برجوں والا آسمان گواہی دیتا ہے
برج کے معنی قلعے اور گڑھی کے ہیں۔ یہاں اِس سے مراد آسمان کے وہ قلعے اور گڑھیاں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے برابر کائنات کی نگرانی کے لیے مامور رہتے ہیں۔اِن کی گواہی اِس لیے پیش کی گئی کہ مکہ اور طائف کے فراعنہ کو متنبہ کیا جائے کہ مسلمانوں پر جو ظلم و ستم وہ توڑ رہے ہیں، اُس کا یوم حساب دور نہیں ہے۔ آسمان کے برج گواہی دیتے ہیں کہ ہر چیز خدا کی نگاہ میں ہے اور اُس کے کروبی اُن میں بیٹھے ہوئے ہر گوشے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ اہتمام اِسی لیے کیا گیا ہے کہ دنیا کو جزا و سزا کے دن تک پہنچانا مقصود ہے۔
قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی ،
اصل الفاظ ہیں ذات البروج۔ یعنی برجوں والے آسمان کی۔ مفسرین میں سے بعض نے اس سے مراد قدیم علم ہیبت کے مطابق آسمان کے 12 برج لیے ہیں۔ اور ابن عباس، مجاہد، قتادہ، حسن بصری، ضحاک اور سدی کے نزدیک اس سے مراد آسمان کے عظیم الشان تارے اور سیارے ہیں۔
برجوں والے آسمان کی قسم
بروج، برج کی جمع ہے، برج کے اصل معنی ظہور کے ہیں، یہ کواکب کی منزلیں ہیں جنہیں ان کے محل اور قصور کی حثییت حاصل ہے ظاہر اور نمایاں ہونے کی وجہ سے انہیں برج کہا جاتا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے الفرقان، ٦١ کا حاشیہ بعض نے بروج سے مراد ستارے لیے ہے۔ یعنی ستارے والے آسمان کی قسم، بعض کے نزدیک اس سے آسمان کے دروازے یا چاند کی منزلیں مراد ہیں (فتح القدیر)
اور وعدہ کیے ہوئے دن کی
قیامت کی قسم خود قیامت پر: یہ اس روز قیامت کی قسم ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ جس طرح سورۂ قیامہ میں اس کی قسم کھائی ہے اسی طرح یہاں بھی قسم کھائی ہے۔ قیامت کی قسم خود قیامت ہی سے ڈرانے کے لیے اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جس سے کسی ذی ہوش کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ سورۂ قیامہ میں فرمایا ہے کہ اس کی شہادت خود انسان کے نفس ہی کے اندر موجود ہے، اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی خارجی شہادت کی ضرورت نہیں ہے۔
’بَلِ الْإِنسَانُ عَلَی نَفْسِہِ بَصِیْرَۃٌ ۵ وَلَوْ أَلْقَی مَعَاذِیْرَہُ‘ (القیامہ ۷۵: ۱۴-۱۵)
(بلکہ انسان خود اپنے اوپر حجت ہے اگرچہ وہ کتنے ہی عذرات تراشے)۔
اور وہ دن بھی جس کا وعدہ (تم سے) کیا جا رہا ہے
یعنی روز قیامت جو آپ ہی اپنی گواہی ہے۔ کوئی ذی ہوش اِس کا انکار نہیں کر سکتا، اِس لیے کہ اِس کی شہادت خود انسان کے نفس کے اندر موجود ہے، اِس کو ثابت کرنے کے لیے کسی خارجی شہادت کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے
یعنی روز قیامت۔
وعدہ کئے ہوئے دن کی قسم !
اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔
اور دیکھنے والے اور دیکھی ہوئی کی
قیامت کے ان تمام شواہد کی طرف اشارہ جو آفاق میں موجود ہیں: نکرہ یہاں تعمیم کے لیے ہے جس سے قیامت اور جزاء و سزا کے ان تمام دلائل و شواہد کی طرف اشارہ ہو گیا ہے جو آفاق کے ہر گوشے میں موجود ہیں بشرطیکہ انسان آنکھیں اور عبرت پذیر دل رکھتا ہو۔ مثلاً
۔۔۔ اس کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز خالق کی قدرت، حکمت، رحمت، ربوبیت اور دوسری اعلیٰ صفات کی گواہی دیتی ہے۔ ان صفات کا بدیہی تقاضا، جیسا کہ قرآن نے وضاحت فرمائی ہے، یہ ہے کہ یہ دنیا نہ یوں ہی چلتی رہے اور نہ یوں ہی ایک حادثہ کے طور پر تمام ہو جائے بلکہ واجب ہے کہ ایک ایسا دن آئے جس میں اللہ تعالیٰ اس کے نیکوں اور بدوں میں امتیاز کرے۔ جنھوں نے اس کے منشاء کے مطابق زندگی گزاری ہو وہ انعام پائیں اور جنھوں نے شتر بے مہار کی زندگی گزاری ہو وہ اس کی سزا بھگتیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کائنات کے خالق کے نزدیک خیر اور شر، نیک اور بد میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔
۔۔۔ قرآن نے جا بجا رسولوں اور ان کی قوموں کی کشمکش اور اس کشمکش کے نتیجہ کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں اور یہ دکھایا ہے کہ اس نے کس طرح ان لوگوں کو پامال کیا جنھوں نے اس کے رسولوں کی تکذیب کی اگرچہ وہ بڑی قوت و شوکت رکھنے والی قومیں تھیں۔ پھر ان کے آثار سے لوگوں کو سبق حاصل کرنے کی دعوت دی اور فرمایا ہے کہ ہم نے یہ آثار زمین میں محفوظ کیے ہی اس لیے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھیں اور ان سے عبرت پکڑیں کہ اللہ نے جو کچھ ان کے ساتھ کیا ہے وہی ان کے ساتھ بھی کرے گا اگر انھوں نے بھی انہی کی روش اختیار کی اور انہی کی طرح اکڑ دکھائی۔
اس استدلالی پہلو کے ساتھ ساتھ ’شاہد‘ اور ’مشہود‘ کے الفاظ کے اندر ایک تخویف کا پہلو بھی ہے جو قیامت کے دن لوگوں کے سامنے آئے گا۔ وہ یہ کہ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ جو کچھ وہ دنیا میں کر رہا ہے ان میں سے کوئی چیز خدا سے مخفی ہے بلکہ وہ جو کچھ کرے گا ایک ایک کر کے وہ اس کے سامنے آئے اور ہر چیز وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ اس کے اعضاء و جوراح خود اس کے ہر قول و فعل کی گواہی دیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ’کرامًا کاتبین‘ اس کے جملہ نیک و بد اعمال و اقوال کی رپورٹ پیش کریں گے، حضرات انبیاء علیہم السلام اور صالحین و مصلحین بھی گواہی دیں گے کہ انھوں نے کیا بتایا اور سکھایا اور لوگوں نے ان کے اور ان کی تعلیمات کے ساتھ کیا سلوک کیا۔
اور (دنیا میں) ہر دیکھنے والا، (اگر وہ عبرت کی نگاہ سے دیکھے) اور جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے
اِس سے مراد خدا کی قدرت، رحمت، حکمت اور ربوبیت کی نشانیاں اور زمین پر اُس کی دینونت کے مظاہر ہیں جنھیں انسان ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے رہے ہیں۔
اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی
دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں، مگر ہمارے نزدیک سلسلہ کلام سے جو بات مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھنے والے سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے روز حاضر ہوگا اور دیکھی جانے والی چیز سے مراد خود قیامت ہے جس کے ہولناک احوال کو سب دیکھنے والے دیکھیں گے۔ یہ مجاہد، عکرمہ، ضحاک، ابن نجیح اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے۔
حاضر ہونے والے اور حاضر کئے گئے کی قسم
شَاھْدٍ اور مَشْھُوْدِ کی تفسیر میں بہت اختلاف ہے، امام شوکانی نے احادیث و آثار کی بنیاد پر کہا ہے کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے، اس دن جس نے جو بھی عمل کیا ہوگا یہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گا، اور مشہود سے عرفہ (٩ ذوالحجہ) کا دن ہے جہاں لوگ حج کے لئے جمع اور حاضر ہوتے ہیں۔
ہلاک ہوئے (ایندھن بھری آگ کی) گھاٹی والے
منکرین قیامت کو تنبیہ: یہ مذکورہ قسموں کا جواب نہیں ہے بلکہ سورۂ ق اور بعض دوسری سورتوں میں جس طرح جواب قسم حذف ہو گیا ہے اسی طرح یہاں بھی جواب قسم حذف کر کے اس کی جگہ منکرین قیامت کے لیے تذکیر و تنبیہ کی آیتیں رکھ دی گئی ہیں۔ یہ طریقہ ان مواقع میں اختیار کیا جاتا ہے جہاں جواب قسم اس قدر واضح ہو کہ ذکر کے بغیر بھی ذہن اس کی طرف بے تکلف منتقل ہو سکے۔ اس سے کلام میں ایجاز بھی پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ساری بات جواب قسم کی حیثیت سے محذوف بھی مانی جا سکتی ہے۔ جس کے لیے کلام کا سیاق و سباق مقتضی ہو۔ یہاں مذکورہ قسموں کی روشنی میں مقسم علیہ کو کھولیے تو یہ ہو گا کہ قیامت شدنی ہے، اللہ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے، اس دن ہر شخص اپنے کیے کا انجام دیکھے گا۔
’اُخْدُوْدٌ‘ کے معنی کھڈ، کھائی اور گڑھے کے ہیں۔ اس کی وضاحت ’النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ‘ سے فرما دی گئی ہے۔ یعنی یہ گڑھے ایندھن والی آگ سے بھرے ہوں گے۔ ایندھن والی آگ، کی صفت سے مقصود اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اس آگ کے برابر بھڑکتے رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے وافر ایندھن فراہم کر رکھا ہے، کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ ایندھن کی کمی کے سبب سے کبھی یہ دھیمی پڑ جائے گی۔ اس ایندھن کی نوعیت سورۂ بقرہ آیت ۲۴ میں یوں واضح فرمائی گئی ہے:
’فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ‘
(پس اس آگ سے بچو جس کے ایندھن لوگ بنیں گے اور پتھر)۔
’اَصْحٰبُ الْأُخْدُوْدِ‘: ’اَصْحٰبُ الْأُخْدُوْدِ‘ کے تحت مفسرین نے ایک بادشاہ کا قصہ نقل کیا ہے لیکن اس کا کوئی نام یا زمانہ نہیں بتایا ہے۔ بس اتنا ہی بتاتے ہیں کہ اس نے اپنے دور کے بہت سے باایمان نصاریٰ کو محض اس جرم میں آگ کے گڑھوں میں پھنکوا دیا کہ انھوں نے اس کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ اہل کتاب کی عقائدی چپقلش کے دور میں ایک دوسرے کو جلانے کے بعض واقعات تاریخوں میں مذکور ہیں لیکن خاص اس واقعہ سے متعلق مفسرین نے جو عجیب و غریب باتیں نقل کی ہیں وہ کسی طرح بھی قابل اعتبار نہیں ہیں، اس وجہ سے ہم ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔ یہاں مخاطب، جیسا کہ ہم اشارہ کر چکے ہیں، قریش کے فراعنہ ہیں جو کمزور مسلمانوں کو ظلم و ستم کا ہدف بنائے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایسے مجہول بادشاہ کے انجام سے کیا سبق حاصل کرتے جس کا نام تک نہ ان کو معلوم تھا نہ مفسرین کے علم میں ہے۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ’اَصْحٰبُ الْأُخْدُوْدِ‘ کے لیے یہاں جو زجر اور وعید ہے وہ آخرت سے متعلق ہے نہ کہ اس دنیا سے متعلق۔ اگر اس کو اس دنیا سے متعلق مانیے تو اس سے ان کے ظلم کی ایک ہلکی سی تصویر تو ضرور سامنے آتی ہے لیکن ان کا کوئی ایسا عبرت انگیز انجام قرآن نے نہیں بتایا ہے جو قریش کے لیے سبق آموز ہو سکتا۔ یہ بات کہ ان کی بھڑکائی ہوئی آگ نے خود ان کو اور ان کی بستیوں کو جلا کر راکھ بنا دیا صرف مفسرین نے بیان کی ہے۔ قرآن نے کوئی اشارہ اس کی طرف نہیں کیا حالانکہ پیش نظر مقصد کے لیے اصل ظاہر کرنے کی بات یہی تھی۔
یہ سب گواہی دیتے ہیں (کہ قیامت ہو کر رہے گی۔اِس لیے) مارے گئے گھاٹی والے
