جب آسمان پھٹ جائے گا۔
n/a
جب آسمان پھٹ جائے گا
n/a
جب آسمان پھٹ جائے گا
یعنی جب قیامت برپا ہوگی۔
اور اپنے خداوند کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اس کے لیے یہی زیبا ہے۔
’وَاَذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْ‘۔ ’اَذِنَ لَہ‘ کے معنی ہیں ’اِسْتَمِعَ لَہ‘ اس نے اس کی بات مان لی، اس کے حکم کی تعمیل کی، اس کے آگے سر جھکا دیا۔
’حُقَّ لَہ‘ کے معنی ہیں کہ اس کے لیے واجب ہے کہ وہ ایسا کرے، اس کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ یہ کام کرے۔
مطلب یہ ہے کہ اس جہالت میں نہ پھنسے رہو کہ بھلا آسمان و زمین جیسی چیزوں پر کس کا زور چل سکتا ہے کہ وہ ان کو پاش پاش کر کے رکھ دے۔ اس دن اپنے رب کے حکم سے یہ بھی پاش پاش ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو حکم دے گا اور بے چون و چرا وہ اس کے حکم کی تعمیل کریں گے۔
’وَحُقَّتْ‘۔ یعنی اس کے لیے یہی کرنا واجب ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ہے تواس کے لیے یہ کس طرح زیبا ہے کہ وہ اپنے خالق کی نافرمانی کرے!
ایک برسرموقع تبنیہ: یہ فقرہ یہاں ان مغروروں کی تنبیہ و تعلیم کے لیے آیا ہے جو بات بات پر اللہ اور رسول کے خلاف محاذ قائم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ برسر موقع ان کو توجہ دلا دی گئی کہ آسمان تو اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں پاش پاش ہو جائے گا اور یہی اس کے لیے زیبا ہے۔ اب وہ نادان جن کی حیثیت اس آسمان کے نیچے بالکل ایک ذرۂ بے مقدار کی ہے سوچ لیں کہ ان کا یہ رویہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے رب سے لڑنے اٹھیں اور اس زعم میں مبتلا ہوں کہ کوئی ان کو ان کی جگہ سے ہلا نہیں سکتا!
اور اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اُسے یہی زیبا ہے۔
یعنی انسان جس زعم میں چاہے، مبتلا رہے، لیکن حق یہ ہے کہ آسمان جیسی عظیم چیز کے لیے بھی یہی زیبا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ فقرہ یہاں اُن مغروروں کی تنبیہ و تعلیم کے لیے آیا ہے جو بات بات پر اللہ اور رسول کے خلاف محاذقائم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ برسرموقع اُن کو توجہ دلا دی گئی کہ آسمان تو اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں پاش پاش ہو جائے گا اور یہی اُس کے لیے زیبا ہے۔ اب وہ نادان جن کی حیثیت اِس آسمان کے نیچے بالکل ایک ذرۂ بے مقدار کی ہے، سوچ لیں کہ اُن کا یہ رویہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے رب سے لڑنے اُٹھیں اور اِس زعم میں مبتلا ہوں کہ کوئی اُن کو اُن کی جگہ سے ہلا نہیں سکتا!‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۲۷۱)
اور اپنے رب کے فرمان کی تعمیل کرے گا اور اس کے لیے حق یہی ہے ﴿کہ اپنے رب کا حکم مانے﴾۔
اصل میں اذنت لربھا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کے لفظی معنی ہیں ” وہ اپنے رب کا حکم سنے گا “۔ لیکن عربی زبان میں محاورے کے طور پر اذن لہ کے معنی صرف یہی نہیں ہوتے کہ اس نے حکم سنا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے حکم سن کر ایک تابع فرمان کی طرح اس کی تعمیل کی اور ذرا سر تابی نہ کی۔
اور اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گا اسی کے لائق وہ ہے
یعنی اس کے یہ لائق ہے کہ سنے اطاعت کرے، اس لئے کہ وہ سب پر غالب ہے اور سب اس کے ماتحت ہیں اس کے حکم سے سرتابی کرنے کی کس کو مجال ہے ؟
اور جب کہ زمین تان دی جائے گی۔
قیامت کے دن زمین کا حال: آسمان کے بعد یہ زمین پر جو کچھ گزرے گی اس کا حال بیان ہو رہا ہے کہ زمین تان دی جائے گی۔ یعنی آج تو زمین میں بہت سی شکنیں اور سلوٹیں ہیں، نشیب و فراز ہیں، وادیاں اور کہسار ہیں، دریا اور پہاڑ ہیں۔ اس کی اونچ نیچ اور اس کی تہوں میں بے شمار چیزیں چھپی ہوئی ہیں جو نظر نہیں آ رہی ہیں لیکن اس دن یہ ایک چادر کی طرح تان دی جائے گی اور جو کچھ اس کی سلوٹوں میں ہے وہ اس کو باہر نکال کر فارغ ہو جائے گی۔ یہ اشارہ اگرچہ خاص طور پر مُردوں کے اٹھائے جانے کی طرف ہے لیکن اسلوب بیان عام ہے۔ وہ ساری چیزیں اس میں داخل ہیں جو زمین میں دفن ہیں۔ یعنی ان سرمایہ داروں کے خزانے بھی جو اس سورہ میں خاص طور پر مخاطب ہیں۔
اور جب زمین تان دی جائے گی۔
مطلب یہ ہے کہ زمین کے نشیب و فراز ، دریا، پہاڑ اور وادیاں ،سب برابر ہو جائیں گی اور وہ ایک چادر کی طرح تان دی جائے گی۔
اور جب زمین پھیلا دی جائے گی
زمین کے پھیلا دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ سمندر اور دریا پاٹ دیے جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیے جائیں گے، اور زمین کی ساری اونچ نیچ برابر کر کے اسے ایک ہموار میدان بنا دیا جائے گا۔ سورة طہ میں اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ” اسے ایک چٹیل میدان بنا دے گا جس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ پاؤ گے “۔ (آیات 106 ۔ 107) ۔ حاکم نے مستدرک میں عمدہ سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ کے حوالہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ” قیامت کے روز زمین ایک دستر خوان کی طرح پھیلا دی جائے گی،۔ پھر انسانوں کے لیے اس پر صرف قدم رکھنے کی جگہ ہوگی “۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس دن تمام انسانوں کو جو روز اول آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں گے، بیک وقت زندہ کر کے عدالت الہی میں پیش کیا جائے گا۔ اتنی بڑی آبادی کو جمع کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سمندر، دریا، پہاڑ، جنگل، گھاٹیاں اور پست و بلند علاقے سب کے سب ہموار کر کے پورے کرہ زمین کو ایک میدان بنا دیا جائے تاکہ اس پر ساری نوع انسانی کے افراد کھڑے ہونے کی جگہ پا سکیں۔
اور جب زمین کھینچ کر پھیلا دی جائے گی
یعنی اس کے طول و عرض میں مزید وسعت کردی جائے گی۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس پر جو پہاڑ وغیرہ ہیں، سب کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کو ہموار کر کے بچھایا جائے گا۔ اس میں میں کوئی اونچ نیچ نہیں رہے گی۔
اور وہ اپنے اندر کی چیزیں باہر ڈال کر فارغ ہو جائے گی۔
’وَاَلْقَتْ مَا فِیْھَا وَتَخَلَّتْ‘ کے اسلوب بیان سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین ان چیزوں کے بوجھ سے اسی طرح بوجھل ہے جس طرح ایک حاملہ اپنے حمل سے بوجھل ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اس بوجھ سے فارغ ہونے میں وہی راحت و فراغت محسوس کرے گی جو ایک حاملہ حمل کے بعد محسوس کرتی ہے۔
اور جو کچھ اُس کے اندر ہے، اُسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی۔
n/a
اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی
مطلب یہ ہے کہ جتنے مرے ہوئے انسان اس کے اندر پڑے ہوں گے سب کو نکال کر وہ باہر ڈال دے گی، اور اسی طرح ان کے اعمال کی جو شہادتیں اس کے اندر موجود ہوں گی وہ سب بھی پوری کی پوری باہر آجائیں گی، کوئی چیز بھی اس میں چھپی اور دبی ہوئی نہ رہ جائے گی۔
اور اس میں جو ہے اسے وہ اگل دے گی اور خالی ہوجائے گی
یعنی اس میں جو مردے دفن ہیں، سب زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے جو خزانے اس کے بطن میں موجود ہیں وہ انہیں ظاہر کر دے گی، اور خود بالکل خالی ہوجائے گی۔
اور وہ اپنے خداوند کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کو یہی چاہیے۔
’وَاَذِنَتْ لِرَبِّھَا وَحُقَّتْ‘۔ اس آیت کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آسمان اور زمین دونوں اس دن اپنے رب کے حکم کی اطاعت کریں گے اور یہ اطاعت ہی ان کے لیے زیبا ہے اور یہ بالکل رضامندانہ ہوگی۔ قرآن میں دوسری جگہ آسمان و زمین کی اس رضامندانہ اطاعت کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:
’فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائۡتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیۡنَ‘ (حٰم السجدہ ۴۱: ۱۱)
(پس اس نے آسمان اور زمین دونوں کو حکم دیا کہ حاضر ہو، رضامندانہ خواہ مجبورانہ۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں رضامندانہ)۔
اور اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اُسے یہی چاہیے۔ (وہی تمھارے پروردگار سے ملاقات کا دن ہو گا)۔
n/a
اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کے لیے حق یہی ہے ﴿ کہ اس کی تعمیل کرے ﴾۔
یہ صراحت نہیں کی گئی کہ جب یہ اور یہ واقعات ہوں گے تو کیا ہوگا، کیونکہ بعد کا یہ مضمون اس کو آپ سے آپ ظاہر کردیتا ہے کہ اسے انسان تو اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اس کے سامنے حاضر ہونے والا ہے، تیرا نامہ اعمال تجھے دیا جانے والا ہے، اور جیسا تیرا نامہ اعمال ہوگا اس کے مطابق تجھے جزا یا سزا ملنے والی ہے۔
اور اپنے رب پر کان لگائے گی اور اسی لائق وہ ہے۔
n/a
اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے خداوند ہی کی طرف جا رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے۔
دنیا کے فریب خواروں کو تنبیہ: خطاب باعتبار الفاظ اگرچہ عام ہے لیکن روئے سخن خاص طور پر انہی مغروروں کی طرف ہے جو اپنے عیش دنیا میں مگن اور آخرت سے بالکل نچنت تھے۔ فرمایا کہ اے انسان تو بھی کشاں کشاں جا اپنے رب ہی کی طرف رہا ہے اور بالآخر اسی کے حضور تیری پیشی ہونی ہے؛ تجھے اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔
دنیا کے پرستار اپنی دنیوی کامیابیوں کے نشہ میں اپنی اصل منزل ہمیشہ بھولے رہتے ہیں۔ انھیں کامیابیوں کے بعد کامیابیاں اور فتوحات کے بعد جو فتوحات حاصل ہوتی ہیں ان میں وہ اس طرح کھو جاتے ہیں کہ ان سے باہر ہو کر وہ کسی چیز پر غور ہی نہیں کر سکتے۔ ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری کامیابی کے حصول کی بھاگ دوڑ میں انھیں کبھی اس سوال پر غور کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ان کی اصلی منزل ہے کیا؟ وہ اسی دنیا کی کسی کامیابی کو اپنی آخری منزل سمجھتے ہیں حالانکہ آخری منزل آخرت ہے جس کی طرف سب، خدا کے قانون کی زنجیر میں بندھے، نہایت بے بسی کے ساتھ، کشاں کشاں چلے جا رہے ہیں۔ اگر ان کی نظرزندگی کے اس پہلو پر بھی ہوتی تو وہ جادۂ مستقیم سے منحرف نہ ہوتے بلکہ کھلی آنکھوں سے دیکھتے کہ جتنی تیز روی کے ساتھ وہ اپنی مرغوبات دنیا کی راہ میں بڑھ رہے ہیں اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ ان کی زندگی محاسبۂ اعمال کے لیے خدا کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ہر انسان کشاں کشاں خدا کی طرف جا رہا ہے: ’إِنَّکَ کَادِحٌ إِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا‘۔ ’کَدْحٌ‘ کے معنی کسی کام میں پوری مشقت کے ساتھ کوشش کرنے کے ہیں۔ یہ نہایت بلیغ تعبیر ہے اس حقیقت کی کہ انسان جس دن سے وجود میں آتا ہے اسی دن سے اس کا سفر خدا کی ٹھہرائی ہوئی منزل یعنی موت کی راہ میں شروع ہو جاتا ہے اور یہ سفر بلا کسی توقف کے جاری رہتا ہے۔ موسم سخت ہو یا نرم، آدمی مریض ہو یا صحت مند، حالات مساعد ہوں یا نامساعد، کسی حال میں بھی یہ منقطع نہیں ہوتا۔ ولادت سے لے کر موت تک بچپن، مراہقہ، جوانی، ادھیڑ پن، پیری اور ناتوانی کے مختلف مراحل آتے ہیں لیکن اس میں ایک منٹ بلکہ سیکنڈ کے لیے بھی وقفہ نہیں ہوتا۔ انسان قانون قدرت کی زنجیروں میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ وہ اس راہ میں نہ بھی چلنا چاہے جب بھی اس کو چلنا پڑے گا اور اس بے بسی میں شاہ اور گدا، شریف اور وضیع، امیر اور مامور، نیک اور بد، سب یکساں ہیں۔
’فَمُلَاقِیْہِ‘۔ یہ اس سفر کی غایت بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ انسان اس دنیا میں شتر بے مہار نہیں ہے اس وجہ سے ضروری ہوا کہ سب کشاں کشاں اپنے خالق کے حضور میں پہنچیں اور اس کے آگے پیش ہوں۔ اس پیشی کا مقصد ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد سے ان کو دنیا میں پیدا کیا اس سے متعلق ان سے سوال ہو کہ وہ انھوں نے پورا کیا یا نہیں، چنانچہ آگے اس کی تفصیل آ رہی ہے۔
اے انسان، تو بھی (اِسی دن کے لیے) کشاں کشاں اپنے پروردگار کی طرف جا رہا ہے اور اُس سے ملنے والا ہے۔
خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن روے سخن قریش کے اُنھی مغروروں کی طرف ہے جو اِس سورہ کے مخاطب ہیں۔
یہ اُس حالت کی تصویر ہے جس میں ہم سب خدا کے قانون کی زنجیروں میں بندھے ہوئے نہایت بے بسی کے ساتھ اپنے رب کے حضور میں پیشی کے لیے اُس کی طرف جا رہے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ نہایت بلیغ تعبیر ہے اِس حقیقت کی کہ انسان جس دن سے وجود میں آتا ہے، اُسی دن سے اُس کا سفر خدا کی ٹھیرائی ہوئی منزل، یعنی موت کی راہ میں شروع ہو جاتا ہے اور یہ سفر بلا کسی توقف کے جاری رہتا ہے۔ موسم سخت ہو یا نرم، آدمی مریض ہو یا صحت مند، حالات مساعد ہوں یا نامساعد ، کسی حال میں بھی یہ منقطع نہیں ہوتا۔ ولادت سے لے کر موت تک بچپن، مراہقہ، جوانی، ادھیڑ پن، پیری اور ناتوانی کے مختلف مراحل آتے ہیں، لیکن اِس میں ایک منٹ، بلکہ سیکنڈ کے لیے بھی وقفہ نہیں ہوتا۔ انسان قانون قدرت کی زنجیروں میں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ وہ اِس راہ میں نہ بھی چلنا چاہے، جب بھی اُس کو چلنا پڑے گا اور اِس بے بسی میں شاہ اور گدا، شریف اور وضیع، امیر اور مامور، نیک اور بد، سب یکساں ہیں۔‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۲۷۳)
اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے اور اس سے ملنے والا ہے۔
یعنی وہ ساری تگ و دو اور دوڑ دھوپ جو تو دنیا میں کر رہا ہے، اس کے متعلق چاہے تو یہی سمجھتا رہے کہ یہ صرف دنیا کی زندگی تک ہے اور دنیوی اغراض کے لیے ہے، لیکن در حقیقت تو شعوری یا غیر شعوری طور پر جا رہا ہے اپنے رب کی طرف اور آخر کار وہیں تجھے پہنچ کر رہنا ہے۔
اے انسان ! تو نے اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کر کے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔
n/a
تو جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔
یہ اوپر کے اجمال کی تفصیل ہے۔ فرمایا کہ اس دن جن کے اعمال نامے ان کے دہنے ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے وہ تو سستے چھوٹیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال ناموں کا ان کے دہنے ہاتھ میں دیا جانا ہی اس بات کا ضامن ہو گا کہ وہ نجات کے حق دار ہیں، ان کی نیکیاں ان کی بدیوں پر غالب اور وہ عفو و صفح کے حق دار ہیں۔ معلوم ہوا کہ جہاں تک حساب کا تعلق ہے وہ تو ان کا بھی ہو گا لیکن ان کے نیک اعمال کا وزن زیادہ ہو گا اس وجہ سے ان کی معمولی غلطیوں سے درگزر کی جائے گی۔ برعکس اس کے جن کے برے اعمال کا وزن زیادہ ہو گا ان کی ایک ایک غلطی پر گرفت ہو گی اور وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔
پھر جس کا نامۂ اعمال (وہاں) اُس کے دہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔
n/a
پھر جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا،
n/a
تو (اسوقت) جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا۔
n/a
اس کا حساب تو نہایت سہج ہو گا۔
یہ اوپر کے اجمال کی تفصیل ہے۔ فرمایا کہ اس دن جن کے اعمال نامے ان کے دہنے ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے وہ تو سستے چھوٹیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے اعمال ناموں کا ان کے دہنے ہاتھ میں دیا جانا ہی اس بات کا ضامن ہو گا کہ وہ نجات کے حق دار ہیں، ان کی نیکیاں ان کی بدیوں پر غالب اور وہ عفو و صفح کے حق دار ہیں۔ معلوم ہوا کہ جہاں تک حساب کا تعلق ہے وہ تو ان کا بھی ہو گا لیکن ان کے نیک اعمال کا وزن زیادہ ہو گا اس وجہ سے ان کی معمولی غلطیوں سے درگزر کی جائے گی۔ برعکس اس کے جن کے برے اعمال کا وزن زیادہ ہو گا ان کی ایک ایک غلطی پر گرفت ہو گی اور وہ اس کی سزا بھگتیں گے۔
اُس کا حساب نہایت ہلکا ہو گا۔
مطلب یہ ہے کہ حساب تو ہو گا، لیکن نہایت ہلکا ہو گا اور نیکیوں کا پلڑا بھاری دیکھ کر اُس کی غلطیوں سے درگذر کی جائے گی۔
اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا
یعنی اس سے سخت حساب فہمی نہ کی جائے گی۔ اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں فلاں کام تو نے کیوں کیے تھے اور تیرے پاس ان کاموں کے لیے کیا عذر ہے۔ اس کی بھلائیوں کے ساتھ اس کی برائیاں بھی اس کے نامہ اعمال میں موجود ضرور ہوں گی، مگر بس یہ دیکھ کر کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں سے بھاری ہے، اس کے قصوروں سے در گزر کیا جائے گا اور اسے معاف کردیا جائے گا۔ قرآن مجید میں بد اعمال لوگوں سے سخت حساب فہمی کے لیے سوء الحساب (بری طرح حساب لینے) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں (الرعد، آیت 18) ، اور نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ” یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم ان کے بہتر اعمال قبول کرلیں گے اور ان کی برائیوں سے در گزر کریں گے “۔ (الاحقاف، آیت 16) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی جو تشریح فرمائی ہے اسے امام احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد، حاکم، ابن جریر، عبد بن حمید اور ابن مردودیہ نے مختلف الفاظ میں حضرت عائشہ (رض) نے نقل کیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا ” جس سے بھی حساب لیا گیا وہ مارا گیا “۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ ” جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا ” ؟ حضور نے جواب دیا ” وہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے، لیکن جس سے پوچھ گچھ کی گئی وہ مارا گیا “۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضور کو نماز میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ ” خدایا مجھ سے ہلکا حساب لے “۔ آپ نے جب سلام پھیرا تو میں نے اس کا مطلب پوچھا۔ آپ نے فرمایا ” ہلکے حساب سے مراد یہ ہے کہ بندے کے نامہ اعمال کو دیکھا جائے اور اس سے در گزر کیا جائے گا، اے عائشہ، اس روز جس سے حساب فہمی کی گئی وہ مارا گیا “۔
اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا
n/a
اور وہ اپنے لوگوں کے پاس نہایت شاد مند لوٹے گا۔
ایک جامع اسلوب اور اس کے مضمرات: یہ ایک جامع اسلوب میں ان کا صلہ بیان ہوا ہے کہ اس دن وہ اپنے اہل و عیال میں خوش خوش لوٹیں گے۔ اس اسلوب بیان میں کئی باتیں سمٹ آئی ہیں جو خود بخود ظاہر ہیں، مثلاً
۔۔۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے باایمان اہل و عیال کو ان کے ساتھ جنت میں جمع کر دے گا اگرچہ اہل و عیال اس درجۂ بلند کے مستحق نہ ہوں جس کے وہ مستحق ہوئے تاکہ جنت کی کامیابیوں سے یک جا مسرور و شاد مند ہوں۔ سورۂ طور آیت ۲۱ میں یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ اس یک جائی کے لیے اللہ تعالیٰ ان کے درجے کو نیچا نہیں کرے گا بلکہ ان کے اہل و عیال کے درجے بلند کر دے گا۔
۔۔۔ یہ کہ انھوں نے اپنے اہل و عیال کے اندر ان کی عاقبت سے بے فکر رہ کر زندگی نہیں گزاری بلکہ دنیا سے زیادہ ان کی اخروی کامیابیوں کی فکر رکھی۔ فکر آخرت سے غافلوں کا رویہ تو سابق سورہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب وہ اپنے اہل و عیال میں ہوتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ بھلا اس ہرے بھرے باغ پر خزاں کدھر سے آ سکتی ہے: ’وَإِذَا انقَلَبُوْا إِلَی أَہْلِہِمُ انقَلَبُوْا فَکِہِیْنَ‘ (المطففین ۸۳: ۳۱) اس کے برعکس آخرت پر ایمان رکھنے والوں سے متعلق سورۂ طور آیات ۲۶-۲۷ میں یہ بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن جب وہ اپنے اہل و عیال کی یکجائی سے مسرور ہوں گے تو کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہوا کہ ہم ان کی اخروی فلاح سے غافل نہیں بلکہ اس کے لیے برابر فکرمند رہے جس کا صلہ ہمیں یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی ہمارے ساتھ جمع کر دیا۔ ’قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا فِیْٓ اَھْلِنَا مُشْفِقِیْنَ ۵ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَاَ وَوَقٰنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ‘۔
۔۔۔ یہ کہ جو شخص اپنے اہل و عیال سے محبت رکھتا ہے اس کی اس محبت کا اصلی تقاضا یہ ہے کہ وہ ان کی عاقبت سنوارنے کے لیے خود بھی فکرمند رہے اوران کو بھی فکرمند رکھنے کی کوشش کرے۔ اسی فکرمندی سے آخرت میں یکجائی اور محبت کا اصلی سرور حاصل ہو گا۔ اگر آخرت کو نظر انداز کر کے اسی دنیا کے لیے محبت کی گئی تو وہ محبت بالآخر دونوں فریق کے لیے موجب وبال و خسران ہو گی اور قیامت میں دونوں باہم دگر مسرور ہونے کے بجائے ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔
اور وہ خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف پلٹ آئے گا۔
یعنی اپنے اُن اہل و عیال کی طرف پلٹ آئے گا جن کی عاقبت سنوارنے کے لیے وہ دنیا میں فکر مند رہا۔
اور وہ اپنے لوگوں کو طرف خوش خوش پلٹے گا ۔
اپنے لوگوں سے مراد آدمی کے وہ اہل و عیال، رشتہ دار و ساتھی ہیں جو اسی کی طرح معاف کیے گئے ہوں گے۔
اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا ۔
یعنی جو اس کے گھر والوں میں سے جنتی ہونگے۔ یا مراد وہ حور عین اور دلدان ہیں جو جنتیوں کو ملیں گے۔
رہا وہ جس کا اعمال نامہ اس کے پیچھے ہی سے پکڑا دیا جائے گا۔
آخرت سے غافلوں کا انجام: یہ دوسرے گروہ یعنی ان لوگوں کا انجام بیان ہوا ہے جنھوں نے آخرت سے بالکل بے پروا رہ کر زندگی گزاری۔ فرمایا کہ ان کے اعمال نامے ان کے پیچھے ہی سے ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑا دیے جائیں گے۔ اگرچہ الفاظ میں بائیں ہاتھ کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن قرینہ اس پر دلیل ہے۔ جب پہلے گروہ سے متعلق یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ اس کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے تاکہ ان کی اور ان کے اعمال نامے کی نامبارکی اس برتاؤ ہی سے واضح ہو جائے۔ علاوہ ازیں سورۂ حاقہ آیت ۲۵ میں واضح لفظوں میں یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ اس گروہ کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ فرمایا ہے:
’وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہ بِشِمَالِہ۵ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ‘
(رہا وہ جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تو وہ کہے گا، اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ دیا ہی نہ گیا ہوتا)۔
زیربحث آیت سورۂ حاقہ کی مذکورہ آیت کی روشنی میں دیکھیے تو اس سے مضمون میں یہ اضافہ ہو جائے گا کہ اس گروہ کو بیک وقت دو فضیحتوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ ایک یہ کہ اس کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے۔ دوسری یہ کہ یہ کام بھی اس طرح ہو گا کہ سامنے سے دیے جانے کے بجائے پیچھے ہی سے ان کو پکڑا دیے جائیں گے۔ مزید غور کیجیے تو یہ بات بھی اس سے نکلتی ہے کہ ان کے دونوں ہاتھ مجرموں کی طرح پیچھے کی طرف بندھے ہوں گے۔
اور جس کا نامۂ اعمال اُس کے پیچھے ہی سے (اُس کے بندھے ہوئے ہاتھوں میں) پکڑا دیا جائے گا۔
اِن الفاظ سے یہ بات آپ سے آپ نکلتی ہے کہ اُس کے دونوں ہاتھ مجرموں کی طرح پیچھے بندھے ہوں گے۔سورۂ حاقہ (۶۹) کی آیت ۲۵میں وضاحت ہے کہ مجرموں کے اعمال نامے اُن کے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ یہاں مزید وضاحت کر دی ہے کہ سامنے سے دیے جانے کے بجاے یہ پیچھے ہی سے اُن کو پکڑا دیے جائیں گے۔
رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا
سورۃ الحاقۃ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ غالباً اس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ شخص اس بات سے تو پہلے ہی مایوس ہوگا کہ اسے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا، کیونکہ اپنے کرتوتوں سے وہ خوب واقف ہوگا اور اسے یقین ہوگا کہ مجھے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ملنے والا ہے۔ البتہ ساری خلقت کے سامنے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال لیتے ہوئے اسے خفت محسوس ہوگی، اس لیے وہ اپنا ہاتھ پیچھے کرلے گا۔ مگر اس تدبیر سے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اپنا کچا چٹھا اپنے ہاتھ میں لینے سے بچ جائے۔ وہ تو بہرحال اسے پکڑایا ہی جائے گا خواہ وہ ہاتھ آگے بڑھا کرلے یا پیٹھ کے پیچھے چھپا لے۔
ہاں جس شخص کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا۔
n/a
امین احسن اصلاحی
جب کہ آسمان پھٹ جائے گا۔
قیامت کے دن کی ہلچل: قیامت کے بعد جو جہان نو وجود میں آئے گا وہ نئے نوامیس و قوانین کے تحت وجود میں آئے گا اس وجہ سے اس میں یہ آسمان و زمین جو آج موجود ہیں، ختم ہو جائیں گے اور ان کی جگہ، جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، دوسرے آسمان و زمین نمودار ہو جائیں گے۔
’اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ‘ کے الفاظ سے یہاں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو سورۂ انفطار میں ’اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ‘ (۱) کے الفاظ سے بیان ہوا ہے۔ کائنات کے اس سب سے بڑے حادثہ کا آج کوئی اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ قرآن نے اس ہلچل کا ذکر ان نادانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کیا ہے جو اپنے قلعوں اور محلوں پر بہت نازاں تھے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ بھلا ان میں کوئی دراڑ کہاں سے پڑ جائے گی؟ ان کو آگاہ فرمایا کہ قلعے اور گڑھیاں، ایوان اور محل تو درکنار سرے سے یہ آسمان و زمین ہی پاش پاش ہو جائیں گے جن کے اندر یہ گھروندے تم نے بنائے ہیں۔