الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ

امین احسن اصلاحی

شکر کا سزاوار اللہ ہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور بنایا تاریکیوں اور روشنی کو، پھر تعجب ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنے رب کے ہم سر ٹھہراتے ہیں۔

توحید کی دلیل عرب کے مسلمات سے: لفظ ’حمد‘ کی تحقیق تفسیر سورۂ فاتحہ میں گزر چکی ہے اور یہ بات بھی اس کتاب میں بار بار بیان ہو چکی ہے کہ مشرکین عرب آسمان و زمین اور نور و ظلمت سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ یہاں قرآن نے ان کے اسی مسلمہ پر توحید کی دلیل قائم کی ہے کہ جب یہ تسلیم ہے کہ آسمانوں اور زمین اور نور و ظلمت کا خالق اللہ ہی ہے تو پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہ کفار دوسروں کو خدا کا ہم سر اور شریک ٹھہراتے ہیں۔ ’ثُمَّ‘ اظہار تعجب کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں اور آگے والی آیت میں بھی، اظہار تعجب ہی کے مفہوم میں ہے۔ شرک پر اظہار تعجب کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب ساری چیزوں کا خالق خدا ہی ہے تو پھر شرک کی گنجائش کہاں سے نکلی؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کائنات کی چیزوں میں بظاہر جو تضاد نظرآتا ہے مثلاً زمین اور آسمان، روشنی اور تاریکی، سردی اور گرمی، تو اس تضاد کے اندر اس کائنات کے مجموعی مقصد کے لیے ایسی حیرت انگیز سازگاری بھی ہے کہ کوئی عاقل تصور نہیں کر سکتا کہ ان میں سے ہر ایک کے خالق و مالک الگ الگ ہیں۔ بلکہ ہر صاحب نظر یہ ماننے پر مجبور ہے کہ پوری کائنات ایک ہی کارفرما کے ارادے اور مشیت کے تحت حرکت کر رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

شکر اللہ ہی کے لیے ہے جس نے زمین و آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر تعجب ہے کہ یہ منکرین اپنے پروردگار کے ہم سر ٹھیراتے ہیں!

اصل میں لفظ ’اَلْحَمْدُ‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں یہ کسی کی خوبیوں اور کمالات کے اعتراف کے لیے بولا جاتا ہے۔ پھر اِن خوبیوں اور کمالات کا فیض اگر حمد کرنے والے کو بھی پہنچ رہا ہو تو اِس میں شکر کا مفہوم آپ سے آپ شامل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سورۂ اعراف (۷) آیت ۴۳، سورۂ یونس (۱۰) آیت ۱۰ اور سورۂ ابراہیم (۱۴) آیت ۳۹ میں اِس کے نظائرسے واضح ہوتا ہے کہ ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘ کی ترکیب میں یہ بالعموم اُسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے ہم لفظ شکر سے ادا کرتے ہیں۔

یہ مشرکین عرب کے مسلمہ سے استدلال فرمایا ہے کہ جب وہ زمین و آسمان اور نور و ظلمت سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں تو پھر کیسی عجیب بات ہے کہ اُسی کے شریک ٹھیرانے کی جسارت کرتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...شرک پر اظہار تعجب کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب ساری چیزوں کا خالق خدا ہی ہے تو پھر شرک کی گنجایش کہاں سے نکلی؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس کائنات کی چیزوں میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے، مثلاً زمین اور آسمان، روشنی اور تاریکی، سردی اور گرمی ، تو اِس تضاد کے اندر اِس کائنات کے مجموعی مقصد کے لیے ایسی حیرت انگیز سازگاری بھی ہے کہ کوئی عاقل تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اِن میں سے ہر ایک کے خالق و مالک الگ الگ ہیں۔ بلکہ ہر صاحب نظر یہ ماننے پر مجبور ہے کہ پوری کائنات ایک ہی کارفرما کے ارادے اور مشیت کے تحت حرکت کر رہی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۷)

ابو الاعلی مودودی

تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے، وہی دن نکالتا اور رات لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات یا ہبل یا عُزّیٰ یا کسی اور دیوی یا دیوتا کے ہیں۔ اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ نادانو ! جب تم خود یہ مانتے ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اور گردش لیل و نہار کا فاعل اللہ ہے تو یہ دوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے سجدے کرتے ہو، نذریں اور نیازیں چڑھاتے ہو، دعائیں مانگتے ہو اور اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو۔ (ملاحضہ ہو سورة فاتحہ حاشیہ نمبر ٢ ۔ سورة بقرہ حاشیہ نمبر ١٦٣)

روشنی کے مقابلہ میں تاریکیوں کو بصیغہ جمع بیان کیا گیا، کیونکہ تاریکی نام ہے عدم نور کا اور عدم نور کے بیشمار مدارج ہیں۔ اس لیے نور واحد ہے اور تاریکیاں بہت ہیں۔

جونا گڑھی

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں۔

ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی قسمیں بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی قسموں میں شامل ہے (فتح القدیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔

١۔ ٢ یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ۖ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک مدّت ٹھہرائی اور مدت مقررہ اسی کے علم میں ہے، پھر تعجب ہے کہ تم کج بحثیاں کرتے ہو!

’خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ‘ سے مقصود انسان کی ابتدائی خلقت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ فرمایا:

وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ.(۷۔ السجدہ)
(اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا)

تمام ارضی مخلوقات کی زندگی کا آغاز مٹی ہی سے ہوا ہے۔ اس مضمون کو قرآن نے باربار مختلف شکلوں سے بیان کیا ہے اور اس سے عام طور پر دو حقیقتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، ایک تو انسان کی بے حقیقتی کی طرف کہ مٹی سے پیدا ہونے والی مخلوق کو اپنی ہستی پر زیادہ مغرور نہیں ہونا چاہیے، دوسرے مرنے کے بعد پیدا کیے جانے پر کہ جب انسان کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا اور اس پیدا کرنے میں اس کو کوئی دشواری پیش نہیں آئی تو اب دوبارہ اس کے پیدا کرنے سے وہ کیوں عاجز رہے گا۔ یہاں اسی دوسری حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اس کا ذکر ہوا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے:

وَاِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ ءَ اِذَا کُنَّا تُرَابًا ءَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۔(۵۔ الرعد)
(اور اگر تم تعجب کرنا چاہو تو نہایت ہی عجیب ہے ان کی یہ بات کہ جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا دوبارہ نئی خلقت میں آئیں گے!)

کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗط وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ۔(۱۰۴۔ انبیا)
(جس طرح ہم نے پہلی بار مٹی سے بنایا اسی طرح مٹی ہو جانے کے بعد دوبارہ اس کو پیدا کر دیں گے، یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے، یہ ہم کر کے رہیں گے)

وَھُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَھُوَ اَھْوَنُ عَلَیْہِ۔(۲۷۔ روم)
(اور وہی ہے جو خلق کا آغاز کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اعادہ اس کے لیے سہل ہے)

’اجل‘ کے مختلف مفہوم: ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلاً، ’اجل‘ کے معنی مدت مقررہ کے ہیں۔ ’اجل‘ یا ’اَجَلٌ مُّسَمَّی‘ کا لفظ فرد یا اقوام کے تعلق سے مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک تو اس مدت حیات کے لیے جو ہر فرد کو تقدیر کی طرف سے ملی ہے، دوسرے اس روز بعث کے لیے استعمال ہوا ہے جو کسی قوم کی ہلاکت کے لیے مقرر ہے۔ پہلے معنی کے لیے نظیر آیت زیربحث میں بھی ہے اور اسی سورہ کی آیت ۶۰ میں بھی۔ فرمایا ہے:

وَھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِاللَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔(۶۰)
(اور وہی خدا ہے جو تمھیں وفات دیتا ہے شب میں اور وہ جاتنا ہوتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کیا ہوتا ہے، پھر وہ تم کو دوسرے دن اٹھاتا ہے تاکہ تمھاری مقررہ مدت پوری کی جائے، پھر اسی کی طرف تمھارا لوٹنا ہوگا، پھر وہ تم کو آگاہ کرے گا ان سارے کاموں سے جو تم کرتے رہے ہو)

دوسرے معنی کے لیے نظیر آیت زیر بحث میں ہے۔ اس میں ’اجل‘ کا ذکر دو مرتبہ ہے۔ ایک اجل تو ظاہر ہے کہ وہی ہے جو ہر فرد کی مدت حیات کے طور پر مقرر ہے، دوسری ’اجل‘ جس کے ساتھ ’مُسَمَّی‘ کی صفت لگی ہوئی ہے قرینہ دلیل ہے کہ اس سے وہ مدت مقررہ مراد ہے جو خلق کے اُٹھائے جانے کے لیے مقرر ہے۔ تیسرے معنی کے لیے نظیر آیت لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌج فَاِذَا جَآءَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۔ (۳۴۔ اعراف)، اور اس مضمون کی دوسری آیات میں ہے۔ اس ’اجل‘ سے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، وہ مقررہ پیمانہ مراد ہے جو کسی قوم کے اخلاقی زوال کی اس آخری حد کی خبر دیتا ہے جب قانون الٰہی اس کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہ پیمانہ افراد کی مدت حیات کی طرح نہیں ہے کہ کوئی نیک ہو یا بد، جو مدت حیات اس کے لیے مقرر ہے اس کے ختم ہو جانے پر وہ لازماً مر جاتا ہے بلکہ یہ اخلاقی قوانین کے تابع ہے، جب تک کوئی قوم اپنے ایمان و کردار کو محفوظ رکھے گی خدا اس کو قائم رکھے گا، یہاں تک کہ وہ اجل مسمّی آجائے جو اس پوری کائنات کے لیے خدا کی طرف سے مقرر ہے۔ اس پیمانہ کے اخلاقی ہونے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک قوم کا پیمانہ لبریز ہونے کی آخری حد پر پہنچ رہا ہو اور اس کی اجل مسمّی آئی کھڑی ہو لیکن سوئی کے آخری نقطہ پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ قوم توبہ اور اصلاح کے ذریعہ سے اپنے زندہ رہنے کا حق پھر بحال کر لے۔ یہاں ہم اشارے پر کفایت کرتے ہیں انشاء اللہ سورۂ نوح کی تفسیر میں اس نکتہ پر تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے۔
’امتراء‘، ’مری‘ سے ہے جس کے معنی متھنے، مسلنے، نچوڑنے کے ہیں ’امتری اللبن‘ کے معنی ہوں گے اس نے تھن سے دودھ نچوڑا۔ یہیں سے یہ لفظ اس بحث و جدال کے لیے استعمال ہوا جس میں کوئی کٹ حجتی کرنے والا مناظر اس بات میں سے بھی شک و اعتراض کا کوئی پہلو نکال ہی لے جس میں اعتراض و بحث کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہی خدا ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے تمھیں بھی انکار نہیں۔ پھر ہر ایک کے لیے اس نے زندگی کی ایک مدت ٹھہرا دی۔ یہ نہیں ہے کہ جو پیدا ہوتا ہو وہ غیرفانی ہو کر پیدا ہوتا ہو، پھر اس میں کیا شک کی گنجائش ہے کہ جس خدا نے تمھیں مٹی سے بنایا وہ تمھیں دوبارہ اسی مٹی سے اٹھا کھڑا کرے گا۔ اس کے لیے اس نے ایک مدت مقرر کر رکھی ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے جس میں کسی بحث و جدال کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن تم ہر بات میں کٹ حجتی کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہو۔

جاوید احمد غامدی

وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر (تمھارے لیے) ایک مدت ٹھیرا دی اور ایک دوسری مدت بھی ہے جو اُس کے ہاں مقرر ہے۔ تعجب ہے کہ اِس کے بعد بھی کج بحثیاں کرتے ہو!

مطلب یہ ہے کہ وہی خدا ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا تم انکار نہیں کر سکتے۔ پھر یہ بھی جانتے ہو کہ ہر ایک کے لیے جینے کی ایک مدت مقرر کر دی گئی ہے۔ اِن حقائق کو سمجھتے ہو تو اِس بات میں شک کی گنجایش کہاں سے پیدا ہو جاتی ہے کہ جس خدا کو پہلی مرتبہ تمھیں مٹی سے پیدا کر دینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، وہ مرنے کے بعد اِسی مٹی سے تمھیں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا؟ تم میں سے ہر ایک کے لیے موت ہے تو اِس بعث و نشر کے لیے بھی ایک دوسری مدت ہے جو اُسی نے مقرر کر رکھی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جواس کے ہاں طے شدہ ہے۔ مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو۔

انسانی جسم کے تمام اجزاء زمین سے حاصل ہوتے ہیں، کوئی ایک ذرہ بھی اس میں غیر ارضی نہیں ہے، اس لیے فرمایا کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔

یعنی قیامت کی گھڑی جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان از سر نو زندہ کیے جائیں گے اور حساب دینے کے لیے اپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے۔

جونا گڑھی

وہ ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا پھر ایک وقت معین کیا اور دوسرا معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے پھر بھی تم شک رکھتے ہو۔

  یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے تم جو خوراک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جا کر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔

 ٰ یعنی موت کا وقت۔

 یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمٰی ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہوجائے گا۔

 یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفار و مشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح سے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا۔ ( سورة یسین) 

وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ

امین احسن اصلاحی

اور وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور وہی زمین میں بھی۔ وہ تمھارے خفیہ اور علانیہ کو جانتا ہے اور جو کمائی تم کر رہے ہو اسے بھی جانتا ہے۔

’وَہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وِفِی الْاَرْضِ الایۃ‘ یعنی زمین و آسمان میں الگ الگ الٰہ نہیں ہیں بلکہ وہی اللہ آسمان و زمین دونوں کا مالک ہے اور دونوں میں اسی کا حکم چل رہا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے:

وَھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰہٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰہٌ وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ۔ (۸۴۔ زخرف)
(وہی ہے جو آسمان کا بھی معبود ہے اور وہی زمین کا بھی معبود ہے اور وہ علیم و حکیم ہے)

آسمان و زمین دونوں کا قیام و بقا ہی اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ ان دونوں کے اندر ایک ہی خدا کا ارادہ کارفرما ہے۔ اگر ان کے اندر الگ الگ ارادے کارفرما ہوتے تو، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے، دونوں درہم برہم ہو جاتے۔ یہ مشرکین کے اس خیال کی تردید ہے کہ آسمان و زمین کا خالق تو خدا ہی ہے لیکن چونکہ زمین اس کی مملکت کا دور دراز حصہ ہے اس وجہ سے اس نے اس کا انتظام و انصرام اپنے دوسرے کارندوں کے سپرد کررکھا ہے۔ فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے۔ آسمان و زمین سب براہ راست اسی کے کنٹرول میں ہیں اور اس کا علم تمھارے ظاہر و باطن اور تمھارے قول و فعل ہر چیز پر محیط ہے اس وجہ سے اس کو اپنی اس مملکت میں کسی مددگار کی احتیاج بھی نہیں ہے۔
توحید اور معاد کا باہمی تعلق: توحید کا یہ مضمون اوپر قیامت والے مضمون کی تاکید ہے۔ یہ حقیقت قرآن میں بار بار واضح کی گئی ہے کہ قیامت کا ماننا اس لیے ضروری ہے کہ قیامت کو مانے بغیر یہ سارا کارخانہ ایک کھلنڈرے کا کھیل بن کے رہ جاتا ہے اور یہی بات اس صورت میں بھی لازم آتی ہے جب قیامت کے ساتھ شرک اور شفاعت باطل کی گنجائش تسلیم کر لی جائے۔ اس لیے کہ جب شرکا اپنے پرستاروں کو بہر صورت بخشوا لیں گے، جیسا کہ مشرکین کا دعویٰ ہے، خواہ ان کے اعمال کچھ ہی ہوں تو پھر قیامت کا آنا نہ آنا دونوں یکساں ہی رہا۔

جاوید احمد غامدی

وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔ وہ تمھارے کھلے اور چھپے سے واقف ہے اور جو کمائی تم کر رہے ہو، اُسے بھی جانتا ہے۔

یعنی تمھارا یہ رویہ اگر اِس بھروسے پر ہے کہ زمین کا نظم و نسق کچھ دوسرے خداؤں کے سپرد ہے، تم اُن کے پرستار ہو، اِس لیے وہ تمھیں بخشوا لیں گے تو یہ غلط فہمی دور کر لو۔ زمین و آسمان دونوں کا خدا ایک ہی ہے اور دونوں میں اُسی کا حکم چل رہا ہے۔ تمھارے کھلے اور چھپے، سب احوال بھی اُس کے علم میں ہیں اور تمھارے اعمال سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ کسی میں یارا نہیں کہ اُس کے علم میں کوئی اضافہ کرسکے۔ متنبہ ہو جاؤ، اُس کی بارگاہ میں کسی شفاعت باطل کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہی ایک خدا آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی، تمہارے کھلے اور چھپے سب حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو اس سے خوب واقف ہے۔

n/a

جونا گڑھی

اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال کو بھی اور تمہارے ظاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے ۔

 اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے، جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے۔ یعنی اس کے علم و خبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ دلیل بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں میں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو سب کو جانتا ہے (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مثلا تفسیر طبری و ابن کثیر وغیرہ۔ 

وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ

امین احسن اصلاحی

اور نہیں آتی ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی مگر یہ اس سے اعراض کرنے والے بنے ہوئے ہیں۔

تکذیبِ حق کا انجام اور تاریخ کی شہادت: یعنی توحید اور قیامت کی ان باتوں کی تکذیب کی کوئی گنجائش تو نہیں ہے لیکن یہ لوگ اللہ کی آیات سے اعراض کر رہے ہیں اور اس طرح انھوں نے اس حق کو جھٹلا دیا ہے جو اللہ کی طرف سے ان کے پاس آیا ہے، تو عنقریب اس چیز کی خبریں ان کے پاس آئیں گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہاں ’حق‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔ قرآن، پیغمبر کی تکذیب کی صورت میں جس عذاب سے ڈرا رہا تھا لوگ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ فرمایا کہ جس عذاب کا مذاق اڑا رہے ہیں اس کے آثار کے ظہور میں زیادہ دیر نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کے پاس اُن کے پروردگار کی نشانیوں میں سے جو نشانی بھی آتی ہے، وہ اُس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی ایسی نہیں جو ان کے سامنے آئی ہو اور انہوں نے اس سے منہ نہ موڑ لیا ہو۔

n/a

جونا گڑھی

اور ان کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے نہیں آتی مگر وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں

فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

امین احسن اصلاحی

سو انھوں نے واضح حق کو بھی جُھٹلا دیا جب کہ وہ اُن کے پاس آیا تو عنقریب اس چیز کی خبریں ان کے پاس آئیں گی جس کا وہ مذاق اُڑاتے رہے ہیں۔

تکذیبِ حق کا انجام اور تاریخ کی شہادت: یعنی توحید اور قیامت کی ان باتوں کی تکذیب کی کوئی گنجائش تو نہیں ہے لیکن یہ لوگ اللہ کی آیات سے اعراض کر رہے ہیں اور اس طرح انھوں نے اس حق کو جھٹلا دیا ہے جو اللہ کی طرف سے ان کے پاس آیا ہے، تو عنقریب اس چیز کی خبریں ان کے پاس آئیں گی جس کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہاں ’حق‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔ قرآن، پیغمبر کی تکذیب کی صورت میں جس عذاب سے ڈرا رہا تھا لوگ اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ فرمایا کہ جس عذاب کا مذاق اڑا رہے ہیں اس کے آثار کے ظہور میں زیادہ دیر نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

سو اُنھوں نے (اِس وقت بھی) حق کو جھٹلادیا ہے، جب کہ وہ اُن کے پاس آگیا ہے۔ اِس لیے عنقریب اُس چیز کی خبریں اُن کے پاس آجائیں گی جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔

یہاں ’حق‘ سے قرآن مجید مراد ہے۔

یعنی خدا کا عذاب جس کی وعید تمام رسولوں نے اپنی قوموں کو سنائی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

چنانچہ اب جو حق ان کے پاس آیا تو اسے بھی انہوں نے جھٹلا دیا۔ اچھا، جس چیز کا وہ اب تک مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب اس کے متعلق کچھ خبریں انہیں پہنچیں گی۔

اشارہ ہے ہجرت اور ان کامیابیوں کی طرف جو ہجرت کے بعد اسلام کو پے در پے حاصل ہونے والی تھیں۔ جس وقت یہ اشارہ فرمایا گیا تھا اس وقت نہ کفار یہ گمان کرسکتے تھے کہ کس قسم کی خبریں انہیں پہنچنے والی ہیں اور نہ مسلمانوں ہی کے ذہن میں اس کا کوئی تصور تھا۔ بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی آئندہ کے امکانات سے بیخبر تھے۔

جونا گڑھی

انہوں نے اس سچی کتاب کو بھی جھٹلایا جب کہ وہ ان کے پاس پہنچی، سو جلد یہی ان کو خبر مل جائے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ مذاق کیا کرتے تھے ۔

 یعنی اس نکتہ چینی اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش ! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استھزا نہ کرتے۔ 

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ

امین احسن اصلاحی

کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر دیا جن کو ہم نے ملک میں وہ قوت و سطوت دے رکھی تھی جو تم کو نہیں دی اور ہم نے اُن پر خوب مینہ برسائے اور نہریں جاری کیں جو ان کے نیچے بہتی تھیں، پھر ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کر دیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری قومیں اُٹھا کھڑی کیں۔

یہ تاریخ کی شہادت پیش کی گئی ہے اوپر والے دعوے پر۔ مطلب یہ ہے کہ قریش کو یہ غرہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کو بڑی قوت و شوکت حاصل ہے، ان کو ہلایا نہیں جا سکتا۔ ان سے پہلے کتنی قومیں گزری ہیں جن کو ان سے زیادہ اقتدار حاصل ہوا، ان کو رزق و فضل میں سے بھی ان سے کہیں زیادہ حصہ ملا لیکن جب اُنھوں نے رسولوں کی تکذیب کی تو خدا نے ان کو ہلاک کر دیا اور ان کے بعد ان کی جگہ دوسری قومیں اٹھا کھڑی کیں۔ یہاں تاریخ کا یہ حوالہ اجمال کے ساتھ آیا ہے۔ اس کی پوری تفصیل اعراف میں آئے گی جو اس سورہ کے مثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں کہ ’سما‘ کا لفظ بادلوں کے لیے بھی آتا ہے۔ ’مِدْرَارًا‘ کے اندر مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے اور بارش کی کثرت رزق و فضل کی کثرت کی تعبیر ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ ہود آیت ۵۲ اور سورۂ نوح آیت ۱۱۔

جاوید احمد غامدی

کیا اُنھوں نے دیکھا نہیں کہ اُن سے پہلے کتنی قومیں ہم نے ہلاک کر دیں جنھیں زمین پر ہم نے وہ اقتدار بخشا تھا جو تمھیں نہیں بخشا ہے، اُن پر ہم نے خوب مینہ برسائے اور اُن کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر وہ جھٹلانے پر مصر رہے) تو اُن کے گناہوں کی پاداش میں بالآخر ہم نے اُنھیں ہلاک کر دیا اور اُن کے بعد اُن کی جگہ دوسری قوموں کو اٹھا کھڑا کیا۔

اوپر جو دعویٰ کیا گیا ہے، یہ اُس پر تاریخ کی شہادت پیش کر دی ہے۔ سورۂ اعراف میں اِس کی تفصیلات آئیں گی جو اِس سورہ کے مثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دورہ رہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفران نعمت کیا تو) آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا۔

n/a

جونا گڑھی

کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔ پھر ہم نے ان کو گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کردیا ۔

 یعنی جب گناہوں کی پاداش میں تم سے پہلی امتوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں درآں حالیکہ وہ طاقتور و قوت میں بھی تم سے کہیں زیادہ تھیں اور خوش حالی اور وسائل رزق کی فروانی میں بھی تم سے بڑھ کر تھیں، تو تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے ؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی قوم کی محض مادی ترقی اور خوش حالی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بہت کامیاب و کامران ہے۔ یہ استدارج وامہال کی وہ صورتیں ہیں جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ قوموں کو عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب یہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو پھر یہ ساری ترقیاں اور خوش حالیاں انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ 

 تاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں۔ 

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ

امین احسن اصلاحی

اور اگر ہم تم پر کوئی ایسی کتاب اتارتے جو کاغذ میں لکھی ہوئی ہوتی اور یہ اس کو اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے جب بھی یہ کفر کرنے والے یہی کہتے کہ یہ تو بس ایک کھلا ہوا جادو ہے۔

خُوئے بدرا بہانہ بسیار: اوپر آیت ۴ میں قرآن سے ان کے اعراض کا جو ذکر فرمایا تو یہ ان کے ان مطالبات و اعتراضات کا جواب بھی دے دیا جو وہ اس اعراض کے لیے بطور بہانہ کے پیش کرتے تھے۔ مقصود اس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ یہ نہ خیال کرو کہ ان کے اعراض کے لیے فی الواقع کوئی عذر ہے، جو دور ہو جائے تو یہ قرآن کو مان لیں گے۔ نہیں، بات وہیں رہے گی جہاں اب ہے۔ یہ کوئی نہ کوئی نیا بہانہ تراش لیں گے اس لیے کہ نہ ماننے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انھیں معجزے نہیں دکھائے گئے بلکہ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ اپنی خواہشوں کے خلاف کوئی بات ماننے کے لیے یہ تیار نہیں ہیں۔

لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ الایۃ۔ یہ اس مطالبے کا جواب ہے جو اہل کتاب کی زبانی سورۂ نساء آیت ۱۵۴ میں نقل ہوا ہے۔ وہاں اس کا وہ جواب دیا ہے جو اہل کتاب کے لیے موزوں تھا۔ یہاں فرمایا کہ ان کے مطالبہ کے مطابق اگر فی الواقع ان پر لکھی لکھائی مابین الدفتین کتاب بھی اتار دی جاتی جب بھی یہ ایمان نہ لاتے بلکہ کہتے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

جاوید احمد غامدی

تم پر، (اے پیغمبر)، اگر ہم کوئی ایسی کتاب اتار دیتے جو کاغذ پر لکھی ہوئی ہوتی اور یہ اُس کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ بھی لیتے، تب بھی یہ منکرین یہی کہتے کہ یہ کھلے ہوئے جادو کے سوا کچھ نہیں ہے۔

یہاں سے آگے اُن اعتراضات اور مطالبات کا جواب دیا ہے جو منکرین اپنے اعراض کے لیے بہانے کے طور پر پیش کر رہے تھے۔

یعنی اعراض کا سبب چونکہ وہ نہیں جو بیان کر رہے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ اپنی خواہشوں کے خلاف کوئی بات ماننا نہیں چاہتے، اِس لیے اِن کا یہ مطالبہ پورا بھی کر دیا جائے تو اِسی طرح کی باتیں کریں گے۔ یاد رہے کہ یہ اُسی طرح کے مطالبے کاجواب ہے جو اہل کتاب کی زبان سے سورۂ نساء (۴) کی آیت ۱۵۴ میں نقل ہو چکا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اے پیغمبرؐ! اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔

n/a

جونا گڑھی

اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب بھی یہ کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ کچھ بھی نہیں مگر صریح جادو ہے

  یہ ان کے عناد جحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتہ الہٰی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہونگے اور اسے ایک سحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے۔ ولو فتحنا علیہم بابا من السماء فظلو فیہ یعرجون لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون (الحجر) اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس پر چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (وَاِنْ يَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا يَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ) 052:044 اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہ بہ تہ بادل ہیں۔ یعنی عذاب الہی کی کو‏ئی نہ کوئی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الہی کا کو‏ئی دخل انھیں تسلیم کرنا نہ پڑے حالانکہ کا‏ئنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ 

وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُونَ

امین احسن اصلاحی

اور یہ کہتے ہیں کہ اس پر علانیہ کوئی فرشتہ کیوں نہیں اترتا اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو بس معاملے کا فیصلہ ہی ہو جاتا۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ ملتی۔

معتبر ایمان کی شرط: وَقَالُوْا لَوْلَآاُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ الآیۃ۔ یہ ان کا ایک دوسرا مطالبہ اور اس کا جواب ہے۔ یہ مطالبہ بھی قرآن میں دوسری جگہ نقل ہوا ہے۔ یہ مطالبہ یہ تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر فرشتہ آتا ہے، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو وہ فرشتہ یوں کیوں آتا ہے کہ صرف انھی کو نظر آتا ہے، کھلم کھلا ان کی نبوت کی منادی کرتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا کہ سب دیکھیں اور سب سنیں۔ اس کا جواب یہ دیا کہ جب بات یہاں تک پہنچ جائے گی کہ فرشتے علانیہ اترنے لگیں تو پھر اللہ کا عذاب آ دھمکے گا۔ پھر ان کو مہلت نہیں دی جائے گی۔ یہ اس سنت اللہ کی طرف اشارہ ہے جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ ایمان وہ معتبر ہے جو غیب میں رہتے، آفاق و انفس اور عقل و فطرت کے ان دلائل کی بنیاد پر لایا جائے، جن کی انبیاء دعوت دیتے ہیں نہ کہ وہ جو کشفِ حجاب اور حقائق کا بچشم سر مشاہدہ کر لینے کے بعد لایا جائے۔

جاوید احمد غامدی

کہتے ہیں کہ اِس نبی پر (علانیہ) کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ (یہ احمق نہیں سمجھتے کہ) اگر ہم نے کوئی فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک فیصلہ ہو جاتا، پھر اِن کو کوئی مہلت نہ ملتی۔

یہ اِس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا علم و عقل اور ارادہ و اختیار کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ جب پردے اٹھا دیے جائیں گے اور لوگ حقائق کو بچشم سر دیکھ لیں گے تو کسی کا ایمان اُس کے لیے نافع نہ ہو گا۔ ایمان وہی معتبر ہے جو غیب میں رہتے ہوئے اور عقل و فطرت کے اُن دلائل کی بنیاد پر لایا جائے جس کی دعوت انبیا علیہم السلام نے دی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی۔

یعنی جب یہ شخص خدا کی طرف سے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ اترنا چاہیے تھا جو لوگوں سے کہتا کہ یہ خدا کا پیغمبر ہے، اس کی بات مانو ورنہ تمہیں سزا دی جائے گی۔ جاہل معترضین کو اس بات پر تعجب تھا کہ خالق ارض و سماء کسی کو پیغمبر مقرر کرے اور پھر اس طرح اسے بےیارو مددگار، پتھر کھانے اور گالیاں سننے کے لیے چھوڑ دے۔ اتنے بڑے بادشاہ کا سفیر اگر کسی بڑے اسٹاف کے ساتھ نہ آیا تھا تو کم از کم ایک فرشتہ تو اس کی اردلی میں رہنا چاہیے تھا تاکہ وہ اس کی حفاظت کرتا، اس کا رعب بٹھاتا، اس کی ماموریت کا یقین دلاتا اور فوق الفطری طریقے سے اس کے کام انجام دیتا۔

یہ ان کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرلینے کے لیے جو مہلت تمہیں ملی ہوئی ہے یہ اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردہ غیب میں پوشیدہ ہے۔ ورنہ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا، پھر مہلت کا کوئی موقع باقی نہ رہے گا۔ اس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی تمہارے لیے ایک امتحان کا زمانہ ہے، اور امتحان اس امر کا ہے کہ تم حقیقت کو دیکھے بغیر عقل و فکر کے صحیح استعمال سے اس کا ادراک کرتے ہو یا نہیں، اور ادراک کرنے کے بعد اپنے نفس اور اس کی خواہشات کو قابو میں لا کر اپنے عمل کو حقیقت کے مطابق درست رکھتے ہو یا نہیں۔ اس امتحان کے لیے غیب کا غیب رہنا شرط لازم ہے، اور تمہاری دنیوی زندگی، جو دراصل مہلت امتحان ہے، اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک غیب، غیب ہے۔ جہاں غیب شہادت میں تبدیل ہوا، یہ مہلت لازماً ختم ہوجائے گی اور امتحان کے بجائے نتیجہ امتحان نکلنے کا وقت آپہنچے گا۔ لہٰذا تمہارے مطالبہ کے جواب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہارے سامنے فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں نمایاں کردیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ابھی تمہارے امتحان کی مدت ختم نہیں کرنا چاہتا۔ (ملاحظہ ہو سورة بقرہ حاشیہ نمبر ٢٢٨)

جونا گڑھی

اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اور اگر ہم فرشتہ بھی بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہوجاتا۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی جاتی ۔

 اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیاء و رسل بھیجے وہ انسانوں میں 

سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی و رسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضہ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے اور دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے۔ ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے (لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ) 003:164 اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث رہی وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں فرشتوں میں سے ہونا چاہیے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ تشابھت قلوبھم اہل کفر و شرک رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ان کے خاندان حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کرتے رہے جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے تو انھیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا جاتا۔ 

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ

امین احسن اصلاحی

اور اگر ہم اس کو کوئی فرشتہ بناتے جب بھی آدمی ہی کی شکل میں بناتے تو جو گھپلا وہ پیدا کر رہے ہیں ہم اسی میں ان کو ڈال دیتے۔

فرشتوں کو رسول بنا کر نہ بھیجنے کی مصالحت: وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا الایۃ یہ تیسرے مطالبے کا جواب ہے اور یہ بھی قرآن میں دوسری جگہ نقل ہوا ہے۔ مثلاً

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآءَ ھُمُُ الْھُآٰی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا۔(۹۴۔ اسراء)
(اور ہدایت الٰہی کے آ جانے کے بعد لوگوں کو ایمان سے نہیں روکا مگر اس چیز نے کہ انھوں نے اعتراض کیا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا)

فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ۔(۶۔ تغابن)
(پس وہ بولے کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے، پس انھوں نے انکار کر دیا اور پیٹھ پھیر لی اور اللہ بھی ان سے بے نیاز ہو گیا)

اس کا جواب یہ دیا کہ اگر رسول بالفرض فرشتہ ہی بھیجا جاتا جب بھی لازماً وہ آدمی ہی کی شکل و صورت میں ہوتا تو پھر وہی گھپلا پیش آ جاتا جو اب پیش آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر نہ بھیجنا اس بنا پر نہیں ہے کہ خدا کے لیے یہ ناممکن تھا بلکہ اس بنا پر ہے کہ انسان فرشتوں کو فرشتوں کی شکل میں نہیں انسانوں ہی کی شکل میں دیکھ سکتے اور اسی صورت میں ان سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں تو جب وہ انسان ہی کے روپ میں آتا تو یہ پھر وہی اعتراض اٹھاتے جو اب اُٹھا رہے ہیں۔ مَا یَلْبِسُوْنَ سے یہاں یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ بات نہیں ہے کہ فی الواقع یہ شبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ لوگ یہ شبہ پیدا کر رہے ہیں تاکہ اس طرح اپنے سادہ لوح پیرووں کو گھپلے میں ڈالیں۔ لَبَسْنَا میں فعل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جو منسوب فرمایا ہے تو یہ نسبت اسی طرح کی ہے جس طرح کی نسبت فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ میں ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور (نہیں سمجھتے کہ) اگر ہم اُس کو کوئی فرشتہ بنا کر بھیجتے تو اُسے بھی انسان کی صورت ہی میں بھیجتے۔ اور (اِس طرح) اِن کو اُسی شبہے میں ڈال دیتے جس میں یہ اب پڑے ہوئے ہیں۔

اِس لیے کہ انسان اُسے انسانوں کی شکل ہی میں دیکھ سکتے اور اُس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

شبے میں ڈالنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی ہے۔ یہ اُس ضابطے اور قانون کی نسبت ہے جو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت و ضلالت کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں۔

یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے۔ فرشتے کے آنے کی پہلی صورت یہ ہو سکتی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی اصلی غیبی صورت میں ظاہر ہوتا۔ لیکن اوپر بتا دیا گیا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ اب دوسری صورت یہ باقی رہ گئی کہ وہ انسانی صورت میں آئے۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ اگر وہ انسانی صورت میں آئے تو اس کے مامور من اللہ ہونے میں بھی تم کو وہی اشتباہ پیش آئے گا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مامور من اللہ ہونے میں پیش آرہا ہے۔

جونا گڑھی

اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب کا اشکال کر رہے ہیں

۔یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو انھیں نہیں بھیج سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب و مانوس ہونے کی بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا کیا فائدہ۔ 

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

امین احسن اصلاحی

اور تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو جن لوگوں نے ان میں سے مذاق اڑایا ان کو اس چیز نے آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

’حَاق یَحیْقُ حِیْقًا بِہٖ‘ کے معنی ہیں احاطہ کر لینا، گھیر لینا اور چھا جانا۔

اوپر آیت ۵ میں قریش کو یہ دھمکی جو دی ہے کہ وہ ایک امر حق کا مذاق اڑا رہے ہیں جو شدنی اور اٹل ہے، وہ عنقریب اس عذاب کے آثار دیکھ لیں گے جس کی ہنسی اڑا رہے ہیں۔ اب یہ اس امر واقعی کی ان شہادتوں اور مثالوں کی طرف اشارہ فرمایا جو خود ان کی تاریخ اور ان کے ملک کے آثار میں موجود ہیں کہ تم سے پہلے جو رسول آئے انھوں نے بھی اپنی اپنی قوموں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا تو ان کا بھی اسی طرح مذاق اڑایا گیا۔ بالآخر اس عذاب نے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور وہ تباہ ہو گئیں۔

جاوید احمد غامدی

حقیقت یہ ہے کہ تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو اُن کا مذاق اڑانے والوں کو اُسی چیز نے آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اے محمدؐ! تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر ان مذاق اڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔

n/a

جونا گڑھی

اور واقع آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی مذاق کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آگھیرا جس کا مذاق اڑاتے تھے۔

Page 1 of 17 pages  1 2 3 >  Last ›