قُلْ هُوَ ٱللَّـهُ أَحَدٌ

امین احسن اصلاحی

کہہ دو، وہ اللہ سب سے الگ ہے۔

’قُلْ‘ منادی کرنے کے مفہوم میں: یہ ’قُلْ‘ اسی مفہوم میں ہے جس میں ’قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ‘ (الکٰفرون ۱۰۹: ۱) میں ہے یعنی اعلان کر دو، برملا کہہ دو اور اس طرح منادی کر دو کہ ہر شخص سن اور جان لے، نہ کسی کو کوئی اشتباہ باقی رہے، نہ کسی مزید سوال و جواب کی گنجائش رہ جائے۔

اعلان کا موقع و محل: اس طرح کے اعلان کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب بحث و مناظرہ کا پورا دور گزر چکتا ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سمجھانے کا حق ادا ہو چکا ہے، اب جو لوگ مزید بحثیں اٹھا ر ہے ہیں وہ سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ بات کو الجھانے اور طول دینے کے لیے اٹھا رہے ہیں۔ اس طرح کے موقع پر یہ مناسب ہوتا ہے کہ بات دوٹوک اور فیصلہ کن انداز میں اس طرح کہہ دی جائے کہ مخاطب اندازہ کر لے کہ متکلم نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا، اب وہ نہ اپنا مزید وقت ضائع کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ اس کے موقف میں کسی تبدیلی یا لچک کی گنجائش ہے۔

’ھُوَ‘ کا مفہوم: ’ھُوَ‘ میرے نزدیک ضمیر شان ہے۔ یہ اس معہود ذہنی یا صورت حال کے لیے آتی ہے جو مخاطب اور متکلم میں اس طرح مشترک ہو کہ اس کے بولتے ہی بے تکلف ذہن اس کی طرف منتقل ہو جائے۔ اسلام کی دعوت شروع ہونے کے بعد اہل عرب کی ہر مجلس میں سب سے زیادہ گرم موضوع یہی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا موضوع تھا۔ دعوت کے دوسرے عنوانات ۔۔۔ معاد اور رسالت ۔۔۔ بھی زیر بحث آتے لیکن ان کی حیثیت ضمنی مباحث کی تھی۔ توحید کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم تھا۔ قریش اس کو اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی شان کا مسئلہ بنا بیٹھے تھے اور کسی قیمت پر بھی اپنے معبودوں اور اپنے ان اجداد کی توہین گوارا کرنے کے لیے تیار نہ تھے جو ان کو پوجتے رہے تھے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی توحید کا ذکر آتا ہے تو وہ دعوت دینے والوں پر ان کا منہ نوچنے کے لیے جھپٹ پڑتے ہیں۔ ایک طرف قریش کی یہ انانیت دوسری طرف قرآن اور رسول کا وہ بے لچک موقف جو سورۂ کافرون میں بیان ہوا کہ پوری قوم کو کاٹ پھینکنا منظور لیکن شرک کے ساتھ کوئی سمجھوتہ منظور نہیں۔

جب تک بحث صرف مشرکین قریش سے تھی اس وقت تک تو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے مسئلہ میں کچھ زیادہ الجھنیں نہیں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے تقلید آباء میں بت پرستی اختیار تو کر لی تھی لیکن اس کی تائید میں انھوں نے نہ متکلمانہ قسم کی موشگافیاں پیدا کی تھیں اور نہ اپنی امیت کے سبب سے یہ چیز وہ پیدا کر ہی سکتے تھے لیکن مدینہ میں کھلم کھلا اہل کتاب سے بھی سابقہ پیش آیا جو اہل کتاب ہونے کے باوجود نہ صرف شرک کی نہایت گھنونی قسموں میں مبتلا تھے بلکہ انھوں نے اپنے شرک کی حمایت میں ایک پورا علم کلام تیار کر رکھا تھا۔ خصوصاً نصاریٰ کی میتھالوجی (MYTHOLOGY) تو اپنی الجھنوں کے اعتبار سے دنیا میں شاید ایک ہی ہے۔ قرآن نے ان سب کو چیلنج کیا، ان سے مباحثے کیے اور ان کی گمراہیاں ان پر واضح کیں۔ ان میں سے جن کو ایمان کی توفیق ہوئی وہ ایمان لائے۔ جو ایمان نہیں لائے ان کو قرآن نے اپنے دلائل سے اس طرح پسپا کر دیا کہ ان کے اہل کتاب ہونے کا رعب کم از کم عربوں کے دلوں پر سے تو بالکل ہی اٹھ گیا۔

توحید کی شان میں ایک مختصر اور جامع سورہ: یہ نئی صورت مقتضی ہوئی کہ توحید کے باب میں ایک مختصر سورہ بھی نازل ہو جو مشرکین اور اہل کتاب دونوں کے پیدا کردہ شرک کے ہر رخنہ کو اس طرح بند کر دے کہ شیطان کے لیے دراندازی کی کوئی راہ کھلی نہ رہ جائے اور جو جامع ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی مختصر بھی ہو کہ اس کو ہر شخص یاد کر کے تعویذ کی طرح حرز جاں بنا سکے۔ چانچہ یہ سورہ نازل ہوئی جو نہایت چھوٹی چھوٹی کل چار آیتوں پر مشتمل ہے لیکن ’معانی‘ کے اعتبار سے اس کو بعض عارفین قرآن نے ثلث قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ بات بالکل مبنی برحقیقت ہے۔ قرآن کے مباحث اگر اپنے مطالب کے اعتبار سے جمع کیے جائیں تو وہ تین جامع عنوانات کے تحت جمع ہو سکتے ہیں: توحید، معاد اور رسالت۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ توحید کا حصہ قرآن میں بقدر ایک ثلث کے ہے۔ یہ مباحث قرآن کی مختلف سورتوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان پھیلے ہوئے مباحث کو اگر اچھی طرح چھانیے تو ان کے اندر سے خدا کی ذات و صفات سے متعلق وہ جواہر ریزے نکلیں گے جو اس مختصر سورہ میں جمع کر دیے گئے ہیں۔ گویا قرآن میں رد شرک کی ساری بحث انہی چند نکتوں پرمبنی ہے جن کا اس سورہ میں اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی اصلی صفات جن کا علم ضروری ہے: ’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ‘ کے الفاظ سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا ہو کہ آپ اللہ کی صفات بیان کریں تب ہی آپ نے یہ سورہ سنائی ہو۔ بلکہ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، فضا میں اس سوال پر گرما گرمی کا پایا جانا اس بات کے لیے کافی تھا کہ یہ سورہ نازل ہو اور لوگوں کو سنا دی جائے۔ ’ھُوَ اللّٰہُ‘ کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اللہ جس کے بارے میں تم سوال و جواب اور بحث و جدال کر رہے ہو اس کی صفات جاننی چاہتے ہو تو مجھ سے سنو، وہ یہ یہ ہیں۔ اس کے بعد وہ صفات بیان ہوئی ہیں جو شرک کے تمام رخنوں کو بند کر دینے والی ہیں۔ مخاطبوں کی گمراہی دور کرنے کے لیے اصلاً انہی صفات کا جاننا ضروری تھا۔ ان کو جان لینے کے بعد دوسری صفات کے جاننے کے لیے راہ خود باز ہو جاتی ہے۔

’اللہ‘: ’اَللّٰہُ‘ اسم ذات ہے۔ اس کے مفہوم پر اس کے محل میں ہم گفتگو کر چکے ہیں۔؂۱ مشرکین عرب اس نام کو اسم ذات ہی کی حیثیت سے استعمال کرتے تھے۔ قرآن نے تمام صفات حسنیٰ کا موصوف اسی اسم کو قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ وہ اللہ ’اَحَدٌ‘ ہے۔ اہل لغت نے ’وَاحِدٌ‘ اور ’اَحَدٌ‘ میں یہ فرق کیا ہے کہ ’اَحَدٌ‘ وہ ہے جس کی ذات میں کوئی شریک نہ ہو اور ’وَاحِدٌ‘ وہ ہے جس کی صفات میں کوئی اس کا شریک نہ ہو۔ غالباً اسی وجہ سے لفظ ’اَحَدٌ‘ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لیے صفت کے طور پر نہیں آیا۔ اس سے یکتائی و بے ہمگی من کل الوجوہ سمجھی جاتی ہے۔ ہر رشتہ و قرابت سے پاکی و برتری اس کا لازمہ ہے۔ اس سے یہ بات بھی نکلی کہ وہ قدیم ہے اور باقی سب حادث و مخلوق۔ ظاہر ہے کہ جو سب سے پہلے خود بخود تھا وہ ہمیشہ سے تھا کیونکہ جو کبھی نیست رہا ہو وہ خود ہست نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے دو باتیں ماننی ضروری ہوئیں۔ ایک یہ کہ وہ ہمیشہ سے ہے۔ دوسری یہ کہ اس کے سوا جو بھی ہیں وہ سب اس کی مخلوق ہیں۔ بے ہمگی کے یہ لازمی نتیجے ہیں جن کا انکار عقل کے خلاف ہے۔ پس یہ کہنا کہ وہ ’اَحَدٌ‘ ہے دوسرے لفظوں میں یہ کہنا ہے کہ وہ قدیم لم یزل اور خالق کل ہے۔

_____

؂۱ ملاحظہ ہو تدبر قرآن۔ جلد اول، صفحات: ۵-۶۔

جاوید احمد غامدی

تم اعلان کرو، (اے پیغمبر)، حقیقت یہ ہے کہ اللہ یکتا ہے۔

اصل میں لفظ ’قُلْ‘ہے۔ یہ اُسی مفہوم میں ہے جس میں پیچھے ’قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ‘* میں آیا ہے، یعنی برملا کہہ دو اور اِس طریقے سے منادی کر دو کہ کسی کو کوئی شبہ باقی نہ رہے، ہر شخص اِس کو اچھی طرح سن لے اور جان لے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِس طرح کے اعلان کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے، جب بحث و مناظرہ کا پورا دور گزر چکتا ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سمجھانے کا حق ادا ہو چکا ہے، اب جو لوگ مزید بحثیں اٹھا رہے ہیں، وہ سمجھنے کے لیے نہیں، بلکہ بات کو الجھانے اور طول دینے کے لیے اٹھا رہے ہیں۔ اِس طرح کے موقع پر یہ مناسب ہوتا ہے کہ بات دو ٹوک اور فیصلہ کن انداز میں اِس طرح کہہ دی جائے کہ مخاطب اندازہ کرلے کہ متکلم نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا، اب وہ نہ اپنا مزید وقت ضائع کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ اُس کے موقف میں کسی تبدیلی یا لچک کی گنجایش ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۶۴۸)

اصل الفاظ ہیں: ’ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘۔ اِن میں ’ھُوَ‘ ضمیر شان ہے۔ یہ جملے سے پہلے آتی ہے اور اہل نحو کے نزدیک مجہول ہوتی ہے۔ اردو زبان میں ہم اِس کا مفہوم ’’بات یہ ہے‘‘، ’’قصہ یہ ہے‘‘،’’حقیقت یہ ہے‘‘ اور اِس طرح کے بعض دوسرے جملوں سے ادا کر سکتے ہیں۔ اِس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اگلے جملے کے لیے ایک ایسا مبتدا میسر ہوجائے جو مخاطب کو خبر کے لیے پوری طرح تیار کر دے۔
’اللّٰہ‘ اسم ذات ہے اور لفظ ’الٰہ‘ پر الف لام داخل کرکے بنا ہے۔ نزول قرآن سے پہلے عرب جاہلیت میں بھی یہ نام اُسی پروردگار کے لیے خاص تھا جو زمین و آسمان اور اُن کے مابین تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ اہل عرب مشرک ہونے کے باوجود اپنے دیوی دیوتاؤں میں سے کسی کو بھی اُس کے برابر قرار نہیں دیتے تھے۔ قرآن نے اِسی نام کو اختیار کیا اور تمام صفات حسنیٰ کا موصوف بنایا ہے۔
’اَحَدٌ‘ کے معنی ہیں جو ہر پہلو سے یگانہ و یکتا اور بے ہمہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اہل لغت نے ’وَاحِد‘ اور ’اَحَد‘ میں یہ فرق کیا ہے کہ ’اَحَد‘ وہ ہے جس کی ذات میں کوئی شریک نہ ہو اور ’وَاحِد‘ وہ ہے جس کی صفات میں کوئی اُس کا شریک نہ ہو۔ غالباً اِسی وجہ سے لفظ ’اَحَدٌ‘ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لیے صفت کے طور پر نہیں آیا۔ اِس سے یکتائی و بے ہمگی من کل الوجوہ سمجھی جاتی ہے۔ ہر رشتہ و قرابت سے پاکی و برتری اِس کا لازمہ ہے۔ اِس سے یہ بات بھی نکلی کہ وہ قدیم ہے اور باقی سب حادث و مخلوق۔ ظاہر ہے کہ جو سب سے پہلے خود بخود تھا، وہ ہمیشہ سے تھا کیونکہ جو کبھی نیست رہا ہو، وہ خود ہرگز ہست نہیں ہو سکتا۔ اِس وجہ سے دو باتیں ماننی ضروری ہوئیں: ایک یہ کہ وہ ہمیشہ سے ہے۔ دوسری یہ کہ اُس کے سوا جو بھی ہیں، وہ سب اُس کی مخلوق ہیں۔ بے ہمگی کے یہ لازمی نتیجے ہیں جن کا انکار عقل کے خلاف ہے۔ پس یہ کہنا کہ وہ ’اَحَدٌ‘ ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہنا ہے کہ وہ قدیم لم یزل اور خالق کل ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۹/ ۶۵۰)

_____
* ۱۰۹: ۱۔

ابو الاعلی مودودی

کہو، وہ اللہ ہے، یکتا۔

اس حکم کے اولین مخاطب تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، کیونکہ آپ ہی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ آپ کا رب کون اور کیسا ہے، اور آپ ہی کو حکم دیا گیا کہ اس سوال کے جواب میں آپ یہ کہیں۔ لیکن حضور کے بعد ہر مومن اس کا مخاطب ہے۔ اسے بھی وہی بات کہنی چاہیے جس کے کہنے کا حکم حضور کو دیا گیا تھا۔

یعنی میرے جس رب سے تم تعارف حاصل کرنا چاہتے ہو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اللہ ہے۔ یہ ان سوال کرنے والوں کی بات کا پہلا جواب ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی نیا رب لے کر نہیں آگیا ہوں جس کی عبادت دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر میں تم سے کروانا چاہتا ہوں، بلکہ وہ وہی ہستی ہے جس کو تم اللہ کے نام سے جانتے ہو۔ ” اللہ ” عربوں کے لیے کوئی اجنبی لفظ نہ تھا۔ قدیم ترین زمانے سے وہ خالق کائنات کے لیے یہی استعمال کر رہے تھے اور اپنے دوسرے معبودوں میں سے کسی پر بھی اس کا اطلاق نہیں کرتے تھے۔ دوسرے معبودوں کے لیے ان کے ہاں الہ کا لفظ رائج تھا۔ پھر اللہ کے بارے میں ان کے جو عقائد تھے ان کا اظہار اس موقع پر خوب کھل کر ہوگیا تھا جب ابرھہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس وقت خانہ کعبہ میں 360 الہوں کے بت موجود تھے، مگر مشرکین نے ان سب کو چھوڑ کر صرف اللہ سے دعائیں مانگی تھیں کہ وہ اس بلا سے ان کو بچائے۔ گویا وہ اپنے دلوں میں اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی اس نازک وقت میں ان کی مدد نہیں کرسکتا۔ کعبے کو بھی وہ ان الہوں کی نسبت سے بیت الآلہہ نہیں، بلکہ اللہ کی نسبت سے بیت اللہ کہتے تھے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مشرکین عرب کا عقیدہ کیا تھا، مثال کے طور پر :

سورة زخرف میں ہے : ” اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ” (آیت 87)

سورة عنکبوت میں ہے : ” اگر تم سے ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کر رکھا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے : (آیات 61 تا 63)

سورة مومنون میں ہے : ” ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے ؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔ ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ۔ ان سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے ؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ یہ ضرور جواب دیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے “۔ (آیات 84 تا 89)

سورة یونس میں ایک اور جگہ ہے : ان سے پوچھو، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں جو تمہیں حاصل ہیں کس کے اختیار میں ہیں ؟ اور کون زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ اور کون اس نظم عالم کی تدبیر کر رہا ہے ؟ یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ” (آیت 31)

اسی سورة یونس میں ایک اور جگہ ہے : ” جب تم لوگ کشتیوں پر سوار ہو کر باد موافق پر فرحان و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک باد مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور مسافر سمجھ لیتے ہیں کہ طوفان میں گھر گئے، اس وقت سب اپنے دین کو اللہ ہی کے لیے خالص کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس بلا سے نجات دے دی تو ہم شکر گزار بندے بنیں گے۔ مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں ” (آیات 22 ۔ 23)

یہی بات سورة بنی اسرائیل میں یوں دہرائی گئی ہے : ” جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو ” (آیت 67)

ان آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ تمہارا کون ہے اور کیسا ہے جس کی بندگی و عبادت کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو، تو انہیں جواب دیا گیا هُوَ اللّٰهُ ، وہ اللہ ہے۔ اس جواب سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ جسے تم خود اپنا اور ساری کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبر و منتظم مانتے ہو، اور سخت وقت آنے پر جسے دوسرے سب معبودوں کو چھوڑ کر مدد کے لیے پکارتے ہو، وہی میرا رب ہے اور اسی کی بندگی کی طرف میں تمہیں بلاتا ہوں، اس جواب میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمالیہ آپ سے آپ آجاتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ بات سرے سے قابل تصور ہی نہیں ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا، اس کا انتظام اور اس کے معاملات کی تدبیر کرنے والا، اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کو رزق دینے والا، اور مصیبت کے وقت اپنے بندوں کی مدد کرنے والا، زندہ نہ ہو، سنتا اور دیکھتا نہ ہو، قادر مطلق نہ ہو، علیم اور حکیم نہ ہو، رحیم اور کریم نہ ہو، اور سب پر غالب ہو۔

نحوی قواعد کی رو سے علماء نے هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ کی متعدد ترکیبیں بیان کی ہیں، مگر ہمارے نزدیک ان میں سے جو ترکیب اس مقام کے ساتھ پوری مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ھُوَ مبتداء ہے، اللہ اس کی خبر ہے اور اَحَدٌ اس کی دوسری خبر، اس ترکیب کے لحاظ سے اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ” وہ (جس کے بارے میں تم لوگ سوال کر رہے ہو) اللہ ہے، یکتا ہے ” دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے، اور زبان کے لحاظ سے غلط نہیں ہے کہ ” وہ اللہ ایک ہے “۔

یہاں سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ احد جس طرح استعمال کیا گیا ہے وہ عربی زبان میں اس لفظ کا غیر معمولی استعمال ہے۔ معمولا یہ لفظ یا تو مضاف یا مضاف الیہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جیسے یوم الاحد، ہفتے کا پہلا دن، اور فابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ ” اپنے کسی آدمی کو بھیجو ” یا نفی عام کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے ما جاءنی احد ” میرے پاس کوئی نہیں آیا “۔ یا عمومیت کا پہلو لیے ہوئے سوالیہ فقرے میں بولا جاتا ہے، جیسے ھل عندک احد ؟ ” کیا تمہارے پاس کوئی ہے “؟ یا اسی عمومیت کے پہلو سے شرطیہ جملہ میں بولا جاتا ہے، جیسے ان جاءک احد، ” اگر تمہارے پاس کوئی آئے “۔ یا گنتی میں بولا جاتا ہے، جیسے احد، اثنان، احد عشر، ایک، دو گیا رہ، ان استعمالات کے سوا نزول قرآن سے پہلے کی عربی زبان میں اس امر کی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ محض احد وصف کے طور پر کسی شخص یا چیز کے لیے بولا گیا ہو، اور نزول قرآن کے بعد یہ لفظ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال کیا گیا ہے، دوسرے کسی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ اس غیر معمولی طرز بیان سے خودبخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یکتا و یگانہ ہونا اللہ کی خاص صفت ہے، موجودات میں سے کوئی دوسرا اس صفت سے متصف نہیں ہے، وہ ایک ہے، کوئی اس کا ثانی نہیں۔

پھر جو سوالات مشرکین اور اہل کتاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کے رب کے بارے میں کیے تھے ان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ هُوَ اللّٰهُ کہنے کے بعد اَحَدٌ کہہ کر ان کا جواب کس طرح دیا گیا ہے :

اولا، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہی اکیلا رب ہے، کسی دوسرے کا ربوبیت میں کوئی حصہ نہیں ہے، اور چونکہ الہ (معبود) وہی ہوسکتا ہے جو رب ( مالک و پروردگار) ہو، اس لیے الوہیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں۔

ثانیا۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہی تنہا کائنات کا خالق ہے، تخلیق کے اس کام میں کوئی اور اس کا شریک نہیں ہے۔ وہی اکیلا مالک الملک ہے، نظام عالم کا مدبر و منتظم ہے، اپنی مخلوق کا رزق رساں ہے، اور آڑے وقت میں مدد کرنے والا فریاد رس ہے، خدائی کے ان کاموں میں، جن کو تم خود مانتے ہو کہ یہ اللہ کے کام ہیں، کسی دوسرے کا قطعا کوئی حصہ نہیں ہے۔

ثالثا۔ چونکہ انہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ کس چیز سے بنا ہے ؟ اس کا نسب کیا ہے ؟ وہ کس جنس سے ہے ؟ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے ؟ اور اس کے بعد کون اس کا وارث ہوگا ؟ اس لیے ان کو ان سارے سوالات کا جواب بھی اللہ تعالیٰ کے لیے صرف ایک لفظ اَحَد بول کر دے دیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ (١) وہی ایک خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اس سے پہلے کوئی خدا تھا، نہ اس کے بعد کوئی خدا ہوگا (٢) خداؤں کی کوئی جنس نہیں ہے جس کا وہ فرد ہو، بلکہ وہ اکیلا خدا ہے اور کوئی اس کا ہم جنس نہیں (٣) اس کی ذات محض واحد نہیں بلکہ اَحَد ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کثرت کا کوئی شائبہ نہیں ہے، وہ اجزاء سے مرکب وجود نہیں ہے جو قابل تجزیہ و تقسیم ہو، جو کوئی شکل و صورت رکھتا ہو، جو کسی جگہ میں رہتا ہو یا کوئی چیز اس کے اندر جگہ پاتی ہو، جس کا کوئی رنگ ہو، جس کے کچھ اعضا ہوں، جس کی کوئی سمت اور جہت ہو، اور جس کے اندر کسی قسم کا تغیر و تبدل ہوتا ہو۔ تمام اقسام کی کثرتوں سے بالکل پاک اور منزہ وہ ایک ہی ذات ہے جو ہر لحاظ سے اَحَد ہے۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عربی زبان میں ” واحد ” کا لفظ بالکل اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم اردو میں ” ایک ” کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بڑی سے بڑی کثرتوں پر مشتمل کسی مجموعہ کو بھی اس کی مجموعی حیثیت کے لحاظ سے واحد یا ایک کہا جاتا ہے، جیسے ایک آدمی، ایک قوم، ایک ملک، ایک دنیا، حتی کہ ایک کائنات، اور کسی مجموعہ کے ہر جز کو الگ الگ بھی ایک ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن اَحَد کا لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں الہ واحد، ایک ہی معبود، یا اللہ الواحد القھار، اکیلا اللہ جو سب کو مغلوب کر کے رکھنے والا ہے، کہا گیا ہے۔ محض واحد نہیں کہا گیا، کیونکہ یہ لفظ ان چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنی ذات میں طرح طرح کی کثرتیں رکھتی ہیں، بخلاف اس کے اللہ کے لیے اور صرف اللہ ہی کے لیے احد کا لفظ مطلقا استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ وجود میں صرف وہی ایک ہستی ایسی ہے جس میں کسی حیثیت سے بھی کوئی کثرت نہیں ہے، جس کی وحدانیت ہر لحاظ سے کامل ہے) ۔

جونا گڑھی

آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے

n/a

ٱللَّـهُ ٱلصَّمَدُ

امین احسن اصلاحی

اللہ سب کے ساتھ ہے۔

’صمد‘ کا مفہوم: لفظ ’صَمَدُ‘ اصل میں اس بڑی چٹان کے لیے آتا ہے جس کی دشمن کے حملہ کے وقت پناہ پکڑتے ہیں، یہیں سے قوم کے سردار کو جو قوم کا پشت پناہ اور سب کا مرجع ہو ’صَمَدُ‘ کہنے لگے۔ زبور اور دوسرے آسمانی صحیفوں میں اللہ تعالیٰ کو بکثرت چٹان اور مدد کی چٹان کہا گیا ہے۔

جس طرح ’غَنِیُّ‘ کے بعد قرآن میں ’حَمِیْدٌ‘ کی صفت اللہ تعالیٰ کے لیے بطور بدرقہ آئی ہے اسی طرح یہاں ’اَحَدٌ‘ کے بعد ’صَمَدٌ‘ کی صفت بطور بدرقہ ہے۔ ’غَنِیُّ‘ اور ’حَمِیْدٌ‘ کی وضاحت کرتے ہوئے ہم بیان کر چکے ہیں کہ لفظ ’غَنِیُّ‘ سے خدا کی بے نیازی کا جو تصور ذہن میں آتا ہے اس سے بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے بالکل بے تعلق ہے۔ اس کا اثر ان پر یہ پڑتا ہے کہ وہ اس کو اپنی رسائی سے بالاتر سمجھ کر دوسروں کے سہارے پکڑتے ہیں۔ لوگوں کو اس غلط فہمی سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ’غَنِیُّ‘ کے ساتھ ’حَمِیْدٌ‘ کا بھی ذکر فرمایا جس سے مقصود یہ رہنمائی دینا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بے نیاز ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سزاوار حمد کاموں کا منبع بھی ہے۔ اس وجہ سے اس کے بندوں کو چاہیے کہ ہمیشہ اسی سے لو لگائیں، کبھی اس سے مایوس ہو کر دوسروں کا سہارا نہ پکڑیں۔

ٹھیک اسی طرح ’اَحَدٌ‘ کے بعد یہاں صفت ’صَمَدٌ‘ کی یاددہانی فرمائی تاکہ لفظ ’اَحَدٌ‘ سے خدا کی یکتائی و بے ہمگی کا جو تصور سامنے آتا ہے اس سے مغلوب ہو کر کوئی اللہ تعالیٰ کو ایک بالکل الگ تھلگ اور خاموش علۃ العلل نہ سمجھ بیٹھے ورنہ یہ غلط فہمی بھی دوسرے سہاروں کی تلاش کا سبب بن سکتی ہے۔ اس غلط فہمی سے بچانے کے لیے ’اَللّٰہُ الصَّمَدُ‘ کہہ کر وضاحت فرما دی کہ بے شک اللہ ہے تو سب سے الگ، بے نیاز و بے ہمہ، مگر وہ سب کی خبرگیری اور دست گیری بھی کرتا ہے، سب کے لیے پناہ کی چٹان بھی ہے، سب کا ماویٰ و مرجع بھی ہے۔ اس کے بندے جب اس سے فریاد کرتے ہیں وہ ان کی فریاد سنتا اور ان کی فریاد رسی کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی متقابل صفات میں صحیح توازن قائم نہ رکھنے سے قوموں کو جو گمراہیاں پیش آئی ہیں اور ان سے شرک کے جو دروازے کھلے ہیں ان کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ بس اتنی بات یاد رکھیے کہ مذاہب کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی اکثر گمراہیوں کی تہ میں ان کا یہی عدم توازن مضمر ہے۔ اس قبیل کی جو گمراہیاں مشرکین عرب اور یہود و نصاریٰ کے ہاں پائی جاتی تھیں ان کا ذکر اس کتاب میں ان کے محل میں ہوا ہے۔ ان کو نگاہ میں رکھیے تو اس کی ہلاکت انگیزیوں کی پوری تصویر ذہن کے سامنے آ جائے گی۔

جاوید احمد غامدی

اللہ سب کا سہارا ہے۔

اصل میں لفظ ’صَمَد‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ اُس بڑی چٹان کے لیے آتا ہے جو حملے کے وقت پناہ کا کام دے۔ زبور اور دوسرے صحیفوں میں اللہ تعالیٰ کو اِسی لحاظ سے ’چٹان‘ اور ’مدد کی چٹان‘ کہا گیا ہے۔ ’اَحَدٌ‘ کے ساتھ یہ اُسی طرح بطور بدرقہ لایا گیا ہے، جس طرح ’غَنِیّ‘ کے ساتھ ’حَمِیْد‘ لایا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ یقیناً سب سے الگ اور ہر لحاظ سے بے ہمہ ہے، مگر اِس کے ساتھ وہی سب کے لیے پناہ کی چٹان اور سب کا ملجا و ماویٰ بھی ہے۔ اُس کے بندے جب اُس کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ اُن کی بات سنتا اوراُن کی فریاد کو پہنچتا ہے۔ اُس کے یگانہ و یکتا ہونے سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کوئی خاموش علۃ العلل یا محرک اول ہے جسے اپنی مخلوقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔

اصل میں لفظ صَمَد استعمال کیا گیا ہے جس کا مادہ ص، م، د ہے۔ عربی زبان میں اس مادے سے جو الفاظ نکلے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے معانی کی وسعت کس قدر ہے :۔

اَلصَّمدُ ۔ قصد کرنا، بلند مقام جو بڑی ضخامت رکھتا ہو، سطح مرتفع، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو، وہ سردار جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو۔

اَلصَّمَدُ ۔ ہر چیز کا بلند حصہ، وہ شخص جس سے بالا تر کوئی دوسرا شخص نہ ہو، وہ سردار جس کی اطاعت کی جاتی ہو اور اس کے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کیا جاتا ہو، وہ سردار جس کی طرف حاجتمند لوگ رجوع کرتے ہوں، دائم، بلند مرتبہ، ٹھوس جس میں کوئی خول یا جھول نہ ہو، اور جس سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو نہ اس میں داخل ہوسکتی ہو، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو۔

اَلمُصمَدُ ۔ ٹھوس چیز جس کا کوئی جوف نہ ہو۔

اَلمُصَمَّدُ ۔ مقصود جس کی طرف جانے کا قصد کیا جائے، سخت چیز جس میں کوئی کمزوری نہ ہو۔

بَیتٌ مُصَمَّدٌ۔ وہ گھر جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو۔

بِنَاءٌ مُّصمَدٌ۔ بلند عمارت۔

صَمَدَہٗ وَ صَمَدَ اِلَیہِ صَمدًا۔ اس شخص کی طرف جانے کا قصد کیا۔

اَصمَدَ اِلَیہ الاَمرَ ۔ اس کے سپرد معاملہ کردیا، اس کے آگے معاملہ پیش کردیا، اس کے آگے معاملہ پیش کردیا، اس کے اوپر معاملہ میں اعتماد کیا۔ (صحاح، قاموس، لسان العرب)

ان لغوی معنوں کی بنا پر آیت اللّٰهُ الصَّمَدُ میں لفظ الصَّمَدُ کی جو تفسیریں صحابہ و تابعین اور بعد کے اہل علم سے منقول ہیں انہیں ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

حضرت علی، عکرمہ اور کعب احبا : صَمَد وہ ہے جس سے بالا تر کوئی نہ ہو۔

حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس اور ابو وائل شقیق بن سلمہ : ” وہ سردار جس کی سیادت کامل ہو اور انتہا کو پہنچی ہوئی ہو “۔

ابن عباس کا دوسرا قول : ” صمد وہ ہے جس کی طرف لوگ کسی بلا یا مصیبت کے نازل ہونے پر مدد کے لیے رجوع کریں “۔ ان کا ایک اور قول ” وہ سردار جو اپنی سیادت میں، اپنے شرف میں، اپنی عظمت میں، اپنے حلم اور بردباری میں، اپنے علم میں اور اپنی حکمت میں کامل ہو “

حضرت ابوہریرہ : ” وہ جس میں سے نہ کوئی چیز کبھی نکلی ہو نہ نکلتی ہو “۔ جو نہ کھاتا ہو نہ پیتا ہو “۔ اسی کے ہم معنی اقوال شعبی اور محمد بن کعب القرظی سے بھی منقول ہیں۔

سدی۔ ” مطلوب چیزیں حاصل کرنے کے لیے لوگ جس کا قصد کریں اور مصائب میں مدد کے لیے جس کی طرف رجوع نہ کریں “۔

سعید بن جبیر : ” وہ جو اپنی تمام صفات اور اعمال میں کامل ہو “۔

ربیع بن انس : ” وہ جس پر کوئی آفت نہ آتی ہو “۔

مقاتل بن حیان : ” وہ جو بےعیب ہو “۔

ابن کیسان : ” وہ جس کی صفت سے کوئی دوسرا متصف نہ ہو “۔

حسن بصری اور قتادہ : ” جو باقی رہنے والا اور لازوال ہو ” اسی سے ملتے جلتے اقوال مجاہد اور معمر اور مرۃ الہمدانی سے بھی منقول ہیں۔

مرۃ الہمدانی کا ایک اور قول یہ ہے کہ ” وہ جو اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے اور جو کام چاہے کرے، اس کے حکم اور فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا کوئی نہ ہو “۔

ابراہیم نخعی : ” وہ جس کی طرف لوگ اپنی حاجتوں کے لیے رجوع کریں “۔

ابوبکر الانباری : ” اہل لغت کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صَمَد اس سردار کو کہتے ہیں جس سے بالا تر کوئی اور سردار نہ ہو، اور جس کی طرف لوگ اپنی حاجات اور اپنے معاملات میں رجوع کریں “۔ اسی کے قریب الزجاج کا قول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ” صَمَد وہ ہے جس پر سرداری ختم ہوگئی ہو اور ہر ایک اپنی حاجات کے لیے جس کی طرف رجوع کرے “۔

اب غور کیجیے کہ پہلے فقرے میں اللّٰهُ اَحَدٌ کیوں کہا گیا، اور اس فقرے میں اللّٰهُ الصَّمَدُ کہنے کی کیا وجہ ہے۔ لفظ اَحَدٌ کے متعلق ہم بیان کرچکے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے، کسی اور کے لیے سرے سے مستعمل ہی نہیں ہے، اس لیے اسے اَحَدٌ، یعنی نکرہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے، لیکن صَمَد کا لفظ چونکہ مخلوقات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے اللہ صمد کہنے کے بجائے اَللّٰهُ الصَّمَدُ کہا گیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ اصلی اور حقیقی صَمَد اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ مخلوق اگر کسی حیثیت سے صمد ہو بھی تو کسی دوسری حیثیت سے وہ صمد نہیں ہے، کیونکہ وہ فانی ہے، لازوال نہیں ہے، قابل تجزیہ و تقسیم ہے، مرکب ہے، کسی وقت اس کے اجزاء بکھر سکتے ہیں، بعض مخلوقات اس کی محتاج ہیں تو بعض کا وہ خود محتاج ہے، اس کی سیادت اضافی ہے نہ کہ مطلق، کسی کے مقابلے میں وہ برتر ہے تو اس کے مقابلے میں کوئی اور برتر ہے، بعض مخلوقات کی بعض حاجات کو وہ پورا کرسکتا ہے، مگر سب کی تمام حاجات کو پورا کرنا کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے۔ بخلاف اس کے اللہ تعالیٰ کی صمدیت ہر حیثیت سے کامل ہے۔ ساری دنیا اس کی محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر اچیز اپنے وجود بقا اور اپنی حاجات و ضروریات کے لیے شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اسی کی طرف رجوع کرتی ہے اور سب کی تمام حاجات پوری کرنے والا وہی ہے۔ وہ غیر فانی اور لازوال ہے۔ رزق دیتا ہے، لیتا نہیں ہے، مفرد ہے، مرکب نہیں ہے کہ قابل تجزیہ و تقسیم ہو۔ ساری کائنات پر اس کی سیادت قائم ہے اور وہ سب سے برتر ہے۔ اس لیے وہ محض صَمَد نہیں، بلکہ الصمد ہے، یعنی ایک ہی ایسی ہستی جو حقیقت میں صمدیت سے بتمام و کمال متصف ہے۔

پھر چونکہ وہ الصمد ہے اس لیے لازم آتا ہے کہ وہ یکتا اور یگانہ ہو، کیونکہ ایسی ہستی ایک ہی ہوسکتی ہے جو کسی کی حاجتمند نہ ہو اور سب جس کے محتاج ہوں۔ دو یا زائد ہستیاں سب سے بےنیاز اور سب کی حاجت روا نہیں ہوسکتیں۔ نیز اس کے الصمد ہونے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہی ایک معبود ہو، کیونکہ انسان عبادت اسی کی کرتا ہے جس کا وہ محتاج ہو۔ اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہ ہو، کیونکہ جو حاجت روائی کی طاقت اور اختیارات ہی نہ رکھتا ہو اس کی بندگی و عبادت کوئی ہوشمند آدمی نہیں کرسکتا۔

جونا گڑھی

اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے

یعنی سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔

لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ

امین احسن اصلاحی

نہ وہ کسی کا باپ اور نہ کسی کا بیٹا۔نہ وہ کسی کا باپ اور نہ کسی کا بیٹا۔

نصاریٰ کی گمراہی اور ان کا اعتراف: نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی کا جنا ہوا۔ یہ بات اگرچہ لفظ ’اَحَدٌ‘ کے اندر بھی، جیسا کہ ہم نے اس کی وضاحت کی ہے۔ موجود تھی اور وہ عاقلوں کے لیے کافی ہے لیکن جو چیزیں قوموں کے لیے مزلہ قدم ہوتی ہیں ان کو قرآن نے مختلف اسلوبوں سے اس طرح واضح کر دیا ہے کہ کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ یہ مسئلہ بھی انہی مسائل میں سے ہے۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی شادیوں اور ان کے اولاد و احفاد کی جو تفصیلات ہمیں یونانیوں اور ہندوؤں کی دیو مالا (MYTHOLOGY) میں ملتی ہیں اسی سے ملتی جلتی مزعومات ہمیں ان قوموں کے اندر بھی ملتی ہیں جو قرآن کی اول مخاطب تھیں۔ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں مانتے تھے۔ یہود نے بھی تورات کے حامل ہونے کے مدعی ہوتے ہوئے عزیر کو خدا کا بیٹا بنا لیا۔ نصاریٰ نے باپ، بیٹے اور روح القدس کی ایک تثلیث قائم کی اور اس کے تعصب میں اس طرح گرفتار ہوئے کہ ان کے پادری ایک زمانہ میں جب کسی کو اپنے دین میں داخل کرتے تو اس سے پہلے اس شخص سے وہ نعوذ باللہ اس خدا پر لعنت کرواتے جس کی صفات ’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘ میں بیان ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سورہ پر ان کا غصہ اسی وجہ سے تھا کہ اس میں توحید کا جو تصور دیا گیا ہے اس کے ہوتے نہ خدا کو باپ فرض کرنے کی گنجائش باقی رہتی تھی نہ بیٹا اور نہ کسی کو اس کی ماں بنایا جا سکتا تھا۔

قرآن نے ’لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ‘ کے الفاظ سے خدا کی یکتائی اور بے ہمگی کی حقیقت اس طرح بے نقاب کر دی ہے کہ اس کے بعد اس باب میں کسی اشتباہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے اور دنیا کو یہ روشنی سب سے پہلے قرآن ہی کے ذریعے سے ملی ہے جس کا اعتراف اب وہ لوگ بھی کرنے لگے ہیں جو اپنے قومی و مذہبی تعصبات کے خول سے باہر نکل کر حقائق کا مواجہہ کرنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ جو عیسائی اس خدا کو کبھی نعوذ باللہ گالیاں دیتے تھے جس کا ذکر سورۂ اخلاص میں ہوا ہے اب انہی عیسائیوں کے اندر سے ایسے لوگ بھی پیدا ہو رہے ہیں جو علانیہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ توحید کی حقیقت سے دنیا سب سے پہلے قرآن کے ذریعہ سے آشنا ہوئی ہے۔

جاوید احمد غامدی

وہ نہ باپ ہے نہ بیٹا۔

یہ بات لفظ ’اَحَدٌ‘ کے اندر بھی موجود تھی، لیکن قرآن کے مخاطبین چونکہ خدا کے بیٹے اور بیٹیاں بنائے ہوئے تھے، اِس لیے لفظ کا یہ مضمر اُس نے کھول دیا ہے تاکہ خدا کی یکتائی اور بے ہمگی کی حقیقت اِس طرح بے نقاب کر دی جائے کہ نہ اشتباہ کی گنجایش باقی رہے، نہ کوئی چیز مزلۂ قدم بن سکے۔

ابو الاعلی مودودی

نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔

مشرکین نے ہر زمانے میں خدائی کا یہ تصور اختیار کیا ہے کہ انسانوں کی طرح خداؤں کی بھی کوئی جنس ہے جس کے بہت سے افراد ہیں، اور ان میں شادی بیاہ اور توالد و تناسل کا سلسلہ چلتا ہے۔ اس جاہلانہ تصور سے انہوں نے اللہ رب العالمین کو بھی پاک اور بالا تر نہیں سمجھا اور اس کے لیے بھی اولاد تجویز کی۔ چنانچہ اہل عرب کا یہ عقیدہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ انبیاء علیہم السلام کی امتیں بھی اس جہالت سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ ان کے ہاں بھی کسی بزرگ انسان کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینے کا عقیدہ پیدا ہوگیا۔ ان مختلف توہمات میں دو قسم کے تصورات ہمیشہ خلط ملط ہوتے رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جن کو وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رہے ہیں وہ اس ذات پاک کی نسبی اولاد ہے۔ اور بعض نے یہ دعوی کیا کہ جس کو وہ اللہ کا بیٹا کہہ رہے ہیں اسے اللہ نے اپنا متبنی بنایا ہے۔ اگرچہ ان میں سے کسی کی یہ جرات نہیں ہوئی کہ معاذ اللہ کسی کو اللہ کا باپ قرار دیں، لیکن ظاہر ہے کہ جب کسی ہستی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ توالد و تناسل سے پاک نہیں ہے، اور اس کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی انسان کی طرح اس قسم کی کوئی ہستی ہے جس کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے، اور جس کو لا ولد ہونے کی صورت میں کسی کو بیٹا بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے، تو پھر انسانی ذہن اس گمان سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ اسے بھی کسی کی اولاد سمجھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو سوالات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھے گ ٤ ے تھے ان میں ایک سوال یہ تھا کہ اللہ کا نسب کیا ہے ؟ اور دوسرا یہ کہ کس سے اس نے دنیا کی میراث پائی ہے اور کون اس کے بعد وارث ہوگا ؟

ان جاہلانہ مفروضات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ منطقی طور پر بیان کو فرض کرلینے سے کچھ اور چیزوں کو بھی فرض کرنا لازم آتا ہے۔

اول یہ کہ خدا ایک نہ ہو، بلکہ خداؤں کی کوئی جنس ہو، اور اس کے افراد خدائی اوصاف، افعال اور اختیارات میں شریک ہوں، یہ بات خدا کی صرف نسبی اولاد فرض کرلینے ہی سے لازم نہیں آتی، بلکہ کسی کو متبنی فرض کرنے سے بھی لازم آتی ہے، کیونکہ کسی کا متبنی لا محالہ اس کا ہم جنس ہی ہوسکتا ہے، اور جب معاذ اللہ وہ خدا کا ہم جنس ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خدائی کے اوصاف بھی رکھتا ہے۔

دوم یہ کہ اولاد کا کوئی تصور اس کے بغیر نہیں کیا جاسکتا کہ نر و مادہ میں اتصال ہو اور کوئی مادہ باپ اور ماں کے جسم سے نکل کر بچے کی شکل اختیار کرے۔ پس اللہ کے لیے اولاد فرض کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ بذات خود معاذہ اللہ فانی ہو اور باقی رہنے والی چیز خداؤں کی نسل ہو نہ کہ ذات خدا۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ تمام فانی افراد کی طرح نعوذ باللہ خدا کی بھی کوئی ابتدا اور انتہا ہو۔ کیونکہ توالد و تناسل پر جن اجناس کے بقاء کا انحصار ہوتا ہے ان کے افراد نہ ازلی ہوتے ہیں نہ ابدی۔

چہارم یہ کہ کسی کو متبنی بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک لا ولد شخص اپنی زندگی میں کسی مددگار کا، اور اپنی وفات کے بعد کسی وارث کا حاجت مند ہوتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے لیے یہ فرض کرنا کہ اس نے کسی کو بیٹا بنایا ہے، اس ذات پاک کی طرف لازما وہی سب کمزوریاں منسوب کرنا ہے جو فانی اشخاص میں پائی جاتی ہیں۔

ان تمام مفروضات کی جڑ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو احد اور الصمد کہنے سے کٹ جاتی ہے، لیکن اس کے بعد یہ ارشاد فرمانے سے کہ ” نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد “، اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ پھر چونکہ ذات باری کے حق میں یہ تصورات شرک کے اہم ترین اسباب میں سے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف سورة اخلاص ہی میں ان کی صاف صاف اور قطعی و حتمی تردید کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ جگہ جگہ اس مضمون کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو پوری طرح سمجھ لیں۔ مثال کے طور پر آیات ذیل ملاحظہ ہوں :

ۭاِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭسُبْحٰنَهٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ ۘ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ (النساء، 171) ” اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے، وہ پاک ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اس کی ملک ہے۔

اَلَآ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَيَقُوْلُوْنَ ۔ وَلَدَ اللّٰهُ ۙ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ (الصافات، 151 ۔ 152) ” خوب سن رکھو، یہ لوگ دراصل اپنی من گھڑت سے یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے۔ فی الواقع یہ قطعی جھوٹے ہیں “۔

وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَـبًا ۭ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ (الصافات، 158) ” انہوں نے اللہ اور فرشتوں کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے، حالانکہ فرشتے خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ (مجرموں) کی حیثیت سے) پیش کیے جانے والے ہیں “۔

وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا ۭاِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ (الزخرف، 15) ” لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے “۔

وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭسُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ ۔ بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ۭ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ (الانعام، 100 ۔ 101) ” اور لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا دیا، حالانکہ وہ ان کا خالق ہے۔ اور انہوں نے بےجانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیں، حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو وہ کہتے ہیں۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجود ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی ہی نہیں ہے، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے “۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ (الانبیاء، 26) ” اور ان لوگوں نے کہا کہ خدائے رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے، پاک ہے وہ، بلکہ (جن کو یہ اس کی اولاد کہتے ہیں) وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے “۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ ۭ ھُوَ الْغَنِيُّ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا ۭ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (یونس، 68) ” لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے، سبحان اللہ، وہ تو بےنیاز ہے، آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملک ہے۔ تمہارے پاس اس قول کی آخر دلیل کیا ہے ؟ کیا تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے ؟”۔

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ (بنی اسرائیل، 111) ” اور (اے نبی) کہو، تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو “۔

مَا اتَّخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰهٍ (المومنون، 91) اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے “۔

ان آیات میں ہر پہلو سے ان لوگوں کے عقیدے کی تردید کردی گئی ہے جو اللہ کے لیے نسبی اولاد یا متبنی بنائی ہوئی اولاد تجویز کرتے ہیں، اور اس کے غلط ہونے کے دلائل بھی بیان کردیے گئے ہیں، یہ اور اسی مضمون کی دوسری بہت سی آیات جو قرآن مجید میں، سورة اخلاص کی بہترین تفسیر کرتی ہیں۔

جونا گڑھی

نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا

یعنی نہ کوئی چیز اس سے نکلی ہے نہ وہ کسی چیز سے نکلا ہے۔

وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدٌۢ

امین احسن اصلاحی

اور نہ کوئی اس کا کفو۔

خدا کا صحیح تصور: ’کُفُوٌ‘ کے معنی ہم سر، ذات، برادری کے ہیں۔ یعنی کوئی اس کے جوڑ کا نہیں۔ سب مخلوق وہ خالق، سب محتاج وہ غنی، سب فانی اور وہ تنہا باقی۔

اس سورہ میں جو مثبت و منفی صفات اللہ تعالیٰ کی مذکور ہوئی ہیں ان سب کو سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کا تصور ذہن میں آراستہ کیجیے تو بالاجمال وہ تصور یہ ہوگا کہ وہ ازلی و ابدی ہے۔ جب کچھ نہیں تو وہ تھا اور جب کچھ نہیں ہو گا تب بھی وہ ہو گا۔ وہ اپنی ذات میں کامل اور بالکل بے نیاز ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، سب اس کے محتاج ہیں۔ وہ سب کے لیے سہارا اور سب کے لیے پناہ ہے۔ ہر چیز اس کے حکم سے وجود میں آتی ہے اور اسی کے حکم سے فنا ہوتی ہے۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا بلکہ سب کا خالق اور سب کا پروردگار ہے۔ کوئی چیز اس کی ذات یا اس کے جوہر سے نہیں ہے بلکہ ہر چیز اس کی مخلوق و مربوب ہے اور کوئی اس کا ہم سر یا اس کی برابری کا نہیں ہے بلکہ سب اس کے بندے، غلام اور محکوم ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے۔

اصل میں لفظ ’کُفُوًا‘ ہے۔ یہ نظیر، مشابہ، مماثل اور ہم رتبہ کے معنی میں آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات میں کوئی نہیں ہے جو اللہ کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے کسی نوعیت کی کوئی مشابہت رکھتا ہو۔ وہ اپنے مقام و مرتبہ اور اپنی صفات، افعال اور اختیارات میں بالکل یکتا اور یگانہ ہے۔

ایمان و عقیدہ کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ یہ سورہ اتمام حجت کے درجے تک اِس مسئلے کو واضح کر دیتی ہے۔ چنانچہ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِسی بنا پر سورہ کی تفسیر کے آخر میں اِس کے مباحث کا خلاصہ کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اِس سورہ میں جو مثبت و منفی صفات اللہ تعالیٰ کی مذکور ہوئی ہیں، اُن سب کو سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کا تصور ذہن میں آراستہ کیجیے تو بالاجمال وہ تصور یہ ہو گا کہ وہ ازلی و ابدی ہے۔ جب کچھ نہیں تھا تو وہ تھااور جب کچھ نہیں ہو گا تب بھی وہ ہو گا۔ وہ اپنی ذات میں کامل اور بالکل بے نیاز ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ، سب اُس کے محتاج ہیں۔ وہ سب کے لیے سہارا اور سب کے لیے پناہ ہے۔ ہر چیز اُس کے حکم سے وجود میں آتی ہے اور اُسی کے حکم سے فنا ہوتی ہے۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، بلکہ سب کا خالق اور سب کا پروردگار ہے۔ کوئی چیز اُس کی ذات یا اُس کے جوہر سے نہیں ہے، بلکہ ہر چیز اُس کی مخلوق و مربوب ہے اور کوئی اُس کا ہم سریا اُس کی برابری کا نہیں ہے، بلکہ سب اُس کے بندے، غلام اور محکوم ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۶۵۲)

ابو الاعلی مودودی

اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

اصل میں لفظ کُفُو استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں نظیر، مشابہ، مماثل، ہم رتبہ، مساوی، نکاح کے معاملہ میں کفو کا لفظ ہماری زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ لڑکا اور لڑکی معاشرتی حیثیت سے برابر کی جوڑ ہوں۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات میں کوئی نہیں ہے، نہ کبھی تھا، نہ کبھی ہوسکتا ہے، جو اللہ کے مانند، یا اس کا ہم مرتبہ ہو، یا جو اپنی صفات، افعال اور اختیارات میں اس سے کسی درجہ میں بھی مشابہت رکھتا ہو۔

جونا گڑھی

اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔

اس کی ذات میں اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں۔ (لیس کمثلہ شئی) حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” انسان مجھے گالی دیتا ہے یعنی میرے لیے اولاد ثابت کرتا ہے، حالانکہ میں ایک ہوں بےنیاز ہوں، میں نے کسی کو جنا ہے نہ کسی سے پیدا ہوا ہوں اور نہ کوئی میرا ہمسر ہے (صحیح بخاری) اس سورت میں ان کا بھی رد ہوگیا جو متعدد خداؤں کے قائل ہیں اور جو اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں اور جو اس کو دوسروں کا شریک گردانتے ہیں اور ان کا بھی جو سرے سے وجود باری تعالیٰ ہی کے قائل نہیں۔