تم دعا کرو، (اے پیغمبر) کہ میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب (کی)۔
n/a
کہو، میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب،
n/a
آپ کہہ دیجئے ! کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں۔
رب (پروردگار) کا مطلب ہے جو ابتدا سے ہی جب کہ انسان ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے اس کی تدبیرو اصلاح کرتا ہے، حتٰی کہ وہ بالغ عاقل ہوجاتا ہے پھر وہ یہ تدبیر چند مخصوص افراد کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کرتا ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ اپنی تمام مخلوقات کے لیے کرتا ہے، یہاں صرف انسانوں کا ذکر انسان کے اس شرف افضل کے اظہار کے لیے ہے جو تمام مخلوقات پر اس کو حاصل ہے۔
لوگوں کے بادشاہ کی۔
اللہ تعالیٰ کی تین صفتوں کے واسطہ سے تعوّذ: یہ اللہ تعالیٰ کی پناہ اس کی تین صفتوں کے واسطہ سے چاہی گئی ہے اور یہ تینوں صفتیں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے ان بنیادی حقوق کو بھی معین کرتی ہیں جو بندوں پر عائد ہوتے ہیں اور پھر یہ رہنمائی بھی دیتی ہیں کہ ان صفات سے جو ذات متصف ہے وہی اہل ہے کہ بندے مشکلات میں اس کی پناہ ڈھونڈیں اور وہی اس لائق ہے کہ وہ بڑے سے بڑے دشمن کے مقابل میں بھی ان کو پناہ دے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے حقوق: حقوق کی وضاحت یوں ہوتی ہے کہ جو لوگوں کا پروردگار ہے وہی حق دار ہے کہ لوگوں کا بادشاہ حقیقی ہو اور جو بادشاہ حقیقی ہے وہی حق دار ہے کہ لوگوں کا معبود ہو۔ اگر پروردگار کے سوا کوئی دوسرا لوگوں کا بادشاہ بن کر اپنا قانون اور حکم چلائے تو یہ چیز بھی خلاف عقل و فطرت اور ناجائز ہے اور رب کے سوا اگر کسی اور کو لوگ اپنا معبود بنائیں گے تو یہ چیز بھی خلاف عقل و فطرت اور حرام ہے۔
سورۂ فاتحہ میں ربوبیت ہی کی دلیل پر بندوں کی تمام شکرگزاری کا حق دار اللہ تعالیٰ کو ٹھہرایا گیا ہے اور پھر اسی کو تمام عبادت اور استعانت کا مرجع بتایا گیا ہے۔ وہی بات یہاں بھی فرمائی گئی ہے۔ بس الفاظ مختلف ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو ان تین صفتوں سے متصف مان لینے کے بعد غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ شرک کے تمام رخنے بند ہو جاتے ہیں اور ان صفتوں میں ایسا لزوم ہے کہ ایک کو مان لینے کے بعد دوسری صفتوں کو ماننا لازم ہو جاتا ہے۔
انسانوں کے بادشاہ (کی)۔
n/a
انسانوں کے بادشاہ،
n/a
لوگوں کے مالک کی
جو ذات، تمام انسانوں کی پرورش اور نہگداشت کرنے والی ہے، وہی اس لائق ہے کہ کائنات کی حکمرانی اور بادشاہی بھی اسی کے پاس ہو۔
لوگوں کے معبود کی۔
اللہ تعالیٰ کی تین صفتوں کے واسطہ سے تعوّذ: یہ اللہ تعالیٰ کی پناہ اس کی تین صفتوں کے واسطہ سے چاہی گئی ہے اور یہ تینوں صفتیں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے ان بنیادی حقوق کو بھی معین کرتی ہیں جو بندوں پر عائد ہوتے ہیں اور پھر یہ رہنمائی بھی دیتی ہیں کہ ان صفات سے جو ذات متصف ہے وہی اہل ہے کہ بندے مشکلات میں اس کی پناہ ڈھونڈیں اور وہی اس لائق ہے کہ وہ بڑے سے بڑے دشمن کے مقابل میں بھی ان کو پناہ دے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے حقوق: حقوق کی وضاحت یوں ہوتی ہے کہ جو لوگوں کا پروردگار ہے وہی حق دار ہے کہ لوگوں کا بادشاہ حقیقی ہو اور جو بادشاہ حقیقی ہے وہی حق دار ہے کہ لوگوں کا معبود ہو۔ اگر پروردگار کے سوا کوئی دوسرا لوگوں کا بادشاہ بن کر اپنا قانون اور حکم چلائے تو یہ چیز بھی خلاف عقل و فطرت اور ناجائز ہے اور رب کے سوا اگر کسی اور کو لوگ اپنا معبود بنائیں گے تو یہ چیز بھی خلاف عقل و فطرت اور حرام ہے۔
سورۂ فاتحہ میں ربوبیت ہی کی دلیل پر بندوں کی تمام شکرگزاری کا حق دار اللہ تعالیٰ کو ٹھہرایا گیا ہے اور پھر اسی کو تمام عبادت اور استعانت کا مرجع بتایا گیا ہے۔ وہی بات یہاں بھی فرمائی گئی ہے۔ بس الفاظ مختلف ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو ان تین صفتوں سے متصف مان لینے کے بعد غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ شرک کے تمام رخنے بند ہو جاتے ہیں اور ان صفتوں میں ایسا لزوم ہے کہ ایک کو مان لینے کے بعد دوسری صفتوں کو ماننا لازم ہو جاتا ہے۔
انسانوں کے معبود کی۔
یہ تینوں صفات لازم و ملزوم ہیں، اِس لیے کہ جو لوگوں کا پروردگار ہے، وہی حق دارہے کہ اُن کا بادشاہ ہو اور وہی حق دار ہے کہ اُسے معبود حقیقی مانا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اُس خدا کی پناہ مانگو جو انسانوں کا رب، بادشاہ اور معبود ہونے کی حیثیت سے اُن پر پورا اقتدار رکھتا ہے، جو اِس کا اہل ہے کہ بڑے سے بڑے دشمن کے مقابلے میں اُن کو پناہ دے سکے اور جس کے سوا کوئی دوسرا درحقیقت ہے ہی نہیں کہ کوئی اُس کی پناہ مانگے۔
انسانوں کے حقیقی معبود کی
یہاں بھی سورة فلق کی طرح اعوذ باللہ کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کو اس کی تین صفات سے یاد کر کے اس کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک اس کا رب الناس، یعنی تمام انسانوں کا پروردگار و مربی اور مالک و آقا ہونا۔ دوسرے اس کا ملک الناس، یعنی تمام انسانوں کا بادشاہ اور حاکم و فرمانروا ہونا۔ تیسرے اس کا الہ الناس، یعنی انسانوں کا حقیقی معبود ہونا۔ (یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ الہ کا لفظ قرآن مجید میں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک وہ شے یا شخص جس کو عبادت کا کوئی استحقاق نہ پہنچتا ہو مگر عملا اس کی عبادت کی جارہی ہو۔ دوسرا وہ جسے عبادت کا استحقاق پہنچتا ہو اور جو حقیقت میں معبود ہو، خواہ لوگ اس کی عبادت کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں۔ اللہ کے لیے جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اسی دوسرے معنی میں ہوا ہے) ان تین صفات سے استعاذہ کا مطلب یہ ہوا کہ میں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو انسانوں کا رب، بادشاہ، اور معبود ہونے کی حیثیت سے ان پر کامل اقتدار رکھتا ہو، جو اپنے بندوں کی حفاظت پر پوری طرح قادر ہے، اور جو واقعی اس شر سے انسانوں کو بچا سکتا ہے جس سے خود بچنے اور دوسرے انسانوں کو بچانے کے لیے میں اس کی پناہ مانگ رہا ہوں۔ یہی نہیں بلکہ چونکہ وہی رب اور بادشاہ اور الہ ہے، اس لیے اس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں جس سے میں پناہ مانگوں اور جو حقیقت میں پناہ دے بھی سکتا ہو۔
لوگوں کے معبود کی (پناہ میں) ۔
اور جو تمام کائنات کا پروردگار ہو، پوری کائنات پر اسی کی بادشاہی ہو، وہی ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور وہی تمام لوگوں کا معبود ہو۔ چنانچہ میں اسی عظیم و برتر ہستی کی پناہ حاصل کرتا ہوں۔
وسوسہ ڈالنے والے دبک جانے والے کی آفت سے۔
اس چیز کا بیان جس سے پناہ مانگی گئی ہے: یہ اس چیز کا بیان ہے جس کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔ فرمایا کہ کہو میں وسوسہ ڈالنے والے، دبک جانے والے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ الفاظ میں اگرچہ تصریح نہیں ہے لیکن ان صفات اور آگے کی تصریح سے واضح ہے کہ مراد اس سے شیطان ہی ہے۔
شیطان کی تکنیک: یہ شیطان کے تکنیک کی وضاحت ہے کہ اس کا سارا اعتماد وسوسہ اندازی، پراپیگنڈے اور پر فریب وعدوں پر ہے۔ انہی چیزوں سے وہ لوگوں کو اپنے دام فریب میں پھنساتا ہے۔ پھر جب پھنسا لیتا ہے تو اپنے کو بری قرار دے کر ان بے وقوفوں کی بد انجامی کا تماشا دیکھتا ہے جو اس کے دام میں پھنس کر اپنی دنیا اور عاقبت برباد کر لیتے ہیں۔
’وسواس‘ (وسوسہ ڈالنے والے) اور ’خنّاس‘ (دبک رہنے والے) کے درمیان حرف ربط نہیں ہے اور اس کے محل میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں صفتیں موصوف میں بیک وقت موجود ہیں۔
شیطان کا واحد ہتھیار: اس سے ایک حقیقت تو یہ واضح ہوئی کہ شیطان کے پاس واحد ہتھیار صرف وسوسہ اندازی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور زور و اختیار اللہ تعالیٰ نے اس کو نہیں بخشا ہے کہ لازماً وہ لوگوں کو گمراہ کر ہی ڈالے۔ پرفریب وعدوں، ملمع کی ہوئی باتوں، ناصحانہ تنبیہات اور دھمکیوں سے وہ لوگوں کو ڈرانے کی بھی کوشش کرتا ہے اور پرچانے کی بھی لیکن اللہ کے بندے اس کی دھمکیوں سے مرعوب نہ ہوں تو ان کا وہ کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ چنانچہ اس نے جب اللہ تعالیٰ کو یہ دھمکی دی تھی کہ میں اولاد آدم کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا تو اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں یہ واضح فرما دیا کہ
’إِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۶۵)
(جا تیرا جو جی چاہے کر دیکھ، میرے خاص بندوں پر ۔۔۔ جو میری بندگی پر قائم رہنا چاہیں گے ۔۔۔ تیرا کوئی زور نہیں چلے گا)
ساتھ ہی بندوں کے بارے میں یہ اطمینان بھی دلا دیا تھا کہ
’وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلاً‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۶۵)
(اور تیرا خداوند اعتماد کے لیے بالکل کافی ہے)
یعنی اس کے جو بندے اپنے رب پر بھروسہ کر کے شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے اعتماد کی لاج رکھے گا اور وہ سرخ رو ہوں گے۔
’خنّاس‘ کا مفہوم: ’خَنَّاس‘ کے لفظ سے اس کے کردار کا دوسرا رخ واضح کیا گیا ہے۔ عام طور پر لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ چھپ کر وسوسہ اندازی کرتا ہے، خود سامنے نہیں آتا اس وجہ سے اس کو ’خنّاس‘ کہا گیا۔ لیکن یہ بات اگر صحیح ہو سکتی ہے تو صرف انہی شیاطین کے حد تک صحیح ہو سکتی ہے جو جنات کے زمرے سے تعلق رکھنے والے ہیں درآنحالیکہ اسی سورہ کی آگے والی آیت میں تصریح ہے کہ شیاطین جنوں اور انسانوں دونوں میں سے ہوتے ہیں۔ اس دور کے بعض قلم کاروں نے اس کے معنی باربار آنے والے کے لکھے ہیں لیکن اس معنی کو عربی لغت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک اس کے معنی وہی ہیں جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیے ہیں یعنی دبک رہنے والا۔ اس سے مقصود شیطان کے کردار کے اس پہلو کو سامنے لانا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو ورغلانے کے لیے تو نمودار ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص اس کے چکمہ میں آ کر گناہ کر بیٹھتا ہے تو وہ اس کے نتائج کی ذمہ داری سے اپنے کو بالکل بری قرار دے کر اس کو چھوڑ بیٹھتا ہے۔ چنانچہ شیطان کی صفت قرآن میں ’خَذُوْل‘ بھی آئی ہے یعنی اپنے مریدوں کو دغا دینے والا۔ اس کی اس دغا بازی اور بے وفائی کا ذکر قرآن میں مختلف اسلوبوں سے جگہ جگہ آیا ہے۔ سابق سورہ میں ہم سورۂ بنی اسرائیل کی یہ آیت نقل کر آئے ہیں کہ
’وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْْطَانُ إِلاَّ غُرُوۡرًا‘۱ (بنی اسرائیل ۱۷: ۶۴)
(اور شیطان کے سارے وعدے محض فریب ہیں)۔
شیطان کا یہ کردار سورۂ حشر میں نہایت واضح لفظوں میں یوں بیان ہوا ہے:
کَمَثَلِ الشَّیْْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنۡسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّنۡکَ إِنِّیْٓ أَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔(الحشر ۵۹: ۱۶)
’’ان کی مثال شیطان کی ہے۔ جب کہ وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر تو جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری ہوں، میں عالم کے خداوند، اللہ سے ڈرتا ہوں۔‘‘
اسی شیطانی کردار کا مظاہرہ یہود نے جنگ بدر کے موقع پر قریش کے ساتھ کیا کہ ان کو بھڑی دے کر مدینہ پر چڑھا لائے کہ وہ مسلمانوں کو ختم کر دیں، مسلمان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اگر ضرورت ہوئی تو وہ بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ لیکن جب معرکۂ کارزار گرم ہوا اور انھوں نے میدان جنگ کا نقشہ دیکھا تو چھپ کر گھروں میں بیٹھ رہے۔ قرآن نے ان کے اس کردار کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
وَإِذْ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ أَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لاَ غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتَانِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَقَالَ إِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنۡکُمْ إِنِّیْ أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ۔۲ (الانفال ۸: ۴۸)
’’اور جب کہ شیطان (یہود) نے ان کے (قریش کے) اعمال ان کی نگاہوں میں کھبا دیے اور کہا کہ اب آپ لوگوں پر غالب ہونے کا بوتا کسی میں نہیں ہے اور میں آپ لوگوں کا پڑوسی ہوں تو جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہوئے تو وہ دم دبا کر بھاگا اور بولا کہ میں تم سے بری ہوں۔ میں وہ مشاہدہ کر رہا ہوں جو تم نہیں کر رہے ہو۔‘‘
شیطان اور اس کے پیروؤں کا یہی کردار اس دنیا میں بھی ہے اور اسی کا مظاہرہ وہ آخرت میں بھی کریں گے۔ قرآن میں جگہ جگہ گمراہ لیڈروں اور ان کے پیروؤں کی اس توتکار کی تصویر کھینچی گئی ہے جو ان کے درمیان جہنم میں برپا ہو گی۔ عوام اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم نے آپ لوگوں کی پیروی کی اور اس کے نتیجہ میں یہاں پہنچے تو کیا آپ لوگ اس عذاب میں سے کچھ حصہ بٹائیں گے جو ہمارے حصہ میں آیا؟ لیڈر جھٹ جواب دیں گے کہ تم خود شامت زدہ تھے کہ تم نے ہماری پیروی کی، ہم کو تمہارے اوپر کوئی زور تو حاصل نہیں تھا، تم جو کچھ بنے خود بنے تو اپنے کیے کی سزا خود بھگتو۔
لفظ ’خَنَّاسٌ‘ یہاں اس کے اسی کردار کی تصویر پیش کر رہا ہے تاکہ لوگ اس کے صرف اس چاؤ اور پیار ہی کو نہ دیکھیں جو وہ اس وقت ظاہر کرتا ہے جب وہ ان کے پاس فریب دینے کے لیے آتا ہے بلکہ اس کی اس غداری اور بے وفائی کو بھی پیش نظر رکھیں جس کا مظاہرہ وہ اس وقت کرتا ہے جب آدمی اس کے دام فریب میں پھنس جاتا ہے اور متوقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدے پورے کرے گا۔
_____
۱
وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِلْإِنۡسَانِ خَذُوۡلاً (الفرقان ۲۵: ۲۹)
’’اور شیطان انسان کے ساتھ بڑا ہی بے وفائی کرنے والا ہے۔‘‘
۲ اس آیت کی تفسیر کے لیے ملاحظہ ہو تدبرقرآن۔ جلد سوم، صفحات ۸۰-۸۳۔
اُس کے شر سے جو وسوسہ ڈالتا، پھر الگ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔
الفاظ میں اگرچہ تصریح نہیں ہے، مگر یہ اور اِس سے آگے کی صفات بتا رہی ہیں کہ مراد شیطان ہے۔ یہ اُس کی خاص تکنیک ہے جس سے وہ لوگوں کو فریب دیتا اور اپنے دام میں پھنساتا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے پاس واحد ہتھیار یہی ہے۔ جس سے وہ اپنے مقاصد پورے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کو یہ اختیار ہرگز نہیں دیا کہ زبردستی لوگوں کو گمراہ کر ڈالے۔ وہ پرفریب وعدے کرتا ہے، بری سے بری چیز کو تزیین کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، ناصح مشفق بن کر ترغیب و ترہیب کے حربوں سے کام لیتا ہے، مگر اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اللہ کے جو بندے اُس کے وسوسوں سے متاثر نہ ہوں، قرآن نے اطمینان دلایا ہے کہ اُس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اُن کا کچھ بگاڑ سکے۔
وسوسہ اندازی کرنے والے جن ہوں یا انسان، اُن کی عام نفسیات یہی ہے کہ جب کوئی شخص اُن کے فریب میں آجاتا ہے تو نتائج کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو بالکل بری قرار دے کر الگ ہوجاتے ہیں۔ انسانوں میں اِس طرح کے شیاطین ہر وقت دیکھ لیے جا سکتے ہیں۔ قرآن کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کے شیاطین کا معاملہ بھی یہی ہے۔ لفظ ’خَنَّاس‘ آیت میں اِسی کردار کی تصویر پیش کر رہا ہے تاکہ لوگ شیطان کی غداری اور بے وفائی کو بھی پیش نظر رکھیں۔ چنانچہ دوسرے مقامات میں فرمایا ہے کہ وہ ہمیشہ کا ’خَذُوْل‘ (اپنے مریدوں کو دغا دینے والا) ہے، اُس کے تمام وعدے بالکل فریب ہیں، آخرت میں بھی وہ اُسی طرح بری الذمہ ہو کر الگ ہو جائے گا، جس طرح دنیا میں ہو جاتا ہے۔
اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے،
