اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ

امین احسن اصلاحی

پڑھ اپنے اس خداوند کے نام سے جس نے پیدا کیا

’اقْرَا‘ بطریق دعوت سنانے کے معنی میں: لفظ ’اقْرَا‘ (پڑھو) صرف اسی مفہوم میں نہیں آتا جس مفہوم میں ایک استاد اپنے شاگرد سے کہتا ہے: پڑھو!، بلکہ یہ ’اقْرَا عَلی الناس‘ یا ’اُتل علی الناس‘ یعنی دوسروں کو بطریق دعوت سنانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً ان کفار کو مخاطب کر کے جو قرآن کے سنانے میں مزاحم ہوتے تھے، فرمایا ہے:

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوۡا لَہٗ وَأَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوۡنَ (الاعراف ۷: ۲۰۴)
’’جب قرآن سنایا جائے تو اس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

سورۂ بنی اسرائیل میں ہے:

وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالۡآخِرَۃِ حِجَابًاً مَّسْتُوۡرًا (بنی اسرائیل ۱۷: ۴۵)
’’اور جب تم لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے ہو تو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک مخفی پردہ کھڑا کر دیتے ہیں۔‘‘

قرینہ دلیل ہے کہ یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
ایک نہایت اہم تنبیہ: ’بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ‘۔ یعنی اس قرآن کو اپنے اس خداوند کے نام سے پڑھ کر سناؤ جو سارے جہان کا خالق ہے۔ یہ ایک نہایت اہم تنبیہ ہے۔ فرمایا کہ اس کو اپنے خداوند کے فرمان واجب الاذعان کی حیثیت سے پیش کرو تاکہ لوگ یہ جانیں کہ جو کلام ان کو سنایا جا رہا ہے وہ براہ راست رب دوجہان کا کلام ہے۔ نہ یہ داعی کا کلام ہے، نہ کسی اور شخص کا اور نہ یہ کسی سائل کی درخواست ہے کہ رد کر دی تو وہ دور ہو جائے۔ بلکہ یہ اس خالق و مالک کا کلام ہے جس کو حق ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو حکم دے اور لوگوں کا فرض ہے کہ وہ بے چون و چرا اس کی تعمیل کریں، اس کو کوئی معمولی چیز سمجھ کر ٹالنے، مذاق اڑانے یا اس کی مخالفت کرنے کی جسارت نہ کریں۔
یہ امر ملحوظ رہے کہ قرآن مجید براہ راست اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس سے پہلے کسی کتاب کو یہ شرف حاصل نہیں کہ وہ کُل کی کُل اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ الفاظ پر مشتمل ہو۔ اس وجہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ہوئی کہ اس کو اپنے خداوند کے نام سے پیش کرو تاکہ اس کی اصلی عظمت لوگوں پر واضح ہو اور وہ اس کی مخالفت کر کے اپنی شامت نہ بلائیں۔ قدیم صحیفوں میں حضور سے متعلق جو پیشین گوئیاں ہیں ان میں بھی یہ بات واضح فرمائی گئی ہے کہ ’آپ جو کچھ کہیں گے خدا کے نام سے کہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے انتقام لے گا جو خدا کے نام پر کہی ہوئی اس کی باتوں کو رد کریں گے۔‘ گویا ان الفاظ سے قرآن کی اصلی عظمت بھی واضح کر دی گئی ہے اور قریش کو ڈرا بھی دیا گیا ہے کہ اگر وہ اس کی مخالفت کرنی چاہتے ہیں تو اپنے اس فعل کے انجام کو دور تک سونچ لیں۔

جاوید احمد غامدی

اِنھیں پڑھ کر سناؤ، (اے پیغمبر)، اپنے اُس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے

اصل میں لفظ ’اِقْرَاْ‘ آیا ہے۔ یہ اِس آیت میں ’اقرأہ علیھم‘ کے معنی میں ہے، یعنی لوگوں کو پڑھ کر سناؤ۔ یہ بطریق دعوت سنانا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ جگہ جگہ اِس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۲۰۴ اور سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۴۵ میں۔ قرآن کے بارے میں معلوم ہے کہ دعوت و انذار کے لیے وہ اِسی طرح پورا کا پورا لوگوں کو پڑھ کر سنایا گیا تھا۔

یعنی اُس کے فرمان واجب الاذعان کی حیثیت سے پڑھ کر سناؤ تاکہ لوگ یہ جانیں کہ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں ہے، بلکہ پروردگار عالم کا کلام ہے جو اُن کا خالق اور مالک ہے اور اُنھیں جو حکم چاہے، دے سکتا ہے۔ لوگوں کو بے چون و چرا اُس کی تعمیل کرنی چاہیے۔ وہ اگر اُس کا مذاق اڑانے یا اُس کی مخالفت کرنے کی جسارت کریں گے تو اِس کا انجام سوچ لیں، اِس کے نتائج اُن کے لیے نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔

جیسا کہ ہم نے دیباچہ میں بیان کیا ہے، فرشتے نے جب حضور سے کہا کہ پڑھو، تو حضور نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور انہیں پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جاؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں، تو حضور کو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔

یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھو، یا بالفاظ دیگر بسم اللہ کہو اور پڑھو۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وحی کے آنے سے پہلے صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب جانتے اور مانتے تھے۔ اسی لیے یہ کہنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آپ کا رب کون ہے، بلکہ یہ کہا گیا کہ اپنے رب کا نام لے کر پڑھو۔

مطلقا ” پیدا کیا ” فرمایا گیا ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا۔ اس سے خودبخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس رب کا نام لے کر پڑھو جو خالق ہے، جس نے ساری کائنات کو اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔

جونا گڑھی

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا

یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت آئی جب آپ غار حرا میں مصروف عبادت تھے، فرشتے نے آ کر کہا، پڑھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا پڑھ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھینچا (تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری بدء الوحی، مسلم، باب بدء الوحی، اقرا) جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے وہ پڑھ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ

امین احسن اصلاحی

پیدا کیا انسان کو خون کے تھکّے سے

یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں تمام کائنات کے پیدا کیے جانے کا ذکر ہوا۔ اب یہ خاص اہتمام کے ساتھ انسان کے پیدا کیے جانے کی طرف اشارہ ہے۔

انسان کی خلقت کے ابتدائی مراحل کی یاددہانی سے مقصود: ’عَلَقٌ‘ خون کی پھٹکی یا تھکے کو کہتے ہیں۔ انسان کی خلقت کے ابتدائی مراحل کی یاددہانی قرآن میں جگہ جگہ فرمائی گئی ہے۔ مثلاً سورۂ حج، سورۂ مومنون، سورۂ سجدہ، سورۂ قیامہ اور سورۂ دہر وغیرہ میں۔ ہم ہر جگہ تمام اہم الفاظ کی بھی وضاحت کرتے آ رہے ہیں اور اس خاص پہلو کی طرف بھی ہم نے توجہ دلا دی ہے جو اس یاددہانی سے پیش نظر ہے۔ اس سے مقصود بالعموم تین حقیقتوں کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے:

o ایک یہ کہ جس خالق کی قدرت و حکمت کا یہ حال ہے کہ وہ خون کی ایک حقیر پھٹکی کو عاقل و مدرک اور سمیع و بصیر انسان بنا کر کھڑا کر دیتی ہے کیا اس کے لیے اس کو دوبارہ پیدا کر دینا مشکل ہو جائے گا۔
o دوسری یہ کہ انسان کی تخلیق میں خالق کی جو قدرتیں اور حکمتیں نمایاں ہیں وہ دلیل ہیں کہ یہ عبث اور بے غایت نہیں پیدا کیا گیا ہے بلکہ اس کے لیے ایک روز حساب لازماً آنا ہے اور یہ اپنے اعمال کی جزا یا سزا ضرور پائے گا۔
o تیسری یہ کہ جس انسان کی پیدائش اتنے حقیر اور ذلیل عنصر سے ہوئی ہے اس کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ وہ اپنی پاکی و پاک دامنی یا اپنے حسب و نسب کی حکایت زیادہ بڑھائے اور غرور و استکبار کا مظاہرہ کرے۔
قرآن کے بعض مقامات میں بیک وقت ان تمام حقائق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے لیکن بعض جگہ ان میں سے ایک یا دو مدنظر ہیں۔ یہاں موقع کلام اشارہ کر رہا ہے کہ ان میں سے اوپر کی دو حقیقتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ خالق کائنات کا کلام خاص اس کے نام سے لوگوں کو پہنچاؤ اور ان کو یاددہانی کرو کہ جس خالق نے انسان کو خون کی پھٹکی سے وجود بخشا ہے وہ قادر ہے کہ اس کو دوبارہ پیدا کر کے اس کے اعمال کا محاسبہ کرے۔

