وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ

امین احسن اصلاحی

ہلاکی ہو ہر اشارہ باز، عیب جُو کے لیے!

ایک ہی کردار کے دو پہلو: ’ہَمْزٌ‘ کے معنی اشارہ بازی کرنے اور ’لَمْزٌ‘ کے معنی عیب لگانے کے ہیں۔ ’ہُمَزَۃٌ‘ اور ’لُمَزَۃٌ‘ مبالغہ کے صیغے ہیں اور اسی سورہ میں آگے ’حُطَمَۃٌ‘ بھی اسی وزن پر آیا ہے۔ ’ہُمَزَۃٌ‘ کے معنی اشارہ باز اور ’لُمَزَۃٌ‘ کے معنی عیب جُو اور عیب چیں کے ہیں۔ اشارہ بازی کا تعلق زیادہ تر حرکتوں اور اداؤں سے ہے اور عیب جُوئی کا تعلق زبان سے۔ یہ دونوں ایک ہی کردار کے دو پہلو ہیں۔ جب کسی کا مذاق اڑانا، اس کا تہتک کرنا اور اس کو دوسروں کی نگاہوں سے گرانا مقصود ہو تو اس میں اشارہ بازی سے بھی کام لیتے ہیں اور زبان سے بھی۔ اشارہ بازی سے کسی کی تضحیک و تحقیر کے جو پہلو پیدا کیے جا سکتے ہیں بسا اوقات وہ زبان کی فقرہ بازیوں سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ’ہُمَزَۃٌ‘ کو مقدم رکھا ہے۔

’ہمز و لمز‘ کی عادت مہذب اور شائستہ سوسائٹی میں ہمیشہ عیب سمجھی گئی ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ قرآن مجید میں نہایت واضح الفاظ میں اس سے روکا گیا ہے:

وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات ۴۹: ۱۱)
’’اور اپنے آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور ایک دوسرے پر پھبتیاں چست نہ کرو۔‘‘

دعوت حق کا مقابلہ اوچھے ہتھیاروں سے: لیکن جدید جاہلیت کی طرح قدیم جاہلیت میں بھی اس فن کو بڑا فروغ حاصل رہا ہے۔ اِس زمانے میں جس طرح اخباروں میں مزاحیہ کالم بھی ہوتے ہیں اور کارٹون بھی چھپتے ہیں جو اشاروں کی زبان میں حریفوں کی تضحیک کرتے ہیں اسی طرح قدیم زمانے میں نقال، بھانڈ اور فقرہ باز ہوتے تھے جو اجرت لے کر شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے اور اپنے سرپرستوں کا جی خوش کرتے۔ سورۂ قلم میں قریش کے لیڈروں اور ان کے گنڈوں پر قرآن نے جو جامع تبصرہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی مسلمانوں کی ’تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ وَالصَّبْرِ‘ کی دعوت کو اسی حربے سے شکست دینے کی کوشش کی جو حربے اس زمانے کے پیشہ ور لیڈر اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لیے اختیار کرتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ان ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی گئی:

وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ ۵ ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍ بِنَمِیْمٍ ۵ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ۵ عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ ۵ أَنۡ کَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِیْنَ (القلم ۶۸: ۱۰-۱۴)
’’اور تم ہر لپاٹیے ذلیل کی بات کا دھیان نہ کرو۔ اشارہ باز اور لگانے بجھانے والے کا۔ بھلائی سے روکنے والا، حدود سے تجاوز کرنے والا اور حق کو تلف کرنے والا۔ اجڈ مزید برآں چاپلوس۔ بوجہ اس کے کہ وہ مال و اولاد والا ہوا۔‘‘

جاوید احمد غامدی

تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (تم پر) اشارے کرتا اور (تمھیں) عیب لگاتا ہے، (اے پیغمبر)۔

پہلی چیز کا تعلق حرکتوں اور اداؤں سے ہے اور دوسری کا زبان سے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ دونوں ایک ہی کردار کے دو پہلو ہیں۔ جب کسی کا مذاق اڑانا، اُس کا تہتک کرنا اور اُس کو دوسروں کی نگاہوں سے گرانا مقصود ہو تو اِس میں اشارہ بازی سے بھی کام لیتے ہیں اور زبان سے بھی۔ اشارہ بازی سے کسی کی تضحیک و تحقیر کے جو پہلو پیدا کیے جا سکتے ہیں، بسااوقات وہ زبان کی فقرہ بازیوں سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ شاید اِسی وجہ سے ’ھُمَزَۃ‘ کو مقدم رکھا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۹/ ۵۴۸)

یہ اگر غور کیجیے تو اشاروں کی زبان میں مضحکہ اڑانے اور پھبتیاں چست کرنے کا وہی طریقہ ہے جو اخبارات کے فکاہی کالموں، کارٹونوں اور لیڈروں وغیرہ کے بیانات کی صورت میں اب بھی دیکھ لیا جا سکتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے۔

اصل الفاظ ہیں هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ۔ عربی زبان میں ھمز اور لمز معنی کے اعتبار سے باہم اتنے قریب ہیں کہ کبھی دونوں ہم معنی استعمال ہوتے ہیں اور کبھی دونوں میں فرق ہوتا ہے، مگر ایسا فرق کہ خود اہل زبان میں سے کچھ لوگ ھمز کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں، کچھ دوسرے لوگ وہی مفہوم لمز کا بیان کرتے ہیں، اور اس کے برعکس کچھ لوگ لمز کے جو معنی بیان کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے نزدیک ھمز کے معنی ہیں۔ یہاں چونکہ دونوں لفظ ایک ساتھ آئے ہیں اور هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس لیے دونوں ملکر یہ معنی دیتے ہیں کہ اس شخص کی عادت ہی یہ بن گئی ہے کہ وہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے، کسی کو دیکھ کر انگلیاں اٹھاتا اور آنکھوں سے اشارے کرتا ہے، کسی کے نسب پر طعن کرتا ہے، کسی کی ذات میں کیڑے نکالتا ہے، کسی پر منہ در منہ چوٹیں کرتا ہے، کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرتا ہے، کہیں چغلیاں کھا کر اور لگائی بجھائی کر کے دوستوں کو لڑواتا اور کہیں بھائیوں میں پھوٹ ڈلواتا ہے، لوگوں کے برے برے نام رکھتا ہے، ان پر چوٹیں کرتا ہے اور ان کو عیب لگاتا ہے۔

جونا گڑھی

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔

 ھمزۃ اور لمزۃ، بعض کے نزدیک ہم معنی ہیں بعض اس میں کچھ فرق کرتے ہیں۔ ھمزۃ وہ شخص ہے جو رو در رو برائی کرے اور لمزۃ وہ جو پیٹھ پیچھے غیمت کرے۔ بعض اس کے برعکس معنی کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں ھمز، آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے برائی کرنا ہے اور لمز زبان سے۔ 

الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ

امین احسن اصلاحی

جس نے مال سمیٹا اور اس کو گنتا رہا۔

بخیل سرمایہ داروں کی نہایت جامع تصویر: یعنی حقوق کی یاددہانی اور نصیحت کرنے والوں کو تو انھوں نے ہمز و لمز کے حربے سے چپ کرنے کی کوشش کی اور خود مال جمع کرنے اور اس کو گن گن کر سینتنے میں لگے رہے۔ مال کے حریص و بخیل مال داروں کی یہ نہایت جامع تصویر ہے۔ ان کا دل و دماغ ہمیشہ اپنے سرمایہ کے حساب و کتاب میں لگا رہتا ہے۔ کس کاروبار میں کتنا منافع ہوا ہے؟ فلاں سرمائے سے یافت کی کتنی توقع ہے؟ فلاں خسارہ جو ہوا ہے اس کی تلافی کی کیا صورت ہو گی؟ اگلے سال تک سرمایہ کی مجموعی مقدار کہاں تک پہنچ جائے گی؟ اسی طرح کے سوال ہمیشہ ان کے دل و دماغ پر مستولی رہتے ہیں۔ اگر کسی نے ذکر کیا کہ فلاں نے غریبوں اور یتیموں کی امداد کے لیے اتنا خرچ کیا ہے تو اس پر پھبتی چست کر دی کہ شیخی باز ہے، اپنی دولت مندی کی دھونس جماتا ہے۔ آخر ہم بھی تو ڈھیروں مال لٹاتے ہیں لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔

جاوید احمد غامدی

یہ جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا ہے۔

یہ نہایت جامع تصویر ہے۔انسان بخیلی کا خوگر ہو تو مال کی حرص میں مبتلا ہو جاتا ہے، پھر اِسی طرح سرمایے کے حساب و کتاب میں لگا رہتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جس نے مال جمع کیا اور اُسے گن گن کر رکھا۔

پہلے فقرے کے بعد یہ دوسرا فقرہ خود بخود یہ معنی دیتا ہے کہ لوگوں کی یہ تحقیر و تذلیل وہ اپنی مال داری کے غرور میں کرتا ہے۔ مال جمع کرنے کے لیے جَمَعَ مَالًا کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مال کی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے۔ پھر گن گن کر رکھنے کے الفاظ سے اس شخص کے بخل اور زر پرستی کی تصویر نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔

جونا گڑھی

جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے۔

 اس سے مراد مال جمع کرتا ہے اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا۔ ورنہ مطلق مال جمع کرکے رکھنا مذموم نہیں ہے۔ یہ مذموم اس وقت ہے جب اس میں زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ نہ کا اہتمام نہ ہو۔ 

يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ

امین احسن اصلاحی

گویا اس کے مال نے اس کو زندہ جاوید کر دیا-

بخیلوں کے باطن پر انہماک کا عکس: یہ ان کے اس انہماک کے باطن پر عکس ڈالا گیا ہے کہ یہ انہماک پتہ دیتا ہے کہ وہ گویا یہ خیال کیے بیٹھے ہیں کہ یہ مال ان کو زندۂ جاوید رکھے گا۔ اگر وہ جانتے کہ یہ مال بھی فانی اور ان کی زندگی بھی فانی ہے تو وہ مال کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنے میں سبقت کرتے جو ان کی ابدی زندگی میں کام آنے والا ہوتا لیکن اس کی محبت میں ان کا یہ استغراق پتہ دیتا ہے کہ وہ اس مال ہی میں اپنی زندگی پا گئے ہیں۔ اسی ذہنیت کی تصویر سورۂ شعراء میں کھینچی گئی ہے:

أَتَبْنُوۡنَ بِکُلِّ رِیْعٍ آیَۃً تَعْبَثُوۡنَ ۵ وَتَتَّخِذُوۡنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوۡنَ (الشعراء ۲۶: ۱۲۸-۱۲۹)
’’کیا تم ہر بلندی پر عبث یادگاریں تعمیر کرتے اور شان دار محل تعمیر کرتے رہو گے گویا تمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔‘‘

آدمی کے باطن کا سراغ دینے والی اصل چیز اس کی زبان نہیں بلکہ اس کی زندگی کا رویہ ہے۔ جو آدمی اسی دنیا کو اپنی منزل سمجھتا ہے اس کی زندگی اس شخص کی زندگی سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو اس دنیا کو منزل نہیں بلکہ راہ سمجھتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ جو شخص آخرت کا قائل اور اس کا طالب ہو وہ اپنا مال گن گن کر اس دنیا کے بنکوں اور تجوریوں میں رکھے بلکہ وہ اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھتا ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ

’’تو اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھ اس لیے کہ جہاں تیرا مال رہے گا وہیں تیرا دل بھی رہے گا۔‘‘

جاوید احمد غامدی

اِس کا خیال ہے کہ اِس کے مال نے اِسے حیات جاوداں بخش دی ہے۔

یہ اُس کا باطن ہے۔ اِس لیے کہ مال اور زندگی کو فانی سمجھتا تو کبھی یہ رویہ اختیار نہ کرتا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’آدمی کے باطن کا سراغ دینے والی اصل چیز اُس کی زبان نہیں، بلکہ اُس کی زندگی کا رویہ ہے۔ جو آدمی اِسی دنیا کو اپنی منزل سمجھتا ہے، اُس کی زندگی اُس شخص کی زندگی سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو اِس دنیا کو منزل نہیں ، بلکہ راہ سمجھتا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ جو شخص آخرت کا قائل اور اُس کا طالب ہو، وہ اپنا مال گن گن کر اِس دنیا کے بنکوں اور تجوریوں میں رکھے، بلکہ وہ اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھتا ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ’’ تو اپنا مال اپنے خداوند کے پاس رکھ، اِس لیے کہ جہاں تیرا مال رہے گا، وہیں تیرا دل بھی رہے گا۔‘‘‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۵۴۹)

ابو الاعلی مودودی

وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اُس کے پاس رہے گا۔

دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے اس کا مال اسے حیات جاوداں بخش دے گا، یعنی دولت جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں وہ ایسا منہمک ہے کہ اسے اپنی موت یاد نہیں رہی ہے اور اسے کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایک وقت اس کو یہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوجانا پڑے گا۔

جونا گڑھی

وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا۔

 اخلدہ کا زیادہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ " اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا " یعنی یہ مال، جسے وہ جمع کر کے رکھتا ہے، اس کی عمر میں اضافہ کر دے گا اور اسے مرنے نہیں دے گا 

كَلَّا ۖ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ

امین احسن اصلاحی

ہرگز نہیں، وہ چُور چُور کر دینے والی میں پھینکا جائے گا۔

بخیلوں کے سرمایہ کا حشر: ’کَلَّا‘ یہاں اس خیال باطل کی تردید کے لیے ہے جو ’یَحْسَبُ أَنَّ مَالَہٗٓ أَخْلَدَہ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ فرمایا کہ ہرگز نہیں، وہ بھی اور اس کا یہ سارا اندوختہ بھی چُور چُور کر دینے والی میں پھینک دیا جائے گا۔ ’حُطَمَۃٌ‘ ’حطم‘ کے مادہ سے ہے جس کے معنی چُور چُور کر دینے کے ہیں۔ یہ بھی ’ہُمَزَۃٌ‘ اور ’لُمَزَۃٌ‘ کے وزن پر ہے اس وجہ سے اس کے اندر بھی مبالغہ کا مفہوم موجود ہے۔

جاوید احمد غامدی

ہرگز نہیں، یہ ضرور اُس میں پھینکا جائے گا جو توڑ کر رکھ دے گی۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

ہرگز نہیں، وہ شخص تو چکنا چور کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا۔

اصل میں لفظ حطمہ استعمال کیا گیا ہے جو حطم سے ہے۔ حطم کے معنی توڑنے، کچل دینے اور ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے کے ہیں۔ جہنم کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جو چیز بھی اس میں پھینکی جائے گی سے وہ اپنی گہرائی اور اپنی آگ کی وجہ سے توڑ کر رکھ دے گی۔

اصل میں لَيُنْۢبَذَنَّ فرمایا گیا ہے۔ نبذ عربی زبان میں کسی چیز کو بےوقعت اور حقیر سمجھ کر پھینک دینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے خودبخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اپنی مال داری کی وجہ سے وہ دنیا میں اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتا ہے، لیکن قیامت کے روز اسے حقارت کے ساتھ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

جونا گڑھی

ہرگز یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا

 یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا اس کا وہم اور گمان ہے۔ 

 ایسا بخیل شخص حطمہ میں پھینک دیا جائے گا یہ بھی جہنم کا ایک نام ہے، توڑ پھوڑ دینے والی ہے۔ 

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ

امین احسن اصلاحی

اور تم کیا سمجھے کہ چُور چُور کر دینے والی کیا ہے!

یہ سوال اس کی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے کہ اس کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھو۔ وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے!

اس آگ کو ’حطمۃ‘ یعنی چُور چُور کر دینے والی کی صفت سے تعبیر کرنے کی حکمت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ بخیل سرمایہ دار اپنی دولت اس زمانے میں سونے چاندی کی اینٹوں، زیورات، ظروف اور جواہرات وغیرہ کی شکل میں محفوظ کرتے تھے۔ اس طرح کی دولت کو برباد کرنے کے لیے چُور چُور کر دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے یعنی یہ ساری دولت جلا کر اور چُور چُور کر کے پراگندہ کر دی جائے گی کہ جو لوگ اس کو حیات جاوداں کی ضامن سمجھے بیٹھے تھے وہ اس کا حشر دیکھیں۔

جاوید احمد غامدی

اور تمھیں کیا معلوم کہ جو توڑ کر رکھ دے گی، وہ کیا ہے؟

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ چکنا چور کر دینے والی جگہ؟

n/a

جونا گڑھی

اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہوگی۔

 یہ استفہام اس کی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے، یعنی وہ ایسی آگ ہوگی کہ تمہاری عقلیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور تمہارا فہم و شعور اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ 

نَارُ اللَّـهِ الْمُوقَدَةُ

امین احسن اصلاحی

اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ!

اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ کی ایک خاص صفت: یہ اس ’حُطمۃ‘ کی وضاحت ہے کہ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر جا چڑھے گی۔ یعنی اس کا خاص مزاج یہ ہو گا کہ وہ سب سے پہلے ان دلوں کو پکڑے گی جن میں مال کی محبت اس طرح رچی بسی رہی ہے کہ اس نے خدا اور آخرت کی یاد کے لیے کوئی جگہ ان کے اندر باقی نہیں چھوڑی۔ اس آگ کی مطلوب غذا چونکہ انہی دلوں کے اندر ہو گی اس وجہ سے اس کا سب سے پہلا حملہ انہی پر ہو گا۔ اس زمانے میں خاص خاص چیزوں کے تعاقب کے لیے ایسے آلات ایجاد ہو گئے ہیں جو دور ہی سے اپنے شکار کو بھانپ لیتے اور ازخود ان کا پیچھا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کو مار گراتے ہیں۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اس آگ کا ہو گا۔ یہ ان دلوں پر خود بخود جا چڑھے گی۔ جو مال کے عشق میں گرفتار اور اللہ کے حاجت مند بندوں کے حقوق سے بے پروا رہے۔

جاوید احمد غامدی

اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اللہ کی آگ، خوب بھڑکائی ہوئی۔

قرآن مجید میں اس مقام کے سوا اور کہیں جہنم کی آگ کو اللہ کی آگ نہیں کہا گیا ہے۔ اس مقام پر اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے نہ صرف اس کی ہولناکی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی دولت پا کر غرور و تکبر میں مبتلا ہوجانے والوں کو اللہ کس قدر سخت نفرت اور غضب کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس کی وجہ سے اس نے اس آگ کو خاص اپنی آگ کہا ہے جس میں وہ پھینکے جائیں گے۔

جونا گڑھی

وہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی۔

n/a

الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ

امین احسن اصلاحی

جو دلوں پر جا چڑھے گی۔

اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ کی ایک خاص صفت: یہ اس ’حُطمۃ‘ کی وضاحت ہے کہ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر جا چڑھے گی۔ یعنی اس کا خاص مزاج یہ ہو گا کہ وہ سب سے پہلے ان دلوں کو پکڑے گی جن میں مال کی محبت اس طرح رچی بسی رہی ہے کہ اس نے خدا اور آخرت کی یاد کے لیے کوئی جگہ ان کے اندر باقی نہیں چھوڑی۔ اس آگ کی مطلوب غذا چونکہ انہی دلوں کے اندر ہو گی اس وجہ سے اس کا سب سے پہلا حملہ انہی پر ہو گا۔ اس زمانے میں خاص خاص چیزوں کے تعاقب کے لیے ایسے آلات ایجاد ہو گئے ہیں جو دور ہی سے اپنے شکار کو بھانپ لیتے اور ازخود ان کا پیچھا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ ان کو مار گراتے ہیں۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی اس آگ کا ہو گا۔ یہ ان دلوں پر خود بخود جا چڑھے گی۔ جو مال کے عشق میں گرفتار اور اللہ کے حاجت مند بندوں کے حقوق سے بے پروا رہے۔

جاوید احمد غامدی

جو دلوں تک پہنچے گی۔

یعنی اُن دلوں تک پہنچے گی جو خدا کے خوف سے خالی، حاجت مندوں کے حقوق سے بے پروا اور مال و دولت کی محبت میں غرق رہے۔ اِس آگ کی پسندیدہ غذا یہی دل ہوں گے۔ اِس لیے سب سے پہلے یہ اِنھی پر حملہ آور ہو گی۔

ابو الاعلی مودودی

جو دلوں تک پہنچے گی۔

اصل الفاظ ہیں تـطَّلِــعُ عَلَي الْاَفْــِٕدَةِ ۔ تطلع اطلاع سے ہے جس کے ایک معنی چڑھنے اور اوپر پہنچ جانے کے ہیں، اور دوسرے معنی باخبر ہونے اور اطلاع پانے کے۔ افئدۃ فواد کی جمع ہے جس کے معنی دل کے ہیں، لیکن یہ لفظ اس عضو کے لیے استعمال نہیں ہوتا جو سینے کے اندر دھڑکتا ہے، بلکہ اس مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے جو انسان کے شعور و ادراک اور جذبات و خواہشات اور عقائد و افکار، اور نیتوں اور ارادوں کا مقام ہے۔ دلوں تک اس آگ کے پہنچنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ یہ آگ اس جگہ تک پہنچے گی جو انسان کے برے خیالات، فاسد عقائد، ناپاک خواہشات و جذبات، خبیث نیتوں اور ارادوں کا مرکز ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وہ آگ دنیا کی آگ کی طرح اندھی نہیں ہوگی کہ مستحق اور غیر مستحق سب کو جلا دے بلکہ وہ ایک ایک مجرم کے دل تک پہنچ کر اس کے جرم کی نوعیت معلوم کرے گی اور ہر ایک کو اس کے استحقاق کے مطابق عذاب دے گی۔

جونا گڑھی

جو دلوں پر چڑھتے چلی جائے گی۔

  یعنی اس کی حرارت دل تک پہنچ جائے گی۔ اگرچہ دنیا کی آگ کے اندر بھی یہ خاصیت ہے کہ وہ دل تک پہنچ جائے لیکن وہ پہنچتی نہیں کیوں انسا کی موت اس سے پہلے ہی ہوجاتی ہے لیکن جہنم کی آگ دلوں تک پہنچے گی لیکن موت نہ آئے گی۔ باوجود آرزو کے۔ 

إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ

امین احسن اصلاحی

اس میں وہ موندے ہوئے ہوں گے۔​

یہ آگ ان پر اس طرح بھڑکے گی اور اوپر سے وہ ڈھانک بھی دی جائے گی کہ تپش کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو بلکہ سب کا سب ان کے جلانے ہی میں صرف ہو۔ ’اَوْ صَد الباب‘ کے معنی ہوں گے، دروازے کو بند کر دیا۔ یہ آگ بھی بھٹہ اور پزاوہ کی آگ کی طرح اوپر سے ڈھانک دی جائے گی تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ اپنا عمل کرے۔

جاوید احمد غامدی

اس میں وہ موندے ہوئے ہوں گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

وہ اُن پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی۔

یعنی جہنم میں مجرموں کو ڈال کر اوپر سے اس کو بند کردیا جائے گا۔ کوئی دروازہ تو درکنار کوئی جھری تک کھلی ہوئی نہ ہوگی۔

جونا گڑھی

اور ان پر بڑے بڑے ستونوں میں۔

 مؤصدۃ جہنم کے دروازے اور راستے بند کر دئیے جائیں گے تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے اور انہیں لوہے کی میخوں کے ساتھ باندھ دیا جائے گا، جو لمبے لمبے ستونوں کی طرح ہوں گی، بعض کے نزدیک عمد سے مراد بیڑیاں یا طوق ہیں اور بعض کے نزدیک ستون ہیں جن میں انہیں عذاب دیا جائے گا۔ (فتح القدیر) 

فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ

امین احسن اصلاحی

لمبے ستونوں میں جکڑے ہوئے۔

یہ ان کی ذلت اور بے بسی کی تصویر ہے کہ اس آگ کے اندر وہ لمبے لمبے ستونوں کے ساتھ، بھاری بھاری زنجیروں سے، جکڑے ہوئے بھی ہوں گے کہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں۔ یہاں ستونوں کا ذکر ہے، سورۂ حاقہ میں اسی طرح کے مجرموں کے لیے زنجیر کا بھی ذکر ہے۔ فرمایا ہے:

خُذُوۡہُ فَغُلُّوۡہُ ۵ ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوۡہُ ۵ ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوۡنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوۡہُ ۵ إِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللہِ الْعَظِیْمِ ۵ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (الحاقہ ۶۹: ۳۰-۳۴)
’’اس کو پکڑو، پھر طوق ڈالو، پھر دوزخ میں داخل کرو، پھر ایک زنجیر میں جس کا طول ستّر گز ہے، اس کو جکڑو۔ یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور مسکین کو کھلانے پر نہیں ابھارتا تھا۔‘‘

جاوید احمد غامدی

اونچے ستونوں میں (جکڑ کر باندھے ہوئے)-

n/a

ابو الاعلی مودودی

(اِس حالت میں کہ وہ) اونچے اونچے ستونوں میں (گھرے ہوئے ہوں گے)۔

فِيْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جہنم کے دروازوں کو بند کر کے ان پر اونچے اونچے ستون گاڑ دیے جائیں گے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ مجرم اونچے اونچے ستونوں سے بندھے ہوئے ہوں گے۔ تیسرا مطلب ابن عباس نے یہ بیان کیا ہے کہ اس آگ کے شعلے لمبے ستونوں کی شکل میں اٹھ رہے ہوں گے۔ 

جونا گڑھی

ہر طرف سے بند ہوئی ہوگی۔

n/a