يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

امین احسن اصلاحی

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کے سامنے اپنی رائے مقدم نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے

وہ حالات جن میں یہ سورہ نازل ہوئی: خطاب اگرچہ عام مسلمانوں سے ہے لیکن جن لوگوں کا رویہ اس سورہ میں زیربحث آیا ہے وہ، جیسا کہ آگے کی آیات سے بالتدریج واضح ہوتا جائے گا، اطراف مدینہ کے بدوی قبائل کے وہ لوگ ہیں جو اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں شامل تو ہو گئے تھے لیکن ابھی ایمان ان کے دلوں میں اچھی طرح رچا بسا نہیں تھا۔ اس کی وجہ اول تو یہ تھی کہ یہ لوگ اسلام کو سمجھ کر نہیں بلکہ اس سے مرعوب ہو کر اس میں داخل ہوئے، ثانیاً مرکز سے بے تعلق رہنے کے سبب سے ان کی تربیت بھی اچھی طرح نہیں ہوئی تھی۔ ان کے اندر ایک غلط قسم کا پندار بھی تھا کہ انھوں نے کسی جنگ کے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر لی جو آپ پران کا ایک احسان ہے۔ اس پندار کا اثر یہ تھا کہ ان کے سردار جب مدینہ آتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس انداز سے بات کرتے گویا وہ اسلام کے بڑے مربی و محسن ہیں۔ بغیر اس کے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملے میں ان کی رائے دریافت کریں آگے بڑھ بڑھ کر اپنی رائیں پیش کرتے اور مشورے دینے کی کوشش کرتے۔ بات کرتے ہوئے حضورؐ کی آواز پر اپنی آواز، تفوق کے اظہار کے لیے بلند رکھتے۔ جب کبھی آتے تو ان کی خواہش یہ ہوتی کہ حضورؐ بلاتاخیر سارے کام چھوڑ کر، ان سے ملاقات کریں اور اگر ذرا تاخیر ہو جاتی تو بے درنگ آپ کے حجروں کے باہر سے، اس طرح آواز دینا شروع کر دیتے جس طرح ایک عام آدمی کو آواز دی جاتی ہے۔ آپس میں ان کے درمیان جو جاہلی رقابتیں زمانۂ جاہلیت سے چلی آ رہی تھیں، ان میں ہر ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا اور اس غرض کے لیے وہ اپنے حریفوں سے متعلق بعض اوقات ایسی خبریں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاتے جو غلط فہمی پیدا کرنے والی ہوتیں۔ ان کی بنا پر مدینہ کے مسلمان اگر کوئی اقدام کر گزرتے تو یہ چیز مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے لیے نہایت مضر ہوتی۔

یہ حالات تھے جن میں یہ سورہ نازل ہوئی۔ اس میں رویہ تو زیربحث، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، ایک مخصوص گروہ ہی کا ہے لیکن قرآن نے خطاب عام ہی رکھا ہے تاکہ اس کا زیادہ فضیحتا بھی نہ ہو اور وہ رخنے بند بھی ہو جائیں جن سے شیطان کو معاشرہ کے اندر فتنہ انگیزی کی راہ مل سکتی ہے۔
ممانعت رسول کے سامنے رائے پیش کرنے کی نہیں بلکہ رائے پیش کرنے میں پہل کرنے کی ہے: یہ امر واضح رہے کہ یہاں ممانعت اللہ کے رسول کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے میں پہل کرنے یا اپنی رائے کو اللہ اور رسول کے حکم پر مقدر کرنے کی ہے نہ کہ رسول کے سامنے مجرد اپنی کوئی رائے پیش کرنے کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امور مصلحت میں صحابہؓ سے ان کی رائیں معلوم بھی فرماتے اور صحابہؓ اپنی رائے پیش بھی کرتے۔ اسی طرح صحابہؓ بعض اوقات عام امور مصلحت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بھی عرض کرتے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فلاں اقدام وحی الٰہی پر مبنی نہ ہو تو اس کی جگہ فلاں تدبیر زیادہ قرین مصلحت رہے گی، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ان کی رائیں قبول بھی فرما لیتے۔ اس آیت میں اس طرح کی باتوں کی نہی نہیں ہے۔ حضورؐ نے خود اپنے طرزعمل سے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضورؐ سب سے زیادہ لوگوں سے مشورہ لینے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی، جیسا کہ آیت ’وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ‘ (آل عمران: ۱۵۹) سے واضح ہے، آپ کو لوگوں سے مشورہ کرتے رہنے کی ہدایت فرمائی گئی تھی۔
یہاں ممانعت اسی بات کی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا کہ کوئی شخص اللہ کے رسول کو ایک عام آدمی یا مجرد ایک لیڈر سمجھ کر اور اپنے آپ کو ان سے زیادہ مدبر خیال کر کے، بغیر اس کے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کسی معاملہ میں اس کی رائے دریافت کریں، حضورؐ کو اپنی رائے سے متاثر کرنے اور اپنی رائے کو حضورؐ کی بات پر مقدم کرنے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اس کا رویہ دلیل ہے کہ وہ رسول کے اصلی مرتبہ و مقام سے بالکل بے خبر ہے۔ اللہ کا رسول اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ جو کچھ کہتا یا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت کرتا یا کہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنے کی جسارت کرتا ہے تو دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مقدم کرنا چاہتا ہے درآنحالیکہ یہ چیز اس کے تمام ایمان و عمل کو ڈھا دینے والی ہے اگرچہ اس کو اس کا شعور نہ ہو۔
اللہ اور رسول کا معاملہ الگ الگ نہیں ہے: ’بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ و رسول کا معاملہ الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کا رسول اللہ کا سفیر و نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کو بن پوچھے مشورہ دینا خود اللہ تعالیٰ کو مشورہ دینا ہے، اس کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنا اللہ کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر اپنے کو مدبر سمجھنا خود خدائے علیم و حکیم سے بڑھ کر اپنے کو مدبر و حکیم سمجھنا ہے۔ یہ آدمی کے اس رویہ کے لازمی نتائج ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کی بلادت کے سبب سے ان نتائج کا احساس نہ ہو لیکن ان کے لازمی نتائج ہونے سے انکار ناممکن ہے۔
’وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘۔ یہ ان لوگوں کو تنبیہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ اور رسول سے زیادہ دانش مند اور مدبر ہونے کے خبط میں مبتلا نہ ہو۔ اللہ سمیع و علیم ہے۔ وہ تمھاری ساری باتوں کو سن بھی رہا ہے اور ان کے پیچھے جو محرکات کام کر رہے ہیں ان سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے تو اس کا مکافات عمل کا قانون لازماً ظہور میں آئے گا۔ اس قانون کا ذکر آگے والی آیت میں آ رہا ہے۔
موجودہ زمانے کے مدعیان اصلاح کی کج فہمی: اس آیت میں ہمارے زمانے کے ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے جو اسلام کی خدمت کے دعوے کے ساتھ اس کے اقدار کو مسخ اور اس کے قوانین کی تحریف کر رہے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ اور رسول نے جس شکل میں اسلام دیا ہے اس شکل میں وہ اس دور میں نہیں چل سکتا۔ ضروری ہے کہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق اس کی اصلاح کی جائے۔ چنانچہ وہ شریعت کے احکام میں اپنی رائے کے مطابق ترمیم کر رہے ہیں۔ بس یہ فرق ہے کہ آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو پہلے ہی سے سبقت کر کے چاہتے تھے کہ اللہ و رسول کے آگے اپنے مشورے پیش کر دیں، اس زمانے کے مدعیان اسلام کو یہ موقع نہ مل سکا اس وجہ سے وہ اب ان غلطیوں کی اصلاح کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ و رسول سے ’العیاذ باللہ‘ دین کے معاملے میں ہو گئی ہیں۔

جاوید احمد غامدی

ایمان والو، اللہ اور اُس کے رسول کے آگے اپنی راے کو مقدم نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ سمیع و علیم ہے۔

یہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن مضمون کے تدریجی ارتقا سے واضح ہو جائے گا کہ روے سخن درحقیقت اُن اہل بدو کی طرف ہے جو مسلمانوں کی طاقت سے مرعوب ہو کر اسلام تو لے آئے تھے، مگر ابھی تک نہ ایمان و اسلام کے تقاضوں کو پوری طرح سمجھتے تھے اور نہ صحابۂ کرام کی صحبت سے دور ہونے کی وجہ سے اپنی کچھ تربیت ہی کر پائے تھے۔ پھر یہی نہیں، اُن کے سردار خاص کر ایک غلط قسم کے پندار میں بھی مبتلا تھے کہ اُنھوں نے بغیر کسی جنگ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کر لی ہے تو آپ پر یہ اُن کا احسان ہے۔ چنانچہ اُن کا یہ پندار اُن کے انداز گفتگو اور طرزعمل، ہر چیز سے نمایاں ہوتا تھا۔

یعنی خدا کے رسول کو اپنے سرداروں کی طرح ایک سردار سمجھ کر اور اپنے آپ کو اُن سے زیادہ مدبر خیال کرکے اپنی راے سے آپ کو متاثر کرنے یا آپ کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنے کی کوشش نہ کرو، اِس لیے کہ یہ درحقیقت خدا کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’(آیت میں) ’بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ و رسول کا معاملہ الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کا رسول اللہ کا سفیر و نمایندہ ہوتا ہے۔ اُس کو بن پوچھے مشورہ دینا خود اللہ تعالیٰ کو مشورہ دینا ہے، اُس کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنا اللہ کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنا ہے اور اُس سے بڑھ کر اپنے آپ کو مدبر سمجھنا خود خداے علیم و حکیم سے بڑھ کر اپنے کو مدبر و حکیم سمجھنا ہے۔ یہ آدمی کے اِس رویے کے لازمی نتائج ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کواُ س کی بلادت کے سبب سے اِن نتائج کااحساس نہ ہو، لیکن اِن کے لازمی نتائج ہونے سے انکار ناممکن ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۴۸۷)

یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہی حیثیت آپ کی لائی ہوئی ہدایت کی ہے ۔ اب وہ آپ کی قائم مقام ہے اور اُس کے ساتھ بھی ہر مسلمان کا رویہ وہی ہونا چاہیے جو یہاں بتایا گیا ہے۔
لہٰذا جو کچھ کرو گے، وہ اُس سے چھپا نہیں رہے گا۔ اُس کے نتائج بھی لازماً بھگتنا پڑیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کرنے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے ” پیش قدمی نہ کرو “، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو، پیچھے چلو۔ مقدم نہ بنو، تابع بن کر رہو۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورة احزاب کی آیت 36 سے ایک قدم آگے ہے۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کردیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیش قدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کرلینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں۔

یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ در حقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ۔ مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم ” کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے ؟ ” انہوں نے عرض کیا ” کتاب اللہ کے مطابق “۔ آپ نے پوچھا ” اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے ؟ ” انہوں نے کہا ” سنت رسول اللہ کی طرف ” آپ نے فرمایا ” اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے ؟ ” انہوں نے عرض کیا ” پھر میں خود اجتہاد کروں گا “۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ” شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے “۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت۔ پوری امت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہوسکتا کجا کہ افراد امت کا قیاس و اجتہاد۔

یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بےنیاز ہو کر خود مختاری کی روش اختیار کی یا اپنی رائے اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے۔

جونا گڑھی

اے ایمان والے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔

 اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بد عات کی ایجاد، اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتوٰی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔ 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ

امین احسن اصلاحی

اے ایمان لانے والو! تم اپنی آواز نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ اس کو اس طرح آواز دے کر پکارو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ مبادا تمہارے اعمال ڈھے جائیں اور تم کو احساس بھی نہ ہو

جن کے اندر پندار ہو اس کا اثر ان کے انداز کلام سے نمایاں ہوتا ہے: یہ اسی اوپر والی بات کے ایک دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ جن لوگوں کے اندر یہ خناس سمایا ہوا ہو کہ وہ اللہ و رسول کو مشورہ دینے کے پوزیشن میں ہیں یا جن کو یہ زعم ہو کہ ان کا اسلام قبول کر لینا اسلام اور پیغمبرؐ پر ایک احسان ہے۔ ان کا طرز خطاب اور انداز کلام رسول کے آگے متواضعانہ و نیاز مندانہ نہیں ہو سکتا تھا۔ بلکہ ان کے اس پندار کا اثر ان کی گفتگو سے نمایاں ہونا ایک امر فطری تھا۔ چنانچہ یہ لوگ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے تو ان کے انداز کلام سے یہ واضح ہوتا کہ یہ اللہ کے رسول سے کچھ سیکھنے نہیں بلکہ ان کو کچھ سکھانے اور بتانے آئے ہیں۔ چنانچہ جس طرح یہ اپنی رائیں پیش کرنے میں سبقت کرتے اسی طرح ان کی کوشش یہ بھی ہوتی کہ ان کی آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر بلند و بالا رہے اور اگر آپ کو مخاطب کرتے تو ادب سے ’یا رسول اللہ‘ کہنے کے بجائے ’یا محمد‘ کہہ کر خطاب کرتے جس طرح اپنے برابر کے ایک عام آدمی کو خطاب کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کو اس غیر مہذب طریقۂ کلام و خطاب سے روکا گیا ہے کیونکہ یہ چیز غمازی کر رہی تھی کہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ رسول کا اصل مرتبہ و مقام نہیں پہچانا ہے بلکہ ان کے اندر اپنی برتری کا وہ زعم بھی چھپا ہوا ہے جو بالآخر ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دینے والا ہے۔

’اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ‘ میں ’ان‘ سے پہلے، جیسا کہ ہم جگہ جگہ واضح کرتے آرہے ہیں ’کراھۃ‘ یا ’مخافۃ‘ یا ان کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔ اس کو کھول دیجیے تو مطلب یہ ہو گا کہ اس بے ادبی سے تمہیں اس لیے روکا جا رہا ہے کہ مبادا تمہاری یہ حرکت اس بات کا سبب بن جائے کہ عنداللہ تمہارے سارے اعمال ڈھے جائیں۔
’وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘۔ یعنی تم تو اس پندار میں مبتلا رہو گے کہ تم نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے اور نبیؐ کو اپنی رایوں سے مستفید کرنے کے لیے تمہاری بے چینی بھی خدمت دین ہی کے عشق میں ہے لیکن ادھر تمہارے وہ سارے اعمال ڈھے جائیں گے جو اپنے زعم میں تم نے دین کی خاطر انجام دیے اور تمہیں اس بات کا شعور بھی نہ ہو گا۔
ایک نہایت اہم حقیقت: اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ایک شخص بہت سے کام اپنی دانست میں دین کے کام سمجھ کر دین ہی کی خدمت کے لیے کرتا ہے لیکن اس کے اندر اگر یہ پندار سمایا ہوا ہو کہ وہ اللہ و رسول پر یا اللہ کے دین پر کوئی احسان کر رہا ہے اور اس زعم میں نہ وہ اللہ تعالیٰ کی صحیح عظمت کو ملحوظ رکھے، نہ اس کے رسول کے اصلی مرتبہ و مقام کا احترام کرے تو اس کے سارے اعمال اکارت ہو کے رہ جائیں گے اور اس کو اپنی اس بے شعوری کا پتہ آخرت میں چلے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو اللہ و رسول کا محسن سمجھ بیٹھے۔ اس کے ہاں قبولیت کا شرف صرف انہی لوگوں کے اعمال کو حاصل ہو گا جو اس کے دین کی خدمت صرف اس کی رضا کے لیے، ٹھیک ٹھیک اس کے مقرر کردہ شرائط کے مطابق، انجام دیں گے اور ساتھ ہی دل سے اس حقیقت کے معترف رہیں گے کہ یہ خدمت انجام دے کر انھوں نے اللہ و رسول پر کوئی احسان نہیں کیا ہے بلکہ یہ اللہ کا فضل و احسان خود ان کے اوپر ہوا ہے کہ اس نے ان کو اپنے دین کی کسی خدمت کی توفیق بخشی۔

جاوید احمد غامدی

ایمان والو، اپنی آوازوں کو پیغمبر کی آواز پر اونچا نہ ہونے دو اور نہ اُس کو اُس طرح آواز دے کر پکارو، جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب اکارت ہو جائے اور تمھیں احساس بھی نہ ہو۔

اِس لیے کہ یہ چیز غمازی کرتی ہے کہ تم نے نہ صرف یہ کہ خدا کے رسول کا مرتبہ نہیں پہچانا، بلکہ اپنی برتری کے زعم میں مبتلا ہو کر اِس حقیقت کو بھی نہیں سمجھے کہ تم کسی عام آدمی یا اپنے کسی سردار سے نہیں، بلکہ خدا کے رسول سے مخاطب ہو اور اُس سے کچھ سیکھنے کے لیے آئے ہو، اُس کو سکھانے یا بتانے کے لیے نہیں آئے۔

یعنی رسول کا درجہ ایسا غیر معمولی ہے کہ اُس کی عزت اور احترام میں ذرا سی کمی بھی ہو جائے تو یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اِس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے۔ اِس لیے متنبہ ہو جاؤ ، اِس ہستی کا احترام ، درحقیقت خدا کا احترام ہے جس نے اِس کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔
یعنی اِس بات کا احساس بھی نہ ہو کہ اسلام قبول کر لینے اور بظاہر دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجانے کے باوجود کیا کھو بیٹھے ہو۔

ابو الاعلی مودودی

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو سکھایا گیا تھا۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہل ایمان آپ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں۔ کسی شخص کی آواز آپ کی آواز سے بلند تر نہ ہو۔ آپ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول سے مخاطب ہیں۔ اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپ کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے۔

یہ ادب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں موجود تھے، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ کا کوئی حکم سنایا جائے، یا آپ کی احادیث بیان کی جائیں۔ اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اس طرح بولنا جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے، دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔

اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں ذات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کا کیا مقام ہے۔ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی شخص، خواہ بجائے خود کتنا ہی قابل احترام ہو، بہرحال یہ حیثیت نہیں رکھتا کہ اس کے ساتھ بےادبی خدا کے ہاں اس سزا کی مستحق ہو جو حقیقت میں کفر کی سزا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بد تمیزی ہے، خلاف تہذیب حرکت ہے۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احترام میں ذرا سی کمی بھی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس سے آدمی کی عمر بھر کی کمائی غارت ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ کا احترام دراصل اس خدا کا احترام ہے جس نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور آپ کے احترام میں کمی کے معنی خدا کے احترام میں کمی کے ہیں۔

جونا گڑھی

اے ایمان والو ! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

 اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس ادب و تعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے پہلا ادب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند نہ ہو دوسرا ادب جب خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بےتکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرو اگر ادب و احترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بےادبی کا احتمال ہے جس سے بےشعوری میں تمہاے عمل برباد ہو سکتے ہیں اس آیت کی شان نزول کے لیے دیکھئے صحیح بخاری تفسیر سورة الحجرات تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے۔ 

إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ

امین احسن اصلاحی

یاد رکھو کہ جو لوگ نبی کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کی افزائش کے لیے منتخب کیا ہے۔ ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے

رسول کے معاملے میں صحیح ادب کی تعلیم: یہ اس صحیح ادب کی تعلیم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ہر صاحب ایمان کو اختیار کرنا لازم ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی افزائش کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ لفظ ’اِمْتَحَنَ‘ یہاں ’اِصْطَفٰی‘ یا اس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر دل تقویٰ کی تخم ریزی اور اس کی افزائش کے لیے موزوں نہیں ہوتا بلکہ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ امتحان کر کے دلوں کا انتخاب کرتا ہے اوراس انتخاب میں اصل چیز جو ترجیح دینے والی بنتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ و رسول کے لیے انقیاد و اطاعت کا سچا جذبہ اور ان کے آگے فروتنی کا صحیح شعور ہے یا نہیں۔ یہ چیز جس کے اندر جتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اس کو اتنی ہی زیادہ تقویٰ کی نعمت عطا ہوتی ہے اور جو لوگ جس درجے میں اس شعور سے عاری ہوتے ہیں وہ اتنے ہی تقویٰ سے بعید ہوتے ہیں۔ آواز بلند کرنے کا ذکر، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، انسان کے باطن کے ایک مخبر کی حیثیت سے ہوا ہے۔ جو شخص کسی کی آواز پر اپنی آواز بلند رکھنے کی کوشش کرتا ہے اس کا یہ عمل شہادت دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے اونچا خیال کرتا ہے۔ یہ چیز اکتساب فیض کی راہ بالکل بند کر دیتی ہے اگر استاد کے آگے کسی شاگرد کا یہ طرزعمل ہو تو وہ اس کے فیض سے محروم رہتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ کے رسول کے آگے کسی نے یہ روش اختیار کی تو وہ صرف رسول ہی کے فیض سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بھی محروم ہو جائے گا اس لیے کہ رسول، اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے۔

کتاب و سنت کے فیوض سے بہرہ مند ہونے کے لیے صحیح رویہ: یہی درجہ اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو تقویٰ کے لیے منتخب فرماتا ہے جو اس کی کتاب اور رسول کی سنت کے سامنے فروتنی کی یہی روش اختیار کرتے ہیں جس کی ہدایت رسول کے معاملے میں ہوئی ہے۔ جس شخص کے اندر اللہ و رسول کی ہر بات کے آگے سرجھکا دینے کا سچا جذبہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تقویٰ کی راہیں کھولتا ہے اور ہر قدم پر غیب سے اس کی رہنمائی ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی اصلاح کرنے کی پوزیشن میں ہے تو اس کا یہ پندار اس کے سارے عمل کو غارت اور اس کی آخرت کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔
’لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ‘۔ اوپر والی آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر آواز بلند کرنے کا انجام یہ بتایا ہے کہ یہ روش اعمال کو برباد کر دینے والی روش ہے۔ اس کے مقابل میں یہ ان لوگوں کا صلہ بیان ہوا ہے جو اپنی آواز رسول کے آگے پست رکھیں گے۔ فرمایا کہ ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ یعنی ان کی لغزشیں اور کوتاہیاں اللہ تعالیٰ بخش دے گا اس لیے کہ انھوں نے اللہ اور رسول کے آگے فروتنی کی روش اختیار کی۔ کسی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو اس سے بڑا سمجھنے کی جسارت نہیں کی۔ ان کی اس فروتنی کا انعام ان کو یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کی افزائش کے لیے منتخب فرمایا جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا ہے۔

جاوید احمد غامدی

(یاد رکھو)، جو اللہ کے رسول کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کی افزایش کے لیے جانچ کر منتخب کر لیا ہے۔ اُن کے لیے مغفرت بھی ہے اور اجر عظیم بھی۔

اصل میں لفظ ’اِمْتَحَنَ‘ آیا ہے۔ یہ یہاں ’اِصْطَفٰی‘ یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ ہر دل کو تقویٰ کی تخم ریزی اور اُس کی افزایش کے لیے منتخب نہیں کرتا۔ اِس کے لیے وہی دل منتخب کیے جاتے ہیں جن کے اندر اللہ و رسول کے لیے انقیاد و اطاعت کا سچا جذبہ اور اُن کے آگے عاجزی کا صحیح شعور ہوتا ہے۔ یہ اُس سنت کی فرع ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں مقرر ہے۔ لہٰذا یہ جذبہ و شعور جس کے اندر جتنا کم یا زیادہ ہوتا ہے، اُس کو تقویٰ کی نعمت بھی اُسی کے لحاظ سے ملتی ہے۔ یہاں اِسے پیغمبر کے آگے اپنی آواز کو پست رکھنے سے متعلق کیا ہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اِسی باطن کا ظاہر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...جو شخص کسی کی آواز پر اپنی آواز بلند رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اُس کا یہ عمل شہادت دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اُس سے اونچا خیال کرتا ہے۔ یہ چیز اکتساب فیض کی راہ بالکل بند کر دیتی ہے ۔اگر استاد کے آگے کسی شاگرد کا یہ طرزعمل ہو تو وہ اُس کے فیض سے محروم رہتا ہے۔ اِسی طرح اگر اللہ کے رسول کے آگے کسی نے یہ روش اختیار کی تو وہ صرف رسول ہی کے فیض سے نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بھی محروم ہو جائے گا۔ اِس لیے کہ رسول اللہ تعالیٰ کا نمایندہ ہوتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۴۸۹)

ابو الاعلی مودودی

جو لوگ رسول خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ در حقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم۔

یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورے اترے ہیں اور ان آزمائشوں سے گزر کر جنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے دلوں میں فی الواقع تقویٰ موجود ہے وہی لوگ اللہ کے رسول کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔ اس ارشاد سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو دل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احترام سے خالی ہے وہ درحقیقت تقویٰ سے خالی ہے، اور رسول کے مقابلے میں کسی کی آواز کا بلند ہونا محض ایک ظاہری بد تہذیبی نہیں ہے۔ بلکہ باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے۔

جونا گڑھی

بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لئے جانچ لیا ہے۔ ان کے لئے مغفرت اور بڑا ثواب ہے ۔

 اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔ 

إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

امین احسن اصلاحی

بے شک جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ رکھنے والے نہیں ہیں۔

کم عقلوں کے ایک ناشائستہ طریقہ پر ان کو تنبیہ: یہ لوگ جس طرح مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے میں غیر مہذب تھے اسی طرح یہ حرکت بھی وہ کرتے کہ جب دیکھتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں موجود نہیں ہیں تو آتے ہی ازواج مطہراتؓ کے حجروں کے باہر ہی سے آپ کو چیخ چیخ کر پکارنا شروع کر دیتے۔ اس قسم کی حرکت بجائے خود بھی نہایت ناشائستہ ہے لیکن اس کا باطنی محرک اس کے ظاہر سے بھی زیادہ مکروہ تھا۔ یہ لوگ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا اور آگے اس کی پوری وضاحت آئے گی، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ انھوں نے بغیر لڑے بھڑے جو اسلام قبول کر لیا تو یہ اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا بہت بڑا احسان ہے اس وجہ سے یہ اپنا حق سمجھتے تھے کہ جب یہ آئیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بلا تاخیر ان کا خیر مقدم کریں۔ اگر کسی وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف فرما نہ ہوتے تو انتظار کی زحمت گوارا نہ کرتے بلکہ فوراً ازواج مطہراتؓ کے حجروں کا چکر لگانا اور چیخ چیخ کر نہایت بھونڈے طریقہ سے، آپ کا نام لے لے کر، پکارنا شروع کر دیتے۔ فرمایا کہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ ’اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ‘ کے الفاظ میں ان لوگوں کی ناسمجھی پر ملامت بھی ہے اور لطیف انداز میں ان کی اس نادانی سے درگزر کرنے کا اشارہ بھی کہ ہر چند ہے تو ان کی یہ حرکت نہایت ناشائستہ لیکن ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ و مقام سے آشنا ہیں اور نہ اپنی اس حرکت کے انجام سے، اس وجہ سے یہ ترتیب کے محتاج اور درگزر کے لائق ہیں۔

’وَرَآءِ الْحُجُرَاتِ‘ میں لفظ ’وَرَآءِ‘ جو آیا ہے اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ حجروں کے پیچھے سے پکارتے تھے اس وجہ سے ان کی یہ حرکت قابل اعتراض ٹھہری۔ لفظ ’وَرَآءِ‘ پیچھے یا پچھواڑے کے مفہوم کے لیے خاص نہیں ہے۔ عربی میں ’نَادَانِیْ مِنْ وَرَآءِ الدَّارِ‘ کا مفہوم صرف یہ ہو گا کہ اس نے گھر کے باہر سے مجھے پکارا، قطع نظر اس سے کہ مکان کے پیچھے سے پکارا یا مکان کے سامنے سے۔ قابل اعتراض ان کا اس بھونڈے طریقہ سے پکارنا تھا۔ یہ امر واضح رہے کہ ایک عام مسلمان کو بھی اس طرح پکارنا اسلامی تہذیب کے خلاف ہے چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کو۔ سورۂ نور کی تفسیر میں وہ طریقہ آپ پڑھ آئے ہیں جو کسی صاحب خانہ سے ملاقات کے لیے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے۔

جاوید احمد غامدی

اِس میں کچھ شک نہیں، (اے پیغمبر) کہ جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، اُن میں سے اکثر سمجھ نہیں رکھتے۔

یہ اُنھی لوگوں کا طرزعمل بیان ہوا ہے، اوپر جن کے انداز گفتگو کا ذکر ہے۔ اِس کا باعث وہی پندار تھا جس میں یہ لوگ مبتلا تھے۔ اِن کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا احسان مند ہونا چاہیے کہ ہم نے آپ کی اطاعت قبول کر لی ہے۔ لہٰذا ملنے کے لیے آئیں تو آپ کو چاہیے کہ بلاتاخیر ہمارا خیر مقدم کریں۔چنانچہ اگر کبھی آپ کو مجلس میں تشریف فرما نہ دیکھتے تو حجروں کے باہر ہی سے آپ کو پکارنا شروع کر دیتے تھے۔ آیت میں اِن کی نا سمجھی پر ملامت بھی ہے اور اُس سے درگذر کرنے کا اشارہ بھی کہ ہر چند اِن کی حرکت نہایت نا شایستہ ہے، مگر اِن کی اکثریت آپ کے مقام و مرتبہ سے آشنا نہیں ہے، اِس لیے عفو و درگذر ہی بہتر ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اے نبیؐ، جو لوگ تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔

n/a

جونا گڑھی

جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں اکثر (بالکل) بےعقل ہیں ۔

  یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت، جو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیلولے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد ٨٤۔ ٣١٨) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بےعقل ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بےعقلی ہے۔ 

وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

امین احسن اصلاحی

اگر یہ لوگ صبر کے ساتھ اتنا انتظار کر لیتے کہ تم خود ان کے پاس نکل کے آ جاتے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہوتی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے

یہ ان کو صحیح ادب کی ہدایت فرمائی گئی کہ اگر وہ صبر کے ساتھ تمہارے نکلنے تک انتظار کر لیتے تو یہ چیز ان کے لیے بڑے خیر و برکت کا موجب ہوتی۔ آیت کا اسلوب ان کی محرومی پر اظہار حسرت کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جس چشمہ فیض پر پہنچے تھے اگر انہوں نےاس کی صحیح قدر پہچانی ہوتی تو اس سے سیراب ہو کر لوٹتے لیکن یہ ان کی محرومی ہے کہ وہاں سے کچھ پانا تو درکنار اپنی نادانی و ناقدر شناسی کے باعث یہ کچھ کھو کے پلٹے۔

’وَاللَّهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‘- یہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی صفات ’غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‘ کی یاد دہانی فرمائی ہے اور مقصود اس سے نہایت لطیف انداز میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اگرچہ ان کی یہ حرکتیں نہایت ناگوار ہیں لیکن یہ سمجھ رکھنے والے لوگ نہیں ہیں اس وجہ سے ابھی ان کی اس طرح کی باتوں سے درگزر کرو۔ اللہ تعالی غفور رحیم ہے اور یہی عفو و درگزر اس کے رسول کے بھی شایان شان ہے۔

جاوید احمد غامدی

اگر یہ لوگ صبر کے ساتھ انتظار کر لیتے کہ تم خود اِن کے پاس نکل کے آجاتے تو یہ اِن کے حق میں بہت بہتر ہوتا۔ بہرحال (درگذر کرو)، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔

آیت کا اسلوب اِن لوگوں کی محرومی پر اظہارحسرت کا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جس چشمۂ فیض پر پہنچے تھے، اگر اِنھوں نے اُس کی صحیح قدر پہچانی ہوتی تو اُس سے سیراب ہو کر لوٹتے۔ لیکن یہ اِن کی محرومی ہے کہ وہاں سے کچھ پانا تو درکنار، اپنی نادانی و ناقدر شناسی کے باعث یہ کچھ کھو کے پلٹے!‘‘ (تدبرقرآن ۷/ ۴۹۱)

ابو الاعلی مودودی

اگر وہ تمہارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انہی کے لیے بہتر تھا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں جن لوگوں نے آپ کی صحبت میں رہ کر اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت پائی تھی وہ تو آپ کے اوقات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے۔ ان کو پورا احساس تھا کہ آپ اللہ کے کام میں کس قدر مصروف زندگی بسر فرماتے ہیں، اور ان تھکا دینے والی مصروفیتوں کے دوران میں لازماً کچھ وقت آپ کے آرام کے لیے اور کچھ وقت آپ کی اہم مشغولیتوں کے لیے اور کچھ وقت اپنی خانگی زندگی کے معاملات کی طرف توجہ کرنے کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے وہ آپ سے ملاقات کے لیے اسی وقت حاضر ہوتے تھے جب آپ باہر تشریف فرما ہوں، اور اگر کبھی وہ آپ کو مجلس میں موجود نہ پاتے تو بیٹھ کر آپ کے برآمد ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کسی شدید ضرورت کے بغیر آپ کو باہر تشریف لانے کی زحمت نہ دیتے تھے۔ لیکن عرب کے اس ماحول میں، جہاں عام طور پر لوگوں کو کسی شائستگی کی تربیت نہ ملی تھی، بارہا ایسے اَن گھڑ لوگ بھی آپ سے ملاقات کے لیے آجاتے تھے جن کا تصور یہ تھا کہ دعوت الیٰ اللہ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے کو کسی وقت بھی آرام لینے کا حق نہیں ہے، اور انہیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آدھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے۔ اس قماش کے لوگوں میں عموماً اور اطراف عرب سے آنے والوں میں خصوصاً بعض ایسے ناشائستہ لوگ بھی ہوتے تھے جو آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو کسی خادم سے اندر اطلاع کرانے کی زحمت بھی نہ اٹھاتے تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارتے پھرتے تھے۔ اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں صحابہ کرام نے روایت کیے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی ان حرکات سے تکلیف ہوتی تھی مگر اپنے طبعی حلم کی وجہ سے آپ اسے برداشت کیے جا رہے تھے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مداخلت فرمائی اور اس ناشائستہ طرز عمل پر ملامت کرتے ہوئے لوگوں کو یہ ہدایت دی کہ جب وہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں اور آپ کو موجود نہ پائیں تو پکار پکار کر آپ کو بلانے کے بجائے صبر کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ خود ان سے ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں۔

یعنی اب تک جو کچھ ہوا سو ہوا، آئندہ اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پچھلی غلطیوں سے در گزر فرمائے گا اور اپنے رحم و کرم کی بنا پر ان لوگوں سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا جو اس کے رسول کو اس طرح اذیت دیتے رہے ہیں۔

جونا گڑھی

اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا اور اللہ غفور و رحیم ہے۔

 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کا انتظار کرتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دینے میں جلدی نہ کرتے تو دین اور دنیا دونوں لحاظ سے بہتر ہوتا۔ 

 اس لیے مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ کے لیے ادب و تعظیم کی تاکید بیان فرما دی۔ 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

امین احسن اصلاحی

اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لائے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو مبادا کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو، پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے

خبر کے قبول کرنے کے معاملہ میں احتیاط کی تاکید: یہ مرکز (یعنی مدینہ) کے مسلمانوں کو اس طرح کے لوگوں کی طرف سے ایک سیاسی خطرہ سے آگاہ فرمایا گیا ہے۔ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ یہ اطراف مدینہ کے بدوی قبائل کے بعض سرداروں کا رویہ بیان ہوا ہے۔ ان کے اندر تربیت سے محرومی کے باعث جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا صحیح شعور مفقود تھا اسی طرح اسلامی اخوت کے صحیح احساس سے بھی یہ لوگ ابھی نا آشنا تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں ان کے اندر جو رقابتیں اور رنجشیں آپس میں تھیں ان کے اثرات ہنوز باقی تھے۔ یہ لوگ مدینہ آتے تو ان میں سے بعض اپنے حریفوں کے خلاف غلط صحیح اطلاعات دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بدگمان کرنے کی کوشش کرتے اور صحابہؓ میں سے بھی، جن پر ان کا اثر کارگر ہوتا، ان کو اپنے حق میں ہموار کرتے تاکہ مدینہ کی مرکزی طاقت کو اپنے حریفوں کے خلاف اپنے حق میں استعمال کر سکیں۔ یہ صورت حال ایک نازک صورت حال تھی۔ مدینہ کی حکومت اول تو ابھی اچھی طرح مستحکم نہیں ہوئی تھی۔ ثانیاً اس قسم کی بے بنیاد افواہ انگیزیوں کی بنا پر اس کا کوئی اقدام خاص طور پر مسلمانوں ہی کے کسی گروہ کے خلاف، عدل اور اجتماعی مصلحت دونوں کے خلاف ہوتا۔ یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ مرکز کے مسلمانوں کو یہ ہدایت کر دی جائے کہ وہ اس طرح کے اہم معاملات میں فیصلہ کلیۃً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صواب دید پر چھوڑیں، غیرثقہ لوگوں کی روایات پر اعتماد کر کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رائے سے متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں۔ چنانچہ ان کو ہدایت ہوئی کہ اگر کوئی فاسق شخص کسی اہم بات کی خبر دے تو نفس واقعہ کی اچھی طرح تحقیق کیے بغیر اس کی بات پر اعتماد کر کے کوئی اقدام نہ کر بیٹھو، مبادا کہ تم جوش و جذبہ سے مغلوب ہو کر کسی بے گناہ گروہ کے خلاف اقدام کر گزرو جس پر تمہیں بعد میں پچھتانا پڑے۔

فاسق سے مراد شریعت کے حدود و قیود سے بے پروا لوگ ہیں۔ لفظ ’نبأ‘ کی تحقیق اس کے محل میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس سے مراد کوئی اہم خبر ہوتی ہے جس کو باور کر لینے یا اس پر عمل کرنے سے دور رس نتائج کے پیدا ہونے کاا مکان ہو۔ اس طرح کی اہم خبر اگر کوئی ایسا شخص دے جو دینی و اخلاقی اعتبار سے ناقابل اعتبار ہو تو عقل اور اخلاق دونوں کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی بات اس وقت تک باور نہ کی جائے جب تک خبر اور مخبر دونوں کی اچھی طرح تحقیق نہ کر لی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ خبر دینے والے نے فاسد محرکات کے تحت خبر دی ہو اور خبر یا تو بالکل جھوٹی ہو یا کسی بدنیتی سے اس میں ایسی کمی بیشی کر دی گئی ہو کہ سننے والوں کے جذبات میں اس سے جوش و اشتعال پیدا ہو۔ لفظ ’جہالت‘ یہاں جوش و ہیجان کے معنی میں ہے۔ اس کی تحقیق جگہ جگہ اس کتاب میں ہم کر چکے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

ایمان والو، اگر (اِن پکارنے والوں میں سے) کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو اُس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔ایسا نہ ہو کہ تم جذبات سے مغلوب ہو کر کسی قوم پر جا چڑھو، پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔

اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین و اخلاق کے حدود سے بے پروا ہوں۔

یعنی کوئی ایسی خبر جو دور رس نتائج کی حامل ہو۔ اوپر بدوی قبائل کے جن سرداروں کا رویہ بیان ہوا ہے، وہ بعض اوقات اپنے حریفوں سے پرانے حساب چکانے کے لیے اُن کے بارے میں غلط صحیح خبریں صحابہ تک پہنچاتے اور اُن کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہوں گے۔ یہ غالباً اِسی طرح کی خبروں کا ذکر ہے۔
یعنی خبر کی بھی اور خبر دینے والے کی بھی۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اطلاع دینے والا اگر کوئی مجہول شخص ہے جس کا نہ فسق معلوم ہے اور نہ ثقاہت تو اُس کی تحقیق بھی لازماً ہونی چاہیے۔ ہمارے محدثین نے اِسی اصول پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کی روایت کرنے والوں کی تحقیق کی ہے اور اگر کسی راوی کی تحقیق میں اُن کو کامیابی نہیں ہوئی تو اُسے مجہول قرار دے کر اُس کی روایت کو اُنھوں نے ردکر دیا ہے۔ اِسی طرح فقہا اور مجتہدین نے خبر کی تحقیق کے اصول وضع کیے ہیں جنھیں درایت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آیت پر غور کیجیے تو اِس میں اصلاً اِسی دوسری بات کی تاکید ہے، اِس لیے کہ راوی کا فسق تو یہاں پہلے سے معلوم ہے۔
اصل میں اِس کے لیے لفظ ’جَہَالَۃ‘آیا ہے۔ یہ جوش و ہیجان کے معنی میں ہے۔ عربی زبان میں یہ جس طرح لا علمی کے معنی میں آتا ہے، اُسی طرح اِس مفہوم کے لیے بھی آتا ہے۔
یعنی اِن لوگوں کی باتوں میں آکر کسی بے گناہ قبیلے یا گروہ کے خلاف کوئی اقدام کر بیٹھو۔ اِس طرح کا اقدام، خاص طور پر مسلمانوں ہی کے کسی گروہ کے خلاف اگر کیا جاتا تو یہ نہ صرف صریح عدوان ہوتا جس کی دین و اخلاق میں کوئی گنجایش نہیں ہے، بلکہ اجتماعی مصالح کے بھی خلاف ہوتا جن کی رعایت اُس وقت کی نازک صورت حال میں اور بھی ضروری تھی۔

ابو الاعلی مودودی

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔

اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ قبیلہ بنی المصطلِق جب مسلمان ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید بن عقبہ کو بھیجا تاکہ ان لوگوں سے زکوٰۃ وصول کر لائیں۔ یہ ان کے علاقے میں پہنچے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور اہل قبیلہ سے ملے بغیر مدینہ واپس جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کردی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ حضور یہ خبر سن کر سخت ناراض ہوئے اور آپ نے ارادہ کیا کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے ایک دستہ روانہ کریں بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے وہ دستہ روانہ کردیا تھا اور بعض میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ روانہ کرنے والے تھے۔ بہرحال اس بات پر سب متفق ہیں کہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ضرار (ام المومنین حضرت جویریہ کے والد) اس دوران میں خود ایک وفد لے کر حضور کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ہم نے تو ولید کو دیکھا تک نہیں کجا کہ زکوٰۃ دینے سے انکار اور ان کے قتل کے ارادے کا کوئی سوال پیدا ہو، ہم ایمان پر قائم ہیں اور ادائے زکوٰۃ سے ہمیں ہرگز انکار نہیں ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اس قصے کو امام احمد، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس، حارث بن ضرار، مجاہد، قتادہ، عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ ، یزید بن رومان، ضحاک اور مقاتل بن حیان سے نقل کیا ہے۔ حضرت ام سلمہ کی روایت میں یہ پورا قصہ بیان تو اسی طرح ہوا ہے مگر اس میں ولید کے نام کی تصریح نہیں ہے۔

اس نازک موقع پر جبکہ ایک بےبنیاد خبر پر اعتماد کرلینے کی وجہ سے ایک عظیم غلطی ہوتے ہوتے رہ گئی، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو، یعنی جس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے، تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کرلو کہ امر واقعہ کیا ہے۔ اس حکم ربانی سے ایک اہم شرعی قاعدہ نکلتا ہے جس کا دائرہ اطلاق بہت وسیع ہے۔ اس کی رو سے مسلمانوں کی حکومت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی کاروائی ایسے مخبروں کی دی ہوئی خبروں کی بنا پر کر ڈالے جن کی سیرت بھروسے کے لائق نہ ہو۔ اسی قاعدے کی بنا پر محدثین نے علم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا تاکہ ان لوگوں کے حالات کی تحقیق کریں جن کے ذریعہ سے بعد کی نسلوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث پہنچی تھیں، اور فقہاء نے قانون شہادت میں یہ اصول قائم کیا کہ کسی ایسے معاملہ میں جس سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہو، یا کسی انسان پر کوئی حق عائد ہوتا ہو، فاسق کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ اس امر پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ عام دنیوی معاملات میں ہر خبر کی تحقیق اور خبر لانے والے کے لائق اعتماد ہونے کا اطمینان کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ آیت میں لفظ نَبَأ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ہر خبر پر نہیں ہوتا بلکہ اہمیت رکھنے والی خبر پر ہوتا ہے اس لیے فقہاء کہتے ہیں کہ عام معاملات میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ کسی کے ہاں جاتے ہیں اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ اندر سے کوئی آ کر کہتا ہے کہ آجاؤ۔ آپ اس کے کہنے پر اندر جاسکتے ہیں قطع نظر اس سے کہ صاحب خانہ کی طرف سے اذن کی اطلاع دینے والا فاسق ہو یا صالح۔ اسی طرح اہل علم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جن لوگوں کا فسق جھوٹ اور بد کرداری کی نوعیت کا نہ ہو، بلکہ فساد عقیدہ کی بنا پر وہ فاسق قرار پاتے ہوں، ان کی شہادت بھی قبول کی جاسکتی ہے اور روایت بھی۔ محض ان کے عقیدے کی خرابی ان کی شہادت یا روایت قبول کرنے میں مانع نہیں ہے۔

جونا گڑھی

اے مسلمانو ! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔

 یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو المصطلق کے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا لیکن انہوں نے آ کر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلظ تھی اور ولید (رض) تو وہاں گئے ہی نہیں لیکن سند اور امر واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے اس لیے اسے ایک صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے تاہم شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے ہر فرد اور ہر حکومت سے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلظ فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو۔ 

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ

امین احسن اصلاحی

اور اچھی طرح جان رکھو کہ تمہارے اندر اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر بہت سے معاملات میں وہ تمہاری بات مان لیا کرے تو تم بڑی مصیبت میں پھنس جاؤ گے لیکن اللہ نے تمہارے سامنے ایمان کو محبوب بنایا اور اس کو تمہارے دلوں میں کھبایا اور کفر و فسق اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں مبغوض کیا

صحیح رویہ: یہ اسی تنبیہ کی مزید تاکید ہے کہ جب تمہارے اندر اللہ کا رسول موجود ہے تو تمہیں اپنی رایوں اور اپنے مشوروں کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے کہ رسول کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش کرو بلکہ تمہیں ان کے پیچھے چلنا ہے۔ وہ جو قدم بھی اٹھاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں اٹھاتے ہیں اس وجہ سے تمہاری دنیا اور آخرت کی فلاح ان کی پیروی میں ہے نہ کہ اپنے جذبات کی پیروی میں۔ اگر تمہیں کوئی رائے پیش کرنی ہو تو ادب سے اپنی رائے پیش کر کے فیصلہ رسول کی صوابدید پر چھوڑو۔ یہ خواہش نہ کرو کہ تمہاری ہر رائے لازماً مان ہی لی جائے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ تمہاری بہت سی رائیں خام ہوتی ہیں، اللہ کا رسول ان سب کو اگر مان لیا کرے تو تم بڑی مصیبت میں پھنس جاؤ گے۔ وہ تمہاری انہی رایوں کو مانتے ہیں جو صائب ہوتی ہیں۔ ان کی بدولت تمہیں ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی حاصل ہے تو اس نعمت کی قدر کرو اور اپنے رب کے شکر گزار رہو۔

’عنت‘ کے معنی زحمت اور مشقت کے ہیں۔ ’لَعَنِتُّمْ‘ یعنی تم بڑی مشقت و مصیبت میں پھنس جاؤ گے۔ اگر کوئی مریض طبیب کی صوابدید پر عمل کرنے کے بجائے چاہے کہ طبیب اس کے مشوروں پر عمل پیرا ہو تو ایسے مریض کا خطر ے میں پڑ جانا ایک امر بدیہی ہے۔
زبان کے بعض لطائف: ’وَلٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ إِلَیْْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہُ فِیْ قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس زحمت و مشقت سے بچانے ہی کے لیے یہ اہتمام فرمایا کہ ایمان کو تمہاری نگاہوں میں محبوب بنایا اور اس کو تمہارے دلوں میں رچایا بسایا اور کفر، فسق اور عصیان کو تمہاری نگاہوں میں مکروہ و مبغوض ٹھہرایا تو اس اہتمام کا حق یہ ہے کہ اب تمہارے اندر ایمان کی محبت و محبوبیت قائم و دائم رہے اور کبھی تمہارے کسی قول و فعل سے اس پر کفر و عصیان کا کوئی دھبہ نہ پڑنے پائے۔
’حَبَّبَ‘ اور ’کَرَّہَ‘ کے بعد ’اِلٰی‘ کا صلہ اس اہتمام خاص کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کی نگاہوں میں ایمان کو محبوب اور کفر و فسق کو مبغوض بنانے کے لیے اپنے رسول کے ذریعہ سے فرمایا۔ دور جاہلیت کی تاریکی میں تمام اقدار بالکل تلپٹ ہو گئے تھے۔ شیطان نے ایمان کو لوگوں کی نگاہوں میں مکروہ و مبغوض اور کفر و فسق کو محبوب و مطلوب بنا دیا تھا۔ ایمان اس طرح تہ بہ تہ پردوں کے اندر محجوب و مستور ہو گیا تھا کہ ان کو چاک کر کے ایمان کے حقیقی حسن و جمال کو خلق کے لیے بے نقاب کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا تھا۔ اسی طرح کفر کو شیطان نے مصنوعی غازوں سے اس طرح پر فریب بنا دیا تھا کہ اس کی اصل گھنونی شکل و صورت لوگوں کو دکھانا ہفت خواں طے کرنے کے برابر تھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہوئی کہ اس نے اپنا رسول بھیجا جس نے ایک طویل جدوجہد اور جہاد کے بعد ایمان کو اس کی اصلی محبوب شکل میں لوگوں کو دکھایا اور اس کے جمال کو ان کے دلوں میں بسایا۔ اسی طرح کفر کے چہرے کے مصنوعی غازہ کو اتار کر اس کی اصل مکروہ اور گھنونی شکل سے لوگوں کو آشنا اور اس سے بیزار کیا۔ اسی مضمون کو یہاں ’حَبَّبَ اِلٰی‘ اور ’کَرَّہَ اِلٰی‘ کے الفاظ سے ادا فرمایا ہے۔ یعنی ایمان اور کفر دونوں کو ان کی حقیقی شکل و صورت میں تمہارے آگے پیش کیا جس سے تم ایمان کے دل دادہ بنے اور کفر سے بیزار ہوئے۔ گویا یہ دونوں فعل ’قدّم‘ کے مضمون پر متضمن ہیں اور حرف ’اِلٰی‘ اس کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
یہاں ’حَبَّبَ‘ کے مفعول کی حیثیت سے تو صرف ’ایمان‘ کا ذکر ہے لیکن ’کَرَّہَ‘ کے ساتھ کفر، فسق اور عصیان تین چیزوں کا ذکر ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جن لوگوں کے کردار پر تبصرہ ہو رہا ہے وہ ابھی، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، ان باتوں سے اچھی طرح آشنا نہیں تھے جو ایمان کی ضد ہیں۔ یہ چیز مقتضی ہوئی کہ ان کو وضاحت سے یہ بات بتائی جائے کہ صرف کفر ہی ایمان کے منافی نہیں ہے بلکہ فسق و عصیان کے قسم کی ساری باتیں بھی اسی شجرۂ ملعونہ کے برگ و بار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی مبغوض ٹھہرایا۔
لفظ ’فسق‘ یوں تو قرآن میں کفر کی جگہ بھی استعمال ہوا ہے لیکن یہاں چونکہ یہ کفر کے ساتھ آیا ہے اس وجہ سے اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ حکم عدولی ہو گی جس کا ارتکاب کوئی شخص ایمان کا مدعی ہوتے ہوئے کرے۔ لفظ ’عصیان‘ یہاں موقع و محل اشارہ کر رہا ہے کہ رسول کی نافرمانی کے لیے آیا ہے۔ رسول کے خلفاء و امراء کی نافرمانی بھی چونکہ بالواسطہ رسول ہی کی نافرمانی ہے اس وجہ سے یہ چیز بھی اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے۔
’اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُونَ ۵ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَنِعْمَۃً وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘۔ فرمایا کہ یہی لوگ، جن کے دلوں میں ایمان کا جمال گھر کیے ہوئے ہے اور جو کفر، فسق اور عصیان کے ہر شائبہ سے بیزار و نفور ہیں، درحقیقت اصل ہدایت پر ہیں اور یہ ہدایت ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعام سے حاصل ہوئی ہے اس وجہ سے ان کو اس پر اپنے رب ہی کا شکرگزار رہنا چاہیے خام کاروں کی طرح اس وہم میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے کہ اس کو یہ چیز ازخود مل گئی ہے اور وہ خدا و رسول کا کوئی محسن بن گیا ہے۔ ’عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘ کی صفات کا حوالہ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل اس کے علم اور اس کی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کی تقسیم کسی اندھے کی تقسیم نہیں ہے۔ وہ اپنے دین کی نعمت انہی کو دیتا ہے جن کو وہ اس کا اہل پاتا ہے۔
یہ آیت مدینہ کے مسلمانوں کی تعریف میں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے برابر فیض یاب اور اللہ کے رنگ میں اچھی طرح رنگے ہوئے تھے اور سیاق و سباق دلیل ہے کہ اس میں ان خام کار مسلمانوں پر تعریض بھی ہے جن کی خامیوں پر سورہ کی ابتداء ہی سے تبصرہ ہو رہا ہے اور جن کا تعلق اطراف مدینہ کے قبائل سے تھا۔
ایک بے بنیاد شان نزول: آیت ۶ کے تحت ہمارے مفسرین نے، اپنی عادت کے مطابق، ایک شان نزول کا بھی ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو تحصیل زکوٰۃ کے لیے بنی مصطلق کے پاس بھیجا۔ جب یہ وہاں پہنچے تو بنی مصطلق کے لوگ بشکل جلوس ان کے خیر مقدم کے لیے نکلے۔ ولید نے گمان کیا کہ یہ لوگ ان سے لڑنے کو نکلے ہیں۔ وہ ڈر کر فوراً وہاں سے واپس آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ وہ لوگ مرتد ہو گئے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرنے سے انھوں نے انکار کر دیا۔؂۱ یہ خبر سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنی مصطلق پر نہایت برہم ہوئے اور ان کی سرکوبی کے لیے آپؐ نے ایک دستہ بھیج دیا یا بھیجنے کا فیصلہ فرما لیا کہ اتنے میں بنی مصطلق والوں کو اطلاع ہو گئی اور ان کے سردار نے فوراً مدینہ حاضر ہو کر بقید قسم حضورؐ کو اطمینان دلایا کہ ہم نے تو ولید کی شکل بھی نہیں دیکھی، زکوٰۃ روکنے کا کیا سوال؟ ان کی طرف سے صفائی کے بعد ان کا معاملہ تو رفع دفع ہو گیا لیکن ہمارے مفسرین کے نزدیک ولیدؓ کی اسی روایت کی بنا پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ وہ کسی فاسق کی روایت پر اعتماد کر کے کوئی عاجلانہ قدم نہ اٹھایا کریں۔
ہمارے مفسرین کوئی نہ کوئی شان نزول تو تقریباً ہر آیت کے تحت درج کرتے ہیں، اوپر آیت ’إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوۡنَکَ ....... الاٰیۃ‘ کے تحت بھی انھوں نے ایک شان نزول کا حوالہ دیا ہے لیکن اس سے ہم نے اس وجہ سے تعرض نہیں کیا کہ بعض ناقدین نے اس پر جرح بھی کر دی ہے مگر اس شان نزول پر سب متفق ہیں اس وجہ سے اس سے تعرض ناگزیر ہے۔
شان نزول سے متعلق وہ اصولی حقیقت ہمیشہ مستحضر رکھیے جس کا ذکر ہم نے مقدمۂ تفسیر میں کیا ہے کہ سلف کسی آیت کے تحت اگر کسی واقعہ کا ذکر شان نزول کی حیثیت سے کرتے ہیں تو اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ بعینہٖ وہی واقعہ اس آیت کے نزول کا سبب ہوا ہے بلکہ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ آیت سے اس واقعہ کا حکم بھی مستنبط ہوتا ہے۔ یہ رائے اصول تفسیر کے ماہرین کی ہے اس وجہ سے میں نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی معلوم ہے کہ شان نزول سے متعلق روایات بیش تر ضعیف بلکہ بے بنیاد ہیں، اس وجہ سے ان کو عقل و نقل کی کسوٹی پر پرکھے بغیر مان لینے سے اسی فتنہ میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے جس سے آیت زیربحث میں اہل ایمان کو روکا گیا ہے۔
اس شان نزول کو درایت کی کسوٹی پر جانچیے تو معلوم ہو گا کہ اس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آیت میں فاسق کی روایت پر اعتماد کرنے سے روکا گیا ہے۔ جب کہ ولیدؓ کے متعلق اس واقعے سے پہلے کوئی بات بھی ایسی لوگوں کے سامنے نہیں آئی تھی جس سے معلوم ہو سکتا کہ نعوذ باللہ وہ فاسق ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ ان کے فسق کی کوئی شہادت موجود نہیں تھی بلکہ ان کی ثقاہت و عدالت کا یہ مرتبہ تھا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تحصیل زکوٰۃ کے ذمہ دارانہ منصب پر مامور فرمایا۔ اگر ان کے اندر اس قسم کا کوئی کھوٹ ہوتا تو حضورؐ ان کو اس اہم خدمت کے لیے کس طرح منتخب فرماتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس شان نزول کو باور کر لیجیے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ’نعوذ باللہ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ سے اتنے ناواقف تھے کہ ایسے لوگوں کو ذمہ دارانہ مناصب پر مامور فرما دیتے تھے جو اپنی دروغ بافی سے حکومت اور رعایا دونوں کو خطرے میں ڈال دیں۔ اس قسم کی بے بصیرتی ایک عام معقول آدمی سے بھی بعید از قیاس ہے چہ جائیکہ اس کا صدور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر ولیدؓ استقبال کرنے والی پارٹی کو جنگجو پارٹی سمجھ کر اس سے ڈر کے واپس آ گئے تھے اور اپنا تاثر انھوں نے حضورؐ کے سامنے یہ بیان کیا کہ بنی مصطلق نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے تو ان کی یہ بات سادہ لوحی اور کمزوری تو قرار دی جا سکتی ہے لیکن ازروئے شریعت اس کو فسق نہیں کہا جا سکتا۔ پھر تو اس مضمون کی آیت اترنی تھی کہ ’مسلمانو، تم اپنے ذمہ دارانہ عہدے ایسے سادہ لوحوں کے سپرد نہ کیا کرو جو استقبال کرنے والوں اور لڑنے والوں کے درمیان امتیاز کرنے سے بھی قاصر ہوں‘۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ولیدؓ اتنے سادہ لوح ہوتے تو کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ایسی اہم مالی اور سیاسی ذمہ داری سپرد کر دیتے؟ کیا کسی شخص کے اندر سادہ لوحی کوئی ناگہانی طور پر پیدا ہو جانے والی چیز ہے جو لوگوں سے مخفی رہے، یہاں تک کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا اندازہ نہ ہو سکے!
چوتھی بات یہ ہے کہ یہی ولیدؓ ہیں جن کو سیدنا عثمان غنیؓ نے اپنے دور خلافت میں کوفہ کا گورنر بنایا۔ غور کیجیے کہ کیا حضرت عثمان غنیؓ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ یہ شخص ازروئے نص قرآن فاسق قرار پا چکا ہے اور گورنری تو درکنار اسلامی قانون کی رو سے یہ کسی روایت یا شہادت کا بھی اہل نہیں ہے؟ اگر ناواقف تھے تو یہ جانیے کہ حضرت عثمانؓ جیسے خلیفۂ راشد، جن کو جامع قرآن ہونے کا بھی شرف حاصل ہے، نعوذ باللہ، قرآن کا اتنا علم بھی نہیں رکھتے تھے جتنا علم شان نزول کی روایتیں کرنے والے ان راویوں کو تھا۔
میں نے اس شان نزول کے صرف چند پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے، ورنہ اضطراب اس کے ہر پہلو میں ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تادیبی دستہ روانہ کر دیا تھا، بعض میں ہے کہ روانہ کرنے کا فیصلہ فرما لیا تھا اور بنی مصطلق کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ اگر تم لوگ اپنی حرکت سے باز نہ آئے تو میں تمہاری سرکوبی کے لیے ایسے شخص کو بھیجوں گا جو ’عندی کنفسی‘ (جو میرے نزدیک میری اپنی ذات کی طرح ہے) ساتھ ہی حضرت علیؓ کے شانے پر تھپتھپاتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی کہ اس مہم کو یہ سر کریں گے۔ بعض روایات میں اس کے برخلاف یہ ہے کہ اس مہم پر آپؐ نے حضرت خالدؓ کو بھیجا۔ غرض جتنے منہ ہیں اتنی ہی باتیں ہیں، حالانکہ ’لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْأَمْرِ‘ سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کی کوئی بات آئی بھی تو آپ نے ٹال دی اور لوگوں کو تنبیہ کر دی گئی کہ وہ پیغمبرؐ کو اپنی رایوں سے متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں۔
میرے نزدیک یہ شان نزول روافض کی ’ایجادات‘ میں سے ہے جس سے انھوں نے صرف ولیدؓ ہی کو بدنام کرنا نہیں چاہا ہے بلکہ حضرت عثمانؓ کو بھی مطعون کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے یہ جانتے بوجھتے کہ یہ شخص فاسق ہے محض ازراہ کنبہ پروری؂۲ اس کو کوفہ کا گورنر بنا دیا۔ پھر کوفہ کی گورنری کے دوران میں بھی ان ظالموں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا بلکہ ان کے فسق کے ایسے واقعات کی روایت کی ہے جن کو سن کر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ ہنسی ان ظالموں کی ذہانت پر آتی ہے اور رونا اپنے مفسرین کی سادگی پر کہ اس قسم کی بے سروپا روایتیں تفسیر کی کتابوں میں نقل کر دیتے ہیں حالانکہ آیت کے الفاظ اور اس کے سیاق و سباق سے ان کو کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔
_____
؂۱ بعض راویوں کا بیان ہے کہ ڈرے نہیں بلکہ ان کے دل میں پہلے سے بنی مصطلق کے خلاف رنجش تھی اسی وجہ سے ان سے ملے بغیر واپس آ گئے اور یہ بات بنائی کہ انھوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔
؂۲ یہ امر واضح رہے کہ حضرت ولیدؓ سیدنا عثمانؓ کے رشتہ دار بھی تھے۔

جاوید احمد غامدی

تم اچھی طرح جان رکھو کہ تمھارے اندر خدا کا رسول موجود ہے ، (لہٰذا کسی طرح مناسب نہیں ہے کہ اپنی رایوں پر اصرار کرو)۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمھاری بات مان لیا کرے تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے، (جس طرح اِس سے پہلے پڑے رہتے تھے)، مگر اللہ نے تمھارے آگے ایمان کو محبوب اور اُس کو تمھارے دلوں میں اچھا کر دکھایا ہے اور کفر اور فسق اور (پیغمبر کی) نافرمانی کو تمھاری نگاہوں میں مبغوض ٹھیرایا ہے۔ (اللہ کے فضل و احسان سے) یہی لوگ راست رو ہیں۔

اِس لیے کہ تمھاری زیادہ باتیں سنی سنائی اور خام ہوتی ہیں جنھیں تم تحقیق کیے بغیر محض اِن فتنہ پردازوں کے زیر اثر کر دیتے ہو اور پھر اِنھی کے ایما سے اُن پر اصرار بھی کرتے ہو۔

یعنی ایمان اور کفر، دونوں کو اُن کی حقیقی صورت میں تمھارے سامنے پیش کیا ہے جس سے ایمان تمھارے لیے محبوب اور کفر و عصیان مبغوض بن گیا ہے۔ اِس اہتمام کا اب یہ حق ہے کہ تمھارے کسی قول و فعل میں نہ کفر و عصیان کی کوئی آمیزش ہو اور نہ ایمان کی محبت اور محبوبیت میں کوئی کمی آئے، بلکہ یہ ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ آیت میں ’حَبَّبَ‘ اور ’کَرَّہَ‘، دونوں فعل ’قَدَّمَ‘ کے مفہوم پر متضمن ہیں جس سے وہ اہتمام خاص نمایاں ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو ایمان کا دل دادہ اور کفر و عصیان سے نفور بنانے کے لیے اپنے رسول کے ذریعے سے فرمایا۔ اِسی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ’حَبَّبَ‘ کے مفعول کی حیثیت سے صرف ایمان کا ذکر ہے، لیکن ’کَرَّہَ‘ کے ساتھ کفر، فسق اور عصیان، تین چیزوں کا ذکر ہوا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’... اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جن لوگوں کے کردار پر تبصرہ ہو رہا ہے، وہ ابھی... اُن باتوں سے اچھی طرح آشنا نہیں تھے جو ایمان کی ضد ہیں۔ یہ چیز مقتضی ہوئی کہ اُن کو وضاحت سے یہ بات بتائی جائے کہ صرف کفر ہی ایمان کے منافی نہیں ہے، بلکہ فسق و عصیان کے قسم کی ساری باتیں بھی اِسی شجرۂ ملعونہ کے برگ و بار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِن کو بھی مبغوض ٹھیرایا۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۴۹۴)

ابو الاعلی مودودی

خوب جان رکھو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ۔ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے لیے دل پسند بنا دیا، اور کفر و فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کر دیا۔

یہ بات سیاق وسباق سے بھی مترشح ہوتی ہے، اور متعدد مفسرین نے بھی اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ بنی المصطلق کے معاملہ میں ولید بن عقبہ کی دی ہوئی اطلاع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے خلاف فوجی اقدام کرنے میں متأمل تھے، مگر بعض لوگوں نے اصرار کیا کہ ان پر فوراً چڑھائی کردی جائے۔ اس پر ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی گئی کہ تم اس بات کو بھول نہ جاؤ کہ تمہارے درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں جو تمہارے مصالح کو تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ تمہارا یہ چاہنا کہ اہم معاملات میں جو رائے تمہیں مناسب نظر آتی ہے آپ اسی پر عمل کیا کریں، سخت بےجا جسارت ہے۔ اگر تمہارے کہنے پر عمل کیا جانے لگے تو بکثرت مواقع پر ایسی غلطیاں ہوں گی جن کا خمیازہ خود تم کو بھگتنا پڑے گا۔

جونا گڑھی

اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں اگر وہ تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں۔

 جس کا تقاصا یہ ہے کہ ان کی تعظیم اور اطاعت کرو اس لیے کہ وہ تمہاے مصالح زیادہ بہتر جاتنے ہیں کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے پس تر ان کے پیچھے چلو ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو اس لیے کہ اگر وہ تمہاری پسند کی باتیں ماننا شروع کردیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاو گے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ) 23 ۔ المؤمنون :71) ۔ 

فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَنِعْمَةً ۚ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

امین احسن اصلاحی

یہی لوگ ہیں جو اللہ کے فضل و انعام سے راہ راست پانے والے بنے۔ اور اللہ علیم و حکیم ہے

’فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَنِعْمَۃً وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘۔ فرمایا کہ یہی لوگ، جن کے دلوں میں ایمان کا جمال گھر کیے ہوئے ہے اور جو کفر، فسق اور عصیان کے ہر شائبہ سے بیزار و نفور ہیں، درحقیقت اصل ہدایت پر ہیں اور یہ ہدایت ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعام سے حاصل ہوئی ہے اس وجہ سے ان کو اس پر اپنے رب ہی کا شکرگزار رہنا چاہیے خام کاروں کی طرح اس وہم میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے کہ اس کو یہ چیز ازخود مل گئی ہے اور وہ خدا و رسول کا کوئی محسن بن گیا ہے۔ ’عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘ کی صفات کا حوالہ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل اس کے علم اور اس کی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کی تقسیم کسی اندھے کی تقسیم نہیں ہے۔ وہ اپنے دین کی نعمت انہی کو دیتا ہے جن کو وہ اس کا اہل پاتا ہے۔

یہ آیت مدینہ کے مسلمانوں کی تعریف میں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے برابر فیض یاب اور اللہ کے رنگ میں اچھی طرح رنگے ہوئے تھے اور سیاق و سباق دلیل ہے کہ اس میں ان خام کار مسلمانوں پر تعریض بھی ہے جن کی خامیوں پر سورہ کی ابتداء ہی سے تبصرہ ہو رہا ہے اور جن کا تعلق اطراف مدینہ کے قبائل سے تھا۔
ایک بے بنیاد شان نزول: آیت ۶ کے تحت ہمارے مفسرین نے، اپنی عادت کے مطابق، ایک شان نزول کا بھی ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ کو تحصیل زکوٰۃ کے لیے بنی مصطلق کے پاس بھیجا۔ جب یہ وہاں پہنچے تو بنی مصطلق کے لوگ بشکل جلوس ان کے خیر مقدم کے لیے نکلے۔ ولید نے گمان کیا کہ یہ لوگ ان سے لڑنے کو نکلے ہیں۔ وہ ڈر کر فوراً وہاں سے واپس آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ وہ لوگ مرتد ہو گئے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرنے سے انھوں نے انکار کر دیا۔؂۱ یہ خبر سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنی مصطلق پر نہایت برہم ہوئے اور ان کی سرکوبی کے لیے آپؐ نے ایک دستہ بھیج دیا یا بھیجنے کا فیصلہ فرما لیا کہ اتنے میں بنی مصطلق والوں کو اطلاع ہو گئی اور ان کے سردار نے فوراً مدینہ حاضر ہو کر بقید قسم حضورؐ کو اطمینان دلایا کہ ہم نے تو ولید کی شکل بھی نہیں دیکھی، زکوٰۃ روکنے کا کیا سوال؟ ان کی طرف سے صفائی کے بعد ان کا معاملہ تو رفع دفع ہو گیا لیکن ہمارے مفسرین کے نزدیک ولیدؓ کی اسی روایت کی بنا پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ وہ کسی فاسق کی روایت پر اعتماد کر کے کوئی عاجلانہ قدم نہ اٹھایا کریں۔
ہمارے مفسرین کوئی نہ کوئی شان نزول تو تقریباً ہر آیت کے تحت درج کرتے ہیں، اوپر آیت ’إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوۡنَکَ ....... الاٰیۃ‘ کے تحت بھی انھوں نے ایک شان نزول کا حوالہ دیا ہے لیکن اس سے ہم نے اس وجہ سے تعرض نہیں کیا کہ بعض ناقدین نے اس پر جرح بھی کر دی ہے مگر اس شان نزول پر سب متفق ہیں اس وجہ سے اس سے تعرض ناگزیر ہے۔
شان نزول سے متعلق وہ اصولی حقیقت ہمیشہ مستحضر رکھیے جس کا ذکر ہم نے مقدمۂ تفسیر میں کیا ہے کہ سلف کسی آیت کے تحت اگر کسی واقعہ کا ذکر شان نزول کی حیثیت سے کرتے ہیں تو اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ بعینہٖ وہی واقعہ اس آیت کے نزول کا سبب ہوا ہے بلکہ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ آیت سے اس واقعہ کا حکم بھی مستنبط ہوتا ہے۔ یہ رائے اصول تفسیر کے ماہرین کی ہے اس وجہ سے میں نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی معلوم ہے کہ شان نزول سے متعلق روایات بیش تر ضعیف بلکہ بے بنیاد ہیں، اس وجہ سے ان کو عقل و نقل کی کسوٹی پر پرکھے بغیر مان لینے سے اسی فتنہ میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے جس سے آیت زیربحث میں اہل ایمان کو روکا گیا ہے۔
اس شان نزول کو درایت کی کسوٹی پر جانچیے تو معلوم ہو گا کہ اس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آیت میں فاسق کی روایت پر اعتماد کرنے سے روکا گیا ہے۔ جب کہ ولیدؓ کے متعلق اس واقعے سے پہلے کوئی بات بھی ایسی لوگوں کے سامنے نہیں آئی تھی جس سے معلوم ہو سکتا کہ نعوذ باللہ وہ فاسق ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ ان کے فسق کی کوئی شہادت موجود نہیں تھی بلکہ ان کی ثقاہت و عدالت کا یہ مرتبہ تھا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تحصیل زکوٰۃ کے ذمہ دارانہ منصب پر مامور فرمایا۔ اگر ان کے اندر اس قسم کا کوئی کھوٹ ہوتا تو حضورؐ ان کو اس اہم خدمت کے لیے کس طرح منتخب فرماتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس شان نزول کو باور کر لیجیے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ’نعوذ باللہ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ سے اتنے ناواقف تھے کہ ایسے لوگوں کو ذمہ دارانہ مناصب پر مامور فرما دیتے تھے جو اپنی دروغ بافی سے حکومت اور رعایا دونوں کو خطرے میں ڈال دیں۔ اس قسم کی بے بصیرتی ایک عام معقول آدمی سے بھی بعید از قیاس ہے چہ جائیکہ اس کا صدور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر ولیدؓ استقبال کرنے والی پارٹی کو جنگجو پارٹی سمجھ کر اس سے ڈر کے واپس آ گئے تھے اور اپنا تاثر انھوں نے حضورؐ کے سامنے یہ بیان کیا کہ بنی مصطلق نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے تو ان کی یہ بات سادہ لوحی اور کمزوری تو قرار دی جا سکتی ہے لیکن ازروئے شریعت اس کو فسق نہیں کہا جا سکتا۔ پھر تو اس مضمون کی آیت اترنی تھی کہ ’مسلمانو، تم اپنے ذمہ دارانہ عہدے ایسے سادہ لوحوں کے سپرد نہ کیا کرو جو استقبال کرنے والوں اور لڑنے والوں کے درمیان امتیاز کرنے سے بھی قاصر ہوں‘۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ولیدؓ اتنے سادہ لوح ہوتے تو کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ایسی اہم مالی اور سیاسی ذمہ داری سپرد کر دیتے؟ کیا کسی شخص کے اندر سادہ لوحی کوئی ناگہانی طور پر پیدا ہو جانے والی چیز ہے جو لوگوں سے مخفی رہے، یہاں تک کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا اندازہ نہ ہو سکے!
چوتھی بات یہ ہے کہ یہی ولیدؓ ہیں جن کو سیدنا عثمان غنیؓ نے اپنے دور خلافت میں کوفہ کا گورنر بنایا۔ غور کیجیے کہ کیا حضرت عثمان غنیؓ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ یہ شخص ازروئے نص قرآن فاسق قرار پا چکا ہے اور گورنری تو درکنار اسلامی قانون کی رو سے یہ کسی روایت یا شہادت کا بھی اہل نہیں ہے؟ اگر ناواقف تھے تو یہ جانیے کہ حضرت عثمانؓ جیسے خلیفۂ راشد، جن کو جامع قرآن ہونے کا بھی شرف حاصل ہے، نعوذ باللہ، قرآن کا اتنا علم بھی نہیں رکھتے تھے جتنا علم شان نزول کی روایتیں کرنے والے ان راویوں کو تھا۔
میں نے اس شان نزول کے صرف چند پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے، ورنہ اضطراب اس کے ہر پہلو میں ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تادیبی دستہ روانہ کر دیا تھا، بعض میں ہے کہ روانہ کرنے کا فیصلہ فرما لیا تھا اور بنی مصطلق کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ اگر تم لوگ اپنی حرکت سے باز نہ آئے تو میں تمہاری سرکوبی کے لیے ایسے شخص کو بھیجوں گا جو ’عندی کنفسی‘ (جو میرے نزدیک میری اپنی ذات کی طرح ہے) ساتھ ہی حضرت علیؓ کے شانے پر تھپتھپاتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی کہ اس مہم کو یہ سر کریں گے۔ بعض روایات میں اس کے برخلاف یہ ہے کہ اس مہم پر آپؐ نے حضرت خالدؓ کو بھیجا۔ غرض جتنے منہ ہیں اتنی ہی باتیں ہیں، حالانکہ ’لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْأَمْرِ‘ سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کی کوئی بات آئی بھی تو آپ نے ٹال دی اور لوگوں کو تنبیہ کر دی گئی کہ وہ پیغمبرؐ کو اپنی رایوں سے متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں۔
میرے نزدیک یہ شان نزول روافض کی ’ایجادات‘ میں سے ہے جس سے انھوں نے صرف ولیدؓ ہی کو بدنام کرنا نہیں چاہا ہے بلکہ حضرت عثمانؓ کو بھی مطعون کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے یہ جانتے بوجھتے کہ یہ شخص فاسق ہے محض ازراہ کنبہ پروری؂۲ اس کو کوفہ کا گورنر بنا دیا۔ پھر کوفہ کی گورنری کے دوران میں بھی ان ظالموں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا بلکہ ان کے فسق کے ایسے واقعات کی روایت کی ہے جن کو سن کر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ ہنسی ان ظالموں کی ذہانت پر آتی ہے اور رونا اپنے مفسرین کی سادگی پر کہ اس قسم کی بے سروپا روایتیں تفسیر کی کتابوں میں نقل کر دیتے ہیں حالانکہ آیت کے الفاظ اور اس کے سیاق و سباق سے ان کو کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔
_____
؂۱ بعض راویوں کا بیان ہے کہ ڈرے نہیں بلکہ ان کے دل میں پہلے سے بنی مصطلق کے خلاف رنجش تھی اسی وجہ سے ان سے ملے بغیر واپس آ گئے اور یہ بات بنائی کہ انھوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔
؂۲ یہ امر واضح رہے کہ حضرت ولیدؓ سیدنا عثمانؓ کے رشتہ دار بھی تھے۔

جاوید احمد غامدی

اللہ کے فضل و احسان سے (یہی لوگ راست رو ہیں کہ اِس نعمت سے بہرہ یاب ہیں) اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

مطلب یہ ہے کہ پوری جماعت مومنین اس غلطی کی مرتکب نہیں ہوئی جس کا صدور ان چند لوگوں سے ہوا جو اپنی خام رائے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چلانا چاہتے تھے۔ اور جماعت مومنین کے راہ راست پر قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فضل و احسان سے ایمان کی روش کو ان کے لیے محبوب و دل پسند بنا دیا ہے اور کفر و فسق اور نافرمانی کی روش سے انہیں متنفر کردیا ہے۔ اس آیت کے دو حصوں میں روئے سخن دو الگ الگ گرہوں کی طرف ہے۔ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ کا خطاب پوری جماعت صحابہ سے نہیں بلکہ ان خاص اصحاب سے ہے جو بنی المصطلق پر چڑھائی کردینے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ اور وَلٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمْ کا خطاب عام صحابہ سے ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی رائے پر اصرار کرنے کی جسارت کبھی نہ کرتے تھے، بلکہ آپ کی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوئے ہمیشہ اطاعت کی روش پر قائم رہتے تھے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جنہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا تھا وہ ایمان کی محبت سے خالی تھے۔ بلکہ اس سے جو بات مترشح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ایمان کے اس تقاضے کی طرف سے ان کو ذہول ہوگیا تھا جس کے باعث انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں اپنی رائے پر اصرار کرنے کی غلطی کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اس غلطی پر، اور اس کے برے نتائج پر متنبہ فرمایا، اور پھر یہ بتایا کہ صحیح ایمانی روش وہ ہے جس پر صحابہ کی عام جماعت قائم ہے۔

یعنی اللہ کا یہ فضل و احسان کوئی اندھی بانٹ نہیں ہے۔ یہ نعمت عظمیٰ جس کو بھی وہ دیتا ہے حکمت کی بنا پر اور اس علم کی بنا پر دیتا ہے کہ وہ اس کا مستحق ہے۔

جونا گڑھی

اللہ کے احسان و انعام سے اور اللہ دانا اور با حکمت ہے۔

 یہ آیت میں بھی صحابہ کرام کی فضیلت، ان کے ایمان اور ان کے رشد و ہدایت پر ہونے کی واضح دلیل ہے ولو کرہ الکافرون۔ 

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

امین احسن اصلاحی

اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان مصالحت کراؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسرے پر تعدی کرے تو اس سے جنگ کرو جو تعدی کرے۔ تا آنکہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف رجوع کرے۔ پس اگر وہ رجوع کرے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ مصالحت کرا دو اور ٹھیک ٹھیک انصاف کرو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے

اگر مسلمانوں کے دو گروہوں میں تصادم ہو جائے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمہ داری: اوپر کی آیت میں اس بات کی ممانعت فرمائی گئی ہے کہ کسی فاسق کی روایت پر اعتماد کر کے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کی کسی جماعت کے خلاف کوئی اقدام کر بیٹھیں۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے دو گروہ اگر آپس میں لڑ پڑیں تو دوسرے مسلمانوں یا ان کی حکومت کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ ان کے درمیان اصلاح احوال کی کوشش کرو۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک پارٹی مصالحت پر آمادہ نہ ہو یا مصالحت کے بعد مصالحت کے شرائط کے خلاف دوسری پارٹی پر تعدی کرے تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں یا ان کی حکومت کو تعدی کرنے والی پارٹی سے جنگ کرنی چاہیے یہاں تک کہ وہ حق کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جائے۔

’تَفِیۡءَ اِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ‘ سے مراد اس فیصلہ کے آگے جھکنا ہے جو مصالحت کرانے والوں نے فریقین کے سامنے رکھا ہے۔ اگر کوئی پارٹی اس مصالحت سے گریز اختیار کر رہی ہے تو وہ گویا اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے جھکنے سے گریز اختیار کر رہی ہے۔ اس لیے کہ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی بات کا حکم دیا ہے اور جب اللہ نے اس کا حکم دیا ہے تو اس کی حیثیت ’اَمْرُ اللّٰہِ‘ کی ہے۔
’فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا‘۔ یعنی مسلمانوں کے اس اجتماعی ایکشن کے بعد اگر وہ فیصلہ کے آگے سر جھکا دے تو اس بنیاد پر اس کے خلاف کوئی مزید کارروائی نہیں کی جائے گی کہ اس نے سرکشی کی روش اختیار کی، بلکہ فریقین کے درمیان انصاف کے تقاضوں کے مطابق صلح کرا دی جائے گی۔ جس فریق کا نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ٹھیک ٹھیک کرا دی جائے گی۔
لفظ ’اَقْسِطُوْا‘ اسی عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تاکید کے لیے آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ کسی کے ساتھ بے جا رعایت کی جائے نہ کسی کو انصاف کے خلاف دبایا جائے۔ بلکہ بے رو رعایت جو کچھ عدل کا تقاضا ہے وہ پورا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
چند اجتماعی اصول جو آیت سے نکلتے ہیں: اس آیت سے مندرجہ ذیل اجتماعی اصول نکلتے ہیں۔
اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دوسرے مسلمان اس کو پرایا جھگڑا سمجھ کر نہ تو اس سے بالکل الگ تھلگ رہیں اور نہ ان کے لیے یہ جائز ہے کہ بغیر اس بات کی تحقیق کیے کہ کون حق پر ہے کون ناحق پر، محض خاندانی، قبائلی اور گروہی عصبیت کے جوش میں کسی کے ساتھی اور کسی کے مخالف بن جائیں بلکہ انھیں ساری صورت معاملہ سمجھ کر فریقین کے درمیان مصالحت کی کوشش کرنی چاہیے۔
اگر ایک فریق مصالحت پر راضی نہ ہو بلکہ جنگ ہی پر ضد کرے یا مصالحت کے لیے من مانے طور پر ایسی شرطیں پیش کرے جو عدل کے منافی ہوں تو اس صورت میں مسلمانوں کا یہ فرض ہو گا کہ وہ اس کے خلاف طاقت استعمال کر کے اس کو مصالحت کے شرائط کے آگے جھکنے پر مجبور کریں۔
اس طرح کی نزاعات میں غیرجانبدارانہ مسلمان اللہ و رسول کی ہدایات اور عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کے مصالحت کے لیے جو شرطیں طے کریں گے فریقین پر ان کی اطاعت اسی طرح لازمی ہو گی جس طرح شریعت کے احکام کی اطاعت لازمی ہے، یہاں تک کہ جو فریق اس سے انحراف اختیار کرے گا اس سے جنگ کی جائے گی۔
مصالحت ہو جانے کے بعد اس کی شرائط کے خلاف اگر کوئی فریق دوسرے فریق پر تعدی کرے گا تو وہ تعدی کرنے والا قرار پائے گا۔ مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ اس کی سرکوبی کریں۔
موجودہ زمانے کی ایک مشکل: یہ امر واضح رہے کہ یہ ہدایات اس صورت حال کے لیے دی گئی ہیں جب نزاع مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان واقع ہو اور ان کی ایک مرکزی طاقت فریقین کے درمیان مداخلت کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ اس زمانے میں یہ پیچیدہ صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ بہت سی چھوٹی بڑی مسلمان حکومتیں الگ الگ قائم ہو گئی ہیں۔ ان کے درمیان اگر خدانخواستہ کوئی جنگ چھڑ جائے تو دوسری مسلمان حکومتوں کے لیے اس قضیہ سے بالکل الگ تھلگ رہنا تو جائز نہیں ہے، مصالحت کی کوشش، جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے، ہر ایک کو کرنی ہو گی البتہ عملاً مداخلت کا معاملہ صورت حال پر منحصر ہے۔ جس کا تعلق وقت کے سیاسی تقاضوں سے ہے۔ اگر صورت حال اجازت دے گی تو تعدی کرنے والے فریق کو حق کے آگے جھکانے کے لیے اس کے خلاف طاقت استعمال کرنا بالکل جائز ہوگا اور اگر اس سے مزید بین الملّی یا بین الاقوامی پیچیدگیاں پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو عملی مداخلت سے تو گریز اختیار کیا جائے گا لیکن مصالحت کی جدوجہد سے گریز کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی

(تمھاری وحدت اِسی سے قائم ہے، لہٰذا) اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر اُن میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو جو زیادتی کرے، اُس سے جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف رجوع کر لے۔ پھراگر رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ مصالحت کرا دو اور ٹھیک ٹھیک انصاف کرو۔ یقیناً، اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

اِس سے مصالحت کرانے والوں کا فیصلہ مراد ہے۔ اِس کا حکم چونکہ اللہ نے دیا ہے، اِس لیے اِسے اللہ کے فیصلے سے تعبیر کیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

یہ نہیں فرمایا کہ ” جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑیں “، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں “۔ ان الفاظ سے یہ بات خود بخود نکلتی ہے کہ آپس میں لڑنا مسلمانوں کا معمول نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے۔ نہ ان سے یہ امر متوقع ہے کہ وہ مومن ہوتے ہوئے آپس میں لڑا کریں گے۔ البتہ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو اس صورت میں وہ طریق کار اختیار کرنا چاہیے جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ بریں گروہ کے لیے بھی ” فرقہ ” کے بجائے ” طائفہ ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں فرقہ بڑے گروہ کے لیے اور طائفہ چھوٹے گروہ کے لیے بولا جاتا ہے اس سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ حالت ہے جس میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کا مبتلا ہوجانا متوقع نہیں ہونا چاہیے۔

اس حکم کے مخاطب وہ تمام مسلمان ہیں جو ان دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں، اور جن کے لیے ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنا ممکن ہو۔ دوسرے الفاظ میں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کی اپنی ملت کے دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہوں اور وہ بیٹھے ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے رہیں۔ بلکہ یہ افسوسناک صورت حال جب بھی پیدا ہو، تمام اہل ایمان کو اس پر بےچین ہوجانا چاہیے اور ان کے باہمی معاملات کی اصلاح کے لیے جس کے بس میں جو کوشش بھی ہو وہ اسے صرف کر ڈالنی چاہیے۔ فریقین کو لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی جائے۔ انہیں خدا سے ڈرایا جائے۔ با اثر لوگ فریقین کے ذمہ دار آدمیوں سے جا کر ملیں۔ نزاع کے اسباب معلوم کریں۔ اور اپنی حد تک ہر وہ کوشش کریں جس سے ان کے درمیان مصالحت ہو سکتی ہو۔

یعنی مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں اور جس پر زیادتی کی جارہی ہو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں، یا الٹا زیادتی کرنے والے کا ساتھ دیں۔ بلکہ ان کا فرض یہ ہے کہ اگر لڑنے والے فریقین میں صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں، تو پھر یہ دیکھیں کہ حق پر کون ہے اور زیادتی کرنے والا کون۔ جو حق پر ہو اس کا ساتھ دیں اور جو زیادتی کرنے والا ہو اس سے لڑیں۔ اس لڑائی کا چونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس لیے یہ واجب ہے اور جہاد کے حکم میں ہے اس کا شمار اس فتنے میں نہیں ہے جس کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ القائم فیھَا خیرٌ من الماشی والقاعد فیھا خیر من القائم (اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے، اور بیٹھ جانے والا کھڑا رہنے والے سے بہتر ہے ) ۔ کیونکہ اس فتنے سے مراد تو مسلمانوں کی وہ باہمی لڑائی ہے جس میں فریقین عصبیت اور حمیت جاہلیہ اور طلب دنیا کے لیے لڑ رہے ہوں اور دونوں میں سے کوئی بھی حق پر نہ ہو۔ رہی یہ لڑائی جو زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلہ میں برسر حق گروہ کی حمایت کے لیے لڑی جائے، تو یہ فتنے میں حصہ لینا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔ تمام فقہاء کا اس کے وجوب پر اتفاق ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں اس کے واجب ہونے پر کوئی اختلاف نہ تھا (احکام القرآن للجصاص) ۔ بلکہ بعض فقہاء تو اسے جہاد سے بھی افضل قرار دیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہے کہ حضرت علی (رض) نے اپنا پورا زمانہ خلافت کفار سے جہاد کرنے کے بجائے باغیوں سے لڑنے میں صرف کردیا (روح المعانی) ۔ اس کے واجب نہ ہونے پر اگر کوئی شخص اس بات سے استدلال کرے کہ حضرت علی (رض) کی ان لڑائیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ نے حصہ نہیں لیا تھا تو وہ غلطی پر ہے۔ ابن عمر خود فرماتے ہیں کہ : ما وجدت فی نفسی من شئ ما وجدت من ھٰذہ الاٰیۃ اَنّی لم اقاتل ھٰذہ الفئۃ الباغیۃ کما امرنی اللہ تعالیٰ ، (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابہ، باب الدفع عمن قعدوا عن بیعۃ علی) ” مجھے اپنے دل میں کسی بات پر اتنی زیادہ کھٹک نہیں ہوئی جتنی اس آیت کی وجہ سے ہوئی کہ میں نے اللہ کے حکم کے مطابق اس باغی گروہ سے جنگ نہ کی “

زیادتی کرنے والے گروہ سے ” قتال ” کرنے کا حکم لازماً یہی معنی نہیں رکھتے کہ اس کے خلاف ہتھیاروں سے جنگ کی جائے اور ضرور اس کو قتل ہی کیا جائے۔ بلکہ اس سے مراد اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، اور اصل مقصود اس کی زیادتی کا ازالہ ہے۔ اس مقصد کے لیے جس طاقت کا استعمال ناگزیر ہو اسے استعمال کرنا چاہیے اور جتنی طاقت کا استعمال کافی ہو، نہ اس سے کم استعمال کرنی چاہیے نہ اس سے زیادہ۔

اس حکم کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت استعمال کر کے زیادتی کا ازالہ کرنے پر قادر ہوں۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ لڑائی باغی (زیادتی کرنے والے گروہ) کو بغاوت (زیادتی) کی سزا دینے کے لیے نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے حکم کی طرف پلٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے جو بات حق ہو اسے یہ باغی گروہ قبول کرلینے پر آمادہ ہوجائے اور جو طرز عمل اس میزان حق کی رو سے زیادتی قرار پاتا ہے اس کو چھوڑ دے۔ جونہی کہ کوئی باغی گروہ اس حکم کی پیروی پر راضی ہوجائے، اس کے خلاف طاقت کا استعمال بند ہوجانا چاہیے، کیونکہ یہی قتال کا مقصود اور اس کی آخری حد ہے۔ اس کے بعد مزید دست درازی کرنے والا خود زیادتی کا مرتکب ہوگا۔ اب رہی یہ بات کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی رو سے ایک نزاع میں حق کیا ہے اور زیادتی کیا، تو لا محالہ اس کو طے کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو امت میں اور علم اور بصیرت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرنے کے اہل ہوں۔

محض صلح کرا دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرانے کا حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں وہ صلح کوئی قابل قدر چیز نہیں ہے جو حق اور باطل کے فرق کو نظر انداز کر کے محض لڑائی روکنے کے لیے کرائی جائے اور جس میں برسر حق گروہ کو دبا کر زیادتی کرنے والے گروہ کے ساتھ بےجا رعایت برتی جائے۔ صلح وہی صحیح ہے جو انصاف پر مبنی ہو۔ اسی سے فساد ٹلتا ہے، ورنہ حق والوں کو دبانے اور زیادتی کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہوتا ہے کہ خرابی کے اصل اسباب جوں کے توں باقی رہتے ہیں، بلکہ ان میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور اس سے بار بار فساد برپا ہونے کی نوبت پیش آتی ہے۔

یہ آیت مسلمانوں کی باہمی جنگ کے بارے میں شرعی قانون کی اصل بنیاد ہے۔ ایک حدیث کے سوا جس کا ہم آگے ذکر کریں گے، اس قانون کی کوئی تشریح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں نہیں ملتی، کیونکہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان جنگ کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی کہ آپ کے عمل اور قول سے اس کے احکام کی تفصیلات معلوم ہوتیں۔ بعد میں اس قانون کی مستند تشریح اس وقت ہوئی جب حضرت علی (رض) کے عہد خلافت میں خود مسلمانوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت چونکہ بکثرت صحابہ کرام موجود تھے، اس لیے ان کے عمل اور ان کے بیان کردہ احکام سے اسلامی قانون کے اس شعبے کا مفصل ضابطہ مرتب ہوا۔ خصوصیت کے ساتھ حضرت علی (رض) کا اسوہ اس معاملہ میں تمام فقہاء کا اصل مرجع ہے۔ ذیل میں ہم اس ضابطہ کا ایک ضروری خلاصہ درج کرتے ہیں :

1) ۔ مسلمانوں کی باہمی جنگ کی کئی صورتیں ہیں جن کے حکم الگ الگ ہیں۔

(الف) لڑنے والے دونوں گروہ کسی مسلمان حکومت کی رعایا ہوں۔ اس صورت میں ان کے درمیان صلح کرانا، یا یہ فیصلہ کرنا کہ ان میں سے زیادتی کرنے والا کون ہے، اور طاقت سے اس کو حق کی طرف رجوع پر مجبور کرنا حکومت کا فریضہ ہے۔

(ب) لڑنے والے فریقین دو بہت بڑے طاقتور گروہ ہوں، یا دو مسلمان حکومتیں ہوں، اور دونوں کی لڑائی دنیا کی خاطر ہوں۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ اس فتنے میں حصہ لینے سے قطعی اجتناب کریں اور فریقین کو خدا کا خوف دلا کر جنگ سے باز رہنے کی نصیحت کرتے رہیں۔

(ج) لڑنے والے وہ فریقین جن کا اوپر (ب) میں ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسرا زیادتی کر رہا ہو، اور نصیحت سے اصلاح پر آمادہ نہ ہو رہا ہو۔ اس صورت میں اہل ایمان کا کام یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے فریق کے خلاف برسر حق فریق کا ساتھ دیں۔

(د) فریقین میں سے ایک گروہ رعیت ہو اور اس نے حکومت، یعنی مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا ہو۔ فقہاء اپنی اصلاح استعمال کرتے ہیں۔

2) ۔ باغی، یعنی حکومت کے خلاف خروج کرنے والے گروہ بھی متعدد اقسام کے ہو سکتے ہیں :

(الف) وہ جو محض فساد برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے اس خروج کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو۔ ان کے خلاف حکومت کی جنگ بالاتفاق جائز ہے اور اس کا ساتھ دینا اہل ایمان پر واجب ہے، قطع نظر اس سے کہ حکومت عادل ہو یا نہ ہو۔

(ب) وہ جو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خروج کریں، اور ان کے پاس کوئی شرعی تاویل نہ ہو، بلکہ ان کا ظاہر حال بتا رہا ہو کہ وہ ظالم و فاسق ہیں۔ اس صورت میں اگر حکومت عادل ہو تب تو اس کا ساتھ دینا بلا کلام واجب ہے، لیکن اگر وہ عادل نہ بھی ہو تو اس حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنا واجب ہے جس کے ذریعہ سے فی الحال مملکت کا نظم قائم ہے۔

(ج) وہ جو کسی شرعی تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف خروج کریں، مگر ان کی تاویل باطل اور ان کا عقیدہ فاسد ہو مثلاً خوارج۔ اس صورت میں بھی، مسلم حکومت، خواہ وہ عادل ہو یا نہ ہو، ان سے جنگ کرنے کا جائز حق رکھتی ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب ہے۔

(د) وہ جو ایک عادل حکومت کے خلاف خروج کریں جبکہ اس کے سربراہ کی امارت جائز طور پر قائم ہوچکی ہو۔ اس صورت میں خواہ ان کے پاس کوئی شرعی تاویل ہو یا نہ ہو، بہرحال ان سے جنگ کرنے میں حکومت حق بجانب ہے اور اس کا ساتھ دینا واجب۔

(ھ) وہ جو ایک ظالم حکومت کے خلاف خروج کریں جس کی امارت جبراً قائم ہوئی ہو اور جس کے امراء فاسق ہوں، اور خروج کرنے والے عدل اور حدود اللہ کی اقامت کے لیے اٹھے ہوں اور ان کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ خود صالح لوگ ہیں۔ اس صورت میں ان کو ” باغی ” یعنی زیادتی کرنے والا گروہ قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دینے میں فقہاء کے درمیان سخت اختلاف واقع ہوگیا ہے، جسے مختصراً ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔

جمہور فقہاء اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہوچکی ہو اور مملکت کا امن و امان نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم، اور اس کی امارت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الا یہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے۔ امام سرخسی لکھتے ہیں کہ ” جب مسلمان ایک فرمانروا پر مجتمع ہوں اور اس کی بدولت ان کو امن حاصل ہو اور راستے محفوظ ہوں، ایسی حالت میں اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کے خلاف خروج کرے تو جو شخص بھی جنگ کی طاقت رکھتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے اس فرمانروا کے ساتھ مل کر خروج کرنے والوں کے خلاف جنگ کرے ” (البسوط، باب الخوارج) ۔ امام، لودی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ ” ائمہ، یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں “۔ اس پر امام نووی اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں۔

لیکن اس پر اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ فقہائے اسلام کا ایک بڑا گروہ، جس میں اکابر اہل علم شامل ہیں، خروج کرنے والوں کو صرف اس صورت میں ” باغی ” قرار دیتا ہے جبکہ وہ امام عادل کے خلاف خروج کریں۔ ظالم و فاسق امراء کے خلاف صلحاء کے خروج کو وہ قرآن مجید کی اصطلاح کے مطابق ” بغاوت ” کا مصداق نہیں ٹھہراتے، اور نہ ان کے خلاف جنگ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا مسلک ظالم امراء کے خلاف قتال کے معاملہ میں اہل علم کو معلوم ہے۔ ابوبکر جصاص احکام القرآن میں صاف لکھتے ہیں کہ امام صاحب اس قتال کو نہ صرف جائز، بلکہ سازگار حالات میں واجب سمجھتے تھے (جلد اول، ص 81 ۔ جلد دوم، ص 39) بنی امیہ کے خلاف زید بن علی کے خروج میں انہوں نے نہ صرف خود مالی مدد دی، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمائی (الجصاص، ج 1 ص 81) ۔ منصور کے خلاف نفس زکیہ کے خروج میں وہ پوری سرگرمی کے ساتھ نفس زکیہ کی حمایت کرتے رہے اور اس جنگ کو انہوں نے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرار دیا (الجصاص، ج 1، ص 81 ۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری، ج 2، ص 71 ۔ 72) ۔ پھر فقہائے حنفیہ کا بھی متفقہ مسلک وہ نہیں ہے جو امام سرخسی نے بیان کیا ہے۔ ابن ہمام ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ الباغی فی عرف الفقھاْء الخارج عن طاعۃ امام الحق، ” فقہاء کے عرف میں باغی وہ ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائے “۔ حنابلہ میں سے ابن عقیل اور ابن الجوزی امام غیر عادل کے خلاف خروج کو جائز ٹھہراتے ہیں اور اس پر حضرت حسین کے خروج سے استدلال کرتے ہیں (الانصاف، ج 10، باب قتال اہل البغی) ۔ امام شافعی کتاب الام میں باغی اس شخص کو قرار دیتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ کرے (ج 4، ص 135) ۔ امام مالک کا مسلک المدونہ میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ ” خروج کرنے والے اگر امام عدل کے خلاف جنگ کرنے کے لیے نکلیں تو ان کے خلاف مقاتلہ کیا جائے ” (جلد اول، ص 407) ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں : ” جب کوئی شخص عمر بن عبدالعزیز جیسے امام عدل کے خلاف خروج کرے تو اس کی دفع کرنا واجب ہے، رہا کسی دوسری قسم کا امام تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، اللہ کسی دوسرے ظالم کے ذریعہ سے اس کو سزا دے گا اور پھر کسی تیسرے ظالم کے ذریعہ سے ان دونوں کو سزا دے گا “۔ ایک اور قول امام مالک کا انہوں نے یہ نقل کیا ہے : ” جب ایک امام سے بیعت کی جا چکی ہو اور پھر اس کے بھائی اس کے مقابلے پر کھڑے ہوجائیں تو ان سے جنگ کی جائے گی اگر وہ امام عادل ہو۔ رہے ہمارے زمانے کے ائمہ تو ان کے لیے کوئی بیعت نہیں ہے، کیونکہ ان کی بیعت زبردستی لی گئی ہے ” پھر مالکی علماء کا جو مسلک سَحْنون کے حوالہ سے قاضی صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جنگ تو صرف امام عدل کے ساتھ مل کر کی جائے گی، خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ شخص جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔ لیکن اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ البتہ اگر تمہاری اپنی جان پر حملہ کیا جائے یا مسلمان ظلم کے شکار ہو رہے ہوں تو مدافعت کرو “۔ یہ مسالک نقل کرنے کے بعد قاضی ابوبکر کہتے ہیں : لا نقاتل الا مع امامٍ عادل یقدمہ اھل الحق لانفسہم۔ ” ہم جنگ نہیں کریں گے مگر اس امام عادل کے ساتھ جسے اہل حق نے اپنی امامت کے لیے آگے بڑھایا ہو “۔

3) ۔ خروج کرنے والے اگر قلیل التعداد ہوں اور ان کی پشت پر کوئی بڑی جماعت نہ ہو، نہ وہ کچھ زیادہ جنگی سر و سامان رکھتے ہوں، تو ان پر قانون بغاوت کا اطلاق نہ ہوگا، بلکہ ان کے ساتھ عام قانون تعزیرات کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا، یعنی وہ قتل کریں گے تو ان سے قصاص لیا جائے گا اور مال کا نقصان کریں گے تو اس کا تاوان ان پر عائد ہوگا۔ قانون بغاوت کا اطلاق صرف ان باغیوں پر ہوتا ہے جو کوئی بڑی طاقت رکھتے ہوں، اور کثیر جمیعت اور جنگی سرو سامان کے ساتھ خروج کریں۔

4) ۔ خروج کرنے والے جب تک محض اپنے فاسد عقائد، یا حکومت اور اس کے سربراہ کے خلاف باغیانہ اور معاندانہ خیالات کا اظہار کرتے رہیں، ان کو قتل یا قید نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ ان کے خلاف صرف اس وقت کی جائے گی جب وہ عملاً مسلح بغاوت کردیں اور خونریزی کی ابتدا کر بیٹھیں۔ (المبسوط، باب الخوارج۔ فتح القدیر، باب البغاۃ۔ احکام القرآن للجصاص) ۔

5) ۔ باغیوں کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق دعوت دی جائے گی کہ وہ بغاوت کی روش چھوڑ کر عدل کی راہ اختیار کریں۔ اگر ان کے کچھ شبہات و اعتراضات ہوں تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس پر بھی وہ باز نہ آئیں اور مقاتلہ کا آغاز ان کی طرف سے ہوجائے، تب ان کے خلاف تلوار اٹھائی جائے گی۔ (فتح القدیر۔ احکام القرآن للجصاص) ۔

6) ۔ باغیوں سے لڑائی میں جن ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے گا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد پر مبنی ہیں جسے حضرت عبداللہ بن عمر کے حوالہ سے حاکم، بزار اور الجصاص نے نقل کیا ہے۔: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے پوچھا اے ابن ام عبد، جانتے ہو اس امت کے باغیوں کے بارے میں اللہ کا کیا حکم ہے ؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا ان کے زخمیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، ان کے اسیر کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کے بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، اور ان کا مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ ” اس ضابطہ کا دوسرا ماخذ، جس پر تمام فقہائے اسلام نے اعتماد کیا ہے، حضرت علی (رض) کا قول اور عمل ہے۔ آپ نے جنگ جمَل میں فتح یاب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرو، زخمی پر حملہ نہ کرو، گرفتار ہوجانے والوں کو قتل نہ کرو، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دو، لوگوں کے گھروں میں نہ گھسو، اور عورتوں پر دست درازی نہ کرو، خواہ وہ تمہیں گالیاں ہی کیوں نہ دے رہی ہوں۔ آپ کی فوج کے بعض لوگوں نے مطالبہ کیا کہ مخالفین کو اور ان کے بال بچوں کو غلام بنا کر تقسیم کردیا جائے۔ اس پر غضب ناک ہو کر آپ نے فرمایا۔ تم میں سے کون امّ المومنین عائشہ کو اپنے حصہ میں لینا چاہتا ہے ؟

7) ۔ باغیوں کے اموال کا حکم، جو حضرت علی (رض) کے اسوہ حسنہ سے ماخوذ ہے، یہ ہے کہ ان کا کوئی مال، خواہ وہ ان کے لشکر میں ملا ہو یا ان کے پیچھے ان کے گھروں پر ہو، اور وہ خواہ زندہ ہوں یا مارے جا چکے ہوں، بہرحال اسے مال غنیمت قرار دیا جائے گا اور نہ فوج میں تقسیم کیا جائے گا۔ البتہ جس مال کا نقصان ہوچکا ہو، اسکا کوئی ضمان لازم نہیں آتا۔ جنگ ختم ہونے اور بغاوت کا زور ٹوٹ جانے کے بعد ان کے مال ان ہی کو واپس دے دیے جائیں گے۔ ان کے اسلحہ اور سواریاں جنگ کی حالت میں اگر ہاتھ آجائیں تو انہیں ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، مگر فاتحین کی ملکیت بنا کر مال غنیمت کے طور پر تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور اگر ان سے پھر بغاوت کا اندیشہ نہ ہو تو ان کی یہ چیزیں بھی واپس دے دی جائیں گی۔ صرف امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ حکومت اسے غنیمت قرار دے گی (المبسوط، فتح القدیر۔ الحصاص) ۔

8 ) ۔ ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو یہ عہد لے کر کہ وہ پھر بغاوت نہ کریں گے، رہا کردیا جائے گا۔ (المبسوط) ۔

9 ) ۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے، کیونکہ یہ مثلہ ہے جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) کے پاس رومی بطیق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا ہمارا کام رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولیٰ ممنوع ہونا چاہیے۔ (المبسوط) ۔

10 ) ۔ جنگ کے دوران میں باغیوں کے ہاتھوں جان و مال کا جو نقصان ہوا ہو، جنگ ختم ہونے اور امن قائم ہوجانے کے بعد اس کا کوئی قصاص اور ضمان ان پر عائد نہ ہوگا۔ نہ کسی مقتول کا بدلہ ان سے لیا جائے گا اور نہ کسی مال کا تاوان ان پر ڈالا جائے گا، تاکہ فتنے کی آگ پھر نہ بھڑک اٹھے۔ صحابہ کرام کی باہمی لڑائیوں میں یہی ضابطہ ملحوظ رکھا گیا تھا (المبسوط۔ الجصاص۔ احکام القرآن ابن العرنی) ۔

11 ) ۔ جن علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا ہو اور وہاں انہوں نے اپنا نظم و نسق قائم کر کے زکوٰۃ اور دوسرے محصولات وصول کرلیے ہوں حکومت ان علاقہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد لوگوں سے از سرنو اس زکوٰۃ اور ان محصولات کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ اگر باغیوں نے یہ اموال شرعی طریقے پر صرف کردیے ہوں گو عند اللہ بھی وہ ادا کرنے والوں پر سے ساقط ہوجائیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے غیر شرعی طریقے پر تصرف کیا ہو، تو یہ ادا کرنے والوں کے اور ان کے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔ وہ خود چاہیں تو اپنی زکوٰۃ دوبارہ ادا کردیں (فتح القدیر۔ الجصاص۔ ابن العربی) ۔

12) ۔ باغیوں نے اپنے زیر تصرف علاوہ میں جو عدالتیں قائم کی ہوں، اگر ان کے قاضی اہل عدل میں سے ہوں اور شریعت کے مطابق انہوں نے فیصلے کیے ہوں، تو وہ بر قرار رکھے جائیں گے اگرچہ ان کے مقرر کرنے والے بغاوت کے مجرم ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ اگر ان کے فیصلے غیر شرعی ہوں اور بغاوت فرو ہونے کے بعد وہ حکومت کی عدالتوں کے سامنے لائے جائیں تو وہ نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ علاوہ بریں باغیوں کی قائم کی ہوئی عدالتوں کی طرف سے کوئی وارنٹ یا پروانہ امر حکومت کی عدالتوں میں قبول نہ کیا جائے گا (المبسوط۔ الجصاص) ۔

13) ۔ باغیوں کی شہادت اسلامی عدالتوں میں قابل قبول نہ ہوگی کیونکہ اہل عدل کے خلاف جنگ کرنا فسق ہے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ جب تک وہ جنگ نہ کریں اور اہل عدل کے خلاف عملاً خروج کے مرتکب نہ ہوں، ان کی شہادت قبول کی جائے گی، مگر جب وہ جنگ کرچکے ہوں تو پھر میں ان کی شہادت قبول نہ کروں گا (الجصاص) ۔

ان احکام سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کفار کے خلاف جنگ اور مسلمان باغیوں کے خلاف جنگ کے قانون میں کیا فرق ہے۔

جونا گڑھی

اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

 اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و حدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کے اختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔ 

 یعنی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنے والے گروہ سے لڑائی کریں تاکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار ہوجائے۔

یعنی باغی گروہ بغاوت سے باز آجائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔ 

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

امین احسن اصلاحی

مسلمان باہمدگر بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ تم پر رحم کیا جائے

یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کسی نزاع کا برپا ہونا ہی اول تو ان کی باہمی اخوت کے منافی ہے لیکن شیطان کی انگیخت سے کوئی نزاع برپا ہو ہی جائے تو دوسرے مسلمانوں کو ان کے درمیان مصالحت کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ اس آگ کو مزید بھڑکانے کی۔ ’وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوۡنَ‘- یعنی اللہ تعالی سے ڈرتے رہو۔ اگر تمہارے ہاتھوں کوئی ایسا کام ہوا جو بھائیوں اور بھائیوں کے درمیان قتل وخون کا سبب ہوا یا تم محض قومی، قبائلی، علاقائی یا سیاسی مصلحتوں کی خاطر کسی پہلو سے اس خون خرابے میں حصہ لینے والے بنے تو یاد رکھو کہ اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکو گے۔ اللہ تعالی کی رحمت کے مستحق وہی ٹھہریں گے جو اس کی قائم کی ہوئی اس اخوت کو ہمیشہ استوار و پائیدار رکھنے کی کوشش کریں گے، نہ خود اس میں کوئی رخنہ پیدا کریں گے اور نہ اپنے امکان کے حد تک کسی کو اس میں کوئی رخنہ پیدا کرنے کا موقع دیں گے۔

’بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ‘- میں مثنیٰ سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ جنگ دو بھائیوں ہی کے درمیان ہو، بلکہ یہ مثنیٰ مسلمانوں کے دو گروہوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مثنیٰ کا اس طرح استعمال عربی میں معروف ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔

جاوید احمد غامدی

ایمان والے تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے مابین مصالحت کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

اِن آیتوں میں جو حکم بیان ہوا ہے، اُس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

۱۔ مسلمانوں کے دو گروہ اگر کبھی آپس میں لڑ پڑیں تو دوسرے مسلمانوں کو اُسے پرایا جھگڑا سمجھ کر اُس سے الگ تھلگ نہیں بیٹھ رہنا چاہیے۔ اِسی طرح یہ بات بھی اُن کے لیے جائز نہیں ہے کہ حق اور ناحق کی تحقیق کیے بغیر محض خاندانی ، قبائلی اور گروہی عصبیت کے جوش میں کسی کے حامی اور کسی کے مخالف بن جائیں۔ اُن کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ معاملے کو پوری طرح سمجھ کر فریقین کے درمیان مصالحت کی کوشش کریں۔
۲۔ اگر ایک فریق مصالحت پر راضی نہ ہو یا راضی ہو جانے کے بعد پھر ظلم و عدوان کا رویہ اختیار کرے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ طاقت رکھتے ہوں تو اپنی کسی منظم حکومت کے تحت اُس کے خلاف جنگ کریں، یہاں تک کہ وہ اُس فیصلے کے سامنے سر جھکادے جو مصالحت کرانے والوں نے فریقین کے سامنے رکھا ہے۔ قرآن نے اِس فیصلے کو ’اَمْرُ اللّٰہِ‘سے تعبیر کیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی فریق اِس سے گریز کرے گا تو وہ گویا اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے جھکنے سے گریز کرے گا۔
۳۔فریقین مصالحت پر آمادہ ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اُن میں سے کسی کے ساتھ نہ بے جا رعایت کی جائے اور نہ کسی کو عدل کے خلاف دبایا جائے، بلکہ ٹھیک انصاف کے مطابق صلح کرائی جائے اور جس کا جو نقصان ہوا ہے، اُسے پورا کرا دیا جائے۔
یہ حکم ، ظاہر ہے کہ صرف اُسی صورت سے متعلق ہے، جب مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ حکومت موجود ہوجس کے تحت جنگ کی جا سکے۔ یہ صورت نہ ہو تو سیدنا حذیفہ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ ہر مسلمان کو اِس فتنے سے بالکل الگ ہو جانا چاہیے۔*
_____
* بخاری، رقم ۷۰۸۴۔

ابو الاعلی مودودی

مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔

یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔

حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔ تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا (بخاری، کتاب الایمان) ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا ” مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اس سے جنگ کرنا کفر ” (بخاری، کتاب الایمان۔ مسند احمد میں اسی مضمون کی روایت حضرت سعید بن مالک نے بھی اپنے والد سے نقل کی ہے ) ۔

حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے “۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ۔ ترمذی، ابواب البروالصِّلہ) ۔

حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ” (مسند احمد) ۔

حضرت سہل بن سعد ساعدی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ” گروہ اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔ ” (مسند احمد) ۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں ہے، جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ” مومنوں کی مثال آپس کی محبت، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملہ میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر بخار اور بےخوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ” (بخاری و مسلم) ۔

ایک اور حدیث میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ ” مومن ایک دوسرے کے لیے ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے ” (بخاری، کتاب الادب، ترمذی، ابواب البروالصلہ) ۔

جونا گڑھی

(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

 یہ پچھلے حکم کی ہی تاکید ہے یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس لیے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ ایک دوسرے کے دست و باز و ہمدرد وغم گسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں اور کبھی غلط فہمی سے ان کے درمیان بعد اور نفرت پیدا ہوجائے تو اسے دور کر کے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے مزید دیکھئے (مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بالْكُفْرِ ۭاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ :17) 

١٠۔ ١ اور ہر معاملے میں اللہ سے ڈرو، شاید اس کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پا جاؤ۔ ورنہ اللہ کی رحمت تو اہل ایمان و تقوٰی کے لئے یقینی ہے۔ 

Page 1 of 2 pages  1 2 >