هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ ٱلْغَـٰشِيَةِ

امین احسن اصلاحی

کیا تمہیں چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے!

قیامت اور احوال قیامت کی تصویر: اس انداز میں جو سوال ہوتا ہے وہ طلب جواب کے لیے نہیں بلکہ کسی چیز کے ہول و ہیبت یا اس کی عظمت و شان کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں جو خطاب ہے اگرچہ عام بھی ہو سکتا ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں چنانچہ اسی پر عطف کر کے آگے فرمایا ہے:

’فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنۡتَ مُذَکِّرٌ‘ (۲۱)
(تم یاددہانی کر دو، تم تو صرف ایک یاددہانی کر دینے والے ہو)۔

’غَاشِیَۃٌ‘ کے معنی ڈھانک لینے والی اور چھا جانے والی کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ قیامت کی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آفت ایک ہمہ گیر آفت ہو گی جو سب پر چھا جائے گی، کسی کو بھی اس سے مفر نہیں ہو گا۔ اس کا احوال (حدیث) یہاں سنایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گیا ہے لیکن مقصود، جیسا کہ آگے کی آیات سے واضح ہو گا، ان کفار کو آگاہ کرنا ہے جو اول تو آخرت کو مانتے ہی نہیں تھے اور اگر کسی درجہ میں مانتے بھی تھے تو اپنے اس گمان کی بنا پر اس سے بالکل نچنت تھے کہ ان کو جو کچھ یہاں حاصل ہے اس سے بڑھ کر وہاں حاصل ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

کیا تمھیں اُس آفت کی خبر پہنچی ہے جو (پورے عالم پر) چھا جائے گی؟

یہ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن آگے کی آیتوں سے واضح ہے کہ روے سخن قریش کے اُنھی سرداروں کی طرف ہے جو آخرت سے بالکل بے خوف ہو چکے تھے۔ خطاب کی ابتدا سوال سے کی ہے ۔ اِس طرح کا سوال جواب حاصل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ کسی چیز کے ہول، ہیبت یا اُس کی عظمت و جلالت کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

کیا تمہیں اس چھا جانے والی آفت کی خبر پہنچی ہے ؟

مراد ہے قیامت، یعنی وہ آفت جو سارے جہاں پر چھا جائے گی۔ اس مقام پر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ یہاں بحیثیت مجموعی پورے عالم آخرت کا ذکر ہو رہا ہے جو نظام عالم کے درہم برہم ہونے سے شروع ہو کر تمام انسانوں کے دوبارہ اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جزا و سزا پانے تک تمام مراحل پر حاوی ہے۔

جونا گڑھی

کیا تجھے بھی چھپا لینے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے ۔

 غاشیہ سے مراد قیامت ہے، اس لئے کہ اس کی ہولناکیاں تمام مخلوق کو ڈھانک لیں گی۔ 

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَـٰشِعَةٌ

امین احسن اصلاحی

اس دن کتنے چہرے اترے (نڈھال اور تھکے ہارے) ہوں گے۔

ان لوگوں کا حال جو قیامت سے نچنت رہے: اوپر کا سوال، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، طلب جواب کے لیے نہیں بلکہ صرف تنبیہ کے لیے تھا کہ سننے والے اس کو اچھی طرح سن لیں۔ اس کے بعد قرآن نے خود ہی اس کا جواب دیا کہ اس دن کتنے چہرے بالکل اترے اور تھکے ہارے ہوں گے۔

’خَاشِعَۃٌ‘ کے معنی جھکے ہوئے، پست اور اداس کے ہیں۔ ’عَامِلَۃٌ‘ کے معنی محنت سے نڈھال اور ’نَاصِبَۃٌ‘ کے معنی تھکے ہارے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دن جب ان کی توقع کے برعکس یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان کو اپنے اعمال کی پاداش میں جہنم میں پڑنا ہے تو ان کے چہرے فق ہو جائیں گے، ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔
’وُجُوْہٌ‘ سے مراد اگرچہ اشخاص ہیں لیکن ان کو تعبیر ’وُجُوْہٌ‘ سے اس لیے کیا ہے کہ مقصود ان کی اندرونی کیفیات کو ظاہر کرنا ہے اور کیفیات کا اظہار سب سے زیادہ نمایاں طریقہ پر چہروں ہی سے ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

کتنے چہرے اُس دن اترے ہوئے ہوں گے۔

اِس سے مراد اگرچہ اشخاص ہیں، لیکن اُن کو چہروں سے اِس لیے تعبیر کیا ہے کہ جو کچھ اُن پر گزرے گی، اُس کا اظہار سب سے نمایاں طریقے پر اُن کے چہروں ہی سے ہو گا۔

ابو الاعلی مودودی

کچھ چہرے اس روز خوف زدہ ہوں گے،

چہروں کا لفظ یہاں اشخاص کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چونکہ انسان کے جسم کی نمایاں ترین چیز اس کا چہرہ ہے جس سے اس کی شخصیت پہچانی جاتی ہے، اور انسان پر اچھی یا بری کیفیات بھی گزرتی ہیں ان کا اظہار اس کے چہرے سے ہی ہوتا ہے، اس لیے ” کچھ لوگ ” کہنے کے بجائے ” کچھ چہرے ” کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔

جونا گڑھی

اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہونگے۔

 یعنی کافروں کے چہرے، خاشعۃ جھکے ہوئے، پست اور ذلیل، جیسے نمازی، نماز کی حالت میں عاجزی سے جھکا ہوتا ہے۔ 

عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ

امین احسن اصلاحی

(اس دن کتنے چہرے اترے) نڈھال اور تھکے ہارے ہوں گے۔

’عَامِلَۃٌ‘ کے معنی محنت سے نڈھال اور ’نَاصِبَۃٌ‘ کے معنی تھکے ہارے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس دن جب ان کی توقع کے برعکس یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان کو اپنے اعمال کی پاداش میں جہنم میں پڑنا ہے تو ان کے چہرے فق ہو جائیں گے، ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔

جاوید احمد غامدی

نڈھال، تھکے ہارے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

محنت کرنے والے تھکے ہوئے

n/a

جونا گڑھی

(اور) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے

 یعنی انہیں اتنا پر مشقت عذاب ہوگا کہ اس سے ان کا سخت برا حال ہوگا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں عمل کر کے تھکے ہوئے ہونگے یعنی بہت عمل کرتے رہے، لیکن وہ عمل باطل مذہب کے مطابق بدعات پر مبنی ہونگے، اس لئے عبادت اور سخت اعمال کے باوجود جہنم میں جائیں گے۔ چنانچہ اس مفہوم کی روح سے حضرت ابن عباس نے (عَمِلَۃ، نَّاصِیَۃ) سے نصاریٰ مراد لئے ہیں (صحیح بخاری) 

تَصْلَىٰ نَارًا حَامِيَةً

امین احسن اصلاحی

وہ دہکتی آگ میں پڑیں گے۔

یہ اس چیز کا بیان ہے جو اس بدحواسی کا سبب بنے گی جو اوپر مذکور ہوئی یعنی وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے اور کھولتے چشمے کا پانی پئیں گے۔ ’اٰنِیَۃٌ‘ کے معنی ہیں جس کی گرمی اپنے آخری نقطہ پر پہنچی ہوئی ہو۔

قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں مجرموں کی جس بدحواسی و پریشان حالی کا ذکر ہے اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب ان پر یہ حقیقت واضح ہو گی کہ وہ دوزخ میں ڈالے جانے والے ہیں۔ سورۂ قیامہ میں تصریح ہے کہ

وَوُجُوۡہٌ یَوْمَئِذٍ بَاسِرَۃٌ ۵ تَظُنُّ أَنۡ یُفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ (القیامہ ۷۵: ۲۴-۲۵)
’’ اور اس دن بہت سے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ وہ گمان کرتے ہوں گے کہ ان پر کمر توڑ دینے والی مصیبت ٹوٹنے والی ہے۔‘‘

عام طور پر لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ ان کے دوزخ میں پڑنے کے بعد کے حالات بیان ہو رہے ہیں لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ دوزخ میں پڑنے کے بعد چہرے اداس ہی نہیں ہوں گے بلکہ وہ آگ پر گھسیٹے جائیں گے اور مزید وہ سب کچھ ہو گا جو دوزخ کے احوال سے متعلق قرآن میں بیان ہوا ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہ دہکتی آگ میں پڑیں گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے،

n/a

جونا گڑھی

اور دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔

n/a

تُسْقَىٰ مِنْ عَيْنٍ ءَانِيَةٍ

امین احسن اصلاحی

کھولتے چشمہ کا پانی پلائے جائیں گے۔

یہ اس چیز کا بیان ہے جو اس بدحواسی کا سبب بنے گی جو اوپر مذکور ہوئی یعنی وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے اور کھولتے چشمے کا پانی پئیں گے۔ ’اٰنِیَۃٌ‘ کے معنی ہیں جس کی گرمی اپنے آخری نقطہ پر پہنچی ہوئی ہو۔

قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں مجرموں کی جس بدحواسی و پریشان حالی کا ذکر ہے اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب ان پر یہ حقیقت واضح ہو گی کہ وہ دوزخ میں ڈالے جانے والے ہیں۔ سورۂ قیامہ میں تصریح ہے کہ

وَوُجُوۡہٌ یَوْمَئِذٍ بَاسِرَۃٌ ۵ تَظُنُّ أَنۡ یُفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ (القیامہ ۷۵: ۲۴-۲۵)
’’ اور اس دن بہت سے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ وہ گمان کرتے ہوں گے کہ ان پر کمر توڑ دینے والی مصیبت ٹوٹنے والی ہے۔‘‘

عام طور پر لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ ان کے دوزخ میں پڑنے کے بعد کے حالات بیان ہو رہے ہیں لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ دوزخ میں پڑنے کے بعد چہرے اداس ہی نہیں ہوں گے بلکہ وہ آگ پر گھسیٹے جائیں گے اور مزید وہ سب کچھ ہو گا جو دوزخ کے احوال سے متعلق قرآن میں بیان ہوا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اُنھیں ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی پلایا جائے گا۔

اصل میں لفظ ’اٰنِیَۃ‘ استعمال ہوا ہے، یعنی جس کی گرمی اپنے آخری نقطے پر پہنچی ہوئی ہو۔

ابو الاعلی مودودی

کھولتے ہوئے چشمے کا پانی انہیں پینے کو دیا جائے گا،

n/a

جونا گڑھی

نہایت گرم چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا۔

 یہاں وہ سخت کھولتا ہوا پانی مراد ہے جس کی گرمی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہو۔ (فتح القدیر) 

لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍ

امین احسن اصلاحی

ان کے کھانے کو صرف جھاڑ کانٹے ہوں گے۔

دوزخیوں کی غذا: پانی کے بعد یہ اس کھانے کا ذکر ہے جو دوزخ میں ان کو ملے گا۔ فرمایا کہ ان کو کھانے کی کوئی چیز وہاں میسر نہیں آئے گی۔ صرف ضریع چابیں گے اور اس پر کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ ’ضَرِیْعٌ‘ ایک خاردار زہریلی جھاڑی ہے جس کو کوئی جانور نہیں چھوتا۔

مقصود کلام یہاں حصر نہیں ہے کہ ان کا کھانا صرف ’ضَرِیْعٌ‘ ہو گا۔ بلکہ یہ استثنائے منقطع ہے۔ حصر کا مضمون اس صورت میں پیدا ہوتا جب ’ضَرِیْعٌ‘ کسی درجے میں بھی کوئی کھانے کی چیز ہوتی۔ جب وہ سرے سے طعام میں داخل ہی نہیں ہے تو استثناء سے صرف یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کھانے کی کوئی چیز جب انھیں میسر نہیں آئے گی تو بھوک سے بے بس ہو کر وہ ’ضَرِیْعٌ‘ زہر مار کریں گے جو دوزخیوں کے لیے وہاں موجود ہو گی۔ اس سے اسی نوع کی بعض دوسری چیزوں کی نفی نہیں ہوتی جو وہاں موجود ہوں گی اور دوزخی ان کو کھانے پر مجبور ہوں گے۔ چنانچہ دوسرے مقام میں مذکور ہے کہ ان گنہ گاروں کا کھانا ’زقّوم‘ بھی ہو گا:

إِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوۡمِ ۵ طَعَامُ الْأَثِیْمِ (الدخان ۴۴: ۴۳-۴۴)
’’بے شک زقّوم کی جھاڑی گنہ گاروں کی غذا ہو گی۔‘‘

اسی طرح ایک مقام میں ’غِسْلِیْن‘ کا بھی ذکر آیا ہے:

وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ ۵ لَا یَأْکُلُہٗٓ إِلَّا الْخَاطُِوۡنَ (الحاقہ ۶۹: ۳۶-۳۷)
’’اور ان کی غذا زخموں کا دھون ہو گی۔ جس کوصرف گنہ گار ہی کھا سکیں گے۔‘‘

اس سے واضح ہوا کہ دوزخیوں کو کوئی چیز کھانے کی نہیں ملے گی، صرف وہ چیزیں ملیں گی جو نہ صرف یہ کہ کھانے کی ہیں نہیں بلکہ وہ ایسی ہیں کہ دوزخیوں کے سوا کوئی ان کو نگل بھی نہیں سکتا۔

جاوید احمد غامدی

اُن کے لیے جھاڑ کانٹوں کے سوا کوئی کھانا نہ ہو گا۔

اصل الفاظ ہیں: ’لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ‘۔ اِن میں استثنا منقطع ہے، یعنی کھانے کی کوئی چیز اُن کے لیے سرے سے وہاں ہو گی ہی نہیں۔ ہاں، کچھ ہو گا تو جھاڑ کانٹے اور اِس طرح کی دوسری چیزیں ہوں گی جنھیں وہ بے بسی کے عالم میں کھانے پر مجبور ہوں گے۔

ابو الاعلی مودودی

خاردار سوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا ان کے لیے نہ ہوگا،

قرآن مجید میں کہیں فرمایا گیا ہے کہ جہنم کے لوگوں کو زقوم کھانے کے لیے دیا جائے گا کہیں ارشاد ہوا ہے کہ ان کے لیے غسلین (زخموں کے دھو ون) کے سوا کوئی کھانا نہ ہوگا، اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ انہیں خاردار سوکھی گھاس کے سوا کچھ کھانے کو نہ ملے گا۔ ان بیانات میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جہنم کے بہت سے درجے ہوں گے جن میں مختلف قسم کے مجرمین اپنے جرائم کے لحاظ سے ڈالے جائیں گے اور مختلف قسم کے عذاب ان کو دیے جائیں گے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ زقوم کھانے سے بچنا چاہیں گے تو غسلین ان کو ملے گا، اس سے بھی بچنا چاہیں تو خاردار گھاس کے سوا کچھ نہ پائیں گے، غرض کوئی مرغوب غذا بہرحال انہیں نصیب نہ ہوگا۔

جونا گڑھی

ان کے لئے کانٹے دار درختوں کے سوا اور کچھ کھانا نہ ہوگا۔

 یہ ایک کانٹے دار درخت ہوتا ہے جسے خشک ہونے پر جانور بھی کھانا پسند نہیں کرتے، بہرحال یہ بھی زقوم کی طرح ایک نہایت تلخ، بدمزہ، اور ناپاک ترین کھانا ہوگا جو جزو بدن بنے گا نہ اس سے بھوک ہی مٹے گی۔ 

لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِى مِن جُوعٍ

امین احسن اصلاحی

جو نہ موٹا کریں گے نہ بھوک ہی کو ماریں گے۔

’لَا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنۡ جُوۡعٍ‘۔ غذا کے اصل فائدے دو ہیں۔ جسم کی توانائی کو قائم رکھنا اور بھوک کی اذیت کو رفع کرنا۔ اس سے نہ جسم میں توانائی آئے گی اور نہ بھوک ہی رفع ہو گی۔ گویا صرف اس کے چبانے اور نگلنے کی اذیت ان کے حصے میں آئے گی۔

جاوید احمد غامدی

جو نہ توانا کرے گا، نہ بھوک مٹائے گا۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

جو نہ موٹا کرے نہ بھوک مٹائے۔

n/a

جونا گڑھی

جو نہ موٹا کرے گا نہ بھوک مٹائے گا۔

n/a

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ

امین احسن اصلاحی

کتنے چہرے اس دن شگفتہ ہوں گے۔

اہل ایمان کا بیان: اب یہ دوسرے گروہ، یعنی اہل ایمان کا بیان ہے۔ فرمایا کہ بہت سے چہرے اس دن شگفتہ و شاداب ہوں گے۔

یہی بات سورۂ قیامہ میں ’وُجُوۡہٌ یَوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ۵ إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ‘ (۲۲-۲۳) کے الفاظ میں گزر چکی ہے۔ اوپر منکرین قیامت کے چہروں کی مایوسی، افسردگی اور تھکاوٹ کا ذکر ہوا، یہ ان کے مقابل میں ان لوگوں کا بیان ہے جنھوں نے دنیا کو آخرت کے لیے برتا اور اس امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ ان کے چہروں پر ابدی فتح مندی کی بشاشت اور شگفتگی جھلک رہی ہو گی۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کے برخلاف) کتنے چہرے اُس دن پررونق ہوں گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے،

n/a

جونا گڑھی

بہت سے چہرے اس دن تروتازہ اور (آسودہ) حال ہونگے۔

n/a

لِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ

امین احسن اصلاحی

اپنی کوشش پر شاد و مطمئن۔

’لِسَعْیِہَا رَاضِیَۃٌ‘۔ یہ بشاشت ان کے چہروں پر اس وجہ سے نمایاں ہو گی کہ انھوں نے دنیا میں آخرت کے لیے جو کمائی کی اس کا حاصل ان کے سامنے ہو گا اور وہ اس سے پوری طرح مطمئن ہوں گے کہ ان کے ہر عمل کا صلہ ان کو بھرپور ملا اور ان کے رب نے جو وعدے ان سے کیے وہ سب پورے کیے۔ اس کی تفصیل آگے کی آیات میں بھی موجود ہے اور اس کے بعد والی سورہ میں بھی اس کا ایک خاص پہلو بیان ہوا ہے۔ وہاں ان شاء اللہ ہم اس کے بعض دقیق مضمرات پر روشنی ڈالیں گے۔

جاوید احمد غامدی

اپنی سعی پر راضی۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اپنی کار گزاری پر خوش ہوں گے ،

یعنی دنیا میں جو سعی و عمل کر کے وہ آئے ہوں گے اس کے بہترین نتائج آخرت میں دیکھ کر خوش ہوجائیں گے۔ انہیں اطمینان ہوجائے گا کہ دنیا میں ایمان اور صلاح وتقوی کی زندگی اختیار کر کے انہوں نے نفس اور اس کی خواہشات کی جو قربانیاں کیں، فرائض کو ادا کرنے میں جو تکلیفیں اٹھائیں، احکام الہی کی اطاعت میں جو زحمتیں برداشت کیں، معصیتوں سے بچنے کی کوشش میں جو نقصانات اٹھائے اور جن فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کرلیا یہ سب کچھ فی الواقع بڑے نفع کا سودا تھا۔

جونا گڑھی

اپنی کوشش پر خوش ہونگے۔

n/a

فِى جَنَّةٍ عَالِيَةٍ

امین احسن اصلاحی

اونچے باغ میں۔

’فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ‘۔ یہ آخرت میں ان کے مستقر و مقام کا پتا دیا ہے کہ وہ اونچے باغ میں ہوں گے۔ اونچے باغ، یعنی وہ باغ بلندی پر ہوں گے۔ ایک اچھے باغ کا تصور اہل عرب کے ہاں یہ ہے کہ باغ بلندی پر ہو، اس کے حاشیہ پر کھجوروں کے اونچے درخت ہوں تاکہ وہ دور ہی سے دلکش بھی معلوم ہو اور سموم و سیلاب وغیرہ سے محفوظ بھی رہے۔

جاوید احمد غامدی

اونچے باغ میں۔

یعنی اونچے باغ میں۔اہل عرب کے ہاں ایک اچھے باغ کا تصور یہی تھا کہ وہ بلندی پر ہو، اُس کے حاشیے پر کھجوروں کے اونچے درخت ہوں تاکہ دور ہی سے نگاہوں کو اپنی طرف کھینچے اور بادسموم کی تاخت اور سیلاب کے حملوں سے محفوظ رہے۔

ابو الاعلی مودودی

عالی مقام جنت میں ہوں گے،

n/a

جونا گڑھی

بلند وبالا جنتوں میں ہونگے۔

n/a

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >