لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ

امین احسن اصلاحی

نہیں! میں قسم کھاتا ہوں اس سرزمین کی

قسم سے پہلے ’لَا‘ کا محل استعمال: یہاں ’لَا‘ اسی طرح آیا ہے جس طرح ’لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘ (القیامہ ۷۵: ۱) اور بعض دوسرے مقامات میں آیا ہے۔ اس کی وضاحت ہو چکی ہے۔ یہ قسم سے پہلے مخاطب کے اس خیال باطل کی تردید کے لیے ہے جس کا سابق سورہ میں حوالہ ہے۔ سابق سورہ میں یہ بات گزر چکی ہے کہ لوگوں کو جب مال و جاہ کی نعمت ملتی ہے تو اس کو اپنی تدبیر و تدبر کا کرشمہ سمجھ بیٹھتے اور اتراتے ہیں کہ وہ خدا کی نظروں میں بلند مرتبہ ہیں اس وجہ سے اس نے دوسروں کے مقابل میں ان کو یہ سرفرازی بخشی ہے۔ اس خیال باطل کی تردید سابق سورہ میں ایک دوسرے پہلو سے ہوئی ہے۔ اس سورہ میں اس کی تردید ایک اور پہلو سے آ رہی ہے جس کا آغاز قسم سے ہوا ہے اور اس قسم سے پہلے ’لَا‘ ان کے زعم باطل کی تردید کے لیے ہے۔ گویا ان لوگوں کا یہ خیال اس قدر بے بنیاد اور لغو ہے کہ اس کی تردید میں اتنے توقف کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ دلیل بیان کر لینے کے بعد اس کی نفی کی جائے۔ یہ اسلوب کلام ہر زبان میں پایا جاتا اور اس موقع پر اختیار کیا جاتا ہے جب مقصود و مخاطب کے خیال کی لغویت کا اظہار ہو۔

اصل دعویٰ جس پر قسم کھائی گئی ہے: قسم یہاں بطور شہادت اصل دعوے کی تائید میں کھائی گئی ہے جو آگے ’لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنۡسَانَ فِیْ کَبَدٍ‘ (۴) کے الفاظ میں مذکور ہے۔
’بِہٰذَا الْبَلَدِ‘ سے مراد سرزمین مکہ ہے۔ سورۂ تین میں بھی اس کی قسم ’وَہَذَا الْبَلَدِ الْأَمِیْنِ‘ (التین ۹۵: ۳) کے الفاظ سے کھائی گئی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری قسموں کی طرح یہ قسم بھی، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، سرزمین حرم کے تقدس کے پہلو سے نہیں بلکہ اس دعوے پر دلیل کے پہلو سے کھائی گئی ہے جو آگے مذکور ہے۔

جاوید احمد غامدی

نہیں، (یہ ہمیشہ اِس طرح نہیں تھے)۔ میں اِس شہر کو گواہی میں پیش کرتا ہوں

سورہ کے شروع میں ’لَا‘ ایک پوری بات کی تردید کے لیے آیا ہے جس پر بعد کا مضمون خود دلالت کر رہا ہے۔ ہم نے اِسے کھول دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اِسی مال و منال اور حشمت وجاہ کے ساتھ اِس وادی غیر ذی زرع میں نہیں آئے تھے جو آج اِنھیں حاصل ہو گیا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے فرزند اسمٰعیل علیہ السلام کو یہاں آباد کیا تو یہ ایک بالکل بنجر، بے آب و گیاہ اور امن و سلامتی سے محروم علاقہ تھا۔ جس فراخیِ رزق و رفاہیت کے ساتھ آج یہ رہ رہے ہیں، یہ ہمیشہ سے نہیں تھی۔ یہ اِسی گھر کے طفیل اِنھیں حاصل ہوئی ہے، لیکن ایسے برخود غلط ہیں کہ اب اِسے اپنا استحقاق سمجھ رہے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی

اس سے پہلے ہم سورة قیامہ میں حاشیہ نمبر 1 میں اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ کلام کا آغاز ” نہیں ” سے کرنا اور پھر قسم کھا کر آگے بات شروع کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ لوگ کوئی غلط بات کہہ رہے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ نہیں، بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو، بلکہ میں فلاں فلاں چیزوں کی قسم کھاتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ بات کیا تھی جس کی تردید میں یہ کلام نازل ہوا، تو اس پر بعد کا مضمون خود دلالت کر رہا ہے۔ کفار مکہ یہ کہتے تھے کہ ہم جس طرز زندگی پر چل رہے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، دنیا کی زندگی بس یہی کچھ ہے کہ کھاؤ پیو، مزے اڑاؤ، اور جب وقت آئے تو مر جاؤ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواہ مخواہ ہمارے اس طرز زندگی کو غلط ٹھیرا رہے ہیں اور ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ اس پر کبھی ہم سے باز پرس ہوگی اور ہمیں جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا۔

یعنی شہر مکہ کی۔ اس مقام پر یہ بات کھولنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس شہر کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے۔ اہل مکہ اپنے شہر کا پس منظر خود جانتے تھے کہ کس طرح ایک بےآب وگیاہ وادی میں سنسان پہاڑوں کے درمیان حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو یہاں لا کر بےسہارا چھوڑا، کس طرح یہاں ایک گھر بنا کر ایسی حالت میں حج کی منادی کی جب کہ دور دور تک کوئی اس منادی کا سننے والا نہ تھا، اور پھر کس طرح یہ شہر آخر کار تمام عرب کا مرکز بنا اور ایسا حرم قرار پایا کہ صدہا برس تک عرب کی سرزمین بےآئین میں اس کے سوا امن کا کوئی مقام نہ تھا۔

جونا گڑھی

میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں

 اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے جس میں اس وقت، جب سورت کا نزول ہوا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جائے پیدائش بھی یہی شہر تھا۔ یعنی اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مولد و مسکن کی قسم کھائی، جس سے اس کی عظمت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ 
وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ

امین احسن اصلاحی

اور تم اسی سرزمین میں مقیم ہو

ایک برمحل جملہ معترضہ: یہ جملہ قسم کے بیچ میں، بطور جملہ معترضہ، قسم کی تائید و تصویب کے طور پر ہے۔ ضمیر خطاب کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہو سکتے ہیں اور قریش بھی۔ دونوں ہی صورتوں میں اصل مدعا کے اعتبار سے کچھ زیادہ فرق نہیں ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کسی ایسے دوردراز علاقے کی شہادت نہیں پیش کی جا رہی ہے جس کے حالات کا اندازہ کرنے اور جس کی تاریخ کا علم حاصل کرنے کے لیے کوئی زحمت سفر اٹھانی پڑے بلکہ تم یہاں مقیم اور اس کے ماضی و حاضر سے اچھی طرح باخبر ہو۔ یہ تمہارا مامن و مستقر اور تمہارا محبوب وطن ہے۔ اس کی تاریخ تمہاری اپنی ہی تاریخ ہے۔ اس کے گرم و سرد اور خشک و تر دونوں سے تم گزرے ہوئے ہو۔ اچھی طرح اندازہ کر سکتے ہو کہ جو بات کہی جا رہی ہے وہ حرف حرف حق ہے یا اس میں کوئی مبالغہ یا آورد ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اے پیغمبر) ۔۔۔ اور (یہ تمھارے لیے اجنبی نہیں)، تم اِسی شہر میں رہتے ہو

یعنی یہ کسی دور درازعلاقے کی شہادت نہیں ہے، بلکہ تمھارے اپنے ہی شہرکی حکایت ہے جس سے تم اچھی طرح واقف ہو۔ اِس کی تاریخ تمھاری اپنی تاریخ ہے۔ یہ تمھارے لیے کوئی اجنبی جگہ نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور حال یہ ہے کہ ﴿اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ﴾ اس شہر میں تم کو حلال کرلیا گیا ہے ،

اصل الفاظ ہیں ” أَنْتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ” اسکے تین معنی مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اس شہر میں مقیم ہیں اور آپ کے مقیم ہونے سے اس کی عظمت میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ یہ شہر حرم ہے مگر ایک وقت آئے گا جب کچھ دیر کے لیے یہاں جنگ کرنا اور دشمنان دین کو قتل کرنا آپ کے لیے حلال ہوجائے گا۔ تیسرے یہ کہ اس شہر میں جنگل کے جانوروں تک کو مارنا اور درختوں تک کو کاٹنا اہل عرب کے نزدیک حرام ہے اور ہر ایک کو یہاں امن میسر ہے، لیکن حال یہ ہوگیا ہے کہ اے نبی، تمہیں یہاں کوئی امن نصیب نہیں تمہیں ستانا اور تمہارے قتل کی تدبیریں کرنا حلال کرلیا گیا ہے۔ اگرچہ الفاظ میں تینوں معنوں کی گنجائش ہے، لیکن جب ہم آگے کے مضمون پر غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پہلے دو معنی اس سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے اور تیسرا مفہوم ہی اس سے میل کھاتا ہے۔

جونا گڑھی

اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں

 یہ اشارہ ہے اس وقت کی طرف جب مکہ فتح ہوا، اس وقت اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس شہر حرام میں قتال کو حلال فرما دیا تھا جب کہ اس میں لڑائی کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حدیث میں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شہر کو اللہ نے اس وقت سے حرمت والا بنایا ہے، جب سے اس نے آسمان و زمین پیدا کئے۔ پس یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک حرام ہے، نہ اس کا درخت کاٹا جائے نہ اس کے کانٹے اکھیڑے جائیں، میرے لئے اسے صرف دن کی ایک ساعت کے لئے حلال کیا گیا تھا اور آج اس کی حرمت پھر اسی طرح لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ اگر کوئی یہاں قتال کے لئے دلیل میری لڑائی کو پیش کرے تو اس سے کہو کہ اللہ کے رسول کو تو اس کی اجازت اللہ نے دی تھی جب کہ تمہیں یہ اجازت اس نے نہیں دی (صحیح بخاری) 

وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ

امین احسن اصلاحی

اور باپ اور اس کی ذریت کی

حضرت ابراہیم اور ان کی ذریت کی شہادت: جملہ معترضہ کے بعد یہ ٹکڑا قسم سے متعلق اور اس کی تکمیل ہے۔ سرزمین مکہ کی قسم کے بعد اس میں بسنے والے باپ اور اس کی ذریت کی قسم ہے۔ ’وَالِدٍ‘ سے مراد ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام اور ’وَمَا وَلَدَ‘ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذریت ہے جو سرزمین مکہ میں آباد ہوئی اور پھر تمام عرب میں پھیلی۔ لفظ ’وَالِدٍ‘ کی تنکیر تفخیم شان کے لیے بھی ہو سکتی ہے اور اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی مراد لیے جا سکتے ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی۔ اسی طرح ’وَمَا وَلَدَ‘ میں جو تعمیم ہے وہ تمام بنی اسماعیل پر حاوی ہے، خواہ ان کا تعلق بنی اسماعیل کی کسی شاخ سے بھی ہو۔

جاوید احمد غامدی

اور باپ اور اُس کی اولاد کو بھی (جن سے یہ شہر آباد ہوا)

یعنی ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی ذریت۔ لفظ ’وَالِدٍ‘ کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور قسم کھاتا ہوں باپ کی اور اس اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی ،

چونکہ مطلقاً باپ اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور آگے انسان کا ذکر کیا گیا ہے، اس لیے باپ سے مراد آدم (علیہ السلام) ہی ہو سکتے ہیں۔ اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو دنیا میں پائے گئے ہیں، اب پائے جاتے ہیں اور آئندہ پائے جائیں گے۔

جونا گڑھی

اور (قسم ہے) انسانی باپ اور اولاد کی

 بعض نے اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد لی ہے اور بعض کے نزدیک یہ عام ہے، ہر باپ اور اس کی اولاد اس میں شامل ہے۔ 

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ

امین احسن اصلاحی

کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا

سرزمین مکہ کی پچھلی تاریخ کی طرف اشارہ: ’کَبَد‘ کے معنی مشقت اور شدت کے ہیں۔ لفظ ’اِنْسَان‘ اگرچہ عام ہے اور اس کے عام ہونے کے کئی فائدے ہیں لیکن یہاں اس عام سے مراد خاص طور پر قرآن کے اولین مخاطب بنی اسماعیل بالخصوص قریش ہیں۔ سرزمین حرم میں ان کے بزرگ اجداد کی آمد اور سکونت اور ان کی ذریت کی ابتدائی تاریخ کا حوالہ دے کر قریش کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ آج اس سرزمین میں تم کو جو فراخئ رزق و رفاہیت حاصل ہے یہ نہ سمجھو کہ یہی حال ہمیشہ سے رہا ہے یا یہ حالت تمہاری ذہانت و قابلیت کی بدولت ہوئی ہے۔ جس زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بسایا ہے اس وقت یہ علاقہ ایک بالکل بنجر، بے آب و گیاہ اور غیر مامون علاقہ تھا۔ یہاں کے لوگوں کی زندگی خانہ بدوشانہ اور نہایت مشقت کی زندگی تھی۔ معاش کا انحصار گلہ بانی پر تھا اور ہر شخص اپنی زندگی اور اپنے گلے کی حفاظت کا ذمہ دار خود تھا۔ لوگوں کی حفاظت کے لیے کوئی نظام عدل اور قانون موجود نہیں تھا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہاں بسایا تو ان کے اور ان کی اولاد کے لیے یہ دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس وادئ غیر ذی زرع میں ان کو رزق و فضل سے بھی بہرہ مند فرمائے اور امن سے بھی متمتع رکھے۔ یہ اسی دعا کی برکت ہے کہ رزق کے دروازے بھی کھلے اور بیت اللہ کی تولیت اور اشہرحرم کی امن بخشی کی بدولت سفر اور تجارت کی راہیں بھی فراخ ہوئیں جس سے ان کی معاشی حالت مشقت کی جگہ رفاہیت و خوش حالی میں تبدیل ہو گئی یہاں تک کہ آج تم اس کے غرور میں نہ خدا کو خاطر میں لا رہے ہو نہ اس کے رسول کو بلکہ یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یہ جو کچھ تمہیں حاصل ہے یہ تمہارا پیدائشی حق ہے، تم اس میں ہر قسم کے تصرف کے مجاز ہو، کسی کی طاقت نہیں ہے کہ تمہارے اس عیش اور اس آزادی میں خلل انداز ہو سکے۔

قریش کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے قرآن نے جگہ جگہ حرم کی اس تاریخ کی یاددہانی کر کے ان کو متنبہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اللہ کی بخشی ہوئی نعمت پا کر طغیان میں مبتلا ہو گئے تو یاد رکھیں کہ وہ خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے۔ سورۂ ابراہیم میں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ أَن نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ ۵ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَإِنَّہُ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَإِنَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیْمٌ ۵ رَّبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلاَۃَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْْہِمْ وَارْزُقْہُمۡ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوۡنَ (ابراہیم ۱۴: ۳۵-۳۷)
’’اور جب کہ دعا کی ابراہیم نے اے میرے رب! اس سرزمین کو پرامن سرزمین بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو بچا کہ ہم بتوں کی پرستش کی چھوت سے آلودہ ہوں۔ اے میرے رب! ان بتوں نے تو لوگوں کے اندر سے ایک خلقِ کثیر کو گمراہ کر رکھا ہے۔ تو جو میری پیروی کرے وہ تو مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو مغفرت فرمانے اور رحم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو ایک بِن کھیتی کی زمین میں بسایا ہے، تیرے محترم گھر کے پاس، اے رب! اس لیے کہ یہ نماز کا اہتمام کریں تو لوگوں کے دل ان کی طرف تو مائل کر دے اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرما کہ یہ شکرگزاری کریں۔‘‘

ان آیات پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو ان سے مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئیں گے:
قریش کو چند حقائق کی یاددہانی:
۔۔۔ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک غیرآباد اور بنجر علاقے میں جو بسایا تو اس لیے کہ اس کو مشرکانہ ماحول سے دور اور محفوظ رکھے۔
۔۔۔ اس علاقہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر فرمائی تاکہ ان کی ذریت اس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مرکز بنائے اور ساتھ ہی یہ دعا بھی فرمائی کہ اس مرکز اور ان کی ذریت کو خلق کی مرجعیت حاصل ہو۔
۔۔۔ یہ علاقہ اس وقت زمینی پیداوار اور امن سے بالکل محروم علاقہ تھا۔ اس وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے باشندوں کے لیے روزی کی فراخی کی بھی دعا فرمائی اور علاقہ کے لیے امن کی بھی۔
مقصود اس تفصیل سے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ آج قریش کو جو مال و جاہ اور جو سطوت و اقتدار بھی حاصل ہے اس میں نہ ان کی ذاتی سعی و تدبیر کو کوئی دخل ہے اور نہ ان کے خاندانی استحقاق کو بلکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور بیت اللہ کی برکت ہے جس سے وہ بہرہ مند ہو رہے ہیں اور یہ برکت ان کے لیے غیر مشروط نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی، بیت اللہ کے مقصد کی تکمیل اور ان کے اندر مبعوث ہونے والے رسول پر ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔؂۱ اگر وہ ان شرطوں کے پابند رہیں گے تو ان کو یہ عزت و سرفرازی حاصل رہے گی ورنہ یہ سب چھن جائے گی۔
اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے قریش سے سورۂ قریش میں مطالبہ فرمایا ہے کہ اگر بیت اللہ کی برکتوں سے وہ بہرہ مند رہنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ اس گھر کے خداوند کی عبادت کریں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اس گھر پر قابض اور اس کی برکتوں کے حق دار بنے رہیں۔ فرمایا ہے:

لِإِیْلَافِ قُرَیْْشٍ ۵ إِیْلَافِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَاء وَالصَّیْْفِ ۵ فَلْیَعْبُدُوا رَبَّ ہَذَا الْبَیْْتِ ۵ الَّذِیْ أَطْعَمَہُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَہُم مِّنْ خَوْفٍ (القریش ۱۰۶: ۱-۴)
’’بوجہ اس کے کہ قریش کو الفت بخشی گئی جاڑے اور گرمی کے سفر کی تو ان کو چاہیے کہ اس گھر کے خداوند کی عبادت کریں جس نے قحط میں کھلایا اور خطرے سے نچنت کیا۔‘‘

_____
؂۱ بعض دوسری آیات سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے امامت و سیادت کا جو وعدہ فرمایا تھا وہ مشروط بشرائط تھا۔ وہ لوگ اس سے مستثنیٰ کر دیے گئے تھے جو ان کے طریقہ کو چھوڑ بیٹھیں۔

جاوید احمد غامدی

کہ ہم نے انسان کو (اِس وادی میں) پیدا کیا تو (اُ س وقت) وہ یقیناً بڑی مشقت میں تھا

یہ اُس زمانے کی طرف اشارہ ہے ، جب اسمٰعیل علیہ السلام اور اُن کی اولاد اِس بنجر اور بے آب و گیاہ علاقے میں آباد ہوئی۔ سورۂ ابراہیم (۱۴) کی آیات ۳۵۔۳۷ اور سورۂ قریش (۱۰۶) میں یہی مضمون اِس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔

ابو الاعلی مودودی

درحقیقت ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے ۔

یہ ہے وہ بات جس پر وہ قسمیں کھائی گئی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔ انسان کے مشقت میں پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں مزے کرنے اور چین کی بنسری بجانے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے لیے یہ دنیا محنت اور مشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اس حالت سے گزرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ شہر مکہ گواہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے اپنی جان کھپائی تھی تب یہ بسا اور عرب کا مرکز بنا۔ اس شہر مکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت گواہ ہے کہ وہ ایک مقصد کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں، حتی کہ یہاں جنگل کے جانوروں کے لیے امان ہے مگر ان کے لیے نہیں ہے۔ اور ہر انسان کی زندگی ماں کے پیٹ میں نطفہ قرار پانے سے لے کر موت کے آخری سانس تک اس بات پر گواہ ہے کہ اس کو قدم قدم پر تکلیف، مشقت، محنت، خطرات اور شدائد کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کو تم بڑی سے بڑی قابل رشک حالت میں دیکھتے ہو وہ بھی جب ماں کے پیٹ میں تھا تو ہر وقت اس خطرے میں مبتلا تھا کہ اندر ہی مرجائے یا اس کا اسقاط ہوجائے۔ زچگی کے وقت اس کی موت اور زندگی کے درمیان بال بھر سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ پیدا ہوا تو اتنا بےبس کہ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوتا تو پڑے پڑے ہی سسک سسک کر مر جاتا۔ چلنے کے قابل ہوا تو قدم قدم پر گرا پڑتا تھا بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک ایسے ایسے جسمانی تغیرات سے اس کو گزرنا پڑا کہ کوئی تغیر بھی اگر غلط سمت میں ہوجاتا تو اس کی جان کے لالے پڑجاتے۔ وہ اگر بادشاہ یا ڈکٹیٹر بھی ہے تو کسی وقت اس اندیشے سے اس کو چین نصیب نہیں ہے کہ کہیں اس کے خلاف سازش سے کوئی بغاوت نہ کر بیٹھے۔ وہ اگر اپنے وقت کا قارون بھی ہے تو اس فکر میں ہر وقت غلطاں و پیچاں ہے کہ اپنی دولت کیسے بڑھائے اور کس طرح اس کی حفاظت کرے۔ غرض کوئی شخص بھی بےغل و غش چین کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہے، کیونکہ انسان پیدا ہی مشقت میں کیا گیا ہے۔

جونا گڑھی

یقیناً ہم نے انسان کو (بڑی) مشقت میں پیدا کیا ہے

 یعنی اس کی زندگی محنت و مشقت اور شدائد سے معمور ہے۔ امام طبری نے اس مفہوم کو اختیار کیا ہے، یہ جواب قسم ہے۔ 

أَيَحْسَبُ أَنْ لَنْ يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ

امین احسن اصلاحی

کیا وہ گمان رکھتا ہے کہ اس پر کسی کا زور نہیں!

مطلب یہ ہے کہ جن کو اس سرزمین کی ابتدائی تاریخ معلوم ہے ان کے لیے تو اس کی موجودہ رفاہیت سے اس غلط فہمی میں پڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب ان کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ کوئی ان کو اکھاڑ نہیں سکتا۔ جس نے ان کو ایک بے آب و گیاہ زمین میں یہ فراوانئ رزق بخشی وہ ان کو جب چاہے تباہ بھی کر سکتا ہے بالخصوص جب کہ انھوں نے اس مقصد کو بھی برباد کر دیا ہے جس کے لیے ان کو یہاں آباد کیا گیا اور جس کی خاطر ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا فرمائی۔

جاوید احمد غامدی

(اب وہ نعمتوں میں ہے تو) کیا وہ سمجھتا ہے کہ اُس پر کسی کا زور نہیں؟

n/a

ابو الاعلی مودودی

کیا اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پا سکے گا ؟

یعنی کیا یہ انسان جو ان حالات میں گھرا ہوا ہے، اس غرے میں مبتلا ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہے کرے، کوئی بالاتر اقتدار اس کو پکڑنے اور اس کا سر نیچے کردینے والا نہیں ہے ؟ حالانکہ آخرت سے پہلے خود اس دنیا میں بھی ہر آن وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کی تقدیر پر کسی اور کی فرمانروائی قائم ہے جس کے فیصلوں کے آگے اس کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زلزلے کا ایک جھٹکا، ہوا کا ایک طوفان، دریاؤں اور سمندروں کی ایک طغیانی اسے یہ بتا دینے کے لیے کافی ہے کہ خدائی طاقتوں کے مقابلے میں وہ کتنا بل بوتا رکھتا ہے۔ ایک اچانک حادثہ اچھے خاصے بھلے چنگے انسان کو اپاہج بنا کر رکھ دیتا ہے۔ تقدیر کا ایک پلٹا بڑے سے بڑے با اقتدار آدمی کو عرش سے فرش پر لا گراتا ہے۔ عروج کے آسمان پر پہنچی ہوئی قوموں کی قسمتیں جب بدلتی ہیں تو وہ اسی دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتی ہیں جہاں کوئی ان سے آنکھ ملانے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ اس انسان کے دماغ میں آخر کہاں سے یہ ہوا بھر گئی کہ کسی کا اس پر بس نہیں چل سکتا ؟

جونا گڑھی

کیا یہ گمان کرتا ہے کہ یہ کسی کے بس میں نہیں

 یعنی کوئی اس کی گرفت کرنے پر قادر نہیں۔ 

يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُبَدًا

امین احسن اصلاحی

کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا!

فاسد ذہنیت سے فاسد کردار: اوپر کی آیت میں ان کی اس ذہنیت سے پردہ اٹھایا گیا ہے جس میں مال و جاہ کی فراوانی نے ان کو مبتلا کر دیا تھا۔ اس آیت میں ان کے اس کردار سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے جو اس فاسد ذہنیت نے ان کے اندر پیدا کیا۔

جن کے اندر یہ گھمنڈ پیدا ہو جاتا ہے کہ ان کو جو مال و جاہ حاصل ہے یہ ان کا پیدائشی حق اور ان کی قابلیت و ہنر کا کرشمہ ہے، ان کے اندر انفاق کا جذبہ بالکل مردہ ہو جاتا ہے اس لیے کہ ان کو نہ خدا کی پروا رہ جاتی نہ آخرت کی۔ اس طرح کے لوگ اپنی بخالت پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے مستحقین کے سامنے ہمیشہ اپنے وسیع مصارف کا رونا روتے رہتے ہیں اور اس طرح ان کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھیں ذاتی مصارف کے علاوہ قومی و اجتماعی مصارف پر اتنا خرچ کرنا پڑتا ہے کہ وسیع ذرائع آمدنی رکھنے کے باوجود مشکل ہی سے کچھ پس انداز ہوتا ہے۔ یہی طریقہ وہ ان لوگوں کو چپ کرنے کا اختیار کرتے ہیں جو ان کو خدا اور آخرت کے نام پر انفاق کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کو وہ جواب دیتے ہیں کہ آخر کہاں تک خرچ کیے جائیں! ڈھیروں مال تو اسی طرح کے مصارف پر اٹھا چکے ہیں! ’مَالاً لُّبَدًا‘ کے معنی ہیں کثیر اور ڈھیروں مال۔

جاوید احمد غامدی

(اُس سے کہا جاتا ہے کہ خرچ کرو تو) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال لٹا دیا

یعنی اللہ کی راہ میں انفاق کی ترغیب دینے والوں کو چپ کرانے کے لیے کہتا ہے کہ آخر کہاں تک خرچ کروں۔ اِس سے پہلے ڈھیروں مال اِسی طرح کے مصارف میں اڑا چکا ہوں۔

ابو الاعلی مودودی

کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا ۔

” أَنْفَقْتُ مَالًا لُّبَدًا ” ” میں نے ڈھیر سا مال خرچ کردیا ” نہیں کہا بلکہ ” أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا ” کہا جس کے لفظی معنی ہیں ” میں نے ڈھیر سا مال ہلاک کردیا “، یعنی لٹا دیا یا اڑا دیا۔ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ کہنے والے کو اپنی مال داری پر کتنا فخر تھا کہ جو ڈھیر سا مال اس نے خرچ کیا وہ اس کی مجموعی دولت کے مقابلے میں اتنا ہیچ تھا کہ اس کے لٹا دینے یا اڑا دینے کی اسے کوئی پروا نہ تھی۔ اور یہ مال اڑا دینا تھا کس مد میں ؟ کسی حقیقی نیکی کے کام میں نہیں، جیسا کہ آگے کی آیات سے خود بخود مترشح ہوتا ہے، بلکہ اپنی دولت مندی کی نمائش اور اپنے فخر اور اپنی بڑائی کے اظہار میں۔ قصیدہ گو شاعروں کو بھاری انعامات دینا۔ شادی اور غمی کی رسموں میں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی دعوت کر ڈالنا۔ جوے میں ڈھیروں دولت ہار دینا۔ جوا جیت جانے پر اونٹ پر اونٹ کاٹنا اور خوب یار دوستوں کو کھلانا۔ میلوں میں بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ جانا اور دوسرے سرداروں سے بڑھ کر شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا۔ تقریبات میں بےتحاشا کھانے پکوانا اور اذن عام دے دینا کہ جس کا جی چاہے آئے اور کھائے، یا اپنے ڈیرے پر کھلا لنگر جاری رکھنا کہ دور دور تک یہ شہرت ہوجائے کہ فلاں رئیس کا دسترخواں بڑا وسیع ہے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے نمائشی اخراجات تھے جنہیں جاہلیت میں آدمی کی فیاضی اور فراخ دلی کی علامت اور اس کی بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ انہی پر ان کی تعریفوں کے ڈنکے بجتے تھے۔ انہی پر ان کی مدح کے قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ اور وہ خود بھی ان پر دوسروں کے مقابلے میں اپنا فخر جتاتے تھے۔

جونا گڑھی

کہتا (پھرتا) ہے کہ میں نے بہت کچھ مال خرچ کر ڈالا

 یعنی دنیا کے معاملات اور فضولیات میں خوب پیسہ اڑاتا ہے، پھر فخر کے طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ 

أَيَحْسَبُ أَنْ لَمْ يَرَهُ أَحَدٌ

امین احسن اصلاحی

کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں!

’أَیَحْسَبُ أَن لَّمْ یَرَہٗٓ أَحَدٌ‘۔ یہ اس طرح کے شیخی بگھارنے والوں کو جواب ہے کہ یہ لوگ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ان کی ان فیاضیوں کو کوئی دیکھ نہیں رہا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ دیتے دلاتے کوڑی بھی نہیں لیکن اپنی شاہ خرچیوں کا اشتہار بہت دیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک دن ان کا یہ تمام زبانی جمع خرچ ان کے آگے بھی آ جائے گا اور خلق کے سامنے بھی۔

جاوید احمد غامدی

کیا وہ سمجھتا ہے کہ اُسے کسی نے دیکھا نہیں؟

n/a

ابو الاعلی مودودی

کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا ؟

یعنی کیا یہ فخر جتانے والا یہ نہیں سمجھتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو دیکھ رہا ہے کہ کن ذرائع سے اس نے یہ دولت حاصل کی، کن کاموں میں اسے کھپایا، اور کس نیت، کن اغراض اور کن مقاصد کے لیے اس نے یہ سارے کام کیے ؟ کیا وہ سمجھتا ہے کہ خدا کے ہاں اس فضول خرچی، اس شہرت طلبی اور اس تفاخر کی کوئی قدر ہوگی ؟ کیا اس کا خیال ہے کہ دنیا کی طرح خدا بھی اس سے دھوکا کھا جائے گا ؟

جونا گڑھی

کیا (یوں) سمجھتا ہے کہ کسی نے اسے دیکھا ہی نہیں۔

 اس طرح اللہ کی نافرمانی میں مال خرچ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی اسے دیکھنے والا نہیں ؟ حالانکہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جس پر وہ اسے جزا دے گا، آگے اللہ تعالیٰ اپنے بعض انعامات کا تذکرہ فرما رہا ہے تاکہ ایسے لوگ عبرت پکڑیں۔ 

أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ

امین احسن اصلاحی

کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں

نعمتوں کا صحیح مصرف: یعنی یہ لوگ مال و دولت پا کر اسی میں کھوئے گئے حالانکہ اللہ نے ان کو اس سے بھی بڑی نعمتیں دی تھیں، اگر یہ ان کے بھی قدردان ہوتے تو اس طرح خزف ریزوں کے عشق میں اندھے ہو کر اس ابدی بادشاہی کو نہ گنوا بیٹھتے جو اس فانی دولت کے ذریعے وہ حاصل کر سکتے تھے۔ فرمایا کہ وہ غور کریں کہ کیا ہم نے ان کو دو آنکھیں نہیں دیں کہ وہ ان سے اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ایک طرف تو ہم نے ان کو مال و جاہ سے نوازا اور دوسری طرف ان کے آگے پیچھے ایسے یتیم وفادار، غریب و لاچار اور کمزور و بیمار بھی ہیں جو نان شبینہ کو محتاج، تن ڈھانکنے سے مجبور، آنکھوں اور ہاتھ پاؤں کی نعمت سے محروم ہیں۔ ہم نے آنکھیں دے کر ان کو یہ منظر اس لیے دکھایا کہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے رب کے شکرگزار بنیں کہ اس نے محض اپنے فضل سے ان کو اس طرح کی کسی آزمائش سے محفوظ رکھا اور پھر شکرگزاری کا حق یوں ادا کریں کہ پوری فیاضی سے ان ضرورت مندوں پر اپنا وہ مال صرف کریں جو ان کے رب نے اس طرح کے لوگوں کے حق کی حیثیت سے ان کی تحویل میں دیا۔

مطلب یہ ہے کہ آنکھوں کا کوئی صحیح مصرف ہے تو یہی عبرت نگاہی اور اثرپذیری ہے۔ اگر وہ یہ کام نہ کریں تو ان کے ہونے سے نہ ہونا بہتر ہے۔

جاوید احمد غامدی

کیا ہم نے اُس کو دو آنکھیں نہیں دیں (کہ حقائق کو دیکھتا)؟

مطلب یہ ہے کہ آنکھوں کا صحیح مصرف اگر کوئی تھا تو یہی تھا کہ اُنھیں عبرت نگاہی کے لیے استعمال کیا جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...فرمایا کہ وہ غور کریں کہ کیا ہم نے اُن کو دو آنکھیں نہیں دیں کہ وہ اُن سے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ایک طرف تو ہم نے اُن کو مال و جاہ سے نوازا اور دوسری طرف اُن کے آگے پیچھے ایسے یتیم ونادار، غریب و لاچار اور کمزور و بیمار بھی ہیں جو نان شبینہ کو محتاج، تن ڈھانکنے سے مجبور، آنکھوں اور ہاتھ پاؤں کی نعمت سے محروم ہیں۔ ہم نے آنکھیں دے کر اُن کو یہ منظر اِس لیے دکھایا کہ وہ اِس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے رب کے شکر گزاربنیں کہ اُس نے محض اپنے فضل سے اُن کو اِس طرح کی کسی آزمایش سے محفوظ رکھا اور پھر اِس شکر گزاری کا حق یوں ادا کریں کہ پوری فیاضی سے اِن ضرورت مندوں پر اپنا وہ مال صرف کریں جو اُن کے رب نے اِس طرح کے لوگوں کے حق کی حیثیت سے اُن کی تحویل میں دیا ۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۳۷۳)

ابو الاعلی مودودی

کیا ہم نے اسے دو آنکھیں

​n/a

جونا گڑھی

کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں 

 جن سے دیکھتا ہے۔ 

وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ

امین احسن اصلاحی

اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے

’وَلِسَانًا وَشَفَتَیْْنِ‘۔ یعنی آنکھوں کے ساتھ اس نے انسان کو ایک زبان اور دو ہونٹ بھی عنایت فرمائے تاکہ وہ جو کچھ دیکھے اور محسوس کرے اس پر خود بھی عمل پیرا ہو اور اپنی زبان سے دوسروں کو بھی اس پر ابھارے تاکہ اس شوق و ترغیب سے دوسروں کے اندر بھی وہ نیکی پھیلے۔ سابق سورہ میں اسی چیز کی طرف

’وَلَا تَحَاضُّوۡنَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ‘ (الفجر ۸۹: ۱۸)
(اور تم مسکینوں کو کھلانے پر لوگوں کو نہیں ابھارتے)

کے الفاظ سے توجہ دلائی ہے۔ اور اس سورہ میں آگے اسی مضمون کی تکمیل ان الفاظ میں کی ہے:

’ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوۡا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ‘ (۱۷)
(پھر وہ بنے ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور ہمدردی کی نصیحت کی)۔

اس آیت سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ انسان جس نیکی کا احساس کرے اس کے انجام دینے کے لیے خود بھی اقدام کرے اور دوسروں کو بھی اس کے لیے ابھارے۔ یہ چیز اس کے فرائض میں داخل ہے ورنہ اس کی نیکی ادھوری رہ جائے گی۔ معاشرہ سے متعلق بھی ہر شخص پر اس کی صلاحیت کے اعتبار سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کو ادا کے بغیر کوئی شخص عند اللہ بری نہیں ہو سکتا۔ یہاں اشارے پر قناعت کیجیے، ان شاء اللہ سورۂ عصر کی تفسیر میں ’وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘ (العصر ۱۰۳: ۳) کے تحت اس پر مفصل بحث آئے گی۔
ایک خاص نکتہ: یہاں ایک ضمنی نکتہ بھی قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ زبان کے ساتھ دو ہونٹوں کا ذکر فرمایا ہے جو زبان کو اوپر اور نیچے دونوں طرف سے محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ قاعدہ ہے کہ جو چیز جتنی ہی قیمتی، جتنی ہی اثرآفرین اور جتنے ہی گہرے اور دوررس نتائج پیدا کرنے والی ہوتی ہے وہ اتنی ہی احتیاط سے محفوظ کی جاتی ہے تاکہ اس کے استعمال میں کوئی بے احتیاطی اور بے پروائی رہ نہ پائے۔ زبان بھی انسان کے نہایت قیمتی اور مؤثر اسلحہ میں سے ہے۔ یہ ایک شمشیر جوہر دار ہے اس وجہ سے قدرت نے اس کو میان میں چھپا کر انسان کو پکڑایا تاکہ وہ اس کو وہیں میان سے باہر نکالے جہاں وہ ضرورت پیش آئے جس کے لیے قدرت نے اس کو بنایا ہے لیکن یہ عجیب بدقسمتی ہے کہ بالعموم لوگ اس سے اصل کام لینے کے بجائے گھاس کاٹنے کی درانتی کا کام لیتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے (کہ بھلائی کی ترغیب دیتا)؟

زبان کے ساتھ دو ہونٹوں کا ذکر اِس لیے ہوا ہے کہ زبان میں تکلم کی صلاحیت اِنھی دو ہونٹوں سے پیدا ہوتی ہے۔مطلب یہ ہے کہ زبان بھی دی اور اِس کے ساتھ ناپ تول کر بولنے کے لیے دو ہونٹ بھی دیے، لیکن عجیب بد قسمتی ہے کہ اُس نے اِسے حق کی تکذیب اور ژاژ خائی کے لیے تو استعمال کیا، مگر جو مواقع فی الواقع اِس کے استعمال کے تھے، اُن میں یہ ہمیشہ گنگ رہی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِس آیت سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ انسان جس نیکی کا احساس کرے، اُس کے انجام دینے کے لیے خود بھی اقدام کرے اور دوسروں کو بھی اُس کے لیے ابھارے۔ یہ چیز اُس کے فرائض میں داخل ہے، ورنہ اُس کی نیکی ادھوری رہ جائے گی۔ معاشرے سے متعلق بھی ہر شخص پر اُس کی صلاحیت کے اعتبار سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جس کو ادا کیے بغیر کوئی شخص عند اللہ بری نہیں ہو سکتا۔‘‘ (تدبر قرآن ۹/ ۳۷۴)

ابو الاعلی مودودی

اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے ؟

مطلب یہ ہے کہ کیا ہم نے اسے علم اور عقل کے ذرائع نہیں دیے ؟ دو آنکھوں سے مراد گائے بھینس کی آنکھیں نہیں بلکہ وہ انسانی آنکھیں ہیں جنہیں کھول کر آدمی دیکھے تو اسے ہر طرف وہ نشانات نظر آئیں جو حقیقت کا پتہ دیتے ہیں اور صحیح و غلط کا فرق سمجھاتے ہیں۔ زبان اور ہونٹوں سے مراد محض بولنے کے آلات نہیں ہیں بلکہ نفس ناطقہ ہے جو ان آلات کی پشت پر سوچنے سمجھنے کا کام کرتا ہے اور پھر ان سے اظہار مافی الضمیر کا کام لیتا ہے۔

جونا گڑھی

زبان اور ہونٹ (نہیں) بنائے۔

 زبان سے وہ بولتا ہے اور مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے ہونٹوں سے وہ بولنے اور کھانے کے لیے مدد حاصل کرتا ہے علاوہ ازیں وہ اس کے چہرے اور منہ کے لیے خوب صورتی کا بھی باعث ہیں۔ 

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ

امین احسن اصلاحی

اور اس کو دونوں راہیں نہیں سجھا دیں

نیکی اور بدی کا شعور انسان کی فطرت میں ہے: ’وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ‘۔ یعنی مشاہدہ و شعور اور نطق و بیان کی صلاحیت دینے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر یہ فضل بھی فرمایا کہ اس کو دونوں راستے بھی دکھا دیے۔ ’دونوں راستے‘ سے اشارہ انہی دونوں راستوں کی طرف ہے جن کا ذکر سورۂ دہر میں بدیں الفاظ گزر چکا ہے:

إِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُوۡرًا (الدہر ۷۶: ۳)
’’ہم نے اس کو راہ بھی دکھا دی۔ چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا ناشکرا بنے۔‘‘

اس سے زیادہ واضح لفظوں میں سورۂ شمس میں فرمایا ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا ۵ فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (الشمس ۹۱: ۷-۸)
’’اور شاہد ہے نفس اور اس کی اعلیٰ ساخت، پس ہم نے اس کو الہام کر دی اس کی بدی اور نیکی۔‘‘

یہ اسی حقیقت کا بیان ہے جس کی وضاحت ہم سورۂ قیامہ کی تفسیر میں کر چکے ہیں کہ بدی کا بدی ہونا اور نیکی کا محبوب ہونا اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر ودیعت فرما دیا ہے۔ انسان اگر بدی کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ بدی کے شعور سے محروم ہے بلکہ وہ جذبات سے مغلوب ہو کر بدی کو بدی جانتے ہوئے اس کا ارتکاب کرتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور اُس کو دونوں راستے نہیں سجھائے (کہ اچھے اور برے کو سمجھتا)؟

شعور و مشاہدہ اورنطق و بیان کی صلاحیت کے بعد اب یہ خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت کا ذکر ہے۔ دونوں راستوں سے اشارہ اُنھی دو راستوں کی طرف ہے جنھیں سورۂ دہر (۷۶) اور سورۂ شمس (۹۱) میں بالترتیب ’اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا‘ اور ’فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور دونوں نمایاں راستے اسے ﴿نہیں﴾ دکھا دیے ؟

یعنی ہم نے محض عقل و فکر کی طاقتیں عطا کر کے اسے چھوڑ نہیں دیا کہ اپنا راستہ خود تلاش کرے، بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی اور اس کے سامنے بھلائی اور برائی، نیکی اور بدی کے دونوں راستے نمایاں کر کے رکھ دیے تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ کر ان میں سے جس کو چاہے اپنی ذمہ داری پر اختیار کرلے۔ یہ وہی بات ہے جو سورة دھر میں فرمائی گئی ہے کہ ” ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا “۔ (آیات 2 ۔ 3) تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، الدھر، حواشی 3 تا 5 ۔

جونا گڑھی

ہم نے دکھا دیئے اس کو دونوں راستے

 یعنی خیر کی بھی شر کی بھی اور ایمان کی بھی، سعادت کی بھی اور بد بختی کی بھی، جیسے فرمایا، بعض نے یہ ترجمہ کیا ہے، ہم نے انسان کی (ماں کے) دو پستانوں کی طرف رہنمائی کردی یعنی وہ عالم شیر خوارگی میں ان سے خوراک حاصل کرے لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ 

Page 1 of 2 pages  1 2 >