زمانہ گواہی دیتا ہے۔
یعنی سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک وہ پورا زمانۂ رسالت گواہی دیتا ہے جس میں رسولوں کی مخاطب قوموں کے لیے خدا کی عدالت زمین پر قائم رہی اور سرکش قوموں کے لیے اُس کے فیصلے اِس دنیا میں صادر ہوئے۔ یہ بات اِس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ تاریخ گواہی دیتی ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو یہ ایک لفظ اُن تمام سرگذشتوں کا عنوان ہے جو قرآن میں اثبات قیامت کے لیے مذکور ہوئی ہیں۔ عاد و ثمود، قوم نوح، قوم لوط، قوم شعیب اور اِس طرح کی دوسری قوموں کی سرگذشت سے قرآن نے جگہ جگہ استدلال کیا ہے۔ یہی استدلال یہاں ایک لفظ میں بیان کر دیا ہے۔ یہ درحقیقت قیامت پر اُس قیامت صغریٰ سے استدلال ہے جو بار بار اِس لیے برپا کی گئی کہ آخرت کے تصور کو اُسی معیار پر ثابت کر دیا جائے جس معیار پر سائنسی حقائق معمل (laboratory) کے تجربات سے ثابت کیے جا تے ہیں۔ انفس و آفاق کے دلائل کے ساتھ اثبات قیامت کے لیے یہ تاریخ کی گواہی ہے۔
زمانے کی قسم۔
n/a
زمانے کی قسم
زمانے سے مراد، شب و روز کی یہ گردش اور ان کا ادل بدل کر آنا ہے، رات آتی ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے اور دن طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز روشن ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں کبھی رات لمبی، دن چھوٹا اور کبھی دن لمبا، رات چھوٹی ہوجاتی ہے یہی مرور ایام، زمانہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور کاریگیر پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لیے رب نے اس کی قسم کھائی ہے۔ یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے لیکن انسانوں کے لیے اللہ کی قسم کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھان جائز نہیں ہے۔
کہ انسان گھاٹے میں ہے۔
اصل بات: یہ وہ اصل بات ہے جس کو ثابت کرنے کے لیے زمانہ کی قسم کھائی گئی ہے۔ جب ایک طرف مہلت حیات کی اہمیت اور قدر و قیمت کا حال یہ ہے کہ اسی کے بدلے میں انسان ابدی بادشاہی حاصل کر سکتا ہے اور اگر اس سے غفلت برتے تو یہ اس کے لیے ابدی لعنت بن جاتی ہے۔ دوسری طرف اس کی تیزروی کا یہ حال ہے کہ ہر سیکنڈ کے ساتھ وہ ماضی کے اندر تحلیل ہوتی جا رہی ہے اور اس پر انسان کو کوئی قابو نہیں تو وہ سارے انسان انتہائی خسارے میں ہوئے جن کا اصل راس المال اس تیزی سے برباد ہو رہا ہے اور وہ اس سے غافل ہوں۔ چنانچہ اس کو شہادت میں پیش کر کے فرمایا کہ انسان گھاٹے میں ہیں بجز ان کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے۔
یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔
لفظ ’اَلْاِنْسَان‘ یہاں عام نہیں ہے۔ اِس کا الف لام عہد کے لیے ہے اور اشارہ اُنھی لوگوں کی طرف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد آپ کے مقابلے میں سرکشی اور تمرد پر اتر آئے تھے۔ خسارے سے مراد دنیا اور آخرت،دونوں کا خسارہ ہے، یعنی دنیا میں بھی عذاب سے دوچار ہوں گے، جس طرح رسولوں کی مخاطب قومیں اِس سے پہلے ہوتی رہی ہیں اور آخرت میں بھی ایک بڑا عذاب اِن کے لیے منتظر ہے۔اِن کی نگاہ دنیا کے مال و جاہ اور دولت و اقتدار پر ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر کی مخالفت کرکے یہ نفع کا سودا کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خدا کے قانون مکافات کی زد میں ہیں جس سے یہ عنقریب دوچار ہوجائیں گے، اِس لیے متنبہ ہو جائیں، اِن کی روش یہی رہی تو لازماً خسارے میں پڑیں گے۔
انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے۔
n/a
بیشک (بالیقین) انسان سراسر نقصان میں ہے
یہ جواب قسم ہے۔ انسان کا خسارہ اور ہلاکت واضح ہے کہ جب تک وہ زندہ رہتا ہے، اس کے شب و روز سخت محنت کرتے ہوئے گزرتے ہیں، پھر جب موت سے ہمکنار ہوتا ہے تو موت کے بعد آرام اور راحت نہیں ہوتی، بلکہ وہ جہنم کا ایندھن بنتا ہے۔
بجز ان کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
اصل بات: یہ وہ اصل بات ہے جس کو ثابت کرنے کے لیے زمانہ کی قسم کھائی گئی ہے۔ جب ایک طرف مہلت حیات کی اہمیت اور قدر و قیمت کا حال یہ ہے کہ اسی کے بدلے میں انسان ابدی بادشاہی حاصل کر سکتا ہے اور اگر اس سے غفلت برتے تو یہ اس کے لیے ابدی لعنت بن جاتی ہے۔ دوسری طرف اس کی تیزروی کا یہ حال ہے کہ ہر سیکنڈ کے ساتھ وہ ماضی کے اندر تحلیل ہوتی جا رہی ہے اور اس پر انسان کو کوئی قابو نہیں تو وہ سارے انسان انتہائی خسارے میں ہوئے جن کا اصل راس المال اس تیزی سے برباد ہو رہا ہے اور وہ اس سے غافل ہوں۔ چنانچہ اس کو شہادت میں پیش کر کے فرمایا کہ انسان گھاٹے میں ہیں بجز ان کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے۔
اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کی ساری قدر و قیمت ایمان اور عمل صالح کے اندر مضمر ہے۔ خالق نے یہ عطا فرمائی ہی اس لیے ہے کہ انسان اس کو شیطان کے علی الرغم اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارے اور اس کے صلہ میں ’رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘ کی سند اور ابدی جنت کا ٹکٹ حاصل کر لے۔ چن دنوں کے امتحان کے بدلے میں ابدی جنت کا انعام جس طرح کوئی معمولی انعام نہیں اسی طرح اس کو شیطان کی ترغیبات کے جال میں پھنس کر کھو بیٹھنا بھی کوئی معمولی محرومی نہیں ہے۔
ایمان کام مفہوم: ایمان کی تعریف اس کتاب میں جگہ جگہ بیان ہو چکی ہے۔ مختصر الفاظ میں یوں سمجھیے کہ خدا کو اس کی تمام صفات اور ان کے لازمی مقتضیات کے ساتھ پورے صدق دل سے تسلیم کرنا ایمان ہے۔ استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں ایمان کا مفہوم ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
’’ایمان کی اصل ’امن‘ ہے۔ یہ لفظ لغت میں مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ’اٰمَنَہٗ‘ ’ای اعطاہ امنًا‘ (اس کو امن دیا) قرآن میں ہے:
’وَاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ‘ (قریش ۱۰۶: ۴)
(اور ان کو خوف سے امان دی)۔
’اٰمَنَ لَہٗ‘ صدقہ و اعتمد علیہ (اس کی تصدیق کی، اس پر اعتماد کیا) ’اٰمَنَ بِہٖ‘ ایقن بہ (اس کا یقین کیا)‘‘
’’قرآن مجید میں یہ لفظ مذکورہ تمام صورتوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے مشتقات میں سے لفظ ’مُؤْمِنٌ‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں آنے والے بندوں کو پناہ دیتا ہے۔‘‘
’’یہ ایک قدیم دینی اصطلاح بھی ہے ۔۔۔ پس وہ یقین جو خشیت، توکل اور اعتقاد کے تمام لوازم و شرائط کے ساتھ پایا جائے، ایمان ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر، اس کی آیات پر، اس کے احکام پر ایمان لائے، اپنے آپ کو اس کے حوالہ کر دے، اس کے فیصلوں پر راضی رہے وہ مومن ہے۔‘‘
عمل صالح: ایمان کے بعد عمل صالح کی حیثیت اس کے لازمی مقتضیٰ کی ہے۔ جب حقیقی ایمان پیدا ہو گا تو وہ لازماً زندگی کے باطنی گوشوں کی طرح اس کے ظاہری اعمال کو بھی منور کرے گا۔ اگر ایمان سے اس کے تقاضوں کے مطابق عمل نہ پیدا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان نے دل میں جڑ نہیں پکڑی۔ ایمان اور عمل میں مطابقت اور ہم آہنگی ہونا لازمی ہے۔ امام فراہی اپنی تفسیر میں اس نکتہ کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:
’’قرآن مجید میں ایمان کے بعد عمل صالح کا جو ذکر آتا ہے وہ درحقیقت ایک طرح کی تفصیل و توضیح ہوتی ہے ۔۔۔ اسی طرح اطاعت رسول کو اطاعت اللہ پر جو عطف کیا جاتا ہے یہ بھی عطف تفصیل ہوتا ہے ۔۔۔ اس تفصیل کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ بعض اہم الفاظ کے بعض پہلو مخفی رہ جاتے ہیں۔ ایمان کے معاملہ میں اس توضیح کی ضرورت بالکل ظاہر ہے۔ ایمان کا محل دل اور عقل ہے۔ عقل اور دل کے معاملات میں انسان نہ صرف دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے بلکہ بسا اوقات خود بھی دھوکے میں رہتا ہے۔ وہ اپنے کو مومن سمجھتا ہے حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ایمان کے دو شاہد قرار دیے گئے۔ ایک قول اور دوسرا عمل۔ قول بھی چونکہ جھوٹ ہو سکتا ہے اس وجہ سے صرف زبان سے اقرار کرنے والا مومن نہیں قرار دیا گیا بلکہ ضروری ہوا کہ آدمی کا عمل اس کے ایمان کی تصدیق کرے۔۱ چنانچہ فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا. (النسآء ۴: ۱۳۶)
اے وہ لوگو جو زبان سے ایمان لائے ہو، عمل سے ایمان لاؤ۔‘‘
اعمال حسنہ کو صالحات سے تعبیر کرنے کی حکمت: اعمال حسنہ کو ’صالحات‘ سے تعبیر کرنے کی حکمت امام فراہی نے ان الفاظ میں واضح فرمائی ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے اعمال حسنہ کو صالحات سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے اس عظیم حکمت کی طرف رہنمائی ہوتی ہے کہ انسان کی تمام ظاہری و باطنی، دینی و دنیوی، شخصی و اجتماعی، جسمانی و عقلی صلاح و ترقی کا ذریعہ اعمال صالحہ ہی ہیں۔ یعنی عمل صالح وہ عمل ہوا جو انسان کے لیے زندگی اور نشوونما کا سبب بن سکے اور جس کے ذریعہ سے انسان ترقی کے ان اعلیٰ مدارج تک پہنچ سکے جو اس کی فطرت کے اندر ودیعت ہیں۔‘‘
آگے چل کر اس نکتہ کی مزید وضاحت انھوں نے یوں فرمائی ہے:
’’اس نکتہ کو دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کائنات کی مجموعی مشین کا ایک پرزہ ہے۔ اس وجہ سے اس کے اعمال میں سے صالح صرف وہی ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی اس حکمت و تدبیر کے موافق ہوں جو اس نے اس مجموعی نظام کے لیے پسند فرمائی ہے۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے بازیچۂ اطفال نہیں بنایا ہے، بلکہ ایک خاص نظام حکمت ہے جو اس پورے کارخانہ میں جاری ہے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس کائنات کے اندر جو کچھ ہو اسی نظام حکمت کے تحت ہو، اس سے الگ ہو کر نہ ہو۔‘‘
انسان پر اس کے معاشرہ کا حق: ’وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘۔ اوپر والے ٹکڑے میں جو بات ارشاد ہوئی ہے اس کا تعلق اصلاً انسان کی انفرادی زندگی سے ہے لیکن انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتا بلکہ وہ فطرتاً معاشرتی مزاج رکھنے والی مخلوق ہے اور جہاں بھی پایا جاتا ہے کسی خاندان کے رکن اور معاشرہ کے ایک فرد کی حیثیت سے ہی پایا جاتا ہے۔ اگر اس نے اس کے خلاف کوئی اور روش زندگی کی اختیار کی ہے تو اپنے فطری مزاج کے تقاضے سے نہیں بلکہ کسی غیر فطری انحراف کے باعث اختیار کی ہے۔ خاندان اور معاشرہ کے ساتھ اس کا تعلق فطری ہے۔ وہ جس طرح اپنی مادی زندگی کی تعمیر و ترقی میں ان سے سہارا حاصل کرتا ہے اسی طرح اپنے اخلاقی و روحانی ارتقا میں بھی ان سے رہنمائی پاتا ہے۔ یہیں سے اس پر خاندان اور معاشرہ کا یہ حق قائم ہو جاتا ہے کہ وہ ان کی صلاح و فلاح کے فرض سے غافل نہ رہے ورنہ یہ چیز اس کی فتوت کے خلاف ہو گی۔ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ ایمان و عمل کی صراط مستقیم سے آشنا ہوں وہ دوسروں کو بھی اس حق کی تلقین کریں جس کی راہ ان پر ایمان و عمل صالح کی زندگی نے کھولی ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو صبر و عزیمت کی بھی تلقین کریں اس لیے کہ صبر و عزیمت کے بغیر نہ حق کو اختیار کرنا اوراس پر قائم رہنا آسان ہے اور نہ اس کی دعوت دینا کوئی سہل بازی ہے۔
ایک دقیق نکتہ: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ بات یوں نہیں فرمائی کہ ’وہ ایمان اور عمل صالح کی دعوت دیتے ہیں‘ بلکہ یوں فرمائی کہ ’وہ حق اور صبر کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں‘۔ اس اسلوب نے وہ باتیں بھی اپنے اندر سمیٹ لی ہیں جو پہلے ٹکڑے میں ہیں اور ان کے اوپر مزید نہایت اہم اضافے بھی کر دیے ہیں۔ لفظ ’حق‘ کے اندر ایمان بدرجۂ اولیٰ داخل ہے اس لیے کہ وہ خدا کا حق اور سب سے بڑا حق ہے۔ اسی طرح اعمال حسنہ کا تعلق بھی یا تو خدا کے حقوق سے ہے یا بندوں کے حقوق سے اس وجہ سے وہ بھی اس میں داخل ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ وہ یہ ساری باتیں حقوق اور فرائض کی طرح ادا بھی کرتے ہیں، دوسروں کو اس کی تلقین بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ حکمت بھی لوگوں کو بتاتے ہیں کہ حقوق کو ادا کرنا کوئی سہل بازی نہیں ہے، اس کے لیے صبر و عزیمت ضروری ہے۔ جن کے اندر یہ وصف نہیں ہو گا ان کے لیے حقوق کا ادا کرنا نہایت مشکل ہے۔
حق کا مفہوم: ’حق‘ کی وضاحت امام فراہی نے اپنی تفسیر میں یوں فرمائی ہے:
’’ ’حق‘ اصل میں کہتے تو ہیں موجود و قائم کو لیکن استعمال میں اس کے معنی مختلف ہو گئے ہیں۔ کم از کم تین معنوں میں تو اس کا استعمال معروف ہے:
۱۔ وہ بات جس کا واقع ہونا قطعی ہو۔
۲۔ وہ بات جو عقل کے نزدیک مسلم ہو۔
۳۔ وہ بات جو اخلاقاً فرض ہو۔‘‘
ان تینوں معنوں کی تائید میں قرآن سے دلائل نقل کرنے کے بعد مولانا فراہی فرماتے ہیں:
’’باقی رہا اس کا خاص مفہوم یعنی غریبوں اور کمزوروں کی ہمدردی تو وہ اسی عام معنی سے نکلا ہوا ہے۔ گویا اہل عرب کے نزدیک سب سے بڑا حق یہی ہے جو ہر صاحب استطاعت پر لازم ہے اور جو ہر مستحق کو حاصل ہونا چاہیے جو عقل کے نزدیک مسلم اور تمام اچھے لوگوں کے نزدیک بالکل متعین و معروف ہے۔ اسی سبب سے احسان کو معروف کہتے ہیں یعنی ایک چیز جو ہر شخص کے نزدیک جانی پہچانی ہوتی ہے اور تمام معقول لوگوں کے اندر مسلم قانون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق کے معنی اگر غریبوں کی ہمدردی کے لیے جائیں تو اس کے اندر ان تمام معانی کی جھلک موجود ہے جو اوپر مذکور ہوئے۔‘‘
صبر کی تحقیق: ’صبر‘ کی تحقیق کے ذیل میں مولانا فراہی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’لیکن یاد رکھنا چاہیے عربوں کے نزدیک صبر کوئی عجز و تذلل کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے جو بے بسوں اور درماندوں کا شیوہ ہے بلکہ ان کے نزدیک یہی تمام قوت و استقامت کی بنیاد ہے۔ کلام عرب میں یہ لفظ بہت استعمال ہوا ہے اور اس کے تمام استعمالات سے اسی حقیقت کی تائید ہوتی ہے۔ حاتم طائی کہتا ہے:
وغمرۃ موت لیس فیھا ھوادۃ
یکون صدور المشرنی جسورھا
(موت و ہلاکت کے کتنے ہولناک دریا جن پر تلواروں کے پل تھے)
صبرنا لہ فی نھکھا ومصابھا
باسیا فتا حتّٰی یبوخ سعیرھا
(ہم نے ان کی تمام آفات کے مقابلہ میں اپنی تلواروں کے ساتھ ثابت قدمی دکھائی یہاں تک کہ وہ ٹھنڈے پڑ گئے)۔‘‘
بعض دوسرے مشہور شاعروں کے کلام سے نظائر پیش کرنے کے بعد مولانا فراہی نے ’صبر‘ کا مفہوم خود قرآن سے ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے:
’’ ’صبر‘ کا اصل مفہوم قرآن نے خود کھول دیا:
وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ. (البقرہ ۲: ۱۷۷)
اور صبر کرنے والے سختی میں، تکلیف میں اور لڑائی کے وقت۔‘‘
’’اس آیت میں صبر کے تین موقعے ذکر ہوئے ہیں: غربت، بیماری اور جنگ۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ تمام مصائب و شدائد کے سرچشمے یہی تین ہیں جو ان تینوں امتحانوں میں ثابت قدم رہتے ہیں وہ صابر ہیں۔‘‘
حق و صبر کے باہمی تعلق کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا فراہی فرماتے ہیں:
’’خلاصہ ان تفصیلات کا یہ ہے کہ ’حق‘ تمام بھلائیوں کے دروازے کھولتا ہے اور ’صبر‘ تمام برائیوں کے دروازے بند کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’حق‘ اصل محبوب و مطلوب ہے اور ’صبر‘ اس کے لیے جوش طلب اور سرگرمی ہے۔‘‘
’’اہل بصیرت سے یہ راز مخفی نہیں ہے کہ سعادت کے حاصل ہو جانے کے بعد اصلی چیز اس پر جمے رہنا ہے۔ اب غور کرو، دو لفظوں ۔۔۔ حق اور صبر۔۔۔ کے اندر تمام سعادتیں اور بھلائیاں کس خوبی و اختصار کے ساتھ جمع ہو گئی ہیں۔ اور ان دونوں کے درمیان کس قدر گہرا اور وسیع تعلق ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہاں درحقیقت ایک ہی جڑ سے کئی شاخیں نکلی ہیں۔ ایمان ایک اصل اور مرکز کی حیثیت سے ہے۔ اس کے بعد عمل صالح کا ذکر اس کی تفصیل کی حیثیت سے آیا۔ اسی طرح حق چونکہ دل و دماغ دونوں کو محبوب ہے اور اسی پر ان دونوں کے عروج و کمال کا انحصار ہے اس وجہ سے اس کی محبت کے نتیجہ کے طور پر صبر کا بیان ہوا۔ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کے لیے آدمی کے اندر ثابت قدمی اور استقامت پیدا ہو۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ ثابت قدمی اور استقامت محبوب کی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو شے جس قدر محبوب ہو گی اس کے لیے اسی قدر پامردی و استقلال کا جوش ابلے گا۔ مدافعت، غضب اور غیرت کے جذبات کا ظہور ہر شے کے لیے یکساں نہیں ہوتا بلکہ مختلف درجہ کا ہوتا ہے۔ دل کو جو شے جس قدر عزیز ہوتی ہے اس کے لیے اسی درجہ کا جذبۂ غیرت و حمیت بھڑکتا ہے۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ کے غضب اور انتقام کی بنیاد بھی یہی ہے کہ اس کو حق عزیز و محبوب ہے اس وجہ سے جو لوگ اس کو پامال کرتے ہیں ان پر اس کا قہر و غضب بھڑکتا ہے۔ جو شے تم کو عزیز و محبوب ہو گی کیا تم اس کی تحقیر و اہانت چپ چاپ برداشت کر لو گے؟ اس کی حمایت کے لیے تمہاری غیرت ضرور جوش میں آئے گی۔ ماں اپنے بچہ سے محبت کرتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ یہ محبت تنہا نہیں ہوتی بلکہ اپنے ساتھ ایک مجنونانہ غیرت بھی رکھتی ہے اور جب وقت آتا ہے ماں کو بچہ کی مدافعت میں قربان کر دیتی ہے۔ یہی جوش غیرت و حمایت قوموں میں اپنے قومی حقوق و مطالبات کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مسکین کبوتری بھی اپنے انڈوں اور بچوں کے لیے اپنے اندر محبت کا جذبہ اور غیرت کا جوش رکھتی ہے۔ اگر تم اس کے انڈوں اور بچوں کو اس سے چھیننا چاہو گے تو وہ اپنے کمزور پروں سے ضرور تم کو دفع کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر درحقیقت محبت حق سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘
ایک اور نازک سوال کا جواب: اب اس سوال پر غور کیجیے کہ ’ایمان و عمل صالح‘ اور ’تواصی بالحق والصبر‘ میں باہمدگر کیا تعلق ہے؟ استاذ امام فراہی اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں:
’’ ’وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر حق اور صبر کی صفات موجود ہیں اور یہ ان پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ان کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ مضمون آیت کے اندر مضمر ہے اور اس کی تصریح نہیں کی گئی ہے۔ اس کی وجہ اول تو یہ ہے کہ ’اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘ کے اندر یہ بات موجود تھی۔ ثانیاً وعظ بے عمل کی برائی اس قدر واضح ہے کہ اس مدح کے محل میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ لوگ دوسروں کو حق و صبر کی نصیحت کریں گے اور خود ان اوصاف سے محروم ہوں گے۔‘‘
’’اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح ایمان سے عمل صالح وجود میں آیا اسی طرح ’عمل صالح‘ سے ’تواصی‘ وجود میں آیا۔ جس شخص کی نگاہوں میں ’حق‘ محبوب ہو جائے گا اور وہ اس کی خاطر صبر و استقامت کی کڑیاں بھی جھیلنے پر آمادہ ہو گا اس کے بارے میں لازماً اس کا علم، اس کی محبت اور اس کی غیرت بڑھ جائے گی۔ وہ صرف یہی نہیں چاہے گا کہ خود ہی اس سے محبت کرے بلکہ یہ بھی چاہے گا کہ ساری دنیا اس سے محبت کرے اور وہ جہاں کہیں بھی حق کو مظلوم و مقہور اور باطل کو غالب و فتح مند دیکھے گا، تڑپ اٹھے گا اور ایک غیور و اولوالعزم انسان کی طرح دوسروں کو بھی ابھارے گا کہ وہ حق کی حمایت کے لیے کمربستہ ہوں۔ اس کا دوسروں کو یہ ابھارنا بھی خود اس کے اپنے ہی جذبۂ حمیت حق کا ایک قدرتی نتیجہ اور اسی کا ایک حصہ ہے۔ پس یہاں ’تواصی‘ کا ذکر ’عمل صالح‘ کے ایک جزو اور اس کی توضیح کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔‘‘
_____
۱ یہ امر واضح رہے کہ یہاں زیر بحث حقیقی ایمان ہے، فقہی اور قانونی ایمان پر بحث نہیں ہے۔ جو لوگ فقہی اور قانونی ایمان کی نوعیت سمجھنا چاہتے ہوں وہ اس بحث کو اس کے محل میں دیکھیں۔ مولانا فراہی نے اس کے بعض اہم پہلوؤں کی طرف تفسیر سورۂ عصر میں اشارے کیے ہیں اور ہم نے بھی اس کتاب میں بعض جگہ اس کے بعض پہلو واضح کیے ہیں۔
ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور (حق پر) ثابت قدمی کی نصیحت کی۔
اِس سے آگے دو ٹوک طریقے سے بتا دیا ہے کہ خسارے سے بچنے کا طریقہ کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اگرچہ یہ طریقہ صرف چند لفظوں میں بتایا گیا ہے، لیکن ایسے جامع اور حکیمانہ اسلوب میں بتایا گیا ہے کہ انسان تدبر کرے تو اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ اُس کی انفرادی اور اجتماعی، دونوں زندگیوں سے متعلق اُس پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں جو اُسے ادا کرنے ہیں اور جن کے ادا کرنے ہی پر اُس کی ابدی فلاح کا انحصار ہے۔
غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ قرآن کا بھی اصل مقصد اِسی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنا اور انسان کی شخصی و اجتماعی زندگی کو آخرت کے نصب العین کے تحت منظم کرنا ہے۔ گویا جو بات قرآن کی ایک سوچودہ سورتوں میں سمجھائی گئی ہے، وہ اِس سورہ کی تین آیتوں میں سمو دی گئی ہے۔ اِسی حقیقت کی طرف حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں اشارہ فرمایا ہے کہ’’ اگر لوگ تنہا اِسی سورہ ۔۔۔ العصر ۔۔۔ پر غور کریں تو اُن کے لیے کفایت کرے۔*‘‘‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۵۳۰)
ایمان ایک قدیم دینی اصطلاح ہے۔ ’اٰمن‘ کا مادہ عبرانی زبان میں بھی موجود ہے اور صدق و اعتماد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اِسی سے ’اٰمین‘ کا کلمہ ہے جس سے ہم کسی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ تعبیر اِسی مفہوم میں آئی ہے۔ چنانچہ جب کسی چیز کو دل کے پورے یقین کے ساتھ تسلیم کر لیا جائے تو اُسے ایمان کہا جاتا ہے۔ اِس کی اصل خداپر ایمان ہے۔ انسان اگر اپنے پروردگار کو اِس طرح مان لے کہ تسلیم و رضا کے بالکل آخری درجے میں اپنے دل و دماغ کو اُس کے حوالے کر دے تو قرآن کی اصطلاح میں وہ مومن ہے۔
ایمان کی یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر قرآن تقاضا کرتا ہے کہ دل کی تصدیق کے ساتھ انسان کے قول و عمل کو بھی اُس پر گواہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہر نیکی کو وہ ایمان کا خاصہ اور ایمان والوں کا لازمی وصف بتاتا ہے۔ ایمان کے بعد عمل صالح کا ذکر گویا ایک طرح کی وضاحت ہے۔ اِس کی نوعیت بالکل وہی ہے جو عام پر خاص کے عطف کی ہوتی ہے۔ امام حمید الدین فراہی لکھتے ہیں:
’’...ایمان کامحل دل اور عقل ہے اور عقل و دل کے معاملات میں انسان نہ صرف دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، بلکہ بسا اوقات خود بھی دھوکے میں رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ مومن ہے، حالاں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔ اِس وجہ سے ایمان کے دو شاہد قرار دیے گئے: ایک قول، دوسرے عمل۔ اور چونکہ قول بھی جھوٹ ہو سکتا ہے، اِس وجہ سے صرف زبان سے اقرار کرنے والا مومن نہیں قرار دیا گیا، بلکہ ضروری ہوا کہ آدمی کا عمل اُس کے ایمان کی تصدیق کرے۔‘‘(نظام القرآن ۳۹۶)
اِس میں شبہ نہیں کہ قانون کی نگاہ میں ہر وہ شخص مومن ہے جو زبان سے اسلام کا اقرار کرتا ہے۔ اُس کا یہ ایمان کم یا زیادہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن جہاں تک حقیقی ایمان کا تعلق ہے، وہ ہرگز کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ اللہ کے ذکر، اُس کی آیتوں کی تلاوت اور انفس و آفاق میں اُن کے ظہور سے اُس میں افزونی ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اُسے ایک ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین کے اعماق میں اتری ہوئی اور شاخیں آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہوں۔**
یہی معاملہ ایمان میں کمی کا ہے۔ انسان اگر اپنے ایمان کو علم نافع اور عمل صالح سے برابر بڑھاتے رہنے کے بجاے اُس کے تقاضوں کے خلاف عمل کرنا شروع کر دے تو یہ کم بھی ہو تا ہے، بلکہ بعض حالات میں بالکل ختم ہو جاتا ہے۔’ھُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِیْمَانِ‘*** (اُس دن وہ ایمان سے زیادہ کفر کے قریب تھے) اور اِس طرح کی دوسری آیات سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
چنانچہ ایمان اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے، اِسی طرح عمل کے ساتھ ایمان بھی ضروری ہے۔ نجات کے لیے قرآن نے ہر جگہ اِسے شرط اولین قرار دیا ہے۔ سورۂ نور میں ایمان کی دولت سے محروم لوگوں کے اعمال کی مثال کسی چٹیل صحرا کے سراب سے دی گئی ہے جس کی حقیقت فریب نظر سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پیاسا پانی سمجھ کر اُس کی طرف لپکتا ہے، مگر جب اُس کے قریب پہنچتا ہے تو راز کھلتا ہے کہ جس چیز کو وہ لہریں لیتا ہوا دریا سمجھ رہا تھا، وہ درحقیقت چمکتی ہوئی ریت تھی۔****
یہ ایمان درج ذیل پانچ چیزوں سے عبارت ہے:
۱۔ اللہ پر ایمان
۲۔ فرشتوں پر ایمان
۳۔ نبیوں پر ایمان
۴۔کتابوں پر ایمان
۵۔ روز جزا پر ایمان
اِس سے مراد قرآن کی اصطلاح میں ہر وہ عمل ہے جو خدا کی اُس حکمت کے موافق ہو جس پر کائنات کی تخلیق ہوئی ، اورجس کے مطابق اُس کی تدبیر امور کی جاتی ہے۔ اِس کی تمام اساسات عقل و فطرت میں ثابت ہیں اور خدا کی شریعت اِسی عمل کی طرف انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہے۔
یہ دعوت و تبلیغ کی وہ ذمہ داری ہے جو قرآن نے اپنے ہر ماننے والے پر عائد کی ہے۔ اِس لیے کہ انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتا، وہ جہاں بھی پایا جاتا ہے کسی خاندان کے رکن اور معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے پایا جاتا ہے۔ اُس کی یہ حیثیت بالکل فطری ہے۔ وہ اپنی مادی زندگی کے لیے بھی خاندان اورمعاشرے کا محتاج ہے اور اپنے اخلاقی اور روحانی ارتقا کے لیے بھی اُنھی کا سہارا حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ اِسی بنا پر پابند کیا گیا ہے کہ اپنے گردوپیش کی صلاح و فلاح سے غافل نہ رہے۔
اِس کا ذکر یہاں عمل صالح کے ایک جزو اور اُس کی توضیح کے طور پر ہوا ہے، اِس لیے کہ حق کے ساتھ انسان کی محبت کا یہ لازمی تقاضا ہے۔ وہ جس چیز کو محبوب رکھتا ہے، پوری شدت سے چاہتا ہے کہ دوسرے بھی اُس کو اِسی طرح محبوب رکھیں۔
یہ ذکر جس طریقے سے ہوا ہے، اُس سے واضح ہے کہ یہ ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے۔ بندۂ مومن نیک عمل کرے اور ایمان کا یہ تقاضا بھی پورا کر دے تو اِن آیتوں میں ضمانت دی گئی ہے کہ قیامت میں خسارے سے محفوظ رہے گا اور جنت کی ابدی بادشاہی اُسے حاصل ہو جائے گی۔
آیت میں ’حَقّ‘ اور ’صَبْر‘ کے الفاظ بھی قابل توجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’اُنھوں نے نیک عمل کی تلقین کی‘، بلکہ یہ فرمایا کہ ’حق اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین کی‘۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...اِس اسلوب نے وہ باتیں بھی اپنے اندر سمیٹ لی ہیں جو (اِس سے) پہلے ٹکڑے میں ہیں اور اُن کے اوپر مزید نہایت اہم اضافے بھی کر دیے ہیں۔ لفظ ’حَقّ‘ کے اندر ایمان بدرجۂ اولیٰ داخل ہے، اِس لیے کہ وہ خدا کا حق ہے اور سب سے بڑا حق ہے۔ اِسی طرح اعمال حسنہ کا تعلق بھی یا تو خدا کے حقوق سے ہے یا بندوں کے حقوق سے، اِس وجہ سے وہ بھی اِس میں داخل ہیں۔اِس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ و
سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
اس سورة میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں۔ (1) ایمان (2) عمل صالح (3) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا (4) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔ اب اس کے ایک ایک جز کو الگ لے کر اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشاد کا پورا مطلب واضح ہوجائے۔
جہاں تک قسم کا تعلق ہے اس سے پہلے بارہا ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم اس کی عظمت یا اس کے کمالات و عجائب کی بنا پر نہیں کھائی ہے، بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے جسے ثابت کرنا مقصود ہے۔ پس زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جن میں یہ چار صفتیں پائی جاتی ہوں۔
زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی جس میں حال درحقیقت کسی لمبی مدت کا نام نہیں ہے۔ ہر آن گزر کر ماضی بنتی چلی جارہی ہے، اور ہر آن آکر مستقبل کو حال اور جاکر حال کو ماضی بنا رہی ہے۔ یہاں چونکہ مطلقا زمانے کی قسم کھائی گئی ہے، اس لیے دونوں طرح کے زمانے اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا۔ حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت بڑی مقدار ہے۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے، اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں خواہ وہ ابھی تک ہمارے علم میں نہ آئی ہوں۔ تاہم اگر وقت کے گزرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے، اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں، سب کچھ اس محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں کام کرنے کے لیے دی گئی ہے، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی سے گزر رہا ہے۔ امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ ” میں نے سورة عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے، رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے، اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے والْعَصْرِ ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ۔ کا مطلب۔ عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے۔ اس کو اگر ضائع کیا جائے، یا غلط کاموں میں صرف کر ڈالا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے “۔ پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورة میں کہی گئی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہو کر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر کو صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں۔ نفع میں صرف وہ لوگ ہیں جو ان چاروں صفات سے متصف ہو کر دنیا میں کام کریں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم اس طالب علم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں گزار رہا ہو، کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کے کہیں کہ یہ گزرتا ہوا وقت بتا رہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کررہا ہے۔
انسان کا لفظ اگرچہ واح ہے، لیکن بعد کے فقرے میں اس سے ان لوگوں کو مستثنی کیا گیا ہے جو چار صفات سے متصف ہوں، اس لیے لا محالہ یہ مانا پڑے گا کہ یہاں لفظ انسان اسم جنس کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کا اطلاق افراد، گروہوں، اقوام، اور پوری نوع انسانی پر یکساں ہوتا ہے۔ پس یہ حکم کہ مذکورہ چار صفات سے جو بھی خالی ہو وہ خسارے میں ہے، ہر حالت میں ثابت ہوگا، خواہ ان سے خالی کوئی شخص ہو، یا کوئی قوم، یا دنیا بھر کے انسان۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم اگر یہ حکم لگائیں کہ زہر انسان کے لیے مہلک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زہر بہرحال مہلک ہے خواہ ایک فرد اس کو کھائے، یا ایک پوری قوم، یا ساری دنیا کے انسان مل کر اسے کھا جائیں۔ زہر کی مہلک خاصیت اپنی جگہ اٹل ہے، اس میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص نے اس کو کھایا ہے، یا ایک قوم نے اسے کھانے کا فیصلہ کیا ہے، یا دنیا بھر کے انسانوں کا اجماع اس پر ہوگیا ہے کہ زہر کھانا چاہیے۔ ٹھیک اسی طرح یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ چار مذکورہ بالا صفات سے خالی ہونا انسان کے لیے خسارے کا موجب ہے۔ اس قاعدہ کلیہ میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ایک شخص ان سے خالی ہو، یا کسی قوم نے، یا دنیا بھر کے انسانوں نے کفر، بد عملی، اور ایک دوسرے کو باطل کی ترغیب دینے اور بندگی نفس کی تلقین کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔
اب یہ دیکھیے کہ خسارے کا لفظ قرآن مجید کس معنی میں استعمال کرتا ہے۔ لغت کے اعتبار سے خسارہ نفع کی ضد ہے، اور تجارت میں اس لفظ کا استعمال اس حالت میں بھی ہوتا ہے جب کسی ایک سودے میں گھاٹا آئے اور اس حالت میں بھی جب سارا کاروبار گھاٹے میں جارہا ہو، اور اس حالت میں بھی جب اپنا سارا سرمایہ کھو کر آدمی دیوالیہ ہوجائے۔ قرآن مجید اسی لفظ کو اپنی خاص اصطلاح بنا کر فلاح کے مقابلے میں استعمال کرتا ہے، اور جس طرح اس کا تصور فلاح محض دنیوی خوشحالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی کامیابی پر حاوی ہے، اسی طرح اس کا تصور خسران بھی محض دنیوی ناکامی یا خستہ حالی کا ہم معنی نہیں ہے بلکہ دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کی حقیقی ناکامی و نامرادی پر حاوی ہے۔ فلاح اور خسران دونوں کے قرآنی تصور کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر کرچکے ہیں اس لیے ان کے اعادے کی حاجت نہیں ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف حاشیہ 9 ۔ الانفال حاشیہ 30 ۔ یونس حاشیہ 23 ۔ بنی اسرائیل حاشیہ 102 ۔ جلد سوم، الحج حاشیہ 17 ۔ المومنون حواشی، 1 ۔ 2 ۔ 11 ۔ 50 ۔ جلد چہارم، لقمان حاشیہ 4 ۔ الزمر حاشیہ 34) اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ قرآن کہ نزدیک حقیقی فلاح آخرت میں انسان کی کامیابی، اور حقیقی خسارہ وہاں اس کی ناکامی ہے، لیکن اس دنیا میں بھی جس چیز کا نام لوگوں نے فلاح رکھ چھوڑا ہے وہ دراصل فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا انجام خود اسی دنیا میں خسارہ ہے، اور جس چیز کو لوگ خسارہ سمجھتے ہیں وہ دراصل خسارہ نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہی فلاح کا ذریعہ ہے۔ اس حقیقیت کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور ہر جگہ ہم نے اس کی تشریح کردی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل حاشیہ 99 ۔ جلد سوم، مریم حاشیہ 53 ۔ طہ حاشیہ 105 ۔ جلد ششم، اللیل، حواشی 3 ۔ 5) پس جب قرآن پورے زور اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہے کہ ” درحقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے ” تو اس کا مطلب دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے، اور جب وہ کہتا ہے کہ اس خسارے سے صرف وہ لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر حسب ذیل چار صفات پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب دونوں جہانوں میں خسارے سے بچنا اور فلاح پانا ہے۔
اب ہمیں ان چاروں صفات کو دیکھنا چاہیے جن کے پائے جانے پر اس سورة کی رو سے انسان کا خسارے سے محفوظ رہنا موقوف ہے۔
ان میں پہلی صفت ایمان ہے۔ یہ لفظ اگرچہ بعض مقامات پر قرآن مجید میں محض زبانی اقرار ایمان کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ (مثلا النساء، آیت 137 ۔ المائدہ، آیت 54 ۔ الانفال، آیت 20 ۔ 27 ۔ التوبہ آیت 38 ۔ الصف آیت 2 میں) لیکن اس کا اصل استعمال سچے دل سے ماننے اور یقین کرنے کے معنی ہی میں کیا گیا ہے، اور عربی زبان میں بھی اس لفظ کے یہی معنی ہیں۔ لغت میں امن لہ کے معنی ہیں صدقہ واعتمد علیہ (اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا) اور امن بہ کے معنی ہیں ایقن بہ (اس پر یقین کیا) قرآن دراصل جس ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیتا ہے، اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا (الحجرات۔ 15) ” مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے “۔
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا (حم السجدہ۔ فصلت۔ آیت 30) ” جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے “۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ (الانفال 2) ” جائے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں “۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ (البقرہ، 165) ” اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں “۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا (النساء، 65) ” پس نہیں (اے نبی) تمہارے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔
ان میں بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرار ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار :
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ (النساء، آیت 136) ” اے لوگ جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر “۔
اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے، تو قرآن مجید میں پوری طرح اس بات کو بھی کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ اس سے مراد اولا اللہ کو ماننا ہے۔ محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے، خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے، وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت، بندگی اور اطاعت بجا لائے۔ وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے، بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔ وہی حکم دینے اور منع کرنے والا ہے۔ بندے کا فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک جائے۔ وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے، اس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار، وہ مقصد اور نیت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے کوئی فعل کیا ہے۔ ثانیا رسول کو ماننا، اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مامور کیا ہوا ھادی اور رہنما ہے، اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، برحق ہے، اور واجب التسلیم ہے۔ اسی ایمان بالرسالت میں ملائکہ، انبیاء اور کتب الہیہ پر، اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے، کیونکہ یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں۔ ثالثا آخرت کو ماننا، اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے، بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ہے، اپنے ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی اس زندگی میں کیے ہیں، خدا کو حساب دینا ہے، اور اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزاء، اور جو بد قرار پائیں ان کو سزا ملنی ہے۔ یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہوسکتی ہے۔ ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو، اس کا حال ایک بےلنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا۔
ایمان کے بعد دوسری صفت جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ صالحات (نیک کاموں) پر عمل کرنا ہے۔ صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے جس سے نیکی اور بھلائی کو کوئی قسم چھوٹی نہیں رہ جاتی۔ لیکن قرآن کی رو سے کوئی عمل بھی اس وقت تک عمل صالح نہیں ہوسکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان موجود نہ ہو، اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہر جگہ عمل صالح سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سورة میں بھی اس کا ذکر ایمان کے بعد ہی آیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی قرآن میں ایمان کے بغیر کسی عمل کو صالح نہیں کہا گیا ہے اور نہ عمل بلا ایمان پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعوی ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کردیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے۔ جب تک بیج زمین میں نہ ہو، کوئی درخت پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہورہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا۔ اسی بنا پر قرآن پاک میں جتنی بشارتیں بھی دی گئی ہیں انہی لوگوں کو دی گئی ہیں جو ایمان لاکر عمل صالح کریں، اور یہی بات اس سورة میں بھی کہی گئی ہے کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے جو دوسری صفت ضروری ہے وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل کرنا ہے۔ بالفاظ دیگر عمل صالح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا۔
مذکورہ بالا دو صفتیں تو وہ ہیں جو ایک ایک فرد میں ہونی چاہیں۔ اس کے بعد یہ سورة دو مزید صفتیں بیان کرتی ہے جو خسارے سے بچنے کے لیے ضروری ہیں، اور وہ یہ ہیں کہ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں رہنا چاہیے بلکہ ان کے اجتماع سے ایک مومن و صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے۔ دوسرے اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی یہ ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کو بگڑنے نہ دے، اس لیے اس کے تمام افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں۔
حق کا لفظ باطل کی ضد ہے اور بالعموم یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک صحیح اور سچی اور مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات، خواہ وہ عقیدہ ایمان سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا کے معاملات سے۔ دوسرے وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو، خواہ وہ خدا کا حق ہو یا بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا حق۔ پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کا یہ معاشرہ ایسا بےحس نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام کیے جارہے ہوں، مگر لوگ خاموشی کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتے رہیں، بلکہ اس معاشرے میں یہ روح جاری و ساری رہے کہ جب اور جہاں بھی باطل سر اٹھائے کلمہ حق کہنے والے اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں، اور معاشرے کا ہر فرد صرف خود ہی حق پرستی اور راستبازی اور عدل و انصاف پر قائم رہنے اور حق داروں کے حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی نصیحت کرے۔ یہ وہ چیز ہے جو معاشرے کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچانے کی ضامن ہے۔ اگر یہ روح کسی معاشرے میں موجود نہ رہے تو وہ خسران سے نہیں بچ سکتا اور اس خسران میں وہ لوگ بھی آخر کار مبتلا ہو کر رہتے ہیں جو اپنی جگہ حق پر قائم ہوں مگر اپنے معاشرے میں حق کو پامال ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں۔ یہی بات ہے جو سورة مائدہ میں فرمائی گئی ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی کہ ان کے معاشرے میں گناہوں اور زیادتیوں کا ارتکاب عام ہو رہا تھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا (آیات، 78 ۔ 79) پھر اسی بات کو سورة اعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب کھلم کھلا سبت کے احکام کی خلاف ورزی کر کے مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں تو ان پر عذاب نازل کردیا گیا اور اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچائے گئے جو اس گناہ سے روکنے کی کوشش کرتے تھے (آیات، 163 تا 166) اور اسی بات کو سورة انفال میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو (آیت 25) اسی لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت مسلمہ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے (آل عمران۔ 104) اور اس امت کو بہترین امت کہا گیا ہے جو یہ فریضہ انجام دے (آل عمران 110)
حق کی نصیحت کے ساتھ دوسری چیز جو اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے بچانے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاشرہ کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔ یعنی حق کی پیروی اور اس کی حمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں، اور اس راہ میں جن تکالیف سے، جن مشقتوں سے، جن مصائب سے اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہیں۔ ان کا ہر فرد دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے کہ وہ ان حالات کو صبر کے ساتھ برداشت کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد ششم، الدھر، حاشیہ 16 ۔ البلد حاشیہ 14)
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
ہاں اس خسارے سے وہ لوگ محفوط ہیں جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں، کیونکہ ان کی زندگی چاہے جیسی بھی گزری ہو، موت کے بعد وہ بہر حال ابدی نعمتوں اور جنت کی پر آسائش زندگی سے بہرہ ور ہوں گے۔ آگے اہل ایمان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے۔
یعنی اللہ کی شریعت کی پابندی اور محرمات ومعاصی سے اجتناب کی تلقین۔
یعنی مصائب و آلام پر صبر، احکام و فرائض شریعت پر عمل کرنے میں صبر، معاصی سے اجتناب پر صبر، لذات و خواہشات کی قربانی پر صبر، صبر بھی اگرچہ تواصی بالحق میں شامل ہے، تاہم اسے خصوصیت سے الگ ذکر کیا گیا، جس سے اس کا شرف و فضل اور خصال حق میں اس کا ممتاز ہونا واضح ہے۔
امین احسن اصلاحی
زمانہ شاہد ہے۔
لفظ ’عصر‘ کی تحقیق: ’و‘ قسم کے لیے ہے اور ’عَصْرٌ‘ کے معنی زمانہ کے ہیں۔ استاذ امام مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس لفظ کی جو تحقیق اپنی تفسیر سورۂ عصر میں بیان فرمائی ہے اس کا خلاصہ ہم اپنے لفظوں میں پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’’عصر‘ کے معنی زمانہ کے ہیں۔ جس طرح ’دَھْرٌ‘ میں زمانہ کی مجموعیت کا اعتبار ہے اسی طرح لفظ ’عَصْرٌ‘ میں اس کے گزرنے اور اس کی تیزروی کی طرف اشارہ ہے چنانچہ اس کا غالب استعمال گزرے ہوئے زمانہ ہی پر ہوتا ہے۔ امرؤ القیس کا مصرعہ ہے:
وھل ینعمن من کان فی العصر الخالی
(اور اب ان کے لیے کیا مبارکی ہے جو گزرے ہوئے زمانوں میں ہوئے)
عبید بن الابرص نے کہا ہے:
فذاک عصر وقد ارانی
یحملنی بازل شبوب
(وہ بھی زمانہ تھا جب میں اپنے کو دیکھتا کہ ایک جوان اور خوبصورت اونٹنی پر سوار ہوں)‘‘
کلام عرب کی روشنی میں لفظ کی تحقیق بیان کرنے کے بعد مولانا خلاصۂ بحث پیش کرتے ہیں:
’’اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ’عَصْرٌ‘ ایک طرف زمانۂ گزشتہ کے احوال و واقعات یاد دلا رہا ہے دوسری طرف اس کی مخصوص صفت تیز روی اور برق رفتاری کی طرف بھی متوجہ کر رہا ہے۔ ان دونوں حقیقتوں کی طرف اشارہ سے ہمارے سامنے دو اہم نتائج آتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے ان کے اعمال کے اعتبار سے نافذ ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ ہم کو زمانہ سے جس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی تیز روی اور برق رفتاری ہے، زیادہ سے زیادہ مستعدی سے فائدہ اٹھا لینا چاہیے۔‘‘
اب اس سوال پر غور کیجیے کہ زمانہ کی قسم یہاں کیوں کھائی گئی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم سے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے تاریخ کے ان واقعات کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس دنیا میں قانون مجازات کے ظہور کے پیش آئے اور جو قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفوں میں بیان ہوئے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کو اس سے جھنجھوڑا ہے کہ لوگ اپنی زندگیاں غفلت میں نہ گزاریں بلکہ پوری مستعدی سے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ انہی تیز رو لمحات کے بدلے وہ ابدی بادشاہی حاصل کر سکتے ہیں اگر انھوں نے ان کی صحیح قدر پہچانی اور اگر ان کی قدر نہ پہچانی تویاد رکھیں کہ یہ ان کے لیے ابدی لعنت بن جائیں گے۔
مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کی وضاحت اپنی تفسیر میں یوں فرمائی ہے:
’’پچھلی قوموں پر اللہ تعالیٰ کے جو فیصلے نافذ ہوئے وہ ٹھیک ٹھیک ان کے اعمال کا بدلہ تھے۔ انھوں نے نیکیاں اور بھلائیاں کیں تو خدا نے ان کو عروج بخشا اور اگر انھوں نے ظلم و فساد کی راہ اختیار کی تو قانون الٰہی نے، اتمام حجت کے بقدر مہلت دینے کے بعد ان کو تباہ و برباد کر دیا۔ اسی حقیقت کی یاددہانی کے لیے یہاں زمانہ کی قسم کھائی کہ لوگ یاد رکھیں کہ ایک دن اس قانون مکافات سے لازماً انھیں بھی دوچار ہونا ہے۔‘‘
’’علاوہ ازیں اس قسم میں ایک اور نازک نکتہ بھی مضمر ہے۔ وہ یہ کہ انسان کا اصل راس المال زمانہ ہی ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ تیزروی اور برق رفتاری میں کوئی چیز بھی اس سے بڑھ کر نہیں ہے۔ پھر یہ انسان کی کیسی نادانی ہے کہ وہ زمانہ کی اس بے وفائی سے واقف ہونے کے باوجود اس پر بھروسہ کرتا اور زندگی کی بے ثباتی، قیامت کی بازپرس اور جزائے عمل کے قانون سے غافل رہتا ہے۔‘‘
اس حقیقت کو مولانا مثال سے یوں سمجھاتے ہیں:
’’اس معاملے میں انسان کی مثال بالکل اس تاجر کی ہے جو برف کی تجارت کرتا ہے، لیکن بجائے اس کے کہ جلد سے جلد اس کو بیچ کر اپنے دام کھرے کرنے کی فکر کرے اس کو اس نے رکھ چھوڑا اور اس کی چمک اور ٹھنڈک کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ناعاقبت اندیش تاجر کو بہت جلد اپنی غفلت پر کف افسوس ملنا پڑے گا۔‘‘
اسی سلسلہ میں ایک اور نکتہ کی طرف مولانا ان لفظوں میں اشارہ فرماتے ہیں:
’’علاوہ بریں زمانہ کی تیزروی میں ایک پہلو بشارت اور تقویت صبر کا بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ اس تھوڑی سی مدت میں اگر انسان چاہے تو اجر و ثواب کا ایک لازوال خزانہ جمع کر سکتا ہے۔ ایک بدبخت انسان اس حیات فانی کی چند روزہ لذتوں پر ریجھ کر اپنے کو ابدی مسرت و کامیابی سے محروم کر لیتا ہے لیکن ایک عاقل اسی فانی زندگی کے چند دنوں کے اندر، جن کی حقیقت ایک خواب اور برق خاطف سے زیادہ نہیں، تقویٰ اور ضبط نفس کی آزمائش جھیل کر ۔۔۔ خدا کی خوشنودی اور اس کی محبت کا ابدی تخت و تاج حاصل کر لیتا ہے۔‘‘