جب آسمان پھٹ جائے گا۔
یعنی جب قیامت کی ہلچل پڑے گی تو یہ آسمان جو اِس وقت ایک محکم چھت کی صورت میں دکھائی دیتا ہے، اِس میں شگاف ہی شگاف نظر آئیں گے۔ اِس کی صورت کیا ہو گی؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس کا صحیح تصور آج نہیں کیا جا سکتا، لیکن اِس کی یاددہانی اِس لیے فرمائی گئی ہے کہ جو اغنیا و مستکبرین اپنے قلعوں اور گڑھیوں کے اعتماد پر بالکل نچنت ہیں، سمجھتے ہیں کہ اُنھوں نے جو کچھ بنا رکھا ہے، وہ اُن کو ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہے، اُن کو جھنجھوڑا جائے کہ قیامت کی ہلچل ایسی ہو گی کہ تمھارے بنائے ہوئے گھروندوں کاتو کیا ذکر، اِس پورے عالم کی یہ محکم چھت جس میں تم ڈھونڈے سے بھی کوئی رخنہ نہیں پا سکتے، بالکل رخنہ ہی رخنہ اور شگاف ہی شگاف بن کر رہ جائے گی۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۲۳۹)
جب آسمان پھٹ جائے گا،
n/a
جب آسمان پھٹ جائے گا
یعنی اللہ کے حکم اور اس کی ہیبت سے پھٹ جائے گا اور فرشتے نیچے اتر آئیں گے۔
جب آسمان پھٹ جائے گا۔
ستاروں کا نظام درہم برہم: ’اِنْتِثَارٌ‘ کے معنی بکھر جانے اور منتشر و پراگندہ ہو جانے کے ہیں۔ یعنی آج تو ستارے ایک غیر مرئی شیرازے میں پروئے ہوئے آسمان کی چھت میں قمقموں کی طرح ٹنکے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اس دن یہ شیرازہ بکھر جائے گا اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ادھر ادھر پراگندہ ہو جائیں گے۔ سابق سورہ میں ان کے بے نور ہو جانے کا ذکر ہوا ہے اس لیے کہ سورج کی بساط لپیٹ دیے جانے کے باعث نظام شمسی سے ان کا تعلق ختم ہو جائے گا، اس سورہ میں ان کے انتشار کا ذکر ہوا اس لیے کہ وہ شامیانہ ہی باقی نہیں رہے گا جس کی آرائش کے لیے ان کو آویزاں کیا گیا تھا۔
جب تارے بکھر جائیں گے۔
n/a
اور جب تارے بکھر جائیں گے،
n/a
جب ستارے جھڑ جائیں گے۔
n/a
اور جب کہ سمندر پھٹ پڑیں گے۔
زمین کے سمندروں اور اس کی قبروں کا حال: آسمان اور اس کے ستاروں کا حال بیان کرنے کے بعد یہ زمین کی بھی دو چیزوں ۔۔۔ سمندروں اور قبروں ۔۔۔ کا حال بطور مثال بیان فرما دیا کہ اس دن سمندر اپنی حدوں کو توڑ کر بہ نکلیں گے اور قبروں میں جو دفن ہیں وہ بھی ان سے اگلوا لیے جائیں گے۔
سابق سورہ میں ’وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ‘ (۶) کے الفاظ آئے ہیں، یہاں وہی بات ’فُجِّرَتْ‘ کے لفظ سے بیان ہوئی ہے۔ دونوں میں بس یہ فرق ہے کہ پہلے لفظ سے سمندروں کا جوش و ہیجان نمایاں ہو رہا ہے اور دوسرے سے ان کی آزادی و بے قیدی۔ یعنی وہ موجودہ حد بندیوں سے بے قید ہو کر ہر طرف پھوٹ بہیں اور ہر نشیب و فراز پر چھا جائیں گے۔ سورۂ دہر کی آیت ’یُفَجِّرُونَہَا تَفْجِیْرًا‘ (۶) کے تحت اس لفظ کی وضاحت ہو چکی ہے۔
جب سمندر پھوٹ بہیں گے۔
اصل میں لفظ ’فُجِّرَتْ‘ آیاہے۔ پچھلی سورہ میں اِس مضمون کے لیے ’سُجِّرَتْ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ وہ سمندروں کی آزادی و بے قیدی اور ’فُجِّرَتْ‘ اُن کے جوش و ہیجان کو نمایاں کرتا ہے۔
اور جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے ،
سورۃ تکویر میں فرمایا گیا ہے کہ سمندروں میں آگ بھڑکا دی جائے گی، اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ سمندروں کو پھاڑ دیا جائے گا۔ دونوں آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے اور یہ بات بھی نگاہ میں رکھی جائے کہ قرآن کی رو سے قیامت کے روز ایک ایسا زبردست زلزلہ آئے گا جو کسی علاقے تک محدود نہ ہوگا بلکہ پوری زمین بیک وقت ہلا ماری جائے گی، تو سمندروں کے پھٹنے اور ان میں آگ بھڑک اٹھنے کی کیفیت ہماری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ پہلے اس عظیم زلزلے کی وجہ سے سمندروں کی تہ پھٹ جائے گی اور ان کا پانی زمین کے اس اندرونی حصے میں اترنے لگے لگا جہاں ہر وقت ایک بےانتہا گرم لاوا کھولتا رہتا ہے۔ پھر اس لاوے تک پہنچ کر پانی اپنے ان دو ابتدائی اجزاء کی شکل میں تحلیل ہوجائے گا جن میں سے ایک، یعنی آکسیجن جلانے والی، اور دوسری ہائیڈروجن بھڑک اٹھنے والی ہے، اور یوں تحلیل اور آتش افروزی کا ایک ایسا مسلسل ردعمل (Chain reaction) شروع ہوجائے گا جس سے دنیا کے تمام سمندروں میں آگ لگ جائے گی۔ یہ ہمارا قیاس ہے، باقی صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
سمندر بہہ نکلیں گے
n/a
اور جب کہ قبریں اگلوائی جائیں گی۔
’وَإِذَا الْقُبُوۡرُ بُعْثِرَتْ‘۔ ’بعثر إلشئ‘ کے معنی ہوں گے، کسی شے کو پراگندہ و منتشر کر دیا، اس کو ادھیڑ ڈالا، اس کو کھول کر جو کچھ اس میں تھا برآمد کر لیا۔ اگرچہ یہاں خاص طور پر قبروں ہی کا ذکر ہے اس لیے کہ مقصد انذار کے پہلو سے زیادہ اہمیت انہی کے کھولے اور ان کے اندر سے لوگوں کے نکالے جانے کی تھی لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس دن زمین اپنا سارا بار بوجھ نکال پھینکے گی۔ سورۂ زلزال میں ہے:
’وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَہَا‘ (۲)
(اور زمین اپنے بار بوجھ نکال پھینکے گی)
اسی طرح سورۂ انشقاق میں ہے:
’وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ ۵ وَأَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ‘ (۳-۴)
(اور جب کہ زمین تان دی جائے گی اور جو کچھ اس میں ہے وہ اس کو نکال پھینکے گی اور خالی ہو جائے گی)۔
جب قبریں کھول دی جائیں گی۔
n/a
اور جب قبریں کھول دی جائیں گی،
پہلی تین آیتوں میں قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے اور اس آیت میں دوسرا مرحلہ بیان کیا گیا ہے۔ قبروں کے کھولے جانے سے مراد لوگوں کا از سر نو زندہ کر کے اٹھایا جانا ہے۔
اور جب قبریں (شق کر کے) اکھاڑ دی جائیں گی
یعنی قبروں سے مردے زندہ ہو کر نکل آئیں گے یا ان کی مٹی پلٹ دی جائے گی۔
تب ہر جان کو پتہ چلے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔
یہ وہ اصل بات بیان ہوئی ہے جو اس دن سب کے سامنے آئے گی۔ یعنی جب اس کائنات میں یہ عظیم ہلچل برپا ہو گی جس کے بعض آثار مذکور ہوئے تب ہر شخص کو پتہ چلے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔ مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ پیغمبر کے انذار کا مذاق اڑا رہے ہیں وہ اس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ یہی دن ہمیشہ رہیں گے بلکہ اس دن کی عظیم ہلچل کو سامنے رکھ کر اپنے انجام پر غور کریں جس سے سابقہ پیش آنے والا ہے اور جس سے کسی کو بھی پناہ نہیں ملنی ہے، نہ کسی چھوٹے کو نہ کسی بڑے کو۔
’قدّم‘ اور ’اخَّر‘ کی تاویل: ’مَا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ‘ کی تاویل اگر ان مستکبرین کو سامنے رکھ کر کی جائے جو سورہ کے اول مخاطب ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جو ناکردنی کام اللہ و رسول کے خلاف انھوں نے کیے ان کا انجام بھی وہ دیکھیں گے اور جو کرنے کے کام انھوں نے نظرانداز کیے ان کی حسرت بھی چکھیں گے۔ سورۂ جمعہ میں یہود کے متعلق فرمایا ہے کہ
’وَلَا یَتَمَنَّوْنَہٗ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَیْْدِیْہِمْ‘ (۷)
(اور وہ ہرگز موت کی تمنا کرنے والے نہیں ہیں بوجہ اپنی کرتوتوں کے جو وہ کر گزرے ہیں)۔
یعنی جو زاد راہ آخرت کے لیے انھوں نے بھیجا ہے وہ اس سے اچھی طرح واقف ہیں اس وجہ سے یہ خدا کو منہ دکھانے کا حوصلہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح قرآن میں جگہ جگہ یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ کفار قیامت کے دن نہایت حسرت کے ساتھ کہیں گے کہ کاش، آخرت کی زندگی کے لیے انھوں نے کچھ کر لیا ہوتا۔ سورۂ فجر میں ان کا قول نقل ہوا ہے:
’یَقُوْلُ یٰلَیْْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ‘ (۲۴)
(وہ کہے گا، اے کاش! میں نے اپنی اُخروی زندگی کے لیے دنیا کی زندگی میں کچھ کر لیا ہوتا)
اسی طرح سورۂ مومنون میں ہے:
’حَتّٰی إِذَا جَآءَ أَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ ۵ لَعَلِّیْ أَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ‘ (۹۹-۱۰۰)
(یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آ دھمکے گی وہ کہے گا اے رب، مجھے پھر واپس بھیج کہ جو مال و متاع میں دنیا میں چھوڑ کر آیا ہوں اس میں کچھ نیکی کی کمائی کر لوں)۔
اگرچہ ان حوالوں کی روشنی میں ’قَدَّم‘ اور ’اَخَّر‘ دونوں کا صحیح محل متعین ہو جاتا ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کا یہ مفہوم بھی لیا ہے کہ
’ما قدم من الخیر والشر وما لم یقدمہ‘
(یعنی جو نیکی اور بدی اس نے کی اور جو چھوڑی)۔
اسی طرح بعض دوسروں نے یہ مطلب لیا کہ ’ما قدم من ما لھا وَمَا اخّر للوارثین‘ (جو اس نے اپنے مال میں سے اپنی اخروی زندگی کے لیے بھیجا اور جو وارثوں کے لیے چھوڑا)۔ اگرچہ آیت کے عموم میں یہ باتیں بھی داخل ہیں لیکن اس کے موقع و محل کے پہلو سے اس تاویل کو ہمارے نزدیک ترجیح حاصل ہے جو ہم نے اوپر بیان کی۔
اُس وقت (لوگو، تم میں سے) ہر شخص یہ جان لے گا کہ اُس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا ہے۔
یعنی وہ کیا کرتوت ہیں جو اُس نے آگے بھیجے اورکرنے کے کیا کام تھے جن کی حسرتیں وہ دنیا میں پیچھے چھوڑ آیا ہے۔
اس وقت ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہوجائے گا۔
اصل الفاظ ہیں ما قدمت و اخرت۔ ان الفاظ کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی یہاں مراد ہے :
(1) جو اچھا یا برا عمل آدمی نے کر کے آگے بھیج دیا وہ ما قدمت ہے اور جس کے کرنے سے وہ باز رہا وہ ما اخرت۔ اس لحاظ سے یہ الفاظ تقریباً انگریزی زبان کے الفاظ Commission اور Omission کے ہم معنی ہیں۔
(2) جو کچھ پہلے کیا وہ ما قدمت ہے اور جو کچھ بعد میں کیا وہ ما اخرت، یعنی آدمی کا پورا نامہ اعمال ترتیب وار اور تاریخ وار اس کے سامنے آجائے گا۔
(3) جو اچھے اور برے اعمال آدمی نے اپنی زندگی میں کیے وہ ما قدمت ہیں اور ان اعمال کے جو آثار و نتائج وہ انسانی معاشرے میں اپنے پیچھے چھوڑ گیا وہ ما اخرت۔
(اس وقت) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے (یعنی اگلے پچھلے اعمال) کو معلوم کرلے گا۔
n/a
اے انسان! تجھے تیرے رب کریم کے باب میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے!
خدا کی کریمی سے مہلک مغالطہ: ’انسان‘ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں روئے سخن انہی مکذبین قیامت کی طرف ہے جن کو اس سورہ میں انذار کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ آگے والی آیت میں ان کو براہ راست مخاطب کر کے فرمایا ہے:
’کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوۡنَ بِالدِّیْنِ‘
(ہرگز نہیں، بلکہ تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلا رہے ہو)۔
خاص مخاطب کو عام لفظ سے خطاب کرنے میں جو بلاغت ہے اس کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کرتے آ رہے ہیں۔
’مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ‘ میں استفہامیہ اسلوب اظہار تعجب کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارے رب کی اس کریمی نے تم کو جزاو سزا سے نچنت کیا کہ وہ تمہاری سرکشیوں پر فوراً گرفت نہیں کرتا اور برابر ڈھیل پر ڈھیل دیے جا رہا ہے تو تم نے اس کریمی سے بہت سخت دھوکا کھایا۔ ہونا تو یہ تھا کہ تم اس کے لطف و کرم کی قدر کرتے، اس کے شکرگزار بندے بنتے اور اپنے آپ کو اس کی مزید عنایات کا حق دار بناتے لیکن ہوا یہ کہ تم اس کے آگے بالکل ڈھیٹ بن گئے۔ اس کے انذار کا مذاق اڑانے لگے، اور یہ سمجھ بیٹھے کہ جو رفاہیت تمہیں حاصل ہے یہ تمہارا پیدائشی حق ہے اور رسول جس قیامت سے آگاہ کر رہا ہے یہ محض ایک ہوّا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
اے انسان، (تو اِس حقیقت کو نہیں مانتا؟ تعجب ہے)، تجھے کس چیز نے تیرے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے؟
لفظ اگرچہ عام ہے، لیکن آگے آیت ۹ سے واضح ہے کہ روے سخن قریش کے اُنھی سرداروں کی طرف ہے جو اِس سورہ کے مخاطب ہیں۔
یعنی کیا اِس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے کہ وہ ایسا کریم ہے کہ تمھاری سرکشی پر فوراً تمھیں نہیں پکڑتا؟ یہی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ تم نے بہت سخت دھوکا کھایا ہے۔
اے انسان، کس چیز نے تجھے اپنے اس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا
n/a
اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا ؟
n/a
جس نے تیرا خاکہ بنایا، پھر تیرے نوک پلک سنوارے اور تجھے بالکل موزوں کیا!
اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا حوالہ جو جزا پر دلیل ہیں: یہ رب کریم نے اپنی بعض ان صفات کا حوالہ دیا ہے جو خود انسان کی خِلقت کے اندر ظاہر ہیں اور جو دلیل ہیں کہ جس رب نے انسان کے پیدا کرنے میں اپنی کاریگری، حکمت، قدرت اور اہتمام خاص کی شانیں دکھائی ہیں اس نے اس کو عبث نہیں پیدا کیا ہے کہ وہ شتر بے مہار کی طرح چھوٹا پھرے۔ بلکہ ایک دن وہ لازماً اس کو اپنے حضور میں بلائے گا، اس کا محاسبہ فرمائے گا، پھر جن کو وہ اپنا فرماں بردار پائے ان کو ابدی رحمتوں سے نوازے گا اور جو اس کے باغی ہوں گے ان کو جہنم میں جھونک دے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ سارا اہتمام بالکل بے معنی و بے مقصد ہو جاتا ہے جو انسان کے پیدا کرنے پر اس نے کیا اور اس کی اس قدرت و حکمت کی بھی نفی ہو جاتی ہے جو اس کے ہر فعل میں نمایاں ہے۔
’الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ‘۔ ’خلق‘ کے معنی ہیں کسی چیز کا خاکہ بنانا اور اس کو پیدا کرنا اور ’تَسویۃ‘ کے معنی اس کی نوک پلک سنوارنے کے ہیں۔ گویا یہاں انسان کی پیدائش کے ابتدائی اور انتہائی دونوں مرحلوں کی طرف اشارہ فرما دیا کہ اسی رب کریم نے تمہارا خاکہ بنایا اور اسی نے تمہارے نوک پلک سنوارے۔ ’فَعَدَلَکَ‘ اور اس طرح اس نے تمہیں ایک متوازن مخلوق بنایا۔
انسان کی خلقت میں حکمت کا پایا جانا دلیل ہے کہ وہ کھلونا نہیں ہے: مقصود اس بیان سے، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، اس اہتمام و عنایت کی طرف توجہ دلانا ہے جو انسان کی تخلیق میں نمایاں ہے۔ یہ اہتمام و عنایت اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کوئی کھلونا نہیں ہے جس کو قدرت نے اپنا جی بہلانے کے لیے وقتی طور پر بنا لیا ہو اور پھر جب چاہے اس کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔ جس چیز پر جتنا ہی اہتمام صرف ہوتا ہے اس کے اندر اتنی ہی مقصدیت ہوتی ہے اور اسی اعتبار سے اس کو قدرت کے نظام میں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ انسان برسات میں پیدا ہونے والے پتنگوں کی مانند نہیں ہے کہ پیدا ہو اور فنا ہو جائے بلکہ وہ قدرت کی بہترین صناعی کا مظہر ہے اس وجہ سے ضروری ہے کہ وہ امتحانوں سے گزرتا ہوا اس مقام تک پہنچے جو اس کے لیے مقدر ہے اور اگر وہ اس کا حوصلہ نہ کرے تو یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی پست حوصلگی کی سزا بھگتے۔
’فَعَدَلَکَ‘ میں اس اعتدال و توازن کی طرف اشارہ ہے جو ’لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنۡسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘ (التین ۹۵: ۴) والی آیت میں بیان ہوا ہے۔ انسان اپنی ظاہری شکل و صورت اور اپنی روحانی و معنوی صلاحیتوں کے اعتبار سے عالم کی تمام مخلوقات میں بالکل نقطۂ وسط پر ہے اس وجہ سے وہ اس بات کا اہل ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس کو زمین میں اپنا خلیفہ بنائے، اس کو امت وسط کے منصب پر سرفراز فرمائے اور اگر وہ زمین میں خدا کی خلافت کا حق ادا کرے تو آسمان کی ابدی بادشاہی کا بھی حق دار ٹھہرائے۔
جس نے تجھے بنایا، پھر تیرے نوک پلک سنوارے، پھر تجھے بالکل متناسب کیا۔
n/a
جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایا،
n/a
جس (رب نے) تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا اور پھر درست اور برابر بنایا
یعنی حقیر نطفے سے، جب کہ اس کے پہلے تیرا وجود نہیں تھا۔
یعنی تجھے ایک کامل انسان بنا دیا، تو سنتا ہے، دیکھتا ہے اور عقل فہم رکھتا ہے۔
جس شکل پر چاہا تجھے مشکّل کر دیا!
’فِیْ أَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ‘۔ یعنی ایک طرف تو اپنے رب کے اس اہتمام اور اس کی اس عنایت پر نظر کرو کہ اس نے ہر آدمی کے لیے الگ الگ شکل و صورت تجویز کی اور اپنے کمال قدرت سے جس کے لیے جو صورت پسند فرمائی اسی پر اس کو پیدا کر دیا۔ اس میں ذرا بھی اس کو مشکل پیش نہیں آئی۔ مجال نہیں کہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کے اندر سے بھی کوئی دو آدمی ایسے نکالے جا سکیں جو بالکل ایک ہی شکل و صورت کے ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ جس خدا کی قدرت و عنایت کا یہ حال ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک دن وہ تمہارے نیکوں اور بدوں میں امتیاز کرے اور اس کام کے لیے تمہیں وہ مرنے کے بعد اٹھائے اور یہ کام اس کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
(اِس طرح کہ) جس صورت میں تجھ کو چاہا، جوڑ دیا۔
مطلب یہ ہے کہ جس پروردگار کی یہ قدرتیں اور عنایتیں دیکھتے ہو، اُس کے بارے میں کس طرح سوچتے ہو کہ تمھارے نیکوں اور بدوں میں امتیاز نہ کرے گا اور اِس امتیاز کے لیے مرنے کے بعد تمھیں اٹھانا چاہے گا تو اٹھا نہ سکے گا۔
اور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا ؟
یعنی اول تو اس محسن پروردگار کے احسان و کرم کا تقاضا یہ تھا کہ تو شکر گزار اور احسان مند ہو کر اس کا فرمانبردار بنتا اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے تجھے شرم آتی، مگر اس دھوکے میں پڑگیا کہ تو جو کچھ بھی نا ہے خود ہی بن گیا ہے اور یہ خیال تجھے کبھی نہ آیا کہ اس وجود کے بخشنے والے کا احسان مانے۔ دوسرے، تیرے رب کا یہ کرم ہے کہ دنیا میں جو کچھ تو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ جونہی تجھ سے کوئی خطا سر زد ہو وہ تجھ پر فالج گرا دے یا تیری آنکھیں اندھی کر دے، یا تجھ پر بجلی گرا دے۔ لیکن تو نے اس کریمی کو کمزوری سمجھ لیا اور اس دھوکے میں پڑگیا کہ تیرے خدا کی خدائی میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا۔
n/a
ہرگز نہیں، بلکہ تم جزا کو جھٹلاتے ہو۔
مکذبین قیامت کو زجر: ’کَلَّا‘ یہاں مکذبین کے ان شبہات و اعتراضات کی نفی کے لیے ہے جو وہ قیامت کے خلاف پیش کرتے تھے اور جن کی تردید اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے فرمائی گئی ہے جو خود انسان کی خِلقت کے اندر موجود ہیں۔ ان کو پیش کرنے کے بعد ان دلیل بازوں کو زجر فرمایا ہے کہ ’کَلَّا‘ یعنی تمہارے ان تمام شبہات و اعتراضات کی ہرگز کوئی بنیاد نہیں ہے، یہ ساری باتیں بناوٹی ہیں۔ اصل یہ ہے کہ تم جزا و سزا کو ماننا نہیں چاہتے اس وجہ سے لا یعنی شبہات پیش کر رہے ہو کہ بھلا مر کھپ جانے کے بعد وہ لوگ دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے؟ حالانکہ اگر جزا و سزا عقل، عدل، فطرت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و حکمت کی رو سے واجب ہے تو اس کے لیے انسانوں کو قبروں سے اٹھا کھڑا کرنا کیا مشکل ہے!
یہاں یہ بات یاد رکھیے کہ بعض اوقات انسان جھٹلانا تو کسی چیز کو چاہتا ہے لیکن اس کے خلاف کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا اس وجہ سے بعض غیر متعلق سوالات چھیڑتا ہے تاکہ اس کے باب میں کچھ شبہات پیدا کرنے کی راہ کھولے۔ قریش کے منکرین اسی طرح کی الجھن میں گرفتار تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جزا و سزا کو جھٹلانا ایک امر بدیہی کو جھٹلانا ہے لیکن اس کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے اس وجہ سے بعض بناوٹی شبہات کی آڑ لے کر یہ نمائش کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ گویا ان کے پاس کچھ دلائل ہیں جن کی بنا پر وہ قرآن کے انذار کو نہیں مان رہے ہیں۔
ہرگز نہیں، (اُس دن کے بارے میں جو کچھ تم کہتے ہو، اُس کی ہرگز کوئی بنیاد نہیں ہے)، بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) تم جزا و سزا کو جھٹلانا چاہتے ہو۔
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس اجمال کی تفصیل فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہاں یہ بات یاد رکھیے کہ بعض اوقات انسان جھٹلانا تو کسی چیز کو چاہتا ہے، لیکن اِس کے خلاف کچھ کہنے کی گنجایش نہیں پاتا، اِس وجہ سے بعض غیر متعلق سوالات چھیڑتا ہے تاکہ اُس کے باب میں کچھ شبہات پیدا کرنے کی راہ کھلے۔ قریش کے منکرین اِسی طرح کی الجھن میں گرفتار تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جزا و سزا کو جھٹلانا ایک امر بدیہی کو جھٹلانا ہے، لیکن اِس کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ اِس وجہ سے بعض بناوٹی شبہات کی آڑ لے کر یہ نمایش کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ گویا اُن کے پاس کچھ دلائل ہیں جن کی بنا پر وہ قرآن کے انذار کو نہیں مان رہے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۲۴۳)
ہرگز نہیں ، بلکہ ﴿اصل بات یہ ہے کہ ﴾ تم لوگ جزا و سزا کو جھٹلاتے ہو،
یعنی کوئی معقول وجہ اس دھوکے میں پڑنے کی نہیں ہے۔ تیرا وجود خود بتا رہا ہے کہ تو خود نہیں بن گیا ہے تیرے ماں باپ نے بھی تجھے نہیں بنایا ہے، عناصر کے آپ سے آپ جڑ جانے سے بھی اتفاقاً تو انسان بن کر پیدا نہیں ہوگیا ہے، بلکہ ایک خدائے حکیم و توانا نے تجھے اس مکمل انسانی شکل میں ترکیب دیا ہے۔ تیرے سامنے ہر قسم کے جانور موجود ہیں جن کے مقابلے میں تیری بہترین ساخت اور تیری افضل و اشرف قوتیں صاف نمایاں ہیں۔ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ اس کو دیکھ کر تیرا سر بار احسان سے جھک جاتا اور اس رب کریم کے مقابلے میں تو کبھی نافرمانی کی جرات نہ کرتا۔ تو یہ بھی جانتا ہے کہ تیرا رب صرف رحیم و کریم ہی نہیں ہے، جبار وقہار بھی ہے۔ جب اس کی طرف سے کوئی زلزلہ یا طوفان یا سیلاب آجاتا ہے تو تیری ساری تدبیریں اس کے مقابلہ میں ناکام ہوجاتی ہیں۔ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تیرا رب جاہل و نادان نہیں بلکہ حکیم و دانا ہے، اور حکمت و دانائی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جسے عقل دی جائے اسے اس کے اعمال کا ذمہ دار بھی ٹھہریا جائے۔ جسے اختیارات دیے جائیں اس سے حساب بھی لیا جائے کہ اس نے اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا، اور جسے اپنی ذمہ داری پر نیکی اور بدی کرنے کی طاقت دی جائے اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا بھی دی جائے۔ یہ سب حقیقتیں تیرے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں اس لیے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اپنے رب کریم کی طرف سے جس دھوکے میں تو پڑگیا ہے اس کی کوئی معقول وجہ موجود ہے۔ تو خود جب کسی کا افسر ہوتا ہے تو اپنے اس ماتحت کو کمینہ سمجھتا ہے جو تیری شرافت اور نرم دلی کو کمزوری سمجھ کر تیرے سر چڑھ جائے اس لیے تیری اپنی فطرت یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ مالک کا کرم ہرگز اس کا موجب نہ ہونا چاہیے کہ بندہ اس کے مقابلے میں جری ہوجائے اور اس غلط فہمی میں پڑجائے کہ میں جو کچھ چاہوں کروں، میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
یعنی دراصل جس چیز نے تم لوگوں کو دھوکے میں ڈالا ہے وہ کوئی معقول دلیل نہیں ہے بلکہ محض تمہارا یہ احمقانہ خیال ہے کہ دنیا کے اس دارالعمل کے پیچھے کوئی دارالجز نہیں ہے۔ اسی غلط اور بےبنیاد گمان نے تمہیں خدا سے غافل، اس کے انصاف سے بےخوف، اور اپنے اخلاقی رویے میں غیر ذمہ دار بنا دیا ہے۔
ہرگز نہیں بلکہ تم تو جزا و سزا کے دن کو جھٹلاتے ہو۔
n/a
حالانکہ تم پر نگران مامور ہیں۔
اوپر والی آیت میں جو جھڑکی ہے اس سے بھی اس کا تعلق ہے اور مکذبین قیامت کے اس شبہ پر، جو وہ آخرت کے حساب کتاب سے متعلق محض مصنوعی طور پر اٹھاتے تھے اس میں تنبیہ بھی ہے۔
اعمال کا ریکارڈ رکھنے والوں کی ذمہ داری: فرمایا کہ اس مغالطے میں نہ رہو کہ تمہاری جلوت و خلوت کی ساری باتوں سے کون باخبر ہو سکتا ہے کہ ایک دن ان کا محاسبہ کرنے بیٹھے۔ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک کے اوپر اپنے نگران بٹھا رکھے ہیں جو تمہارے ہر قول کو نوٹ کر رہے ہیں۔ جو کچھ بھی تم کہتے ہو یا کرتے ہو اس کو سنتے اور جانتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ نہایت معزز ہیں۔
دراں حالیکہ تم پر نگران مقرر ہیں۔
اِس لیے اِس مغالطے میں نہ رہو کہ تمھاری خلوت و جلوت سے کون واقف ہو سکتا ہے کہ ایک دن تمھارا محاسبہ کر سکے۔
حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں،
n/a
یقیناً تم پر نگہبان عزت والے۔
n/a
امین احسن اصلاحی
جب کہ آسمان پھٹ جائے گا۔
’اِنْفَطَارٌ‘ کے معنی پھٹ جانے اور شق ہو جانے کے ہیں۔ ظہور قیامت کے وقت آسمان پھٹ جانے کا ذکر قرآن میں جگہ جگہ ہوا ہے۔ سورۂ انشقاق کی پہلی ہی آیت میں یہی مضمون ’اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ سورۂ رحمٰن کی آیت ۳۷ میں بھی لفظ ’اِنْشِقَاقٌ‘ استعمال ہوا ہے اور ’اِنْفَطَارٌ‘ و ’اِنْشِقَاقٌ‘ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔
ایک نیا عالم نئے نوامیس کے ساتھ: قیامت کے بعد ایک بالکل نیا عالم، نئے نوامیس و قوانین کے تحت ظہور میں آئے گا اس وجہ سے اس عالم کہن کی ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ اس ٹوٹ پھوٹ کی شکل کیا ہو گی؟ اس کا صحیح تصور آج نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی یاددہانی اس لیے فرمائی گئی ہے کہ جو اغنیاء و مستکبرین اپنے قلعوں اور گڑھیوں کے اعتماد پر بالکل نچنت ہیں، سمجھتے ہیں کہ انھوں نے جو کچھ بنا رکھا ہے وہ ان کو ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہے، ان کو جھنجھوڑا جائے کہ قیامت کی ہلچل ایسی ہو گی کہ تمہارے بنائے ہوئے گھروندوں کا تو کیا ذکر اس پورے عالم کی یہ محکم چھت جس میں تم ڈھونڈھے سے بھی کوئی رخنہ نہیں پا سکتے، بالکل رخنہ ہی رخنہ اور شگاف ہی شگاف بن کر رہ جائے گی۔
یہاں اس الجھن میں اپنے دماغ کو نہ ڈالیے کہ یہ آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے یہ محض ایک خلا ہے یا کوئی ٹھوس چیز ہے بلکہ اس امر پر یقین رکھیے کہ جس طرح آج اس کا مشاہدہ آپ ایک محکم چھت کی شکل میں کر رہے ہیں جس میں کسی رخنہ کی نشان دہی نہیں کی جا سکتی اسی طرح قیامت کی ہلچل کے وقت اس میں شگاف ہی شگاف نظر آئیں گے۔