آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ اس کتاب الٰہی سے متعلق تمہاری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہوشیار کردو تاکہ ان پر اللہ کی حجت تمام ہوجائے View

المص

امین احسن اصلاحی

یہ الٓمّٓصٓ ہے

حروف مقطعات

’الٓمّٓصٓ‘۔ حروف مقطعات پر تفصیلی بحث بقرہ میں ’الم‘ کے تحت گزرچکی ہے۔ یہاں الف، لام، میم پر حرف ص کا اضافہ ہے۔ ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں کہ جن سورتوں کے نام کچھ مشترک سے ہیں ان کے مطالب میں بھی فی الجملہ اشتراک پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس سورہ کو غور سے پڑھیے تو معلوم ہو گا کہ اس کی بہت سی باتیں بقرہ سے ملتی جلتی ہیں اگرچہ دونوں میں مکی و مدنی کا فرق بھی ہے اور دونوں کے مخاطب بھی الگ الگ ہیں۔

یہاں تالیف کلام کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ ’الٓمّٓصٓ‘ کو بحذف مبتدا مستقل جملہ بھی قرار دے سکتے ہیں اور اس کو آگے سے ملانا چاہیں تو اس کو مبتدا اور ’کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ‘ کو اس کی خبر بھی مان سکتے ہیں۔ ہم نے پہلی شکل اختیار کی ہے اور ’کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ‘ میں بھی مبتدا کو محذوف مانا ہے۔ ویسے دونوں شکلوں میں باعتبار مفہوم کوئی فرق نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ’الٓمّٓصٓ‘ ہے

اِس جملے میں مبتدا عربیت کی رو سے محذوف ہے۔ اِسے کھول دیجیے تو پوری بات یوں ہو گی:’ھٰذِہِ الٓمّٓصٓ‘۔ اصطلاح میں اِنھیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے اور سورتوں کے شروع میں یہ اُن کے نام کی حیثیت سے آئے ہیں۔ اِن کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی ابتدا میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے-

ابو الاعلی مودودی

ا، ل، م، ص۔

n/a

جونا گڑھی

المص

كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

امین احسن اصلاحی

یہ کتاب ہے جو تمھاری طرف اتاری گئی ہے تو اس کے باعث تمھارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہو تا کہ تم اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہوشیار کر دو اور اہل ایمان کے لیے یاددہانی ہے

قریش کی مخالفت کے دور شباب میں آنحضرت صلعم کو تسلی اور آپ کی ذمہ داری کی حد

 ’كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ
’حرج‘ کے معنی تنگی، ضیق اور پریشانی کے ہیں۔ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسکین و تسلی کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ یہ دور، جیسا کہ سورہ کے مطالب کی فہرست سے واضح ہے، قریش کی مخالفت کے شباب کا دور تھا۔ وہ ہر قسم کے اوچھے سے اوچھے ہتھیار استعمال کرنے پر اتر آئے تھے۔ آپؐ کو زچ کرنے کے لیے روز نت نئے مطالبے وہ پیش کرتے۔ ایک مخالفت کی یہ شدت تھی دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فرض دعوت کا احساس اتنا شدید تھا کہ سارے جتن کرنے کے باوجود آپ کو یہ فکر دامن گیر ہی رہتی کہ مبادا میری ہی کوئی کوتاہی ہو جس کے سبب سے یہ لوگ اتنی صاف اور واضح حقیقت کے قائل نہ ہو رہے ہوں۔ یہ دونوں چیزیں مل کر آپ کے دل پر ایک بھاری بوجھ بنی ہوئی تھیں۔ قرآن نے یہاں یہ دونوں بوجھ ہلکے کیے ہیں۔ قریش کی مخالفت سے بے پروا ہونے کی یوں تلقین فرمائی کہ یہ کتاب نہ تمھاری اپنی پیش کردہ ہے نہ خدا سے درخواست کر کے تم نے اپنے اوپر اتروائی ہے بلکہ یہ تمھاری طلب و تمنا کے بغیر خدا کی طرف سے تم پر اتاری گئی ہے تو تم اس کے مخالفوں کی مخالفت سے اپنے آپ کو ضیق و پریشانی میں کیوں مبتلا کرو؟ جس خدا نے یہ اتاری ہے وہی اس کی تائید و نصرت کے لیے کمک اور بدرقہ بھی فراہم کرے گا۔ نہ وہ کوئی کمزور ہستی ہے نہ حالات سے بے تعلق یا بے خبر ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جو ذمہ داری اس نے تم پر ڈالی ہے اس کو کما حقہٗ ادا کرنے کے لیے تم کن چیزوں کے محتاج ہو اور راہ کے پتھروں کو ہٹانے کے لیے تمھیں کتنی قوت درکار ہے۔ وہ یہ ساری چیزیں فراہم کرے گا تو تم خاطر جمع رکھو، اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا نہ کرو۔

لِتُنْذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
یہ اس کتاب سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری کی حد بتا دی گئی ہے کہ آپ کا فرض صرف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کو تکذیب رسول کے نتائج اور قیامت کے احوال سے اچھی طرح ہوشیار کر دیں۔ یہ مانتے ہیں یا نہیں، یہ سوال آپ سے متعلق نہیں ہے۔ آپ پر ذمہ داری صرف انذار و بلاغ کی ہے۔ ’وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘ کا ٹکڑا معناً عطف تو ’لِتُنْذِرَ‘ ہی پر ہے لیکن یہ فعل کے بجائے اسم کی شکل میں ہے۔ اس کے اسم کی شکل میں لانے سے ایک امر واقعہ کا اظہار مقصود ہے۔ وہ یہ کہ جہاں تک انذار کا تعلق ہے وہ تو تم ان کفار کو کر دو لیکن اس سے یاددہانی کا فائدہ صرف اہل ایمان ہی اٹھائیں گے۔ یہ مضمون جگہ جگہ، قرآن میں مختلف سورتوں میں، بیان ہوا ہے۔ ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں

طهہ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَىٰ تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى‘۔ (طٰہٰ ۱۔۴)
(یہ سورہ طٰہٰ ہے، ہم نے تم پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ تمھاری زندگی تمھارے لیے اجیرن ہو کے رہ جائے، یہ تو بس یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو ڈریں، یہ تو نہایت اہتمام سے اتارا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے زمین اور ان بلند آسمانوں کو پیدا کیا)۔

جاوید احمد غامدی

یہ کتاب ہے جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔ سو اِس سے، (اے پیغمبر)، تمھارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ اِس لیے نازل کی گئی ہے کہ اِس کے ذریعے سے (لوگوں کو) خبردار کرو اور ایمان والوں کو (اِس سے) یاددہانی ہو

آیت کی ابتدا ’کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ‘ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ یہاں بھی مبتدا محذوف ہے۔ مدعا یہ ہے کہ تم نے یہ کتاب خدا سے درخواست کرکے اپنے اوپر نہیں اتروائی، بلکہ خدا نے اپنے فیصلے سے اور تمھاری کسی خواہش اور تمنا کے بغیر تم پر نازل کی ہے، اِس لیے لوگ نہیں مانتے تو اِس کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، سو تمھیں کوئی پریشانی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جس نے اِسے نازل کیا ہے، وہی اِس کی دعوت کو اتمام تک پہنچائے گا اور وہ سب کچھ فراہم کرے گا جو اِس دعوت کو اتمام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ طٰہٰ (۲۰) کی آیت ’مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰی‘ میں ہے۔

یعنی اِس بات سے خبردار کرو کہ خدا کے پیغمبر کو جھٹلانے کے نتائج دنیا اور آخرت میں اُن کے لیے کیا ہو سکتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ‘۔ اِس کا عطف ’لِتُنْذِرَ بِہٖ‘ پر ہے۔ یہ اضمار فعل سے منصوب اور ’تذکیر‘ کے معنی میں اسم ہے، یعنی ’لتنذر بہ وتذکرتذکیرًا‘۔

ابو الاعلی مودودی

یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو۔ اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو۔

کتاب سے مراد یہی سورة اعراف ہے۔

یعنی بغیر کسی جھجک اور خوف کے اسے لوگوں تک پہنچا دو اور اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرو کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے۔ وہ بگڑتے ہیں، بگڑیں۔ مذاق اڑاتے ہیں، اُڑائیں۔ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، بنائیں۔ دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں، ہوجائیں۔ تم بےکھٹکے اس پیغام کو پہنچاؤ اور اس کی تبلیغ میں ذرا باک نہ کرو۔

جس مفہوم کے لیے ہم نے لفظ ِ جھجک استعمال کیا ہے، اصل عبارت میں اس کے لیے لفظ حَرَج استعمال ہوا ہے۔ لغت میں حرج اس گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو۔ دل میں حرج ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پاکر آدمی کا دل آگے بڑھنے سے رکے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلاً وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِيْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ (الحجر ٨، آیت ٩٧) ” اے محمد ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو “۔ یعنی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور مخالفت حق کا یہ حال ہے انہیں آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے۔ فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعْضَ مَا یُوحٰیٓ اِلَیْکَ وَضَائِقٌۢ بِہ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَہ مَلَکٌ (ہود، آیت ١٢) ” تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم پر وحی کیا جارہا ہے اس میں سے کوئی چیز تم بیان کرنے سے چھوڑ دو اور اس بات سے دل تنگ ہو کہ وہ تمہاری دعوت کے جواب میں کہیں گے اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اترایا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا۔ “

مطلب یہ ہے کہ اس سورة کا اصل مقصد تو ہے انذار، یعنی لوگوں کو رسول کی دعوت قبول نہ کرنے کے نتائج سے ڈرانا اور غافلوں کو چونکانا اور متنبہ کرنا، رہی اہل ایمان کی تذکیر (یاد دہانی) تو وہ ایک ضمنی فائدہ ہے جو انذر کے سلسلہ میں خود بخود حاصل ہوجاتا ہے۔

جونا گڑھی

یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ ڈرائیں، سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔

  یعنی اس کے بھیجنے سے آپ کا دل تنگ نہ ہو کہ کہیں کافر میری تکذیب (جھٹلائیں) نہ کریں اور مجھے ایذا نہ پہنچائیں اس لئے کہ اللہ سب کا حافظ و ناصر ہے یا حرج شک کے معنی میں ہے۔ یعنی اس کی منزل من اللہ ہونے کے بارے میں آپ اپنے سینے میں شک محسوس نہ کریں۔ یہ نہی بطور تعریف ہے اور اصل مخاطب امت ہے کہ وہ شک نہ کرے۔ 

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ

امین احسن اصلاحی

لوگو، جو چیز تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے ماسوا سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ بہت کم ہی تم لوگ یاددہانی حاصل کرتے ہو!

کفار قریش کو عذاب کی دھمکی: عام طور پر لوگوں نے اس آیت کا مخاطب مسلمانوں کو مانا ہے لیکن سیاق و سباق اور آیت کے الفاظ دلیل ہیں کہ خطاب قریش سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر والی آیت میں تسلی دینے کے بعد اب یہ قریش کو دھمکی دی گئی ہے کہ یہ چیز جو تم پر تمھارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے اس کی پیروی کرو اور خدا کے ماسوا دوسرے معبودوں اور شریکوں کی پیروی نہ کرو، یہ خیالی اولیاء اصنام تمھارے کچھ کام آنے والے نہیں ہیں۔ اس کے بعد بانداز حسرت و افسوس فرمایا کہ ’قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ‘ کہ تم ایسے شامت زدہ لوگ ہو کہ مشکل ہی سے یاددہانی حاصل کرتے ہو۔

جاوید احمد غامدی

(لوگو)، تمھارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تمھاری جانب اتارا گیا ہے، اُس کی پیروی کرو اور اپنے پروردگار کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کے پیچھے نہ چلو۔ (افسوس)، تم کم ہی یاددہانی حاصل کرتے ہو

n/a

ابو الاعلی مودودی

لوگو، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو۔

یہ اس سورة کا مرکزی مضمون ہے۔ اصل دعوت جو اس خطبہ میں دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جس ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض وغایت سمجھنے کے لیے جو علم اسے درکار ہے، اور اپنے اخلاق، تہذیب، معاشرہ اور تمدّن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے، ان سب کے لیے اسے صرف اللہ رب العالمٰین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے اور صرف اسی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اس کی رہنمائی کے حوالے کردینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔

یہاں ” اولیاء “ (سر پرستوں) کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے کہ انسان جس کی رہنمائی پر چلتا ہے اسے درحقیقت اپنا ولی و سرپرست بناتا ہے خواہ زبان سے اس کی حمد و ثنا کے گیت گاتا ہو یا اس پر لعنت کی بوچھاڑ کرتا ہو، خواہ اس کی سر پرستی کا معترف ہو یا بہ شدّت اس سے انکار کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشوریٰ ، حاشیہ ٦)

جونا گڑھی

تم لوگ اس کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی پیروی مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔

 جو اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، یعنی قرآن، اور جو رسول اللہ نے فرمایا یعنی حدیث، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ ' میں قرآن اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہوں۔ ' ان دونوں کی پیروی ضروری ہے ان کے علاوہ کسے کا اتباع (پیروی) ضروری ٰ نہیں بلکہ ان کا انکار لازمی ہے۔ جیسے کہ اگلے فقرے میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی مت کرو۔ جس طرح زمانہء جاہلیت میں سرداروں اور نجومیوں کاہنوں کی بات کو ہی اہمیت دی جاتی تھی حتیٰ کہ حلال اور حرام میں بھی ان کو سند تسلیم کیا جاتا تھا۔ 

وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءَهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ

امین احسن اصلاحی

اور کتنی ہی بستیاں ہوئی ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا تو آیا ان پر ہمارا عذاب رات میں اچانک یا دن دہاڑے جب وہ دوپہر کے آرام میں تھے

’قریہ‘ کا مفہوم: ’قَرْیَۃ‘ کا لفظ قریہ اور اہل قریہ دونوں پر حاوی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے لیے ضمیر میں، اشارات اور فعل وغیرہ استعمال کرتے ہیں، کبھی لفظ کا اعتبار کرتے ہیں، کبھی مفہوم کا۔ یہ اسلوب ہر زبان میں عام ہے۔

’قَآءِلُوْنَ‘ قیلولہ سے ہے۔ ’قیلولہ‘ کے معنی دوپہر منانے کے ہیں، سونا اس کے لوازم میں سے نہیں ہے۔ عرب کا ملک، گرم ملک ہے اس وجہ سے وہاں دوپہر میں لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے اپنے مکانوں، ڈیروں، خیموں اور باغوں میں آرام کریں۔
اہل تاویل کی ایک غلط فہمی: بعض اہل تاویل کو ’فَجَآءَ ھَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْھُمْ قَآءِلُوْنَ‘ کے الفاظ سے یہ خیال ہوا ہے کہ اللہ کا عذاب اس وقت آتا ہے جب لوگ رات میں یا دن میں سوئے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ بات تاریخ کے بھی خلاف ہے اور قرآن کے بیان کے بھی۔ سورۂ انعام میں ہے:

’قُلْ اَرَءَیْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ بَغْتَۃً اَوْ جَھْرَۃً ھَلْ یُھْلَکُ اِلَّاالْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ‘۔(۴۷)
(کہو، بتاؤ اگر تم پر اللہ کا عذاب اچانک چپکے سے یا کھلم کھلا آ دھمکے تو ظالموں کے سوا اور کون ہلاک ہوگا!)

اسی سورۂ اعراف میں معذب قوموں کی سرگزشتیں سنانے کے بعد ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا ہے:

’اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرآی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّھُمْ نَآءِمُوْنَ اَوَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرآی اَنْ یَّاْتِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَ‘۔(۹۷۔۹۸)
(کیا یہ بستیوں والے مامون ہوئے اس بات سے کہ ہمارا عذاب ان پر رات میں آ دھمکے جب وہ سوئے ہوئے ہوں! کیا یہ بستیوں والے مامون رہے کہ ہمارا عذاب ان پر چاشت کے وقت آ دھمکے جب کہ وہ لہو و لعب میں مشغول ہوں)

ہمارے نزدیک ’فَجَآءَ ھَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْھُمْ قَآءِلُوْنَ‘ سے یہ ظاہر کرنا مقصود نہیں ہے کہ خدا کا عذاب اس وقت آیا کرتا ہے جب لوگ سوئے ہوتے ہیں بلکہ یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ خدا کا عذاب شب کی تاریکیوں میں چپ چپاتے بھی آیا اور ڈنکے کی چوٹ دن دہاڑے بھی۔ جس وقت بھی آیا آ گیا، نہ کوئی اس کو روک سکا اور نہ کوئی اس سے اپنے آپ کو بچا سکا۔ صرف وہ لوگ اس سے بچ سکے جن کو اللہ کی امان حاصل ہوئی۔
اصل انذار: یہ وہ انذار ہے جس کا ’لِتُنْذِرَ بِہٖ‘ میں اشارہ ہے۔ قریش کو دھمکی دی گئی ہے کہ کتنی قومیں اور بستیاں ہیں جن پر رات میں یا دن میں جب خدا نے چاہا اپنا عذاب بھیج دیا اور وہ تباہ کر دی گئیں، ان میں سے کوئی بھی خدا کے مقابل میں کھڑی نہ ہوسکی بلکہ ہر قوم نے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کے حوالہ کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے بھی اس چیز کی پیروی نہ کی جو خدا نے تم پر اتاری ہے تو یہی حشر تمھارا بھی ہونا ہے۔ آج اکڑتے ہو لیکن اس وقت سارے کس بل نکل جائیں گے اور تم خود اپنے منہ سے اپنے جرم کا اقرار کرو گے لیکن اس وقت یہ اقرار تمھارے لیے کچھ نافع نہیں ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

(اِس سے پہلے) کتنی ہی بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کر دیا تو ہمارا عذاب اُن پر رات میں اچانک ٹوٹ پڑا یا دن دہاڑے آ گیا، جب وہ آرام کر رہے تھے

مطلب یہ ہے کہ رات کی تاریکیوں میں اور دن دہاڑے، جس وقت خدا نے چاہا، آگیا۔ اُسے نہ کوئی روک سکا اور نہ اپنے آپ کو اُس سے بچانے میں کامیاب ہوا۔

ابو الاعلی مودودی

کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا۔ اُن پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جب وہ آرام کر رہے تھے۔

n/a

جونا گڑھی

اور بہت بستیوں کو ہم نے تباہ کردیا اور ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت پہنچا یا ایسی حالت میں کہ وہ دوپہر کے وقت آرام میں تھے۔

  فَائِلُوْنَ قَیْلُوْلَۃ،ُ سے ہے، جو دوپہر کے وقت استراحت (آرام کرنے) کو کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا عذاب اچانک ایسے وقتوں میں آیا جب وہ آرام و راحت کے لئے بیخبر بستروں میں آسودہ خواب تھے۔ 

فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا إِلَّا أَنْ قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ

امین احسن اصلاحی

تو جب ہمارا عذاب ان پر آیا اس کے سوا وہ کچھ نہ کہہ سکے کہ بلاشبہ ہم ہی ظالم تھے

اصل انذار: یہ وہ انذار ہے جس کا ’لِتُنْذِرَ بِہٖ‘ میں اشارہ ہے۔ قریش کو دھمکی دی گئی ہے کہ کتنی قومیں اور بستیاں ہیں جن پر رات میں یا دن میں جب خدا نے چاہا اپنا عذاب بھیج دیا اور وہ تباہ کر دی گئیں، ان میں سے کوئی بھی خدا کے مقابل میں کھڑی نہ ہوسکی بلکہ ہر قوم نے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے اپنے آپ کو عذاب الٰہی کے حوالہ کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے بھی اس چیز کی پیروی نہ کی جو خدا نے تم پر اتاری ہے تو یہی حشر تمھارا بھی ہونا ہے۔ آج اکڑتے ہو لیکن اس وقت سارے کس بل نکل جائیں گے اور تم خود اپنے منہ سے اپنے جرم کا اقرار کرو گے لیکن اس وقت یہ اقرار تمھارے لیے کچھ نافع نہیں ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

پھر جب ہمارا عذاب اُن پر ٹوٹ پڑا تو اِس کے سوا کچھ کہتے نہ بن پڑا کہ پکار اٹھے :بے شک، ہم ہی ظالم تھے

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور جب ہمارا عذاب اُن پر آ گیا تو ان کی زبان پر اِس کے سوا کوئی صدا نہ تھی کہ واقعی ہم ظالم تھے۔

یعنی تمہاری عبرت کے لیے ان قوموں کی مثالیں موجود ہیں جو خدا کی ہدایت سے منحرف ہو کر انسانوں اور شیطانوں کی رہنمائی پر چلیں اور آخر کار اس قدر بگڑیں کہ زمین پر ان کا وجود ایک ناقابل برداشت لعنت بن گیا اور خدا کے عذاب نے آکر ان کی نجاست سے دنیا کو پاک کردیا۔

آخری فقرے سے مقصد دو باتوں پر متنبہ کرنا ہے۔ ایک یہ کہ تلافی کا وقت گزر جانے کے بعد کسی کا ہوش میں نہ آنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا بےکار ہے۔ سخت نادان ہے وہ شخص اور وہ قوم جو خدا کی دی ہوئی مہلت کو غفلتوں اور سرشاریوں میں ضائع کردے اور داعیانِ حق کی صداؤں کو بہرے کانوں سے سنے جائے اور ہوش میں صرف اس وقت آئے جب اللہ کی گرفت کا مضبوط ہاتھ اس پر پڑچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ افراد کی زندگیوں میں بھی اور اقوام کی زندگیوں میں بھی ایک دو نہیں بیشمار مثالیں تمہارے سامنے گزر چکی ہیں کہ جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہو چکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خدا کی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے، اور ایک مرتبہ پکڑ میں آجانے کے بعد چھٹکارے کی کوئی سبیل اسے نہیں ملتی۔ پھر جب تاریخ کے دوران میں ایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ یہی کچھ ہوچکا ہے تو آخر کیا ضرور ہے کہ انسان اسی غلطی کا بار بار اعادہ کیے چلا جائے اور ہوش میں آنے کے لیے اسی آخری ساعت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ حسرت و اندوہ کے سوا نہیں ہوتا۔

جونا گڑھی

جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منہ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلی واقع ہم ظالم تھے۔

 لیکن عذاب آجانے کے بعد ایسے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا) 40 ۔ غافر :85) جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو اس وقت ان کا ایمان لانا، ان کے لئے نفع مند نہیں ہوا۔ 

فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ

امین احسن اصلاحی

سو، یاد رکھو، ہم ان لوگوں سے پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور خود رسولوں سے بھی ہم استفسار کریں گے

انذار کی تفصیل: ’فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ‘۔ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ کے رسول دو چیزوں سے لوگوں کو ڈراتے ہیں۔ ایک اس عذاب سے جو رسول کی تکذیب کرنے والی قوم پر لازماً آتا ہے۔ دوسرے اس جزا و سزا سے جس سے آخرت میں ہر شخص کو لازماً دوچار ہونا ہے۔ اوپر والی آیت میں پہلی چیز سے ڈرایا ہے۔ اب آگے اس دوسری چیز سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ فرمایا کہ ایک دن آنے والا ہے جب ہم ان امتوں سے بھی پرسش کریں گے جن کی طرف ہم نے اپنے رسول بھیجے اور خود رسولوں سے بھی سوال کریں گے۔

امتوں سے جو پرسش ہونی ہے اس کی تفصیل قرآن میں یوں بیان ہوئی ہے:

کُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْھَا فَوْجٌ سَاَلَھُمْ خَزَنَتُھَآ اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَذِیْرٌ قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَآءَ نَا نَذِیْرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ کَبِیْرٍ ہ وَقَالُوْا لَوْکُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِھِمْ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ (ملک ۸۔۱۱)
’’جب جب ان کی کوئی بھیڑ دوزخ میں جھونکی جائے گی اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے، کیا تمھارے پاس کوئی ہوشیار کرنے والا نہیں آیا تھا؟ وہ کہیں گے، ہاں ہمارے پاس ایک ہوشیار کرنے والا آیا تو تھا پر ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ خدا نے کوئی چیز بھی نہیں اتاری ہے، تم لوگ ایک بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ وہ اعتراف کریں گے کہ اگر ہم سنتے سمجھتے ہوتے تو جہنم میں پڑنے والے نہ بنتے۔ پس وہ اپنے جرم کا اقرار کریں گے تو لعنت ہو ان دوزخیوں پر۔‘‘

رسولوں سے جو سوال ہو گا اس کا حوالہ سورۂ مائدہ میں یوں دیا گیا ہے:

یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ (۱۰۹۔ مائدہ)
’’جس دن اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا پھر پوچھے گا تمھیں کیا جواب ملا؟‘‘

جاوید احمد غامدی

سو یہ ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے پوچھیں جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور خود رسولوں سے بھی پوچھیں (کہ اُنھوں نے ہمارا پیغام پہنچایا تو اُنھیں کیا جواب ملا)

پیچھے اُس عذاب کا ذکرتھا جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد دنیا میں خدا کی دینونت کے ظہور سے آتا ہے۔ اُس سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس طرح وہ آیا تو مجرموں کے پاس اپنے جرم کا اقرار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا، اِسی طرح جزا و سزا کا دن بھی آ کر رہے گا، جب لوگوں سے پرسش ہو گی اور رسولوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ اُن کی دعوت کے جواب میں اُن کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا گیا۔

ابو الاعلی مودودی

پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں، جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں (کہ اُنہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا)

باز پرس سے مراد روز قیامت کی باز پرس ہے۔ بدکار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہے وہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا، اچانک گرفتار کرلیا جائے اور مزید ظلم و فساد کے مواقع اس سے چھین لیے جائیں۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بیشمار نظیروں سے بھر پڑی ہے اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بےمہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے، بلکہ اوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حد خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے۔ پھر اگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے اس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب ان سارے مجرموں پر عدالت قائم ہوگی اور ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اوپر کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے، بعد والی آیت کے ساتھ ” پس “ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، گویا اس دنیوی عذاب کا بار بار واقع ہونا آخرت کی باز پرس سے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کو باز پرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی۔ ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا۔ دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو، ان کے بارے میں تو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمہ کا کیا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے ان کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق و نافرمانی کے لیے کوئی حجّت نہ پیش کرسکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت و ندامت کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے جہنم کی راہ لیں۔

جونا گڑھی

پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ہم پیغمبروں سے بھی ضرور پوچھیں گے۔

 امتوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے ؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں ! یا اللہ تیرے پیغمبر یقینا ہمار پاس آئے تھے لیکن ہماری قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا ؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کیا ؟ پیغمبر سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ 

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ ۖ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ

امین احسن اصلاحی

پھر ہم ان کے سامنے سب بیان کریں گے پورے علم کے ساتھ اور ہم کہیں غائب نہیں رہے ہیں

’فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْھِمْ بِعِلْمٍ وَّمَا کُنَّا غَآءِبِیْنَ‘ مطلب یہ ہے کہ اس دن ہم رسولوں اور ان کی قوموں کو ساری گزری ہوئی روداد، پورے علم و خبر کے ساتھ سنا دیں گے کہ ہمارے رسولوں نے کس طرح حق بلاغ ادا کیا اور ان کی تکذیب کرنے والوں نے کس طرح جان بوجھ کر ان کی تکذیب کی۔ فرمایا کہ ہم ایک لمحہ کے لیے بھی ان حالات و واقعات سے بے تعلق یا بے خبر نہیں رہے ہیں۔ جو کچھ ہوا ہے ہمارے سامنے ہوا ہے۔ یہ واضح رہے کہ یہ سنانا قطع عذر کے لیے ہو گا تاکہ کسی کے لیے بھی لب کشائی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جائے۔

جاوید احمد غامدی

پھر پورے علم کے ساتھ ہم تمام سرگذشت اُنھیں سنا دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے

n/a

ابو الاعلی مودودی

پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے۔

n/a

جونا گڑھی

پھر ہم چونکہ پوری خبر رکھتے ہیں ان کے روبرو بیان کردیں گے اور ہم کچھ بیخبر نہ تھے۔

  چونکہ ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کا علم رکھتے ہیں اس لئے پھر ہم دونوں (امتیوں اور پیغمبروں) کے سامنے ساری باتیں بیان کریں گے اور جو جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا، ان کے سامنے رکھ دیں گے۔ 

وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

امین احسن اصلاحی

اس دن وزن دار صرف حق ہو گا تو جن کے پلڑے بھاری ٹھہریں گے وہی لوگ فلاح پانے والے بنیں گے

میزان قیامت میں وزن دار صرف حق ہو گا: ’وَالْوَزْنُ یَوْمَءِذِنِ الْحَقُّ‘ مطلب یہ ہے کہ اس دن وزن رکھنے والی شے صرف حق ہو گا۔ باطل میں سرے سے کوئی وزن ہی نہیں ہو گا۔ قیامت میں اللہ تعالیٰ جو ترازو نصب فرمائے گا وہ ہر ایک کے اعمال تول کر بتا دے گی کہ اس میں حق کا حصہ کتنا ہے۔ پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے؟ یعنی حق کی مقدار ان کے ساتھ زیادہ ہو گی، وہ فلاح پانے والے بنیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہ خائب و خاسر ہوں گے۔ اعمال کے باوزن اور بے وزن ہونے کے باب میں قرآن نے یہ اصول بھی بیان فرمایا ہے:

’ھَلْ نُنَبِّءُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا ہ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ہ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا‘(۱۰۳۔۱۰۵ کہف)
(ہم تمھیں بتائیں گے کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے کون ہوں گے؟ وہ جن کی ساری سرگرمیاں طلب دنیا میں برباد ہوئیں اور وہ اس خوش گمانی میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں، وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور ملاقات کا انکار کیا تو ان کے اعمال ڈھے گئے، تو ہم قیامت کے دن ان کے لیے کوئی وزن نہیں قائم کریں گے)

اس سے معلوم ہوا کہ میزان قیامت میں وزن دار اعمال وہی ہوں گے جو خدا کی رضا اور آخرت کے لیے انجام دیے جائیں۔ جو اعمال اس وصف سے خالی ہوں گے نہ وہ اعمال حق ہیں، نہ میزان الٰہی میں ان کا کوئی وزن ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

اور وزن کی چیز اُس روز صرف حق ہو گا۔ پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے، وہی فلاح پائیں گے

یعنی باطل کے لیے اُس روز سرے سے کوئی وزن نہیں ہو گا۔ دوسرے مقامات میں یہ صراحت بھی ہے کہ قیامت میں وزن رکھنے والی چیز صرف وہ اعمال ہوں گے جو خدا کے لیے اور آخرت میں اُس کی رضامندی حاصل کرنے کی خواہش اور ارادے کے ساتھ کیے گئے ۔ اُن کے سوا تمام اعمال وہاں بے وزن ہوجائیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

اور وزن اس روز عین حق ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روز خدا کی میزان عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے۔ حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگیا اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ با وزن ہوگا۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہوگا وزن کے لحاظ سے ہوگا، کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور کتنے ہی بظاہر شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں، اس ترازو میں سراسر بےوزن قرار پائے گی۔ باطل پرست جب اس میزان میں تولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ مدّت العمر کرتے رہے وہ سب ایک پرکاہ کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا۔ یہی بات ہے جو سورة کہف آیات ١٠٣ تا ١٠٥ میں فرمائی گئی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتے رہے اور اللہ کی آیات سے انکار کرکے جن لوگوں نے یہ سمجھتے ہوئے کام کی کہ انجام کار کوئی آخرت نہیں ہے اور کسی کو حساب دینا نہیں ہے، ان کے کارنامہ زندگی کو ہم آخرت میں کوئی وزن نہ دیں گے۔

جونا گڑھی

اور اس روز وزن بھی برحق پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہونگے۔

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَـٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ

امین احسن اصلاحی

اور جن کے پلڑے ہلکے ہوئے وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا بوجہ اس کے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار اور اپنے اوپر ظلم کرتے رہے

زبان کا ایک اسلوب: ’وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ ....... بِمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ‘ ہم ایک سے زیادہ مقامات میں زبان کے اس اسلوب کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ جب صلہ اور فعل میں مناسبت نہ ہو تو وہاں تضمین ہوتی ہے یعنی کوئی ایسا فعل وہاں محذوف مانیں گے جو موجود خلا کو بھر سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ لفظ کم استعمال ہو تے ہیں، لیکن معنی میں بہت وسعت ہو جاتی ہے۔ یہاں تضمین کھول دی جائے تو پوری بات یوں ہو گی ’بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِنَا وَیَظْلِمُوْنَ اَنْفُسَھُمْ‘ بوجہ اس کے وہ ہماری آیات کا انکار کرتے اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔

جاوید احمد غامدی

اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے،وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، اِس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے اور اپنے اوپر ظلم ڈھاتے رہے

اصل الفاظ ہیں: ’بِمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ‘۔ اِن میں تضمین ہے، اِس لیے کہ صلے اور فعل میں مناسبت نہیں ہے۔ اِسے کھول دیجیے تو پوری بات اِس طرح ہے: ’بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِنَا وَیَظْلِمُوْنَ أَنْفُسَھُمْ‘۔ اِس کا فائدہ یہ ہے کہ تھوڑے الفاظ نے ایک وسیع مفہوم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے۔

اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ انسان کا کارنامہ زندگی دو پہلوؤں میں تقسیم ہوگا۔ ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو۔ مثبت پہلو میں صرف حق کو جاننا اور ماننا اور حق کی پیروی میں حق ہی کی خاطر کام کرنا شمار ہوگا اور آخرت میں اگر کوئی چیز وزنی اور قیمتی ہوگی تو وہ بس یہی ہوگی۔ بخلاف اس کے حق سے غافل ہو کر یا حق سے منحرف ہو کر انسان جو کچھ بھی اپنی خواہش نفس یا دوسرے انسانوں اور شیطانوں کی پیروی کرتے ہوئے غیر حق کی راہ میں کرتا ہے وہ سب منفی پہلو میں جگہ پائے گا اور صرف یہی نہیں کہ یہ منفی پہلو بجائے خود بےقدر ہوگا یہ آدمی کے مثبت پہلوؤں کی قدر بھی گھٹا دے گا۔

پس آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ اس کے کارنامہ زندگی کا مثبت پہلو اس کے منفی پہلو پر غالب ہو اور نقصانات میں بہت کچھ دے دلا کر بھی اس کے حساب میں کچھ نہ کچھ بچا رہ جائے۔ رہا وہ شخص جس کی زندگی کا منفی پہلو اس کے تمام مثبت پہلوؤں کو دبالے تو اس کا حال بالکل اس دیوالیہ تاجر کا سا ہوگا جس کی ساری پونجی خساروں کا بھگتان بھگتنے اور مطالبات ادا کرنے ہی میں کھپ جائے اور پھر بھی کچھ نہ کچھ مطالبات اس کے ذمہ باقی رہ جائیں۔

جونا گڑھی

اور جس شخص کا پلا ہلکا ہوگا سو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے

 ان آیات میں وزن اعمال کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو قیامت والے دن ہوگا جسے قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اور احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ترازو میں اعمال تولے جائیں گے۔ جس کا نیکیوں کا پلا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا بدیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ ناکام ہوگا۔ یہ اعمال کس طرح تولے جائیں گے جب کہ یہ اعراض ہیں یعنی ان کا ظاہری وجود اور جسم نہیں ہے ؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کو اجسام میں تبدیل فرمادے گا اور ان کا وزن ہوگا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ وہ صحیفے اور رجسٹر تولے جائیں گے۔ جن میں انسان کے اعمال درج ہونگے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ خود صاحب عمل کو تولا جائے گا، تینوں مسلکوں والے کے پاس اپنے مسلک کی حمایت میں صحیح احادیث و آثار موجود ہیں، اس لئے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تینوں ہی باتیں صحیح ہوسکتی ہیں ممکن ہے، کبھی اعمال، کبھی صحیفے اور کبھی صاحب عمل کو تولا جائے (دلائل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) بہرحال میزان اور وزن اعمال کا مسئلہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس کا انکار اس کی تاویل گمراہی ہے۔ اور موجودہ دور میں تو اس کے انکار کی اب مزید کوئی گنجائش نہیں کہ بےوزن چیزیں بھی تولی جانے لگی ہیں۔ 

قریش کو تنبیہ کہ اس ملک میں تمہیں جو اقتدار حاصل ہوا، خدا ہی کا بخشا ہوا ہے View

وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ

امین احسن اصلاحی

اور ہم نے تمھیں اس ملک میں اقتدرا بخشا اور تمھارے لیے معاش کی راہیں کھولیں، پر تم بہت ہی کم شکر گزار ہوتے ہو

’ارض‘ سے مراد سرزمین حرم ہے۔۔۔ قریش کا اختیار و قتدار سرزمین حرم میں: ’تمکین فی الارض‘ سے مراد زمین میں اختیار و اقتدرا بخشنا ہے۔ مثلاً:

’وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ‘(۲۱۔ یوسف)
(اور ہم نے یوسف کو ملک مصر میں اختیار و اقتدار بخشا)

’ارض‘ اگرچہ لفظاً عام ہے لیکن خطاب چونکہ قریش سے ہے اس وجہ سے اس سے مراد یہاں سرزمین حرم ہے جس میں قریش کو اختیار و اقتدار حاصل تھا۔ ’معایش‘ سے اشارہ ان معاشی سہولتوں اور برکتوں کی طرف ہے جو ایک وادی غیر ذی زرع میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا اور بیت اللہ کی برکت سے اہل عرب کو عموماً اور قریش کو خصوصاً حاصل ہوئیں۔ قرآن میں ان برکتوں اور نعمتوں کا جگہ جگہ ذکر ہوا ہے اور ہم تفصیل کے ساتھ بقرہ میں ان کا حوالہ دے چکے ہیں۔ سورہ قصص میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے:

’اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰیٓ اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْءٍ‘(۵۷ ۔ قصص)
(کیا ہم نے ان کو ایک پر امن حرم میں اقتدار نہیں بخشا جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں)

 

’قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ‘ یہ وہ اصل بات ارشاد ہوئی ہے جس کے کہنے ہی کے لیے اوپر والی باتیں بطور تمہید بیان ہوئیں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ کی دعاؤں اور بیت اللہ کے طفیل تمھیں اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں اختیار و اقتدار کی نعمت بھی بخشی اور معاش و معیشت کی نہایت فراخ راہیں بھی کھولیں لیکن تم سخت ناشکرے نکلے کہ تم نے اپنے پروردگار کے بجائے شیطان کی، جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے، پیروی کی اور اس نے جن جن فتنوں میں تم کو مبتلا کرنا چاہا ہے تم ان سب میں مبتلا ہو گئے۔

جاوید احمد غامدی

(لوگو) ، ہم نے اِس سرزمین میں تمھیں اقتدار عطا فرمایا اور تمھارے لیے اِس میں معاش کی راہیں کھول دی ہیں، پر تم کم ہی شکر گزار ہوتے ہو

یعنی سرزمین حرم میں، جہاں قریش کو اختیار و اقتدار حاصل تھا۔ سورہ کے مخاطب چونکہ وہی ہیں، اِس لیے یہاں سے تمہید اٹھائی ہے۔
یہ اُن راہوں کی طرف اشارہ ہے جو ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی دعاؤں اور بیت اللہ کے طفیل اُن کے لیے کھولی گئیں۔

ابو الاعلی مودودی

ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لیے یہاں سامان زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔

n/a

جونا گڑھی

اور بیشک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق پیدا کیا تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔

Page 1 of 21 pages  1 2 3 >  Last ›