سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى

امین احسن اصلاحی

اپنے خداوند برتر کے نام کی تسبیح کر

اللہ تعالیٰ کی یاد کی اہمیت: ہم جگہ جگہ واضح کر چکے ہیں کہ لفظ ’تَسْبِیْحٌ‘ میں تنزیہہ کا پہلو غالب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو ان تمام باتوں سے پاک اور برتر قرار دینا جو اس کی اعلیٰ شان کے منافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا صحیح تصور ہی تمام علم و معرفت اور تمام قوت و اعتماد کا سرچشمہ ہے۔ اگر اس میں کوئی خلل پیدا ہو جائے تو انسان صحیح معرفت کی شاہراہ سے ہٹ جاتا اور شیطان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ اس کا دل ایمان و توکل کی نعمت، طمانیت و شرح صدر کے نور اور عزیمت و استقامت کی قوت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت اور اس کی یاد ہی ہے جو دل کو پابرجا اور مستقیم و مطمئن رکھتی ہے۔ ’اَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ‘ (الرعد ۱۳: ۲۸)

’تسبیح‘ کی سب سے اعلیٰ اور معیاری شکل تو، جیسا کہ ہم جگہ جگہ بیان کرچکے ہیں، نماز، بالخصوص شب کی نماز ہے لیکن جس طرح سانس انسان کی مادی زندگی کے لیے ہر وقت ضروری ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی یاد اس کی روحانی زندگی کے لیے ہر وقت ضروری ہے۔ اس وجہ سے صرف نمازوں کے اوقات ہی میں نہیں بلکہ زندگی کی دوسری سرگرمیوں کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے دل کو آباد رکھنا چاہیے تاکہ شیطان کو اس پر غلبہ پانے کا موقع نہ ملے۔ سورۂ مزمل کی آیت ۷ ’إِنَّ لَکَ فِی اَلنَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلاً‘ کے تحت اس حقیقت کی ہم وضاحت کر چکے ہیں۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت صبر و استقامت کے حصول کے لیے فرمائی گئی ہے اس وجہ سے یہ اپنے جامع مفہوم ہی میں ہے۔

جاوید احمد غامدی

اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرو، (اے پیغمبر) جو سب سے برتر ہے

لفظ ’تَسْبِیْح‘ میں تنزیہہ کا پہلو غالب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اُن سب باتوں سے منزہ قرار دوجو اُس کے شایان شان نہیں ہیں اور اُس کی تنزیہہ کے اِس شعور کے ساتھ اُس کی یاد سے اپنے دل کو آباد اور اپنی زبان کو تررکھو، اِس لیے کہ راہ حق میں صبر و استقامت کا حصول اگر ہو سکتا ہے تو اِسی یاد سے ہو سکتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

﴿اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ﴾ اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو

1 ۔ لفظی ترجمہ ہوگا ” اپنے رب برتر کے نام کو پاک کرو “۔ اس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں۔

(1) اللہ تعالیٰ کو ان ناموں سے یاد کیا جائے جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذات برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں ہیں، یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہے، یا جن میں اس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اس غرض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں، یا جو دوسری زبان میں ان کا صحیح ترجمہ ہوں۔

(2) اللہ کے لیے مخلوقات کے نام، یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے نام استعمال نہ کیے جائیں۔ اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے، مثلاً رؤف، رحیم، کریم، سمیع، بصیر وغیرہ، تو ان میں یہ احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اس طریقے پر نہ ہو جس طرح اللہ کے لیے ہوتا ہے۔

(3) اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے، کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو، مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا کوئی گناہ کرتے ہوئے اس کا نام لینا، یا ایسے لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا جو اسے سن کر گستاخی پر اتر آئیں، یا ایسی مجلسوں میں اس کا نام لینا جہاں لوگ بیہودگیوں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق میں اڑا دیں، یا ایسے موقع پر اس کا نام پاک زبان پر لانا جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا۔ امام مالک کے حالات میں منقول ہے کہ جب کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا اور وہ اس وقت اسے کچھ نہ دے سکتے تو عام لوگوں کی طرح اللہ دے گا نہ کہتے بلکہ کسی اور طرح معذرت کردیتے تھے۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سائل کو جب کچھ نہ دیا جائے اور اس سے معذرت کردی جائے تو لامحالہ اسے ناگوار ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میں اللہ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اسے ناگواری کے ساتھ سنے۔

احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدے میں سجان ربی الاعلی پڑھنے کا حکم اسی آیت کی بنا پر دیا تھا، اور رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھنے کا جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا تھا وہ سورة واقعہ کی آخری آیت فسبخ باسم ربک العظیم۔ پر مبنی تھا (مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم، ابن المنذر) ۔

جونا گڑھی

اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر

 یعنی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی اس کے لائق نہیں ہے حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے جواب میں پڑھا کرتے تھے، سُبْحَانَ رَبَّیَ ا لاَّعْلَیٰ (مسند احمد ٢٣٢۔ ١) 

الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ

امین احسن اصلاحی

جس نے خاکہ بنایا پھر نوک پلک سنوارے

اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں ایک تدریج ہوتی ہے جو اس کی حکمت پر مبنی ہوتی ہے: اب اس آیت اور آگے کی چند آیات میں خدائے برتر کی چند صفات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس کے ہر کام میں ایک ترتیب و تدریج ہوتی ہے جو یکسر اس کی حکمت پر مبنی ہوتی ہے اس وجہ سے بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رب کے احکام کی تعمیل میں صبر و استقامت کے ساتھ لگا رہے اور یہ امید رکھے کہ جس راہ پر چلنے کا اس نے حکم دیا ہے اس کی آخری منزل، اپنی تمام برکتوں کے ساتھ، بالآخر آ کے رہے گی۔ اس میں جو دیر ہو گی وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت پر مبنی ہو گی اور جو مشکلیں پیش آئیں گی ان کے اندر بھی دنیا اور آخرت دونوں کی مصلحتیں مضمر ہوں گی۔

خلق: ’خَلَقَ‘ کے معروف معنی تو پیدا کرنے کے ہیں لیکن کسی چیز کا خاکہ یا پتلا بنانے کے معنی میں بھی یہ آیا ہے، مثلاً

’أَنِّیْ أَخْلُقُ لَکُمۡ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْئَۃِ الطَّیْْرِ فَأَنفُخُ فِیْہِ فَیَکُوۡنُ طَیْرًا بِإِذْنِ اللّٰہِ‘ (آل عمران ۳: ۴۹)
(میں تمہارے لیے پرندے کی شکل پر ایک پتلا مٹی سے بناؤں گا پھر اس میں پھونک مار دوں گا تو اللہ کے حکم سے وہ سچ مچ پرندہ بن جائے گا)

یہاں یہ اسی معنی میں ہے۔
تسویہ: ’تَسْوِیَۃٌ‘ کے معنی کسی شے کو ٹھیک ٹھاک کرنا، اس کو ہموار کرنا، اس کے نوک پلک سنوارنا۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ یہ اسی آخری مفہوم میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اگر اپنی خِلقت ہی پر غور کرے تو اس کو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو یک بیک نہیں بنا کھڑا کیا ہے بلکہ اس قطرے کو گہر بنانے تک بہت سے مرحلوں سے گزارنا پڑا ہے۔ ایک دور وہ ہوتا ہے جب اس کا ابتدائی خاکہ بنتا ہے پھر آہستہ آہستہ وہ دور آتا ہے جب قدرت اس خاکے میں رنگ بھرتی اور اس کا مُوقلم اس کے نوک پلک سنوارتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

جس نے بنایا، پھر نوک پلک سنوارے

اِس سے آگے آیت ۵ تک اللہ تعالیٰ نے اپنا طریقہ بتایا ہے کہ اُس کے ہر کام میں ایک ترتیب و تدریج ہوتی ہے اور وہ اپنی حکمت کے تقاضے سے ہر چیز کو اِسی ترتیب و تدریج سے اُس کے اتمام تک پہنچاتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ،

یعنی زمین سے آسمانوں تک کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا، اور جو چیز بھی پیدا کی اسے بالکل راست اور درست بنایا، اس کا توازن اور تناسب ٹھیک ٹھیک قائم کیا، اس کو ایسی صورت پر پیدا کیا کہ اس جیسی چیز کے لیے اس سے بہتر صورت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہی بات ہے جو سورة سجدہ میں یوں فرمائی گئی ہے کہ الذی احسن کل شیء خلقہ (آیت 7) ۔ ” جس نے ہر چیز جو بنائی خوب بنائی “۔ اس طرح دنیا کی تمام اشیاء کا موزوں اور متناسب پیدا ہونا خود اس امر کی صریح علامت ہے کہ کوئی صانع حکیم ان سب کا خالق ہے۔ کسی اتفاقی حادثے سے، یا بہت سے خالقوں کے عمل سے کائنات کے ان بیشمار اجزاء کی تخلیق میں یہ سلیقہ، اور مجموعی طور پر ان سب اجزاء کے اجتماع سے کائنات میں یہ حسن و جمال پیدا نہ ہوسکتا تھا۔

جونا گڑھی

جس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا۔

 دیکھیے سورة انفطار کا حاشیہ نمبر ٧

وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ

امین احسن اصلاحی

جس نے مقدر کیا اور ہدایت بخشی

’قَدَّرَ فَہَدٰی‘ کا وسیع مفہوم: یہی حال اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کے نشوونما اور اس کے مادی و عقلی عروج کمال کا بھی ہے۔ قدرت نے اس کی زندگی کو جن چیزوں کا محتاج بنایا ہے ان کے تقاضے بھی اس کے اندر رکھے مثلاً بچے کو دودھ کا محتاج بنایا ہے تو اس کی ماں کی چھاتی میں دودھ بھی پیدا کیا ہے اور پھر بچے کو یہ رہنمائی دی ہے کہ وہ ماں کی چھاتی کو چوسے اور اس سے اپنی غذا حاصل کرے۔

بعد کے ادوار میں جب اس کی ضروریات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو ہر ضرورت کے لیے زمین میں ذخیرے محفوظ ہیں۔ اور خالق نے انسان کو عقل دی ہے کہ وہ ان ذخائر کا سراغ لگائے ان کے حاصل کرنے کی راہیں کھولے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے طریقے ایجاد کرے۔
اسی طرح اس کی روحانی و اخلاقی ترقی کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر خیر و شر کا شعور ودیعت فرما دیا ہے اور پھر اس کی رہنمائی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا کہ وہ بتائیں اور سکھائیں کہ زندگی کا کون سا طریقہ اس کی فطرت کے تقاضوں کے مطابق اور اس کے اختیار کرنے میں اس کی فلاح ہے اور کون سا طریقہ اس کی فطرت سے بے جوڑ اور اس پر چلنے میں اس کی تباہی ہے۔
ولادت سے لے کر موت تک زندگی کے سارے مراحل و مقامات، تمام اطوار و ادوار اور جملہ امتحانات و عقبات بھی اللہ تعالیٰ نے مقدر فرما دیے ہیں جو لازماً پیش آ کے رہتے ہیں۔ پھر ان سے عہدہ برآ ہونے کا طریقہ بھی اس نے بتا دیا ہے۔ اگر انسان وہ طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کا سفینۂ حیات ہر منجدھار سے سلامتی کے ساتھ گزر جاتا ہے اور اگر وہ اس سے ہٹ کر اپنی خواہشوں کے پیچھے لگ جاتا ہے تو یہ چیز اس کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے ۔۔۔ ’اَلَّذِیْ قَدَّرَ فَہَدٰی‘ کے دو لفظوں کے اندر یہ تمام معانی مضمر ہیں اور ان کی تفصیل بہت طویل ہے جس کو سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔ سورۂ طٰہٰ کی آیت ۵۰: ’قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ أَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی‘ کے تحت بھی ہم اسی مضمون کی وضاحت کر چکے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

جس نے (ہر چیز کے لیے) اندازہ ٹھیرایا، پھر (اُس کے مطابق) چلنے کی راہ دکھائی

n/a

ابو الاعلی مودودی

جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی ،

یعنی ہر چیز کے پیدا کرنے سے پہلے یہ طے کردیا کہ اسے دنیا میں کیا کام کرنا ہے اور اس کام کے لیے اس کی مقدار کیا ہو، اس کی شکل کیا ہو، اس کی صفات کیا ہوں، اس کا مقام کس جگہ ہو، اس کے لیے بقاء اور قیام اور فعل کے لیے کیا مواقع اور ذرائع فراہم کیے جائیں، کس وقت وہ وجود میں آئے، کب تک اپنے حصے کا کام کرے اور کب کس طرح ختم ہوجائے۔ اس پوری اسکیم کا مجموعی نام اس کی ” تقدیر ” ہے، اور یہ تقدیر اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کے لیے اور مجموعی طور پر پوری کائنات کے لیے بنائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تخلیق کسی پیشگی منصوبے کے بغیر کچھ یونہی الل ٹپ نہیں ہوگئی ہے بلکہ اس کے لیے ایک پورا منصوبہ خالق کے پیش نظر تھا اور سب کچھ اس منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الحجر، حواشی 13 ۔ 14 ۔ جلد سوم، الفرقان، حاشیہ 8 ۔ جلد پنجم، القمر حاشیہ 25 ۔ جلد ششم، عبس، حاشیہ 12) ۔

یعنی کسی چیز کو بھی محض پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا، بلکہ جو چیز بھی جس کام کے لیے پیدا کی اسے اس کام کے انجام دینے کا طریقہ بتایا۔ بالفاظ دیگر وہ محض خالق ہی نہیں ہے، ھادی بھی ہے۔ اس نے یہ ذمہ لیا ہے کہ جو چیز جس حیثیت میں اس نے پیدا کی ہے اس کو ویسی ہی ہدایت دے جس کے وہ لائق ہے اور اسی طریقہ سے ہدایت دے جو اس کے لیے موزوں ہے۔ ایک قسم کی ہدایت زمین اور چاند سورج اور تاروں اور سیاروں کے لیے ہے جس پر وہ سب چل رہے ہیں اور اپنے حصے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ایک اور قسم کی ہدایت پانی اور ہوا اور روشنی اور جمادات و معدنیات کے لیے ہے جس کے مطابق وہ ٹھیک ٹھیک وہی خدمات بجا لا رہے ہیں جن کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اور قسم کی ہدایت نباتات کے لیے ہے جس کی پیروی میں وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں نکالتے اور پھیلاتے ہیں، اس کی تہوں سے پھوٹ کر نکلتے ہیں، جہاں جہاں اللہ نے ان کے لیے غذا پیدا کی ہے وہاں سے اس کو حاصل کرتے ہیں، تنے شاخیں، پتیاں، پھل پھول لانے ہیں اور وہ کام پورا کرتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کے لیے مقرر کردیا گیا ہے۔ ایک اور قسم کی ہدایت خشکی، تری اور ہوا کے حیوانات کی بیشمار انواع اور ان کے ہر فرد کے لیے ہے جس کی حیرت انگیز مظاہر جانوروں کی زندگی اور ان کے کاموں میں علانیہ نظر آتے ہیں، حتی کہ ایک دہریہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ مختلف قسم کے جانوروں کو کوئی ایسا الہامی علم حاصل ہے جو انسان کو اپنے حواس تو درکنار، اپنے آلات کے ذریعہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔ پھر انسان کے لیے دو الگ الگ نوعیتوں کی ہدایتیں ہیں جو اس کی دو الگ حیثیتوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ایک وہ ہدایت جو اس کی حیوانی زندگی کے لیے ہے، جس کی بدولت ہر بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینا سیکھ لیتا ہے، جس کے مطابق انسان کی آنکھ، ناک، کان، دماغ، پھیپھڑے، گردے، جگر، معدہ، آنتیں، اعصاب، رگیں اور شریانیں، سب اپنا اپنا کام کیے جا رہے ہیں بغیر اس کے کہ انسان کو اس کا شعور ہو یا اس کے ارادے کا ان اعضاء کے کاموں میں کوئی دخل ہو۔ یہی ہدایت ہے جس کے تحت انسان کے ا ندر بچپن، بلوغ، جوانی، کہولت اور بڑھاپے کے وہ سب جسمانی اور ذہنی تغیرات ہوتے چلے جاتے ہیں جو اس کے ارادے اور مرضی، بلکہ شعور کے بھی محتاج نہیں ہیں۔ دوسری ہدایت انسان کی عقلی اور شعوری زندگی کے لیے ہے جس کی نوعیت غیر شعوری زندگی کی ہدایت سے قطعاً مختلف ہے، کیونکہ اس شعبہ حیات میں انسان کی طرف ایک قسم کا اختیار منتقل کیا گیا ہے جس کے لیے ہدایت کا وہ طریقہ موزوں نہیں ہے جو بےاختیارانہ زندگی کے لیے موزوں ہے۔ انسان اس آخری قسم کی ہدایت سے منہ موڑنے کے لیے خواہ کتنی ہی حجت بازیاں کرے، لیکن یہ بات ماننے کے لائق نہیں ہے کہ جس خالق نے اس ساری کائنات میں ہر چیز کے لیے اس کی ساخت اور حیثیت کے مطابق ہدایت کا انتظام کیا ہے اس نے انسان کے لیے یہ تقدیر تو بنا دی ہوگی کہ وہ اس کی دنیا میں اپنے اختیار سے تصرفات کرے مگر اس کو یہ بتانے کا کوئی انتظام نہ کیا ہوگا کہ اس اختیار کے استعمال کی صحیح صورت کیا ہے اور غلط صورت کیا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حواشی 9 ۔ 10 ۔ 14 ۔ 56 ۔ جلد سوم، طٰہٰ ، حاشیہ 23 ۔ جلد پنجم۔ الرحمن، حواشی 2 ۔ 3 ۔ جلد ششم، الدھر، حاشیہ 5) ۔

جونا گڑھی

اور جس نے (ٹھیک ٹھاک) اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی

 یعنی نیکی اور بدی کی، ضروریات زندگی، اشیا کی جنسوں کی، ان کی انواع وصفات اور خصوصیات کا اندازہ فرما کر انسان کی بھی ان کی طرف رہنمائی فرما دی تاکہ انسان ان سے استفادہ حاصل کرے۔ 

وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور جس نے نباتات اگائیں

ایک ادبی اشکال کا حل: اس ٹکڑے میں ایک ادبی اشکال ہے اس کو پہلے سمجھ لیجیے تب اس کا صحیح موقع و محل واضح ہو گا۔

’غُثَآءً اَحْوٰی‘ کا ترجمہ عام طور پر لوگوں نے کالا کوڑا یا سیاہ خس و خاشاک کیا ہے لیکن عربی میں لفظ ’غثاء‘ تو بے شک جھاگ اور خس و خاشاک کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن ’اَحْوٰی‘ ہرگز اس سیاہی کے لیے نہیں آتا جو کسی شے میں اس کی کہنگی، بوسیدگی اور پامالی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ اس سیاہی مائل سرخی یا سبزی کے لیے آتا ہے جو کسی شے پر اس کی تازگی، شادابی، زرخیزی اور جوش نمو کے سبب سے نمایاں ہوتی ہے۔ یہ نباتات اور باغوں کی صفت کے طور پر بکثرت استعمال ہوا ہے اور بلااستثنا ہر جگہ ان کی سرسبزی کی شدت اور گھنے پن کو ظاہر کرنے ہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ پھر یہیں سے بطور استعارہ یہ کڑیل، صحت مند گل تر کی صورت کھلے ہوئے جوان کے لیے بھی استعمال ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کی صحت بہت اچھی اور ان کے بدن میں خون وافر ہو ان کے ہونٹوں پر سیاہی مائل سرخی نمایاں ہو جاتی ہے چنانچہ مشہور جاہلی شاعر، تابط شرا اپنے ممدوح کی تعریف میں کہتا ہے: ع

مسبل فی الحی احوی رفل
وَاِذا یغزوا فلیث ابل

(یوں قبیلہ کے اندر وہ ایک خوش پوش، سرخ و سپید بانکا چھبیلا بنا رہتا ہے لیکن جب میدان جنگ میں اترتا ہے تو شیر نیستاں بن جاتا ہے)

لفظ ’غُثَآءٌ‘ اگرچہ مکھن کے جھاگ اور سیلاب کے خس و خاشاک کے لیے بھی آتا ہے لیکن اس سبزہ کے لیے بھی اس کا استعمال معروف ہے جو زمین کی زرخیزی کے سبب سے اچھی طرح گھنا اور سیاہی مائل ہو گیا ہو۔ استاذ امام فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’مفردات القرآن‘‘ میں اس کی تائید میں شعرائے جاہلیت کے متعدد اشعار نقل کیے ہیں۔ ہم بقید اختصار صرف قطامی کا ایک شعر، جو اس نے ایک وادی کی تعریف میں کہا ہے، پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے:ع

حلوا باخضر قد مالت سرارتہ
من ذی غثاء علی الاعراض انضاد

(وہ ایک سرسبز و شاداب وادی میں اترے جس کے بیچ گھنے اور شاداب سبزے اس کے کناروں پر باہم دگر گتھم گتھا اور ایک دوسرے پر تہ بہ تہ گرے ہوئے تھے)

آیت زیربحث میں چونکہ ’غُثَآءٌ‘ کی صفت ’اَحْوٰی‘ آئی ہے اس وجہ سے لازماً یہ اس دوسرے معنی ہی میں استعمال ہوا ہے ورنہ صفت اور موصوف میں نہایت بھونڈی قسم کی بے ربطی پیدا ہو جائے گی اس لیے کہ ’اَحْوٰی‘ جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اس سیاہی کے لیے ہرگز نہیں آتا جو کسی چیز میں اس کی کہنگی، فرسودگی اور پامالی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے۔ کلام عرب میں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہاں موقع کلام بھی، جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے، اس مفہوم سے اباء کر رہا ہے۔
پس ’اَلَّذِیْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحْوٰی‘ کا صحیح مطلب یہ ہو گا کہ اس خداوند کی تسبیح کرو جو نباتات کو زمین سے نازک سوئیوں کی شکل میں نکالتا ہے پھر ان کو گھنی اور سیاہی مائل سرسبز و شاداب بناتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

جس نے سبزہ نکالا

n/a

ابو الاعلی مودودی

جس نے نباتات اگائیں

اصل میں لفظ مرعیٰ استعمال ہوا ہے جو جانوروں کے چارے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن سیاق عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں صرف چارہ مراد نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی نباتات مراد ہیں جو زمین سے اگتی ہیں۔

جونا گڑھی

اور جس نے تازہ گھاس پیدا کیا۔

 جسے جانور چرتے ہیں۔ 

فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَىٰ

امین احسن اصلاحی

پھر ان کو گھنی سرسبز و شاداب بنایا

ایک ادبی اشکال کا حل: اس ٹکڑے میں ایک ادبی اشکال ہے اس کو پہلے سمجھ لیجیے تب اس کا صحیح موقع و محل واضح ہو گا۔

’غُثَآءً اَحْوٰی‘ کا ترجمہ عام طور پر لوگوں نے کالا کوڑا یا سیاہ خس و خاشاک کیا ہے لیکن عربی میں لفظ ’غثاء‘ تو بے شک جھاگ اور خس و خاشاک کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن ’اَحْوٰی‘ ہرگز اس سیاہی کے لیے نہیں آتا جو کسی شے میں اس کی کہنگی، بوسیدگی اور پامالی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ اس سیاہی مائل سرخی یا سبزی کے لیے آتا ہے جو کسی شے پر اس کی تازگی، شادابی، زرخیزی اور جوش نمو کے سبب سے نمایاں ہوتی ہے۔ یہ نباتات اور باغوں کی صفت کے طور پر بکثرت استعمال ہوا ہے اور بلااستثنا ہر جگہ ان کی سرسبزی کی شدت اور گھنے پن کو ظاہر کرنے ہی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ پھر یہیں سے بطور استعارہ یہ کڑیل، صحت مند گل تر کی صورت کھلے ہوئے جوان کے لیے بھی استعمال ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کی صحت بہت اچھی اور ان کے بدن میں خون وافر ہو ان کے ہونٹوں پر سیاہی مائل سرخی نمایاں ہو جاتی ہے چنانچہ مشہور جاہلی شاعر، تابط شرا اپنے ممدوح کی تعریف میں کہتا ہے: ع

مسبل فی الحی احوی رفل
وَاِذا یغزوا فلیث ابل

(یوں قبیلہ کے اندر وہ ایک خوش پوش، سرخ و سپید بانکا چھبیلا بنا رہتا ہے لیکن جب میدان جنگ میں اترتا ہے تو شیر نیستاں بن جاتا ہے)

لفظ ’غُثَآءٌ‘ اگرچہ مکھن کے جھاگ اور سیلاب کے خس و خاشاک کے لیے بھی آتا ہے لیکن اس سبزہ کے لیے بھی اس کا استعمال معروف ہے جو زمین کی زرخیزی کے سبب سے اچھی طرح گھنا اور سیاہی مائل ہو گیا ہو۔ استاذ امام فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’مفردات القرآن‘‘ میں اس کی تائید میں شعرائے جاہلیت کے متعدد اشعار نقل کیے ہیں۔ ہم بقید اختصار صرف قطامی کا ایک شعر، جو اس نے ایک وادی کی تعریف میں کہا ہے، پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے:ع

حلوا باخضر قد مالت سرارتہ
من ذی غثاء علی الاعراض انضاد

(وہ ایک سرسبز و شاداب وادی میں اترے جس کے بیچ گھنے اور شاداب سبزے اس کے کناروں پر باہم دگر گتھم گتھا اور ایک دوسرے پر تہ بہ تہ گرے ہوئے تھے)

آیت زیربحث میں چونکہ ’غُثَآءٌ‘ کی صفت ’اَحْوٰی‘ آئی ہے اس وجہ سے لازماً یہ اس دوسرے معنی ہی میں استعمال ہوا ہے ورنہ صفت اور موصوف میں نہایت بھونڈی قسم کی بے ربطی پیدا ہو جائے گی اس لیے کہ ’اَحْوٰی‘ جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اس سیاہی کے لیے ہرگز نہیں آتا جو کسی چیز میں اس کی کہنگی، فرسودگی اور پامالی کے سبب سے پیدا ہوتی ہے۔ کلام عرب میں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہاں موقع کلام بھی، جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے، اس مفہوم سے اباء کر رہا ہے۔
پس ’اَلَّذِیْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحْوٰی‘ کا صحیح مطلب یہ ہو گا کہ اس خداوند کی تسبیح کرو جو نباتات کو زمین سے نازک سوئیوں کی شکل میں نکالتا ہے پھر ان کو گھنی اور سیاہی مائل سرسبز و شاداب بناتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

پھر اُسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا

اصل میں ’غُثَآءً اَحْوٰی‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کا جو ترجمہ ہم نے کیا ہے، اُس کے دلائل کی تفصیل کوئی شخص اگر چاہے تو امام حمید الدین فراہی کی کتاب ’’مفردات القرآن‘‘ اور استاذ امام امین احسن اصلاحی کی تفسیر ’’تدبرقرآن‘‘ میں دیکھ سکتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پھر ان کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنادیا ۔

یعنی وہ صرف بہار ہی لانے والا نہیں ہے، خزاں بھی لانے والا ہے۔ تمہاری آنکھیں اس کی قدرت کے دونوں کرشمے دیکھ رہی ہیں۔ ایک طرف وہ ایسی ہری بھری نباتات اگاتا ہے جن کی تازگی و شادابی دیکھ کر دل خوش ہوجاتے ہیں، اور دوسری طرف اسی نباتات کو وہ زرد، خشک اور سیاہ کر کے ایسا کوڑا کرکٹ بنا دیتا ہے جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور سیلاب خس و خاشاک کی صورت میں بہا لے جاتے ہیں۔ اس لیے کسی کو بھی یہاں اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ وہ دنیا میں صرف بہار ہی دیکھے گا، خزاں سے اس کو سابقہ پیش نہیں آئے گا۔ یہی مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دوسرے انداز میں بیان ہوا ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو سورة یونس 24 ۔ سورة کہف، آیت 45 ۔ سورة حدید، آیت 20) ۔

جونا گڑھی

پھر اس نے اس کو (سکھا کر) سیاہ کوڑا کردیا۔

 گھاس خشک ہوجائے تو اسے غثاء کہتے ہیں، احوی سیاہ کردیا۔ 

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَىٰ

امین احسن اصلاحی

ہم تمہیں پڑھائیں گے تو تم نہیں بھولو گے

حقیقت جو پیغمبر کو سمجھائی گئی: یہ وہ اصل مدعا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھانے کے لیے اوپر کی تمہید بیان ہوئی ہے یعنی قدرت کا جو قانون تدریج و ترتیب انسان کے خلق اور اس کی تکمیل میں، قوتوں اور صلاحیتوں کو مقدر کرنے اور ان کو بروئے کار لانے میں، سبزے کو اگانے اور اس کو پروان چڑھانے میں کار فرما ہے اسی قانون کے تحت اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی معاملہ کرے گا۔ اس نے تمہیں جس منصب پر سرفراز فرمایا ہے اور جس وحی آسمانی سے نوازا ہے اس کے مرحلے بالتدریج طے ہوں گے اور جلد وہ وقت آئے گا کہ تم دیکھو گے کہ جس راہ پر تمہیں چلنے کا حکم دیا گیا اس کے تمام عقبات طے ہو گئے اور آخری منزل آ گئی۔

وحی الٰہی کے باب میں آنحضرتؐ کو ایک خاص ہدایت: ’سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰی‘۔ یہ آیت بالکل اسی محل میں آئی ہے جس میں سورۂ طٰہٰ کی آیت ۱۱۴:

’لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ‘
( تم قرآن کے لیے اپنی طرف اس کی وحی پوری کیے جانے سے پہلے جلدی نہ کرو۔)

یا سورۂ قیامہ کی آیت ۱۶:

’لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ‘
( تم جلدی کے خیال سے قرآن کے پڑھنے پر اپنی زبان نہ چلاؤ۔)

آئی ہیں۔ ہم ان آیات کے تحت نہایت تفصیل سے واضح کر چکے ہیں کہ دعوت کے اس دور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جن مخالفتوں اور مزاحمتوں سے سابقہ تھا ان میں آپ کے لیے واحد سہارا وہ آسمانی کمک ہی تھی جو وحی الٰہی کی صورت میں آپ پر نازل ہوئی۔ اسی سے آپ کو قوت و عزیمت کا زاد راہ ملتا، اسی سے آگے کے لیے رہنمائی حاصل ہوتی، اسی میں مخالفین کے اعتراضات و مطالبات کے جواب ہوتے۔ ان گوناگون وجوہ سے آپ کو ہر وقت وحی کا انتظار رہتا اور جب وہ نازل ہوتی تو اس کے اخذ کرنے میں آپ قدرتاً اس بے قراری اور اضطراب و عجلت کا اظہار کرتے جو ایک بھوکا بچہ اس وقت کرتا ہے جب ماں اس کو چھاتی سے لگاتی ہے۔ فرط شوق میں آپ چاہتے کہ پوری وحی ایک ہی سانس میں آپ کے سینہ میں اتر جائے اور چونکہ یہ خالق کائنات کی ایک عظیم امانت بھی تھی جو آپ کی تحویل میں دی جا رہی تھی اس وجہ سے آپ اس کا حرف حرف اپنی زبان مبارک سے دہراتے بھی کہ مبادا کوئی لفظ حافظہ کی گرفت سے باہر رہ جائے۔
آپؐ کے اس اضطراب و شوق اور اس عجلت و بے قراری پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ اس وحی کے لیے تم جلد بازی نہ کرو۔ اس کے اترنے کے لیے جو پروگرام ہم نے مقرر کیا ہے اسی کے مطابق یہ اترے گی اور اسی میں حکمت و مصلحت ہے۔
ساتھ ہی یہ تسلی بھی دے دی کہ اس کی حفاظت کے لیے بھی تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت کا ایسا سامان کرے گا کہ تم اس میں سے ایک حرف بھی نہیں بھولو گے۔ سورۂ قیامہ میں یہی بات یوں فرمائی ہے:

لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ ط اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ ج فَاِذَا قَرَاْنَہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ ج ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ ہ (القیٰمۃ ۷۵: ۱۶-۱۹)
(تم عجلت کے خیال سے اس پر زبان نہ چلاؤ۔ ہمارے ذمہ ہے اس کو جمع کرنا اور اس کو پڑھ کر سنانا تو جب ہم اس کو پڑھ کے سنا دیں تو اس سنائے کی پیروی کرو۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے اس کی وضاحت)۔

جاوید احمد غامدی

(یہ قرآن بھی اِسی طرح ایک دن اپنے اتمام کو پہنچے گا، پھر)عنقریب اِس کو ہم پورا تمھیں پڑھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے

یعنی اِسی ترتیب و تدریج اور اہتمام کے ساتھ جس کا مشاہدہ تم انسان کی تخلیق، اُس کی قوتوں اور صلاحیتوں کے نشوونما، اُس کے مادی اور عقلی عروج و کمال، اُس کی روحانی اور اخلاقی ترقی اور اُس کی زندگی کے تمام مراحل ومقامات میں بھی کرتے ہو اور سبزے کی نمود اور اُس کے گھنا اور سرسبزوشاداب ہوجانے میں بھی۔ یہ خدا کا قانون ہے اور وہ تمھارے ساتھ بھی اِسی قانون کے مطابق معاملہ کرے گا۔ اُس نے جس وحی آسمانی سے تمھیں نوازا ہے، اُس کے تمام مراحل اِسی تدریج سے طے ہوں گے او رجلد تم دیکھو گے کہ اِسی اہتمام کے ساتھ وہ اپنے اتمام کو پہنچ جائے گی۔ اِس وقت جو مشکلات پیش آرہی ہیں، وہ تمھاری تربیت کے لیے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ تمھیں اُن افضال و عنایات کا حق دار بنائے جو تمھارے لیے مقدر ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

ہم تمہیں پڑھوا دیں گے، پھر تم نہیں بھولو گے

حاکم نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے اور ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کے الفاظ کو اس خوف سے دہراتے جاتے تھے کہ کہیں بھول نہ جائیں۔ مجاہد اور کلبی کہتے ہیں کہ جبریل وحی سنا کر فارغ نہ ہوتے تھے کہ حضور بھول جانے کے اندیشے سے ابتدائی حصہ دہرانے لگتے تھے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطمینان دلایا کہ وحی کے نزول کے وقت آپ خاموشی سے سنتے رہیں، ہم آپ کو اسے پڑھوا دیں گے اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ کو یاد ہوجائے گی، اس بات کا کوئی اندیشہ آپ نہ کریں کہ اس کا کوئی لفظ بھی آپ بھول جائیں گے۔ یہ تیسرا موقع ہے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی اخذ کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے کے دو مواقع سورة طٰہٰ آیت 114 ۔ اور سورة قیامہ آیات 16 تا 19 میں گزر چکے ہیں۔ اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن جس طرح معجزے کے طور پر آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا تھا اسی طرح معجزے کے طور پر ہی اس کا لفظ لفظ آپ کے حافظے میں محفوظ بھی کردیا گیا تھا اور اس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہنے دیا گیا تھا کہ آپ اس میں سے کوئی چیز بھول جائیں، یا اس کے کسی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا ہم معنی لفظ آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوجائے۔

جونا گڑھی

ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو نہ بولے گا

 حضرت جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر آتے تو آپ جلدی جلدی پڑھتے تاکہ بھول نہ جائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس طرح جلدی نہ کریں، نازل شدہ وحی ہم آپ کو پڑھوائیں گے، یعنی آپ کی زبان پر جاری کردیں گے۔ پس آپ بھولیں گے نہیں۔ مگر جسے اللہ چاہے گا لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے آپ کو سب کچھ یاد ہی رہا بعض نے کہا کہ اس کا مفہوم ہے کہ جن کو اللہ منسوخ کرنا چاہے گا وہ آپ کو بھلوا دے گا (فتح القدیر) 

إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَىٰ

امین احسن اصلاحی

مگر وہی جو خدا چاہے گا۔ وہ جانتا ہے علانیہ کو بھی اور اس کو بھی جو چھپا ہوتا ہے

’اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ‘۔ یعنی اس کلیہ سے مستثنیٰ صرف وہ چیزیں ہیں جو وقتی اور ہنگامی نوعیت کی ہیں۔ ان کی مدت پوری ہو جانے کے بعد خود اللہ تعالیٰ ہی بتا دے گا کہ ان کی مدت پوری ہو گئی۔ یہ اشارہ ان احکام کی طرف ہے جو وقتی اور عارضی تھے اور جو بعد میں منسوخ ہو گئے۔

صحیح توکل کی تعلیم کے لیے خدا کے محیط کل علم کا حوالہ: ’اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ وَمَا یَخْفٰی‘۔ یعنی یہ گمان نہ کرو کہ تم جن حالات و مسائل سے دوچار ہو تمہارا رب ان سے بے خبر ہے۔ وہ بے خبر نہیں ہے بلکہ ان باتوں کو بھی وہ جانتا ہے جو ظاہر ہیں اور ان باتوں سے بھی آگاہ ہے جو پوشیدہ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری پریشانیاں اور دعائیں سبھی اس کے علم میں ہیں اور دشمنوں کی کھلی ہوئی شرارتیں اور ان کی مخفی سازشیں بھی اس کے علم میں ہیں تو جب سب کچھ اس کے علم میں ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت اور اختیار بھی رکھتا ہے تو اطمینان رکھو کہ تمہیں جس قسم کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہو گی اس سے محروم نہیں رہو گے۔ یہی مضمون سورۂ طٰہٰ میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ فرمایا ہے:

لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَمَا بَیۡنَھُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰی ہ وَاِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ہ (طٰہٰ ۲۰: ۶-۷)
’’اسی کے اختیار میں ہے جو آسمانوں اور زمین میں اور ان کے درمیان اور جو کچھ زیر زمین ہے وہ بھی۔ چاہے تم بلند آواز سے بات کہو یا پوشیدہ طور پر وہ ظاہر، پوشیدہ اور پوشیدہ تر باتوں کو بھی جانتا ہے۔‘‘

یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ پر صحیح توکل و اعتماد اس کے محیط کل علم اور اس کی ہمہ گیر قدرت کے استحضار ہی سے پیدا ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

مگر وہی جو اللہ چاہے گا۔ وہ اُس کو بھی جانتا ہے جو (اِس وقت تمھارے) سامنے ہے اور اُس کو بھی جو (تم سے) چھپا ہوا ہے

یہ پورے قرآن کو جلد حاصل کر لینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق و اضطراب اور عجلت و بے قراری پر آپ کو صبر و انتظار کی تلقین بھی ہے اور قرآن کے بارے میں آپ کی اِس تشویش پر تسلی بھی کہ اِس وقت تو یہ آپ کے حافظے میں تازہ ہے، لیکن پورا ہو جانے کے بعد اور وقت گزرنے کے ساتھ اِس کی کوئی چیز حافظے سے نکل نہ جائے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا کرکے یہ قرآن جس طرح آپ کو دیا جا رہا ہے، اِس کے دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے، لیکن اِس سے آپ کو اِس کی حفاظت کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔ اِس کی جو قراء ت اِس کے زمانۂ نزول میں اِس وقت کی جا رہی ہے، اِس کے بعد اِس کی ایک دوسری قراء ت ہو گی۔ اِس موقع پراللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت اِس میں سے کوئی چیز اگر ختم کرنا چاہیں یا کسی جگہ کوئی تغیر و تبدل کرنا چاہیں تو اُسے کرنے کے بعد آپ کو اِس طرح پڑھا دیں گے کہ اِس میں سہو و نسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا اور اپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔

قرآن کی یہی قراء ت ہے جسے اصطلاح میں عرضۂ اخیرہ کی قراء ت کہا جاتا ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جبریل امین ہر سال جتناقرآن نازل ہو جاتا تھا، رمضان کے مہینے میں اُسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتے تھے۔ آپ کی زندگی کے آخری سال میں، جب یہ عرضۂ اخیرہ کی قراء ت ہوئی تو اُنھوں نے اِسے دو مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔*
سلف اِسے قراء ت عامہ کہتے رہے ہیں۔ چند علاقوں کو چھوڑ کر امت کی عظیم اکثریت اِس وقت اِسی کے مطابق قرآن کی تلاوت کر رہی ہے۔ سورۂ قیامہ میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ عرضۂ اخیرہ کے بعد قیامت تک کے لیے اِسی قراء ت کی پیروی کی جائے۔
_____
* بخاری، رقم ۴۹۹۸۔

ابو الاعلی مودودی

سوائے اس کے جو اللہ چاہے ، وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور جو کچھ پوشیدہ ہے اس کو بھی ۔

اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پورے قرآن کا لفظ بلفظ آپ کے حافظے میں محفوظ ہوجانا آپ کی اپنی قوت کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی توفیق کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ چاہے تو اسے بھلا سکتا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ، (بنی اسرائیل، 86) ” اگر ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تمہیں عطا کیا ہے “۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی وقتی طور پر آپ کو نسیان لاحق ہوجانا اور آپ کا کسی آیت یا لفظ کو کسی وقت بھول جانا اس وعدے سے مستثنی ہے۔ وعدہ جس بات کا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ مستقل طور پر قرآن کے کسی لفظ کو نہیں بھول جائیں گے۔ اس مفہوم کی تائید صحیح بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرات کے دوران میں ایک آیت چھوڑ گئے۔ نماز کے بعد حضرت ابی بن کعب نے پوچھا کیا یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے ؟ حضور نے فرمایا نہیں، میں بھول گیا تھا۔

ویسے تو یہ الفاظ عام ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے خواہ وہ ظاہر یا مخفی۔ لیکن جس سلسلہ کلام میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ جو قرآن کو جبریل (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ پڑھتے جا رہے ہیں اس کا بھی اللہ کو علم ہے اور بھول جانے کے جس خوف کی بناپ آپ ایسا کر رہے ہیں وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ اس لیے آپ کو یہ اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ آپ اسے بھولیں گے نہیں۔

جونا گڑھی

مگر جو کچھ اللہ چاہے، وہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔

 یہ بھی عام ہے جہر قرآن کا وہ حصہ ہے جسے رسول اللہ یاد کرلیں اور جو آپ کے سینے سے محو کردیا جائے وہ مخفی ہے۔ خفی چھپ کر عمل کرے اور جہر ظاہر ان سب کو اللہ جانتا ہے۔ 

وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور ہم تمہیں لے چلیں گے آسان راہ

’یسر‘ کی منزل کی بشارت: یہ نہایت واضح لفظوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت ہے کہ یہی دن ہمیشہ نہیں رہیں گے بلکہ ہم ان مشکلات سے نکال کر جلد تمہیں آسان راہ پر لے چلیں گے۔ ’یُسْرٰی‘ صفت ہے جس کا موصوف ’طَرِیْقَۃ‘ یا اس کا ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔ لفظ ’تیسیر‘ کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے کہ یہ کسی چیز کو کسی برتر مقصد کے لیے تیار کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس سے یہاں یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اس وقت تم جن مشکلات میں ہو یہ تمہاری تربیت کے لیے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے ان افضال و عنایات کا اہل اور حق دار بنائے جن سے تمہیں مستقبل میں وہ بہرہ مند فرمانے والا ہے۔ اوپر ’قَدَّرَ فَہَدٰی‘ اور ’اَخْرَجَ الْمَرْعٰی ۵ فَجَعَلَہٗ غُثَآءً أَحْوٰی‘ میں اپنی جس سنت کی طرف اشارہ فرمایا ہے یہ اسی کا اقتضاء بیان ہوا ہے کہ اس وقت راہ میں جو عقبات حائل ہیں وہ سنت الٰہی کے تحت بغرض امتحان و تربیت ہیں۔ آگے راہ صاف ہے۔ اپنے رب کی رہنمائی پر بھروسہ رکھو۔ یُسر کی منزل عُسر کے بعد ہی آتی ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اِسی طرح) ہم (اِن مشکلوں سے بھی) درجہ بدرجہ تمھیں آسانی کی طرف لے چلیں گے

یعنی تمھارے حالات کے حاضر و مستقبل سے واقف ہے۔ اِس لیے مخالفتوں کے ہجوم سے گھبرا کر جلدی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جس طرح نازل کر رہے ہیں، اُسی طرح پیش کرتے رہو۔ یہ مخالفتیں عنقریب ختم ہو جائیں گی اور وہ آسانی پیدا ہو جائے گی جو سنت الٰہی کے مطابق تمھارے لیے مقدر ہے۔

اِس آخری بات کے لیے اصل میں ’وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’یُسْرٰی‘ صفت ہے جس کا موصوف ’الطریقۃ‘ یا اِس کا ہم معنی کوئی لفظ حذف کر دیا گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور ہم تمہیں آسان طریقے کی سہولت دیتے ہیں،

​n/a

جونا گڑھی

ہم آپ کیلئے آسانی پیدا کردیں گے

 یہ بھی عام ہے۔ ہم آپ پر وحی آسان کردیں گے تاکہ اس کو یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہوجائے ہم آپ کے اس طریقے سے رہنمائی کریں گے جو آسان ہوگا، ہم جنت والا عمل آپ کے لئے آسان کردیں گے۔ ہم آپ کے لیے ایسے اقوال و افعال آسان کردیں گے جن میں خیر ہو اور ہم آپ کے لیے ایسی شریعت مقرر کریں گے جو سہل، مستقیم، اور معتدل ہوگی جس میں کوئی کجی، عسر اور تنگی نہیں ہوگی۔ 

فَذَكِّرْ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرَىٰ

امین احسن اصلاحی

پس تم یاددہانی کرو اگر یاددہانی کچھ نفع پہنچائے

ہدایت اور ضلالت کے باب میں سنت الٰہی: یعنی لوگوں کی مخالفتوں اور ناقدریوں سے بددل اور مایوس نہ ہو۔ لوگوں کے دلوں میں بات اتار دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے کہ ان کے پیچھے پڑو۔ تمہارا فرض صرف تذکیر ہے۔ جب دیکھو کہ سننے کی طرف مائل ہیں تو سناؤ ورنہ ان کو ان کی تقدیر کے حوالہ کرو۔