جاوید احمد غامدی

جمے ہوئے خون جیسے ایک لوتھڑے سے انسان کو پیدا کیا ہے

یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے، یعنی تمام کائنات کو پیدا کیا ہے اور اُس میں بالخصوص انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کر دیا ہے۔ اِس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اولاً، جس خالق نے خون کی ایک حقیر پھٹکی سے سقراط و فلاطوں بنا کر کھڑے کر دیے ہیں، اُس کے لیے کیا مشکل ہے کہ جب چاہے اُنھیں دوبارہ پیدا کرکے اپنے سامنے محاسبے کے لیے لا کھڑا کرے؟ ثانیاً، انسان کی تخلیق میں اُس کی جس قدرت و حکمت کا ظہور ہوا ہے، اُس کو دیکھنے کے بعد کوئی عاقل کس طرح باور کر سکتا ہے کہ وہ عبث اور بے غایت پیدا کیا گیا ہے؟ یہ اہتمام تو بتا رہا ہے کہ انسان کے لیے ایک ایسا دن لازماً آنا چاہیے جس میں اُس کے علم و عمل کا محاسبہ کیا جائے۔

ابو الاعلی مودودی

جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔

کائنات کی عام تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد خاص طور پر انسان کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس حقیر حالت سے اس کی تخلیق کی ابتدا کر کے اسے پورا انسان بنایا۔ علق جمع ہے علقہ کی جس کے معنی جمے ہوئے خون کے ہیں۔ یہ وہ ابتدائی حالت ہے جو استقرار حمل کے بعد پہلے چند دنوں میں رونما ہوتی ہے، پھر وہ گوشت کی شکل اختیار کرتی ہے اور اس کے بعد بتدریج اس میں انسانی صورت بننے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الحج آیت 5 ۔ حواشی 5 تا 7)

جونا گڑھی

جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔

 مخلوقات میں سے بطور خاص انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا جس سے اس کا شرف واضح ہے۔ 

اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ

امین احسن اصلاحی

پڑھ اور تیرا رب بڑا ہی کریم ہے

اہل عرب پر عظیم احسان: یہ ’اِقْرَاْ‘ سابق ’اِقْرَاْ‘ سے بدل کے طور پر آیا ہے اور یہ اسی حکم کی تاکید ہے جو اوپر دیا گیا ہے البتہ اس میں اظہار احسان کا پہلو بھی نمایاں ہے کہ قریش اللہ تعالیٰ کے اس فضل عظیم کی قدر کریں کہ اس نے ان کی ہدایت کے لیے تعلیم بالقلم کا اہتمام فرمایا۔ یہ امر واضح رہے کہ اس سے پہلے بنی اسماعیل کے پاس حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کی تعلیمات سے متعلق اگر کچھ روایات تھیں تو وہ زبانی روایات کی شکل میں تھیں اور امتداد زمانہ سے ان کی شکل بھی متغیر ہو چکی تھی۔ دوسرے انبیاء کی تعلیمات بھی زبانی ہی تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو احکام عشرہ تو ضرور لکھ کر دیے گئے لیکن موجودہ تورات کی حیثیت بس قلم بند کی ہوئی روایات کی ہے۔ اس کے اندر یہ امتیاز ناممکن ہے کہ کون سی بات اللہ تعالیٰ کے لفظوں میں ہے اور کون سی بات مجہول راویوں کے الفاظ میں لیکن قرآن کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام فرمایا کہ اس کا ہر لفظ اول تو براہ راست نطق الٰہی ہے، پھر اس کو زبانی روایات پر نہیں چھوڑا گیا بلکہ اس کو عین اللہ تعالیٰ کے لفظوں میں تحریری طور پر محفوظ کیا گیا اور یہ کام، جیسا کہ سورۂ قلم اور سورۂ قیامہ کی تفسیروں میں وضاحت ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے تحت کرایا تا کہ کسی حرف میں سرمو کوئی تغیر نہ ہونے پائے۔