اصل میں وَسْوَاسِ ڏ الْخَنَّاسِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وسو اس کے معنی ہیں بار بار وسوسہ ڈالنے والا۔ اور وسوسے کے معنی ہیں پے در پے ایسے طریقے یا طریقوں سے کسی کے دل میں کوئی بری بات ڈالنا کہ جس کے دل میں وہ ڈالی جارہی ہو اسے یہ محسوس نہ ہوسکے کہ وسوسہ انداز اس کے دل میں ایک بری بات ڈال رہا ہے۔ وسوسے کے لفظ میں کود تکرار کا مفہوم شامل ہے، جیسے زلزلہ میں حرکت کی تکرار کا مفہوم شامل ہے۔ چونکہ انسان صرف ایک دفعہ بہکانے سے نہیں بہکتا بلکہ اسے بہکانے کی پے در پے کوشش کرنی ہوتی ہے، اس لیے ایسی کوشش کو وسوسہ اور کوشش کرنے والے کو وسو اس کہا جاتا ہے۔ رہا لفظ خناس تو یہ خنوس سے ہے جس کے معنی ظاہر ہونے کے بعد چھپنے یا آنے کے بعد پیچھے ہٹ جانے کے ہیں، اور خناس چونکہ مبالغہ کا صیغہ ہے اس لیے اس کے معنی یہ فعل بکثرت کرنے والے کے ہوئے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ وسوسہ ڈالنے والے کو بار بار وسوسہ اندازی کے لیے آدمی کے پاس آنا پڑتا ہے، اور ساتھ ساتھ جب اسے خناس بھی کہا گیا تو دونوں الفاظ کے ملنے سے خودبخود یہ مفہوم پیدا ہوگیا کہ وسوسہ ڈال ڈال کر وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور پھر پے در پے وسوسہ اندازی کے لیے پلٹ کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایک مرتبہ وسوسہ اندازی کی کوشش جب ناکام ہوتی ہے تو وہ چلا جاتا ہے، پھر وہی کوشش کرنے کے لیے دوبارہ، سہ بارہ اور بار بار آتا رہتا ہے۔
وسو اس الخناس کا مطلب سمجھ لینے کے بعد اب اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے شر سے پناہ مانگنے کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پناہ مانگنے والا خود اس کے شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہے، یعنی اس شر سے کہ وہ کہیں اس کے اپنے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے خلاف جو شخص بھی لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا پھرے اس کے شر سے داعی حق خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ داعی الی الحق کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ اس کی ذات کے خلاف جن جن لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے جارہے ہوں ان سب تک خود پہنچے اور ایک ایک شخص کی غلط فہمیوں کو صاف کرے۔ اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ۃ ے کہ اپنی دعوت الی اللہ کا کام چھوڑ چھاڑ کر وسوسہ اندازوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو صاف کرنے اور ان کے الزامات کی جواب دہی کرنے میں لگ جائے۔ اس کے مقام سے یہ بات بھی فروتر ہے کہ جس سطح پر اس کے مخالفین اترے ہوئے ہیں اسی پر خود بھی اتر آئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دعوت حق دینے والے کو ہدایت فرمائی کہ ایسے اشرار کے شر سے بس خدا کی پناہ مانگ لے اور پھر بےفکری کے ساتھ اپنی دعوت کے کام میں لگا رہ۔ اس کے بعد ان سے نمٹنا تیرا کام نہیں بلکہ رب الناس، ملک الناس اور الہ الناس کا کام ہے۔
اس مقام پر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وسوسہ عمل شر کا نقطہ آغاز ہے۔ وہ جب ایک غافل یا خالی الذہن آدمی کے اندر اثر انداز ہوجاتا ہے تو پہلے اس میں برائی کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ پھر مزید وسوسہ اندازی اس بری خواہش کو بری نیت اور برے ارادے میں تبدیل کردیتی ہے۔ پھر اس سے آگے جب وسوسے کی تاثیر بڑھتی ہے تو ارادہ عزم بن جاتا ہے اور آخری قدم پر پھر عمل شر ہے۔ اس لیے وسوسہ انداز کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ شر کا آغاز جس مقام سے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسی مقام پر اس کا قلع قمع فرمادے۔
دوسرے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو وسوسہ اندازوں کے شر کی ترتیب یہ نظر آتی ہے کہ پہلے وہ کھلے کھلے کفر، شرک، دہریت، یا اللہ اور رسول سے بغاوت اور اللہ والوں کی عداوت پر اکساتے ہیں۔ اس میں ناکامی ہو اور آدمی دین اللہ میں داخل ہی ہوجائے تو وہ اسے کسی نہ کسی بدعت کی راہ سمجھاتے ہیں یہ بھی نہ ہوسکے تو معصیت کی رغبت دلاتے ہیں۔ اس میں بھی کامیابی نہ ہوسکے تو آدمی کے دل میں یہ خیال ڈالتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرلینے میں تو کوئی مضائقہ نہیں تاکہ یہی اگر کثرت سے صادر ہوجائیں تو گناہوں کا بار عظیم انسان پر لد جائے۔ اس سے بھی اگر آدمی بچ نکلے تو بدرجہ آخر وہ کوشش کرتے ہیں کہ آدمی دین حق کو بس اپنے آپ تک ہی محدود رکھے، اسے غالب کرنے کی فکر نہ کرے، لیکن اگر کوئی شخص ان تمام چالوں کو ناکام کردے تو پھر شیاطین جن و انس کی پوری پارٹی ایسے آدمی پر پل پڑتی ہے، اس کے خلاف لوگوں کو اکساتی اور بھڑکاتی ہے، اس پر گالیوں اور الزامات کی بوجھاڑ کراتی ہے، اسے ہر طرف بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر شیطان اس مرد مومن کو آکر غصہ دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ برداشت کرلینا تو بڑی بزدلی کی بات ہے، اٹھ اور ان حملہ آوروں سے بھڑ جا۔ یہ شیطان کا آخری حربہ ہے جس سے وہ دعوت حق کی رہ کھوٹی کرانے اور داعی حق کو راہ کے کانٹوں سے الجھا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے بھی اگر داعی حق بچ نکلے تو شیطان اس کے آگے بےبس ہوجاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشا ہوتا ہے وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ ” اور اگر شیطان کی طرف سے تمہیں کوئی اکساہٹ محسوس ہو تو اللہ کی پناہ مانگو ” (الاعراف 200 ۔ حم السجدہ 36) وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ” کہو میرے پروردگار میں شیطانین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ” (المومنون 97) اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ ” جو لوگ پرہیزگار ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جائے تو وہ فورا چونک جاتے ہیں اور پھر انہیں (صحیح راستہ) صاف نظر آنے لگتا ہے ” (الاعراف 201) اور اسی بنا پر جو لوگ شیطان کے اس آخری حربے سے بچ نکلیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ ” یہ چیز بڑے نصیبے والے کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ” (حم السجدہ 35)
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی نگاہ میں رہنی چاہیے۔ وہ یہ کہ انسان کے دل میں وسوسہ اندازی صرف باہر سے شیاطین جن و انس ہی نہیں کرتے بلکہ اندر سے کود انسان کا اپنا نفس بھی کرتا ہے۔ اس کے اپنے غلط نظریات اس کی عقل کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس کی اپنی ناجائز اغراض و خواہشات اس کی قوت تمیز اور قوت ارادی اور قوت فیصلہ کو بد راہ کرتی ہیں۔ اور باہر کے شیاطین ہی نہیں، انسان کے اندر اس کے اپنے نفس کا شیطان بھی اس کو بہکاتا ہے۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ایک جگہ فرمائی گئی ہے کہ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ (ق، 16) اور ہم اس کے اپنے نفس سے ابھرنے والے وسوسوں کو جانتے ہیں “۔ اسی بنا پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مشہور خطبہ مسنونہ میں فرمایا ہے نعوذ باللہ من شرور انفسنا ” ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں سے “۔
وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے۔
الوسواس، بعض کے نزدیک اسم فاعل الموسوس کے معنی میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ ذی الوسو اس ہے۔ وسوسہ، مخفی آواز کو کہتے ہیں، شیطان بھی نہایت غیر محسوس طریقوں سے انسان کے دل میں بری باتیں ڈال دیتا ہے اسی کو وسوسہ کہتے ہیں۔ الخناس (کھسک جانے والا یہ شیطان کی صفت ہے۔ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو یہ کھسک جاتا ہے اور اللہ کی یاد سے غفلت برتی جائے تو دل پر چھا جاتا ہے)
جو دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔
شیطان کی ذات برادری: شیطان کے مشن کے ساتھ ساتھ یہ اس کی ذات برادری کی بھی نشان دہی کر دی گئی ہے تاکہ لوگ اس کو اچھی طرح پہچان لیں۔ فرمایا کہ اس کا اصل کام لوگوں کے سینوں میں وسوسہ اندازی ہے۔ ’صُدُوْرِ النَّاسِ‘ ظرف ہے لیکن مراد اس سے مظروف ہے یعنی دلوں میں وسوسہ اندازی۔ ’وسوسہ اندازی‘ کا مفہوم ظاہر ہے کہ لوگوں کو خدا کی صراط مستقیم سے برگشتہ کرنے کے لیے وسوسہ اندازی ہے۔ اس کا اظہار شیطان نے خود کر دیا ہے اور ہم ضروری حوالے اوپر نقل کر آئے ہیں۔ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے، جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی ہے، اپنے بندوں پر کوئی اختیار اور تصرف نہیں بخشا ہے۔ وہ صرف وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ لوگوں کو بجبر و زور گمراہ کرنے کا اختیار وہ نہیں رکھتا۔
جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔
اصل میں ’صُدُوْرِ النَّاسِ‘ کے الفاظ آئے ہیں، لیکن مراد وہی دل ہیں جو سینوں میں دھڑکتے ہیں۔
جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے
n/a
جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔
n/a
جنوں میں سے اور انسانوں میں سے۔
’مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ‘۔ یہ اس کی ذات برادری کی نشان دہی ہے کہ شیطان کوئی مستقل مخلوق نہیں ہے بلکہ جنوں اور انسانوں میں سے جو دلوں میں وسوسہ اندازی کا پیشہ اختیار کر لیں وہ شیطان بن جاتے ہیں۔ جس شیطان نے بابا آدم کو دھوکا دیا، قرآن میں تصریح ہے کہ، وہ جنوں میں سے تھا۔ جو لوگ اس کو ایک مستقل مخلوق اور زندہ جاوید ہستی سمجھتے ہیں ان کا خیال غلط ہے۔ البتہ اس نے بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لیے جس مشن کا اعلان کیا تھا وہ مشن اس کے ان مریدوں کے ذریعہ سے قیامت تک قائم رہے گا جو انسانوں اور جنوں میں سے اپنی خدمات اس کے لیے پیش کریں گے۔
جنوں اور انسانوں میں سے۔
یہ اُس کی ذات برادری کا پتا دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شیطان کوئی مستقل مخلوق نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اِسی مقصد سے پیدا کیا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے، بلکہ جنوں اور انسانوں میں سے جو یہ پیشہ اختیار کرلیں، وہی شیطان بن جاتے ہیں۔
خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
بعض اہل علم کے نزدیک ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے والا دو قسم کے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، ایک جن، دوسرے انسان۔ اس بات کو اگر تسلیم کیا جائے تو لفظ ناس کا اطلاق جن اور انسان دونوں پر ہوگا۔ وہ کہتے ہیں ایسا ہوسکتا ہے، کیونکہ قرآن میں جب رجال (مردوں) کا لفظ جنوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورة جن آیت 6 میں ہم دیکھتے ہیں، اور جب نَفَر کا استعمال جنوں کے گروہ پر ہوسکتا ہے جیسا کہ سورة احقاف آیت 29 میں ہوا ہے، تو مجازا ناس کے لفظ میں بھی انسان اور جن دونوں شامل ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ رائے اس لیے غلط ہے کہ ناس اور انس اور انسان کے الفاظ لغت ہی کے اعتبار سے لفظ جن کی ضد ہیں۔ جن کے اصل معنی پوشیدہ مخلوق کے ہیں اور جن کو جن اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی آنکھ سے مخفی ہے۔ اس کے برعکس ناس اور انس کے الفاظ انسان کے لیے بولے ہی اس بنا پر جاتے ہیں کہ وہ ظاہر اور مرئی اور محسوس ہے۔ سورة قصس آیت 29 میں ہے اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ ۔ یہاں آنَسَ کے معنی رَاَی ہیں، یعنی حضرت موسیٰ نے ” کوہ طور کے کنارے آگ دیکھی “۔ سورة نساء آیت 6 میں ہے فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا۔ ” اگر تم محسوس کرو کہ یتیم بچے اب ہوشمند ہوگئے ہیں “۔ یہاں انستم کے معنی احسستم یا رایتم ہیں۔ پس ناس کا اطلاق لغر عرب کی رو سے جنوں پر نہیں ہوسکتا، اور آیت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ ” اس وسوسہ انداز کے شر سے جو انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے، خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا خود انسانوں میں سے “۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وسوسہ اندازی کا کام شیاطین جن بھی کرتے ہیں اور شیاطین انس بھی، اور دونوں کے شر سے پناہ مانگنے کی اس سورة میں تلقین کی گئی ہے۔ اس معنی کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اور حدیث سے بھی۔ قرآن میں فرمایا :
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا (الانعام، 112) ” اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان جنوں اور شیطان انسانوں کو دشمن بنا دیا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے ہیں “۔
اور حدیث میں امام احمد، نسائی اور ابن حبان حضرت ابوذر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ فرمایا ابوذر تم نے نماز پڑھی ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھی اور پھر آکر بیٹھ گیا۔ حضور نے فرمایا یا ابا ذر، تعوذ باللہ من شر شیاطین الانس والجن، ” اے ابوذر شیاطین انس اور شیاطین جن کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو ” میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں ؟ فرمایا ہاں۔
(خواہ) وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے
یہ وسوسہ ڈالنے والوں کی دو قسمیں ہیں، شیاطین الجن کو تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قدرت دی ہے علاوہ ازیں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی ہوتا ہے جو اس کو گمراہ کرتا رہتا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات فرمائی تو صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہ ! کیا وہ آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے، اور میرا مطیع ہوگیا ہے مجھے خیر کے علاوہ کسی بات کا حکم نہیں دیتا (صحیح مسلم) اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف فرما تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے لیے آئیں رات کا وقت تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ گئے۔ راستے میں دو انصاری صحابی وہاں سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلا کر فرمایا کہ یہ میری اہلیہ، صفیہ بنت حیی، ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت ہمیں کیا بدگمانی ہو سکتی تھی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن شیطان انسان کی رگوں میں خوف کی طرح دوڑتا ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کچھ شبہ نہ ڈال دے۔ (صحیح بخاری)
دوسرے شیطان، انسانوں میں سے ہوتے ہیں جو ناصح، مشفق کے روپ میں انسانوں کو گمراہی کی تر غیب دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان جن کو گمراہ کرتا ہے یہ ان کی دو قسمیں ہیں، یعنی شیطان انسانوں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور جنات کو بھی۔ صرف انسانوں کا ذکر تغلیب کے طور پر ہے، ورنہ جنات بھی شیطان کے وسوسوں سے گمراہ ہونے والوں میں شامل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جنوں پر بھی قرآن میں ” رجال ” کا لفظ بولا گیا ہے (وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا ۙ) 72 ۔ الجن :6) اس لیے وہ بھی ناس کا مصداق ہیں۔
امین احسن اصلاحی
کہہ، میں پناہ مانگتا ہوں لوگوں کے رب کی۔
اللہ تعالیٰ کی تین صفتوں کے واسطہ سے تعوّذ: یہ اللہ تعالیٰ کی پناہ اس کی تین صفتوں کے واسطہ سے چاہی گئی ہے اور یہ تینوں صفتیں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے ان بنیادی حقوق کو بھی معین کرتی ہیں جو بندوں پر عائد ہوتے ہیں اور پھر یہ رہنمائی بھی دیتی ہیں کہ ان صفات سے جو ذات متصف ہے وہی اہل ہے کہ بندے مشکلات میں اس کی پناہ ڈھونڈیں اور وہی اس لائق ہے کہ وہ بڑے سے بڑے دشمن کے مقابل میں بھی ان کو پناہ دے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے حقوق: حقوق کی وضاحت یوں ہوتی ہے کہ جو لوگوں کا پروردگار ہے وہی حق دار ہے کہ لوگوں کا بادشاہ حقیقی ہو اور جو بادشاہ حقیقی ہے وہی حق دار ہے کہ لوگوں کا معبود ہو۔ اگر پروردگار کے سوا کوئی دوسرا لوگوں کا بادشاہ بن کر اپنا قانون اور حکم چلائے تو یہ چیز بھی خلاف عقل و فطرت اور ناجائز ہے اور رب کے سوا اگر کسی اور کو لوگ اپنا معبود بنائیں گے تو یہ چیز بھی خلاف عقل و فطرت اور حرام ہے۔
سورۂ فاتحہ میں ربوبیت ہی کی دلیل پر بندوں کی تمام شکرگزاری کا حق دار اللہ تعالیٰ کو ٹھہرایا گیا ہے اور پھر اسی کو تمام عبادت اور استعانت کا مرجع بتایا گیا ہے۔ وہی بات یہاں بھی فرمائی گئی ہے۔ بس الفاظ مختلف ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو ان تین صفتوں سے متصف مان لینے کے بعد غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ شرک کے تمام رخنے بند ہو جاتے ہیں اور ان صفتوں میں ایسا لزوم ہے کہ ایک کو مان لینے کے بعد دوسری صفتوں کو ماننا لازم ہو جاتا ہے۔