هَلْ أَتَىٰ عَلَى ٱلْإِنسَـٰنِ حِينٌ مِّنَ ٱلدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْـًٔا مَّذْكُورًا

امین احسن اصلاحی

کیا گزرا ہے انسان پر کوئی وقت، زمانے میں، ایسا جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا!

استفہامیہ اسلوب کی بلاغتیں: ’ہَلْ‘ کے معنی مفسرین نے استفہام کے بجائے عام طور پر ’قَدْ‘ کے لیے ہیں۔ لیکن کلام عرب میں اس معنی کے لیے مجھے کوئی نظیر نہیں ملی۔ بعض مثالیں جو اس معنی کی شہادت کے طور پر پیش کی گئی ہیں ان پر میں نے غور کر لیا ہے۔ میرے نزدیک ان میں بھی ’ہَلْ‘ استفہام ہی کے لیے ہے۔ البتہ استفہام جس طرح ہماری زبان میں مختلف معانی کے لیے آتا ہے اسی طرح عربی میں بھی اس کے مختلف مفہوم ہوتے ہیں۔ ان سب کی وضاحت کے لیے یہاں نہ گنجائش ہے نہ ضرورت۔ پچھلی سورتوں میں اس کے بعض پہلو زیربحث آ چکے ہیں اور بعض کے لیے آگے کی سورتوں میں موزوں مواقع آئیں گے۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ استفہام کا ایک بلیغ موقع استعمال وہ بھی ہے جب مخاطب سے کسی ایسی بات کا اقرار کرانا ہو جس کی نوعیت ہو تو ایک بدیہی حقیقت کی لیکن مخاطب اس کو تسلیم کرنے کے باوجود عملاً اس سے منحرف ہو۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ کوئی ماں اپنے نافرمان بیٹے سے یوں کہے کہ ’کیا تجھے یاد نہیں کہ تو ایک مضغۂ گوشت کی صورت میں میری گود میں ڈالا گیا تھا، میں نے اپنا خون دودھ بنا کر تجھ کو پلایا اور پال پوس کر جوان کیا!‘

اس پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہ محض ایک سادہ خبریہ جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بہت سے معانی مضمر ہیں۔ مثلاً
o اس میں بیٹے کو ایک عظیم حق کی یاددہانی ہے جو اس پر عائد ہوتا ہے اور جس سے اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کا رویہ اس کے منافی ہے۔
o اس میں ملامت، غصہ، رنج اور اظہار حسرت کے بھی گوناگوں پہلو ہیں۔
o اس میں نہایت مبنی برحقیقت گلہ و شکوہ بھی ہے اور نہایت مؤثر اپیل بھی۔
یہ سارے مفہوم اس استفہام ہی سے پیدا ہوتے ہیں جو اس جملہ کے اندر ہے۔ اگر اس کو الگ کر کے جملہ کو سادہ خبریہ اسلوب میں کر دیجیے تو یہ تمام معانی ہوا ہو جائیں گے۔ بالکل یہی حال زیربحث آیت کا بھی ہے۔ اس میں جو ’ہَلْ‘ ہے اس کے اندر بہت سے معانی مضمر ہیں جو آگے مضمون کے تدریجی ارتقا سے کھلیں گے۔ اگر اس کو آپ ’قَدْ‘ سے بدل دیں تو یہ آیت ان مطالب کی تمہید کے لیے بالکل ناموزوں ہو جائے گی جو آگے آ رہے ہیں۔
معلقات کے ایک قصیدے کا مطلع ہے:

ھل غمادر الشعراء من متردم
ام ھل عرفت الدار بعد توھمٖ

(کیا شاعروں نے شاعری میں کوئی خلا چھوڑ دیا تھا یا تجسس کے بعد تم نے منزل جاناں کا سراغ پا لیا ہے!!)

یہ ایک بہترین مطلع ہے اور اس کا سارا حسن اس کے خاص قسم کے اسفہامیہ اسلوب میں مضمر ہے۔ اگر اس ’ہَلْ‘ کو ’قَدْ‘ سے بدل دیجیے تو یہ حسن بالکل غائب ہو جائے گا۔ شاعر خود اپنے آپ کو مخاطب کر کے پوچھ رہا ہے کہ آج یہ قصیدہ کہنے کا ولولہ دل میں کیوں ابھرا ہے؟ کیا شاعری میں خلا رہ گیا تھا جس کو آج بھر دینے کا ارادہ ہے یا منزل جاناں کے آثار نے آتش عشق بھڑکا دی ہے جس کا حق ادا کرنا ہے! مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں ہیں۔ شاعری میں بھی ایک بہت بڑا خلا رہ گیا تھا جس کو اس قصیدے سے پورا کرنا ہے اور منزل جاناں کے سراغ کا مضمون بھی اب تک کے شاعروں کی ساری خوں فشانیوں اور مضمون آفرینیوں کے باوجود ہنوز تشنہ ہی تھا، آج اس کا بھی حق ادا کر دینا ہے۔
یہاں اس مطلع کے محاسن کی وضاحت مقصود نہیں ہے، دکھانا صرف یہ ہے کہ اسلوب اور اسلوب میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ باعتبار وزن تو یہ شعر لفظ ’قَدْ‘ سے بھی پورا ہو جاتا لیکن معنی کے اعتبار سے ظاہر ہے کہ اس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہ رہ جاتی۔
آیت زیربحث کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو قیامت اور جزا و سزا کے منکر تھے۔ ان کو مخاطب کر کے قرآن نے یہ سوال ان کے سامنے رکھا ہے کہ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ایک وقت انسان پر ایسا بھی گزرا ہے جب اس کا وجود کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا بلکہ وہ پانی، کیچڑ، مٹی کے اندر رینگنے والی ایک حقیر مخلوق تھا۔ لیکن اسی حقیر مخلوق کو قدرت نے مختلف مراحل سے گزارا اور اس کی صلاحیتوں کو تربیت دے کر ایسے مرتبہ پر پہنچا دیا کہ وہ تمام مخلوقات سے اعلیٰ و اشرف بن گیا! اس سوال سے مقصود انسان کی قوت فکر کو حرکت میں لانا ہے کہ وہ سوچے کہ آخر قدرت نے اس پر یہ اہتمام کیوں صرف فرمایا؟ اس کو ان اعلیٰ صلاحیتوں سے کیوں نوازا؟ کیا محض اس لیے کہ وہ کھائے پیے اور ایک دن ختم ہو جائے! کیا ان صلاحیتوں سے متعلق اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ کیا جس نے اس اہتمام سے اس کو وجود بخشا اس کا کوئی حق اس پر قائم نہیں ہوتا؟ یہ سوالات اس شخص کے اندر پیدا ہونے چاہییں جو اپنے وجود پر غور کرے۔
اپنا وجود انسان سے سب سے زیادہ قریب بھی ہے اور اس کی ہر چیز انسان کو دعوت فکر بھی دیتی ہے۔ آیت کے استفہامیہ اسلوب نے اس حسن فکر کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ انسان کی نظروں سے خدا اوجھل ہے تو اس کا اپنا وجود تو اوجھل نہیں ہے، وہ خود اپنے اندر خدا کی قدرت و حکمت اور اس کے عدل و رحمت کی نشانیاں دیکھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ غور کرے تو یہ حقیقت بھی اس پر روشن ہو جائے گی کہ ہر چند اس نے قیامت ابھی دیکھی نہیں لیکن خود اس کے نفس کے اندر قیامت کے شواہد اور اس کے دلائل اتنے واضح ہیں کہ وہ ان کا انکار نہیں کر سکتا بشرطیکہ وہ بالکل ہٹ دھرم اور کج رو نہ ہو۔

جاوید احمد غامدی

کیا انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟

استفہام کا یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے ، جب مخاطب سے کوئی ایسی بات منوانا پیش نظر ہو، جو اگرچہ بالبداہت واضح ہو اور مخاطب اُسے تسلیم بھی کرتا ہو، لیکن عملاً اُس سے انحراف پر مصر ہو۔ اِس میں گلہ، شکایت، غصہ، رنج، ملامت، اپیل اور یاددہانی ، سب مضامین پنہاں ہوتے ہیں جو سادہ خبریہ اسلوب میں ادا نہیں ہو سکتے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِس سوال سے مقصود انسان کی قوت فکر کو حرکت میں لانا ہے کہ وہ سوچے کہ آخر قدرت نے اُس پر یہ اہتمام کیوں صرف فرمایا؟ اُس کو اِن اعلیٰ صلاحیتوں سے کیوں نوازا؟ کیا محض اِس لیے کہ وہ کھائے پیے اور ایک دن ختم ہو جائے! کیا اِن صلاحیتوں سے متعلق اُس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ کیا جس نے اِس اہتمام سے اُس کو وجود بخشا، اُس کا کوئی حق اُس پر قائم نہیں ہوتا؟ یہ سوالات ہر اُس شخص کے اندر پیدا ہونے چاہییں جو اپنے وجود پر غور کرے۔
اپنا وجود انسان سے سب سے زیادہ قریب بھی ہے اور اُس کی ہر چیز انسان کو دعوت فکر بھی دیتی ہے۔ آیت کے استفہامیہ اسلوب نے اِس حس فکر کو بیدار کرنا چاہا ہے کہ انسان کی نظروں سے خدا اوجھل ہے تو اُس کا اپنا وجود تو اوجھل نہیں ہے ، وہ خود اپنے اندر خدا کی قدرت و حکمت اور اُس کے عدل و رحمت کی نشانیاں دیکھ سکتا ہے۔ اِسی طرح اگر وہ غور کرے تو یہ حقیقت بھی اُس پر روشن ہو جائے گی کہ ہر چند اُس نے قیامت ابھی دیکھی نہیں، لیکن خود اُس کے نفس کے اندر قیامت کے شواہد اور اُس کے دلائل اتنے واضح ہیں کہ وہ اُن کا انکار نہیں کر سکتا، بشرطیکہ وہ بالکل ہٹ دھرم اور کج رو نہ ہو۔‘‘ (تدبرقرآن ۹/ ۱۰۶)

ابو الاعلی مودودی

کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ؟

پہلا فقرہ ہے ھل اتی علی الانسان۔ اکثر مفسرین و مترجمین نے یہاں ھل کو قد کے معنی میں لیا ہے۔ اور وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ بیشک یا بلا شبہ انسان پر ایسا ایک وقت آیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ ھل عربی زبان میں ” کیا ” کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے، اور اس سے مقصود ہر حال میں سوال ہی نہیں ہوتا بلکہ مختلف مواقع پر یہ بظاہر سوالیہ لفظ مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے۔ مثلاً کبھی تو ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں واقعہ پیش آیا ہے یا نہیں اور کسی سے پوچھتے ہیں ” کیا یہ واقعہ پیش آیا ہے ؟ ” کبھی ہمارا مقصود سوال کرنا نہیں ہوتا بلکہ کسی بات کا انکار کرنا ہوتا ہے اور یہ انکار ہم اس انداز میں کرتے ہیں کہ ” کیا یہ کام کوئی اور بھی کرسکتا ہے ؟ ” کبھی ہم ایک شخص سے کسی بات کا اقرار کرانا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے اس سے پوچھتے ہیں کہ ” کیا میں نے تمہاری رقم ادا کردی ہے ؟ ” اور کبھی ہمارا مقصود محض اقرار ہی کرانا نہیں ہوتا بلکہ سوال ہم اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ مخاطب کے ذہن کو ایک اور بات سوچنے پر مجبور کردیں جو لازماً اس کے اقرار سے بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ہم کسی سے پوچھتے ہیں ” کیا میں نے تمہارے ساتھ کوئی برائی کی ہے ؟ ” اس سے مقصود صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کا اقرار کرے کہ آپ نے اس کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی مقصود ہوتا ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے اس کے ساتھ میں برائی کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں۔ آیت زیر بحث میں سوالیہ فقرہ دراصل اسی آخری معنی میں ارشاد ہوا ہے۔ اس سے مقصود انسان سے صرف یہی اقرار کرانا نہیں ہے کہ فی الواقع اس پر ایک وقت ایسا گزرا ہے، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے کہ جس خدا نے اس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر سی حالت سے کر کے اسے پورا انسان بنا کھڑا کیا وہ آخر اسے دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں عاجز ہوگا ؟

دوسرا فقرہ ہے حین من الدھر۔ دھر سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسان کو معلوم ہے نہ انتہا، اور حین سے مراد وہ خاص وقت ہے جو اس لا متناہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس لا متناہی زمانے کے اندر ایک طویل مدت تو ایسی گزری ہے جب سرے سے نوع انسانی ہی موجود نہ تھی۔ پھر اس میں ایک وقت ایسا آیا جب انسان نام کی ایک نوع کا آغاز کیا گیا۔ اور اسی زمانے کے اندر ہر شخص پر ایک ایسا وقت آیا ہے جب اسے عدم سے وجود میں لانے کی ابتدا کی گئی۔

تیسرا فقرہ ہے لم یکن شیئا مذکوراً ، یعنی اس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔ اس کا ایک حصہ باپ کے نطفے میں ایک خورد بینی کیڑے کی شکل میں اور دوسرا حصہ ماں کے نطفے میں ایک خورد بینی بیضے کی شکل میں موجود تھا۔ مدتہائے دراز تک تو انسان یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ دراصل وہ اس کیڑے اور بیضے کے ملنے سے وجود میں آتا ہے۔ اب طاقتور خورد بینوں سے ان دونوں کو دیکھ تو لیا گیا ہے لیکن اب بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنا انسان باپ کے اس کیڑے میں اور کتنا ماں کے اس بیضے میں موجود ہوتا ہے۔ پھر استقرار حمل کے وقت ان دونوں کے ملنے سے جو ابتدائی خلیہ (Cell) وجود میں آتا ہے وہ ایک ایسا ذرہ بےمقدار ہوتا ہے کہ بہت طاقتور خورد بین ہی سے نظر آسکتا ہے کہ اس حقیر سی ابتداء سے نشوو نما پا کر کوئی انسان اگر بنے گا بھی تو وہ کس قد و قامت، کس شکل و صورت، کس قابلیت اور شخصیت کا انسان ہوگا۔ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ اس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا اگرچہ انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے و جود کا آغاز ہوگیا تھا۔

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :2

” ایک مخلوط نطفے ” سے مراد یہ ہے کہ انسان کی پیدائش مرد اور عورت کے دو الگ الگ نطفوں سے نہیں ہوئی بلکہ دونوں نطفے مل کر جب ایک ہوگئے تب اس مرکب نطفے سے انسان پیدا ہوا۔

جونا گڑھی

یقیناً گزرا ہے انسان ایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔

 یعنی انسان اول حضرت آدم ہیں اور حِیْن (ایک وقت) سے مراد، روح پھونکے جانے سے پہلے کا زمانہ ہے، جو چالیس سال ہے اور اکثر مفسرین کے نزدیک الانسان کا لفظ بطور جنس کے استعمال ہوا ہے اور حِیْن، سے مراد حمل یعنی رحم مادر کی مدت ہے جس میں وہ قابل ذکر چیز نہیں ہوتا۔ اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن و جمال کی صورت میں جب باہر آتا ہے تو رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں جب میں عالم نیست میں تھا، تو مجھے کون جانتا تھا۔ 

إِنَّا خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَـٰهُ سَمِيعًۢا بَصِيرًا

امین احسن اصلاحی

ہم نے انسان کو پیدا کیا پانی کی ایک مخلوط بوند سے۔ اس کو الٹتے پلٹتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس کو دیکھنے سننے والا بنا دیا۔

انسان کو مزید غور کی دعوت: اوپر کی آیت میں انسان کے اس تاریک ماضی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو زندگی کے نقطۂ آغاز سے تعلق رکھتا ہے۔ اب یہ اس کی پیدائش کے ان مختلف اطوار کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کا ہر پہلو اس کے سامنے ہے اور جو اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس کی طرف اوپر والی آیت اشارہ کر رہی ہے کہ انسان پانی کی ایک بوند سے پیدا ہوتا ہے، اسی بوند کو مختلف اطوار و مراحل سے گزار کر قدرت اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ سننے سمجھنے اور عقل و ہوش رکھنے والے انسان کی شکل اختیار کر لیتی ہے؛ انسان غور کرے کہ جس خدا نے پانی کی ایک بوند پر اتنے عجیب کرشمے دکھائے ہیں کیا اس کے لیے اس کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا اور پھر اس بات پر بھی غور کرے کہ جس خدائے علیم و حکیم نے پانی کے ایک حقیر قطرے کو سمع و بصر کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا اور اس کو خیر و شر اور شکر و کفر میں امتیاز بخشا، کیا اس نے یہ ایک کارعبث کیا ہے کہ وہ بازپرس اور جزا و سزا کا کوئی دن نہیں لائے گا۔

’مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ‘ میں لفظ ’امشاج‘ جمع ہے ’مشج‘ اور ’مشیج‘ کی۔ اس کے معنی ملی جلی اور مخلوط چیز کے ہیں۔ ’امشاج‘ اگرچہ جمع ہے لیکن یہ ان الفاظ میں سے ہے جو جمع ہونے کے باوصف مفرد الفاظ کی صفت کے طور پر آتے ہیں۔ نطفہ کے مخلوط ہونے سے اس کا مختلف قویٰ و عناصر سے مرکب ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے اور مرد و عورت کے نطفوں کا امتزاج بھی۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ جہاں مختلف عناصر اور متضاد طبائع اور مزاجوں کا امتزاج ہو وہاں ان کے اندر ایسا اعتدال و توازن برقرار رکھنا کہ پیش نظر مقصد کے مطابق صالح نتیجہ برآمد ہو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ کام ایک حکیم و قدیر کی نگرانی میں ہو۔ کسی اتفاقی حادثہ کے طور پر اس طرح کے حکیمانہ کام کا وقوع ممکن نہیں ہے۔
لفظ ’ابتلاء‘ کا مفہوم: ’نَبْتَلِیْہِ‘ کو عام طور پر لوگوں نے بیان علت کے مفہوم میں لیا ہے۔ یعنی ہم نے انسان کو آزمانے کے لیے پیدا کیا۔ لیکن یہ علت کے مفہوم میں ہوتا تو اس پر لام علت آنا تھا حالانکہ یہ حال کی صورت میں ہے اور حال کا مفہوم علت کے مفہوم سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ حال ہی کے مفہوم میں ہے اور مطلب اس کا یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اس طرح پیدا کیا کہ درجہ بدرجہ اس کو مختلف اطوار و مراحل سے گزارتے ہوئے ایک سمیع و بصیر مخلوق کے درجے تک پہنچا دیا۔
’ابتلاء‘ کے معنی لغت میں جانچنے پرکھنے کے ہیں۔ آدمی جب کسی چیز کو جانچتا ہے تو اس کو مختلف پہلوؤں سے الٹ پلٹ اور ٹھونک بجا کر دیکھتا ہے۔ یہیں سے اس کے اندر ایک طور سے گزار کر دوسرے طور میں لے جانے کا مفہوم بھی پیدا ہو گیا۔ یہاں یہ لفظ اسی معنی میں ہے۔ اصحاب تاویل میں سے بھی بعض لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
انسان کی خلقت کے مختلف مراحل: انسان کی تخلیق جن اطوار و مراحل سے گزر کر مرتبہ تکمیل تک پہنچی ہے ان کی وضاحت قرآن میں جگہ جگہ ہوئی ہے۔ ہم بعض مثالیں پیش کرتے ہیں:

یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنْتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِی الْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوۡا أَشُدَّکُمْ (الحج ۲۲: ۵)
’’اے لوگو، اگر تم مرنے کے بعد اٹھائے جانے کے باب میں شک میں ہو تو اس بات پر غور کرو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر پانی کی ایک بوند سے پھر خون کی ایک پھٹکی سے پھر گوشت کی ایک بوٹی سے، کوئی تمام اور کوئی ناتمام، تاکہ ہم تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح ظاہر کر دیں۔ پھر ہم رحموں میں ٹھہراتے ہیں جتنا چاہتے ہیں ایک مدت معین تک پھر ہم تم کو بچے کی صورت میں باہر لاتے ہیں پھر ہم تم کو پروان چڑھاتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔‘‘

انہی اطوار و مراحل کی تفصیل سورۂ مومنون میں یوں آئی ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ۵ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ۵ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ (المومنون ۲۳: ۱۲-۱۴)
’’اور ہم نے انسان کو پیدا کیا مٹی کے جوہر سے پھر ہم نے اس کو رکھا پانی کی ایک بوند کی صورت میں ایک محفوظ ٹھکانے میں۔ پھر ہم نے پانی کی اس بوند کو خون کی پھٹکی کی شکل دی پھر خون کی پھٹکی کو مضغۂ گوشت بنایا پھر گوشت میں ہڈیاں پیدا کیں اور ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا پھر اس کو ایک بالکل ہی دوسری مخلوق کی صورت میں لا کھڑا کر دیا۔ پس بڑی ہی بابرکت ذات ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والے، کی۔‘‘

ان آیات میں جن اطوار و مراحل کی تفصیل ہے انہی کی طرف بالاجمال آیت زیربحث میں اشارہ فرمایا ہے اور انہی مراحل سے درجہ بدرجہ گزارنے کے لیے لفظ ’نَبْتَلِیْہِ‘ آیا ہے جس سے یہ بات نکلی کہ اس قطرے کو گہر ہونے تک بہت سے مرحلے طے کرنے پڑے ہیں اور ہر مرحلہ میں قدرت نے اس کو اچھی طرح جانچا پرکھا ہے کہ جس دور میں جو صلاحیت اس کے اندر پیدا ہونی چاہیے وہ پیدا ہو گئی یا نہیں!
’فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا‘ یہ اس تمام اہتمام و تدبر کا خلاصہ سامنے رکھا ہے کہ یا تو انسان پانی، مٹی، کیچڑ اور نطفہ کی شکل میں بالکل ’لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا‘ (ناقابل ذکر چیز) کا مصداق تھا یا وہ دور آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو سمع و بصر کی اعلیٰ صفات سے متصف ہستی بنا دیا۔ سورۂ مومنون کی محولہ بالا آیت میں اسی چیز کی طرف ’ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔
’سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ‘۔ انسان کی تمام اعلیٰ صفات کی نہایت جامع تعبیر ہے۔ انہی صفات کے فیض سے انسان کے اندر خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت پیدا ہوئی اور وہ اس قابل ٹھہرا کہ اللہ تعالیٰ اس کا امتحان کرے کہ وہ خیر کی راہ اختیار کر کے اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنتا ہے یا شر کی راہ اختیار کر کے ناشکرا اور کافر نعمت بن جاتا ہے۔ پھر اس سے لازماً یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جو اپنے سمع و بصر کی صلاحیتوں کی قدر کریں وہ اس کا صلہ پائیں اور جو ان کی ناقدری کریں وہ اس کی سزا بھگتیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس سارے اہتمام کا مقصد کیا جو انسان کی پیدائش کے لیے قدرت نے کیا!

جاوید احمد غامدی

یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو پانی کی ایک ملی جلی بوند سے پیدا کیا ہے۔ ہم اُس کو الٹتے پلٹتے رہے، یہاں تک کہ ہم نے اُس کو دیکھتا سنتا بنا دیا۔

اصل میں لفظ ’اَمْشَاج‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’مشج‘ اور ’مشیج‘ کی جمع ہے اور اُن الفاظ میں سے ہے جو جمع ہونے کے باوجود مفرد کی صفت کے طور پر آتے ہیں۔ ملی جلی بوند سے اُس کا مختلف قویٰ وعناصر سے مرکب ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے اور مرد و عورت کے نطفوں کا امتزاج بھی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ جہاں مختلف عناصر اور متضاد طبائع اور مزاجوں کا امتزاج ہو، وہاں اُن کے اندر ایسا اعتدال و توازن برقرار رکھنا کہ پیش نظر مقصد کے مطابق صالح نتیجہ برآمد ہو، بغیر اِس کے ممکن نہیں کہ یہ کام ایک حکیم و قدیر کی نگرانی میں ہو۔ کسی اتفاقی حادثے کے طور پر اِس طرح کے حکیمانہ کام کا وقوع ممکن نہیں ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۱۰۷)

اصل میں لفظ ’نَبْتَلِیْہِ‘ آیا ہے۔ یہ تالیف کے لحاظ سے حال ہے۔ ’ابتلاء‘ کے معنی لغت میں جانچنے پرکھنے کے ہیں۔ اِس کے لیے چونکہ بالعموم کسی چیز کو مختلف پہلوؤں سے الٹ پلٹ کر دیکھا جاتا ہے، اِس لیے یہیں سے اِس میں مختلف اطوار سے گزارنے کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے۔ انسان کی تخلیق کے یہ اطوار سورۂ حج (۲۲) کی آیت ۵ اور سورۂ مومنون (۲۳) کی آیات ۱۲۔۱۴ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ یہ قطرہ بہت سے مراحل سے گزر کر گوہر ہوا ہے اور ہر مرحلے میں ہم نے اِسے اچھی طرح جانچا ہے کہ جس دور میں جو صلاحیت اِس کے اندر پیدا ہونی چاہیے، اُس کا امتحان ہوجائے اور اُس کے بعد یہ اگلے مرحلے میں داخل ہو۔
یہ انسان کی تمام اعلیٰ صفات کی نہایت جامع تعبیر ہے۔ یہی انسان کا اصلی امتیاز ہے اور اِسی بنا پر وہ ارادہ و اختیار کی نعمت سے نوازا گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ۔

یہ ہے دنیا میں انسان، اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد تخلیق یہیں پورا ہوجائے اور قانون فطرت کے مطابق ایک مدت تک اپنے حصے کا کام کر کے وہ یہیں مر کر فنا ہوجائے۔ نیز یہ دنیا اس کے لیے نہ دار العذاب ہے، جیسا کہ راہب سمجھتے ہیں، نہ دار الجزا ہے جیسا کہ تناسخ کے قائلین سمجھتے ہیں، نہ چراگاہ اور تفرگاہ ہے، جیسا کہ مادہ پرست سمجھتے ہیں اور نہ رزم گاہ، جیسا کہ ڈارون اور مارکس کے پیرو سمجھتے ہیں، بلکہ دراصل یہ اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔ وہ جس چیز کو عمر سمجھتا ہے حقیقت میں وہ امتحان کا وقت ہے جو اسے یہاں دیا گیا ہے۔ دنیا میں جو قوتیں اور صلاحتیں بھی اس کو دی گئی ہیں، جن چیزوں پر بھی اس کو تصرف کے مواقع دیے گئے ہیں، جن حیثیتوں میں بھی وہ یہاں کام کر رہا ہے اور جو تعلقات بھی اس کے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ہیں، وہ سب اصل میں امتحان کے بیشمار پرچے ہیں، اور زندگی کے آخری سانس تک اس امتحان کا سلسلہ جاری ہے۔ نتیجہ اس کا دنیا میں نہیں نکلنا ہے بلکہ آخرت میں اس کے تمام پرچوں کو جانچ کر یہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام۔ اور اس کی کامیابی و ناکامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہوئے یہاں کام کیا، اور کس طرح امتحان کے وہ پرچے کیے جو اسے یہاں دیے گئے تھے۔ اگر اس نے اپنے آپ کو بےخدایا بہت سے خداؤوں کا بندہ سمجھا، اور سارے پرچے یہ سمجھتے ہوئے کیے کہ آخرت میں اسے اپنے خالق کے سامنے کوئی جوابدہی نہیں کرنی ہے، تو اس کا سارا کارنامہ زندگی غلط ہوگیا اور اگر اس نے اپنے آپ کو خدائے واحد کا بندہ سمجھ کر اس طریقے پر کام کیا جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو اور آخرت کی جوابدہی کو پیش نظر رکھا تو وہ امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ (یہ مضمون قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ اور اتنی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان سب مقامات کا حوالہ دینا یہاں مشکل ہے۔ جو حضرات اسے پوری طرح سمجھنا چاہتے ہوں وہ تفہیم القرآن کی ہر جلد کے آخر میں فہرست موضوعات کے اندر لفظ ” آزمائش ” نکال کر وہ تمام مقامات دیکھ لیں جہاں قرآن میں مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں یہ حقیقت اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہو) ۔

‘اصل میں فرمایا گیا ہے ” ہم نے اسے سمیع وبصیر بنایا “۔ اس کا مفہوم صحیح طور پر ” ہوش گوش رکھنے والا بنایا ” سے ادا ہوتا ہے، لیکن ہم نے ترجمے کی رعایت سے سمیع کے معنی ” سننے والا ” اور بصیر کے معنی ” دیکھنے والا ” کیے ہیں۔ اگرچہ عربی زبان کے ان الفاظ کا لفظی ترجمہ یہی ہے مگر ہر عربی دان جانتا ہے کہ حیوان کے لیے سمیع اور بصیر کے الفاظ کبھی استعمال نہیں ہوتے، حالانکہ وہ بھی سننے اور دیکھنے والا ہوتا ہے۔ پس سننے اور دیکھنے سے مراد یہاں سماعت اور بینائی کی وہ قوتیں نہیں ہیں جو حیوانات کو بھی دی گئی ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا اور پھر اس سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ علاوہ بریں سماعت اور بصارت انسان کے ذرائع علم میں چونکہ سب سے زیادہ اہم ہیں اس لیے اختصار کے طور پر صرف انہی کا ذکر کیا گیا ہے، ورنہ اصل مراد انسان کو وہ تمام حواس عطا کرنا ہے جن کے ذریعہ سے وہ معلومات حاصل کرتا ہے۔ پھر انسان کو جو حواس دیے گئے ہیں وہ اپنی نوعیت میں ان حواس سے بالکل مختلف ہیں جو حیوانات کو دیئے گئے ہیں کیونکہ اس کے ہر حاسہ کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ موجود ہوتا ہے جو حواس کے ذریعہ سے آنے والی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو ترتیب دے کر ان سے نتائج نکالتا ہے، رائے قائم کرتا ہے اور پھر کچھ فیصلوں پر پہنچتا ہے جن پر اس کا رویہ زندگی مبنی ہوتا ہے۔ لہذا یہ کہنے کے بعد کہ انسان کو پیدا کر کے ہم اس کا امتحان لینا چاہتے تھے یہ ارشاد فرمانا کہ اسی غرض کے لیے ہم نے اسے سمیع وبصیر بنایا، دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے علم اور عقل کی طاقتیں دیں تاکہ وہ ا متحان دینے کے قابل ہو سکے۔ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام یہ نہ ہو اور سمیع وبصیر بنانے کا مطلب محض سماعت و بینائی کی قوتیں رکھنے والا ہی ہو تو ایک اندھا اور بہرا آدمی تو پھر امتحان سے مستثنیٰ ہوجاتا ہے حالانکہ جب تک کوئی علم و عقل سے بالکل محروم نہ ہو، امتحان سے اس کے مستثنیٰ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔

جونا گڑھی

بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لئے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا

 ملے جلے مطلب، مرد اور عورت دونوں کے پانی کا ملنا پھر ان کا مختلف اطوار سے گزرنا ہے۔ پیدا کرنے کا مقصد انسان کی آزمائش ہے۔ 

یعنی اسے سماعت اور بصارت کی قوتیں عطا کیں، تاکہ وہ سب کچھ دیکھ سکے اور سن سکے اور اس کے بعد اطاعت یا انکاری دونوں راستوں میں کسی ایک کا انتخاب کرسکے۔ 

إِنَّا هَدَيْنَـٰهُ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا

امین احسن اصلاحی

ہم نے اس کو راہ سجھا دی۔ چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔

سمع و بصر کا ثمرہ: یہ انسان کو سمیع و بصیر بنانے کا ثمرہ بیان ہوا ہے کہ پھر ہم نے اس کو راہ سجھا دی۔ ’راہ سجھانے‘ سے مراد یہ ہے کہ اس کو نیکی اور بدی کی راہ سجھا دی، جیسا کہ دوسرے مقام میں فرمایا ہے:

’وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ‘ (البلد ۹: ۱۰)
(اور ہم نے اس کو دونوں راہیں سجھا دیں)

سورۂ شمس میں فرمایا ہے:

’فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا‘ (الشمس ۹۱: ۸)
(پس اس کو اس کی بدی اور پرہیزگاری الہام کر دی)

ان دونوں راہوں کے سجھا دیے جانے کے سبب سے انسان خود اپنے اوپر خیر اور شر کا گواہ بن گیا اور اس کے پاس بدی کی راہ اختیار کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا۔ اس حقیقت کی طرف سابق سورہ میں یوں اشارہ فرمایا ہے:

’بَلِ الْإِنۡسَانُ عَلَی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ ۵ وَلَوْ أَلْقٰی مَعَاذِیْرَہُ‘ (القیٰمۃ ۷۵: ۱۴-۱۵)
(بلکہ انسان اپنے اوپر خود گواہ ہے اگرچہ وہ کتنے ہی عذرات تراشے)۔

اختیار کی نعمت: ’اِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُوْرًا‘۔ یہ انسان کے اختیار و ارادہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نیکی و بدی کا امتیاز دے کر اس کو اختیار بخشا ہے کہ وہ چاہے تو نیکی کی راہ اختیار کرے، چاہے تو بدی کی راہ چلے۔ اگر نیکی کی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنے گا اور اس کا انعام پائے گا اور اگر بدی کی راہ اپنائے گا تو وہ ناشکرا بنے گا اور اس کی سزا بھگتے گا۔

جاوید احمد غامدی

ہم نے اُسے خیر و شر کی راہ سجھا دی۔ اب وہ چاہے شکر کرے یا کفر کرے۔

یہ انسان کو سمیع و بصیر بنانے کا ثمرہ بیان ہوا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں ، انسان اِس کے نتیجے میں اپنے اوپر خیراور شر کا گواہ بن گیا ہے اور اُس کے پاس بدی کی راہ اختیار کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا۔
یہ انسان کے ارادہ و اختیار کا بیان ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا ۔

یعنی ہم نے اسے محض علم و عقل کی قوتیں دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی بھی کی تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ شکر کا راستہ کونسا ہے اور کفر کا راستہ کونسا، اور اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے اس کا ذمہ دار وہ خود ہو۔ سورة بلد میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وھدینہ النجدین۔ ” اور ہم نے اسے دونوں راستے (یعنی خیر و شر کے راستے) نمایاں کر کے بتا دیے “۔ اور سورة شمس میں یہی بات اس طرح بیان کی گئی ہے و نفس و ما سوھا فالھمھا فجورھا و تقوھا، ” اور قسم ہے (انسان کے) نفس کو اور اس ذات کی جس نے اسے (تمام ظاہری و باطنی قوتوں کے ساتھ) استوار کیا، پھر اس کا فجور اور اس کا تقوی دونوں اس پر الہام کردیے “۔ ان تمام تصریحات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ان تفصیلی بیانات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے دنیا میں کیا کیا انتظامات کیے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں ” راستہ دکھانے ” سے مراد رہنمائی کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے بلکہ بہت سی صورتیں ہیں جن کی کوئی حدو نہایت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر :

(1) ہر انسان کو علم و عقل کی صلاحیتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حس بھی دی گئی ہے جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے بعض افعال اور اوصاف کو برا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان میں مبتلا ہو، اور بعض افعال و اوصاف کو اچھا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان سے اجتناب کر رہا ہو۔ حتی کہ جن لوگوں نے اپنی اغراض و خواہشات کی خاطر ایسے فلسفے گھڑ لیے ہیں جن کی بنا پر بہت سی برائیوں کو انہوں نے اپنے لیے حلال کرلیا ہے، ان کا حال بھی یہ ہے کہ و ہی برائیاں اگر کوئی دوسرا ان کے ساتھ کرے تو وہ اس پر چیخ اٹھتے ہیں اور اس وقت معلوم ہوجاتا ہے کہ اپنے جھوٹے فلسفوں کے باوجود حقیقت میں وہ ان کو برا ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح نیک اعمال و اوصاف کو خواہ کسی نے جہالت اور حماقت اور دقیانوسیت ہی قرار دے رکھا ہو، لیکن جب کسی انسان سے خود اس کی ذات کو کسی نیک سلوک کا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی فطرت اسے قابل قدر سمجھنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

(2) ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ضمیر (نفس لوامہ) نام کی ایک چیز رکھ دی ہے جو اسے ہر اس موقع پر ٹوکتی ہے جب وہ کوئی برائی کرنے والا ہو یا کر رہا ہو یا کرچکا ہو۔ اس ضمیر کو خواہ انسان کتنی ہی تھپکیاں دے کر سلائے، اور اس کو بےحس بنانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کرلے، لیکن وہ اسے بالکل فنا کردینے پر قادر نہیں ہے۔ وہ دنیا میں ڈھیٹ بن کر اپنے آپ کو قطعی بےضمیر ثابت کرسکتا ہے، وہ حجتیں بگھار کر دنیا کو دھوکا دینے کی بھی ہر کوشش کرسکتا ہے، وہ اپنے نفس کو بھی فریب دینے کے لیے اپنے افعال کے لیے بیشمار عذرات تراش سکتا ہے، مگر اس کے باوجود اللہ نے اس کی فطرت میں جو محاسب بٹھا رکھا ہے وہ اتنا جاندار ہے کہ کسی برے انسان سے یہ بات چھپی نہیں رہتی کہ وہ حقیقت میں کیا ہے۔ یہی بات ہے جو سورة قیامہ میں فرمائی گئی ہے کہ ” انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے خواہ وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے “۔ (آیت 15) ۔

(3) انسان کے اپنے وجود میں اور اس کے گرد و پیش زمین سے لے کر آسمان تک ساری کائنات میں ہر طرف ایسی بیشمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو خبر دے رہی ہیں کہ یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر نہیں ہو سکتا، نہ بہت سے خدا اس کارخانہ ہستی کے بنانے والے اور چلانے والے ہو سکتے ہیں۔ اس طرح آفاق اور انفس کی یہی نشانیاں قیامت اور آخرت پر بھی صریح دلالت کر رہی ہیں۔ انسان اگر ان سے آنکھیں بند کرلے، یا اپنی عقل سے کام لے کر ان پر غور نہ کرے، یا جن حقائق کی نشاندہی یہ کر رہی ہیں ان کو تسلیم کرنے سے جی چرائے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تو حقیقت کی خبر دینے والے نشانات اس کے سامنے رکھ دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔

(4) انسان کی اپنی زندگی میں، اس کی ہم عصر دنیا میں، اور اس سے پہلے گزری ہوئی تاریخ کے تجربات میں بیشمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں اور آتے رہے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک بالا تر حکومت اس پر اور ساری کائنات پر فرمانروائی کر رہی ہے، جس کے آگے وہ بالکل بےبس ہے، جس کی مشیت ہر چیز پر غالب ہے، اور جس کی مدد کا وہ محتاج ہے۔ یہ تجربات و مشاہدات صرف خارج ہی میں اس حقیقت کی خبر دینے والے نہیں ہیں، بلکہ انسان کی اپنی فطرت میں بھی اس بالاتر حکومت کے وجود کی شہادت موجود ہے جس کی بنا پر بڑے سے بڑا دہریہ بھی برا وقت آنے پر خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے، اور سخت سے سخت مشرک بھی سارے جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کو پکارنے لگتا ہے۔

(5) انسان کی عقل اور اس کی فطرت قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ جرم کی سزا اور عمدہ خدمات کا صلہ ملنا ضروری ہے۔ اسی بنا پر تو دنیا کے ہر معاشرے میں عدالت کا نظام کسی نہ کسی صورت میں قائم کیا جاتا ہے اور جن خدمات کو قابل تحسین سمجھا جاتا ہے ان کا صلہ دینے کی بھی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی جاتی ہے۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اخلاق اور قانون مکافات کے درمیان ایک ایسا لازمی تعلق ہے جس سے انکار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اب اگر یہ مسلم ہے کہ اس دنیا میں بیشمار جرائم ایسے ہیں جن کی پوری سزا تو درکنار سرے سے کوئی سزا ہی نہیں دی جاسکتی، اور بیشمار خدمات بھی ایسی ہیں جن کا پورا صلہ تو کیا، کوئی صلہ بھی خدمت کرنے والے کو نہیں مل سکتا، تو آخرت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، الا یہ کہ کوئی بیوقوف یہ فرض کرلے، یا کوئی ہٹ دھرم یہ رائے قائم کرنے پر اصرار کرے کہ انصاف کا تصور رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوگیا ہے جو بجائے خود انصاف کے تصور سے خالی ہے۔ اور پھر اس سوال کا جواب اس کے ذمہ رہ جاتا ہے کہ ایسی دنیا میں پیدا ہونے والے انسان کے اندر یہ انصاف کا تصور آخر کہاں سے آگیا ؟

(6) ان تمام ذرائع رہنمائی کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی صریح اور واضح رہنمائی کے لیے دنیا میں انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں جن میں صاف صاف بتا دیا گیا کہ شکر کی راہ کون سی ہے اور کفر کی راہ کونسی اور ان دونوں راہوں پر چلنے کے نتائج کیا ہیں۔ انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی یہ تعلیمات، بیشمار محسوس اور غیر محفوس طریقوں سے اتنے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں پھیلی ہیں کہ کوئی انسانی آبادی بھی خدا کے تصور، آخرت کے تصور، نیکی اور بدی کے فرق، اور ان کے پیش کردہ اخلاقی اصولوں اور قانونی احکام سے ناواقف نہیں رہ گئی ہے، خواہ اسے یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ علم اسے انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی تعلیمات ہی سے حاصل ہوا ہے۔ آج جو لوگ انبیاء اور کتابوں کے منکر ہیں، یا ان سے بالکل بیخبر ہیں، وہ بھی ان بہت سی چیزوں کی پیروی کر رہے ہیں جو دراصل انہی کی تعلیمات سے چھن چھن کر ان تک پہنچی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان چیزوں کا اصل ماخذ کونسا ہے۔

جونا گڑھی

ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا۔

 یعنی مذکورہ قوتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ہم نے خود بھی انبیاء علیہ السلام، اپنی کتابوں اور داعیان حق کے ذریعے سے صحیح راستے کو بیان اور واضح کردیا ہے اب یہ اس کی مرضی ہے کہ اطاعت الہی کا راستہ اختیار کر کے شکر گزار بندہ بن جائے یا معصیت کا راستہ اختیار کر کے اس کا ناشکرا بن جائے۔ 

إِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلْكَـٰفِرِينَ سَلَـٰسِلَا۟ وَأَغْلَـٰلًا وَسَعِيرًا

امین احسن اصلاحی

ہم نے کفر کرنے والوں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

خیر اور شر میں امتیاز کا لازمی نتیجہ: یہ خیر اور شر میں امتیاز بخشے جانے کا لازمی نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو شکر و کفر دونوں کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت بخشی ہے تو ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کو انعام سے نوازے جو شکرگزاری کی راہ اختیار کریں اور ان لوگوں کو سزا دے جو کفر کی راہ چلیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس صلاحیت کا دیا جانا لاحاصل رہا درآنحالیکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، اس کی شان حکمت سے یہ بعید ہے کہ وہ کوئی عبث کام کرے۔

کافروں کو سزا: فرمایا کہ چونکہ ہم نے انسان کو شکر اور کفر کا امتیاز بخشا ہے اس وجہ سے ہمارے ہاں شاکر اور کافر دونوں یکساں نہیں ہوں گے بلکہ ہم ان کے ساتھ الگ الگ معاملہ کریں گے۔ ناشکروں کے لیے ہم نے زنجیریں، طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ان کے پاؤں میں زنجیریں پہنائی جائیں گی، گردنوں میں آہنی طوق ڈالے جائیں گے اور پھر ان کو گھسیٹ کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ) ہم نے منکروں کے لیے زنجیریں، طوق اور دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

یعنی جب ہم نے اِسے خیر و شر کا امتیاز بخشا ہے اور اِس کے ساتھ ارادہ و اختیار کی نعمت بھی عطا فرمائی ہے تو اِس کا نتیجہ یہ ہے اور یہی ہونا چاہیے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں وہ اپنے کفر اور سرکشی کی یہ جزا پا لے۔

ابو الاعلی مودودی

کفر کرنے والوں کے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔

n/a

جونا گڑھی

یقیناً ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور شعلوں والی آگ تیار کر رکھی ہے۔

 یہ اللہ کی دی ہوئی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ 

إِنَّ ٱلْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا

امین احسن اصلاحی

ہاں، وفادار بندے ایسی شراب کے جام نوش کریں گے جس میں چشمۂ کافور کی ملونی ہو گی۔

شکرگزاروں کو انعام: یہ کافروں کے مقابل میں شاکر بندوں کے صلہ کا بیان ہوا ہے اور ان کو ’ابرار‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لفظ کی تحقیق اس کے محل میں گزر چکی ہے۔ ’برّ‘ کی اصل روح ایفائے عہد و ذمہ ہے اور لفظ ’شکر‘ کی اصل حیثیت نعمت کے حق کو پہچاننا اور اس کو ادا کرنا ہے۔ ان دونوں میں واضح قدر مشترک موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو بندے اس کی نعمتوں کا حق پہچانتے اور اس کو ادا کرتے ہیں وہی دراصل اس کے وفادار بندے ہیں۔

لفظ ’کَأْسٌ‘ کی تحقیق بھی اس کے محل میں گزر چکی ہے۔ یہ ظرف اور مظروف یعنی شراب اور جام شراب دونوں معنوں میں آتا ہے۔
’مِزَاجٌ‘ کے معنی ملونی کے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں میں بعض اوقات لذت، خوشبو یا ان کے مزاج میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے بعض چیزیں ان کے استعمال کے وقت ملائی جاتی ہیں۔ شراب میں بھی اس طرح کی ملونیوں اور بعض دوسرے لوازم کا ذکر عرب شعراء کرتے ہیں۔ اہل جنت کی شراب میں یہ ملونی چشمۂ کافور کے آب زلال کی ہو گی۔
’کَافُوْرٌ‘ سے مراد یہاں معروف کافور نہیں ہے۔ قرآن نے خود وضاحت فرما دی ہے کہ یہ جنت کا ایک چشمہ ہے جس کے کنارے بیٹھ کر اللہ کے خاص بندے شراب نوش کریں گے اور اس چشمہ کے پانی کی ملونی سے اس کے کیف و سرور کو دوچند کریں گے۔ رہا یہ سوال کہ اس کا نام کافور کیوں رکھا گیا ہے تو ناموں سے متعلق اس طرح کا سوال اگرچہ پیدا نہیں ہوتا تاہم ذہن اس طرف جاتا ضرور ہے کہ اسم اور مسمّٰی میں کوئی مناسبت ہو گی۔ یہ مناسبت کس نوع کی ہے؟ اس کا تعلق متشابہات سے ہے۔ اس کی اصل حقیقت اسی دن اور انھی خاص بندوں پر کھلے گی جن کو اس سے بہرہ مند ہونے کی سعادت حاصل ہو گی۔

جاوید احمد غامدی

(اِس کے برخلاف ہمارے) وفادار بندے شراب کے جام پئیں گے جن میں آب کافور کی ملونی ہو گی۔

اصل میں لفظ ’کَاْس‘ آیا ہے۔ یہ شراب اور جام شراب، دونوں کے لیے آتا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

نیک لوگ ﴿جنت میں ﴾ شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی،

اصل میں لفظ ابرار استعمال ہوا ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی اطاعت کا حق ادا کیا ہو، اس کے عائد کیے ہوئے فرائض بجا لائے ہوں، اور اس کے منع کیے ہوئے افعال سے اجتناب کیا ہو۔

جونا گڑھی

بیشک نیک لوگ وہ جام پئیں گے جس کی امیزش کافور کی ہے۔

 کأس اس جام کو کہتے ہیں جو بھرا ہوا ہو اور چھلک رہا ہو کافور ٹھنڈی اور ایک مخصوص خوشبو کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی آمیزش سے شراب کا ذائقہ دو آتشہ اور اس کی خوشبو مشام جان کو معطر کرنے والی ہوجائے گی۔ 

عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ ٱللَّـهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا

امین احسن اصلاحی

اس چشمہ سے اللہ کے خاص بندے پئیں گے اور اس کی شاخیں نکال لیں گے جدھر جدھر چاہیں گے۔

لبِ جُو مے نوشی کا اہتمام: ’یَشْرَبُ بِہَا‘ میں ’ب‘ میرے نزدیک ظرفیہ ہے جس طرح ’یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘ اور ’یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ‘ میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چشمہ اللہ کے خاص بندوں کی بزم مے نوشی کے لیے مخصوص ہو گا۔ ’عباد اللہ‘ سے مراد وہی ابرار ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ انہی کو یہ خاص شرف حاصل ہو گا کہ ان کی مے نوشی کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مخصوص چشمہ کا بھی اہتمام فرمائے گا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مے نوشی اور لبِ جُو میں بڑی مناسبت ہے۔

’یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفْجِیْرًا‘۔ ’تَفْجِیْرٌ‘ کے معنی کسی چشمہ کی بہت سی شاخیں نکال نکال کر ان کے جال بچھا دینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس چشمہ پر پہنچنے کے لیے اہل جنت کو کوئی شدِّر حال نہیں کرنا پڑے گا بلکہ جو جہاں چاہے گا اس کی شاخیں نکال لے گا اور اس کی لذتوں اور اس کی سیر سے بغیر کسی زحمت سفر کے خوش وقت اور شاد کام ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

یہ ایک چشمہ ہے جس کے پاس (بیٹھ کر) اللہ کے یہ بندے پئیں گے اور (جس طرف چاہیں گے)، بہ سہولت اُس کی شاخیں نکال لیں گے۔

یہ قرآن نے خود وضاحت کر دی ہے کہ کافور سے مراد کافور نہیں، بلکہ یہ جنت کے ایک چشمے کا نام ہے۔ لیکن اِس نام میں کیا رعایت ملحوظ ہے؟ یہ امور متشابہات میں سے ہے جس کی حقیقت ہم یہاں نہیں سمجھ سکتے۔

اصل الفاظ ہیں: ’یَشْرَبُ بِھَا عِبَادُ اللّٰہِ‘۔ اِن میں ’ب‘ ظرفیت کے لیے ہے۔ لب جو بیٹھ کر پینا مے نوشی کے لوازم میں سے ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ یہ چشمہ خدا کے بندوں کے لیے خاص ہو گااور وہ اُس کے کنارے بیٹھ کر پئیں گے۔
یعنی اہل جنت کو اِس کے لیے رخت سفر باندھ کر نکلنا نہیں پڑے گا، بلکہ جو جہاں چاہے گا، اُس کی شاخیں نکال لے گا اور استاذ امام کے الفاظ میں اُس کی لذتوں اور اُس کی سیر سے بغیر کسی زحمت سفرکے خوش وقت اور شاد کام ہو گا۔

ابو الاعلی مودودی

یہ ایک بہتا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے ۔

یعنی وہ کافور ملا ہوا پانی نہ ہوگا بلکہ ایسا قدرتی چشمہ ہوگا جس کے پانی کی صفائی اور ٹھنڈک اور خوشبو کافور سے ملتی جلتی ہوگی۔

عباد اللہ (اللہ کے بندے) یا عبادالرحمن (رحمن کے بندے) کے الفاظ اگرچہ لغوی طور پر تمام انسانوں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں، کیونکہ سب ہی خدا کے بندے ہیں، لیکن قرآن میں جہاں بھی یہ الفاظ آئے ہیں ان سے نیک بندے ہی مراد ہیں۔ گو یا کہ بد لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو بندگی سے خارج کر رکھا ہو، اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ اپنے اسم گرامی کی طرف منسوب کرتے ہوئے عباد اللہ یا عبدالرحمن کے معزز خطاب سے نوازے۔

یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں وہ کدال پھاوڑے لے کر نالیاں کھودیں گے اور اس طرح اس چشمے کا پانی جہاں لے جانا چاہیں گے لے جائیں گے، بلکہ ان کا ایک حکم اور اشارہ اس کے لیے کافی ہوگا کہ جنت میں جہاں وہ چاہیں اسی جگہ وہ چشمہ پھوٹ بہے۔ بسہولت نکال لینے کے الفاظ اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

جونا گڑھی

جو ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پئیں گے اس کی نہریں نکال لے جائیں گے (جدھر چاہیں) ۔

 یعنی کافور ملی شراب، دو چار صراحیوں یا مٹکوں نہیں ہوگی، بلکہ چشمہ ہوگا، یعنی ختم ہونے والی نہیں ہوگی۔

 یعنی اس کو جدھر چاہیں گے، موڑ لیں گے، اپنے محلات و منازل میں، اپنی مجلسوں میں اور بیٹھکوں میں اور باہر میدانوں اور تفریح گاہوں میں۔ 

يُوفُونَ بِٱلنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُۥ مُسْتَطِيرًا

امین احسن اصلاحی

یہ اپنی نذریں پوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے رہے ہیں جس کا ہول ہمہ گیر ہو گا۔

ابرار کے وہ اعمال جن کے صلہ میں ان کو یہ سرفرازی حاصل ہو گی: یہ ان کے وہ اوصاف و اعمال بیان ہو رہے ہیں جن کے سبب سے ان کو رب کریم کی طرف سے یہ سرفرازی بخشی جائے گی۔

کوئی نیک کام کرنے کا عہد کر لینے کو ’نذر‘ کہتے ہیں۔ ان وفادار بندوں (ابرار) کے اوصاف میں ایفائے نذر کو خاص طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔ جو لوگ ان نذروں کے پورے کرنے کا بھی اہتمام رکھیں گے جو انھوں نے بطور خود اپنے اوپر واجب کی ہوں ان سے نیکیوں کے بدرجۂ اولیٰ اہتمام کی توقع ہے جو ان کے رب نے ان پر واجب ٹھہرائی ہیں۔ ہمارے مفسرین نے اس لفظ کے مفہوم کو وسیع کر کے تمام نیکیوں پر حاوی کر دیا ہے، خواہ بندے نے اپنے اوپر وہ ازخود عائد کی ہوں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہوں۔ لیکن یہ اس لفظ کے حقیقی مفہوم سے تجاوز ہے۔
اسلام سے پہلے نذر کی اہمیت: یہاں یہ امر یاد رکھیے کہ ’نذر‘ کی اہمیت سابق ادیان میں بھی بہت رہی ہے اور عرب جاہلیت میں بھی اس کا بڑا اہتمام تھا۔ جو لوگ کوئی نیکی کا کام کرنا چاہتے، خواہ وہ حج و عمرہ کے قسم کی ہو یا قربانی و انفاق کے نوع کی، وہ اس کی نذر مانتے اور اہتمام سے اپنی نذر پوری کرتے۔ عربوں کے اندر اس کی وجہ زیادہ تر ان کی امیت تھی۔ دین کے طریقے ان کو واضح طور پر معلوم نہیں تھے اس وجہ سے ان کے اندر کے نیک لوگ نذروں کے ذریعہ سے اس خلا کو بھرتے۔ اسلام کے آ جانے کے بعد جب شریعت کے تمام اصول و فروع لوگوں کو معلوم ہو گئے تو اس کا دائرہ محدود ہو گیا۔ وہ نذریں جو مشرکانہ نوعیت کی تھیں وہ تو بالکل ختم کر دی گئیں۔ جو نذریں تکلیف مالایطاق نوعیت کی تھیں وہ بھی یا تو ممنوع قرار پا گئیں یا ان کی اصلاح کر دی گئی۔ یہ سورہ چونکہ اس دور کی ہے جب شریعت کے احکام و آداب لوگوں کو تفصیل سے معلوم نہیں ہوئے تھے اس وجہ سے اس میں اس کا ذکر خاص اہمیت سے ہوا۔ بعد میں جب شریعت کا پورا میثاق نازل ہو گیا تو اس کا دائرہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، نہایت محدود ہو گیا۔
خوف آخرت: ’وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیْرًا‘۔ ’مُسْتَطِیْرٌ‘ کے معنی عام اور ہمہ گیر کے ہیں۔ یہ ان کے اندیشۂ آخرت کا بیان ہے کہ وہ ہمیشہ اس دن کی پکڑ سے ڈرتے رہے ہیں جس کی آفت عام و ہمہ گیر ہو گی۔ یعنی اس دن بڑے اور چھوٹے، امیر اور غریب، راعی اور رعایا یہاں تک کہ عابد اور معبود سب کو اس کے ہول سے سابقہ پیش آئے گا۔ صرف وہی لوگ اس سے محفوظ رہیں گے جن کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔

جاوید احمد غامدی

یہ اپنی نذریں پوری کرتے اور اُس دن سے ڈرتے رہے جس کا ہول ہر چیز کو گھیر لے گا۔

یعنی شریعت کے واجبات تو الگ، نیکی اور خیر کے جو کام وہ خود اپنے اوپر واجب کر لیتے ہیں، اُنھیں بھی نہایت اہتمام کے ساتھ پورا کرتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

یہ وہ لوگ ہونگے جو ﴿دنیا میں﴾ نذر پوری کرتے ہیں ، اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی،

نذر پوری کرنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب کیا گیا ہو اسے وہ پورا کرے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے خود اپنے اوپر واجب کرلیا ہو، یا بالفاظ دیگر جس کام کے کرنے کا اس نے عہد کیا ہو، اسے وہ پورا کرے۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب ہو، ، خواہ وہ اس پر واجب کیا گیا ہو یا اس نے خود اپنے اوپر واجب کرلیا ہو، اسے وہ پورا کرے۔ ان تینوں مفہومات میں سے زیادہ معروف مفہوم دوسرا ہے اور عام طور پر لفظ نذر سے وہی مراد لیا جاتا ہے۔ بہرحال یہاں ان لوگوں کی تعریف یا تو اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ واجبات کو پورا کرتے ہیں، یا اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ ایسے نیک لوگ ہیں کہ جو خیر اور بھلائی کے کام اللہ نے ان پر واجب نہیں کیے ہیں ان کو بھی انجام دینے کا جب وہ اللہ سے عہد کرلیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں، کجا کہ ان واجبات کو ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کریں جو اللہ نے ان پر عائد فرمائے ہیں۔

جہاں تک نذر کے احکام کا تعلق ہے، ان کو مختصر طور پر ہم تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 310 میں بیان کرچکے ہیں، لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے یہاں ان کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کردیا جائے تاکہ لوگ نذر کے معاملہ میں جو غلطیاں کرتے ہیں یا جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان سے بچ سکیں اور نذر کے صحیح قواعد سے واقف ہوجائیں۔

(1) فقہاء نے نذر کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک آدمی اللہ سے یہ عہد کرے کہ وہ اس کی رضا کی خاطر فلاں نیک کام کرے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اس بات کی نذر مانے کہ اگر اللہ نے میری فلاں حاجت پوری کردی تو میں شکرانے میں فلاں نیک کام کروں گا۔ ان دونوں قسم کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر تبرر (نیکی کی نذر) کہتے ہیں اور اس پر اتفاق ہے کہ اسے پورا کرنا واجب ہے۔ تیسرے یہ کہ آدمی کوئی ناجائز کام کرنے یا کوئی واجب کام نہ کرنے کا عہد کرلے۔ چوتھے یہ کہ آدمی کوئی مباح کام کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلے، یا کوئی مستحب کام نہ کرنے کا کوئی خلاف اولی کام کرنے کا عہد کرلے۔ ان دونوں قسموں کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر لجاج (جہالت اور جھگڑالو پن اور ضد کی نذر) کہتے ہیں۔ ان میں سے تیسری قسم کی نذر کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ منعقد ہی نہیں ہوتی۔ اور چوتھی قسم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اسے پورا کرنا چاہیے۔ بعض کہتے ہیں کہ قسم توڑنے کا کفارہ ادا کردینا چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے، خواہ نذر پوری کر دے، یا کفارہ ادا کر دے۔ شافعیوں اور مالکیوں کے نزدیک یہ نذر بھی سرے سے منعقد نہیں ہوتی۔ اور حنفیوں کے نزدیک دونوں قسموں کی نذروں پر کفارہ لازم آتا ہے۔ (عمدۃ القاری) ۔

(2) متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی نذر ماننے سے منع فرمایا ہے جو یہ سمجھتے ہوئے مانی جائے کہ اس سے تقدیر بدل جائے گی، یا جس میں کوئی نیک کام اللہ کی رضا کے لیے بطور شکر کرنے کے بجائے آدمی اللہ تعالیٰ کو بطور معاوضہ یہ پیشکش کرے کہ آپ میرا یہ کام کردیں تو میں آپ کے لیے فلاں نیک کام کر دوں گا۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ اخذ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ینھی عن النذر و یقول انہ لا یرد شیئاً وانما یستخرج بہ من البخیل۔ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی، البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے “۔ (مسلم۔ ابو داؤد) ۔ حدیث کے آخری فقرے کا مطلب یہ ہے کہ بخیل یوں تو راہ خدا میں مال نکالنے والا نہ تھا، نذر کے ذریعہ سے اس لالچ میں وہ کچھ خیرات کردیتا ہے کہ شاہد یہ معاوضہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تقدیر بدل دے۔ دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا النذر لا یقدم شیئاً ولا یوخرہ وانما یستخرج بہ من البخیل۔ ” نذر نہ کوئی کام پہلے کرا سکتی ہے، نہ کسی ہوتے کام میں تاخیر کرا سکتی ہے۔ البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل کے ہاتھ سے نکلوا لیا جاتا ہے ” (بخاری و مسلم) ۔ ایک اور روایت میں وہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا انہ لا یاتی بخیر وانما یستخرج بہ من البخیل۔ ” اس سے کوئی کام بنتا نہیں ہے البتہ اس کے ذریعے سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے ” (بخاری و مسلم) ۔ تقریباً اسی مضمون کی متعدد روایات مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہیں، اور ایک روایت بخاری و مسلم دونوں نے نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان النذر لا یقرب من ابن ادم شیئا لم یکن اللہ قدرہ لہ ولکن النذر یوافق القدر فیخرج بذالک من البخیل ما لم یکن البخیل یرید ان یخرج۔ ” درحقیقت نذر ابن آدم کو کوئی ایسی چیز نہیں دلوا سکتی جو اللہ نے اس کے لیے مقدر نہ فرمائی ہو، لیکن نذر ہوتی تقدیر کے مطابق ہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تقدیر الہی وہ چیز بخیل کے پاس سے نکال لاتی ہے جسے وہ کسی اور طرح نکالنے والا نہ تھا “۔ اسی مضمون پر مزید روشنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی اس روایت سے پڑتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما النذر ما ابتغی بہ وجہ اللہ۔ ” اصل نذر تو وہ ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو “۔ (طحاوی) ۔

(3) نذر کے معاملہ میں ایک اور قاعدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمایا ہے کہ صرف وہ نذر پوری کرنی چاہیے جو اللہ کی اطاعت میں ہو۔ اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر ہرگز پوری نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی چیز میں کوئی نذر نہیں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو، یا ایسے کام میں کوئی نذر نہیں ہے جو انسان کے بس میں نہ ہو۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من نذر ان یطیع اللہ فلیطعہ و من نذر ان یعص اللہ فلا یعصہ۔ ” جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہیے، اور جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے نافرمانی نہیں کرنی چاہیے ” (بخاری، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، طحاوی) ۔ ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا وفاء لنذر فی معصیۃ اللہ ولا فیھا لا یملک ابن ادم۔ ” اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کے پورا کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، نہ کسی ایسی چیز میں جو آدمی کی ملکیت میں نہ ہو “۔ (ابو داؤد) ۔ مسلم نے اسی مضمون کی روایت حضرت عمران بن حصین سے نقل کی ہے۔ اور ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی روایت اس سے زیادہ مفصل ہے جس میں وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ لا نذر ولا یمین فی ما لا یملک ابن ادم، ولا فی معصیۃ اللہ، ولا فی قطیعۃ رحم۔ ” کوئی نذر اور کوئی قسم کسی ایسے کام میں نہیں ہے جو آدمی کے بس میں نہ ہو، یا اللہ کی نافرمانی میں ہو، یا قطع رحمی کے لیے ہو “۔

(4) جس کام میں بجائے خود کوئی نیکی نہیں ہے اور آدمی نے خواہ مخواہ کسی فضول کام، ناقابل برداشت مشقت یا محض تعذیب نفس کو نیکی سمجھ کر اپنے اوپر لازم کرلیا ہو اس کی نذر پوری نہیں کرنی چاہیے۔ اس معاملہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات بالکل واضح ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک صاحب دھوپ میں کھڑے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ کون ہے اور کیسے کھڑے ہیں ؟ عرض کیا گیا یہ ابو اسرائیل ہیں، انہوں نے نذر مانی ہے کہ کھڑے رہیں، بیٹھیں گے نہیں، نہ سایہ کریں گے، نہ کسی سے بات کریں، اور روزہ رکھیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا مروہ فلیکلم ولیستظل ولیقعد، ولیتم صومہ۔ ” ان سے کہو بات کریں، سایہ میں آئیں، البتہ روزہ پورا کریں “۔ (بخاری، ابو داؤد، ابن ماجہ، موطا) حضرت عقبہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ میری بہن نے ننگے پاؤں پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور یہ نذر بھی مانی کہ اس سفر میں سر پر کپڑا بھی نہ ڈالیں گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے کہو کہ سواری پر جائے اور سر ڈھانکے (ابو داؤد۔ مسلم نے اس مضمون کی متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں کچھ لفظی اختلاف ہے) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے عقبہ بن عامر کی بہن کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ یہ ہیں : ان اللہ لغنی عن نذرھا، مرھا فلترکب۔ ” اللہ کو اس کی اس نذر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے کہو کہ سواری پر جائے ” (ابو داؤد) ۔ ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا، میری بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اللہ لا یصنع بشقاء اختک شیئا فلتحج راکبۃ۔ ” تیری بہن کے مشقت میں پڑنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں پڑی ہے۔ اسے سواری پر حج کرنا چاہیے “۔ (ابو داؤد) ۔ حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (غالباً سفر حج) میں دیکھا کہ ایک بڑے میاں کو ان کے دو بیٹے سنبھالے لیے چل رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا کیا معاملہ ہے ؟ عرض کیا گیا کہ انہوں نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا ان اللہ لغنی عن تعذیب ھذا نفسہ، و امرہ ان یرکب۔ ” اللہ تعالیٰ اس سے بےنیاز ہے کہ یہ شخص اپنے نفس کو عذاب میں ڈالے “۔ پھر آپ نے اسے حکم دیا کہ سوا ہو۔ (بخاری، مسلم، ابو داؤد۔ مسلم میں اسی مضمون کی حدیث حضرت ابوہریرہ سے بھی مروی ہے) ۔

(5) اگر کسی نذر کو پورا کرنا عملاً ممکن نہ ہو تو اسے کسی دوسری صورت میں پورا کیا جاسکتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز ایک شخص نے اٹھ کر عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح کردیا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہیں پڑھ لے۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے فرمایا شانک اذاً ، ” اچھا تو تیری مرضی ” دوسری ایک روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا والذی بعث محمد بالحق، لو صلیت ھھنا لا جزا عنک صلوۃ فی بیت المقدس۔ ” قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر تو یہیں نماز پڑھ لے تو بیت المقدس میں نماز پڑھنے کے بدلے یہ تیرے لیے کافی ہوگی “۔ (ابوداؤد) ۔

(6) اگر کسی نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی نذر مان لی ہو تو اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالک کہتے کہ اسے ایک تہائی مال دے دینا چاہیے، اور مالکیہ میں سے سحنون کا قول ہے کہ اسے اتنا مال دے دینا چاہیے جسے دینے کے بعد تکلیف میں نہ پڑجائے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر یہ نذر تبرر کی نوعیت کی ہو تو ا سے سارا مال دے دینا چاہیے، اور اگر یہ نذر لحاج ہو تو اسے اختیار ہے کہ نذر پوری کرے یا قسم کا کفارہ ادا کرے۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اسے اپنا وہ سب مال دے دینا چاہیے جس میں زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، لیکن جس مال میں زکوٰۃ نہیں ہے مثلاً مکان یا ایسی ہی دوسری املاک، اس پر اس نذر کا اطلاق نہ ہوگا۔ حنفیہ میں سے امام زفر کا قول ہے کہ اپنے اہل و عیال کے لیے دو مہینے کا نفقہ رکھ کر باقی سب صدقہ کر دے۔ (عمدۃ القاری۔ شرح مؤطاء از شاہ ولی اللہ صاحب) ۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق جو روایات آئی ہیں وہ یہ ہیں : حضرت کعب بن مالک کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ جانے کی وجہ سے جو عتاب مجھ پر ہوا تھا اس کی جب معافی مل گئی تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ میری توبہ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ میں اپنے سارے مال سے دست بردار ہو کر اسے اللہ اور رسول کی راہ میں صدقہ کر دوں گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا، پھر آدھا مال ؟ فرمایا، نہیں۔ میں نے عرض کیا، پھر ایک تہائی ؟ فرمایا ہاں (ابو داؤود) ۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا تم اپنا کچھ مال اپنے لیے روک رکھو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے (بخاری۔ امام زہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابو لبابہ نے (جن پر اسی غزوہ تبوک کے معاملہ میں عتاب ہوا تھا، حضور نے عرض کیا، میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کے طور پر اپنے سارے مال سے دست بردار ہوتا ہوں۔ حضور نے جواب دیا تمہارے لیے اس میں سے صرف ایک تہائی دے دینا کافی ہے (مؤطا) ۔

(7) اسلام قبول کرنے سے پہلے اگر کسی شخص نے کسی نیک کام کی نذر مانی ہو تو کیا اسلام قبول کرنے کے بعد اسے پورا کیا جائے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فتویٰ اس بارے میں یہ ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ بخاری، ابو داؤد اور طحاوی میں حضرت عمر کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات (اور بروایت بعض ایک دن) مسجد حرام میں اعتکاف کریں گے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے حضور سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا اوف بنذرک ” اپنی نذری پوری کرو “۔ بعض فقہاء نے حضور کے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ ایسا کرنا واجب ہے، اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ یہ مستحب ہے۔

(8) میت کے ذمہ اگر کوئی نذر رہ گئی ہو تو اسے پورا کرنا وارثوں پر واجب ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور اور ظاہریہ کہتے ہیں کہ میت کے ذمہ اگر روزے یا نماز کی نذر رہ گئی ہو تو وارثوں پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر بدنی عبادت (نماز یا روزہ) کی ہو تو وارثوں پر اس کا پورا کرنا و اجب نہیں ہے، اور اگر مالی عبادت کی ہو اور مرنے والے نے اپنے وارثوں کو اسے پورا کرنے کی وصیت نہ کی ہو تو اسے پورا کرنا واجب نہیں، البتہ اگر اس نے وصیت کی ہو تو اس کے ترکے میں سے ایک تہائی کی حد تک نذر پوری کرنی واجب ہوگی۔ مالکیہ کا مذہب بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر غیر مالی عبادت کی ہو، یا مالی عبادت کی ہو اور میت نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو، تو اسے پورا کرنا وارثوں پر واجب نہیں ہے۔ اور اگر میت نے ترکہ چھوڑا ہو تو وارثوں پر مالی عبادت کی نذر پوری کرنا واجب ہے، خواہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو (شرح مسلم للنوی۔ بذل المجہود شرح ابی داؤد) ۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے ذمہ ایک نذر تھی جو انہوں نے پوری نہیں کی تھی۔ حضور نے فرمایا تم اس کی طرف سے پوری کر دو (ابو داؤد۔ مسلم) ۔ دوسری روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ایک عورت نے بحری سفر کیا اور نذر مانی کہ اگر میں زندہ سلامت واپس گھر پہنچ گئی تو ایک مہینے کے روزے رکھوں گی۔ واپس آنے کے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور وہ مر گئی۔ اس کی بہن یا بیٹی نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا اور آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے تو روزے رکھ لے (ابو داؤد) ۔ ایسی ہی ایک روایت ابوداؤد نے حضرت بریدہ سے نقل کی ہے کہ ایک عورت نے حضور سے اسی طرح کا مسئلہ پوچھا اور آپ نے اسے وہی جواب دیا جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ ان روایات میں چونکہ یہ بات صاف نہیں ہے کہ حضور کے یہ ارشادات وجوب کے معنی میں تھے یا استجاب کے معنی ہیں، اور حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کی نذر کے معاملہ میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مالی عبادت کے بارے میں تھی یا بدنی عبادت کے بارے میں، اسی بنا پر فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلافات ہوئے ہیں۔

(9) غلط اور نائز نوعیت کی نذر کے معاملہ میں یہ بات تو صاف ہے کہ اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اس پر کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے میں چونکہ روایات مختلف ہیں اس لیے فقہاء کے مسالک بھی مختلف ہیں۔ ایک قسم کی روایات میں یہ آیا ہے کہ حضور نے ایسی صورت میں کفارہ کا حکم دیا ہے۔ مثلاً ، حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ حضور نے فرمایا لا نذر فی معصیۃ و کفارتہ کفارۃ یمین، ” معصیت میں کوئی نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے ” (ابوداؤد) ۔ عقبہ بن عامر جہنی کی بہن کے معاملہ میں (جس کا ذکر اوپر نمبر 4) میں گزر چکا ہے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ وہ اپنی نذر توڑ دیں اور تین دن کے روزے رکھیں (مسلم۔ ابو داؤد) ۔ ایک اور عورت کے معاملہ میں بھی جس نے پیدل حج کی نذر مانی تھی، حضور نے حکم دیا کہ وہ سواری پر حج کے لیے جائے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے (ابوداؤد) ۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من نذر نذراً لم یسمہ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذر نذراً فی معصیۃ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذر نذراً لا یطیقہ فکفارتہ کفارۃ یمین، و من نذ نذراً اطاقہ فلیف بہ۔ ” جس نے ایک نذر مان لی اور اس بات کا تعین نہ کیا کہ کس بات کی نذر مانی ہے وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے معصیت کی نذر مانی وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے پورا کرنے کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے وہ پورا کرسکتا ہو وہ اسے پورا کرے ” (ابوداؤد) ۔ دوسری طرف وہ احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں کفارہ نہیں ہے۔ اوپر نمبر 4 میں جن صاحب کا ذکر آیا ہے کہ انہوں نے دھوپ میں کھڑے رہنے اور کسی سے بات نہ کرنے کی نذر مانی تھی، ان کا قصہ نقل کر کے امام مالک نے مؤطا میں لکھا ہے کہ مجھے کسی ذریعہ سے بھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضور نے ان کو نذر توڑنے کا حکم دینے کے ساتھ یہ بھی حکم دیا ہو کہ وہ کفارہ ادا کریں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من حلف علی یمین فراٰی غیرھا خیراً منھا فلیدعھا ولیات الذی ھو خیر فان ترکھا کفار تھا، ” جس نے کسی بات کی قسم کھائی ہو اور بعد میں وہ دیکھے کہ اس سے بہتر بات دوسری ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہو اور اسے چھوڑ دینا ہی اس کا کفارہ ہے ” ) ابوداؤد) ۔ بیہقی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اور حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت کہ ” جو کام بہتر ہے وہ کرے اور یہی اس کا کفارہ ہے “۔ ثابت نہیں ہے) ۔ امام نووی ان احادیث پر بحث کرتے ہوئے شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ امام مالک، شافعی ابوحنیفہ، داؤد ظاہری اور جمہور علماء رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ معصیت کی نذر باطل ہے اور اسے پورا نہ کرنے پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اور امام احمد کہتے ہیں کہ کفارہ لازم آتا ہے۔

جونا گڑھی

جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے ۔

 یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت و اطاعت کرتے ہیں نذر بھی مانتے ہیں تو اسی کے لیے اور پھر اسے پورا کرتے ہیں۔ اس دن سے ڈرتے ہوئے محرمات اور معصیات کا ارتکاب نہیں کرتے۔ برائی پھیل جانے کا مطلب ہے کہ اس روز اللہ کی گرفت صرف وہی بچے گا جسے اللہ اپنے دامن عفو و رحمت میں ڈھانک لے گا۔ باقی سب اس کے شر کی لپیٹ میں ہونگے۔ 

وَيُطْعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا

امین احسن اصلاحی

اور وہ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے ہیں۔ خود اس کے حاجت مند ہوتے ہوئے۔

غریبوں کی خدمت: یہ خلق کے ساتھ ان کے رویہ کا بیان ہے کہ وہ مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کی ضرورتیں، خود اپنی ضرورتیں نظرانداز کر کے پوری کرتے ہیں۔ لفظ ’اِطْعَامٌ‘ محدود معنی میں نہیں ہے۔ زندگی کی دوسری ناگزیر ضروریات کا اہتمام بھی اس میں شامل ہے۔ قرآن میں یہ لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

’عَلٰی حُبِّہٖ‘ میں ضمیر کا مرجع: ’عَلٰی حُبِّہٖ‘ میں ضمیر کا مرجع عام طور پر لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو مانا ہے۔ ان کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ وہ مسکینوں اور یتیموں کو اللہ کی محبت میں کھلاتے پہناتے ہیں۔ اگرچہ قاعدہ زبان کی رو سے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے لیکن شواہد قرآن کے پہلو سے میں ان لوگوں کے قول کو ترجیح دیتا ہوں جو اس کا مرجع ’طعام‘ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ضرورت پر مسکینوں اور یتیموں کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس قول کو ترجیح دینے کے مختلف وجوہ ہیں:
ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ابرار کا کردار بیان ہو رہا ہے اور ’بر‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچی وفاداری کا مقام حاصل کرنے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں وہ چیز خرچ کرے جو اس کو خود عزیز ہو۔ خواہ اس وجہ سے عزیز ہو کہ وہ بذات خود قیمتی ہے یا اس وجہ سے کہ وہ اس کا ضرورت مند ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

’لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ‘ (آل عمران ۳: ۹۲)
(تم اللہ کی وفاداری کا درجہ نہیں حاصل کر سکتے جب تک تم ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں نہ خرچ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو)۔

یہی حقیقت دوسرے لفظوں میں یوں واضح فرمائی گئی ہے:

’وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ‘ (الحشر ۵۹: ۹)
(اور وہ اپنے اوپر غریبوں اور مسکینوں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوں)۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ان ابرار کا صلہ آگے آیت ۱۲ میں بدیں الفاظ میں بیان ہوا ہے:

’وَجَزَاہُم بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّۃً وَحَرِیْرًا‘
(اور ان کو اللہ نے ان کے صبر کے صلہ میں جنت اور حریر سے نوازا)۔

یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان کے صبر کے کردار کو واضح کرنے والی واحد چیز یہی ہے کہ وہ یتیموں اور مسکینوں کو خود ضرورت مند ہونے کے باوجود کھلاتے پہناتے رہے ہیں۔ اگر ’عَلٰٰی حُبِّہٖ‘ کی تاویل اس سے مختلف کر دی جائے تو یہاں ان کے صبر کے کردار کو واضح کرنے والی کوئی چیز نہیں رہ جاتی حالانکہ کلام اس کا مقتضی ہے۔ اس وضاحت نے ’عَلٰی حُبِّہٖ‘ کے ضمیر کا مرجع خود متعین کر دیا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ جو انفاق عزیز و مطلوب مال میں سے، خود اپنی ضرورت کو قربان کر کے ہوتا ہے، درحقیقت وہی اللہ کی رضا جوئی کے لیے ہوتا ہے۔ اس پہلو سے خدا کی محبت کا مضمون خود اس کے اندر پیدا ہوتا ہے۔
اس آیت میں مسکین و یتیم کے ساتھ اسیر کا ذکر زمانۂ نزول کے حالات کے اعتبار سے ہوا ہے۔ اس زمانہ میں کسی جرم یا مطالبہ میں گرفتار قیدی عموماً اپنی مایحتاج لوگوں سے سوال کر کے پوری کرتے تھے۔ قاضی ابویوسفؒ کے بیان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عباسیوں کے زمانے تک یہی حال رہا ہے۔ اب جیل کے نظام میں بڑی تبدیلیاں ہو گئی ہیں اس وجہ سے اس انفاق کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی لیکن اب بھی قیدیوں اور ان کے متعلقین کی امداد کی ایسی بہت سی صورتیں ہیں جن میں انفاق اسی حکم میں ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

یہ مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے رہے، اِس کے باوجود کہ خود اُس کے ضرورت مند تھے۔

یتیم اور مسکین کے ساتھ قیدی کا ذکر یہاں اُس زمانے کے حالات کے لحاظ سے ہوا ہے، جب جیل کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں تھا اور قید میں پڑے ہوئے لوگ اپنی ضرورتیں لوگوں سے سوال کرکے پوری کرتے تھے۔

ابو الاعلی مودودی

اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں

اصل الفاظ ہیں علی حبہ۔ اکثر مفسرین نے حبہ کی ضمیر کا مرجع کھانے کو قرار دیا ہے، اور وہ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کھانے کے محبوب اور دل پسند ہونے اور خود اس کے حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں کو کھلا دیتے ہیں۔ ابن عباس اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے علی حب الاطعام، یعنی غریبوں کو کھانا کھلانے کے شوق میں وہ ایسا کرتے ہیں۔ اور حضرت فضیل بن عیاض اور ابو سلیمان الدارانی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ یہ کام کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ہمارے نزدیک بعد کا یہ فقرہ کہ انما نطعمکم لوجہ اللہ (ہم تو اللہ کی خوشنودی کی خاطر تمہیں کھلا رہے ہیں) اسی معنی کی تائید کرتا ہے۔

قدیم زمانے میں دستور یہ تھا کہ قیدیوں کو ہتھکڑی اور بیڑیاں لگا کر روزانہ باہر نکالا جاتا تھا اور وہ سڑکوں پر یا محلوں میں بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے تھے۔ بعد میں اسلامی حکومت نے یہ طریقہ بند کیا (کتاب الخراج، امام ابو یوسف، صفحہ 150 ۔ طبع 1382 ھ اس آیت میں قیدی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قید میں ہو، خواہ کافر ہو یا مسلمان، خواہ جنگی قیدی ہو، یا کسی جرم میں قید کیا گیا ہو، خواہ اسے قید کی حالت میں کھانا دیا جاتا ہو یا بھیک منگوائی جاتی ہو، ہر حالت میں ایک بےبس آدمی کو جو اپنی روزی کے لیے خود کوئی کوشش نہ کرسکتا ہو، کھانا کھلانا ایک بڑی نیکی کا کام ہے۔

اگرچہ بجائے خود کسی غریب کو کھانا کھلانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے، لیکن کسی حاجت مند کی دوسری حاجتیں پوری کرنا بھی ویسا ہی نیک کام ہے جیسا بھوکے کو کھانا کھلانا۔ مثلاً کوئی کپڑے کا محتاج ہے، یا کوئی بیمار ہے اور علاج کا محتاج ہے، یا کوئی قرضدار ہے اور قرض خواہ اسے پریشان کر رہا ہے، تو اس کی مدد کرنا کھانا کھلانے سے کم درجے کی نیکی نہیں ہے۔ اس لیے اس آیت میں نیکی کی ایک خاص صورت کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے بطور مثال پیش کیا گیا ہے، ورنہ اصل مقصود حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے۔

جونا گڑھی

اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو۔

 یا طعام کی محبت کے باوجود وہ اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں، قیدی اگر غیر مسلم ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے جیسے جنگ بدر کے کافر قیدیوں کی بابت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو حکم دیا کہ ان کی تکریم کرو۔ چنانچہ صحابہ پہلے ان کو کھانا کھلاتے، خود بعد میں کھاتے۔ (ابن کثیر) 

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءً وَلَا شُكُورًا

امین احسن اصلاحی

(اس جذبہ کے ساتھ کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں، نہ تم سے کسی بدلے کے طالب ہیں نہ شکریہ کے۔

انفاق صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے: یہ ان کے اس انفاق کے باطنی محرک کا بیان ہے کہ وہ جس کی مدد کرتے ہیں نہ اس سے اپنے اس انفاق کا کوئی معاوضہ چاہتے نہ اس بات کے خواہش مند ہوتے کہ وہ ان کا ممنون احسان اور شکرگزار ہو بلکہ وہ صرف اپنے رب کی رضا جوئی اور آخرت کے خوف سے ایسا کرتے تھے۔

جاوید احمد غامدی

(یہ اِس جذبے سے کھلاتے تھے کہ) ہم تمھیں صرف اللہ کے لیے کھلا رہے ہیں۔ نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں، نہ شکر گزاری کی توقع رکھتے ہیں۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

﴿اور ان سے کہتے ہیں کہ﴾ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ،

ضروری نہیں ہے کہ غریب کو کھانا کھلاتے ہوئے زبان ہی سے یہ بات کہی جائے۔ دل میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے اور اللہ کے ہاں اس کی بھی وہی حیثیت ہے جو زبان سے کہنے کی ہے۔ لیکن زبان سے یہ بات کہنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ جس کی مدد کی جائے اس کو یہ اطمینان دلا دیا جائے کہ ہم اس سے کسی قسم کا شکریہ یا بدلہ نہیں چاہتے، تاکہ وہ بےفکر ہو کر کھائے۔

جونا گڑھی

ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔

​n/a

إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا

امین احسن اصلاحی

ہم اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے اندیشہ ناک ہیں جو نہایت عبوس اور سخت ترش رو ہو گا۔

یوم آخرت کی صفت یہاں ’عَبُوس‘ اور ’قَمْطَرِیْر‘ آئی ہے۔ ’عَبُوس‘ کے معنی ترش رو اور روکھے پھیکے کے ہیں۔ ’قَمْطَرِیْر‘ اسی مضمون کی شدت کے اظہار کے لیے بطور تاکید آیا ہے یعنی وہ دن ایسا اکھڑ، اکل کُھرا اور ترش مزاج ہو گا کہ اس میں کوئی بھی کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں بنے گا۔ اس دن سابقہ ہر ایک کو اپنے اعمال سے پیش آئے گا۔ خدا کی رحمت صرف انہی لوگوں کی طرف متوجہ ہو گی جنھوں نے اس کی رضا جوئی میں مسکینوں اور یتیموں کی سرپرستی اور ہمدردی کی ہو گی اور اپنی ضروریات نظر انداز کر کے ان کی احتیاج پوری کرنے پر اپنا مال صرف کیا ہو گا۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ بات وہ قولاً ہر اس شخص سے کہیں بھی جس کی مدد کریں بلکہ یہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، ان کے انفاق کے باطنی محرک کی تعبیر ہے کہ وہ جن حاجت مندوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں صرف للہ وفی اللہ خرچ کرتے، اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت کے خوف کے سوا کوئی اور غرض ان کے سامنے نہیں ہوتی۔

جاوید احمد غامدی

ہم اپنے پروردگار کی طرف سے اُس دن کا اندیشہ رکھتے ہیں جو نہایت اکل کھرا ہے، بڑا ہی ترش رو ہے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔

​n/a

جونا گڑھی

بیشک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی اور سختی والا ہوگا۔

 یعنی وہ دن نہایت سخت ہوگا اور سختیوں اور ہولناکیوں کی وجہ سے کافروں پر بڑا لمبا ہوگا (ابن کثیر) 

Page 1 of 4 pages  1 2 3 >  Last ›