تو نے دیکھا نہیں کہ تیرے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر اصل مخاطب قریش کے لوگ ہیں۔ واحد کے صیغے سے خطاب کا یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب مخاطبین کے ایک ایک شخص کو فرداً فرداً متوجہ کرنا پیش نظر ہو۔ اصطلاح میں اِسے ’خطاب لغیر معین‘ کہا جاتا ہے۔
یہ سارا واقعہ مخاطبین کو معلوم تھا۔ مکہ اور اطراف مکہ میں ایسے بہت سے لوگ اُس وقت زندہ موجود تھے جنھوں نے اپنی آنکھوں سے اِسے دیکھا تھا۔ باقی لوگوں کے لیے یہ خبر ایک خبر متواتر تھی اور آنکھوں دیکھے واقعے کی طرح وہ اِس کا یقینی علم رکھتے تھے۔ قرآن نے اِسی بنا پر اِس کی تفصیل نہیں کی۔ اصحاب الفیل کے الفاظ سے حملہ آوروں کا تعارف ہی یہ سمجھ لینے کے لیے کافی تھا کہ یہ یمن کے حبشی حکمران ابرہہ کا ذکر ہو رہا ہے جو کوہ پیکر ہاتھیوں اور ایک لشکر جرار کے ساتھ بیت اللہ پر حملہ آور ہوا تھا۔
اِس واقعے کی جو تفصیلات امام حمید الدین فراہی نے سورہ کی تفسیر میں اپنی تحقیق کے مطابق بیان کی ہیں، اُن کی رو سے ابرہہ نو ہاتھیوں اور ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر بیت الحرام کو ڈھانے کی غرض سے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ قریش کھلے میدان میں اُس کے مقابلے کی طاقت نہ پا کرپہاڑوں میں چلے گئے۔ اُنھوں نے وہاں سے اِس لشکرجرار پر سنگ باری کی۔ اُن کی یہ مدافعت انتہائی کمزور تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قوت قاہرہ اُس میں شامل کر دی۔ چنانچہ اذن الٰہی سے ہواکے تند و تیز طوفان (حاصب) نے ابرہہ کی فوجوں کو اِس طرح پامال کیا کہ وادی محصب میں پرندے دنوں اُن کی نعشیں نوچتے رہے۔* اُس زمانے کے ایک شاعر ابو قیس کا بیان ہے:
فارسل من ربھم حاصب
یلفھم مثل لف القزم
’’پھر اُن کے پروردگار کی طرف سے اُن پر حاصب بھیجی گئی جو خس و خاشاک کی طرح اُنھیں لپیٹتی جاتی تھی۔‘‘
_____
* نظام القرآن، حمید الدین فراہی ۴۴۴۔
تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟
خطاب بظاہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، مگر اصل مخاطب نہ صرف قریش بلکہ عرب کے عام لوگ ہیں جو اس سارے قصے سے خوب واقف تھے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر الم تر (کیا تم نے نہیں دیکھا) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں بلکہ عام لوگوں کو مخاطب کرنا ہے (مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں۔ ابراہیم، آیت 19 ۔ الحج 18 ۔ 65 ۔ النور 43 ۔ لقمان 29 ۔ 31 ۔ فاطر 27 ۔ الزمر 21) پھر دیکھنے کا لفظ اس مقام پر اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مکہ اور اطراف مکہ اور عرب کے ایک وسیع علاقے میں مکہ سے یمن تک ایسے بہت سے لوگ اس وقت زندہ موجود تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اصحاب الفیل کی تباہی کا واقعہ دیکھا تھا کیونکہ اس واقعہ کو گزرے ہوئے چالیس پینتالیس سال سے زیادہ زمانہ نہیں ہوا تھا، اور سارا عرب ہی اس کی ایسی متواتر خبریں دیکھنے والوں سے سن چکا تھا کہ یہ واقعہ لوگوں کے لیے آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح یقینی تھا۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی تفصیل اس امر کی بیان نہیں کی کہ یہ ہاتھی والے کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور کس غرض کے لیے آئے تھے، کیونکہ یہ باتیں سب کو معلوم تھیں۔
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟
جو یمن سے خانہ کعبہ کی تخریب کے لئے آئے تھے، الم تعلم کیا تجھے معلوم نہیں ؟ استفہام تقریر کے لیے ہے، یعنی تو جانتا ہے یا وہ سب لوگ جانتے ہیں جو تیرے ہم عصر ہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ عرب میں یہ واقعہ گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مشہور ترین قول کے مطابق یہ واقعہ اس سال پیش آیا جس سال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ہوئی تھی، اس لئے عربوں میں اس کی خبریں مشہور اور متواتر تھیں یہ واقع مختصر ! حسب ذیل ہے :
واقعہ اصحاب الفیل :
حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن میں ابرہتہ الاشرم گورنر تھا اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑا گرجا (عبادت گھر) تعمیر کیا اور کوشش کی کہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائے عبادت اور حج عمرہ کے لئے ادھر آیا کریں۔ یہ بات اہل مکہ اور دیگر قبائل عرب کے لئے سخت ناگوار تھی۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص ابرہہ کے بنائے ہوئے عبادت خانے کو غلاظت سے پلید کردیا، جس کی اطلاع اس کو کردی گئی کہ کسی نے اس طرح گرجا کو ناپاک کردیا ہے، جس پر اس نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا عزم کرلیا اور ایک لشکر جرار لے کر مکے پر حملہ آور ہوا، کچھ ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب یہ لشکر وادی محسر کے پاس پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیج دیئے جن کی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں تھیں جو چنے یا مسور کے برابر تھیں، جس فوجی کے بھی یہ کنکری لگتی وہ پگل جاتا اور اس کا گوشت جھڑ جاتا۔ خود ابرہہ کا بھی صنعاء پہنچتے پہنچتے یہی انجام ہوا۔ اسطرح اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی، مکے کے قریب پہنچ کر ابرہہ کے لشکر نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا کے، جو مکے کے سردار تھے، اونٹوں پر قبضہ کرلیا، جس پر عبدالمطلب نے آ کر ابرہہ سے کہا کہ تو میرے اونٹ واپس کر دے جو تیرے لشکریوں نے پکڑے ہیں۔ باقی رہا خانہ کعبہ کا مسئلہ جس کو ڈھانے کے لئے تو آیا ہے تو وہ تیرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، وہ اللہ کا گھر ہے، وہی محافظ ہے، تو جانے اور بیت اللہ کا مالک اللہ جانے۔ (ایسر التفاسیر)
کیا ان کی چال بالکل برباد نہ کر دی!
لیکن ابرہہ کی یہ ساری تدبیریں اللہ تعالیٰ نے بالکل پائمال و رائگاں کر دیں۔ ان تدبیروں کو ’کید‘ (چال) سے تعبیر کرنے کی ایک واضح وجہ تو وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا کہ ایک نہایت ظالمانہ اقدام کو جائز ثابت کرنے کے لیے ایک نہایت بے ہودہ قسم کا الزام گھڑا گیا لیکن اس کے ’کید‘ ہونے کے بعض اور پہلو بھی ہیں جن کی طرف امام فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اشارے فرمائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۱۔ اس نے محترم مہینوں میں حملہ کیا۔ اس کو خیال تھا کہ عرب ان مہینوں میں جنگ و خونریزی سے احتراز کرتے ہیں۔
۲۔ اس نے مکہ میں ایسے وقت میں داخل ہونے کی کوشش کی جب اہل مکہ دوسرے عربوں کے ساتھ حج کے مناسک ادا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
۳۔ اس نے خاص طور پر قیام منیٰ کے دنوں میں حملہ کرنا چاہا کہ عرب یا تو منیٰ میں قربانی میں مصروف ہوں گے یا تھکے ماندے گھروں کو واپس آ رہے ہوں گے۔‘‘
ابرہہ کی چالوں کی ناکامی کا خدائی انتظام: اس کی ان چالوں کو ناکام کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو انتظام فرمایا اس کا خلاصہ، واقعات سے مستنبط کر کے، مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
’’۱۔ ان کی فوج کو وادئ محسر ہی میں روک دیا۔
۲۔ محسر کے پتھروں سے عربوں نے اسلحہ کا کام لیا اور ان پر سنگ باری کی جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
۳۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کے ان دشمنوں پر سنگ باری کرنے والی ہوا (حاصب) بھی بھیجی جس نے ان کو بالکل پامال کر دیا۔‘‘
اس ’حاصب‘ کا ذکر واقعہ کے بعض عینی شاہدوں نے کیا ہے اور ابن ہشام وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ان شہادتوں کو نقل کیا ہے۔ مولانا فراہیؒ نے اس پر پوری تفصیل سے بحث کی ہے۔ ہم بقصد اختصار صرف دو مثالیں پیش کرتے ہیں۔ مشہور شاعر ابوقیس اس واقعہ کے سلسلہ میں قدرت الٰہی کی بعض شانوں کا ذکر کرتے ہوئے ’حاصب‘ کا ذکر یوں کرتا ہے:
فارسل من ربھم حاصب
یلفہم مثل لف القزم
(پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر حاصب (سنگ ریزے برسانے والی آندھی) چلی جو خس و خاشاک کی طرح ان کو لپیٹ لیتی)۔
اسی طرح صیفی بن عامر نے بھی ’ساف‘ اور ’حاصب‘ کا ذکر کیا ہے۔۱ وہ کہتا ہے:
فلما اجازوا بطن نعمان ردھم
جنود الا لہ بین ساف و حاصب
(جونہی وہ بطن نعمان سے آگے بڑھے، خدا کی فوجوں نے ساف اور حاصب کے درمیان نمودار ہو کر ان کو پسپا کر دیا)۔
_____
۱ لفظ ’ساف‘ بھی ’حاصب‘ کی طرح تند ہوا ہی کے لیے آتا ہے۔ دونوں میں صرف درجے کا فرق ہے۔
اُن کی چال کیا اُس نے اکارت نہیں کر دی؟
چال سے مراد یہاں وہ بہانہ ہے جو اِس نہایت ظالمانہ اقدام کا جواز پیدا کرنے کے لیے تراشا گیا۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حملے سے پہلے ابرہہ نے اِس بے ہودہ الزام کا پروپیگنڈا کیا کہ کسی عرب نے اُن کے کلیسا کو ناپاک کر دیا ہے۔ لہٰذا وہ محض اپنے کلیسا کی توہین کا بدلہ لینے کے لیے بیت اللہ پر حملہ آور ہوا ہے۔ عیسائیوں کے جذبات بھڑکانے اور نجاشی کی تائید حاصل کرنے کے لیے اِس جھوٹ کو خوب شہرت دی گئی، یہاں تک کہ ساٹھ ہزار کا لشکر اُس کے ساتھ مکے پر حملے کے لیے جمع ہو گیا۔یہ محض ایک چال تھی، ورنہ اصلی مقصود یہ تھا کہ مکہ کے معبد کو ڈھا کر عربوں کے حج کا رخ بھی اُس گرجے کی طرف موڑ دیا جائے جو اُس نے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں بنوایا تھا۔ اپنے مذہب کے ساتھ تعصب کے جنون میں یہ اسکیم عربوں کو عیسائی بنانے کے لیے بنائی گئی تھی۔**
_____
** البدایۃ والنہایہ، ابن کثیر ۲/ ۱۷۰۔
کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا؟
اصل میں لفظ کید استعمال کیا گیا ہے جو کسی شخص کو نقصان پہنچانے کے لیے خفیہ تدبیر کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں خفیہ کیا چیز تھی ؟ ساٹھ ہزار کا لشکر کئی ہاتھی لیے ہوئے علانیہ یمن سے مکہ آیا تھا، اور اس نے یہ بات چھپا کر نہیں رکھی تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھانے آیا ہے۔ اس لیے یہ تدبیر تو خفیہ نہ تھی۔ البتہ جو بات خفیہ تھی وہ حبشیوں کی یہ غرض تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھا کر قریش کو کچل کر، اور تمام اہل عرب کو مرعوب کر کے تجارت کا وہ راستہ عربوں سے چھین لینا چاہتے تھے جو جنوب عرب سے شام و مصر کی طرف جاتا تھا۔ اس غرض کو انہوں نے چھپا رکھا تھا اور ظاہر یہ کیا تھا کہ ان کے کلیسا کی جو بےحرمتی عربوں نے کی ہے اس کا بدلہ وہ ان کا معبد ڈھا کرلینا چاہتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں فِيْ تَضْلِيْلٍ ۔ یعنی ان کی تدبیر کو اس نے ” گمراہی میں ڈال دیا ” لیکن محاورے میں کسی تدبیر کو گمراہ کرنے کا مطلب اسے ضائع کردینا اور اسے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام کردینا ہے، جیسے ہم اردو زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص کا کوئی داؤں نہ چل سکا، یا اس کا کوئی تیر نشانے پر نہ بیٹھا۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے وَمَا كَيْدُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ” مگر کافروں کی چال اکارت ہی ہوگئی ” (المومن، 25) اور دوسری جگہ ارشاد ہوا وَاَنَّ اللّٰهَ لَايَهْدِيْ كَيْدَ الْخَاۗىِٕنِيْنَ ” اور یہ کہ اللہ خائنوں کی چال کو کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا ” (یوسف، 52) اہل عرب امرؤ القیس کو الملک الضلیل ” ضائع کرنے والا بادشاہ ” کہتے تھے، کیونکہ اس نے اپنے باپ سے پائی ہوئی بادشاہی کو کھو دیا تھا۔
کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کردیا
یعنی وہ خانہ کعبہ ڈھانے کا ارادہ لے کر آئے تھا، اس میں اس کو ناکام کردیا۔۔ استفہام تقریری ہے۔
اور ان پر جُھنڈ کی جُھنڈ چڑیاں نہ بھیجیں!
ابرہہ کی فوجوں کی بربادی کی تعبیر بطریق کنایہ: یہ ابرہہ کی فوجوں کی بربادی، پامالی اور بے کسی و بے بسی سے کنایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس طرح ان کو پامال کیا کہ کوئی ان کی لاشوں کو اٹھانے والا نہ رہا۔ وہ میدان میں پڑی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر گوشت خوار چڑیاں بھیجیں جنھوں نے ان کا گوشت نوچا، کھایا اور وادئ مکہ کو ان کے تعفن سے پاک کیا۔ دشمن پر چڑیوں کو مسلط کرنا اس کی شکست و پامالی کی تعبیر کے لیے معروف کنایہ ہے۔ عرب شعراء نے اپنے فخریوں میں یہاں تک کہا ہے کہ جب ہماری فوجیں دشمن پر حملہ آور ہوتی ہیں تو گوشت خوار چڑیاں ہمارے ہم رکاب ہوتی ہیں، انھیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے حملہ سے دشمن پامال ہوں گے اور ان کو پیٹ بھر ان کا گوشت کھانے کا موقع ملے گا۔ تورات میں حضرت داؤد اور جالوت کا جو واقعہ بیان ہوا ہے اس میں بھی ہے کہ جب حضرت داؤد اس سے مقابلہ کرنے پر بضد ہوئے اور اس کی مغرورانہ باتوں کا جواب ترکی بہ ترکی دیا تو اس نے جھلا کر کہا کہ ’’اچھا آ، آج تیرا گوشت چیلوں اور کوّوں کو کھلاتا ہوں۔‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو اس پر غلبہ دیا اور خود اسی کے گوشت کو چیلوں اور گِدھوں نے کھایا۔
ابابیل: ’اَبَابِیْلَ‘ سے ابابیلیں مراد نہیں ہیں، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے سمجھا ہے۔ یہ لفظ گھوڑوں کی جماعت اور چڑیوں کے جھنڈ کے لیے آتا ہے۔ اس کے واحد اور جمع ہونے کے باب میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اس کی واحد نہیں ہے۔ بعض اس کو ’اِبَّالَۃٌ‘ کی جمع بتاتے ہیں۔ یہاں یہ ان چڑیوں کے لیے آیا ہے جو مقتولوں کی لاشیں کھانے کے لیے جمع ہو جاتی ہیں۔
’اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ‘ میں مسلط کر دینے کا مضمون ہے جس سے اصحاب فیل کی کس مپرسی کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ کوئی ان کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے والا نہیں تھا۔ اس وجہ سے چڑیوں کو پوری آزادی سے ان پر تصرف کرنے کا موقع ملا۔
اور اُن پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے مسلط نہیں کر دیے؟
یہ ابرہہ کی فوجوں کی بے بسی سے کنایہ ہے،یعنی اللہ تعالیٰ نے ساف و حاصب کے طوفان سے اُنھیں اِس طرح پامال کیا کہ کوئی اُن کی لاشیں اٹھانے والا نہ رہا۔ وہ میدان میں پڑی تھیں اور گوشت خوار پرندے اُنھیں نوچنے اور کھانے کے لیے اُن پر جھپٹ رہے تھے۔
اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔
اصل میں طَيْرًا اَبَابِيْلَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں چونکہ ابابیل خاص قسم کے پرندے کو کہتے ہیں اس لیے ہمارے ہاں لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ابرھہ کی فوج پر ابابیلیں بھیجی گئی تھیں۔ لیکن عربی زبان میں ابابیل کے معنی ہیں بہت سے متفرق گروہ جو پے در پے مختلف سمتوں سے آئیں، خواہ وہ آدمیوں کے ہوں یا جانوروں کے۔ عکرمہ اور قتادہ کہتے ہیں کہ یہ جھنڈ کے جھنڈ پرندے بحر احمر کی طرف سے آئے تھے۔ سعید بن جبیر اور عکرمہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے پرندے نہ پہلے کبھی دیکھے گئے تھے نہ بعد میں دیکھے گئے۔ یہ نہ نجد کے پرندے تھے، نہ حجاز کے، اور نہ تہامہ یعنی حجاز اور بحر احمر کے درمیان ساحلی علاقے کے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ ان کی چونچیں پرندوں جیسی تھیں اور پنجے کتے جیسے۔ عکرمہ کا بیان ہے کہ ان کے سر شکاری پرندوں کے سروں جیسے تھے۔ اور تقریبا سب راویوں کا متفقہ بیان ہے کہ ہر پرندے کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا اور پنجوں میں دو دو کنکر۔ مکہ کے بعض لوگوں کے پاس یہ کنکر ایک مدت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابو نعیم نے نوفل بن ابی معاویہ کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے وہ وہ کنکر دیکھے ہیں جو اصحاب الفیل پر پھینکے گئے تھے۔ وہ مٹر کے چھوٹے دانے کے برابر سیاہی مائل سرخ تھے۔ ابن عباس کی روایت ابو نعیم نے یہ نقل کی ہے کہ وہ چلغوزے کے برابر تھے اور ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ بکری کی مینگنی کے برابر۔ ظاہر ہے کہ سارے سنگریز ایک ہی جیسے نہ ہوں گے۔ ان میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوگا۔
اور ان پر پرندوں کے جھنڈ پر جھنڈ بھیج دیئے۔
ابابیل پرندے کا نام نہیں بلکہ اس کے معنی غول در غول۔
تم ان کو مارتے تھے سنگ گِل کے قسم کے پتھروں سے۔
مفسرین کی ایک عام غلط فہمی: اب آخر میں بتایا کہ اس لشکر جرار کے تباہ کرنے میں کتنا حصہ عربوں کا ہے اور کتنا قدرت کا۔ فرمایا کہ تم ان کو پتھروں اور کنکروں سے مار رہے تھے، پس خدا نے ان کو کھانے کے بھس کی طرح پامال کر دیا۔ یعنی اس لشکر جرار کے مقابلے میں تمہاری یہ مدافعت نہایت کمزور تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید غیبی سے تمہاری یہی کمزور مدافعت اتنی مؤثر بنا دی کہ وہ کھانے کے بھس کی طرح پامال ہو کر رہ گئے۔
ہمارے مفسرین تو عام طور پر کہتے ہیں کہ قریش نے ابرہہ کا کوئی مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان کے سردار، عبدالمطلب قوم کو لے کر پہاڑوں میں جا چھپے اور خانہ کعبہ کو خدا کے سپرد کر دیا کہ جس کا یہ گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کر لے گا۔ ان کے نزدیک ’تَرْمِیْ‘ کا فاعل ’طَیْرًا اَبَابِیْلَ‘ ہے۔ یعنی چڑیوں نے ابرہہ کی فوجوں پر سنگ باری کر کے ان کو پامال کر دیا۔ اگرچہ اس قول پر تمام مفسرین متفق ہیں لیکن گوناگوں وجوہ سے یہ بالکل غلط ہے جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے:
۱۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس موقع پر قریش پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مدافعت سے کلیۃً دست بردار ہو کر پہاڑوں میں جا چھپے تھے، بلکہ ابرہہ کی عظیم فوج کے مقابل میں مدافعت کی واحد ممکن شکل جو وہ اختیار کر سکتے تھے یہی تھی اس وجہ سے انھوں نے یہی اختیار کی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق کہ بندہ جب اپنے امکان کے حد تک اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کی مدد فرماتا ہے، اس نے قریش کی مدد فرمائی۔
اوپر آپ پڑھ آئے ہیں کہ ابرہہ کا لشکر ساٹھ ہزار تھا اور اس کے ساتھ ہاتھیوں کا ایک دستہ بھی تھا۔ اتنی بڑی فوج کا مقابلہ میدان میں نکل کر اور صف بندی کرکے، تلواروں کے ذریعہ سے کرنا، قریش کے لیے ناممکن تھا۔ وہ اگر اپنا پورا زور و اثر استعمال کرتے تو بھی شاید دس بیس ہزار سے زیادہ آدمی اکٹھے نہ کر پاتے، اس وجہ سے انھوں نے اپنے لیے بہترین جنگی پالیسی یہی خیال کی کہ میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے کے بجائے پہاڑوں میں محفوظ ہو جائیں اور وہاں سے گوریلوں کے طریقہ پر، جس حد تک ان کے اقدام میں مزاحمت پیدا کر سکتے ہیں، کریں۔ یہ اسی طرح کی ایک تدبیر تھی جس طرح کی تدبیر مسلمانوں نے غزوۂ احزاب کے موقع پر اختیار کی۔ یعنی مدینہ کے ارد گرد خندق کھودی اور اس کے اندر محفوظ ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا۔
۲۔ جن لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قریش نے کوئی مزاحمت نہیں کی، ان کا دعویٰ واقعات کے بھی خلاف ہے اور قریش کی حمیت و غیرت کے بھی۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ابرہہ کی فوجیں جن راستوں سے گزریں ان کے عرب قبائل نے ان کو مزاحمت کے بغیر گزرنے نہیں دیا بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ اس دل بادل فوج سے ان کے لیے عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں ہے انھوں نے مزاحمت کر کے شکست کھانا تو گوارا کیا لیکن یہ ننگ نہیں گوارا کیا کہ دشمن خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کے لیے ان کے حدود کے اندر سے، آسانی سے، گزر جائے۔ صرف ایک قبیلہ، بنو ثقیف نے اہل عرب کی اس عام حمیت کے خلاف روش اختیار کی۔ اس کے بعد ایک فرد، ابورغال نے ابرہہ کی فوج کو مکہ کا راستہ بتایا لیکن اس قبیلہ کو اس بے حمیتی کی سزا یہ ملی کہ پورے عرب میں اس کی آبرو مٹ گئی اور ابورغال کا حشر یہ ہوا کہ اس کی قبر پر اہل عرب ایک مدت تک لعنت کے طور پر سنگ باری کرتے رہے۔ غور کیجیے کہ جب چھوٹے چھوٹے قبائل نے اس بے جگری سے دشمن کا مقابلہ کیا تو قریش اس کے آگے اس بے حمیتی کا اظہار کس طرح کرتے کہ اس کو بے روک ٹوک اللہ کے گھر پر قابض ہو جانے دیتے۔ اور اگر انھوں نے واقعی بغیر کسی مزاحمت کے اس کو راہ دے دی تھی تو ابورغال نے کیا گناہ کیا تھا کہ اس کی قبر پر وہ سنگ باری کرتے رہے۔ بہرحال یہ بات کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ وہ بغیر کوئی مزاحمت کیے پہاڑوں میں جا چھپے۔ قریش کی غیرت و حمیت ہمیشہ مشہور رہی ہے۔ انھوں نے کبھی معمولی باتوں میں بھی کوئی ایسی کمزوری نہیں دکھائی جس سے ان کی غیرت و حمیت پر حرف آئے، تو وہ بیت اللہ کے معاملہ میں ایسی بے حمیتی کا ثبوت کیونکر دے سکتے تھے جس پر ان کی دینی و دنیوی دونوں سیادتوں کا انحصار تھا۔ بیت اللہ کے بعد ان کے پاس بچ کیا رہتا تھا جس کے لیے وہ پہاڑوں میں چھپ کر زندگی بچانے کی تمنا کرتے!
۳۔ جن لوگوں نے قریش پر اس بے حمیتی کا الزام لگایا ہے ان کے نزدیک اس سورہ کا درس گویا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گھر کا محافظ خود ہے۔ اس کے پاسبان، دشمن سے ڈر کر، اگر اس کو چھوڑ کے بھاگ جائیں جب بھی خدا اس کی حفاظت کرے گا۔ چنانچہ جب قریش ابرہہ کی فوجوں سے ڈر کر پہاڑوں میں جا چھپے تو اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کے ذریعہ سے ان پر پتھراؤ کر کے ان کو بھس کی طرح پامال کر دیا۔ اگر فی الواقع اس سورہ کا درس یہی ہے تو یہ درس اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ نہیں ہے کہ بندے اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے بنی اسرائیل کی طرح یہ کہیں کہ
’فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ‘ (المائدہ ۵: ۲۴)
(تم اور تمہارا خداوند جاؤ لڑو، ہم یہاں بیٹھتے ہیں)
اور خدا ان کے لیے میدان جیت کر ان کے لیے تخت بچھا دے اور یہ اس پر براجمان ہو جائیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والا ہوتا تو بنی اسرائیل کے ساتھ اس نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ان کو تو اس نے اس کی سزا یہ دی کہ چالیس سال کے لیے ان کو صحرا ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت جو قرآن سے واضح ہوتی ہے وہ تو یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی مدد فرماتا ہے جو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد کتنی ہی کم اور ان کے وسائل کتنے ہی محدوود ہوں۔ چنانچہ قرآن نے بیت اللہ سے متعلق سورۂ بقرہ، سورۂ توبہ، سورۂ حج وغیرہ میں ہماری جو ذمہ داریاں بتائی ہیں وہ یہی ہیں کہ ہم اس کی آزادی و حفاظت کے لیے جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ کریں، اللہ ہماری مدد کرے گا۔ یہ کہیں نہیں کہا ہے کہ تم کچھ کرو یا نہ کرو ہماری ابابیلیں اس کی حفاظت کر لیں گی۔ بہرحال قریش نے، جو کچھ ان کے امکان میں تھا، وہ کیا۔ اگرچہ ان کی مدافعت، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، کمزور تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حاصب کے ذریعہ سے ان کی اس کمزور مدافعت کے اندر اتنی قوت پیدا کر دی کہ دشمن کھانے کے بھس کی طرح پامال ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے موقع پر صرف مٹھی بھر خاک قریش کے لشکر کی طرف پھینکی تھی لیکن وہی مٹھی بھر خاک ان کے لیے طوفان بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت یوں واضح فرمائی کہ
’وَمَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی‘ (الانفال ۸: ۱۷)
(اور وہ کنکریاں دشمنوں پر تم نے نہیں پھینکیں تھیں بلکہ اللہ نے پھینکیں)۔
۴۔ عبدالمطلب کا اپنے رب سے استغاثہ: عبدالمطلب نے جبل حراء پر چڑھ کر رب کعبہ سے جو استغاثہ کیا اس سے یہ بات نہیں نکلتی کہ وہ بیت اللہ کی مدافعت سے بالکل دست بردار ہو کر اور سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر کے، خود الگ ہو رہے ہیں بلکہ اس میں انھوں نے بعض فقرے تو ایسے کہے ہیں جن کے اندر ناز اور اعتماد کی وہ شان پائی جاتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا میں ہے جو آپ نے غزوۂ بدر کے موقع پر عین میدان جنگ میں فرمائی ہے۔ اس طرح کی دعا میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے والا نہیں کرتا بلکہ وہ شخص کرتا ہے جو اگرچہ حالات کی نزاکت سے پریشان تو ہوتا ہے لیکن اپنے رب کی قدرت سے مایوس نہیں ہوتا۔ اس دعا کو جن لوگوں نے فرار کے مفہوم میں لیا ہے انھوں نے نہایت بدذوقی کا ثبوت دیا ہے۔ میں تو جب اس کو پڑھتا ہوں مجھے اس کے اندر ایک رجز کی شان معلوم ہوتی ہے اور اس سے ایمان کی مہک آتی ہے۔ آپ بھی ذرا اپنے ذوق کو بیدار کر کے یہ اشعار پڑھیے۔ ان میں کتنی حرارت اور اللہ تعالیٰ کی غیرت کو جوش میں لانے والی کتنی مؤثر اپیل ہے!
اللھم ان المرء یمنع رحلہ
فامنع رحالک
(اے خدا، آدمی اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے لوگوں کی حفاظت کر)
لا یغلِبنّ صلیبھم
ومحالھم ابدا محالک
(ان کی صلیب اور ان کی قوت تیری قوت پر ہرگز غالب نہ ہونے پائے)
ان کنت تارکھم وقبلتنا
فامر ما بدا لک
(اگر تو ہمارے قبلہ کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتا ہے تو کر جو تیری مرضی!)
کیا اس غیرت و حمیت کے شخص کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔
بہرحال یہ رائے ہمارے نزدیک بالکل بے بنیاد ہے کہ قریش میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ چڑیوں نے سنگ باری کر کے ابرہہ کی فوجوں کو پامال کیا۔ ’تَرْمِیْ‘ کے فاعل، ہمارے نزدیک قریش ہیں جو ’اَلَمْ تَرَ‘ کے مخاطب ہیں۔ فعل ’تَرْمِیْ‘ چڑیوں کے لیے کسی طرح موزوں ہے بھی نہیں۔ چڑیاں اپنی چونچوں اور چنگلوں سے سنگ ریزے گرا تو سکتی ہیں لیکن اس کو ’رمی‘ نہیں کہہ سکتے۔ ’رمی‘ صرف اسی صورت میں ہو گی جب پھینکنے میں بازو یا فلاخن کا زور استعمال ہو یا ہوا کے تند و تیز تھپیڑے اس کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ جو لوگ چڑیوں کی رمی کے قائل ہوئے ہیں انھیں بھی لفظ ’رمی‘ کھٹکا ہے۔ انھوں نے تکلف کر کے اس کی شکل یہ بیان کی ہے کہ چڑیاں مٹر کے دانوں کے برابر سنگ ریزے گراتی تھیں جو ہاتھیوں کے سواروں کے جسموں میں سے گزر کر ہاتھیوں کے جسموں میں گھس جاتے تھے۔ اس طرح انھوں نے چڑیوں کی چونچوں سے گرے ہوئے سنگ ریزوں کا مؤثر ہونا تو دکھا دیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ اس صورت کو ’رمی‘ سے تعبیر کرنا کسی طرح موزوں نہیں ہے۔
’سجّیل‘: ’بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْل‘۔ لفظ ’سِجِّیْلٌ‘ کی تحقیق اس کے محل میں ہو چکی ہے۔۱ یہ فارسی کے سنگ گل سے معرب ہے۔ اس کا ترجمہ اگر کنکر کیجیے تو میرے نزدیک یہ صحیح ہو گا۔ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ عربوں کی یہ مدافعت ایک کمزور مدافعت تھی۔ اصل مقابلہ تو اس صورت میں ہوتا جب کھلے میدان میں صف بندی کر کے تلواروں، نیزوں اور تیروں سے دوبدو جنگ ہوتی۔ اگر حریف کے پاس ہاتھی تھے تو ان کے پاس بھی کم از کم گھوڑے ہوتے لیکن اس طرح کی جنگ کا، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، امکان نہیں تھا اس وجہ سے قریش نے آخری چارۂ کار کے طور پر یہ راہ اختیار کی کہ جہاں داؤ لگ گیا پہاڑوں سے پتھراؤ کر کے دشمن کی راہ روکنے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ یہ مدافعت ایک کمزور مدافعت تھی اور اس کی اس کمزوری ہی کو واضح کرنے کے لیے قرآن نے ’بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْل‘ کے الفاظ سے اس کی نوعیت واضح کر دی۔
_____
۱ ملاحظہ ہو تدبرقرآن۔ جلد سوم، صفحہ: ۴۰۷۔
(اِس طرح کہ) تو پکی ہوئی مٹی کے پتھر اُنھیں مار رہا تھا۔
اصل میں لفظ ’سِجِّیْل‘ ہے۔ یہ فارسی کے لفظ سنگ گل کا معرب ہے۔ اِس سے مراد وہ پتھر ہیں جو مٹی کے گارے سے بنے ہوں اورپک کر سخت ہو گئے ہوں۔
اصل میں ’تَرْمِیْھِمْ‘ ہے۔ یہ اِس سے پچھلی آیت میں ’عَلَیْھِمْ‘ کی ضمیر مجرور سے حال واقع ہوا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پتھر پرندوں نے پھینکے، مگر حقیقت یہ ہے کہ پرندوں کے پتھر پھینکنے کے لیے یہ لفظ کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ ہوا کے تند و تیز تھپیڑوں کے ساتھ ابرہہ کے لشکر پر آسمان سے جو سنگ باری ہوئی، اُس کے لیے، البتہ یہ لفظ نہایت صحیح استعمال ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...چڑیاں اپنی چونچوں اور چنگلوں سے سنگ ریزے گرا تو سکتی ہیں، لیکن اُس کو ’رَمْی‘ نہیں کہہ سکتے۔ ’رَمْی‘ صرف اُسی صورت میں ہو گی، جب پھینکنے میں بازو یا فلاخن کا زور استعمال ہو یا ہوا کے تند و تیز تھپیڑے اُس کے ساتھ ہوں۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۵۶۴)
بعض اہل علم اِس کی توجیہ فعل کو نتیجۂ فعل کے معنی میں لے کر کرنا چاہتے ہیں، لیکن عربیت کے اداشناس جانتے ہیں کہ نتیجہ آگے بیان ہو گیا ہے اور یہاں موقع کلام تحقیر کا ہے، ’حِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ‘ کے الفاظ اِسی تحقیر پر دلالت کے لیے آئے ہیں، اِس لیے فعل نتیجۂ فعل کے لیے نہیں ہو سکتا۔
جو اُن پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے۔
اصل الفاظ ہیں بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ ، یعنی سجیل کی قسم کے پتھر۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ لفظ دراصل فارسی کے الفاظ سنگ اور گل کا معرب ہے اور اس سے مراد وہ پتھر ہے جو مٹی کے گارے سے بنا ہو اور پک کر سخت ہوگیا ہو۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ سورة ہود آیت 82 اور سورة حجر آیت 74 میں کہا گیا ہے کہ قوم لوط پر سجیل کی قسم کے پتھر برسائے گئے تھے، اور انہی پتھروں کے متعلق سورة ذاریات آیت 33 میں فرمایا گیا ہے کہ وہ حجارۃ من طین، یعنی مٹی کے گارے سے بنے ہوئے پتھر تھے۔
مولانا حمید الدین فراھی مرحوم، جنہوں نے عہد حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے، اس آیت میں ترمیہم کا فاعل اہل مکہ اور دوسرے اہل عرب کو قرار دیتے ہیں جو الم تر کے مخاطب ہیں، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریز نہیں پھینک رہے تھے، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں۔ اس تاویل کے لیے جو دلائل انہوں نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد المطلب کا ابرھہ کے پاس جاکر کعبہ کے بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں ہے، اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ قریش کے لوگوں اور دوسرے عربوں نے جو حج کے لیے آئے ہوئے تھے، حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ پہاڑوں میں جا چھپے ہوں۔ اس لیے صورت واقعہ دراصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرھہ کے لشکر کو پتھر مارے، اور اللہ تعالیٰ نے پتھراؤ کرنے والی طوفانی ہوا بھیج کر اس لشکر کا بھرکس نکال دیا، پھر پرندے ان لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے۔ لیکن جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کرچکے ہیں، روایت صرف یہی نہیں ہے کہ عبدالمطلب اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنے گئے تھے، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور ابرھہ کو خانہ کعبہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرھہ کا لشکر محرم میں آیا تھا جبکہ حجاج واپس جا چکے تھے۔ اور یہ بھی ہم نے بتا دیا ہے کہ 60 ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا کام نہ تھا، وہ تو غزوہ احزاب کے موقع پر بڑی تیاریوں کے بعد مشرکین عرب اور یہودی قبائل کی جو فوج لائے تھے وہ دس بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی، پھر بھلا وہ 60 ہزار فوج کا مقابلہ کرنے کی کیسے ہمت کرسکتے تھے۔ تاہم ان ساری دلیلوں کو نظر انداز بھی کردیا جائے اور صرف سورة فیل کی ترتیب کلام کو دیکھا جائے تو یہ تاویل اس کے خلاف پڑتی ہے۔ اگر بات یہی ہوتی کہ پتھر عربوں نے مارے، اور اصحاب فیل بھس بن کر رہ گئے اور اس کے بعد پرندے ان کی لاشیں کھانے کو آئے، تو کلام کی ترتیب یوں ہوتی کہ تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ فَجَــعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ (تم ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے، پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا، اور اللہ نے ان پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیج دیے) لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے، پھر اس کے متصلا بعد تَرْمِيْهِمْ بِحِـجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ (جو ان کو پکی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے) فرمایا ہے اور آخر میں کہا کہ پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھس جیسا کردیا۔
جو ان کو مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔
سجیل مٹی کو آگ میں پکا کر اس سے بنائے ہوئے کنکر۔ ان چھوٹے چھوٹے پتھروں یا کنکروں نے توپ کے گولوں اور بندوق کی گولیوں سے زیادہ مہلک کام کیا۔
بالآخر ان کو اللہ نے کھائے ہوئے بھس کی طرح کر دیا۔
یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت بیان فرمائی ہے کہ اگرچہ تمہاری مدافعت کمزور مدافعت تھی لیکن جب تم حوصلہ کر کے مدافعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی سنت کے مطابق تمہاری مدد کے لیے اپنی شان دکھائی اور ان کو کھانے کے بھس کی طرح پامال کر دیا۔ کسی شے کا نام اس کے انجام کے اعتبار سے رکھنا عربی زبان کا ایک معروف اسلوب ہے۔ ’کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ‘ اسی نوع کی ترکیب ہے۔
یہاں یہ بات نگاہ میں رہے کہ ’رمی‘ کی نسبت تو مخاطب کی طرف کی ہے لیکن ان کو کھانے کے بھس کی طرح کر دینا اللہ تعالیٰ نے اپنی شان بتائی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابرہہ کے لشکر کو پامال کردینا تنہا عربوں کی سنگ باری کے بس کی بات نہ تھی اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی شان دکھائی اور یہ شان ان کی سنگ باری کے پردے میں دکھائی۔ ہم پیچھے بعض عینی شاہدوں کا یہ بیان نقل کر آئے ہیں کہ ابرہہ کی فوجوں پر حاصب بھی چلی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حاصب اسی وقت چلی ہے جب عربوں نے وادئ محسر کے کنکروں سے ان پر پتھراؤ کیا۔ یاد ہو گا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر بھی ہوا نے مسلمانوں کی مدد کی تھی اسی طرح کی مدد اس موقع پر بھی نمودار ہوئی۔ ہم پیچھے یہ اشارہ کر آئے ہیں کہ ابرہہ کی فوجوں کے مقابل میں قریش نے اس سے ملتی جلتی تدبیر اختیار کی جو مسلمانوں نے احزاب کے مقابل میں اختیار کی۔
ایک سوال اور اس کا جواب: اب صرف ایک سوال قابل غور رہ جاتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر واقعہ یہ ہے کہ ابرہہ کی فوجوں کی پامالی چڑیوں کی سنگ باری سے نہیں بلکہ عربوں کی سنگ باری اور حاصب کے ذریعہ سے ہوئی، چڑیاں صرف لاشوں کو کھانے آئی تھیں، تو ترتیب کلام یوں ہونی چاہیے تھی کہ ’تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ‘ یہ سوال جن لوگوں کے ذہن میں ہوا ہے ہمارے نزدیک وہ عربیت کے ایک خاص اسلوب بلاغت سے نا آشنا ہیں۔ وہ یہ کہ بعض مرتبہ کسی نتیجۂ خیر یا شر کی مبادرت ظاہر کرنے کے لیے اس کو فعل کی پوری تفصیل سے پہلے ہی ظاہر کر دیتے ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت کی مبادرت ظاہر کرنے کے لیے قرآن نے یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا ہے اور ہم اس کی وضاحت کرتے آ رہے ہیں۔ یہاں سورۂ نوح سے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں:
قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّھُمْ عَصَوْنِیْ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْہُ مَالُہٗ وَوَلَدُہٗ اِلَّا خَسَارًا وَمَکَرُوْا مَکْرًا کُبَّارًا وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًَا وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا مِمَّا خَطِیْٓئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا.(نوح ۷۱: ۲۱-۲۷)
’’نوح نے فریاد کی، اے میرے رب! انھوں نے میری نافرمانی کر دی اور ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے خسارے ہی میں اضافہ کیا اور انھوں نے بڑی بڑی چالیں چلیں اور اپنی قوم کو ورغلایا کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑیو اور نہ چھوڑیو وَدّ کو اور نہ سُوَاع کو اور نہ یغوث، یعوق اور نسر کو (اور اے میرے رب) انھوں نے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر رکھا ہے اور تو ان ظالموں کی گمراہی ہی میں اب اضافہ کر، پس وہ اپنے گناہوں کی پاداش میں پانی میں غرق اور آگ میں داخل کیے گئے اور اللہ کے مقابل میں وہ اپنے لیے کوئی مددگار نہ پا سکے اور نوح نے کہا، اے میرے رب! تو ان کافروں میں سے زمین پر ایک متنفس بھی نہ چھوڑ۔ اگر تو ان کو چھوڑے رکھے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور صرف نابکاروں اور ناشکروں ہی کو جنم دیں گے۔‘‘
ان آیات پر تدبر کی نظر ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے پہلے ہی فقرے کے بعد ان کی قوم کا انجام رکھ دیا گیا ہے اور ان کی باقی دعا مؤخر کر دی گئی ہے حالانکہ انجام بہرحال پوری دعا کے بعد ہی سامنے آیا ہو گا۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ قبولیت دعا کی مبادرت ظاہر کرنے کے لیے ترتیب کلام میں تقدیم یا تاخیر کر دی گئی! بالکل اسی طرح اس سورہ میں، ابرہہ کی فوجوں کا انجام ظاہر کرنے کے لیے ان پر چڑیوں کے بھیجے جانے کا ذکر پہلے کیا اور ان کے پامال ہونے کا ذکر اس کے بعد کیا۔ سورہ کا مزاج چونکہ قریش پر امتنان و احسان کا تھا اس وجہ سے بلاغت کا تقاضا یہی تھا کہ دشمن کی بدانجامی کی تصویر پہلے سامنے آئے۔
استاذ امام حمید الدین فراہی علیہ الرحمۃ نے اس سورہ کی تفسیر نہایت مفصل لکھی ہے۔ میں نے بقصد اختصار ان کی کتاب کی بعض باتیں اس میں نہیں لی ہیں حالانکہ وہ تفسیر کے پہلو سے نہایت اہمیت رکھنے والی ہیں۔ مولانا نے حج کے سلسلہ میں ’رمی جمرات‘ کی سنت کو اسی ’رمی‘ کی یادگار قرار دیا ہے اور بعض دوسری تحقیقات بھی نہایت اہم بیان فرمائی ہیں۔ اس کتاب کے قارئین کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ مولانا کی تفسیر بھی ضرور پڑھیں۔ اس سے ان کے زاویۂ نگاہ میں وسعت بھی پیدا ہو گی اور وہ فرق بھی سامنے آئے گا جو ان کے اور میرے نقطۂ نظر میں، بہت باریک سا، ہے۔
اور اُس نے اُنھیں کھانے کے بھوسے کی طرح کر دیا۔
اصل میں ’کَعَصْفٍ مَّاْ کُوْلٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ کسی چیز کا نام اُس کے انجام کے لحاظ سے رکھنا عربی زبان کا ایک معروف اسلوب ہے۔ یہ اِسی نوعیت کی ترکیب ہے۔ مدعا یہ ہے کہ کھلے میدان میں مقابلے کی ہمت نہ پا کر تم پہاڑوں میں چھپے ہوئے اُنھیں کنکر پتھر مار رہے تھے۔ تمھاری یہ مدافعت ایک کمزور مدافعت تھی اور جو لشکر جرار حملہ آور ہوا تھا، اُس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی۔مگر تم نے حوصلہ کیا اور جو کچھ کر سکتے تھے کر ڈالا تو اللہ نے اپنی سنت کے مطابق تمھاری مدد کی۔ چنانچہ اُس کی فوجیں ساف و حاصب کا طوفان بن کر نمودار ہوئیں اور ایسی شان دکھائی کہ اِسی کمزور مدافعت کو لشکروں کی مدافعت میں تبدیل کر دیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جانوروں کے کھانے کے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گئے۔
پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا۔
اصل الفاظ ہیں كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ ، عصف کا لفظ سورة رحمان آیت 12 میں آیا ہے۔ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ ” اور غلہ بھوسے اور دانے والا “۔ اس سے معلوم ہوا کہ عصف کے معنی اس چھلکے کے ہیں جو غلے کے دانوں پر ہوتا ہے اور جسے کسان دانے نکال کر پھینک دیتے ہیں، پھر جانور اسے کھاتے بھی ہیں، اور کچھ ان کے چبانے کے دوران میں گرتا بھی جاتا ہے، اور کچھ ان کے پاؤں تلے روندا بھی جاتا ہے۔
پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔
یعنی ان کے اجزائے جسم اس طرح بکھر گئے جیسے کھائی ہوئی بھوسی ہوتی ہے۔
امین احسن اصلاحی
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے خداوند نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا!
خطاب کی نوعیت: ’اَلَمْ تَرَ‘ کے خطاب کی نوعیت ہم جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں کہ اگرچہ یہ لفظاً واحد ہے لیکن اس کا استعمال بیشتر جمع کو مخاطب کرنے کے لیے ہوتا ہے اور یہ طرز خطاب گویا مخاطب گروہ کے ایک ایک فرد کو فرداً فرداً متوجہ کرتا ہے۔ یہاں مخاطب قریش ہیں۔ ان کو مخاطب کر کے توجہ دلائی ہے کہ اصحاب فیل کے ساتھ تمہارے رب نے جو معاملہ کیا، کیا وہ تم نے نہیں دیکھا؟ یہ امر ملحوظ رہے کہ اصحاب الفیل کے واقعہ پر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت عام الفیل ہی کے دوران میں ہوئی ہے اس وجہ سے اس سورہ کے نزول کے وقت بہت سے ایسے لوگ رہے ہوں گے جنھوں نے اس واقعہ کا بچشم خود مشاہدہ کیا ہو گا اور اگر مشاہدہ نہیں کیا ہو گا تو اس تواتر کے ساتھ سنا ہو گا کہ وہ مشاہدہ ہی کے حکم میں ہے۔ اس وجہ سے ’اَلَمْ تَرَ‘ کا خطاب یہاں بالکل اپنے موزوں محل میں ہے۔
اصحاب الفیل کون تھے؟ قرآن نے یہاں ان ہاتھی والوں کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی ہے کہ وہ کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور ان کے آنے کا مقصد کیا تھا؟ اجمال کے ساتھ صرف ان کے انجام کی طرف اشارہ کر کے بات ختم کر دی ہے۔ اس اجمال کی وجہ یہ ہے کہ مخاطب گروہ کو ان کا سارا واقعہ معلوم تھا۔ ’اصحاب الفیل‘ کے الفاظ سے ان کا تعارف ہی یہ سمجھ جانے کے لیے کافی تھا کہ یہ اشارہ یمن کے حبشی حکمران، ابرہہ کی طرف ہے جس کے حملہ آور لشکر کے ساتھ کوہ پیکر ہاتھی بھی تھے۔ ہاتھیوں والے لشکر کا تجربہ عربوں کو پہلی بار اسی جنگ میں ہوا اس وجہ سے اسی نام سے انھوں نے اس حملہ کو یاد رکھا جس سے اس کی سنگینی کا اظہار ہوتا ہے۔
ہاتھی ایک ہی تھا یا اس سے زیادہ تھے قرآن کے الفاظ سے دونوں ہی مفہوم نکل سکتے ہیں لیکن چونکہ ’صاحب الفیل‘ نہیں بلکہ ’اصحاب الفیل‘ کہا گیا ہے اس وجہ سے متبادر یہی ہوتا ہے کہ ہاتھی ایک سے زیادہ تھے اور روایات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھیوں کا ایک پورا دستہ فوج کے ساتھ تھا جس سے اس کی قوت اور ہیبت میں بڑا اضافہ ہو گیا تھا۔
ابرہہ اور اس کا کردار: ابرہہ کو اگرچہ بعض مورخین نے ایک بردبار حکمران لکھا ہے لیکن اس کے حالات زندگی سے اس حسن ظن کی تائید نہیں ہوتی بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک موقع پرست، غدار اور نہایت متعصب عیسائی تھا۔ اس نے خود حبش کے بادشاہ کے ساتھ غداری کی جس کی فوجوں کے ذریعہ سے اس نے یمن پر قبضہ کیا تھا، اس کی تفصیل تاریخوں میں موجود ہے، لیکن یہاں اس سے تعرض کا موقع نہیں ہے۔ یمن پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے نہ صرف اس کے یہودی بادشاہ کو قتل کیا بلکہ وہاں سے یہود اور یہودیت کا بیخ و بُن سے خاتمہ کر دیا۔
ابرہہ کی چال اور اس کی ناکامی: عیسائیت کے تعصب کے جنون میں اس نے یہ اسکیم بنائی کہ عربوں کو عیسائی بنا لے۔ اس اسکیم کو بروئے کار لانے کے لیے اس نے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک عظیم الشان گرجا بنوایا اور حبش کے نجاشی کو، جس کے نائب السلطنت کی حیثیت سے وہ یمن پر حکومت کر رہا تھا، اس نے لکھا کہ میں نے ایک ایسا گرجا تعمیر کرایا ہے جس کی نظیر چشم فلک نے نہیں دیکھی ہو گی۔ میں چاہتا ہوں کہ عربوں کے حج کا رخ بھی اسی کی طرف موڑ دوں اور ان کے مکہ کے معبد کو ڈھا دوں۔ اس کے بعد اس نے کعبہ پر حملہ کا جواز پیدا کرنے کے لیے مشہور کیا کہ اس کے تعمیر کردہ گرجا کو کسی عرب نے بقصد توہین ناپاک کیا ہے۔ یہ واقعہ اول تو بالکل جھوٹ معلوم ہوتا ہے، عرب ہمیشہ تلوار کے دھنی رہے ہیں، بہادر قوموں کے افراد اس طرح کی پست حرکتیں نہیں کیا کرتے، لیکن بالفرض صحیح بھی ہو تو کسی ایک شخص کا انفرادی فعل اس بات کو جائز ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس کا انتقام پوری قوم سے لیا جائے، یہاں تک کہ اس جرم کی پاداش میں ان کے دینی معبد کو ڈھا دینے کی جسارت کی جائے لیکن عیسائیوں کے جذبات بھڑکانے اور نجاشی کی تائید حاصل کرنے کے لیے اس جھوٹ کو خوب شہرت دی گئی یہاں تک کہ ساٹھ ہزار کا لشکر جرار، جس کے ساتھ نو دس ہاتھی بھی تھے، جمع کر کے مکہ پر حملہ کر دیا گیا۔