطہ بیان ہوا ہے۔
مہاجرین و انصار کے درمیان حقوق کا جو عارضی نظم قائم کیا گیا تھا وہ ختم کر دیا گیا: ’اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِکُمْ مَّعْرُوْفًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا‘۔ اس کے بعد صرف اتنی گنجائش باقی رہ گئی کہ آدمی کے جو اعزہ و احباب اس کی وراثت کے حق دار نہیں ہیں اگر ان کے ساتھ وہ کوئی حسن سلوک کرنا چاہے تو ان حدود کے اندر کر سکتا ہے جو شریعت نے مقرر کر دیے ہیں۔ ان حدود کی تفصیل بھی سورۂ نساء میں بیان ہو چکی ہے۔ ’کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا‘ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اِسی اصول کے مطابق)، نبی کا حق تو اُس کے ماننے والوں پر خود اُن کی ذات سے بھی مقدم ہے اور اُس کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں، مگررحمی رشتے رکھنے والے خدا کے قانون میں دوسرے تمام مومنین اور مہاجرین کی بہ نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، الاّ یہ کہ اپنے تعلق کے لوگوں سے تم کوئی حسن سلوک کرنا چاہو۔ یہ اِسی کتاب میں لکھا ہوا ہے

مطلب یہ ہے کہ آدمی کا دل اگر کسی شخص کو خدا کا پیغمبر مان لیتا ہے تو اُس پر وہ کسی رشتے کو، یہاں تک کہ خود اپنی جان کو بھی مقدم نہیں ٹھیرا سکتا۔ پھر اِس تعلق کا قدرتی نتیجہ ہے کہ اُس کے جذبات پیغمبر کی ازواج مطہرات کے معاملے میں بھی وہی ہوں جو شریف بیٹوں کے اپنی ماؤں کے لیے ہوتے ہیں۔ اِس سے الگ ہو کر اگر کوئی سوچتا ہے تو وہ ایمان کے ساتھ نفاق کو جمع کرتا ہے جو ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے اور جیسا کہ اوپر بیان ہوا، خدا نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں۔

یعنی پیغمبر اور آپ کی ازواج کا معاملہ الگ ہے، مگر اُن کے بعد کسی کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اُسے خدا کے بنائے ہوئے رشتوں پر مقدم ٹھیرایا جائے۔ لہٰذا باقی سب لوگوں کے تعلقات کی بنیاد یہ ہے کہ رحمی رشتے رکھنے والے الاقرب فالاقرب کے اصول پر ایک دوسرے کے حق دار اور دوسرے سب لوگوں سے مقدم ہوں گے، یہاں تک کہ اُن مومنین اور مہاجرین سے بھی جنھیں ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ اِس لیے کہ یہی فطرت کا تقاضا ہے۔
یعنی قرآن میں۔ یہ اُن ہدایات کی طرف اشارہ ہے جو سورۂ نساء (۴) کی ابتدا اور سورۂ انفال (۸) کے آخر میں بیان ہوئی ہیں اور جن میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ وراثت وغیرہ کے حقوق میں رشتہ داراحق ہیں، اُن پر کسی دوسرے کو مقدم نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔

ابو الاعلی مودودی

بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے ، اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ، مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کرسکتے ہو یہ حکیم کتاب الہی میں لکھا ہوا ہے۔

یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسلمانوں سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔ کوئی رشتہ اس رشتے سے اور کوئی تعلق اس تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں، ان کو گمراہ کرسکتے ہیں، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں، مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں ان کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرسکتے ہیں، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت رکھیں، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیں۔

اسی مضمون کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ لا یؤمن احدُکم حتیٰ اکون احبَّ الیہ من والدہ و ولدہ والنّاس اجمعین۔ ” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔

اسی خصوصیت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں اسی طرح ان کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔

اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اس معنی میں امہات مومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہوسکتا تھا۔ باقی دوسرے احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان ان کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا۔ ان کے بھائی بہن مسلمانوں کے لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ (رض) بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ (رض) اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہی کے گرد گھما دیا، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کو بھی ہدف لعن و طعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہوگئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انہیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ ابو منصور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذا الشرف باقٍ ما دمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فایّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھا من شرف امّھات المؤمنین، (اے ابوالحسَن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو) ۔

اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بےاصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سورة احزاب کی آیات ٢٨۔ ٢٩ اور ٥١۔ ٥٢ پر غور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیونکہ آیت تخییر کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باقی نہ رہا تھا۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر ٤٢ و ٩٣ میں ہم نے کردی ہے۔

علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس رویت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو، اور رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالاتر و برتر ہے، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تو اسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ ہے، ان کے ساتھ تو مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت سب سے الگ ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدم ہیں۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ، بال بچوں، اور بھائی بہنوں کی ضروریات تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے۔ زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہوگی، پھر وہ دوسرے مستحقین کو دے گا۔ میراث لازماً ان لوگوں کو پہنچے گی جو رشتے میں آدمی سے قریب تر ہوں۔ دوسرے لوگوں کو اگر وہ چاہے تو ہبہ یا وقف یا وصیت کے ذریعہ سے اپنا مال دے سکتا ہے، مگر اس طرح نہیں کہ وارث محروم رہ جائیں اور سب کچھ دوسروں کو دے ڈالا جائے۔ اس حکم الٰہی سے وہ طریقہ بھی موقوف ہوگیا جو ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے سے شروع ہوا تھا، جس کی رو سے محض دینی برادری کے تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ وراثت تو رشتہ داری کی بنا پر ہی تقسیم ہوگی، البتہ ایک شخص ہدیے، تحفے یا وصیت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی کی کوئی مدد کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

جونا گڑھی

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بنسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم (الٰہی) میں لکھا ہے ۔

 نبی اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپکو مومنوں کے اپنے نفس سے بھی زیادہ حق دار، آپ کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان کے جن مالوں کا مطالبہ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ پر نچھاور کردیں چاہے انھیں خود کتنی ہی ضرورت ہو۔ آپ سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں (جیسے حضرت عمر کا واقعہ ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی (فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ ) (النساء۔ ٦٥) کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی وہ صحیح مومن نہ ہوگا۔ 

 یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں 

 یعنی اب مہاجرت، اخوت کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔ 

٦۔ ٤ ہاں غیر رشتہ داروں کے لئے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں وصیت بھی کرسکتے ہو۔ 

٦۔ ٥ یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتًا دوسروں کو بھی وارث قرار دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کردیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کردیا ہے۔ اسی طرح جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی تو لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ۔ کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول میں کوتاہی بھی لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ کا مصداق بنا دے گی۔

 یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔

 یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہی ہوگی۔

٦۔ ٤ ہان تم غیر رشتے داروں کے لیے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز انکے لیے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کرسکتے ہو۔ 

 یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے گو عارضی طور پر مصلحتا دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کردیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کردیا گیا ہے۔ 

وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مِيثَـٰقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَٰهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَـٰقًا غَلِيظًا

امین احسن اصلاحی

اور یاد کرو، جب ہم نے نبیوں سے ان کے عہد لیے اور تم سے بھی اور نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ہم نے ان سے نہایت محکم عہد لیا

حضرات انبیاء کا مشترکہ مشن: آیات ۱-۲ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، ہر خوف و اندیشہ سے بے پروا ہو کر، صرف وحی الٰہی کی پیروی اور اسی کی دعوت کی جو ہدایت فرمائی گئی ہے، پیرے کے آخر میں اسی بات کو حضرات انبیاء علیہم السلام کی تاریخ سے مزید موثق کر دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو ہدایت ہم تمہیں کر رہے ہیں اسی کی ہدایت ہم نے اپنے تمام نبیوں کو کی اور ان سے یہ عہد لیا کہ اللہ کی طرف سے ان کو جو وحی کی جا رہی ہے خود بھی اس کی پیروی کریں اور بے کم و کاست اس کو لوگوں کو بھی پہنچائیں۔ فرمایا کہ یہ میثاق ہم نے تم سے بھی لیا، نوحؑ سے بھی لیا، ابراہیمؑ سے بھی لیا، موسیٰؑ سے بھی لیا اور عیسیٰ ابن مریمؑ سے بھی لیا۔ عام کے بعد یہ خاص خاص جلیل القدر انبیاء کا حوالہ دے کر انبیاء کی پوری تاریخ سامنے رکھ دی گئی ہے تاکہ یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے کہ اس ذمہ داری کا بارگراں ہر نبی اور اس کے ساتھیوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ اس خاص فہرست میں سب سے پہلے آنحضرت صلعم کا ذکر اس وجہ سے ہے کہ اصل مقصود آپؐ ہی کو یاددہانی ہے۔
اس میثاق کا حوالہ قرآن مجید میں جگہ جگہ مذکور ہے۔ خاص طور پر سورۂ مائدہ میں اس کی پوری تاریخ بیان ہو گئی ہے۔ یہاں ہر میثاق کا حوالہ دینے میں طوالت ہو گی۔ ہم بطور مثال صرف ایک میثاق کا حوالہ دیتے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لیا گیا۔ حضرت موسیٰؑ کو خطاب کر کے ارشاد ہوا ہے:

’ٍ فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَأْمُرْ قَوْمَکَ یَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِہَا‘ (الاعراف: ۱۴۵)
(تم خود بھی اس کو مضبوطی سے پکڑو اور اپنی قوم کو بھی حکم دو کہ اس بہترین چیز کو پوری مضبوطی سے اختیار کرے)۔

’وَأَخَذْنَا مِنْہُم مِّیْثَاقاً غَلِیْظاً‘۔ یعنی اس میثاق کے معاملہ میں ہم نے ذرہ برابر بھی نرمی اور مداہنت نہیں برتی۔ بلکہ ہر ایک سے مضبوط عہد لیا۔ اور اس کو پوری مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم و استوار رہنے کی تاکید در تاکید فرمائی۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ اول تو اس عہد کو میثاق سے تعبیر فرمایا ہے جو خود مضبوط و مستحکم عہد کے لیے آتا ہے پھر اس کے ساتھ ’غلیظ‘ کی قید بھی لگائی ہے جس سے اس کے اندر مزید استحکام پیدا ہو گیا ہے۔

 

جاوید احمد غامدی

(تم اِس کی پیروی کرو، اے پیغمبر) ،اور یاد رکھو، جب ہم نے سب نبیوں سے اُن کا عہد لیا اور تم سے بھی اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی، اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا (کہ ہمارا پیغام بے کم و کاست پہنچا دو)

اِس عہد کا حوالہ قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے، خاص طور پر سورۂ مائدہ میں، جہاں اِس کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔

اِس لیے کہ آگے جس سوال کا ذکر ہے، وہ اتمام حجت کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے اور اتمام حجت کے لیے ضروری ہے کہ خدا کی ہدایت لوگوں تک بے کم و کاست پہنچ جائے۔

ابو الاعلی مودودی

اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاد رکھو اس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ سے بھی اللہ تعالیٰ ایک پختہ عہد لے چکا ہے جس کی آپ کو سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔ اس عہد سے کونسا عہد مراد ہے ؟ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آر ہا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد یہ عہد ہے کہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خود اطاعت کرے گا اور دوسروں سے کرائے گا، اللہ کی باتوں کو بےکم وکاست پہنچائے گا اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی سعی و جہد میں کوئی دریغ نہ کرے گا۔ قرآن مجید میں اس عہد کا ذکر متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً :

شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحاً وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۔ ط (الشُورٰی۔ آیت ١٣)

اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوح (علیہ السلام) کو، اور جس کی وحی کی گئی (اے محمد) تمہاری طرف، اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو۔ اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ للنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ ۔ ق (آل عمران۔ ١٨٧)

اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ نے عہد لیا تھا ان لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لوگ اس کی تعلیم کو بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں۔

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ ۔ (البقرہ۔ ٨٣)

اور یاد کرو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو گے۔

اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ ۔۔۔۔۔ خُذُوْا مَٓا اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔۔ (الاعراف۔ آیات ١٦٩۔ ١٧١)

کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا ؟۔۔۔ مضبوطی کے ساتھ تھامو اس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد رکھو اس ہدایت کو جو اس میں ہے۔ توقع ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو گے۔

وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہ۔ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔۔۔ (المائدہ۔ ٧)

اور اے مسلمانو ! یاد رکھو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اس عہد کو جو اس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا ” ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ “

اس عہد کو اس سیاق وسباق میں اللہ تعالیٰ جس وجہ سے یاد دلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شماتت اعداء کے اندیشے سے منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم کو توڑتے ہوئے جھجک رہے تھے۔ آپ کو بار بار یہ شرم لاحق ہو رہی تھی کہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے۔ میں خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں، مگر دشمن یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کی خاطر کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرما رہا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو، تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی حکم ہم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے، لہٰذا تم کسی کے طعن و تشنیع کی پروا نہ کرو، کسی سے شرم اور خوف نہ کرو، اور خدمت ہم تم سے لینا چاہتے ہیں اسے بلا تأمّل انجام دو۔

ایک گروہ اس میثاق سے وہ میثاق مراد لیتا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے اس بات کے لیے لیا گیا تھا کہ وہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے۔ اس تاویل کی بنیاد پر اس گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ آپ کے بعد جو نبی آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت اس پر ایمان لائے گی۔ لیکن آیت کا سیاق وسباق صاف بتا رہا ہے کہ یہ تاویل بالکل غلط ہے۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت آئی ہے اس میں یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور آپ کی امت کو ان پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ مفہوم اس کا لیا جائے تو یہ آیت یہاں بالکل بےمحل ہوجاتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں کوئی صراحت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہاں میثاق سے کونسا میثاق مراد ہے۔ لامحالہ اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے ہم کو قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں انبیاء سے لیے ہوئے مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب اگر سارے قرآن میں صرف ایک ہی میثاق کا ذکر ہوتا اور وہ بعد کے آنے والے انبیاء پر ایمان لانے کے بارے میں ہوتا تو یہ خیال کرنا درست ہوتا کہ یہاں بھی میثاق سے مراد ہی میثاق ہے۔ لیکن قرآن پاک کو جس شخص نے بھی آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے میثاقوں کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں سے لیے گئے ہیں۔ لہٰذا ان مختلف مواثیق میں سے وہ میثاق یہاں مراد لینا صحیح ہوگا جو اس سیاق وسباق سے مناسبت رکھتا ہو، نہ کہ وہ میثاق جس کے ذکر کا یہاں کوئی موقع نہ ہو۔ اسی طرح کی غلط تاویلوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ بعض لوگ قرآن سے ہدایت لینے نہیں بیٹھتے بلکہ اسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں۔

جونا گڑھی

جب کہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے، اور ہم نے ان سے (پکا اور) پختہ عہد لیا ۔

  اس عہد سے مراد ہے ؟ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے جو ایک دوسرے کی مدد اور تصدیق کا انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا تھا (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاق النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :81) میں ہے، بطور خاص پانچ انبیاء علیہم السلام کا نام لیا گیا جن سے ان کی اہمیت و عظمت واضح ہے اور ان میں بھی نبی کا ذکر سب سے پہلے ہے درآں حالیکہ نبوت کے لحاظ سے آپ سب سے متأخر ہیں، اس سے آپ کی عظمت اور شرف کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے، محتاج وضاحت نہیں۔ 

لِّيَسْـَٔلَ ٱلصَّـٰدِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ۚ وَأَعَدَّ لِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا

امین احسن اصلاحی

تاکہ اللہ راست بازوں سے ان کی راست بازی کی بابت سوال کرے (اور کافروں اور منافقوں سے ان کے کفر و نفاق کی نسبت)، اور کافروں کے لیے اللہ نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے

میثاق لینے کی حکمت: یہ میثاق لینے کی حکمت و مصلحت بیان فرمائی کہ انبیاء علیہم السلام کی اس تبلیغ کے بعد ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ اتمام حجت ہوا۔ جس کے بعد وہ مستحق ہوئے کہ اللہ تعالیٰ راست بازوں سے ان کی راست بازی سے متعلق اور کافروں اور منافقوں سے ان کے کفر و نفاق کے متعلق پوچھ گچھ کرے اور پھر ہر ایک کو ان کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے، اس اتمام حجت کے بغیر اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی گمراہی پر سزا دیتا تو یہ چیز اس کے عدل و رحمت کے خلاف ہوتی اور لوگ قیامت کے دن عذر کر سکتے۔ آگے آیت ۲۴ اور ۳۷-۴۰ کے تحت اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ سورۂ نساء کی آیت ’لِئَلاَّ یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ‘ (۱۶۵) میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اور وہاں ہم اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

تاکہ اللہ راست بازوں سے اُن کی راست بازی کے بارے میں سوال کرے (اور منکروں اور منافقوں سے اُن کے کفر و نفاق کے بارے میں) ، اور منکروں کے لیے تو اُس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے

یہ فقرہ تقابل کے اسلوب پر اصل میں محذوف ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے ، اور کافروں کے لیے تو اس نے دردناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے

یعنی اللہ تعالیٰ محض عہد لے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس عہد کے بارے میں وہ سوال کرنے والا ہے کہ اس کی کہاں تک پابندی کی گئی۔ پھر جن لوگوں نے سچائی کے ساتھ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو وفا کیا ہوگا وہی صادق العہد قرار پائیں گے۔

اس رکوع کے مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اسی سورة کی آیات ٣٦۔ ٤١ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔

جونا گڑھی

تاکہ اللہ تعالیٰ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت فرمائے، اور کافروں کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھے ہیں۔

 یہ لام کئ ہے یعنی یہ عہد اس لئے لیا تھا تاکہ اللہ سچے نبیوں سے پوچھے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوموں تک پہنچایا تھا یا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انبیاء سے پوچھے کہ تمہاری قوموں نے تمہاری دعوت کا جواب کس طرح دیا ؟ مثبت انداز میں یا منفی طریقے سے، اس میں داعیان حق کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ وہ دعوت حق کا فریضہ پوری تن دہی اور اخلاص سے ادا کریں تاکہ بارگاہ الٰہی میں سرخرو ہو سکیں، اور ان لوگوں کے لئے بھی وعید ہے جن کو حق کی دعوت پہنچائی جائے کہ اگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے تو عند اللہ مجرم اور مستوجب سزا ہوں گے۔ 

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱذْكُرُوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ ٱللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا

امین احسن اصلاحی

اے ایمان والو! تم اپنے اوپر اللہ کے فضل کو یاد رکھو کہ جب تم پر فوجیں چڑھ آئیں تو ہم نے ان پر ایک باد تند بھیجی اور ایسی فوجیں بھی بھیجیں جو تم کو نظر نہیں آئیں۔ اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو برابر دیکھتے رہنے والا ہے

تائید الٰہی کے کرشموں کی یاددہانی: آیت ۳ میں اللہ ہی پر بھروسہ کرنے کی جو ہدایت فرمائی گئی ہے اسی مضمون کو موکد کرنے کے لیے یہ تائید الٰہی کے ان کرشموں کی یاددہانی کرائی جا رہی ہے جو ماضی قریب میں مسلمانوں کی نصرت کے لیے ظاہر ہوئے تھے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر تمام عرب مسلمانوں پر امڈ آیا تھا لیکن مسلمانوں کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ دشمنوں کی دَل بادل فوجیں اللہ تعالیٰ ہی نے اپنی پھونک سے اڑا دیں اور یہ حقیقت سب کے سامنے آ گئی کہ اللہ تعالیٰ اعتماد کے لیے تنہا کافی ہے۔ اگر اس کی مدد حاصل ہو تو ساری دنیا کی مخالفت بھی کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی۔

’فَأَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ رِیْحًا‘۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محاصرہ کے آخری دنوں میں ایسی طوفانی آندھی آئی کہ خیموں کی چوبیں اور طنابیں اکھڑ گئیں، دیگیں الٹ گئیں، سواری کے جانور تتر بتر ہو گئے، سردی کی شدت کے باوجود آگ جلانا ناممکن ہو گیا، تاریکی کا یہ عالم کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ اس صورت حال نے دشمنوں پر مرعوبیت طاری کر دی اور ابوسفیان نے سلامتی اسی میں دیکھی کہ کسی طرح اس آفت سے جان بچا کر گھر کو واپس ہو جائے۔
’وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْہَا‘۔ یعنی باد تند کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسی فوجیں بھی بھیجیں جو مسلمانوں کو نظر نہیں آئیں۔ یہ اشارہ ملائکہ کی افواج کی طرف ہے جو ہمیشہ اہل ایمان کے ہم رکاب رہتی ہیں۔ اگرچہ وہ خود نظر نہیں آتیں لیکن ان کے شان دار غیبی کارنامے ظہور میں آتے ہیں جن سے اہل ایمان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان کے دشمن مرعوب ہوتے ہیں۔ سورۂ انفال میں بسلسلہ غزوۂ بدر، اس مسئلہ پر ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ’لَمْ تَرَوْہَا‘ سے یہ بات تو معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو یہ فوجیں نظر نہیں آئیں لیکن اس سے یہ بات نہیں نکلتی کہ کفار نے بھی ان کو نہیں دیکھا۔ قرین قیاس یہی ہے کہ ان کو یہ فوجیں دکھائی دی ہوں جس سے ان کو یہ اندازہ ہوا ہو کہ مسلمانوں کی جمعیت بہت بڑی ہے اور یہ چیز ان کی مرعوبیت کا باعث ہوئی ہو۔
’وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ بَصِیْرًا‘۔ یہ وہی مضمون ہے جو اوپر آیت ۲ میں بدیں الفاظ گزر چکا ہے: ’إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیْرًا‘۔ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ بندے کو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کو یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ’خبیر‘ و ’بصیر‘ ہے۔ اس کے بندے اس کی راہ میں جو بازیاں کھیلتے اور جو مشقتیں جھیلتے ہیں وہ ان کو دیکھتا اور ان سے اچھی طرح باخبر رہتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

ایمان والو، (تم اِن کی پروا نہ کرو، تمھارے لیے اللہ کافی ہے ، اور) اپنے اوپر خدا کی عنایت کو یاد رکھو، جب تم پرفوجوں کی فوجیں چڑھ آئیں تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں جو تم کو نظر نہیں آئیں اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس کو برابر دیکھنے والا ہے

آگے کی آیات سے واضح ہے کہ یہ غزوۂ احزاب کے واقعات کا حوالہ ہے۔ یہ غزوہ شوال۵؍ ہجری میں واقع ہوا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... یہود بنی نضیر کے کچھ لیڈروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا تھا۔ اُنھوں نے مکہ جا کر قریش کے لیڈروں سے فریاد کی اور اُن کو آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پر حملہ کریں۔ قریش حملے کے لیے پہلے سے پر تول رہے تھے۔ جب اُن کو یہود کی شہ بھی حاصل ہو گئی تو گویا مانگی مراد مل گئی۔ اِس کے بعد غطفان اور ہوازن کے لیڈروں کو بھی اُنھوں نے ہموار کر لیا۔ اِس طرح تقریباً دس ہزار کا ایک لشکر جرار مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ قریش کا لشکر ابو سفیان کی سرکردگی میں تھا اور غطفان و ہوازن عیینہ بن حصن اور عامر بن طفیل کی قیادت میں نکلے۔ مزید برآں حیی بن اخطب نضری نے یہود بنی قریظہ کو بھی اِس متحدہ محاذ میں شامل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ اگرچہ اُنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدۂ امن و صلح کر رکھا تھا، لیکن اِس موقع کو اُنھوں نے غنیمت جانا اور معاہدے کی پروا نہ کی۔ اِن کی تعداد کم و بیش آٹھ سو تھی۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمنوں کی اِن تیاریوں کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے مسلمانوں کو مدینہ کی اُن سمتوں میں خندق کھودنے کا حکم دیا جن سے حملہ کا خطرہ تھا۔ چنانچہ شہر کی شمالی اور مغربی سمت میں ساڑھے تین میل لمبی ایک خندق کھودی گئی اور یہ کام نہایت سرگرمی کے ساتھ اُن تین ہزار مجاہدوں نے انجام دیا جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور خود سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہ نفس نفیس اِس کام میں حصہ لیا۔
دشمنوں نے مدینے کا محاصرہ کر لیا اور یہ محاصرہ تقریباً ایک ماہ رہا، لیکن اِس دوران میں سنگ باری اور تیراندازی کے اکا دکا واقعات کے سوا دو بدو جنگ کی کوئی نوبت نہیں آئی۔ دشمن نے یہ اندازہ کر لیا کہ مسلمانوں نے مدافعت کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ پھر محاذ میں پھوٹ بھی پڑ گئی اور مزید برآں ایک طوفانی ہوا نے اُن کے خیمے و شامیانے، سب اکھاڑ کے پھینک دیے جس کے بعد اُن کے حوصلے پست ہو گئے اور ابوسفیان نے واپسی کا اعلان کر دیا*۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۱۹۳)

یہ آندھی اُس وقت آئی تھی، جب محاصرے کو تقریباً ایک مہینا گزر چکا تھا۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسی طوفانی آندھی تھی کہ استاذ امام کے الفاظ میں، اِس سے خیموں کی چوبیں اور طنابیں اکھڑ گئیں، دیگیں الٹ گئیں، سواری کے جانور تتر بتر ہو گئے، سردی کی شدت کے باوجود آگ جلانا ناممکن ہو گیا، تاریکی کا یہ عالم تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔
یہ فرشتوں کی فوجوں کی طرف اشارہ ہے جو ہمیشہ پیغمبر اور اُس کے ساتھیوں کے ہم رکاب رہتی ہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ مسلمانوں نے تو، جیسا کہ بیان ہوا، اِن کو نہیں دیکھا، لیکن قریش کو یہ فوجیں نظر آئیں جس سے اُنھوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کی جمعیت بہت بڑی ہے۔ چنانچہ آندھی کے ساتھ یہ چیز بھی اُن کی مرعوبیت کا باعث ہوئی۔
_____
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۱۹۵۔

ابو الاعلی مودودی

اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اس نے تم پر کیا ہے۔ جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے۔

یہاں سے رکوع ٣ تک کی آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوۂ بنی قریظہ سے فارغ ہوچکے تھے۔ ان دونوں رکوعوں میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھتے وقت ان دونوں غزوات کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہییں جو ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں۔

یہ آندھی اسی وقت آگئی تھی جبکہ دشمنوں کے لشکر مدینے پر چڑھ کر آئے تھے بلکہ اس وقت آئی تھی جب محاصرے کو تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ نظر نہ آنے والی ” فوجوں ” سے مراد وہ مخفی طاقتیں ہیں جو انسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اشارے پر کام کرتی رہتی ہیں اور انسانوں کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی۔ انسان واقعات و حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس طور پر جو قوتیں کام کرتی ہیں وہ اس کے حساب میں نہیں آتیں، حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں کی کار فرمائی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ طاقتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں اس لیے ” فوجوں ” سے مراد فرشتے بھی لیے جاسکتے ہیں، اگرچہ یہاں فرشتوں کی فوجیں بھیجنے کی صراحت نہیں ہے۔

جونا گڑھی

اے ایمان والوں ! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز تند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے۔

  ان آیات میں غزوہ احزاب کی کچھ تفصیل ہے جو ٥ ہجری میں پیش آیا۔ اسے احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقعہ پر تمام اسلام دشمن گروہ جمع ہو کر مسلمانوں کے مرکز ' مدینہ ' پر حملہ آور ہوئے تھے۔ احزاب حزب (گروہ) کی جمع ہے۔ اسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لئے مدینے کے اطراف میں خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینہ کے اندر نہ آسکیں۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر، جس کو رسول اللہ نے مسلسل بد عہدی کی وجہ سے مدینے سے جلا وطن کردیا تھا، یہ قبیلہ خیبر میں جا آباد ہوا اس نے کفار مکہ کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار کیا، اسی طرح غطفان وغیرہ قبائل نجد کو بھی امداد کا یقین دلا کر آمادہ قتال کیا یوں یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اکٹھا کر کے مدینے پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مشرکین مکہ کی قیادت ابو سفیان کے پاس تھی، انہوں نے احد کے آس پاس پڑاؤ ڈال کر تقریباً مدینے کا محاصرہ کرلیا ان کی مجموعی تعداد ١٠ ہزار تھی، جب کہ مسلمان تین ہزار تھے۔ علاوہ ازیں جنوبی رخ پر یہودیوں کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا۔ جس سے ابھی تک مسلمانوں کا معاہدہ قائم اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ لیکن اسے بھی بنو نضیر کے یہودی سردار حیی بن اخطب نے ورغلا کر مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے حوالے سے، اپنے ساتھ ملا لیا یوں مسلمان چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں گھر گئے۔ اس موقع پر حضرت سلیمان فارسی کے مشورے سے خندق کھودی گئی، جس کی وجہ سے دشمن کا لشکر مدینے سے اندر نہیں آسکا اور مدینے کے باہر قیام پذیر رہا۔ تاہم مسلمان اس محاصرہ اور دشمن کی متحدہ یلغار سے سخت خوفزدہ تھے، کم و بیش ایک مہینے تک محاصرہ قائم رہا اور مسلمان سخت خوف اور اضطراب کے عالم میں مبتلا تھے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے پردہ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی ان آیات میں ان ہی سراسیمہ حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے پہلے جُنُودًا سے مراد کفار کی فوجیں ہیں، جو جمع ہو کر آئی تھیں۔ تیز و تند ہوا سے مراد ہوا ہے جو سخت طوفان اور آندھی کی شکل میں آئی، جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا جانور رسیاں تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سب بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ وہی ہوا ہے۔ جس کی بابت حدیث میں آتا ہے، (بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا) 9 ۔ التوبہ :40) سے مراد فرشتے ہیں۔ جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے، انہوں نے دشمن کے دلوں پر ایسا خوف اور دہشت طاری کردی کہ انہوں نے وہاں سے جلد بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ 

إِذْ جَآءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ ٱلْأَبْصَـٰرُ وَبَلَغَتِ ٱلْقُلُوبُ ٱلْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِٱللَّـهِ ٱلظُّنُونَا۠

امین احسن اصلاحی

یاد کرو جب کہ وہ تم پر آ چڑھے، تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمہارے نیچے کے طرف سے بھی، اور جب کہ نگاہیں کج ہو گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اللہ کے باب میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے

مغربی اور مشرقی دونوں سمتوں سے حملہ: ’إِذْ جَاؤُوۡکُم مِّن فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنکُمْ‘ مدینہ کی مشرقی سمت بلند، مغربی سمت نشیبی ہے۔ چونکہ دشمن کا حملہ دونوں طرف سے تھا اس وجہ سے فوق اور اسفل دونوں کا حوالہ دیا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قبیلہ غطفان وغیرہ کا حملہ مشرق کی طرف سے ہوا تھا اور قریش اور ان کے حلیفوں کی فوجیں مغرب کی سمت سے آئی تھیں۔

صورت حال کا اثر ضعفائے قلوب پر: ’وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوۡبُ الْحَنَاجِرَ‘۔ کوئی منظر ہولناک و دہشت ناک ہو تو نگاہ اس پر نہیں ٹکتی۔ عربی میں اس کو ’زَاغَ الْبَصر‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی طرح خوف و دہشت اور پریشانی کی تعبیر کے لیے ’بَلَغَتِ الْقُلُوۡبُ الْحَنَاجِرَ‘ کا محاورہ بھی ہے۔ ’کلیجہ منہ کو آنا‘ ہماری اپنی زبان میں بھی خوف و دہشت اور گھبراہٹ کی تعبیر کے لیے معروف ہے۔
’وَتَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا‘۔ یہ بات اگرچہ عام صیغہ سے فرمائی گئی ہے لیکن اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضعف ایمان اور نفاق کی بیماری میں مبتلا تھے۔ یہ منظر دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ خدا کی قدرت و نصرت، اس کے وعدوں اور اس کی شانوں کے متعلق اب تک ان کو جو کچھ بتایا اور سکھایا گیا تھا وہ سب ان کے نزدیک مشکوک ہو گیا۔ کلام کے تدریجی ارتقاء سے یہ بات خود واضح ہو جائے گی کہ یہ اشارہ ضعفائے قلوب اور منافقین ہی کی طرف ہے۔ آگے سچے اہل ایمان کی عزیمت و استقامت کی تعریف قرآن نے ان الفاظ میں فرمائی ہے:

’وَلَمَّا رَأَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا ہَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَصَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَمَا زَادَہُمْ إِلَّا إِیْمَاناً وَتَسْلِیْماً‘
(اور جب مومنوں نے دشمن کی پارٹیوں کو دیکھا تو وہ پکار اٹھے کہ یہ تو وہی صورت حال ہمیں پیش آئی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کر رکھا تھا اور اس کے رسول کی بات سچی ہوئی، اور اس چیز نے ان کے ایمان اور ان کی اطاعت ہی میں اضافہ کیا)

جب سچے مسلمانوں کا یہ حال بیان ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت ایسے ہی سرفروشوں پر مشتمل تھی تو آیت زیربحث کا اشارہ انہی لوگوں کی طرف ہو سکتا ہے جو ضعیف الایمان تھے۔ اس بنا پر ہم ان تفسیری روایات کو بالکل بے سروپا سمجھتے ہیں جن میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ العیاذ باللہ غزوۂ احزاب کے موقع پر ایک آدھ آدمیوں کے سوا اور کوئی شخص مسلمانوں میں عزم و ہمت رکھنے والا نہیں نکلا۔

جاوید احمد غامدی

یاد کرو، جب وہ تمھارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمھارے نیچے کی طرف سے بھی تم پر چڑھ آئے تھے، جب (خوف کے مارے)آنکھیں بہک گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آگئے تھے اور اللہ کے بارے میں تم لوگ طرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے

مدینہ کی مشرقی سمت بلند اور مغربی سمت نشیبی ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قبیلہ غطفان وغیرہ کا حملہ مشرق کی طرف سے اور قریش اوراُن کے حلیفوں کا مغرب کی طرف سے ہوا تھا*۔ یہ اُسی کی طرف اشارہ ہے۔

یہ اُس صورت حال کی تعبیر ہے، جب منظر ایسا دہشت ناک ہو کہ نگاہ اُس پر ٹکنے نہ پائے اور بے قابو ہو کر بار بار بہک جائے۔
آگے کی آیتوں سے واضح ہو جائے گا کہ یہ اشارہ اُن لوگوں کی طرف ہے جو ضعف ایمان اور منافقت کی بیماری میں مبتلا تھے۔ اُن کے اوسان یہ منظر دیکھ کر خطا ہو گئے اور خدا کی نصرت اور اُس کے وعدوں کے بارے میں جو کچھ اُنھیں بتایا گیا تھا، وہ سب اُن کے لیے مشکوک ہو کر رہ گیا۔
_____
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۰۰۔

ابو الاعلی مودودی

جب وہ اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔

​n/a

جونا گڑھی

جب کہ (دشمن) تمہارے پاس اوپر اور نیچے سے چڑھ آئے اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے اور اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح گمان کرنے لگے

  اس سے مراد یہ ہے کہ ہر طرف سے دشمن آگئے یا اوپر سے مراد غطفان، ہوازن اور دیگر نجد کے مشرکین ہیں اور نیچے کی سمت سے قریش اور ان کے اعوان و انصار۔

 یہ مسلمانوں کی اس کیفیت کا اظہار ہے جس سے اس وقت دو چار تھے۔ 

Page 1 of 8 pages  1 2 3 >  Last ›