جاوید احمد غامدی

اِس لیے یاددہانی کرو، اگر یاددہانی نفع دے

n/a

ابو الاعلی مودودی

لہذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو ۔

عام طور پر مفسرین نے ان دو فقروں کو الگ الگ سمجھا ہے۔ پہلے فقرے کا مطلب انہوں نے یہ لیا ہے کہ ہم تمہیں ایک آسان شریعت دے رہے ہیں جس پر عمل کرنا سہل ہے، اور دوسرے فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نصیحت کرو اگر وہ نافع ہو۔ لیکن ہمارے نزدیک فذکر کا لفظ دونوں فقروں کو باہم مربوط کرتا ہے اور بعد کے فقرے کا مضمون پہلے فقرے کے مضمون پر مترتب ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس ارشاد الہی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اے نبی، ہم تبلیغ دین کے معاملہ میں تم کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے کہ تم بہروں کو سناؤ اور اندھوں کو راہ دکھاؤ، بلکہ ایک آسان طریقہ تمہارے لیے میسر کیے دیتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ نصیحت کرو جہاں تمہیں یہ محسوس ہو کہ کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کے تیار ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کون اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کا پتہ تبلیغ عام ہی سے چل سکتا ہے اس لیے عام تبلیغ تو جاری رکھنی چاہیے، مگر اس سے تمہارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے بندوں میں سے ان لوگوں کو تلاش کرو جو اس سے فائدہ اٹھا کر راہ راست اختیار کرلیں۔ یہی لوگ تمہاری نگاہ التفات کے مستحق ہیں اور انہی کی تعلیم و تربیت پر تمہیں توجہ صرف کرنا چاہیے۔ ان کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جن کے متعلق تجربے سے تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ کوئی نصیحت قبول نہیں کرنا چاہتے۔ یہ قریب قریب وہی مضمون ہے جو سورة عبس میں دوسرے طریقے سے یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ ” جو شخص بےپروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ دا ری ہے ؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے اس سے تم بےرخی برتتے ہو۔ ہرگز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے ” (آیات 5 تا 12) ۔

جونا گڑھی

تو آپ نصیحت کرتے رہیں اگر نصیحت کچھ فائدہ دے۔

 یعنی وعظ ونصیحت وہاں کریں جہاں محسوس ہو کہ فائدہ مند ہوگی، یہ وعظ ونصیحت اور تعلیم کے لیے ایک اصول اور ادب بیان فرمایا۔ امام شوکانی کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، چاہے فائدہ دے یا نہ دے، کیونکہ انداز و تبلیغ دونوں صورتوں میں آپ کے لیے ضروری تھی۔ 

سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَىٰ

امین احسن اصلاحی

فائدہ اٹھا لے گا وہ جس کو ڈر ہو گا

یہ بتایا ہے کہ کون آپ کی بات پر کان دھریں گے اور کس مزاج کے لوگ اس سے گریز کریں گے۔ فرمایا کہ جن کے دلوں میں خدا اور آخرت کا کچھ خوف ہو گا وہ آپ کی بات سنیں گے اور جن کے دل اس خوف سے خالی ہیں ان پر آپ کا انذار بے اثر ہی رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جو آپ کی دعوت سے بدک رہے ہیں ان کے بدکنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس دعوت میں یا اس کے داعی میں کوئی خرابی ہے بلکہ ان بدکنے والوں کے دلوں میں ہی خرابی ہے۔ وہ اسی دنیا کی زندگی کو کل زندگی سمجھے بیٹھے ہیں۔ آخرت کا کوئی اندیشہ ان کے اندر سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایسے محروم القسمت لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑو۔ یہ اس بڑی آگ میں پڑیں گے جو ان کے لیے تیار ہے۔ پھر اس میں نہ یہ مریں گے نہ جئیں گے بلکہ اس کے ابدی عذاب میں گرفتار رہیں گے۔ اس میں وہ موت کی تمنا کریں گے لیکن وہ بھی ان کی پرسان حال نہیں ہو گی۔

یہاں اس سنت الٰہی کو ذہن میں تازہ کر لیجیے جس کی وضاحت اس کتاب میں بار بار ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطرت کے اندر جو نور ودیعت فرمایا ہے جو لوگ اس کو باقی رکھتے ہیں ان کو پیغمبرؐ کی دعوت اپنے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ نور کچھ ضعیف بھی ہو چکا ہوتا ہے جب بھی دیر سویر پیغمبر کے جھنجھوڑنے سے وہ جاگ پڑتے ہیں لیکن جن کے اندر یہ نور بالکل بجھ چکا ہوتا ہے وہ مردوں کے حکم میں ہیں، ان کو صور اسرافیل کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں جگا سکتی۔
مذکورہ آیات میں جو مضمون بیان ہوا ہے وہ بعد والی سورہ ۔۔۔ الغاشیۃ ۔۔۔ میں جو اس کی مثنیٰ ہے، زیادہ وضاحت سے آیا ہے۔ فرمایا ہے:

فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنۡتَ مُذَکِّرٌ ۵ لَّسْتَ عَلَیْْہِمۡ بِمُصَیْْطِرٍ ۵ إِلَّا مَنۡ تَوَلَٰی وَکَفَرَ ۵ فَیُعَذِّبُہُ اللہُ الْعَذَابَ الْأَکْبَرَ ۵ إِنَّ إِلَیْْنَا إِیَابَہُمْ ۵ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْْنَا حِسَابَہُمْ (الغاشیہ ۸۸: ۲۱-۲۶)
’’تو یاددہانی کرو، تم تو بس ایک یاددہانی کر دینے والے ہو۔ تم ان پر کوئی داروغہ تو نہیں ہو (جو ایمان لائے گا وہ فلاح پائے گا) رہے جو پیٹھ پھیریں گے اور کفر کریں گے تو اللہ ان کو عذاب دے گا بڑا عذاب۔ ہماری ہی طرف ان کو لوٹنا ہے۔ پھر ہمارے ہی اوپر ان کا حساب لینا ہے۔‘‘

یہ بات یاد رکھیے کہ یہاں ’اَلْعَذَابَ الْأَکْبَرَ‘ آیا ہے اور آیت زیربحث میں ’اَلنَّارَ الْکُبْرٰی‘ ہے۔ یہ ایک ہی بات دونوں توام سورتوں میں ذرا مختلف الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔ اس کی وضاحت، ان شاء اللہ، اگلی سورہ میں آئے گی۔

جاوید احمد غامدی

جو خدا سے ڈرتا ہے، وہ عنقریب نصیحت پا لے گا

n/a

ابو الاعلی مودودی

جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کرلے گا،

یعنی جس شخص کے دل میں خدا کا خوف اور انجام بد کا اندیشہ ہوگا اسی کو یہ فکر ہوگی کہ کہیں میں غلط راستے پر تو نہیں جا رہا ہوں، اور وہی اللہ کے اس بندے کی نصیحت کو توجہ سے سنے گا جو اسے ہدایت اور گمراہی کا فرق اور فلاح و سعادت کا راستہ بتا رہا ہو۔

جونا گڑھی

ڈرنے والا تو نصیحت لے گا۔

 یعنی آپ کی نصیحت سے وہ یقینا عبرت حاصل کریں گے جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوگا، ان میں خشیت الہی اور اپنی اصلاح کا جذبہ مزید قوی ہوگا۔ 

Page 1 of 2 pages  1 2 >