یہ اوپر کی سب قسموں کا مقسم علیہ ہے جو اصل میں وضاحت قرینہ کی بنا پر حذف کر دیا گیا ہے۔استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ طریقہ اُن مواقع میں اختیار کیا جاتا ہے جہاں جواب قسم اِس قدر واضح ہو کہ ذکر کے بغیر بھی ذہن اُس کی طرف بے تکلف منتقل ہو سکے۔ اِس سے کلام میں ایجاز بھی پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ساری بات جواب قسم کی حیثیت سے محذوف بھی مانی جا سکتی ہے جس کے لیے کلام کا سیاق و سباق مقتضی ہو۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۲۸۹)
یہ قریش کے اُن فراعنہ کو وعید ہے جو مسلمانوں کو ایمان سے پھیرنے کے لیے ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ اُنھیں بتایا گیا ہے کہ وہ اگر اپنی روش سے باز نہ آئے تو دوزخ کی اُس گھاٹی میں پھینک دیے جائیں گے جو ایندھن سے بھری ہوئی ہے۔ اُس کی آگ نہ دھیمی ہو گی اور نہ بجھے گی۔
کہ مارے گئے گڑھے والے، ﴿اس گڑھے والے﴾
n/a
(کہ) خندقوں والے ہلاک کئے گئے
یعنی جن لوگوں نے خندقیں کھود کر اس میں رب کے ماننے والوں کو ہلاک کیا، ان کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے قتل بمعنی لعن۔
(ہلاک ہوئے) ایندھن بھری آگ (کی گھاٹی) والے
ہمارے نزدیک یہ قریش کے ان فراعنہ کو، جو مسلمانوں کو ایمان سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کی اذیتوں کا تختۂ مشق بنائے ہوئے تھے، جہنم کی وعید ہے۔ ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ اس شقاوت سے باز نہ آئے تو وہ جہنم کی اس خندق میں پھینکے جائیں گے جو کبھی نہ بجھنے والی آگ سے بھری ہو گی۔
ایندھن بھری آگ (کی گھاٹی والے)
یہ قریش کے اُن فراعنہ کو وعید ہے جو مسلمانوں کو ایمان سے پھیرنے کے لیے ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ اُنھیں بتایا گیا ہے کہ وہ اگر اپنی روش سے باز نہ آئے تو دوزخ کی اُس گھاٹی میں پھینک دیے جائیں گے جو ایندھن سے بھری ہوئی ہے۔ اُس کی آگ نہ دھیمی ہو گی اور نہ بجھے گی۔
جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔
n/a
وہ ایک آگ تھی ایندھن والی
یہ خندقیں کیا تھیں ؟ ایندھن والی آگ تھیں، جو اہل ایمان کو اس میں جھونکنے کے لئے دہکائی گئی تھی۔
جب کہ وہ اس پر بیٹھے ہوں گے
اشقیاء کے انجام کی تصویر: یہ تصویر ہے ان اشقیاء کے انجام کی۔ فرمایا کہ یہ اس وقت کو یاد رکھیں جب وہ اس خندق کے کنارے بیٹھیں گے اور جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے ان کو اس آگ بھری خندق کے کنارے پر بٹھایا جائے گا تاکہ وہ اپنا ٹھکانا دیکھ لیں اور پھر وہ اپنی ایک ایک ظالمانہ حرکت کا مزہ چکھیں گے۔ گویا لفظ ’شُہُوْدٌ‘ یہاں نتیجۂ فعل کے مفہوم میں ہے، جس کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مجرم کو اس کا اصل ٹھکانا اگر پہلے سے دکھا دیا جائے اور پھر اس کو اس کا مزہ چکھایا جائے تو اس کا عذاب دونا ہو جاتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ مجرموں کو پہلے جہنم کے کناروں پر بٹھایا جائے گا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ ان کو کہاں جانا ہے اور پھر ان کو اس میں پھینک دینے کا حکم دیا جائے گا۔ فرعون اور آل فرعون کے متعلق بھی قرآن میں یہ ذکر ہے کہ عالم برزخ سے ان کو صبح و شام دوزخ کی سیر کرائی جاتی ہے۔
ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ حرف ’اِذْ‘ گزرے ہوئے زمانہ کے کسی واقعہ کی یاددہانی کے لیے آتا ہے اور ہم نے مستقبل میں پیش آنے والی صورت حال کے بیان کے مفہوم میں لیا ہے، لیکن اس شبہ کا ازالہ یوں ہو جاتا ہے کہ قرآن میں جو احوال قیامت کی تفصیل جابجا ماضی کے صیغوں سے کی گئی ہے جس کی توجیہ علماء نے یہ کی ہے کہ مستقبل کی تعبیر ماضی کے اسلوب میں اس کی قطعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی وضاحت جگہ جگہ ہو چکی ہے۔
جب وہ (دوزخ میں) اُس پر بیٹھ گئے
n/a
جبکہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے
n/a
جبکہ وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے
کافر بادشاہ یا اسکے کارندے، آگ کے کنارے بیٹھے اہل ایمان کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔
اور جو کچھ وہ اہل ایمان سے کرتے رہے اس کو دیکھیں گے
اشقیاء کے انجام کی تصویر: یہ تصویر ہے ان اشقیاء کے انجام کی۔ فرمایا کہ یہ اس وقت کو یاد رکھیں جب وہ اس خندق کے کنارے بیٹھیں گے اور جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے ان کو اس آگ بھری خندق کے کنارے پر بٹھایا جائے گا تاکہ وہ اپنا ٹھکانا دیکھ لیں اور پھر وہ اپنی ایک ایک ظالمانہ حرکت کا مزہ چکھیں گے۔ گویا لفظ ’شُہُوْدٌ‘ یہاں نتیجۂ فعل کے مفہوم میں ہے، جس کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مجرم کو اس کا اصل ٹھکانا اگر پہلے سے دکھا دیا جائے اور پھر اس کو اس کا مزہ چکھایا جائے تو اس کا عذاب دونا ہو جاتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ مجرموں کو پہلے جہنم کے کناروں پر بٹھایا جائے گا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ ان کو کہاں جانا ہے اور پھر ان کو اس میں پھینک دینے کا حکم دیا جائے گا۔ فرعون اور آل فرعون کے متعلق بھی قرآن میں یہ ذکر ہے کہ عالم برزخ سے ان کو صبح و شام دوزخ کی سیر کرائی جاتی ہے۔
ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ حرف ’اِذْ‘ گزرے ہوئے زمانہ کے کسی واقعہ کی یاددہانی کے لیے آتا ہے اور ہم نے مستقبل میں پیش آنے والی صورت حال کے بیان کے مفہوم میں لیا ہے، لیکن اس شبہ کا ازالہ یوں ہو جاتا ہے کہ قرآن میں جو احوال قیامت کی تفصیل جابجا ماضی کے صیغوں سے کی گئی ہے جس کی توجیہ علماء نے یہ کی ہے کہ مستقبل کی تعبیر ماضی کے اسلوب میں اس کی قطعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی وضاحت جگہ جگہ ہو چکی ہے۔
اور جو کچھ وہ (دنیا میں)ایمان والوں کے ساتھ کرتے رہے، (اُس کا نتیجہ) دیکھ رہے ہیں
یہ اِن اشقیا کے انجام کی تصویر ہے کہ وہ آگ بھری گھاٹی پر بیٹھ کر اپنا ٹھکانا دیکھیں گے اور پھر اپنے کرتوتوں کا انجام بھگتنے کے لیے اُسی میں پھینک دیے جائیں گے۔ اِس کے لیے ماضی کے صیغے قطعیت کے اظہار کے لیے اختیار کیے گئے ہیں۔ قرآن میں یہ اسلوب دوسرے مقامات میں بھی ہے۔ لفظ ’شُھُوْد‘ نتیجۂ فعل کے معنی میں ہے۔ اِس کی مثالیں بھی قرآن میں کئی مقامات پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے۔
گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کر ایمان لانے والے لوگوں کو ان میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے ان کے جلنے کا تماشا دیکھا تھا۔ مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ عذاب الہی کے مستحق ہوگئے۔ اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک برجوں والے آسمان کی۔ دوسرے روز قیامت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تیسرے قیامت کے ہولناک مناظر کی اور اس ساری مخلوق کی جو ان مناظر کو دیکھے گی۔ پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر و ذلیل انسان کہاں بچ کر جاسکتے ہیں۔ دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کرلیا، مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جا چکا ہے کہ اس میں ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہوگی۔ تیسری چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموں نے ان بےبس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ ان کی خبر کس طرح لی جاتی ہے۔
گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے ہیں۔
ان میں سے ایک واقعہ حضرت صہیب رومی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا۔ اس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کوئی لڑکا ایسا مامور کر دے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے۔ بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا۔ مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی (جو غالباً ) پیروان مسیح (علیہ السلام) میں سے تھا) ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیاحتی کہ اس کی تربیت سے صاحب کرامت ہوگیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا، پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا، مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اس پر کارگر نہ ہوا۔ آخر کار لڑکے نے کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں باسم رب الغلام (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر مجھے تیر مار میں مر جاؤں گا۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مر گیا۔ اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے۔ بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصے میں بھر گیا۔ اس نے سڑک کے کنارے گڑھے کھدوائے، ان میں آگ بھروائی اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا اس کو آگ میں پھکوا دیا (احمد، مسلم، نسائی، ترمذی، ابن جریر، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، طبرانی، عبد بن حمید) ۔
دوسرا واقعہ حضرت علی (رض) سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زنا کا ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہوگئے۔ بات کھلی تو بادشادہ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کردیا ہے لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا یہاں تک وہ آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ہر اس شخص کو پھکواتا چلا گیا جس نے اسے ماننے سے انکار کیا۔ حضرت علی (رض) کا بیان ہے کہ اسی وقت سے مجوسیوں میں محرمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے۔ (ابن جریر) ۔
تیسرا واقعہ ابن عباس (رض) نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے بنی اسرائیل کو دین موسیٰ (علیہ السلام) سے پھرجانے پر مجبور کیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ان لوگوں کو پھینک دیا جو اس سے انکار کر تھے (ابن جریر، عبد بن حمید) ۔
سب سے مشہور واقعہ نجران کا ہے۔ جسے ابن ہشام، طبری، ابن خلدون اور صاحب معجم البلدان وغیرہ اسلامی مورخین نے بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر (یمن) کا بادشاہ تبان اسعد ابو کرب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہو کر اس نے دین یہود قبول کرلیا اور بنی قریظہ کے دو یہودی عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا۔ وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی۔ اس کا بیٹا ذونواس اس کا جانشین ہوا اور اس نے نجران پر، جو جنوبی عرب میں عیساٍئیوں کا گڑھ تھا، حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کر دے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ (ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کے اصل دین پر قائم تھے) ۔ نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین یہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کیا۔ اس پر اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا اور بہت سوں کو قتل کردیا، یہاں تک کہ مجموعی طور پر 20 ہزار آدمی مارے گئے۔ اہل نجران میں سے ایک شخص دوس ذواثعلبان بھاگ نکلا اور ایک روایت کے رو سے اس نے قیصر روم کے پاس جا کر، اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے ہاں جا کر اس ظلم کی شکایت کی۔ پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشادہ کو لکھا اور دوسری روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بحری بیڑہ فراہم کرنے کی درخواست کی۔ بہرحال آخر کار حبش کی 70 ہزار فوج اریاط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی، دوانوس مارا گیا، یہودی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔
اسلامی مورخین کے بیانات کی نہ صرف تصدیق دوسرے تاریخی ذرائع سے ہوتی ہے بلکہ ان سے بہت سی مزید تفصیلات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یمن پر سب سے پہلے عیسائی حبشیوں کا قبضہ 340ء میں ہوا تھا اور 378ء تک جاری رہا تھا۔ اس زمانے میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونے شروع ہوئے۔ اسی کے قریب دور میں ایک زاہد و مجاہد اور صاحب کشف و کرامت عیسائی سیاح فیمیون (Paymiyun) نامی نجران پہنچا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی کی برائی سمجھائی اور اس کی تبلیغ سے اہل نجران عیسائی ہوگئے۔ ان لوگوں کا نظام تین سردار چلاتے تھے۔ ایک سید، جو قبائلی شیوخ کی طرح بڑا سردار اور خارج معاملات، معاہدات اور فوجوں کی قیادت کا ذمہ دار تھا۔ دوسرا عاقب، جو داخلی معاملات کا نگراں تھا۔ اور تیسرا اسقف (بشپ) جو مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ جنوبی عرب میں نجران کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ یہ ایک بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز تھا۔ ئسر، چمڑے اور اسلحہ کی صنعتیں یہاں چل رہی تھیں۔ مشہور حلئہ یمانی بھی یہیں تیار ہوتا تھا۔ اسی بنا پر محض مذہبی وجوہ ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی وجوہ سے بھی ذونواس نے اس اہم مقام پر حملہ کیا۔ نجران کے سید حارثہ کو جسے سریانی مورخین Arethas لکھتے ہیں، قتل کیا، اس کی بیوی رومہ کے سامنے اس کی دو بیٹیوں کو مار ڈالا اور اسے ان کا خون پینے پر مجبور کیا، پھر اسے بھی قتل کردیا۔ اسقف پال (Paul) کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلا دیں۔ اور آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں عورت، مرد، بچے، بوڑھے، پادری، راہب سب کو پھکوا دیا۔ مجموعی طور پر 20 سے چالیس ہزار تک مقتولین کی تعداد بیان کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ اکتوبر 523 ء میں پیش آیا تھا۔ آخر 525 ء میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذونواس اور اس کی حمیری سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ اس کی تصدیق حصن غراب کے کتبے سے ہوتی ہے جو یمن میں موجودہ زمانہ کے محققین آثار قدیمہ کو ملا ہے۔
چھٹی صدی عیسوی کی متعدد عیسائی تحریرات میں اصحاب الاخدود کے اس واقعہ کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض عین زمانہ حادثہ کی لکھی ہوئی ہیں اور عینی شاہدوں سے سن کر لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے تین کتابوں کے مصنف اس واقعہ کے ہم عصر ہیں۔ ایک پر وکوپیوس۔ دوسرا کو سم اس انڈیکو پلیوسٹس (Cosmos Indicopleu stis) جو نجاشی ایلیسبو عان (elesboan) کے حکم سے اس زمانے میں بطلیموس کی یونانی کتابوں کا ترجمہ کر رہا تھا اور حبش کے ساحلی شہر ادولیس (Adolis) میں مقیم تھا۔ تیسرا یوحنس ملا لا (Johannes Malala) جس بعد کے متعدد مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ اس کے بعد یوحنس افسوسی (Johannes ofephesus) متوفی 585 ء نے اپنی تاریخ کنیسہ میں نصاری نجران کی تعذیب کا قصہ اس واقعہ کے معاصر واری اسقف مارشمعون (Simeon) کے ایک خط سے نقل کیا ہے جو اس نے دیر جبلہ کے ریئس (Abbot von Gabula) کے نام لکھا تھا اور مارشمعون نے اپنے خط میں یہ واقعہ ان اہل یمن کے آنکھوں دیکھے بیان سے روایت کیا ہے جو اس موقع پر موجود تھے۔ یہ خط 1881 ء میں روم سے اور 1890 ء میں شہدائے مسیحیت کے حالات کے سلسلے میں شائع ہوا ہے۔ یعقوبی بطریق ڈایو نیسیلوس (Patriarch Dionysius) کے اور زکریا مدللی (Zacharia of Mitylene) نے اپنی سریانی تاریخوں میں بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ یعقوب سروجی کی کتاب درباب نصاری نجران میں بھی یہ ذکر موجود ہے۔ الرھا (edessa) کے اسقف پولس (Pulus) نے نجران کے ہلاک شدگان کا مرثیہ لکھا جو اب بھی دستیاب ہے۔ سریانی زبان کی تصنیف الحمیریین کا انگریزی ترجمہ (Book of theHimyarites) 1924 ء میں لندن شائع ہوا ہے اور وہ مسلمان مورخین کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ برٹش میوزیم میں اس عہد اور اس سے قریبی عہد کے کچھ حبشی مخطوطات بھی موجود ہیں جو اس قصے کی تائید کرتے ہیں۔ فلبی نے اپنے سفر نامے (Highlands Arabian) میں لکھا ہے کہ نجران کے لوگوں میں اب تک وہ جگہ معروف ہے جہاں اصحاب الاخدود کا واقعہ پیش آیا تھا ام خرق کے پاس ایک جگہ چٹانوں میں کھدی ہوئی کچھ تصویریں بھی پائی جاتی ہیں۔ اور کعبہ نجران جس جگہ واقع تھا اس کو بھی آج کل کے اہل نجران جانتے ہیں۔
حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی شکل کی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبہ کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے۔ اس کے اساقفہ عمامے باندھتے تھے اور اس کو حرم قرار دیا گیا تھا رومی سلطنت بھی اس کعبہ کے لیے مالی اعانت بھیجتی تھی۔ اسی کعبہ نجران کے پادری اپنے سید اور عاقب اور اسقف کی قیادت میں مناظرے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور مباہلہ کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورة آل عمران آیت 61 میں کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران حاشیہ 29 و حاشیہ 55) ۔
اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔
n/a
اور انھوں نے ان پر محض اس وجہ سے غصہ نکالا کہ وہ ایمان لائے اس خدائے عزیز و حمید پر
ایمان والوں کی سب سے بڑی نیکی کافروں کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے: یعنی مسلمانوں پر یہ غیظ و غضب اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان سے کوئی قصور صادر ہوا ہے، بلکہ ان کی سب سے بڑی نیکی ان اشقیاء کے نزدیک ان کا سب سے بڑا جرم ہے جس کے سبب سے وہ سزاوار تعذیب قرار پائے ہیں۔ ان کو سزا اس گناہ کی دی جا رہی ہے کہ یہ خدائے عزیز و حمید پر ایمان لائے۔ حالانکہ خدائے عزیز و حمید پر ایمان لا کر ان کے ان بندوں نے وہ سب سے بڑا حق ادا کیا ہے جو ان کے خالق و مالک کی طرف سے ان پر عائد ہوتا ہے۔ ان کا یہ اقدام لائق اعتراف و اکرام اور قابل تقلید تھا نہ کہ سزاوار عناد و انتقام، لیکن جن کی مت ماری جاتی ہے وہ اپنے خیر خواہوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں۔
صفات عزیز و حمید کے تقاضے: یہاں اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے دو صفتوں ۔۔۔ عزیز اور حمید ۔۔۔ کا حوالہ ہے۔ صفت ’عزیز‘ اس کی عزت، قدرت، شان اور عظمت و جلال کو ظاہر کرتی ہے اور ’حمید‘ سے اس کی رحمت، ربوبیت اور سزاوار حمد و شکر ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے حوالہ سے مقصود اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ جو ذات ان صفات سے متصف ہے وہی حق دار ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے۔ جو اس پر ایمان لائے انھوں نے اس کا سہارا لیا ہے جس کا سہارا ہی اصل سہارا ہے اور وہی فلاح پانے والے ہوں گے۔ اس میں ضمناً مظلوم مسلمانوں کے لیے جو بشارت اور ان کے درپۓ آزار کفار کے لیے جو وعید مضمر ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
یہ محض اِس لیے اِن کے دشمن ہو گئے کہ اِنھوں نے اللہ کو مان لیا، وہ زبردست ، ستودہ صفات
n/a
اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے ،
n/a
یہ لوگ ان مسلمانوں (کے کسی اور گناہ) کا بدلہ نہیں لے رہے تھے، سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے
یعنی ان لوگوں کا جرم، جنہیں آگ میں جھونکا جا رہا تھا، یہ تھا کہ وہ اللہ غالب پر ایمان لائے تھے، اس واقع کی تفصیل جو صحیح احادیث سے ثابت ہے، مختصراً اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں۔
جس کی ہی بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین میں اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے
یہ مذکورہ بالا بشارت اور وعید دونوں پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جس کی بادشاہی ہے وہی حق دار ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے اور جو اس پر ایمان لائے ان کے لیے اسی کی پناہ کافی ہے۔
’وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ‘۔ یعنی جو مسلمان اعدائے ایمان کے ہاتھوں دکھ اٹھا رہے ہیں وہ اطمینان رکھیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ان کے مصائب سے بے خبر نہیں ہے بلکہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ تو جب وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے تو اپنی بادشاہی میں اپنے باایمان بندوں پر اعداء کے ظلم و ستم کو کب تک گوارا کرے گا! ساتھ کفار کے لیے اس میں وعید ہے کہ خدا کی ڈھیل سے مغرور نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ستم رانیوں سے بے خبر نہیں ہے۔ وہ سارا تماشا دیکھ رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں ہے جب وہ اپنے مظلوم بندوں کا انتقام لے گا اور بھرپور انتقام لے گا۔
وہی جو زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے
یعنی اِن کو صرف اِس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کہ یہ اللہ پر ایمان لے آئے ہیں۔ اِس کے لیے اللہ تعالیٰ کی دو صفتوں ’الْعَزِیْز‘ اور ’الْحَمِیْد‘ کا حوالہ قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...صفت ’عزیز‘ اُس کی عزت ، قدرت، شان اور عظمت و جلال کو ظاہر کرتی ہے اور ’حمید‘ سے اُس کی رحمت ، ربوبیت اور سزاوار حمد و شکر ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ اِن کے حوالے سے مقصود اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ جو ذات اِن صفات سے متصف ہے ، وہی حق دار ہے کہ اُس پر ایمان لایا جائے۔ جو اُس پر ایمان لائے، اُنھوں نے اُس کا سہارا لیا ہے جس کا سہارا ہی اصل سہارا ہے اور وہی فلاح پانے والے ہوں گے۔ اِس میں ضمناً مظلوم مسلمانوں کے لیے جو بشارت اور اُن کے درپے آزار کفار کے لیے جووعید مضمر ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۲۹۱)
یعنی اِن کے ظلم و ستم کو بھی دیکھ رہا ہے اور اِس کے مقابلے میں ایمان والوں کی استقامت کو بھی دیکھ رہا ہے۔لہٰذا وہ وقت دور نہیں، جب وہ اِن اشقیا سے اپنے مظلوم بندوں کا انتقام لے گا اور بھرپور انتقام لے گا۔
جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے ان اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے جن کی بنا پر وہی اس کا مستحق ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے اور وہ لوگ ظالم ہیں جو اس بات پر بگڑتے ہیں کہ کوئی اس پر ایمان لائے۔
جس کے لئے آسمان و زمین کا ملک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے ہر چیز۔
واقعہ اصحاب الا خدود : گزشتہ زمانے میں ایک بادشاہ کا جادوگر اور کاہن تھا، جب وہ کاہن بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے ایک ذہین لڑکا دو، جسے میں یہ علم سکھا دوں، چنانچہ بادشاہ نے ایک سمجھدار لڑکا تلاش کر کے اس کے سپرد کردیا۔ لڑکے کے راستے میں ایک راہب کا بھی مکان تھا، یہ لڑکا آتے جاتے اس کے پاس بھی بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتا، جو اسے اچھی لگتیں، اسی طرح سلسلہ چلتا رہا، ایک مرتبہ یہ لڑکا جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بہت بڑے جانور (شیر یا سانپ وغیرہ) نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا، لڑکے نے سوچا، آج میں پتہ کرتا ہوں کہ جادوگر صحیح ہے یا راہب ؟ اس نے ایک پتھر پکڑا اور کہا اے اللہ، اگر راہب کا معاملہ، تیرے نزدیک جادوگر کے معاملے سے بہتر اور پسندیدہ ہے تو اس جانور کو مار دے، تاکہ لوگوں کی آمد و رفت جاری ہوجائے یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا اور وہ جانور مر گیا۔ لڑکے نے جا کر یہ واقعہ راہب کو بتایا راہب نے کہا، بیٹے ! اب تم فضل و کمال کو پہنچ گئے ہو اور تمہاری آزمائش شروع ہونے والی ہے۔ لیکن اس دور آزمائش میں میرا نام ظاہر نہ کرنا، یہ لڑکا مادر زاد اندھے، برص اور دیگر بیماریوں کا علاج بھی کرتا تھا لیکن ایمان باللہ کی شرط پر، اسی شرط پر اس نے بادشاہ کے ایک نابینا مصاحب کی آنکھیں بھی اللہ سے دعا کر کے صحیح کردیں۔ یہ لڑکا یہی کہتا تھا کہ اگر تم ایمان لے آؤ گے تو میں اللہ سے دعا کروں گا، وہ شفا عطا فرما دے گا، چنانچہ اس کی دعا سے اللہ شفا یاب فرما دیتا، یہ خبر بادشاہ تک پہنچی تو وہ بہت پریشان ہوا، بعض اہل ایمان کو قتل کرا دیا۔ اس لڑکے کے بارے میں اس نے چند آدمیوں کو کہا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر نیچے پھینک دو، اس نے اللہ سے دعا کی پہاڑ میں لرزش پیدا ہوئی جس سے وہ سب مر گئے اور اللہ نے اسے بچا لیا۔ بادشاہ نے اسے دوسرے آدمیوں کے سپرد کر کے کہ کہا کہ ایک کشتی میں بٹھا کر سمندر کے بیچ لے جا کر اسے پھینک دو، وہاں بھی اس کی دعا سے کشتی الٹ گئی، جس سے وہ سب غرق ہوگئے اور یہ بچ گیا۔ اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا، اگر تو مجھے ہلاک کرنا چاہتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک کھلے میدان میں لوگوں کو جمع کرو اور بِسْمِ اللہ رَبِّ الْغُلام کہہ کر مجھے تیر مار، بادشاہ نے ایسے ہی کیا جس سے وہ لڑکا مر گیا لیکن سارے لوگ پکار اٹھے، کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، بادشاہ اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ چنانچہ اس نے خندقیں کھدوائیں اور اس میں آگ جلوائی اور حکم دیا کہ جو ایمان سے انحراف نہ کرے اس کو آگ میں پھینک دو، اس طرح ایماندار آتے رہے اور آگ کے حوالے ہوتے رہے، حتیٰ کہ ایک عورت آئی، جس کے ساتھ ایک بچہ تھا وہ ذرا ٹھٹھکی، تو بچہ بول پڑا، اماں صبر کر تو حق پر ہے (صحیح مسلم) امام ابن کثیر نے اور بھی بعض واقعات نقل کئے ہیں جو اس سے مختلف ہیں اور کہا ہے، ممکن ہے اس قسم کے متعدد واقعات مختلف جگہوں پر ہوئے ہوں (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر)
جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو ستایا، پھر توبہ نہ کی، ان کے لیے لازماً جہنم کی سزا اور جلنے کا عذاب ہے
مسلمانوں کو ستانے والوں کو واضح الفاظ میں وعید: اوپر جو وعید اشارات کے پردے میں سنائی گئی ہے اس آیت میں وہ بالکل بے نقاب کر دی گئی ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لانے والے مردوں اور ایمان لانے والی عورتوں کو دین سے پھیرنے کے لیے نشانۂ ستم بنائیں گے اور پھر توبہ نہیں کریں گے وہ یاد رکھیں کہ ان کے لیے جہنم کا عذاب، خاص کر آگ کا عذاب ہے۔
لفظ فتنہ یہاں خاص کر اس ظلم و ستم کے لیے آیا ہے جو کسی پر اس کے دین سے اس کو پھیرنے کے لیے کیا جائے۔ اس معنی میں یہ لفظ قرآن میں بار بار آیا ہے جس کی وضاحت ہو چکی ہے۔
’مُؤْمِنِیْنَ‘ کے پہلو بہ پہلو ’مُؤْمِنٰتٌ‘ کا ذکر یہاں خاص اہتمام سے اس لیے ہوا ہے کہ جس دور ابتلاء سے یہ آیات متعلق ہیں اس میں سب سے زیادہ ظلم کمزور عنصر ہونے کے سبب سے عورتوں، بالخصوص لونڈیوں پر ڈھائے گئے۔ ان ظلم ڈھانے والوں کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ سلامتی مطلوب ہے تو جلد سے جلد توبہ اور اصلاح کر لیں ورنہ یاد رکھیں کہ اسی حال میں اگر ان کا خاتمہ ہوا تو سیدھے جہنم میں اتریں گے۔
’عَذَابُ جَہَنَّمَ‘ کے ذکر کے بعد بظاہر ’عَذَابُ الْحَرِیْقِ‘ کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ ’جَہَنَّمَ‘ عذاب کی جملہ اقسام و انواع کا مرکز ہے جس میں سب سے بڑا عذاب جلنے کا عذاب ہے۔ گویا ان لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ جہنم کے دوسرے عذابوں کے ساتھ ساتھ ان کو جلنے کے عذاب کا بھی مزا چکھنا پڑے گا۔ اس انجام کو اچھی طرح سوچ رکھیں۔
جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں کو ستایا اور پھر نہیں پلٹے، اُن کے لیے دوزخ کی سزا ہے اور اُن کے لیے جلنے کا عذاب ہے
اصل میں لفظ ’فَتَنُوا‘ آیا ہے۔ قرآن مجید میں یہ خاص کر اُس ظلم و ستم کے لیے آتا ہے جو کسی پر اُس کے دین سے اُس کو پھیرنے کے لیے کیا جائے۔آیت میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی ذکر ہے۔ یہ اِس اہتمام کے ساتھ اِس لیے کیا گیا ہے کہ اپنی کمزوری کے باعث اُس زمانے میں وہ بالخصوص نشانۂ ستم بنی ہوئی تھیں۔
یعنی دوزخ کی دوسری سزاؤں کے ساتھ اُن کے لیے خاص طور پر آگ کا عذاب بھی ہے۔
جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقینا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے ۔
جہنم کے عذاب سے الگ جلائے جانے کی سزا کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ انہوں نے مظلوم لوگوں کو آگ کے گڑھے میں پھینک کر زندہ جلایا تھا۔ غالباً یہ جہنم کی عام آگ سے مختلف اور اس سے زیادہ سخت کوئی آگ ہوگی جس میں وہ جلائے جائیں گے۔
بیشک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے۔
n/a
امین احسن اصلاحی
قَسم ہے برجوں والے آسمان۔ (کی)
لفظ ’برج‘ کی تحقیق: لفظ ’برج‘ قلعوں اور گڑھیوں کے لیے آتا ہے۔ عربی زبان اور قرآن دونوں میں یہ اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ آسمان کی صفت کے طور پر یہ جہاں آیا ہے اس سے مراد آسمان کے وہ قلعے اور دیدبان ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے برابر مامور رہتے ہیں کہ وہ خدا کی ملکوت میں شیاطین کو ایک خاص حد سے آگے یعنی ملاء اعلیٰ کے حدود میں داخل نہ ہونے دیں۔ اگر اس حد سے وہ آگے بڑھنے کی جسارت کرتے ہیں تو، جیسا کہ آپ مختلف سورتوں میں پڑھ چکے ہیں، ان پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی جن یا انسان ملاء اعلیٰ کے حدود میں داخل یا غیب کے اسرار کی کچھ سن گن لے سکے۔
قسم کی نوعیت: قسم یہاں، جیسا کہ جگہ جگہ وضاحت ہو چکی ہے، بطور شہادت یا اس دعوے پر بطور دلیل کھائی گئی ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ اس سورہ میں مخاطب، جیسا کہ ہم تمہید میں اشارہ کر چکے ہیں، مکہ اور طائف کے وہ فراعنہ ہیں جو نشۂ اقتدار میں کمزور مسلمانوں کو مظالم کا ہدف بنائے ہوئے تھے اور اپنے قلعوں اور ایوانوں پر ان کو اتنا ناز تھا کہ ان کو کبھی خیال بھی نہ ہوتا تھا کہ جس خدائے علیم و قدیر پر ایمان لانے کے انتقام میں وہ اس کے کمزور بندوں پر ستم ڈھا رہے ہیں وہ کوئی کمزور ہستی نہیں ہے بلکہ وہی برجوں والے آسمان کا خالق و مالک ہے۔ وہ اپنی پیدا کی ہوئی اس دنیا سے غافل نہیں ہے بلکہ آسمانی قلعوں اور دیدبانوں سے اس کے کروبی ہر گوشہ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وہ جب چاہے آسمانی برجوں سے اپنی افواج قاہرہ بھیج کر یا زمین ہی سے کوئی آفت ارضی ابھار کر سارے قلعوں، گڑھیوں، ایوانوں کو مسمار اور ان پر ناز کرنے والوں کے غرور کو پامال کر کے رکھ دے۔