إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا

امین احسن اصلاحی

بے شک ہم نے تم کو ایک کھلی ہوئی فتح عطا فرمائی

معاہدۂ حدیبیہ کے ’فتح مبین‘ ہونے کے چند پہلو: ’فتح مبین‘ سے یہاں مراد معاہدۂ حدیبیہ ہے، اس کے سوا کسی اور فتح کو مراد لینے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ اس کو فتح مبین قرار دینے کے متعدد پہلو بالکل واضح ہیں۔ مثلاً

ایک یہ کہ یہ پہلا موقع ہے کہ قریش نے علانیہ بیت اللہ پر مسلمانوں کا حق تسلیم کیا اور یہ تسلیم کرنا بطور احسان نہیں بلکہ مسلمانوں سے دب کر ہوا۔ آگے آیت ۲۴ سے واضح ہو گا کہ اگر معاہدہ نہ ہوتا اور جنگ چھڑتی تو مسلمانوں کی فتح یقینی تھی۔ قریش نے صورت حال کا اچھی طرح اندازہ کر لیا تھا اس وجہ سے وہ معاہدہ کے دل سے خواہش مند تھے۔ البتہ اپنی ناک ذرا اونچی رکھنے کے لیے یہ چاہتے تھے کہ مسلمان اسی سال عمرہ کرنے پر اصرار نہ کریں بلکہ آئندہ سال آئیں۔ مسلمانوں کو اس بات پر راضی کرنے کے لیے انھوں نے بہت بڑی رشوت بھی دی کہ تین دن کے لیے وہ شہر بالکل خالی کر دیں گے تاکہ کسی تصادم کا کوئی اندیشہ نہ رہے۔ قریش کی طرف سے یہ پیش کش کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
دوسرا یہ کہ قریش نے اس معاہدے کی رو سے مسلمانوں کو اپنے برابر کی ایک حریف قوت عرب میں تسلیم کر لیا۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی حیثیت اب باغیوں اور غداروں کی نہیں رہی تھی، جیسا کہ وہ علانیہ اب تک کہتے رہے تھے، بلکہ مساوی درجے کی ایک سیاسی قوت کی ہو گئی چنانچہ انھوں نے علانیہ ان کے لیے یہ حق تسلیم کر لیا کہ عرب کے جو قبائل ان کے حلیف بننا چاہیں وہ ان کو اپنا حلیف بنا سکتے ہیں۔
تیسرا یہ کہ قریش نے مسلمانوں کی جنگی صلاحیتوں کا لوہا بھی اس حد تک مان لیا کہ خود اصرار کر کے معاہدے میں دس سال کے لیے جنگ بندی کی شرط رکھوائی۔
چوتھا یہ کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ اور مسلمانوں کو جنگ کی اجازت جو نہیں دی تو اس کی وجہ مسلمانوں کی کوئی کمزوری نہیں تھی بلکہ صرف یہ تھی کہ مکہ میں بہت سے ظاہر اور مخفی مسلمان تھے جو وہاں سے ابھی ہجرت نہیں کر سکے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جنگ کی صورت میں ان کو خود مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچ جائے گا۔
غرض اس کے ایک فتح مبین ہونے کے گوناگوں پہلو واضح تھے جو مسلمانوں سے مخفی نہیں ہو سکتے تھے لیکن قریش نے اپنی حمیت جاہلیت کا مظاہرہ کچھ اس طرح کیا اور بعض واقعات نہایت اشتعال انگیز۔ مثلاً ابوجندل کا واقعہ ۔۔۔ اس دوران میں ایسے پیش آ گئے کہ مسلمانوں کے اندر عام احساس یہ پیدا ہو گیا کہ یہ معاہدہ دب کر کیا جا رہا ہے۔ جذبات کے ہیجان میں لوگ اس کے ہر پہلو پر غور کر کے یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ اس معاہدے کی رو سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ اس سورہ نے جب اصل حقائق کی طرف توجہ دلائی تب لوگوں کو احساس ہوا کہ فی الواقع انھوں نے معاہدے کے مضمرات سمجھنے میں غلطی کی اور جب اس کے نتائج سامنے آئے تو ہر شخص نے کھلی آنکھ سے دیکھ لیا کہ فی الواقع یہی معاہدہ فتح مکہ کی تمہید ثابت ہوا۔

جاوید احمد غامدی

اِس میں کچھ شک نہیں، (اے پیغمبر) کہ ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی ہے۔

سورہ کے مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِس سے حدیبیہ کا معاہدہ مراد ہے جو روایتوں کے مطابق ذی القعدہ ۶ ؍ہجری میں قریش مکہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان طے پایا، جب اپنے ایک رویا کی بنا پر آپ ہدی کے جانور ساتھ لیے ہوئے اپنے کم و بیش چودہ پندرہ سو صحابہ کی معیت میں عمرے کے لیے وہاں پہنچے، لیکن قریش نے آپ کو اِس کی اجازت نہیں دی۔ یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا اور اِس کے شرائط درج ذیل تھے:

۱۔ دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی۔ اِس دوران میں کوئی فریق بھی ایک دوسرے کے خلاف کوئی خفیہ یا علانیہ کارروائی نہیں کرے گا۔
۲۔ اِس دوران میں قریش کا کوئی آدمی اگر اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جائے گا تو آپ اُسے واپس کر دیں گے۔ اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی آدمی قریش کے پاس آجائے گا تو وہ اُس کو واپس نہیں کریں گے۔
۳۔ قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی چاہے، فریقین میں سے کسی کاحلیف بن کر اِس معاہدے میں شامل ہو سکتا ہے۔
۴۔ مسلمان اِس سال واپس چلے جائیں گے۔ آیندہ سال وہ عمرے کے لیے آ کر تین دن تک مکے میں ٹھیر سکتے ہیں۔ اسلحہ میں سے ہر شخص صرف ایک تلوار میان میں لا سکتا ہے۔ اِن تین دنوں میں اہل مکہ اُن کے لیے شہر خالی کر دیں گے تاکہ کسی تصادم کا اندیشہ نہ رہے۔*
یہی معاہدہ ہے جسے قرآن نے یہاں کھلی فتح قرار دیا ہے۔ اِس کے متعدد پہلو بالکل واضح ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ایک یہ کہ یہ پہلا موقع ہے کہ قریش نے علانیہ بیت اللہ پر مسلمانوں کا حق تسلیم کیا اور یہ تسلیم کرنا بطور احسان نہیں، بلکہ مسلمانوں سے دب کر ہوا۔ آگے آیت۲۴ سے واضح ہو گا کہ اگر معاہدہ نہ ہوتا اور جنگ چھڑتی تو مسلمانوں کی فتح یقینی تھی۔ قریش نے صورت حال کا اچھی طرح اندازہ کر لیا تھا، اِس وجہ سے وہ معاہدے کے دل سے خواہش مند تھے۔ البتہ اپنی ناک ذرا اونچی رکھنے کے لیے یہ چاہتے تھے کہ مسلمان اِسی سال عمرہ کرنے پر اصرار نہ کریں، بلکہ آیندہ سال آئیں۔ مسلمانوں کو اِس بات پر راضی کرنے کے لیے اُنھوں نے بہت بڑی رشوت بھی دی کہ تین دن کے لیے وہ شہربالکل خالی کر دیں گے تاکہ کسی تصادم کا کوئی اندیشہ نہ رہے۔ قریش کی طرف سے یہ پیش کش کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
دوسرا یہ کہ قریش نے اِس معاہدے کی رو سے مسلمانوں کو اپنے برابر کی ایک حریف قوت عرب میں تسلیم کر لیا۔ اُن کی نظر میں مسلمانوں کی حیثیت اب باغیوں اور غداروں کی نہیں رہی تھی، جیسا کہ وہ علانیہ اب تک کہتے رہے تھے، بلکہ مساوی درجے کی ایک سیاسی قوت کی ہو گئی۔ چنانچہ اُنھوں نے علانیہ اُن کے لیے یہ حق تسلیم کر لیا کہ عرب کے جو قبائل اُن کے حلیف بننا چاہیں، وہ اُن کو اپنا حلیف بنا سکتے ہیں۔
تیسرا یہ کہ قریش نے مسلمانوں کی جنگی صلاحیت کا لوہا بھی اِس حد تک مان لیا کہ خود اصرار کر کے معاہدے میں دس سال کے لیے جنگ بندی کی شرط رکھوائی۔
چوتھا یہ کہ اِس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور مسلمانوں کو جنگ کی اجازت جو نہیں دی تو اِس کی وجہ مسلمانوں کی کوئی کمزوری نہیں تھی، بلکہ صرف یہ تھی کہ مکہ میں بہت سے ظاہر اور مخفی مسلمان تھے جو وہاں سے ابھی ہجرت نہیں کر سکے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جنگ کی صورت میں اُن کو خود مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچ جائے گا۔
غرض اِس کے ایک فتح مبین ہونے کے گوناگوں پہلو واضح تھے جو مسلمانوں سے مخفی نہیں ہو سکتے تھے، لیکن قریش نے اپنی حمیت جاہلیت کا مظاہرہ کچھ اِس طرح کیا اور بعض واقعات نہایت اشتعال انگیز، مثلاً ابوجندل کا واقعہ ۔۔۔ اِس دوران میں ایسے پیش آگئے کہ مسلمانوں کے اندر عام احساس یہ پیدا ہو گیا کہ یہ معاہدہ دب کر کیا جا رہا ہے۔ جذبات کے ہیجان میں لوگ اِس کے ہر پہلو پر غور کر کے یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ اِس معاہدے کی رو سے اُنھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ اِس سورہ نے جب اصل حقائق کی طرف توجہ دلائی، تب لوگوں کو محسوس ہوا کہ فی الواقع اُنھوں نے معاہدے کے مضمرات سمجھنے میں غلطی کی اور جب اُس کے نتائج سامنے آئے تو ہر شخص نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ فی الواقع یہی معاہدہ فتح مکہ کی تمہید ثابت ہوا۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۴۳۶)

_____
* السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۳/ ۲۹۱۔

ابو الاعلی مودودی

اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی۔

صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تو لوگ حیران تھے کہ آخر اس صلح کو فتح کیسے کہا جاسکتا ہے۔ ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو مان لینے کی بات تو دوسری تھی۔ مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسی کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ آیت سن کر پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا یہ فتح ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں (ابن جریر) ۔ ایک اور صحابی حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی یہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ای والذی نفس محمد بیدہ انہ لفتح۔ ” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے، یقینا یہ فتح ہے ” (مسند احمد۔ ابوداؤد) ۔ مدینہ پہنچ کر ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ” یہ کیسی فتح ہے ؟ ہم بیت اللہ جانے سے روک دیے گئے، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جاسکے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کردیا گیا “۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا ” بڑی غلط بات کہی گئی ہے یہ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا۔ انہوں نے تم سے خود جنگ بند کردینے اور صلح کرلینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کردیا ہے۔ کیا وہ دن بھول گئے جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گئے جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آئے تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے ” ؟ (بیہقی بروایت عروہ بن زبیر) ۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کی اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص و عام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فی الواقع اسلام کی فتح کا آغاز صلح حدیبیہ ہی سے ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت جابر بن عبداللہ، اور حضرت براء بن عازب (رض) ، تینوں حضرات سے قریب قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ ” لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں، حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں ” (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن جریر) ۔

جونا گڑھی

بیشک (اے نبی) ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔

 ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ١٤ سو کے قریب صحاب اکرام رضوان علیہم اجمعین عمرے کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے، لیکن مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر کافروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روک لیا عمرہ نہیں کرنے دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ قریش کے سرداروں سے گفتگو کر کے انہیں مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ کریں کفار مکہ نے اجازت نہیں دی اور مسلمانوں نے آئندہ سال کے وعدے پر واپسی کا ارادہ کرلیا وہیں اپنے سر بھی منڈوا لئے اور قربانیاں کرلیں۔ نیز کفار سے بھی چند باتوں کا معاہدہ ہوا جنہیں صحابہ کرام کی اکثریت ناپسند کرتی تھی لیکن نگاہ رسالت نے اس کے دور رس اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے، کفار کی شرائط پر ہی صلح کو بہتر سمجھا۔ حدیبیہ سے مدینے کی طرف آتے ہوئے راستے میں یہ سورت اتری، جس میں صلح کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ یہ صلہ فتح مکہ کا ہی پیش خیمہ ثابت ہوئی اور اس کے دو سال بعد ہی مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ اسی لئے بعض صحابہ اکرام کہتے تھے کہ تم فتح مکہ کو شمار کرتے ہو لیکن ہم حدیبیہ کی صلح کو فتح شمار کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کی بابت فرمایا کہ آج کی رات مجھ پر وہ سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے (صحیح بخاری) 

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا

امین احسن اصلاحی

کہ اللہ تمہارے تمام اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخشے، تم پر اپنی نعمت تمام کرے۔ تمہارے لیے ایک بالکل سیدھی راہ کھول دے

اس فتح مبین کے چند نتائج: ’ل‘ یہاں غایت و نہایت کے مفہوم میں ہے یعنی اللہ نے یہ فتح مبین جو عنایت فرمائی ہے یہ تمہید ہے جو منتہی ہو گی مندرجہ ذیل باتوں پر جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں سرفراز فرمانے والا ہے۔

ایک یہ کہ اب وہ وقت فریب ہے کہ تم اپنے مشن کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے اگلے پچھلے گناہوں ہو معاف کر کے اپنی رحمت سے نوازے گا۔
دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمت تمام کرنے والا ہے۔
تیسری یہ کہ ہدایت کی صحیح راہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کھول دے گا۔
چوتھی یہ کہ تمہیں اللہ تعالیٰ ایسا غلبہ عطا فرمائے گا جس کو چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
یہ چاروں باتیں یہاں اجمال کے ساتھ مذکور ہوئی ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضرورت ہے کہ قرآن کے نظائر کی روشنی میں ان کی وضاحت کی جائے۔
’لِیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ‘۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی بشارت دی گئی ہے کہ اس ’فتح مبین‘ کے بعد فریضۂ رسالت کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا وقت آپ کے لیے قریب آ گیا ہے۔ یہ مضمون قرآن میں جگہ جگہ مختلف اسلوبوں سے آیا ہے۔ مثلاً سورۂ نصر میں فرمایا ہے:

إِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ ۵ وَرَأَیْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوۡنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ أَفْوَاجًا ۵ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا (۱-۳)
’’جب اللہ کی مدد اور فتح ظاہر ہو جائے اور تم دیکھو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا ہے۔‘‘

اس سورہ میں فتح و غلبہ کی بشارت کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ اس کے بعد فریضۂ رسالت کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا وقت آپ کے لیے قریب آ جائے گا لیکن صاف الفاظ میں اس کی بشارت دینے کے بجائے اس کے لیے تیاری کرنے کی ہدایت فرمائی گئی کہ تسبیح، نماز اور استغفار سے اس کے لیے تیاری کرو۔ آیت زیرنظر میں یہی مضمون موقع و محل کے تقاضے سے نہایت واضح بشارت کے اسلوب میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ فتح مبین جو تمہیں حاصل ہوئی ہے اس کے بعد اب وہ وقت قریب ہے کہ تمہارے رب نے جو ذمہ داری تم پر ڈالی تھی اس سے فارغ فرمائے گا اور نہایت سرخ روئی و سرفرازی کے ساتھ اس طرح فارغ فرمائے گا کہ تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سب سے بڑی بشارت کوئی ہو سکتی تھی تو لاریب یہی ہو سکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس عظیم مشن پر مامور فرمایا تھا اس سے آپ کو اس طرح فارغ فرمائے کہ اس کے متعلق کوئی بھی چھوٹی یا بڑی مسؤلیت آپ پر باقی نہ رہے بلکہ یہ اطمینان ہو جائے کہ آپ نے یہ فریضہ ٹھیک ٹھیک اپنے رب کی مرضی کے مطابق انجام دے دیا۔ اس ٹکڑے میں آپ کو خوشنودی کا یہی پروانہ عطا ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑا پروانہ کوئی اور آپ کے لیے نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی کی شکرگزاری نے آخری دور میں جب آپ کی عبادت کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ کر دیا تو لوگ آپ سے سوال کرتے کہ یارسول اللہ آپ کے تو تمام اگلے پچھلے گناہ بخشے جا چکے ہیں تو آپ عبادت میں اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ اس کا جواب دیتے کہ

’اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا‘
(کیا میں اپنے رب کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟)

انبیاء علیہم السلام سے کس طرح کے گناہ صادر ہوتے ہیں: یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جس ’ذنب‘ کی نسبت کی گئی ہے اس سے متعلق یہ وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کرتے آ رہے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے اتباع ہوا کی نوعیت کے گناہ تو کبھی صادر نہیں ہوئے لیکن اقامت دین کی جدوجہد میں، نیک دواعی کے تحت، کبھی ان سے بھی ایسی باتیں صادر ہو گئی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی ہے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس منافقین آتے اور کوئی بہانہ پیدا کر کے یہ چاہتے کہ ان کو جہاد میں شرکت سے رخصت دی جائے۔ آپ کو علم ہوتا کہ یہ لوگ محض بہانہ سازی کر رہے ہیں لیکن کریم النفسی کے سبب سے آپ ان کو رخصت دے دیتے کہ ان کا فضیحتا نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نرمی اگرچہ آپ کی کریم النفسی کا نتیجہ تھی، اس میں اتباع ہوا کا کوئی شائبہ نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر آپ کی گرفت فرمائی اس لیے کہ نبی ہر معاملے میں حق و عدل کی کسوٹی ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ شریفانہ سلوک کرنے کے معاملے میں بھی اس حد تک متجاوز نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے شریفانہ سلوک کے لیے ٹھہرا دی ہے۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی اپنی قوم کے سرداروں کی دلداری، اس خیال سے، زیادہ فرماتے کہ اگر یہ لوگ ایمان لائیں گے تو یہ دعوت کی تقویت و ترقی کا ذریعہ بنیں گے۔ یہ چیز بجائے خود کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ دین کی مصلحت کا ایک نہایت اہم تقاضا ہے لیکن اگر یہ اتنی زیادہ ہو جائے کہ اس سے اصلی حق داروں کے حق سے غفلت ہونے لگے یا نا اہلوں کی رعونت میں اس سے اضافہ ہونے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اس سے روک دیتا ہے۔ سورۂ عبس میں ایک نابینا کا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اسی نوعیت کا ہے۔
اسی طرح کے واقعات دوسرے انبیاء کی زندگیوں میں بھی پیش آئے جن کی وضاحت ہم نے اپنی اس کتاب میں ان کے محل میں کی ہے۔ آیت زیربحث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جس گناہ کی نسبت کی گئی ہے اس کی نوعیت یہی ہے۔ اس طرح کی تمام باتوں سے متعلق آپ کو بشارت دے دی گئی کہ یہ ساری چیزیں آپ کو بخش دی جائیں گی۔
’اگلے اور پچھلے‘ کے الفاظ اصلاً تو احاطہ کے مفہوم پر دلیل ہیں۔ لیکن ان سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اس بشارت سے پہلے کی غلطیاں بھی معاف اور اس کے بعد بھی اگر کوئی غلطی ہوئی تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہے۔ اس کے لیے کسی نئی بشارت کی ضرورت نہیں ہے۔
’وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْْکَ‘۔ یہ نعمت دین کے اتمام اور اس کی تکمیل کی بشارت ہے۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب اس نعمت کی تکمیل ہو گئی تو یہ اعلان کر دیا گیا کہ

’اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا‘ (المائدہ ۳)
(اب میں نے تمہاری رہنمائی کے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا)۔

تکمیل دین کی نعمت کا ثمرہ: ’وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا‘۔ یہ تکمیل دین کی نعمت کا ثمرہ بیان ہوا ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہیں اس صراط مستقیم کی ہدایت بخشے گا، جس سے شیطان نے لوگوں کو ہٹا دیا تھا۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلق کی ہدایت کے لیے جو دین نازل فرمایا تھا یہود اور نصاریٰ نے بھی اس کو ضائع کر دیا تھا اور اہل عرب نے بھی، حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے تعمیر کردہ مرکز توحید کو ایک بت خانہ کی شکل میں تبدیل کر کے، اصل نشان راہ گم کر دیا تھا۔ جس سے خدا تک پہنچانے والی سیدھی راہ بالکل ناپید ہو چکی تھی۔ یہ راہ خلق کے لیے ازسرنو اس وقت باز ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اپنے دین کی تجدید و تکمیل فرمائی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعمیر کردہ مینارۂ توحید کفر کے نرغہ سے نکل کر اپنے اصلی ابراہیمی جمال و شان میں نمایاں ہوا ہے۔ اس ٹکڑے میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اب دین بھی نکھر کر سامنے آ جائے گا اور وہ مرکز نور بھی بے نقاب ہو جائے گا جو ہدایت کی اصل شاہراہ کی طرف رہنمائی کے لیے تعمیر ہوا تھا۔
یہاں یہ بشارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے دی گئی ہے۔ یہی بشارت اسی سورہ کی آیت ۲۰ میں تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے دی گئی ہے۔ وہاں ان شاء اللہ ہم اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔

جاوید احمد غامدی

کہ (تم سرخ روئی کے ساتھ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہو جاؤ اور اِس کے صلے میں) اللہ تمھارے اگلے اور پچھلے سب گناہوں کو بخش دے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے اور تمھارے لیے ایک سیدھی راہ کھول دے۔

یہ عظیم بشارت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس فتح کے نتیجے میں اب عنقریب وہ وقت آئے گا کہ آپ فریضۂ رسالت کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جائیں گے اور یہ سبک دوشی نہایت سرخ روئی اور سرفرازی کے ساتھ ہو گی کہ اِس کے دوران میں اگر کوئی لغزش کہیں ہوئی ہے یا بعد میں بھی اگر ہو تو معاف کر دی جائے اور اللہ تعالیٰ نے جس عظیم مشن پر آپ کو مامور فرمایا تھا، اُس کے بارے میں کوئی چھوٹی یا بڑی مسؤلیت آپ پر باقی نہ رہے۔ آپ کے لیے، اگر غور کیجیے تو یہ پروردگار عالم کی خوشنودی کا ایسا پروانہ ہے کہ اِس سے بڑا کوئی پروانہ نہیں ہو سکتا۔ یہ اِسی کی شکر گزاری تھی کہ آخری زمانے میں آپ کا زیادہ وقت تسبیح و مناجات، استغفار اور نماز میں گزرتا تھا۔

آیت میں لغزش یا ’ذَنْب‘کی جو نسبت آپ کی طرف ہوئی ہے، اُس کی نوعیت کیا ہے؟ اِس کی وضاحت ہم نے سورۂ محمد (۴۷) کی تفسیر میں حاشیہ ۳۵ کے تحت کر دی ہے۔
یہ دوسری عظیم بشارت ہے کہ جس دین کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے اُس کی تمام تفصیلات کے ساتھ پہلی وحی سے دینا شروع کی تھی، وہ پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ یہ نعمت پوری ہو گئی تو قرآن نے سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳ میں اعلان کر دیا کہ آج میں نے تمھارے دین کو پورا کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند فرمایا ہے۔
یہ اُس نعمت کا ثمرہ ہے جس کا ذکر ہوا کہ اِس کے نتیجے میں توحید کی راہ ہر سالک کے لیے روشن ہو جائے گی اور ام القریٰ مکہ میں وہ مرکز نور بھی اپنے اصلی جلال و جمال کے ساتھ بے نقاب ہو جائے گا جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ہدایت کی اصل شاہ راہ کی طرف رہنمائی کے لیے تعمیر کیا تھا۔

ابو الاعلی مودودی

تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے۔

جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوئے اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں پچھلے 19 سال سے مسلمان کر رہے تھے۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سے اس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنی جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصہ دراز درکار تھا، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کردی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہو سکتی تھی۔

اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں۔ دراصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔

تاہم چونکہ روئے سخن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوئے دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہوچکے ہیں، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً شکوراً ۔ ” کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں ” ؟ (احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد) ۔

نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہوجائیں، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہوجائے کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرسکیں۔ کفر و فسق کا غلبہ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن ” فتنہ ” قرار دیتا ہے۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آجائے جس میں اللہ کا پورا دین نے کم وکاست نافذ ہو، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان وتقوی کا سکہ رواں کرسکیں، تو یہ ان پر اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردینا چاہتے تھے، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کردی۔

اس مقام پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وہ راہ ہموار کردی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کرلیں۔

جونا گڑھی

تاکہ جو کچھ تیرے گناہ آگے ہوئے اور پیچھے سب کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے اور تجھے سیدھی راہ چلائے ۔

 اس سے مراد ترک اولی والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے فہم واجتہاد سے کیے لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا جیسے عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورة عبس کا نزول ہوا یہ معاملات وامور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں لیکن آپ کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کو تاہیاں شمار کرلیا گیا جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے لیغفر میں لام تعلیل کے لیے ہے یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات و بلندی درجات میں بھی۔

اس دین کو غالب کر کے جس کی تم دعوت دیتے ہو، یا فتح وغلبہ عطا کر کے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر یہی تمام نعمت ہے (فتح القدیر)

یعنی اس پر استقلال نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔ 

وَيَنصُرَكَ اللَّـهُ نَصْرًا عَزِيزًا

امین احسن اصلاحی

اور تمہیں اپنی ناقابل شکست نصرت سے نوازے

’نصر عزیز‘ کا صحیح مفہوم: ’وَیَنْصُرَکَ اللہُ نَصْرًا عَزِیْزًا‘۔ ’نَصْرٌ عَزِیْزٌ‘ سے مراد کفر کے مقابل میں ایسی فتح و نصرت ہے جس کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ اس طرح کی نصرت ظاہر ہے کہ اسی شکل میں آپ کو حاصل ہو سکتی تھی جب کفر کا زور بالکل ہی ٹوٹ جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ جب قریش کا زور بالکل ختم ہو جائے اور بیت اللہ مسلمانوں کی تحویل میں آ جائے۔ اب تک مسلمانوں کو قریش کے مقابل میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں وہ بھی اہم تھیں لیکن ایسی نہیں تھیں کہ ان کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ قریش جب تک مکہ پر مسلط تھے اس وقت تک وہ بہرحال ایک طاقت تھے لیکن واقعۂ حدیبیہ نے ان کی یہ طاقت متزلزل کر دی اور وہ وقت اب دور نہیں رہ گیا تھا کہ ان کے اقتدار کی یہ کہنہ عمارت ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہو جائے۔ یہ اسی ’نصر عزیز‘ کی بشارت دی گئی ہے۔ عزیز کے معنی غالب و مقتدر کے ساتھ منیع کے بھی ہیں یعنی جس تک کسی کی پہنچ نہ ہو سکے۔

ترتیب بیان کی ایک بلاغت: یہاں ان بشارتوں کے ظہور کی ترتیب میں جو بلاغت ہے وہ بھی قابل توجہ ہے کہ جو چیز سب سے پہلے ظہور میں آنے والی ہے اس کا ذکر سب سے آخر میں ہوا اور جو چیز سب کا خلاصہ ہے اور سب سے آخر میں ظاہر ہو گی اس کا ذکر سب سے پہلے ہوا۔ یہ ترتیب نزولی ہے۔ یعنی بیان مطالب میں نیچے سے اوپر چڑھنے کی نہیں بلکہ اوپر سے نیچے اترنے کی ترتیب اختیار فرمائی گئی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ یہ موقع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دینے کا تھا۔ فتح مکہ کی بشارت بھی اگرچہ اہم بشارت تھی لیکن اس سے بھی بڑی بلکہ سب سے بڑی بشارت آپ کے لیے یہ تھی کہ وہ انعام اخروی آپ کے سامنے رکھ دیا جائے جو آپ کو ملنے والا ہے اور جس کے ملنے میں اب زیادہ دیر نہیں رہ گئی ہے۔ ’لِیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ‘۔

جاوید احمد غامدی

اور اللہ تمھاری ایسی مدد کرے جو ناقابل شکست ہو۔

یعنی جس کے نتیجے میں قریش کا زور بالکل ختم ہو جائے، بیت اللہ مسلمانوں کی تحویل میں آجائے اور سرزمین عرب میں دین حق کا غلبہ قائم ہو جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس مشن کے لیے مامور تھے، اُس کے لیے ایسی مدد ہی ناقابل شکست ہو سکتی تھی۔

یہ بشارتیں یہاں جس ترتیب سے بیان کی گئی ہیں، اُس کی بلاغت بھی قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... جو چیز سب سے پہلے ظہور میں آنے والی ہے، اُس کا ذکر آخر میں ہوا اور جو چیز سب کا خلاصہ ہے اور سب سے آخر میں ظاہر ہو گی، اُس کا ذکر سب سے پہلے ہوا۔ یہ ترتیب نزولی ہے، یعنی بیان مطالب میں نیچے سے اوپر چڑھنے کی نہیں، بلکہ اوپر سے نیچے اترنے کی ترتیب اختیار فرمائی گئی ہے۔ اِس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ یہ موقع آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دینے کا تھا۔ فتح مکہ کی بشارت بھی اگرچہ اہم بشارت تھی، لیکن اِس سے بھی بڑی، بلکہ سب سے بڑی بشارت آپ کے لیے یہ تھی کہ وہ انعام اخروی آپ کے سامنے رکھ دیا جائے جو آپ کو ملنے والا ہے اور جس کے ملنے میں اب زیادہ دیر نہیں رہ گئی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۷/ ۴۴۰)

ابو الاعلی مودودی

اور تم کو زبردست نصرت بخشے۔

دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” تم کو بےمثل نصرت بخشے “۔ اصل میں لفظ نصراً عزیزاً استعمال ہوا ہے۔ عزیز کے معنی زبردست کے بھی ہیں اور بےنظیر، بےمثل اور نادر کے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اس صلح کے ذریعہ سے اللہ نے آپ کی ایسی مدد کی ہے جس سے آپ کے دشمن عاجز ہوجائیں گے۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ شاذ و نادر ہی کبھی کسی کی مدد کا ایسا عجیب طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر جو چیز لوگوں کو محض ایک صلح نامہ اور وہ بھی دب کر کیا ہوا صلح نامہ نظر آتی ہے، وہی ایک فیصلہ کن فتح بن جانے والی ہے۔

جونا گڑھی

اور آپ کو ایک زبردست مدد دے۔

n/a

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّـهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر طمانیت نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان میں مزید ایمان کی افزونی ہو اور آسمانوں اور زمین کی تمام فوجیں اللہ ہی کی ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے

وعدۂ نصرت کی دلیل: اوپر والی آیت میں جس نصرت کا وعدہ فرمایا گیا ہے یہ اس کی دلیل ارشاد ہوئی ہے کہ یہ اللہ ہی کی نصرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے مومنوں کے دلوں میں یہ حوصلہ پیدا کیا کہ وہ تمہاری دعوت پر عمرہ کے لیے تمہارے ہم رکاب ہو گئے تاکہ جو دولت ایمان ان کو حاصل تھی اس پر وہ اپنی اس حوصلہ مندی اور نبی کی رفاقت سے مزید اضافہ کر لیں۔

یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ سفر اگرچہ عمرہ کے لیے تھا لیکن اس کا ارادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت خطرناک حالات میں فرمایا تھا۔ قریش سے برابر جنگ کی حالت قائم تھی اور اب تک ان کے حوصلہ کا یہ عالم تھا کہ وہ برابر امنڈ امنڈ کر مدینہ پر حملہ کر رہے تھے۔ ایسی حالت میں کسی طرح بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ مسلمان جماعتی حیثیت سے عمرہ کے لیے جائیں گے تو وہ بغیر مزاحمت کے آسانی سے ان کو مکہ میں داخل ہونے دیں گے۔ چنانچہ آگے کی آیات سے واضح ہو جائے گا کہ منافقین اسی بنا پر یہ گمان رکھتے تھے کہ مسلمان موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور اب کے اس سفر سے ان کو گھر پلٹنا نصیب نہیں ہو گا۔ ایسے حالات کے اندر چودہ پندرہ سو صحابہؓ کا اپنے گھروں کو چھوڑ کر، ڈھائی سو میل دور کے سفرکے لیے اٹھ کھڑے ہونا اور وہ بھی بالکل غیر مسلح، کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان میں برکت دی، ان پر خاص اپنے پاس سے عزم و حوصلہ اتارا اور وہ اس سفر کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ جس خدا نے تمہارے ساتھیوں کو اس موقع پر یہ حوصلہ عطا فرمایا وہ آگے کے مراحل میں بھی ان کی حوصلہ افزائی فرمائے گا اور اللہ تم سے جس ’نصر عزیز‘ کا وعدہ فرما رہا ہے وہ پورا ہو کے رہے گا۔
اہل ایمان کو جو آزمائشیں پیش آتی ہیں وہ ان کے ایمان کی جانچ کے لیے پیش آتی ہیں: ’لِیَزْدَادُوْآ إِیْمَانًا مَّعَ إِیْمَانِہِمْ‘ میں دین کی اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ اس دنیا میں اہل ایمان کو جو آزمائشیں پیش آتی ہیں وہ درحقیقت ان کے ایمان کی جانچ کے لیے پیش آتی ہیں۔ اگر وہ اس جانچ میں پورے اترتے جاتے ہیں تو ان کے ایمان کی قوت میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو ’نفس مطمئنہ‘ کی بادشاہی حاصل ہو جاتی ہے اور اگر وہ فیل ہو جاتے ہیں اور برابر فیل ہی ہوتے رہتے ہیں تو بالآخر ان کا نور ایمان بالکل ہی بجھ جاتا ہے۔
ایمان کے گھٹنے بڑھنے سے متعلق امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کا صحیح پہلو: اس سنت الٰہی کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کرتے آ رہے ہیں اور اس سنت کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ ایمان ایک گھٹنے بڑھنے والی چیز ہے۔ اگر وہ کوئی جامد شے ہوتا تو اس امتحان کی ضرورت نہیں تھی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ سے یہ بات جو منسوب کی جاتی ہے کہ وہ ایمان کے گھٹنے بڑھنے کے قائل نہیں تھے تو اس کا ایک محل ہے۔ اس سے ان کی مراد وہ قانونی ایمان ہے جس پر ایک اسلامی ریاست میں ایک مسلمان کے شہری حقوق قائم ہوتے ہیں نہ کہ وہ ایمان جس پر آخرت کے مدارج و مقامات مبنی ہیں۔ قانونی و فقہی ایمان کے اعتبار سے ہر مسلمان جو ضروریات دین کا قائل ہے، برابر ہے اور اسلامی ریاست سب کے ساتھ مسلمان ہی کی حیثیت سے معاملہ کرے گی۔ اس پہلو سے ایک بدوی اور ایک شہری میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ رہا آخرت کا معاملہ تو اس کا انحصار حقیقی ایمان پر ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہو سکتا ہے اور وہی اس کا فیصلہ فرمائے گا۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مسلک بجائے خود ہمارے نزدیک بالکل صحیح ہے لیکن اس کی وکالت بھی بالکل غلط طریقہ پر کی جاتی ہے اور اعتراض کرنے والوں نے ان کی بات سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
جو رسول کی مدد کرتے ہیں وہ اپنے لیے کسب سعادت کی راہ کھولتے ہیں: ’وَلِلّٰہِ جُنُوۡدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَکَانَ اللہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تمہاری رفاقت کے لیے جو آمادہ کر دیا تو یہ ان پر اس نے احسان فرمایا کہ وہ اپنی اس نیکی سے اپنے ایمان پر مزید ایمان کا اضافہ کر لیں ورنہ وہ اپنے رسول اور اپنے دین کی نصرت کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام قوتیں اور تمام فوجیں اللہ ہی کے تصرف میں ہیں، وہ جب چاہے کفار سے اپنی ان فوجوں کے ذریعہ انتقام لے سکتا ہے لیکن اس نے اہل ایمان کو اپنے رسول کی نصرت کی دعوت دے کر یہ چاہا کہ ان کے لیے ایک فوز عظیم کے حصول کی راہ کھولے۔ اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ اس کا ہر کام علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے اس کام میں بھی اس کی عظیم حکمت ہے۔ اس مضمون کی مزید وضاحت مطلوب ہو تو سورۂ محمد کی آیت ۴ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ آگے یہی آیت ایک اور پہلو سے آ رہی ہے۔ وہاں اس کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔

جاوید احمد غامدی

وہی ہے جس نے (فتح کے اِس سفر کے لیے نکلتے وقت) مسلمانوں کے دلوں میں طمانیت نازل فرمائی تاکہ اُن کے ایمان کے ساتھ اور ایمان کا اضافہ ہو، (ورنہ اللہ اپنے دین کی نصرت کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے)۔ زمین اورآسمانوں کے تمام لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

یعنی جب آپ عمرے کے ارادے سے اپنے صحابہ کے ساتھ مکے سے نکل رہے تھے۔

اوپر جس نصرت کا وعدہ فرمایا ہے، یہ اُس کی دلیل ارشاد ہوئی ہے کہ مسلمان جب اِس سفر کے لیے نکل رہے تھے تو دیکھنے والے یہی خیال کر رہے تھے کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور اِن کو اب گھر پلٹنا نصیب نہیں ہو گا، مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا عزم و حوصلہ اُن کے اندر پیدا کر دیا کہ حضور نے جیسے ہی اپنا ارادہ ظاہر فرمایا، وہ بغیر کسی تردد کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لہٰذا ہر شخص کو مطمئن رہنا چاہیے، اللہ آگے بھی اِسی طرح مدد فرمائے گا۔
یہ حقیقی ایمان کا ذکر ہے اور وہ ہرگز کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ خدا کی نشانیوں کے ظہور کو دیکھ کر یقیناً اُس میں افزونی ہوتی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں۔ زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔

” سکینت ” عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثبات قلب کو کہتے ہیں، اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اس کے نازل کیے جانے کو اس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اتاری گئی اور کیسے وہ اس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرے کے لیے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، اگر مسلمان اس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہوجاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحا موت کے منہ میں جانا ہے، یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفار قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں، اس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہوجاتے کہ ہم کسی جنگی ساز و سامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کرسکیں گے، اور اس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی، تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رو نما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رو نما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا، اور جب انہوں نے چھاپے اور شبخون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، اور جب حضرت عثمان (رض) کی شہادت کی اطلاع ملی، اور جب ابو جندل (رض) مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آ کھڑے ہوئے، ان میں سے ہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آ کر اس نظم ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قائم کیا تھا تو سارا کام خراب ہوجاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں، اس وقت اگر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے پر اتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہوجاتی۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی پر، دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا۔ اسی کی بنا پر انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔ اسی کی بنا پر وہ خوف، گھبراہٹ، اشتعال، مایوسی، ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میں پورا نظم و ضبط بر قرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے شرائط صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر سر تسلم خم کردیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اتاری تھی، اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔

یعنی ایک ایمان تو وہ تھا جو اس مہم سے پہلے ان کو حاصل تھا، اور اس پر مزید ایمان انہیں اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمائشیں پیش آتی چلی گئیں ان میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص، تقوی اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے، بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمائشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان، مال، جذبات، خواہشات، اوقات، آسائشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمائش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کرلے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے، اور اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب وہ ابتدائی سرمایہ ایمان بھی خطرے میں پڑجاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، تفسیر سورة انفال، حاشیہ 2، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 38) ۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ کے پاس تو ایسے لشکر ہیں جن سے وہ کفار کو جب چاہے تہس نہس کر دے، مگر اس نے کچھ جان کر اور حکمت ہی کی بنا پر یہ ذمہ داری اہل ایمان پر ڈالی ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں جد و جہد اور کشمکش کر کے اللہ کے دین کا بول بالا کریں۔ اسی سے ان کے لیے درجات کی ترقی اور آخرت کی کامیابیوں کا دروازہ کھلتا ہے جیسا کہ آگے کی آیت بتا رہی ہے۔

جونا گڑھی

وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں اور آسمانوں اور زمین کے (کل) لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ تعالیٰ دانا با حکمت ہے۔

 یعنی اس اضطراب کے بعد جو مسلمانوں کو شرائط صلح کی وجہ سے لاحق ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی جس سے ان کے دلوں کو اطمینان سکون اور ایمان مزید حاصل ہوا یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔

یعنی اگر اللہ چاہے تو اپنے کسی لشکر (مثلًا فرشتوں) سے کفار کو ہلاک کروا دے، لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے مومنوں کو قتال و جہاد کا حکم دیا ہے۔ 

لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عِندَ اللَّـهِ فَوْزًا عَظِيمًا

امین احسن اصلاحی

تاکہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ اور تاکہ ان سے ان کے گناہوں کو جھاڑ دے اور اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی یہی ہے

ازدیاد ایمان کا صلہ: یہ ’لِیَزْدَادُوْآ إِیْمَانًا مَّعَ إِیْمَانِہِمْ‘۔ کا صلہ بیان ہوا ہے اور اسلوب بیان بدلیت کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نور باطن میں اضافہ کی راہیں جو کھولتا ہے تو اس لیے کہ اس طرح وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور ان سے ان کے سارے گناہ دور فرما دے گا۔ یعنی یہ کوئی خسارے کا سودا نہیں ہے بلکہ تمام تر نفع ہی نفع ہے۔

یہاں ممکن ہے کہ کسی کے ذہن مین یہ سوال پیدا ہو کہ دخول جنت کا ذکر پہلے ہے اور گناہوں کے جھاڑنے کا ذکر بعد میں۔ حالانکہ لوگ جنت میں گناہوں کے جھاڑے جانے کے بعد داخل ہوں گے، ہمارے نزدیک یہ تقدیم و تاخیر محض ظاہری ہے۔ بشارت کے پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے دخول جنت کا ذکر پہلے کر دیا گیا ہے، مقصود یہی بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو گناہوں سے پاک کر کے جنت میں داخل کرے گا۔
منافقین پر تعریض: ’وَکَانَ ذٰلِکَ عِنۡدَ اللہِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصلی اور سب سے بڑی کامیابی یہی ہے تو مبارک ہیں وہ جنھوں نے یہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے تمام خطرات سے بے پروا ہو کر بازی کھیلی۔ یہ ٹکڑا تمہید ہے منافقین کے ذکر کی جو آگے آ رہا ہے اور جن کا حال یہ بیان ہوا ہے کہ وہ قریش کے ڈر سے گھروں میں دبک کر بیٹھ رہے اور سمجھ رہے ہیں کہ ان کی سیاست بڑی کامیاب رہی اور بڑی ہوشیاری سے انھوں نے اپنے کو ایک بہت بڑے خطرے سے بچا لیا ہے حالانکہ انھوں نے اپنے کو خطرے سے بچایا نہیں بلکہ خطرے میں جھونک دیا ہے جس کا اندازہ ان کو بہت جلد ہو جائے گا۔

جاوید احمد غامدی

اِس لیے کہ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور اِس لیے کہ وہ اُن کے گناہ اُن سے جھاڑ دے۔ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی یہی ہے۔

یہ چیز، ظاہر ہے کہ مقدم ہے، اِس لیے کہ لوگ گناہوں کے جھاڑے جانے کے بعد ہی جنت میں داخل ہوں گے، لیکن بیان میں اِسے موخر اِس لیے کر دیا ہے کہ بشارت کا پہلو نمایاں رہے۔

ابو الاعلی مودودی

(اُس نے یہ کام اِس لیے کیا ہے) تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی برائیاں اُن سے دور کر دے۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے۔

قرآن مجید میں بالعموم اہل ایمان کے اجر کا ذکر مجموعی طور پر کیا جاتا ہے، مردوں اور عورتوں کو اجر ملنے کی الگ الگ تصریح نہیں کی جاتی۔ لیکن یہاں چونکہ یکجائی ذکر پر اکتفاء کرنے سے یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ اجر صرف مردوں کے لیے ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے متعلق الگ صراحت کردی کہ وہ بھی اس اجر میں مومن مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ جن خدا پرست خواتین نے اپنے شوہروں، بیٹوں، بھائیوں اور باپوں کو اس خطرناک سفر پر جانے سے روکنے اور آہ و فغان سے ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ان کی ہمت افزائی کی، جنہوں نے ان کے پیچھے ان کے گھر، ان کے مال، ان کی آبرو اور ان کے بچوں کی محافظ بن کر انہیں اس طرف سے بےفکر کردیا، جنہوں نے اس اندیشے سے بھی کوئی واویلا نہ مچایا کہ چودہ سو صحابیوں کے ایک لخت چلے جانے کے بعد کہیں گرد و پیش کے کفار و منافقین شہر پر نہ چڑھ آئیں، وہ یقینا گھر بیٹھنے کے باوجود جہاد کے اجر میں اپنے مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہونی ہی چاہیے تھیں۔

یعنی بشری کمزوریوں کی بناء پر جو کچھ بھی قصور ان سے سرزد ہوگئے ہوں انہیں معاف کر دے، جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان قصوروں کے ہر اثر سے ان کو پاک کر دے، اور جنت میں وہ اس طرح داخل ہوں کہ کوئی داغ ان کے دامن پر نہ ہو جس کی وجہ سے وہ وہاں شرمندہ ہوں۔

جونا گڑھی

تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ان جنتوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ان کے گناہ دور کردے، اور اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

 حدیث میں آتا ہے کہ جب مسلمانوں نے سورة فتح کا ابتدائی حصہ سنا لیغفرلک اللہ تو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبارک ہو ہمارے لیے کیا ہے جس پر اللہ نے آیت لیدخل المومنین نازل فرما دی (صحیح بخاری باب غزوہ الحدیبیۃ) 

وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّـهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

امین احسن اصلاحی

اور تاکہ اللہ سزا دے منافق مردوں اور منافق عورتوں، مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ کے باب میں بُرے گمان کرتے رہے، برائی کی گردش انہی پر ہے! اور ان پر اللہ کا غضب ہوا اور ان پر اس نے لعنت کی اور ان کے لیے اس نے جہنم تیار کر رکھی ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے

اللہ تعالیٰ کے امتحان کا دوسرا پہلو: یہ اس امتحان کے دوسرے پہلو کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ جس امتحان سے اہل ایمان کے لیے فوز عظیم کی راہ کھولتا ہے وہی امتحان لازماً منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کے لیے سب سے بڑی تباہی یعنی دوزخ کی راہ کھولتا ہے اس لیے کہ اس سے ان کے کھوٹ ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں اور اللہ کی حجت ان پر تمام ہو جاتی ہے۔

’اَلظَّانِّیْنَ بِاللہِ ظَنَّ السَّوْءِ‘ سے ان منافقین کے ان گمانوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر آگے آیت ۱۲ میں بدیں الفاظ آیا ہے:

’بَلْ ظَنَنۡتُمْ أَن لَّنۡ یَنۡقَلِبَ الرَّسُوۡلُ وَالْمُؤْمِنُوۡنَ إِلٰی أَہْلِیْہِمْ أَبَدًا وَزُیِّنَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوبِکُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَکُنتُمْ قَوْمًا بُورًا‘
(بلکہ تم نے یہ گمان کیا کہ رسول اور مسلمانوں کو اس سفر سے اپنے گھر والوں کی طرف کبھی پلٹنا نصیب نہ ہو گا۔ یہ گمان تمہارے دلوں میں رچ بس گیا اور تم نے برے برے گمان کیے اور اس طرح تم ہلاک ہونے والے بنے)۔

منافقین اور مشرکین میں مماثلت: منافقین و منافقات کے ساتھ مشرکین و مشرکات کا جوڑ اس گہری قلبی و ذہنی مماثلت کی بنا پر ہے جو دونوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ جس طرح ایک مشرک اپنے رب کے ساتھ عہد بندگی کا مدعی ہوتے ہوئے دوسرے معبودوں کی پرستش کرتا ہے۔ اسی طرح ایک منافق بھی اللہ و رسول کے ساتھ عہد ایمان و اطاعت کا مدعی ہوتے ہوئے غیروں سے

’سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ‘ (محمد ۲۶)
(بعض معاملات میں ہم آپ ہی لوگوں کے ساتھ رہیں گے)

کی سازشیں کرتا ہے۔ اس اشتراک کی بنا پر قرآن نے نفاق کو شرک قرار دیا ہے جس کی وضاحت ہم نے اپنی کتاب ’’حقیقت شرک‘‘ میں کی ہے۔ یہاں منافقین کا ذکر مشرکین کے ساتھ کر کے قرآن نے ان کا درجہ معین کر دیا کہ اس طرح کے مدعیان ایمان کا حشر بالآخر ان مشرکوں کے ساتھ ہی ہو گا جن کے یہ ہم مسلک و ہم مشرب ہیں۔
ایک بلیغ جملہ معترضہ: ’عَلَیْْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْءِ‘ کا فقرہ بطور جملہ معترضہ ہے۔ جب اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے متعلق ان کے برے گمانوں اور ان کی بری تمناؤں کا ذکر آیا تو سلسلۂ کلام کے بیچ میں، بغیر توقف کے، فرما دیا کہ یہ لوگ مسلمانوں کے اوپر بری گردش کے منتظر ہیں حالانکہ بری گردش درحقیقت خود انہی کے اوپر ہے اس لیے کہ یہ لوگ جن لوگوں سے لو لگائے ہوئے ہیں ان کا انجام بہت جلد ان کے سامنے آ جانے والا ہے اور اسی انجام سے یہ بھی دوچار ہوں گے۔ ان پر اللہ کی لعنت ہے، ان کے لیے اللہ نے جہنم تیار کر رکھی ہے اور وہ نہایت ہی برا ٹھکانا ہے۔
مردوں کے پہلو بہ پہلو عورتوں کے ذکر کی حکمت: یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے۔ اوپر اہل ایمان کے بیان میں بھی اور پھر منافقین و مشرکین کے ذکر میں بھی مردوں کے ساتھ عورتوں کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آزمائش کے دور کے حالات پر تبصرہ ہو رہا ہے۔ اس دور میں اگر کسی گروہ کے اندر نفاق پرورش پاتا ہے تو اس کی پرورش میں بڑا دخل بیوی بچوں کا ہوتا ہے۔ اس کی طرف اشارہ منافقین کے اس قول سے بھی ہو رہا ہے جس کا حوالہ آگے آیت ۱۱ میں ہے کہ

’شَغَلَتْنَآ أَمْوَالُنَا وَاَہْلُوۡنَا‘
(ہم کو ہمارے مال اور اہل و عیال نے پھنسائے رکھا)

اور حدیث میں بھی ارشاد ہے کہ ’الولد مبخلۃ مجبنۃ‘ (آل و اولاد سب سے زیادہ بخل و بزدلی میں مبتلا کرنے والے ہیں) اسی طرح اگر کسی گروہ کے اندر ایمان مستحکم ہوتا ہے تو اس میں بھی بیوی بچوں کے عزم و صبر اور ان کے اعتماد علی اللہ کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ اہل ایمان اور اہل نفاق دونوں کے ذکر میں عورتوں کا کردار بھی سامنے آ جائے تاکہ مومنات اور منافقات دونوں اپنی اپنی جگہ پر واقف ہو جائیں کہ ان کا رب نہ اپنی مومنہ بندیوں کی جاں نثاریوں سے بے خبر ہے اور نہ منافقات کی تن آسانیوں اور دنیا پرستیوں سے۔

جاوید احمد غامدی

اور اِس لیے بھی کہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں، اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے حق میں طرح طرح کی بدگمانیاں کرتے رہے۔ (یہ مسلمانوں کے لیے بری گردش کے منتظر ہیں)۔ بری گردش اِنھی پر ہے۔ اِن پر اللہ کا غضب ہوا اور اُس نے اِن پر لعنت کی اور (آگے) اِن کے لیے اُس نے جہنم تیار کر رکھی ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔ (یہ اللہ سے بے پروا ہیں تو اللہ کو بھی اِن کی کوئی ضرورت نہیں ہے)۔

یعنی وہی سفر جس سے اہل ایمان کے لیے فوزوفلاح کے دروازے کھلیں، منافقین اُسی سے گریز و فرار کے راستے تلاش کرکے اپنے لیے دوزخ کے دروازے کھول لیں۔ اِس پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے، اِس میں بارہا ایک ہی چیز کسی کے لیے نعمت اور کسی کے لیے نقمت کا باعث بن جاتی ہے ۔ آیت میں منافقین اور مشرکین کا ذکر ساتھ ساتھ ہوا ہے۔ یہ اُس گہری ذہنی اور قلبی مماثلت کی بنا پر ہے جو دونوں کے درمیان پائی جاتی تھی۔

اِن بدگمانیوں کی تفصیل آگے آیت ۱۲ میں آرہی ہے۔ اِن آیتوں میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ ہوا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بڑی آزمایش کا دور تھا جس میں اگر مومن عورتیں اپنے عزم و صبر سے مومن مردوں کی ہمت بندھا رہی تھیں تو منافق مردوں کے اندر نفاق کی پرورش میں منافق عورتوں کا بھی بڑا دخل تھا۔ یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ اُن کا کرداربھی نمایاں ہو اور دونوں کو معلوم ہو جائے کہ اُن کا پروردگاراُن کے حالات سے بے خبر نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور اُن منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔ برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آ گئے، اللہ کا غضب ان پر ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

اطراف مدینہ کے منافقین کو تو اس موقع پر یہ گمان تھا، جیسا کہ آگے آیت 12 میں بیان ہوا ہے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی اس سفر سے زندہ واپس نہ آسکیں گے۔ رہے مکہ کے مشرکین اور ان کے ہم مشرب کفار، تو وہ اس خیال میں تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو عمرے سے روک کر وہ گویا آپ کو زک دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ان دونوں گواہوں نے یہ جو کچھ بھی سوچا تھا اس کی تہہ میں درحقیقت اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ بدگمانی کام کر رہی تھی کہ وہ اپنے نبی کی مدد نہ کرے گا اور حق و باطل کی اس کشمکش میں باطل کو حق کا بول نیچا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دے گا۔

یعنی جس انجام بد سے وہ بچنا چاہتے تھے اور جس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ تدبیریں کی تھیں، اسی کے پھیر میں وہ آگئے اور ان کی وہی تدبیریں اس انجام کو قریب لانے کا سبب بن گئیں۔

جونا گڑھی

اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں۔ (دراصل انہیں) پر برائی کا پھیرا ہے اللہ ان پر ناراض ہوا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی اور وہ (بہت) بری لوٹنے کی جگہ ہے۔

 یعنی اللہ کو اس کے حکموں پر مہتم کرتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ یہ مغلوب یا مقتول ہوجائیں گے اور دین اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ (ابن کثیر) 

یعنی یہ جس گردش، عذاب یا ہلاکت کے مسلمانوں کے لئے منتظر ہیں، وہ تو انہی کا مقدر بننے والی ہے 

وَلِلَّـهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا

امین احسن اصلاحی

اور اللہ ہی کی ہیں آسمانوں اور زمین کی فوجیں اور اللہ غالب و حکیم ہے

منافقین سے اظہار بیزاری: یہی ٹکڑا صرف ایک لفظ ’عزیز‘ کے فرق کے ساتھ اوپر آیت ۴ میں بھی شامل ہے۔ وہاں یہ ایک خاص پہلو سے آیا ہے۔ یہاں یہ ان منافقین کے اظہار سے بیزاری و بے نیازی کے لیے وارد ہوا ہے کہ اگر یہ منافقین جہنم کے ایندھن بننا چاہتے ہیں تو بن جائیں۔ خس کم جہاں پاک؛ اللہ کو ان بزدل لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر اس کے اپنے ہیں۔ وہ ہر چیز پر غالب و مقتدر ہے اور ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے۔ اپنی حکمت کے تحت وہ ان لشکروں کو جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ کسی کی بزدلی اور پست ہمتی اس کے ارادوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔

جاوید احمد غامدی

زمین اور آسمانوں کے لشکراللہ ہی کے ہیں اور اللہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔

یہاں اس مضمون کو ایک دوسرے مقصد کے لیے دہرایا گیا ہے۔ آیت نمبر 4 میں اسے اس غرض کے لیے بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں لڑنے کا کام اپنے فوق الفطری لشکروں سے لینے کے بجائے مومنین سے اس لیے لیا ہے کہ وہ ان کو نوازنا چاہتا ہے۔ اور یہاں اس مضمون کو دوبارہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو سزا دینا چاہے اس کی سرکوبی کے لیے وہ اپنے بیشمار لشکروں میں سے جس کو چاہے استعمال کرسکتا ہے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنی تدبیروں سے وہ اس کی سزا کو ٹال سکے۔

جونا گڑھی

اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے

 اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو ہر طرح ہلاک کرنے پر قادر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت ان کو جتنی چاہے مہلت دے دے۔ 

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا

امین احسن اصلاحی

بے شک ہم نے تم کو گواہی دینے والا، خوشخبری پہنچانے والا اور آگاہ کر دینے والا بنا کر بھیجا ہے

نبی صلعم کے مرتبہ و مقام کا بیان: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا کہ ہم نے تم کو لوگوں کی طرف اپنے دین کی گواہی دینے والا اور مبشر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ ’گواہی دینے والا‘ یعنی اپنے دین کی گواہی دینے والا کہ ہم اپنے بندوں کو کس چیز کا حکم دیتے اور کس بات سے روکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس لیے بھی بھیجا ہے کہ ان لوگوں کو جنت کی بشارت دو جو تمہاری گواہی قبول کر کے اپنی زندگیاں سنوار لیں اور ان لوگوں کو دوزخ کے عذاب سے ڈراؤ جو تمہاری گواہی کو رد کر دیں یا اس کو وہ اہمیت نہ دیں جس کی یہ سزاوار ہے۔ یہ بات اگرچہ ایک عام کلیہ کی حیثیت سے ارشاد ہوئی ہے لیکن کلام کے تدریجی ارتقاء سے یہ حقیقت آپ سے آپ واضح ہو جائے گی کہ روئے سخن منافقین کی طرف ہے جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا زبان سے اقرار تو کر لیا تھا لیکن اس اقرار کے تضمنات سے وہ گریز اختیار کرنے کی راہیں ڈھونڈھتے رہتے تھے۔

شاہد کا مفہوم: ’شَاہِدٌ‘ کے معنی ہیں ’گواہی دینے والا‘ یعنی لوگوں کے سامنے اللہ کے دین کی گواہی دینے والا۔ عام طور پر لوگوں نے اس سے وہ گواہی مراد لی ہے جو آپ آخرت میں دیں گے لیکن ہمارے نزدیک یہ بات صحیح نہیں ہے۔ آخرت میں حضرات انبیاء علیہم السلام جو گواہی دیں گے وہ اسی بنا پر تو دیں گے کہ انھوں نے اس دنیا میں لوگوں پر اللہ کے دین کی گواہی دی ہے۔ اس گواہی پر الاحزاب کی آیات ۴۵-۴۷ کے تحت ہم بحث کر آئے ہیں۔ تفصیل مطلوب ہو تو اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ حضرات انبیاء جو گواہی آخرت میں دیں گے المائدہ کی تفسیر میں اس پر مفصل بحث ہو چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

ہم نے ، (اے پیغمبر)، تم کو گواہی دینے والا، خوش خبری پہنچانے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔

اِس گواہی کے معنی قرآن کی اصطلاح میں یہ ہیں کہ حق لوگوں پر اِس طرح واضح کر دیا جائے کہ اِس کے بعد کسی شخص کے لیے اُس سے انحراف کی گنجایش نہ ہو۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں میں سے بعض کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا میں برپا کر دیتے ہیں۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور اُس سے انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیا جاتا ہے کہ جس حق کو وہ بچشم سر دیکھ چکے ہیں، اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیں۔ یہی گواہی ہے۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اِن نبیوں کو غلبہ عطا فرماتا اور اِن کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتا ہے۔

یعنی جو اِس گواہی کو قبول کرکے اپنی زندگیاں سنوار لیں، اُن کو جنت کی بشارت دینے والا اور جو رد کر دیں، اُن کو دوزخ کے عذاب سے خبردار کرنے والا۔یہ بات اگرچہ ایک عام کلیہ کی حیثیت سے ارشاد ہوئی ہے، لیکن کلام کے تدریجی ارتقاسے واضح ہو جائے گا کہ روے سخن اُنھی منافقین اور منافقات کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کر دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ صاحب نے شاہد کا ترجمہ ” اظہار حق کنندہ ” فرمایا ہے اور دوسرے مترجمین اس کا ترجمہ ” گواہی دینے والا ” کرتے ہیں۔ شہادت کا لفظ ان دونوں مفہومات پر حاوی ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو : تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورة احزاب، حاشیہ نمبر 82 ۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورة احزاب، حاشیہ 83 ۔

جونا گڑھی

یقیناً ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔

n/a

لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

امین احسن اصلاحی

تاکہ لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ رسول کی مدد اور اس کی توقیر کرو اور اللہ کی تسبیح کرو صبح و شام

رسول اللہ صلعم کی بعثت کا مقصد اور امت پر آپ کا حق: ’لِتُؤْمِنُوۡا بِاللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَتُعَزِّرُوۡہُ وَتُوَقِّرُوۡہُ وَتُسَبِّحُوۡہُ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً‘۔ یہ مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ ہم نے اپنے رسول کو شاہد اور مبشر اور نذیر بنا کر اس مقصد سے بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، رسول کی مدد اور اس کی توقیر کرو اور اللہ کی صبح و شام تسبیح کرو۔ ایمان سے مراد ظاہر ہے کہ سچا اور پکا ایمان ہے اللہ پر بھی اور اس کے رسول پر بھی۔ اس کے بعد صعودی ترتیب سے یعنی نیچے سے اوپر کو چڑھتے ہوئے اس ایمان کے وہ تقاضے بیان ہوئے جو بالکل بدیہی ہیں۔ رسول پر ایمان کا یہ تقاضا بیان فرمایا کہ اللہ کے دین کی اقامت کے لیے جو جدوجہد وہ کر رہے ہیں اس میں ان کے دست و بازو بنو اور ان کی توقیر و تعظیم اللہ کے رسول کی حیثیت سے کرو۔ پھر اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ بیان فرمایا کہ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

مفسرین کی ایک غلط فہمی کا ازالہ: عام طور پر لوگوں نے ’تُعَزِّرُوۡہُ وَتُوَقِّرُوۡہُ‘ کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانا ہے۔ ان کے خیال میں اگر ضمیر مفعول کا مرجع رسول مانا جائے تو اس سے بُعد پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہاں ترتیب، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، صعودی ہے، اس وجہ سے بُعد نہیں پیدا ہوتا۔ اللہ و رسول پر ایمان کے مطالبہ کے بعد پہلے رسول کا حق اس لیے بیان فرمایا کہ رسول کا ذکر ترتیب میں مؤخر تھا اس وجہ سے اس کے ذکر سے متصل ہی اس کا حق بیان فرما دیا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حق بیان فرمایا۔ یہ ترتیب بیان قرآن میں جگہ جگہ اختیار فرمائی گئی ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اگر ’تُعَزِّرُوۡہُ وَتُوَقِّرُوۡہُ‘ کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مانا جائے تو اس سے کلام میں بعض خرابیاں پیدا ہو جائیں گی جن سے کلام کو پاک ہونا چاہیے۔ مثلاً
ایک یہ کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے بیان کے سیاق و سباق میں ہے۔ اس میں غایت بیان ہوئی ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس مقصد سے شاہد اور مبشر و نذیر بنا کر بھیجا لیکن یہ تاویل اختیار کر لی جائے تو آیت آپ کے حقوق کے ذکر سے خالی رہ جاتی اور سیاق و سباق سے کٹ جاتی ہے۔
دوسری یہ کہ یہاں روئے سخن اصلاً منافقین کی طرف ہے جن کی اصلی کمزوری یہ تھی کہ وہ، ایمان کے مدعی ہونے کے باوجود، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، جہاد میں آپ کی نصرت اور آپ کی صحیح تعظیم و توقیر (جس کی وضاحت اگلی سورہ میں آئے گی) سے عاری تھے۔ یہ صورت حال مقتضی تھی کہ ان کو رسول پر ایمان کے یہ بدیہی تقاضے بتائے جائیں۔ اگر ’تُعَزِّرُوۡہُ وَتُوَقِّرُوۡہُ‘ کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ مانا جائے تو آیت اپنے موقع و محل سے بے تعلق ہو جائے گی۔
تیسری یہ کہ ’تعزیر‘ اور ’توقیر‘ کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے موزوں نہیں ہیں، یہ اپنے مواقع استعمال کے لحاظ سے رسول ہی کے لیے موزوں ہیں۔ ’وَتُوَقِّرُوۡہُ‘ کا لفظ تو اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل ہی ناموزوں ہے۔ ’تُعَزِّرُوۡہُ‘ بھی کہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں استعمال ہوا ہے۔ جہاں بھی استعمال ہوا ہے رسولوں ہی کے لیے ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو المائدہ: ۱۲ اور الاعراف ۱۵۷۔ الفاظ کی موزونیت پر ہم نے سورۂ محمد کی آیت ۲۵ کے تحت جو کچھ لکھا ہے اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ قرآن میں بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں مختلف افعال استعمال ہوئے ہیں اور صرف فعل سے یہ متعین ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی فعل کا فاعل یا مفعول کون ہے۔ اس چیز کا تعلق زبان کے ذوق سے ہے۔ اگر اس کا پورا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس سے آیات کی تاویل میں بڑی غلط فہمیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے۔

جاوید احمد غامدی

تاکہ (لوگو)، تم اللہ اور اُس کے رسول پر سچا ایمان لاؤ، رسول کا ساتھ دو، اُس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔

اللہ اور رسول پر ایمان کے یہ تقاضے صعودی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں تاکہ رسول کا حق اُس کے ذکر سے متصل ہی بیان ہو جائے اور اللہ کا ذکر چونکہ مقدم تھا، لہٰذا اُس کا حق اِس ترتیب کی رعایت سے بعد میں بیان کیا جائے۔ ہم پچھلی سورہ کے حواشی میں بیان کر چکے ہیں کہ بعض اوقات مجرد فعل بتا دیتا ہے کہ اُس کا فاعل یا مفعول کون ہے اور اہل ذوق اُس کو سمجھ لیتے ہیں۔ یہاں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اُس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

بعض مفسرین تُعَزِّرُوْہُ اور تُوَقِّرُوْہُ کی ضمیروں کا مرجع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تُسَبِّحُوہُ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ” تم رسول کا ساتھ دو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو، اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو “۔ لیکن ایک ہی سلسلہ کلام میں ضمیروں کے دو الگ الگ مرجع قرار دینا، جبکہ اس کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے، درست نہیں معلوم ہوتا۔ اسی لیے مفسرین کے ایک دوسرے گروہ نے تمام ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک عبارت کا مطلب یہ ہے کہ ” تم اللہ کا ساتھ دو، اسکی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہے “۔

صبح و شام تسبیح کرنے سے مراد صرف صبح و شام ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت تسبیح کرتے رہنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بات کا شہرہ مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف مشرق اور مغرب کے لوگ اس بات کو جانتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں اس کا چرچا ہو رہا ہے۔

جونا گڑھی

تاکہ (اے مسلمانو) ، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو اور اللہ کی پاکی بیان کرو صبح و شام۔

n/a

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّـهَ يَدُ اللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

امین احسن اصلاحی

جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تو جس نے عہد توڑا وہ اس نقض عہد کا وبال اپنے ہی سر لیتا ہے اور جو پوری کرے گا وہ بات جس کا اس نے اللہ سے عہد کیا تو اللہ اس کو ایک اجر عظیم دے گا

رسول کے ہاتھ پر بیعت کی ذمہ داریاں: یہ اوپر والے مضمون ہی کی مزید تائید ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ تمہارے ہاتھ پر سمع و طاعت کی بیعت کرتے ہیں انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ تم سے بیعت نہیں کرتے بلکہ درحقیقت وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ بیعت کے وقت ان کے ہاتھوں کے اوپر جو ہاتھ ہوتا ہے وہ تمہارا نہیں بلکہ اللہ کا ہوتا ہے۔ اگر وہ یہ بیعت کر کے اس کی ذمہ داریوں سے گریز اختیار کریں گے اور اپنے عمل سے اس عہد کو توڑیں گے جس کو اپنے قول سے انھوں نے باندھا ہے تو یاد رکھیں کہ اس کا وبال انہی کے اوپر آئے گا اس لیے کہ اس معاہدے میں اصل فریق اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس کے ساتھ بدعہدی کرنے والا خود ہی خسارے میں پڑتا ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جو شخص وہ ذمہ داری پوری کرے گا جس کے اٹھانے کا اس نے عہد کیا ہے وہ ہرگز خسارے میں نہیں رہے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے پاس وہ اس کا بہت بڑا اجر پائے گا۔

عام طور پر لوگوں نے اس آیت کو بیعت رضوان سے متعلق سمجھا ہے حالانکہ اس کو بیعت رضوان سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ بیعت رضوان کا ذکر آگے آیت ۱۸ میں آئے گا۔ یہ سمع و طاعت کی اس عام بیعت کا ذکر ہے جو ہر ایمان لانے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کرتا تھا۔ یہاں اس کی عظمت و اہمیت اور اس کی ذمہ داریاں منافقین کو غیرت دلانے کے لیے بیان کی گئی ہیں کہ وہ رسول کے ہاتھ پر بیعت تو کر بیٹھے لیکن جب اس کے مطالبات پورے کرنے کا وقت آیا تو منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ان پر یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ رسول کے ہاتھ پر بیعت درحقیقت اللہ تعالیٰ سے معاہدہ ہے۔ اگر کوئی اس بیعت کی ذمہ داریوں سے گریز اختیار کرتا ہے تو وہ اللہ سے کیے ہوئے معاہدے کو توڑتا ہے اور اس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں رسوائی ہے۔
ایک نحوی شبہ کا ازالہ: اس آیت میں ’عَلَیْہُ اللہَ‘ کی ضمیر مجرور پر جو ضمّہ ہے اس کی بنا پر بعض مستشرقین نے قرآن کی نحو پر اعتراض کیا ہے۔ ان بے چاروں کو پتا نہیں ہے کہ نحو کی کتابیں قرآن کے اسلوب و اعراب کو پرکھنے کے لیے کسوٹی نہیں ہیں بلکہ قرآن نحو کی کتابوں کے جانچنے کے لیے کسوٹی ہے۔ قرآن قریش کی ٹکسالی زبان کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اور ہر پہلو سے بالکل محفوظ بھی ہے۔ اس وجہ سے اگر اس کی کوئی چیز نحو کے مروجات کے خلاف نظر آئے گی تو اس کی بنا پر قرآن کو متہم نہیں کریں گے بلکہ اس کو اہل نحو کے تتبع کے نقص پر محمول کریں گے۔ سیبویہ فن نحو کا امام ہے۔ میرے استاذ مولانا فراہیؒ بھی اس کو امام مانتے ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس کے متعدد مسائل پر کلام عرب کی روشنی میں تنقید کر کے بتایا ہے کہ معروف اسلوب وہ ہے جو قرآن نے اختیار کیا ہے نہ کہ وہ جو سیبویہ نے قرار دیا ہے۔
فصیح عربی میں صرف آہنگ و صوت کے تقاضوں کے تحت بھی الفاظ، حروف اور ضمیروں پر ایسے ایسے تصرفات ہوئے ہیں کہ اگر کسی شخص کا علم صرف نحو کی کتابوں ہی تک محدود ہو تو وہ ان کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ یہ ضمیروں ہی کا مسئلہ لیجیے۔ قرآن میں متعدد مثالیں ایسی موجود ہیں کہ ضمیر لفظ کے اندر بالکل مدغم ہو کے رہ گئی ہے اور اس کی وجہ آہنگ و صوت کے تقاضے کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ مثلاً اعراف کی آیت ۱۱۱ میں ہے: ’اَرْجِہٗ وَاَخَاہُ‘ (اس کو اور اس کے بھائی کو ابھی ٹالو) اسی طرح سورۂ نور ’یَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ‘ (اللہ سے ڈرے اور اس سے تقویٰ اختیار کرے)۔
آیت زیربحث میں جس طرح ضمّہ لوگوں کو عجیب معلوم ہوتا ہے بعینہٖ یہی صورت سورۂ کہف آیت ۶۳ میں بھی ہے:

’وَمَا اَنْسٰنِیْہُٓ اِلَّا الشَّیْطٰنُ‘
(اور مجھے اس سے نہیں غافل کیا مگر شیطان نے)

یہاں مثالوں کا استقصاء مقصود نہیں ہے۔ اس مسئلہ کی مزید تحقیق کے خواہش مندوں کو آخری گروپ کی سورتوں میں بہت سی مثالیں ملیں گی کہ صرف آہنگ و صوت کے تقاضے سے حروف، الفاظ اور ضمیروں کی ہیئت میں ایسی تبدیلیاں ہو گئی ہیں جن کی اہل نحو کوئی توجیہ نہیں کر پاتے۔ یہاں بھی وہی صورت ہے۔

جاوید احمد غامدی

(یہ تمھارے ہاتھ پر بیعت کی اہمیت کو سمجھتے نہیں ہیں)۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں، وہ (تم سے نہیں، بلکہ) اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔ اُن کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ سو جس نے یہ عہد توڑا، وہ اِس عہدشکنی کا وبال اپنے ہی سر لیتا ہے اور جس نے اُس بات کو پورا کر دیا جس کا عہد اُس نے اللہ سے کیا تھا تو اللہ عنقریب اُس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔

یہ اُس عام بیعت کا ذکر ہے جو ہر ایمان لانے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کرتا تھا۔

اصل الفاظ ہیں: ’بِمَا عٰھَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ‘۔ اِن میں ’عَلَیْہُ‘ کی ضمیر مجرور پر عام طریقے کے خلاف ضمہ پڑھا گیا ہے۔ یہ تبدیلی محض صوت و آہنگ کے تقاضے سے ہے۔ اِس پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔ اِس کی متعدد مثالیں عربی زبان میں موجود ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔ اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔

اشارہ ہے اس بیعت کی طرف جو مکہ معظمہ میں حضرت عثمان (رض) کے شہید ہوجانے کی خبر سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے حدیبیہ کے مقام پر لی تھی۔ بعض روایات کی رو سے یہ بیعت علی الموت تھی، اور بعض روایات کے مطابق بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ ہم میدان جنگ سے پیٹھ نہ پھیریں گے۔ پہلی بات حضرت سلمہ بن اکوَع سے مروی ہے، اور دوسرے حضرات ابن عمر، جابر بن عبداللہ اور معقل بن یسار (رض) سے۔ مآل دونوں کا ایک ہی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت اس بات کی کی تھی کہ حضرت عثمان غنی (رض) کی شہادت کا معاملہ اگر صحیح ثابت ہوا تو وہ سب یہیں اور اسی وقت قریش سے نمٹ لیں گے خواہ نتیجہ میں وہ سب کٹ ہی کیوں نہ مریں۔ اس موقع پر چونکہ یہ امر ابھی یقینی نہیں تھا کہ حضرت عثمان غنی (رض) واقعی شہید ہوچکے ہیں یا زندہ ہیں، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف سے خود اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت میں شریک فرمایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان کی طرف سے خود بیعت کرنا لازما یہ معنی رکھتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر پوری طرح یہ اعتماد تھا کہ اگر وہ موجود ہوتے تو یقینا بیعت کرتے۔

یعنی جس ہاتھ پر لوگ اس وقت بیعت کر رہے تھے وہ شخص رسول کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کے نمائندے کا ہاتھ تھا اور یہ بیعت رسول کے واسطہ سے درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو رہی تھی۔

اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَ عَلَیْہِ اللہ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جو کہ ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجائے عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں ” ہ ” دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر۔ لہٰذا یہاں اس کے اصلی اعراب کو باقی رکھنا وفائے عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

جونا گڑھی

جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے تو جو شخص عہد شکنی کرے وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔

  یعنی یہ بیعت دراصل اللہ ہی کی ہے کیونکہ اسی نے جہاد کا حکم دیا ہے اور اس پر اجر بھی وہی عطا فرمائے گا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ اپنے نفسوں اور مالوں کا جنت کے بدلے اللہ کے ساتھ سودا ہے التوبہ۔ ١١١ یہ اسی طرح ہے جیسے (مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰهَ ) 4 ۔ النساء :80) 

آیت سے وہی بیعت رضوان مراد ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان شہادت کی خبر سن کر ان کا انتقام لینے کے لئے حدیبیہ میں موجود ١٤ یا ١٥ سو مسلمانوں نے لی تھی۔ 

 نَکْث، (عہد شکنی) سے مراد یہاں بیعت کا توڑ دینا یعنی عہد کے مطابق لڑائی میں حصہ نہ لینا ہے۔ یعنی جو شخص ایسا کرے گا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ 

 کہ وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرے گا، ان کے ساتھ ہو کر لڑے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی فتح و غلبہ عطا فرما دے۔ 

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >