يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَنفَالِ ۖ قُلِ ٱلْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَٱلرَّسُولِ ۖ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّـهَ وَأَصْلِحُوا۟ ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا۟ ٱللَّـهَ وَرَسُولَهُۥٓ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

امین احسن اصلاحی

وہ تم سے غنیمتوں کے بابت سوال کرتے ہیں، ان کو بتا دو کہ غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں، پس اللہ سے ڈرتے رہو، اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم سچے مومن ہو۔

یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ

لفظ انفال کی تحقیق: ’انفال‘، نفل کی جمع ہے، اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔ جو چیز کسی کو اس کے حق سے زیادہ دی جائے تو جتنی حق سے زیادہ دی گئی وہ نفل ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے حق واجب سے زیادہ ادا کیا تو اس حصہ مزید کو ’نفل‘ کہیں گے۔ یہاں انفال سے اس مال غنیمت کو تعبیر کیا گیا ہے جو راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کو مفتوح دشمن سے میدان جنگ میں حاصل ہوتا ہے۔ اس تعبیر میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے دشمن سے جو مال غنیمت حاصل کرتے ہیں اس کی حیثیت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نفل مزید اور انعام مزید کی ہے اس لیے کہ جہاد کا جو اجر ہے وہ اس سے بالکل الگ مستقلاً اللہ کے ہاں دائمی اور بے پایاں اجر کی شکل میں محفوظ ہو جاتا ہے۔
غنیمت سے متعلق سوال کی نوعیت: سوال، جیسا کہ ہم بقرہ کی تفسیر میں واضح کر چکے ہیں، بعض اوقات اعتراض کی نوعیت کا بھی ہوتا ہے، خواہ وہ الفاظ سے ظاہر ہو یا اس کے اندر مضمر ہو۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ اسی نوعیت کے سوال کا حوالہ ہے۔ یہ سوال، جیسا کہ اوپر ہم نے اشارہ کیا، غزوۂ بدر میں حاصل شدہ مال غنیمت سے متعلق ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو کفار سے نہ تو کوئی منظم جنگ پیش آئی تھی نہ مال غنیمت اور اس کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا تھا۔ ۲ھ میں یہ جنگ پیش آئی جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح بھی شان دار عطا فرمائی اور مال غنیمت بھی ان کو کافی مقدار میں حاصل ہوا۔ جاہلیت میں تو دستور یہ تھا کہ جو جتنا مال جنگ میں لوٹے وہ اس کا حق دار ہے ۔ اسی دستور کی بنا پر بعض لوگوں نے، خاص طور پر کمزور قسم کے مسلمانوں نے ایسے سوالات اٹھائے جن سے یہ بات نمایاں ہوئی کہ تقویٰ، باہمی خیر خواہی، اطاعت اللہ و رسول کی وہ روح جو سچے ایمان کا تقاضا ہے ابھی ایک گروہ کے اندر اچھی طرح پختہ نہیں ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ سوال، جیسا کہ قرائن سے واضح ہے، کچھ خاص افراد ہی کی طرف سے اٹھایا گیا لیکن اسلامی معاشرہ کے اندر اس سے ایک بڑی خامی کی نشان دہی ہوئی تھی اس وجہ سے قرآن نے مسلمانوں کی تطہیر و تنظیم کی اس سورہ کا آغاز اسی واقعہ سے کیا کہ

سرچشمہ شاید گرفتن بہ میل
چوپر شد نشاید گزشتن بہ پیل

اور اس کا ذکر بھی عام صیغہ سے کیا تاکہ کسی خاص گروہ کی پردہ دری نہ ہو بلکہ تمام مسلمان بحیثیت مجموعی اس تعلیم کو قبول کریں اور اپنے اندر کسی ایسے رجحان کو نشوونما نہ پانے دیں جو تقویٰ و توکل، باہمی ہمددردی اور اطاعت اللہ و رسول کے خلاف ہو۔
جس قسم کے سوال کی طرف قرآن نے یہاں اشارہ کیا ہے اس کی تفصیل تاریخ و سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ ابن ہشام میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے فارغ ہونے کے بعد حکم دیا کہ فوج کے لوگوں نے جتنا مال غنیمت جمع کیا ہے سب اکٹھا کیا جائے چنانچہ و ہ سب اکٹھا کیا گیا۔ اب لوگوں میں اختلاف ہوا کہ یہ کس کا حق ہے؟ جن لوگوں نے جمع کیا تھا وہ مدعی ہوئے کہ یہ ہمارا حق ہے، اگر ہم نہ ہوتے تو یہ مال حاصل نہ ہوتا، ہم نے دشمن کو مار بھگایا اس وجہ سے یہ ہاتھ لگا۔ اسی طرح جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر تھے انھوں نے کہا کہ ہم بھی سب کچھ کر سکتے تھے، لڑ بھی سکتے تھے، غنیمت بھی جمع کر سکتے تھے لیکن ہم نے رسول اللہ کی حفاظت کے کام کو دسرے تمام کاموں پر مقدم رکھا اس وجہ سے مال غنیمت میں دوسرے لوگ ہم سے زیادہ حق دار نہیں ہو سکتے۔ غرض مختلف سوالات اٹھ کھڑے ہوئے جن سے لوگوں کے اندر دبی ہوئی بعض کمزوریاں سامنے آ گئیں اور حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ ان کمزوریوں کا برسر موقع علاج ہو جائے تا کہ یہ مزید بڑھنے نہ پائیں۔
سوالات کا اصولی جواب: ’قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ‘۔ یہ ان تمام سوالات کا جامع اور اصولی جواب ہے کہ ان کو بتا دو کہ اموال غنیمت اللہ اور رسول کی ملک ہیں۔ ’اللہ و رسول کی ملک‘ قرآن میں اجتماعی ملکیت کی تعبیر ہے۔ اس اصولی جواب نے اموال غنیمت کے باب میں اس جاہلی دستور کا خاتمہ کر دیا جو اب تک رہا تھا اور جس کی بنا پر ہی وہ سوالات پیدا ہوئے تھے جو اوپر مذکور ہوئے۔ گویا اموال غنیمت میں استحقاق کی بنیاد یہ نہیں ہو گی کہ کس نے جمع کیا، کس نے بالفعل جنگ کی، کس نے پہرہ دیا بلکہ اس میں سب مجاہدین، بلالحاظ اس کے کہ کس کی خدمت کی نوعیت کیا رہی ہے، شریک ہوں گے اور دوسرے مسلمانوں کا بھی اس میں حصہ ہوگا۔ یہاں یہی اصولی جواب دے کر کلام کا رخ ان خامیوں کی اصلاح کی طرف مڑ گیا ہے جو اس واقعہ سے نمایاں ہوئی تھیں۔ پھر آگے چل کر آیت ۴۱ میں اس اجمال کی تفصیل بھی فرما دی کہ اس کا کتنا حصہ مجاہدین پر تقسیم ہو گا اور کتنا حصہ دوسرے مسلمانوں کے حق کی حیثیت سے بیت المال میں جمع ہو گا۔
مسلمانوں کی اجتماعی شیرازہ بندی کی بنیاد: ’فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ‘ جس طرح تقویٰ اور پاس رِحم کو سورۂ نساء میں تمام خاندانی و معاشرتی صلاح و فلاح کی اساس ٹھہرایا ہے۔ اسی طرح یہاں تقویٰ اور اصلاح ذات البین کو مسلمانوں کی اجتماعی شیرازہ بندی کی بنیاد قراردیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اموال غنیمت اصلاً اللہ اور رسول کی ملکیت ہیں تو اللہ و رسول جس طرح ان کو تقسیم کریں پوری خوش دلی اور رضا مندی سے اس کو قبول کرو۔ نہ اللہ کے حکم سے متعلق دل میں کوئی بدگمانی یا رنجش پیدا ہو اور نہ اپنے دینی بھائیوں کے خلاف کوئی رشک و حسد کا جذبہ ابھرے کہ فلاں اور فلاں کو اس مال میں کیوں شریک بنا دیا گیا؟ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ان کے باہمی تعلقات کی بنیاد اخوت، رحم اور محبت پر ہے۔ یہ ’رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ‘ کا گروہ ہے، ان کے اندر حسد، رقابت، خود غرضی اور نفسا نفسی کی حالت اس ایمان اور تقویٰ کے منافی ہے جس کو انھوں نے اختیار کیا ہے۔ جن کے اندر ابھی کو ئی کانٹا اپنے دینی بھائیوں کے خلاف موجود ہے وہ اس کو نکال ڈالیں اور اپنے دامن دل کو ہر قسم کے غبار سے پاک و صاف کر لیں۔
ایمان باللہ کا لازمی تقاضا: ’وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘ یہ ’ایمان باللہ‘ کا اصل تقاضا بیان ہوا کہ جو لوگ اللہ و رسول پر ایمان کے مدعی ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ و رسول کے ہر حکم کی اطاعت کریں۔ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ اللہ و رسول کا کوئی حکم اپنی خواہشات نفس کے خلاف ہو تو اس کے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرے یا اس سے متعلق دل میں کوئی رنجش یا بدگمانی جگہ پائے۔ ’اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں وہ ایمان کی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جنھوں نے ایمان کی یہ حقیقت نہیں سمجھی ہے ان کا دعوائے ایمان بالکل بے حقیقت ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہ تم سے غنائم کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ اِنھیں بتا دو کہ یہ سب غنائم اللہ اور اُس کے رسول کے ہیں۔ اِس لیے اللہ سے ڈرو، (اِس معاملے میں کوئی نزاع پیدا نہ کرو اور) اپنے آپس کے معاملات کی اصلاح کر لو اور اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مانو، اگر تم مومن ہو۔

آیت میں لفظ ‘اَلْاَنْفَال’ آیا ہے۔ ‘نفل’ اُس چیز کو کہتے ہیں جو حق سے زیادہ حصۂ مزید کے طور پر دی جائے۔ اِس تعبیر میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کا اجر تو اُس کے ہاں بالکل الگ اور دائمی طور پر محفوظ ہو جاتا ہے، اِس کے ساتھ جو مال غنیمت دشمن سے حاصل ہوتا ہے، وہ ایک حصۂ مزید ہے۔ قیامت سے پہلے وہ اللہ تعالیٰ اِسی دنیا میں مجاہدین کو عطا کر دیتے ہیں۔

یہ سوال اعتراض کی نوعیت کا ہے اور غزوئہ بدر میں حاصل ہونے والے مال غنیمت سے متعلق پیدا ہوا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں دستور تھا کہ جو جتنا مال جنگ میں لوٹے، وہ اُسی کا حق ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے بعد جب لوٹنے والوں سے دوسروں نے جنگی خدمات کی بنا پر اپنے حق کا مطالبہ کیا تو اُس سے ایک نزاع پیدا ہو گئی جس نے کسی حد تک تلخی کی صورت اختیار کر لی۔یہ سوال اِسی پس منظر میں اور مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے کیا گیا ہے۔*
یعنی اِس وقت جو غنائم حاصل ہوئے ہیں، اُن کے متعلق خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ اُن پر کسی شخص کا بھی کوئی حق قائم نہیں ہوتا۔ یہ سب اللہ اور رسول کا ہے اور وہ اِس کے ساتھ جو معاملہ چاہیں گے، اپنی صواب دید کے مطابق کریں گے۔ یہ فیصلہ اِس لیے کیا گیا کہ زمانۂ رسالت کی جنگیں زیادہ تر اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت کے تحت لڑی گئی تھیں اور اِن میں لڑنے والوں کی حیثیت اصلاً آلات و جوارح کی تھی۔ وہ اللہ کے حکم پر میدان میں اترے اور براہ راست اُس کے فرشتوں کی مدد سے فتح یاب ہوئے تھے۔ لہٰذا اِن جنگوں کے مال غنیمت پر اُن کا کوئی حق اللہ تعالیٰ نے تسلیم نہیں کیا، تاہم آگے جا کر بتا دیا ہے کہ اِس کے باوجود یہ سارا مال نہیں، بلکہ اِس کا پانچواں حصہ ہی اجتماعی مقاصد کے لیے خاص رہے گا اور باقی ازراہ عنایت مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ بحث و اختلاف کی گرما گرمی میں اگر کوئی بدگمانی یا رنجش پیدا ہو گئی ہے یا اپنے بھائیوں کے بارے میں رشک و حسد کے جذبات کسی کے دل میں ابھرے ہیں کہ فلاں اور فلاں کو اِس مال میں کیوں شریک بنایا گیا ہے، تو اپنی اصلاح کر لو۔ تم سب بھائی بھائی ہو۔ تمھارے تعلقات اخوت، رحم اور محبت کی بنیاد پر قائم ہونے چاہییں۔ یہ ایمان و تقویٰ کے منافی ہے کہ تمھارا دامن دل حسد، رقابت اور خود غرضی کے غبار سے آلودہ ہو، اِسے پاک صاف کر لو۔
_____
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ٢/ ٥٧٠۔

ابو الاعلی مودودی

تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔”

یہ اس تبصرہ جنگ کی عجیب تمہید ہے۔ بدر میں جو مال غنیمت لشکر قریش سے لوٹا گیا تھا اس کی تقسیم پر مسلمانوں کے درمیان نزاغ برپا ہوگئی۔ چونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان لوگوں کو پہلی مرتبہ پرچم اسلام کے نیچے لڑنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیے ان کو معلوم نہ تھا کہ اس مسلک میں جنگ اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق کیا ضابطہ ہے۔ کچھ ابتدائی ہدایات سورة بقرہ اور سورة محمد میں دی جا چکی تھیں۔ لیکن ” تہذیب جنگ “ کی بنیاد ابھی رکھنی باقی تھی۔ بہت سے تمدنی معاملات کی طرح مسلمان ابھی تک جنگ کے معاملہ میں بھی اکثر پرانی جاہلیت ہی کے تصورات لیے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے بدر کی لڑائی میں کفار کی شکست کے بعد جن لوگوں نے جو جو کچھ مال غنیمت لوٹا تھا وہ عرب کے پرانے طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھ بیٹھے تھے۔ لیکن ایک دوسرا فریق جس نے غنیمت کی طرف رخ کرنے کے بجائے کفار کا تعاقب کیا تھا، اس بات کا مدعی ہوا کہ اس مال میں ہمارا برابر کا حصہ ہے کیونکہ اگر ہم دشمن کا پیچھا کرکے اسے دور تک بھگا نہ دیتے اور تمہاری طرح غنیمت پر ٹوٹ پڑتے تو ممکن تھا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ کردیتا اور فتح شکست سے بدل جاتی۔ ایک تیسرے فریق نے بھی، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کر رہا تھا، اپنے دعاوی پیش کیے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ سب سے بڑھ کر قیمتی خدمت تو اس جنگ میں ہم نے انجام دی ہے۔ اگر ہم رسول اللہ کے گرد اپنی جانوں کا حصار بنائے ہوئے نہ رہتے اور آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح ہی کب نصیب ہو سکتی تھی کہ کوئی مال غنیمت ہاتھ آتا اور اس کی تقسیم کا سوال اٹھتا۔ مگر مال عملاً جس فریق کے قبضہ میں تھا اس کی ملکیت گویا کسی ثبوت کی محتاج نہ تھی اور وہ دلیل کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ ایک امر واقعی کے اس زور سے بدل جائے۔ آخر کار اس نزاع نے تلخی کی صورت اختیار کرنی شروع کردی اور زبانوں سے دلوں تک بدمزگی پھیلنے لگی۔

یہ تھا وہ نفسیاتی موقع جسے اللہ تعالیٰ نے سورة انفال نازل کرنے کے لیے منتخب فرمایا اور جنگ پر اپنے تبصرے کی ابتدا اسی مسئلے سے کی۔ پھر پہلا ہی فقرہ جو ارشاد ہوا اسی میں سوال کا جواب موجود تھا فرمایا ” تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں “ ؟ یہ ان اموال کو ” غنائم “ کے بجائے ” انفال “ کے لفظ سے تعبیر کرنا بجائے خود مسئلے کا فیصلہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ انفال جمع ہے نفل کی۔ عربی زبان میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب سے یا حق سے زائد ہو۔ جب یہ تابع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد وہ رضا کارانہ خدمت ہوتی ہے جو ایک بندہ اپنے آقا کے لیے فرض سے بڑھ کر تَطُوَّعًا بجا لاتا ہے۔ اور جب یہ متبوع کی طرف سے ہو تو اس سے مرادہ وہ عطیہ و انعام ہوتا ہے جو آقا اپنے بندے کو اس کے حق سے زائد دیتا ہے۔ پس ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ساری ردّ و کد، یہ نزاع، یہ پوچھ گچھ کیا خدا کے بخشے ہوئے، انعامات کے بارے میں ہو رہی ہے ؟ اگر یہ بات ہے تو تم لوگ ان کے مالک و مختار کہاں بنے جا رہے ہو کہ خواد ان کی تقسیم کا فیصلہ کرو۔ مال جس کا بخشا ہوا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کیسے دیا جائے اور کسے نہیں، اور جس کو بھی دیا جائے اسے کتنا دیا جائے۔

یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی اخلاقی اصلاح تھی۔ مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی وتمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے، جسے مجبوراً اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں۔ پس مصلحین کی نظر اپنے مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ ان فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں۔

پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی انتظامی اصلاح بھی تھی۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہوجاتا۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہوجاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کردیتی۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کردیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بےکم وکاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اس پوری فوج میں تقسیم کردیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہوگئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں۔

اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ذہن میں رہنا چاہیے، یہاں انفال کے قصے کو صرف اتنی بات کہہ کر ختم کردیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ تقسیم کے مسئلے کو یہاں نہیں چھیڑا گیا تاکہ پہلے تسلیم و اطاعت مکمل ہوجائے۔ پھر چند رکوع کے بعد بتایا گیا کہ ان اموال کو تقسیم کس طرح کیا جائے۔ اسی لیے یہاں انہیں ” انفال “ کہا گیا ہے اور رکوع ٥ میں جب تقسیم کا حکم بیان کرنے کی نوبت آئی تو انہی اموال کو ” غنائم “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا۔

جونا گڑھی

یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئے ! کہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہ ۔

 اَنْفَا ل، نَفَل،ُ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ مال و اسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اس کو (نفل) (زیادہ) اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے اس لئے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔

١۔ ٢ یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کے رسول اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو تقسیم کرلو۔ 

١۔ ٣ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقوٰ ی، اصلاح ذات البین اور اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے اس کے علاج کے لئے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیرا پھیری اور خیانت کا بھی امکان رہتا ہے اس کے لیے تقوی کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔ 

إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتُهُۥ زَادَتْهُمْ إِيمَـٰنًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

امین احسن اصلاحی

مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل دہل جائیں اور جب اس کی آیتیں ان کو سنائی جائیں تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کریں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھیں۔

سچے اہل ایمان کے اوصاف: ’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ............‘ اب یہ حقیقی ایمان اور سچے اہل ایمان کے اوصاف بیان ہو رہے ہیں۔ گویا ’اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘ کے الفاظ ہیں جن کمزور قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ تھا ان کے سامنے سچے اہل ایمان کی تصویر رکھ دی گئی کہ اگر ایمان کا دعویٰ ہے تو اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرو۔ ان صفات کے بدوں یہ دعویٰ کسی کو زیب نہیں دیتا۔

ایمان کی پہلی علامت: ’اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا‘۔ ان کی پہلی علامت یہ بتائی ہے کہ ان کے اندر خدا کی عظمت و کبریائی اور اس کی جلالت کا شعور ہوتا ہے۔ اس وجہ سے وہ خدا سے برابر ڈرتے رہتے ہیں۔ جب ان کے سامنے خدا کا نام آ جائے، جب ان کو اس کی یاددہانی کی جائے، جب ان کے سامنے کوئی بات خدا کی بات کی حیثیت سے پیش کی جائے، وہ اس کو خوف و خشیت کے گہرے احساس کے ساتھ سنتے ہیں۔ گویا ایمان کا پہلا تقاضا خدا کا خوف ہے جو اس کی عظمت و جلالت اور اس کی صفات عدل و حکمت و ربوبیت و رحمت کے صحیح تصور سے پیدا ہوتا ہے اور اسی سے وہ تقویٰ وجود میں آتا ہے جس کی اوپر ’وَتَّقُوا اللّٰہ‘ کے الفاظ سے ہدایت فرمائی گئی ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ خدا کی رحمت و ربوبیت بھی، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں، خدا کے عدل اور اس کے روز جزا کو مستلزم ہیں، اس وجہ سے ان صفات کا صحیح تصور بھی بندے کو خدا سے بے خوف نہیں بناتا بلکہ اس کے خوف کو بڑھاتا ہے اور اس خوف کی بنیاد خدا کی محبت پر ہوتی ہے۔
ایمان کی دوسری علامت: دوسری علامت یہ بتائی کہ جب اللہ کی آیات ان کو سنائی جاتی ہیں یہ ان کے ایمان کو بڑھاتی ہیں۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہاں آیات سے مراد خدا کے احکام اور اس کے قوانین ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خدا پر ایمان کے بعد ان کو سب سے زیادہ مرغوب و مطلوب خدا کی پسند و ناپسند اور اس کی مرضیات و احکام کا علم ہوتا ہے اور یہ علم ان کی دولت ایمان میں اضافہ کرتا ہے۔ ایمان کی مثال جڑ کی ہے اور آداب و احکام اور قوانین و شرائع کی حیثیت اس جڑ سے پھوٹی ہوئی شاخوں اور ان سے ظہور میں آئے ہوئے برگ و بار کی۔ گویا پوری شریعت، ایمان ہی کا مظہر اور اسی کے مضمرات کی تفصیل ہوئی۔
’زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا‘ کے اسلوب بیان سے یہ بات نکلتی ہے کہ جن کے اندر ایمان موجود ہوتا ہے جب ان کے سامنے ایمان کے مقتضیات و مطالبات آتے ہیں تو وہ پوری بشاشت سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وہ ان مقتضیات و مطالبات کو اپنے ہی لگائے ہوئے درخت کا پھل اور اپنی ہی بوئی ہوئی کھیتی کا حاصل سمجھتے ہیں اور جس طرح ہر کسان اپنی کھیتی کے حاصل اور اپنے درخت کے پھلوں میں افزونی دیکھ کر باغ باغ ہوتا ہے اسی طرح یہ اہل ایمان بھی اپنے ایمان کی یہ افزائش دیکھ کر شادمان ہوتے ہیں۔ یہ گویا ان مدعیان ایمان پر ایک لطیف تعریض ہوئی جو ایمان کا دعویٰ کرنے کو تو کر بیٹھے لیکن جب اس کے مطالبے سامنے آئے تو ان سے خوش ہونے کے بجائے ان کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے کہ یہ کیا بلا نازل ہو گئی۔
ایک نکتہ: یہ نکتہ بھی یہاں ملحوظ رہے کہ ایمان کے اقرار کے بعد اس کے مطالبات میں سے بڑا یا چھوٹا جو مطالبہ بھی اہل ایمان کے سامنے آتا ہے وہ ان کے لیے آزمائش و امتحان کا ایک میدان کھولتا ہے اور جو سچے اہل ایمان ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے گھبرانے کی بجائے اس میں بازی جیتنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کوشش ان کی مومنانہ فتوت کا ایک فطری تقاضا ہوتی ہے۔ جس کے بروئے کار آنے سے ان کے لیے ہر امتحان فتح مندی کا ایک نیا دروازاہ کھولتا ہے جس سے ان کا ایمان قوی سے قوی تر ہوتا جاتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف سورۂ احزاب میں یوں اشارہ فرمایا گیا ہے

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَمَا زَادَھُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا (۲۲۔ احزاب)
(اور جب مومنوں نے پارٹیوں کے ہجوم کو دیکھا تو بولے، یہ تو وہی صورت حال سامنے آئی ہے جس سے اللہ و رسول نے پہلے ہی ہمیں خبردار کر دیا تھا، اور اس چیز نے ان کے ایمان و اطاعت میں اضافہ ہی کیا)

ایمان کی تیسری علامت: ’وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ‘ یہ ان کی تیسری علامت بیان ہوئی ہے کہ وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے یعنی ایمان کے مطالبے، خواہ سخت ہوں یا نرم، ان سے دنیوی مفادات کو نقصان پہنچے یا نفع، ان کی خاطر تعلقات ٹوٹیں یا جڑیں وہ بہرحال دین و دنیا کی فلاح اپنے رب کے احکام کی تعمیل ہی میں سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایمان کی راہ میں انھیں اپنے سر بھی کٹوانے پڑ جاتے ہیں تو وہ یہی یقین رکھتے ہیں کہ حیات جاوداں کے حصول کی راہ یہی ہے۔ ان کو اپنے رب پر پورا بھروسہ ہوتا ہے کہ اس نے جو حکم بھی ان کو دیا ہے اور جس آزمائش میں بھی ان کو ڈالا ہے اس میں سرتاسر انہی کی فلاح ہے۔ اپنے بندوں کے ساتھ خدا کا کوئی معاملہ بھی حکمت و مصلحت اور رحمت و برکت سے خالی نہیں۔ اس ٹکڑے میں بھی ان خام کاروں پر تعریض ہے جو دین کے مطالبات کو اپنے مفادات کی میزان میں تولنے کے خواہش مند تھے اور وہ باتیں ان کو بالکل بے مصلحت نظر آتی تھیں جن کو وہ اپنی خواہشات کے خلاف پاتے تھے۔

جاوید احمد غامدی

(یاد رکھو)، اہل ایمان تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل دہل جاتے ہیںاور جب اُس کی آیتیں اُنھیں سنائی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔

یہاں سے آگے سچے اہل ایمان کی تصویر ہے جو اُن لوگوں کے سامنے رکھی گئی ہے جنھیں ‘اگر تم مومن ہو’ کے الفاظ میں خطاب فرمایا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہو تو اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرو۔ اِن کے بغیر یہ دعویٰ کسی کو زیب نہیں دیتا۔

یہ سچے اہل ایمان کی پہلی علامت بتائی ہے کہ وہ خدا کی عظمت و جلالت اور کبریائی کا شعور رکھتے ہیں، لہٰذا خدا کی کوئی بات بھی اُن کے سامنے پیش کی جائے، وہ اِس گہرے احساس کے ساتھ اُس کو سنتے ہیں کہ یہ اُس ہستی کا ذکر ہو رہا ہے یا اُس کے نام پر کوئی بات کہی جا رہی ہے، جس کی ناراضی کا خوف ہر انسان کے نہاں خانہئ وجود میں جاگزیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ اُن کا دل اِس گہرے احساس سے لرز جاتا ہے۔
یہ دوسری علامت ہے۔ قرینہ دلیل ہے کہ آیات سے یہاں کتاب الٰہی کی وہ آیات مراد ہیں جن میں خدا کے احکام اور قوانین بیان ہوتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اہل ایمان جب اِن احکام و قوانین کو سنتے ہیں تو اِنھیں ایمان ہی کا مظہر اور اُس کے مضمرات کی تفصیل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اپنے ایمان کے شجرئہ طیبہ پر یہ برگ و بار دیکھ کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح ایمان کے اِن مطالبات کو جب وہ پورا کرتے ہیں تو امتحان و آزمایش کے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اُن میں خدا کی تائید و نصرت کا ظہور اور کامیابی سے گزرنے کے بعد فتح مندی کا احساس بھی اُن کے ایمان کو قوی سے قوی تر بنا دیتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

‘’‘زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا’ کے اسلوب بیان سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جن کے اندر ایمان موجود ہوتا ہے، جب اُن کے سامنے ایمان کے مقتضیات و مطالبات آتے ہیں تو وہ پوری بشاشت سے اُن کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ وہ اِن مقتضیات و مطالبات کو اپنے ہی لگائے ہوئے درخت کا پھل اور اپنی ہی بوئی ہوئی کھیتی کا حاصل سمجھتے ہیں اور جس طرح ہر کسان اپنی کھیتی کے حاصل اور اپنے درخت کے پھلوں میں افزونی دیکھ کر باغ باغ ہوتا ہے، اِسی طرح یہ اہل ایمان بھی اپنے ایمان کی یہ افزایش دیکھ کر شادمان ہوتے ہیں۔ یہ گویا اُن مدعیان ایمان پر ایک لطیف تعریض ہوئی جو ایمان کا دعویٰ کرنے کو تو کر بیٹھے، لیکن جب اُس کے مطالبے سامنے آئے تواُن سے خوش ہونے کے بجاے اُن کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے کہ یہ کیا بلا نازل ہوگئی۔’’ (تدبرقرآن٣/ ٤٣٢)

یہ تیسری علامت ہے۔ یعنی امتحان و آزمایش کے مراحل میں وہ اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔ اُنھیں یقین کامل ہوتا ہے کہ اُن کے پروردگار نے جو حکم بھی دیا ہے اور جس امتحان سے بھی گزارا ہے ، اُس میں سرتاسر اُنھی کی فلاح ہے۔ چنانچہ تمام احکام اور تمام امتحانات کو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اُن میں یقینا کوئی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہو گی اور جلد یا بدیر وہ اُن کے لیے رحمت و برکت کی صورت میں ظاہر ہو جائے گی۔

ابو الاعلی مودودی

سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں۔

یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکم الہٰی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیق کر کے سر اطاعت جھکا دے، آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف، اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمان خدا و رسول کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کرلے تو اس سے آدمی کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہوجاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے، اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی ایک مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا، اور اگر اس نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔ نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشوونما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے۔ اور اس طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقاء بھی ہوسکتا ہے اور تنزل بھی۔ البتہ فقہی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و واجبات یکساں ہوں گے خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو۔ اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں ذمی یا حربی یا معاہد و مسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو۔

جونا گڑھی

بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں

 ان آیات میں اہل ایمان کی ٤ صفات بیان کی گئی ہیں ١، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ ٢۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ ٣۔ تلاوت قرآن سے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے) ٤۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض و گریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی نہیں سب کچھ ہی نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کار فرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لئے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہوگی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کرسکیں گے اور اس یقین اعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد و اعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لئے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ اور مغفرت و رحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شمار فرمالے) جنگ بدر کا پس منظر۔ جنگ بدر جو ٢ ہجری میں ہوئی کافروں کیساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی نیز بےسروسامانی کیوجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصرا اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابو سفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سر کردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سامال و اسباب ہجرت کیوجہ سے مکہ رہ گیا تھا یا کافروں نے چھین لیا تھا نیز کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابو سفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو اپنا راستہ تبدیل کرلیا۔ دوسرے مکہ اطلاع بھجوادی جس کی بنا پر ابو جہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کا مشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ 

ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ

امین احسن اصلاحی

جو نماز کا اہتمام کریں اور اس مال میں سے، جو ہم نے ان کو بخشا ہے، خرچ کریں۔

ایمان کی چوتھی علامت: ’الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ‘ یہ چوتھی علامت بیان ہوئی اور اس کی حیثیت، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں، رأس الصفات کی ہے اس لیے کہ انہی دو چیزوں ۔۔۔ اہتمام نماز اور انفاق ۔۔۔ سے ان تمام اوصاف کو بیان کرنے کے بعد جن کا بیان کرنا پیش نظر گروہ کی خامیوں کی اصلاح کے لیے ضروری ہوا، آخر میں ان دو چیزوں کا ذکر فرمایا جو سب کی جامع بھی ہیں اور سب کی محافظ بھی۔

جاوید احمد غامدی

وہ نماز کا اہتمام کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُنھیں دیا ہے، اُس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔

یہ چوتھی علامت ہے اور اِس میں جو چیزیں بیان ہوئی ہیں، وہ سب کی جامع اور محافظ ہیں۔ ایمان جو اوصاف اہل ایمان کے اندر پیدا کرتاہے، اُن کی شیرازہ بندی اِنھی دو چیزوں ۔۔۔۔۔۔ نماز اور انفاق ۔۔۔۔۔۔ سے ہوتی ہے۔ قرآن مجیدمیں جگہ جگہ یہ اِسی حیثیت سے بیان ہوئی ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

أُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَـٰتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

امین احسن اصلاحی

یہی لوگ سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجے اور مغفرت اور باعزت روزی ہے۔

’اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا‘ یعنی جن کے اندر یہ اوصاف ہیں سچے مومن وہی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اہل ایمان کی صفوں میں آ تو گھسے ہیں لیکن ان اوصاف سے عاری ہیں، وہ محض مدعی ایمان ہیں۔ سچے مومن نہیں ہیں۔ گویا اوپر ’اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘ کے الفاظ میں جو بات اشارۃً فرمائی گئی تھی اب وہ پوری طرح واضح ہو کر سامنے آ گئی۔

’لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ‘ مطلب یہ ہے کہ خدا کے ہاں جو درجے اور مرتبے ہیں وہ ہر مدعی ایمان کے لیے نہیں ہیں بلکہ انہی لوگوں کے لیے ہیں جو اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سیاق میں ’مغفرۃ‘ کا لفظ بڑا بلیغ اور بشارت انگیز ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر چند مطلوب و مطبوع تو یہی اوصاف ہیں اور مراتب انہی کے اعتبار سے قائم ہوں گے لیکن اللہ رحیم و کریم ہے، وہ اپنے بندوں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے اس وجہ سے ان غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے اس کی مغفرت کا دامن بھی ہے جو انسان کی بشریت کے لوازم میں سے ہیں۔
’رزق‘ کا لفظ، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کر چکے ہیں ایک جامع لفظ ہے اور ’کریم‘ کی صفت اس کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اگرچہ بندوں کو سارا رزق و فضل رب کی عنایت ہی سے ملے گا لیکن اس کے ساتھ بندوں کے لیے عزت کی یہ سرفرازی بھی ہو گی کہ یہ سب کچھ ان کے حق کی حیثیت سے ان کو عطا ہو گا۔
ایمان کے گھٹنے اور بڑھنے کی نوعیت: اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ایمان کوئی ٹھونٹھ درخت نہیں ہے بلکہ یہ جڑ بھی رکھتا ہے اور شاخیں اور برگ و بار بھی۔ قرآن میں اس کی تمثیل یوں بیان ہوئی ہے کہ ’اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ‘ اس کی مثال ایک ایسے درخت کی ہے جس کی جڑیں پاتال میں اتری ہوئی ہوں اور جس کی شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہوں۔ یہ جس طرح عقائد پر مبنی ہے اسی طرح احکام و شرائع پر بھی مشتمل ہے اور جس طرح ایک شاداب درخت اپنی جڑوں سے بھی غذا حاصل کرتا ہے اور اپنی شاخوں اور پتوں سے بھی، اسی طرح یہ عقائد کی معرفت اور اعمال کی بجا آوری دونوں سے غذا اور قوت حاصل کرتا ہے۔ اگر عقائد میں کھوکھلا پن پیدا ہو جائے جب بھی یہ سوکھ جاتا ہے اور اگر اس کی شاخوں کو کوئی روگ لگ جائے جب بھی یہ مضمحل ہو جاتا ہے۔ اس کے صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ اس کی جڑ اور اس کی شاخوں دونوں کی دیکھ بھال ہوتی رہے۔ اس دیکھ بھال سے یہ بڑھتا، پھیلتا اور پھلتا پھولتا ہے اور اس کے مفقود ہو جانے سے وہ گھٹتا، سکڑتا اور مردہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن و حدیث دونوں سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ ہمارے فقہاء اور متکلمین میں سے جن لوگوں نے ایمان کے گھٹنے بڑھنے سے انکار کیا ہے ان کی بات کا کوئی صحیح محل اگر ہو سکتا ہے تو یہ ہو سکتا ہے کہ اس کو قانونی ایمان سے متعلق مانا جائے۔ قانون چونکہ صرف ظاہری حالات سے تعلق رکھتا ہے، باطن اس کی دسترس سے باہر ہے اس وجہ سے اس کی نظر میں ایک مخلص اور ایک منافق کے ایمان میں کوئی فرق نہیں ہوتا لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقت کی نگاہ میں بھی دونوں کا ایمان یکساں ہے۔ یہاں اس اجمالی اشارے پر قناعت کیجیے۔ اس پر تفصیلی بحث اپنے محل میں آئے گی۔

جاوید احمد غامدی

یہی سچے مومن ہیں۔ اِن کے پروردگار کے پاس اِن کے لیے درجے ہیں، مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔

یعنی اُن کے ایمان و یقین کی کیفیات اور اُن کے ظہور کے لحاظ سے درجے ہیں، اُن کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے لیے خدا کا دامن مغفرت ہے اور اِس کے نتیجے میں ایسی روزی ہے جو اِس عزت کے ساتھ دی جائے گی کہ یہ درحقیقت اُنھی کا حق ہے جو اُنھیں دیا جا رہا ہے۔

یہ امر ملحوظ رہے کہ اِن آیتوں میں جس ایمان کا ذکر ہوا ہے، وہ قانونی اور فقہی ایمان نہیں ہے جس سے لوگوں کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جاتا ہے، بلکہ حقیقی ایمان ہے اور یہ ہرگز کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ اللہ کے ذکر اور اُس کی آیتوں کی تلاوت اور انفس و آفاق میں اُن کے ظہور سے اِس میں افزونی ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے دوسری جگہ اِسے ایک ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین کے اعماق میں اتری ہوئی اور شاخیں آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہوں۔ چنانچہ انسان اگر اپنے ایمان کو علم نافع اور عمل صالح سے برابر بڑھاتے رہنے کے بجاے اُس کے تقاضوں کے خلاف عمل کرنا شروع کر دے تو یہ کم بھی ہوتا ہے، بلکہ بعض حالات میں بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں۔ قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔

قصور بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر اہل ایمان سے بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں، اور جب تک انسان انسان ہے یہ محال ہے کہ اس کا نامہ اعمال سراسر معیاری کارناموں ہی پر مشتمل ہو اور لغزش، کو تاہی، خامی سے بالکل خالی رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے یہ بھی ایک بڑی رحمت ہے کہ جب انسان بندگی کی لازمی شرائط پوری کردیتا ہے تو اللہ اس کی کوتاہیوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کی خدمات جس صلے کی مستحق ہوتی ہیں اس سے کچھ زیادہ صلہ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ ورنہ اگر قاعدہ یہ مقرر کیا جاتا کہ ہر قصور کی سزا اور ہر خدمت کی جزا الگ الگ دی جائے تو کوئی بڑے سے بڑا صالح بھی سزا سے نہ بچ سکتا۔

جونا گڑھی

سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔

كَمَآ أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنۢ بَيْتِكَ بِٱلْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ لَكَـٰرِهُونَ

امین احسن اصلاحی

اسی طرح کی بات اس وقت ظاہر ہوئی جب تمہارے رب نے ایک مقصد کے ساتھ تم کو گھر سے نکلنے کا حکم دیا اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ کو یہ بات ناگوار تھی۔

’کَمَا‘ کے مواقع استعمال: ’کَمَا‘۔ عربی زبان میں ’کَذَالِک‘، ’کَدَأبِک‘ اور ’کَمَا‘، بسا اوقات واقعہ کی مماثلت واقعہ سے ظاہر کرنے کے لیے بھی آتے ہیں۔ ایسی صورت میں متعین الفاظ کے اندر ان کا مشبہ اور مشبہ بہ نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت مجموعی واقعہ کے اندر ہوتا ہے۔ ’کَذٰلِک‘ بقرہ کی آیت ۱۴۳ میں اسی نوعیت سے آیا ہے۔ امرأ القیس نے اپنے مشہور قصیدہ میں پہلے اپنی ایک سرگزشت عشق بیان کی اس کے بعد ’کَدَابک من ام الحویرث قبلھا‘ کہہ کر اپنی اسی طرح کی دوسری سرگزشتوں کا ذکر شروع کر دیا کہ اسی طرح کا ماجرا اس کو فلاں اور فلاں کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔ بقرہ آیت ۱۵۱ سے اوپر تحویل قبلہ کا ذکر ہوا پھر بدوں کسی تقریب و تمہید کے ارشاد ہوا ’کَمَا اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ‘ یہ بھی اسی طرح کا اسلوب بیان ہے یعنی تمہارے قبلہ کو اہل کتاب کے قبلہ سے الگ کر کے خدا نے تم کو ایک علیحدہ امت کی حیثیت سے ممتاز کر دیا۔ اسی طرح کا ’کَمَا‘ یہ زیربحث آیت میں بھی ہے۔ اوپر جیسا کہ مذکور ہوا، ان کمزور قسم کے مسلمانوں کے رویہ پر گرفت فرمائی ہے جو بدر میں حاصل شدہ مال غنیمت کی تقسیم پر معترض ہوئے تھے۔ جب ان کی یہ کمزوری زیربحث آ گئی تو تعلیم و تربیت کا تقاضا یہ ہوا کہ ان لوگوں کی ایک اور کمزوری کی طرف بھی توجہ دلا دی جائے جو اس سے پہلے ان سے اس وقت ظاہر ہوئی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے بدر کے لیے نکلنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ گویا اس وقت تو ان کی غلطی نظرانداز فرما دی گئی کہ حکمت کا تقاضا یہی تھا لیکن جب اسی طرح کی غلطی ان سے پھر صادر ہوئی تو اس پر گرفت فرمائی گئی اور ساتھ ہی سابق غلطی کی طرف بھی اشارہ فرما دیا گیا کہ لوگ متنبہ ہو جائیں کہ یہ بیماری کہاں سے چلی ہے اور اگر اس کی اصلاح نہ ہوئی تو کہاں تک پہنچ سکتی ہے۔

بدر کے لیے مسلمانوں کا نکلنا ایمائے الٰہی سے ہوا: ’اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ م بَیْتِکَ بِالْحَقِّ‘۔ ’اَخْرَجَکَ رَبُّکَ‘ کے الفاظ اس امر پر نہایت واضح دلیل ہیں کہ بدر کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نکلنا اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا تھا۔ آگے آیت ۴۲۔۴۳ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ آپ کو رویا میں شام کی طرف سے قافلۂ قریش کی واپسی اور مکی کی طرف سے فوج قریش کی آمد کا مشاہدہ کرا دیا گیا تھا اور حملہ آور فوج کی حقیقت بھی واضح کر دی گئی تھی کہ معنوی اعتبار سے وہ کچھ زیادہ وزنی نہیں ہو گی بلکہ مسلمانوں سے مغلوب ہو جائے گی۔ بلکہ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی رویا میں حضور کو قریش کے خاص خاص لیڈروں کے قتل ہونے کی جگہیں بھی دکھا دی گئیں۔ اسی رویا کی ہدایت کے بموجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اس وجہ سے اس کو ’اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ م بَیْتِکَ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آگے کی آیت ۴۲ سے یہ بات بھی واضح ہو گی کہ اسی خدائی رہنمائی کی برکت تھی کہ مسلمان بالکل ٹھیک اس وقت قریش کی فوج کے مقابلہ کے لیے بدر کے مقام پر پہنچ گئے جب کہ وادی کے ایک سرے پر ان کی فوج تھی اور نیچے سے قافلہ گزر رہا تھا۔
بدر کے لیے نکلنے کا اصل مقصد: ’بِالْحَقِّ‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے نکلنے کا یہ حکم ایک مقصد حق کے لیے دیا تھا۔ اس مقصد حق کی وضاحت آگے یوں فرما دی ہے:

’یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ‘
(اللہ تعالیٰ اپنے حکموں سے یہ چاہتا ہے کہ حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے)۔

’لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْکَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ‘
(تاکہ حق کا بول بالا کرے اور باطل کو نابود کرے مجرموں کے علی الرغم)

اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نکلنا ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ایک مقصد حق کے لیے تھا اور وہ مقصد حق یہ تھا کہ دین کا بول بالا ہو اور کفر کی جڑ کٹے۔ ظاہر ہے کہ کفر کی جڑ کٹ سکتی تھی تو قریش کی ہزیمت سے کٹ سکتی تھی نہ کہ ان کے کسی تجارتی قافلہ کو لوٹ لینے سے اس وجہ سے سیرت و مغازی کی کتابوں کی وہ روایت قرآن کے الفاظ کے صریحاً خلاف ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنا چاہتے تھے جو ابوسفیان کی سرکردگی میں شام سے واپس آ رہا تھا۔
مسلمانوں کے اندر کے ایک کمزور گروہ کی طرف اشارہ: ’وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَ‘۔ ’فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ سے کمزور قسم کے مسلمانوں کی وہ ٹولی مراد ہے جس کا کردار ابتدائے سورہ ہی سے زیربحث ہے اور جس نے مال غنیمت سے متعلق بعد میں وہ سوالات بھی اٹھائے جن پر اوپر کی آیات میں تبصرہ ہوا ہے۔ ’’فَرِیْقًا‘‘ کے لفظ سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ان لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی، بس ایک مختصر سی جماعت تھی۔ ان لوگوں نے جب یہ سنا ہو گا کہ کفار کی دو جماعتیں آ رہی ہیں جن میں سے ایک سے مقابلہ درپیش ہے تو یہ بات تو وہ فوراً تاڑ گئے ہوں گے کہ یہ مقابلہ بہرحال فوج سے ہونا ہے نہ کہ تجارتی قافلہ سے اس وجہ سے ان لوگوں پر دہشت طاری ہوئی اور یہ دہشت ان کے اس ضعف اعتماد علی اللہ کا نتیجہ تھی جس کی طرف اوپر آیت ۲ میں اشارہ ہوا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِسی طرح کی صورت اُس وقت پیش آئی تھی، جب تمھارا پروردگار تمھیں ایک مقصد حق کے ساتھ تمھارے گھر سے نکال لایا اور مسلمانوں کے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔

اصل میں لفظ ‘کَمَا’ ہے۔ یہ واقعہ سے واقعہ کی مماثلت کو ظاہر کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ اِس صورت میں اِس کا مشبہ اور مشبہ بہ متعین الفاظ کے اندر نہیں ہوتا، بلکہ بحیثیت مجموعی واقعہ کے اندر ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی صورت ہے۔ اوپر مال غنیمت سے متعلق نزاع کا ذکر ہوا ہے۔ اِسی طرح کا ایک معاملہ جنگ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے پیش آیا تھا۔ تزکیہ و تطہیر کی ضرورت سے قرآن نے اُسے بھی ساتھ ہی موضوع بنا لیا ہے۔

اِس کی وضاحت آگے فرما دی ہے کہ وہ مقصد حق یہ تھا کہ حق کا بول بالا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں کی جڑ کاٹ دی جائے۔ اِس سے قرآن نے اُن روایتوں کی تردید کر دی ہے جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے اُس تجارتی قافلے کو لوٹنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے تھے جو ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ ابتدا ہی سے قریش کی ہزیمت پیش نظر تھی اور نکلنے کی ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی تھی تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو کر رہ جائے۔ یہ چیز ، ظاہر ہے کہ کسی تجارتی قافلے کو لوٹ لینے سے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔
آیت میں ‘فَرِیْقًا’ کا لفظ بتاتا ہے کہ اُن لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی جن پر یہ دیکھ کر دہشت طاری ہو رہی تھی کہ پیش نظر تجارتی قافلہ نہیں، بلکہ قریش کا لشکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسی لشکر کی سرکوبی کے لیے مدینہ سے نکل رہے ہیں۔ تاہم یہ گروہ اتنا قابل لحاظ ضرور تھا کہ مسلمانوں کی جماعت کے تزکیہ و تطہیر کے لیے اِس کا رویہ زیر بحث آیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

(اِس مال غنیمت کے معاملہ میں بھی ویسی ہی صورت پیش آ رہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جبکہ) تیرا رب تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔

n/a

جونا گڑھی

جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی

 یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا، پھر اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ کردیا گیا تو اسی میں مسلمان کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مڈ بھیڑ ہوجانا، بعض طبائع کے لئے ناگوار تھا لیکن اس میں بھی بلآخر فائدہ مسلمانوں ہی کا تھا۔

 یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ صرف بےسروسامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔ 

يُجَـٰدِلُونَكَ فِى ٱلْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى ٱلْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ

امین احسن اصلاحی

وہ تم سے امر حق میں جھگڑتے رہے باوجودیکہ حق ان پر اچھی طرح واضح تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور وہ اس کو دیکھ رہے ہیں۔

کمزوروں کی کمزوری پر گرفت: ’یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنْظُرُوْنَ‘ لفظ ’مُجَادلۃ‘ کے معنی یہاں، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں اس کی تحقیق بیان کر چکے ہیں، باصرار و بلطائف الحیل مخاطب سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرنے کے ہیں۔ اب یہ وضاحت ہو رہی ہے اس بات کی کہ جب ان کو خطرہ لاحق ہو گا کہ مقابلہ فوج سے درپیش ہے تو اس کے فرار کی انھوں نے کیا راہ نکالنی چاہی۔ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باصرار اور بلطائف الحیل اپنی چرب زبانی سے اس رخ پر لانا چاہا کہ آپ تجارتی قافلے کا قصد کریں۔ بظاہر تو انھوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہو گی کہ یہ مشورہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی میں دے رہے ہیں کہ قافلہ کو لوٹ لینے سے قریش کی کمر اقتصادی اعتبار سے ٹوٹ جائے گی اس لیے کہ ان کے سرمایہ کا بڑا حصہ اس قافلے کے ساتھ ہے جس سے مسلمانوں کی موجودہ کمزور مالی حالت کو درست کرنے میں بڑی مدد ملے گی لیکن اس مشورہ کی تہ میں ان کا وہی خوف بیٹھا ہوا تھا جس کو قرآن نے بے نقاب کردیا ہے کہ ’’گویا وہ موت کی طرف ہنکائے جا رہے ہوں اور وہ موت کو سامنے دیکھ رہے ہوں۔‘‘ اس مشورے کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ ’بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ‘ سے ثابت ہے، اچھی طرح واضح تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنی بات منوانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے۔ ہر چند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرحلے تک، جیسا کہ آگے والی آیت میں اشارہ آ رہا ہے، بعض خاص اسباب سے، جن کی تفصیل آگے آئے گی، اپنا منشا واضح الفاظ میں ظاہر نہیں فرمایا تھا لیکن یہ لوگ اتنے غبی نہیں تھے کہ یہ نہ سمجھ سکیں کہ جب ایک طرف تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف سے فوج آ رہی ہے تو آنحضرت کا یہ نکلنا کس سے نمٹنے کے لیے ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ دل کے بودے ضرور تھے لیکن عقل کے اتنے غریب نہیں تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج، اسلام کے مقصد، احقاق حق کے تقاضوں سے اتنے نابلد ہوں کہ یہ موٹی سی بات بھی نہ سمجھ سکیں کہ کسی تجارتی قافلہ کو تاخت و تاراج کرنا ایسا کیا کام ہو سکتا ہے جس کے لیے خدا کا رسول اپنے جاں نثاروں کے ساتھ یوں سربکف ہو کر نکلے! چنانچہ آگے تفصیل آئے گی کہ نہ مہاجرین کے لیڈروں کو آنحضرت کا منشا سمجھنے میں کوئی اشتباہ پیش آیا نہ انصار کے جان نثاروں کو۔ سب نے پہلے ہی مرحلے میں تاڑ لیا کہ حضور کا منشا کیا ہے اور اس منشا کی تکمیل کے لیے وہ سربکف ہو گئے۔ صرف ایک گروہ موت کے ڈر سے آخر وقت تک سخن سازی کرتا رہا اس وجہ سے اس کا رویہ قرآن میں زیر بحث آیا تاکہ آئندہ کے مراحل میں مسلمان ان داخلی فتنوں سے ہوشیار رہیں۔

جاوید احمد غامدی

وہ اِس مقصد حق کے معاملے میں تم سے جھگڑ رہے تھے، اِس کے باوجود کہ (اُن پر) وہ اچھی طرح واضح تھا۔ اُن کا حال یہ تھا کہ گویا آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔

اصل میں لفظ ‘یُجَادِلُوْنَکَ’ آیا ہے۔ اِس کے معنی یہاں بلطائف الحیل مخاطب سے اپنی بات منوانے کے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اِس کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا اُن پر واضح تھا کہ آپ لشکرہی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، وہ موت کے خوف سے آخر وقت تک سخن سازی کرتے اور زور لگاتے رہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے آپ کو قائل کر لیں کہ لشکر کے مقابلے میں جانے کے بجاے قافلے کو لوٹنا زیادہ قرین مصلحت ہے، اِس سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو سنبھالنے میں بہت کچھ مدد مل سکتی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہ اس حق کے معاملہ میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے دراں حالے کہ وہ صاف صاف نمایاں ہو چکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔

یعنی جس طرح اس وقت یہ لوگ خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے، حالانکہ حق کا مطالبہ اس وقت یہی تھا کہ خطرے کے منہ میں چلے جائیں، اسی طرح آج انہیں مال غنیمت ہاتھ سے چھوڑنا ناگوار ہو رہا ہے، حالانکہ حق کا مطالبہ یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑیں اور حکم کا انتظار کریں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر اللہ کی اطاعت کرو گے اور اپنے نفس کی خواہش کے بجائے رسول کا کہا مانو گے تو ویسا ہی اچھا نتیجہ دیکھو گے جیسا ابھی جنگ بدر کے موقع پر دیکھ چکے ہو کہ تمہیں لشکر قریش کے مقابلہ پر جانا سخت ناگوار تھا اور اسے تم ہلاکت کا پیغام سمجھ رہے تھے لیکن جب تم نے حکم خدا و رسول کی تعمیل کی تو یہی خطرناک کام تمہارے لیے زندگی کا پیغام ثابت ہوا۔

قرآن کا یہ ارشاد ضمناً ان روایات کی بھی تردید کر رہا ہے جو جنگ بدر کے سلسلے میں عموماً کتب سیرت و مغازی میں نقل کی جاتی ہیں، یعنی یہ کہ ابتداءً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین قافلے کو لوُٹنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے۔ پھر چند منزل آگے جا کر جب معلوم ہوا کہ قریش کا لشکر قافلہ کی حفاظت کے لیے آرہا ہے تب یہ مشورہ کیا گیا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے یا لشکر کا مقابلہ ؟ اس بیان کے برعکس قرآن یہ بتا رہا ہے کہ جس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے گھر سے نکلے تھے اسی وقت یہ امر حق آپ کے پیش نظر تھا کہ قریش کے لشکر سے فیصلہ کن مقابلہ کیا جائے۔ اور یہ مشاورت بھی اسی وقت ہوئی تھی کہ قافلے اور لشکر میں کس کو حملہ کے لیے منتخب کیا جائے۔ اور باوجودیکہ مومنین پر یہ حقیقت واضح ہوچکی تھی کہ لشکر ہی سے نمٹنا ضروری ہے، پھر بھی ان میں سے ایک گروہ اس سے بچنے کے لیے حجت کرتا رہا۔ اور بالآخر جب آخری رائے یہ قرار پا گئی کہ لشکر ہی کی طرف چلنا چاہیے تو یہ گروہ مدینہ سے یہ خیال کرتا ہوا چلا کہ ہم سیدھے موت کے منہ میں ہانکے جا رہے ہیں۔

جونا گڑھی

وہ اس حق کے بارے میں، اس کے بعد کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکنے کے لئے جاتا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں

  یعنی یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے اور اب لشکر قریش ہی سامنے ہے جس سے لڑائی ناگزیر ہے۔

 یہ بےسروسامانی کی حالت میں لڑنے کی وجہ سے بعض مسلمانوں کی جو کیفیت تھی اس کا اظہار ہے۔ 

وَإِذْ يَعِدُكُمُ ٱللَّـهُ إِحْدَى ٱلطَّآئِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ ٱلشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ ٱللَّـهُ أَن يُحِقَّ ٱلْحَقَّ بِكَلِمَـٰتِهِۦ وَيَقْطَعَ دَابِرَ ٱلْكَـٰفِرِينَ

امین احسن اصلاحی

یاد کرو جب کہ اللہ تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کر رہا تھا کہ وہ تمہارا لقمہ بنے گا اور تم یہ چاہ رہے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارا لقمہ بنے اور اللہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے کلمات سے حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹے۔

’وَاِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآءِفَتَیْنِ اَنَّھَا لَکُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ‘۔

جماعت کے حوصلہ کا اندازہ کرنے کے لیے ایک حکیمانہ طریقہ: ’وَاِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآءِفَتَیْنِ اَنَّھَا لَکُمْ‘ کے اسلوب بیان میں جو ابہام ہے وہ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکلتے وقت انصار و مہاجرین سے جب اس مہم کے باب میں استمزاج فرمایا تو بات کھل کر یوں نہیں فرمائی کہ تجارتی قافلہ کی حفاظت کا بہانہ بنا کر قریش نے ہم پر حملہ کرنے کے لیے اپنی فوج بھیج دی ہے بلکہ مبہم انداز میں یوں فرمایا کہ کفار کی دو جماعتیں آ رہی ہیں جن میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ ہمارے قابو میں کر دے گا۔ یہ مبہم انداز بیان حضور نے کیوں ارشاد فرمایا؟ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اہم مہم پر روانہ ہونے سے پہلے حضور نے چاہا کہ ہر گروہ کا جائزہ لے لیا جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور اگر مسئلہ کو بالکل دوٹوک انداز میں لوگوں کے سامنے رکھ دیتے تو مخلص و منافق سب کو آمنا و صدقنا کہتے ہی بن پڑتی۔ پھر نہ تو کسی کو اس سے اختلاف کی جرأت ہوتی اور نہ کسی کی کمزوری ظاہر ہو سکتی۔ یاد ہو گا، یہی طریقہ آپ نے جنگ احد کے موقع پر بھی اختیار فرمایا۔ اس وقت آپ نے لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ جنگ شہر سے باہر نکل کر کی جائے یا شہر میں محصور ہو کر اور خود اپنی رائے ظاہر نہیں فرمائی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جاں نثاروں نے شہر سے باہر نکل کر جنگ کرنے کی رائے دی اور کمزور قسم کے لوگوں نے شہر میں محصور ہو کر۔ اس طرح آپ کو جماعت کے قوی و ضعیف اور مخلص و منافق سب کا جائزہ لینے کا موقع مل گیا۔ ۱؂ اسی حکمت و مصلحت سے حضور نے اس موقع پر بھی بات مبہم انداز میں فرمائی کہ لوگوں کے جواب سے اندازہ ہو جائے کہ کون کس طرز پر سوچ رہا ہے چنانچہ پہلے اپنے مہاجرین کا عندیہ معلوم کرنا چاہا۔ وہ صاف سمجھ گئے کہ حضور کا منشا کیا ہے۔ چنانچہ ان میں سے مقداد بن عمر نے اٹھ کر ایک ایسی تقریر کی جس کی گونج اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہے گی۔ انہوں نے فرمایا:

’’اے اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کو جس بات کا حکم دیا ہے آپ اس کے لیے اقدام کیجیے۔ آپ جہاں کے لیے نکلیں گے ہم آپ کے ہم رکاب ہیں۔ ہم آپ سے وہ بات کہنے والے نہیں ہیں جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہی تھی کہ تم اور تمہارا رب دونوں جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھتے ہیں۔ بلکہ ہمارا قول یہ ہے کہ آپ اور آپ کا رب دونوں جنگ کے لیے نکلیں، جب تک کہ ایک آنکھ بھی ہم میں گردش کرتی ہے ہم سر کٹانے کے لیے حاضر ہیں۔‘‘

کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ ان الفاظ میں جن لوگوں کی ترجمانی کی گئی ہے ان کے کسی فرد میں بھی کسی تجارتی قافلے پر حملے کا کوئی موہوم وسوسہ بھی ہو سکتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی طرف سے اطمینان کر لینے کے بعد اپنے وہی الفاظ جو اوپر مذکور ہوئے پھر دہرائے۔ انصار سمجھ گئے کہ اب حضور ہمارا عندیہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انصار کے لیڈر سعد بن معاذ اٹھے اور انھوں نے عرض کیا کہ حضور کا روئے سخن ہماری طرف ہے؟ پھر انھوں نے وہ تقریر کی جس کا ایک ایک لفظ میدان جہاد کا رجز ہے اور جس کی حرارت ایمانی 14 سو سال گزرنے پر بھی ٹھنڈی نہیں پڑی ہے۔ انھوں نے فرمایا:

’’ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ جو دین آپ لے کر آئے ہیں وہی حق ہے۔ ہم نے آپ سے سمع و طاعت کا عہد و میثاق کیا ہے۔ پس اے اللہ کے رسول، آپ نے جو ارادہ فرمایا ہے وہ پورا کیجیے۔ اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہمیں اس سمندر کے کنارے لے جا کر اس میں کود پڑیں گے تو آپ کے ساتھ ہم بھی اس میں کود پڑیں گے اور ایک شخص بھی ہم میں سے پیچھے رہنے والا نہیں ہو گا۔ ہم اس بات سے نہیں گھبراتے کہ کل آپ ہمیں ہمارے دشمنوں کے مقابلہ کے لیے لے جا کھڑا کریں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے۔ مقابلہ کے وقت ہم راست باز ثابت ہوں گے اور کیا عجب کہ اللہ ہمارے ہاتھوں وہ کچھ دکھائے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں تو اللہ کا نام لے کر آپ ہمیں ہم رکابی کا شرف بخشیے۔‘‘

غور کیجیے کہ کیا یہ تقریریں ان لوگوں کی ہو سکتی ہیں جو ایک غیرمسلح قافلہ پر، جس کی جمعیت شاید کل چالیس آدمیوں پر منحصر تھی، حملہ کی سکیمیں سوچ رہے ہوں اور پھر اس امر پر غور کیجیے کہ کیا لفظ لفظ سے یہ بات واضح نہیں ہو رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کے اس ابہام کے باوجود، جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا، انصار و مہاجرین دونوں گروہوں پر یہ بات سورج کی طرح روشن تھی کہ آپ کا منشا کیا ہے اور آپ کا رخ کدھر کو ہے۔ البتہ ایک گروہ، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہے، ضعیف الایمانوں کا ایسا تھا جو حقیقت کی وضاحت کے باوجود محض اپنی بزدلی کے سبب سے یہ چاہتا تھا کہ حملہ قافلہ پر کیا جائے جو غیر مسلح ہے تاکہ خطرہ کوئی نہ پیش آئے اور لقمہ تر ہاتھ آئے۔ انہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ

’تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ‘
(تم چاہتے تھے کہ غیرمسلح گروہ تمہارا لقمہ بنے)

’شوک‘ اور ’شوکۃ‘ عربی میں کانٹے کو کہتے ہیں یہیں سے لفظ ’شوکۃ‘ ہتھیار اور پھر قوت اور دبدبہ کے معنی میں استعمال ہوا۔ چونکہ تجارتی قافلہ غیر مسلح تھا اس وجہ سے اس کے لیے ’غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ‘ کا لفظ استعمال ہوا۔
خدائی احکام کا منشا سمجھنے کے لیے ایک عقلی کسوٹی: ’وَیُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ‘ اب یہ اللہ کے ارادے اور منشا کو سمجھنے اور جانچنے کے لیے ایک عقلی اور فطری معیار بتایا گیا ہے کہ اللہ کا ہر حکم و ارادہ احقاق حق اور ابطال باطل کے مقصد کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس کی باتوں کا منشا، اگرچہ وہ مجمل ہوں، معین کرنے میں اس اصول کو نظرانداز کرنا جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں نے قافلہ پر حملہ کرنے کا ارمان کیا انھوں نے اس بات کا خیال نہ کیا کہ خدا ایک ایسی بات کیسے چاہ سکتا ہے جس سے نہ حق کا بول بالا ہو نہ کفر اور اہل کفر کی جڑ کٹے۔ ’کَلِمَات‘ کا لفظ، جیسا کہ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں تصریح کر چکے ہیں، ایک قسم کے ابہام کا حامل ہے۔ چونکہ اس موقع پر بات، جیسا کہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں، لوگوں کے سامنے مبہم طور پر رکھی گئی تھی اس وجہ سے قرآن نے اس کو ’کَلِمَات‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ جن باتوں کے اندر کوئی اجمال و ابہام ہوتا ہے درحقیقت وہی باتیں ہوتی ہیں جن کے منشا کے تعین کا کام دشوار ہوتا ہے۔ ایسے مواقع میں اہل ایمان کی روش یہ ہونی چاہیے کہ بات کا وہ پہلو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی شان سے موافقت رکھنے والا ہو نہ کہ ان کے منافی۔ ’یَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ‘ کے الفاظ سے قرآن نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ سارے کفر کی جڑ تو قریش کی جمعیت تھی، کاٹنے کی چیز تھی تو وہ تھی اور اللہ چاہ سکتا تھا تو اس کو کاٹنا چاہ سکتا تھا لیکن ایک گروہ نے تجارتی قافلہ ہی پر وار کر کے تیس مارخاں بننے کی کوشش کی۔

_____
۱؂ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث آل عمران کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اُس وقت کو یاد کرو، جب اللہ تم لوگوں سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمھیں مل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ تمھیں وہ ملے جو مسلح نہیں ہے اور اللہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کا بول بالا کرے اور منکروں کی جڑ کاٹ دے۔

اِس وعدے میں ابہام کا اسلوب ہے۔ یعنی دو ٹوک انداز میں یہ نہیں کہا گیا کہ تجارتی قافلے کی حفاظت کا بہانہ بنا کر قریش نے حملے کے لیے فوج بھیج دی ہے، اُس کے مقابلے کے لیے نکلو، اللہ اُس کو تمھارے قابو میں کر دے گا، بلکہ ابہام کا انداز بیان اختیار کیا گیا ہے کہ قریش کی دو جماعتیں آ رہی ہیں جن میں سے ایک تمھیں مل جائے گی، اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس سے مخلصین اور منافقین کو الگ الگ کرنا مقصود تھا تاکہ ایک بڑی مہم پر روانہ ہونے سے پہلے یہ اندازہ ہو جائے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ چنانچہ اِس موقع پر مہاجرین و انصار کے اکابر کی جو تقریریں روایتوں میں نقل ہوئی ہیں، اُن سے صاف واضح ہے کہ وہ حضور کا یہ منشاپوری طرح سمجھ گئے تھے۔* استاذ امام کے الفاظ میں، اُنھوں نے آپ کے استفسار کے جواب میں ایسی تقریریں کیں جن کی گونج اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہے گی، جن کا ایک ایک لفظ میدان جہاد کا رجز ہے اور جن کی حرارت ایمانی چودہ سو سال گزرنے پر بھی ٹھنڈی نہیں پڑی ہے۔ یہ تقریریں، ظاہر ہے کہ کسی تجارتی قافلے پر حملے کے لیے نہیں کی گئی تھیں۔

یہ ضعیف الایمانوں کے اُسی گروہ قلیل کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اُن پر بھی، جیسا کہ فرمایا ہے، حقیقت بالکل واضح تھی، مگر اپنی بزدلی کے باعث وہ چاہتے تھے کہ قافلے کا قصد کیا جائے جو غیر مسلح ہے تاکہ کوئی خطرہ پیش نہ آئے اور مال غنیمت بھی حاصل ہو جائے۔
اِس سے وہ کلمات مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ کے لیے گھر سے نکالنے اور بعد میں آپ کی تائید و نصرت کے لیے صادر ہوئے۔
_____
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ٢/ ٢٣٣۔

ابو الاعلی مودودی

یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے

یعنی تجارتی قافلہ یا لشکر قریش۔

یعنی قافلہ جس کے ساتھ صرف تیس چالیس محافظ تھے۔

جونا گڑھی

اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو ! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کردے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے۔

  یعنی یا تو تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے گا، جس سے تمہیں بغیر لڑائی کے وافر مال و اسباب مل جائے گا، بصورت دیگر لشکر قریش سے تمہارا مقا لہ ہوگا اور تمہیں غلبہ ہوگا اور مال غنیمت ملے گا۔

 یعنی تجارتی قافلہ سے بغیر لڑے مال ہاتھ آجائے۔ 

لِيُحِقَّ ٱلْحَقَّ وَيُبْطِلَ ٱلْبَـٰطِلَ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُجْرِمُونَ

امین احسن اصلاحی

تا کہ مجرموں کے علی الرغم وہ حق کو پابرجا اور باطل کو نابود کرے۔

’لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْکَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ‘ یہ ٹکڑا ’یَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ‘ کی غایت واضح کر رہا ہے کہ اللہ نے ان کافروں کی جڑ کاٹنے کا جو ارادہ فرمایا ہے تو اس کا مقصد حق کا بول بالا کرنا اور باطل کو مٹانا ہے۔ خدا کو کسی سے پرخاش نہیں ہے البتہ احقاق حق اور ابطال باطل اس کی صفات کا مقتضیٰ ہے اور اس کا فیصلہ اب خدا نے فرما لیا ہے اور یہ کام ہو کر رہے گا اور ان مجرموں کے علی الرغم ہو کر رہے گا۔

قرآنی اشارات کی روشنی میں غزوۂ بدر کی اصل تصویر: اوپر قرآن نے جو اشارات کیے ہیں ان کی روشنی میں غزوہ بدر کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو سیرت و مغازی کی کتابوں میں پیش کی گئی ہے اور جس میں رنگ آمیزی کر کے مستشرقین نے اس کو اور زیادہ بھیانک شکل دے دی ہے۔
قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا مسلمانوں کے ذہن میں قریش کے قافلۂ تجارت سے تعرض کرنے کا کوئی خیال موجود نہیں تھا۔ مدینہ پر حملہ کی ساری اسکیم قریش نے بنائی اور اس کے لیے قافلۂ تجارت کی حفاظت کا بہانہ تراشا۔ قریش مدینہ میں مسلمانوں کے جڑ پکڑنے سے بہت خائف تھے۔ مذہبی عناد کے علاوہ انہیں یہ بھی اندیشہ تھا کہ اب مکہ اور شام کی تجارتی شاہراہ ان کے لیے محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔ اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد ہی وہ اس فکر میں تھے کہ کوئی عذر تلاش کر کے مسلمانوں کو ایک قوت بننے سے پہلے ہی ختم کر دیں۔ اب یا تو قافلۂ تجارت کے سالار ابوسفیان نے واپسی کے موقع پر کوئی وہمی خطرہ مسلمانوں کے حملے کا محسوس کیا ہو کہ آدمی بھیج کر قریش کو حملہ کی خبر بھیج دی یا اس کے لیے بھی پہلے سے قریش کے لیڈروں میں کوئی سازش رہی ہو۔ بہرحال ابوسفیان کی اطلاع پر مکہ سے ایک بھاری بھرکم لشکر مدینہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ مرحلہ ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رویا کے ذریعے سے یہ اطلاع ہوتی ہے کہ قریش کی دو جماعتیں آ رہی ہیں جن میں سے ایک سے مسلمانوں کا مقابلہ ہوتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مدینہ سے بدر کے لیے نکلنے کا ارادہ فرمایا اور مسلمانوں کے حوصلہ کا اندازہ کرنے کے لیے صورت حال مبہم انداز میں ان کے سامنے رکھی کہ کفار کی دو جماعتیں آ رہی ہیں جن میں سے ایک سے ہمارا مقابلہ ہو گا۔ اور وہ ہم سے شکست کھائے گی۔ مسئلہ کے سامنے آتے ہی مہاجرین و انصار سب سمجھ گئے کہ قریش کی فوج آ رہی ہے اور اس سے معاملہ درپیش ہے۔ چنانچہ ان کے لیڈروں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفاداری اور اسلام کے لیے اپنی جاں نثاری کا یقین دلایا۔ البتہ ایک مختصر سی ٹولی ان میں ایسی بھی تھی جس نے اپنا زور اس بات کے لیے لگایا کہ قریش کی فوج کے بجائے قافلۂ تجارت کا رخ کیا جائے تاکہ بغیر ایک قطرۂ خون بہائے بھاری غنیمت ہاتھ آئے۔ اسی گروہ کو بے نقاب کرنے کے لیے حضور نے اپنی بات مبہم انداز میں پیش کی تھی تاکہ جن لوگوں کے اندر کوئی کمزوری چھپی ہوئی ہے وہ اپنی کمزوری ظاہر کر دیں اور مخلص و منافق میں مرحلۂ جنگ پیش آنے سے پہلے ہی امتیاز ہو جائے۔
آگے اسی سورہ کی بعض آیات کی روشنی میں ہم انشاء اللہ یہ بھی دکھائیں گے کہ اس جنگ کے لیے یہود نے بھی قریش کی پیٹھ ٹھونکی تھی لیکن میدان جنگ کا نقشہ دیکھ کر وہ اپنی عادت کے مطابق دبک گئے۔

جاوید احمد غامدی

تاکہ حق کو حق اور باطل کو باطل کر دکھائے، خواہ اِن مجرموں کو وہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اِن آیتوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے، اُس کی روشنی میں غزوئہ بدر کی جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ اُس سے بالکل مختلف ہے جو سیرت و مغازی کی کتابوں میں پیش کی گئی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

‘’قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا مسلمانوں کے ذہن میں قریش کے قافلۂ تجارت سے تعرض کرنے کا کوئی خیال موجود نہیں تھا۔ مدینہ پر حملے کی ساری اسکیم قریش نے بنائی اور اُس کے لیے قافلۂ تجارت کی حفاظت کا بہانہ تراشا۔ قریش مدینہ میں مسلمانوں کے جڑ پکڑنے سے بہت خائف تھے۔ مذہبی عناد کے علاوہ اُنھیں یہ بھی اندیشہ تھاکہ اب مکہ اور شام کی تجارتی شاہ راہ اُن کے لیے محفوظ نہیں رہ گئی ہے۔ اِس وجہ سے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد ہی وہ اِس فکر میں تھے کہ کوئی عذر تلاش کر کے مسلمانوں کو ایک قوت بننے سے پہلے ہی ختم کر دیں۔ اب یا تو قافلہئ تجارت کے سالار ابوسفیان نے واپسی کے موقع پر کوئی وہمی خطرہ مسلمانوں کے حملے کا محسوس کیا ہو کہ آدمی بھیج کر قریش کو حملے کی خبر بھیج دی یا اِس کے لیے بھی پہلے سے قریش کے لیڈروں میں کوئی سازش رہی ہو، بہرحال ابوسفیان کی اطلاع پر مکہ سے ایک بھاری بھرکم لشکر مدینہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ مرحلہ ہے جس میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رویا کے ذریعے سے یہ اطلاع ہوتی ہے کہ قریش کی دو جماعتیں آرہی ہیں جن میں سے ایک سے مسلمانوں کا مقابلہ ہونا ہے۔
آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے بعد مدینہ سے بدر کے لیے نکلنے کاارادہ فرمایا اور مسلمانوں کے حوصلے کااندازہ کرنے کے لیے صورت حال مبہم انداز میں اُن کے سامنے رکھی کہ کفار کی دو جماعتیں آرہی ہیں جن میں سے ایک سے ہمارا مقابلہ ہو گا اور وہ ہم سے شکست کھائے گی۔ مسئلہ کے سامنے آتے ہی مہاجرین و انصار سب سمجھ گئے کہ قریش کی فوج آرہی ہے اور اُس سے معاملہ درپیش ہے۔ چنانچہ اُن کے لیڈروں نے پورے جوش و خروش کے ساتھ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفاداری اور اسلام کے لیے اپنی جاں نثاری کا یقین دلایا۔ البتہ ایک مختصر سی ٹولی اُن میں ایسی بھی تھی جس نے اپنا زور اِس بات کے لیے لگایا کہ قریش کی فوج کے بجاے قافلہئ تجارت کا رخ کیا جائے تاکہ بغیر ایک قطرہئ خون بہائے بھاری غنیمت ہاتھ آئے۔ اِسی گروہ کو بے نقاب کرنے کے لیے حضور نے اپنی بات مبہم انداز میں پیش کی تھی تاکہ جن لوگوں کے اندر کوئی کمزوری چھپی ہوئی ہے، وہ اپنی کمزوری ظاہر کر دیں اور مخلص و منافق میں مرحلہئ جنگ پیش آنے سے پہلے ہی امتیاز ہوجائے۔’‘(تدبرقرآن٣/ ٤٣٩)

ابو الاعلی مودودی

تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت فی الواقع صورت حال کیا رونما ہوگئی تھی۔ جیسا کہ ہم نے سورة کے دیباچہ میں بیان کیا ہے، لشکر قریش کے نکل آنے سے دراصل سوال یہ پیدا ہوگیا تھا کہ دعوت اسلامی اور نظام جاہلیت دونوں میں سے کس کو عرب میں زندہ رہنا ہے۔ اگر مسلمان اس وقت مردانہ وار مقابلہ کے لیے نہ نکلتے تو اسلام کے لیے زندگی کا کوئی موقع باقی نہ رہتا۔ بخلاف اس کے مسلمانوں کے نکلنے اور پہلے ہی بھرپور وار میں قریش کی طاقت پر کاری چوٹ لگا دینے سے وہ حالات پیدا ہوئے جن کی بدولت اسلام کو قدم جمانے کا موقع مل گیا اور پھر اس کے مقابلہ میں نظام جاہلیت پیہم شکست کھاتا ہی چلا گیا۔

جونا گڑھی

تاکہ حق کا حق اور باطل کا باطل ہونا ثابت کردے گو یہ مجرم لوگ ناپسند ہی کریں

 لیکن اللہ اس کے برعکس یہ چاہتا تھا کہ لشکر قریش سے تمہاری جنگ ہو تاکہ کفر کی قوت و شوکت ٹوٹ جائے گو یہ امر مجرموں (مشرکوں) کے لئے ناگوار ہی ہو۔ 

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ مُرْدِفِينَ

امین احسن اصلاحی

اور یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی کہ میں ایک ہزار فرشتے تمہاری کمک پر بھیجنے والا ہوں جن کے پرے کے بعد پرے نمودار ہوں گے۔

غزوۂ بدر میں تائیدات الٰہی اس سلسلہ کی پہلی تائید الٰہی: ’اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ‘ ’فَاسْتَجَابَ لَکُمْ‘ کی تفصیل ہے اور فاعل کا صیغہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کی قطعیت کے اظہار کے لیے ہے۔ ’اِردَاف‘ کے معنی ’توالی‘ یعنی یکے بعد دیگرے ظاہر ہونے کے ہیں۔ یہ اس سب سے پہلی تائید الٰہی کا بیان ہے جو اس موقع پر ظاہر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد اس جنگ میں بہت تھوڑی تھی یعنی کل ۳۱۳ اور وہ بے سروسامان بھی تھے۔ ادھر کفار ایک ہزار کے قریب تھے اور ہر قسم کے اسلحہ سے لیس اور سروسامان سے بھرپور۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو واحد سہارا خدا کی تائید ہی کا ہو سکتا تھا چنانچہ ایک ایک شخص سراپا عجز و نیاز اور یکسر دعا و فریاد بنا ہوا تھا۔ ان دعاؤں کی نوعیت کاا ندازہ کرنے کے لیے خود سرور عالم کی اس دعا کو پڑھ لینا کافی ہے جس کے الفاظ احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب نہتے مسلمانوں نے اپنے دل نکال کر اپنے رب کے سامنے رکھ دیے ہوں گے تو یہ دعائیں قبولیت سے کیسے محروم رہ سکتی تھیں۔ چنانچہ یہ قبول ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت نازل ہوئی کہ تم ہراساں نہ ہو، میں تمہاری کمک کے لیے ہزار فرشتے نازل کرنے والا ہوں۔ مطلب یہ کہ تم ہزار کافروں کی کیا پروا کرتے ہو، تمہارے جلو میں تو ہزار فرشتے ہوں گے۔ ان فرشتوں کے ظہور کی شکل یہ بتائی کہ ان کے دستے کے بعد دستے اور پرے کے بعد پرے نمایاں ہوں گے۔ میدان جنگ میں لڑنے والوں کی یہ سائیکالوجی ملحوظ رہے کہ جن کی حمایت میں کمک کے بعد کمک آ رہی ہو ان کا حوصلہ ہر کمک پر دونا ہوتا ہے اور اسی اعتبار سے حریف کے اعصاب ڈھیلے پڑتے جاتے ہیں۔ یہ مضمون آل عمران کی آیات ۱۲۵۔۱۲۶ میں بھی گزر چکا ہے۔ ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔

جاوید احمد غامدی

یاد کرو، جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے تو اُس نے تمھاری فریادسن لی (اور فرمایا کہ) میں ایک ہزار فرشتے تمھاری مدد کے لیے بھیج رہا ہوں جو لگاتار پہنچتے رہیں گے۔

مسلمانوں کی تعداد چونکہ اِس جنگ میں بہت تھوڑی تھی اور وہ بے سروسامان بھی تھے، اِس لیے استاذ امام کے الفاظ میں، ہر شخص سراپا عجز و نیاز اور یک سر دعا و فریاد بنا ہوا تھا۔ اِن دعاؤں میں لوگوں نے کس طرح اپنے دل نکال کر اپنے رب کے سامنے رکھ دیے تھے، اُس کا اندازہ کسی حد تک اُس دعا سے کیا جا سکتا ہے جو اُس موقع پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔آپ نے عرض کیا تھا : ‘’خدایا، یہ ہیں قریش، اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کر دیں۔ خدایا، اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ خدایا، اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روے زمین پر پھر کوئی تیری عبادت نہ کرے گا۔’‘*

یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ میدان جنگ میں حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے سب سے زیادہ دخل اِسی چیز کو ہوتا ہے کہ لڑنے والوں کو اِس بات کا اطمینان رہے کہ جب ذرا کمزور ہوں گے تو پیچھے سے کمک لازماً پہنچ جائے گی۔
_____
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ٢/ ٢٣٩۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر٢/ ٣٨٣۔

ابو الاعلی مودودی

اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔

n/a

جونا گڑھی

اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دونگا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔

 اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد ٣١٣ تھی جب کہ کافر اس سے تین گنا (یعنی ہزار کے قریب تھے پھر مسلمانوں نہتے اور بےسروسامان تھے جب کے کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فروانی تھی ان حالات میں مسلمانوں کا سہارا صرف اللہ کی ذات ہی تھی جس سے وہ گڑ گڑا کر مدد کی فریادیں کر رہے تھے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الگ ایک خیمے میں نہایت الحاح وزاری سے مصروف دعا تھے (صحیح بخاری) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں اور ایک ہزار فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل لگاتار مسلمانوں کی مدد کے لئے آگئے۔ 

وَمَا جَعَلَهُ ٱللَّـهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِۦ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا ٱلنَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ ٱللَّـهِ ۚ إِنَّ ٱللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

امین احسن اصلاحی

اور یہ صرف اس لیے کیا کہ تمہارے لیے خوش خبری ہو اور اس سے تمہارے دل مطمئن ہوں اور مدد تو خدا ہی کے پاس سے آتی ہے۔ بے شک اللہ عزیز و حکیم ہے۔

اہل ایمان کے لیے ابدی بشارت: ’وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَءِنَّ بِہ قُلُوْبُکُمْ‘۔ ضمیر مفعول کا مرجع وہی وعدۂ نصرت ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اس موقع پر تمہارے رب نے یہ صریح الفاظ میں تمہاری مدد کا پہلے سے جو وعدہ فرمایا تو محض اس لیے کہ تم ہراساں تھے، تمہاری ڈھارس بندھ جائے اور تمہارے دل مطمئن ہو جائیں۔ اس سے یہ نہ سمجھنا کہ خدا کی یہ مدد اسی موقع کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ جب بھی اللہ کے مومن بندے اس کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں گے اور ایمان و اخلاص کے ساتھ اس سے طالب مدد ہوں گے، وہ ان کی مدد فرمائے گا خواہ اس مدد کے لیے پہلے سے ان کو بشارت ملی ہو یا نہ ملی ہو۔ اس وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ صریح الفاظ میں برسرموقع وعدۂ نصرت تو نبی کے ذریعہ ہی سے اور اس کی موجودگی ہی میں ہو سکتا ہے تو نبی کی غیرموجودگی میں یا اس کے زمانہ کے بعد کے لوگ کس طرح اطمینان قلب حاصل کر سکتے تھے۔ اس شبہ کے ازالے کے لیے یہ فرما دیا کہ یہ وعدہ اسی موقع کے لیے نہیں تھا بلکہ اہل ایمان کے لیے ابدی ہے۔

کم سوادوں کی بے بصیرتی: ’وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘ اس لیے کہ مدد تو جب بھی آتی ہے یا آئے گی اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے یا آئے گی۔ پس خدا پر بھروسہ کرنے والے ہمیشہ خدا پر بھروسہ کریں، وہ ہمیشہ ان کی مدد فرمائے گا۔ خدا عزیز اور غالب ہے، کسی کی مجال نہیں کہ اس کے ہاتھ پکڑ سکے لیکن ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے اس وجہ سے اگر کبھی اہل ایمان کو کوئی افتاد پیش آ جائے تو اس میں بھی کوئی حکمت کارفرما اور اس کی تہ میں بھی بندوں ہی کی کوئی مصلحت مضمر ہوتی ہے۔ یہ مضمون سورۂ آل عمران میں احد کی شکست کے اسباب کے ذیل میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔

اس زمانے کے بعض کم سوادوں نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا کہ فرشتوں کی فوج اتارنے کا وعدہ محض مسلمانوں کو ذرا بڑھاوا دینے کے لیے تھا تاکہ وہ ہمت کر کے کفار سے بھڑ جائیں۔ ان کے خیال میں قرآن نے جنگ کے بعد خود یہ راز کھول دیا کہ یہ بات محض تمہاری تسلی کے لیے کہہ دی گئی تھی، اس کی حقیقت کچھ نہیں تھی۔ گویا نعوذ باللہ پہلے تو اللہ میاں نے مسلمانوں کو چکمہ دیا اور پھر خود ہی اپنا بھانڈا پھوڑ دیا کہ اب کے تو میں نے تم کو چکمہ دے کر لڑا دیا، آئندہ میرے بھرے میں نہ آنا، فرشتوں ورشتوں کی بات محض ایک بھڑ ہی تھی۔ شاید یہ حضرات اللہ میاں کو اپنے برابر بھی عقل مند نہیں سمجھتے۔

جاوید احمد غامدی

یہ اللہ نے صرف اِس لیے کیا کہ تمھارے لیے خوش خبری ہو اور اِس لیے کہ تمھارے دل اِس سے مطمئن ہوں۔(ورنہ حقیقت یہ ہے کہ) مدد تو اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے۔ یقینا اللہ زبردست ہے،بڑی حکمت والا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کیا جائے تو جو کچھ بھی مدد حاصل ہوتی ہے، خدا ہی سے حاصل ہوتی ہے اور تمھیں بھی لازماً حاصل ہوتی ، مگر پہلے اِس لیے بتا دیا گیا کہ یہ چیز تمھارے لیے خوش خبری ہو اور تمھارے حوصلے کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بن جائے۔

ابو الاعلی مودودی

یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔

​n/a

جونا گڑھی

اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس لئے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہوجائے اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا ہے ۔

 یعنی فرشتوں کا نزول تو صرف خوشخبری اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے تھا ورنہ اصل مدد تو اللہ کی طرف سے تھی جو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا تاہم اس سے یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ فرشتوں نے عملاً جنگ میں حصہ نہیں لیا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں فرشتوں نے عملی حصہ لیا اور کئی کافروں کو انہوں نے تہ تیغ کیا (صحیح بخاری) ۔ 

Page 1 of 8 pages  1 2 3 >  Last ›