لوگوں کے لیے اُن کے حساب کا وقت قریب آ لگا ہے اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کیے جا رہے ہیں۔
یعنی مشرکین مکہ کے لیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اب سنت الٰہی کے مطابق کسی وقت بھی عذاب سے دوچار ہو سکتے تھے۔ پیچھے سورۂ طہٰ کے آخر میں جس چیز کے بارے میں فرمایا تھا کہ اُس کا انتظار کرو، یہ اُسی کے قریب آ لگنے کا ذکر ہے جس سے بغیر کسی تمہید کے یہ سورہ شروع ہو گئی ہے۔ یہ لوگ چونکہ خدا کی یاددہانی سے منہ موڑے ہوئے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی اِن سے منہ موڑ کر ایک عام لفظ ’النَّاس‘ سے اِن کا ذکر فرمایا ہے۔
آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں: ایک غفلت، دوسرا اعراض۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... غفلت، یعنی زندگی کے اصل حقائق سے بے پروائی، بجاے خود بھی انسان کی شامت کی دلیل ہے اور ایک بہت بڑا جرم ہے، لیکن یہ جرم اُس صورت میں بہت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے ،جب کوئی اللہ کا بندہ جھنجھوڑنے اور جگانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہو، لیکن لوگ ایسے غفلت کے ماتے ہوں کہ اُس کی کوئی نصیحت بھی سننے کے لیے تیار نہ ہوں۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۱۲۲)
قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔
مراد ہے قرب قیامت۔ یعنی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہو رہی ہے۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ آپ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا : بُعِثت انا والسَّاعَۃُ کَھَاتینِ ، ” میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں۔ ” یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جاؤ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے۔
یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا ہے اور نہ اس پیغمبر کی بات سنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بیخبر ی میں منہ پھیرے ہوئے ہی
وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہر چیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔
یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بیخبر ہیں۔
ان کے رب کی طرف سے جو تازہ یاددہانی بھی ان کے پاس آتی ہے یہ اس کو بس مذاق کرتے ہوئے سنتے ہیں۔
فرمایا کہ ان کے اندر غفلت اور لاابالی پن کے ساتھ سرمستی اور شرارت بھی ہے کہ ان کو بار بار گوناگوں پہلوؤں اور اسلوبوں سے یاددہانی کی جا رہی ہے لیکن جو تازہ تذکیر و تنبیہ بھی ان کے پاس آتی ہے اس کو سنجیدگی کے ساتھ سننے اور اس پر غور کرنے کے بجائے اس کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سورۂ طٰہٰ میں فرمایا ہے:
’وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّفْنَا فِیْہِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَھُمْ ذِکْرًًا‘ (۱۱۳)
(اور اسی طرح ہم نے اس کو عربی قرآن بنا کر اتارا اور اس میں اپنی وعید گوناگوں پہلوؤں سے واضح کردی کہ وہ خدا کے غضب سے بچیں یا یہ ان کے اندر ہماری یاددہانی کو تازہ کر دے)
مطلب یہ ہے کہ اللہ نے صرف ایک بار ان کو سنا دینے ہی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے تازہ بتازہ یاددہانیاں بھیجیں لیکن وہ متنبہ ہونے اور ان کی قدر کرنے کے بجائے ہر تذکیر کو اپنے مذاق کا موضوع بنا لیتے ہیں۔
اُن کے پروردگار کی طرف سے جو تازہ یاددہانی بھی اُن کے پاس آتی ہے، وہ اُس کو سنتے ہیں تو کھیل میں لگے ہوتے ہیں۔
n/a
ان کے پاس جو تازہ نصیحت ہی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بےتکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں،
یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سنائی جاتی ہے
وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو اوپر ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے اور اس میں کھیل سے مراد یہی زندگی ہے جسے خدا اور آخرت سے غافل لوگ کھیل رہے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے سنجیدگی کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ کھیل اور مذاق کے طور پر سنتے ہیں۔
ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نئی نصیحت آتی ہے اسے وہ کھیل کود میں ہی سنتے ہیں
یعنی قرآن جو وقتاً فوقتاً حسب حالات و ضروریات نیا نیا اترتا رہتا ہے، وہ اگرچہ انہی کی نصیحت کے لئے اترتا ہے، لیکن وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جیسے وہ اس سے استہزاء مذاق اور کھیل کر رہے ہوں یعنی اس میں تدبر و غور و فکر نہیں کرتے۔
ان کے دل غفلت میں مدہوش ہیں اور ان ظالموں نے آپس میں یہ سرگوشی کی کہ یہ تو بس تمہارے ہی مانند ایک بشر ہیں تو کیا تم آنکھوں دیکھتے جادو میں پھنسو گے!
’لَاھِیَۃً قُلُوْبُھُمْ‘ دوسرا حال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اصلی کام تفکر و تذکر ہے لیکن ان کا حال یہ ہے کہ ان کے دل اپنی دلچسپیوں میں ایسے کھوئے ہیں کہ سنجیدہ سے سنجیدہ بات اور بڑی سے بڑی حقیقت کو بھی یہ مذاق میں اڑا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ قریش کے لیڈروں اور ان کے دانشوروں کی وہ باتیں نقل ہو رہی ہیں جو وہ اپنی مجالس میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے لوگوں کے اندر پھیلاتے تھے۔ ان کو یہ اندازہ اچھی طرح ہو گیا تھا کہ قرآن کی دعوت دلوں میں گھر کر رہی ہے اور صاف ذہن رکھنے والے لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس اثر کو مٹانے کے لیے انھوں نے لوگوں کے اندر یہ وسوسہ اندازی شروع کی کہ یہ نہ سمجھو کہ ان کے کلام میں یہ زور و اثر اس چیز کا نتیجہ ہے کہ یہ کوئی فرستادے ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ یہ بھی تمہارے ہی جیسے انسان ہیں، اگر خدا کو کوئی رسول ہی بھیجنا ہوتا توو ہ کسی فرشتے یا کسی اور مخلوق کو اپنا رسول بناتا نہ کہ ہمارے ہی جیسے ایک انسان کو! اور یہ جو ان کے کلام میں زور و تاثیر اور فصاحت و بلاغت محسوس کرتے ہو یہ بھی محض اس شخص کی جادو بیانی کا کرشمہ ہے، جس طرح ہمارے دوسرے شاعر اور خطیب اپنی جادو بیانی سے لوگوں پر اثر ڈالتے ہیں اسی طرح یہ شخص بھی اپنی جادو بیانی سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو تمہاری یہ بڑی سادہ لوحی ہو گی اگر تم جانتے بوجھتے اس شخص کے جادو میں پھنس گئے!
یہ اشغلے چونکہ لیڈر لوگ خاص اپنی مجالس میں ایجاد کرتے تھے اور وہیں سے القاء ہو کر یہ لوگوں کے اندر پھیلتے تھے، اس وجہ سے ان کو ’نجویٰ‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور ’اَلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘ کے الفاظ سے یہ ظاہر فرما دیا کہ یہ وسوسہ اندازیاں کرنے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے خود اپنے اوپر بھی ظلم کیا کہ اپنے دل و دماغ معطل کر لیے اور دوسروں کے اوپر بھی ظلم کر رہے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
’اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ‘ میں سحر سے مراد وہ کلام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سناتے تھے۔ اہل عرب اس کلام کو جس میں غیر معمولی تاثیر و تسخیر ہو سحر سے تعبیر کرتے تھے۔ زور و اثر رکھنے والے کلام کے لیے یہ تعبیر ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ جہاں تک قرآن مجید اور آنحضرت صلعم کے ارشادات کی فصاحت و بلاغت اور سطوت و جلالت کا تعلق ہے وہ ایسی چیز تھی کہ اس کا انکار مخالفین بھی کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے اس وجہ سے وہ مجبوراً اس کا اعتراف کرتے۔ البتہ وہ اپنے عوام کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ یہ زور و اثر اس چیز کا نتیجہ نہیں ہے کہ یہ کوئی آسمانی کلام ہے یا اس کا پیش کرنے والاخدا کا کوئی رسول ہے بلکہ یہ تمام تر الفاظ کی جادوگری اور زور خطابت کی ساحری ہے تو جانتے بوجھتے، دیکھتے سنتے اس شخص کے جادو میں نہ پھنسو۔ ’وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ‘ کا ٹکڑا لوگوں کے اندر احساس برتری ابھارنے کے لیے ہے کہ تم کوئی بھولے بھالے اور سادہ لوح لوگ نہیں بلکہ سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہو اس وجہ سے تمہیں اس فریب میں نہیں آنا چاہیے۔
اُن کے دل غافل ہیں اور ظالم چپکے چپکے (آپس میں) سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص ہے ہی کیا، یہ تو تمھارے ہی جیسا آدمی ہے، پھر کیا آنکھوں دیکھتے (اِس کے) جادو میں پڑتے ہو؟
یہاں جادو کا لفظ ٹھیک اُس مفہوم میں ہے، جس میں یہ ’إن من البیان لسحرًا‘ کے جملے میں آیا ہے، یعنی اُس کلام کا جادو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سنا رہے تھے۔ کسی کلام کی غیر معمولی تاثیر و تسخیر کے لیے یہ تعبیر اہل عرب کے ہاں بھی رائج تھی اور ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ اِس سے وہ اپنے لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ تم جس چیز سے متاثر ہو رہے ہو، وہ سراسر الفاظ کی ساحری ہے، اِسے کوئی الہامی کلام اور اِس کے پیش کرنے والے کو خدا کا رسول قرار دے کر اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا نہ کرو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس کلام کا زور اور اِس کی سطوت و جلالت فی الواقع دلوں کو تسخیر کرتی ہے، لیکن اِس سے زیادہ اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ لفظ و معنی کے ربط و نظام کا غیر معمولی کمال ہے جس کا مظاہرہ یہ نبوت و رسالت کے مدعی بن کر تمھارے سامنے کر رہے ہیں۔ تم سوچنے سمجھنے والے لوگ ہو، تمھیں تو اِس شخص کے فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ یہ آخری بات، ظاہر ہے کہ مخاطبین کے اندر احساس برتری کو ابھارنے کے لیے کہی جاتی تھی۔
دل ان کے ﴿ دوسری ہی فکروں میں﴾ منہمک ہیں۔ اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ ” یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے ؟ ”
” پھنسے جاتے ہو ” بھی ترجمہ ہوسکتا ہے، اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں۔ سرگوشیاں کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا مقابلہ کرنے کی بڑی فکر لاحق تھی وہ کہتے تھے یہ شخص بہرحال نبی تو ہو نہیں سکتا، کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہو اور ہماری بہ نسبت اس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو ؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو اس کی سنو اور نہ اس سے میل جول رکھو، کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے۔
جس چیز کی وجہ سے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ” سحر ” کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی 152 ھ) نے بیان کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خور کے باپ) نے سرداران قریش سے کہا، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ یہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جب کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابر قریش سخت پریشان ہو رہے تھے۔ لوگوں نے کہا ابو الولید، تم پر پورا اطمینان ہے، ضرور جا کر اس سے بات کرو۔ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، ” بھتیجے، ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی، تم خود جانتے ہو، ور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بیوقوف ٹھہرایا۔ اس کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنایا۔ بھتیجے، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہوجاؤ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں۔ ” یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش سنتے رہے۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپ نے فرمایا ” ابوالولید، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں، یا اور کچھ کہنا ہے “۔ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا اچھا اب میری سنو۔ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ، حٰمٓ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپ سورة حٰم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا، اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا، ” ابو الولید، جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ ” عتبہ یہاں سے اٹھ کر سرداران قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا ” خدا کی قسم، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا۔ ” اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا، ” کہو ابوالولید، کیا کر آئے ہو ” ؟ اس نے کہا ” خدا کی قسم، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے، نہ سحر ہے اور نہ کہانت۔ اے معشر قریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آگئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہوگا، دوسروں پر ہوگا۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی۔ اور اس کی عزت تمہاری عزت “۔ لوگوں نے کہا ” واللہ، ابوالولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ ” اس نے کہا ” یہ میری رائے ہے، اب تم جانو اور تمہارا کام “۔ (ابن ہشام، جلد اول، ص 313 ۔ 314) ۔ بیہقی نے اس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة حٰم سجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچے کہ : فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَاعِقَۃ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ ، تو عتبہ نے بےاختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔
دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا۔ ابو جہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَشی نے تنگ آ کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کردی۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا کہ ” ہم کچھ نہیں کرسکتے، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے۔ ” اَرَشی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ” آج لطف آئے گا “۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان کی طرف روانہ ہوگئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے۔۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدھے ابو جہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے پوچھا ” کون ” ؟ آپ نے جواب دیا ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپ نے اس سے کہا ” اس شخص کا حق ادا کردو۔ ” اس نے جواب میں کوئی چوں و چرا نہ کی، اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا، حَکَم بن ہشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہوگیا اور جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے۔ (ابن ہشام، جلد 2، ص 29 ۔ 30 ) ۔
یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا۔
ان کے دل بالکل غافل ہیں اور ان ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشیاں کیں کہ وہ تم ہی جیسا انسان ہے پھر کیا وجہ ہے جو تم آنکھوں دیکھتے جادو میں آجاتے ہو
یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔
اس نے کہا میرا رب آسمان اور زمین میں ہونے والی ہر بات کو جانتا ہے اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔
یہ اس ردعمل کا بیان ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مخالفین کی اس بکواس کا ہوا۔ آپؐ جانتے تھے کہ یہ اشغلے محض لوگوں کے ورغلانے کے لیے وہ لوگ ایجاد کر رہے ہیں جن پر قرآن کا حق ہونا اچھی طرح واضح ہے اس وجہ سے آپؐ نے ان لوگوں کو خطاب کیے بغیر معاملہ اللہ کے حوالہ کیا کہ میرا رب آسمان و زمین میں ہونے والی ہر بات کو جانتا ہے، وہ سمیع و علیم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سرگوشیاں جن نہاں خوانوں میں بھی ہو رہی ہیں اور یہ فتنے جو لوگ بھی ایجاد کر رہے ہیں، میرا رب ہر بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تو جب وہ جانتا ہے تو وہی اس کے تدارک کا سامان بھی فرمائے گا۔ میں اس معاملہ کو اپنے رب ہی کے حوالہ کرتا ہوں۔
(اِس پر) رسول نے کہا: (یہ کیا سرگوشیاں کرتے ہیں)، میرا پروردگار ہر اُس بات کو جانتا ہے جو زمین و آسمان میں کی جائے اور وہ سمیع و علیم ہے
یعنی اُن کو مخاطب کیے بغیر اپنے دل میں کہا اور اِس طرح گویا معاملے کو اللہ کے حوالے کر دیا کہ وہی اِن کے فتنوں کا تدارک کرے گا۔ آگے اِسی تفویض کا بیان ہے۔
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا، میرا رب ہر اس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے۔
یعنی رسول نے کبھی اس جھوٹے پروپیگنڈے اور سرگوشیوں کی اس مہم (Whispering Campaign) کا جواب اس کے سوا نہ دیا کہ ” تم لوگ جو کچھ باتیں بناتے ہو سب خدا سنتا اور جانتا ہے، خواہ زور سے کہو، خواہ چپکے چپکے کانوں میں پھونکو “۔ وہ کبھی بےانصاف دشمنوں کے مقابلے میں ترکی بہ ترکی جواب دینے پر نہ اتر آیا۔
پیغمبر نے کہا میرا پروردگار ہر اس بات کو جو زمین و آسمان میں ہے بخوبی جانتا ہے، وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے
وہ تمام بندوں کی باتیں سنتا ہے اور سب کے اعمال سے واقف ہے، تم جو جھوٹ بکتے ہو، اسے سن رہا ہے اور میری سچائی کو اور جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔
بلکہ انھوں نے کہا، یہ تو خواب پریشان ہیں، بلکہ اس کو انھوں نے گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ ایک شاعر ہیں۔ پس یہ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی نشانی لائیں جس طرح کی نشانیوں کے ساتھ سابق رسول بھیجے گئے تھے۔
’اضغاث‘ ’ضغث‘ کی جمع ہے۔ ’ضغث‘ گھاس کی اس مٹھی کو کہتے ہیں جو رطب و یابس اور خشک و تر دونوں کا مجموعہ ہو۔ یہیں سے ’اَضْعَاثُ اَحْلَام‘ کا محاورہ پیدا ہوا جس کے معنی خواب پریشان کے ہیں یعنی وہ خواب جو معنی و مفہوم سے بالکل خالی اور اپنے الجھاؤ کے سبب سے اس قابل نہ ہوں کہ ان کی تاویل و تعبیر کی طرف کوئی توجہ کی جائے اور ان کو کوئی اہمیت دی جائے۔
فرمایا کہ بات یہیں تک نہیں رہی ہے کہ یہ لوگ پیغمبر کی وحی کو سحر کہتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس کو خواب پریشان سے تعبیر کرتے ہیں، اس کو افتراء قرار دیتے ہیں، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایک شاعر بتاتے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر یہ خدا کے پیغمبر ہیں تو اس کے ثبوت کے لیے اسی طرح کی کوئی نشانی یہ بھی دکھائیں جس طرح کی نشانیوں کے ساتھ سابق انبیاء آئے۔
قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے کلام کی حیثیت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کی حیثیت سے پیش فرماتے تھے جو آپؐ پر خدا کے مقرب فرشتہ جبریلؑ امین کے واسطہ سے نازل ہوتی تھی۔ مخالفوں نے جب یہ محسوس کیا کہ قرآن کے متعلق اس دعوے نے بھی اس کی اہمیت بہت بڑھا دی ہے اور لوگ اس کو انسانی کلام کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدائی الہام کی حیثیت سے قبول کر رہے ہیں تو اس کا توڑ کرنے کے لیے انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس کلام کے وحی الٰہی ہونے کا دعویٰ محض واہمہ کی خلاقی ہے۔ یہ خواب ہائے پریشان کا مجموعہ ہے۔ جو خیالات اس شخص کے ذہن میں رچے بسے ہوئے ہیں وہی اس کو سوتے میں خواب میں نظر آتے ہیں اور یہ ان کو (العیاذ باللہ) عوام فریبی کے لیے اس دعوے کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ یہ خدا نے ایک فرشتہ کے ذریعہ سے وحی نازل کی ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ دور حاضر کے بعض ملاحدہ نے بھی وحی کو ایک مشکوک چیز ٹھہرانے کے لیے بعینہٖ یہی بات کہی ہے جو عرب کے ان اشرار نے کہی تھی۔ بس اتنا فرق ہے کہ عرب کے جہلا نے یہ بات ناتراشیدہ انداز میں کہی اور اس زمانے کے مدعیان عقل نے اس کو ایک فلسفہ کے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انشاء اللہ آخری گروپ کی سورتوں میں ہم اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث کریں گے۔
’بَلِ افْتَرٰہُ‘ یعنی اس قرآن کو افتراء بھی قرار دیتے ہیں۔ اس کو افتراء قرار دینے سے ان کا مدعا یہ تھا کہ ہے تو ان کے (آنحضرتؐ کے) اپنے ذہن کی ایجاد لیکن (العیاذ باللہ) یہ جھوٹ موٹ محض ہم پر اپنی دھونس جمانے کے لیے اس کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
’بَلْ ھُوَ شَاعِرٌ‘ یعنی یہ ایک شاعر ہیں اور ان کے اس کلام کی ساری سحر آفرینی اس نوعیت کی ہے جس نوعیت کی سحرآفرینی ہمارے بڑے شاعروں کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس سے زیادہ ان کو اور ان کے کلام کو اہمیت دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اہل عرب کا تصور یہ تھا کہ ہر بڑے شاعر کے ساتھ ایک جن ہوتا ہے جو اس کو شعر القا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شاعر کہہ کر وہ لوگوں کو اس مغالطہ میں مبتلا کرنا چاہتے تھے کہ نعوذ باللہ آپؐ کے ساتھ بھی کوئی جن ہے جو یہ کلام آپؐ پر القا کرتا ہے۔
قرآن کے مخالفین کی ان باتوں سے ایک امر تو بالکل واضح ہے کہ وہ اس کی ہیبت و جلالت سے سخت مرعوب تھے اور یہ اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ لوگوں کے دلوں پر سے اس کے رعب کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ البتہ ان کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں پر اس کے خدائی کلام ہونے کی جو ہیبت بیٹھتی جا رہی ہے اس کو کسی طرح کم کریں کہ لوگ اس کو وحی و الہام کا درجہ نہ دیں بلکہ بشری و انسانی کلام ہی کے درجے میں رکھیں۔
’کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ‘ کے بعد ’بِالْاٰیٰت‘ قرینہ کی دلالت کی بنا پر حذف ہے۔ یعنی جب وہ یہ محسوس کرتے کہ قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کی یہ اوٹ پٹانگ باتیں لوگوں کے دلوں میں اترنے والی نہیں ہیں تو یہ مطالبہ کرتے کہ اگر یہ رسول ہیں تو یہ بھی اسی طرح کی کوئی نشانی دکھائیں جس طرح کی نشانیاں پہلے آنے والے رسولوں نے دکھائیں۔ نشانی سے ان کی مراد اس طرح کے حسی معجزات یا عذاب کی نشانیاں ہیں جن کا ذکر دوسرے انبیاؑء کی سرگزشتوں کے سلسلہ میں آیا ہے۔ ان کا یہ حربہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں، ان کے زعم کے مطابق، سب سے زیادہ کارگر حربہ تھا اس لیے کہ قرآن کی دعوت تمام تر آفاق و انفس اور عقل و فطرت کے دلائل پر مبنی تھی۔ وہ معجزات و خوارق اور نشانئ عذاب کے بجائے لوگوں کو آنکھیں کھولنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے پر ابھارتا تھا کہ ایمان کا فطری راستہ عقل و دل کا راستہ ہے۔ جو لوگ عقل و بصیرت سے کام نہیں لیتے وہ خوارق دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور عذاب کی نشانی دیکھ کر جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان لانا بے سود ہوتا ہے۔ قرآن کی یہ بات بالکل برحق تھی لیکن مخالفین اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گریز پر محمول کر کے لوگوں کو ورغلاتے کہ دیکھو، اگر یہ سچ مچ کوئی رسول ہوتے تو ان کے لیے ہمارا یہ مطالبہ پورا کر دینا کیا مشکل تھا! لیکن جب یہ اس سے گریز کر رہے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ اپنے دعوے میں (نعوذ باللہ) جھوٹے ہیں۔
(یہی نہیں کہ صرف جادو کہتے ہیں)، بلکہ اُنھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ بھی کہ اِس نے (اپنی طرف سے) اِس (قرآن) کو گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ بھی کہ یہ محض ایک شاعر ہے۔ سو(اگر یہ واقعی پیغمبر ہے تو) ہمارے پاس اُسی طرح کوئی نشانی لائے، جس طرح اگلے پیغمبر (نشانیوں کے ساتھ) بھیجے گئے تھے۔
اِس سے واضح ہے کہ قرآن کے مخاطبین اُس کی ہیبت و جلالت سے سخت مرعوب تھے، لیکن چونکہ ماننا نہیں چاہتے تھے کہ وہ خدا کا کلام ہے، اِس لیے کبھی اُس کو پیغمبر کے واہمہ کی خلاقی، کبھی اُس کی من گھڑت اور کبھی شاعرکی سحر آفرینی کہہ کر لوگوں کے دلوں پر سے اُس کی ہیبت کو کم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
آیت میں ’کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ‘ کے بعد ’بِالاٰیٰتِ‘ کا لفظ دلالت قرینہ کی بنا پر حذف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِن کا یہ حربہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں، اِن کے زعم کے مطابق، سب سے زیادہ کارگر حربہ تھا، اِس لیے کہ قرآن کی دعوت تمام تر آفاق و انفس اور عقل و فطرت کے دلائل پر مبنی تھی۔ وہ معجزات و خوارق اور نشانی عذاب کے بجاے لوگوں کو آنکھیں کھولنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے پر ابھارتا تھا کہ ایمان کا فطری راستہ عقل و دل کا راستہ ہے۔ جولوگ عقل و بصیرت سے کام نہیں لیتے، وہ خوارق دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور عذاب کی نشانی دیکھ کر جو لوگ ایمان لاتے ہیں ،اُن کا ایمان لانا بے سود ہوتاہے۔ قرآن کی یہ بات بالکل برحق تھی، لیکن مخالفین اُس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گریز پر محمول کر کے لوگوں کو ورغلاتے کہ دیکھو، اگر یہ سچ مچ کوئی رسول ہوتے تو اِن کے لیے ہمارا یہ مطالبہ پورا کر دینا کیا مشکل تھا! لیکن جب یہ اِس سے گریز کر رہے ہیں تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ یہ اپنے دعوے میں (نعوذ باللہ) جھوٹے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۱۲۵)
وہ کہتے ہیں ” بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ اس کی من گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔ ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔ ”
اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شروع کی جائے اور ہر اس شخص کو، جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بد گمان کردیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمدہ ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی، مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبردار کرتے پھرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے، اس سے ہوشیار رہنا۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ رکھا ہے، اور کہتا ہے خدا کا کلام ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے، دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ تخیلات اور تک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلام الہٰی رکھا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اور جچی تلی رائے ظاہر کرتے۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدت ہی کے اندر ہوگئی۔ ہر شخص کے دل میں ایک سوال پیدا ہوگیا کہ آخر معلوم تو ہو وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے۔
اس کی ایک دلچسپ مثال طُفَیل بن عمرو دوسی کا قصہ ہے جسے ابن اسحاق نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلہ دوس کا ایک شاعر تھا۔ کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کے چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بد گمان ہوگیا اور میں نے طے کرلیا کہ آپ سے بچ کر ہی رہوں گا۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے کانوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں، جوان مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کرسکوں۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کروں کہ یہ کیا کہتا ہے۔ چناچہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آپ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ یہ کچھ کہا تھا، اور میں آپ سے اس قدر بد گمان ہوگیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں۔ لیکن ابھی جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے، آپ کیا کہتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں مجھ کو قرآن کا ایک حصہ سنایا اور میں اس سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعت اسلام کرتا رہا، یہاں تک کہ غزوہ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستر اسی گھرانے مسلمان ہوگئے۔ (ابن ہشام جلد 2، ص 22 ۔ 24 )
ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرداران قریش اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نضر بن حارث نے تقریر کی کہ ” تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر جوان تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امین سمجھا جاتا تھا۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے کو آگئے، تم کہتے ہو یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے، ہم نے سحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے، ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں انکا ہمیں علم ہے۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے، شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا۔ بخدا وہ مجنون بھی نہیں ہے، مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بےتکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بیخبر ہیں ؟ اے سرداران قریش، کچھ اور بات سوچو، جس چیز کا مقابلہ تمہیں درپیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو “۔ اس کے بعد اس نے یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفندیار کے قصے لا کر پھیلائے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں۔ چناچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا اور خود نضر نے داستان گوئی شروع کردی۔ (ابن ہشام جلد اول، ص 32 ۔ 321 )
اتنا ہی نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن حیران کن خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے از خود اسے گھڑ لیا بلکہ یہ شاعر ہے، ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے۔
ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔
یعنی جس طرح ثمود کے لئے اونٹنی، موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے عصا اور ید بیضا وغیرہ۔
ان سے پہلے کسی بستی کے لوگ بھی، جس کو ہم نے ہلاک کیا، ایمان لانے والے نہ بنے، تو کیا یہ لوگ ایمان لانے والے بنیں گے!
آنحضرت صلعم کو تسلی: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ ان کی ان خرافات کی پروا نہ کرو۔ یہ ضد اور ہٹ دھرمی کی اسی روش پر چل پڑے ہیں جس پر ان سے پہلے ہلاک ہونے والی قومیں چلیں۔ جس طرح انھوں نے اپنے نبیوں کو جھٹلایا اور اس کی پاداش میں ہم نے ان کو ہلاک کر دیا اسی طرح ان کے لیے بھی ہلاکت مقدر ہو چکی ہے۔ انھوں نے ہر قسم کی نشانیاں دیکھیں لیکن ایمان کی راہ اختیار نہ کی تو ان سے کس طرح توقع رکھتے ہو کہ اگر ان کی طلب کے مطابق ان کو کوئی نشانی دکھا دی گئی تو یہ ایمان لانے والے بن جائیں گے! یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اسی طرح اندھے بنے رہیں گے جس طرح آج اندھے اور بہرے بنے ہوئے ہیں!
ہم نے جن بستیوں کو ہلاک کیا ہے، اُن میں سے کوئی بھی اِن سے پہلے (اِس طرح کی نشانی دیکھ کر) ایمان نہیں لائی تو کیا یہ ایمان لائیں گے؟
n/a
حالانکہ ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی۔ اب کیا یہ ایمان لائیں گے ؟
اس مختصر سے جملے میں نشانی کے مطالبے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ تین مضمونوں پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ تم پچھلے رسولوں کی سی نشانیاں مانگتے ہو، مگر یہ بھول جاتے ہو کہ ہٹ دھرم لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تھے۔ دوسرے یہ کہ تم نشانی کا مطالبہ تو کرتے ہو، مگر یہ یاد نہیں رکھتے کہ جس قوم نے بھی صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے انکار کیا ہے وہ پھر ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہی ہے۔ تیسرے یہ کہ تمہاری منہ مانگی نشانی نہ بھیجنا تو تم پر خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے۔ اب تک تم انکار پر انکار کیے جاتے رہے اور مبتلائے عذاب نہ ہوئے۔ کیا اب نشانی اس لیے مانگتے ہو کہ ان قوموں کا سا انجام دیکھو جو نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اور تباہ کردی گئیں ؟
ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے اجاڑیں سب ایمان سے خالی تھیں۔ تو کیا اب یہ ایمان لائیں گے
یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب وعناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔
اور تم سے پہلے جس کو بھی ہم نے رسول بنا کر بھیجا آدمیوں ہی میں سے بھیجا جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ تو اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔
اوپر آیت ۳ میں مخالفین کا یہ اعتراض نقل ہوا ہے:
’ھَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ‘
(یہ تو تمہارے ہی مانند ایک بشر ہیں)
یہ اسی اعتراف کا جواب ہے کہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ خدا نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا بلکہ تم سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں سب بشر ہی تھے، کبھی خدا نے غیربشر کو رسول بنا کر نہیں بھیجا۔ رسولوں کو جو امتیاز حاصل تھا وہ یہ نہیں کہ وہ مافوق بشر تھے بلکہ صرف یہ کہ ہم ان کے پاس اپنی وحی بھیجتے تھے، اسی طرح کی وحی جس طرح کی وحی ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں، جس کی مخالفت میں یہ لوگ یہ بکواس کر رہے ہیں۔
’فَسْئَلُوْآ اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘۔ اوپر والے ٹکڑے میں خطاب کا رخ آنحضرت صلعم کی طرف تھا۔ یہ براہ راست مخالفین و معترضین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر تم اس بات سے بے خبر ہو تو ان لوگوں سے پوچھ لو جن کو پہلے خدا کی کتاب ملی اور وہ نبیوں اور رسولوں کی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہ اشارہ اہل کتاب بالخصوص یہود کی طرف ہے۔ ان کو گواہ بنانا دشمن کو گواہ بنانے کے ہم معنی ہے اس لیے کہ اس دور میں، جیسا کہ پچھلی سورتوں سے واضح ہو چکا ہے، اہل کتاب من حیث الجماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور قریش کی حمایت کے لیے میدان میں اتر چکے تھے۔ قرآن نے ان کو گواہ بنا کر قریش پر حجت تمام کر دی کہ اس حقیقت سے انکار تو تمہارے حامیوں اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دشمن اہل کتاب کو بھی نہیں ہو سکتا تو انہی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے! یہاں اہل کتاب کو اہل کتاب کے بجائے ’اَھْلَ الذِّکْرِ‘ سے تعبیر کرنے میں یہ بلاغت ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی مخالفت میں اندھے ہو جانے کی بات تو اور ہے لیکن ان میں سے جن کو اپنے نبیوں اور رسولوں کی یاد ہو گی وہ اس بدیہی حقیقت سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتے۔
’اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘ کے الفاظ کے اندر قریش پر ایک تعریض بھی ہے کہ ہر چند یہ بات معلوم تو تمہیں بھی ہونی چاہیے کہ تم ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے خلف اور وارث ہونے کے مدعی ہو جو بہرحال بشر ہی تھے مافوق بشر نہیں تھے، لیکن تمہیں اگر یہ بات امی ہونے کے سبب سے بھول گئی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ کر اپنی یادداشت تازہ کر لو جن کو کم از کم یہ بات تو نہیں بھولی ہو گی کہ جتنے رسول بھی آئے سب بشر ہی تھے، کوئی بھی فرشتہ نہیں تھا۔
(کہتے ہیں کہ ہمارے جیسا آدمی ہے)۔ تم سے پہلے بھی ہم نے جس کو رسول بنا کر بھیجا، آدمیوں ہی میں سے بھیجا ہے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ سو یاددہانی والوں سے پوچھ لو، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو۔
اِس میں مخاطبین پر ایک نوعیت کی تعریض ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی اولادہونے کے باوجود نہیں جانتے ہو تو اُن اہل کتاب سے پوچھ لو جن کے پاس اِس سے پہلے اِسی طرح یاددہانی بھیجی گئی۔ اِس بدیہی حقیقت کا انکار تو وہ بھی نہیں کر سکتے۔
اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔
یہ جواب ہے ان کے اس قول کا کہ ” یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے ” وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپ نبی نہیں ہو سکتے۔ جواب دیا گیا کہ پہلے زمانے کے جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے، وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوئے ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہوئے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، یٰسین، حاشیہ 11 ) ۔
یعنی یہ یہودی، جو آج اسلام کی دشمنی میں تمہارے ہم نوا ہیں اور تم کو مخالفت کے داؤ پیچ سکھایا کرتے ہیں، ان ہی سے پوچھ لو کہ موسیٰ اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کون تھے۔ انسان ہی تھے یا کوئی اور مخلوق ؟
تجھ سے پہلے بھی جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی مرد تھے جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے پس تم اہل کتاب سے پوچھ لو اگر خود تمہیں علم نہ ہو
یعنی تمام نبی مرد انسان تھے، نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں بھی مردوں کے ساتھ ہی خاص رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں بنی۔ اس لئے نبوت بھی ان کے فرائض میں سے ہے جو عورت کو طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔
اَ ھْلَ الذِّکْرِ (اہل علم) سے مراد اہل کتاب ہیں، جو سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، ان سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء جو ہو گزرے ہیں، وہ انسان تھے یا غیر انسان ؟ وہ تمہیں بتلائیں گے کہ تمام انبیاء انسان ہی تھے۔
اور ہم نے ان کو ایسے جسم بھی نہیں دیے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور وہ ابدی زندگی رکھنے والے بھی نہ تھے۔
کوئی نبی مافوق بشر نہیں ہوا: یعنی وہ تمام انبیاؑء بھی اسی طرح کی بشری خصوصیات کے ساتھ آئے تھے جس طرح کی بشری خصوصیات تمہارے اندر ہیں۔ نہ تو ان کو ایسے جسم ملے تھے جو کھانے پینے کی ضرورت سے مستغنی ہوں اور نہ وہ زندۂ جاوید ہو کر آئے تھے۔ وہ بھی انسانوں ہی کی طرح کھاتے پیتے تھے اور انھیں بھی اسی طرح موت سے دوچار ہونا پڑا جس طرح ہر بشر کو اس سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
یہ اعتراض دوسری جگہ اس طرح نقل ہوا ہے:
مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یَاْکُلُ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ ۵ وَلَئِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ (المومنون ۳۳-۳۴)
’’یہ تو بس تمہارے ہی مانند ایک بشر ہیں۔ جو تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتے ہیں اور جو تم پیتے ہو وہی یہ پیتے ہیں تو اگر تم اپنے ہی جیسے ایک انسان کو رسول مان لو گے تو بڑے گھاٹے میں رہو گے۔‘‘
کسی نبی کو حیات جاوداں نہیں ملی: ’وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ‘۔ میں ان کے اس زعم کی تردید ہے کہ رسول کو زندہ جاوید ہونا چاہیے۔ اسی سورہ میں آگے اس خیال کی تردید یوں فرمائی گئی ہے: ’وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ‘ (۳۵-۳۴) یعنی ہم نے تم سے پہلے کسی انسان کو بھی، خواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی، حیات جاوداں نہیں بخشی، اگر تمہیں موت آنی ہے تو یہ بھی ہمیشہ رہنے والے نہیں ہیں، ہر نفس کو بہرصورت موت کا مزہ چھکنا پڑے گا۔ مطلب یہ ہے کہ موت تو اس کی زندگی کا ایک ناگزیر مرحلہ ہے جس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ نبی کو بھی اس مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ چیز نہ اس کی نبوت کے لیے قادح ہے، اور نہ اس کو نبی ماننے میں دوسروں کے لیے کوئی کسر شان کی بات ہے۔
ہم نے اُن (رسولوں) کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور وہ (دنیا میں) ہمیشہ رہنے والے بھی نہیں تھے۔
یہ اُن باتوں کا جواب ہے جو وہ کہتے تھے کہ یہ تو اُسی طرح کھاتے اور پیتے ہیں، جس طرح تم کھاتے اور پیتے ہو، پھر یہ رسول کس طرح ہو سکتے ہیں؟
ان رسولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں، اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔
ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے
بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور موت سے بھی ہم کنار ہو کر مسافر عالم بقاء بھی ہوئے، یہ انبیاء کی بشریت ہی کی دلیل دی جا رہی ہے۔
پھر ہم نے ان سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ان کو اور جن کو ہم چاہتے ہیں نجات دی اور حدود سے تجاوز کر جانے والوں کو ہلاک کر دیا۔
ہر رسول کی تکذیب کرنے والے ہلاک ہوئے: ’وعد‘ سے مراد وہی وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے فرمایا کہ اگر لوگ تمہاری تکذیب کر دیں گے تو ہم تمہاری تکذیب کرنے والوں کو ہلاک کر دیں گے اور تم اور تمہارے ساتھیوں کو نجات دیں گے۔ ہم یونس ۲۰ کے تحت واضح کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا ہے۔ ایک اس عذاب سے جو اس دنیا میں رسول کی تکذیب کر دینے والی قوم پر لازماً آتا ہے۔ دوسرے اس عذاب سے جو آخرت میں ہو گا۔ یہاں پہلا عذاب مراد ہے۔ فرمایا کہ تھے تو وہ بہرحال بشر ہی لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے ان سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا کر دکھایا یعنی ان کو اور جن کو ہم چاہیں نجات دی اور ان لوگوں کو ہلاک کر دیا جو حدود سے تجاوز کرنے والے تھے۔ یہاں ’مَنْ نَّشَآءُ‘ کے اسلوب بیان نے کلام کو مطابق حال کر دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ صرف ماضی کی حکایت نہیں ہے بلکہ اس وقت تک تمہارے سامنے بھی یہی فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اگر تم نے اپنی ضد سے ہمارے عذاب کو دعوت دی تو ہم اس سے نجات انہی لوگوں کو دیں گے جن کو چاہیں گے۔ ہماری اس مشیت میں کوئی دوسرا دخیل نہیں نہ بن سکے گا اور نہ کوئی ہماری پکڑ سے بچ سکے گا۔ ’مُسْرِفِیْنَ‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کی حدود کو ڈھٹائی کے ساتھ توڑتے ہیں اور رسول کے انذار کا مذاب اڑاتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کے باغی قرار پاتے ہیں اور باغیوں کی سرکوبی لازماً ہو کے رہتی ہے۔
پھر اُن سے اپنا وعدہ ہم نے پورا کر دیا اور اُن کو اور (اُن کے ساتھ) جن کو ہم چاہتے تھے، بچا لیا اور حد سے گزرنے والوں کو ہم نے ہلاک کر چھوڑا۔
یعنی یہ وعدہ کہ اُن کے جھٹلانے والوں کو ہم لازماً ہلاک کر دیں گے اور اُنھیں اور اُن کے ساتھیوں کو نجات دیں گے۔ رسولوں سے متعلق یہ اُسی سنت الٰہی کا ذکر ہے جس کی وضاحت ہم جگہ جگہ کر چکے ہیں۔
پھر دیکھ لو کہ آخرکار ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پورے کیے، اور انہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا، اور حد سے گزر جانے والوں کو ہلاک کردیا۔
یعنی پچھلی تاریخ کا سبق صرف اتنا ہی نہیں بتاتا کہ پہلے جو رسول بھیجے گئے تھے وہ انسان ہی تھے، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ان کی نصرت و تائید کے، اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو ہلاک کردینے کے، جتنے وعدے اللہ نے ان سے کیے تھے وہ سب پورے ہوئے اور ہر وہ قوم برباد ہوئی جس نے انکو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ اب تم اپنا انجام خود سوچ لو۔
پھر ہم نے ان سے کئے ہوئے وعدے سچے کئے انھیں اور جن جن کو ہم نے چاہا نجات عطا فرمائی اور حد سے نکل جانے والوں کو غارت کردیا
یعنی وعدے کے مطابق نبیوں کو اور اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے یعنی کفار و مشرکین کو ہم نے ہلاک کردیا۔
اور ہم نے تمہاری طرف بھی ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہارے حصہ کی یاددہانی ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں!
یاددہانی کے لازمی نتائج: یعنی جس طرح ہم نے پچھلی قوموں پر ان کے ہلاک کرنے سے پہلے ان کی تذکیر کے لیے رسول بھیجے کہ ان پر حجت تمام ہو جائے اسی طرح تمہارے اوپر بھی ایک کتاب اتار دی ہے جس میں تمہیں اچھی طرح یاددہانی کر دی ہے۔ اب تم ہمارے سامنے یہ عذر نہیں کر سکتے کہ تمہیں یاددہانی نہیں کی گئی۔ یہ یاددہانی اپنے لازمی نتائج اپنے ساتھ رکھتی ہے جو سنت الٰہی کے مطابق بہرحال ظاہر ہو کے رہیں گے۔ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں ہے کہ اگر تم نے رد کر دی تو یہ رد ہو جائے گی بلکہ اس کو رد کر دینے کا وہی نتیجہ تمہارے سامنے آ کے رہے گا جو تم سے پہلے دوسری قوموں کے سامنے آ چکا۔ خدا کی جو سنت آج تک جاری ہے وہ تمہارے معاملے میں بدل نہیں جائے گی۔ ’اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ‘ یہاں سخت تہدید و وعید کے سیاق میں ہے کہ نادانو، تمہاری عقل کہاں کھوئی گئی ہے! کیوں اپنی شامت کو دعوت دے رہے ہو! اس آیت کے صحیح زور کو سمجھنے کے لیے سورۂ طٰہٰ کی آیات ۱۳۳-۱۳۵ کے تحت جو وضاحت کی گئی ہے اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
(لوگو)، ہم نے تمھاری طرف بھی ایک کتاب نازل کر دی ہے جس میں تمھارے حصے کی یاددہانی ہے۔ پھر کیا سمجھتے نہیں ہو؟
یعنی اِس بات کو سمجھتے نہیں ہو کہ یہ خدا کی یاددہانی ہے اور اِس کو رد کر دینے کا نتیجہ کیا ہو گا؟ تمھاری عقل کہاں کھوئی گئی ہے؟ تم کیوں اپنی شامت کو دعوت دے رہے ہو؟
لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو ؟
یہ اکٹھا جواب ہے کفار مکہ کے ان مضطرب اقوال کا جو وہ قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہتے تھے کہ یہ شاعری ہے، یہ ساحری ہے یہ پراگندہ خواب ہیں، یہ من گھڑت افسانے ہیں، وغیرہ۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اس کتاب میں آخر وہ کونسی نرالی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو، جس کی وجہ سے اس کے متعلق تم اتنی متضاد راہیں قائم کر رہے ہو۔ اس میں تو تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملات زندگی زیر بحث ہیں۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے۔ تمہارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چن چن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اور تمہارے ہی اخلاقی اوصاف میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھایا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمہارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اس کو سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو ؟
یقیناً ہم نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لئے ذکر کیا پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے
امین احسن اصلاحی
لوگوں کے لیے ان کے محاسبہ کا وقت قریب آ لگا ہے اور یہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کیے جا رہے ہیں۔
سابق سورہ کے مضمون کی تکمیل
یہ سورہ بغیر کسی تسمیہ و تمہید کے شروع ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم نے پیچھے اشارہ کیا، یہ ہے کہ یہ درحقیقت اسی انداز کے مضمون کی تکمیل ہے جس پر سابق سورہ تمام ہوئی ہے۔ سابق سورہ کی آخری آیات اور اس سورہ کی ابتدائی آیات نے ایک حلقۂ اتصال کی صورت اختیار کر لی ہے۔ سورۂ برأت کی تفسیر میں ہم اس نوع کے اتصال کی بعض خوبیوں کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔
’للناس‘ سے مراد مشرکین مکہ ہیں
’لِلنَّاسِ‘ سے مراد، جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے مشرکین مکہ ہیں۔ یہ لوگ چونکہ خدا کی یاددہانی سے اعراض پر پڑے ہوئے تھے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے اعراض کرتے ہوئے عام لفظ سے ان کا ذکر فرمایا۔ اس اسلوب بیان سے ایک قسم کی نفرت و کراہت اور حسرت کا اظہار ہو رہا ہے اور اس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔
ایک سنت الٰہی کی یاددہانی: لوگوں کے لیے ان کے محاسبہ کا وقت بالکل قریب آ گیا ہے، یہ محض ایک دھمکی نہیں بلکہ بیان واقعہ ہے ہم اس کتاب میں جگہ جگہ اس سنت الٰہی کی وضاحت کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو اس کے لیے ایک ہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ وہ ایمان لائے۔ اگر وہ یہ راہ نہیں اختیار کرتی تو اتمام حجت کے بعد وہ لازماً تباہ کر دی جاتی ہے۔ اسی سنت الٰہی کی روشنی میں فرمایا کہ رسول کی بعثت و دعوت کے بعد ان مشرکین کا یوم الحساب بھی بالکل قریب آ لگا ہے لیکن یہ بدستور غفلت میں پڑے ہوئے، رسول کی تذکیر و تنبیہ سے اعراض کیے جا رہے ہیں، یہاں بیک وقت ان کی دو حالتوں کا ذکر ہے، ایک غفلت، دوسری اعراض۔ غفلت یعنی زندگی کے اصل حقائق سے بے پروائی، بجائے خود بھی انسان کی شامت کی دلیل ہے اور ایک بہت بڑا جرم ہے لیکن یہ جرم اس صورت میں بہت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے جب کوئی اللہ کا بندہ جھنجھوڑنے اور جگانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہو لیکن لوگ ایسے غفلت کے ماتے ہو کہ اس کی کوئی نصیحت بھی سننے کے لیے تیار نہ ہوں۔