بہت بزرگ، بہت فیض رساں ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اتارا ہے، اِس لیے کہ وہ اہل عالم کے لیے خبردار کرنے والا ہو۔
یعنی ایک ایسی کتاب جو حق وباطل میں امتیاز کے لیے ایک کسوٹی، ایک معیار فیصلہ اور حجت قاطع ہے۔ دوسری جگہ یہی حقیقت لفظ ’میزان‘ سے واضح فرمائی ہے، یعنی ایک ترازو تاکہ ہر شخص اُس پر تول کر دیکھ سکے کہ کیا چیز حق اور کیا باطل ہے۔ چنانچہ اپنے دعاوی اور اپنے پیش کرنے والے کی صداقت کوثابت کرنے کے لیے بھی یہ کسی خارجی دلیل کی محتاج نہیں ہے، بلکہ بجاے خود دلیل وحجت ہے۔ قرآن کی یہی حیثیت ہے جس کی بنا پر ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں لکھا ہے کہ خدا کی اِس کتاب کے بارے میں یہ دو باتیں بطور اصول ماننی چاہییں:
’’پہلی یہ کہ قرآن کے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے، اِس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اِس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اِس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔ ایمان وعقیدہ کی ہر بحث اِس سے شروع ہو گی اور اِسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر راے کو اِس کے تابع قرار دیا جائے گا اور اِس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ بوحنیفہ وشافعی، بخاری ومسلم، اشعری وماتریدی اور جنید وشبلی، سب پر اِس کی حکومت قائم ہے اور اِس کے خلاف اِن میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جا سکتی۔
دوسری یہ کہ اِس کے الفاظ کی دلالت اِس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے۔ یہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے، پوری قطعیت کے ساتھ کہتا ہے اور کسی معاملے میں بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے ہرگز قاصر نہیں رہتا۔ اِس کا مفہوم وہی ہے جو اِس کے الفاظ قبول کر لیتے ہیں، وہ نہ اُس سے مختلف ہے نہ متبائن۔ اِس کے شہرستان معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اِس کے الفاظ ہیں۔ وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں، اُس میں کسی ریب وگمان کے لیے ہرگز کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔‘‘(۲۵)
یعنی صرف ام القریٰ مکہ اور اُس کے گرد وپیش کے لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ پورے عالم کے لیے۔ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۹ میں مزید وضاحت فرمائی ہے کہ قرآن کی دعوت آنے والے تمام زمانوں کے لیے بھی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ م بَلَغَ‘ (یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے سے میں تمھیں انذار کروں اور اُن کو بھی جنھیں یہ پہنچے)۔قرآن کی یہ حیثیت لازماً تقاضا کرتی ہے کہ بعد میں آنے والوں کے لیے بھی یہ اپنے ثبوت اور دلالت کے لحاظ سے اُسی طرح قطعی رہے، جس طرح اپنے اولین مخاطبین کے لیے تھا۔ خدا کی عنایت ہے کہ ایسا ہی ہے اور اُس کی یہ کتاب اِسی قطعیت کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آیت میں ’عَلٰی عَبْدِہٖ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ التفات خاص کا اسلوب ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس التفات کا یہاں ایک خاص محل ہے۔ آگے کفار کے وہ اعتراضات نقل ہوئے ہیں جو وہ نہایت تحقیر آمیز انداز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ یہ اعتراضات زیادہ تر مکہ اور طائف کے دولت مندوں کے اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ اپنی مالی برتری کے گھمنڈ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی اسباب و وسائل سے بے تعلقی پر چوٹیں کرتے اور اِس چیز کو آپ کی رسالت کی تردید کی ایک بہت بڑی دلیل کی حیثیت سے پیش کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں مستکبرین کی اِسی ذہنیت کو سامنے رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندۂ خاص پر ’فرقان‘ کی شکل میں جو نعمت عظمیٰ اتاری ہے، اُس کے بعد وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ خلق کے انذار کے وہ جس مشن پر مامور ہے، اُس کی تکمیل کے لیے وہ جس زاد وراحلہ کا محتاج ہے، وہ سب بدرجۂ کمال اُس کے پاس موجود ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۵/ ۴۴۳)
نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو ۔۔۔۔
اصل میں لفظ تَبَارَکَ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو درکنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے۔ اس کا مادہ ب ر ک ہے جس سے دو مصدر بَرَکَۃ اور بُرُوک نکلے ہیں۔ بَرَکۃ میں افزونی، فراوانی، کثرت اور زیادتی کا تصور ہے اور بُرُوک میں ثبات، بقاء اور لزوم کا تصور۔ پھر جب اس مصدر سے تَبَارَکَ کا صیغہ بنایا جاتا ہے تو باب تفاعُل کی خصوصیت، مبالغہ اور اظہار کمال، اس میں اور شامل ہوجاتی ہے اور اس کا مفہوم انتہائی فراوانی، بڑھتی اور چڑھتی افزونی، اور کمال درجے کی پائیداری ہوجاتا ہے۔ یہ لفظ مختلف مواقع پر مختلف حیثیتوں سے کسی چیز کی فراوانی کے لیے، یا اس کے ثبات و دوام کی کیفیت بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً کبھی اس سے مراد بلندی میں بہت بڑھ جانا ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں تبارکت النخلۃ یعنی فلاں کھجور کا درخت بہت اونچا ہوگیا۔ اِصْمَعِی کہتا ہے کہ ایک بدو ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا تَبَارَکْتُ عَلَیْکُمْ ۔ ” میں تم سے اونچا ہوگیا ہوں “۔ کبھی اسے عظمت اور بزرگی میں بڑھ جانے کے لیے بولتے ہیں۔ کبھی اس کو فیض رسانی اور خیر اور بھلائی میں بڑھے ہوئے ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی اس سے پاکیزگی و تقدس کا کمال مراد ہوتا ہے۔ اور یہی کیفیت اس کے معنی ثبوت و لزوم کی بھی ہے۔ موقع و محل اور سیاق وسباق بتادیتا ہے کہ کس جگہ اس لفظ کا استعمال کس غرض کے لیے کیا گیا ہے۔ یہاں جو مضمون آگے چل کر بیان ہو رہا ہے اس کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کے لیے تَبَارَکَ ایک معنی میں نہیں، بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے :
1: بڑا محسن اور نہایت با خیر، اس لیے کہ اس نے اپنے بندے کو فرقان کی عظیم الشان نعمت سے نواز کر دنیا بھر کو خبردار کرنے کا انتظام فرمایا۔
2 : نہایت بزرگ و با عظمت، اس لیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے۔
3 : نہایت مقدس و منزَّہ، اس لیے کہ اس کی ذات ہر شائبۂ شرک سے پاک ہے۔ نہ اس کا کوئی ہم جنس کہ ذات خداوندی میں اس کا نظیر و مثیل ہو، اور نہ اس کے لیے فنا و تغیر کہ اسے جا نشینی کے لیے بیٹے کی حاجت ہو۔
4 : نہایت بلندو برتر، اس لیے کہ بادشاہی ساری کی ساری اسی کی ہے اور کسی دوسرے کا یہ مرتبہ نہیں کہ اس کے اختیارات میں اس کا شریک ہو سکے۔
5 : کمال قدرت کے اعتبار سے برتر، اس لیے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور ہر شے کی تقدیر مقرر کرنے والا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، المومنون، حاشیہ 14 ۔ الفرقان، حاشیہ 19) ۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :2
یعنی قرآن مجید۔ فرقان مصدر ہے مادہ ف ر ق سے، جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ کرنا، یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا۔ قرآن مجید کے لیے اس لفظ کا استعمال یا تو فارِق کے معنی میں ہوا ہے، یا مفروق کے معنی میں یا پھر اس سے مقصود مبالغہ ہے، یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے کہ گویا وہ خود ہی فرق ہے۔ اگر اسے پہلے اور تیسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا صحیح ترجمہ کسوٹی، اور فیصلہ کن چیز، اور معیار فیصلہ ( Criterion) کے ہوں گے۔ اور اگر دوسرے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب الگ الگ اجزاء پر مشتمل، اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر، مشتمل، چیز کے ہوں گے، قرآن مجید کو ان دونوں ہی اعتبارات سے ” الفرقان ” کہا گیا ہے۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :3
اصل میں لفظ نَزَّلَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں بتدریج، تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا۔ اس تمہیدی مضمون کی مناسبت آگے چل کر آیت 32 (رکوع 3) کے مطالعہ سے معلوم ہوگی جہاں کفار مکہ کے اس اعتراض پر گفتگو کی گئی ہے کہ ” یہ قرآن پورا کا پورا ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ” ؟
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :4
یعنی خبردار کرنے والا، متنبہ کرنے والا، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والا۔ اس سے مراد فرقان بھی ہوسکتا ہے، اور وہ ” بندہ ” بھی جس پر فرقان نازل کیا گیا۔ الفاظ ایسے جامع ہیں کہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں، اور حقیقت کے اعتبار سے چونکہ دونوں ایک ہیں، اور ایک ہی کام کے لیے بھیجے گئے ہیں، اس لیے کہنا چاہیے کہ دونوں ہی مراد ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا کہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو، تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی دعوت اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے ہے، اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں، آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ مثلاً فرمایا : یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ، ” اے انسانو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ” (الاعراف، آیت 158) ۔ وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہ وَمَنْ بَلَغَ ، ” میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے ” (الانعام آیت 19) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْراً ، ” ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ” (سبا آیت 28) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ الَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ، ” اور ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ” (الانبیاء، آیت 107) اور اسی مضمون کو خوب کھول کھول کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احادیث میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ بعثت الی الاحمر و الاسود، ” میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں “۔ اور کان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ، ” پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ” (بخاری و مسلم) اور و ارسلت الی الخلق کافۃ و خُتِم بی النبیون، ” میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کردیے گئے میری آمد پر انبیاء ” (مسلم) ۔
بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والا بن جائے۔
فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کردی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعاً ) 7 ۔ الاعراف :158) (صحیح مسلم) ' پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ' رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔
وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جس نے اپنے لیے کوئی اولاد نہیں بنائی اور اس کی بادشاہی میں کوئی اس کا ساجھی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کا ایک خاص اندازہ ٹھہرایا۔
قرآن کسی سائل کی درخواست نہیں بلکہ خالق کائنات کا فرمان واجب الاذعان ہے: اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی فیض بخشی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اب یہ اپنی توحید اور کبریائی و یکتائی کا حوالہ دیا ہے جس سے مقصود حقیقت کی یاددہانی ہے کہ جس نے خلق کے انذار و تذکیر کے لیے یہ کتاب اتاری ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے؛ اس وجہ سے کوئی اس کتاب کو کسی سائل کی درخواست نہ سمجھے بلکہ یہ اس کائنات کے بادشاہ حقیقی کا فرمان واجب الاذعان ہے۔ اگر اس کی تکذیب کی گئی تو جس نے اس کو اتارا ہے وہ اس کی تکذیب کا انتقام لینے کے لیے کوئی کمزور ہستی نہیں ہے۔ وہ اس کا انتقام لے گا اور جب انتقام لے تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ بن سکے گا۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ: ’وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ‘۔ یعنی اگر کسی نے اس کے بیٹے بیٹیاں فرض کر کے ان کی عبادت شروع کر رکھی ہے اور اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ اس کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے تو وہ اس خیال خام کو دل سے نکال دے۔ نہ خدا کے کوئی بیٹی ہے نہ بیٹا، نہ اس کی بادشاہی میں کوئی اور ساجھی ہے۔ وہ اپنی بادشاہی کا یکہ و تنہا مالک ہے، وہ کسی مددگار و شریک کا محتاج نہیں ہے۔
خدا کی یکتائی کی دلیل: ’وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّّرَہٗ تَقْدِیْرًا‘۔ یہ اس کی توحید و یکتائی کی دلیل بیان ہوئی ہے کہ اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کے ٹھہرائے ہوئے اندازہ سے سرمو کم و بیش یا آگے پیچھے ہو سکے۔ انسان کو پیدا کیا تو اس کے لیے زندگی اور موت کی ایک حد معین کر دی، کوئی اس حد سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ابر و ہوا سب اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے پابند ہیں۔ سورج اور چاند، جن کو نادانوں نے معبود بنا کر پوجا، ایک مخصوص محور و مدار کے ساتھ لگے بندھے ہوئے اور اپنے وجود سے شہاد ت دے رہے ہیں کہ وہ ایک خدائے عزیز و حکیم کے پیدا کیے ہوئے اور اسی کے مقرر کیے ہوئے حدود و قیود کے پابند ہیں۔ اسی حقیقت کی طرف دوسرے مقام میں یوں توجہ دلائی ہے:
وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّھَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (یٰسٓ: ۳۸)
’’اور سورج اپنے ایک معین مدار پر گردش کرتا ہے۔ یہ خدائے عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے!‘‘
اس سے زیادہ وسیع الفاظ میں یہی بات یوں فرمائی گئی ہے:
وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (الحجر:۲۱)
’’اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں لیکن ہم ان کو ایک خاص اندازے ہی کے ساتھ اتارتے ہیں۔‘‘
وہی جس کے لیے زمین اور آسمانوں کی بادشاہی ہے،اُس نے اپنی کوئی اولاد نہیں بنائی ہے، اُس کی بادشاہی میں کوئی اُس کا شریک نہیں ہے، اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اُس کا ایک خاص اندازہ ٹھیرایا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ کوئی اِس کتاب کو سائل کی درخواست نہ سمجھے۔ یہ اِس کائنات کے بادشاہ حقیقی کا فرمان واجب الاذعان ہے۔ اِسے جھٹلایا گیا تو اُس کی گرفت سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔
خدا کے لیے جن لوگوں نے بیٹے اور بیٹیاں فرض کر رکھی ہیں، اُن کے بارے میں وہ لازماً اِس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اُنھیں وہ خدا کی پکڑ سے بچا لیں گی۔ قرآن نے یہ اِسی زعم باطل کی نفی کی ہے۔
یہ خدا کی توحید اور یکتائی کی دلیل بیان ہوئی ہے کہ جب وہ ہر چیز کا خالق ہے اور اُسی نے ہر چیز کے لیے صورت، جسامت، قوت واستعداد، اوصاف وخصائص، عروج و ارتقا اور بقا وزوال کے حدود و قیود متعین کیے ہیں تو کوئی دوسرا اُس کی خدائی میں کہاں سے شریک ہو گا؟ کیا کسی شخص کے لیے ممکن ہے کہ اُس کی بنائی ہوئی کسی چیز کو اُس کے ٹھیرائے ہوئے اندازے سے سرمو کم وبیش یا آگے پیچھے کر سکے؟
وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے 5 جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔
دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے “، یعنی وہی اس کا حق دار ہے اور اسی کے لیے وہ مخصوص ہے کسی دوسرے کو نہ اس کا حق پہنچتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا اسمیں کوئی حصہ ہے۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :6
یعنی نہ تو کسی سے اس کا کوئی نسبی تعلق ہے، اور نہ کسی کو اس نے اپنا متبنیٰ بنایا ہے۔ کوئی ہستی کائنات میں ایسی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نسلی تعلق یا تبنیت کے تعلق کی بنا پر اس کو معبودیت کا استحقاق پہنچتا ہو۔ اس کی ذات یکتائے محض ہے، کوئی اس کا ہم جنس نہیں، اور کوئی خدائی خاندان نہیں ہے کہ معاذ اللہ، ایک خدا سے کوئی نسل چلی ہو اور بہت سے خدا پیدا ہوتے چلے گئے ہوں۔ اس لیے وہ تمام مشرکین سراسر جاہل و گمراہ ہیں جنہوں نے فرشتوں، یا جنوں، یا بعض انسانوں کو خدا کی اولاد سمجھا اور اس بنا پر انہیں دیوتا اور معبود قرار دے لیا۔ اسی طرح وہ لوگ بھی نری جہالت و گمراہی میں مبتلا ہیں جنہوں نے نسلی تعلق کی بنا پر نہ سہی، کسی خصوصیت کی بنا پر ہی سہی، اپنی جگہ یہ سمجھ لیا کہ خداوند عالم نے کسی شخص کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے۔ ” بیٹا بنا لینے ” کے اس تصور کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے یہ سخت غیر معقول نظر آتا ہے کجا کہ یہ ایک امر واقعہ ہو۔ جن لوگوں نے یہ تصور ایجاد یا اختیار کیا ان کے گھٹیا ذہن ذات الہٰی کی برتری کا تصور کرنے سے عاجز تھے۔ انہوں نے اس ذات بےہمتا و بےنیاز کو انسانوں پر قیاس کیا جو یا تو تنہائی سے گھبرا کر کسی دوسرے کے بچے کو گود لے لیتے ہیں، یا جذبات محبت کے وفور سے کسی کو بیٹا بنا لیتے ہیں، یا متبنّیٰ بنانے کی اس لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی تو ان کا وارث اور ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والا ہو۔ یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر انسانی ذہن میں تَبْنِیت کا خیال پیدا ہوتا ہے، اور ان میں سے جس وجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے، سخت جہالت اور گستاخی اور کم عقلی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم۔ یونس، حواشی 66 تا 68 ) ۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :7
اصل میں لفظ ملک استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں بادشاہی، اقتدار اعلیٰ ، اور حاکمیت (Sovereignty) کے لیے بولا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرمانروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس لیے کہ انسان جس کو بھی معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے۔ بےزور اور بےاثر ہستیوں کو ملجا و ماویٰ بنانے کے لیے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتا۔ اب اگر یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ جل شانہ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے، تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجز و نیاز کے لیے جھکے گی، نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لیے بڑھے گا، نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گائے گی یا دعا والتجا کے لیے کھلے گی، اور نہ دنیا کے کسی نادان سے نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہو سکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی طاعت و بندگی بجا لائے، یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے۔ اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ ” آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لیے ہے “۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :8
دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ہر چیز کو ایک اندازۂ خاص پر رکھا “، ” یا ہر چیز کے لیے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر کیا “۔ لیکن خواہ کوئی ترجمہ بھی کیا جائے، بہرحال اس سے پورا مطلب ادا نہیں ہوتا۔ پورا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت، قوت و استعداد، اوصاف و خصائص، کام اور کام کا طریق، بقاء کی مدت، عروج و ارتقاء کی حد، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے۔
اس ایک آیت میں توحید کی پوری تعلیم سمیٹ دی گئی ہے۔ قرآن مجید کی جامع آیات میں سے یہ ایک عظیم الشان آیت ہے جس کے چند الفاظ میں اتنا بڑا مضمون سمو دیا گیا ہے کہ ایک پوری کتاب بھی اس کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔ حدیث میں آتا ہے کہ : کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذا افصح الغلام من بنی عبدالمطلب علمہ ھٰذہ الاٰیۃ، ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قاعدہ تھا کہ حضور کے خاندان میں جب کسی بچے کی زبان کھل جاتی تھی تو آپ یہ آیت اسے سکھاتے تھے ” (مُصَنَّفْ عبدالرزاق و مُصَنَّفِ ابن ابی شیبہ، بروایت عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے ذہن میں توحید کا پورا تصور بٹھانے کے لیے یہ آیت ایک بہترین ذریعہ ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے بچے جب ہو شیار ہونے لگیں تو آغاز ہی میں ان کے ذہن پر یہ نقش ثبت کر دے۔
اس اللہ کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور وہ کوئی اولاد نہیں رکھتا نہ اس کی سلطنت میں کوئی ساتھی ہے اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب انداز ٹھہرایا ہے۔
یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں تصرف کا مالک صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔
اس میں نصاریٰ ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد عمل جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔
٢۔ ٣ اس میں صنم پرست مشرکین اور (دو خداؤں کے خالق) کے قائلین کا رد عمل ہے۔
٢۔ ٤ ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت و مشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جو اس کے مناسب حال ہے یا ہر چیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کردی ہے۔
اور لوگوں نے اس کے سوا دوسرے معبود بنائے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، وہ خود مخلوق ہیں اور جو خود اپنے لیے بھی نہ کسی ضرر پر اختیار رکھتے ہیں نہ کسی نفع پر اور نہ ان کو موت پر کوئی اختیار ہے نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد زندہ کرنے پر۔
یہ اسی مضمون کی توضیح مزید ہے اور اس میں اظہار تعجب کا مضمون بھی مضمر ہے کہ اصل حقیقت تو یہ ہے جو بیان ہوئی لیکن قرآن اور رسول کے ان مخالفین کا حال یہ ہے کہ انھوں نے خدا کے سوا ایسی چیزوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جو نہ صرف یہ کہ کسی چیز کو پیدا کر سکنے پر قادر نہیں بلکہ وہ خود خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اور جو دوسروں کو کوئی نقصان یا نفع پہنچانا تو درکنار، خود اپنے کو بھی کسی نقصان سے بچانے یا کوئی نفع پہنچانے پر قدرت نہیں رکھتی ہیں اور جن کو نہ موت پر کوئی اختیار، نہ زندگی پر اور نہ مرنے کے بعد زندہ کرنے پر! ۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے بے بس فرضی معبودوں کے بل پر قرآن کے پیش کردہ حقائق کو جھٹلانا محض ان کی خرد باختگی ہے۔
مگر (لوگوں کا حال یہ ہے کہ) اُنھوں نے اُس کے سوا دوسرے معبود بنا لیے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے، وہ خود مخلوق ہیں اور اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ وہ نہ موت پر کوئی اختیار رکھتے ہیں نہ زندگی پر اور نہ مرے ہوؤں کو اٹھانا اُن کے اختیار میں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اِس سے بڑھ کر خرد باختگی کیا ہوگی کہ ایسے بے بس معبودوں کے سہارے پر قرآن کے پیش کردہ حقائق کو جھٹلا دیا جائے۔
لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں 9، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں۔
جامع الفاظ ہیں جو ہر قسم کے جعلی معبودوں پر حاوی ہیں۔ وہ بھی جن کو خدا نے پیدا کیا اور انسان ان کو معبود مان بیٹھا، مثلاً فرشتے، جِن، انبیاء، اولیاء، سورج، چاند، سیارے، درخت، دریا، جانور وغیرہ۔ اور وہ بھی جن کو انسان خود بناتا ہے اور خود ہی معبود بنا لیتا ہے، مثلاً پتھر اور لکڑی کے بت۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :10
حاصل کلام یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایک بندے پر فرقان اس لیے نازل کیا کہ حقیقت تو تھی وہ اور لوگ اس سے غافل ہو کر پڑگئے اس گمراہی میں، لہٰذا ایک بندہ نذیر بنا کر اٹھایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اس حماقت کے برے نتائج سے خبردار کرے، اور اس پر بتدریج یہ فرقان نازل کرنا شروع کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ حق کو باطل سے اور کھرے کو کھوٹے سے الگ کر کے دکھا دے۔
ان لوگوں نے اللہ کے سوا جنہیں اپنے معبود ٹھہرا رکھے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، یہ تو اپنی جان کے نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ موت وحیات کے اور نہ دوبارہ جی اٹھنے کے وہ مالک ہیں ۔
لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ کہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کرسکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں اس کے بعد منکرین نبوت کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔
اور کافر کہتے ہیں کہ یہ محض جھوٹ ہے جس کو اس شخص نے گھڑا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے ظلم اور جھوٹ دونوں باتوں کا ارتکاب کیا!
قرآن سے عوام کو بدگمان کرنے کے لیے قریش کے لیڈروں کا پروپیگنڈا: یہ مخالفین کے وہ اقوال نقل ہو رہے ہیں جو قرآن اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے وہ پھیلاتے تھے۔ ہم دوسرے مقام میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ جہاں تک قرآن کے زور بیان اور اس کی تاثیر و تسخیر کا تعلق ہے اس کے انکار کی تو قریش کے لیڈروں کے اندر ہمت نہیں تھی۔ اس کے اعتراف پر تو وہ مجبور تھے۔ البتہ یہ کوشش ان کی تھی کہ ان کے عوام پر قرآن کے کتاب آسمانی ہونے کا تصور جو بیٹھتا جا رہا ہے وہ بیٹھنے نہ پائے بلکہ وہ اس کو اسی درجہ میں رکھیں جس درجہ میں اعلیٰ شاعروں یا زور دار خطیبوں کا کلام رکھا جاتا ہے۔ ان کو اصلی کد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے رسالت اور قرآن کے وحی الٰہی ہونے سے تھی۔ اس کی تردید میں وہ یہ کہتے تھے کہ قرآن کے وحی الٰہی ہونے کا دعویٰ جو کیا جاتا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ یہ وحی الٰہی نہیں بلکہ (نعوذ باللہ) یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اپنے ذہن کا گھڑا ہوا کلام ہے جس کو وہ جھوٹ موٹ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر تے ہیں تاکہ اس طرح ہم پر اپنی برتری کی دھونس جمائیں۔
’وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ‘۔ اپنی بات کو مدلل کرنے کے لیے ایک اور جھوٹ اس کے ساتھ وہ یہ لگا دیتے کہ اس کتاب کی تصنیف میں کچھ دوسرے لوگوں کے ذہن بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ شریک ہیں۔ اس اضافے کی ضرورت اس وجہ سے انھوں نے محسوس کی ہو گی کہ قرآن میں پچھلے انبیاؑء کی سرگزشتوں اور ان کی تعلیمات کے حوالے بھی تھے جن کے جاننے کا آحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ان کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر یہ وحی الٰہی نہیں ہے تو آخر یہ باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح معلوم ہو گئیں اور وہ بھی ایسی تفصیل اور صحت کے ساتھ کہ پچھلے صحیفوں پر ایمان کے مدعیوں کو بھی اس کی تفصیل و صحت کے ساتھ معلوم نہیں تھیں۔ اس سوال کے جواب میں انھوں نے اس کے ساتھ اس جھوٹ کا بھی اضافہ کر دیا کہ کچھ دوسرے ہاتھ بھی اس سازش میں شریک ہیں۔ مخالفین کے اس قول میں جو ابہام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب الزام جھوٹا ہو تو اس کے لیے ابہام ہی کا اسلوب موزوں ہوتا ہے۔ اگر اس کے لیے تصریح کا اسلوب اختیار کیا جائے تو اس کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ مخالفین کا یہ اشارہ کن لوگوں کی طرف تھا؟ اس سوال کے جواب میں ہمارے مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس ابہام کا مبہم رہنا ہی ٹھیک ہے اس لیے کہ الزم لگانے والوں کا مقصد ایک الزام لگانا تھا نہ کہ فی الواقع کسی شخص یا اشخاص کا سراغ دینا۔ قریش نے اس مبہم الزام سے اپنے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہو گی کہ قرآن میں آسمانی کتابوں کے انداز کی جو باتیں اور حکمتیں ہیں ان کو وحی کا نتیجہ نہ سمجھو بلکہ بعض اہل کتاب یا دوسری قوموں کے تعلیم یافتہ اشخاص جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی بن گئے ہیں وہ ان کو اس طرح کی باتیں بتاتے ہیں اور وہ ان کو اپنے فصیح و بلیغ الفاظ میں ہمارے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کے اوپر فرشتہ وحی لایا ہے۔ اس مسئلہ پر سورۂ نحل کی آیت ۱۰۳ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔
’ظُلْم‘ اور ’زُوْر‘ کا مفہوم: ’فَقَدْ جَآءُ وْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا‘۔ ’جَآءُ وْ‘ یہاں مرتکب ہونے کے مفہوم میں ہے اور اس معنی میں اس کا استعمال معروف ہے۔ ’ظُلْم‘ سے مراد ان کا وہ شرک ہے جس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوا ہے اور ’زُوْر‘ سے اشارہ ان کے اس قول کی طرف ہے جو قرآن کے باب میں نقل ہوا ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ شرک کے ظلم عظیم کے بھی مرتکب ہوئے اور ساتھ ہی قرآن کی مخالفت میں ایک بہت بڑے جھوٹ کے بھی ۔۔۔ یہ کہہ کر بات ختم کر دی ہے۔ اس کے نتیجے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ اس ڈھٹائی کے ساتھ اتنے بڑے بڑے جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں، اندازہ کر لو کہ وہ کس انجام کے مستحق ہیں!
(اِس کے) منکرین کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) محض جھوٹ ہے جس کو اِس شخص نے گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اِس کام میں اِس کی مدد کی ہے۔ یہ کہہ کر اُنھوں نے بڑے ظلم اور جھوٹ کا ارتکاب کیا ہے۔
یعنی وحی الٰہی نہیں ہے، جس طرح کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے، بلکہ اپنے ذہن کا گھڑا ہوا کلام ہے جسے خدا کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات کسی نام کی تصریح کے ساتھ اِس لیے نہیں کی کہ الزام جھوٹا ہو تو ابہام ہی کا اسلوب موزوں ہوتا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، اگر اُس کے لیے تصریح کا اسلوب اختیار کر لیا جائے تو بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ قرآن کو (معاذ اللہ) جھوٹ قرار دے کر اُس کے ساتھ یہ بات اُنھیں اِس لیے کہنا پڑی کہ قرآن میں پچھلے انبیا علیہم السلام کی سرگذشتوں کے حوالے بھی تھے۔ اُن کے بارے میں یہ سوال ہر شخص کے ذہن میں پیدا ہو سکتا تھا کہ اگر یہ وحی الٰہی نہیں ہے تو آخر یہ سب باتیں اُنھی کے اندر کے ایک شخص کو اِس صحت اور تفصیل کے ساتھ کس طرح معلوم ہو گئی ہیں۔ اِس کے جواب میں اُنھوں نے اُن لوگوں کی طرف اشارہ کر دیا جو اہل کتاب میں سے آپ پر ایمان لے آئے تھے کہ یہ اُن کی سکھائی ہوئی ہیں۔ اپنی بات کو موکد کرنے کی یہ ایسی کوشش ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حق کی دشمنی میں یہ لوگ کیسے اندھے ہو گئے تھے اور کس قدر صریح جھوٹ اور بے انصافی پر اتر آئے تھے۔
قرآن جس عظیم علم وحکمت کا حامل اور زبان وبیان کے لحاظ سے جس پایے کا شہ پارۂ ادب ہے اور اُس میں انبیا علیہم السلام کی سرگذشتیں جس طریقے سے اور جن مضامین پر استدلال کے لیے سنائی گئی ہیں، اُن کو دیکھ کر ہر سلیم الطبع انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ جس الزام کا ذکر ہواہے، وہ کس قدر پوچ، کیسا لغو اور مہمل اور کتنا بے وزن ہے۔ چنانچہ یہی بات کافی تھی جو قرآن نے اُس کے جواب میں کہہ دی ہے۔ جو لوگ ایسی بالبداہت مہمل باتیں اِس ڈھٹائی کے ساتھ کہیں، اُن کی تردید میں اِس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
جن لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکار کردیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ بڑا ظلم 11 اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں۔
دوسرا ترجمہ ” بڑی بےانصافی کی بات ” بھی ہوسکتا ہے۔
اور کافروں نے کہا یہ تو بس خود اسی کا گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جس پر اور لوگوں نے بھی اس کی مدد کی (١) ہے، دراصل یہ کافر بڑے ہی ظلم اور سرتاسر جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مشرکین کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض دوست
(مثلاً ابو فکیہہ یسار، عداس اور جبرو غیرہ) سے مدد لی۔ جیسا کہ سورة النحل آیت ١٠٣ میں اس کی ضروری تفصیل گزر چکی ہے۔
اور کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کے فسانے ہیں جو اس نے لکھوائے ہیں تو وہ اس کو صبح اور شام لکھ کر تعلیم کیے جاتے ہیں۔
’اکْتَتَبَ فُلَان‘ کا صحیح مفہوم لغت میں یہ ہے کہ ’سأل ان یکتب لہ‘ اس نے درخواست کی کہ اس کے لیے لکھ دیا جائے۔
’تملٰی‘ کے بعد ’علٰی‘ کا صلہ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ ’تلقٰی علیہ‘ یا ’تقرء علیہ‘ کے مضمون پر متضمن ہے۔ اس وجہ سے اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ اس کو لکھوائے جاتے ہیں اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ اس کو لکھ کر تعلیم کیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہے، اس لیے کہ قریش جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُمی ہیں۔ آپ لکھنا نہیں جانتے۔
قریش کی طرف سے آفتاب پر خاک ڈالنے کی کوشش: یہ اوپر والے الزام ہی کی مزید وضاحت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن میں ہے کیا؟ محض اگلوں کے فسانے ہیں جو اس میں دہرائے گئے ہیں! اس شخص نے کچھ لوگوں سے یہ فرمائش کی کہ اس کے لیے یہ لکھ دیے جائیں چنانچہ وہ صبح و شام اس کے لیے لکھتے ہیں اور یہ شخص انہی کی لکھی ہوئی چیزوں کو ہمارے سامنے وحی الٰہی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ تو اس کتاب میں کوئی ایسی حکمت ہے جس سے مرعوب ہوا جائے اور نہ اس کے پیش کرنے والے کا یہ دعویٰ ہی صحیح ہے کہ یہ وحی آسمانی ہے جو اضطراراً اس کے اوپر نازل ہوتی ہے بلکہ پچھلی قوموں اور پچھلے نبیوں کے کچھ جھوٹے سچے قصے ہیں جو اس شخص نے فرمائش کر کے دوسرے لوگوں سے لکھوائے ہیں۔ اس طرح انھوں نے قرآن کی حکمت کے اثر کو بھی مٹانے کی کوشش کی اور اس کے وحی آسمانی ہونے کے دعوے کو بھی مشتبہ کرنا چاہا لیکن ظاہر ہے کہ ان کی یہ کوشش آفتاب پر خاک ڈالنے کے ہم معنی تھی۔ قرآن نے تاریخ جس حکمت کے ساتھ پیش کی تھی اس کی زد براہ راست متمردین قریش کے غرور پر پڑتی تھی اور اس کے آئینہ میں ان کو اپنا مستقبل نہایت بھیانک نظر آتا تھا اس وجہ سے وہ جھلا کر اس کو ماضی کا افسانہ کہتے تھے لیکن حقیقت کو افسانہ کہہ کر نہ اپنے ہی دل کو تسلی دی جا سکتی ہے نہ دوسروں ہی کو دھوکا دیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک سلمان فارسیؓ اور ایک ابو فکیہہ رومیؓ یا دو چار اہل کتاب مل کر قریش کے زعم کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن جیسی معجز کتاب تصنیف کر سکتے تھے تو قریش کے پاس تو ہزاروں عربی و عجمی اور لاکھوں اہل کتاب تھے، آخر انھوں نے ان کی مدد سے ایک قرآن تیار کر کے کیوں نہ پیش کر دیا کہ اس کے معجزہ ہونے کا دعویٰ باطل ہو جاتا! لیکن جب وہ قرآن کی مسلسل تحدی کے باوجود اس کی کوئی نظیر نہ پیش کر سکے تو ان کی اس مہمل بات کو کون باور کر سکتا تھا کہ یہ عظیم کتاب بعض عجمیوں یا بعض اہل کتاب کی ایجاد ہے۔ چونکہ یہ بات بالبداہت مہمل تھی اس وجہ سے قرآن نے اس کی تردید کی ضرورت نہیں سمجھی۔ آگے والی آیت میں صرف اصل حقیقت کا اظہار فرما دیا جس میں ان بوالفضولیوں کی اس بوالفضولی پر ایک لطیف طنز بھی ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کے افسانے ہیں جو اِس نے (کسی سے) لکھوا لیے ہیں۔ سو وہی اب صبح وشام (اِس کتاب میں) لکھنے کے لیے اِس کو سنائے جاتے ہیں۔
یہ اُسی الزام کی مزید وضاحت ہے جو اوپر نقل ہوا ہے۔ آیت میں اِس کے لیے ’تُمْلٰی عَلَیْہِ‘ کے الفاظ اِس لیے آگئے ہیں کہ جو چیز سنائی جا رہی تھی، اُسے یاد کرنے والے یاد کر رہے اور لکھنے والے ساتھ ساتھ لکھ بھی رہے تھے۔
کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں۔
اور یہ بھی کہا کہ یہ تو اگلوں کے افسانے ہیں جو اس نے لکھا رکھے ہیں بس وہی صبح و شام اس کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔
ان سے کہہ دو کہ اس کو اس نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کے بھید کو جانتا ہے۔ بے شک وہ بڑا ہی غفور رحیم ہے!
معترضین پر ایک لطیف طنز اور ان کو تنبیہ: فرمایا کہ ان لوگوں کو بتا دو کہ اس کتاب کو اتارنے والا وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کے سارے بھیدوں اور تمام اسرار و رموز سے خود اچھی طرح باخبر ہے۔ وہ اس کی تصنیف میں کسی عربی و عجمی کی مدد کا محتاج نہیں ہے۔ کوئی کتنا ہی بڑا عالم و حکیم ہو وہ اس کتاب سے بصیرت و رہنمائی تو حاصل کر سکتا ہے لیکن اس طرح کی کتاب تصنیف کرنا تو درکنار، وہ اس کے علم و حکمت میں کوئی اضافہ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ حقیقت اس کتاب کی سطر سطر سے واضح ہے کہ اس کا اتارنے والا وہی ہے جو اس کائنات کے تمام بھیدوں سے واقف اور اس کے ظاہر و باطن اور آغاز و انجام ہر چیز سے باخبر ہے چنانچہ اس نے ماضی کی عبرتیں بھی سامنے رکھ دی ہیں، حاضر کی ذمہ داریاں بھی واضح کر دی ہیں اور مستقبل کے نتائج سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے۔
’اِنَّہٗ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا‘ یعنی وہ چونکہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اس وجہ سے اس نے یہ کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ جو لوگ توبہ و اصلاح کرنا چاہیں وہ توبہ و اصلاح کر کے اس کی رحمت کے مستحق بن جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اتارنے کو تو عذاب بھی اتار سکتا ہے۔ وہ حق کے دشمنوں کے رویہ سے اچھی طرح باخبر ہے لیکن وہ اپنی رحمت کے سبب سے عذاب میں جلدی نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہے کہ لوگ ہدایت کی راہ اختیار کریں تاکہ اس کی مغفرت کے سزاوار ہوں۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ بہرحال وہ سارے حالات و معاملات سے اچھی طرح واقف ہے۔ اگر لوگوں نے صحیح روش نہ اختیار کی تو اس کا جو انجام ہونا ہے وہ بھی سامنے آ کے رہے گا۔
اُن سے کہو کہ (یہ کتاب تو اپنے لفظ لفظ سے شہادت دے رہی ہے کہ) اِسے اُس (پروردگار) نے اتارا ہے جو زمین اور آسمانوں کے بھید جانتا ہے۔ (تم جیسے سرکشوں کے لیے وہ اِس کی جگہ عذاب بھی اتار سکتا تھا، مگر) حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جو علم وحکمت اور ماضی، حال اور مستقبل کے جو حقائق اِس کتاب میں بیان کیے جا رہے ہیں، وہ نہ کسی عربی کے لیے جاننا ممکن ہیں، نہ کسی عجمی کے لیے۔ اُن کا ماخذ علم اور منبع الہام تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو زمین وآسمان کے سارے بھیدوں اور تمام اسرار و رموز سے واقف ہو۔ یہ بات اِس کتاب کی سطر سطر سے واضح ہے۔ اِس کے بعد خود سمجھ سکتے ہو کہ تمھارا الزام کس قدر پوچ اور مہمل ہے۔
اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ان سے کہو کہ ” اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین اور آسمانوں کا بھید جانتا ہے۔ ” حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔
یہ وہی اعتراض ہے جو اس زمانے کے مستشرقین مغرب قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم عصر دشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے اس وقت یہ سارے مضامین تم نے سیکھ لیے تھے۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں جن تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہر جایا کرتے تھے اس زمانے میں تم نے عیسائی راہبوں اور یہودی ربّیوں سے یہ معلومات حاصل کی تھیں۔ اس لیے کہ ان سارے سفروں کا حال ان کو معلوم تھا۔ یہ سفر اکیلے نہیں ہوئے تھے، ان کے اپنے قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان میں کچھ سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اپنے ہی شہر میں سیکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی۔ اس کے علاوہ مکہ کا ہر عام آدمی پوچھے گا کہ اگر یہ معلومات اس شخص کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں بحیرا سے حاصل ہوگئی تھیں، یا 25 برس کی عمر سے، جبکہ اس نے تجارتی سفر شروع کیے تھے، حاصل ہونی شروع ہوگئی تھیں، تو آخر یہ شخص کہیں باہر تو نہیں رہتا تھا، ہمارے ہی درمیان رہتا بستا تھا، کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک اس کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا ؟ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے اتنے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بےحیا لوگوں کے لیے چھوڑ دیا۔ وہ جو بات کہتے تھے وہ نبوت سے پہلے کے متعلق نہیں بلکہ دعوائے نبوت کے زمانے کے متعلق تھی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ شخص ان پڑھ ہے۔ خود مطالعہ کر کے نئی معلومات حاصل کر نہیں سکتا۔ پہلے اس نے کچھ سیکھا نہ تھا۔ چالیس برس کی عمر تک ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ جانتا تھا جو آج اس کی زبان سے نکل رہی ہیں۔ اب آخر یہ معلومات آ کہاں سے رہی ہیں ؟ ان کا سرچشمہ لامحالہ کچھ اگلے لوگوں کی کتابیں ہیں جن کے اقتباسات راتوں کو چپکے چپکے ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں، انہیں کسی سے یہ شخص پڑھوا کر سنتا ہے، اور پھر انہیں یاد کر کے ہمیں دن کو سناتا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ چند آدمیوں کے نام بھی لیتے تھے جو اہل کتاب تھے، پڑھے لکھے تھے، اور مکہ میں رہتے تھے، یعنی عداس (حُوَیطِب بن عبد العزّیٰ کا آزاد کردہ غلام) یَسَار (علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام) اور جبرْ (عامر بن ربیعہ کا آزاد کردہ غلام ) ۔
بظاہر بڑا وزنی اعتراض معلوم ہوتا ہے۔ وحی کے دعوے کو رد کرنے کے لیے نبی کے مآخذ علم کی نشان دہی کردینے سے بڑھ کر اور کونسا اعتراض وزنی ہوسکتا ہے۔ مگر آدمی پہلی ہی نظر میں یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا ہے کہ جواب میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی، بلکہ صرف یہ کہہ کر بات ختم کردی گئی کہ تم صداقت پر ظلم کر رہے ہو، صریح بےانصافی کی بات کہہ رہے ہو، سخت جھوٹ کا طوفان اٹھا رہے ہو، یہ تو اس خدا کا کلام ہے جو آسمان و زمین کا بھید جانتا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سخت مخالفت کے ماحول میں ایسا زوردار اعتراض پیش کیا جائے اور اس کو یوں حقارت سے رد کردیا جائے ؟ کیا واقعی یہ ایسا ہی پوچ اور بےوزن اعتراض تھا، کہ اس کے جواب میں بس ” جھوٹ اور ظلم ” کہہ دینا کافی تھا ؟ آخر وجہ کیا ہے کہ اس مختصر سے جواب کے بعد نہ عوام نے کسی تفصیلی اور واضح جواب کا مطالبہ کیا، نہ نئے نئے ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا، اور نہ مخالفین ہی میں سے کسی کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ دیکھو، ہمارے اس وزنی اعتراض کا جواب بن نہیں پڑ رہا ہے اور محض جھوٹ اور ظلم کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے ؟۔
اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں مخالفین اسلام نے یہ اعتراض کیا تھا :
پہلی بات یہ تھی کہ مکہ کے وہ ظالم سردار جو ایک ایک مسلمان کو مارتے کوٹتے اور تنگ کرتے پھر رہے تھے، ان کے لیے یہ بات کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ جن جن لوگوں کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ پرانی پرانی کتابوں کے ترجمے کر کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد کرایا کرتے ہیں، ان کے گھروں پر اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر پر چھاپے مارتے اور وہ سارا ذخیرہ برآمد کر کے پبلک کے سامنے لا رکھتے جو ان کے زعم میں اس کام کے لیے فراہم کیا گیا تھا۔ وہ عین اس وقت چھاپا مار سکتے تھے جبکہ یہ کام کیا جا رہا ہو اور ایک مجمع کو دکھا سکتے تھے کہ لو دیکھو، یہ نبوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بلال (رض) کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے والوں کے لیے ایسا کرنے میں کوئی آئین و ضابطہ مانع نہ تھا، اور ایسا کر کے وہ ہمیشہ کے لیے نبوت محمدی کے خطرے کو مٹا سکتے تھے۔ مگر وہ بس زبانی اعتراض ہی کرتے رہے اور ایک دن بھی یہ فیصلہ کن قدم اٹھا کر انہوں نے نہ دکھایا۔
دوسری بات یہ تھی کہ اس سلسلے میں وہ جن لوگوں کے نام لیتے تھے وہ کہیں باہر کے نہ تھے، اسی شہر مکہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی قابلیتیں کسی سے چھپی ہوئی نہ تھیں۔ ہر شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا تھا، یہ دیکھ سکتا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ کس پائے کی ہے، کس شان کی زبان ہے، کس مرتبے کا ادب ہے، کیا زور کلام ہے، کیسے بلند خیالات اور مضامین ہیں، اور وہ کس درجے کے لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ سب کچھ حاصل کر کر کے لا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس دل کے جلے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں اور نہ اس قول میں کسی شبہ کے قابل بھی جان نہیں ہے۔ جو لوگ ان اشخاص سے واقف نہ تھے وہ بھی آخر اتنی ذرا سی بات تو سوچ سکتے کہ اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو آخر انہوں نے خود اپنا چراغ کیوں نہ جلایا ؟ ایک دوسرے شخص کے چراغ کو تیل مہیا کرنے کی انہیں ضرورت کیا پڑی تھی ؟ اور وہ بھی چپکے چپکے کہ اس کام کی شہرت کا ذرا سا حصہ بھی ان کو نہ ملے ؟
تیسری بات یہ تھی کہ وہ سب اشخاص، جن کا اس سلسلے میں نام لیا جا رہا تھا، بیرونی ممالک سے آئے ہوئے غلام تھے جن کو ان کے مالکوں نے آزاد کردیا تھا۔ عرب کی قبائلی زندگی میں کوئی شخص بھی کسی طاقتور قبیلے کی حمایت کے بغیر نہ جی سکتا تھا۔ آزاد ہوجانے پر بھی غلام اپنے سابق مالکوں کے سلاء (سرپرستی) میں رہتے تھے اور ان کی حمایت ہی معاشرے میں ان کے لیے زندگی کا سہارا ہوتی تھی۔ اب یہ ظاہر بات تھی کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی بدولت، معاذ اللہ، ایک جھوٹی نبوت کی دکان چلا رہے تھے تو یہ لوگ کسی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ تو اس سازش میں آپ کے شریک نہ ہو سکتے تھے۔ آخر ایسے شخص کے وہ مخلص رفیق کار اور سچے عقیدت مند کیسے ہو سکتے تھے جو رات کو انہی سے کچھ باتیں سیکھتا ہو اور دن کو دنیا ہی کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔ اس لیے ان کی شرکت کسی لالچ اور کسی غرض ہی کی بنا پر ہو سکتی تھی۔ مگر کون صاحب عقل و ہوش آدمی یہ باور کرسکتا تھا کہ یہ لوگ خود اپنے سر پرستوں کو ناراض کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قوم کی دشمنی کے ہدف آدمی کے ساتھ مل جاتے اور اپنے سرپرستوں سے کٹ جانے کے نقصان کو ایسے مصیبت زدہ آدمی سے حاصل ہونے والے کسی فائدے کی امید پر گوارا کرلیتے ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات تھی کہ انکے سرپرستوں کو یہ موقع تو آخر حاصل ہی تھا کہ مار کوٹ کر ان سے سازش کا اقبال کرا لیں۔ اس موقع سے انہوں نے کیوں نہ فائدہ اٹھایا اور کیوں نہ ساری قوم کے سامنے خود انہی سے یہ اعتراف کروا لیا کہ ہم سے سیکھ سیکھ کر یہ نبوت کی دکان چمکائی جا رہی ہے ؟
سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ سب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور اس ضرب المثل عقیدت میں شامل ہوئے جو صحابہ کرام آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مقدس سے رکھتے تھے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بناؤٹی اور سازشی نبوت پر خود ہی لوگ ایمان لائیں اور گہری عقیدت کے ساتھ ایمان لائیں جنہوں نے اس کے نانے کی سازش میں خود حصہ لیا ہو ؟ اور بالفرض اگر یہ ممکن بھی تھا تو ان لوگوں کو اہل ایمان کی جماعت میں کوئی نمایاں مرتبہ تو ملا ہوتا۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ نبوت کا کاروبار تو چلے عَدّاس اور یسار اور جبر کے بل بوتے پر، اور نبی کے دست بنیں ابوبکر اور عمر اور ابو عبیدہ۔
اسی طرح یہ بات بھی بڑی تعجب انگیز تھی کہ اگر چند آدمیوں کی مدد سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر نبوت کے اس کاروبار کا مواد تیار کیا جاتا تھا تو وہ زید بن حارثہ، علی بن ابی طالب، ابوبکر صدیق اور دوسرے ان لوگوں سے کس طرح چھپ سکتا تھا جو شب و روز محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لگے رہتے تھے ؟ اس الزام میں برائے نام بھی شائبہ صداقت ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اس قدر خلوص کے ساتھ حضور پر ایمان لاتے اور آپ کی حمایت میں ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کرتے ؟ یہ وجوہ تھے جن کی بنا پر ہر سننے والے کی نگاہ میں یہ اعتراض آپ ہی بےوزن تھا۔ اس لیے قرآن میں اس کو کسی وزنی اعتراض کی حیثیت سے، جواب دینے کی خاطر نقل نہیں کیا گیا ہے، بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ دیکھو، حق کی دشمنی میں یہ لوگ کیسے اندھے ہوگئے ہیں، اور کس قدر صریح جھوٹ اور بےانصافی پر اتر آئے ہیں۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :13
اس جگہ یہ فقرہ بڑا معنی خیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا شان ہے خدا کی رحیمی و غفاری کی، جو لوگ حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایسے ایسے جھوٹ کے طوفان اٹھاتے ہیں ان کو بھی وہ مہلت دیتا ہے اور سنتے ہی عذاب کا کوڑا نہیں برسا دیتا۔ اس تنبیہ کے ساتھ اس میں ایک پہلو تلقین کا بھی ہے کہ ظالمو، اب بھی اگر اپنے عناد سے باز آجاؤ اور حق بات کو سیدھے طرح مان لو تو جو کچھ آج تک کرتے رہے ہو وہ سب معاف ہوسکتا ہے۔
کہہ دیجئے کہ اسے تو اس اللہ نے اتارا ہے جو آسمان و زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے (١) بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے ؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے ؟ یقینا نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان و زمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔
اور کہتے ہیں کہ کیا بات ہے اس رسول کی کہ یہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے! اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ وہ اس کے ساتھ لوگوں کو ڈرانے والا بنتا!
یہ مخالفین کے بعض اور اعتراضات کا حوالہ دیا ہے۔
معترضین کے بعض اور اعتراضات رسولؐ پر: ’مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ‘ کے اسلوب میں استعجاب اور طنز و استہزا دونوں ہے۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ خوب رسول ہیں کہ اللہ کے رسول ہونے کے مدعی ہیں اور حال یہ ہے کہ ہمارے ہی طرح یہ بھی کھانے پینے کے محتاج ہیں اور اپنی ضروریات و مایحتاج کی فراہمی کے لیے ہما شما کی طرح یہ بھی بازاروں میں پھرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر خدا کو کوئی رسول ہی بھیجنا ہوتا تو کیا ہمارے ہی جیسے ایک بشر کو رسول بناتا، آخر اس کے پاس فرشتوں کی ایک فوج ہے ان میں سے کسی کو اس نے رسول بنا کر کیوں نہ بھیجا۔
’لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا‘۔ یعنی اگر کسی بشر ہی کو رسول بنایا تھا تو کم از کم یہ تو ہونا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہوتا جو ساتھ ساتھ منادی کرتا پھرتا کہ لوگو، یہ اللہ کے رسول ہیں، یہ جس چیز سے ڈرا رہے ہیں اس سے ڈرو۔
کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے؟ یہ تو (ہماری طرح) کھانا کھاتا ہے اور (اپنی ضرورتوں کے لیے) بازاروں میں پھرتا ہے! اِس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ اِس کے ساتھ ہو کر وہ (نہ ماننے والوں کو) خبردار کرتا؟
یعنی اِن کے ساتھ ساتھ پھرتا اور منادی کرتا کہ لوگو، یہ اللہ کے رسول ہیں، یہ جس چیز سے ڈرا رہے ہیں، اُس سے ڈرو، ورنہ ابھی خدا کا عذاب برسا دیتا ہوں۔
کہتے ہیں ” یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور ﴿نہ ماننے والوں کو﴾ دھمکاتا ؟
یعنی اول تو انسان کا رسول ہونا ہی عجیب بات ہے۔ خدا کا پیغام لے کر آتا تو کوئی فرشتہ آتا نہ کہ ایک گوشت پوست کا آدمی جو زندہ رہنے کے لیے غذا کا محتاج ہو۔ تاہم اگر آدمی ہی رسول بنایا گیا تھا تو کم از کم وہ بادشاہوں اور دنیا کے بڑے لوگوں کی طرح ایک بلند پایہ ہستی ہونا چاہیے تھا جسے دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستیں اور جس کے حضور باریابی کا شرف بڑی کوششوں سے کسی کو نصیب ہوتا، نہ یہ کہ ایک ایسا عامی آدمی خداوند، عالم کا پیغمبر بنادیا جائے جو بازاروں میں جوتیاں چٹخاتا پھرتا ہو۔ بھلا اس آدمی کو کون خاطر میں لائے گا جسے ہر راہ چلتا روز دیکھتا ہو اور کسی پہلو سے بھی اس کے اندر کوئی غیر معمولی پن نہ پاتا ہو۔ بالفاظ دیگر، ان کی رائے میں رسول کی ضرورت اگر تھی تو عوام الناس کو ہدایت دینے کے لیے نہیں بلکہ عجوبہ دکھانے یا ٹھاٹھ باٹ سے دھونس جمانے کے لیے تھی۔۔﴿ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد سوم، المومنون، حاشیہ ٢٦ ﴾
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :15
یعنی اگر آدمی ہی کو نبی بنایا گیا تھا تو ایک فرشتہ اس کے ساتھ کردیا جاتا جو ہر وقت کوڑا ہاتھ میں لئے رہتا اور لوگوں سے کہتا کہ مانو اس کی بات، ورنہ ابھی خدا کا عذاب برسا دیتا ہوں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ کائنات کا مالک ایک شخص کو نبوت کا جلیل القدر منصب عطا کر کے بس یونہی اکیلا چھوڑا دے اور وہ لوگوں سے گالیاں اور پتھر کھاتا پھرے۔
اور انہوں نے کہا کہ یہ کیسا رسول ہے ؟ کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ، اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا جاتا، کہ وہ بھی اس کے ساتھ ہو کر ڈرانے والا بن جاتا۔
قرآن پر طعن کرنے کے بعد رسول پر طعن کیا جا رہا ہے اور یہ طعن رسول کی بشریت پر ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں بشریت، عظمت رسالت کی متحمل نہیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ تو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں آتا جاتا ہے اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے۔ حالانکہ رسول کو تو بشر نہیں ہونا چاہیئے۔
یا اس کے لیے کوئی خزانہ اتارا جاتا یا اس کے لیے کوئی باغ ہوتا جس سے وہ اپنی معاش حاصل کرتا! ۔۔۔ اور ان ظالموں نے کہا کہ تم لوگ تو بس ایک سحرزدہ شخص کے پیچھے لگ لیے ہو!
یا آسمان سے ان کے لیے کوئی خزانہ اتار دیا جاتا یا ان کے پاس کوئی شان دار باغ ہوتا جس سے یہ اپنی معاش حاصل کرتے اور عام آدمیوں کی طرح ان کو بازاروں میں جوتیاں چٹخاتے نہ پھرنا پڑتا! مطلب یہ ہے کہ جب ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو آخر ہم ان کو اللہ کا رسول کس طرح مان لیں!
’وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا‘ یعنی مذکورہ بالا اعتراضات کے بعد یہ ظالم لوگ مسلمانوں کو خطاب کر کے یہ کہتے ہیں کہ اگر تم لوگوں نے ایک ایسے شخص کو رسول مان لیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے پیرو بن گئے ہو جس پر کسی نے جادو کر کے اس کی عقل کو مختل کر دیا ہے جس کے سبب سے وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔
یا اِس پر کوئی خزانہ اتارا جاتا یا (زیادہ نہیں تو) اِس کے لیے کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ کھاتا پیتا ۔۔۔ یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم لوگ تو ایک سحرزدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔
مطلب یہ ہے کہ اُسی سے اپنی معاش حاصل کر لیتا اور اِسے کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ عام آدمیوں کی طرح بازاروں میں جوتیاں چٹخاتا پھرے۔
یا اور کچھ نہیں تو اس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ ﴿اطمینان کی﴾ روزی حاصل کرتا۔ ” اور ظالم کہتے ہیں ” تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔ ”
یہ گویا بدرجہ آخر ان کا مطالبہ تھا کہ اللہ میاں کم از کم اتنا تو کرتے کہ اپنے رسول کے لیے معاش کا کوئی اچھا انتظام کردیتے۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے بھی گیا گزرا ہو۔ نہ خرچ کے لیے مال میسر، نہ پھل کھانے کو کوئی باغ نصیب، اور دعویٰ یہ کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں۔
سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :17
یعنی دیوانہ۔ اہل عرب کے نزدیک دیوانگی کے دو ہی وجوہ تھے۔ یا تو کسی پر جن کا سایہ ہوگیا ہو۔ یا کسی دشمن نے جادو کر کے پاگل بنادیا ہو۔ ایک تیسری وجہ ان کے نزدیک اور بھی تھی، اور وہ یہ کہ کسی دیوی، یا دیوتا کی شان میں آدمی کوئی گستاخی کر بیٹھا ہو اور اس کی مار پڑگئی ہو۔ کفار مکہ وقتاً فوقتاً یہ تینوں وجوہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق بیان کرتے تھے۔ کبھی کہتے اس شخص پر کسی جن کا تسلط ہوگیا۔ کچھ کہتے کسی دشمن نے بیچارے پر جادو کردیا۔ اور کبھی کہتے کہ ہمارے دیوتاؤں میں سے کسی کی بےادبی کرنے کا خمیازہ ہے جو غریب بھگت رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اتنا ہوشیار بھی مانتے تھے کہ ایک دار الترجمہ اس شخص نے قائم کر رکھا ہے اور پرانی پرانی کتابوں کے اقتباسات نکلوا نکلوا کر یاد کرتا ہے۔ مزید براں وہ آپ کو ساحر اور جادوگر بھی کہتے تھے، گویا آپ ان کے نزدیک مسحور بھی تھے اور ساحر بھی۔ اس پر ایک اور ردّا شاعر ہونے کی تہمت کا بھی تھا۔
یا اس کے پاس کوئی خزانہ ہی ڈال دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس میں سے یہ کھاتا اور ان ظالموں نے کہا کہ تم ایسے آدمی کے پیچھے ہو لئے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے۔
تاکہ طلب رزق سے بےنیاز ہو۔
تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہوجاتی۔
یعنی جس کی عقل و فہم سحر زدہ ہے
دیکھو، تمہارے اوپر کیسی کیسی پھبتیاں چست کر رہے ہیں! پس یہ بالکل کھوئے گئے ہیں اور کوئی راہ نہیں پا رہے ہیں۔
معترضین کی حواس باختگی: یہ آیت بعینہٖ سورۂ بنی اسرائیل میں بھی گزر چکی ہے۔ ملاحظہ ہو آیت ۴۸۔ وہاں ہم واضح کر چکے ہیں کہ ’ضرب مثل‘ کا محاورہ جس طرح کوئی تمثیل بیان کرنے یا کوئی حکمت کی بات کہنے کے لیے آتا ہے اسی طرح کسی پر اعتراض کرنے یا اس پر پھبتی چست کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ اعتراض باطل کے مفہوم میں یہ لفظ آگے اسی سورہ کی آیت ۳۳ میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ پھبتی یا اعتراض ہی کے مفہوم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی مذکورہ بالا خرافات نقل کرنے کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا کہ دیکھو، یہ تمہارے اوپر کیسی کیسی پھبتیاں چست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کوئی بات بنتی نظر نہیں آتی ہے تو جس کے منہ میں جو آتا ہے وہی بک دیتا ہے۔
’فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا‘۔ یعنی مخالفت کے جنون میں بالکل کھوئے گئے ہیں۔ اعتراض کی کوئی راہ نہ پا رہے ہیں، نہ پا سکیں گے۔ محض اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس طرح یہ حقیقت کو کب تک جھٹلا سکیں گے! یہ امر ملحوظ رہے کہ جب کوئی شخص کسی سچی بات کی دیدہ و دانستہ مخالفت کرتا ہے تو وہ اسی طرح کی حواس باختگی کا مظاہرہ کرتا ہے جس طرح کی حواس باختگی ان اعتراضات کے اندر پائی جاتی ہے۔
دیکھو، (اے پیغمبر)، یہ تمھاری نسبت کیسی کیسی باتیں بنا رہے ہیں۔ سو بالکل کھوئے گئے ہیں، اب کوئی راستہ نہیں پا رہے ہیں۔
یعنی حقیقت اتنی واضح ہے کہ اُس کی تردید کے لیے کوئی راستہ نہیں پا رہے ہیں۔ چنانچہ عناد اور تعصب میں اندھے ہو کر ایسی لچر اور پوچ باتیں کر رہے ہیں جن کے بارے میں خود بھی جانتے ہیں کہ اُن کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔
دیکھو، کیسی کیسی عجیب حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں، ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات ان کو نہیں سوجھتی۔
یہ اعتراضات بھی جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے نقل کیے جا رہے ہیں کہ معترضین کس قدر عناد اور تعصب میں اندھے ہوچکے ہیں۔ ان کی جو باتیں اوپر نقل کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی اس لائق نہیں ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ بحث کی جائے۔ ان کا بس ذکر کردینا ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مخالفین کا دامن معقول دلائل سے کس قدر خالی ہے اور وہ کیسی لچر اور پوچ باتوں سے ایک مدلل اصولی دعوت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک شخص کہتا ہے لوگو، یہ شرک جس پر تمہارے مذہب و تمدن کی بنیاد قائم ہے، ایک غلط عقیدہ ہے اور اس کے غلط ہونے کے یہ اور یہ دلائل ہیں۔ جواب میں شرک کے بر حق ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں کی جاتی، بس آوازہ کس دیا جاتا ہے کہ یہ جادو کا مارا ہوا آدمی ہے۔ وہ کہتا ہے کائنات کا سارا نظام توحید پر چل رہا ہے اور یہ یہ حقائق ہیں جو اس کی شہادت دیتے ہیں۔ جواب میں شور بلند ہوتا ہے جادوگر ہے۔ وہ کہتا ہے تم دنیا میں شتر بےمہار بنا کر نہیں چھوڑ دیے گئے ہو، تمہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے، دوسری زندگی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، اور اس حقیقت پر یہ اخلاقی اور یہ تاریخی اور یہ علمی و عقلی امور دلالت کر رہے ہیں۔ جواب میں کہا جاتا ہے شاعر ہے۔ وہ کہتا ہے میں خدا کی طرف سے تمہارے لیے تعلیم حق لے کر آیا ہوں اور یہ ہے وہ تعلیم۔ جواب میں اس تعلیم پر کوئی بحث و تنقید نہیں ہوتی، بس بلا ثبوت ایک الزام چسپاں کردیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ کہیں سے نقل کرلیا گیا ہے۔ وہ اپنی رسالت کے ثبوت میں خدا کے معجزانہ کلام کو پیش کرتا ہے، خود اپنی زندگی اور اپنی سیرت و کردار کو پیش کرتا ہے، اور اس اخلاقی انقلاب کو پیش کرتا ہے جو اس کے اثر سے اس کے پیروؤں کی زندگی میں ہو رہا تھا۔ مگر مخالفت کرنے والے ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے۔ پوچھتے ہیں تو یہ پوچھتے ہیں کہ تم کھاتے کیوں ہو ؟ بازاروں میں کیوں چلتے پھرتے ہو ؟ تمہاری اردل میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں ہے ؟ تمہارے پاس کوئی خزانہ یا باغ کیوں نہیں ہے ؟ یہ باتیں خود ہی بتارہی تھیں کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اور کون اس کے مقابلے میں عاجز ہو کر بےتکی ہانک رہا ہے۔
خیال تو کیجئے ! کہ یہ لوگ آپ کی نسبت کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں۔ پس جس سے خود ہی بہک رہے ہیں اور کسی طرح راہ پر نہیں آسکتے ۔
یعنی اے پیغمبر ! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی مسحور و مجنون اور کبھی کذاب و شاعر۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل فہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کر کے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں، انھیں راہ راست کس طرح نصیب ہو سکتی ہے ؟
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جو چاہے تو تمہیں اس سے بھی کہیں بہتر چیزیں بخش دے ۔۔۔ ایسے باغ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور تمہارے لیے محل بنوا دے۔
اعتراضات کا جواب: جس طرح نقل اعتراضات کی تمہید لفظ ’تبارک‘ سے اٹھائی ہے اسی طرح جواب کی تمہید بھی اسی لفظ سے اٹھائی ہے اور سب سے پہلے معترضین کے اس اعتراض کو لیا ہے جو سب سے آخر میں آیت ۸ میں نقل ہوا ہے۔ فرمایا کہ خدا کی ذات بڑی ہی بافیض اور بڑی ہی صاحب جود و کرم ہے۔ اس کے پاس نہ باغوں کی کمی ہے اور نہ خزانوں کی۔ یہ ایک باغ کو کہتے ہیں۔ خدا اگر چاہے تو تمہارے لیے بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور بہت سے ایوان و محل تیار کرا دے اور یہ سب کچھ تمہیں ایک دن ملنے والا ہے۔ لیکن ان لوگوں کی نگاہیں چونکہ اسی دنیا کی زندگی تک محدود ہیں، آخرت کی زندگی کا، جو اصل زندگی ہے کوئی تصور نہیں رکھتے اس وجہ سے یہ اپنے دنیوی اسباب و وسائل پر نازاں اور تمہارا مذاق اڑا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ دنیا دارالامتحان ہے، دارالانعام نہیں ہے۔ یہاں کی غربت و امارت دونوں امتحان کے لیے ہے۔ انعام کا گھر آخرت ہے۔ جو وہاں کامیاب ہوا وہ ہمیشہ کے لیے کامیاب ہے اور جو وہاں نامراد ہوا وہ ہمیشہ کے لیے نامراد ہے اور وہاں کی کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے جو اس دنیا میں خدا سے ڈرنے والے بنیں۔
بہت بزرگ، بہت فیض رساں ہے وہ ذات جو اگر چاہے تو تمھیں اِس سے کہیں بہتر چیزیں بخش دے ۔۔۔ ایسے باغ جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں اور (اُن میں) تمھارے لیے محل بنوا دے۔
یعنی جو کچھ قیامت میں دینے والا ہے، وہ اِسی دنیا میں تمھیں دے دے۔ یہ اُس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے، ﴿ایک نہیں﴾ بہت سے باغ جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں، اور بڑے بڑے محل۔
یہاں پھر وہی تبارک کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بعد کا مضمون بتارہا ہے کہ اس جگہ اس کے معنی ہیں ” بڑے وسیع ذرائع کا مالک ہے “۔ ‘’ غیر محدود قدرت رکھنے والا ہے “۔ ” اس سے بالا تر ہے کہ کسی کے حق میں کوئی بھلائی کرنا چاہے اور نہ کرسکے “۔
اللہ تعالیٰ تو ایسا بابرکت ہے کہ اگر چاہے تو آپ کو بہت سے ایسے باغات عنایت فرما دے جو ان کے کہے ہوئے باغ سے بہت ہی بہتر ہوں جس کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہوں اور آپ کو بہت سے (پختہ) محل بھی دے دے۔
یعنی یہ آپ کے لئے جو مطالبے کرتے ہیں، اللہ کے لئے ان کا کردینا کوئی مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ان سے بہتر باغات اور محلات دنیا میں آپ کو عطا کرسکتا ہے جو کہ ان کے دماغوں میں ہیں۔ لیکن ان کے مطالبے تو تکذیب وعناد کے طور پر ہیں نہ کہ طلب ہدایت اور تلاش نجات کے لئے۔
امین احسن اصلاحی
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی کتاب اتاری تا کہ وہ اہل عالم کے لیے ہوشیار کر دینے والا بنے!
قرآن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے: جس طرح ’تعاظم‘ اور ’تعالیٰ‘ اور اس باب کے دوسرے صیغوں کے اندر مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے اسی طرح ’تبارک‘ کے اندر بھی مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی بڑی ہی بابرکت اور بافیض ہستی ہے وہ جس نے لوگوں کے انذار کے لیے، اپنے بندے پر، ایک ایسی کتاب اتاری جو حق اور باطل کے درمیان امتیاز کے لیے ایک حجت قاطع کی حیثیت رکھتی ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس نعمت کی قدر اور اس کتاب کی روشنی میں اپنی گمراہیوں کی اصلاح کریں، طرح طرح کے اعتراضات اٹھا کر اس کی مخالفت اور اللہ کے رسول سے کسی معجزے یا کسی نشانئ عذاب کا مطالبہ نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تواس کتاب کے بجائے وہ اپنے رسول کو کسی تازیانۂ عذاب سے مسلح کر کے بھی بھیج سکتا تھا، اس کے لیے یہ کام ذرا بھی مشکل نہیں تھا، لیکن اس نے اپنی عظیم مہربانی کی وجہ سے یہ پسند فرمایا کہ وہ لوگوں کو ایک ایسی روشنی دکھائے جو لوگوں کو پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کر کے فوز و فلاح کی راہ سعادت کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن کو ’فرقان‘ کے لفظ سے تعبیر کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ یہ کتاب اپنے دعاوی اور اپنے پیش کرنے والے کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے بجائے خود دلیل و حجت ہے، یہ کسی خارجی دلیل کی محتاج نہیں ہے۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو رسول کے ہاتھوں تقسیم ہونے والی اس نعمت عظمیٰ سے متمتع ہونے کے بجائے اس سے ایسی چیزوں کا مطالبہ کریں جو ان کے لیے خیر کے بجائے تباہی کا باعث ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک خاص برمحل التفات: ’عَلٰی عَبْدِہٖ‘ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک خاص التفات پایا جاتا ہے۔ اس التفات کا یہاں ایک خاص محل ہے۔ آگے کفار کے وہ اعتراضات نقل ہوئے ہیں جو وہ نہایت تحقیر آمیز انداز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ یہ اعتراضات زیادہ تر مکہ اور طائف کے دولت مندوں کے اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ اپنی مالی برتری کے گھمنڈ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی اسباب و وسائل سے بے تعلقی پر خاص طور پر چوٹیں کرتے اور اس چیز کو آپؐ کی رسالت کی تردید کی ایک بہت بڑی دلیل کی حیثیت سے پیش کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں مستکبرین کی اسی ذہنیت کو سامنے رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندۂ خاص پر ’فرقان‘ کی شکل میں جو نعمت عظمیٰ اتاری ہے اس کے بعد وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ خلق کے انذار کے وہ جس مشن پر مامور ہے اس کی تکمیل کے لیے وہ جس زاد و راحلہ کا محتاج ہے وہ سب بدرجۂ کمال اس کے پاس موجود ہے۔
یہ آیت اس سورہ کی تمہید ہے۔ اس کے یہ مضمرات جو ہم نے واضح کیے ہیں وہ آگے کے مباحث سے ان شاء اللہ مزید واضح ہو جائیں گے۔