الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِينٍ

امین احسن اصلاحی

یہ الف، لام، را ہے۔ یہ کتاب الٰہی اور ایک واضح قرآن کی آیات ہیں

قرآن اپنی صداقت کی خود دلیل ہے: حروف مقطعات پر ایک جامع بحث ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر کے آغاز میں کر چکے ہیں۔ ہمارے نزدیک ’الٓرٰ‘ اس سورہ کا قرآنی نام ہے اور ’تلک‘ کا اشارہ اسی کی طرف ہے۔ لفظ ’اَلْکِتٰبِ‘ پر بھی ہم بقرہ کی تفسیر کے شروع میں بحث کر چکے ہیں۔ اس سے مراد وہ خدائی کتاب ہے جس کے اتارنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اور جس کی پچھلے نبیوں نے خبر دی تھی۔ قرآن کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کلام جو ان کو سنایا جا رہا ہے یہ کتاب الٰہی اور ایک واضح قرآن کی آیات پر مشتمل ہے۔ یہ اپنی صداقت کی دلیل خود اپنے اندر رکھتا ہے، کسی خارجی دلیل کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ اس کو نہیں مان رہے ہیں، اس کی صداقت کو جانچنے کے لیے معجزوں کی فرمائش کر رہے ہیں، وہ درحقیقت اپنی شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

یہ سورۂ ’الٓرٰ‘ ہے۔ یہ کتاب الٰہی اور قرآن مبین کی آیتیں ہیں۔

اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔

اصل الفاظ ہیں: ’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ‘۔ اِن میں ’و‘ تفسیر کی ہے اور قرآن کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے۔ لفظ ’مُبِیْن‘ استدلال کے محل میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کلام جو اِن کو سنایا جا رہا ہے، یہ حقائق کو اِس طرح مبرہن کر دینے والا ہے کہ اِس کے بعد مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ اِس کا بیان ہی اِس کی صداقت کی دلیل بن جاتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ا۔ ل۔ ر۔ یہ آیات ہیں کتاب الٰہی اور قرآن مبین کی۔

یہ اس سورة کی مختصر تعارفی تمہید ہے جس کے بعد فورا ہی اصل موضوع پر خطبہ شروع ہوجاتا ہے۔

 

قرآن کے لیے ” مبین “ کا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات اس قرآن کی ہیں جو اپنا مُدّعا صاف صاف ظاہر کرتا ہے۔

جونا گڑھی

ا لر، یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلی اور روشن قرآن کی ۔

 کتاب اور قرآن مبین سے مراد قرآن کریم ہی ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ جس طرح (ڛ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ) 5 ۔ المائدہ :15) میں نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن کریم کی تکریم اور شان کے لئے ہے۔ یعنی قرآن کامل اور نہایت عظمت وشان والا ہے۔ 

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ

امین احسن اصلاحی

وہ وقت آئیں گے جب یہ لوگ، جنھوں نے کفر کیا ہے، تمنا کریں گے کہ کاش ہم مسلم بنے ہوتے

یعنی آج تو یہ لوگ غرور و رعونت کے ساتھ اس کتاب کا انکار کر رہے ہیں لیکن آگے ایسے وقت آئیں گے اور بار بار آئیں گے جب یہ تمنائیں کریں گے کہ کاش اس کتاب کو قبول کر کے مسلمان بنے ہوتے کہ ان ہولناک نتائج سے محفوظ رہتے۔ یہ مضمون سورۂ ابراہیم آیت ۴۴ میں بھی گزر چکا ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہ دن بھی آئیں گے، جب یہ منکرین تمنا کریں گے کہ کاش، ہم مسلمان ہوتے

n/a

ابو الاعلی مودودی

بعید نہیں کہ ایک وقت وہ آ جائے جب وہی لوگ جنہوں نے آج (دعوت اسلام کو قبول کرنے سے) انکار کر دیا ہے۔ پچھتا پچھتا کر کہیں گے کہ کاش ہم نے سر تسلیم خم کر دیا ہوتا۔

n/a

جونا گڑھی

وہ وقت بھی ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے ۔

  یہ آرزو کب کریں گے ؟ موت کے وقت، جب فرشتے انھیں جہنم کی آگ دکھاتے ہیں یا جب جہنم میں چلے جائیں گے یا اس وقت جب گنہگار ایمانداروں کو کچھ عرصہ بطور سزا، جہنم میں رکھنے کے بعد جہنم سے نکالا جائے گا یا میدان محشر میں، جہاں حساب کتاب ہو رہا ہوگا اور کافر دیکھیں گے کہ مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ رُبَمَا اصل میں تو تکثیر کے لئے ہے لیکن کبھی کمی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے یہ آرزو ہر موقعے پر ہوتی رہے گی لیکن اس کا انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ 

ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

امین احسن اصلاحی

ان کو چھوڑو، کھا پی لیں، عیش کر لیں اور آرزؤوں میں مگن رہ لیں۔ عنقریب یہ جان لیں گے

یعنی اگر یہ اپنی سرمستیوں میں گم ہیں، تم کو اور تمہاری دعوت کو (خطاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) خاطر میں نہیں لا رہے ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو، چند دن یہ کھا پی لیں، مزے کر لیں اور لذیذ آرزوؤں کے خواب دیکھ لیں، عنقریب وہ وقت آیا چاہتا ہے جب یہ اپنی سرمستی کا انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔

جاوید احمد غامدی

اِنھیں چھوڑو، یہ کھائیں پئیں، مزے کریں اور اِن کی آرزوئیں اِنھیں بھلاوے میں ڈالے رکھیں۔ پھر یہ عنقریب جان لیں گے

n/a

ابو الاعلی مودودی

چھوڑو اِنہیں۔ کھائیں، پییں، مزے کریں، اور بھلاوے میں ڈالے رکھے اِن کو جھوٹی امید۔ عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا۔

n/a

جونا گڑھی

آپ انھیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑ دیجئیے یہ خود بھی جان لیں گے ۔

 یہ تہدید و تو یخ ہے کہ کافر و مشرک اپنے کفر و شرک سے باز نہیں آ رہے ہیں تو انھیں چھوڑ دیجئے یہ دنیاوی لذتوں سے محفوظ ہولیں اور اپنی امیدیں برلائیں۔ عنقریب انھیں اپنے کفر و شرک کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ 

وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَعْلُومٌ

امین احسن اصلاحی

ہم نے جس قوم کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لیے ایک معین نوشتہ رہا ہے

عذاب الٰہی کے مؤخر ہونے کی وجہ: یہ وجہ بیان ہوئی ہے عذاب کے مؤخر ہونے کی۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے مطالبہ کے باوجود ان پر عذاب جو نہیں آ رہا ہے تو یہ تاخیر اللہ تعالیٰ کی ایک سنت پر مبنی ہے۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ وہ کسی قوم پر عذاب بھیجنے سے پہلے اس پر اپنی حجت تمام کرتا ہے۔ اس اتمام حجت کے بعد بھی اگر وہ قوم اپنی سرکشی سے باز نہیں آتی تو لازماً وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ اتمام حجت اور اخلاقی زوال کی وہ حد جس پر پہنچ کر کوئی قوم مستحق عذاب ہو جاتی ہے ایک خدائی نوشتہ میں مرقوم ہے۔ جب اس نوشتہ کی مدت پوری ہو جاتی ہے، قوم ہلاک کر دی جاتی ہے۔ سرمو اس میں فرق واقع نہیں ہوتا۔ نہ اس میں تقدیم ہوتی نہ تاخیر۔

جاوید احمد غامدی

(یہ عذاب کے لیے جلدی نہ مچائیں)۔ ہم نے جس بستی کے لوگوں کو بھی ہلاک کیا ہے، اُس کے لیے ایک مقرر نوشتہ رہا ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

ہم نے اِس سے پہلے جس بستی کو بھی ہلاک کیا ہے اس کے لیے ایک خاص مہلت عمل لکھی جاچکی تھی۔

” مطلب یہ ہے کہ کفر کرتے ہی فورا تو ہم نے کبھی کسی قوم کو بھی نہیں پکڑ لیا ہے، پھر یہ نادان لوگ کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نبی کے ساتھ تکذیب و استہزاء کی جو روش انہوں نے اختیار کر رکھی ہے اس پر چونکہ ابھی تک انہیں سزا نہیں دی گئی، اس لیے یہ نبی سرے سے نبی ہی نہیں ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ہم ہر قوم کے لیے پہلے سے طے کرلیتے ہیں کہ اس کو سننے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے اتنی مہلت دی جائے گی، اور اس حد تک اس کی شرارتوں اور خباثتوں کے باوجود پورے تحمّل کے ساتھ اسے اپنی من مانی کرنے کا موقع دیا جاتا رہے گا۔ یہ مہلت جب تک باقی رہتی ہے۔ اور ہماری مقرر کی ہوئی حد جس وقت تک آ نہیں جاتی، ہم ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔ (مہلت عمل کی تشری کے لیے ملاحظہ ہو سورة ابراہیم حاشیہ نمبر ١٨)

جونا گڑھی

کسی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لئے مقررہ نوشتہ تھا

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ

امین احسن اصلاحی

کوئی قوم نہ اپنی مدت مقررہ سے آگے بڑھتی نہ پیچھے ہٹتی

عذاب الٰہی کے مؤخر ہونے کی وجہ: یہ وجہ بیان ہوئی ہے عذاب کے مؤخر ہونے کی۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے مطالبہ کے باوجود ان پر عذاب جو نہیں آ رہا ہے تو یہ تاخیر اللہ تعالیٰ کی ایک سنت پر مبنی ہے۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ وہ کسی قوم پر عذاب بھیجنے سے پہلے اس پر اپنی حجت تمام کرتا ہے۔ اس اتمام حجت کے بعد بھی اگر وہ قوم اپنی سرکشی سے باز نہیں آتی تو لازماً وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ اتمام حجت اور اخلاقی زوال کی وہ حد جس پر پہنچ کر کوئی قوم مستحق عذاب ہو جاتی ہے ایک خدائی نوشتہ میں مرقوم ہے۔ جب اس نوشتہ کی مدت پوری ہو جاتی ہے، قوم ہلاک کر دی جاتی ہے۔ سرمو اس میں فرق واقع نہیں ہوتا۔ نہ اس میں تقدیم ہوتی نہ تاخیر۔

جاوید احمد غامدی

کوئی قوم نہ اپنے مقرر وقت سے آگے بڑھتی ہے نہ پیچھے ہٹتی ہے

n/a

ابو الاعلی مودودی

کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہوسکتی ہے، نہ اُس کے بعد چھوٹ سکتی ہے۔

n/a

جونا گڑھی

کوئی گروہ اپنی موت سے نہ آگے بڑھتا نہ پیچھے رہتا

 جس بستی کو بھی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کرتے ہیں، تو فوراً ہلاک نہیں کر ڈالتے، بلکہ ہم ایک وقت مقرر کئے ہوئے ہیں، اس وقت تک اس بستی والوں کو مہلت دی جاتی ہے لیکن جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو انھیں ہلاک کردیا جاتا ہے پھر وہ اس سے آگے یا پیچھے نہیں ہوتے۔ 

وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ

امین احسن اصلاحی

اور یہ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر یاددہانی اتاری گئی ہے تم تو ایک خبطی ہو

آنحضرتؐ پر کفار کا طعن اور اس کا جواب: کفار آنحضرت صلعم کو طنزیہ انداز میں خطاب کر کے کہتے کہ اے وہ شخص جو مدعی ہے کہ اس پر خدا کی طرف سے ہمارے لیے یاددہانی اتری ہے تم تو ہمیں ایک خبطی معلوم ہوتے ہو کہ ہمیں تو عذاب کی دھمکی سنا رہے ہو اور اپنے لیے فوز و فلاح کے مدعی ہو درآنحالیکہ ہمارے حالات تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے حالات سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ اگر ہم خدا کے مبغوض و مقہور ہیں اور تم خدا کے محبوب و منظور نظر ہو تو ہم کو یہ نعمتیں کیوں ملی ہوئی ہیں اور تم ان سے کیوں محروم ہو؟ یہ صورت حال تو صاف ظاہر کرتی ہے کہ تم ایک خبطی آدمی ہو اور خبطیوں کی سی باتیں کر رہے ہو اور یہ بھی تمہارا ایک خبط ہی ہے کہ تم مدعی ہو کہ تمہارے پاس فرشتہ آتا ہے۔ اگر فرشتے آتے ہیں اور تم اس دعوے میں سچے ہو تو ان فرشتوں کو تم ہمارے پاس کیوں نہیں لاتے کہ ہم بھی ذرا دیکھیں اور سنیں کہ وہ کیسے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ آخر تمہیں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ تمہارے پاس تو آتے ہیں اور ہمارے پاس نہیں آتے۔

جاوید احمد غامدی

(اِنھیں بھی یہ مہلت اِسی بنا پر دی گئی تو) اِنھوں نے کہہ دیا کہ اے وہ شخص جس پر یہ یاددہانی اتاری گئی ہے، تم یقیناً دیوانے ہو

یہ بات وہ طنزیہ انداز میں اور اِس معنی میں کہتے تھے کہ تم ہمیں عذاب کی وعیدیں سناتے اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے فوز و فلاح کے دعوے کرتے ہو، یہ سب تمھارا خبط ہے اور اِسی خبط میں تم اِس طرح کی باتیں بھی کرنے لگے ہو کہ تم پر وحی آتی ہے اور فرشتے اترتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

یہ لوگ کہتے ہیں “اے وہ شخص جس پر ذکر نازل ہوا ہے، تو یقیناً دیوانہ ہے۔

” ذکر “ کا لفظ قرآن میں اصطلاحا کلام الہٰی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آتا ہے۔ پہلے جتنی کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی ” ذکر “ تھیں اور یہ قرآن بھی ” ذکر “ ہے۔ ذکر کے اصل معنی ہیں ” یاد دلانا “ ” ہوشار کرنا “ اور ” نصیحت کرنا “۔

یہ فقرہ وہ لوگ طنز کے طور پر کہتے تھے۔ ان کو تو یہ تسلیم ہی نہیں تھا کہ یہ ذکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے۔ نہ اسے تسلیم کرلینے کے بعد وہ آپ کو دیوانہ کہہ سکتے تھے۔ دراصل ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ” اے وہ شخص جس کا دعوی یہ ہے کہ مجھ پر یہ ذکر نازل ہوا ہے “۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت سننے کے بعد اپنے درباریوں سے کہی تھی کہ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ، ” یہ پیغمبر صاحب جو تم لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں، ان کا دماغ درست نہیں ہے “۔

جونا گڑھی

انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے

لَوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

امین احسن اصلاحی

اگر تم سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتے؟

اگر فرشتے آتے ہیں اور تم اس دعوے میں سچے ہو تو ان فرشتوں کو تم ہمارے پاس کیوں نہیں لاتے کہ ہم بھی ذرا دیکھیں اور سنیں کہ وہ کیسے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ آخر تمہیں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ تمہارے پاس تو آتے ہیں اور ہمارے پاس نہیں آتے۔

’لَوْمَا تَاْتِیْنَا‘ میں ’لَوْمَا‘ ابھارنے، اکسانے یا مطالبہ کرنے کے مفہوم میں ہے یعنی ’کیوں نہیں ایسا کرتے‘۔ کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اگر تم سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لے آتے؟

n/a

ابو الاعلی مودودی

اگر تو سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو لے کیوں نہیں آتا؟”

n/a

جونا گڑھی

اگر تو سچا ہی ہے تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا ۔

 یہ کافروں کے کفر وعناد کا بیان ہے کہ وہ نبی کو دیوانہ کہتے اور کہتے کہ اگر تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ کہ وہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے تاکہ وہ تیری رسالت کی تصدیق کریں یا ہمیں ہلاک کردیں۔ 

مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوا إِذًا مُنْظَرِينَ

امین احسن اصلاحی

ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر فیصلہ کے ساتھ اور اس وقت ان کو مہلت نہیں ملے گی

یہ مذکورہ بالا مطالبہ کا جواب ہے۔ ’حق‘ کے معنی یہاں فیصلہ کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنی عقل اور سمجھ سے کام لیں اور آفاق و انفس میں جو نشانیاں موجود ہیں اور جن کی طرف قرآن توجہ دلا رہا ہے ان پر غور کریں اور ان کی روشنی میں ایمان لائیں۔ ایمان لانے کے لیے فرشتوں کے اتارے جانے کا مطالبہ نہ کریں۔ فرشتے تو ہم لوگوں پر صرف اس وقت بھیجتے ہیں جب لوگ اندھے بہرے بن جاتے اور عذاب کے سوا ان کے لیے کوئی اور چیز باقی رہ ہی نہیں جاتی۔ اس وقت فرشتے خدا کا فیصلہ لے کر آتے ہیں اور وہ قوم نیست و نابود کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی۔

جاوید احمد غامدی

ہم فرشتوں کو صرف فیصلے کے ساتھ اتارتے ہیں اور (جب وہ اتارے جائیں گے تو) اُس وقت اِنھیں مہلت نہیں دی جائے گی

یعنی اُس وقت اتارتے ہیں، جب کسی قوم کا فیصلہ چکا دینے کا ارادہ کر لیا جاتا ہے۔ اُس وقت صرف فیصلہ چکایا جاتا ہے، یہ مہلت نہیں دی جاتی کہ فرشتوں کو دیکھ رہے ہو تو اب ایمان لے آؤ

ابو الاعلی مودودی

ہم فرشتوں کو یوں ہی نہیں اتار دیا کرتے۔ وہ جب اترتے ہیں تو حق کے ساتھ اترتے ہیں، اور پھر لوگوں کو مہلت نہیں دی جاتی۔

” یعنی فرشتے محض تماشا دکھا نے کے لیے نہیں اتارے جاتے کہ جب کسی قوم نے کہا بلاؤ فرشتوں کو اور وہ فورا حاضر ہوئے۔ نہ فرشتے اس غرض کے لیے کبھی بھیجے جاتے ہیں کہ وہ آکر لوگوں کے سامنے حقیقت کو بےنقاب کریں اور پردہ غیب کا چاک کر کے وہ سب کچھ دکھا دیں جس پر ایمان لانے کی دعوت انبیاء علیہم السلام نے دی ہے۔ فرشتوں کو بھیجنے کا وقت تو وہ آخری وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا فیصلہ چکا دینے کا ارادہ کرلیا جاتا ہے۔ اس وقت بس فیصلہ چکایا جاتا ہے، یہ نہیں کہا جاتا کہ اب ایمان لاؤ تو چھوڑے دیتے ہیں۔ ایمان لانے کی جتنی مہلت بھی ہے اسی وقت تک ہے جب تک کہ حقیقت بےنقاب نہیں ہوجاتی۔ اس کے بےنقاب ہوجانے کے بعد ایمان لانے کا کیا سوال۔

” حق کے ساتھ اترتے ہیں “ کا مطلب ” حق لے کر اترنا “ ہے۔ یعنی وہ اس لیے آتے ہیں کہ باطل کو مٹا کر حق کو اس کی جگہ قائم کردیں۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ لے کر آتے ہیں اور اسے نافذ کر کے چھوڑتے ہیں۔

جونا گڑھی

ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں اور اس وقت وہ مہلت دیئے گئے نہیں ہوتے

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے ہم حق کے ساتھ بھیجتے ہیں یعنی جب ہماری حکمت و مشیت عذاب بھیجنے کا تقاضا کرتی ہے تو پھر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور پھر وہ مہلت نہیں دیئے جاتے، فوراً ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔ 

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

امین احسن اصلاحی

یہ یاددہانی ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں

قرآن کی حفاظت کا ذمہ دار خود خدا ہے: یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت پرزور الفاظ میں تسکین و تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ (قریش) اس قرآن عظیم کی قدر نہیں کر رہے ہیں تو تم اس کا غم نہ کرو۔ یہ کتاب، تمہاری طرف سے کسی طلب و تمنا کے بغیر، ہم ہی نے تم پر اتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اگر یہ لوگ اس کو رد کر رہے ہیں تو رد کر دیں، خدا اس کے لیے دوسروں کو کھڑا کر دے گا جو اس کو قبول کریں گے اور اس کی دعوت و حفاظت کی راہ میں کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ یہی مضمون سورۂ انعام میں یوں بیان ہوا ہے:

’فَاِنْ یَّکْفُرْ بِھَا ھآؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِھَا بِکٰفِرِیْنَ‘(۸۹۔ انعام)
(اگر یہ لوگ اس کا انکار کر دیں تو تم اس کا غم نہ کرو ہم نے اس پر ایسے لوگوں کو مامور کر رکھا ہے جو اس کا انکار کرنے والے نہیں ہیں)

مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اس کو قبول کرتے ہیں تو اس میں ان کی اپنی ہی دنیا و آخرت کی سعادت ہے، اور اگر یہ اپنی بدقسمتی اور شامت اعمال سے اس کو رد کر دیتے ہیں تو دوسرے اس کے قبول کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے۔ چنانچہ جب قریش نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انصار کے سینے اس کے لیے کھول دیے، انھوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی حفاظت کی راہ میں کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔
’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا‘ میں حصر در حصر کا جو مضمون پایا جاتا ہے اس سے اس حقیقت کا اظہار مقصود ہے کہ یہ کتاب تم نے ہم سے مانگ کے تو لی نہیں ہے کہ تم پر لوگوں سے اس کو قبول کروانے کی ذمہ داری ہو۔ تم پر ذمہ داری صرف تبلیغ و دعوت کی ہے، تم اس کو ادا کر دو۔ رہا اس کتاب کی حفاظت اور اس کے قیام و بقا کا مسئلہ تو یہ ہم سے متعلق ہے، اس کی حفاظت اور اس کے قیام و بقا کا انتظام ہم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کن کن شکلوں میں پورا فرمایا، تاریخ میں اس سوال کا پورا جواب موجود ہے۔ اس تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

(یہ قرآن کا مذاق اڑاتے ہیں۔ تم مطمئن رہو، اے پیغمبر)، اِس میں شبہ نہیں کہ یہ یاددہانی خود ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اِس کے نگہبان ہیں

مطلب یہ ہے کہ اِن کی یاددہانی کے لیے یہ قرآن تم اپنی طرف سے تصنیف کرکے نہیں لائے ہو۔ یہ ہم نے اتارا ہے اور تمھاری طرف سے بغیر کسی تمنا اور طلب کے اتارا ہے، اِس لیے اِس کی حفاظت بھی ہم ہی کریں گے۔ یہ اِس کو یا اِس کی دعوت کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ قرآن کے بارے میں یہ اُسی طرح کا وعدہ ہے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ*‘۔ یہ وعدہ حرف بہ حرف پورا ہوا اورقرآن کے خلاف اُس کے دشمنوں کی تمام تدبیریں ناکام ہو گئیں۔ وہ نہ کسی کے مٹائے مٹ سکا، نہ دبائے دب سکا، نہ اُس کی قدر و منزلت میں کوئی کمی آئی، نہ اُس کی دعوت میں کوئی رکاوٹ ڈالی جا سکی اور نہ اُس میں تحریف اور ردوبدل کرنے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب ہو سکی۔وہ جس طرح دیا گیا، ٹھیک اُسی طرح دنیا کو منتقل ہو گیا۔ یہاں تک کہ اب اُس کے خلاف کچھ کرنا کسی کے لیے ممکن ہی نہیں رہا۔

_____
* المائدہ ۵: ۶۷۔ ’’اللہ اِن لوگوں سے تمھاری حفاظت کرے گا۔‘‘

ابو الاعلی مودودی

رہا یہ ذکر، تو اِس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اِس کے نگہبان ہیں۔

یعنی یہ ” ذکر “ جس کے لانے والے کو تم مجنون کہہ رہے ہو، یہ ہمارا نازل کیا ہوا ہے، اس نے خود نہیں گھڑا ہے۔ اس لیے یہ گالی اس کو نہیں ہمیں دی گئی ہے۔ اور یہ خیال تم اپنے دل سے نکال دو کہ تم اس ” ذکر “ کا کچھ بگاڑ سکو گے۔ یہ براہ راست ہماری حفاظت میں ہے۔ نہ تمہارے مٹائے مٹ سکے گا، نہ تمہارے دبائے دب سکے گا، نہ تمہارے طعنوں اور اعتراضوں سے اس کی قدر گھٹ سکے گی، نہ تمہارے روکے اس کی دعوت رک سکے گی، نہ اس میں تحریف اور ردوبدل کرنے کا کبھی کسی کو موقع مل سکے گا۔

جونا گڑھی

ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔

 یعنی اس کو دست برد زمانہ سے اور تغیر وتبدل سے بچانا ہمارا کام ہے۔ چنانچہ قرآن آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح یہ اترا تھا، گمراہ فرقے اپنے اپنے گمراہانہ عقائد کے اثبات کے لئے اس کی آیات میں معنوی تحریف تو کرتے رہتے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں لیکن پچھلی کتابوں کی طرح یہ لفظی تحریف اور تغیر سے محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں اہل حق کی ایک جماعت بھی تحریفات معنوی کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہر دور میں موجود رہی ہے، جو ان کے گمراہانہ عقائد اور غلط دلائل اور ثبوت بکھیرتی رہی ہے اور آج بھی وہ اس محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کو یہاں ' ذکر ' (نصیحت) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اہل جہاں کے لئے ' ذکر ' (یاد دہانی اور نصیحت ہونے) کے پہلو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے تابندہ نقوش اور آپ کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ گویا قرآن کریم اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور رسول کو حاصل نہیں ہوا۔ 

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ

امین احسن اصلاحی

اور ہم نے تم سے پہلے بھی اگلے گروہوں میں اپنے رسول بھیجے

انبیاؑء کی سرگزشتوں کا حوالہ: تسکین و تسلی کے مضمون کو مزید مؤکد و مبرہن کرنے کے لیے یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی سرگزشتوں کا حوالہ ہے کہ آج اپنی قوم کی طرف سے جو تجربہ تمہیں ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے تم سے پہلے بھی جو رسول پچھلی قوموں میں بھیجے انھیں بھی اپنی اپنی قوموں کی طرف سے انہی حالات سے دوچار ہونا پڑا۔

جاوید احمد غامدی

ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سی گزری ہوئی قوموں میں اپنے رسول بھیجے تھے

n/a

ابو الاعلی مودودی

اے محمدؐ، ہم تم سے پہلے بہت سی گزری ہوئی قوموں میں رسول بھیج چکے ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

ہم نے آپ سے پہلے اگلی امتوں میں بھی رسول (برابر) بھیجے۔

Page 1 of 10 pages  1 2 3 >  Last ›