وَالْفَجْرِ

امین احسن اصلاحی

شاہد ہے فجر

ہم تمہید میں اشارہ کر چکے ہیں کہ یہاں جو قسمیں کھائی گئی ہیں وہ اس دعوے پر شہادت کے لیے کھائی گئی ہیں کہ اس کائنات کا مدبر حقیقی اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی باگ ہے۔ وہی جب چاہتا ہے ایک چیز کو نمودار کرتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو اوجھل کر دیتا ہے۔ وہی جس کو جس حد تک چاہتا ہے ڈھیل دیتا ہے اور جہاں چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی شے اس کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھ سکے یا اس کے اختیار میں مداخلت کر سکے۔
فجر کی شہادت سے مقصود: ’وَالْفَجْرِ‘۔ ’فَجْرٌ‘ سے مراد وہ وقت ہے جب رات کی تاریکی کا پردہ چاک ہوتا اور دن کو روشنی مشرقی افق سے نمودار ہوتی ہے۔ روزے کے احکام کے ضمن میں سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے:

’کُلُوۡا وَاشْرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ‘ (البقرہ ۲: ۱۸۷)
(اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری شب کی سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے)۔

لفظ ’فَجْرٌ‘ کے مقابل میں لفظ ’صبح‘ سے مراد جو وقت ہے وہ نہ صرف فجر پر بلکہ طلوع آفتاب کے بعد کے وقت پر بھی محیط ہے۔ اس لیے ’وَالْفَجْرِ‘ کے ہم معنی صبح کے لفظ سے جہاں قسم کھائی گئی ہے وہاں وضاحت کے لیے الفاظ بڑھائے گئے ہیں، مثلاً

’وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ‘ (التکویر ۸۱: ۱۸)
(شاہد ہے صبح جب وہ سانس لیتی ہے)

یا

’وَالصُّبْحِ إِذَا اَسْفَرَ‘ (المدثر ۷۴: ۳۴)
(شاہد ہے صبح جب وہ ہویدا ہو جائے)۔

یہ معین ہونے کے بعد کہ فجرسے مراد آغاز صبح کا وہ وقت ہے جب شب کی تاریکی کا پردہ چاک ہو جاتا ہے اس آیت میں قسم کا موقع ٹھیک وہی قرار پاتا ہے جو سورۂ مدثر میں بدیں الفاظ وارد ہوا ہے:

’وَاللَّیْلِ إِذْ أَدْبَرَ ۵ وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ ۵ إِنَّہَا لَإِحْدَی الْکُبَرِ‘ (المدثر ۷۴: ۳۳-۳۵)
(شاہد ہے رات جب وہ منہ موڑ چکے اور صبح جب وہ نمودار ہو جائے کہ یہ (قیامت) عظیم حوادث میں سے ہے)۔

ہم نے سورۂ مدثر کی تفسیر میں مذکورہ آیت کے ذیل میں واضح کیا ہے کہ رات کی تاریکی جب اپنے ڈیرے ڈالے ہوتی ہے تو اس میں صبح کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ فجر کا وقت ایک بڑے تغیر کا پیغام لاتا ہے جس میں تاریکی کی بساط لپیٹ دی جاتی اور عالم ایک نیا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ ٹھیک یہی حال قیامت کے ظہور کا بھی ہو گا۔ یہ دنیا رات کے مانند ہے جس کی تاریکی صبح قیامت کو ڈھانکے ہوئے ہے۔ جس طرح رات کے بعد فجر ایک متعین نظام الاوقات کے تحت نمودار ہوتی ہے اسی طرح ایک وقت آئے گا جب قیامت اچانک وارد ہو جائے گی۔ اس وقت سب دیکھ لیں گے کہ جس چیز کو وہ ناممکن سمجھتے تھے وہ سامنے آ گئی۔
یہاں ’وَالْفَجْرِ‘ کی قسم سے قرآن نے متنبہ کیا ہے کہ فجر کا وقت ہر روز ظہور قیامت کا مشاہدہ ایک تمثیلی رنگ میں کراتا ہے، جس طرح تم رات میں سوتے اور صبح کو آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھتے ہو اسی طرح مر جانے کے بعد تمہارے اوپر وہ وقت بھی آئے گا جب صور پھونکا جائے گا اور تم صبح قیامت کو اٹھ بیٹھو گے اور ایسا فخر محسوس کرو گے کہ ابھی سوئے تھے ابھی جاگ پڑے ہو۔ لہٰذا قیامت کے ظہور کو بعید از امکان نہ سمجھو۔ احادیث میں صبح کو اٹھنے کی جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔

جاوید احمد غامدی

فجر گواہی دیتی ہے

اِس سے مراد وہ وقت ہے جب دن کی روشنی ایک سفید دھاری کی صورت میں شب کی سیاہ دھاری سے الگ ہو کر نمایاں ہوتی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے فجر کی،

n/a

جونا گڑھی

قسم ہے فجر کی !

 اس سے مراد مطلق فجر ہے، کسی خاص دن کی فجر نہیں۔ 

وَلَيَالٍ عَشْرٍ

امین احسن اصلاحی

اور دس راتیں

دس راتوں سے مراد: ’وَلَیَالٍ عَشْرٍ‘۔ دس راتوں سے کون سی راتیں مراد ہیں؟ اس سوال کے مختلف جواب ہمارے مفسرین سے منقول ہیں لیکن ان میں سے کسی قول کی کوئی قابل قبول دلیل ان سے منقول نہیں ہے۔ ان کی بنیاد محض اس مفروضہ پر ہے کہ یہاں ان کی قسم کھائی گئی ہے اور جس چیز کی قسم کھائی جائے ضروری ہے کہ وہ کوئی مقدس چیز ہو حالانکہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ قرآن میں جو قسمیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے بیشتر کسی دعوے پر دلیل کے طور پر کھائی گئی ہیں۔ ان کے اندر تقدس تلاش کرنے کے بجائے ہمیشہ ان کے استدلالی پہلو پر نظر جمانی اور دیکھنا یہ چاہیے کہ زیربحث دعویٰ کیا ہے اور قسم کس پہلو سے اس پر شہادت ہے۔ نیز قرآن مجید کے ان دوسرے مواقع کو نگاہ میں رکھنا چاہیے جن میں اسی قسم کا مضمون انہی الفاظ یا ان کے ملتے جلتے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔

اس سورہ کے عمود کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر غور کیا جائے تو عمود سے مطابقت رکھنے والی بات ہو سکتی ہے تو یہ ہو سکتی ہے کہ ’لَیَالٍ عَشْرٍ‘ سے چاند کے عروج و محاق کی دس راتیں مراد لی جائیں۔ چونکہ یہاں یہ لفظ نکرہ کی صورت میں ہے اس وجہ سے ایک ہی ساتھ دس راتیں عروج کی بھی مراد لی جا سکتی ہیں اور دس راتیں زوال کی بھی۔ گویا اس قسم میں چاند کے تدریجی عروج و زوال کی پوری تصویر سامنے رکھ دی گئی ہے۔ سادہ اسلوب میں یہ مضمون سورۂ یٰس میں یوں بیان ہوا ہے:

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوۡنِ الْقَدِیْمِ (یٰسٓ ۳۶: ۳۹)
’’اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں ٹھہرا رکھی ہیں یہاں تک کہ (ان منازل کے طے کرنے میں) وہ کھجور کی سوکھی ٹہنی کے مانند ہو کر رہ جاتا ہے۔‘‘

اس آیت میں چاند کی تصویر چشم تخیل کے سامنے اس طرح آتی ہے گویا وہ ایک فرماں بردار ناقہ ہے جس کی نکیل ایک غیبی ساربان کے ہاتھ میں ہے جو اس کو منزل بہ منزل ایک معین بلندی تک چڑھاتا اور پھر وہاں سے اس کو درجہ بدرجہ اسی طرح اتارتا ہے یہاں تک کہ قطع منازل کے اس پر مشقت سفر میں وہ سوکھ کر کانٹا بن کے رہ جاتا ہے۔
قسم کے اسلوب میں یہی حقیقت یوں بھی وارد ہوئی ہے:

وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ ۵ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ (الانشقاق ۸۴: ۱۶-۱۸)
’’شاہد ہے چاند جب وہ کامل ہو جائے کہ تم بھی درجہ بدرجہ چڑھو گے۔‘‘

یہاں قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نشانی کے ظہور کے لیے ایک معین پروگرام اور تدریجی ارتقاء ہوتا ہے۔ قیامت اللہ تعالیٰ کے عدل کا بدیہی مقتضیٰ ہے۔ اس کا ظہور تو لازماً ہو گا لیکن ہو گا اپنے مقررہ وقت پر۔
ان نظائر کی روشنی میں اگر آیت کی توجیہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قرآن نے چاند کے عروج و زوال کی ان دس دس راتوں کا حوالہ دیا ہے جن میں چاند کا تغیر نہایت نمایاں ہوتا ہے اور وہ دن پر دن سابقہ حالت سے مختلف نظر آتا ہے۔ یہ تغیر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے شئون و حوادث کے ظہور کے لیے ایک تدریج رکھی ہے۔ حاملہ کی بارآوری اور وضع حمل میں ایک متعین مدت صرف ہوتی ہے۔ کفار و مکذبین کے جرائم پر اللہ تعالیٰ فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ ان کی رسی دراز کرتا جاتا ہے اور جب یہ مہلت ختم ہوتی ہے جبھی ان پر عذاب آتا ہے۔ اسی طرح بحیثیت مجموعی دنیا بھی قیامت کی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور بالتدریج اس کی طرف پہنچے گی اور یہ ٹھیک اس نظام الاوقات کے مطابق ہو گا جو خدا نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور (چاند کی ہر) دس راتیں

اصل میں ’لَیَالٍ عَشْرٍ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ نکرہ ہے، اِس لیے اِس سے مہینے کی تیس راتوں میں سے ہر دس راتیں مراد لی جا سکتی ہیں۔ چاند کے تدریجی عروج و زوال کی طرف اشارے کے لیے یہ نہایت بلیغ اسلوب ہے، اِس لیے کہ پہلی دس راتوں میں وہ ایک باریک ناخن کی شکل سے شروع ہو کر بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ آدھے سے زیادہ روشن ہو جاتا ہے۔دوسری دس راتوں میں وہ اپنے عروج و کمال پر ہوتا ہے اور آخری دس راتوں میں وہ زوال کی طرف بڑھنا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ قرآن کی تعبیر کے مطابق کھجور کی سوکھی ٹہنی کے مانند ہو کر رہ جاتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس تعبیر کے متعلق لکھا ہے:

’’اِس آیت میں چاند کی تصویر چشم تخیل کے سامنے اِس طرح آتی ہے گویا وہ ایک فرماں بردار ناقہ ہے جس کی نکیل ایک غیبی ساربان کے ہاتھ میں ہے جو اُس کو منزل بہ منزل ایک معین بلندی تک چڑھاتا اور پھر وہاں سے اُس کو درجہ بدرجہ اِسی طرح اتارتا ہے، یہاں تک کہ قطع منازل کے اِس پر مشقت سفر میں وہ سوکھ کر کانٹا بن کے رہ جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۳۴۸)

ابو الاعلی مودودی

اور دس راتوں کی ،

n/a

جونا گڑھی

اور دس راتوں کی !

 اس سے اکثر مفسرین کے نزدیک ذو الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ جن کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے، نبی کریم نے فرمایا عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے عمل صالح اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی اتنا پسندیدہ نہیں سوائے اس جہاد کے جس میں انسان شہید ہوجائے۔ (البخاری، کتاب العیدین، باب فضل العمل فی ایام التشریق) 

وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ

امین احسن اصلاحی

اور جفت و طاق

’جفت‘ اور ’طاق‘ سے مراد: ’وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ‘۔ ’شَفْعٌ‘ کے معنی جفت اور ’وَتْرٌ‘ کے معنی طاق کے ہیں۔ جفت اور طاق سے کیا مراد ہے؟ اس کے جواب میں مفسرین سے اتنے اقوال منقول ہیں کہ ان کا استقصاء مشکل ہے۔ اقوال کی اس کثرت کی وجہ ہمارے نزدیک وہی ہے کہ لوگوں نے نظم کلام اور سیاق و سباق کو پیش نظر رکھنے کے بجائے ساری توجہ صرف اس امر پر مرکوز رکھی کہ کسی مقدس چیز کو ان الفاظ کا مصداق بنائیں۔ حالانکہ اگر نظر شہادت کے پہلو پر ہوتی تو غور کرنے اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی آسان راہ یہ تھی کہ ان مقامات پر نظر ڈالی جاتی جہاں قرآن نے ہر شے کے جوڑے جوڑے پیدا کیے جانے کا ذکر کیا ہے اور اس سے حکمت کے نہایت اہم حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے، مثلاً فرمایا ہے:

’وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘ (الذاریات ۵۱: ۴۹)
(اور ہم نے ہر چیز کے اندر سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو)۔

ہر جوڑا دو طاقوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوئے کہ ہر چیز ایک پہلو سے طاق ہے اور دوسرے پہلو سے جفت۔ اس امر واقعی کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن نے اس کائنات کے متعدد جوڑوں ۔۔۔ زمین و آسمان، ظلمت و نور، دھوپ اور چھاؤں، نر اور مادہ ۔۔۔ کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس سے نہایت اہم نتائج کی، جیسا کہ ’لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘ سے اشارہ نکلتا ہے یاددہانی فرمائی ہے، مثلاً اس حقیقت کی یاددہانی کہ جب ہر چیز اپنے وجود کے اندر ایک ایسا خلا رکھتی ہے جو اس جوڑے سے مل کر ہی بھرتا ہے، اس کے بغیر وہ اپنی غایت کو نہیں پہنچتی تو لازماً ایک ایسی کامل الوجود اور ہر نقص سے پاک ہستی ان اجزائے مختلفہ سے بالاتر موجود ہے جس کی حکمت و قدرت ان کے اندر ربط و اتصال اور سازگاری و بہم آمیزی پیدا کرتی اور ان کو باغایت و بامقصد بناتی ہے۔ اس ہستی کا اپنے وجود میں کامل اور ہر نقص سے پاک ہونا لازمی ہے۔ اگر اس میں کوئی کمی ہو گی تو وہ اپنے سے بالاتر کی محتاج بن جائے گی اور یہ سلسلہ کہیں منقطع نہیں ہو گا۔ دوسرے اس حقیقت کی یاددہانی کہ ہماری یہ دنیا بھی بحیثیت مجموعی اپنے وجود کے اندر اسی طرح ایک خلا رکھتی ہے جس طرح اس کے تمام اجزائے مختلفہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور یہ خلا اس وقت تک نہیں بھرتا جب تک اس کے ساتھ آخرت کو نہ مانیے۔ اس کو نہ مانیے تو یہ دنیا ایک حکیم کا بنایا ہوا کارخانہ نہیں بلکہ ایک کھلنڈرے کا کھیل اور نہایت ظالمانہ کھیل بن کے رہ جاتی ہے۔
جفت و طاق کا ذکر دس راتوں کے ذکر کے بعد آیا ہے اور دس راتیں ہمارے نزدیک چاند کے عروج و محاق کی ہیں جو اس حقیقت کی شہادت دیتی ہیں کہ ہر چیز کی باگ اللہ وحدہٗ لاشریک کے ہاتھ میں ہے اس لیے کہ بعض مہینوں میں یہ راتیں جفت ہوتی ہیں بعض میں طاق لیکن کسی کے امکان میں نہیں کہ وہ جفت کو طاق یا طاق کو جفت بنا دے خواہ اس کی کتنی ہی تمنا رکھتا ہو۔ عید کے چاند کے لیے لوگ نہ جانے کیا کیا جتن کرتے ہیں کہ انتیس کو نظر آ جائے لیکن وہ تعمیل اپنے رب ہی کے حکم کی کرتا ہے، لوگوں کے جذبۂ شوق اور جوش استقبال کی اسے ذرا پروا نہیں ہوتی۔

