سَبَّحَ لِلَّـهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ

امین احسن اصلاحی

اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہیں ساری چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ غالب و حکیم ہے

تسبیح کی حقیقت اور اس کے مختلف پہلو: لفظ ’تسبیح‘ کی وضاحت جگہ جگہ ہو چکی ہے۔ اس کے اندر تنزیہہ کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اور بندگی و عبادت کا بھی۔ یہ چیز قول سے بھی ہوتی ہے اور عمل سے بھی۔ زبان سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا بھی تسبیح ہے اور نماز پڑھنا اور اس کے حضور میں قیام، رکوع اور سجود بھی تسبیح ہے۔ اس کی شکلیں مختلف ہیں۔ کائنات کی ہر چیز کسی نہ کسی صورت میں اپنے رب کی تسبیح کرتی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن میں یہ حقیقت بھی واضح فرمائی گئی ہے کہ جو انسان طوعاً تسبیح نہیں کرتے ہیں انھیں تکوینی دائرے میں کرہاً یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر لوگوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار اور دائرۂ تکوین میں بے ربطی نہ پیدا کریں۔ اس نکتہ کی وضاحت اس کے محل میں ہم کر چکے ہیں۔

کائنات کی تمام چیزوں کی تسبیح کا حوالہ قرآن میں جہاں جہاں دیا گیا ہے وہ بالعموم تین مقاصد کو سامنے رکھ کر دیا گیا ہے۔
ایک یہ کہ لوگوں کو اس حق کی یاددہانی کی جائے کہ جب اس کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے خالق و مالک کا حق پہچانتی ہے اور اس کی تسبیح کرتی ہے تو انسان پر بدرجۂ اولیٰ یہ حق عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کی تسبیح کرے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اشرف المخلوقات کا درجہ بخشا اور اپنی خلافت کی خلعت سے نوازا ہے۔
دوسرا یہ کہ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے اہل ایمان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ دنیا میں ناسپاسوں کی کثرت دیکھ کر بددل اور پست حوصلہ نہ ہوں۔ اگر انسانوں میں اپنے رب کا حق پہچاننے والے تھوڑے ہیں تو یہ چیز دل برداشتہ ہونے کی نہیں ہے۔ باقی ساری کائنات کی ہر چیز اپنے رب کی تسبیح و تقدیس میں سرگرم ہے۔ اس راہ کا مسافر تنہا نہیں ہے بلکہ قافلوں سے بھری ہوئی راہ یہی ہے۔
تیسرا یہ کہ ان لوگوں سے اظہار بے نیازی کیا جائے جو یاددہانی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی بندگی سے گریز کر رہے ہیں اور ان کو بتایا جائے کہ اگر وہ خدا کی تسبیح نہیں کرتے ہیں تو خدا ان کی تسبیح کا محتاج نہیں ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز اس کی تسبیح کر رہی ہے، اگر کچھ بدقسمت انسان اس سے گریز کر رہے ہیں تو وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑ رہے ہیں بلکہ اپنا ہی بگاڑ رہے ہیں۔
قرآن میں بعض جگہ یہ تینوں مطالب پیش نظر ہیں۔ بعض جگہ ان میں سے ایک یا دو مدنظر ہیں۔ ان میں امتیاز کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے اگر سررشتۂ نظم پر نگاہ جمی رہے تو غور کرنے والا آسانی سے امتیاز کر لیتا ہے۔
صفات عزیز و حکیم کے تقاضے: ’وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ چونکہ ’عزیز‘ اور ساتھ ہی ’حکیم‘ ہے اس وجہ سے وہی حق دار ہے کہ سب اسی کی تسبیح و بندگی کریں۔ ’عزیز‘ یعنی ہر چیز پر غالب، ہر اختیار کا مالک، کوئی نہیں جو اس کی دسترس سے باہر ہو، کوئی نہیں جو اس کو دبا سکے یا اپنے زور سے اس پر اثرانداز ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حکیم بھی ہے اس وجہ سے اس کا ہر فعل حکمت، عدل اور رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے زور میں جو چاہے کر ڈالے خواہ اس میں کوئی حکمت و غایت ہو یا نا ہو۔ یہ کائنات اس کی قدرت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے اور یہ اپنے وجود سے شہادت دے رہی ہے کہ اس کو وجود میں لانے والا ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر کام میں اتھاہ حکمت پوشیدہ ہے۔ اس کی یہ حکمت مقتضی ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں ان لوگوں کو صلہ عطا فرمائے جنھوں نے اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر زندگی گزاری اور ان لوگوں کو سزا دے جنھوں نے اس کے حدود سے تجاوز کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو یہ اس کی عزت و قدرت کے منافی ہے اور اگر کر سکنے کے باوصف نہ کرے تو یہ اس کی حکمت اور اس کے عدل و رحمت کے منافی ہے۔ اس کے بغیر یہ دنیا بازیچۂ اطفال اور ایک اندھیرنگری بن کے رہ جاتی ہے اور ایک عزیز و حکیم کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ اتنا بڑا کارخانہ محض کھیل تماشے کے طور پر بنا ڈالے۔

جاوید احمد غامدی

زمین اور آسمانوں کی ہر چیز نے اللہ کی تسبیح کی ہے اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے

یعنی کائنات کی ہر چیز نے ہمیشہ اپنے وجود سے اِس حقیقت کا اظہار و اعلان کیا ہے کہ اُس کے خالق نے دنیا محض کھیل تماشے کے لیے نہیں بنائی ، وہ اِس سے پاک ہے کہ اِس طرح عبث کوئی کام کرے۔ چنانچہ انسان کو بھی یہی کرنا چاہیے ۔ ورنہ وہ زبردست ہے، ایک دن پکڑ بلائے گا اور اُسے لازماً پکڑ بلانا چاہیے ، اِس لیے کہ وہ حکیم بھی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ظالموں اور نیکوکاروں کو وہ انجام کے لحاظ سے یکساں کر دے؟

ابو الاعلی مودودی

اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے۔ اور ہی زبر دست دانا ہے ۔

یعنی ہمیشہ کائنات کی ہر چیز نے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کیا ہے کہ اس کا خالق و پروردگار ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور خطا اور برائی سے پاک ہے۔ اس کی ذات پاک ہے، اس کی صفات پاک ہیں، اس کے افعال پاک ہیں، اور اس کے احکام بھی، خواہ وہ تکوینی احکام ہوں یا شرعی، سراسر پاک ہیں۔ یہاں سَبَّحَ صیغہ ماضی استعمال کیا گیا ہے، اور بعض دوسرے مقامات پر یُسَبِّحُ صیغہ مضارع استعمال ہوا ہے جس میں حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم شامل ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اپنے خالق و رب کی پاکی بیان کرتا رہا ہے، آج بھی کر رہا ہے، اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔

اصل الفاظ ہیں ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ لفظ ھُوَ کو پہلے لانے سے خود بخود حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے، یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ عزیز اور حکیم ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی ایسی ہستی ہے جو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی۔ عزیز کے معنی ہیں ایسا زبردست اور قادر و قاہر جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی، جس کی مزاحمت کسی کے بس میں نہیں ہے، جس کی اطاعت ہر ایک کو کرنی ہی پڑتی ہے خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے، جس کی نافرمانی کرنے والا اس کی پکڑ سے کسی طرح بچ ہی نہیں سکتا۔ اور حکیم کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت اور دانائی کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کی تخلیق، اس کی تدبیر، اس کی فرمانروائی، اس کے احکام، اس کی ہدایات، سب حکمت پر مبنی ہیں۔ اس کے کسی کام میں نادانی اور حماقت و جہالت کا شائبہ تک نہیں ہے۔

اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ قرآن مجید میں کم ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ قوی، مقتدر، جبار اور ذو انتقام جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن سے محض اس کے اقتدار مطلق کا اظہار ہوتا ہے، اور یہ صرف ان مواقع پر ہوا ہے جہاں سلسلہ کلام اس بات کا متقاضی تھا کہ ظالموں اور نافرمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جائے۔ اس طرح کے چند مقامات کو چھوڑ کر باقی جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے عزیز کا لفاظ استعمال کیا گیا ہے، وہاں اس کے ساتھ حکیم، علیم، رحیم، غفور، وہاب اور حمید میں سے کوئی لفظ ضرور لایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہستی ایسی ہو جسے بےپناہ طاقت حاصل ہو مگر اس کے ساتھ وہ نادان ہو، جاہل ہو، بےرحم ہو، در گزر اور معاف کرنا جانتی ہی نہ ہو، بخیل ہو، اور بدسیرت ہو تو اس کے اقتدار کا نتیجہ ظلم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے، یا وہ بےرحم اور سنگدل ہے، یا بخیل اور تنگ دل ہے، یا بد خو اور بد کردار ہے، طاقت کے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم وعلیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے روک نہیں سکتا، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہے، اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے۔ علیم بھی ہے، جو فیصلہ بھی کرتا ہے ٹھیک ٹھیک علم کے مطابق کرتا ہے۔ رحیم بھی ہے، اپنے بےپناہ اقتدا کو بےرحمی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ غفور بھی ہے، اپنے زیر دستوں کے ساتھ خردہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے۔ وہاب بھی ہے، اپنی رعیت کے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ بےانتہا فیاضی کا برتاؤ کر رہا ہے۔ اور حمید بھی ہے، تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔

قرآن کے اس بیان کی پوری اہمیت وہ لوگ زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو حاکمیت (Sovereignty) کے مسئلے پر فلسفہ سیاست اور فلسفہ قانون کی بحثوں سے واقف ہیں۔ حاکمیت نام ہی اس چیز کا ہے کہ صاحب حاکمیت غیر محدود اقتدار کا مالک ہو، کوئی داخلی و خارجی طاقت اس کے حکم اور فیصلے کو نفاذ سے روکنے، یا اس کو بدلنے، یا اس پر نظر ثانی کرنے والی نہ ہو، اور کسی کے لیے اس کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو۔ اس غیر محدود اقتدار کا تصور کرتے ہی انسانی عقل لازماً یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ایسا اقتدار جس کو بھی حاصل ہو اسے بےعیب اور علم و حکمت میں کامل ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر اس اقتدار کا حامل نادان، جاہل، بےرحم، اور بدخو ہو تو اس کی حاکمیت سراسر ظلم و فساد ہوگی۔ اسی لیے جن فلسفیوں نے کسی انسان، یا انسانی ادارے، یا انسانوں کے مجموعے کو حاکمیت کا حامل قرار دیا ہے ان کو یہ فرض کرنا پڑا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا ہوگا۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ تو غیر محدود حاکمیت فی الواقع کسی انسانی اقتدار کو حاصل ہو سکتی ہے، اور نہ یہی ممکن ہے کہ کسی بادشاہ، یا پارلیمنٹ، یا قوم، یا پارٹی کو ایک محدود دائرے میں جو حاکمیت حاصل ہو اسے وہ بےعیب اور بےخطا طریقے سے استعمال کرسکے۔ اس لیے کہ ایسی حکمت جس میں نادانی کا شائبہ نہ ہو اور ایسا علم جو تمام متعلقہ حقائق پر حاوی ہو، سرے سے پوری نوع انسانی ہی کو حاصل نہیں ہے کجا کہ وہ انسانوں میں سے کسی شخص یا ادارے یا قوم کو نصیب ہوجائے۔ اور اسی طرح انسان جب تک انسان ہے اس کا خود غرضی، نفسانیت، خوف، لالچ، خواہشات، تعصب، اور جذباتی رضا و غضب اور محبت و نفرت سے بالکل پاک اور بالاتر ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھ کر غور کرے تو اسے محسوس ہوگا کہ قرآن اپنے اس بیان میں درحقیقت حاکمیت کا بالکل صحیح اور مکمل تصور پیش کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ” عزیز ” یعنی اقتدار مطلق کا حامل اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے، اور اس غیر محدود اقتدار کے ساتھ وہی ایک ہستی ایسی ہے جو بےعیب ہے، حکیم وعلیم ہے، رحیم و غفور ہے اور حمید و وہاب ہے۔

جونا گڑھی

آسمانوں اور زمین میں جو ہے (سب) اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ زبردست با حکمت ہے۔

یہ تسبیح زبان حال سے نہیں، بلکہ زبان کی بات چیت سے ہے اسی لئے فرمایا گیا ' کہ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے۔
لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ

امین احسن اصلاحی

آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے

مزید صفات کا حوالہ: یعنی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، کوئی دوسرا اس کے اقتدار میں ساجھی نہیں ہے کہ کسی قسم کی مداخلت کر سکے۔ ’یُحْیٖ وَیُمِیْتُ‘ وہی زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے۔ یعنی جب زندگی اس کی بخشی ہوئی ہے اور موت بھی اسی کے حکم سے واقع ہوتی ہے تو اس کی بادشاہی میں کسی اور کی حصہ داری کی گنجائش کہاں سے نکلی!

’وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘۔ یعنی کوئی کام اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے کہ وہ کسی معاون و مددگار کا محتاج ہو۔ اپنی مملکت کے ایک ایک چپہ پر وہ خود قابض و متصرف ہے اور جو چاہے براہ راست اپنے کلمۂ کن سے کر سکتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اُسی کی ہے۔ وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے، زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

n/a

جونا گڑھی

آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے وہی زندگی دیتا ہے اور موت بھی وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

n/a

هُوَ ٱلْأَوَّلُ وَٱلْـَٔاخِرُ وَٱلظَّـٰهِرُ وَٱلْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ

امین احسن اصلاحی

وہی اول بھی ہے اور آخر بھی اور ظاہر بھی اور باطن بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔

احاطۂ قدرت کے بعد یہ اس کے احاطۂ علم کا بیان ہے کہ وہی اول ہے اور وہی آخر ہے۔ جب کچھ نہیں تھا وہ تھا اور جب کچھ نہیں ہو گا تب بھی وہ ہو گا۔ اسی نے ہر چیز کا آغاز کیا ہے اور بالآخر ہر چیز کی وراثت اسی کو لوٹنے والی ہے۔

’وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ‘ کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی ہے:

’انت الظاھر فلیس فوقک شئ وانت الباطن فلیس دونک شئ‘
(تو ظاہر ہے پس کوئی چیز تجھ سے اوپر نہیں اور تو باطن ہے پس کوئی چیز تجھ سے اوجھل نہیں)۔

آیت ۱۳ میں یہ الفاظ بالکل اسی معنی میں استعمال ہوئے ہیں جس معنی میں ہم ’اندر باہر‘ کے الفاظ بولتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کا علم اندر و باہر ہر چیز کو محیط ہے۔
’وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘۔ یہ ایک کلیہ کی شکل میں خلاصہ سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اس کے لیے ظاہر و باطن سب یکساں ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے

احاطۂ قدرت کے بعد اب یہ اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم کا بیان ہے کہ وہ زمان و مکان کی محدودیتوں سے بالاتر ہے۔ چنانچہ اول ہے، اُس سے پہلے کچھ نہیں ہے؛ آخر ہے، اُس کے بعد بھی کچھ نہیں ہے؛ ظاہر ہے، اُس کے اوپر کچھ نہیں ہے؛ باطن ہے، اُس کے نیچے بھی کچھ نہیں ہے۔ اُس کا علم ابتدا، انتہا اور اندر باہر ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی ، وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

یعنی جب کچھ نہ تھا تو وہ تھا اور جب کچھ نہ رہے تو وہ رہے گا۔ وہ سب ظاہروں سے بڑھ کر ظاہر ہے، کیونکہ دنیا میں جو کچھ بھی ظہور ہے اسی کی صفات اور اسی کے افعال اور اسی کے نور کا ظہور ہے۔ اور وہ ہر مخفی سے بڑھ کر مخفی ہے، کیونکہ حواس سے اس کی ذات کو محسوس کرنا تو درکنار، عقل و فکر و خیال تک اس کی کنہ و حقیقت کو نہیں پا سکتے۔ اس کی بہترین تفسیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں جنہیں امام احمد، مسلم، ترمذی، اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ سے اور حافظ ابو یعلیٰ موصلی نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے :

انت الاول فلیس قبلک شیءٍ تو ہی پہلا ہے، کوئی تجھ سے پہلے نہیں

وانت الاٰخر فلیس بعدک شیءٍ تو ہی آخر ہے، کوئی تیرے بعد نہیں

و انت الظاھر فلیس فوقک شئٍ تو ہی ظاہر ہے کوئی تجھ سے اوپر نہیں

و انت الباطن فلیس دونک شئٍ تو ہی باطن ہے، کوئی تجھ سے مخفی تر نہیں

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے لیے خلود اور ابدی زندگی کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے ساتھ یہ بات کیسے نبھ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر ہے، یعنی جب کچھ نہ رہے گا تو وہ رہے گا ؟ اس کا جواب خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے کہ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہ (القصص۔ 88) ۔ یعنی ” ہر چیز فانی ہے اللہ کی ذات کے سوا “۔ دوسرے الفاظ میں ذاتی بقا کسی مخلوق کے لیے نہیں ہے۔ اگر کوئی چیز باقی ہے یا باقی رہے تو وہ اللہ کے باقی رکھنے ہی سے باقی ہے۔ اور اس کے باقی رکھنے ہی سے باقی رہ سکتی ہے، ورنہ بذات خود اس کے سوا سب فانی ہیں۔ جنت اور دوزخ میں کسی کو خلود اس لیے نہیں ملے گا کہ وہ بجائے خود غیر فانی ہے، بلکہ اس لیے ملے گا کہ اللہ اس کو حیات ابدی عطا فرمائے گا۔ یہی معاملہ فرشتوں کا بھی ہے کہ وہ بذات خود غیر فانی نہیں ہیں۔ جب اللہ نے چاہا تو وہ وجود میں آئے، اور جب تک وہ چاہے اسی وقت تک وہ موجود رہ سکتے ہیں۔

جونا گڑھی

وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی، وہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے

 وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی، وہی ظاہر ہے۔ یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں، وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔ 

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا چھ دنوں میں پھر وہ عرش پر متکمن ہوا۔ وہ جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہوتے ہو اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ سب کو دیکھتا ہے

یہ اس احاطۂ علم و قدرت کی مزید تفصیل ہے کہ اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور ان کو پیدا کر کے ان کا انتظام دوسروں کے سر ڈال کر وہ کسی گوشے میں نہیں جا بیٹھا ہے بلکہ وہ بذات خود عرش حکومت پر متمکن ہو کر سارے انتظام کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ ’عرش‘ تعبیر ہے زمام اقتدار اور حکومت کی۔ ’فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ‘ کی وضاحت ہم دوسرے مقامات میں کرچکے ہیں کہ اس سے مراد ہمارے ایام نہیں بلکہ خدائی ایام ہیں۔

کائنات میں جو اہتمام ہے وہ اس کے بامقصد ہونے کی دلیل ہے: قرآن میں جہاں کہیں آسمانوں اور زمین کے چھ دنوں میں پیدا کیے جانے کا ذکر آیا ہے اس سے مقصود اس اہتمام خاص کی طرف ہم کو متوجہ کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے پیدا کرنے میں ملحوظ رکھا ہے۔ اور پھر اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے اس اہتمام سے پیدا کی ہے کس طرح ممکن ہے کہ اس کو پیدا کر کے وہ اس سے بالکل بے تعلق ہو کے بیٹھ رہے؟ نہ اس کے خیر سے اسے کوئی دلچسپی رہے، نہ اس کے شر سے اسے کوئی تعلق، لوگ جو دھاندلی چاہیں اس میں مچاتے پھریں اور وہ خاموش تماشائی کی طرح تماشا دیکھتا رہے! اگر وہ ایسا کرے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے یہ ساری کائنات محض ایک کھیل کے طور پر بنائی ہے جس میں اہتمام تو اس نے بہت صرف کیا مگر اس کا مقصد کچھ بھی نہیں۔
’یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْھَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْھَا وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ‘۔ یہ وضاحت ہے اس بات کی کہ وہ نہایت بیدار مغزی اور جزرسی کے ساتھ اپنی مملکت کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ فرمایا کہ زمین میں جو چیز داخل ہوتی ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے اور جو چیز نکلتی ہے اس کو بھی جانتا ہے۔ اسی طرح جو چیز آسمان سے اترتی ہے وہ بھی اس کے علم میں ہوتی ہے اور جو چیز اس میں چڑھتی ہے اس سے بھی وہ باخبر ہوتا ہے۔ نیز تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہی ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر (اُن کی تدبیر امور کے لیے) عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے، اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے، اور جہاں تم ہوتے ہو، وہ تمھارے ساتھ ہوتا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے دیکھتا ہے

اوپر جس احاطۂ علم و قدرت کا بیان ہے، یہ اُس کی مزید تفصیل ہے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا اور اُن کو پیدا کرکے وہ اُن سے بے تعلق نہیں ہو گیا، بلکہ اب اُن کا نظم و نسق بھی وہی چلا رہا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’قرآن میں جہاں کہیں آسمانوں اور زمین کے چھ دنوں میں پیدا کیے جانے کا ذکر آیا ہے، اُس سے مقصود اُس اہتمام خاص کی طرف ہم کو متوجہ کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے پیدا کرنے میں ملحوظ رکھا ہے ۔ اور پھر اِس سے یہ نتیجہ نکالاہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے اِس اہتمام سے پیدا کی ہے، کس طرح ممکن ہے کہ اُس کو پیدا کرکے وہ اُس سے بالکل بے تعلق ہو کے بیٹھ رہے؟ نہ اُس کے خیر سے اُسے کوئی دل چسپی رہے ، نہ اُس کے شر سے اُسے کوئی تعلق، لوگ جو دھاندلی چاہیں، اُس میں مچاتے پھریں اور وہ خاموش تماشائی کی طرح تماشا دیکھتا رہے! اگر وہ ایسا کرے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ اُس نے یہ ساری کائنات محض ایک کھیل کے طور پر بنائی ہے جس میں اہتمام تو اُس نے بہت صرف کیا، مگر اُس کا مقصد کچھ بھی نہیں۔‘‘(تدبرقرآن۸/ ۱۹۸)

یہ اُس بیدار مغزی اور جزرسی کی وضاحت ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی مملکت کے انتظامات کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا ۔ اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اتر تا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو 6 ۔ جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔

یعنی کائنات کا خالق بھی وہی ہے اور فرمانروا بھی وہی (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حواشی 41 ۔ 42 یونس، حاشیہ 4 ۔ الرعد، حواشی 2 تا 5 ۔ جلد چہارم، حٰم السجدہ، حواشی 11 تا 15) ۔

بالفاظ دیگر وہ محض کلیات ہی کا عالم نہیں ہے بلکہ جزئیات کا علم بھی رکھتا ہے۔ ایک ایک دانہ جو زمین کی تہوں میں جاتا ہے، ایک ایک پتی اور کونپل جو زمین سے پھوٹتی ہے، بارش کا ایک ایک قطرہ جو آسمان سے گرتا ہے، اور بخارات کی ہر مقدر جو سمندروں اور جھیلوں سے اٹھ کر آسمان کی طرف جاتی ہے، اس کی نگاہ میں ہے اس کو معلوم ہے کہ کونسا دانہ زمین میں کس جگہ پڑا ہے، تبھی تو وہ اسے پھاڑ کر اس میں سے کونپل نکالتا ہے اور اسے پرورش کر کے بڑھاتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ بخارات کی کتنی کتنی مقدار کہاں کہاں سے اٹھی ہے اور کہاں پہنچی ہے، تبھی تو وہ ان سب کو جمع کر کے بادل بناتا ہے اور زمین کے مختلف حصوں پر بانٹ کر ہر جگہ ایک حساب سے بارش برساتا ہے۔ اسی پر ان دوسری تمام چیزوں کی تفصیلات کو قیاس کیا جاسکتا ہے جو زمین میں جاتی اور اس سے نکلتی ہیں اور آسمان کی طرف چڑھتی اور اس سے نازل ہوتی ہیں۔ ان سب پر اللہ کا علم حاوی نہ ہو تو ہر چیز کی علیٰحدہ علیٰحدہ تدبیر اور ہر ایک کا انتہائی حکیمانہ طریقہ سے انتظام کیسے ممکن ہے۔

سورة الْحَدِیْد حاشیہ نمبر :6

یعنی کسی جگہ بھی تم اس کے علم، اس کی قدرت، اس کی فرمانروائی اور اس کی تدبیر و انتظام سے باہر نہیں ہو۔ زمین میں، ہوا میں، پانی میں، یا کسی گوشہ تنہائی میں، جہاں بھی تم ہو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم کہاں ہو۔ وہاں تمہارا زندہ ہونا بجائے خود اس کی علامت ہے کہ اللہ اسی جگہ تمہاری زندگی کا سامان کر رہا ہے۔ تمہارا دل اگر دھڑک رہا ہے۔ تمہارے پھیپھڑے اگر سانس لے رہے ہیں، تمہاری سماعت اور بینائی اگر کام کر رہی ہے تو یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ اللہ کے انتظام سے تمہارے جسم کے سب کل پرزے چل رہے ہیں۔ اور اگر کسی جگہ بھی تمہیں موت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے بقا کا انتظام ختم کر کے تمہیں واپس بلا لینے کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔

جونا گڑھی

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوگیا۔ اور وہ خوب جانتا ہے اس چیز کو جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسماں سے نیچے آئے اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو تم کر رہے ہو وہ اللہ دیکھ رہا ہے۔

  اس مفہوم کی آیات ( اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54؀) 7 ۔ الاعراف :54) ، (اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭمَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۝) 10 ۔ یونس :3) ، (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ ۭ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا شَفِيْعٍ ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ ۝) 32 ۔ السجدہ :4) وغیرھا من الآیات میں گزر چکی ہیں، ان کے حواشی ملاحظہ فرمالیے جائیں۔

  یعنی زمین میں بارش کے جو قطرے اور غلہ جات و میوہ جات کے جو بیج داخل ہوتے ہیں کی کیفیت کو وہ جانتا ہے۔ 

  جو درخت، چاہے وہ پھلوں کے ہوں یا غلوں کے یا زینت اور آرائش کے اور خوشبو والے پھولوں یہ جتنے بھی اور جیسے بھی باہر نکلتے ہیں۔ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسکو بھی جانتا ہے، اور کوئی دانہ کوئی زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔

  بارش، اولے، برف تقدیر اور وہ احکام، جو فرشتے لے کر اترتے ہیں۔

 فرشتے انسانوں کے جو عمل لے کر چڑھتے ہیں جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی طرف رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے چڑھتے ہیں۔

 یعنی تم خشکی میں ہو یا تری میں، رات ہو یا دن، گھروں میں ہو یا صحراؤں میں، ہر جگہ ہر وقت وہ اپنے علم وبصر کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارے ایک ایک عمل کو دیکھتا ہے، تمہاری ایک ایک بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ یہی مضمون (وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ ۭ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ ۝) 11 ۔ ہود :3) ۔ (سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ 10۝) 13 ۔ الرعد :10) اور دیگر آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ 

لَّهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَإِلَى ٱللَّـهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ

امین احسن اصلاحی

آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور تمام امور کا مرجع اللہ ہی ہے

یعنی اللہ تعالیٰ صرف ہر چیز سے واقف ہی نہیں ہے بلکہ عملاً تمام امور کا مرجع و ماویٰ بھی وہی ہے۔ سارے امور اسی کے حکم سے جاری ہوتے ہیں اور پھر ان سب کی رپورٹ اسی کے آگے پیش ہوتی ہے۔ اس کے کارندے جملہ ہدایات کے لیے اسی سے رجوع کرتے اوراپنی کارگزاریاں اسی کے حضور میں پیش کرتے ہیں۔ نہ کوئی اپنی صواب دید پر کچھ کرنے کا مجاز ہے اور نہ کوئی اس کے آگے مسؤلیت سے بری ہے۔

جاوید احمد غامدی

زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اُسی کی ہے اور تمام معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں

یعنی کوئی معاملہ کسی دوسرے کی صواب دید پر نہیں ہے۔ تمام امور اُسی کے حکم سے جاری ہوتے اور مآل کار اُسی کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیئے اسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

آسمانوں کی اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور تمام کام اس کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔

​n/a

يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ ۚ وَهُوَ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ

امین احسن اصلاحی

وہی داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور وہ سینوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے

یعنی یہ رات اور دن کا چکر جو چل رہا ہے نہ اپنے آپ چل رہا ہے اور نہ کوئی اور اس کو چلا رہا ہے بلکہ یہ اللہ ہی ہے جو اس کو چلا رہا ہے۔ وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور نکالتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے تعاقب میں برابر سرگرم تگاپو ہیں۔

’وَھُوَ عَلِیْمٌ م بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘۔ یعنی جب دن کی روشنی اور رات کی تاریکی دونوں کا لانے والا وہی ہے۔ وہی دن کی روشنی نمودار کر کے رات کی عالم گیر تاریکی کو کافور اور اس کی ڈھانکی ہوئی ہر چیز کو بے نقاب کرتا ہے تو اس سے کوئی چیز کس طرح مخفی رہ سکتی ہے۔ وہ ہر مخفی سے مخفی راز یہاں تک کہ سینوں کے بھیدوں سے بھی پوری طرح باخبر ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ سینوں کے بھید تک جانتا ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔

n/a

جونا گڑھی

وہی رات کو دن میں لے جاتا ہے اور وہی دن کو رات میں داخل کردیتا ہے اور سینوں کے بھید کا پورا عالم ہے۔

​n/a

ءَامِنُوا۟ بِٱللَّـهِ وَرَسُولِهِۦ وَأَنفِقُوا۟ مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَأَنفَقُوا۟ لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ

امین احسن اصلاحی

ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اس مال میں سے جس میں اس نے تم کو امین بنایا ہے۔ پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں اور خرچ کریں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے

عام خطاب سے منافقین کو تنبیہ: ’اٰمِنُوْا‘ کا خطاب اگرچہ بظاہر عام ہے لیکن آگے قرائن سے واضح ہو جائے گا کہ روئے سخن درحقیقت خام قسم کے مسلمانوں اور منافقین کی طرف ہے جو اللہ اور رسول پر ایمان کا دعویٰ تو کر بیٹھے لیکن جب اس ایمان کے مطالبے، انفاق اور جہاد کی صورت میں، سامنے آئے تو ان سے کترانے اور منہ چھپانے لگے۔ اس طرح کے مدعیان ایمان سے خطاب کر کے فرمایا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ۔ ظاہر ہے کہ یہاں فعل ’اٰمِنُوْا‘ اپنے حقیقی اور کامل معنی میں ہے جس طرح

’یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا‘
(اے وہ لوگو جو ایمان کے مدعی ہو سچا اور پکا ایمان لاؤ)

میں ہے۔ فعل کے اپنے ابتدائی معنی اور اپنے کامل معنی میں استعمال کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔
ایمان کا لازمی تقاضا: ’وَأَنفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُم مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ‘۔ یہ اس ایمان کا لازمی تقاضا بھی بیان ہوا ہے اور اس کی نہایت واضح عقلی اور فطری دلیل بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول پر ایمان کا حق صرف ’اٰمَنَّا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ‘ کے اقرار و اظہار سے نہیں ادا ہو جاتا بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جب اللہ کی راہ میں مال و جان کی قربانی کی دعوت دی جائے تو اس پر لبیک کہو۔ جو لوگ مال بھی خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ان سے جان کی قربانی کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے! اور جو نہ مال قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں نہ جان، ان کے دعوائے ایمان کی کیا وقعت ہے۔
مال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے: ’مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ‘۔ یعنی اس مال کے متعلق تمہیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تم نہ تو اس کے خالق ہو نہ مالک بلکہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں اس میں خلیفہ بنایا ہے کہ تم اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر اس میں تصرف کرو اور اس کے حضور میں اس کی پائی پائی کی جواب دہی کے لیے تیار رہو۔ مطلب یہ ہوا کہ جب تم اس مال کے خالق و مالک نہیں بلکہ صرف اس کے امین ہو تو جب اس مال کے خرچ کرنے کا مطالبہ اسی کی طرف سے ہو رہا ہے جس نے تم کو اس کا امین بنایا ہے تو اس سے بخالت کرنے کے کیا معنی؟
انفاق ایمان کی تصدیق: ’فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنکُمْ وَاَنفَقُوْا لَہُمْ أَجْرٌ کَبِیْرٌ‘۔ یہاں ’اٰمَنُوْا‘ کے بعد ’اَنفَقُوْا‘ ایمان کی تصدیق اور شہادت کے طور پر آیا ہے۔ یعنی جو لوگ ایمان کا اظہار کرنے کے بعد اپنے ’انفاق‘ سے اپنے اس اقرار کی تصدیق کر دیں گے وہ مطمئن رہیں کہ ان کا یہ سودا خسارے کا سودا نہیں ہے بلکہ اللہ کے ہاں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ وہ ایک کا دس پائیں گے تو ایسے نفع بخش کاروبار میں سرمایہ لگانے سے وہ کیوں گھبرائیں۔
یہاں وہ بات یاد رہے جس کی طرف اوپر ہم نے اشارہ کیا ہے کہ سورہ کی تمہید میں جو صفات الٰہی بیان ہوئی ہیں وہ بمنزلہ ایک آئینہ کے ہیں تاکہ اس کو سامنے رکھ کر وہ لوگ اپنے اخلاق و کردار کو سنواریں جنھوں نے ایمان کا دعویٰ کیا ہے۔ اوپر ارشاد ہوا ہے کہ اللہ ہی اول و آخر ہے اور ساری چیزیں اسی کی طرف لوٹنے والی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اصل حقیقت یہ ہے تو اس دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی حاصل ہوا ہے وہ اس کا مالک نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا امین ہے تو جب اصل مالک اللہ ہے تو اس کا مال اسی سے دریغ رکھنے کے کیا معنی!

جاوید احمد غامدی

(اِس لیے تم بھی اللہ کی تسبیح کرو اور) اللہ اور اُس کے رسول پر فی الواقع ایمان لاؤ اور جن چیزوں کا اللہ نے تمھیں امین بنایا ہے، اُن میں سے خرچ کرو۔ چنانچہ تم میں سے جو (اِس طرح) ایمان لائے اور اُنھوں نے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا ہے، اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے

اصل میں فعل ’اٰمِنُوْا‘ آیا ہے۔ آگے کے مضمون سے واضح ہے کہ یہ اپنے حقیقی اور کامل مفہوم میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان کا دعویٰ ہے تو ایمان لاؤ جس طرح کہ ایمان لانے کا حق ہے، اِس لیے کہ جب معاملہ اُس پروردگار سے ہے جس کی صفات اوپر بیان ہوئی ہیں تو محض ایمان کا دعویٰ کر لینے سے تو تم اُسے راضی نہیں کر سکتے۔

یہ اُس خرچ کی ترغیب ہے جو زمانۂ رسالت میں جہاد و قتال کی ضرورتوں کے لیے مطلوب تھا۔ آگے کی آیات سے اِس کی وضاحت ہو جائے گی۔

ابو الاعلی مودودی

ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے ۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لیئے بڑا اجر ہے

یہ خطاب غیر مسلموں سے نہیں ہے، بلکہ بعد کی پوری تقریر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ مخاطب وہ مسلمان ہیں جو کلمہ اسلام کا اقرار کر کے ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہوچکے تھے، مگر ایمان کے تقاضے پورے کرنے اور مومن کا سا طرز عمل اختیار کرنے سے پہلو تہی کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے کے ساتھ ہی فوراً ان سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے مصارف میں دل کھول کر اپنی حصہ ادا کرو، اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تم میں سے جو فتح سے پہلے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کرے گا اس کا درجہ ان لوگوں سے بلند تر ہوگا جو بعد میں یہ خدمات انجام دیں گے۔ غیر مسلم کو دعوت ایمان دینے کی صورت میں تو پہلے اس کے سامنے ایمان کے ابتدائی تقاضے پیش کیے جاتے ہیں نہ کہ انتہائی۔ اس لیے فحوائے کلام کے لحاظ سے یہاں اٰمِنُوْا باللہِ وِرَسْوْلِہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوگئے ہو، اللہ اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانو اور وہ طرز عمل اختیار کرو جو اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔

اس مقام پر خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں ہے، بلکہ آیت نمبر 10 کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں اس سے مراد اس جد و جہد کے مصارف میں حصہ لینا ہے جو اس وقت کفر کے مقابلے میں اسلام کو سر بلند کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں برپا تھی۔ خاص طور پر دو ضرورتیں اس وقت ایسی تھیں جن کے لیے اسلامی حکومت کو مالی مدد کی سخت حاجت در پیش تھی ایک، جنگی ضروریات۔ دوسرے، ان مظلوم مسلمانوں کو سہارا دینا جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عرب کے ہر حصے سے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے اور آ رہے تھے۔ مخلص اہل ایمان ان مصارف کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذات پر اتنا بوجھ برداشت کر رہے تھے جو ان کی طاقت اور وسعت سے بہت زیادہ تھا، اور اسی چیز کی داد ان کو آگے آیات 10 ۔ 12 ۔ 18 ۔ اور 19 میں دی گئی ہے۔ لیکن مسلمانوں کے گروہ میں بکثرت اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ایسے موجود تھے جو کفر و اسلام کی اس کشمکش کو محض تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے اور اس بات کا انہیں کوئی احساس نہ تھا کہ جس چیز پر ایمان لانے کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اس کے کچھ حقوق بھی ان کی جان و مال پر عائد ہوتے ہیں۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اس آیت کے مخاطب ہیں۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ سچے مومن بنو اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔

اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے پاس ہے یہ دراصل تمہارا ذاتی مال نہیں بلکہ اللہ کا بخشا ہوا مال ہے۔ تم بذات خود اس کے مال نہیں ہو، اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے یہ تمہارے تصرف میں دیا ہے۔ لہٰذا مال کے اصل مالک کی خدمت میں اسے صرف کرنے سے دریغ نہ کرو۔ نائب کا یہ کام نہیں ہے کہ مالک کے مال کو مالک ہی کے کام میں خرچ کرنے سے جی چرائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مال نہ ہمیشہ سے تمہارے پاس تھا نہ ہمیشہ تمہارے پاس رہنے والا ہے۔ کل یہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس تھا، پھر اللہ نے تم کو ان کا جانشین بنا کر اسے تمہارے حوالہ کیا، پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا اور کچھ دوسرے لوگ اس پر تمہارے جانشین بن جائیں گے۔ اس عارضی جانشینی کی تھوڑی سی مدت میں، جبکہ یہ تمہارے قبض و تصرف میں ہے، اسے اللہ کے کام میں خرچ کرو، تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی اجر تمہیں حاصل ہو۔ یہی بات ہے جس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ ترمذی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپ گھر میں تشریف لائے تو پوچھا بکری میں سے کیا باقی رہا ؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا مابَقِیَ الّا کَتِفُھا ” ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا ” فرمایا بقی کلّھا غیر کتفھا ” ایک شانہ کے سوا ساری بکری بچ گئی ” یعنی جو کچھ خدا کی راہ میں صرف ہوا وہی دراصل باقی رہ گیا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ کس صدقے کا اجر سب سے زیادہ ہے ؟ فرمایا اَنْ تَصَدَّقَ وانت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمَلُ الغِنیٰ ، ولا تُمْھِل حتّیٰ اذا بلغت الحلقوم قلت لفلان کذا ولفلان کذا وقد کان لفلان۔ ” یہ کہ تو صدقہ کرے اس حال میں کہ تو صحیح و تندرست ہو، مال کی کمی کے باعث اسے بچا کر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اسے کسی کام میں لگا کر زیادہ کما لینے کی امید رکھتا ہو۔ اس وقت کا انتظار نہ کر کہ جب جان نکلنے لگے تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ فلاں کو۔ اس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے “۔ (بخاری و مسلم) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا : یقول ابن اٰدم مالی مالی، وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت، او لبست فابلیتَ ، او تصدقت فامضیت ؟ وما سویٰ ذٰلک فذاھب و تارکہ للناس۔ ” آدمی کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ تیرے مال میں سے تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کردیا، یا پہن کر پرانا کردیا، یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا ؟ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے ” (مسلم) ۔

یہاں پھر جہاد میں مال خرچ کرنے کو ایمان کا لازمی تقاضا اور اخلاص فی الایمان کی ضروری علامت قرار دیا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر، گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ حقیقی اور مخلص مومن وہی ہے جو ایسے موقع پر مال صرف کرنے سے جی نہ چرائے۔

جونا گڑھی

اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا۔

​n/a

وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِٱللَّـهِ ۙ وَٱلرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا۟ بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَـٰقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

امین احسن اصلاحی

اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لا رہے ہو درآنحالیکہ رسول تم کو تمہارے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے مضبوط عہد لے چکا ہے، اگر تم مومن ہو

یہ اس طرح کے کمزور مسلمانوں کے لیے نصیحت بانداز ملامت ہے کہ جب تم رسول سے ’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘ کا عہد کر چکے ہو تو اس عہد کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم اترے اور رسول جس بات کی دعوت دیں اس پر ’اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا‘ کہتے ہوئے عمل کرو لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ رسول، اللہ کی راہ میں انفاق کی دعوت دے رہا ہے اور تم منہ چھپا پھر رہے ہو! تو یہ کس قسم کا عہد اور کس نوع کا ایمان ہے! اور جب آج تمہارے ایمان اور عہد کا یہ حال ہے جب کہ رسول تمہارے اندر موجود ہے اور بذات خود تمہیں ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی دعوت دے رہا ہے تو کل تمہارا کیا حال ہو گا جب رسول تمہارے درمیان موجود نہیں ہو گا۔

اس آیت سے دو باتیں نہایت واضح طور پر سامنے آئیں۔
ایک یہ کہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ آدمی ہر اس چیز پر ایمان لائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اور رسول نے جس کی دعوت دی۔ ان میں سے کسی ایک چیز کا انکار بھی سب کے انکار کے ہم معنی ہے۔
دوسری یہ کہ ایمان عمل ہی سے متشکّل اور وجود پذیر ہوتا ہے اور انفاق کو اس کے نشوونما اور اس کے تغذیہ و تقویت میں خاص دخل ہے چنانچہ اسی بنا پر یہاں انفاق کی دعوت کو ایمان کی دعوت سے تعبیر فرمایا ہے۔
میثاق سے سمع و طاعت کا عہد مراد ہے: ’میثاق‘ سے مراد میرے نزدیک یہاں سمع و طاعت کا وہ عہد ہے جو ہر مسلمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے وقت کرنا پڑتا۔ استاذ امام رحمۃ اللہ کا رجحان اس عہد کی طرف معلوم ہوتا ہے جس کا ذکر سورۂ آل عمران کی آیت ۸۰ میں ہے۔ میں نے اس پر غور کیا لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ دوسرے سیاق و سباق کی بات ہے، یہاں اس کا محل نہیں ہے۔ میری خیال کی تائید سورۂ مائدہ کی آیت ۷ سے بھی ہوتی ہے:

’وَاذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمۡ بِہٖٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا‘
(پس اپنے اوپر اللہ کے فضل اور میثاق کو یاد رکھو جو اس نے تم سے لیا اور تم نے ’سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا‘ کہہ کر اس کا اقرار کیا)۔

جاوید احمد غامدی

اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ پر فی الواقع ایمان نہیں لاتے ہو، دراں حالیکہ رسول تمھیں تمھارے پروردگار پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے (سمع و طاعت کا) مضبوط عہد بھی لے چکا ہے، اگر تم واقعی مانتے ہو

اِس سے مراد وہ عہد ہے جس کا ذکر سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۷ میں کیا گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔

یعنی تم یہ غیر ایمانی روش اس حالت میں اختیار کر رہے ہو کہ اللہ کا رسول خود تمہارے درمیان موجود ہے اور دعوت ایمانی تمہیں کسی دور دراز واسطے سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ کے رسول کی زبان سے پہنچ رہی ہے۔

بعض مفسرین نے اس عہد سے مراد اللہ کی بندگی کا وہ عہد لیا ہے جو ابتدائے آفرینش میں آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی ذریت کو نکال کرلیا گیا تھا۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ عہد لیا ہے جو ہر انسان کی فطرت اور اس کی فطری عقل میں اللہ کی بندگی کے لیے موجود ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا وہ شعوری عہد ہے جو ہر مسلمان ایمان لا کر اپنے رب سے باندھتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اس عہد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے :۔

وَاذکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاتَّقُواللہَ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُورِ (المائدہ۔ 7)

یاد رکھو اس نعمت کو جو اللہ نے تم کو عطا کی ہے اور اس عہد و پیمان کو جو اللہ نے تم سے لیا ہے، جبکہ تم نے کہا ” ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی ” اور اللہ سے ڈرو اللہ دلوں کا حال جانتا ہے۔

حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت کی روایت ہے کہ :

بَایَعْنَا رَسُوْل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علی السمع والطاعۃ فی النشاط والکسل و علی النفقۃ فی العسر و الیُسر و علی الامر بالمعروف و النھی عن المنکر و علی ان نقول فی اللہ تعالیٰ و لا نخاف لَوْمَۃَ لَا ئمٍ (مسند احمد)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ ہم چستی اور سستی، ہر حال میں سمع و طاعت پر قائم رہیں گے، خوشحالی اور تنگ حالی، دونوں حالتوں میں راہ خدا پر خرچ کریں گے، نیکی کا حکم سنیں گے اور بدی سے منع کریں گے، اللہ کی خاطر حق بات کہیں گے اور اس معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔

جونا گڑھی

تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ حالانکہ خود رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور اگر تم مومن ہو تو وہ تم سے مضبوط عہد و پیمان بھی لے چکا ہے

  ابن کثیر نے اخذ کا فاعل الرسول کو بنایا ہے اور مراد وہ بیعت لی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام سے لیتے تھے کہ خوشی اور ناخوشی ہر حالت میں اطاعت کرنی ہے اور امام ابن جریر کے نزدیک اس کا فاعل اللہ ہے اور مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب انہیں آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تھا، جو عہد الست کہلاتا ہے، جس کا ذکر (وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٨٢؀ښ) 7 ۔ الاعراف :182) میں ہے۔ 

هُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِۦٓ ءَايَـٰتٍۭ بَيِّنَـٰتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۚ وَإِنَّ ٱللَّـهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جو اتارتا ہے اپنے بندے پر واضح آیات تاکہ تمہیں نکالے تاریکیوں سے روشنی کی طرف اور بے شک اللہ تمہارے حال پر نہایت ہی شفیق اور مہربان ہے

انفاق تاریکی سے روشنی میں لاتا ہے: یعنی رسول تمہیں انفاق کی جو دعوت دے رہے ہیں اس کو گراں اور اپنے لیے نقصان رساں سمجھ کر اس سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر یہ روشن آیتیں اس لیے نازل فرما رہا ہے کہ تمہیں خواہشات نفس اور حب دنیا کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور حب آخرت کی روشنی میں لائے۔ یہ نہ گمان کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں نقصانات اور مشقتوں میں ڈالنا چاہتا ہے۔ وہ رؤف رّحیم ہے۔ وہ تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کی بہبود کی راہ کھول رہا ہے نہ کہ تمہیں کسی زحمت و مشقت میں ڈال رہا ہے۔

’اٰیَاتٍ بَیِّنَاتٍ‘ سے مراد یوں تو وہ ساری ہی تعلیمات ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے لوگوں کو مل رہی تھیں لیکن یہاں خاص طور پر ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو انفاق و جہاد سے متعلق ہیں اور جن کا ایک حصہ آگے اس سورہ میں بھی نہایت روشن دلائل کے ساتھ آ رہا ہے۔
’ظُّلُمٰت‘ سے مراد شہوات نفس اور حب دنیا کی تاریکیاں ہیں جن کا واحد علاج اللہ کی راہ میں انفاق ہے اور ’نور‘ سے وہ نور مراد ہے جو انفاق سے پیدا ہوتا ہے اور جس کا ذکر آگے آیت ۱۲ میں آ رہا ہے۔
’رَؤُوْفٌ‘ اور ’رَحِیْمٌ‘ کی وضاحت ان کے محل میں ہم کر چکے ہیں۔ پہلے میں دفع شر کا پہلو غالب ہے، دوسرے میں اثبات خیر کا۔

جاوید احمد غامدی

وہی ہے جو اپنے بندے پر یہ روشن آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور بے حد مہربان ہے

اشارہ ہے خواہشات نفس اور حب دنیا کی اُن تاریکیوں کی طرف جو انسان کا احاطہ کیے رہتی ہیں۔

چنانچہ یہی روشنی ہے جو دنیا میں راہ دکھاتی ہے اور آخرت میں انسان کو اُس کی منزل مقصود تک پہنچا دیتی ہے۔
اصل میں ’رَءُ وْفٌ‘ اور ’رَحِیْمٌ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ زبان کے ادا شناس جانتے ہیں کہ ’رأفت‘ میں دفع شر اور ’رحمت‘ میں اثبات خیر کا پہلو زیادہ ملحوظ ہوتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہر بان ہے۔

n/a

جونا گڑھی

وہ (اللہ) ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نرمی کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔

n/a

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّـهِ وَلِلَّـهِ مِيرَٰثُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِى مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ ٱلْفَتْحِ وَقَـٰتَلَ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُوا۟ مِنۢ بَعْدُ وَقَـٰتَلُوا۟ ۚ وَكُلًّا وَعَدَ ٱللَّـهُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ وَٱللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

امین احسن اصلاحی

اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کو لوٹنے والی ہے! تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے انفاق و جہاد کریں گے اور جو بعد میں انفاق و جہاد کریں گے یکساں نہیں ہوں گے۔ ان لوگوں کا درجہ ان سے بڑا ہو گا جو بعد میں انفاق اور جہاد کریں گے۔ اگرچہ اللہ کا وعدہ ان میں سے ہر ایک سے اچھا ہی ہے۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے

ترغیب انفاق کی دو دلیلیں: یہ انہی کمزور قسم کے مسلمانوں کو انفاق پر ابھارا ہے اور اس مقصد کے لیے دو دلیلیں انفاق کے محرک کے طور پر بیان فرمائی ہیں۔ ایک وہی جس کی طرف اوپر آیت ۷ کے تحت اشارہ گزر چکا ہے کہ آسمان و زمین کی تمام چیزوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس دنیا میں انسان کو جن چیزوں پر بھی تصرف حاصل ہوتا ہے وہ بالکل عارضی طور پر، اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور امین کی حیثیت سے، حاصل ہوتا ہے۔ بالآخر ہر چیز اللہ ہی کی طرف لوٹ جانے والی ہے تو جب انسان کی حیثیت چند روزہ امین کی ہوئی تو امانت کے مال پر مارگنج بن کر بیٹھ جانے کے کیا معنی! پھر تو اس کے لیے صحیح رویہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ بخل کرے تو کرے لیکن جس نے اس کی تحویل میں اپنی امانت رکھی ہے اس کو، جب وہ طلب کرے، پوری فیاضی کے ساتھ دے۔

دوسرا یہ کہ حالات کے تغیر سے اعمال کی قدر و قیمت میں بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ آج جب کہ کفر اور اہل کفر کا مکہ پر غلبہ ہے (واضح رہے کہ یہ سورہ فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی ہے) اور قریش کی ہیبت بدستور عرب پر قائم ہے جو لوگ اسلام کو غالب کرنے کے لیے اپنے مال خرچ کریں گے اور جنگ میں حصہ لیں گے ان لوگوں کا درجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان سے کہیں زیادہ بلند ہو گا جو فتح مکہ کے بعد، جب کہ قریش کا زور ٹوٹ جائے گا، انفاق اور جہاد کریں گے۔ بڑے ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو آج کے کٹھن حالات میں اسلام کی خدمت کی توفیق پائیں۔ مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ موقع حاصل ہوا ہے تو اس کو اپنی پست حوصلگی سے ضائع نہ کرو بلکہ ہمت کر کے اسلام کے سابقین اولین اور اللہ تعالیٰ کے مقربین میں اپنی اپنی جگہ محفوظ کرنے کی کوشش کرو۔
سورۂ واقعہ میں یہ حقیقت واضح کی جا چکی ہے کہ سابقین و مقربین کے زمرے میں زیادہ تعداد انہی لوگوں کی ہو گی جنھوں نے اسلام کی غربت اولیٰ کے دور میں اولوالعزمی کے ساتھ اس کی خدمت کی توفیق پائی۔ بعد کے ادوار کے لوگوں میں سے تھوڑے ہی لوگوں کو ان کے زمرے میں جگہ ملے گی اور یہ وہ لوگ ہوں گے جن کو بڑے سخت امتحانوں سے گزرنا پڑا ہو اور انھوں نے دین کی راہ میں کوئی بہت بڑی بازی کھیلی ہو۔
’وَکُلّاً وَعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیْرٌ‘۔ یعنی وعدہ تو اللہ کا دونوں ہی سے اچھا ہے۔ فتح مکہ کے بعد بھی اسلام کے لیے قربانیاں کرنے والوں کے لیے ان کی خدمات کے اعتبار سے درجے اور مرتبے ہیں۔ حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ جو لوگ بھی اسلام کی خدمت کریں گے وہ اپنی قربانیوں کا صلہ پائیں گے بلکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی نکلیں گے جو اگلوں کی صف میں جگہ حاصل کریں گے تاہم فتح مکہ سے پہلے کا دور اور ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس دور کی قدر پہچانیں اور اس سے صحیح فائدہ اٹھا لیں۔
فتح سے فتح مکہ مراد ہے: یہاں ’فتح‘ سے مراد ظاہر ہے کہ فتح مکہ ہی ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے صلح حدیبیہ بھی مراد لی ہے۔ لیکن صلح حدیبیہ کی حیثیت اصل فتح کی نہیں بلکہ فتح مکہ کی تمہید کی ہے۔ لفظ ’فتح‘ سے ذہن فتح مکہ ہی کی طرف جاتا ہے۔ اس جدوجہد کے دوران میں ہر مسلمان کے دل میں یہ بات بطور ایک عقیدہ کے راسخ تھی کہ بعثت محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اصل مقصود بیت اللہ کو، کفر و شرک کی تمام آلودگیوں سے پاک کر کے، اس کے اصل ابراہیمی جمال میں خلق کے سامنے نمایاں کرنا ہے۔ چنانچہ ہر سچے مسلمان کو اس واقعہ کے ظہور کا ارمان بھی تھا اور انتظار بھی۔ صرف منافقین اپنے تھڑ دلے پن کے سبب سے مذبذب تھے۔ ان کے اس تذتذب کا ذکر آگے ان کے نفاق کی دلیل کی حیثیت سے آ رہا ہے۔

جاوید احمد غامدی

تمھیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو، دراں حالیکہ زمین اور آسمانوں کی میراث، سب اللہ ہی کو لوٹنے والی ہے۔ (تم پر واضح ہونا چاہیے کہ) تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد انفاق کریں گے اور (راہ حق میں) لڑیں گے، وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہ ہوں گے جنھوں نے فتح سے پہلے انفاق کیا اور (راہ حق میں) لڑے۔ اُن کا درجہ یقیناً اُن لوگوں سے بڑا ہو گا جو اِس کے بعد انفاق کریں گے اور لڑیں گے، اگرچہ اللہ کا وعدہ دونوں ہی سے اچھا ہے۔ (یاد رکھو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے خوب با خبر ہے

یعنی جب ہر چیز اللہ ہی کی طرف لوٹ جانے والی ہے اور انسان اِس چند روزہ زندگی میں محض امین کی حیثیت رکھتا ہے تو خدا کی امانت کو خود خدا سے روکنے کے کیا معنی!

یہ فتح مکہ کا ذکر ہے۔ اُس وقت اگرچہ قریش کا اقتدار بہ دستور قائم تھا ، مگر مسلمان جانتے تھے کہ سنت الٰہی کے مطابق یہ اُن کے لیے مقدر ہو چکی ہے۔
یہ اُنھی سابقین کے زمرے میں شامل ہونے کی دعوت ہے جن کا ذکر اِس سے پہلے سورۂ واقعہ میں ہو چکا ہے۔
یعنی فتح کے بعد بھی نیکوکاروں کی نیکیوں کا اجر اُنھیں ضرور ملے گا اور اُن کی خدمات کے لحاظ سے اُن کے درجے اور مرتبے بھی ہوں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...حسن نیت اور اخلاص کے ساتھ جو لوگ بھی اسلام کی خدمت کریں گے، وہ اپنی قربانیوں کا صلہ پائیں گے، بلکہ اُن میں سے ایسے لوگ بھی نکلیں گے جو اگلوں کی صف میں جگہ حاصل کریں گے۔ تاہم فتح مکہ سے پہلے کا دور اور ہے ۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اِس دور کی قدر پہچانیں اور اُس سے صحیح فائدہ اٹھالیں۔‘‘(تدبر قرآن۸/ ۲۰۶)

ابو الاعلی مودودی

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیئے ہے۔ تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کھبی ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمایا ہیں ۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے

اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مال تمہارے پاس ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ ایک دن تمہیں لازماً اسے چھوڑ کر ہی جانا ہے اور اللہ ہی اس کا وارث ہونے والا ہے، پھر کیوں نہ اپنی زندگی میں اسے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ اللہ کے ہاں اس کا اجر تمہارے لیے ثابت ہوجائے۔ نہ خرچ کرو گے تب بھی یہ اللہ ہی کے پاس واپس جا کر رہے گا، البتہ فرق یہ ہوگا کہ اس پر تم کسی اجر کے مستحق نہ ہو گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے تم کو کسی فقر اور تنگ دستی کا اندیشہ لاحق نہ ہونا چاہیے، کیونکہ جس خدا کی خاطر تم اسے خرچ کرو گے وہ زمین و آسمان کے سارے خزانوں کا مالک ہے، اس کے پاس تمہیں دینے کو بس اتنا ہی کچھ نہ تھا جو اس نے آج تمہیں دے رکھا ہے، بلکہ کل وہ تمہیں اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے یہی بات دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے :

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الِّرزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ وَیَقْدِرُ لَہٗ ، وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ وَھُوَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ (سبا۔ 39) ۔

اے نبی، ان سے کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی مزید رزق تمہیں دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔

یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں، لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے، کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے۔ اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہوجائے گی، اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے۔ مفسرین میں سے مجاہد، قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ ” فتح ” استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے، اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے، اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدری کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا، عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے، مگر لو کان لاحدھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احدکم ولا نصیفہ۔ ” ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا ” (ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابو نعیم اصفہانی) ۔ نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے حضرت انس سے نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ دوران نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عبد الرحمٰن سے کہا ” تم لوگ اپنی پچھلی خدمات کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو “۔ یہ بات جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا ” اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم لوگ احد کے برابر، یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے ’‘۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے، کیونکہ حضرت خالد اسی صلح کے بعد ایمان لائے تھے اور فتح مکہ میں شریک تھے۔ لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جائے یا فتح مکہ، بہرحال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آجائے جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں، اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہوجانے کے بعد قربانیاں دیں۔

یعنی اللہ جس کو جو اجر اور مرتبہ بھی دیتا ہے یہ دیکھ کردیتا ہے کہ کس نے کن حالات میں کس جذبے کے ساتھ کیا عمل کیا ہے۔ اس کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے۔ وہ ہر ایک کا درجہ اور اس کے عمل کا اجر پوری باخبری کے ساتھ تعین کرتا ہے۔

جونا گڑھی

تمہیں کیا ہوگیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں (١) بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، (٢) ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے (٣) جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔

 فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مراد لیا ہے۔ بہر حال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کے لحاظ سے بھی کم تر تھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور جہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت و تعداد میں بھی بڑھتے چلے گئے اور انکی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابر نہیں ہوسکتے۔ 

 کیونکہ پہلوں کا انفاق اور جہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل و عزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کے نزدیک شرف وفضل میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مومن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو اپنی زندگی اور موجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مومنوں (صحابہ کرام) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا۔ (رض) و رضوا عنہ۔

  اس میں وضاحت فرما دی ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان شرف و فضل میں فرق تو ضرور ہے لیکن فرق درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ایمان اور اخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیسا کہ بعض حضرات، حضرت معاویہ ان کے والد حضرت ابو سفیان اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر انکی تنقیص و اہانت کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ کرام (رض) کے بارے میں فرمایا ہے کہ لا تسبوا اصحابی میرے صحابہ پر سب و شتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔ 

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >