یہ سورۂ ’الٓمّٓ‘ ہے
یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔
الف۔ ل۔ م۔
n/a
ا لم
کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ محض یہ کہہ دینے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
راہ حق میں آزمائشیں لازماً پیش آتی ہیں: ’اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ الاٰیۃ‘ بات اگرچہ عام صیغہ سے فرمائی گئی ہے لیکن اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو مکہ کی پرمحن زندگی سے گھبرا اٹھے تھے۔ بعض لوگ اسلام میں داخل تو ہو گئے تھے لیکن ان کو اس راہ کی صعوبتوں کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کو گمان تھا کہ جب انھوں نے نیکی کی راہ میں قدم رکھا ہے تو راہ ہموار ملے گی اور وہ ٹھنڈی سڑک سے منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے۔ ان لوگوں کو جب کفار کے ہاتھوں زہرہ گداز مصائب سے سابقہ پیش آیا تو ان کے قدم ہل گئے اور اس طرح کے حالات میں خام ذہن کے لوگوں کو جس طرح کے شبہات لاحق ہوتے ہیں ان کے ذہنوں میں بھی اسی قسم کے شبہات پیدا ہونے لگے۔ مثلاً یہ کہ اگر یہ اللہ کا راستہ ہے تو یہ اتنا دشوار گزار کیوں ہے؟ اگر اس کی دعوت دینے والے اللہ کے رسول ہیں تو ان پر ایمان لانا اتنا جان جوکھم کا کام کیوں ہے؟ ہم جب اللہ کے کام کے لیے اٹھے ہیں تو ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں، پھر ہماری راہ میں رکاوٹیں اور یہ اڑنگے کیوں ڈال دیے گئے ہیں! اس طرح کے سوالات کا پیدا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ راہ حق اور اس کے تقاضوں سے اچھی طرح آشنا نہیں تھے اور نہایت آسانی سے نفاق کے فتنہ میں مبتلا ہو سکتے تھے۔ اس سورہ میں سب سے پہلے انہی لوگوں کی بیماری کی طرف توجہ فرمائی گئی۔ ارشاد ہوا کہ اگر لوگوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ وہ ایمان کا دعویٰ کریں گے اور مجرد ان کے اس دعوے کی بنا پر ان کا نام مومنین صادقین کے رجسٹر میں درج ہو جائے گا، ان کے کھرے کھوٹے ہونے کی کوئی جانچ نہیں ہو گی، تو یہ انھوں نے نہایت غلط سمجھا تھا۔
کیا لوگوں نے گمان کر رکھا ہے کہ محض یہ کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور اُنھیں آزمایا نہ جائے گا؟
یہ اُن لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو منکرین کے ہاتھوں زہرہ گداز مصائب سے گھبرا اٹھے اور طرح طرح کے شبہات میں مبتلا ہو گئے تھے، مثلاً یہ کہ اگر یہ خدا کا راستہ ہے تو ایسا دشوار گزار کیوں ہے؟ اگر اِس کی دعوت دینے والے خدا کے رسول ہیں تو اُن کا ساتھ دینا اِس قدر جان جوکھم کا کام کیوں بن گیا ہے؟ ہم خدا کے لیے اٹھے ہیں تو ہمارے راستے میں یہ رکاوٹیں کیوں کھڑی ہو گئی ہیں؟
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ” ہم ایمان لائے ” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟
جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکہ معظمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑا تھا، کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں، کوئی دکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کردیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی، کوئی کسی بااثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اجیرن کردیتے تھے۔ ان حالات نے مکے میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کردیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے قائل ہوجانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دورچار ہوتے تو پست ہمت ہو کر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خباب بن ارت کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری، ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں، میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ، آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے ؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ جوش اور جذبے سے سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہل ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں، ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے، کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے، خدا کی قسم یہ کام پورا ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضرموت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا جس کا وہ خوف کرے۔
اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں، کوئی شخص مجرد زبانی دعوائے ایمان کر کے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر مدعی کو لازما آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ ہماری جنت اتنی سستی نہیں ہے اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے، ہماری خاطر مشقتیں اٹھانی ہوں گی، جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہوگا، طرح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی، خطرات، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا، خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اور لالچ سے بھی، ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے، ہمارے لیے برداشت کرنی ہوگی، تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعوی تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔ یہ بات قرآن مجید میں ہر اس مقام پر کہی گئی ہے جہاں مصائب و شدائد کے ہجوم میں مسلمانوں پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہوا ہے، ہجرت کے بعد مدینے کی ابتدائی زندگی میں جب معاشی مشکلات، بیرون خطرات اور یہود و منافقین کی داخلی شرارتوں نے اہل ایمان کو سخت پریشان کر رکھا تھا، اس وقت فرمایا :
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ (البقرہ : آیت 214) ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہل ایمان) پر گزر چکے ہیں ؟ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ بلا مارے گئے، یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، (تب انہیں مژدہ سنایا گیا کہ) خبردار رہو، اللہ کی مدد قریب ہے “۔
اسی طرح جنگ احد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا :
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ۔ (آل عمران : آیت 142) ” کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پامردی دکھانے والے کون ہیں ؟ “
قریب قریب یہی مضمون سورة آل عمران، آیت 179، سورة توبہ آیت 16، اور سورة محمد آیت 31 میں بھی بیان ہوا ہے۔ ان ارشادات سے اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے، کھوٹا خودبخود اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹ جاتا ہے اور کھڑا چھانٹ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ کے ان انعامات سے سرفراز ہو جو صرف صادق الایمان لوگوں کا ہی حصہ ہیں۔
کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انھیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ؟
یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انھیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انھیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مومن و منافق کا پتہ چل جائے۔
اور ہم نے تو ان لوگوں کو بھی آزمایا جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ سو اللہ ان لوگوں کو ممیز کرے گا جو سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی ممیز کر کے رہے گا
یہ اللہ تعالیٰ نے نہایت مؤکد الفاظ میں اپنی اس سنت کی یاددہانی فرمائی جس سے ان لوگوں کو لازماً سابقہ پیش آتا ہے جو ایمان و اسلام کا دعویٰ لے کر اٹھتے ہیں۔ فرمایا کہ ان لوگوں سے پہلے جو لوگ یہ دعویٰ لے کر اٹھے ہم نے ان کو بھی آزمائشوں میں ڈال کر ان کا امتحان کیا، اسی طرح ان کا بھی امتحان کریں گے یہ اشارہ پچھلے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی طرف ہے۔ ’فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ‘ یعنی اگر یہ امتحان نہ ہو تو آخر یہ کس طرح ثابت ہو گا کہ کون اپنے دعوے میں سچا ہے، کون جھوٹا ہے۔ اس وجہ سے اللہ لازماً راست بازوں اور جھوٹے مدعیوں میں امتیار کرے گا۔ ’عَلِمَ‘ یہاں ممیز و معین کرنے کے معنی میں ہے۔ اس کی تحقیق اس کے محل میں گزر چکی ہے اور صیغہ یہاں وہ استعمال ہوا ہے جو تاکید کے لیے آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک مقررہ سنت ہے اس وجہ سے یہ کسی کو ناگوار ہو یا گوارا بہرحال اس امتحان سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے علم کا تعلق ہے وہ ہر چیز کو محیط ہے۔ وہ ہر ایک کے باطن سے اچھی طرح باخبر ہے کہ کون مخلص ہے اور کون منافق، لیکن وہ لوگوں کے ساتھ جزا و سزا کا معاملہ مجرد اپنے علم کی بنیاد پر نہیں کرتا بلکہ لوگوں کے عمل کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس وجہ سے وہ ہر ایک کو امتحان میں ڈال کر پرکھتا ہے اور اسی امتحان سے ہر ایک کے مدارج معین ہوتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اُن سب لوگوں کو آزمایا ہے جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ سو اللہ اُن لوگوں کو ضرور جانے گا جو سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی جان کر رہے گا
مطلب یہ ہے کہ سنت الٰہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جزا و سزا کا معاملہ مجرد اپنے علم کی بنیاد پر نہیں کرتا، بلکہ لوگوں کو آزمایشوں میں ڈالتا ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں، اُسی کی بنیاد پر اُن کے لیے جنت اور جہنم کا فیصلہ کرتا ہے۔
حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔
یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ ہی پیش آرہا ہو۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعوی کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر ضرور تپایا گیا ہے، اور جب دوسروں کو امتحان کے بغیر کچھ نہیں دیا گیا تو تمہاری خصوصیت ہے کہ تمہیں صرف زبانی دعوے پر نواز دیا جائے۔
اصل الفاظ ہیں فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ جن کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ ” ضرور ہے اللہ یہ معلوم کرے ” اس پر ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ اللہ کو تو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ خود ہی معلوم ہے، آزمائش کر کے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخص کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے، عملا اس کا ظہور نہیں ہوجاتا، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزا کا مستحق ہوسکتا ہے نہ سزا کا۔ مثلا ایک آدمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت، ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت کا عملا ظہور نہ ہوجائے، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علم غیب کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے وہ علم ساق جو اللہ کو لوگوں کے اچھے اور برے اعمال سے پہلے ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اور ان کے آئندہ طرز عمل کے بارے میں حاصل ہے، انصاف کی اغراض کے لیے کافی نہیں ہے، اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کا رجحان رکھتا ہے اور چوری کرے گا یا کرنے والا ہے، بلکہ اس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخص نے چوری کر ڈالی ہے۔ اسی طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلی درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا، بلکہ اس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کردیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر دکھا دی ہے، اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترجمہ ” اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے ” کیا ہے۔
ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالیٰ انھیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انھیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں۔
یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انھیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کردیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انھیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ' (صحیح بخاری) حضرت عمار، انکی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریح میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔
کیا جو لوگ برائیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں وہ گمان رکھتے ہیں کہ ہمارے قابو سے باہر نکل جائیں گے! بہت ہی برا فیصلہ ہے جو وہ کر رہے ہیں
شریروں کو تنبیہ: ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو متنبہ کرنے کے بعد یہ ان لوگوں کو بھی متنبہ فرما دیا جو کمزور مسلمانوں کو ظلم و ستم کا ہدف بنائے ہوئے تھے۔ فرمایا اگر ان لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ یہ اسی طرح ظلم و ستم کرنے کے لیے چھوڑے رکھے جائیں گے اور کبھی ہماری گرفت میں نہیں آئیں گے تو ان کا یہ گمان بالکل غلط ہے۔ ’یَعْمَلُوۡنَ السَّیِّئَاتِ‘ اگرچہ لفظاً عام ہے لیکن اشارہ انہی ناہنجار لوگوں کی طرف ہے جو بے بس مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے تھے اور خدا کی ڈھیل سے شہ پا کر دن پر دن دلیر ہوتے جا رہے تھے۔ فرمایا کہ یہ لوگ اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ خدا اسی طرح ان کو ڈھیل دیے رکھے گا تو وہ بڑی سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
’سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ‘۔ یعنی ان کا یہ فیصلہ خدا کے بارے میں نہایت برا فیصلہ ہے۔ خدا کو اگر انھوں نے کمزور سمجھا ہے کہ وہ ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا جب بھی ان کا یہ فیصلہ نہایت برا ہے اور اگر انھوں نے اپنی ان تمام ستم رانیوں پر اس کو راضی اور اس معاملے سے بالکل بے تعلق و بے پروا سمجھ رکھا ہے جب بھی ان کا یہ فیصلہ نہایت غلط اور نہایت برا ہے۔
اور کیا جو (اُن کے ساتھ) برائیاں کر رہے ہیں، اُنھوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائیں گے؟(یہی بات ہے تو)بہت ہی برا فیصلہ ہے جو وہ کر رہے ہیں!
یہ اُن لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو کمزور مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔
یعنی ہر لحاظ سے برا فیصلہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...خدا کو اگر اُنھوں نے کمزور سمجھا ہے کہ وہ اُن پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا، جب بھی اُن کا فیصلہ نہایت برا ہے اور اگر اُنھوں نے اپنی اِن تمام ستم رانیوں پر اُس کو راضی اور اِس معاملے سے بالکل بے تعلق و بے پروا سمجھ رکھا ہے، جب بھی اُن کا یہ فیصلہ نہایت غلط اور نہایت برا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۷)
اور کیا وہ لوگ جو بری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے ؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔
اس سے مراد اگرچہ تمام وہ لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے ہیں لیکن یہاں خاص طور روئے سخن قریش کے ان ظالم سرداروں کی طرف ہے جو اسلام کی مخالفت میں اور اسلام قبول کرنے والوں کو اذیتیں دینے میں اس وقت پیش پیش تھے، مثلا ولید بن مغیرہ، ابو جہل، عتبہ، شیبہ، عقبہ بن ابی معیط اور حنظلہ بن وائل وغیرہ۔ سیاق وسباق خود یہاں تقاضا کر رہا ہے کہ مسلمانوں کو آزمائشوں کے مقابلے میں صبر و ثبات کی تلقین کرنے کے بعد ایک کلمہ زجر و توبیخ ان لوگوں کو خطاب کر کے بھی فرمایا جائے جو ان حق پرستوں پر ظلم ڈھا رہے تھے۔
یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ” ہماری گرفت سے بچ کر کہیں بھاگ سکیں گے ” اصل الفاظ ہیں يَّسْبِقُوْنَا یعنی ہم سے سبقت لے جائیں گے، اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں (یعنی اپنے رسول کے مشن کی کامیابی) وہ تو نہ ہوسکے اور جو کچھ یہ چاہتے ہیں (یعنی ہمارے رسول کو نیچا دکھانا) وہ ہوجائے، دوسرا یہ کہ ہم ان کی زیادتیوں پر انہیں پکڑنا چاہتے ہوں اور یہ بھاگ کر ہماری دسترس سے دور نکل جائیں۔
کیا جو لوگ برائیاں کر رہے ہیں انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہمارے قابو سے باہر ہوجائیں گے یہ لوگ کیسی بری تجویزیں کر رہے ہیں
یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آسکیں گے۔
یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی۔ پھر اس کی نافرمانی کر کے اس کے مؤاخذہ و عذاب سے بچنا کیونکر ممکن ہے ؟
جو اللہ کی ملاقات کا متوقع ہے وہ اطمینان رکھے کہ اللہ کا مقرر کردہ وقت ضرور آ کے رہے گا اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
مظلوم مسلمانوں کو تسلی: یہ مظلوم مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ بہرحال تمہیں ہر کام آخرت کی امید پر کرنا ہے اور اگر تم یہ امید رکھتے ہو تو اطمینان رکھو کہ اللہ نے اس کے لیے جو مدت ٹھہرا رکھی ہے وہ لازماً پوری ہو کے رہے گی۔ ایک دن تم اپنے رب سے ملو گے اور اس دن تم اپنی ہر اس محنت و زحمت کا صلہ پا جاؤ گے جو اس کی خاطر تم نے جھیلی ہو گی۔ خدا سمیع و علیم ہے۔ کوئی چیز اس کے احاطۂ علم سے باہر نہیں ہے۔ تمہاری سرفروشیاں بھی اس کے علم میں ہوں گی اور تمہارے دشمنوں کی ستم رانیاں بھی اس کے سامنے ہوں گی۔
(اِس میں شبہ نہیں کہ اِس وقت ہجوم مصائب ہے، لیکن) جو خدا سے ملنے کی امید رکھتا ہو، (اُسے مطمئن رہنا چاہیے)، اِس لیے کہ (جزا و سزا کے لیے) خدا کا ٹھیرایا ہوا وقت ضرور آنے والا ہے اور خدا سمیع و علیم ہے
n/a
جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو ﴿اسے معلوم ہونا چاہیے کہ﴾ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
یعنی جو شخص حیات اخروی کا قائل ہی نہ ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ کوئی نہیں ہے جس کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو اور کوئی وقت ایسا نہیں آنا ہے جب ہم سے ہمارے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اس کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ اپنی غفلت میں پڑا رہے اور بےفکری کے ساتھ جو کچھ چاہے کرتا رہے۔ اپنا نتیجہ اپنے اندازوں کے خلاف وہ خود دیکھ لے گا۔ لیکن جو لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ایک وقت ہمیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی پانی ہے، انہیں اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ موت کا وقت کچھ بہت دور ہے۔ ان کو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بس قریب ہے آلگا ہے اور عمل کی مہلت ختم ہوا ہی چاہتی ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی وہ اپنی عاقبت کی بھلائی کے لیے کرسکتے ہوں کرلیں۔ طویل حیات کے بےبنیاد بھروسے پر اپنی اصلاح میں دیر نہ لگائیں۔
یعنی ان کو اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا چاہیے کہ ان کا سابقہ کسی شہ بیخبر سے ہے، جس خدا کے سامنے انہیں جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے وہ بیخبر نہیں بلکہ سمیع وعلیم خدا ہے، ان کی کوئی بات بھی اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
جسے اللہ کی ملاقات کی امید ہو پس اللہ کا ٹھہرایا ہوا وقت یقیناً آنے والا ہے وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔
یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر وثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں بر لائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزاء عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقینا برپا ہو کر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہوگی۔
وہ بندوں کی باتوں اور دعاؤں کا سننے والا اور ان کے پیچھے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے اسکے مطابق وہ جزا اور سزا بھی یقینا دے گا۔
اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کر رہا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ اللہ عالم والوں سے بے نیاز ہے
ایک برسر موقع آگاہی: یہ متنبہ فرمایا ہے کہ جو شخص ایمان لاتا اور اس راہ میں مشقتیں اٹھاتا ہے وہ یاد رکھے کہ وہ اپنا ہی مستقبل سنوارتا ہے اور اپنا ہی گھر بھرتا ہے، وہ خدا اور اس کے دین پر کوئی احسان نہیں کرتا۔ اس وجہ سے اسے اس بات سے دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے کوئی مصیبت پیش آئی۔ اگر اسے کوئی مصیبت پیش آئی تو خدا کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ تمام عالم سے مستغنی ہے۔ البتہ لوگ اس کے محتاج ہیں اس وجہ سے خدا کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی بھی جو کوئی دیتا ہے وہ درحقیقت اپنے ہی نفع کے لیے دیتا ہے، اس سے خدا کو کوئی نفع نہیں پہنچتا۔ یہاں یہ حقیقت اچھی طرح ملحوظ رہے کہ دنیا کی طرح دین بھی خدا کے کام آنے والی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ بندوں ہی کے کام آنے والی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ راستہ انسان ہی کی سعادت کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ جس طرح ایک کسان اپنے کھیت میں مشقت کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لیے کرتا ہے، کسی دوسرے کے لیے نہیں کرتا اسی طرح انسان دین کی راہ میں چل کر اپنی ہی منزلیں طے کرتا ہے۔ خدا کی منزل نہیں طے کرتا۔
(اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ) جو ہمارے لیے محنت اٹھاتے ہیں تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے محنت اٹھاتے ہیں۔ اِس لیے کہ اللہ تو دنیا والوں سے بے نیاز ہے
یعنی وہ محنت جو انسان اپنے ایمان پر قائم رہنے کے لیے اٹھاتا ہے۔
جو شخص بھی مجاہدہ کرے گا اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا ، اللہ یقینا دنیا جہان والوں سے بےنیاز ہے۔
” مجاہدہ ” کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلہ میں کش مکش اور جدوجہد کرنے کے ہیں، اور جب کسی خاص مخالف طاقت کی نشان دہی نہ کی جائے بلکہ مطلقا مجاہدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کش مکش ہے، مومن کو اس دنیا میں جو کش مکش کرنی ہے اس کی نوعیت یہی کچھ ہے۔ اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر آن نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کا لالچ دلاتا رہتا ہے۔ اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت اپنی خواہشات کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے۔ اپنے گھر سے لے کر آفاق تک کے ان تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جن کے نظریات، رجحانات، اصول اخلاق، رسم و رواج، طرز تمدن اور قوانین معیشت و معاشرت دین حق سے متصادم ہوں۔ اور اس ریاست سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرمانبرداری سے آزاد رہ کر اپنا فرمان چلائے اور نیکی کے بجائے بدی کو فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے، یہ مجاہدہ ایک دن دو دن کا نہیں عمر بھر کا، اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے ہر لمحہ کا ہے۔ اور کسی ایک میدان میں نہیں، زندگی کے ہر پہلو میں ہر محاذ پر ہے۔ اسی کے متعلق حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ” ان الرجل لیجاھد و ما ضرب یوما من الدھر بسیف ” آدمی جہاد کرتا ہے خواہ کبھی ایک دفعہ بھی وہ تلوار نہ چلائے۔
یعنی اللہ تعالیٰ اس مجاہدہ کا مطالبہ تم سے اس لیے نہیں کر رہا ہے کہ اپنی خدائی قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لیے اسے تمہاری کسی مدد کی ضرورت ہے اور تمہاری اس لڑائی کے بغیر اس کی خدائی نہ چلے گی۔ بلکہ وہ اس لیے تمہیں اس کش مکش میں پڑنے کی ہدایت کرتا ہے کہ یہی تمہاری ترقی کا راستہ ہے۔ اسی ذریعہ سے تم بدی اور گمراہی کے چکر سے نکل کر نیکی اور صداقت کی راہ پر بڑھ سکتے ہو۔ اسی سے تم میں یہ طاقت پیدا ہوسکتی ہے کہ دنیا میں خیر و صلاح کے علمبردار اور آخرت میں خدا کی جنت کے حق دار بنو۔ تم یہ لڑائی لڑ کر خدا پر کوئی احسان نہ کرو گے۔ اپنا ہی بھلا کروگے۔
اور ہر ایک کوشش کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بےنیاز ہے
یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کے افعال سے بےنیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت و اضافہ نہیں ہوگا اور سب نافرمان ہوجائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہوگی۔ الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔
اور جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کیے تو ہم ان کی برائیاں ان پر سے جھاڑ دیں گے اور ان کو ان کے عمل کا بہترین بدلہ دیں گے
اہل ایمان کے ساتھ اللہ کا معاملہ: قرینہ دلیل ہے کہ لفظ ’سَیِّاٰتٌ‘ یہاں صغائر یعنی چھوٹے گناہوں کے مفہوم میں ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر صاحب ایمان و عمل کے ساتھ یہ معاملہ کرنے والا ہے کہ اس کی لغزشوں اور کوتاہیوں سے وہ درگزر فرمائے گا اور اس نے جو نیک اعمال کیے ہوں گے ان کا وہ اُن سے کہیں بڑھ کر صلہ دے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جب بندوں کے ساتھ خدا کا معاملہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے ہر چھوٹے بڑے عمل کا صلہ پانے والا ہے تو پھر اس کے دل میں یہ وسوسہ کیوں پیدا ہوا کہ اس نے خدا کی راہ میں کوئی تکلیف جھیلی تو یہ اس نے اللہ اور اس کے دین پر کوئی احسان کیا!
اور جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، (اُنھیں یقین رکھنا چاہیے کہ) اُن کی برائیاں ہم ضرور اُن سے دور کریں گے اور اُن کے عمل کا اُنھیں بہترین بدلہ عطا فرمائیں گے
اِس سے وہ برائیاں مراد ہیں جو اُنھوں نے اپنے ایمان لانے سے پہلے کی ہوں گی یا اب کر بیٹھیں گے اور اُس کے بعد توبہ کرکے اپنے ایمان کی تجدید کر لیں گے۔
اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے ان کی برائیاں ہم ان سے دور کردیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے۔
ایمان سے مراد ان تمام چیزوں کو سچے دل سے ماننا ہے جنہیں تسلیم کرنے کی دعوت اللہ کے رسول اور اس کی کتاب نے دی ہے۔ اور عمل صالح سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ دل و دماغ کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی فکر اور اس کے خیالات اور ارادے درست اور پاکیزہ ہوں۔ زبان کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی برائی پر زبان کھولنے سے بچے اور جو بات بھی کرے حق و انصاف اور راستی کے مطابق کرے۔ اور اعضا وجوارح کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اور اس کے احکام و قوانین کی پابندی میں بسر ہوں، اس ایمان و عمل صالح کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں :
ایک یہ کہ آدمی کی برائیاں ا سے دور کردی جائیں گی۔
دوسرا یہ کہ اسے اس کے بہترین اعمال کی، اور اس کے اعمال سے بہتر جزا دی جائے گی۔
برائیاں دور کرنے سے مراد کئی چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایمان لانے سے پہلے آدمی نے خواہ کیسے ہی گناہ کیے ہوں، ایمان لاتے ہی وہ سب معاف ہوجائیں گے، دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بعد آدمی نے بغاوت کے جذبے سے نہیں بلکہ بشری کمزوری سے جو قصور کیے ہوں، اس کے نیک اعمال کا لحاظ کر کے ان سے درگزر کیا جائے گا۔ تیسرے یہ کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے نفس کی اصلاح آپ سے آپ ہوگی اور اس کی بہت سی کمزوریاں دور ہوجائیں گی۔
ایمان و عمل صالح کی جزا کے متعلق جو فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے وہ ہے وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظ رکھ کر اس کے لیے جزا تجویز کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزا کا مستحق ہوگا اس سے زیادہ اچھی جزا اسے دی جائے گی۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی قرآن میں فرمائی گئی ہے۔ مثلا سورة انعام میں فرمایا مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا۔ (آیت 160) ” جو نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے دس گنا اجر دیا جائے گا “۔ اور سورة قصص میں فرمایا مَنْ جَاۗءَ بالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا۔ (آیت 84) ” جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے بہتر اجر دیا جائے گا “۔ اور سورة نساء میں فرمایا اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْھَا۔ (آیت 40) ” اللہ طلم تو ذرہ برابر نہیں کرتا، اور نیکی ہو تو اس کو کئی گنا بڑھاتا ہے “۔
اور جن لوگوں نے یقین کیا اور مطابق سنت کام کیے ہم ان کے تمام گناہوں کو ان سے دور کردیں گے اور انھیں نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے
یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بےنیاز ہے، وہ محض اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر ثواب دے گا۔
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کی ہدایت کی۔ اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی چیز کو میرا شریک ٹھہرا، جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں، تو ان کی بات نہ مان۔ میری ہی طرف تم سب کی واپسی ہے تو جو کچھ تم کرتے رہے ہو میں اس سے تمہیں آگاہ کروں گا
باپ ماں کے حقوق خدا کے حقوق کے تحت ہیں: اوپرکی آیات میں جس آزمائش کا ذکر ہوا ہے اس میں ایک حصہ اس آزمائش کا بھی تھا جو اسلام لانے والے نوجوانوں کو اپنے کافر باپوں اور سرپرستوں کے ہاتھوں پیش آئی۔ باپ ماں کے حقوق چونکہ ہر دین میں مسلم رہے ہیں اس وجہ سے اس حق سے باپوں نے بسا اوقات بہت غلط فائدہ اٹھایا ہے کہ اپنے حق کے نام پر انھوں نے اپنی اولاد کو خدا کے حقوق سے روکنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں انھوں نے ظلم و ستم سے بھی دریغ نہیں کیا ہے۔ اس کی مثالیں ہر دعوت حق کی تاریخ میں موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جو کچھ ان کے باپ کے ہاتھوں گزری اس کی تفصیل اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت کے دور میں نوجوانوں کو جن حالات سے سابقہ پیش آیا ان کی طرف بھی پچھلی سورتوں میں اشارے گزر چکے ہیں۔ یہی صورت حال ان نوجوانوں کو بھی پیش آئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ وہ بھی اسلام لانے کے جرم میں اپنے باپوں اور سرپرستوں کے ظلم و ستم کے ہدف بن گئے۔ اس صورت حال کا تقاضا یہ ہوا کہ اس باب میں نوجوانوں کو واضح ہدایت دے دی جائے کہ والدین اگر ان کے دین کے معاملے میں مداخلت کریں تو انھیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کی ہدایت کی ہے اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی اس کو فرمائی ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالیں کہ تو کسی چیز کو بے دلیل میرا شریک ٹھہرا تو اس معاملے میں ان کی اطاعت نہ کیجیو۔ ’توصیۃ‘ یہاں ہدایت دینے کے مفہوم میں ہے اور اس معنی میں یہ قرآن میں جگہ جگہ استعمال ہوا ہے۔ اسلوب بیان سے یہ بات نکلتی ہے کہ قرآن نے اس کو یہاں تمام مذاہب اور تمام انبیاء کی مسلم تعلیم کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ تورات، انجیل اور زبور سب میں والدین کی اطاعت کو خدا کی اطاعت کے تحت جگہ دی گئی ہے۔ والدین کو جو حق اولاد پر ملا ہے وہ خدا ہی کا عطاکردہ ہے اس وجہ سے ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اولاد کو خدا کے حقوق سے روکیں اور جب والدین کو یہ حق حاصل نہیں ہے، جن کا حق خدا کے حق کے بعد سب سے بڑا ہے تو پھر دوسروں کے لیے اس حق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسلام میں قانون ہے کہ ’لَا طاعۃَ لمخلوقٍ فِی معصیۃِ الخالقِ‘ ’خالق کے حکم کے خلاف کسی مخلوق کی اطاعت بھی جائز نہیں‘۔
شرک ایک بے دلیل چیز ہے: ’مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ‘ یہ شرک کی نفی کی دلیل ہے جو قرآن میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوئی ہے۔ ’علم‘ کے معنی دلیل و برہان کے ہیں۔ جہاں تک ایک خدا کا تعلق ہے وہ تو ایک بدیہی حقیقت ہے جس کو ایک مشرک بھی بہرحال مانتا ہے۔ رہے دوسرے اس کے شریک تو ان کی دلیل پیش کرنا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو ان کو شریک خدا ٹھہراتے ہیں اور جب تک ان کے حق میں کوئی دلیل نہ ہو کسی عاقل کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ ان کو خدائی میں شریک کر کے ان کی غلامی کا قلادہ بھی اپنی گردن میں ڈال لے۔
تنبیہ اور تسلی دونوں: ’اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمََا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ‘ میں تسلی بھی ہے اور تنبیہ بھی۔ مطلب یہ ہے کہ سب کی واپسی میری ہی طرف ہونی ہے، کوئی اور مرجع و ماویٰ بننے والا نہیں ہے تو میں سب کو ان کے اعمال سے باخبر کروں گا۔ باخبر کرنے سے مراد ظاہر ہے کہ اعمال کی جزا اور سزا دینے کے ہیں۔ یعنی آج جو لوگ میرے بندوں کو میری راہ سے روکنے کے لیے ان پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں ان کی کرتوتیں بھی میں ان کے سامنے رکھوں گا اور میرے جو بندے میری راہ میں استقامت دکھائیں گے ان کی جانبازیوں کا انعام بھی ان کو بھرپور دوں گا۔
(خدا سے بڑھ کر کسی کا حق نہیں ہے)۔ ہم نے انسان کو اُس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کی ہدایت کی ہے، لیکن(ساتھ ہی واضح کر دیا ہے کہ) اگر وہ تمھارے درپے ہوں کہ تم کسی کو میرا شریک ٹھیراؤ جس کا تمھیں کوئی علم نہیں ہے تو اُن کی بات نہ ماننا۔ تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، پھر میں تمھیں بتاؤں گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو
یہ نفی شرک کی دلیل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... ’علم‘ کے معنی دلیل و برہان کے ہیں۔ جہاں تک ایک خدا کا تعلق ہے، وہ تو ایک بدیہی حقیقت ہے جس کو ایک مشرک بھی بہرحال مانتاہے۔ رہے دوسرے اُس کے شریک تو اُن کی دلیل پیش کرنا اُن لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اُن کو شریک خدا ٹھیراتے ہیں اور جب تک اُن کے حق میں کوئی دلیل نہ ہو، کسی عاقل کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اُن کو خدائی میں شریک کر کے اُن کی غلامی کا قلادہ بھی اپنی گردن میں ڈال لے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۱۹)
اوپر جن آزمایشوں کا ذکر ہوا ہے، اُن میں سے ایک بڑی آزمایش یہ بھی رہی ہے کہ والدین مذہب کے معاملے میں بسا اوقات اولاد کو اپنی اطاعت پر مجبور کرتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے والے بھی یقیناًاِس سے دوچار ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ قرآن نے واضح کر دیا کہ والدین کا حق، بے شک مسلم ہے، لیکن خدا نے یہ حق اُن کو بھی نہیں دیا کہ دین کے معاملے میں اُن کی بات بغیر کسی دلیل کے مان لی جائے یا وہ اِس معاملے میں اپنی اولاد پر کوئی جبر کریں۔
ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے ﴿معبود﴾ کو شریک ٹھہرائے جسے تو ﴿میرے شریک کی حیثیت سے ﴾ نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔ میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتادوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
اس آیت کے متعلق مسلم، ترمذی، احمد، ابوداؤد اور نسائی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ 18 ۔ 19 سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا، ان کی ماں حمنہ بنت سفیان بن امیہ (ابو سفیان کی بھتیجی) کو جب معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہوگیا ہے تو اس نے کہا کہ جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، نہ سائے میں بیٹھوں گی، ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ کا حکم ہے، تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی بھی نافرمانی کرے گا۔ حضرت سعد اس پر سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ممکن ہے کہ ایسے ہی حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دوچار ہوئے جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے۔ اسی لیے اس مضمون کو سورة لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہرایا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو آیت 15)
آیت کا منشا یہ ہے کہ انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں۔ لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے، کجا کہ کسی اور کے کہنے پر آدمی ایسا کرے۔ پھر الفاط یہ ہیں کہ ” وَاِنْ جَاهَدٰكَ ” اگر وہ دونوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگا دیں “۔ اس سے معلوم ہوا کہ کم تر درجے کا دباؤ، یا ماں باپ میں سے کسی ایک کا زور دینا تو بدرجہ اولی رد کردینے کے لائق ہے۔ اس کے ساتھ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا) کا فقرہ بھی قابل غور ہے۔ اس میں ان کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے۔ ماں باپ کا یہ حق تو بیشک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے، ان کا ادب و احترام کرے، ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے۔ لیکن یہ حق ان کو نہیں پہنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی کیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہوجائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسے اس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چاہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہو۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے۔
یعنی یہ دنیا کی رشتہ داریاں اور ان کے حقوق تو بس اسی دنیا کی حد تک ہیں۔ آخر کار ماں باپ کو بھی اور اولاد کو بھی اپنے خالق کے حضور پلٹ کر جانا ہے، اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہونی ہے۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑے جائیں گے، اگر اولاد نے ماں باپ کی خاطر گمراہی قبول کی ہے تو اسے سزا ملے گی۔ اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہ کی، لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا، تو وہ اللہ کے مواخذے سے بچ نہ سکیں گے۔
ہم ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا۔
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ جس سلوک کی تاکید کی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (اللہ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقہ سے وہی سمجھ سکتا ہے اور انھیں ادا کرسکتا ہے جو والدین کی اطاعت و خدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور ان کی تربیت و پرداخت، ان کی نہایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لئے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے اور یقینا خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید و عبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لئے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو رب کی نارضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم شامل ہے) اور اس کے لئے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے ' کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں '۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر انکی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا پھر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی
اور جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو ہم ان کو صالحین کے زمرہ میں داخل کریں گے
اوپر کی آیت میں نمایاں پہلو تنبیہ کا تھا اس آیت میں تسلی کے پہلو کا صریح الفاظ میں ذکر فرما دیا۔ ’اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘ یہاں اپنے حقیقی مفہوم میں ہے۔ یعنی جو لوگ اپنے دشمنوں کی تمام دشمنی کے علی الرغم ایمان و عمل صالح پر قائم و استوار رہیں گے۔ فرمایا کہ ان لوگوں کو ہم بلاشبہ زمرۂ صالحین میں داخل کریں گے۔ زمرۂ صالحین سے مراد اللہ کے ان خالص و مخلص بندوں کا گروہ ہے جن کو اس دنیا کی مختلف آزمائشوں سے گزار کر اللہ تعالیٰ آخرت کی ابدی بادشاہی کے لیے منتخب فرما رہا ہے۔ اس گروہ میں ہر مدعی کے لیے جگہ نہیں ہے۔ اس میں صرف وہی لوگ بار پائیں گے جو اپنے آپ کو امتحان کی کسوٹیوں پر کھرا ثابت کریں گے۔
اور جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اُنھیں ہم (اُس دن) ضرور صالحین میں داخل کریں گے
یہ تنبیہ بھی ہے اور تسلی بھی کہ دباؤ کے باوجود حق پر قائم رہو گے تو صلہ پاؤ گے، ورنہ تم اور تمھارے والدین، سب کو ایک دن میری ہی طرف پلٹنا ہے، جہاں جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔
اور جو لوگ ایمان لائے ہوں گے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہوں گے ان کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے۔
n/a
اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے انھیں اپنے نیک بندوں میں شمار کرلوں گا۔
یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہوگا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنابریں المرء مع من أحب کے تحت وہ زمرہ صالحین میں ہوگا۔
اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن جب اللہ کی راہ میں انھیں دکھ پہنچتا ہے تو وہ لوگوں کے پہنچائے ہوئے دکھ کو خدا کے عذاب کے مانند قرار دے بیٹھتے ہیں اور اگر تمہارے رب کی طرف سے کوئی مدد ظاہر ہو گی تو کہیں گے کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ تھے۔ کیا لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ اس سے اچھی طرح باخبر نہیں ہے
ایمان کے مدعیوں کو تنبیہ: یہ ایمان کے مدعیوں کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ ایمان کا دعویٰ کرنے کو تو کر بیٹھے لیکن جب اس راہ کی آزمائشوں سے سابقہ پیش آیا ہے تو وہ لوگوں کی پہنچائی ہوئی اذیت سے اس طرح گھبرا اٹھے ہیں جس طرح خدا کے عذاب سے ڈرنا اور گھبرانا چاہیے۔ حالانکہ اس دنیا میں جو دکھ بھی پہنچے گا بہرحال وہ چند روزہ ہے۔ برعکس اس کے خدا جس عذاب میں پکڑنے والا ہے وہ ابدی ہے۔ اس وجہ سے حق کی خاطر اس دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت جھیل لینا بھی آسان ہے بمقابلہ اس کے کہ اس سے مرعوب ہو کر آدمی اپنے آپ کو ابدی عذاب کا سزاوار بنا لے۔ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی جو سنت جاری ہے اس کے تحت ہر شخص کو بہرحال دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ یا تو وہ حق کا راستہ اتخاب کرے اور پھر پوری پامردی کے ساتھ خلق کی بے مہری بلکہ اس ظلم و ستم کا مقابلہ کرے اور اگر اس کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا تو پھر باطل کے ساتھ چلے اور آخرت میں ابدی خسران سے دوچار ہو۔ ان دو کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے۔
یہاں یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں آدمی کو جو دکھ پہنچے ہیں ان کو ’فتنہ‘ یعنی آزمائش سے تعبیر فرمایا ہے اس لیے کہ ان کی حیثیت بہرحال ایک آزمائش سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ پیش آئے گا اس کو عذاب سے تعبیر فرمایا اس لیے کہ وہ درحقیقت عذاب ہو گا جس سے مفر کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔
’وَلَئِنۡ جَآءَ نَصْرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ إِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ‘۔ یعنی اس وقت تو آزمائشوں نے ان کے قدم ہلا دیے ہیں اور یہ دشمنان حق کے ہم نوا بن بیٹھے ہیں لیکن کل جب خدا کی مدد و نصرت کے آثار ظاہر ہوں گے تو یہ بڑے دعوے کے ساتھ کہیں گے کہ ہم نے بھی اس حق کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں اس راہ میں ہم کسی سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔
’أَوَلَیْْسَ اللَّہُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُورِ الْعَالَمِیْنَ‘۔ فرمایا کہ یہ دعویٰ تو اس کے آگے کارگر ہو سکتا ہے جو دلوں کے بھیدوں سے بے خبر ہو، جس پر سارا ظاہر و باطن آشکارا ہو اس پر یہ فریب کیا چلے گا!
(یہ خدا پر ایمان کا تقاضا ہے) اور اِدھر لوگوں (کا حال یہ ہے کہ اُن) میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے ہیں، لیکن جب اُسی خدا کی راہ میں ستائے جاتے ہیں تو لوگوں کے ستانے کو وہ خدا کے عذاب کی طرح سمجھ لیتے (اور پیچھے ہٹ جاتے) ہیں۔ (یہی لوگ ہیں کہ)اگر تیرے پروردگار کی طرف سے کوئی مددظاہر ہو گی تو ضرور کہیں گے کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ تھے۔ کیا لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے، اُس سے اللہ بخوبی واقف نہیں ہے؟
لوگوں کے ستانے کے لیے آیت میں لفظ ’فِتْنَۃ‘ اور جو کچھ خدا کی طرف سے پیش آئے گا، اُسے ’عَذَاب‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ عذاب درحقیقت خدا ہی کا عذاب ہے۔ لوگ جو تکلیف بھی پہنچائیں، وہ بہرحال آزمایش ہی ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر۔ مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔ اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو یہی شخص کہے گا کہ ” ہم تو تمہارے ساتھ تھے ” کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے ؟
اگرچہ کہنے والا ایک شخص ہے، مگر ” میں ایمان لایا ” کہنے کے بجائے کہہ رہا ہے ” ہم ایمان لائے ” امام رازی نے اس میں ایک لطیف نکتے کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ منافق اپنے آپ کو ہمیشہ زمرہ اہل ایمان میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ایمان کا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ گویا وہ بھی ویسا ہی مومن ہے جیسے دوسرے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بزدل اگر کسی فوج کے ساتھ گیا ہے اور اس فوج کے بہادر سپاہیوں نے لڑ کر دشمنوں کو مار بھگایا ہے، تو چاہے اس نے خود کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ہو، مگر وہ آکر یوں کہے گا کہ ہم گئے اور ہم خوب لڑے اور ہم نے دشمن کو شکست فاش دے دی، گویا آپ بھی انہی بہادروں میں سے ہیں جنہوں نے داد شجاوت دی ہے۔
یعنی جس طرح اللہ کے عذاب سے ڈر کر کفر و معصیت سے باز آنا چاہیے، یہ شخص بندوں کی دی ہوئی تکلیفوں میں سے ڈر کر ایمان اور نیکی سے باز آگیا۔ ایمان لانے کے بعد کفار کی دھمکیوں اور مار پیٹ اور قید و بند سے جب اسے سابقہ پیش آیا تو اس نے سمجھا کہ اللہ کی وہ دوزخ بھی بس اتنی ہی کچھ ہوگی جس سے مرنے کے بعد کفر کی پاداش میں سابقہ پیش آنا ہے۔ اس لیے اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ عذاب تو بعد میں بھگت لوں گا، یہ نقد عذاب جو اب مل رہا ہے اس سے بچنے کے لیے مجھے ایمان چھوڑ کر پھر زمرہ کفار میں جا ملنا چاہیے تاکہ دنیا کی زندگی تو خیریت سے گزر جائے۔
یعنی آج تو وہ اپنی کھال بچانے کے لیے کافروں میں جا ملا ہے اور اہل ایمان کا ساتھ اس نے چھوڑ دیا ہے، کیونکہ دین حق کو فروغ دینے کے لیے وہ اپنی نکیر تک پھڑوانے کو تیار نہیں ہے۔ مگر جب اس دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی گلا دینے والوں کو اللہ تعالیٰ فتح و کامرانی بخشے گا تو یہ شخص فتح کے ثمرات میں حصہ بٹانے کے لیے آموجود ہوگا اور مسلمانوں سے کہے گا کہ دل سے تو ہم تمہارے ہی ساتھ تھے، تمہاری کامیابی کے لیے دعائیں مانگا کرتے تھے، تمہاری جانفشانیوں اور قربانیوں کی بڑی قدر ہماری نگاہ میں تھی۔
یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ناقابل برداشت اذیت یا نقصان، یا شدید خوف کی حالت میں کسی شخص کا کلمہ کفر کہہ کر اپنے آپ کو بچا لینا شرعا جائز ہے بشرطیکہ آدمی سچے دل سے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ لیکن بہت بڑا فرق ہے اس مخلص مسلمان میں جو بحالت مجبوری جان بچانے کے لیے کفر کا اظہار کرے اور اس مصلحت پرست انسان میں جو نظریہ کے اعتبار سے اسلام ہی کو حق جانتا اور مانتا ہو مگر ایمانی زندگی کے خطرات و مہالک دیکھ کر کفار سے جا ملے۔ بظاہر ان دونوں کی حالت ایک دوسرے سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتی، مگر درحقیقت جو چیز ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ مجبوراً کفر ظاہر کرنے والا مخلص مسلمان نہ صرف عقیدے کے اعتبار سے اسلام کا گرویدہ رہتا ہے، بلکہ عملا بھی اس کی دلی ہمدردیاں دین و اہل دین کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی کامیابی سے وہ خوش اور ان کو زک پہنچنے سے وہ بےچین ہوجاتا ہے۔ مجبوری کی حالت میں بھی وہ مسلمانوں کا ساتھ دینے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس تاک میں رہتا ہے کہ جب بھی اس پر سے اعدائے دین کی گرفت ڈھیلی ہو وہ اپنے اہل دین کے ساتھ جا ملے۔ اس کے برعکس مصلحت پرست آدمی جب دین کی راہ کٹھن دیکھتا ہے اور خوب ناپ تول کر دیکھ لیتا ہے کہ دین حق کا ساتھ دینے کے نقصانات کفار کے ساتھ جا ملنے کے فوائد سے زیادہ ہیں تو وہ خالص عافیت اور منفعت کی خاطر دین اور اہل دین سے منہ موڑ لیتا ہے، کافروں سے رشتہ دوستی استوار کرتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر ان کی کوئی ایسی خدمت بجا لانے سے بھی باز نہیں رہتا جو دین کے سخت خلاف اور اہل دین کے لیے نہایت نقصان دہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اس امکان سے بھی آنکھیں بند نہیں کرلیتا کہ شاید کسی وقت دین حق ہی کا بول بالا ہوجائے۔ اس لیے جب کبھی اسے مسلمانوں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے وہ ان کے نظریے کو حق ماننے اور ان کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کرنے اور راہ حق میں ان کی قربانیوں کو خراج تحسین ادا کرنے میں ذرہ برابر بخل نہیں کرتا، تاکہ یہ زبانی اعترافات سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔ قرآن کریم ایک دوسرے موقع پر ان منافقین کی اسی سوداگرانہ ذہنیت کو یوں بیان کرتا ہے :
الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ڮ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ (آیت 141) ” یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے معاملے میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آکر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور ہم نے پھر بھی تمہیں مسلمانوں سے بچایا ؟ “۔
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذاء دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لتے ہیں، ہاں اگر اللہ کی مدد آجائے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ تعالیٰ جانتا نہیں ہے ؟
اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انھیں ایذاء پہنچتی ہے تو عذاب الہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتا وہ ایمان سے پھرجاتے اور دین عوام کو اختیار کرلیتے ہیں۔
یعنی مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہوجائے۔
یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں، یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہی، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا۔ اور مسلمانوں سے تم کو نہیں پجایا تھا۔ (الَّذِيْنَ يَتَرَبَّصُوْنَ بِكُمْ ۚ فَاِنْ كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰهِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ ڮ وَاِنْ كَانَ لِلْكٰفِرِيْنَ نَصِيْبٌ ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭفَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا) 4 ۔ النساء :141)
یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھی ہونا ظاہر کرتے ہو۔
امین احسن اصلاحی
یہ الٓمّٓ ہے
الٓمّٓ: یہ ایک مستقل جملہ ہے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کے مطابق یہاں مبتدا محذوف ہے۔ اس کو ظاہر کر دیا جائے تو پوری بات یوں ہو گی۔ ھٰذہ الٓمّٓ، (یہ الف، لام، میم ہے) ہم نے ترجمہ میں اس حذف کو کھول دیا ہے۔
یہ اور اس طرح کے جتنے حروف بھی مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں چونکہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں اس وجہ سے ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں۔
یہ جس سورہ میں بھی آئے ہیں بالکل شروع میں اس طرح آئے ہیں جس طرح کتابوں، فصلوں اور ابواب کے شروع میں ان کے نام آیا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں۔ قرآن نے جگہ جگہ ذٰلک اور تِلۡکَ کے ذریعہ سے ان کی طرف اشارہ کر کے ان کے نام ہونے کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے۔ حدیثوں سے بھی ان کا نام ہی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
جو سورتیں ان ناموں سے موسوم ہیں اگرچہ ان میں سے سب اپنے انہی ناموں سے مشہور نہیں ہوئیں بلکہ بعض دوسرے ناموں سے مشہور ہوئیں، لیکن ان میں سے کچھ اپنے انہی ناموں سے مشہور بھی ہیں۔ مثلاً طٰہٰ، یٰس، ق اور ن وغیرہ۔
ان ناموں کے معانی کے بارے میں کوئی قطعی بات کہنا بڑا مشکل ہے اس وجہ سے ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن کا تو دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک بالکل واضح کتاب ہے، اس میں کوئی چیز بھی چیستاں یا معمے کی قسم کی نہیں ہے، پھر اس نے سورتوں کے نام ایسے کیوں رکھ دیے ہیں جن کے معنی کسی کو بھی نہیں معلوم؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ان حروف کا تعلق ہے، یہ اہل عرب کے لئے کوئی بیگانہ چیز نہیں تھے بلکہ وہ ان کے استعمال سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس واقفیت کے بعد قرآن کی سورتوں کا ان حروف سے موسوم ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے قرآن کے ایک واضح کتاب ہونے پر کوئی حرف آتا ہو۔ البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حروف سے نام بنا لینا عربوں کے مذاق کے مطابق تھا بھی یا نہیں تو اس چیز کے مذاق عرب کے مطابق ہونے کی سب سے بڑی شہادت تو یہی ہے کہ قرآن نے نام رکھنے کے اس طریقہ کو اختیار کیا۔ اگر نام رکھنے کا یہ طریقہ کوئی ایسا طریقہ ہوتا جس سے اہل عرب بالکل ہی نامانوس ہوتے تو وہ اس پر ضرور ناک بھوں چڑھاتے اور ان حروف کی آڑ لے کر کہتے کہ جس کتاب کی سورتوں کے نام تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتے اس کے ایک کتاب مبین ہونے کے دعوے کو کون تسلیم کر سکتا ہے۔
قرآن پر اہل عرب نے بہت سے اعتراضات کئے اور ان کے یہ سارے اعتراض قرآن نے نقل بھی کئے ہیں لیکن ان کے اس طرح کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ناموں میں ان کے لئے کوئی اجنبیت نہیں تھی۔
علاوہ بریں جن لوگوں کی نظر اہل عرب کی روایات اور ان کے لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ اہل عرب نہ صرف یہ کہ اس طرح کے ناموں سے نامانوس نہیں تھے بلکہ وہ خود اشخاص، چیزوں، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں حتیٰ کہ قصائد اور خطبات تک کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھتے تھے۔ یہ نام مفرد حروف پر بھی ہوتے تھے اور مرکب بھی ہوتے تھے۔ ان میں یہ اہتمام بھی ضروری نہیں تھا کہ اسم اور مسمٰی میں کوئی معنوی مناسبت پہلے سے موجود ہو بلکہ یہ نام ہی بتاتا تھا کہ یہ نام اس مسمٰی کے لئے وضع ہوا ہے۔
اور یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک شے کے متعلق یہ معلوم ہو گیا کہ یہ نام ہے تو پھر اس کے معنی کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ نام سے اصل مقصود مسمٰی کا اس نام کے ساتھ خاص ہوجانا ہے نہ کہ اس کے معنی۔ کم ازکم فہم قرآن کے نقطۂ نظر سے ان ناموں کے معانی کی تحقیق کی تو کوئی خاص اہمیت ہے نہیں۔ بس اتنی بات ہے کہ چونکہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے ہیں اس وجہ سے آدمی کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ضرور یہ کسی نہ کسی مناسبت کی بنا پر رکھے گئے ہوں گے۔ یہ خیال فطری طور پر طبیعت میں ایک جستجو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی جستجو کی بنا پر ہمارے بہت سے پچھلے علماء نے ان ناموں پر غور کیا اور ان کے معنی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ان کی جستجو سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا لیکن ہمارے نزدیک ان کا یہ کام بجائے خود غلط نہیں تھا اور اگر ہم بھی ان پر غور کریں گے تو ہمارا یہ کام بھی غلط نہیں ہو گا۔ اگر اس کوشش سے کوئِی حقیقت واضح ہوئی تو اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو گا اور اگر کوئی بات نہ مل سکی تو اس کو ہم اپنے علم کی کوتاہی اور قرآن کے اتھاہ ہونے پر محمول کریں گے۔ یہ رائے بہرحال نہیں قائم کریں گے کہ یہ نام ہی بے معنی ہیں۔
اپنے علم کی کمی اور قرآن کے اتھاہ ہونے کا یہ احساس بجائے خود ایک بہت بڑا علم ہے۔ اس احساس سے علم و معرفت کی بہت سی بند راہیں کھلتی ہیں۔ اگر قرآن کا پہلا ہی حرف اس عظیم انکشاف کے لئے کلید بن جائے تو یہ بھی قرآن کے بہت سے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہو گا۔ یہ اسی کتاب کا کمال ہے کہ اس کے جس حرف کا راز کسی پر نہ کھل سکا اس کی پیدا کردہ کاوش ہزاروں سربستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کے لئے دلیل راہ بنی۔
ان حروف پر ہمارے پچھلے علماء نے جو رائیں ظاہر کی ہیں ہمارے نزدیک وہ تو کسی مضبوط بنیاد پر مبنی نہیں ہیں اس وجہ سے ان کا ذکر کرنا کچھ مفید نہیں ہوگا۔ البتہ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمة اللہ علیہ کی رائے اجمالاً یہاں پیش کرتا ہوں۔ اس سے اصل مسئلہ اگرچہ حل نہیں ہوتا لیکن اس کے حل کے لئے ایک راہ کھلتی ضرور نظر آتی ہے۔ کیا عجب کہ مولانا رحمة اللہ علیہ نے جو سراغ دیا ہے دوسرے اس کی رہنمائی سے کچھ مفید نشانات راہ اور معلوم کر لیں اور اس طرح درجہ بدرجہ تحقیق کے قدم کچھ اور آگے بڑھ جائیں۔
جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لئے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ عرب قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذ امام رحمة اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرف صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرف معانی اور اشیاء پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیاء پر وہ دلیل ہوتے تھے عموماً ان ہی کی صورت و ہئیت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ مولانا کی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جو قدیم مصریوں نے اخذ کئے اور اپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم و اصلاح کر کے ان کو اس خط تمثالی کی شکل دی جس کے آثار اہرام مصر کے کتبات میں موجود ہیں۔
ان حروف کے معانی کا علم اب اگرچہ مٹ چکا ہے تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً “الف” کے متعلق معلوم ہے کہ وہ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سر کی صورت ہی پر لکھا جاتا ہے۔ “ب” کو عبرانی میں بَیت کہتے بھی ہیں اور اس کے معنی بھی “بیت” (گھر) کے ہیں۔ “ج” کا عبرانی تلفظ جمیل ہے جس کے معنی جمل (اونٹ) کے ہیں۔ “ط” سانپ کے معنی میں آتا تھا اور لکھا بھی کچھ سانپ ہی کی شکل پر جاتا تھا۔ “م” پانی کی لہر پر دلیل ہوتا ہے اور اس کی شکل بھی لہر سے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔
مولانا اپنے نظریہ کی تائید میں سورہ “ن” کو پیش کرتے ہیں۔ حرف “نون” اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جو سورہ اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر صاحب الحوت، مچھلی والے، کے نام سے آیا ہے۔ مولانا اس نام کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طور پر اس طرف جاتا ہے کہ اس سورہ کا نام “نون” (ن) اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت، حضرت یونس علیہ السلام، کا واقعہ بیان ہوا ہے جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ پھر کیا عجب ہے کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں وہ بھی اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بنا پر آئے ہوں۔
قران مجید کی بعض اور سورتوں کے ناموں سے بھی مولانا کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے مثلاً حرف “ط” کے معنی، جیسا کے میں نے اوپر بیان کیا ہے، سانپ کے تھے اور اس کے لکھنے کی ہئیت بھی سانپ کی ہئیت سے ملتی جلتی ہوتی تھی۔ اب قرآن میں سورہ طٰہٰ کو دیکھئے جو “ط” سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں ایک مختصر تمہید کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی لٹھیا کے سانپ بن جانے کا قصہ بیان ہوتا ہے۔ اسی طرح طسم، طس وغیرہ بھی “ط” سے شروع ہوتی ہیں اور ان میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لٹھیا کے سانپ کی شکل اختیار کر لینے کا معجزہ مذکور ہے۔
“الف” کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ گائے کے سر کی ہئیت پر لکھا بھی جاتا تھا اور گائے کے معنی بھی بتاتا تھا۔ اس کے دوسرے معنی اللہ واحد کے ہوتے تھے۔ اب قرآن مجید میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ سورہ بقرہ میں جس کا نام الف سے شروع ہوتا ہے، گائے کے ذبح کا قصہ بیان ہوا ہے۔ دوسری سورتیں جن کے نام الف سے شروع ہوئے ہیں توحید کے مضمون میں مشترک نظر آتی ہیں۔ یہ مضمون ان میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان ناموں کا یہ پہلو بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن سورتوں کے نام ملتے جلتے سے ہیں ان کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں بلکہ بعض سورتوں میں تو اسلوب بیان تک ملتا جلتا ہے۔
میں نے مولانا کا یہ نظریہ، جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، محض اس خیال سے پیش کیا ہے کہ اس سے حروف مقطعات پر غور کرنے کے لئے ایک علمی راہ کھلتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی حیثیت ابھی ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک تمام حروف کے معانی کی تحقیق ہو کر ہر پہلو سے ان ناموں اور ان سے موسوم سورتوں کی مناسبت واضح نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کر لینا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ محض علوم قرآن کے قدردانوں کے لئے ایک اشارہ ہے، جو لوگ مزید تحقیق و جستجو کی ہمت رکھتے ہیں وہ اس راہ میں قسمت آزمائی کریں۔ شاید اللہ تعالیٰ اس راہ سے یہ مشکل آسان کر دے۔