سَبَّحَ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

امین احسن اصلاحی

اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہی غالب و حکیم ہے۔

اس آیت کی اہمیت اور حکمت: یہ آیت سورۂ حدید کے شروع میں بھی گزر چکی ہے۔ وہاں اس کے مضمرات کی وضاحت ہو چکی ہے۔ یہاں خاص توجہ کی چیز یہ ہے کہ اس سورہ کا آغاز اور اختتام دونوں، نہایت معمولی فرق کے ساتھ، اسی آیت پر ہوا ہے جس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اس میں جو حقائق بیان ہوئے ہیں وہ اس آیت کے مضمرات کی تائید و تصدیق کرتے ہیں۔ گویا یہ سورہ اپنے اصل دعوے کو بھی ثابت کرتی ہے جو سابق سورہ میں بیان ہوا اور اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی شہادت بھی فراہم کرتی ہے جو تمہید کی اس آیت میں بیان ہوئی ہیں۔

یہ آیت جس حقیقت کی یاددہانی کرتی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ یہ ساری کائنات اپنی تسبیح و تقدیس اور اپنی بندگی و سرافگندگی سے اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اس کا خالق ہر عیب، ہر کمزوری اور ہر شائبہ شرک سے بالکل پاک و منزہ ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت و اختیار رکھتا ہے۔ اس کے کسی ارادے میں کوئی مزاحم نہیں ہو سکتا۔ اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ اس وجہ سے بندوں کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو اسی کے حوالہ کریں، اسی پر بھروسہ کریں، اسی کے احکام کی تعمیل کریں، اسی سے ڈریں اور اسی سے امید رکھیں۔ مصرف حقیقی وہی ہے۔ اس کے اذن کے بغیر کوئی چیز اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر سکتی۔
اسی حقیقت کے ذہن میں راسخ ہونے سے صحیح ایمان پیدا ہوتا ہے جو تمام عزم و قوت کا سرچشمہ ہے اور اسی کے اندر رخنہ پیدا ہونے سے نفاق اور کفر و شرک کو دل کے اندر گھسنے کی راہ ملتی ہے جس سے علم و عمل کے ہر گوشے میں فساد پھیل جاتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

زمین اورآسمانوں کی ہر چیز نے اللہ کی تسبیح کی ہے اور وہی غالب اور حکیم ہے۔

یعنی کائنات کی ہر چیز نے ہمیشہ اپنے وجود سے اِس حقیقت کا اظہار و اعلان کیا ہے کہ اللہ اِس سے پاک ہے کہ ظالموں اور نیکوکاروں کو انجام کے لحاظ سے یکساں کر دے۔ چنانچہ وہ ظالموں کو پکڑے گا، اِس لیے کہ حکیم ہے اور کوئی ظالم اُس کی پکڑ سے بچ نہ سکے گا، اِس لیے کہ زبردست بھی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اللہ ہی کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے آسمانوں اور زمین میں سے، اور وہی غالب اور حکیم ہے ۔

تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورة الحدید، حاشیہ۔ 1، و 2، بنی نضیر کے اخراج پر تبصرہ شروع کرنے سے پہلے یہ تمہیدی فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود ذہن کو یہ حقیقت سمجھنے کے لیے تیار کرنا ہے کہ اس طاقتور یہودی قبیلے کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی طاقت کا نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا۔ 

جونا گڑھی

آسمان اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہ غالب با حکمت ہے۔

​n/a

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّـهِ فَأَتَاهُمُ اللَّـهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جس نے نکالا ان لوگوں کو جنھوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا، ان کے گھروں سے حشر اول کے لیے۔ تمہارا گمان نہ تھا کہ وہ کبھی اپنے گھروں سے نکلیں گے اور ان کا گھمنڈ یہ تھا کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کی پکڑ سے بچائے رکھیں گے تو اللہ کا قہر ان پر وہاں سے آ دھمکا جہاں سے ان کو گمان بھی نہیں ہوا۔ اور اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ وہ اپنے گھروں کو اجاڑ رہے تھے خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی۔ پس عبرت حاصل کرو اس سے، اے آنکھیں رکھنے والو!

بنی نضیر کی غداری اور ان کا حشر: ’اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ‘ سے مراد مفسرین کے نزدیک یہود بنی نضیر ہیں جو مدینہ منورہ کے قریب آباد تھے۔ بخاریؒ کے بیان کے مطابق مختصراً ان کا واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اگرچہ صلح و امن کا معاہدہ کر رکھا تھا لیکن بدر کے چھٹے مہینہ معاہدے کے خلاف انھوں نے اسلام کے دشمنوں سے ساز باز بھی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ایک ناکام سازش کے بھی مرتکب ہوئے۔ ان کے اس جرم کی پاداش میں آپ نے ان کو مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ پہلے تو وہ اس حکم کی تعمیل پر آمادہ ہو گئے لیکن بعد میں مشہور منافق عبداللہ بن اُبیّ نے انھیں اکسایا کہ میرے دو ہزار آدمی تمہارے ساتھ ہیں نیز قریش اور غطفان بھی تمہاری حمایت کریں گے، تم نکلنے سے انکار کر دو۔ عبداللہ بن اُبیّ کی ان باتوں سے وہ اس کے چکمہ میں آ گئے اور نکلنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر فوج کشی کی۔ اس وقت نہ بنوقریظہ نے ان کا ساتھ دیا نہ قریش اور غطفان نے۔ ناچار انھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔ آپ نے ازراہ عنایت یہ اجازت انھیں دے دی کہ جتنا سامان وہ اونٹوں پر لے جا سکتے ہیں اتنا لے جائیں۔ چنانچہ وہ جتنا سامان لے جا سکے لے کر خیبر اور اذرعات چلے گئے۔ ان کی باقی املاک و جائداد پر آپؐ نے قبضہ کر لیا۔

’لِأَوَّلِ الْحَشْرِ‘۔ یعنی ان کا یہ اخراج پہلے حشر کے طور پر ہوا۔ اس کے اندر یہ تنبیہ ہے کہ اس کے بعد بھی انھیں اسی طرح کے حشر سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے عہد میں انھیں وہاں سے بھی نکلنا پڑا اور سب سے بڑا حشر ۔۔۔ قیامت کا حشر ۔۔۔ آگے آنے والا ہے۔
منافقوں سے خطاب: ’مَا ظَنَنتُمْ أَنۡ یَخْرُجُوْا وَظَنُّوْا أَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُم مِّنَ اللہِ‘ یہ خطاب انہی منافقین سے ہے جن کا ذکر پچھلی سورہ میں گزر چکا ہے۔ فرمایا کہ تم کو ان کی قوت و جمعیت اور ان کے حلیفوں کی حمایت و نصرت پر بڑا اعتماد تھا، تم سمجھے بیٹھے تھے کہ انھیں یہاں سے ہلایا نہیں جا سکے گا اور خود ان کو بھی اپنے قلعوں اور اپنی گڑھیوں پر بڑا ناز تھا کہ بھلا کسی کی مجال ہے کہ وہ ان سے دوبدو ہونے کی جرأت کر سکے لیکن دیکھ لو ان کا غرور کس طرح پامال ہوا۔
مغروروں کی ذہنیت: ’مِنَ اللّٰہِ‘ میں عربیت کے قاعدے کے مطابق مضاف محذوف ہے یعنی ’مِنْ بَاْسِ اللّٰہِ‘ یا ’مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ‘ یا ’مِنْ بَطْشِ اللّٰہِ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ انھوں نے قلعے اور گڑھیاں بنا لیں تو اس زعم میں مبتلا ہو گئے کہ وہ صرف انسانوں ہی سے نہیں بلکہ خدا کی پکڑ سے بھی مامون ہو گئے۔ یہ مغروروں کی ذہنیت کی بالکل صحیح تصویر ہے۔ جن کو اس دنیا میں قوت و شوکت حاصل ہو جاتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بھلا ان کے قلعہ کے اندر کہاں سے کوئی رخنہ پیدا ہو سکتا ہے! یہاں تک کہ اگر اللہ کا کوئی بندہ ان کو خدا کی پکڑ سے بھی ڈرائے تو بھی ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان کے اس محفوظ حصار کے اندر خدا کدھر سے آ جائے گا!
خدا کا حملہ بے امان ہے: ’فَاَتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ حَیْْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا‘۔ یعنی انھوں نے تو اپنی دانست میں اپنے قلعوں کے اندر خدا کے در آنے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں چھوڑی تھی لیکن خدا وہاں سے ان پر آ دھمکا جہاں سے ان کو سان گمان بھی نہ تھا۔
’وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ‘۔ یہ نشان دہی فرمائی ہے کہ خدا نے کدھر سے ان پر تاخت کی۔ فرمایا کہ وہ اپنے ارد گرد اینٹوں اور پتھروں کی دیواریں چن کر سمجھے کہ خدا کی پکڑ سے باہر ہو گئے لیکن اللہ نے ان کی دیواریں ہٹانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ براہ راست ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ قلعے اور گڑھیاں رکھتے ہوئے ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے بنائے ہوئے گھروں کو انھوں نے خود اپنے ہاتھوں اجاڑا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اصل طاقت اسلحہ اور قلعوں کی دیواروں کے اندر نہیں بلکہ دلوں کے اندر ہوتی ہے جو اللہ پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر یہ طاقت موجود ہو تو فی الواقع بے تیغ بھی سپاہی لڑتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو ایٹمی آلات کی بڑی سے بڑی مقدار بھی بے سود ہے بلکہ اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ یہ چیزیں دشمن کے بجائے خود اپنی ہی تباہی کا ذریعہ بن جائیں۔
’یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُم بِأَیْْدِیْہِمْ وَأَیْْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ‘۔ یہ ان کی مرعوبیت کی تصویر ہے کہ اپنے جو مکانات انھوں نے نہ جانے کتنے ولولوں اور ارمانوں سے بنائے تھے خود اپنے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے۔ ’یُخْرِبُوْنَ‘ یہاں تصویر حال کے لیے ہے۔ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ ان کو یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لے جا سکتے ہیں اتنا لے جائیں۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر انھوں نے مکانوں کی شہتیریں، کڑیاں، دروازے اور کھڑکیاں بھی اکھاڑ کر اپنے اونٹوں پر لاد لینے کی کوشش کی۔ حرص مال کے علاوہ مسلمان دشمنی کا جذبہ بھی کارفرما تھا اس وجہ سے انھوں نے یہ کوشش بھی کی ہو گی کہ جو چیز بچ بھی رہے اس کو بھی اس طرح ناکارہ بنا دیں کہ مسلمان اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
’وَأَیْْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ‘۔ ان کی اس تخریب میں مسلمانوں نے بھی ہاتھ پٹایا ہو گا کہ یہ مفسدین جس قدر جلد ممکن ہو ان کے قریب سے دفع ہوں۔ علاوہ ازیں آگے کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعض باغ مسلمانوں نے جنگی ضرورت کے لیے بھی کاٹے۔
’فَاعْتَبِرُوْا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ‘۔ یہ اس واقعہ سے ان تمام لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے جن کے اندر عبرت پذیری کی صلاحیت ہے کہ دیکھ لو قرآن کی ہر بات کس طرح سچی ثابت ہوئی۔ اللہ و رسول کی مخالفت کرنے والوں کو کس طرح ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔ حزب اللہ کے مقابل میں حزب الشیطان کو کس طرح شکست ہوئی۔ اگر اس کے بعد بھی کچھ لوگ اللہ و رسول کے دشمنوں سے دوستی رکھنے کے خواہش مند ہیں تو کر کے دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہی ہے جس نے اہل کتاب کے منکروں کو پہلے حشر کے لیے اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا ہے۔ تمھیں گمان نہ تھا کہ وہ کبھی (اِس طرح) نکلیں گے اور وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ اُن کے قلعے اُنھیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے۔ مگر اللہ اُن پروہاں سے آ پہنچا، جہاں سے اُنھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اور اُن کے دلوں میں ہیبت ڈال دی۔ وہ اپنے گھر اپنے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی۔۷؂ سو عبرت حاصل کرو، اے آنکھیں رکھنے والو!

یعنی پہلے حشر کے طور پر۔ اِس میں یہ تنبیہ ہے کہ ابھی کچھ حشر اور بھی ہیں جن سے اُنھیں دوچار ہونا پڑے گا۔

یہ یہود بنی نضیر کے اخراج کا ذکر ہے جو مدینۂ طیبہ کے قریب آباد تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اِن کا واقعہ یہ ہے کہ اِنھوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اگرچہ صلح و امن کا معاہدہ کر رکھا تھا، لیکن بدر کے چھٹے مہینے معاہدے کے خلاف اِنھوں نے اسلام کے دشمنوں سے سازباز بھی کی اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی ایک ناکام سازش کے بھی مرتکب ہوئے۔ اِن کے اِس جرم کی پاداش میں آپ نے اِن کو مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ پہلے تو وہ اِس حکم کی تعمیل پر آمادہ ہو گئے، لیکن بعد میں مشہور منافق عبداللہ بن ابی نے اِنھیں اکسایا کہ میرے دو ہزار آدمی تمھارے ساتھ ہیں، نیز قریش اور غطفان بھی تمھاری حمایت کریں گے، تم نکلنے سے انکار کر دو۔ عبداللہ بن ابی کی اِن باتوں سے وہ اُس کے چکمے میں آگئے اور نکلنے سے انکارکر دیا۔ بالآخر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن پر فوج کشی کی۔ اُس وقت نہ بنو قریظہ نے اِن کا ساتھ دیا، نہ قریش اور غطفان نے۔ ناچار اِنھیں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔ آپ نے ازراہ عنایت یہ اجازت اِنھیں دے دی کہ جتنا سامان وہ اونٹوں پر لے جا سکتے ہیں، اتنا لے جائیں۔ چنانچہ وہ جتنا سامان لے جا سکے، لے کر خیبر اور اذرعات چلے گئے۔ اِن کی باقی املاک و جائداد پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضہ کر لیا۔‘‘*(تدبرقرآن ۸/ ۲۸۳)

یہ خطاب اُنھی منافقین سے ہے جو اِس سورہ کے مخاطب ہیں۔
اصل میں ’مِنَ اللّٰہِ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس میں مضاف عربیت کے قاعدے کے مطابق حذف ہو گیا ہے۔ یعنی ’مِنْ بَاْسِ اللّٰہِ‘ یا ’مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ‘۔
یہ نشان دہی فرمائی ہے کہ اللہ کہاں سے آ پہنچا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... وہ اپنے اردگرد اینٹوں اور پتھروں کی دیواریں چن کر سمجھے کہ خدا کی پکڑ سے باہر ہو گئے، لیکن اللہ نے اُن کی دیواریں ہٹانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی، بلکہ براہ راست اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ قلعے اور گڑھیاں رکھتے ہوئے ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے بنائے ہوئے گھروں کو اُنھوں نے خود اپنے ہاتھوں اجاڑا۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۲۸۴)

یعنی کچھ بربادی مسلمانوں کے حملے سے ہوئی اور کچھ اُنھوں نے خود اجاڑ دیے کہ اُن کے نکل جانے کے بعد مسلمان اُن سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
_____
* بخاری، رقم ۳۸۰۴۔

ابو الاعلی مودودی

وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا ۔ تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی۔ مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا ۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے 6 تھے۔ پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو 7 ! وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے 2 میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا 3 ۔ تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں 4 گی۔ مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا 5 ۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے 6 تھے۔ پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو 7 !

اصل الفاظ ہیں لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ۔ حشر کے معنی ہیں منتشر افراد کو اکٹھا کرنا، یا بکھرے ہوئے اشخاص کو جمع کر کے نکالنا۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی ہیں پہلے حشر کے ساتھ یا پہلے حشر کے موقع پر۔ اب رہا یہ سوال کہ اس جگہ اول حشر سے مراد کیا ہے، تو اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس سے مراد بنی نضیر کا مدینہ سے اخراج ہے، اور اس کو ان کا پہلا حشر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ ان کا دوسرا حشر حضرت عمر کے زمانے میں ہوا جب یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالا گیا، اور آخری حشر قیامت کے روز ہوگا۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مراد مسلمانوں کی فوج کا اجتماع ہے جو بنی نضیر سے جنگ کرنے کے لیے ہوا تھا۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی یہ ہیں کہ ابھی مسلمان ان سے لڑنے کے لیے جمع ہی ہوئے تھے اور کشت و خون کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ جلا وطنی کے لیے تیار ہوگئے۔ بالفاظ دیگر یہاں یہ الفاظ باوّل وَھلہ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ” در اوّل جمع کردن لشکر “۔ اور شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے ” پہلے ہی بھیڑ ہوتے “۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا مفہوم ہی ان الفاظ کا متبادر مفہوم ہے۔

اس مقام پر ایک بات آغاز ہی میں سمجھ لینی چاہیے تاکہ بنی نضیر کے اخراج کے معاملہ میں کوئی ذہنی الجھن پیدا نہ ہو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بنی نضیر کا باقاعدہ تحریری معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کو انہوں نے رد نہیں کیا تھا کہ معاہدہ ختم ہوجاتا۔ لیکن جس وجہ سے ان پر چڑھائی کی گئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بہت سی چھوٹی بڑی خلاف ورزیاں کرنے کے بعد آخر کار ایک صریح فعل ایسا کیا تھا جو نقض عہد کا ہم معنی تھا۔ وہ یہ کہ انہوں نے دوسرے فریق معاہدہ، یعنی مدینہ کی اسلامی ریاست کے صدر کو قتل کرنے کی سازش کی تھی کہ جب ان کو نقص معاہدہ کا الزام دیا گیا تو وہ اس کا انکار نہ کرسکے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دس دن کا نوٹس دے دیا کہ اس مدت میں مدینہ چھوڑ کر نکل جاؤ، ورنہ تمہارے خلاف جنگ کی جائے گی۔ یہ نوٹس قرآن مجید کے اس حکم کے ٹھیک مطابق تھا کہ ” اگر تم کو کسی قوم سے خیانت (بد عہدی) کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو ” (انفال۔ 58) ۔ اسی لیے ان کے اخراج کو اللہ تعالیٰ اپنا فعل قرار دے رہا ہے، کیونکہ یہ ٹھیک قانون الہیٰ کے مطابق تھا۔ گویا ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے نکالا۔ دوسری وجہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اخراج کو اپنا فعل قرار دیا ہے آگے کی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔

اس ارشاد کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ بنی نضیر صدیوں سے یہاں جمے ہوئے تھے۔ مدینہ کے باہر ان کی پوری آبادی یکجا تھی جس میں ان کے اپنے قبیلے کے سوا کوئی دوسرا عنصر موجود نہ تھا۔ انہوں نے پوری بستی کو قلعہ بند کر رکھا تھا، اور ان کے مکانات بھی گڑھیوں کی شکل میں بنے ہوئے تھے جس طرح عموماً قبائلی علاقوں میں، جہاں ہر طرف بد امنی پھیلی ہوئی ہو، بنائے جاتے ہیں۔ پھر ان کی تعداد بھی اس وقت کے مسلمانوں سے کچھ کم نہ تھی۔ اور خود مدینے کے اندر بہت سے منافقین ان کی پشت پر تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ یہ لوگ لڑے بغیر صرف محاصرے ہی سے بد حواس ہو کر یوں اپنی جگہ چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح خود بنی نضیر کے بھی وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ کوئی طاقت ان سے چھ دن کے اندر یہ جگہ چھڑا لے گی۔ اگرچہ بنی قینقاع ان سے پہلے نکالے جا چکے تھے اور اپنی شجاعت پر ان کا سارا زعم دھرا کا دھرا رہ گیا تھا، لیکن وہ مدینہ کے ایک محلہ میں آباد تھے اور انکی اپنی کوئی الگ قلعہ بند بستی نہ تھی، اس لیے بنی نضیر یہ سمجھتے تھے کہ ان کا مسلمانوں کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکنا بعید از قیاس نہ تھا۔ بخلاف اس کے وہ اپنی محفوظ بستی اور اپنی مضبوط گڑھیوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہ کرسکتے تھے کہ کوئی انہیں یہاں سے نکال سکتا ہے۔ اسی لیے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جانے کا نوٹس دیا تو انہوں نے بڑے دھڑلے کے ساتھ جواب دے دیا کہ ہم نہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہوسکتا ہے کر لیجیے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر یہ بات کس بنا پر فرمائی کہ ” وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی ؟ کیا واقعی بنی نضیر یہ جانتے تھے کہ ان کا مقابلہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے ؟ اور کیا جانتے ہوئے بھی ان کا یہ خیال تھا کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر اس شخص کے ذہن میں الجھن پیدا کرے گا جو یہودی قوم کے نفسیات اور ان کی صدہا برس کی روایات کو نہ جانتا ہو۔ عام انسانوں کے متعلق کوئی یہ گمان نہیں کرسکتا کہ وہ شعوری طور پر یہ جانتے بھی ہوں کہ مقابلہ اللہ سے ہے اور پھر بھی ان کو یہ زعم لاحق ہوجائے کہ ان کے قلعے اور ہتھیار انہیں اللہ سے بچا لیں گے۔ اس لیے ایک ناواقف آدمی اس جگہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی یہ تاویل کرے گا کہ بنی نضیر بظاہر اپنے قلعوں کا استحکام دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حملہ سے بچ جائیں گے، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کا مقابلہ اللہ سے تھا اور اس سے ان کے قلعے انہیں نہ بچا سکتے تھے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہودی اس دنیا میں ایک ایسی عجیب قوم ہے جو جانتے بوجھتے اللہ کا مقابلہ کرتی رہی ہے، اللہ کے رسولوں کو یہ جانتے ہوئے اس نے قتل کیا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، اور فخر کے ساتھ سینہ ٹھونک کر اس نے کہا ہے کہ ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کیا ہے۔ اس قوم کی روایات یہ ہیں کہ ان کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب سے اللہ تعالیٰ کی رات بھر کشتی ہوتی رہی اور صبح تک لڑ کر بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہ پچھاڑ سکا۔ پھر جب صبح ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اب مجھے جانے دے تو انہوں نے کہا میں تجھے نہ جانے دوں گا جب تک تو مجھے برکت نہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یعقوب۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آئندہ تیرا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہوگا ” کیونکہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا “۔ ملاحظہ ہو یہودیوں کا جدید ترین ترجمہ کتب مقدسہ (TheHoly Scriptures) شائع کردہ جیوش پبلکیشن سوسائٹی آف امریکہ 1954 کتاب پیدائش، باب 32 ۔ آیات 25 تا 29 ۔ عیسائیوں کے ترجمہ بائیبل میں بھی یہ مضمون اسی طرح بیان ہوا ہے۔ یہودی ترجمہ کے حاشیہ میں ” اسرائیل ” کے معنی لکھے گئے ہیں۔ Hewho striveth with God، یعنی ” جو خدا سے زور آزمائی کرے “۔ اور سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر میں عیسائی علماء نے اسرائیل کے معنی کی تشریح یہ کی ہے : Wrestler with God ” خدا سے کشتی لڑنے والا ” پھر بائیبل کی کتاب ہوسیع میں حضرت یعقوب کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ” وہ اپنی توانائی کے ایام میں خدا سے کشتی لڑا۔ وہ فرشتے سے کشتی لڑا اور غالب آیا ” (باب 12 آیت 4) ۔ اب ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل آخر ان حضرات اسرائیل کے صاحبزادے ہی تو ہیں جنہوں نے ان کے عقیدے کے مطابق خدا سے زور آزمائی کی تھی اور اس سے کشتی لڑی تھی۔ ان کے لیے آخر کیا مشکل ہے کہ خدا کے مقابلے میں یہ جانتے ہوئے بھی ڈٹ جائیں کہ مقابلہ خدا سے ہے۔ اسی بنا پر تو انہوں نے خود اپنے اعترافات کے مطابق خدا کے نبیوں کو قتل کیا اور اسی بنا پر انہوں نے حضرت عیسیٰ کو اپنے زعم میں صلیب پر چڑھایا اور خم ٹھونک کر کہا اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مُرْیَمَ رَسْوْلَ اللہ (ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کیا) لہٰذا یہ بات ان کی روایات کے خلاف نہ تھی کہ انہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول جانتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کی۔ اگر ان کے عوام نہیں تو ان کے ربی اور احبار تو خوب جانتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے متعدد شواہد خود قرآن میں موجود ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 79 ۔ 95 ۔ النساء، حاشیہ 190 ۔ 191 ۔ جلد چہارم، الصافات، حاشیہ 70 ۔ 73 ) ۔

اللہ کا ان پر آنا اس معنی میں نہیں ہے کہ اللہ کسی اور جگہ تھا اور پھر وہاں سے ان پر حملہ آور ہوا۔ بلکہ یہ مجازی کلام ہے۔ اصل مدعا یہ تصور دلانا ہے کہ اللہ سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس خیال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر صرف اسی شکل میں بلا لے کر آسکتا ہے کہ ایک لشکر کو سامنے سے ان پر چڑھا کر لائے، اور وہ سمجھتے تھے کہ اس بلا کو تو ہم اپنی قلعہ بندیوں سے روک لیں گے۔ لیکن اس نے ایسے راستہ سے ان پر حملہ کیا جدھر سے کسی بلا کے آنے کی وہ کوئی توقع نہ رکھتے تھے۔ اور وہ راستہ یہ تھا کہ اس نے اندر سے ان کی ہمت اور قوت مقابلہ کو کھوکھلا کردیا جس کے بعد نہ ان کے ہتھیار کسی کام آسکتے تھے نہ ان کے مضبوط گڑھ۔

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :6

یعنی تباہی دو طرح سے ہوئی۔ باہر سے مسلمانوں نے محاصرہ کر کے ان کی قلعہ بندیوں کو توڑنا شروع کیا۔ اور اندر سے خود انہوں نے پہلے تو مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لیے جگہ جگہ پتھروں اور لکڑیوں کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور اس غرض کے لیے اپنے گھروں کو توڑ توڑ کر ملبہ جمع کیا۔ پھر جب ان کو یقین ہوگیا کہ انہیں یہاں سے نکلنا ہی پڑے گا تو انہوں نے اپنے گھروں کو، جنہیں کبھی بڑے شوق سے بنایا اور سجایا تھا، اپنے ہی ہاتھوں برباد کرنا شروع کردیا تاکہ وہ مسلمانوں کے کام نہ آسکیں۔ اس کے بعد جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انہوں نے اس شرط پر صلح کی کہ ہماری جانیں بخش دی جائیں اور ہمیں اجازت دی جائے کہ ہتھیاروں کے سوا جو کچھ بھی ہم یہاں سے اٹھا کرلے جاسکتے ہیں لے جائیں تو چلتے ہوئے وہ اپنے دروازے اور کھڑکیاں اور کھونٹیاں تک اکھاڑ لے گئے، حتیٰ کہ بعض لوگوں نے شہتیر اور لکڑی کی چھتیں تک اپنے اونٹوں پر لاد لیں۔

سورة الْحَشْر حاشیہ نمبر :7

اس واقعہ میں عبرت کے کئی پہلو ہیں جن کی طرف اس مختصر سے بلیغ فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ یہودی آخر پچھلے انبیاء کی امت ہی تو تھے۔ خدا کو مانتے تھے۔ کتاب کو مانتے تھے پچھلے انبیاء کو مانتے تھے۔ آخرت کو مانتے تھے۔ اس لحاظ سے دراصل وہ سابق مسلمان تھے۔ لیکن جب انہوں نے دین اور اخلاق کو پس پشت ڈال کر محض اپنی خواہشات نفس اور دنیوی اغراض و مفاد کی خاطر کھلی کھلی حق دشمنی اختیار کی اور خود اپنے عہد و پیمان کا بھی کوئی پاس نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ التفات ان سے پھر گئی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کو ان سے کوئی ذاتی عداوت نہ تھی۔ اس لیے سب سے پہلے تو خود مسلمانوں کو ان کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے آپ کو یہودیوں کی طرح خدا کی چہیتی اولاد نہ سمجھ بیٹھیں اور اس خیال خام میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ خدا کے آخری نبی کی امت میں ہونا ہی بجائے خود ان کے لیے اللہ کے فضل اور اس کی تائید کی ضمانت ہے جس کے بعد دین و اخلاق کے کسی تقاضے کی پابندی ان کی لیے ضروری نہیں رہتی۔ اس کے ساتھ دنیا بھر کے ان لوگوں کو بھی اس واقعہ سے عبرت دلائی گئی ہے جو جان بوجھ کر حق کی مخالفت کرتے ہیں اور پھر اپنی دولت و طاقت اور اپنے ذرائع و وسائل پر یہ اعتماد کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گی۔ مدینہ کے یہودی اس سے ناواقف نہ تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی قوم یا قبیلے کی سر بلندی کے لیے نہیں اٹھے ہیں بلکہ ایک اصولی دعوت پیش کر رہے ہیں جس کے مخاطب سارے انسان ہیں اور ہر انسان، قطع نظر اس سے کہ وہ کسی نسل یا ملک سے تعلق رکھتا ہو، اس دعوت کو قبول کر کے ان کی امت میں بلا امتیاز شامل ہوسکتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے حبش کے بلال، روم کے صہیب اور فارس کے سلمان کو امت مسلمہ میں وہی حیثیت حاصل تھی جو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے اہل خاندان کو حاصل تھی۔ اس لیے ان کے سامنے یہ کوئی خطرہ نہ تھا کہ قریش اور اوس اور خزرج ان پر مسلط ہوجائیں گے۔ وہ اس سے بھی ناواقف نہ تھے کہ آپ جو اصولی دعوت پیش فرما رہے ہیں وہ بعینہ وہی ہے جو خود ان کے اپنے انبیاء پیش کرتے رہے ہیں۔ آپ کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں ایک نیا دین لے کر آیا ہوں جو پہلے کبھی کوئی نہ لایا تھا اور تم اپنا دین چھوڑ کر میرا یہ دین مان لو۔ بلکہ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ وہی دین ہے جو ابتدائے آفرینش سے خدا کے تمام انبیاء لاتے رہے ہیں، اور اپنی توراۃ سے وہ خود اس کی تصدیق کرسکتے تھے کہ فی الواقع یہ وہی دین ہے، اس کے اصولوں میں دین انبیاء کے اصولوں سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی بنا پر تو قرآن مجید میں ان سے کہا گیا تھا کہ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہ (ایمان لاؤ میری نازل کردہ اس تعلیم پر جو تصدیق کرتی ہے اس تعلیم کی جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے، اور سب سے پہلے تم ہی اس کے کافر نہ بن جاؤ) ۔ پھر ان کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس سیرت و اخلاق کے انسان ہیں، اور آپ کی دعوت قبول کر کے لوگوں کی زندگیوں میں کیسا عظیم انقلاب برپا ہوا ہے۔ انصار تو مدت دراز سے ان کے قریب ترین پڑوسی تھے۔ اسلام لانے سے پہلے ان کی جو حالت تھی اسے بھی یہ لوگ دیکھ چکے تھے اور اسلام لانے کے بعد ان کی جو حالت ہوگئی وہ بھی ان کے سامنے موجود تھی۔ پس دعوت اور داعی اور دعوت قبول کرنے کے نتائج، سب کچھ ان پر عیاں تھے۔ لیکن یہ ساری باتیں دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی انہوں نے محض اپنے نسلی تعصبات اور اپنے دنیوی مفاد کی خاطر اس چیز کے خلاف اپنی ساری طاقت لگا دی جس کے حق ہونے میں کم از کم ان کے لیے شک کی گنجائش نہ تھی۔ اس دانستہ حق دشمنی کے بعد وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ حالانکہ پوری انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کی طاقت جس کے مقابلے میں آجائے وہ پھر کسی ہتھیار سے نہیں بچ سکتا۔

جونا گڑھی

وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قعلے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) پس اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو۔

 مدینے کے اطراف میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے، بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، ہجرت مدینہ کے بعد نبی نے ان سے معاہدہ بھی کیا لیکن یہ لوگ درپردہ سازشیں کرتے رہے اور کفار مکہ سے بھی مسلمانوں کے خلاف رابطہ رکھا، حتیٰ کے ایک موقع پر جب کہ آپ ان کے پاس گئے ہوئے تھے، بنو نضیر نے رسول اللہ پر اوپر سے پتھر پھینک کر آپ کو مار ڈالنے کی سازش تیار کی، جس سے وحی کے ذریعے سے آپ بروقت اطلاع کردی گئی، اور آپ وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ ان کی اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہ ان پر لشکر کشی کی، یہ چند دن اپنے قعلوں میں محصور رہے، بالآخر انہوں نے جان بخشی کی صورت میں جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا جسے رسول اللہ نے قبول فرما لیا، یہاں سے یہ خیبر میں جا کر مقیم ہوگئے، وہاں سے حضرت عمر نے اپنے دور میں انہیں دوبارہ جلا وطن کیا اور شام کی طرف دھکیل دیا جہاں کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کا آخری حشر ہوگا۔ 

اس لئے انہوں نے نہایت مضبوط قعلے تعمیر کر رکھے تھے جس پر انہیں گھمنڈ تھا اور مسلمان بھی سمجھتے تھے کہ اتنی آسانی سے یہ قعلے فتح نہیں ہو سکیں گے۔ 

 اور وہ یہی تھا کہ رسول اللہ نے ان کا محاصرہ کرلیا تھا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ 

اس رعب کی وجہ سے ہی انہوں نے جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا ورنہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین اور دیگرلوگوں نے انہیں پیغامات بھیجے تھے کہ تم مسلمانوں کے سامنے جھکنا نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خصوصی وصف عطا فرمایا تھا کہ دشمن ایک مہینے کی مسافت پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرعوب ہوجاتا تھا اس لیے سخت دہشت اور گھبراہٹ ان پر طاری ہوگئی اور تمام تر اسباب و وسائل کے باوجود انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور صرف یہ شرط مسلمانوں سے منوائی کہ جتنا سامان وہ لاد کرلے جاسکتے ہیں انہیں لے جانے کی اجازت ہو، چنانچہ اس اجازت کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور شہتیر تک اکھیڑ ڈالے تاکہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں

یعنی جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب جلا وطنی ناگزیر ہے تو انہوں نے دوران محاصرہ اندر سے اپنے گھروں کو برباد کرنا شروع کردیا تاکہ وہ مسلمانوں کے بھی کام نہ رہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ سامان لے جانے کی اجازت سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے وہ اپنے اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کرلے جاسکتے تھے اپنے گھر ادھیڑ ادھیڑ کر وہ سامان انہوں نے اونٹوں پر رکھ لیا۔

باہر سے مسلمان ان کے گھروں کو برباد کرتے رہے تاکہ ان پر گرفت آسان ہوجائے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ادھیڑے ہوئے گھروں سے بقیہ سامان نکالنے اور حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مزید تخریب سے کام لینا پڑا۔

کہ کس طرح اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈالا دراں حالیکہ وہ ایک نہایت طاقتور اور با وسائل قبیلہ تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت عمل ختم ہوگئی اور اللہ نے اپنے مواخذے کے شکنجے میں کسنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر ان کی اپنی طاقت اور وسائل ان کے کام آئے نہ دیگر اعوان و انصار ان کی کچھ مدد کرسکے۔ 

وَلَوْلَا أَن كَتَبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ

امین احسن اصلاحی

اور اگر اللہ نے ان کے لیے جلاوطنی نہ مقدر کر رکھی ہوتی تو ان کو دنیا میں عذاب دیتا اور ان کے لیے آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے۔

یعنی یہ تو اللہ نے ان کے ساتھ رعایت فرمائی کہ ان کو جلاوطنی ہی کی سزا دی۔ اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہوا کہ اسی تنبیہ پر کفایت کی جائے کہ ان کے اندر عبرت پذیری کی کچھ صلاحیت ہو تو وہ اپنے رویہ کی اصلاح کریں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس دنیا ہی میں ان پر اس طرح کا کوئی فیصلہ کن عذاب بھیج دیتا جس طرح کے عذاب عاد و ثمود اور فرعون وغیرہ پر آئے جن سے ان کا قصہ ہی پاک ہو گیا۔

’وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابُ النَّارِ‘۔ یعنی اس سے انھوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو معاملہ اس جلاوطنی ہی پر ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ آخرت میں ان کے لیے دوزخ کا عذاب بھی ہے جو ساری کسر پوری کر دے گا۔

جاوید احمد غامدی

اور اگر اللہ نے اُن کے لیے (اِسی طرح) جگہ جگہ سے اجڑنے کی سزا نہ لکھ دی ہوتی تو وہ اُنھیں دنیا ہی میں عذاب دے ڈالتا اور قیامت میں تو اُن کے لیے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔

یعنی وہی عذاب دے ڈالتا جو عاد و ثموداور فرعون کو دیا گیا اور اِن کا نام و نشان مٹ جاتا، مگر اللہ اِنھیں باقی رکھنا چاہتا ہے تاکہ قیامت تک کے لیے یہ اُس کی جزا و سزا کا نمونہ بن کر جئیں۔ چنانچہ اُس نے طے کر رکھا ہے کہ قومی حیثیت میں اِنھیں ہمیشہ جلا وطنی کی سزا دی جائے گی۔

ابو الاعلی مودودی

اگر اللہ نے ان کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا، اور آخرت میں تو ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔

دنیا کے عذاب سے مراد ہے ان کا نام و نشان مٹا دینا۔ اگر وہ صلح کر کے اپنی جانیں بچانے کے بجائے لڑتے تو ان کا پوری طرح قلع قمع ہوجاتا۔ ان کے مرد مارے جاتے اور ان کی عورتیں اور ان کے بچے لونڈی غلام بنا لیے جاتے جنہیں فدیہ دے کر چھڑانے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔

جونا گڑھی

اور اگر اللہ تعالیٰ نے ان پر جلا وطنی کو مقدر نہ کردیا ہوتا تو یقیناً دنیا میں ہی عذاب دیتا اور آخرت میں (تو) ان کے لئے آگ کا عذاب ہے ہی۔

 یعنی اللہ کی تقدیر میں پہلے سے ہی اس طرح ان کی جلاوطنی لکھی ہوئی نہ ہوتی تو ان کو دنیا میں ہی سخت عذاب سے دوچار کردیا جاتا جیسا کہ بعد میں ان کے بھائی یہود کے ایک دوسرے قبیلے بنو قریظہ کو ایسے ہی عذاب میں مبتلا کیا گیا کہ ان کے جوان مردوں کو قتل کردیا گیا دوسروں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کا مال مسلمانوں کے لیے غنیمت بنا دیا گیا۔ 

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۖ وَمَن يُشَاقِّ اللَّـهَ فَإِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

امین احسن اصلاحی

یہ اس جرم میں کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، جو اللہ کا مقابلہ کرتے ہیں تو اللہ سخت پاداش والا ہے۔

یعنی یہ غضب ان پر اس وجہ سے ہوا کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور سنت الٰہی یہی ہے کہ جو اللہ کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس کی شدید پاداش سے دوچار ہوتے ہیں۔

اس آیت میں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ ’وَمَنْ یُشَاقِّ اللہَ‘ میں ’وَرَسُوْلَہٗ‘ کو حذف کر دیا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ رسول سے مخاصمت درحقیقت اللہ سے مخاصمت ہے اور جو اللہ سے مخاصمت کے لیے اٹھتا ہے وہ اچھی طرح سوچ لے کہ اس کا کیا انجام ہو سکتا ہے!

جاوید احمد غامدی

اِس لیے کہ اُنھوں نے اللہ اور اُس کے رسول کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے اور جو اللہ کا مقابلہ کریں، (وہ اِسی انجام کو پہنچتے ہیں)، اِس لیے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

اصل الفاظ ہیں: ’مَنْ یُّشَآقِّ اللّٰہَ‘۔ اِن کے بعد ’وَرَسُوْلَہٗ‘ حذف کر دیا ہے، جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ رسول کی مخالفت درحقیقت اللہ کی مخالفت ہے۔

ابو الاعلی مودودی

یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کو سزا دینے میں بہت سخت ہے۔

n/a

جونا گڑھی

یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی سخت عذاب کرنے والا ہے۔

n/a

مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ

امین احسن اصلاحی

کھجوروں کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا جو سلامت چھوڑ دیے تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا اور تاکہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔

ایک اعتراض کا برمحل جواب: ’لِیْنَۃٌ‘ کھجور کے مثمر درخت کو کہتے ہیں۔ یہ یہود اور ان کے حلیفوں کے ایک اعتراض کا برمحل جواب ہے۔ مسلمانوں نے جب بنی نضیر پر فوج کشی کی تو جنگی ضرورت و مصلحت کے تحت ان کے باغوں کے کچھ درخت انھیں کاٹنے پڑے۔ اس چیز کو انھوں نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ذریعہ بنا لیا کہ مسلمان دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ ملک میں اصلاح کے لیے اٹھے ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ انھوں نے ہمارے باغوں کے پھل لانے والے عمدہ درخت کاٹ کے ڈال دیے۔ بھلا مثمر درختوں کا کاٹنا بھی کوئی اصلاح کا کام ہوا، یہ تو صریح فساد فی الارض ہے!

’اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَائِمَۃً‘ کے بظاہر ذکر کی کوئی ضرورت معلوم نہیں ہوتی اس لیے کہ ان کو اعتراض درختوں کے کاٹنے پر تھا نہ کہ ان کے چھوڑنے پر۔ لیکن اس کے ذکر سے ان کے اعتراض کے ایک خاص پہلو پر روشنی پڑتی ہے جس پر اس کے بغیر روشنی نہیں پڑ سکتی تھی۔ وہ یہ کہ جب انھوں نے یہ اعتراض اٹھایا ہو گا تو اس کو مؤثر بنانے کے لیے یہ بھی کہا ہو گا کہ اگر مسلمانوں کو صرف وقتی ضرورت کے لیے لکڑی مطلوب تھی تو وہ فلاں اور فلاں درخت کاٹ سکتے تھے جن کے کاٹنے سے کچھ زیادہ نقصان نہ ہوتا لیکن وہ درخت تو انھوں نے کھڑے چھوڑ دیے اور یہ اچھے بھلے، مثمر درخت انھوں نے کاٹ کے ڈھیر کر دیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقدام کسی واقعی ناگزیر ضرورت کے لیے نہیں بلکہ محض انتقام کے جذبہ کے تحت، معاشی تباہی پھیلانے کے لیے کہا گیا ہے جو اصلاح نہیں بلکہ صریح اِفساد ہے۔
’فَبِإِذْنِ اللہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ‘۔ یہ اس اعتراض کا جواب دیا ہے لیکن معترضین کو مخاطب کرنے کے بجائے صرف مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے کہ تم ان ناصحوں کی مطلق پروا نہ کرو کہ تمہیں کون درخت کاٹنے اور کون چھوڑنے تھے۔ تم نے جو کچھ کیا رسول کی موجودگی میں، اس کی ہدایت کے تحت، کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کام اللہ کے اِذن کے تحت ہوا ہے اور جب اللہ کے اذن کے تحت ہوا تو اللہ سے بڑھ کر نہ کوئی حکمت و مصلحت کو جاننے والا ہو سکتا اور نہ اصلاح و افساد کے درمیان امتیاز کرنے والا۔
’وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو اس لیے یہ اذن دیا کہ ان عہد شکنوں اور غداروں کو رسوا کرے اور یہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ انھوں نے جو درخت بڑے ارمانوں سے لگائے وہ ان کے سامنے کاٹے جا رہے ہیں لیکن وہ اتنے بے بس ہیں کہ چُوں بھی نہیں کر سکتے۔ لفظ ’فاسق‘ یہاں غدار اور عہد شکن کے مفہوم میں ہے اور اس مفہوم میں یہ لفظ قرآن میں جگہ جگہ استعمال ہوا ہے۔
یہاں معترضوں اور نکتہ چینوں کو خطاب نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اعتراض ایک بالکل نامعقول اعتراض تھا جو انھوں نے محض اپنے دل کا بخار نکالنے کے لیے اٹھایا۔ اس وجہ سے وہ لائق خطاب نہ تھے البتہ مسلمانوں کو خطاب کر کے ان کے اس فعل کی تصویب فرما دی تاکہ غداروں کو اس سے رنج بھی پہنچے اور ساتھ ہی منافقوں کو بھی تنبیہ ہو جائے کہ وہ اس کو وسوسہ اندازی کا ذریعہ نہ بنائیں۔
رہا یہ سوال کہ مسلمان بحالت جنگ دشمنوں کے باغوں اور کھیتوں کو اجاڑ سکتے ہیں یا نہیں تو یہ کوئی اہم سوال نہیں ہے۔ اگر جنگ کی ضرورت داعی ہو تو وہ ان کے گھروں کو بھی مسمار کر سکتے ہیں چہ جائیکہ ان کے باغ اور کھیت۔ لیکن جنگ کی ضرورت داعی نہ ہو تو ان کی کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نقصان پہنچانا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اِنھیں اعتراض ہے تو پروا نہ کرو، اِس لیے کہ) کھجوروں کے جو درخت (اِن پر حملے کے وقت) تم نے کاٹ دیے یا جن کو جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو یہ اللہ کے اذن سے ہوا، اور اِس لیے ہوا کہ وہ اِن نافرمانوں کو رسوا کر دے۔

یہ اعتراض یہود کی طرف سے ہوا۔ اُن کے خلاف جنگی اقدام کے لیے مسلمانوں کو اُن کے نخلستانوں سے درخت کاٹنا پڑے۔ یہ درخت کسی تخریب کے ارادے سے یا جذبۂ انتقام کے تحت نہیں، بلکہ جنگی ضرورت کے تحت اور اِن مجرموں کوکیفر کردار تک پہنچانے کے لیے کاٹے گئے تھے۔ اِسی طرح جو چھوڑے گئے تھے، وہ بھی اِس لیے نہیں چھوڑے گئے تھے کہ مسلمانوں کو اُنھیں اپنے لیے باقی رکھنا تھا، بلکہ اِس لیے چھوڑے گئے تھے کہ جنگ کے مقام پر نہ تھے اور اُنھیں کاٹنے کی ضرورت نہ تھی۔ مگر یہود نے اِسے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ذریعہ بنالیا کہ مسلمان اپنے آپ کو اصلاح کا داعی سمجھتے ہیں، لیکن اِن کا حال یہ ہے کہ فاتحین کے عام طریقے کے مطابق اِنھوں نے پھل والے درخت کاٹے اور اِس طرح تباہی پھیلا دی ہے۔ قرآن نے اِس اعتراض کا جواب دیا ہے، لیکن معترضین چونکہ لائق خطاب نہ تھے، اِس لیے اُن کے بجاے مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے کہ اِن کی پروا نہ کرو، تم نے جو کچھ کیا ہے ، اللہ کے رسول کی موجودگی میں اور اُن کی ہدایت کے مطابق کیا ہے، لہٰذا اذن الٰہی کے تحت کیا ہے اور اللہ نے یہ اذن اِس لیے دیا کہ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ اپنے ہرے بھرے باغوں کو اجڑتے اور مسلمانوں کے قبضے میں جاتے ہوئے دیکھیں اور قیامت سے پہلے اِسی دنیا میں رسوا ہو جائیں تاکہ خدا کی بات پوری ہو کہ جو خدا کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھی اُس کا مقابلہ کرنے کی جسارت کریں، اُن کا انجام بالآخر یہی ہوتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا ۔ اور (اللہ نے یہ اذن اس لئے دیا) تاکہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے ۔

یہ اشارہ ہے اس معاملہ کی طرف کہ مسلمانوں نے جب محاصرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف میں جو نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا یا جلا دیا تاکہ محاصرہ بآسانی کیا جاسکے، اور جو درخت فوجی نقل و حرکت میں حائل نہ تھے ان کو کھڑا رہنے دیا۔ اس پر مدینہ کے منافقین اور بنی قریظہ اور خود بنی نضیر نے شور مچا دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو فساد فی الارض سے منع کرتے ہیں۔ مگر یہ دیکھ لو، ہرے بھرے پھل دار درخت کاٹے جارہے ہیں، یہ آخر فساد فی الارض نہیں تو کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ تم لوگوں نے جو درخت کاٹے اور جن کو کھڑا رہنے دیا، ان میں سے کوئی فعل بھی ناجائز نہیں ہے، بلکہ دونوں کو اللہ کا اذن حاصل ہے۔ اس سے یہ شرعی مسئلہ نکلتا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے جو تخریبی کارروائی ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ فساد فی الارض یہ ہے کہ کسی فوج پر جنگ کا بھوت سوار ہوجائے اور وہ دشمن کے ملک میں گھس کر کھیت، مویشی، باغات، عمارات، ہر چیز کو خواہ مخواہ تباہ و برباد کرتی پھرے۔ اس معاملہ میں عام حکم تو وہی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق نے فوجوں کو شام کی طرف روانہ کرتے وقت دیا تھا کہ پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا، فصلوں کو خراب نہ کرنا، اور بستیوں کو ویران نہ کرنا۔ یہ قرآن مجید کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا کہ اس نے مفسد انسانوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اس فعل پر زجر و توبیخ کی ہے کہ ” جب وہ اقتدار پا لیتے ہیں تو فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرتے پھرتے ہیں “۔ (البقرہ۔ 205) ۔ لیکن جنگی ضروریات کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اگر دشمن کے خلاف لڑائی کو کامیاب کرنے کی خاطر کوئی تخریب ناگزیر ہو تو وہ کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ قطعوا منھا ما کان موضعاً للقتال، ” مسلمانوں نے بنی نضیر کے درختوں میں سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جو جنگ کے مقام پر واقع تھے ” (تفسیر نیسابوری) ۔ فقہائے اسلام میں سے بعض نے معاملہ کے اس پہلو کو نظر انداز کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ بنی نضیر کے درخت کاٹنے کا جواز صرف اسی واقعہ کی حد تک مخصوص تھا، اس سے یہ عام جواز نہیں نکلتا کہ جب کبھی جنگی ضروریات داعی ہوں، دشمن کے درختوں کو کاٹا اور جلایا جاسکے۔ امام اوزاعی، لیث اور ابوثور اسی طرف گئے ہیں۔ لیکن جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اہم جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، البتہ محض تخریب و غارت گری کے لیے یہ فعل جائز نہیں ہے۔

ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت مسلمانوں کو تو مطمئن کرسکتی تھی، لیکن جو لوگ قرآن کو کلام اللہ نہیں مانتے تھے انہیں اپنے اعتراض کے جواب میں یہ سن کر کیا اطمینان ہوسکتا تھا کہ یہ دونوں فعل اللہ کے اذن کی بنا پر جائز ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، کفار کو مطمئن کرنا سرے سے اس کا مقصود ہی نہیں ہے۔ چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے، یا بطور خود، مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیدا ہوگئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تو نہیں ہوگئے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کو کاٹنا، اور جو درخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کو نہ کاٹنا، یہ دونوں ہی فعل قانون الٰہی کے مطابق درست تھے۔

محدثین کی نقل کردہ روایات میں اس امر پر اختلاف ہے کہ آیا ان درختوں کے کاٹنے اور جلانے کا حکم خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا تھا، یا مسلمانوں نے بطور خود یہ کام کیا اور بعد میں اس کا شرعی مسئلہ حضور سے دریافت کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت یہ ہے کہ حضور نے خود اس کا حکم دیا تھا (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن جریر) ۔ یہی یزید بن رومان کی روایت بھی ہے (ابن جریر) ۔ بخلاف اس کے مجاہد اور قتادہ کی روایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے بطور خود یہ درخت کاٹے تھے، پھر ان میں اس مسئلے پر اختلاف ہوا کہ یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہوئے اور بعض نے اس سے منع کیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر دونوں کے فعل کی تصویب کردی (ابن جریر) ۔ اسی کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس بات پر خلش پیدا ہوئی کہ ہم میں سے بعض نے درخت کاٹے ہیں اور بعض نے نہیں کاٹے، اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھنا چاہیے کہ ہم میں سے کس کا فعل اجر کا مستحق ہے اور کس کے فعل پر مواخذہ ہوگا (نسائی) ۔ فقہاء میں سے جن لوگوں نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اجتہاد تھا جس کی توثیق بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی جلی سے فرمائی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن معاملات میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہ ہوتا تھا۔ ان میں حضور اجتہاد پر عمل فرماتے تھے۔ دوسری طرف جن فقہاء نے دوسری روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے دو مختلف رائیں اختیار کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توثیق فرما دی، لہٰذا اگر نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کر کے اہل علم مختلف رائیں قائم کریں تو باوجود اس کے کہ ان کی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی، مگر اللہ کی شریعت میں وہ سب حق پر ہوں گے۔

یعنی اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ ان درختوں کو کاٹنے سے بھی ان کی ذلت و خواری ہو اور نہ کاٹنے سے بھی۔ کاٹنے میں ان کی ذلت و خواری کا پہلو یہ تھا کہ جو باغ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن باغوں کے وہ مدت ہائے دراز سے مالک چلے آ رہے تھے، ان کے درخت ان کی آنکھوں کے سامنے کاٹے جا رہے تھے اور وہ کاٹنے والوں کو کسی طرح نہ روک سکتے تھے۔ ایک معمولی کسان اور باغبان بھی اپنے کھیت یا باغ میں کسی دوسرے کے تصرف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اگر اس کے سامنے اس کا کھیت یا اس کا باغ کوئی برباد کر رہا ہو تو وہ اس پر کٹ مرے گا۔ اور اگر وہ اپنی جائیداد میں دوسرے کی دست درازی نہ روک سکے تو یہ اس کی انتہائی ذلت اور کمزوری کی علامت ہوگی۔ لیکن یہاں ایک پورا قبیلہ، جو صدیوں سے بڑے دھڑلے کے ساتھ اس جگہ آباد تھا، بےبسی کے ساتھ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہمسائے اس کے باغوں پر چڑھ آئے ہیں اور اس کے درختوں کو برباد کر رہے ہیں، مگر وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس کے بعد اگر وہ مدینے میں رہ بھی جاتے تو ان کی کوئی آبرو باقی نہ رہتی۔ رہا درختوں کو نہ کاٹنے میں ذلت کا پہلو تو وہ یہ تھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ کل تک جو ہرے بھرے باغ ان کی ملکیت تھے وہ آج مسلمانوں کے قبضے میں جا رہے ہیں۔ ان کا بس چلتا تو وہ ان کو پوری طرح اجاڑ کر جاتے اور ایک سالم درخت بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہ جانے دیتے۔ مگر بےبسی کے ساتھ وہ سب کچھ جوں کا توں چھوڑ کر با حسرت و یاس نکل گئے۔

جونا گڑھی

تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لئے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے ۔

  لینۃ۔ کھجور کی ایک قسم ہے جیسے عجوہ برنی وغیرہ کھجوروں کی قسمیں ہیں یا عام کھجور کا درخت مراد ہے۔ دوران محاصرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے مسلمانوں نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا دی، کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے۔ جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا۔ اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال و جائیداد میں جس طرح چاہے، تصرف کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اور اسے یہود کی رسوائی کا ذریعہ قرارا دیا۔ 

وَمَا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

امین احسن اصلاحی

اور اللہ نے ان کی طرف سے جو کچھ اپنے رسول کی طرف لوٹایا تو تم نے اس پر نہ اپنے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ بلکہ اللہ ہے جو اپنے رسولوں کو مسلط کر دیتا ہے جن پر چاہتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ایک دوسرے سوال کا جواب: یہ دوسرے سوال کا جواب ہے جو بنی نضیر کی متروکہ املاک سے پیدا ہوا اور جس کو منافقین نے اپنی حرص مال کی وجہ سے زیادہ شدت کے ساتھ ہوا دی۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ یہ بھی دشمن سے حاصل شدہ مال ہے اس وجہ سے اس کو بھی مال غنیمت کی طرح پانچواں حصہ نکال کر باقی ہر چیز فوجیوں میں تقسیم کر دی جائے۔ اس سے کچھ ہی پہلے جنگ بدر کے موقع پر ایسا ہی کیا گیا تھا۔ اسی کو سامنے رکھ کر اس کے بارے میں بھی وہی مطالبہ کیا گیا لیکن قرآن نے دونوں صورتوں میں نمایاں فرق ہونے کی وجہ سے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ بدر کے موقع پر مجاہدین کو باقاعدہ جنگ کرنی پڑی تھی جس میں ان کو اپنے اسلحہ اور اونٹ گھوڑے کام میں لانے پڑے جب کہ اس موقع پر اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ اللہ کے رسول کے دبدبہ سے مرعوب ہو کردشمن نے اپنا علاقہ خود خالی کر دیا۔ اس فرق کی وجہ سے اس کے متعلق حکم ہوا کہ اس کی حیثیت مال فے کی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے دشمنوں سے اپنے رسول کو دلوایا ہے چنانچہ یہ کُل کا کُل اللہ و رسول یابالفاظ دیگر اسلامی حکومت کا ملکیت ہو گا اور اسلام اور مسلمانوں کی اجتماعی بہبود میں صرف ہو گا۔

مال فے اور اس کا حکم: اسی ’مَآ اَفَآءَ اللّٰہُ‘ سے اسلامی مالیات میں ایک مستقل اصطلاح مال فے کی پیدا ہو گئی جس سے وہ مال مراد ہوا کرتا ہے جو دشمن سے بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہو۔ ’فے‘ کے معنی لوٹانے کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اس مال کو غاصبوں سے لے کر اس کے حقیقی حق داروں کو لوٹا دیتا ہے۔
’فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِْنۡ خَیْلٍ وَّلَا رِکَابٍ‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ فوجیوں کو مال غنیمت سے جو حصہ دیا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں اپنے ذاتی اسلحہ، گھوڑے اور اونٹ جنگ میں استعمال کرنے پڑتے تھے یہاں تک کہ اپنا زاد راہ بھی ساتھ رکھنا ہوتا تھا۔ اب صورت حال بالکل تبدیل ہو گئی ہے اس وجہ سے اس زمانے میں دشمن سے جو کچھ بھی حاصل ہو گا اس کی حیثیت فے کی ہوگی، خواہ جنگ سے حاصل ہو یا صلح سے۔
’وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘۔ سورۂ مجادلہ کی آیت ۲۱ میں گزر چکا ہے کہ

’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ‘
(اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول)

اس سنت الٰہی کے تحت رسول کے لیے غلبہ ضروری ہے۔ اس غلبہ کے لیے اللہ کا رسول اپنے رب کے سوا کسی اور کی مدد کا محتاج نہیں ہے اور اس کا رب ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ چاہے تو اس کو دشمنوں کے بڑے سے بڑے ملک پر بغیر کسی فوج ہی کے غالب کر دے۔ اہل ایمان سے اگر وہ مدد کا طالب ہوتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ ان کی مدد کا محتاج ہے بلکہ اس سے ایک مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ ان کے لیے حصول سعادت کی راہ کھلے اور دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مخلص اور منافق میں امتیاز ہو جائے۔

جاوید احمد غامدی

اور (منافقین پوچھتے ہیں تو اُنھیں بتاؤ کہ) جو اموال اللہ نے اِن (یہودیوں) کی طرف سے اپنے رسول کی طرف پلٹا دیے تواُن پر تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے (کہ اُن پر تمھارا کوئی حق قائم ہو)، بلکہ اللہ ہے جو اپنے رسولوں کو جن پر چاہتا ہے، غلبہ عطا فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

پلٹانے کا یہ لفظ بڑا معنی خیز استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ ہی کا مال تھا جسے اِن ظالموں نے غصب کر رکھا تھا۔ اللہ نے اِس کو واپس لے کر اِس کے حقیقی حق داروں کو دے دیا ہے۔

یہ اُسی غلبے کا ذکر ہے جو سنت الٰہی کے مطابق ہر رسول کو لازماً حاصل ہوتا ہے۔ زمانۂ رسالت کی جنگیں زیادہ تر اِسی سنت کا ظہور تھیں اور اُن میں لڑنے والوں کی حیثیت بھی اصلاً آلات و جوارح کی تھی۔ وہ اللہ کے حکم پر میدان میں اترے اور براہ راست اُس کے فرشتوں کی مدد سے فتح یاب ہوئے تھے۔ لہٰذا اِن جنگوں کے مال غنیمت پر کسی کا کوئی حق نہ تھا۔ تاہم بنی نضیر کے خلاف اِس اقدام سے پہلے جب مسلمان بدر کے معرکے میں اترے تھے تو اُنھیں باقاعدہ جنگ کرنا پڑی تھی۔ اُنھوں نے اِس کے لیے زادراہ کا بندوبست بھی خود کیا تھا اور اِس کی ضرورتوں کے لیے اسلحہ، گھوڑے اور اونٹ وغیرہ بھی خود مہیا کیے تھے۔ چنانچہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اجتماعی مقاصد کے لیے رکھ کر باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ بنی نضیر کے خلاف اِس اقدام میں اِس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی، بلکہ اللہ و رسول کے دبدبے سے مرعوب ہو کر یہودیوں نے اپنا علاقہ خود خالی کر دیا۔ اِس لیے اب کوئی ضرورت نہ تھی کہ اِس کا ایک حصہ مجاہدین میں تقسیم کیا جائے۔ لیکن منافقین اپنی حرص مال کی وجہ سے اِس پر راضی نہیں ہوئے اور اُنھوں نے اعتراض کیا ۔ یہ اُس اعتراض کا جواب ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دئے ، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے۔ تسلط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

اب ان جائدادوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنی نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔ ان کے متعلق یہاں سے آیت 10 تک اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان کا انتظام کس طرح کیا جائے۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک علاقہ فتح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوا، اور آگے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے، اس لیے فتوحات کے آغاز ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا گیا۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے : مَا اَفَآء اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ (جو کچھ پلٹا دیا ان سے اللہ نے اپنے رسول کی طرف) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ یہ زمین اور وہ ساری چیزیں جو یہاں پائی جاتی ہیں، دراصل ان لوگوں کا حق نہیں ہیں جو اللہ جل شانہ کے باغی ہیں۔ وہ اگر ان پر قابض و متصرف ہیں تو یہ حقیقت میں اس طرح کا قبضہ و تصرف ہے جیسے کوئی خائن ملازم اپنے آقا کا مال دبا بیٹھے۔ ان تمام اموال کا اصل حق یہ ہے کہ یہ ان کے حقیقی مالک، اللہ رب العالمین کی اطاعت میں اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیے جائیں، اور ان کا یہ استعمال صرف مومنین صالحین ہی کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز و برحق جنگ کے نتیجے میں کفار کے قبضے سے نکل کر اہل ایمان کے قبضے میں آئیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انہیں اپنے خائن ملازموں کے قبضے سے نکال کر اپنے فرمانبردار ملازموں کی طرف پلٹا لایا ہے۔ اسی لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں فَے (پلٹا کر لائے ہوئے اموال) قرار دیا گیا ہے۔

یعنی ان اموال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جو فوج میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوئی ہے اس نے لڑ کر ان کو جیتا ہو اور اس بنا پر اس فوج کا یہ حق ہو کہ یہ اموال اس میں تقسیم کردیے جائیں، بلکہ ان کی اصل نوعیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسولوں کو، اور اس نظام کو جس کی نمائندگی یہ رسول کرتے ہیں، ان پر غلبہ عطا کردیا ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا براہ راست لڑنے والی فوج کے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اور اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے۔ اس لیے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں اور لڑنے والی فوج کا یہ حق نہیں ہے کہ غنیمت کی طرح ان کو بھی اس میں تقسیم کردیا جائے۔

اس طرح شریعت میں غنیمت اور فَے کا حکم الگ الگ کردیا گیا ہے۔ غنیمت کا حکم سورة انفال آیت 41 میں ارشاد ہوا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کردیے جائیں، اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے ان مصارف میں صرف کیا جائے جو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور فَے کا حکم یہ ہے کہ اسے فوج میں تقسیم نہ کیا جائے، بلکہ وہ پوری کی پوری ان مصارف کے لیے مخصوص کردی جائے جو آگے کی آیات میں بیان ہو رہے ہیں۔ ان دونوں قسم کے اموال میں فرق فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَارِکَابِ (تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ہیں) کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد ہے جنگی کارروائی Warlikeoperations لہٰذا جو مال براہ راست اس کارروائی سے ہاتھ آئے ہوں وہ غنیمت ہیں۔ اور جن اموال کے حصول کا اصل سبب یہ کارروائی نہ ہو وہ سب فَے ہیں۔

یہ مجمل فرق جو غنیمت اور فَے کے درمیان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو جنگی کارروائیوں کے دوران میں دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں۔ ان کے ماسوا دشمن ملک کی زمینیں، مکانات اور دوسرے اموال منقولہ وغیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں۔ اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر (رض) کا وہ خط ہے جو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ : فانضر ما اجلبوا بہ علیک فی العسکر من کراءٍ او مالٍ فاقسمہ بین من حضر من المسلمین و اترک الاَرَضِین والانھار لعُمّالھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین۔ ” جو مال متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے ” (کتاب الخراج لابی یوسف صفحہ 24 ۔ کتاب الاموال لابی عبید صفحہ 59 ۔ کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم، صفحات 27 ۔ 28 ۔ 148) اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ” جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لیے ہے ” (یحیٰ بن آدم، صفحہ 27) ۔ اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ ” جو کچھ دشمن کے لشکروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور جو متاع اور اسلحہ اور جانور وہ اپنے کیمپ میں سمیٹ لائیں وہ غنیمت ہے اور اسی میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کیے جائیں گے ” (کتاب الخراج، صفحہ 18) ۔ یہی رائے یحییٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کی ہے (صفحہ 27) ۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فَے کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوَنْد کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہوچکا تھا اور مفتوحہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہوگیا تھا، ایک صاحب، سائب بن اَقْرَع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں۔ ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے، یا اسکا شمار اب فَے میں ہے جسے بیت المال میں داخل ہونا چاہیے ؟ آخر کار انہوں نے مدینہ حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمر کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کردی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنگ میں فوج کے ہاتھ آئیں۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فَے کے حکم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ امام ابو عبید اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں : مانیل من اھل الشرک عَنْوۃً قسر او الحرب قائمۃ فھو الغنیمۃ، وما نیل منھم بعد ما تضع الحرب اوزارھا و تصیر الدار دار الاسلام فھو فیء یکون للناس عامّا ولا خمس فیہ۔ ” جو مال دشمن سے بزور ہاتھ لگے، جبکہ ابھی جنگ ہو رہی ہو، وہ غنیمت ہے، اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ملک دار الاسلام بن گیا ہو، اس وقت جو مال ہاتھ لگے وہ فَے ہے جسے عام باشندگان دار الاسلام کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ اس میں خمس نہیں ہے۔ ” (کتاب الاموال، صفحہ 254 ) ۔

غنیمت کو اس طرح محدود کرنے کے بعد باقی جو اموال و املاک اور اراضی کفار سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو وہ دو بڑی اقسام پر تقسیم کیے جاسکتے ہیں ایک وہ جو لڑ کر فتح کیے جائیں، جن کو اسلامی فقہ کی زبان میں حَنْوَۃً فتح ہونے والے ممالک کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جو صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں، خواہ وہ صلح اپنی جگہ پر مسلمانوں کی فوجی طاقت کے دباؤ یا رعب اور ہیبت ہی کی وجہ سے ہوئی ہو۔ اور اسی قسم میں وہ سب اموال بھی آجاتے ہیں جو عَنْوَۃً فتح ہونے کے سوا کسی دوسری صورت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔ فقہائے اسلام کے درمیان جو کچھ بحثیں پیدا ہوئی ہیں وہ صرف پہلی قسم کے اموال کے بارے میں پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت کیا ہے کیونکہ وہ فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لا رکابٍ کی تعریف میں نہیں آتے۔ رہے دوسری قسم کے اموال، تو ان کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ فَے ہیں، کیونکہ ان کا حکم صاف صاف قرآن مجید میں بیان کردیا گیا ہے۔ آگے چل کر ہم قسم اول کے اموال کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کریں گے۔

جونا گڑھی

اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

 بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لئے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسطرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہوگیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لئے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَیْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے یعنی جو مال بغیر لڑے دشمن چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو، اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔ 

مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

امین احسن اصلاحی

جو کچھ اللہ بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول کی طرف لوٹائے تو وہ اللہ اور رسول اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ تاکہ اس کی گردش تمہارے مال داروں ہی کے اندر محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ اور رسول جو تمہیں دے اس کو لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت پاداش والا ہے۔

مال غنیمت اور مال فے کے درمیان فرق واضح کرنے کے بعد یہ مال فے کا مصرف بتا دیا کہ یہ کل کا کل اللہ، رسول، رسول کے متعلقین ، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہو گا۔ یعنی اس میں جنگ کرنے والوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہاں جو مصارف بیان ہوئے ہیں وہ سب سورۂ انفال میں اموال غنیمت کے سلسلہ میں زیربحث آ چکے ہیں۔ اس وجہ سے یہاں ہم صرف خاص خاص باتوں ہی کی طرف توجہ دلائیں گے۔ تفصیل کے طالب تفسیر سورۂ انفال کی مراجعت کریں۔

’لِلّٰہِ وَلِلرَّسَوْلِ‘ میں جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے، وہ کسی مال و متاع کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے نام کا حصہ درحقیقت اس کے بندوں ہی کی طرف لوٹتا ہے اور اسلامی حکومت امین کی حیثیت سے اس کو مستحقین اور مسلمانوں کی اجتماعی بہبود کے کاموں میں صرف کرتی ہے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اس میں بحیثیت رسول کے نہیں بلکہ بحیثیت اسلامی حکومت کے سربراہ کے ہے۔ رسول کی حیثیت سے آپ کی کفالت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لی تھی جس کی تصریح خود قرآن میں ہے البتہ جب اسلامی حکومت وجود میں آئی اور اس کے فرائض کا بوجھ بھی آپ کے کندھوں پر پڑا تو ضروری ہوا کہ سرکاری خزانے سے آپ کو بھی اپنی ضروریات کے مطابق لینے کا حق ہو۔ آپ کا یہ حق چونکہ بحیثیت سربراہ حکومت کے تھا اس وجہ سے آپ کی وفات کے بعد یہ آپ کے خلیفہ کی طرف لوٹ گیا۔ اس کی نوعیت کسی ذاتی ملکیت کی نہیں تھی کہ آپ کے بعد اس کی وراثت کو سوال پیدا ہو۔ حضرات ابنیاء علیہم السلام دین کی وراثت چھوڑتے ہیں، اموال و املاک کی وراثت نہیں چھوڑتے۔
’وَلِذِی الْقُرْبٰی‘ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقرباء مراد ہیں جن کی کفالت کی آپ پر ذمہ داری تھی۔ یہ چیز درحقیقت آپ کی ذاتی ضرورت ہی کا ایک حصہ تھی۔ اس کی نوعیت بھی کسی ذاتی جائداد کی نہیں تھی کہ آپ کے بعد یہ وراثت کی حیثیت سے آپ کے خاندان کی طرف لوٹے۔ جس طرح اسلام پر کسی خاص خاندان کا اجارہ نہیں ہے اسی طرح اسلام کی حکومت یا اس کے بیت المال کے کسی حصہ پر بھی کبھی کسی خاندان کا اجارہ نہ ہوا نہ ہو سکتا۔ اس قسم کے خیالات یہودیوں کے زیراثر مفسدین کے ایک گروہ نے مسلمانوں کے اندر پھیلائے لیکن ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرباء کے بعد معاً یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کے حق کا ذکر اسلامی نظام میں ان کے مرتبہ و مقام کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے حق کے ساتھ فرمایا ہے۔ اسلامی حکومت کی اولین ذمہ داری ان لوگوں کی کفالت و سرپرستی ہے جو معاشرہ کے اندر بے وسیلہ ہیں۔ اس کے دوسرے فرائض کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔ اگر حکومت اس مقدم ضرورت کو نظرانداز کر کے دوسری ضرورتوں پر بیت المال کی آمدنی خرچ کرتی ہے تو ہر چند وہ ضرورتیں رفاہی اور تمدنی نقطۂ نظر سے اہمیت رکھنے والی ہی کیوں نہ ہوں لیکن وہ اصل حق داروں کے حقوق میں خیانت کی مجرم ہے۔ اور اس امر کے جواز کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ کوئی اسلامی حکومت سرکاری خزانے کا ایک پیسہ بھی فضول قسم کی نمائشوں اور عیاشیوں پر صرف کرے۔ جو حکومت ایسا کرتی ہے وہ اسلامی حکومت نہیں بلکہ شیطانی حکومت ہے۔ اسی قسم کی حکومتوں کی بدولت اس دنیا پر وہ آفت نازل ہوئی جس کو اشتراکیت کہتے ہیں، جس نے انفرادی ملکیت کے تصور ہی کو سرے سے ایک جرم بلکہ تمام جرائم کی اصل قرار دے دیا۔ اور اس جرم کے استیصال کے لیے دنیا میں خون کی ندیاں بہا دیں۔
’کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ‘۔ ’دُوْلَۃٌ‘ کے معنی گردش کے ہیں۔ ’دالت الایّام‘ کے معنی ہوں گے ’دارالزمان‘ زمانہ نے گردش کی۔ اسی سے ’مداولت‘ ہے جو قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے:

’وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ‘ (آل عمران ۳: ۱۴۰)
(اور ہم ان ایام کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں)۔

مطلب یہ ہے کہ غرباء و یتامیٰ اور بے وسیلہ لوگوں کا حق اس لیے سرکاری بیت المال میں محفوظ کر دیا ہے کہ دولت صرف مال داروں ہی کے درمیان نہ گردش کرتی رہے بلکہ اس کو غریبوں تک پہنچنے کی بھی راہ ملے۔
اس سے اسلامی اقتصادیات کا یہ اصول واضح ہوا کہ اسلام یہ نہیں پسند کرتا کہ دولت کسی خاص طبقہ کے اندر مرتکز ہو کر رہ جائے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا بہاؤ ان طبقات کی طرف بھی ہو جو اپنی خلقی کمزوریوں یا فقدان وسائل کے سبب سے اس کے حصول کی جدوجہد میں پورا حصہ نہیں لے سکتے۔ اس مقصد کے لیے اس نے افراد کو زیادہ سے زیادہ انفاق پر ابھارا ہے اور ان کے اس آزادانہ انفاق کو ان کی روحانی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا ہے اور قانون کے ذریعہ سے بھی ہر صاحب مال کے مال میں سے ایک حصہ غریبوں کے حق کی حیثیت سے الگ کر کے حکومت کی تحویل میں دے دیا ہے۔
معترضین کو تنبیہ: ’وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘۔ یہ آخر میں تہدید و وعید ہے کہ رسول جو کچھ دے وہ لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے رک جاؤ۔ کسی بات کو اعتراض و نکتہ چینی اور نجویٰ و سرگوشی کا بہانہ نہ بناؤ۔ اللہ سے برابر ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ اللہ بڑی ہی سخت سزا دینے والا ہے۔
یہ تہدید و وعید دلیل ہے کہ جن سوالوں کے جواب یہاں دیے گئے ہیں وہ منافقین کی طرف سے اٹھائے گئے تھے اور ان کے اٹھانے سے مقصود مسئلہ کی تحقیق نہیں بلکہ، ان کی عادت کے مطابق، اعتراض و نکتہ چینی تھا۔ اگر سوال محض حق کے لیے مخلص مسلمانوں کی طرف سے ہوتا تو اس تہدید کا یہاں کوئی موقع نہیں تھا۔
ایک حکم خاص سے ایک کلیہ کا استنباط: یہاں رسول کا یہ درجہ جو واضح فرمایا گیا ہے کہ ’جو کچھ وہ دے وہ لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ‘ اگرچہ اس کا ایک خاص محل ہے لیکن اس سے جو حکم مستنبط ہوتا ہے وہ بالکل عام ہو گا۔ یعنی زندگی کے ہر معاملے میں رسول کے ہر حکم کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے گی اس لیے کہ رسول کی حیثیت، جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ فرمایا ہے:

’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘۔ (النساء ۴: ۶۴)
(اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے)

گویا اس ٹکڑے کے دو مفہوم ہوں گے۔ ایک خاص، دوسرا عام۔ اپنے خاص مفہوم کے پہلو سے یہ اپنے سابق مضمون سے مربوط ہو گا اور اپنے عام مفہوم کے اعتبار سے اس کی حیثیت اسلامی شریعت کے ایک ہمہ گیر اصول کی ہو گی۔

جاوید احمد غامدی

(اِس لیے) اِن بستیوں کے لوگوں سے اللہ جو کچھ اپنے رسول کی طرف پلٹائے، وہ اللہ اور رسول اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا تاکہ وہ تمھارے دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے۔ اور رسول( کا منصب یہی ہے کہ) جو تمھیں دے، وہ لے لو اور جس چیز سے روکے، اُس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔

اِن اموال کی صحیح نوعیت بتا دینے کے بعد یہ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اِنھیں دین و ملت کی اجتماعی ضرورتوں اور قوم کے غربا و مساکین کے لیے خاص کر دیاگیا ہے، اِن کا کوئی حصہ بھی مجاہدین میں تقسیم نہیں ہو گا۔ اِس کے بعد اِن مقاصد کی تفصیل کر دی ہے:

سب سے پہلے اللہ کا حق بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ، ظاہر ہے کہ ہر چیز سے غنی اور بے نیاز ہے۔ اُس کے نام کا حصہ اُس کے دین ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ لہٰذا اِس کا اصلی مصرف وہ کام ہوں گے جو دین کی نصرت اور حفاظت و مدافعت کے لیے مسلمانوں کا نظم اجتماعی اپنی دینی ذمہ داری کی حیثیت سے انجام دیتا ہے۔
دوسرا حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا گیا ہے۔ آپ کی شخصیت میں اُس وقت نبوت و رسالت کے ساتھ مسلمانوں کی حکومت کے سربراہ کی ذمہ داری بھی جمع ہو گئی تھی اور آپ کے اوقات کا لمحہ لمحہ اپنے یہ منصبی فرائض انجام دینے میں صرف ہو رہا تھا۔ اِس ذمہ داری کے ساتھ اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ تھا۔ اِس صورت حال میں ضروری ہوا کہ اِس مال میں آپ کا حق بھی رکھا جائے۔ اِس کی نوعیت کسی ذاتی ملکیت کی نہیں تھی کہ اِسے آپ کے وارثوں میں تقسیم کیا جاتا۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ آپ سے آپ اُن کاموں کی طرف منتقل ہو گیا جو آپ کی نیابت میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے لیے انجام دینا ضروری تھے۔
تیسرا حق ’ذِی الْقُرْبٰی‘کا بیان کیا گیا ہے۔ اِس سے، ظاہر ہے کہ آپ کے وہ قرابت دار مراد ہیں جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی اور جن کی ضرورتیں پوری کرنا اخلاقی لحاظ سے آپ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ آپ کی حیثیت تمام مسلمانوں کے باپ کی تھی۔ چنانچہ آپ کے بعد یہ ذمہ داری عرفاً و شرعاً مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو منتقل ہوئی اور ذی القربیٰ کا حق بھی جب تک وہ دنیا میں رہے، اِسی طرح قائم رہا۔
چوتھا حق یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔ اُن کا حق بیان کرتے ہوئے اُس ’ل‘ کا اعادہ نہیں فرمایا جو اوپر اللہ،رسول اور ذی القربیٰ، تینوں کے ساتھ آیا ہے، بلکہ اُن کا ذکر ذی القربیٰ کے ذیل ہی میں کر دیا ہے۔ اِس سے مقصود اِس طبقے کی عزت افزائی ہے کہ گویا یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقربا ہی کے تحت ہیں۔ یہ حق کسی وضاحت کا محتاج نہیں ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو اِن طبقات کی ضرورتوں کے لیے حساس نہیں ہے، جس میں یتیم دھکے کھاتے، مسکین بھوکے سوتے اور مسافر اپنے لیے کوئی پرسان حال نہیں پاتے، اُسے اسلامی معاشرے کا پاکیزہ نام نہیں دیا جا سکتا۔
یہ اِس حکم کی مصلحت بتائی ہے کہ اِن اموال کو مجاہدین میں تقسیم کرنے اور اِس طرح نجی ملکیت میں دینے کے بجاے دین و ملت کی اجتماعی ضرورتوں اور قوم کے غربا و مساکین کی مدد اور کفالت کے لیے کیوں وقف رکھا گیا ہے۔ فرمایا ہے: تاکہ یہ تمھارے دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتے رہیں۔ اِس سے یہ رہنمائی قرآن نے مسلمانوں کے ہر نظم اجتماعی کو دی ہے کہ دولت غریب و امیر جس کی بھی نجی ملکیت میں دی جائے گی، بالآخر دولت مندوں ہی میں گردش کرنا شروع کر دے گی، اِس لیے ضروری ہے کہ وہ تمام اموال و املاک جو کسی فرد کی ملکیت نہیں ہیںیا نہیں ہو سکتے، اُنھیں ریاست کی ملکیت میں رکھا جائے اور نظم اجتماعی سے متعلق بعض دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ اُن لوگوں کی ضرورتیں بھی اُن سے پوری کی جائیں جو اپنی خلقی کمزوریوں یا اسباب و وسائل سے محرومی کے باعث دوسروں کی مدد کے محتاج ہو جاتے ہیں۔
یہ تہدید وو عیدبتا رہی ہے کہ اوپر جو وضاحت کی گئی ہے، وہ منافقین کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض کے جواب میں کی گئی ہے ، اِس لیے کہ سوال اگر محض تحقیق مسئلہ کے لیے اور مخلصین کی طرف سے ہوتا تو اِس تہدید کا کوئی موقع نہیں تھا۔

ابو الاعلی مودودی

جو کچھ بھی اللہ ان بستیوں کے لوگوں سے اپنے کی طرف پلٹا دے وہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامی اور مساکین اور مسافروں کے لیئے ہے تاکہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے ۔ جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

پچھلی آیت میں صرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں۔

ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے۔ اس حکم پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر (رض) کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر خرچ فرمائے تھے (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ) ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہوگیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا۔ امام شافعی سے یہ رائے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصب رسالت کی بنا پر۔ مگر فقہائے شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے۔

دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے، اور ان سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار ہیں، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب۔ یہ حصہ اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہوگئے، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان (رض) کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے (یتامیٰ ، مساکین و ابن السبیل) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باقر کا قول نقل کیا ہے کہ اگرچہ حضرت علی کی ذاتی رائے وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی رائے تھی (کہ یہ حصہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی رائے کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان دونوں حصوں (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے) کے متعلق اختلاف رائے تھی کہ دوسرا حصہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہئے۔ آخر کار اس بات پر اجماع ہوگیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں۔ عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کردیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں جاری تھا (کتاب الخراج 11، لابی یوسف، صفحہ 19 تا 21) امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطلبی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر، دونوں طرح کے اشخاص کو فَے میں سے مال دیا جاسکتا ہے۔ (مغنی المحتاج) ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جاسکتی ہے، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے۔ (روح المعانی) ۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے۔ مگر ادنیٰ یہ ہے کہ آل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقدم رکھے۔ (حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر) ۔

باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پانچ برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورہ بالا مصارف پر اس طرح صرف کیا جانا چاہیے کہ اس کا 5/1 مصالح مسلمین پر، 5/1 بنی ہاشم و بنی المطلب پر، 5/1 مساکین پر اور 5/1 مسافروں پر صرف کیا جائے۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں، اور ان کی رائے یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے۔ (مغنی المحتاج) ۔

یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان ہی کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اسی مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے، زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، اموال غنیمت میں خمس نکالنے کا حکم دیا گیا، صدقات نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، مختلف قسم کے کفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جائے، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ہی انہیں ادا کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کردیا گیا ہے کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لیے صرف کیا جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اسلامی حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدات دو ہیں۔ ایک زکوٰۃ، دوسرے فَے۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو پورے زائد از نصاب سرمائے، مواشی، اموال تجارت اور زرعی پیداوار سے وصول کی جاتی ہے اور وہ زیادہ تر غریبوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ اور فَے میں جزیہ و خراج سیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوں، اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ یہ کھلا ہوا اشارہ اس طرف ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمدنی و خرچ کا نظام، اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پائے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے۔

سلسلہ بیان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموال بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموال فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو فیصلہ فرمائیں اسے بےچوں و چرا تسلیم کرلو، جو کچھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو دیں وہ اسے لے لے، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ صرف اموال فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کریں۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کردیتی ہے کہ ” جو کچھ رسول تمہیں دے ” کے مقابلہ میں ” جو کچھ نہ دے ” کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئے ہیں، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ ” جس چیز سے وہ تمہیں روک دے (یا منع کر دے) اس سے رک جاؤ “۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموال فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو ” جو کچھ دے ” کے مقابلہ میں ” جو کچھ نہ دے ” فرمایا جاتا۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امر و نہی کی اطاعت ہے۔ یہی بات ہے جو خود رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم وما نھیتم عنہ فاجتنبوہ ” جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو۔ ” (بخاری۔ مسلم) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا ” اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ” اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں سے اخذ کی ہے ؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے اس میں مل جاتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآ اٰتکُمُ الرَّسُول فخذوہُ ومَا نھٰکم عنہ فانتھوا ؟ اس نے عرض کیا، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی۔ (بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد۔ مسُند ابن ابی حاتم)

جونا گڑھی

بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔

​n/a

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ

امین احسن اصلاحی

یہ خاص طور پر ان محتاج مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی املاک سے نکالے گئے ہیں اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہوئے۔ یہی لوگ اصل راست باز ہیں۔

اموال فَے کا ایک ہنگامی مصرف: اموال فے کا عام مصرف بتانے کے بعد یہ اس کے ایک خاص مصرف کی طرف اشارہ فرمایا جو وقت کا سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا مصرف اور تمام مسلمانوں کی یکساں توجہ کا مستحق تھا۔ یعنی مہاجرین کی امداد جو اس وقت ہر طرف سے اپنے گھروں سے اجڑ اکھڑ کر مدینہ آ رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کو ازسرنو بسانے اور ان کی معاشی زندگی کو پھر سے متحرک کرنے کی ذمہ داری اس چھوٹے سے اسلامی معاشرہ ہی پر عائد ہوتی تھی جو ابھی نیا نیا مدینہ کی سرزمین میں ابھر رہا تھا۔ یہ صورت مقتضی تھی کہ اموال فَے کو حکومت کی تحویل میں دیا جائے تاکہ اس طرح کے ملی مسائل کے حل کے لیے اس کے پاس وسائل موجود رہیں۔

مہاجرین کی تعریف: ان مہاجرین کی تعریف میں فرمایا کہ یہ لوگ اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے مجبور کر کے نکالے گئے ہیں اور انھوں نے اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب اور اللہ اور اس کے رسول کی نصرت کے مقصد سے اپنی املاک سے یہ محرومی اور اپنے گھر در سے یہ مہجوری برداشت کی ہے اس وجہ سے یہ مستحق ہیں کہ ان کے دینی بھائی پوری فراخ دلی اور سیرچشمی سے ان کی مدد کریں۔ ’یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا‘ سے اشارہ اس ایمانی زادراہ کی طرف ہے جس کے اعتماد پر یہ مہاجرین اپنے گھروں اور اپنی املاک سے بغیر اس بات کی پروہ کیے اٹھ کھڑے ہوئے کہ کیا کھائیں گے اورکہاں سر چھپائیں گے۔ اور ’یَنۡصُرُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ‘ سے اس مقصد کی طرف اشارہ ہے جس مقصد عزیز کے لیے یہ بازی انھوں نے کھیلی۔ یعنی انھوں نے یہ چاہا کہ وہ اللہ کے رسول کے ہم رکاب رہیں تاکہ ہر قدم پر اللہ اور اس کے رسول کی مدد کے لیے سربکف رہ سکیں۔
’اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ‘۔ فرمایا کہ یہی لوگ درحقیقت اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی رضا طلبی اور رسول کی نصرت کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا نہ کہ یہ منافقین جو مدعی تو ہیں ایمان کے لیکن اللہ کی راہ میں معمولی چوٹ کھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ بس یہ چاہتے ہیں کہ گھر بیٹھے بٹھائے انھیں لقمۂ تر ہاتھ آتا رہے۔ ان منافقین ہی کے بارے میں آگے اسی سورہ کی آیت ۱۱ میں فرمایا ہے کہ

’وَاللَّہُ یَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ‘
(اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین بالکل جھوٹے ہیں)۔

جاوید احمد غامدی

پھر یہ بالخصوص اُن غریب مہاجروں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل اور اُس کی خوشنودی چاہتے ہوئے اور اللہ اور اُس کے رسول کی حمایت کرتے ہوئے آئے ہیں۔ یہی راست باز ہیں۔

یہ اِن اموال کا ایک خاص مصرف بتایا ہے جو اُس وقت کے حالات میں پیدا ہو گیا تھا اور تمام مسلمانوں کی یکساں توجہ کا مستحق تھا۔ یعنی اُن مہاجرین کی امداد جو ہجرت کرکے مدینہ آ رہے تھے اور اپنے گھروں اور اپنی املاک اور جائدادوں سے محض اللہ کے بھروسے پر اور اِس بات کی پروا کیے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے تھے کہ کیا کھائیں گے اور کہاں سر چھپائیں گے۔

یہ اِن مہاجرین کی تعریف میں فرمایا ہے کہ اِنھیں یہ ہجرت کسی دنیوی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ خالص اللہ کی خوشنودی اور اُس کے پیغمبر کی نصرت کے لیے کرنا پڑی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

(نیز وہ مال ان غریب مہاجرین کے لیئے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گے ہیں ۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور کی خشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی راستباز لوگ ہیں،

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس بنا پر نکال دیے گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ بنی النضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے تک ان مہاجرین کے لیے گزر بسر کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ اب حکم دیا گیا کہ یہ مال جو اس وقت ہاتھ آیا ہے، اور آئندہ جو اموال بھی فَے کے طور پر ہاتھ آئیں۔ ان میں عام مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا حق بھی ہے، ان سے ایسے سب لوگوں کو سہارا دیا جانا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر ہجرت پر مجبور ہو کر دار الاسلام میں آئیں۔ اس حکم کی بنا پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی النضیر کی جائدادوں کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم کردیا اور وہ نخلستان جو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کے لیے دے رکھے تھے ان کو واپس کردیے گئے۔ لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ فَے میں مہاجرین کا یہ حصہ صرف اسی زمانہ کے لیے تھا۔ در حقیقت اس آیت کا منشا یہ ہے کہ قیامت تک جو لوگ ہی مسلمان ہونے کی وجہ سے جلا وطن ہو کر کسی مسلم مملکت کے حدود میں پناہ لینے پر مجبور ہوں، ان کو بسانا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا اس ملک کی اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے، اور اسے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فَے میں سے بھی اس مد پر خرچ کرنا چاہیے۔

جونا گڑھی

(فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں ۔

 اس میں مال فیء کا ایک صحیح ترین مصرف بیان کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی مہاجرین کی فضیلت، ان کے اخلاص اور ان کی راست بازی کی وضاحت ہے، جس کے بعد ان کے ایمان میں شک کرنا، گویا قرآن کا انکار ہے۔ 

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

امین احسن اصلاحی

اورجو لوگ پہلے سے ٹھکانے بنائے ہوئے اور ایمان استوار کیے ہوئے ہیں وہ دوست رکھتے ہیں ان لوگوں کو جو ہجرت کر کے ان کی طرف آ رہے ہیں اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں محسوس کر رہے ہیں اور وہ ان کو اپنے اوپر ترجیح دے رہے ہیں اگرچہ انھیں خود احتیاج ہو۔ اور جو خود غرضی سے محفوظ رکھے گئے تو درحقیقت وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

انصار اور مہاجرین اولین کی سیرچشمی کی تحسین: یہ انصار و مہاجرین اولین کی سیر چشمی اور ان کی فراخ دلی کی تعریف ہے کہ اس بات سے ان کے دل تنگ نہیں ہو رہے ہیں کہ مہاجروں کے قافلے پر قافلے ان کے غنائم و فَے میں حصہ بٹانے کے لیے چلے آ رہے ہیں بلکہ وہ بڑی فراخ دلی سے ان کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور ان کی جو مدد کی جا رہی ہے اس سے اپنے دلوں میں کوئی رشک و حسد محسوس کرنے کے بجائے وہ اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انھیں خود ضرورت لاحق ہو۔

عربیت کا ایک ضابطہ: ’تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ‘ اسی طرح کی ترکیب ہے جس طرح ’عَلّفتہ تبنا وماء‘ (میں نے اس کو چارہ کھلایا اور پانی پلایا) یا ’زججن الحواجب والعیونا، یا قُلّدنی سیفا ورمحا‘ وغیرہ مختلف ترکیبیں عربی میں معروف ہیں۔ اس طرح کی ترکیبوں میں ایک فعل، جو دوسرے مفعول سے مناسبت رکھنے والا ہو، محذوف ہوتا ہے جو قرینہ سے سمجھ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ تینوں مثالوں میں ایک ایک فعل محذوف ہے۔ اسی طرح اس آیت میں بھی ایک فعل ’الایمان‘ سے مناسبت رکھنے والا محذوف ہے۔ اگر یہاں ’احکموا‘ یا اس کے ہم معنی کوئی فعل محذوف مانیے تو پوری عبارت یوں ہو گی: ’تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَاَحْکَمُوا الْإِیْمَانَ‘ یعنی جنھوں نے پہلے سے گھر ٹھکانا بھی بنا رکھا ہے اور اپنے ایمان کو بھی مضبوط کر رکھا ہے۔
اس کے اولین مصداق تو ظاہر ہے کہ انصار ہی ہوں گے اس لیے کہ وہ پہلے سے اپنے گھردر بھی رکھتے تھے اور ایمان کی نعمت سے بھی متمتع تھے لیکن میرے نزدیک اس میں وہ مہاجرین اولین بھی شامل ہیں جو پہلے ہی ہجرت کر کے مدینہ پہنچ چکے تھے اور وہاں اللہ نے ان کے لیے قیام و معاش کی قابل اطمینان صورت بھی پیدا کر دی تھی۔ اس طرف ذہن ’مِنْ قَبْلِہِمْ‘ کے الفاظ سے جاتا ہے۔ اس لیے کہ مہاجرین اولین ہی کا یہ درجہ ہے کہ انھوں نے مہاجرین متاخرین کے مقابل میں ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی۔ جہاں تک انصارکا تعلق ہے ان کو گھر در والے ہونے کے معاملے میں تو تقدم ضرور حاصل تھا لیکن ایمان کے معاملہ میں یہ کہنا صحیح نہیں ہو سکتا کہ ان کو تمام مہاجرین کے مقابل میں تقدم حاصل تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعد کے مہاجرین کے مقابل میں ان کو بحیثیت مجموعی تقدم حاصل تھا۔ ہاں انصار کے ساتھ اگر مہاجرین اولین کو بھی شامل کر لیجیے تب ان کے اوپر ’الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ‘ کے الفاظ ٹھیک ٹھیک منطبق ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ دونوں مل کر بعد والوں کے مقابل میں باعتبار سکونت مدینہ بھی مقدم ہیں اور باعتبار قبول اسلام بھی۔
فرمایا کہ یہ لوگ نئے آنے والے مہاجرین سے محبت رکھتے اور پوری فراخ دلی سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان کے دل اس بات سے تنگ نہیں ہو رہے ہیں کہ مہاجرین کے قافلے پر قافلے چلے آ رہے ہیں اور جو مال انھیں ملنا چاہیے تھا وہ سب ان پر صرف ہو رہا ہے یا اب وہ بھی اس میں حصہ دار بن جائیں گے بلکہ وہ نہایت سیرچشمی کے ساتھ اپنی ضروریات پر ان کی ضرورت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ان کی اس تعریف سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ اہل ایمان کو اسی طرح باہم دگر ہمدرد، فیاض اور ایثار کرنے والا ہونا چاہیے۔ یہ گویا ایک آئینہ رکھا گیا ہے ان منافقین کے سامنے جنھوں نے بنی نضیر کے چھوڑے ہوئے اموال سے متعلق یہ مطالبہ پیش کیا کہ اس کو مال غنیمت کی طرح لوگوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔ اس آئینہ میں انھیں دکھایا گیا ہے کہ مسلمان اپنے دوسرے بھائی کے لیے اس طرح فیاض ہوتا ہے تاکہ انھیں اپنی خود غرضی پر کچھ شرم آئے۔
’وَمَنْ یُوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَأُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘۔ یہ ان انصار و مہاجرین کے لیے فلاح کی بشارت بھی ہے اور نفس انسانی کی ایک بہت خطرناک بیماری سے آگاہی بھی۔ ’شُحَّ‘ کے معنی حرص و طمع اور لالچ کے ہیں۔ نفس کی طرف اس کی نسبت سے یہ بات تو نکلتی ہے کہ یہ نفس کے وداعی میں سے ایک داعیہ ہے لیکن ساتھ ہی اس سے بچتے رہنے کے لیے جو آگاہی دی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطرناک داعیہ ہے۔ اگر اس کو آدمی قابو میں نہ رکھ سکے تو یہ چیز اس کی آخرت کو برباد کر دیتی ہے۔ اس ٹکڑے میں منافقین کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ اگر انھوں نے اس کے علاج کی فکر نہ کی تو وہ ابدی خسران سے دوچار ہوں گے۔ میں نے اس کے اسی خطرناک پہلو کو واضح کرنے کے لیے اس کا ترجمہ خود غرضی کیا ہے۔ ایک حدیث میں اس کی وضاحت یوں آئی ہے۔:

’ایّاکم والشحّ فانہ اھلک من کان قبلکم امرھم بالظلم فظلموا وامر بالفجور ففجروا امرھم بالقطیعۃ فقطعوا‘
(شحّ (خود غرضی) سے بچو! یہی چیز ہے جس نے تم سے پہلے کی قوموں کو تباہ کیا، اس نے ان کو ظلم کی راہ سجھائی تو انھوں نے ظلم کیے، اس نے ان کو فسق و فجور کا حکم دیا تو انھوں نے فسق و فجور کا ارتکاب کیا، اس نے ان کو قطع رحم پر ابھارا تو انھوں نے قطع رحم کیا)۔

ایک سوال اور اس کا جواب: ایک اہم سوال اس آیت کے موقع و محل سے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہاں یہ کیا بات بتانے کے لیے وارد ہوئی ہے؟ ہمارے مفسرین کا خیال تو یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں جس طرح یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اموال فے میں مہاجرین کا حصہ ہے اسی طرح اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس میں انصار کا بھی حصہ ہے، لیکن یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی۔ مہاجرین کے ذکر کی ضرورت تو اس وجہ سے تھی کہ ان کے سبب سے اس وقت حکومت ایک ایسی صورت حال سے دوچار تھی جو مقتضی ہوئی کہ حکومت کے پاس ایسے وسائل موجود رہیں کہ وہ اس طرح کی نازک صورت حال سے عہدہ برآ ہو سکے۔ گویا ان کا ذکر اموال فے کے حکومت کی ملک میں دینے کی ایک دلیل کے طور پر آیا۔ اس ذیل میں انصار کے ذکر کی کیا ضرورت تھی؟ یہ شبہ تو کسی کے ذہن میں تھا نہیں کہ انصار اس مال میں حق دار نہیں ہیں۔ جب تمام یتامیٰ، فقراء اور مساکین کا حق اس میں بیان ہوا تو ظاہر ہے کہ انصار کے فقراء و مساکین بھی اس میں حق دار ٹھہرے۔ پھر انصار کے خاص طور پر ذکر کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی اور وہ بھی ’وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ‘ کی صفت کے ساتھ، جو ان کی احتیاج کو نہیں بلکہ ان کے مستغنی ہونے کو ظاہر کرتی ہے؟
ہمارے نزدیک مفسرین نے اس آیت کا موقع و محل بالکل نہیں سمجھا ہے۔ اس آیت کو اس بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ انصار اموال فے میں حصہ دار ہیں یا نہیں۔ نہ کسی کے ذہن میں یہ سوال تھا، نہ اس کے پیدا ہونے کی کوئی وجہ تھی اور نہ اس کے جواب کا کوئی فائدہ تھا۔ یہاں جو بات بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انصار اور مہاجرین اولین (جو پہلے سے گھر در والے اور ایمان سے بہرہ مندہ ہیں) اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والے بھائیوں کو منافقین کی طرح اپنے لیے کوئی معاشی خطرہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کا محبت سے خیر مقدم کرتے اور ان کے لیے ہر قسم کا ایثار کرتے ہیں اور یہی رویہ ایمانی اخوت کا حقیقی تقاضا ہے۔ جو ہر سچے مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کے برخلاف) جو لوگ اِس دیار کو اِن سے پہلے ٹھکانا بنائے ہوئے اور اپنا ایمان محکم کیے ہوئے ہیں، وہ اُن لوگوں سے محبت رکھتے ہیں جو( اُن کے بعد اب) ہجرت کرکے اُن کی طرف آ رہے ہیں اور جو کچھ اِن (مہاجروں) کو دیا جا رہا ہے، اُس سے اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے اور اُنھیں اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود ضرورت مند ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو خودغرضی سے بچا لیے جائیں، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یعنی انصار اور مہاجرین اولین جو ابتداہی میں ہجرت کرکے آگئے تھے۔ اُن کے لیے اصل میں ’تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ کس طرح کی ترکیب ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’...(یہ) اُسی طرح کی ترکیب ہے، جس طرح ’علفتہ تبنًا وماءً‘ (میں نے اُس کو چارہ کھلایا اور پانی پلایا) یا ’زججن الحواجب والعیونا‘، یا ’قلدنی سیفًا ورمحًا‘ وغیرہ مختلف ترکیبیں عربی میں معروف ہیں۔ اِس طرح کی ترکیبوں میں ایک فعل جو دوسرے مفعول سے مناسبت رکھنے والا ہو، محذوف ہوتا ہے جو قرینے سے سمجھ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ تینوں مثالوں میں ایک ایک فعل محذوف ہے۔ اِسی طرح اِس آیت میں بھی ایک فعل ’الْاِیْمَان‘ سے مناسبت رکھنے والا محذوف ہے۔ اگر یہاں ’احکموا‘ یا اِس کے ہم معنی کوئی فعل محذوف مانیے تو پوری عبارت یوں ہو گی: ’تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَاَحْکَمُوا الْاِیْمَانَ‘، یعنی جنھوں نے پہلے سے گھر ٹھکانا بھی بنا رکھا ہے اور اپنے ایمان کو بھی مضبوط کر رکھا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۲۹۴)

یہ اُن منافقین کے سامنے گویا آئینہ رکھ دیا ہے جن کے اعتراض کا جواب اوپر دیا ہے کہ سچے اہل ایمان اِس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد، سیر چشم، فیاض اور ایثار کرنے والے ہوتے ہیں۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ اُنھیں بھی اپنی خودغرضی پر کچھ شرم آئے۔

ابو الاعلی مودودی

(اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں مقیم تھے ۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں ۔

مراد ہیں انصار۔ یعنی فَے میں صرف مہاجرین ہی کا حق نہیں ہے، بلکہ پہلے سے جو مسلمان دار الاسلام میں آباد ہیں وہ بھی اس میں سے حصہ پانے کے حق دار ہیں۔

یہ تعریف ہے مدینہ طیبہ کے انصار کی۔ مہاجر جب مکہ اور دوسرے مقامات سے ہجرت کر کے ان کے شہر میں آئے تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ پیش کش کی کہ ہمارے باغ اور نخلستان حاضر ہیں، آپ انہیں ہمارے اور ان مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ لوگ تو باغبانی نہیں جانتے، یہ اس علاقے سے آئے ہیں جہاں باغات نہیں ہیں کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اپنے ان باغوں اور نخلستانوں میں کام تم کرو اور پیداوار میں سے حصہ ان کو دو ؟ انہوں کہا سمعنا واطعنا (بخاری، ابن جریر) ۔ اس پر مہاجرین نے عرض کیا ہم نے کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں۔ یہ کام خود کریں گے اور حصہ ہم کو دیں گے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ سارا اجر یہی لوٹ لے گئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتے رہو گے، تم کو بھی اجر ملتا رہے گا (مسند احمد) ۔ پھر جب بنی النضیر کا علاقہ فتح ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب بندوبست کی ایک شکل یہ ہے کہ تمہاری املاک اور یہودیوں کے چھوڑے ہوئے باغات اور نخلستانوں کو ملا کر ایک کردیا جائے اور پھر اس پورے مجموعے کو تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ اور دوسری شکل یہ ہے کہ تم اپنی جائدادیں اپنے پاس رکھو اور یہ متروکہ اراضی مہاجرین میں بانٹ دی جائیں۔ انصار نے عرض کیا یہ جائدادیں آپ ان میں بانٹ دیں، اور ہماری جائدادوں میں سے بھی جو کچھ آپ چاہیں ان کو دے سکتے ہیں۔ اس پر حضرت ابوبکر پکار اٹھے جزاکم اللہ یا معشر الانصار خیراً (یحیٰ بن آدم۔ بَلَاذری) ۔ اس طرح انصار کی رضا مندی سے یہودیوں کے چھوڑے ہوئے اموال مہاجرین ہی میں تقسیم کیے گئے اور انصار میں سے صرف حضرت ابو دجانہ، حضرت سہل بن حنیف اور (بروایت بعض) حضرت حارث بن الصمہ کو حصہ دیا گیا، کیونکہ یہ حضرات بہت غریب تھے (بلاذری۔ ابن ہشام۔ روح المعانی) ۔ اسی ایثار کا ثبوت انصار نے اس وقت دیا جب بحرین کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے کہ اس علاقے کی مفتوحہ اراضی انصار کو دی جائیں، مگر انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس میں سے کوئی حصہ نہ لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ دیا جائے (یحیٰ بن آدم) ۔ انصار کا یہی وہ ایثار ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔

بچ گئے نہیں فرمایا گیا بلکہ بچا لیے گئے ارشاد ہوا ہے، کیونکہ اللہ کی توفیق اور اس کی مدد کے بغیر کوئی شخص خود اپنے زور بازو سے دل کی تونگری نہیں پا سکتا۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو خدا ہی کے فضل سے کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ شُح کا لفظ عربی زبان میں کنجوسی اور بخل کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر جب اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کر کے شح نفس کہا جائے تو یہ تنگ نظری، تنگ دلی، کم حوصلگی، اور دل کے چھوٹے پن کا ہم معنی ہوجاتا ہے جو بخل سے وسیع تر چیز ہے، بلکہ خود بخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے۔ اسی صفت کی وجہ سے آدمی دوسرے کا حق ماننا اور ادا کرنا تو درکنار اس کی خوبی کا اعتراف تک کرنے سے جی چراتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ اسی کو مل جائے اور کسی کو کچھ نہ ملے۔ دوسروں کو خود دینا تو کجا، کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دکھتا ہے۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے، یا کم از کم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گرد و پیش دنیا میں جو اچھی چیز بھی ہے اسے پنے لیے سمیٹ لے اور کسی کے لیے کچھ نہ چھوڑے۔ اسی بنا پر قرآن میں اس برائی سے بچ جانے کو فلاح کی ضمانت قرار دیا گیا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ان بد ترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اتقوا الشح فان الشح اھلک من قبلکم، حملھم علیٰ ان سفکوا دماء ھم واستحلوا محارمھم (مسلم، مسند احمد، بیہقی، بخاری فی الادب) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں الفاظ یہ ہیں : امرھم بالظلم فظلموا وامرھم بالفجور ففجروا، وامرھم بالقطیعۃ فقطعوا (مسند احمد، ابو داؤد، نسائی ) ۔ یعنی ” شُح سے بچو کیونکہ شح ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کرلینے پر اکسایا۔ اس نے ان کو ظلم پر آمادہ کیا اور انہوں نے ظلم کیا، فجور کا حکم دیا اور انہوں نے فجور کیا، قطع رحمی کرنے کے لیے کہا اور انہوں نے قطع رحمی کی “۔ حضرت ابوہُریرہ کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ایمان اور شح نفس کسی کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ” (ابن ابی شیبہ، نسائی، بیہقی فی شعب الایمان، حاکم ) ۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” دو خصلتیں ہیں جو کسی مسلمان کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں، بخل اور بد خلقی ” (ابوداؤد، ترمذی، بخاری فی الادب) ۔ اسلام کی اسی تعلیم کا ثمرہ ہے کہ افراد سے قطع نظر، مسلمان بحیثیت قوم دنیا میں آج بھی سب سے بڑھ کر فیاض اور فراخ دل ہیں۔ جو قومیں ساری دنیا میں تنگ دلی اور بخیلی کے اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتیں، خود انہی میں سے نکلے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں مسلمان اپنے ہم نسل غیر مسلموں کے سایہ بسایہ رہتے ہیں۔ دونوں کے درمیان دل کی فراخی و تنگی کے اعتبار سے جو صریح فرق پایا جاتا ہے اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکتی کہ یہ اسلام کی اخلاقی تعلیم کا فیض ہے جس نے مسلمانوں کے دل بڑے کردیے ہیں۔

جونا گڑھی

اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے

 ان سے انصار مدینہ مراد ہیں جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کر کے آنے سے قبل امین بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے یہ انصار ایمان لا چکے تھے کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے یعنی من قبلھم کا مطلب من قبل ھجرتھم ہے اور دار سے دار الھجرۃ یعنی مدینہ مراد ہے۔

 

یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ دے، اس پر حسد محسوس نہیں کرتے، جیسے فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔ 

یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مہمان آیا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں کچھ نہ تھا چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا گھر جا کر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں صبح جب وہ صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیات نازل فرمائی ہے۔ ویوثرون علی انفسھم۔ الایۃ صحیح بخاری۔ ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کرلے۔ صحیح بخاری۔ کتاب النکاح۔

حدیث میں ہے ' شح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کرلیا ' (صحیح مسلم) 

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

امین احسن اصلاحی

اور جو ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم کو بھی بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش جنھوں نے ایمان لانے میں ہم پر سبقت کی اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کینہ نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے رب، بے شک تو نہایت شفیق و مہربان ہے!

مہاجرین متاخرین کی تحسین: انصار اور مہاجرین اولین کا رویہ بیان کرنے کے بعد یہ مہاجرین متاخرین کا رویہ بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے دلوں میں بھی اپنے سابق الایمان اور سابق الہجرت بھائیوں کے لیے بڑا اخلاص اور بڑی محبت ہے۔ ان کو یہ حسد نہیں ہے کہ انھوں نے پہلے پہنچ کر تمام میسر وسائل و اسباب پر قبضہ جما لیا اور گھردر والے بن گئے جب کہ یہ ابھی ہر چیز سے محروم ہیں بلکہ یہ نہایت اخلاص کے ساتھ اپنے اور اپنے ان بھائیوں کے لیے دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم کو بھی بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش جن کو ایمان و ہجرت میں ہم پر سبقت کی سعادت حاصل ہوئی اور اے ہمارے رب، ہمارے دلوں کے اندر ہمارے باایمان بھائیوں کے خلاف کوئی کدورت نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے رب، تو نہایت شفیق و مہربان ہے۔

’وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا‘ میں ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اپنے مقابل میں ان کے بہتر حالات دیکھ کر شیطان ہمارے دلوں میں کوئی کینہ و حسد کا جذبہ پیدا کرے۔ بلکہ تو اپنی شفقت و عنایت سے ان کے حق میں ہمارے دلوں کو مہر و محبت سے معمور رکھنا۔ یہاں منافقین کے دلوں کے اس روگ پر نظر رہے جو اوپر ’شُحّ‘ کے لفظ سے بیان ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان اصحاب صدق و صفا کے دل اس قسم کے امراض سے بالکل پاک صاف ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اور یہ جو اُن کے بعد آئے ہیں، وہ بھی یہی دعا کرتے ہیں کہ پروردگار، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ایمان لانے میں ہم پر سبقت لے گئے اور اِن اہل ایمان کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی بغض نہ پیدا ہونے دے۔ پروردگار، تو بڑا مہربان ہے،تیری شفقت ابدی ہے۔

یعنی انصار اور مہاجرین اولین اگر سراپا ایثار ہیں تو بعد میں ہجرت کرکے آنے والے بھی اُن کے اخلاص کی قدر کرتے اور اُن سے بڑی محبت رکھتے ہیں۔ اُن کو یہ حسد نہیں ہے کہ اِن لوگوں نے مدینہ کے وسائل پر ہم سے پہلے قبضہ جما رکھا ہے۔ چنانچہ وہ دعا کرتے ہیں کہ اُن کے دل اپنے بھائیوں کے لیے مہر و محبت سے معمور رہیں اور شیطان اُن کے اندر کسی مسلمان بھائی کے لیے بغض اور کینہ و حسد پیدا نہ کر دے۔

ابو الاعلی مودودی

(اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ‘’ اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیئے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہربان اور رحیم ۔

یہاں تک جو احکام ارشاد ہوئے ہیں ان میں یہ فیصلہ کردیا گیا ہے کہ فَے میں اللہ اور رسول اور اقربائے رسول، اور یتامیٰ اور مساکین اور ابن السبیل، اور مہاجرین اور انصار، اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں۔ قرآن پاک کا یہی وہ اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر (رض) نے عراق، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی اراضی اور جائدادوں کا اور ان ممالک کی سابق حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کی املاک کا نیا بندوبست کیا۔ یہ ممالک جب فتح ہوئے تو بعض ممتاز صحابہ کرام نے، جن میں حضرت زبیر، حضرت بلال، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہم) جیسے بزرگ شامل تھے، اصرار کیا کہ ان کو ان افواج میں تقسیم کردیا جائے جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ اموال فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ ان پر تو مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے، اس لیے بجز ان شہروں اور علاقوں کے جنہوں نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کی ہے، باقی تمام مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں اور ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی اراضی اور ان کے باشندوں کا پانچواں حصہ بیت المال کی تحویل میں دے دیا جائے، اور باقی چار حصے فوج میں تقسیم کردیے جائیں، لیکن یہ رائے اس بنا پر صحیح نہ تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ کر فتح کیے گئے تھے ان میں سے کسی کی اراضی اور باشندوں کو بھی حضور نے غنائم کیطرح خمس نکالنے کے بعد فوج میں تقسیم نہیں فرمایا تھا۔ آپ کے زمانے کی دو نمایاں ترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر کی ہیں۔ ان میں سے مکہ معظمہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا۔ رہا خیبر، تو اس کے متعلق حضرت بشیر بن یسار کی روایت ہے کہ آپ نے اس کے 36 حصے کیے، اور ان میں سے 18 حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کر کے باقی 18 حصے فوج میں تقسیم فرما دیے (ابو داؤد، بیہقی، کتاب الاموال لابی عبید، کتاب الخراج لیحیحیٰ بن آدم، فتوح البلدان للبلاذری، فتح القدیر لابن ہمام) ۔ حضور کے اس عمل سے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اراضی مفتوحہ کا حکم، اگرچہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں، غنیمت کا نہیں ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حضور مکہ کو تو بالکل ہی اہل مکہ کے حوالہ فرما دیتے، اور خیبر میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بجائے اس کا پورا نصف حصہ اجتماعی ضروریات کے لیے بیت المال کی تحویل میں لے لیتے۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی وہ یہ کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی مناسب ترین ہو کر ے۔ وہ ان کو تقسیم بھی کرسکتا ہے۔ اور اگر کوئی غیر معمولی نوعیت کسی علاقے کی ہو، جیسی مکہ معظمہ کی تھی، تو اس کے باشندوں کے ساتھ وہ احسان بھی کرسکتا ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے ساتھ کیا۔

مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں چونکہ فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی، اور مختلف اقسام کے مفتوحہ ممالک کا الگ الگ حکم کھل کر لوگوں کے سامنے نہ آیا تھا، اس لیے حضرت عمر کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزور شمشیر فتح ہونے والے علاقے آیا غنیمت ہیں یا فَے۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت زبیر نے مطالبہ کیا کہ : اقسمھا کما قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر، ” اس پورے علاقے کو اسی طرح تقسیم کردیجیے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو تقسیم کیا تھا ” (ابوعبید) ۔ شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں کے متعلق حضرت بلال نے اصرار کیا کہ اقسم الارَضِین بین الذین افتتحوھا کما تقسم غنیمۃ العسکر۔ ” تمام اراضی کو فاتح فوجوں کے درمیان اسی طرح تقسیم کردیجیے جس طرح مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے ” (کتاب الخراج، ابو یوسف) دوسری طرف حضرت علی کی رائے یہ تھی کہ دعھم یکونوا مادۃً للمسلمین۔ ” ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیجیے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنے رہیں ” (ابو یوسف، ابو عبید) ۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کی رائے یہ تھی کہ ” اگر آپ نے تقسیم کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے۔ اس تقسیم کی بدولت بڑی بڑی جائدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں۔ پھر یہ لوگ دنیا سے رخصت ہوجائیں گے اور ان کی جائدادیں ان کے وارثوں کے پاس رہ جائیں گی، جن میں بسا اوقات کوئی ایک ہی عورت ہوگی یا کوئی ایک مرد ہوگا، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا جس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے مصارف بھی پورے کیے جاسکیں۔ لہٰذا آپ ایسا بندوبست کریں جس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کا یکساں تحفظ ہو ” (ابو عبید ص 59 ۔ فتح الباری، ج 6، ص 138) ۔ حضرت عمر نے حساب لگا کر دیکھا کہ اگر سواد عراق کو تقسیم کیا جائے تو فی کس کیا حصہ پڑے گا۔ معلوم ہوا کہ دو تین فلاح فی کس کا اوسط پڑتا ہے (ابو یوسف، ابو عبید) ۔ اس کے بعد انہوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ رائے قائم کرلی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے تقسیم کا مطالبہ کرنے والے مختلف اصحاب کو جو جوابات دیے وہ یہ تھے :

تریدون ان یاتی اٰخر الناس لیس لہم شئٍ (ابو عبید)

کیا آپ چاہتے ہیں کہ بعد کے لوگ اس حالت میں آئیں کہ ان کے لیے کچھ نہ ہو ؟

فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلوجھا قد اقتسمت و ورثت عن الابآء و حیزت ؟ ما ھٰذا برائی (ابو یوسف ) ۔

ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے اور حالت یہ پائیں گے کہ زمین اپنے کسانوں سمیت بٹ چکی ہے اور باپ دادا سے لوگوں نے وراثت میں سنبھال لی ہے ؟ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے۔

فما لمن جاء بعدکم من المسلمین واخاف ان قسمتہ ان تفاسدوا بینکم فی المیاہ (ابو عبید) تمہارے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے کیا رہے گا ؟ اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں اسے تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں لڑو گے۔

لولا اٰخر الناس ما فتحت قریَۃ الا قسمتھا کما قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر (بخاری، موطّا، ابو عبید) ۔

اگر بعد میں آنے والوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی میں فتح کرتا اسے تقسیم کردیتا جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کو تقسیم کیا۔

لا : ھٰذا عین المال، ولکنی احبسہ فیما یجری علیھم وعلی المسلمین۔ (ابو عبید) ۔

نہیں، یہ تو عین المال (Realestate) ہے۔ میں اسے روک رکھوں گا تاکہ فاتح فوجوں اور عام مسلمانوں، سب کی ضروریات اس سے پوری ہوتی رہیں۔

لیکن ان جوابات سے لوگ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں۔ آخر کار حضرت عمر نے مجلس شوریٰ کا اجتماع منعقد کیا اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ اس موقع پر جو تقریر آپ نے کی اس کے چند فقرے یہ ہیں :

” میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کے اٹھانے میں میرے ساتھ شریک ہوں جس کا بار آپ کے معاملات کو چلانے کے لیے میرے اوپر رکھا گیا ہے۔ میں آپ ہی لوگوں میں سے ایک فرد ہوں، اور آپ وہ لوگ ہیں جو آج حق کا اقرار کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے جو چاہے میری رائے سے اتفاق کرے اور جو چاہے اختلاف کرے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں۔ آپ کے پاس کتاب اللہ ہے جو ناطق بالحق ہے۔ خدا کی قسم میں نے اگر کوئی بات کہی ہے جسے میں کرنا چاہتا ہوں تو اس سے میرا مقصد حق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ …………… آپ ان لوگوں کی بات سن چکے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کروں۔ میں بڑا شقی ہوں گا اگر ظلم کر کے کوئی ایسی چیز جو فی الواقع ان کی ہو، انہیں نہ دوں اور کسی دوسرے کو دے دوں۔ مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی اور علاقہ فتح ہونے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایرانیوں کے مال اور ان کی زمینیں اور ان کے کسان، سب ہمارے قبضے میں دے دیے ہیں۔ ہماری فوجوں نے جو غنائم حاصل کیے تھے وہ تو میں خمس نکال کر ان میں بانٹ چکا ہوں، اور ابھی جو غنائم تقسیم نہیں ہوئے ہیں، میں ان کو بانٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہوں۔ البتہ زمینوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انہیں اور ان کے کسانوں کو تقسیم نہ کروں، بلکہ ان پر خراج اور کسانوں پر جزیہ لگا دوں جسے وہ (ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور یہ اس وقت کے عام مسلمانوں اور لڑنے والی فوجوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے فَے ہو۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہماری ان سرحدوں کے لیے لازماً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت کرتے رہیں ؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے ملک، شام، الجزیرہ، کوفہ، بصرہ، مصر، ان سب میں فوجیں رہنی چاہیں اور ان کو پابندی سے تنخواہیں ملنی چاہیں ؟ اگر میں ان زمینوں کو ان کے کسانوں سمیت تقسیم کر دوں تو یہ مصارف کہاں سے آئیں گے ؟ “

یہ بحث دو تین دن چلتی رہی۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہم) وغیرہ حضرات نے حضرت عمر کی رائے سے اتفاق کیا، لیکن فیصلہ نہ ہوسکا۔ آخر کار حضرت عمر اٹھے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھے کتاب اللہ سے ایک حجت مل گئی ہے جو اس مسئلے کا فیصلہ کردینے والی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے سورة حشر کی یہی آیات مَآ اَفَآء اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مِنْھُمْ سے لے کر رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ تک پڑھیں، اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی عطا کردہ ان املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے، پھر یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے، ہم ان فاتحین میں تقسیم کردیں اور بعد والوں کے لیے کچھ نہ چھوڑیں ؟ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ ، ” تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے “۔ لیکن اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کردیا اور اس بات پر اجماع ہوگیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عامہ مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جائے، جو لوگ ان اراضی پر کام کر رہے ہیں انہیں کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جائے اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جائے (کتاب الخراج لابی یوسف، صفحہ 23 تا 27 و 35 احکام القرآن للجصاص) ۔

اس فیصلے کے مطابق اراضی مفتوحہ کی اصل حیثیت یہ قرار پائی کہ مسلم ملت بحیثیت مجموعی ان کی مالک ہے، جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر کام کر رہے تھے ان کو ملت نے اپنی طرف سے بطور کاشتکار بر قرار رکھا ہے، وہ ان اراضی پر اسلامی حکومت کو ایک مقرر لگان ادا کرتے رہیں گے، نسلاً بعد نسلٍ یہ کاشتکارانہ حقوق ان کی میراث میں منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ ان حقوق کو فروخت بھی کرسکیں گے، مگر زمین کے اصل مالک وہ نہ ہونگے بلکہ مسلم ملت ان کی مالک ہوگی۔ امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں اس قانونی پوزیشن کو اس طرح بیان کیا ہے۔

اقر اھل السواد فی ارضیھم و ضرب علی رؤسھم الجزیۃ و علیٰ اَرَضِیھم الطسق (ص 57) ۔

حضرت عمر نے سواد عراق کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا، اور ان کے افاد پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر ٹیکس لگا دیا۔

اذا اقرّ الامام اھل العَنْوۃ فی ارضھم توارثوھا و تبایعوھا (ص 84) ۔

امام (یعنی اسلامی حکومت کا فرمانروا) جب مفتوحہ ممالک کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھے تو وہ ان اراضی کو میراث میں بھی منتقل کرسکیں گے اور بیع بھی کرسکیں گے۔

عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں شعبی سے پوچھا گیا کیا سواد عراق کے لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ معاہدہ تو نہیں ہے، مگر جب ان سے خراج لینا قبول کرلیا گیا تو یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا (ابوعبید، ص 49 ۔ ابویوسف ص 28) ۔

حضرت عمر کے زمانہ میں عتبہ بن فرقَد نے فرات کے کنارے ایک زمین خریدی۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے ؟ انہوں نے کہا اس کے مالکوں سے۔ حضرت عمر نے فرمایا اس کے مالک تو یہ لوگ ہیں (یعنی مہاجرین و انصار ) ۔ رأیٰ عمران اصل الارض للمسلمین، ” عمر کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کے اصل مالک مسلمان ہیں ” (ابو عبید، ص 74) ۔

اس فیصلے کی رو سے ممالک مفتوحہ کے جو اموال مسلمانوں کی اجتماعیہ ملکیت قرار دیے گئے وہ یہ تھے :

وہ زمینیں اور علاقے جو کسی صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔

وہ فدیہ یا خراج یا جزیہ جو کسی علاقے کے لوگوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں سے امان حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا قبول کیا ہو۔

وہ اراضی اور جائدادیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

وہ جائدادیں جن کے مالک مرے گئے اور کوئی مالک باقی نہ رہا۔

وہ اراضی جو پہلے سے کسی کے قبضے میں نہ تھیں۔

وہ اراضی جو پہلے سے لوگوں کے قبضے میں تھیں مگر ان کے سابق مالکوں کو برقرار رکھ کر ان پر جزیہ و خراج عائد کردیا گیا۔

سابق حکمراں خاندانوں کی جاگیریں۔

سابق حکومتوں کی املاک۔

(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو بدائع الصنائع، ج 7، ص 116 ۔ 118 ۔ کتاب الخراج، یحییٰ بن آدم، ص 22 ۔ 64 ۔ مغنی المحتاج، ج 3 ص 93 ۔ حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر، ج 2، ص 190 ۔ غانیۃ المنتبہیٰ ، ج 1، ص 467 ۔ 471) ۔

یہ چیزیں چونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے فَے قرار دی گئی تھیں، اس لیے فقہائے اسلام کے درمیان بھی ان کے فَے قرار دیے جانے پر اصولاً اتفاق ہے۔ البتہ اختلاف چند امور میں ہے جنہیں ہم مختصراً ذیل میں بیان کرتے ہیں :

حنفیہ کہتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کے معاملہ میں اسلامی حکومت (فقہاء کی اصطلاح میں امام) کو اختیار ہے، چاہے تو ان میں سے خمس لے کر باقی فاتح فوج میں تقسیم کر دے، اور چاہے تو ان کو سابق ملکوں کے قبضے میں رہنے دے اور ان کے مالکوں پر جزیہ اور زمینوں پر خراج عائد کر دے۔ اس صورت میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف للمسلمین قرار پائیں گی۔ (بدائع الصنائع۔ احکام القرآن للجصاص۔ شرح العنایہ علی الہدایہ۔ فتح القدیر) ۔ یہی رائے عبداللہ بن مبارک نے امام سفیان ثوری سے بھی نقل کی ہے (یحیٰ بن آدم۔ کتاب الاموال لابی عبید)

مالکیہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے محض فتح کرلینے ہی سے یہ اراضی خود بخود وقف علی المسلمین ہوجاتی ہیں۔ ان کو وقف کرنے کے لیے نہ امام کے فیصلے کی ضرورت ہے اور نہ مجاہدین کو راضی کرنے کی۔ علاوہ بریں مالکیہ کے ہاں مشہور قول یہ ہے کہ صرف اراضی ہی نہیں، مفتوحہ علاقوں کے مکان اور عمارات بھی حقیقۃً وقف علی المسلمین ہیں البتہ اسلامی حکومت ان پر کرایہ عائد نہیں کرے گی (حاشیہ الدسوقی ) ۔

حنابلہ اس حد تک حنفیوں سے متفق ہیں کہ اراضی کو فاتحین میں تقسیم کرنا، یا مسلمانوں پر وقف کردینا امام کے اختیار میں ہے۔ اور اس امر میں مالکیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کے مکان بھی اگرچہ وقف میں شامل ہونگے مگر ان پر کرایہ عائد نہ کیا جائے گا (غایۃ المنتہیٰ ۔ یہ مذہب حنبلی کے مفتیٰ بہ اقوال کا مجموعہ ہے اور دسویں صدی سے اس مذہب میں فتویٰ اسی کتاب کے مطابق دیا جاتا ہے ) ۔

شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کے تمام اموال منقولہ غنیمت ہیں، اور تمام اموال غیر منقولہ (اراضی اور مکانات) کو فَے قرار دیا جائے گا (مغنی المحتاج) ۔

بعض فقہاء کہتے ہیں کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کی اراضی کو اگر امام وقف علی المسلمین کرنا چاہے تو لازم ہے کہ وہ پہلے فاتح فوجوں کی رضا مندی حاصل کرے۔ اس کے لیے وہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے سواد عراق کی فتح سے پہلے جریر بن عبداللہ البجلی سے، جن کے قبیلے کے لوگ جنگ قدسیہ میں شریک ہونے والی فوج کا چوتھائی حصہ تھے، یہ وعدہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کا چوتھائی حصہ ان کو دیا جائے گا۔ چنانچہ 2 ۔ 3 ۔ سال تک یہ حصہ انکے پاس رہا۔ پھر حضرت عمر نے ان سے فرمایا کہ : لو لا انی قاسم مسئول لکنتم علیٰ ما جعل لکم، واری الناس قد کثروا افادیٰ ان تردہ علیہم، ” اگر میں تقسیم کے معاملہ میں ذمہ دار اور جوابدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تمہیں دیا جا چکا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہنے دیا جاتا۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت ہوگئی ہے، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ تم اسے عام لوگوں کو واپس کر دو “۔ حضرت جریر نے اس بات کو قبول کرلیا اور حضرت عمر نے ان کو اس پر 80 دینار بطور انعام دیے (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید) ۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فاتحین کو راضی کرنے کے بعد مفتوحہ علاقوں کو وقف علی المسلمین قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ کیونکہ تمام ممالک مفتوحہ کے معاملہ میں تمام فاتحین سے اس طرح کی کوئی رضا مندی نہیں لی گئی تھی، اور صرف حضرت جریر بن عبداللہ کے ساتھ یہ معاملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ فتح سے پہلے، قبل اس کے کہ اراضی مفتوحہ کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ ہوتا، حضرت عمر ان سے ایک وعدہ کرچکے تھے، اس لیے وعدے کی پابندی سے برأت حاصل کرنے کے لیے آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا۔ اسے کوئی عام قانون قرار نہیں دیا جاسکتا۔

فقہاء کا ایک اور گروہ کہتا ہے کہ وقف قرار دے دینے کے بعد بھی کسی وقت حکومت کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ ان اراضی کو پھر سے فاتحین میں تقسیم کر دے۔ اس کے لیے وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا لو لا ان یضرب بعضکم وجوہ بعض لقسمت السواد بینکم ” اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے سے لڑو گے تو میں سواد کا علاقہ تمہارے درمیان تقسیم کردیتا، ” (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید) ۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس رائے کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جزیہ و خراج عائد کر کے انہیں ان کی زمینوں پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کردیا گیا ہو تو اس کے بعد کبھی یہ فیصلہ بدلا نہیں جاسکتا۔ رہی وہ بات جو حضرت علی کی طرف منسوب کی جاتی ہے، تو اس پر ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔

اس آیت میں اگرچہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں، بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے، اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں، نہ یہ کہ وہ ان پر لعنت بھیجیں اور تبرا کریں۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے وہ دراصل ایمان کا رشتہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیر خواہ ہوگا جو ایمان کے رشتہ سے اس کے بھائی ہیں۔ ان کے لیے بد خواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں کسی وقت جگہ پا سکتی ہے جبکہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو۔ اس معاملہ میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انس سے روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے، اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیر معمولی چیز انہیں نظر نہ آئی۔ ناچار انہوں نے خود ان ہی سے پوچھ لیا کہ بھائی، آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سنی ہے ؟ انہوں نے کہا میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ البتہ ایک بات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو، اور وہ یہ ہے کہ لا اجد فی نفسی غلًّا لاحد من المسلمین، ولا احسدہ علی خیرٍ اعطاہ اللہ تعالیٰ ایاہ۔ ” میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو، اس سے حسد کرتا ہوں “۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہرگز نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے، یا اس کی غلط بات کو غلط نہ کہا جائے۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اسے بیان کردینا اور چیز ہے، اور بغض و نفرت، مَذَمّت و بد گوئی اور سب و شَتُم بالکل ہی ایک دوسری چیز۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی برائی ہے، لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی برائی ہے، کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہوگا جو مرنے والوں کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید برائی یہ ہے کہ کوئی شخص ان لوگوں کے حق میں بد گوئی کرے جنہوں نے انتہائی سخت آزمائشوں کے دور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور اپنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسر ہوئی ہے۔ ان کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے ان میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسرے فریق کا موقف اس کی رائے میں صحیح نہ ہو تو وہ یہ رائے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کرسکتا ہے۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بد گوئی کی تراوش ہونے لگے، ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سر زد نہیں ہو سکتی۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس فعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھے۔ لیکن یہ الزام اس گناہ سے بھی بدتر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی یہی آیات جن کے سلسلہ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے، ان کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ ان آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ اول مہاجرین، دوسرے انصار، تیسرے ان کے بعد آنے والے مسلمان۔ اور ان بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق وسباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سورة حشر کی آیات 11 تا 17 میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے۔ اس سے یہ بات بالکل ہی کھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنہوں نے غزوہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی، اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شامل تھے۔ اس کے بعد کیا ایک مسلمان، جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو، یہ جسارت کرسکتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے ؟

امام مالک اور امام احمد نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ فَے میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابہ کرام کو برا کہتے ہیں (احکام القرآن لابن العربی۔ غایۃ المنتہیٰ ) ۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے، مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ ” وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں “۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حقدار نہیں ہے۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ ” وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے، خواہ وہ خود تنگ دست ہوں “۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کو کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہشمند ہو۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ ” اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعائے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بغض نہ ہو “، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہل ایمان کا رویہ دوسرے اہل ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملہ میں کیا ہونا چاہیے۔

جونا گڑھی

اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کہیں (اور دشمنی) نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔

 یہ مال فئی کے مستحقین کی تیسری قسم ہے یعنی صحابہ (رض) کے بعد آنے والے اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تک ہونے والے اہل ایمان وتقوی آگئے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصار ومہاجرین کو مومن ماننے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے والے ہوں نہ کہ ان کے ایمان میں شک کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے اور ان کے خلاف اپنے دلوں میں بغض وعناد رکھنے والے امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے یہی بات ارشاد فرمائی ہے ان الرافضی الذی یسب الصحابۃ لیس لہ فی مال الفی نصیب لعدم اتصافہ بما مدح اللہ بہ ھولاء فی قولھم رافضی کو جو صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین پر سب وشتم کرتے ہیں مال فیء سے حصہ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح کی ہے اور رافضی ان کی مذمت کرتے ہیں (ابن کثیر) ۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں۔ امرتم بالاستغفار لاصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فسببتموھم سمعت نبیکم یقول : لا تذھب ھذہ الامۃ حتی یلعن آخرھا اولھا۔ رواہ البغوی۔ تم لوگوں اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا مگر تم نے ان پر لعن طعن کی میں نے تمہارے نبی کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں۔ حوالہ مذکور۔ 

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >