الٓمٓ

امین احسن اصلاحی

یہ الف، لام، میم ہے۔

حروفِ مقطعات سورتوں کے نام ہیں

الٓمّٓ یہ ایک مستقل جملہ ہے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کے مطابق یہاں مبتدا محذوف ہے۔ اس کو ظاہر کر دیا جائے تو پوری بات یوں ہو گی۔ ھٰذہ الٓمّٓ (یہ الف، لام، میم ہے) ہم نے ترجمہ میں اس حذف کو کھول دیا ہے۔ یہ اور اس طرح کے جتنے حروف بھی مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں چونکہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں اس وجہ سے ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں۔ یہ جس سورہ میں بھی آئے ہیں بالکل شروع میں اس طرح آئے ہیں جس طرح کتابوں، فصلوں اور ابواب کے شروع میں ان کے نام آیا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں۔ قرآن نے جگہ جگہ ذٰلک اور تِلۡکَ کے ذریعہ سے ان کی طرف اشارہ کر کے ان کے نام ہونے کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے۔ حدیثوں سے بھی ان کا نام ہی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
جو سورتیں ان ناموں سے موسوم ہیں اگرچہ ان میں سے سب اپنے انہی ناموں سے مشہور نہیں ہوئیں بلکہ بعض دوسرے ناموں سے مشہور ہوئیں، لیکن ان میں سے کچھ اپنے انہی ناموں سے مشہور بھی ہیں۔ مثلاً طٰہٰ، یٰس، ق اور ن وغیرہ۔

مقطعات کے معنی

 ان ناموں کے معانی کے بارے میں کوئی قطعی بات کہنا بڑا مشکل ہے اس وجہ سے ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن کا تو دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک بالکل واضح کتاب ہے، اس میں کوئی چیز بھی چیستاں یا معمے کی قسم کی نہیں ہے، پھر اس نے سورتوں کے نام ایسے کیوں رکھ دیے ہیں جن کے معنی کسی کو بھی نہیں معلوم؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ان حروف کا تعلق ہے، یہ اہل عرب کے لئے کوئی بیگانہ چیز نہیں تھے بلکہ وہ ان کے استعمال سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس واقفیت کے بعد قرآن کی سورتوں کا ان حروف سے موسوم ہونا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے قرآن کے ایک واضح کتاب ہونے پر کوئی حرف آتا ہو۔ البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حروف سے نام بنا لینا عربوں کے مذاق کے مطابق تھا بھی یا نہیں تو اس چیز کے مذاق عرب کے مطابق ہونے کی سب سے بڑی شہادت تو یہی ہے کہ قرآن نے نام رکھنے کے اس طریقہ کو اختیار کیا۔ اگر نام رکھنے کا یہ طریقہ کوئی ایسا طریقہ ہوتا جس سے اہل عرب بالکل ہی نامانوس ہوتے تو وہ اس پر ضرور ناک بھوں چڑھاتے اور ان حروف کی آڑ لے کر کہتے کہ جس کتاب کی سورتوں کے نام تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتے اس کے ایک کتاب مبین ہونے کے دعوے کو کون تسلیم کر سکتا ہے۔
قرآن پر اہل عرب نے بہت سے اعتراضات کئے اور ان کے یہ سارے اعتراض قرآن نے نقل بھی کئے ہیں لیکن ان کے اس طرح کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ناموں میں ان کے لئے کوئی اجنبیت نہیں تھی۔
علاوہ بریں جن لوگوں کی نظر اہل عرب کی روایات اور ان کے لٹریچر پر ہے وہ جانتے ہیں کہ اہل عرب نہ صرف یہ کہ اس طرح کے ناموں سے نامانوس نہیں تھے بلکہ وہ خود اشخاص، چیزوں، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں حتیٰ کہ قصائد اور خطبات تک کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھتے تھے۔ یہ نام مفرد حروف پر بھی ہوتے تھے اور مرکب بھی ہوتے تھے۔ ان میں یہ اہتمام بھی ضروری نہیں تھا کہ اسم اور مسمٰی میں کوئی معنوی مناسبت پہلے سے موجود ہو بلکہ یہ نام ہی بتاتا تھا کہ یہ نام اس مسمٰی کے لئے وضع ہوا ہے۔
اور یہ بالکل ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک شے کے متعلق یہ معلوم ہو گیا کہ یہ نام ہے تو پھر اس کے معنی کا سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ نام سے اصل مقصود مسمٰی کا اس نام کے ساتھ خاص ہوجانا ہے نہ کہ اس کے معنی۔ کم ازکم فہم قرآن کے نقطۂ نظر سے ان ناموں کے معانی کی تحقیق کی تو کوئی خاص اہمیت ہے نہیں۔ بس اتنی بات ہے کہ چونکہ یہ نام اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے ہیں اس وجہ سے آدمی کو یہ خیال ہوتا ہے کہ ضرور یہ کسی نہ کسی مناسبت کی بنا پر رکھے گئے ہوں گے۔ یہ خیال فطری طور پر طبیعت میں ایک جستجو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی جستجو کی بنا پر ہمارے بہت سے پچھلے علماء نے ان ناموں پر غور کیا اور ان کے معنی معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ان کی جستجو سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا لیکن ہمارے نزدیک ان کا یہ کام بجائے خود غلط نہیں تھا اور اگر ہم بھی ان پر غور کریں گے تو ہمارا یہ کام بھی غلط نہیں ہو گا۔ اگر اس کوشش سے کوئِی حقیقت واضح ہوئی تو اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو گا اور اگر کوئی بات نہ مل سکی تو اس کو ہم اپنے علم کی کوتاہی اور قرآن کے اتھاہ ہونے پر محمول کریں گے۔ یہ رائے بہرحال نہیں قائم کریں گے کہ یہ نام ہی بے معنی ہیں۔
اپنے علم کی کمی اور قرآن کے اتھاہ ہونے کا یہ احساس بجائے خود ایک بہت بڑا علم ہے۔ اس احساس سے علم و معرفت کی بہت سی بند راہیں کھلتی ہیں۔ اگر قرآن کا پہلا ہی حرف اس عظیم انکشاف کے لئے کلید بن جائے تو یہ بھی قرآن کے بہت سے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہو گا۔ یہ اسی کتاب کا کمال ہے کہ اس کے جس حرف کا راز کسی پر نہ کھل سکا اس کی پیدا کردہ کاوش ہزاروں سربستہ اسرار سے پردہ اٹھانے کے لئے دلیل راہ بنی۔

حروف مقطعات کے متعلق امام فراہی کا نقطہ نظر

ان حروف پر ہمارے پچھلے علماء نے جو رائیں ظاہر کی ہیں ہمارے نزدیک وہ تو کسی مضبوط بنیاد پر مبنی نہیں ہیں اس وجہ سے ان کا ذکر کرنا کچھ مفید نہیں ہوگا۔ البتہ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمة اللہ علیہ کی رائے اجمالاً یہاں پیش کرتا ہوں۔ اس سے اصل مسئلہ اگرچہ حل نہیں ہوتا لیکن اس کے حل کے لئے ایک راہ کھلتی ضرور نظر آتی ہے۔ کیا عجب کہ مولانا رحمة اللہ علیہ نے جو سراغ دیا ہے دوسرے اس کی رہنمائی سے کچھ مفید نشانات راہ اور معلوم کر لیں اور اس طرح درجہ بدرجہ تحقیق کے قدم کچھ اور آگے بڑھ جائیں۔

جو لوگ عربی رسم الخط کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لئے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔ عرب قدیم کے ان حروف کے متعلق استاذ امام رحمة اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ انگریزی اور ہندی کے حروف کی طرف صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے بلکہ یہ چینی زبان کے حروف کی طرف معانی اور اشیاء پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیاء پر وہ دلیل ہوتے تھے عموماً ان ہی کی صورت و ہئیت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ مولانا کی تحقیق یہ ہے کہ یہی حروف ہیں جو قدیم مصریوں نے اخذ کئے اور اپنے تصورات کے مطابق ان میں ترمیم و اصلاح کر کے ان کو اس خط تمثالی کی شکل دی جس کے آثار اہرام مصر کے کتبات میں موجود ہیں۔

ان حروف کے معانی کا علم اب اگرچہ مٹ چکا ہے تاہم بعض حروف کے معنی اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً “الف” کے متعلق معلوم ہے کہ وہ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سر کی صورت ہی پر لکھا جاتا ہے۔ “ب” کو عبرانی میں بَیت کہتے بھی ہیں اور اس کے معنی بھی “بیت” (گھر) کے ہیں۔ “ج” کا عبرانی تلفظ جمیل ہے جس کے معنی جمل (اونٹ) کے ہیں۔ “ط” سانپ کے معنی میں آتا تھا اور لکھا بھی کچھ سانپ ہی کی شکل پر جاتا تھا۔ “م” پانی کی لہر پر دلیل ہوتا ہے اور اس کی شکل بھی لہر سے ملتی جلتی بنائی جاتی تھی۔

مولانا اپنے نظریہ کی تائید میں سورہ “ن” کو پیش کرتے ہیں۔ حرف “نون” اب بھی اپنے قدیم معنی ہی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جو سورہ اس نام سے موسوم ہوئی ہے اس میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر صاحب الحوت، مچھلی والے، کے نام سے آیا ہے۔ مولانا اس نام کو پیش کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے ذہن قدرتی طور پر اس طرف جاتا ہے کہ اس سورہ کا نام “نون” (ن) اسی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں صاحب الحوت، حضرت یونس علیہ السلام، کا واقعہ بیان ہوا ہے جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا۔ پھر کیا عجب ہے کہ بعض دوسری سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں وہ بھی اپنے قدیم معانی اور سورتوں کے مضامین کے درمیان کسی مناسبت ہی کی بنا پر آئے ہوں۔

قران مجید کی بعض اور سورتوں کے ناموں سے بھی مولانا کے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے مثلاً حرف “ط” کے معنی، جیسا کے میں نے اوپر بیان کیا ہے، سانپ کے تھے اور اس کے لکھنے کی ہئیت بھی سانپ کی ہئیت سے ملتی جلتی ہوتی تھی۔ اب قرآن میں سورہ طٰہٰ کو دیکھئے جو “ط” سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں ایک مختصر تمہید کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی لٹھیا کے سانپ بن جانے کا قصہ بیان ہوتا ہے۔ اسی طرح طسم، طس وغیرہ بھی “ط” سے شروع ہوتی ہیں اور ان میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لٹھیا کے سانپ کی شکل اختیار کر لینے کا معجزہ مذکور ہے۔

“الف” کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ گائے کے سر کی ہئیت پر لکھا بھی جاتا تھا اور گائے کے معنی بھی بتاتا تھا۔ اس کے دوسرے معنی اللہ واحد کے ہوتے تھے۔ اب قرآن مجید میں دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ سورہ بقرہ میں جس کا نام الف سے شروع ہوتا ہے، گائے کے ذبح کا قصہ بیان ہوا ہے۔ دوسری سورتیں جن کے نام الف سے شروع ہوئے ہیں توحید کے مضمون میں مشترک نظر آتی ہیں۔ یہ مضمون ان میں خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ان ناموں کا یہ پہلو بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ جن سورتوں کے نام ملتے جلتے سے ہیں ان کے مضامین بھی ملتے جلتے ہیں بلکہ بعض سورتوں میں تو اسلوب بیان تک ملتا جلتا ہے۔

میں نے مولانا کا یہ نظریہ، جیسا کہ عرض کر چکا ہوں، محض اس خیال سے پیش کیا ہے کہ اس سے حروف مقطعات پر غور کرنے کے لئے ایک علمی راہ کھلتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی حیثیت ابھی ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ جب تک تمام حروف کے معانی کی تحقیق ہو کر ہر پہلو سے ان ناموں اور ان سے موسوم سورتوں کی مناسبت واضح نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر ایک نظریہ سے زیادہ اعتماد کر لینا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ محض علوم قرآن کے قدردانوں کے لئے ایک اشارہ ہے، جو لوگ مزید تحقیق و جستجو کی ہمت رکھتے ہیں وہ اس راہ میں قسمت آزمائی کریں۔ شاید اللہ تعالیٰ اس راہ سے یہ مشکل آسان کر دے۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورہ ’الم‘ ہے۔

اِس جملے میں مبتدا عربیت کی رو سے محذوف ہے ۔ اِسے کھول دیجیے تو پوری بات اِس طرح ہو گی: ’ھذہ الم‘ (یہ الف لام میم ہے )۔ اصطلاح میں اِنھیں حروف مقطعات کہتے ہیں۔ سورتوں کے شروع میں یہ حروف جس طرح آئے ہیں اور قرآن نے جگہ جگہ ’ذٰلک‘ اور ’تلک‘ کے ذریعے سے اِن کی طرف جس طرح اشارہ کیا ہے، اُس سے واضح ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں۔ اِن کے معنی کیا ہیں؟ اِس باب میں سب سے زیادہ قرین قیاس نظریہ برصغیر کے جلیل القدر عالم اور محقق امام حمید الدین فراہی کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف تہجی چونکہ اصلاً عرب قدیم میں رائج وہی حروف ہیں جو صرف آواز ہی نہیں بتاتے تھے، بلکہ چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیا پر بھی دلیل ہوتے تھے اور جن معانی یا اشیا پر دلیل ہوتے تھے ، اُنھی کی صورت پر لکھے بھی جاتے تھے ، اِس لیے قرآن کی سورتوں کے شروع میں بھی یہ اپنے اُنھی قدیم معنی کے لحاظ سے آئے ہیں ۔ اِس کی نہایت واضح مثال سورۂ نون ہے ۔ حرف ’ن‘ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ اب بھی اپنے قدیم معنی میں بولا جاتا ہے۔ اِس کے معنی مچھلی کے ہیں اور جس سورہ کو یہ نام دیا گیا ہے ،اُس کے بارے میں معلوم ہے کہ اُس میں سیدنا یونس علیہ السلام کا ذکر ’صاحب الحوت‘ یعنی مچھلی والے کے نام سے ہوا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

الف لام میم

یہ حُرُوفِ مُقَطعَات قرآن مجید کی بعض سورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اس دور کے اسالیب بیان میں اس طرح کے حُرُوفِ مُقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اور شعراء دونوں اس اُسْلوب سے کام لیتے تھے۔ چنانچہ اب بھی کلام جاہلیّت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ اس استعمال عام کی وجہ سے یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے جس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی نے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بےمعنی حروف کیسے ہیں جو تم بعض سورتوں کی ابتداء میں بولتے ہو۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہء کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے معنی پوچھے ہوں۔ بعد میں اسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسّرین کے لیے ان کے معانی متعیّن کرنا مشکل ہوگیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حُرُوف کا مفہُوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے۔ اور نہ یہ بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔

جونا گڑھی

الم

الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔

ذَٰلِكَ ٱلْكِتَـٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ

امین احسن اصلاحی

یہ کتابِ الہی ہے۔ اس کے کتابِ الہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لیے۔

اشارہ قریب و بعید کی حقیقت

ذٰلِکَ اہل نحو کہتے ہیں کہ “ذٰلِکَ” اشارہ بعید کے لئے آتا ہے اور “ھٰذا” اشارہ قریب کے لئے۔ اس سے عام طور پر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر کسی فاصلہ کی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہو تو “ذٰلِکَ” لائیں گے اور اگر قریب کی کسی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہو تو “ھٰذا” استعمال کریں گے۔ لیکن اہل نحو کا مطلب قریب اور بعید سے یہ نہیں ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز مخاطب کے علم میں ہے یا جس کا ذکر گفتگو میں ہو چکا ہے اگر اس کی طرف اشارہ کرنا ہو تو وہاں “ذٰلِکَ” استعمال کریں گے اور اگر کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ کرنا ہو جس کا ذکر آگے آرہا ہو تو وہاں “ھٰذا” لائیں گے۔ اہل زبان ان دونوں اشارات کو اسی طرح استعمال کرتے ہیں اور اگر کبھی ان کو اس عام ضابطہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں تو بلاغت کے کسی نکتہ کو ملحوظ رکھ کر کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی سابق الذکر چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے “ھٰذا” استعمال کر دیں تو اس سے مقصود چیز کو نگاہوں کے سامنے حاضر کر دینا ہو گا اسی طرح اگر کہیں “ھٰذا” کی جگہ “ذٰلِکَ” استعمال ہوتا ہے تو اس سے عموماً مقصود اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی شان اس سے ارفع ہے کہ اس کو سامنے لا کھڑا کیا جائے۔

یہاں ذٰلِکَ کا اشارہ سورہ کے اس نام کی طرف ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ الٓمٓ قرآن عظیم کا ایک حصہ ہے۔ قرآن میں اس قسم کے اشارات کی نظیریں بکثرت موجود ہیں۔ مثلاً
حٰمٓ عٓسٓقٓ کَذٰلِکَ یُوۡحِیۡٓ اِلَیْْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنۡ قَبْلِکَ اللَّہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ. (شوریٰ ۱ - ۳)
(یہ حٰمٓ، عسق ہے۔ اسی طرح خدائے عزیز وحکیم تمہاری طرف وحی کرتا ہے اور اسی طرح اس نے ان لوگوں کی طرف وحی کی جو تم سے پہلے گزرے ہیں)
طٰسٓ تِلْکَ اٰیَاتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔ (النمل)
یہ طس ہے یہ قرآن اور ایک کتاب مبین کی آیتیں ہیں۔

لفظ "کتاب" کے معانی

الکتٰب قرآن مجید میں کتاب کا لفظ پانچ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
۱ – نوشتہ تقدیر- مثلاً
لَوْلاَ کِتَابٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (۶۸۔ انفال) اگر نوشتہ الٰہی نہ گزر چکا ہوتا تو جس چیز میں تم مبتلا ہوئے اس کے باعث تمہیں ایک دردناک عذاب آ پکڑتا۔
۲ – اللہ تعالیٰ کا وہ رجسٹر جس میں ہر چیز ریکارڈ ہے۔ مثلاً
وَعِنْدَنَا کِتَابٌ حَفِیْظٌ۔ (۴، ق)
(اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے محفوظ رکھنے والی۔)
۳ – خط اور پیغام۔ مثلاً
اِنِّیْ اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ۔ (۲۹ نمل)
(میرے پاس ایک گرامی نامہ بھجوایا گیا ہے)
۴ ۔ احکام و قوانین۔ مثلاً
وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ (۲ جمعہ)
(اور ان کو شریعت اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے)
۵ ۔ اللہ تعالی کا اتارا ہوا کلام۔ اپنے اسی معنی کے لحاظ سے یہ لفظ کتاب الٰہی کے لئے استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد کتاب الٰہی کا کوئی خاص حصہ بھی ہوا کرتا ہے اور اس کا مجموعہ بھی۔
مجموعہ کے مفہوم کے لئے نظیر اعراف کی یہ آیت ہے۔
وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتَابِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۔ (۱۷۰ اعراف)
(اور جو کتاب الہی کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں)
دوسرے معنی کے لئے نظیر سورۂ آل عمران کی یہ آیت ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْْنَہُمْ۔ (۲۳ اٰل عمران)
(ذرا دیکھو تو ان کو جنہیں کتاب الہٰی کا ایک حصہ ملا، ان کو دعوت دی جا رہی ہے اللہ کی کتاب کی طرف تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کرے)

جس طرح کوئی لفظ اپنے مختلف معنی میں سے کسی ایک اعلیٰ اور برتر معنی کے لئے خاص ہو جایا کرتا ہے، اسی طرح یہ کتاب کا لفظ بھی خاص طور پر کتاب الہٰی کے لئے بولا جانے لگا۔ چنانچہ یہ استعمال قدیم زمانہ سے معروف ہے۔ یہود انبیاء کے صحیفوں میں سے ہر صحیفہ کو سِفۡر کہتے تھے جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ عیسائی مترجموں نے ان کتابوں کو بائیبل کا نام دیا اس کے معنی بھی یونانی میں کتاب کے ہیں۔ اسی طرح ان صحیفوں کے لئے (scripture) کا لفظ استعمال ہوا جس کے معنی لاطینی میں کتاب کے ہیں۔ الغرض کتاب کا لفظ کتاب اللہ کے لئے کوئی نیا استعمال نہیں ہے۔ یہ استعمال جیسا کہ واضح ہوا، بہت قدیم ہے۔ قرآن نے بھی اس معنی میں اس لفظ کو استعمال کیا اور اپنے استعمالات سے اس کے اس معنی کو اس قدر واضح کر دیا کہ اس کے مخاطب اس استعمال کو بے تکلف سمجھنے لگ گئے۔

"لا ریب فیہ" کا صحیح مفہوم

لَارَیۡبَ فیہ “ریب” کے معنی شک کے ہیں۔ “اس میں کوئی شک نہیں ہے” کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کتاب الہٰی ہونے یا ایک کتاب منزل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ جملہ پہلے جملہ کی خبر نہیں بلکہ اس کی تاکید ہے۔ ذٰلِکَ الۡکِتَابُ کے معنی ہیں، یہ کتاب الہٰی ہے۔ اس کے بعد یہ تاکید اسی حقیقت کو مزید قوت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے کہ اس کے کتاب الہٰی ہونے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
اگر اس کے معنی یہ نہ لئے جائیں تو پھر اس ٹکڑے کے لئے یہاں کوئی موزوں موقع ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ قرآن مجید کے نظائر سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً اسی سورہ میں چند ہی آیات کے بعد فرمایا ہے۔
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۔ (۲۳ بقرہ)
(اور اگر تم اس کی طرف سے شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتاری ہے تو لاؤ اس کے مانند کوئی ایک سورہ)
اآمّٓ تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ لَا رَیْْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ (۱-۲ السجدہ)
(الٓمٓ، کتاب کی تنزیل، جس کے کتاب الہٰی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، عالم خداوند کی طرف سے ہے)
حٰمٓ تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ۔ (۱-۲ مومن)
(حٰمٓ، کتاب کا اتارنا خدائے عزیز و علیم کی طرف سے ہے)

عام طور پر لوگ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اس کتاب میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس میں شک کیا جاسکے۔ اگرچہ بجائے خود یہ ایک حقیقت ہے، قرآن میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش ہو لیکن ہمارے نزدیک اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں۔

اولاً تو قرآن کے نظائر جو ہم نے پیش کئے ہیں اس مطلب کے خلاف ہیں۔ ثانیاً شک و شبہ کتاب کی صفات میں سے نہیں ہے بلکہ آدمی کے ذہن کی صفات میں سے ہے۔ ایک ٹیڑھے ذہن کا آدمی سیدھی سے سیدھی بات میں سے بھی کوئِی نہ کوئی ٹیڑھ نکال ہی لیتا ہے اس وجہ سے اس بات کے کہنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ ثالثاً شک و شبہ کا سوال درحقیقت پیدا کسی دعوے سے متعلق ہوتا ہے، یہاں دعویٰ یہ ہے کہ یہ کتاب الہٰی ہے۔ اس وجہ سے اگر شک کی نفی کی ضرورت ہے تو اس دعویٰ سے متعلق ہے نہ کہ کتاب سے متعلق۔ رابعاً کتاب سے متعلق شک کی نفی سے کتاب کی شان میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح کے شک کی نفی ریاضی یا اقلیدس کی کسی کتاب کے بارہ میں بھی کی جاسکتی ہے۔ خامساً قرآن کے ابتدائی مخاطبین کی اصلی الجھن یہ نہیں تھی کہ قرآن کی کچھ باتیں ان کو مشکوک و مشتبہ معلوم ہوتی تھیں بلکہ ان کی اصلی الجھن یہ تھی کہ اس کتاب کو اللہ کی اتاری ہوئی بتایا جاتا تھا اور وہ اس کو اللہ کی اتاری ہوئی کتاب ماننے کو تیار نہیں تھے۔ سادساً اگر کتاب سے متعلق شک کی نفی کر بھی دی جائے تو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ اس کے خدا کی طرف سے ہونے کا مسئلہ پھر بھی مشکوک ہی رہا۔ ہاں اس کا خدا کی طرف سے ہونا غیر مشکوک ہوجائے تو پھر اس کا ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہونا آپ سے آپ ثابت ہو جاتا ہے۔

لفظ "ہدی" کی تحقیق

ھدی ھدی کا لفظ عربی زبان میں بھی اور قرآن مجید میں بھی کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جن معانی کے نظائر خود قرآن میں موجود ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱ ۔ قلبی نور و بصیرت۔ مثلاً
وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی. (۱۷۔ محمد)
(اور جو لوگ ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی قلبی بصیرت میں اضافہ فرماتا ہے)
۲ – دلیل و حجت اور نشان راہ۔ مثلاً
اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی. (۱۰۔ طٰہٰ)
(مجھے آگ کے پاس پہنچ کر کوئی نشان راہ مل جائے)۔ بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیر – حج : ۸- (بغیر کسی علم، بغیر کسی دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کے۔)
۳ – سیدھا اور صاف راستہ۔ مثلاً
بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتَابٍ مُّنِیْرٍ. (۸ ۔ حج)
(بے شک تم ایک سیدھے راستے پر ہو۔)
یہیں سے یہ لفظ طریقہ اور شریعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس معنی کی مثالیں بھی قران میں موجود ہیں۔ مثلاً
فَبِھُدَاھُمُ اقۡتَدِہۡ (۰۹ انعام)
(پس ان کے طریقہ کی پیروی کر)
اِنَّ الْہُدٰی ہُدَی اللّٰہِ. (۷۲ ۔ اٰل عمران)
(اور شریعت تو بس اللہ کی شریعت ہے۔)
۴ – فعل ہدایت۔ مثلاً
لَیْْسَ عَلَیْْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ. (۲۷۲ ۔ بقرہ)
(تمہارے ذمہ ان کو ہدایت دینا نہیں ہے بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے)۔
قرآن مجید میں ظاہر ہے کہ ان چاروں معنوں کے اعتبار سے ھدی ہے۔

"متقی" کا مفہوم

لِلۡمُتَّقِیۡنَ حرف لام یہاں انتفاع کے مفہوم میں ہے۔ یعنی اس کتاب سے فائدہ وہی لوگ اٹھائیں گے جو متقی ہیں۔ جس طرح سورج چمکتا تو سب کے لئے ہے لیکن اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو آنکھیں رکھتے ہیں اور جو ان آنکھوں کو دیکھنے کے لئے کھولتے بھی ہیں۔ اسی طرح یہ کتاب اتری تو سب ہی کی ہدایت کے لئے ہے لیکن چونکہ اس سے فائدہ فی الحقیقت وہی لوگ اٹھائیں گے جن کے اندر خدا کا خوف ہو، اس وجہ سے فرمایا کہ یہ متقین کے لئے ہدایت ہے۔ متقی کا لفظ اتقاء سے ہے۔ اتقاء کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ہم مثالوں سے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
۱ – جس چیز سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو اس سے بچنا۔ مثلاً فَکَیْْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبًا. (۱۷ ۔ مزمل) (اگر تم نے کفر کیا تو اس دن سے کیسے بچ سکو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔)
۲ – کسی آفت کے ظہور سے اندیشہ ناک ہونا۔ مثلاً وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً. (۲۵ ۔ انفال) (اور اس آفت سے چوکنے رہو جو خاص طور پر انہی پر نہیں آئے گی جنہوں نے تم میں سے ظلم کا ارتکاب کیا ہوگا۔)
۳ – اس رب قدوس سے برابر لرزتے اور کانپتے رہنا جو اپنے شکرگزار اور وفادار بندوں پر رحم فرماتا ہے جو کفر و معصیت کو ناپسند کرتا ہے اور جو ہر ظاہر و پوشیدہ سے باخبر ہے۔ وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا. (۷۳ ۔ زمر) (اور جو لوگ اپنے پروردگار سے برابر ڈرتے رہے ان کو گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔)
۴ – اس کا چوتھا مفہوم مذکورہ تینوں مفہوموں کا جامع ہے۔ یعنی گناہ سے اس کے برے نتائج اور خدا کے غضب کے ڈر سے بچتے رہنا۔ جب یہ لفظ مفعول کے بغیر استعمال ہوتا ہے تو عموماً یہی مراد ہوتے ہیں اور اسی چیز کو تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ. (۱۷۹ ۔ اٰل عمران) (اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہے۔)

اس تشریح کی روشنی میں متقی وہ شخص ہوگا جس کے دل میں خدا کی عظمت اور اس کےغضب کا خوف سمایا ہوا ہو اور جس کو گناہوں کے نتائج کا پورا پورا احساس ہو۔ تقویٰ میں عمل کی نسبت کیفیت اور حال کا پہلو اور فعل کے بالمقابل ترک کا پہلو اگرچہ زیادہ نمایاں ہے اور اس پہلو سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نفی اثبات پر غالب ہے لیکن چونکہ یہ دل کی تندرستی کی دلیل ہے اور دل تندرست ہو تو سب کچھ تندرست ہے اس وجہ سے اس سے علم اور عمل دونوں کے سوتے پھوٹتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

یہ کتابِ الٰہی ہے، اِس میں کوئی شبہ نہیں۔ ہدایت ہے اِن خدا سے ڈرنے والوں کے لیے۔

اصل الفاظ ہیں: ’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘۔ اِن میں ’ذٰلِکَ‘ کا اسم اشارہ سورہ کے لیے آیا ہے اور ’الْکِتٰب‘ کے معنی کتاب الٰہی کے ہیں ۔ قرآن میں یہ لفظ جگہ جگہ اِس معنی کے لیے استعمال ہوا ہے اور اُسی طریقے پر استعمال ہوا ہے ،جس پر کوئی لفظ اپنے مختلف مفاہیم میں سے کسی ایک اعلیٰ اور برتر مفہوم کے لیے خاص ہو جایا کرتا ہے۔

یعنی اِس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ کتاب الٰہی ہے۔یہی اِس جملے کا سیدھا اور صاف مفہوم ہے اور قرآن کے نظائر سے بھی اِسی کی تائید ہوتی ہے ۔
ہدایت راستہ پانے کے لیے بھی ہوتی ہے اور راستے پر چلنے کے لیے بھی۔ الہامی صحائف اصلاً اِسی دوسری ہدایت کے لیے نازل ہوئے ہیں۔ قرآن نے بھی یہاں اور بعض دوسرے مقامات پر اپنے آپ کو اِسی لحاظ سے ہدایت قرار دیا ہے۔ اِس ہدایت سے بہرہ مند ہونے والوں کی جو خصوصیات اِن آیتوں میں بیان ہوئی ہیں ، وہ اگر غور کیجیے تو ٹھیک اُن خصوصیات کی نقیض ہیں جو یہود میں من حیث القوم پائی جاتی تھیں۔ قرآن نے اِسی سورہ میں آگے اُن کی یہ خصوصیات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ اُس نے بتایا ہے کہ خدا سے ڈرنے کے بجاے وہ اُس کے مقابلے میں سرکش ہوئے۔ اُنھوں نے خدا پر ایمان لانے کے لیے اُسے آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کیا ۔ وہ نماز سے غافل ہو گئے اور خدا کی راہ میں انفاق کے بجاے لوگوں کو بخل کی ترغیب دینے لگے۔ اُنھوں نے محض اپنے تعصبات کی بنا پر خدا کے پیغمبروں کا انکار کیا اور آخرت اُن کے لیے ایک رسمی عقیدہ بن کر رہ گئی ، اُن کے طرزِعمل میں اِس پر ایمان کی کوئی جھلک کہیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔

ابو الاعلی مودودی

یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے۔

اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ ” بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔ “ مگر ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی کتابیں امور مابعد الطبیعت اور حقائقِ ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سے پاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علم حقیقت پر مبنی ہے، اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے، اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔

یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی، مگر اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چند صفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ آدمی ” پرہیزگار “ ہو۔ بَھلائی اور برائی میں تمیز کرتا ہو۔ برائی سے بچنا چاہتا ہو۔ بَھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں، بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہش نفس دھکیل دے، یا جدھر قدم اٹھ جائیں، اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائِ نہیں ہے۔

جونا گڑھی

اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے

اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسے کہ دوسرے مقام پر ہے (تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) 032:002 علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی صداقت میں جو احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔

ف ٢ ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سراب صرف وہی لوگ ہونگے جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں اس کے اندر ہدایت کی طلب یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو اسے ہدایت کہاں سے اور کیوں کر حاصل ہو سکتی ہے۔

ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱلْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ

امین احسن اصلاحی

ان لوگوں کے لیے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

ایمان کے معنی

يُؤْمِنُونَ بِٱلْغَيْبِ: ایمان، امن سے ہے۔ ایمان کے اصل معنی امن دینے کے ہیں۔ اگر اس کا صلہ لام کے ساتھ آئے تو اس کے معنی تصدیق کرنے اور رب کے ساتھ آئے تو یقین اور اعتماد کرنے کے ہوجاتے ہیں۔ اس لفظ کی حقیقی روح یقین، اعتماد اور اعتقاد ہے۔ جو یقین، خشیت، توکل اور اعتقاد کی خصوصیات کے ساتھ پایا جائے اس کو ایمان کہتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر، اس کی آیات پر، اس کے احکام پر ایمان لائے اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر کے اس کے فیصلوں پر پوری طرح راضی اور مطمئن ہو جائے وہ مومن ہے۔

یہ لفظ جب اپنے مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس سے خاص اسی چیز پر ایمان لانا مراد ہوتا ہے جس کا اس کے مفعول کی حیثیت سے ذکر ہوتا ہے لیکن اگر مفعول کے بغیر آئے تو اس کے تحت وہ ساری ہی چیزیں آ سکتی ہیں جن پر ایمان لانے کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔ یا جن پر قرینہ دلیل بن سکتا ہے۔

لفظ "غیب" کی تحقیق

غیب” کا لفظ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل معنوں میں آیا ہے۔
وہ جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو۔ اس کا مدمقابل لفظ شہادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ عَالِمُ الغَیۡبِ وَالشَھَادَۃِ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے بھی باخبر ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں اور ان چیزوں سے بھی باخبر ہے جو ہمارے سامنے ہیں۔
وہ چیز جس کے جاننے کا آدمی کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو – نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قران میں نقل ہے
وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْْرِ (۱۸۸ ۔ اعراف)
اگر مجھے غیب کا پتہ ہوتا تو میں خیر میں بہت سا اضافہ کر لیتا۔

وہ جگہ جو آدمی کے سامنے نہ ہو یا وہ سمت جو متعین نہ ہو رہی ہو-
ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْا اَمْرَہُمْ. (۱۰۲ ۔ یوسف)
یہ غیب کے واقعات میں سے ہے جس کو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اور جب وہ اپنے فیصلہ پر متفق ہوئے تو تم ان کے پاس موجود نہ تھے۔

راز کے معنی میں بھی اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ مثلاً نیک بیبیوں کی تعریف میں آتا ہے
حٰفِظٰتُ لِلۡغَیۡبِ – (وہ راز کی حفاظت کرنے والیاں ہیں)۔

بالغیب میں "ب" ظرفیت کی ہے

بِٱلْغَيْبِ کی “ب” کے بارے میں بھی دو رائیں ہو سکتی ہیں۔
ایک یہ کہ اس کو ظرف کے معنی میں لیا جائے یعنی وہ غیب میں ہوتے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ اس معنی کی متعدد مثالیں قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً
الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْْبِ وَہُمْ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُوْنَ. (۴۹ ۔ انبیاء)
جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں غیب میں ہوتے ہوئے اور قیامت سے ڈرنے والے ہیں۔
اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُم بِالغَیْْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ. (۱۸ ۔ فاطر)
تم انہی کو ڈرا سکتے ہو جو غیب میں ہوتے ہوئے اپنے رب سے ڈریں اور نماز قائم کریں۔

اس صورت میں “يُؤْمِنُونَ” عام رہے گا۔ اور وہی تمام چیزیں اس کے تحت آ سکیں گی جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ایمان لانے کے لئے وہ اس بات کے منتظر نہیں ہیں کہ تمام حقائق کا آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں، بلکہ وہ مشاہدہ کے بغیر محض عقل و فطرت کی شہادت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ سلم کی دعوت کی بنا پر ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جن پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سلف میں سے ربیع بن انس نے یہی تاویل اختیار کی ہے اور ہم نے بھی ترجمہ میں اسی کو ترجیح دی ہے۔
دوسری رائے یہ ہو سکتی ہے کہ اس کو صلہ کی “ب” مانا جائے اور “بِٱلْغَيْبِ” کو “يُؤْمِنُونَ” کا مفعول قرار دیا جائے۔ یہ رائے اگرچہ اکثریتی رائے ہے، اور زبان کے اعتبار سے اس میں کوئی بھی نقص نہیں ہے لیکن مندرجہ ذیل وجوہ سے ہمیں یہ رائے کچھ زیادہ قوی نہیں معلوم ہوتی۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس صورت میں ایمان صرف غیب کے ساتھ مخصوص ہو کر رہ جاتا ہے۔ غیب کے سوا بقیہ ساری چیزیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے، ایمان کے دائرہ سے باہر ہوجاتی ہیں۔ برعکس اس کے پہلی صورت میں وہ تمام چیزیں ایمان کے دائرہ میں آجاتی ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے اور جن کی قرآن نے دوسرے مواقع پر تفصیل بیان کر دی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ لفظ غیب کا اطلاق چاہے ان تمام چیزوں پر ہوتا ہو جن پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن نبی اور کتاب پر تو اس کا اطلاق بہرحال نہیں ہوتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ دونوں چیزیں جن پر اللہ تعالیٰ کے بعد ایمان لانا سب سے زیادہ ضروری ہے یہاں ایمان سے کیوں خارج کر دی گئیں؟
تیسری وجہ یہ ہے کہ غیب کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی نہیں بولا گیا ہے۔ غیب اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے نہیں ہے۔ اس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوئے کہ یہاں اللہ تعالیٰ بھی ایمان کے اجزاء میں شامل نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بھی ایمان کے اجزاء میں شامل نہیں ہے تو ایمان بالغیب کے تحت صرف آخرت اور فرشتوں پر ایمان لانا ضروری ٹھہرتا ہے یا زیادہ سے زیادہ مستقبل کے حوادث پر۔ آخر ایمان کے دائرہ کو اس قدر محدود کردینے کی کیا وجہ ہے؟
چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ دوسری تاویل لینے والے حضرات کہتے ہیں کہ غیب سے مراد احوال آخرت ہیں۔ اگر احوال آخرت ہی مراد ہیں تو آخرت کا ذکر تو آگے اسی سلسلہ میں مستقل طور پر آ رہا ہے۔ فرمایا ہے
وَبِالۡاٰخِرَۃِ ھُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ-
اور آخرت پر یہی لوگ ایمان رکھتے ہیں۔
آخر ایک ہی سلسلہ میں ایک ہی بات کو اس طرح دہرانے کی کیا ضرورت تھی؟
پانچویں وجہ یہ ہے کہ پہلی تاویل سے ایک بہت بڑی حقیقت سامنے آتی ہے جس سے یہ دوسری تاویل بالکل خالی ہے۔ وہ یہ کہ ایمان یا خشیت وہی معتبر ہے جو بصیرت اور تقویٰ سے پیدا ہو۔ جو ایمان یا خشیت گناہوں کے نتائج سامنے آجانے کے بعد پیدا ہو خدا کے ہاں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جو لوگ خدا کا عذاب دیکھ کر ایمان لائے ان کے بارہ میں ارشاد یہ ہے۔
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِہٖ آلْاٰنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ. (۵۱۔ یونس)
تو کیا پھر جب عذاب آ نازل ہی ہوگا تب ہی اس کو مانو گے، اس وقت ہم کہیں گے اب! حالانکہ اس کے لئے تم جلدی مچائے ہوئے تھے۔

ظرفیت کے مفہوم کے خلاف ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ جہاں جہاں بھی، قرآن میں لفظ ایمان کے ساتھ “ب” آئی ہے کہیں بھی ظرفیت کے مفہوم میں نہیں آئی ہے۔ لیکن یہ بات کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ اس کے جواب میں بالکل اسی کے برابر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بالغیب کا لفظ قرآن میں جہاں جہاں بھی آیا ہے ظرف ہی کے طور پر آیا ہے، کہیں بھی مفعول کے طور پر نہیں آیا۔ اس وجہ سے جہاں تک قرآن کے نظائر کا تعلق ہے، وہ ظرفیت کے مفہوم کے حق میں زیادہ نمایاں ہیں۔

"اقامت صلٰوة" کا مفہوم،

یقیمون الصلٰوۃ: اقامت کے معنی کسی چیز کے کھڑے کرنے یا اس طرح سیدھے کرنے کے ہیں کہ اس میں کوئی ٹیڑھ باقی نہ رہ جائے۔ فرمایا ہے وہ نماز قائم کرتے ہیں، یہ نہیں کہا ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں قرآن نے نماز کے لئے قائم کرنے کا لفظ استعمال کر کے ایک ہی ساتھ کئی حقیقتوں کی طرف توجہ دلا دی ہے۔
پہلی چیز جس کی طرف یہ لفظ متوجہ کرتا ہے وہ نماز میں اخلاص ہے یعنی نماز صرف اللہ ہی کے لئے پڑھی جائے کسی اور کو اس میں شریک نہ کیا جائے۔ اس کے اندر سیدھے کرنے کا جو مفہوم ہے اس کا تقاضا اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ ہی کے لئے نہ پڑھی جائے۔ دوسرے مقام پر یہ حقیقت واضح لفظوں میں بھی بیان کر دی ہے۔
وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۔ (۲۹ اعراف)
اور اسی کی طرف اپنے رخ کرو ہر مسجد کے پاس اور اسی کو پکارو اسی کے لئے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے۔

یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ نماز میں رخ قبلہ کی طرف ہونا چاہئے کیونکہ وہی توحید اور اخلاص کا مرکز ہے۔
دوسری چیز جس کی طرف یہ لفظ اشارہ کرتا ہے وہ نماز کے اصل مقصود پر دل کو پوری طرح جمانا ہے۔ نماز کا اصل مقصود ذکر الہٰی میں خشوع و خضوع ہے، اگر آدمی اس چیز سے غافل ہو کر نماز پڑھے تو یہ نماز کو قائم کرنے نہیں بلکہ محض چھدا اتارنا ہوا۔ اس حقیقت کی طرف بھی قران نے بعض مقامات پر توجہ دلائی ہے۔ مثلاً
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ. (۱۴ طٰہٰ)
اور نماز کو میرے ذکر کے لئے قائم کرو۔

دوسری جگہ فرمایا ہے۔
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ. (۱۔۲ مومنون)
ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نمازیں خشوع و خضوع سے ادا کرتے ہیں۔

تیسری چیز یہ ہے کہ نماز بغیر کسی کمی بیشی کے اس طریقہ کے مطابق ادا کی جائے جس طریقہ پر اللہ تعالیٰ نے اس کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
فَاِذَا اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ. (۲۳۹ بقرہ)
پس جب تم امن میں ہو جاو تو اس طریقہ کو یاد کرو جو طریقہ اس نے تم کو سکھایا ہے۔

نماز کی صفوں کا ٹھیک کرنا اور ارکان نماز کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ اسی وجہ سے حدیث میں آیا ہے کہ
تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلوۃ-
صفوں کو برابر کرنا بھی اقامت صلوۃ کا ایک جزو ہے۔

چوتھی چیز نماز کی پوری پوری پابندی ہے۔ فرمایا ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ. (۷۸ اسراء)
اور نماز قائم کرو سورج کے زوال کے وقت سے لے کر رات کے تاریک ہونے تک اور صبح کے وقت کا قرآن پڑھنا۔

اسی چیز کو دوسرے مقامات میں “نمازوں کی نگرانی” سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ. (۲۳۸ بقرہ)
پانچویں چیز نماز پر قائم رہنا ہے جیسا کہ فرمایا ہے-
ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَاءِمُوْنَ. (۲۳ معارج)
وہ اپنی نمازوں پر برابر قائم رہتے ہیں۔

چھٹی چیز جمعہ وجماعت کا قیام واہتمام ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جب امت یا امام کی طرف سے اس کی نسبت کی جاتی ہے تب تو واضح طور پر جمعہ وجماعت کا قیام واہتمام ہی مدنظر ہوتا ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو:
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنَّاہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ . (۴۱ حج)
اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا جس میں انہوں نے اپنی ذریت کا مشن بتایا ہے، ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔
رَّبَّنَا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ. (۳۷ ابراہیم)
اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو اس کھیتی کی زمین میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے، اے ہمارے رب، تاکہ یہ نماز قائم کریں۔

لفظ صلٰوة کی حقیقت

“صلوٰۃ” کا لفظ اصل لغت میں کسی شے کی طرف متوجہ ہونے کے لئے آیا ہے۔ پھر یہیں سے یہ لفظ رکوع کے معنی میں اور پھر تعظیم اور تضرع اور دعا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ عبادت کے معنی میں بہت قدیم ہے۔ کلدانی میں دعا اور تضرع کے معنی میں اور عبرانی میں رکوع اور نماز کے معنی میں یہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ ایک اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے جس کی وضاحت قرآن نے بھی کر دی ہے اور سنت نے بھی اس کی پوری وضاحت کی ہے۔ علاوہ ازیں امت کے قولی و عملی تواتر نے اس کی شکل و ہئیت اور اس کے اوقات بالکل محفوظ رکھے ہیں۔ اگر اس کے کسی جزو میں کوئی اختلاف ہے تو وہ محض فروعی قسم کا ہے جس سے اصل حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جاوید احمد غامدی

جو بن دیکھے مان رہے ہیں اور نماز کا اہتمام کر رہے ہیں اور جو کچھ ہم نے اِنھیں دیا ہے ، اُس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کر رہے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

یہ قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے دوسری شرط ہے۔ ” غیب “ سے مراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات وصفات، ملائکہ، وحی، جنّت، دوزخ وغیرہ۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے، ایمان بالغیب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سونگھنے کی شرط لگائے، اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جاسکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا۔

یہ تیسری شرط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہوجائے۔ اور عملی اطاعت کی اوّلین علامت اور دائمی علامت نماز ہے۔ ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مُوٴَذِّن نماز کے لیے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہوجاتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اطاعت کے لیے بھی تیار ہے یا نہیں۔ پھر یہ مُوٴَذِّن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے، اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبّیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہوجاتا ہے کہ مدّعی ایمان اطاعت سے خارج ہوگیا ہے۔ پس ترک نماز دراصل ترک اطاعت ہے، اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص کسی کی ہدایت پر کاربند ہونے کے لیے ہی تیار نہ ہو اس کے لیے ہدایت دینا اور نہ دینا یکساں ہے۔

یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقامت صلوٰۃ ایک جامع اصلاح ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام باقاعدہ قائم کیا جائے۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو، لیکن جماعت کے ساتھ اس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں نماز قائم کی جا رہی ہے۔

یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے کہ آدمی تنگ دل نہ ہو، زر پرست نہ ہو، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں انہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے۔

جونا گڑھی

جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں

اَمُوْر غَیْبُۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ ، وحی، جنت دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔

ف ٢ اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔

ف ٣ اَنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔

وَٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِٱلْـَٔاخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

امین احسن اصلاحی

اور ان کے لئے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں۔

ایمان اور ایقان کے درمیان فرق

وَبِٱلْاٰخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ: آخرت سے مراد دار آخرت یا حیات آخرت ہے۔ آخرت کے لئے یہاں ایمان کے بجائے ایقان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ایمان اور ایقان کے درمیان تھوڑا سا فرق ہے جس کو سمجھ لینا چاہئے۔ ایمان کے معنی تصدیق کرنے اور مان لینے کے ہیں۔ اس کا ضد کفر و انکار اور تکذیب ہے۔ ایقان کے معنی یقین کرنے کے ہیں۔ اس کا ضد گمان اور شک ہے جس طرح کسی شے پر یقین رکھنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی اس پر ایمان بھی رکھتا ہو، اسی طرح کسی چیز پر ایمان رکھنے کے لئے اس پر یقین کرنا شرط نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آدمی کا ایمان محض گمان غالب پر مبنی ہو اور وہ آہستہ آہستہ گمان کی منزل سے نکل کر یقین کی منزل تک پہنچے اور اس طرح اس کے ایمان کی تکمیل ہوجائے۔ یہاں ایقان کا ذکر ایمان کے چند معروف عملی مظاہر کے بعد ہوا ہے جس سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ اوصاف کے حامل ہیں درحقیقت وہی لوگ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اور جو اُسے بھی مان رہے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا اور اُسے بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور آخرت پر فی الواقع یقین رکھتے ہیں۔

یعنی ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر حق کو سمجھ رہے اور اِسی حیثیت سے اُسے تسلیم کر رہے ہیں۔

یعنی آخرت کو محض مانتے ہی نہیں ،ہر طرح کے ریب و گمان سے بالکل پاک ہو کر اُس پر یقین رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہی سبب ہے کہ حق کو ماننے میں کوئی تعصب اور اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کوئی غفلت کسی طرح اُن کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔

ابو الاعلی مودودی

جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔

یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی ان تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے جو وحی کے ذریعے سے خدا نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں نازل کیں۔ اس شرط کی بنا پر قرآن کی ہدایت کا دروازہ ان سب لوگوں پر بند ہے جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لیے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں اور خود کچھ نظریات قائم کر کے انہی کو خدائی ہدایت قرار دے بیٹھیں، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں، مگر صرف اس کتاب یا ان کتابوں پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہی اسی سر چشمے سے نکلی ہوئی دوسری ہدایات تو وہ ان کو قبول کرنے سے انکار کردیں۔ ایسے سب لوگوں کو الگ کر کے قرآن اپنا چشمہء فیض صرف ان لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوں کہ خدا کی یہ ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعے سے ہی خلق تک پہنچتی ہے، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصّب میں بھی مبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستار ہوں، اس لیے حق جہاں جہاں جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سر جھکا دیں۔

یہ چھٹی اور آخری شرط ہے۔ ” آخرت “ ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے۔ اس میں حسب ذیل عقائد شامل ہیں :

(١) یہ کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

(٢) یہ کہ دنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے بلکہ ایک وقت پر، جسے صرف خدا ہی جانتا ہے، اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔

(٣) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوع انسانی کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا، اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔

(٤) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنّت میں جائیں گے اور جو لوگ بد ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔

(٥) یہ کہ کامیابی و ناکامی کا اصلی معیار موجودہ زندگی کی خوشحالی و بدحالی نہیں ہے، بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے، اور ناکام وہ ہے جو وہاں ناکام ہو۔

عقائد کے اس مجمو عے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے، کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک اور تذبذب بھی ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لیے قرآن نے تجویز کیا ہے۔

جونا گڑھی

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں

پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم کردیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔

أُو۟لَـٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ

امین احسن اصلاحی

یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

ہدیً کا مفہوم

عَلَى هُدًى: ھدی کے مختلف معانی اوپر بیان ہو چکے ہیں۔ یہاں مذکورہ معانی میں سے نور بصیرت کے معنی بھی لئے جا سکتے ہیں اور صراط مستقیم کے معنی بھی لئے جا سکتے ہیں۔ ان دونوں معنوں میں سے جو معنی بھی لے لیا جائے آیت کی تاویل ٹھیک بن جاتی ہے اور لغت اور استعمالات قرآن سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

مفلحون کا مفہوم

الْمُفْلِحُونَ: اس لفظ کی اصلی روح انشراح اور انکشاف کی ہے اور اس سے مراد وہ فائزالمرامی اور کامیابی ہوتی ہے جو اگرچہ حاصل ہو تو ایک صبر آزما اور جاں گسل جدوجہد کے بعد لیکن جب حاصل ہو تو محنت کرنے والے نہال ہوجائیں اور ان کی توقعات کے سارے پیمانے اس کے ناپنے سے قاصر رہ جائیں۔

جاوید احمد غامدی

یہی اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

یعنی ٹھیک اُس طریقے پر ہیں جو ہمیشہ سے اہل ایمان کا طریقہ رہا ہے۔

فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو آدمی کو اگرچہ حاصل تو بڑی صبر آزما اور جاں گسل جدوجہد کے بعد ہوتی ہے، لیکن جب حاصل ہو جاتی ہے تو اِس طرح نہال کر دیتی ہے کہ اُس کی توقعات کے سارے پیمانے اُسے ناپنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔

جونا گڑھی

یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں

یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر وعناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔

آیات ۶ تا ۷ ۔ [تمہید ۔ عام خطاب] ان لوگوں (قریش، اہل کتاب اور منافقین کے سردار) کا ذکر جو ایمان کی اس نعمت سے محروم رہنے والے ہیں View

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

امین احسن اصلاحی

جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے لیے یکساں ہے ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

کفر کی حقیقت

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟: کفر کے معنی اصل لغت میں ڈھانکنے اور چھپانے کے ہیں۔ قران میں یہ لفظ شکر کے ضد کی حیثیت سے بھی استعمال ہوا ہے اور ایمان کے ضد کی حیثیت سے بھی۔ پہلی صورت میں اس کے معنی ناشکری اور کفران نعمت کے ہوتے ہیں۔ دوسری صورت میں انکار کے۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ لفظ کی اصل روح ان دونوں معنوں کے اندر موجود ہے۔

الذین کفروا سے کون مراد ہیں

قرآن مجید میں یہ لفظ مطلق بھی استعمال ہوا ہے اور اپنے مفعول کے ساتھ بھی۔ جہاں مفعول کے ساتھ استعمال ہوا ہے وہاں تو متعین طور پر اس مفعول ہی کا کفر و انکار مراد ہے۔ لیکن جہاں کسی مفعول کے بغیر مطلق صورت میں استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم تو ان تمام چیزوں کے انکار کے معنی میں استعمال ہوا ہے جن پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن کہیں کہیں ناشکری اور کفران نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جس کا پتہ قرینہ اور موقع محل سے چلتا ہے۔
موقع کلام کا تقاضا یہ ہے کہ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ سے یہاں انکار کرنے والوں کا کوئی مخصوص گروہ مراد ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ان لوگوں کی چند خاص صفات بھی بیان ہوئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ان کے لئے ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہے، کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں، یہ کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ حال تمام کفار کا نہیں تھا ان میں بہتیرے ایسے بھی تھے جو ابتدا میں منکر و مخالف رہے لیکن بعد میں اسلام لائے۔ اس کی وجہ سے یہ امر تو بدیہی ہے کہ یہاں کوئی مخصوص گروہ مراد ہے۔ البتہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ گروہ کن لوگوں کا ہے؟
ہمارے نزدیک اس سے مراد قریش، اہل کتاب اور منافقین کے وہ لیڈر اور سردار ہیں جن پر قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت پوری طرح واضح ہو چکی تھی لیکن اس وضاحت کے باوجود وہ محض ضد، ہٹ دھرمی، انانیت اور حسد و تکبر کے سبب سے مخالفت کر رہے تھے۔ اس تحصیص کے بعض وجوہ یہ ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس سے اوپر والے ٹکڑے میں اس گروہ کا بیان ہوا ہے جو قرآن پر ایمان لانے والا تھا۔ وہاں ہم نے ھُدیً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ الَّذِیۡنَ یُؤُمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اس سے اہل کتاب اور بنی اسماعیل کے وہ تمام سلیم الفطرت اور خدا ترس لوگ مراد ہیں جن کے ضمیر زندہ، جن کی صلاحیتیں محفوظ اور جن کے دل بیدار تھے۔ انہی کے مقابل میں مذکورہ آیات میں اس گروہ کا بیان ہوا ہے جو ایمان لانے والا نہیں ہے۔ یہ تقابل خود دلیل ہے کہ اس سے مراد قریش اور اہل کتاب میں سے وہ لوگ ہوں جن کو دنیا پرستی اور حسد و انانیت نے بالکل اندھا بہرا کر دیا تھا، جن کی فطرت مسخ ہوچکی تھی اور جو قبول حق کی تمام صلاحیتوں سے یک قلم محروم ہو چکے تھے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں قرآن نے اس گروہ کی جو خصوصیات، ان کا نام لئے بغیر، بیان کی ہیں بعینہٖ وہی خصوصیات دوسرے مقامات میں یا تو نام کی صراحت کے ساتھ بیان کی ہیں یا ایسے واضح قرائن کے ساتھ بیان کی ہیں جن سے گروہ کا تعین آپ سے آپ ہوجاتا ہے۔ ان مقامات کو سامنے رکھ کر اگر اس آیت کے اجمال کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے تو آدمی اسی نتیجہ تک پہنچتا ہے جس نتیجہ تک ہم پہنچے ہیں۔ یعنی اس سے مشرکین، یہود اور منافقین کے وہ سردار اور لیڈر مراد لئے جائیں جن پر حقیقت اچھی طرح واضح ہوچکی تھی کہ قرآن کی دعوت حق ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہے تھے۔ یہاں ہم چند آیتیں نقل کرتے ہیں جن سے ہمارے رائے کی تائید ہوتی ہے۔

مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ وَلَـكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّواْ الْحَيَاةَ الْدُّنْيَا عَلَى الآخِرَةِ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ أُولَـئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (نحل: ۱۰۶-۱۰۸
جس نے کفر کیا اللہ کا ایمان کے بعد، بہ جز ان کے جو مجبور کئے گئے اور جن کے دل ایمان پر جمے رہے، پر جن کے سینے کفر کے لئے کھل گئے تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور اللہ کافر قوم کو راہ یاب نہیں کرتا۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر، کانوں پر، اور جن کی آنکھوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے اور یہی لوگ ہیں جو بے خبر ہیں۔

اس آیت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو لوگ ایمان لاچکنے کے بعد یا حق کے واضح ہوجانے کے بعد محض دنیا پرستی کی وجہ سے کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان پر اللہ کا غضب ہوتا ہے، ان کے لئے عذاب عظیم ہے، ان کے لئے خدا ایمان کی راہ نہیں کھولا کرتا، ان کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے حقیقی مصداق اگر ہوسکتے تھے تو سرداران قریش، علمائے یہود اور منافقین ہی ہوسکتے تھے یا پھر وہ لوگ جو انہی کی روش اختیار کریں۔
دوسری جگہ تمام انبیا کے مخالفین و معاندین کے بارہ میں فرمایا ہے:

تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَآئِهَا وَلَقَدْ جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ مِن قَبْلُ كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللّهُ عَلَىَ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ (اعراف : ۱۰۱)
یہ بستیاں ہیں جن کی سرگزشتیں ہم تم کو سناتے ہیں ان کے پاس ان کے انبیا کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے لیکن وہ ایمان لانے والے نہ بنے، بوجہ اس کے کہ وہ جھٹلاتے رہے پہلے سے۔ اسی طرح اللہ مہر کر دیا کرتا ہے کافروں کے دلوں پر۔

خاص طور پر یہود کے بارہ میں فرمایا ہے:

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بَآيَاتِ اللّهِ وَقَتْلِهِمُ الأَنْبِيَاء بِغَيْرِ حَقًّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلاً (نساء : ۱۵۵)
پس بوجہ اس کے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو توڑا، اللہ کی آیات کا انکار کیا۔ نبیوں کو ناحق قتل کیا اور کہا کہ ہمارے دل تو بند ہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب سے ان پر مہر کر دی ہے تو وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت کم۔

اسی طرح منافقین کے بارہ میں یہ الفاظ وارد ہیں:

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ (منافقون : ۳)
یہ اس وجہ سے کہ وہ ایمان لائے، پھر انہوں نے کفر کیا پس ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی سو وہ نہیں سمجھتے۔

قرآن کی ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ زیر بحث آیات میں ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ کا اشارہ ایک خاص گروہ کی طرف ہے۔لیکن یہ گروہ نہ تو مخصوص طور پر مشرکین کا ہے نہ محدود مفہوم میں اہل کتاب کا بلکہ یہ مشرکین اور اہل کتاب دونوں گروہوں کے ان افراد پر مشمل ہے جو حق کو اچھی طرح پہچان چکنے کے بعد اس کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔
سلف سے اس آیت کی تاویل میں جو اقوال منقول ہیں ان سے بھی ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس سے اہل کتاب کے وہ ہٹ دھرم لوگ مراد ہیں جو ان تمام پیشین گوئیوں کو جھٹلا چکے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں ان کے صحیفوں میں موجود تھیں اور اس طرح انہوں نے اس عہد کو توڑ دیا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے آخری نبی کے متعلق لیا تھا۔ ربیع بن انس کے نزدیک اس سے ان مختلف پارٹیوں کے لیڈر مراد ہیں جو اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھیں۔ یہ دونوں قول ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں بس فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ ربیع بن انس کی تاویل نسبتاً جامع اور وسیع ہے۔ قرآن کے نظائر سے اسی کی تائید ہوتی ہے اس وجہ سے ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے۔

ءَأَنذَرْتَهُمْ: انذار کے معنی ڈرانے، ہوشیار کرنے اور خبردار کرنے کے ہیں۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت و تبلیغ ایک طرف تو نہایت ٹھوس انفسی و آفاقی دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اس میں انذاروتبشیر کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ تبشیر کا مفہوم اس فوزوفلاح اور اس کامیابی وکامرانی کی بشارت دیتا ہے جو نبی کی دعوت قبول کر لینے اور اس کی بتائی ہوئی صراط مستقیم اختیار کر لینے سے دنیا اور آخرت دونوں میں حاصل ہوتی ہے۔ انذار کا مفہوم ان خطرات ومہالک سے آگاہ کرنا ہے جن سے نبی کی تکذیب کرنے والوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں لازماً دوچار ہونا پڑتا ہے۔ انبیا علیہم السلام عام حالات میں یہ دونوں ہی فرض انجام دیتے ہیں۔ لیکن جہاں ضدی اور ہٹ دھرم لوگ مقابل میں آن کھڑے ہوتے ہیں جن کی مخالفت کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض حسد اور عناد کی بنیاد پر ہوتی ہے، وہاں قدرتی طور پر نبی کی دعوت میں انذار کا پہلو غالب ہوجاتا ہے کیونکہ اس وقت حالات اسی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں آپ کے کام کو صرف انذار ہی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ آیت زیر بحث کا تعلق، جیسا کہ واضح ہو چکا ہے، ان مخالفین ومعاندین سے ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ جانتے ہوئے کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی برحق ہیں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے۔
انذار ہو یا تبشیر دونوں کی حقیقت ان قدرتی نتائج سے آگاہ کرنا ہے جو ایمان یا کفر کے اندر مضمر ہیں۔ جس طرح ایک طبیب اپنے زیر علاج مریض کو دوا اور پرہیز کے فوائد اور بدپرہیزی اور مرض سے غفلت کے نتائج آگاہ کرتا ہے اسی طرح پیغمبر بھی اپنی قوم کو اپنی دعوت کے ماننے اور نہ ماننے کے فوائد اور نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔

انذار کی حقیقت

بعض لوگ انذار کی اس حقیقت سے بے خبر ہونے کے سبب سے مذہب کے خلاف یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ موہوم خطرات کے ڈراوے سنا سنا کر لوگوں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے، انسان کی عقل سے اپیل نہیں کرتا۔ یہ معترض عموماً دو باتوں سے بے خبر ہیں، ایک تو یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ قرآن کی دعوت صرف انذار وتبشیر پر ہی مبنی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اندر نہایت مضبوط انفسی وعقلی دلائل بھی رکھتی ہے، انذار وتبشیر اس کی دعوت کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسری چیز جس سے یہ بے خبر ہیں وہ ایمانی واخلاقی اقدار کی قدروقیمت ہے۔ یہ لوگ اس بات سے تو واقف ہیں کہ سنکھیا کھا لینے سے آدمی مرجاتا ہے لیکن یہ حقیقت ان کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ کفر، نفاق اور جھوٹ سے بھی انسان ہلاک ہوجایا کرتا ہے۔ پیغمبر کو چونکہ اخلاقی اقدار کے ثمرات ونتائج کا اچھی طرح علم ہوتا ہے اس وجہ سے وہ لوگوں کو ان سے آگاہ کرتا ہے اور اسی انداز بیان میں آگاہ کرتا ہے جو انداز بیان اس کے علم ویقین کے شایان شان ہوتا ہے۔ اسی چیز کو قرآن مجید انذار کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کے برخلاف) جن لوگوں نے (اِس کتاب کو) نہ ماننے کا فیصلہ کرلیا ہے، اُن کے لیے برابر ہے ،تم اُنھیں خبردار کرو یا نہ کرو، وہ نہ مانیں گے۔

یہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور آپ کے مخالفین کے لیے سرزنش کا مضمون سورہ کی اِس تمہید میں نمایاں ہوتا ہے ۔گویا آپ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لوگ اگر آپ کی بات نہیں سن رہے ہیں تو اِس میں نہ آپ کا کوئی قصور ہے اور نہ آپ کی تبلیغ و دعوت میں کوئی کسر رہ گئی ہے ، بلکہ یہ سرتا سر اِن کے دل کی خرابی ہے جس کی وجہ سے یہ حق کے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’...اللہ کے دین کی صداقتوں کو جھٹلاتے جھٹلاتے اب یہ قانون الٰہی کی زد میں آ چکے ہیں جس کے سبب سے اِن کے دلوں کے اندر سے اثر پذیری کی، اِن کے کانوں کے اندر سے حق نیوشی کی اور اِن کی آنکھوں کے اندر سے عبرت نگاہی کی ساری صلاحیتیں سلب ہو چکی ہیں ۔ اب آپ اِن کی صلاح و فلاح کی طرف سے بالکل مایوس ہو جائیں ۔ اب اِن کے لیے اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو وہ اللہ کا عذاب ہے جس سے وہ لازماً دوچار ہوں گے ۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۱۱۶)

اصل میں ’اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ اِن میں فعل فیصلۂ فعل کے معنی میں ہے اور اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر قرآن اور پیغمبر کی حقانیت اگرچہ پوری طرح واضح ہو چکی تھی، لیکن محض اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور انانیت کے باعث وہ اُن کی مخالفت کر رہے تھے اور اُنھیں کسی طرح مان کر دینا نہیں چاہتے تھے۔

ابو الاعلی مودودی

جن لوگوں نے (اِن باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کر دیا، اُن کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں۔

یعنی وہ چھ کی چھ شرطیں، جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، پوری نہ کیں، اور ان سب کو، یا ان میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔

جونا گڑھی

کافروں کو آپ کا ڈرانا، یا نہ ڈرانا برابر ہے، یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں اور اسی حساب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوشش فرماتے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی (جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ) ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ سے بیشمار لوگ مسلمان ہوئے حتٰی کہ پھر پورا جزیرہ عرب اسلام کے سایہ عاطفت میں آ گیا۔

خَتَمَ ٱللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰٓ أَبْصَـٰرِهِمْ غِشَـٰوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

امین احسن اصلاحی

اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔

ختم کا مفہوم

خَتَمَ ٱللَّهُ: ختم کے معنی عربی زبان میں موم یا مٹی یا کسی اسی طرح کی چیز پر ٹھپہ لگانے کے ہیں۔ یہیں سے یہ لفظ خط پر مہر لگانے اور کسی چیز کے منہ کو اس طرح بند کر دینے کے لئے استعمال ہونے لگا جس کے بعد نہ اس میں کوئی چیز داخل ہوسکے اور نہ کوئی چیز اس سے نکل سکے۔

قرآن مجید میں بعض جگہ جب اللہ تعالیٰ کسی فعل کو اپنی طرف منسوب فرماتا ہے تو اس سے مقصود اس فعل کو اپنی طرف منسوب کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس قانون یا اس سنت کو اپنی طرف منسوب کرنا ہوتا ہے جس قانون اور سنت کے تحت وہ فعل ظہور میں آتا ہے۔ چونکہ یہ قانون خود اللہ تعالیٰ ہی کا مقرر کردہ ہوتا ہے اس وجہ سے وہ فعل جو اس قانون کے تحت ظہور میں آتا ہے بعض اوقات قانون بنانے والے کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے۔ تعبیر مطلب کا یہ اسلوب کم وبیش ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ عربی زبان اور قرآن مجید میں بھی اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں دلوں پر مہر لگانے کے فعل کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے لیکن مقصود اس سے اس سنت اللہ کی اپنی طرف نسبت ہے جو اس نے ہدایت وضلالت کے لئے جاری کر رکھی ہے۔ اور جس کے تحت دلوں پر مہر کرنے کا یہ فعل واقع ہوتا رہا ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ سنت اللہ کیا ہے تو اس کی وضاحت ہم آگے کریں گے۔
 

سمع کے واحد لانے کی وجہ

عَلَىٰ سَمْعِهِمْ: ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہاں سمع کا لفظ واحد کیوں استعمال ہوا ہے جب کہ قلوب وابصار کے الفاظ جمع استعمال ہوئے ہیں۔ کلام کی ہم آہنگی کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ بھی جمع یعنی اسماع استعمال ہوتا؟ میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اس چیز کا تعلق اہل زبان کے طریق استعمال سے ہے۔ قرآن میں یہ لفظ کم وبیش ۲۰-۲۲ مقامات میں استعمال ہوا ہے اور اکثر جگہ قلوب اور ابصار کے ساتھ استعمال ہوا ہے لیکن ہر جگہ واحد ہی کی شکل میں استعمال ہوا ہے، کہیں بھی جمع کی شکل میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید زبان کے لحاظ سے بھی ایک معیاری چیز ہے اس وجہ سے ماننا پڑے گا کہ فصحائے عرب اس سیاق میں اس لفظ کو اسی طرح استعمال کرتے رہے ہیں۔

ختمِ قلوب کی حقیقت اور اس کے بارے میں قانونِ الٰہی

یہاں جس ختم قلوب کا ذکر ہے اس کے بارے میں دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیں۔
ایک یہ کہ اس ختم سے مراد ظاہری نہیں ہے بلکہ ختم معنوی مراد ہے۔ جہاں تک ظاہری چیزوں کے دیکھنے، سننے اورسمجھنے کا تعلق ہے یہ لوگ ان کو دیکھتے، سنتے اور سمجھتے ہیں لیکن اس مشرب کے لوگ اپنی سمجھ بوجھ کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں دنیا کے ظواہر ومحسوسات تک محدود رکھتے ہیں، ان ظواہر ومحسوسات کے پس پردہ جو حقائق ہیں ان کی طرف نہ تو یہ خود متوجہ ہوتے ہیں اور نہ کسی دوسرے توجہ دلانے والے کی بات پر کان دھرتے ہیں۔ دنیا اور زخارف دنیا میں ان کا انہماک اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کسی اور چیز کی طرف توجہ کرنے کی ان کے اندر گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ اپنی ذہانت وفطانت اسی ایک مقصد پر صرف کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آسمان وزمین کا طول وعرض ناپنے میں تو ان کی عقل بڑی تیز ہوجاتی ہے لیکن روحانی اقدار وحقائق کے معاملہ میں وہ بالکل ہی کند ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ان کے مذاق کو بھی اس قدر بگاڑ دیتی ہے کہ صرف وہی باتیں ان کو اچھی لگتی ہیں جن سے ان کے اس بگڑے ہوئے مذاق کو غذا ملے۔ جن باتوں سے اس کی حوصلہ شکنی ہو، خواہ وہ کتنی ہی معقول ہوں، ان سے ان کی طبیعت کو وحشت ہوتی ہے۔ اسی صورت حال کو یہاں ختم قلوب کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔
دوسری یہ کہ اس ختم قلوب سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ان کی ماؤں کے پیٹوں ہی سے ان کے دلوں پر ٹھپے لگا کر پیدا کیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بداعمالیوں سے اپنے آپ کو اس قدر بگاڑ لیا ہے کہ ان کے دل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے اور سمجھنے سے محروم ہوگئے۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے اس نے ہر انسان کو اچھی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، اس کو نیکی وبدی کا امتیاز بخشا ہے اور ساتھ ہی نیکی کو پسند کرنے اور بدی سے نفرت کرنے کا مذاق بھی اس کے اندر ودیعت کیا ہے۔ ان فطری صلاحیتوں سے آراستہ کرنے کے بعد اس نے انسان کو آزاد چھوڑا ہے کہ چاہے وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کا۔ آگے چل کر یہی اختیاری نیکی یا بدی ہے جو اس کی فطری صلاحیتوں کے بنانے یا بگاڑنے میں اصلی دخل رکھتی ہے۔ اگر انسان نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس سے اس کی فطری صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نیکی کی راہ میں ترقی کی توفیق ملتی ہے۔ اور اگر وہ خواہشات نفس کے پیچھے لگ کر بدی کے رستے پر چل پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا دل برائی کا رنگ پکڑنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ رنگ اس پر اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ پھر اس کے اندر نیکی کی کوئی رمق باقی ہی نہیں رہ جاتی۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت آدمی کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور اس کا مذاق طبیعت اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ اس کی ساری دلچسپی صرف بدی ہی کے کاموں سے باقی رہ جاتی ہے۔ نیکی کے کام کرنا تو الگ نیکی کی باتیں سننے سے بھی اس کو وحشت ہوتی ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں یہ بات بار بار بیان ہوئِی ہے کہ آدمی کے دل پر یہ مہر اس کے گناہوں کی پاداش میں لگتی ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:

أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الأَرْضَ مِن بَعْدِ أَهْلِهَا أَن لَّوْ نَشَاء أَصَبْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَنَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لاَ يَسْمَعُونَ (اعراف : ۱۰۰)
کیا ان لوگوں کو جو اگلوں کے بعد اس زمین کے وارث ہوئے اس بات سے کوئی سبق حاصل نہیں ہوتا کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے گناہوں کی پاداش میں ان پر آفت بھی لاتے اور ان کے دلوں پر مہر کر دیتے پس وہ سننے سمجھنے سے رہ جاتے۔

اس آیت میں اس بات کی صاف تصریح ہے کہ دلوں پر مہر گناہوں کی سزا کے طور پر لگتی ہے۔
دوسری جگہ فرمایا ہے:

وَلَقَدْ جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ بِمَا كَذَّبُواْ مِن قَبْلُ كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللّهُ عَلَىَ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ وَمَا وَجَدْنَا لأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ (اعراف ۱۰۱-۱۰۲)
اور ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے لیکن یہ لوگ ایمان لانے والے نہ بنے کیوں کہ یہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے۔ اسی طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر کر دیا کرتا ہے۔ ہم نے ان میں سے اکثر کے اندر عہد کی پابندی نہیں پائی بلکہ ہم نے ان میں سے اکثر کو بدعہد اور نافرمان پایا۔

یعنی اللہ تعالیٰ کے عہد اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں یہ پہلے سے مشاق تھے۔ اس وجہ سے جب ان کے رسول بھی ان کے پاس اللہ کی آیات اور اس کی نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے ان کی بھی کوئِی پرواہ نہیں کی۔ جو لوگ حق کی تکذیب میں اس طرح دیدہ دلیر اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر کر دیا کرتا ہے جس سے ان کی عقل بالکل ہی ماری جاتی ہے۔
اس سے زیادہ وضاحت وتصریح کے ساتھ یہود کے بارے میں فرمایا ہے:

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بَآيَاتِ اللّهِ وَقَتْلِهِمُ الأَنْبِيَاء بِغَيْرِ حَقًّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلاً. (نساء : ۱۵۵)
پس بوجہ اس کے کہ انہوں نے عہد کو توڑا، اللہ کی آیات کا انکار کیا، انبیا کو ناحق قتل کیا اور کہا کہ ہمارے دل تو بند ہیں بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کفر کے سبب مہر کر دی ہے تو وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت کم۔

مذکور بالا آیات سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی ماں کے پیٹ سے اس کے دل پر مہر کر کے نہیں بھیجتا بلکہ یہ مہر بھی جس کے دل پر لگتی ہے اس کے گناہوں کے قدرتی نتیجہ کے طور پر لگتی ہے۔
دوسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ ہر درجہ کا گناہ وہ چیز نہیں ہے جس کے نتیجہ میں کسی کے دل پر مہر لگ جایا کرے، بلکہ کوئی فریاد یا کوئی گروہ جب حق کو حق سمجھتے ہوئے، اپنے دل کی گواہی کے بالکل خلاف محض ضد، نفسانیت، اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اس کی مخالفت کرتا ہے اور اس مخالفت پر جم جاتا ہے تب اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ صحیح طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجایا کرتا ہے۔
تیسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ دل کا اس طرح مہربند ہوجانا اور سمع وبصر کی صلاحیتوں سے اس طرح محروم ہوجانا اللہ تعالیٰ کا ایک عذاب ہے۔ جو اس کی نعمتوں کی ناشکری کی پاداش میں کسی فرد یا گروہ پر اس دنیا میں نازل ہوتا ہے اور اسی عذاب کا فطری نتیجہ وہ عذاب عظیم ہے جس میں اس طرح کے لوگ اس زندگی کے بعد والی زندگی میں مبتلا ہوں گے۔ چنانچہ زیر بحث آیت کے آخر میں جو فرمایا ہے کہ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ- اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے وہ درحقیقت اسی ختم قلوب کے اس قدرتی نتیجہ کا بیان ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا۔
ختم قلوب کی جو حقیقت ہم نے بیان کی ہے اس کی وہی حقیقت احادیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ ہم طوالت سے بچنے کے لئے صرف ایک حدیث پر یہاں اکتفا کرتے ہیں۔

ان المومن اذا اذ نب کانت نکتۃ سوداء فی قلبۃ فان تاب ونزع واستعتب صقل قلبہ وان زادت حتی تعلو قلبہ فذٰلک الران الذی قال اللہ تعالیٰ کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون۔ (ابن کثیر بحوالہ ترمذی)
مومن جب کوئِی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے سبب سے اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے، اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور اللہ تعالی سے معافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کا وہ دھبہ صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ان کی سیاہی اس کے پورے دل پر چھا جاتی ہے تو یہی وہ رین ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے، ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی سیاہی چھا گئی ہے۔

سلف صالحین کے نزدیک بھی ختم قلوب کی یہی حقیقت ہے۔ ابن کثیر نے اعمش کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اعمش کہتے ہیں کہ مجاہد نے ایک مرتبہ ہمیں سمجھایا کہ سلف، (صحابہؓ) دل کو اس ہتھیلی کے مانند سمجھتے تھے۔ جب آدمی کسی گناہ میں آلودہ ہوتا ہے تو (انہوں نے اپنی انگلی سکیڑتے ہوئے سمجھایا) دل اس طرح سکڑ جاتا ہے۔ پھر جب مزید گناہ کرتا ہے تو (دوسری انگلی کو سکیڑتے ہوے بتایا) دل اس طرح بھنچ جاتا ہے اسی طرح تیسری انگلی کو سکیڑا۔ یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے تمام انگلیوں کو سکیڑ لیا۔ پھر فرمایا کہ جب دل گناہوں کے غلبہ سے اس طرح بھنچ جاتا ہے تو اس پر مہر کر دی جاتی ہے۔ مجاہد نے بتایا کہ سلف اسی چیز کو وہ رین قرار دیتے تھے جس کا ذکر کَلَّا بَلۡ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِھِمۡ الآیہ میں آیا ہے۔
ختم قلوب کی اصل حقیقت واضح ہوجانے کے بعد ہمیں جبر و اختیار کی اس بحث میں پڑنے کی ضرورت باقی نہیں رہی جو اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان برپا ہے اور جس میں یہ حضرات بے ضرورت اس آیت کو بھی گھسیٹ لے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں نہ تو اس جبر ہی کے حق میں ہے جس کے مدعی اشاعرہ ہیں اور نہ اس اختیار ہی کے حق میں ہے جس کے علم بردار معتزلہ ہیں بلکہ حق ان دونوں کے درمیان ہے لیکن یہ مقام اس مسئلہ کی تفصیلات کے لئے موزوں نہیں ہے۔ ہم صرف چند اصولی باتیں یہاں بیان کئے دیتے ہیں جو ان لوگوں کے لئے ان شاء اللہ کفایت کریں گی جو اس مسئلہ پر ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر صرف علمی ذہن کے ساتھ غور کریں گے۔ یہ اصولی باتیں مندرجہ ذیل ہیں:

۱ ۔ مبداء فطرت سے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس کو نیکی و بدی کا امتیاز بخشا ہے اور ان میں سے جس کو بھی وہ اختیار کرنا چاہے اس کو اختیار کرنے کی اس کو آزادی دی ہے۔ اس کے بعد اس کا نیک یا بد بننا اس کے اپنے رویہ اور توفیق الہٰی پر منحصر ہے۔ اگر وہ نیکی کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکی کی توفیق بخشتا ہے اور اگر وہ بدی کی راہ پر جانا چاہتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ، اگر چاہتا ہے، بدی کی راہ پر جانے کے لئے بھی چھوڑ دیتا ہے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ جن چیزوں پر انسان کا مواخذہ کرے گا یا جن پر اس کو اجر دے گا ان کے لئے اس نے انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی بھی بخشی ہے۔ جو لوگ اس اختیار وارادہ کے حامل نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو مواخذہ سے بھی بری رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہے اور اس کا استعمال بھی انسان اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کے تحت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے تحت انسان کے جس ارادہ کو چاہے پورا نہ ہونے دے البتہ اگر وہ اپنی کسی حکمت کے تحت اس کے کسی نیکی کے ارادہ کو پورا نہیں ہونے دیتا تو اس نیکی کے اجر سے اس کو محروم نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر اس کی کسی بدی کی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیتا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے اخروی خمیازہ سے بھی لازماً اس کر بری قرار دے دے۔

۳ ۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی مطلق مشیت کا بیان ہوا ہے اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس کی مشیت کو اس کے سوا کوئی دوسرا روک یا بدل نہیں سکتا۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی مشیت سرے سے کسی عدل وحکمت کی پابند ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ عادل اور حکیم ہے، اس کا کوئی کام بھی عدل اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس وجہ سے جہاں کہیں بھی اس نے اپنی مشیت کو بیان فرمایا ہے اس کو اس قانون عدل وحکمت ہی کے تحت سمجھنا چاہئے جس کے تحت اس نے اس دنیا کے نظم کو چلانا پسند فرمایا ہے۔ یہ خیال کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ اپنی جو سنت اس نے خود جاری کی ہے اور جس قانون عدل کو اس نے خود پسند فرمایا ہے اپنی مشیت کے زور سے خود ہی اس کو توڑے گا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس پر ہدایت وضلالت کے لئے اس نے عدل وحکمت کا کوئی ضابطہ سرے سے مقرر ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ہدایت وضلالت اس سنت کے مطابق واقع ہوتی ہے جو اس نے ہدایت وضلالت کے لئے مقرر کر رکھی ہے اور کوئی دوسرا اس سنت کے توڑنے یا بدلنے پر قادر نہیں ہے۔

۴ ۔ قرآن مجید میں بعض افعال اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمائے ہیں لیکن ان سے اصل مقصود، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، ان افعال کی نسبت نہیں ہے بلکہ ان ضابطوں اور ان قوانین کی نسبت ہے جن کے تحت وہ افعال واقع ہوئے ہیں۔ چونکہ وہ ضابطے اور قاعدے خود اللہ تعالیٰ ہی کے ٹھہرائے ہوئے ہیں اس وجہ سے کہیں کہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے تحت واقع ہونے والے افعال کو بھی اپنی طرف منسوب کر دیا ہے۔ مثلاً فرمایا ہے فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم (جب وہ کج ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل کج کردیے) یا فرمایا ہے ونقلب افئدتھم وابصارھم (اور ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیتے ہیں) اس طرح کے مواقع پر عموماً قرآن مجید میں وہ اصول بھی بیان کر دیا جاتا ہے جس کے تحت وہ فعل واقع ہوتا ہے۔ مثلاً اس طرح کی کوئی بات کہہ دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں گمراہ کرتا مگر فاسقوں کو۔ ان اشارات کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ قاری اصل حقیقت کی طرف متوجہ ہوجائے اور ظاہری الفاظ سے کسی مغالطہ میں نہ پڑجائے۔

۵ ۔ اللہ تعالیٰ کا ازلی وابدی اور محیط کل علم، اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی سنتوں میں سے کسی سنت کی نفی نہیں کرتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کے متعلق ازل سے یہ جانتا ہے کہ وہ ہدایت کی راہ اختیار کرے گا یا ضلالت کی لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ ہدایت وضلالت کو اسی سنت اللہ کے مطابق اختیار کرے گا جو ہدایت وضلالت کے لئے اس نے مقرر کر رکھی ہے۔
ان اصولی باتوں کو جو شخص پیش نظر رکھے گا وہ انشاء اللہ بہت سی الجھنوں سے آپ سے آپ نکل جائے گا جو جبر و اختیار کے معاملہ میں قرآن مجید کی پیدا کردہ نہیں بلکہ متکلمین کی موشگافیوں کی پیدا کردہ ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اُن کے دلوں اور کانوں پر (اب) اللہ نے (اپنے قانون کے مطابق) مہر لگا دی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ اور (قیامت کے دن) ایک بڑا عذاب ہے جو اُن کے لیے منتظر ہے۔

اصل الفاظ ہیں: ’وَعَلٰی سَمْعِھِمْ‘۔ اِن میں ’سمع‘ مصدر ہے اور اِسی بنا پر واحد آیا ہے۔

یعنی اپنے اُس قانون کے مطابق جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے اور جس کی رو سے جب کوئی شخص حق کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرتا اور جانتے بوجھتے اُسے ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے مہلت دی جاتی ہے ۔ پھر اِس مہلت سے وہ اگر فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اُس کے دل و دماغ پر مہر کر دی جاتی ہے اور اِس طرح وہ اِسی دنیا میں خدا کے عذاب کی زد میں آ جاتا ہے۔ اِس مہر کے نتیجے میں آدمی کا مذاق طبیعت اِس قدر بگڑ جاتا ہے اور اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اِس قدر ماؤف ہو جاتی ہے کہ صرف وہی باتیں اُسے اچھی لگتی ہیں جن سے اُس کے بگڑے ہوئے مذاق کو غذا ملے ۔ اُس کی ساری دل چسپی صرف بدی کے کاموں سے رہ جاتی ہے۔ نیکی کی بات معقول سے معقول اسلوب میں بھی کہی جائے تو اُس سے اُس کو وحشت ہوتی ہے ۔ وہ کبھی دل کی آمادگی اور اُس کے حضور کے ساتھ اُسے سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اِس قانون کی وضاحت کے لیے دیکھیے : سورۂ نساء (۴) آیت ۵۵ا، اعراف (۷ ) آیات ۱۰۰۔ ۱۰۲، نحل (۱۶) آیات ۱۰۶۔ ۱۰۸ اور صف (۶۱) آیت ۵۔
اِس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آدمی کے اندر ایمان و ہدایت کی دعوت اُس کے دل و دماغ اور اُس کی آنکھوں اور کانوں ہی کے راستے سے داخل ہوتی ہے۔ وہ اگر انفس و آفاق کی نشانیوں پر بصیرت کی نگاہ ڈالے، اُن پر غور کرے ،خدا کے کلام اور دعوت حق کے علم برداروں کی باتیں سراپا گوش ہو کر سنے تو اُس کو ہدایت ملتی ہے ؛اور اُنھیں دیکھنے ،سننے اور سمجھنے سے انکار کر دے تو گمراہی اور ضلالت کی بھول بھلیاں اُس کا مقدر ٹھیرتی ہیں ،ایمان و ہدایت کی راہ پھر اُس کے لیے ہر گز نہیں کھل سکتی۔

ابو الاعلی مودودی

اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مہر لگا دی تھی، اس لیے انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے ان بنیادی امور کو رد کردیا جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دوسرا راستہ پسند کرلیا، تو اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی۔ اس مہر لگنے کی کیفیت کا تجربہ ہر اس شخص کو ہوگا جسے کبھی تبلیغ کا اتفاق ہوا ہو۔ جب کوئی شخص آپ کے پیش کردہ طریقے کو جانچنے کے بعد ایک دفعہ رد کردیتا ہے، تو اس کا ذہن کچھ اس طرح مخالف سمت میں چل پڑتا ہے کہ پھر آپ کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، آپ کی دعوت کے لیے اس کے کان بہرے، اور آپ کے طریقے کی خوبیوں کے لیے اس کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں، اور صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے۔

جونا گڑھی

اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے

یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہوچکی ہے اور ان کے کان حق کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح سے لا سکتے ہیں ؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے آیا ہے اور آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے مغفرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اگر وہ توبہ کر کے گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف اور شفاف ہوجاتا ہے اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 14؀) 083:014 یعنی ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔

آیات ۸ تا ۱۶ ۔ [تمہید ۔ عام خطاب] ایمان نہ لانے والوں کے ایک دوسرے گروہ (یہود) کا ذکر View

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِٱللَّـهِ وَبِٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ

امین احسن اصلاحی

اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں۔

الناس سے مراد

مِنَ ٱلنَّاسِ: الناس کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ یہاں اس عام سے ایک خاص گروہ مراد ہےاور وہ گروہ ہے یہود کا۔ اس تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ صرف یہود ہی ہو سکتے تھے جن کے اندر کی کوئی جماعت وہ روپ دھار سکتی تھی جس کی طرف قرآن نے ان آیات میں اشارہ کیا ہے۔ آگے مستقل عنوان سے اس اجمال کی وضاحت آئے گی۔

جاوید احمد غامدی

اور اِنھی لوگوں میں وہ (منافقین ) بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کو مانا ہے اور قیامت کے دن کومانا ہے، دراں حالیکہ وہ اصلاً اِن میں سے کسی چیز کو بھی نہیں مانتے۔

یعنی اِنھی منکرین میں۔

اِس سے مراد وہ منافقین یہود اور اوس و خزرج میں سے اُن کے ساتھی ہیں جو اسلام کی کھلی مخالفت کے بجاے اُس کے اور یہودیت کے درمیان ایک قسم کے سمجھوتے کی خواہش رکھتے تھے ۔ اُن کی مخالفت مصلحت اندیشی اور مصالحت پسندی کے پردے میں چھپی ہوئی تھی ۔ اپنے زعما کے طریقے پر وہ اسلام کے مقابلے میں مجرد انکار اور ضد کی پالیسی کو صحیح نہیں سمجھتے تھے ۔ اِس کے برعکس اُن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ جس حد تک اپنے آبائی طریقے پر قائم رہتے ہوئے اسلام سے موافقت پیدا کی جا سکتی ہے ،کی جائے۔ چنانچہ وہ اللہ اور آخرت پر اپنا ایمان مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے اور اُن سے یہ چاہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اپنے لیے ، بے شک پیغمبر مانیں، لیکن یہود کے لیے آپ کو اپنا پیغمبر ماننے کا مطالبہ وہ اُن سے نہ کریں اور اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہوئے دین داری اور خدا پرستی کا ایک مقام اُن کے لیے بھی تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں۔ اُن کا خیال تھا کہ اِس طرح کفر و ایمان کی جوکشمکش یثرب میں پیداکر دی گئی ہے ،اُس کا خاتمہ ہو جائے گا اور دونوں فریق امن و سلامتی کے ساتھ وہاں رہ سکیں گے ۔ اپنے اِس طرزعمل کو وہ اِسی لحاظ سے اصلاح کی کوشش سے تعبیر کرتے تھے۔
یعنی یہ دونوں باتیں ہم مانتے ہیں ، لہٰذا اِس پر مزید کسی ایمان کا تقاضا تم کو ہم سے نہیں کرنا چاہیے۔
اِس لیے کہ وہ اگر خدا اور آخرت پر فی الواقع ایمان رکھتے ہوتے تو حق کے معاملے میں یہ منافقانہ طرز عمل کبھی اختیار نہ کرتے۔

ابو الاعلی مودودی

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔

جونا گڑھی

بعض کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن در حقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں۔

یہاں سے تیسرے گروہ یعنی منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا یوں اس فریب کا سارا نقصان خود انہی کو پہنچتا ہے کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کرلی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔

يُخَـٰدِعُونَ ٱللَّـهَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ

امین احسن اصلاحی

یہ لوگ اللہ کو اور ایمان لانے والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکا دے رہے ہیں اور اس کا احساس نہیں کر رہے ہیں۔

خدع اور مخادعت کا مفہوم

يُخَٰدِعُوۡنَ ٱللَّهَ: مخادعت کے معنی دھوکا دینے کی کوشش کرنا، عام اس سے کہ وہ دھوکا کامیاب ہوسکے یا نہ ہوسکے۔ یہاں مخادعت کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے اور خدع کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے۔ جہاں لفظ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے وہاں تو مخادعت استعمال ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کی خواہش ہو تو کوئی شخص اپنی حماقت کے سبب سے کرسکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کو دھوکا دے نہیں سکتا۔ برعکس اس کے خود ان کے لئے خدع کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ جو شخص خدا کو دھوکا دینے کا ارادہ کرتا ہے وہ اپنی اس کوشش میں ناکام تو رہتا ہے لیکن خود اپنے آپ کو وہ ضرور دھوکے میں ڈال دیتا ہے۔

وَمَا يَشْعُرُونَ: شعور کا لفظ کسی محسوس چیز کے ادراک کے لئے آیا کرتا ہے۔ یہاں اس لفظ کا استعمال اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اگرچہ خدا کو دھوکا دینے کی کوشش میں خود دھوکا کھا جانا ایک محسوس ہونے والی چیز ہے لیکن یہ برخود غلط لوگ ہوشیاری و چالاکی کے زعم کے باوجود اتنے غبی ہیں کہ اس حقیقت کا احساس نہیں کر رہے ہیں کیونکہ ابھی اس کا نتیجہ ان کے سامنے نہیں آیا ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہ اللہ اور اہل ایمان، دونوں کو فریب دینا چاہتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ ہی کو فریب دے رہے ہیں، لیکن اِس کا شعور نہیں رکھتے۔

اصل الفاظ ہیں: ’یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ‘۔ ’مخادعۃ‘ کے معنی کسی کو دھوکا دینے کی کوشش کرنے کے ہیں۔ غور کیجیے تو ’خدع‘ کے مقابلے میں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے تعلق سے نہایت موزوں استعمال ہوا ہے، اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کی کوشش تو کوئی شخص اپنی حماقت کے سبب سے کر سکتا ہے، لیکن اُس کو دھوکا دے نہیں سکتا۔

یعنی اِس کا نتیجہ چونکہ ابھی اِن کے سامنے نہیں آیا ،اِس لیے یہ اِس حقیقت کا احساس نہیں کر رہے ہیں کہ خدا کو دھوکا دینے کی کوشش میں یہ خود دھوکا کھا رہے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔

یعنی وہ اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ ان کی یہ منافقانہ روش ان کے لیے مفید ہوگی، حالانکہ دراصل یہ ان کو دنیا میں بھی نقصان پہنچائے گی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ایک منافق چند روز کے لیے لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے مگر ہمیشہ اس کا دھوکا نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کی منافقت کا راز فاش ہو کر رہتا ہے۔ اور پھر معاشرے میں اس کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہتی۔ رہی آخرت، تو وہاں ایمان کا زبانی دعویٰ کوئی قیمت نہیں رکھتا اگر عمل اس کے خلاف ہو۔

جونا گڑھی

وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔

فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ ٱللَّـهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۢ بِمَا كَانُوا۟ يَكْذِبُونَ

امین احسن اصلاحی

ان کے دلوں میں روگ تھا تو اللہ نے ان کے روگ کو بڑھا دیا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے بوجہ اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے ہیں۔

مرض کا مفہوم

فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ: مرض کا لفظ قرآن میں عموماً دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک کینہ اور حسد کے معنی میں دوسرے نفاق کے معنی میں۔ جن مقامات میں یہ لفظ نفاق کے معنوں میں استعمال ہوا ہے وہاں تو یہ واضح طور پر کینہ اور حسد کے معنی میں ہے لیکن جن مقامات میں یہ تنہا استعمال ہوا ہے وہاں یا تو دونوں معانی اس کے اندر جمع ہیں یا قرینہ اس کے دونوں معانی میں سے کسی ایک معنی کو متعین کرتا ہے۔ یہاں واضح قرینہ اس بات کے لئے موجود ہے کہ اس سے مراد حسد ہے کیوں کہ یہاں جس گروہ کا بیان ہے آگے چل کر واضح ہو گا کہ یہ یہود ہی کے اندر کا ایک گروہ ہے اور یہود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں سے جو حسد تھا، وہ معلوم و مشہور ہے۔ قران مجید نے متعدد مقامات پر اس کا ذکر فرمایا ہے۔

زیادتیِ مرض کا پہلو

فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا: یہاں حسد کے بڑھانے کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے جو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے تو یہ درحقیقت اس سنت کو اس نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے جس کے تحت یہ فعل انجام پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے سینہ کو ایمان و اسلام کی جلوہ گاہ بنانے کے بجائے اس کو بغض و حسد ہی کی پرورش گاہ بنائے رکھنا چاہتا ہے تو اس کے سامنے اسی طرح کے حالات و واقعات ظاہر ہوتے ہیں جو اس کی اسی بِس بھری فصل کی آبیاری کرتے ہیں۔ یہود کو مسلمانوں ہر حسد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام کی نعمت کیوں دے دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام اور اس کی برکتوں کی روز افزوں ترقی نے ان کے اس حسد کے اسباب میں اور زیادہ اضافہ کیا اور یہ اضافہ برابر ہوتا ہی رہا۔ یہاں تک کہ اس چیز نے ان کو بالکل تباہ کر کے چھوڑا۔

جاوید احمد غامدی

اِن کے دلوں میں (حسد کی) بیماری تھی تو اللہ نے (اب) اِن کی اِس بیماری کو اور بڑھا دیا ہے، اور اِن کے اِس جرم کی پاداش میں کہ یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں،اِن کے لیے بڑا دردناک عذاب ہے۔

یعنی اِنھیں اِس بات پر حسد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت سے بنی اسمٰعیل کو کیوں نوازا ہے ۔ پھر جب اسلام اور اُس کی برکتوں میں روز بروز ترقی ہوئی تو اِن کا یہ حسد اور بڑھ گیا ، یہاں تک کہ اِس نے اِن کو بالکل تباہی کے کنارے پر پہنچا کر چھوڑا۔

ابو الاعلی مودودی

ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔

بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے۔ اور اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں۔

جونا گڑھی

ان کے دلوں میں بیماری تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا اور ان کے جھوٹ کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

بیماری سے مراد وہی کفر و نفاق کی بیماری ہے جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا منافقین کی علامات میں سے ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔

Page 1 of 29 pages  1 2 3 >  Last ›