جاوید احمد غامدی

اِنھیں پڑھ کر سناؤ، اور (حقیقت یہ ہے کہ) تمھارا پروردگار بڑا ہی کریم ہے

یہ پہلی آیت سے بدل ہے اور اُسی کے حکم کی تاکید کے لیے دہرایا گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔

n/a

جونا گڑھی

تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے

 آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تو قاری ہی نہیں اللہ نے فرمایا، اللہ بہت کرم والا ہے پڑھ، یعنی انسانوں کی کوتاہیوں سے درگزر کرنا اس کا وصف خاص ہے۔ 

الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ

امین احسن اصلاحی

جس نے تعلیم دی قلم کے واسطہ سے

مزید احسان اور ایک تنبیہ: اس اہتمام خاص کی طرف یہاں ’عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ یہ عربوں پر ایک عظیم احسان ہوا۔ اول تو، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، وحی کو محفوظ کرنے کا یہ اہتمام اس سے پہلے کسی قوم کے لیے بھی نہیں کیا گیا، ثانیاً اہل عرب امی ہونے کے باعث قلم کے استعمال سے اچھی طرح واقف نہ تھے لیکن قرآن کی بدولت انھوں نے اس کے ذریعہ وہ عظیم آسمانی خزانہ محفوظ کیا جو صرف انہی کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لیے سرمایۂ زندگی ہے۔

جاوید احمد غامدی

جس نے قلم کے ذریعے سے (یہ قرآن) سکھایا

یعنی وہ کریم ہے، اِس لیے اپنے اِسی کرم کے باعث اُس نے تم پر یہ احسان کیا ہے کہ تمھیں یہ قرآن پڑھ کر سنایا بھی جا رہا ہے اور خاص اہتمام کے ساتھ اُس کی ہدایت کے تحت اور اُس کے پیغمبر کی رہنمائی میں لکھ کر بھی دیا جا رہا ہے تاکہ یہ عظیم آسمانی خزانہ صرف تمھارے لیے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے لیے سرمایۂ حیات بن جائے۔ اِس میں قریش کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے کہ اُنھوں نے اِس نعمت کی قدر نہ کی تو سوچ لیں کہ اِس کا نتیجہ اُن کے لیے کیا ہو سکتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔

یعنی یہ اس کا انتہائی کرم ہے کہ اس حقیر ترین حالت سے ابتدا کر کے اس نے انسان کو صاحب علم بنایا جو مخلوقات کی بلند ترین صفت ہے، اور صرف صاحب علم ہی نہیں بنایا، بلکہ اس کو قلم کے استعمال سے لکھنے کا فن سکھایا جو بڑے پیمانے پر علم کی اشاعت، ترقی، اور نسلا بعد نسل اس کے بقا اور تحفظ کا ذریعہ بنا۔ اگر وہ الہامی طور پر انسان کو قلم اور کتابت کے فن کا یہ علم نہ دیتا تو انسان کی علمی قابلیت ٹھٹھر کر رہ جاتی اور اسے نشو و نما پانے، پھیلنے اور ایک نسل کے علوم دوسری نسل تک پہنچنے اور آگے مزید ترقی کرتے چلے جانے کا موقع ہی نہ ملتا۔

جونا گڑھی

جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔

 قلم کا معنی ہے قطع کرنا، تراشنا، قلم بھی پہلے زمانے میں تراش کر ہی بنائے جاتے تھے۔ اس لیے آلہ کتابت کو قلم سے تعبیر کیا۔ 

عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

امین احسن اصلاحی

اس نے سکھایا انسان کو وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا

یہ اسی انعام و احسان کا ایک اور پہلو ہے کہ صرف تعلیم بالقلم ہی کا احسان امیوں پر نہیں کیا بلکہ مزید احسان یہ بھی کیا کہ ان کو وہ باتیں بتائیں اور سکھائیں جو وہ نہیں جانتے تھے۔ لفظ ’انسان‘ اگرچہ عام ہے لیکن قرآن کے پہلے مخاطب چونکہ امی عرب ہی تھے اس وجہ سے یہاں اصلاً وہی مراد ہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ان کو جاہلیت کی تاریکی سے نکالنے کے لیے ان پر اپنی یہ کامل ہدایت نازل فرمائی ہے۔ ان پر حق ہے کہ وہ اس کی قدر کریں۔ سورۂ جمعہ میں یہی مضمون یوں آیا ہے:

ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّیْنَ رَسُوۡلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوۡا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ (الجمعہ ۶۲: ۲)
’’وہی ہے جس نے اٹھایا امیوں میں ایک رسول انہی میں سے وہ ان کو سناتا ہے اس کی آیتیں اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو سکھاتا ہے کتاب اور حکمت درآنحالیکہ وہ اس سے پہلے نہایت کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔‘‘

یہی مضمون، الفاظ کے معمولی تغیر کے ساتھ، البقرہ: ۱۵۱، البقرہ: ۱۹۸ اور آل عمران: ۱۶۴ میں بھی گزر چکا ہے اور ہم بقدر کفایت اس کی وضاحت کر چکے ہیں۔
اس آیت میں جہاں اظہار احسان ہے وہیں اس کے اندر قریش کے لیے ایک تنبیہ بھی ہے کہ اگر انھوں نے اپنے رب کی اس سب سے بڑی نعمت کی قدر نہ کی تو سونچ لیں کہ ان کی اس ناسپاسی اور اس طغیان کا نتیجہ ان کے سامنے کس شکل میں آ سکتا ہے!

جاوید احمد غامدی

انسان کو (اِس میں) وہ علم دیا جسے وہ نہیں جانتا تھا

لفظ ’اِنْسَان‘ اگرچہ عام ہے، لیکن پہلے مخاطب چونکہ قریش تھے، اِس لیے اصلاً وہی مراد ہیں۔

اشارہ ہے اُس علم و حکمت اور قانون و شریعت کی طرف جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۲) کی آیات ۱۲۹، ۱۵۱ ، آل عمران (۳) کی آیت ۱۶۴ اور سورۂ جمعہ (۶۲) کی آیت ۲ میں اِسی اہتمام کے ساتھ ہوا ہے۔ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے کہ اُس نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُن کا تزکیہ کرتا ہے اور اِس کے لیے اُنھیں قانون و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔

یعنی انسان اصل میں بالکل بےعلم تھا۔ اسے جو کچھ بھی علم حاصل ہوا اللہ کے دینے سے حاصل ہوا۔ اللہ ہی نے جس مرحلے پر انسان کے لیے علم کے جو دروازے کھولنے چاہے وہ اس پر کھلتے چلے گئے۔ یہی بات ہے جو آیۃ الکرسی میں اس طرح فرمائی گئی ہے کہ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۔ ” اور لوگ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے سوائے اس کے جو وہ خود چاہے “۔ (البقرہ، 255) جن جن چیزوں کو بھی انسان اپنی علمی دریافت سمجھتا ہے، درحقیقت وہ پہلے اس کے علم میں نہ تھیں، اللہ تعالیٰ ہی نے جب چاہا ان کا علم اسے دیا بغیر اس کے کہ انسان یہ محسوس کرتا کہ یہ علم اللہ اسے دے رہا ہے۔

یہاں تک وہ آیات ہیں جو سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، یہ پہلا تجربہ اتنا سخت تھا کہ حضور اس سے زیادہ کے متحمل نہ ہوسکتے تھے۔ اس لیے اس وقت صرف یہ بتانے پر اکتفا کیا گیا کہ وہ سب جس کو آپ پہلے سے جانتے اور مانتے ہیں، آپ سے براہ راست مخاطب ہے، اس کی طرف سے آپ پر وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، اور آپ کو اس نے اپنا نبی بنا لیا ہے، اس کے ایک مدت بعد سورة مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں آپ کو بتایا گیا کہ نبوت پر مامور ہونے کے بعد اب آپ کو کام کیا کرنا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المدثر، دیباچہ)

جونا گڑھی

جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

n/a

كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَىٰ

امین احسن اصلاحی

ہرگز نہیں، بے شک انسان سرکشی کر رہا ہے

یہ ان کے اس رویہ کا بیان ہے جو انھوں نے اس ہدایت کے معاملے میں اختیار کیا۔ فرمایا کہ وہ اس رحمت کی قدر کرنے کے بجائے نہایت سرکشی کے ساتھ اس کی تکذیب کر رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو جو مال و اسباب حاصل ہے اس کو پا کر وہ اب خدا سے اپنے کو بالکل مستغنی خیال کرنے لگے ہیں۔

قریش کے رویہ کا بیان: اس آیت کا آغاز ’کَلَّا‘ سے جو ہوا ہے اس سے مقصود قریش کی ان سخن سازیوں کی تردید ہے جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی تکذیب کے لیے کرتے تھے۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کے مقابلے میں جو باتیں یہ بناتے ہیں، وہ کچھ نہیں، اے پیغمبر)، ہرگز نہیں۔ انسان یقیناً سرکشی کر رہا ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے۔

یعنی ایسا ہرگز نہ ہونا چاہیے کہ جس خدائے کریم نے انسان پر اتنا بڑا کرم فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں وہ جہالت برت کر وہ رویہ اختیار کرے جو آگے بیان ہورہا ہے۔

جونا گڑھی

سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔

n/a

أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَىٰ

امین احسن اصلاحی

اپنے تئیں، بے نیاز سمجھ کر

فرمایا کہ ان کی یہ سخن سازیاں محض حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے ہیں۔ ان کے انکار کی اصل علت ہے تو خدا سے ان کی بے نیازی اور دنیا کی محبت لیکن نمائش یہ کر رہے ہیں کہ گویا ان کے پاس کچھ شبہات ہیں جن کا کوئی تسلی بخش جواب ان کو نہیں مل رہا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِس لیے کہ اپنے آپ کو اُس نے بے نیاز سمجھ لیا ہے

یعنی دنیا کا مال و منال اور ترقی و کامیابی حجاب بن گئی ہے اور لوگ اپنے آپ کو خدا سے مستغنی خیال کرنے لگے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اِس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔

یعنی یہ دیکھ کر کہ مال، دولت، عزت و جاہ اور جو کچھ بھی دنیا میں وہ چاہتا تھا وہ اسے حاصل ہوگیا ہے، شکر گزار ہونے کے بجائے وہ سرکشی پر اتر آتا ہے اور حد بندگی سے تجاوز کرنے لگتا ہے۔

جونا گڑھی

اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو بےپرواہ (یا تونگر) سمجھتا ہے۔

n/a

إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ الرُّجْعَىٰ

امین احسن اصلاحی

بے شک تیرے خداوند ہی کی طرف لوٹنا ہے

’رُجْعٰی‘ مصدر ہے ’بُشْرٰی‘ کے وزن پر، لوٹنے کے معنی میں۔

تنبیہ اور آخرت کی یاددہانی: فرمایا کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں کرنے دو بالآخر ان کو لوٹنا تمہارے رب ہی کی طرف ہے جس سے یہ مستغنی اور بے خوف ہیں۔ اس وقت ان کے طغیان کی حقیقت ان کے سامنے کھل جائے گی۔ اگر ان کو گمان ہے کہ ان کے مزعومہ شرکاء ان کے مولیٰ و مرجع بنیں گے تو ان کے اس وہم سے بھی پردہ اٹھ جائے گا۔ اس دن بادشاہی صرف اللہ کی ہو گی اور اس کی پکڑ سے پناہ دینے والا کوئی نہیں ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

(اُس کو سمجھنے دو)، اُسے (ایک دن) تیرے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

پلٹنا یقیناً تیرے رب ہی کی طرف ہے۔

یعنی خواہ کچھ بھی اس نے دنیا میں حاصل کرلیا ہو جس کے بل پر وہ تمرد اور سرکشی کر رہا ہے۔ آخر کار اسے جانا تو تیرے رب ہی کے پاس ہے۔ پھر اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس روش کا انجام کیا ہوتا ہے۔

جونا گڑھی

یقیناً لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے۔

n/a

أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ

امین احسن اصلاحی

ذرا دیکھو تو اس کو جو روکتا ہے

قریش کے گنڈوں کے طغیان کی ایک مثال: یہ ان کے اس طغیان کی ایک مثال بیان ہوئی ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ فرمایا کہ بھلا دیکھو تو اس کو جو ایک بندے کو روکتا ہے جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے! یہ قریش کے ان اشقیاء کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی نماز سے روکتے تھے۔ بندے پر اس کے رب کا اولین حق اس کی بندگی ہے اور بندگی میں اولین درجہ نماز کا ہے اس وجہ سے جو بندہ نماز پڑھ رہا ہے وہ اپنے رب کا سب سے بڑا حق ادا کر رہا ہے اور سزاوار ہے کہ سب اس کے اس کام کو عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھیں اور اس کے عمل کو قابل تقلید جانیں۔ اگر کوئی اس چیز سے روکنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ بندے کو سب سے بڑے فرض اور خدا کے سب سے بڑے حق سے روک رہا ہے۔

’اَرَءَ یْتَ‘ کے اسلوب پر ہم جگہ جگہ لکھ چکے ہیں کہ یہ اس وقت لاتے ہیں کہ جب کسی کی نہایت نامناسب حرکت پر لوگوں کو توجہ دلانی یا اس پر نکیر کرنی ہو۔ جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں ’بھلا دیکھا تم نے اس کو، کیا تم نے اس کا حال دیکھا، ذرا اس کو تو دیکھو‘۔
’اَلَّذِیْ‘ سے ضروری نہیں کہ کوئی ایک معین شخص ہی مراد ہو بلکہ یہ اس طرح کی بے ہودہ حرکت کرنے والوں کو ممثل کر دینے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی وضاحت ہم اس کے محل میں کر چکے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز سے روکنے والا ابوجہل ہی نہیں تھا بلکہ دوسرے گنڈے بھی تھے اور یہ گنڈے صرف حضور ہی کی نمازوں میں مزاحم نہیں ہوتے تھے بلکہ اللہ کے دوسرے بندوں کے ساتھ بھی وہ اسی طرح کی بدتمیزیاں کرتے تھے۔

جاوید احمد غامدی

تم نے دیکھا اُسے جو (خدا کے) ایک بندے کو روکتا ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

تم نے دیکھا اس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے

n/a

جونا گڑھی

(بھلا) اسے بھی تو نے دیکھا جو بندے کو روکتا ہے۔

n/a
عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰ

امین احسن اصلاحی

ایک بندے کو، جب وہ نماز پڑھتا ہے

قریش کے گنڈوں کے طغیان کی ایک مثال: یہ ان کے اس طغیان کی ایک مثال بیان ہوئی ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ فرمایا کہ بھلا دیکھو تو اس کو جو ایک بندے کو روکتا ہے جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے! یہ قریش کے ان اشقیاء کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی نماز سے روکتے تھے۔ بندے پر اس کے رب کا اولین حق اس کی بندگی ہے اور بندگی میں اولین درجہ نماز کا ہے اس وجہ سے جو بندہ نماز پڑھ رہا ہے وہ اپنے رب کا سب سے بڑا حق ادا کر رہا ہے اور سزاوار ہے کہ سب اس کے اس کام کو عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھیں اور اس کے عمل کو قابل تقلید جانیں۔ اگر کوئی اس چیز سے روکنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ بندے کو سب سے بڑے فرض اور خدا کے سب سے بڑے حق سے روک رہا ہے۔

جاوید احمد غامدی

جب وہ نماز پڑھتا ہے؟

بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ اب اُن کی سرکشی کو ممثل کرکے دکھا دیا ہے کہ قرآن کی دعوت پر خدا کے آگے سجدہ ریز ہونا تو ایک طرف، یہ ایسے ظالم ہیں کہ خدا کے ایک بندے کو سجدوں سے روک دینے پر اتر آئے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو؟

بندے سے مراد خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اس طریقے سے حضور کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے، مثلا سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا (بنی اسرائیل 1) ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک “۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ (الکہف۔ 1) ” تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی ” وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا (الجن 19) ” اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو لوگ پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے ” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص محبت کا انداز ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر فرماتا ہے۔ علاوہ بریں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے منصب پر سرفراز فرمانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھا دیا تھا۔ اس طریقے کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ اے نبی تم اس طرح نماز پڑھا کرو۔ لہذا یہ اس امر کا ایک اور ثبوت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسی باتوں کی تعلیم دی جاتی تھی جو قرآن میں درج نہیں ہیں۔

جونا گڑھی

جبکہ وہ بندہ نماز ادا کرتا ہے ۔

 مفسرین کہتے ہیں کہ روکنے والے سے مراد ابو جہل ہے جو اسلام کا شدید دشمن تھا۔ 

Page 1 of 2 pages  1 2 >