جاوید احمد غامدی

اور جفت اور طاق (مہینا)

اِس لیے کہ مہینا کبھی تیس اور کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے جس میں چاند اپنے عروج و زوال کا سفر پورا کرلیتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور جفت اور طاق کی ،

​n/a

جونا گڑھی

جفت اور طاق کی !۔

 اس سے مراد جفت اور طاق عدد ہیں یا وہ معدودات جو جفت اور طاق ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ یہ دراصل مخلوق کی قسم ہے اس لیے کہ مخلوق جفت یا طاق ہے اس کے علاوہ نہیں۔ 

وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ

امین احسن اصلاحی

اور رات جب وہ چل کھڑی ہو

رات کی شہادت: یہ آخر میں رات کی شہادت پیش کی ہے اور اس کے ساتھ ’اِذَا یَسْرِ‘ کی قید ہے۔ یعنی خاص طور پر اس کے اس وقت کی طرف توجہ دلائی ہے جب وہ رخصت ہونے کے لیے چل کھڑی ہوتی ہے اور افق میں فجر کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ اس پر قرآن کے نظائر کی روشنی میں غور کیجیے، تو یہ نہایت اہم حقائق کی یاددہانی کرتی ہے۔

ایک تو اس حقیقت کی یاددہانی کہ اس کائنات کے تمام عناصر مختلفہ خالق کائنات کے ہاتھ میں مسخر ہیں۔ رات آتی ہے تو بظاہر اس کا تسلط ایسا ہمہ گیر ہوتا ہے کہ کسی طرف سے دن کے نمودار ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن بالآخر اس تاریکی کے اندر سے ایک سفید دھاری مشرق سے نمایاں ہونی شروع ہوتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ رات پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ سورج نمودار ہو جاتا ہے اور ظلمت شب کو اپنا بوریا بستر سنبھالنا پڑتا ہے۔ رات کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اس کی راہ روک کر کھڑی ہو جائے۔
دوسری یہ کہ رات کے رخصت ہونے اور دن کے جلوہ نما ہونے میں ان لوگوں کے لیے ظہور قیامت کی ایک تمثیل ہے جو قیامت کو بعید از امکان سمجھتے ہیں۔ اس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔
تیسری ان لوگوں کو، جو قیامت کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر یہ آنے والی ہے بھی تو ابھی اتنی دور ہے کہ اس کا خوف ذہنوں پر مسلط کر لینا کوئی دانش مندی نہیں، اس حقیقت کی یاددہانی کہ خدا کے ہاں یہ دنیا اپنے انجام کے اسی طرح قریب آ لگی ہے جس طرح سحر کے وقت بس اتنی سی کسر رہ جاتی ہے کہ کب سپیدۂ صبح نمودار ہو اور رات کی گیرائی ختم ہو جائے۔ انسان اس معاملہ کو اپنی محدود نظر سے دیکھتا اور اپنے منٹ سیکنڈ کے پیمانے ناپتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دنیا پر جو نہیں معلوم کب سے انسان و حیوان، چرند و پرند سب کو ایک گہوارہ مہیا کیے ہوئے ہے، کوئی ایسی آفت آ سکتی ہے جو اس کے نظام ہی کو تہ و بالا کر کے رکھ دے۔ لیکن خدا کے نظام میں صورت حال بالکل مختلف ہے، وہ قیامت کو دنیا کے پشت پا پر دیکھ رہا ہے۔ اس کے پیمانوں کے لحاظ سے قیامت بس آیا ہی چاہتی ہے۔ اسی حقیقت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے کہ میں اور قیامت ساتھ ساتھ کی دو انگلیوں کی طرح ہیں۔
علاوہ ازیں ’اِذَا یَسْرِ‘ کے الفاظ کے اندر ایک لطیف شہادت بھی ہے کہ کسی آزمائش کو بھی ایسی بلا نہ سمجھو جو کبھی جان چھوڑے گی ہی نہیں، اس دنیا میں جس طرح فجر کا طلوع ہونا اور رات کا آنے کے بعد چلا جانا مشاہدہ کرتے ہو اور دیکھتے ہو کہ قدرت ان میں سے کسی کو بھی اس سے زیادہ ٹکنے کا موقع نہیں دیتی جتنا اس کی دنیا کی مصلحت کے لیے ضروری ہے اسی طرح یُسر اور عُسر، رنج اور راحت کی صورت میں جو آزمائشیں پیش آتی ہیں وہ بھی انسان کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے لیے پیش آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو بس اتنی ہی دیر کے لیے مہلت دیتا ہے جتنی بندے کی تربیت کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ انسان کو ان میں سے نہ کسی سے مایوس ہونا چاہیے نہ مفرور، بلکہ ان کا مواجہہ صبر اور شکر کے ساتھ کرنا چاہیے اور یہ امید رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر آزمائش میں اس کے لیے خبر مضمر ہے۔
آیات ۱ تا ۴ پر مزید غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ’وَالْفَجْرِ‘ اور ’وَاللَّیْلِ إِذَا یَسْرِ‘ کی دونوں قَسمیں دو متقابل چیزوں کی ہیں اور بیچ کی دو قَسموں ۔۔۔ ’وَلَیَالٍ عَشْرٍ‘ اور ’وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ‘ ۔۔۔ کا تعلق ان دو متقابل چیزوں کے درمیان کی دو عظیم نشانیوں سے ہے جو اس دعوے پر دلیل ہیں جس کی طرف ہم نے آغاز فصل میں اشارہ کیا ہے۔ چونکہ ان آیات میں بنیادی حیثیت پہلی اور آخری دو قَسموں کو حاصل ہے، باقی دو قسموں کی حیثیت ان کے توابع کی ہے، اس لیے بحث کی تکمیل کے لیے ہم ان دعاوی کی یاددہانی بھی ضروری سمجھتے ہیں جن پر قرآن نے رات اور دن، صبح اور شام، تاریکی اور روشنی کے تضادات سے استدلال کیا ہے۔
اضداد کی شہادت: ۔۔۔ ان اضداد سے پہلی دلیل تو قرآن نے توحید پر قائم کی ہے اور جگہ جگہ یہ دکھایا ہے کہ یوں بظاہر تو یہ دنیا اپنے ہر گوشے میں اضداد کی ایک رزم گاہ ہے جس کا فطری نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ یہ وجود میں آ ہی نہیں سکتی اور آ بھی جاتی تو فوراً درہم برہم ہو جاتی لیکن تدبر و تفکر کی نظر سے دیکھیے تو یہ حقیقت بالکل روشن ہے کہ ان اضداد کے اندر باہم دگر نہایت گہری موافقت و سازگاری ہے۔ اسی کا یہ کرشمہ ہے کہ اس کے متضاد عناصر باہمی تفاعل و تعاون سے نہایت صالح نتائج پیدا کرتے ہیں جو اس کے قیام و بقا کا ذریعہ ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان اضداد میں یہ توافق کون پیدا کرتا ہے؟ اس کا واحد صحیح جواب یہی ہو سکتا ہے کہ ایک علیم و خبیر، حکیم و بصیر اور قوی و مقتدر ہستی ان اضداد سے بالاتر ہے جو ان کو باہم دگر جوڑتی، ایک حکیمانہ تناسب سے ان میں باہم تالیف و امتزاج پیدا کرتی اور پھر ان سے وہ صالح نتائج وجود میں لاتی ہے جو اس دنیا کے قیام و بقا کا ذریعہ ہیں۔ اور لازماً وہ ایک ہی ہے اس لیے کہ اگر دوسرے ارادے بھی اس کی مزاحمت کرنے والے موجود ہوتے تو یہ دنیا تباہ ہو جاتی۔ ’لَوْ کَانَ فِیْہِمَا آلِہَۃٌ إِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا‘ (الانبیآء ۲۱: ۲۲)۔
۔۔۔ دوسری دلیل اس سے قرآن نے قیامت پر قائم فرمائی ہے۔ مختصر الفاظ میں وہ یوں ہے کہ اس دنیا میں اس کے خالق نے ہر چیز جوڑے جوڑے پیدا کی ہے اور ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی اپنی غایت کو پہنچتی ہے۔ بغیر اس کے کہ نہ وہ اپنی غایت کو پہنچتی اور نہ اس کے بدون اس کے وجود کی کوئی معقول توجیہ ہو سکتی بلکہ اس کے اندر ایسا خلا محسوس ہوتا ہے کہ ایک عاقل مجبور ہو جاتا ہے کہ اس پر وہ ایک کارعبث ہونے کا حکم لگائے۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہی حکم اس دنیا پر بھی لگ سکتا ہے اگر اس کے ساتھ آخرت کو نہ ملائیے کیونکہ اس کے اندر ایک ایسا خلا رہ جاتا ہے جو آخرت کو مانے بغیر کسی طرح بھی نہیں بھرتا۔ اس میں نیکی اور بدی، عدل اور ظلم میں ہر وقت جو کشمکش برپا ہے اس کا فطری مطالبہ یہ ہے کہ اس کے لیے ایک ایسا روز انصاف آئے جس میں اس کا خالق پورے اقتدار، کامل علم اور کامل عدل کے ساتھ لوگوں کا محاسبہ کرے، پھر اپنے اچھے بندوں کو صلہ دے اور وہ لوگ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں جنھوں نے اس کی دنیا میں دھاندلی مچائی۔ اگر اس کے بغیر یہ دنیا یوں ہی چلتی رہے، ایک دن یوں ہی ختم ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کے خالق کے نزدیک خیر اور شر، نیک اور بد دونوں یکساں ہیں اور اس کا پیدا کیا جانا کوئی حکیمانہ فعل نہیں بلکہ ایک کارعبث اور کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر قیامت کے جھٹلانے والوں کے سامنے یہ سوال رکھا گیا ہے کہ

’أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ ۵ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوۡنَ‘ (القلم ۶۸: ۳۵-۳۶)
(کیا ہم اپنے اطاعت شعار بندوں اور مجرموں کو یکساں کر دیں گے، تم کو کیا ہو گیا ہے، کیسے بے عقلی کے فیصلے کرتے ہو!)

اس مسئلہ پر سورہ مدثر کی آیات قسم کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
۔۔۔ تیسری حقیقت اس سے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمائی ہے کہ جس طرح انسان کے مادی وجود کی بقا کے لیے دن کی روشنی اور حرارت بھی ضروری ہے اور رات کی خنکی اور تاریکی بھی، اسی طرح اس کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ یُسر و عُسر، تنگی و فراخی، صحت اور مرض کی آزمائشوں سے گزارا جائے تاکہ اس کے صبر و شکر کی تربیت ہو اور وہ ’رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘ کا مقام حاصل کرنے کا اہل بنے۔ قرآن میں یہ حکمت جگہ جگہ بیان ہوئی ہے۔ آگے اس سورہ میں بھی اس کی وضاحت آ رہی ہے اور خدا نے چاہا تو ہم سورۂ ضحیٰ میں ’وَالضُّحٰی ۵ وَاللَّیْلِ إِذَا سَجٰی‘ (۲-۱) کے تحت بھی اس مسئلہ پر بحث کریں گے۔
۔۔۔ چوتھی حقیقت ان سے یہ واضح فرمائی گئی ہے کہ ان اضداد میں سے کسی کو بھی خدا نے بگٹٹ نہیں چھوڑا ہے بلکہ ہر ایک کی باگ اس کے ہاتھ میں ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی اپنے حدود سے سرمو تجاوز کر سکے۔ وہ خود اپنے وجود سے شہادت دیتے ہیں کہ وہ آزاد نہیں بلکہ خلق کے ہاتھ میں مسخر ہیں۔ رات آتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ کے لیے ڈیرے ڈال دے اور خلق کو دن کی روشنی اور آفتاب کی حرارت سے محروم رکھے بلکہ ایک مقررہ وقت کے اندر، منٹ اور سیکنڈ کی پابندی کے ساتھ لازماً اسے اپنے ڈیرے اٹھانے اور دن کی روشنی کے لیے جگہ خالی کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح سورج طلوع ہوتا ہے تو اسے بھی لازماً متعین گھنٹوں کے بعد افق سے غائب ہونا پڑتا ہے، وہ یہ نہیں کر سکتا کہ ہمیشہ کے لیے ہمارے سروں پر مسلط ہو جائے، شب کی خنکی اور اس کے سکون سے ہمیں محروم کر دے۔ یہ مشاہدہ ہر شخص کرتا ہے اور یہ بدیہی شہادت ہے اس بات کی کہ اس کائنات کی ہر چیز خدا کے کنٹرول میں ہے، وہی اس کو کھولتا بھی ہے اور وہی باندھتا بھی ہے۔ اس سے یہ بدیہی نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ کسی کو بھی، خواہ وہ کتنا ہی زور و اثر رکھنے والا ہو، خدا کی ڈھیل سے اس گھمنڈ میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ اس کی گرفت سے باہر ہے۔ جب سورج اور چاند، رات اور دن اس کے کنٹرول سے باہر نہیں تو انسان کی کیا حقیقت ہے کہ وہ اپنے کو اس کے حیطۂ اقتدار سے باہر سمجھے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے۔ سورۂ قصص میں اس کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:

قُلْ أَرَءَ یْتُمْ اِنۡ جَعَلَ اللہُ عَلَیْْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَدًا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیْکُم بِضِیَآءٍ أَفَلَا تَسْمَعُوْنَ ۵ قُلْ أَرَءَ یْتُمْ اِنۡ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَأْتِیْکُم بِلَیْْلٍ (القصص ۲۸: ۷۱-۷۲)
’’کہہ دو، بتاؤ اگر اللہ تم پر قیامت تک برابر رات ہی مسلط کیے رکھے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے ذرا سی روشنی لا سکے! تو کیا تم سنتے نہیں!! پوچھو، اگر اللہ تمہارے اوپر دن کو برابر قیامت تک کے لیے مسلط کر دے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے ایک ہی رات لا سکے۔‘‘

اس سورہ کی قَسموں میں، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، یہ پہلو زیادہ نمایاں ہے اس وجہ سے اس کو خاص طور پر نگاہ میں رکھیے۔

جاوید احمد غامدی

اور رات بھی جب وہ رخصت ہوتی ہے (کہ صبح قیامت ہونی ہے)

اصل الفاظ ہیں: ’اِذَا یَسْرِ‘۔ یہ قید اِس لیے لگائی ہے کہ ٹھیک اُس وقت کی طرف توجہ دلائی جائے، جب وہ رخصت ہونے کے لیے چل کھڑی ہوتی ہے اور افق میں فجر کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔

یعنی رات جس طرح مختلف مراحل سے گزر کر فجر تک پہنچتی ہے اور چاند جس طرح دس دس راتوں میں اپنے منازل طے کرتا ہوا کبھی انتیس اور کبھی تیس دنوں میں اپنا سفر پورا کر لیتا ہے، اِس میں ترتیب و تدریج اور اِس کے ساتھ نتیجہ خیزی کا ایک حیرت انگیز قانون ہے جو صاف کارفرما نظر آتا ہے۔ پھر یہ بات بھی نظر آتی ہے کہ یہ خدا کے ہاتھ میں مسخر ہیں اور وہ بار بار اِنھیں منزل تک پہنچا کر اِسی سفر کے لیے لوٹا رہا ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو قرآن کی اِس بات کو ماننے میں بھی کسی عاقل کو کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری یہ دنیا بھی ایک دن لازماً اپنے انجام کو پہنچے گی اور صبح قیامت ہو کر رہے گی جس میں مرنے والے ایک مرتبہ پھر زندگی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔ چاند ہر ماہ طلوع ہو کر اور راتیں ہر روز رخصت ہو کر اِسی حقیقت کی یاددہانی کرتی ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو۔

​n/a

جونا گڑھی

رات جب چلنے لگے۔

 یعنی جب آئے اور جب جائے، کیونکہ سیر (چلنا) آتے جاتے دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ 

هَلْ فِي ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ

امین احسن اصلاحی

کیوں، ان میں تو ہے ایک عاقل کے لیے عظیم شہادت

انسان کے ذی عقل ہونے کا فطری تقاضا: ’حِجْرٌ‘ کے معنی عقل کے ہیں۔ لفظ ’حجر‘ اور ’عقل‘ دونوں کا لغوی مفہوم قریب قریب ایک ہی ہے۔ ان دونوں ہی کے اندر روکنے اور باندھنے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ عقل انسان کو ان چیزوں سے باز رکھنے کے لیے ایک باطنی لگام ہے جو اس کے شایان شان نہیں ہیں اس وجہ سے اس کو ’حجر‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔

اس آیت کا استفہامیہ اسلوب اپنے اندر زجر و ملامت کا مفہوم بھی رکھتا ہے اور اتمام حجت کا بھی۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے عقل جیسی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کے شایان شان بات یہ ہے کہ وہ ان نشانیوں سے سبق حاصل کرے جو اس کے گرد و پیش پھیلی ہوئی زبان حال سے اصلی راہ اور منزل کی نشان دہی کر رہی ہیں نہ کہ اس بات پر ضد کرے کہ جب وہ منزل سامنے آ جائے گی تب وہ مانے گا کہ بے شک جن لوگوں نے اس سے خبردار کیا تھا انھوں نے سچ کہا تھا۔ اس وقت مانا بھی تو حسرت کے سوا اس کو اس سے کیا فائدہ پہنچے گا! یہ مضمون اسی سورہ کی آیات ۲۳-۲۴ میں آگے آ رہا ہے، وہاں، ان شاء اللہ، اس کی وضاحت ہو گی۔
اتمام حجت کا پہلو یہ ہے کہ نشانیاں تو بے شمار ہیں جن کی طرف ان کو توجہ دلائی جا چکی ہے لیکن ان میں سے کوئی نشانی بھی ان کو قائل کرنے والی نہ بنی۔ اب یہ وہ نشانیاں ان کے سامنے رکھی گئی ہیں جو سب سے زیادہ واضح اور قریب ہیں اور اہل عقل کے لیے ان کے اندر بہت بڑی شہادت موجود ہے۔ لیکن یہ ہٹ دھرم ان سے بھی فائدہ اٹھانے والے نہیں ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اِس میں کسی عاقل کے لیے کیا ہے کوئی بڑی گواہی؟

آیت میں استفہام کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ اِس میں زجر و ملامت بھی ہے اور اتمام حجت بھی۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اگر عقل سے کام لے تو آفاق کی اِن نشانیوں میں شہادت تو بہت بڑی ہے، لیکن قریش کے اِن فراعنہ میں کیا کوئی عاقل ہے بھی؟

ابو الاعلی مودودی

کیا اس میں کسی صاحب عقل کے لیے کوئی قسم ہے ؟

ان آیات کی تفسرین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلافات ہوا ہے حتی کہ ” جفت اور طاق ” کے بارے میں تو 36 اقوال ملتے ہیں۔ بعض روایات میں ان کی تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بھی منسوب کی گئی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی تفسیر حضور سے ثابت نہیں ہے، ورنہ ممکن نہ تھا کہ صحابہ اور تابعین اور بعد کے مفسرین میں سے کوئی بھی آپ کی تفسیر کے بعد خود ان آیات کے معنی متعین کرنے کی جرات کرتا۔

انداز بیان پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پہلے سے کوئی بحث چل رہی تھی جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک بات پیش فرما رہے تھے اور منکرین اس کا انکار کر رہے تھے۔ اس پر حضور کے قول کا اثبات کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ قسم ہے فلاں اور فلاں چیزوں کی۔ مطلب یہ تھا کہ ان چیزوں کی قسم، جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ رہے ہیں وہ بر حق ہے۔ پھر بات کو اس سوال پر ختم کردیا گیا کہ کیا کسی صاحب عقل کے لیے اس میں کوئی قسم ہے ؟ یعنی کیا اس حق بات پر شہادت دینے کے لیے اس کے بعد کسی اور قسم کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ کیا یہ قسم اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک ہوشمند انسان اس بات کو مان لے جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کر رہے ہیں ؟

اب سوال یہ ہے کہ وہ بحث تھی کیا جس پر ان چار چیزوں کی قسم کھائی گئی۔ اس کے لیے ہمیں اس پورے مضمون پر غور کرنا ہوگا جو بعد کی آیتوں میں ” تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا ” سے شروع ہو کر سورة کے آخر تک چلتا ہے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ بحث جزا و سزا کے بارے میں تھی جس کو ماننے سے اہل مکہ انکار کر رہے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں اس کا قائل کرنے کے لیے مسلسل تبلیغ و تلقین فرما رہے تھے۔ اس پر فجر، اور دس راتوں اور جفت اور طاق، اور رخصت ہوتی ہوئی رات کی قسم کھا کر فرمایا گیا کہ اس بات کو باور کرنے کے لیے کیا یہ چیزیں کافی نہیں ہیں کہ کسی صاحب عقل آدمی کے سامنے اور کوئی چیز پیش کرنے کی ضرورت ہو ؟

ان قسموں کا یہ موقع و محل متعین ہوجانے کے بعد لا محالہ ہمیں ان میں سے ہر ایک کے وہ معنی لینے ہوں گے جو بعد کے مضمون پر دلالت کرتے ہوں۔ سب سے پہلے فرمایا ” فجر کی قسم ” فجر پو پھٹنے کو کہتے ہیں، یعنی وہ وقت جب رات کی تاریکی میں سے دن کی ابتدائی روشنی مشرق کی طرف ایک سفید دھاری کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ پھر فرمایا ” دس راتوں کی قسم “۔ سلسلہ بیان کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مہینے کی تیس راتوں میں سے ہر دس راتیں ہیں۔ پہلی دس راتیں وہ جن میں چاند ایک باریک ناخن کی شکل سے شروع ہو کر ہر رات کو بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ آدھے سے زیادہ روشن ہوجاتا ہے۔ دوسری دس راتیں وہ جن میں رات کا بڑا حصہ چاند سے روشن رہتا ہے۔ آخری دس راتیں وہ جن میں چاند چھوٹے سے چھوٹا اور رات کا بیشتر حصہ تاریک سے تاریک تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ مہینے کے خاتمے پر پوری رات تاریک ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا ” جفت اور طاق کی قسم “۔ جفت اس عدد کو کہتے ہیں جو دو برابر کے حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، جیسے 2 ۔ 4 ۔ 6 ۔ 8 اور طاق اس عدد کو کہتے ہیں جو تقسیم نہیں ہوتا، جیسے 1 ۔ 3 ۔ 5 ۔ 7 ۔ عمومی حیثیت سے دیکھا جائے تو اس سے مراد کائنات کی تمام چیزیں ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ہر چیز یا تو جوڑا جوڑا ہے یا تنہا۔ لیکن چونکہ یہاں بات دن اور رات کی ہو رہی ہے، اس لیے سلسلہ مضمون کی مناسبت سے جفت اور طاقت کا مطلب تغیر ایام ہے کہ مہینے کی تاریخیں ایک سے دو اور دو سے تین ہوتی جاتی ہیں اور ہر تغیر ایک نئی کیفیت لے کر آتا ہے۔ آخر میں فرمایا ” رات کی قسم جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو “۔ یعنی وہ تاریکی جو سورج غروب ہونے کے بعد سے دنیا پر چھائی ہوئی تھی، خاتمے پر آ لگی ہو اور پو پھٹنے والی ہو۔

اب ان چاروں چیزوں پر ایک مجموعی نگاہ ڈالیے جن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جزا و سزا کی جو خبر دے رہے ہیں وہ برحق ہے۔ یہ سب چیزیں اس حقیقت پر دلالت کر رہی ہیں کی ایک رب قدیر اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے، اور وہ جو کام بھی کر رہا ہے بےتکا، بےمقصد، بےحکمت، بےمصلحت نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کے ہر کام میں صریحاً ایک حکیمانہ منصوبہ کار فرما ہے۔ اس کی دنیا میں تم یہ کبھی نہ دیکھو گے کہ ابھی رات ہے اور یکایک سورج نصف النہار پر آکھڑا ہوا۔ یا ایک روز چاند ہلال کی شکل میں طلوع ہوا اور دوسری روز چودھویں رات کا پورا چاند نمودار ہوجائے۔ یا رات آئی ہو تو کسی طرح اس کے ختم ہونے کی نوبت ہی نہ آئے اور وہ مستقل طور پر ٹھیر کر رہ جائے۔ یا تغیر ایام کا سرے سے کوئی باقاعدہ سلسلہ ہی نہ ہو کہ آدمی تاریخوں کا کوئی حساب رکھ سکے اور یہ جان سکے کہ یہ کونسا مہینہ ہے، اس کی کونسی تاریخ ہے، کس تاریخ سے اس کا کونسا کام شروع اور کب ختم ہونا ہے، گرمی کے موسم کی تاریخیں کونسی ہیں اور برسات یا سردی کے موسم کی تاریخیں کونسی۔ کائنات کی دوسری بیشمار چیزوں کو چھوڑ کر اگر آدمی شب و روز کی اس باقاعدگی ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھے اور کچھ دماغ کو سوچنے کی تکلیف بھی دے تو اسے اس امر کی شہادت ملے گی کہ یہ زبردست نظم و ضبط کسی قادر مطلق کا قائم کیا ہوا ہے اور اس کے قیام سے اس مخلوق کی بیشمار مصلحتیں وابستہ ہیں جسے اس نے اس زمین پر پیدا کیا ہے۔ اب اگر ایسے حکیم و دانا اور قادر و توانا خالق کی دنیا میں رہنے والا کوئی شخص آخرت کی جزا و سزا کا انکار کرتا ہے تو وہ دو حماقتوں میں سے کسی ایک حماقت میں لامحالہ مبتلا ہے۔ یا تو وہ اس کی قدرت کا منکر ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کائنات کو ایسے بےنظیر نظم کے ساتھ پیدا کردینے پر تو قادر ہے مگر انسان کو دوبارہ پیدا کر کے اسے جزا و سزا دینے پر قادر نہیں ہے۔ یا وہ اس کی حکمت و دانائی کا منکر ہے اور اس کے بارے میں یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس نے دنیا میں انسان کو عقل اور اختیارات دے کر پیدا تو کردیا مگر وہ نہ تو اس سے کبھی یہ حساب لے گا کہ اس نے اپنی عقل اور اپنے اختیارات سے کام کیا لیا، اور نہ اچھے کام کی جزا دے گا نہ برے کام کی سزا۔ ان دونوں باتوں میں جس بات کا بھی کوئی شخص قائل ہے وہ پرلے درجے کا احمق ہے۔

جونا گڑھی

کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے

 ذٰلِکَ سے مذکورہ قسمیں بہ اشیا کی طرف اشارہ ہے یعنی کیا ان کی قسم اہل عقل و دانش کے واسطے کافی نہیں۔ حجر کے معنی ہیں روکنا، منع کرنا، انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اس لیے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے۔ آگے بہ طریق استشہاد اللہ تعالیٰ بعض ان قوموں کا ذکر فرما رہے ہیں جو تکذیب وعناد کی بناء پر ہلاک کی گئی تھیں، مقصد اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر تم ہمارے رسول کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی اسی طرح مواخذہ ہوسکتا ہے جیسے گزشتہ قوموں کا اللہ نے کیا۔ 

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ

امین احسن اصلاحی

دیکھا نہیں، کیا کِیا تیرے خداوند نے عاد کے ساتھ!

تاریخ کی شہادت

اوپر کی آفاقی نشانیوں کی شہادت کے بعد یہ قوموں کی تاریخ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس کی شہادت بھی یہی ہے کہ اس دنیا کا خالق اس میں ابھرنے والی قوموں کے رویہ سے بے تعلق نہیں رہتا بلکہ وہ برابر گھات لگائے ان کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔ جب وہ بے راہ ہوتی ہیں تو وہ اپنی حکمت کے تحت ایک خاص مدت تک ان کو مہلت تو ضرور دیتا ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر لیں، اگر اصلاح کرنی چاہیں ورنہ اپنا پیمانہ بھر لیں۔ پھر وہ ان کو پکڑتا ہے اور اس طرح پکڑتا ہے کہ ان کی ہستی ہی مٹا کر رکھ دیتا ہے۔ قوموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ اس بات کی صاف شہادت ہے کہ اس مجموعی دنیا کے لیے بھی ایک روز حساب آئے گا جس میں ایک ایک فرد اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہو گا۔ پھر جو انعام کے مستحق ہوں گے وہ بھرپور انعام پائیں گے اور جو سزا کے مستحق ٹھہریں گے وہ اپنے کیے کی سزا بھگتیں گے۔

جاوید احمد غامدی

تو نے دیکھا نہیں کہ تمھارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا؟

آفاق کی نشانیوں کے بعد آگے تاریخ کے دلائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔

اِس سے مراد وہ قدیم قوم عاد ہے جسے قرآن مجید اور تاریخ عرب میں عاد اولیٰ کا نام دیا گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تم نے دیکھا نہیں ! کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا عاد کے ساتھ ؟

جزا و سزا پر شب و روز کے نظام سے استدلال کرنے کے بعد اس کے ایک یقینی حقیقت ہونے پر انسانی تاریخ سے استدلال کیا جا رہا ہے۔ تاریخ کی چند معروف قوموں کے طرز عمل اور ان کے انجام کے ذکر سے مقصود یہ بتانا ہے کہ یہ کائنات کسی اندھے بہرے قانون فطرت پر نہیں چل رہی ہے بلکہ ایک خدائے حکیم اس کو چلا رہا ہے اور اس خدا کی خدائی میں صرف ایک وہی قانون کار فرما نہیں ہے جسے تم قانون فطرت سمجھتے ہو، بلکہ ایک قانون اخلاق بھی کار فرما ہے جس کا لازمی تقاضا مکافات عمل اور جزا اور سزا ہے۔ اس قانون کی کار فرمائی کے آثار خود اس دنیا میں بھی بار بار ظاہر ہوتے رہے ہیں جو عقل رکھنے والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ سلطنت کائنات کا مزاج کیا ہے۔ یہاں جن قوموں نے بھی آخرت سے بےفکر اور خدا کی جزا و سزا سے بےخوف ہو کر اپنی زندگی کا نظام چلایا وہ آخر کار فاسد و مفسد بن کر رہیں، اور جو قوم بھی اس راستے پر چلی اس پر کائنات کے رب نے آخر کار عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ انسانی تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ دو باتوں کی واضح شہادت دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ آخرت کا انکار ہر قوم کے بگاڑنے اور بالآخر تباہی کے غار میں دھکیل دینے کا موجب ہوا ہے اس لیے آخرت فی الواقع ایک حقیقت ہے جس سے ٹکرانے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہر حقیقت سے ٹکرانے کا ہوا کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جزائے اعمال کسی وقت مکمل طور پر بھی واقع ہونے والی ہے، کیونکہ فساد کی آخری حد پر پہنچ کر عذاب کا کوڑا جن لوگوں پر برسا ان سے پہلے صدیوں تک بہت سے لوگ اس فساد کے بیج بو کر دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور ان پر کوئی عذاب نہ آیا تھا۔ خدا کے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی وقت ان سب کی باز پرس بھی ہو اور وہ بھی اپنے کیے کی سزا پائیں (قرآن مجید میں آخرت پر یہ تاریخی اور اخلاقی استدلال جگہ جگہ کیا گیا ہے اور ہم نے ہر جگہ اس کی تشریح کی ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حواشی 5 ۔ 6 ۔ یونس، حاشیہ 12 ۔ ہود، حواشی 57 ۔ 105 ۔ 115 ۔ ابراہیم، حاشیہ 9 ۔ جلد سوم، النمل، حواشی، 62 ۔ 86 ۔ الروم، حاشیہ 8 ۔ جلد چہارم، سبا، حاشیہ 25، ص، حواشی 29 ۔ 30 ۔ المومن، حاشیہ 80 ۔ الدخان، حواشی 33 ۔ 34 ۔ الجاثیہ، حواشی 27 ۔ 28 ۔ جلد پنجم، ق، حاشیہ 17 ۔ الذرایات، حاشیہ 21) ۔

جونا گڑھی

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عادیوں کے ساتھ کیا کیا ۔

ان کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجے گئے تھے انہوں نے جھٹلایا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کا عذاب بھیجا۔ جو متواتر سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اور انہیں نہس تہس کر کے رکھ دیا۔

إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ

امین احسن اصلاحی

ستونوں والے ارم کے ساتھ۔

عاد‘ کا ذکر پچھلی سورتوں میں، بار بار مختلف پہلوؤں سے گزر چکا ہے، یہاں ان کا ذکر ’اِرَم‘ کی نسبت کے ساتھ ہوا ہے۔ ’اِرَم‘ ان کے ان اجداد میں سے ہیں جن سے ان کی عسکری اور تعمیری ترقیوں کا آغاز ہوا۔ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل کی اس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں جو اِرَم بن سام بن نوحؑ سے چلی۔

’عِمَادٌ‘ اونچنے ستونوں کو کہتے ہیں۔ یہ ان کی تعمیری ترقیوں کی تعبیر کے لیے اسی طرح کا کنایہ ہے جس طرح سورۂ سبا میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے جود و کرم کی تعبیر ’جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوۡرٍ رَّاسِیَاتٍ‘؂۱ (سبا ۳۴: ۱۳) کے الفاظ سے کی گئی ہے۔

قوم عاد نے سنگ تراشی کے آرٹ میں بہت ترقی کی۔ پہاڑوں کو ترشوا کر ان کے اندر انھوں نے نہایت خوبصورت ایوان و محل بنوائے۔ ان کے امراء کا خاص ذوق یہ تھا کہ ہر اونچی جگہ پر ان کی کوئی یادگار تعمیر ہو جائے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیغمبر، حضرت ہود علیہ السلام نے ان کے اس مسرفانہ اور نمائش پسندانہ شوق تعمیر پر ان کو ملامت بھی فرمائی۔
_____
؂۱ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس حوضوں کے مانند لگن اور لنگر انداز رہنے والی دیگوں کا ذکر ان کی فیاضی اور غرباء پروری کی شہادت کے طور پر ہوا ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہی ستونوں والے ارم۔

یہ اِس قوم کی تعمیری ترقیوں کی تعبیر کے لیے اُسی طرح کا کنایہ ہے، جس طرح سورۂ سبا (۳۴) کی آیت ۱۳ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کے جودوکرم اور فیاضی کی تعبیر ’جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِیٰتٍ‘ کے الفاظ سے کی گئی ہے۔

اِنھیں عاد ارم اِس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل کی اُس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو ارم بن سام بن نوح سے چلی تھی۔ یہاں بالخصوص اِس نسبت کے ساتھ اِن کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ اِن کی فوجی اور تعمیری ترقیوں کی ابتدا اِسی ارم سے ہوئی۔

ابو الاعلی مودودی

اونچے ستونوں والے عاد ارم کے ساتھ (عاد کے جد امجد ارم کے ساتھ)

عاد ارم سے مراد وہ قدیم قوم عاد ہے جسے قرآن مجید اور تاریخ عرب میں عاد اولی کا نام دیا گیا ہے۔ سورة نجم میں فرمایا گیا ہے کہ وانہ اھلک عاد الاولی۔ (آیت 50) ” اور یہ کہ اس نے قدیم قوم عاد کو ہلاک کیا “، یعنی اس قوم عاد کو جس کی طرف حضرت ہود بھیجے گئے تھے اور جس پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اس کے مقابلہ میں تاریخ عرب اس قوم کے ان لوگوں کو جو عذاب سے بچ کر بعد میں پھلے پھولے تھے عاد اخری کے نام سے یاد کرتی ہے۔ قدیم قوم عاد کو عاد ارم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل کی اس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) سے چلی تھی۔ اسی شاخ کی کئی دوسری ضمنی شاخیں تاریخ میں مشہور ہیں جن میں سے ایک ثمود ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور دوسرے آرامی (Aramaeans) ہیں جو ابتداءً شام کے شمالی علاقوں میں آباد تھے اور جن کی زبان آرامی (Aramaic) سامی زبانوں میں بڑا اہم مقام رکھتی ہے۔

عاد کے لیے ذات العماد (اونچے ستونوں والے) کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ وہ بڑی بڑی بلند عمارتیں بناتے تھے اور دنیا میں اونچے ستونوں پر عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انہی نے شروع کیا تھا۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ان کی اس خصوصیت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ حضرت ہود نے ان سے فرمایا)

أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آَيَةً تَعْبَثُونَ (128) وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ (129)

” یہ تمارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لا حاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے ” (الشعراء آیات 128 ۔ 129) ۔

جونا گڑھی

ستونوں والے ارم کے ساتھ

ارم یہ قوم عاد کے دادا کا نام ہے، ان کا سلسلہ نسب ہے عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (فتح القدیر) ذات العماد سے اشارہ ہے ان کی قوت وطاقت اور دراز قامتی کی طرف، علاوہ ازیں وہ فن تعمیر میں بھی بری مہارت رکھتے تھے اور نہایت مضبوط بنا دوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔ ذات العماد میں دونوں ہی مفہوم شامل ہو سکتے ہیں۔

الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ

امین احسن اصلاحی

جن کا ثانی نہ ہوا ملکوں میں

’اَلَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ‘۔ تعمیری ترقیوں کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اپنے قد و قامت اور زور و قوت کے لحاظ سے بھی نہایت نمایاں تھے۔ ان سے پہلے یا ان کی معاصر قوموں میں سے کوئی قوم ان کی برابری نہ کر سکی۔

جاوید احمد غامدی

جن کے برابر دنیا کے ملکوں میں کوئی قوم پیدا نہیں کی گئی

یعنی تعمیری ترقیوں کے ساتھ قد و قامت اور زور و قوت کے لحاظ سے بھی اُس زمانے میں کوئی قوم اِن کی ہم پایہ نہ تھی۔

ابو الاعلی مودودی

جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی ؟

یعنی وہ اپنے زمانے کی ایک بےنظیر قوم تھے، اپنی قوت اور شان و شوکت کے اعتبار سے کوئی قوم اس وقت دنیا میں ان کی ٹکر کی نہ تھی۔ قرآن میں دوسرے مقامات پر ان کے متعلق فرمایا گیا ہے

وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً

، ” تم کو جسمانی ساخت میں خوب تنو مند کیا ” (الاعراف، آیت 69) ۔

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً

، ” رہے عاد تو انہوں نے زمین میں کسی حق کے بغیر اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور کہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ زورآور ؟ ” (حم السجدہ، آیت 15) ۔

وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ

، ” اور تم نے جب کسی پر ہاتھ ڈالا جبار بن کر ڈالا ” (الشعراء، آیت 130) ۔

جونا گڑھی

جس کی مانند کوئی قوم ملکوں میں پیدا نہیں ہوئی۔

 یعنی ان جیسی دراز قامت اور قوت وطاقت والی قوم کوئی اور پیدا نہیں ہوئی، یہ قوم کہا کرتی تھی (من اشد منا قوۃ) ہم سے زیادہ کوئی طاقتور ہے ؟

وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ

امین احسن اصلاحی

اور ثمود کے ساتھ جنھوں نے وادی میں پتھر تراشے

عاد کے بعد یہ بالاجمال ثمود کی طرف بھی اشارہ فرما دیا۔ یہ لوگ عاد ہی کے بقایا میں سے تھے اور تعمیر و تمدن کے شوق میں ان کے وارث ہوئے۔ چنانچہ ان کو عاد ثانیہ بھی کہا گیا ہے۔ ’واد القرٰی‘ ان کا مسکن تھی۔ اس کے پہاڑوں میں انھوں نے اپنے اسلاف کے طریقہ پر پہاڑوں کو تراش تراش کر اپنے لیے گھر بنائے جس کی طرف ’جَابُوا الصَّخْرَ‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اور ثمود کے ساتھ جنھوں نے وادی القریٰ میں پتھر تراشے

اصل میں لفظ ’الْوَاد‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد وادی القریٰ ہے جہاں اِس قوم نے اپنے اسلاف کے طریقے پر پہاڑوں کو ترشوا کر اپنے لیے ایوان ومحل بنائے۔

ابو الاعلی مودودی

اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں ؟

وادی سے مراد وادی القریٰ ہے جہاں اس قوم نے پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنائی تھیں غالباً تاریخ میں وہ پہلی قوم ہے جس نے چٹانوں کے اندر اس کی عمارتیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حواشی 57 ۔ 59 ۔ الحجر، حاشیہ 45 ۔ جلد سوم، الشعراء حواشی 95 ۔ 99 مع تصاویر) ۔

جونا گڑھی

اور ثمودیوں کے ساتھ جنہوں نے وادی میں بڑے بڑے پتھر تراشے تھے۔

 یہ حضرت صالح کی قوم تھی اللہ نے اسے پتھر تراشنے کی خاص صلاحیت وقوت عطا کی تھی، حتی کہ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنی رہائش گاہیں تعمیر کرلیتے تھے، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے (وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ١٤٩؀ۚ) 26 ۔ الشعراء :149) 

وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ

امین احسن اصلاحی

اور فرعون میخوں والے کے ساتھ

اقوام بائدہ کی تباہی کے بعد یہ فرعون اور اس کی فوجوں کی تباہی کی طرف توجہ دلائی۔ ’ذِی الْأَوْتَادِ‘ کے لفظی معنی تو میخوں والے کے ہیں لیکن یہاں ’اوتاد‘ بطریق کنایہ فرعون کی فوجوں کی تعبیر کے لیے آیا ہے۔ فوجیں بالعموم خیموں میں رہتی ہیں اور خیمے میخوں سے نصب کیے جاتے ہیں اس وجہ سے عربی میں یہ تعبیر معروف ہے۔ فرعون کی فوجوں کی کثرت کا ذکر تورات میں بھی ہے اور قرآن میں بھی جگہ جگہ مثلاً ۔۔۔ یونس، طٰہٰ، القصص اور الذاریات ۔۔۔ میں آیا ہے۔ قدیم زمانے میں مستقل فوجیں رکھنے کا رواج نہیں تھا۔ حملہ یا دفاع کی ضرورت کے لیے قبیلوں اور خاندانوں کے نوجوان بالکل وقت کے وقت اپنی خدمات پیش کرتے اور ضرورت پوری ہو جانے کے بعد منتشر ہو جاتے لیکن فرعون نے، تورات سے معلوم ہوتا ہے، ملک کی حفاظت کے لیے مستقل فوج قائم کی جو مملکت کے مختلف حصوں میں برابر، اپنے ڈیروں خیموں کے ساتھ گشت کرتی رہتی۔ اس نے اپنے نوابوں اور امراء پر بھی یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ ایک خاص تعداد میں اسلحہ، گھوڑے اور رتھ تیار رکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر حکومت کی مؤثر خدمت کر سکیں۔ اسی خصوصی امتیاز کی بنا پر فرعون کو ’ذُو الْأَوْتَادِ‘ کہا گیا۔

جاوید احمد غامدی

اور میخوں والے فرعون کے ساتھ۔

فوجیں بالعموم خیموں میں رہتی ہیں اور خیمے میخوں سے نصب کیے جاتے ہیں۔ قرآن نے ستونوں والے ارم کی طرح یہ تعبیر فرعون کی فوجوں کی کثرت کو بیان کرنے کے لیے اختیار کی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... قدیم زمانے میں مستقل فوجیں رکھنے کا رواج نہیں تھا۔ حملے یا دفاع کی ضرورت کے لیے قبیلوں اور خاندانوں کے نوجوان بالکل وقت کے وقت اپنی خدمات پیش کرتے اور ضرورت پوری ہو جانے کے بعد منتشر ہو جاتے، لیکن فرعون نے، تورات سے معلوم ہوتا ہے، ملک کی حفاظت کے لیے مستقل فوج قائم کی جو مملکت کے مختلف حصوں میں برابر اپنے ڈیروں، خیموں کے ساتھ گشت کرتی رہتی۔ اُس نے اپنے نوابوں اور امراپر بھی یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ ایک خاص تعداد میں اسلحہ، گھوڑے اور رتھ تیاررکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر حکومت کی موثر خدمت کر سکیں۔ اِسی خصوصی امتیازکی بنا پر فرعون کو ’ذُوالْاَوْتَاد‘ (میخوں والا) کہا گیا ۔‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۳۵۵)

ابو الاعلی مودودی

اور میخوں والے فرعون کے ساتھ ؟

فرعون کے لیے ذوالاوتاد (میخوں والا) کے الفاظ اس سے پہلے سورة ص آیت 12 میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کی فوجوں کو میخوں سے تشبیہ دی گئی ہو اور میخوں والا کا مطلب فوجوں والا ہو، کیونکہ انہی کی بدولت اس کی سلطنت اس طرح ہوئی تھی جیسے خیمہ میخوں کے ذریعہ سے مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد فوجوں کی کثرت ہو اور مطلب یہ ہو کہ اس کے لشکر جہاں بھی جا کر ٹھیرتے تھے وہاں ہر طرف ان کے خیموں کی میخیں ہی ٹھکی نظر آتی تھیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد وہ میخیں ہوں جن سے ٹھوک کر وہ لوگوں کو عذاب دیتا تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اہرام مصر کو میخوں سے تشبیہ دی گئی ہو کیونکہ وہ فراعنہ کی عظمت و شوکت کے وہ آثار ہیں جو صدیوں سے زمین پر جمے کھڑے ہیں۔

جونا گڑھی

اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا

 اس کا مطلب ہے کہ بڑے لشکروں والا تھا جس کے پاس خیموں کی کثرت تھی جنہیں میخیں گاڑ کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یا اس کے ظلم وستم کی طرف اشارہ ہے کہ میخوں کے ذریعے وہ لوگوں کو سزائیں دیتا تھا۔ 

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >