ہر عیب سے پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے اُس دور کی مسجد تک لے گئی جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ اُس کو ہم اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک، وہی سمیع و بصیر ہے
اصل میں لفظ ’سُبْحٰن‘ ہے۔ یہ تنزیہہ کا کلمہ ہے جو خدا کے باب میں کسی سوء ظن یا غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے آتا ہے۔
آیت میں لفظ ’عَبْدِہٖ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس موقعے پر حضور کے لیے اِس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور کے غایت درجہ اختصاص، آپ کے ساتھ اللہ کی غایت درجہ محبت اور آپ کے کمال درجہ عبدیت کی دلیل ہے۔ گویا آپ کی ذات کسی اور تعریف و تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ لفظ ’عَبْد‘ نے خود انگلی اٹھا کر ساری خدائی میں سے اُس کو ممیز کر دیا جو اِس لفظ کا حقیقی محمل و مصداق ہے۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۴۷۴)
اِس سے یروشلم کی مسجد مراد ہے جسے بیت المقدس کہا جاتا ہے۔ یہ حرم مکہ سے کم و بیش ۴۰ دن کی مسافت پر تھی۔ اِس کا تعارف اِسی بنا پر ’الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا‘، یعنی دور کی مسجد کے الفاظ سے کرایا ہے تاکہ مخاطبین کا ذہن آسانی سے اِس کی طرف منتقل ہو سکے۔
اصل الفاظ ہیں: ’الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ‘۔ ابراہیم علیہ السلام کی بابل سے ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو مقامات کا انتخاب کیا، جہاں خود اُس کے حکم سے دو مسجدیں تعمیر کی گئیں اور اُنھیں پورے عالم کے لیے توحید کی دعوت کا مرکز بنا دیا گیا۔ ایک سرزمین عرب اور دوسرے فلسطین۔ اِن میں سے پہلا مقام وادی غیر ذی زرع اور دوسرا انتہائی زرخیز ہے۔ قدیم صحیفوں میں اِسی بنا پر اُسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا گیا ہے۔ ’الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ‘ کے الفاظ سے قرآن نے اِسی طرف اشارہ کیا ہے اور اِس طرح بالکل متعین کر دیا ہے کہ دور کی جس مسجد کا ذکر ہو رہا ہے، وہ یروشلم کی مسجد ہے۔ فرمایا کہ خدا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے اُس دور کی مسجد تک لے گیا۔ یہ لے جانا کس طرح ہوا؟ قرآن نے آگے اِسی سورہ کی آیت ۶۰ میں بتا دیا ہے کہ یہ ایک رؤیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ جس مقصد سے اختیار کیا،استاذامام امین احسن اصلاحی نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’... رؤیا کا مشاہدہ چشم سر کے مشاہدے سے زیادہ قطعی، زیادہ وسیع اور اُس سے ہزارہا درجہ عمیق اور دور رس ہوتا ہے۔ آنکھ کو مغالطہ پیش آسکتا ہے، لیکن رویاے صادقہ مغالطے سے پاک ہوتی ہے؛ آنکھ ایک محدود دائرے ہی میں دیکھ سکتی ہے، لیکن رؤیا بہ یک وقت نہایت وسیع دائرے پر محیط ہوجاتی ہے؛ آنکھ حقائق و معانی کے مشاہدے سے قاصر ہے، اُس کی رسائی مرئیات ہی تک محدود ہے، لیکن رؤیا معانی و حقائق اور انوار و تجلیات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۴/ ۴۷۶)
یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ حرم مکہ کے ساتھ اب فلسطین کی سرزمین اور اُس کی امانت بھی بنی اسمٰعیل کے سپرد کر دی جائے گی۔ تاہم اِن نشانیوں کی کوئی تفصیل نہیں کی گئی، اِس لیے کہ نہ الفاظ اِس تفصیل کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ وہ ہمارے علم و عقل اور تصورات کی گرفت میں آسکتی ہیں۔
آیت میں یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ اوپر کی بات غائب کے صیغے سے بیان ہوئی ہے اور یہاں متکلم کا صیغہ آگیا ہے۔ اِس میں اسلوب بیان کی یہ بلاغت ہے کہ متکلم کا صیغہ التفات خاص کو ظاہر کر رہا ہے، جبکہ اوپر تفخیم شان مقصود تھی جسے غائب کے صیغے سے ظاہر فرمایا ہے۔
آیت کے شروع میں لفظ’سُبْحٰن‘جس پہلو سے آیا ہے، یہ صفات اُس کی وضاحت کر رہی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خدا ہی سمیع و بصیر ہے تو یہ اُسی کا کام تھا کہ اُن بد عہدوں کا محاسبہ کرے جنھوں نے ، سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں، اُس کے گھر کو چوروں کا بھٹ بنا ڈالا ہے۔ بنی اسرائیل اِس گھر میں جو کچھ کہتے اور کرتے رہے ہیں، اُس کو سننے اور دیکھنے کے بعد یہی ہونا تھا۔ چنانچہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اِس گھر کی امانت اب نبی امی کے حوالے کر دی جائے گی۔ آپ کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے یہاں تک اِسی مقصد سے لایا گیا ہے۔ خدا ہر عیب سے پاک ہے، لہٰذا وہ کسی طرح گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ ایک قوم کو لوگوں پر اتمام حجت کے لیے منتخب کرے اور اُس کی طرف سے اِس درجے کی سرکشی کے باوجود اُسے یوں ہی چھوڑے رکھے۔ ناگزیر تھا کہ پیش نظر مقصد کے لیے وہ کوئی دوسرا اہتمام کرے۔ اُس نے یہی کیا ہے اور عالمی سطح پر دعوت و شہادت کی ذمہ داری بنی اسمٰعیل کے سپرد کر دی ہے۔
پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔
یہ وہی واقعہ ہے جو اصطاحا ” معراج “ اور ” اسراء “ کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں جن کی تعداد ٢٥ تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صعصَعہ، حضرت ابوذر غفاری اور حضرت ابوہریرہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو سعید خدری، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عائشہ اور متعدد دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔
قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ) سے مسجد اقصٰی (یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ہے۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل (علیہ السلام) آپ کو اٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصی تک براق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لے چلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔
حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اگر کوئی شخص ان تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانے جو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔
اس سفر کی کیفیت کیا تھی ؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں ؟ اور آیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا ؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سُبْحٰنَ الّذِیْ اَسْریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارق عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ” ایک رات اپنے بندے کو لے گیا “ جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرایا۔
اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سے ممکن تھا، تو آخر ان دوسری تفصیلات ہی کو ناممکن کہہ کر کیوں رد کردیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں ؟ ممکن اور ناممکن کی بحث تو صرف اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے باختیار خود کوئی کام کرنے کا معاملہ زیر بحث ہو۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس کے علاسہ جو وسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے متعدد اعتراضات کیے جاتے ہیں، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں۔
ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کرا کے ایک مقام خاص تک لے جایا جاتا ؟
دوسرے یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے ؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے ؟
لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود وسائط اختیار کرتا ہے۔ مثلا جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سے، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذات خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہے جہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے۔
رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھا یا گیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جاسکا۔ یا زناکاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح برے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔
اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے ان کے منصب کی مناسبت سے ملکوت سموات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہوجائے۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔
پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقص تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے۔
سُبْحَا نَ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ کُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔
١۔ ٢ اِسْرَآء کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَیْلًا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہوجائے۔ یعنی رات ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔
١۔ ٣ اقصیٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں اور فلسطین میں واقع ہے، مکے سے القدس تک مسافت (٤٠) دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔
١۔ ٤ یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔
١۔ ٥ یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہوگیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورة نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس پورے سفر کو ’ معراج ’ سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِیْ اِلَی السّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہوگیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی ١٧ یا ٢٧، کوئی رجب کی ٢٧ اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں۔ (فتح القدیر)
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت نامہ بنایا کہ میرے سوا کسی کو معتمد نہ بنائیو۔
’کِتَاب‘ سے مراد تورات ہے اور ’وکیل‘ کے معنی کارساز، معتمد اور اس ذات کے ہیں جس پر کامل بھروسہ کر کے اپنے معاملات اس کے حوالہ کر دیے جائیں۔
یہ آیت تمہید ہے یہود کے اس بگاڑ اور فساد کے بیان کی جو آگے کی آیات میں آ رہا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب عطا کی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے صحیفۂ ہدایت بنایا جس میں صاف یہ ہدایت درج تھی کہ میرے سوا کسی کو کارساز اور معتمد نہ بنائیو۔ مقصود اس کا حوالہ دینے سے یہ واضح کرنا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس اہتمام ہدایت کی کوئی قدر نہیں کی۔ اس کے صحیفۂ ہدایت کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور شرک سے بچتے رہنے کی صریح ہدایت کے باوجود شرک کی نجاستوں اور آلودگیوں میں مبتلا ہوئے۔
کتاب کے ذکر کے بعد توحید کی تعلیم کا حوالہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہی چیز تمام تعلیمات دین کے لیے مرکز ثقل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی پر تمام شریعت کی بنیاد بھی ہے اور اسی کے ساتھ وابستہ رہنے تک کوئی جماعت دین سے وابستہ بھی رہتی ہے۔ جہاں اس مرکز ثقل سے وابستگی کمزور ہوئی پھر بالتدریج سارا دین غارت ہو کے رہ جاتا ہے۔
یہ امر محتاج بیان نہیں ہے کہ تورات توحید کی تعلیم سے بھری پڑی ہے۔ حوالے نقل کرنے میں طوالت ہو گی اس وجہ سے ہم صرف ایک حوالہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ خروج۔ ۲: ۲ میں ہے:
’’خداوند تیرا خدا جو تجھے زمین مصر سے غلامی کے گھر سے نکال لایا، میں ہوں۔ میرے حضور تیرے لیے دوسرا خدا نہ ہووے۔ تو اپنے لیے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے سے مت بنا۔ تو ان کے آگے اپنے تئیں مت جھکا اور نہ ان کی عبادت کر کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں۔‘‘
قرآن کے الفاظ ’اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلًا‘ اور تورات کے الفاظ ’’میرے حضور تیرے لیے دوسرا خدا نہ ہووے‘‘ میں کتنی مطابقت ہے لیکن ان واضح ہدایات کے باوجود یہود باربار شرک و بت پرستی میں مبتلا ہوئے جس پر ان کے نبیوں نے نہایت درد انگیز الفاظ میں ماتم بھی کیا ہے اور یہود کو ملامت بھی کی ہے۔ سیدنا مسیحؑ نے تو یہود کو مخاطب کر کے یہاں تک فرما دیا کہ ’’تو تو وہ ہے کہ تو نے پہلی شب میں چھنالا کیا۔‘‘
(سو اُن کا عہد تمام ہوا جو اِس دور کی مسجد کے نگہبان بنائے گئے)۔ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُس کو (اِنھی) بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بناؤ
یعنی تورات عطا فرمائی تھی۔
یہ ایک جملے میں اُس دعوت کا خلاصہ ہے جس کے بنی اسرائیل امین بنائے گئے تھے۔ توحید پر ایمان کا اولین تقاضا یہی ہے کہ خدا کے سوا کسی کو کارساز نہ بنایا جائے اور صرف ایک خدا پر بھروسا کرکے اپنے تمام معاملات اُس کے حوالے کر دیے جائیں۔ تورات میں بھی یہ تعلیم جگہ جگہ اور نہایت واضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ دین کی تعلیمات میں اِس کی حیثیت ایک مرکز ثقل کی ہے اور تمام شریعت کی بنیاد بھی یہی ہے۔
ہم نے اِس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اُسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔
معراج کا ذکر صرف ایک فقرے میں کر کے یکایک بنی اسرائیل کا یہ ذکر جو شروع کردیا گیا ہے، سر سری نگاہ میں یہ آدمی کو کچھ بےجوڑ سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر سورت کے مدعا کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس کی مناسبت صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ سورت کا اصل مدعا کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے۔ آغاز میں معراج کا ذکر صرف اس غرض کے لیے کیا گیا ہے کہ مخاطبین کو آگاہ کردیا جائے کہ یہ باتیں تم سے وہ شخص کر رہا ہے جو ابھی ابھی اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر آرہا ہے۔ اس کے بعد اب بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ کے مقابلے میں سر اٹھا تے ہیں تو دیکھو کہ پھر ان کو کیسی درد ناک سزا دی جاتی ہے۔
وکیل، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار، جس پر توکل کیا جائے، جس کے سپرد اپنے معاملات کردیے جائیں، جس کی طرف ہدایت اور استمداد کے لیے رجوع کیا جائے۔
ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرئیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا
اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کرایا۔ بے شک وہ ایک شکر گزار بندہ تھا
حرف ندا یہاں محذوف ہے۔
یعنی توحید کی اس تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کو یہ یاددہانی بھی کر دی گئی تھی کہ اس بات کو ہمیشہ مستحضر رکھنا کہ تم ان باقیات الصالحات کی نسل سے ہو جن کو اللہ نے نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں بچایا۔ نوح اللہ کے ایک شکرگزار بندے تھے تو تم بھی انہی کی طرح خدا کے شکرگزار اور اس کی توحید پر قائم رہنا ورنہ یاد رکھو کہ جس طرح اللہ نے قوم نوحؑ کے وجود سے، اس کے شرک کی پاداش میں، اپنی زمین کو پاک کر دیا اسی طرح تمہارے وجود سے بھی اپنی زمین کو پاک کر دے گا۔
اے اُن لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ( کشتی پر) سوار کیا تھا۔ اِس میں شک نہیں کہ وہ (ہمارا) ایک شکر گزار بندہ تھا
مطلب یہ ہے کہ تم اُنھی باقیات الصالحات کی اولاد ہو جو توحید پر سچے ایمان کی وجہ سے کشتی پر سوار کرائے گئے اور خداکے عذاب سے بچا لیے گئے تھے۔ اپنی یہ تاریخ ہمیشہ یاد رکھو اور اپنے ابوالآبا نوح علیہ السلام کی طرح تم بھی خدا کے شکر گزار بندے بن کر اُس کی توحید پر قائم رہو۔
تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا۔
یعنی نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی اولاد ہونے حیثیت سے تمہارے شایاں شان یہی ہے کہ تم صرف ایک اللہ ہی کو اپنا وکیل بناؤ، کیونکہ جن کی تم اولاد ہو وہ اللہ ہی کو وکیل بنانے کی بدولت طوفان کی تباہی سے بچے تھے۔
اے ان لوگوں کی اولاد ! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کردیا تھا، وہ ہمارا بڑا ہی شکر گزار بندہ تھا
طوفان نوح (علیہ السلام) کے بعد نسل انسانی نوح (علیہ السلام) کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتیئ نوح (علیہ السلام) میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ، نوح (علیہ السلام) ، اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو۔
اور ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بہت سر اٹھاؤ گے
عربیت کا ایک اسلوب: ’قَضَیْنَا‘ کے بعد ’اِلٰی‘ کا صلہ عربیت کے قاعدے سے اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ’اَبْلَغْنَا‘ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔ یعنی ہم نے فیصلہ کر کے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔
یہود کے دو برے فسادات: ’فِی الْکِتَابِ‘ میں ’الْکِتَاب‘ کا لفظ یہاں تمام اسفار یہود پر مشتمل ہے۔ قرآن میں یہ لفظ تورات کے لیے بھی آتا ہے اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کے صحیفوں کے لیے بھی۔ آیت میں یہود کے جن دو بڑے فسادات اور ان کے انجام کی خبر دی گئی ہے ان میں سے پہلے فساد اور اس کے عبرت انگیز انجام سے حضرت داؤد، یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقی ایل علیہم السلام نے آگاہ فرمایا اور دوسرے فساد اور اس کے عواقب سے سیدنا مسیحؑ نے ڈرایا۔ ’فساد‘ سے مراد، جیسا کہ ہم دوسرے مقامات میں واضح کر چکے ہیں، خدا کی توحید اور اس کی شریعت سے بغاوت ہے۔ اس قسم کے فسادات سے یوں تو یہود کی پوری تاریخ بھری پڑی ہے چنانچہ ایک فساد کی تفصیل سورۂ بقرہ میں تابوت کے چھن جانے کے واقعہ سے متعلق بھی، گزر چکی ہے لیکن یہاں جن فسادات کا حوالہ ہے وہ ایسے فسادات ہیں کہ ان کے نتائج نے یہود کی پوری قوم کو ذلیل و پامال کر کے رکھ دیا۔ حضرت داؤدؑ نے پہلے فساد اور اس کے انجام کی جن لفظوں میں پیشین گوئی فرمائی تھی وہ یہ ہیں:
’’انھوں نے (یعنی بنی اسرائیل نے) ان قوموں کو (یعنی مشرک قوموں کو) ہلاک نہ کیا، جیسا کہ خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے بلکہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا ................. اس لیے خدا کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے (یعنی بنی اسرائیل سے) نفرت ہو گئی اور اس نے ان کو قوموں کے قبضے میں کر دیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران بن گئے۔‘‘(زبور باب ۱۰۶ آیات ۳۴-۴۱)
دوسرے فساد کی پیشین گوئی کے سلسلہ میں سیدنا مسیحؑ کے الفاظ یہ ہیں:
’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے۔‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۳)
لوقا میں ہے:
’’اے یروشلم کی بیٹیو! میرے لیے نہ روؤ بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روؤ کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنھوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہیں گے کہ ہمیں چھپا لو۔‘‘ (باب ۲۳ آیات ۲۸-۳۰)
آیت کے آخر میں ’فَنُعَذِّبُکُمْ مَرَّتَیْنِ‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ حذف ہیں۔ گویا پوری بات یوں ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاؤ گے اور بہت سر اٹھاؤ گے اور ہم دونوں مرتبہ تم کو سخت سزا دیں گے۔ چونکہ یہ بات بالکل واضح بھی تھی نیز اس کی پوری تفصیل آگے والی آیات میں آ رہی تھی اس وجہ سے یہاں اس کو حذف فرما دیا۔
بنی اسرائیل کو ہم نے اِسی کتاب میں اپنے اِس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے
اصل الفاظ ہیں: ’وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ‘۔ اِن میں ’قَضَیْنَا‘ کے بعد ’اِلٰی‘ کا تقاضا ہے کہ اُسے کسی ایسے فعل پر متضمن مانا جائے جو اِس صلہ سے مناسبت رکھنے والا ہو۔ یہ ’أبلغنا‘ یا اِس کے ہم معنی کوئی فعل ہو سکتا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
یعنی خدا کے مقابلے میں سرکشی دکھاؤ گے اور اُس کی شریعت سے بغاوت کردو گے۔ قرآن میں لفظ ’فَسَاد‘ اِس مفہوم کے لیے بھی آیا ہے۔ اِس کے بعد ’فنعذبکم مرتین‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ آیت میں حذف ہو گئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات بالکل واضح بھی تھی اور آگے جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ بھی اِسی پر دلالت کررہا تھا۔ تورات میں یہ تنبیہ اور اِس کے نتیجے میں ملنے والی سزا کی تفصیلات استثنا کے باب ۲۸ میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’...اور چونکہ تو باوجود سب چیزوں کی فراوانی کے فرحت اور خوش دلی سے اپنے خدا کی عبادت نہیں کرے گا، اِس لیے بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے دشمنوں کی خدمت کرے گا ،جن کو خداوند تیرے برخلاف بھیجے گا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جو آ رکھے رہے گا، جب تک وہ تیرا ناس نہ کر دے۔ خداوند دور سے، بلکہ زمین کے کنارے سے ایک قوم کو تجھ پر چڑھا لائے گا جیسے عقاب ٹوٹ کر آتا ہے۔ اُس قوم کی زبان کو تو نہیں سمجھے گا۔ اُس قوم کے لوگ ترش رو ہوں گے جو نہ بڈھوں کا لحاظ کریں گے نہ جوانوں پر ترس کھائیں گے۔ اور وہ تیرے چوپایوں کے بچوں اور تیری زمین کی پیداوار کو کھاتے رہیں گے، جب تک تیرا ناس نہ ہو جائے۔ اور وہ تیرے لیے اناج یا مے یا تیل یا گاے بیل کی بڑھتی یا تیری بھیڑ بکریوں کے بچے کچھ نہیں چھوڑیں گے، جب تک وہ تجھ کو فنا نہ کر دیں۔ اور وہ تیرے تمام ملک میں تیرا محاصرہ تیری ہی بستیوں میں کیے رہیں گے، جب تک تیری اونچی اونچی فصیلیں جن پر تیرا بھروسا ہو گا، گر نہ جائیں۔ تیرا محاصرہ وہ تیرے ہی اُس ملک کی سب بستیوں میں کریں گے جسے خداوند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے۔‘‘(۴۷۔۵۲)
’’...اور چونکہ تو خداوند اپنے خدا کی بات نہیں سنے گا، اِس لیے کہاں تو تم کثرت میں آسمان کے تاروں کی مانند ہو اور کہاں شمار میں تھوڑے ہی سے رہ جاؤ گے۔ تب یہ ہو گا کہ جیسے تمھارے ساتھ بھلائی کرنے اور تم کو بڑھانے سے خداوندخوشنود ہوا، ایسے ہی تم کو فنا کرانے اور ہلاک کر ڈالنے سے خداوند خوشنود ہو گا اور تم اُس ملک سے اکھاڑ دیے جاؤ گے، جہاں تو اُس پر قبضہ کرنے جا رہا ہے۔ اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کرے گا۔‘‘ (۶۲۔۶۴)
اِس کے بعد بنی اسرائیل کے انبیا اُنھیں متنبہ کرتے رہے۔ چنانچہ پہلے فساد پر اُن کی تنبیہات زبور، یسعیاہ، یرمیا اور حزقی ایل میں اور دوسرے فساد پر سیدنا مسیح علیہ السلام کی زبان سے متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہیں۔
پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اِس بات پر بھی متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔
کتاب سے مراد یہاں تورات نہیں ہے بلکہ صُحُفِ آسمانی کا مجموعہ ہے جس کے لیے قرآن میں اصطلاح کے طور پر لفظ ” الکتاب ” کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔
بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے برے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور، یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح (علیہ السلام) نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہوجائے۔
پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں :
” انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمراں بن گئے “
(زبور، باب ١٠٦۔ آیات ٣٤۔ ٤١)
اس عبارت میں ان واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے، گویا کہ وہ ہوچکے۔ یہ کتب آسمانی کا خاص انداز بیان ہے۔
پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں :
” آہ، خطاکار گروہ، بد کرداری سے لدی ہوئی قوم، بدکرداروں کی نسل، مکار اولاد، جنہوں نے خدا وند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہوگئے، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے “ ؟ (باب ١۔ آیت ٤۔ ٥)
” وفادار بستی کیسی بدکار ہوگئی ! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی، لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔ تیرے سردار گردن گش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے۔ وہ یتیموں کا انصان نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خداوند رب الافواج اسرائیل کا قادر یوں فرماتا ہے کہ آہ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا “۔ (باب ١۔ آیت ٢١۔ ٢٤)
” وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلستیوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔ اور ان کی سرزمین بتوں سے بھی پر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں “۔ (باب ٢۔ آیت ٦۔ ٧)
” اور خداوند فرماتا ہے، چونکہ صہیون کی بیٹیاں (یعنی یروشلم کی رہنے والیاں) متکبر ہیں اور گردن گشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خداوند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بےپردہ کر دے گا۔۔ تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے۔ اس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی “۔ (باب ٣۔ آیت ١٦۔ ٢٦)
” اب دیکھ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب، یعنی شاہ اسور (اسیریا) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا “۔
(باب ٨۔ آیت ٧)
” یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو ۔۔۔۔۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بد کرداری تمہارے لیے ایسی ہوگی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔۔ وہ اسے کہا رکے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا، اسے بےدریغ چکنا چور کرے گا، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے “۔
(باب ٣٠۔ آیت ٩۔ ١٤)
پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی کی آواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا :
” خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بےانصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سے دور ہوگئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے ؟۔۔ میں تم کو باغوں والی زمین میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کردیا، اور میری میراث کو مکروہ بنایا۔۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی۔ ہاں، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی (یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہر بت کو سجدہ کیا) ۔۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء اور کاہن اور (جھوٹے) نبی، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پھتر سے کہ تو نے مجھے جنم دیا، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اٹھ کر ہم کو بچا۔ لیکن تیرے وہ بت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا ؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اٹھیں، کیونکہ اے یہوداہ ! جتنے تیرے شہر میں اتنے ہی تیرے معبود ہیں “۔ (باب ٢۔ آیت ٥۔ ٢٨)
” خدا وند نے مجھ سے فرمایا، کیا تو نے دیکھا کہ بر گشتہ اسرائیل (یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست) نے کیا کیا ؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری (یعنی بت پرستی) کی۔۔ اور اس کی بےوفا بہن یہودا۔ (یعنی یروشلم کی یہودی ریاست) نے یہ حال دیکھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب بر گشتہ اسرائیل کی زنا کاری (یعنی شرک) کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا (یعنی اپنی رحمت سے محروم کردیا) تو بھی اس کی بےوفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی برائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری (یعنی بت پرستی) کی “۔ (باب ٣۔ آیت ٦۔ ٩)
” یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا۔۔ میں تجھے کیسے معاف کروں، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں۔ جب میں نے ان کو سیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے۔ وہ پیٹ بھرے گھوڑوں کے مانند ہوئے، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر بن بنانے لگا۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی “ ؟ (باب ٥۔ آیت ١۔ ٩)
” اے اسرائیل کے گھرانے ! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑ ھا لاؤں گا۔ خدا وند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے۔ وہ قدیم قوم ہے۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر مرد ہیں۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسہ ہے تلوار سے ویران کردیں گے “۔ (باب ٥۔ آیت ١٥۔ ا ٧)
” اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کی کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یرشلم کے بازاروں میں خوشی اور شاد مانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہوجائے گا “۔ (باب ٧۔ آیت ٣٣۔ ٣٤)
” ان کو میرے سامنے سے نکال دے کہ چلے جائیں۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف، اور جو کال کے لیے ہیں وہ کال کو، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں “۔ (باب ١٥۔ آیت ٢۔ ٣)
پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا :
” اے شہر، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں۔۔ دیکھ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انہوں نے ماں پاک کا حقیر جانا۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا، تو نے میری پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سبتوں کو ناپاک کیا، تیرے اندر وہ ہیں جو چغلخوری کرکے خون کرواتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو بتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں، تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی، تجھ میں انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خورای کی، تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا، کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا ؟ میں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ سے نابود کردوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھہرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں “۔ (باب ٢٢۔ آیت ٣۔ ١٦)
یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے ان کو خبردار کیا۔ متی باب ٢٣ میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
” اے یروشلم ! اے یرو شلم ! تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں، مگر تو نے نہ چاہا، دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے “۔ (آیت ٢٧۔ ٣٨)
” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے ” (باب ٢٤۔ آیت ٢)
پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جارہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جس میں عورتیں بھی تھیں، روتی پیٹتی ان کے پیچھے جارہی تھیں، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا :
” اے یروشلم کی بیٹیو ! میرے لیے نہ روؤ بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روؤ، کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا، اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو “۔
ہم نے بنو اسرائیل کے لئے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کردیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے
پس جب ان میں سے پہلی بار کی میعاد آ جاتی ہے تو ہم تم پر اپنے زور آور بندے مسلط کر دیتے ہیں تو وہ گھروں میں گھس پڑے اور شدنی وعدہ پورا ہو کے رہا
’اِذَا‘ صرف مستقبل ہی کے لیے نہیں آتا بلکہ بیان عادت و سنت اور بعض اوقات تصویر حال کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں تصویر حال ہی کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمے میں اس کو ملحوظ رکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چنانچہ دیکھ لو جب پہلی بار کی میعاد آ جاتی ہے تو ہم تمہیں اپنے عذاب کا مزا چکھانے کے لیے اپنے زور آور بندوں کو ابھار کر تم پر مسلط کر دیتے ہیں جو تمہارے گھروں میں گھس پڑتے ہیں اور خدا کا شدنی وعدہ پورا ہو کے رہتا ہے۔
’بعث‘ کا صلہ جب ’عَلٰی‘ کے ساتھ آئے تو وہ ابھارنے اور اکسانے کے ساتھ ساتھ مسلط کر دینے کے مفہوم پر بھی متضمن ہو جاتا ہے۔
’فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ‘ یہ یہود کی انتہائی توہین و تذلیل کی تصویر ہے اس لیے کہ جب دشمن اتنا زور آور ہو کہ وہ گھروں کے اندر گھس پڑے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے عزت و ناموس ہر چیز کو تاراج کر کے رکھ دیا۔ یہاں صرف اتنے ہی کے ذکر پر اکتفا فرمایا ہے اس لیے کہ ذلت کی تصویر کے لیے یہی کافی تھا لیکن آگے اس بات کا حوالہ بھی آئے گا کہ اس دشمن نے صرف گھروں میں گھسنے ہی پر بس نہیں کیا بلکہ مسجد اقصیٰ کی حرمت بھی پوری طرح برباد کی۔
بخت نصر کا حملہ اور یہود کی غلامی: یہ اشارہ بابل و نینوا کے بادشاہ بخت نصر یا نبوکد نضر کے حملہ کی طرف ہے جس نے ۵۸۶ قبل مسیح میں یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔
یرمیاہ نبی نے اس کی پیشین گوئی یوں فرمائی تھی:
’’رب الافواج یوں کہتا ہے۔ اس لیے کہ تم نے میری باتیں نہ سنیں دیکھ میں اتر کے سارے گھرانوں کو اپنے خدمت گزار شاہ بابل نبوکد نضر کو بلا بھیجوں گا۔‘‘ (یرمیاہ ۲۵: ۸-۹)
ان کے انذار کی مزید تفصیل سنیے:
’’میں ایسا کروں گا کہ ان کے درمیان خوشی کی آواز اور خرص کی آواز، دلہے کی آواز دلہن کی آواز، چکی کی آواز اور چراغ کی روشنی باقی نہ رہے اور یہ ساری سرزمین ویرانہ اور حیرانی کا باعث ہو جائے گی اور یہ قومیں ستر برس تک بابل کے بادشاہ کی غلامی کریں گی۔‘‘ (یرمیاہ ۲۵: ۹-۱۰)
یرمیاہ نبی کا نوحہ سنیے:
’’خداوند نے صیہون کی بیٹی کو اپنے قہر کے ابر تلے چھپا دیا۔ اس نے اسرائیل کے جمال کو آسمان سے زمین پر پٹک دیا اور اپنے قہر کے دن اپنے پاؤں رکھنے کی کرسی کو یاد نہ کیا۔ خداوند نے یعقوب کے سارے مکانوں کو غارت کیا اور رحم نہ کیا۔ اس نے اپنے قہر میں یہوداہ کی بیٹی کے قلعوں کو ڈھا دیا۔ اس نے انھیں خاک کے برابر کر دیا۔ اس نے بادشاہت اور امیروں کو ناپاک کیا۔ اس نے اپنے قہر شدید میں اسرائیل کا ہر ایک سینگ بالکل کاٹ ڈالا۔‘‘ (یرمیاہ کا نوحہ ۲: ۲۷۱)
آیت میں بخت نصر (یا نبوکد نضر) اور اس کی فوجوں کے لیے ’عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ‘ (اپنے زور آور بندے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ ان کے دین اور تقویٰ کے اعتبار سے نہیں استعمال ہوئے ہیں بلکہ صرف اس حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں کہ انھوں نے خدا کے ارادہ کے اجراء و نفاذ کے لیے آلہ و جارحہ کا کام دیا۔ یہ اگرچہ خود گندے تھے لیکن گندگی کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو صاف کرنے میں انھوں نے مشیت الٰہی کی تنفیذ کی اس وجہ سے انھیں بھی فی الجملہ خدا سے نسبت حاصل ہو گئی۔ بنی اسرائیل کو غرہ تھا کہ ’نَحْنُ اَبْنَآءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّاءُہٗ‘ ہم خدا کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ خدا نے ان پر واضح کر دیا کہ جن جوتوں سے تم پٹے ہو وہ تو خدا کی نظروں میں کچھ وقعت رکھتے ہیں لیکن تم کوئی وقعت نہیں رکھتے۔
(لہٰذا دونوں مرتبہ سخت سزا پاؤ گے)۔ پھر (تم نے دیکھا کہ) جب اُن میں سے پہلی بار کے وعدے کا وقت آجاتا ہے تو ہم تم پر اپنے ایسے بندے اٹھا کرمسلط کر دیتے ہیں جو نہایت زور آور تھے۔ سو وہ تمھارے گھروں کے اندر گھس پڑے اور وعدہ پورا ہوکے رہا
جملے کی ابتدا ’اِذَا‘ سے ہوئی ہے۔ یہ یہاں تصویر حال کے لیے آیا ہے۔ ’اِذَا‘ کے بارے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ یہ جس طرح حال اور مستقبل کے لیے آتا ہے، اُسی طرح بیان سنت و عادت اور ماضی میں کسی صورت حال کی تصویر کے لیے بھی آتا ہے۔
آیت میں ’بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ‘ کے الفاظ ہیں۔ ’بَعْث‘ کے بعد ’عَلٰی‘ دلیل ہے کہ یہ ابھارنے اور اٹھا کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ مسلط کر دینے کے مفہوم پر بھی متضمن ہو گیا ہے۔
یہ اشارہ بابل و نینوا کے بادشاہ بخت نصر کے حملے کی طرف ہے جس نے ۵۸۶ قبل مسیح میںیہودیہ کے تمام بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو، جو یہود کی عظمت کا آخری نشان تھا، بالکل پیوند خاک کر دیا۔ آیت میں اِس کے لیے ’فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ یہودکی انتہائی توہین و تذلیل کی تصویر ہے، اِس لیے کہ جب دشمن اتنا زور آور ہو کہ وہ گھروں کے اندر گھس پڑے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ اُس نے عزت و ناموس ، ہر چیز کو تاراج کر کے رکھ دیا۔ اِسی طرح بخت نصر کی فوجوں کے لیے ’عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ‘ (اپنے زور آور بندے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ اُن کے دین اور تقویٰ کے اعتبار سے نہیں استعمال ہوئے ہیں، بلکہ صرف اِس حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں کہ اُنھوں نے خدا کے ارادہ کے اجرا و نفاذ کے لیے آلہ و جارحہ کا کام دیا۔ یہ اگرچہ خود گندے تھے، لیکن گندگی کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو صاف کرنے میں اُنھوں نے مشیت الٰہی کی تنفیذ کی، اِس وجہ سے اُنھیں بھی فی الجملہ خدا سے نسبت حاصل ہو گئی۔ بنی اسرائیل کو غرہ تھا کہ ’نَحْنُ اَبْنَآءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّآءُ ہٗ‘ ہم خدا کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ خدا نے اُن پر واضح کر دیا کہ جن جوتوں سے تم پٹے ہو، وہ تو خدا کی نظروں میں کچھ وقعت رکھتے ہیں، لیکن تم کوئی وقعت نہیں رکھتے۔‘‘(تدبرقرآن ۴/ ۴۸۲)
آخرکار جب اُن میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔
اس سے مراد وہ ہولناک تباہی ہے جو آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر نازل ہوئی۔ اس کا تاریخی پس منظر سمجنے کے لیے صرف وہ اقتباسات کافی نہیں ہیں جو اوپر ہم صحف انبیاء سے نقل کرچکے ہیں، بلکہ ایک مختصر تاریخی بیان بھی ضروری ہے تاکہ ایک طالب علم کے سامنے وہ تمام اسباب آجائیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حامل کتاب قوم کو امامت اقوام کے منصب سے گر اکر ایک شکست خوردہ، غلام اور سخت پسماندہ قوم بنا کر رکھ دیا۔
حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوٹے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ حتِّی اَمَّوری کنعانی، فِرِزِّی، حَوِی، یبوسی، فِلستی وغیرہ سان قوموں میں بد تیرن قسم کا شرک پایا جاتا تھا۔ ان کے سب سے بڑے معبود کا نام ایل تھا جسے یہ دیوتاؤں کا باپ کہتے تھے اور اسے عموما سانڈ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اس کی بیوی کا نام عشیرہ تھا اور اس سے خداؤں اور خدانیوں کی ایک پوری نسل چلی تھی جن کی تعداد ٧٠ تک پہنچتی تھی۔ اس کی اولاد میں سب سے زیادہ زبردست بعل تھا جس کو بارش اور روئیدگی کا خدا اور زمین و آسمان کا مالک سمجھا جاتا تھا۔ شمالی علاقوں میں اس کی بیوی اناث کہلاتی تھی اور فلسطین میں عستارات۔ یہ دونوں خواتین عشق اور افزائش نسل کی دیویاں تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی دیوتا موت کا مالک تھا، کسی دیوی کے قبضے میں صحت تھی۔ کسی دیوتا کو وبا اور قحط لانے کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے، اور یوں ساری خدائی بہت سے معبودوں میں بٹ گئی تھی۔ ان دیوتاؤں اور دیویوں کی طرف ایسے ایسے ذلیل اوصاف و اعمال منسوب تھے کہ اخلاقی حیثیت سے انتہائی بد کردار انسان بھی ان کے ساتھ مشتہر ہونا پسند نہ کریں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ ایسی کمینہ ہستیوں کو خدا بنائیں اور ان کی پرستش کریں وہ اخلاق کی ذلیل ترین پستیوں میں گرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جو حالات آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں وہ شدید اخلاقی گراوٹ کی شہادت بہم پہنچاتے ہیں۔ ان کے ہاں بچوں کی قربانی کا عام رواج تھا۔ ان کے معابد زنا کاری کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ عورتوں کو دیوداسیاں بنا کر عبادت گاہوں میں رکھنا اور ان سے بدکاریاں کرنا عبادت کے اجزاء میں داخل تھا۔ اور اسی طرح کی اور بہت سی بد اخلاقیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔
توراة میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سر زمین چھین لینا اور ان کے ساتھ رہنے بسنے اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پر ہیز کرنا۔
لیکن بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے۔ انہوں نے اپنی کوئی متحدہ سلطنت قائم نہ کی۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے۔ ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوح علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہوجائے۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ ہوسکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کردیتا۔ آخرکار انہیں یہ گوارا کرنا پڑا کہ مشرکین ان کے ساتھ رہیں بسیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان کے مفتوح علاقوں میں جگہ جگہ ان مشرک قوموں کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی موجود رہیں جن کو بنی اسرائیل مسخر نہ کرسکے۔ اسی بات کی شکایت زبور کی اس عبارت میں کی گئی ہے جسے ہم نے حاشیہ نمبر ٦ کے آغاز میں نقل کیا ہے۔
اس کا پہلا خمیازہ تو بنی اسرائیل کو یہ بھگتنا پڑا کہ ان قوموں کے ذریعے سے ان کے اندر شرک گھس آیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں بھی راہ پانے لگیں۔ چنانچہ اس کی شکایت بائیبل کی کتاب قضاة میں یوں کی گئی ہے :
” اور بنی اسرائیل نے خداوند کے آگے بدی کی تعلیم کی پرستش کرنے لگے۔ اور انہوں نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کو جا کر انہیں ملک مصر سے نکال لایا تھا چھوڑ دیا اور دوسرے معبودوں کی جو ان کے گردا گرد کی قوموں کے دیوتاؤں میں سے تھے پیروی کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگے اور خداوند کو غصہ دلایا۔ وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے اور خدا وند کا قہر اسرائیل پر بھڑکا۔
(باب ٢۔ آیت ١١۔ ١٣)
اس کے بعد دوسرا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں انہوں نے چھوڑ دی تھیں انہوں نے اور فلستینوں نے، جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا، بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کیا اور پے در پے حملے کر کے فلستین کے بڑے حصے سے ان کو بےدخل کردیا، حتٰی کہ ان سے خدا وند کے عہد کا صندوق (تابوت سکینہ) تک چھین لیا۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے سن ١٠٢٠ قبل مسیح میں طالوت کا ان کا بادشاہ بنایا۔ (اس کی تفصیل سورة بقرہ رکوع ٣٢ میں گزر چکی ہے) ۔
اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے۔ طالوت (سن ١٠٢٠ تا ١٠٠٤ ق م) ، حضرت داؤد (علیہ السلام) (سن ١٠٠٤ تا ٩٦٥ ق م) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) (سب ٩٦٥ تا ٩٢٦ ق م ) ۔ ان فرمانرواؤں نے اس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ صرف شمالی ساحل پر فنیقیوں کی اور جنوبی ساحل پر فلستیوں کی ریاستیں باقی رہ گئیں جنہیں مسخر نہ کیا جاسکا اور محض باج گزار بنانے پر اکتفا کیا گیا۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کرلیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنت اسرائیل، جس کا پایہ تخت آخرکار سامریہ قرار پایا۔ اور جنوبی فلسطین اور ادوم کے علاقے میں سلطنت یہود یہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اور روز سے شروع ہوگئی اور آخر تک رہی۔
ان میں اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ حالت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب اس ریاست کے فرمانروا اخی اب نے صیدا کی مشرک شہزادی ایزیبل سے شادی کرلی۔ اس وقت حکومت کی طاقت اور ذرائع سے شرک اور بد اخلاقیاں سیلاب کی طرح اسرائیلیوں میں پھیلنی شروع ہوئیں۔ حضرت الیاس اور حضرت الیَسع علیہما السلام نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی۔ آخرکار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہوگئے۔ اس دور میں عاموس نبی ( سن ٧٨٧ تا ٧٤٧ قبل مسیح) اور پھر ہوسیع نبی (سن ٧٤٧ تا ٧٣٥ قبل مسیح) نے اٹھ کر اسرائیلیوں کو پے در پے تنبیہات کیں، مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سر شار تھے وہ تنبیہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہوگیا۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور دولت سامریہ کے حدود میں اپنی نبوت کردیا، ہزار ہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گیے، ٢٧ ہزار سے زیادہ با اثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تتر بتر کردیا گیا، اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسا یا گیا جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز زیادہ بیگانہ ہوتا چلا گیا۔
بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہود یہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی، وہ بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بہت جلدی شرک اور بد اخلاقی میں مبتلا ہوگئی، مگر نسبتہً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولت اسرائیل کی بہ نسبت سست رفتار تھا، اس لیے اس کو مہلت بھی کچھ زیادہ دی گئی۔ اگرچہ دولت اسرائیل کی طرح اس پر بھی اشوریوں نے پے در پے حملے کیے، اس کے شہروں کو تباہ کیا، اس کے پایہ تخت کا محاصرہ کیا، لیکن یہ ریاست اشوریوں کے ہاتھوں ختم نہ ہوسکی بلکہ صرف باج گزار بن کر رہ گئی۔ پھر جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہود یہ کہ لوگ بت پرستی اور بد اخلاقیوں سے باز نہ آئے تو سن ٥٩٨ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو مسخر کرلیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا سلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا اور حضرت یرمیاہ کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر سن ٥٨٧ قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کردیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہے۔
یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا، اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو اس کی پاداش میں ان کو دی گئی۔
ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلہ پر اپنے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی لڑاکے تھے۔ پس وہ تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا ۔
یہ اشارہ ہے اس ذلت اور تباہی کی طرف جو بابل کے فرمان روا بخت نصر کے ہاتھوں، حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریبًا چھ سو سال قبل، یہودیوں پر یروشلم میں نازل ہوئی۔ اس نے بےدریغ یہودیوں کو قتل کیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا اور یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اللہ کے نبی حضرت شعیب (علیہ السلام) کو قتل کیا یا حضرت ارمیا (علیہ السلام) کو قید کیا اور تورات کے احکام کی خلاف ورزی اور معصیات کا ارتکاب کر کے فساد فی الارض کے مجرم بنے۔ بعض کہتے ہیں کہ بخت نصر کے بجائے جالوت کو اللہ تعالیٰ نے بطور سزا ان پر مسلط کیا، جس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ حتیٰ کہ طالوت کی قیادت میں حضرت داوٗد (علیہ السلام) نے جالوت کو قتل کیا۔
پھر ہم نے تمہاری باری ان پر لوٹائی اور تمہاری مال اور اولاد سے مدد کی اور تمہیں ایک کثیر التعداد جماعت بنا دیا
ایک عرصہ کی غلامی اور بدحالی کے بعد بنی اسرائیل میں کچھ اصلاح حال کا جذبہ ابھرا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی طرف توجہ فرمائی، ان کے مال و اولاد میں برکت دی اور تائید الٰہی ان کے لیے اس شکل میں ظاہر ہوئی کہ دارائے اول سائرس شاہ ایران نے ۵۳۹ ق، م میں کلدانیوں کو شکست دے کر ان کے ملک پر قبضہ کر لیا اور یہود کو جلاوطنی سے نجات دے کر وطن جانے اور اسے دوبارہ آباد کرنے کی اجازت دے دی، جس کے بعد بنی اسرائیل کو ازسرنو خاصا فروغ حاصل ہوا۔
پھر ہم نے تمھاری باری اُن پر لوٹا دی اور اموال و اولاد سے تمھاری مدد کی اور تمھیں ایک بڑی جماعت بنا دیا
ایک عرصے کی غلامی کے بعد یہود میں رجوع الی اللہ کی کیفیت پیدا ہوئی تو خدا نے دوبارہ اُن کی مدد کی۔ چنانچہ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا اور ۵۳۹ قبل مسیح میں شاہ ایران سائرس نے کلدانیوں کو شکست دے کر اُن کے ملک پر قبضہ کر لیا۔ اِس کے بعد اُس نے یہود پر یہ عنایت کی کہ اُنھیں اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ یہود نے واپس آ کر ہیکل مقدس کو نئے سرے سے تعمیر کیا اور عزیر علیہ السلام کی رہنمائی میں اپنے آپ کو بڑی حد تک بحال کر لیا، جس کے بعد بنی اسرائیل کو خاصا فروغ حاصل ہوا۔ قرآن نے یہ اِسی فضل و عنایت کا ذکر کیا ہے۔
اِس کے بعد ہم نے تمہیں اُن پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔
یہ اشارہ ہے اس مہلت کی طرف جو یہودیوں (یعنی اہل یہودیہ) کو بابل کی اسیری سے رہائی کے بعد عطا کی گئی۔ جہاں تک سامریہ اور اسرئیل کے لوگوں کا تعلق ہے، وہ تو اخلاقی و اعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اٹھے، مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والا تھا۔ اس نے ان لوگوں میں بھی اصلاح کا کام جاری رکھا جو یہودیہ میں بچے کھچے رہ گئے تھے، اور ان لوگوں کو بھی توبہ وانابت کی ترغیب دی جو بابل اور دوسرے علاقوں میں جلا وطن کردیے گئے تھے۔ آخرکار رحمت الہی ان کی مددگار ہوئی۔ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا۔ سن ٥٣٩ قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس (خورس یا خسرو) نے بابل کو فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے فرمان جاری کردیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہودیوں کے قافلے پر قافلے یہودیہ کی طرف جانے شروع ہوگئے جن کا سلسلہ مدتوں جاری رہا۔ سائرس نے یہودیوں کی ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی اجازت بھی دی، مگر ایک عرصے تک ہمسایہ قومیں جو اس علاقے میں آباد ہوگئی تھیں، مزاحمت کرتی رہیں۔ آخر داریوس (وارا) اول نے سن ٥٢٢ ق م یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے زرو بابل کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا اور اس نے حِجِّی نبی، زکریا نبی اور سردار کاہن یشوع کی نگرانی میں ہیکل مقدس نئے سرے سے تعمیر کیا۔ پھر سن ٤٥٧ ق م میں ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ حضرت عزیر (عزرا) یہودیہ پہنچے اور شاہ ایران ارتخششتا (ارٹا کسر سزیا اردشیر) نے ایک فرمان کی رو سے ان کو مجاز کیا کہ :
” تو اپنے خدا کی اس دانش کے مطابق جو تجھ کو عنایت ہوئی، حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کرا تاکہ دریا پار کے سب لوگوں کا جو تیرے خدا کی شریعت کو جانتے ہیں انصاف کریں، اور تم اس کو جو نہ جانتا ہو سکھاؤ، اور جو کوئی تیرے خدا کی شریعت پر اور بادشاہ کے فرمان پر عمل نہ کرے اس کو بلا توقف قانونی سزا دی جائے، خواہ موت ہو، یا جلاوطنی، یا مال کی ضبطی، یا قید “۔ (عزرا۔ باب ٨۔ آیت ٢٥۔ ٢٦)
اس فرمان سے فائدہ اٹھا کر حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا۔ انہوں نے یہودی قوم کے تمام اہل خیر و صلاح کو ہر طرف سے جمع کر کے ایک مضبوط نظام قائم کیا۔ بائیبل کی کتب خمسہ کو، جن میں توراة تھی، مرتب کر کے شائع کیا، یہودیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا، قوانین شریعت کو نافذ کر کے ان اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں، ان تمام مشرک عورتوں کو طلاق دلوائی جن سے یہودیوں نے بیاہ کر رکھے تھے، اور بنی اسرائیل سے از سرِ نو خدا کی بندگی اور اس کے آئین کی پیروی کا میثاق لیا۔
سن ٤٤٥ ق م میں نحمیاہ کے زیر قیادت ایک اور جلا وطن گروہ یہودیہ واپس آیا اور شاہ ایران نے تحمیاہ کو یروشلم کا حاکم مقرر کر کے اس امر کی اجازت دی کہ وہ اس کی شہر پناہ تعمیر کرے۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیت المقدس پھر سے آباد ہوا اور یہودی مذہب و تہذیب کا مرکز بن گیا۔ مگر شمالی فلسطین اور سامریہ کے اسرائیلیوں نے حضرت عزیر کی اصلاح و تجدید سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا، بلکہ بیت المقدس کے مقابلہ میں اپنا ایک مذہبی مرکز کوہ جرزیم پر تعمیر کر کے اس کو قبلہ اہل کتاب بنانے کی کوشش کی۔ اس طرح یہودیوں اور سامریوں کے درمیان بعد اور زیادہ بڑھ گیا۔
ایرانی سلطنت کے زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے ایک سخت دھکا لگا۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی، ان میں سے شام کا علاقہ اس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے سن ١٩٨ ق م میں فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ یہ یونانی فاتح، جو مذہبا مشرک، اور اخلاقا اباحیت پسند تھے، یہودی مذہب و تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کیا اور خود یہودیوں میں سے ایک اچھا خاصا عنصر ان کا آلہ کار بن گیا۔ اس خارجی مداخلت نے یہودی قوم میں تفرقہ ڈال دیا۔ ایک گروہ نے یونانی لباس، یونانی زبان، یونانی طرز معاشرت اور یونانی کھیلوں کو اپنا لیا اور دوسرا گروہ اپنی تہذیب پر سختی کے ساتھ قائم رہا۔ سن ١٥٧ ق م میں انٹیوکس چہارم (جس کا اپنی فائنیس یعنی مظہر خدا) تھا، جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کرنی چاہی۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل میں زبر دستی بت رکھوائے اور یہودیوں کو مجبور کیا کہ ان کو سجدہ کریں۔ اس نے قربان گاہ پر قربانی بند کرائی۔ اس نے یہودیوں کو مشرکانہ قربان گاہوں پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا۔ اس نے ان سب لوگوں کے لیے سزائے موت تجویز کی جو اپنے گھروں میں توراة کا نسخہ رکھیں، یا سبت کے احکام پر عمل کریں، یا اپنے بچوں کے ختنے کرائیں۔ لیکن یہودی اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں مُکّابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کشمکش میں یو نانیت زدہ یہودیوں کی ساری ہمدردیاں یونانیوں کے ساتھ تھیں، اور انہوں نے عملا مُکّابی بغاوت کو کچلنے میں انطاکیہ کے ظالموں کا پورا ساتھ دیا، لیکن عام یہودیوں میں حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روح دینداری کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہوگئے اور آخرکار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کرلی جو سن ٦٧ ق م تک قائم رہی۔ اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبے پر حاوی ہوگئے جو کبھی یہودیہ اور اسرائیل کی ریاستوں کے زیر نگین تھے، بلکہ فلسِتیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں بھی مسخر نہ ہوا تھا۔
انہی واقعات کی طرف قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت اشارہ کرتی ہے۔
پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جتھے والا بنا دیا ۔
یعنی بخت نصر یا جالوت کے قتل کے بعد ہم نے تمہیں پھر مال اور دولت، بیٹوں اور جاہ حشمت سے نوازا، جب کہ یہ ساری چیزیں تم سے چھن چکی تھیں۔ اور تمہیں پھر زیادہ جتھے والا اور طاقتور بنا دیا۔
اگر تم بھلے کام کرو گے تو اپنے لیے کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو بھی اپنے ہی لیے۔ پھر جب پچھلی بار کی میعاد آ جاتی ہے تو ہم تم پر اپنے زور آور بندے مسلط کر دیتے ہیں کہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ وہ مسجد میں گھس پڑیں جس طرح پہلی بار گھس پڑے تھے اور تاکہ جس چیز پر ان کا زور چلے اسے تہس نہس کر ڈالیں
ٹائیٹس کے ہاتھوں یہود کی دوسری تباہی: ’اِنْ اَحْسَنْتُمْ ........ الایۃ‘ یعنی ایک طویل غلامی کے بعد یہ جو نجات حاصل ہوئی تھی اس کے اندر خود یہ درس مضمر تھا کہ اب اگر تم بھلائی کی روش اختیار کرو گے تو اس کا نفع خود اپنے ہی کو پہنچاؤ گے اور اگر پھر وہی سرکشی کی روش اختیار کرو گے تو اس کا انجام بھی ویسا ہی بھگتو گے۔ یہ نوشتۂ دیوار بھی موجود تھا اور اس سے تمہارے نبیوں نے بھی تمہیں اچھی طرح آگاہ کر دیا تھا لیکن وہی جس کی پیشین گوئی پہلے ہو چکی تھی یعنی تم اسی طرح کے فساد میں پھر مبتلا ہو گئے جس طرح کے فساد میں پہلے مبتلا ہوئے تھے چنانچہ جب تمہاری سرکوبی کی دوسری میعاد آ جاتی ہے تو ہم تم پر اپنے دوسرے زور آور بندے مسلط کر دیتے ہیں تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ یہ بھی مسجد میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے والے گھس گئے تھے اور تاکہ یہ ہر اس چیز کو تہس نہس کر کے رکھ دیں جس پر ان کا زور چلے۔
’لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْھَکُمْ‘ سے پہلے ’بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ‘ کے الفاظ محذوف ہیں۔ چونکہ اس کا قرینہ واضح تھا اس وجہ سے اس کو حذف کر دیا اور ’لِیَسُوْٓءٗا‘ پر جو لام ہے وہ اس کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ کر رہا ہے۔
بائیبل ہسٹری کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس تباہی کی طرف اشارہ ہے جو ۷۰ء میں رومی شاہنشاہ طیطاؤس (ٹائیٹس) کے ہاتھوں یہود پر آئی، جس کی طرف حضرت مسیحؑ نے اشارہ فرمایا تھا۔
(یہ تمھارے لیے سبق تھا کہ) اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو وہ بھی اپنے لیے کرو گے۔(یہ پہلا وعدہ تھا)۔ اِس کے بعد جب دوسری بار کے وعدے کا وقت آجاتا ہے (تو ہم اپنے کچھ دوسرے زور آور بندے اٹھا کھڑے کرتے ہیں)،اِس لیے کہ وہ تمھارے چہرے بگاڑ دیں اور تمھاری مسجد میں اُسی طرح گھس پڑیں، جس طرح وہ پہلی بار اُس میں گھس پڑے تھے اور جس چیز پر اُن کا زور چلے، اُس کو تہس نہس کر ڈالیں
یہ الفاظ اصل میں محذوف ہیں۔ آیت میں ’لِیَسُوْٓءٗ ا‘ کا لام انگلی اٹھا کر اِن کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
یہ اُس تباہی کا ذکر ہے جو مسیح علیہ السلام کی طرف سے اتمام حجت کے بعد ۷۰ء میں رومی بادشاہ تیتس (Titus) کے ہاتھوں یہود پر آئی۔ اِس موقع پر ہزاروں مارے گئے، ہزاروں غلام بنائے گئے، ہزاروں کو پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا گیا اور ہزاروں ایمفی تھیئٹروں اور کلوسیموں میں لوگوں کی تفریح طبع کے لیے جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیر زنوں کے کھیل کا تختۂ مشق بننے کے لیے مختلف شہروں میں بھیج دیے گئے۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین نے اپنے لیے چن لیں اور یروشلم کا شہر اور اُس کی مسجد، سب زمیں بوس کر دیے گئے۔
دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اُسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں۔
اس دوسرے فساد اور اس کی سزا کا تاریخی پس منظر یہ ہے :
مکابیوں کی تحریک جس اخلاقی و دینی روح کے ساتھ اٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بےروح ظاہر داری نے لے لی۔ آخرکار ان کے درمیان پھوٹ پڑگئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپی کو فلسطین آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ پومپی سن ٦٣ ق م میں اس ملک کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کردیا۔ لیکن رومی فاتحین کی یہ مستقل پالیسی تھی کہ وہ مفتوح علاقوں پر براہ راست اپنا نظم و نسق قائم کرنے کی بہ نسبت مقامی حکمرانوں کے ذریعے سے بالواسطہ اپنا کام نکلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے فلسطین میں اپنے زیر سایہ ایک دیسی ریاست قائم کردی جو بالآخر سن ٤٠ ق م میں ایک ہوشیار یہودی ہیرود نامی کے قبضے میں آئی۔ یہ ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی فرماں روائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر سن ٤٠ سے ٤ قبل مسیح تک رہی۔ اس نے ایک طرف مذہبی پیشواؤں کی سر پرستی کر کے یہودیوں کو خوش رکھا، اور دوسری طرف رومی تہذیب کو فروغ دے کر اور رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر کے قیصر کی بھی خوشنودی حاصل کی۔ اس زمانے میں یہودیوں کی دینی و اخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی۔
ہیرود کے بعد اس کی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہوگئی۔
اس کا ایک بیٹا ارخلاؤس سامریہ یہودیہ اور شمالی ادومیہ کا فرماں روا ہوا، مگر سن ٦ عیسوی میں قیصر آگسٹس نے اس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کرید اور ٤١ عیسوی تک یہی انتظام قائم رہا۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اٹھے اور یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے ملکر ان کی مخالفت کی اور رومی گورنر پونتس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی۔
ہیرود کا دوسرا بیٹا ہیرود اینٹی پاس شمالی فلسطین کے علاقہ گلیل اور شرق اردن کا مالک ہوا اور یہ وہ شخص ہے جس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا سر قلم کر کے اس کی نذر کیا۔
اس کا تیسرا بیٹا فلپ، کوہ حرمون سے دریائے یرموک تک کے علاقے کا مالک ہوا اور یہ اپنے باپ اور بھائیوں سے بھی بڑھ کر رومی و یونانی تہذیب میں غرق تھا۔ اس کے علاقے میں کسی کلمہ خیر کے پننپے کی اتنی گنجائش بھی نہ تھی جتنی فلسطین کے دوسرے علاقوں میں تھی۔
سن ٤١ میں ہیرود اعظم کے پوتے ہیرود اگرپا کو رومیوں نے ان تمام علاقوں کا فرمانروا بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا۔ اس شخص نے برسراقتدار آنے کے بعد مسیح (علیہ السلام) کے پیروؤں پر مظالم کی انتہاء کردی اور اپنا پورا زور خدا ترسی و اصلاح و اخلاق کی اس تحریک کو کچلنے میں صرف کر ڈالا جو حواریوں کی رہنمائی میں چل رہی تھی۔
اس دور میں عام یہودیوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی جو حالت تھی اس کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے ان تنقیدوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جو مسیح (علیہ السلام) نے اپنے خطبوں میں ان پر کی ہیں۔ یہ سب خطبے اناجیل اربعہ میں موجود ہیں۔ پھر اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ اس قوم کی آنکھوں کے سامنے یحییٰ (علیہ السلام) جیسے پاکیزہ انسان کا سر قلم کیا گیا مگر ایک آواز بھی اس ظلم عظیم کے خلاف نہ اٹھی۔ اور پوری قوم کے مذہبی پیشواؤں نے مسیح (علیہ السلام) کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا مگر تھوڑے سے راستباز انسانوں کے سوا کوئی نہ تھا جو اس بد بختی پر ماتم کرتا۔ حد یہ ہے کہ جب پونتس پیلاطس نے ان شامت زدہ لوگوں سے پوچھا کہ آج تمہاری عید کا دن ہے اور قاعدے کے مطابق میں سزائے موت کے مستحق مجرموں میں سے ایک کو چھوڑ دینے کا مجاز ہوں، بتاؤ یسوع کو چھوڑوں یا برابّاڈاکو کو ؟ تو ان کے پورے مجمع نے بیک آواز ہو کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت تھی جو اس قوم پر قائم کی گئی۔
اس پر تھوڑا زمانہ ہی گزرا تھا کہ یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہوگئی اور ٦٤ اور ٦٦ ء کے درمیان یہودیوں نے کھلی بغاوت کردی۔ ہیرود اگر پاثانی اور رومی پر وکیوریٹر فلورس، دونوں اس بغاوت کو فرد کرنے میں ناکام ہوئے۔ آخرکار رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کارروائی سے اس بغاوت کو کچل ڈالا اور ٧٠ میں ٹیٹس نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کرلیا۔ اس موقع پر قتل عام میں ایک لاکھ ٣٣ ہزار آدمی مارے گئے، ٦٧ ہزار آدمی گرفتار کر کے غلام بنائے گئے ہزارہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیے گئے، ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر مختلف شہروں میں بھیجا گیا تاکہ ایمفی تھیڑوں اور کلوسمیوں میں ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیرزنوں کے کھیل کا تختہ مشق بننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں، اور یروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کر کے پیوند خاک کردیا گیا۔ اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثرواقتدار ایسا مٹا کہ دو ہزار برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا، اور یروشلم کا ہیکل مقدس پھر کبھی تعمیر نہ ہوسکا۔ بعد میں قیصر ہیڈریان نے اس شہر کو دوبارہ آباد کیا، مگر اب اس کا نام ایلیا تھا اور اس میں مدتہائے دراز تک یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔
یہ تھی وہ سزا جو بنی اسرائیل کو دوسرے فساد عظیم کی پاداش میں ملی۔
اگر تم نے اچھے کام کئے تو خود اپنے ہی فائدے کے لئے، اور اگر تم نے برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لئے، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے کو بھیج دیا تاکہ) وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیں
یہ دوسری مرتبہ انہوں نے فساد برپا کیا کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو قتل کردیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی قتل کرنے کے درپے رہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔ اس کے نتیجے میں پھر رومی بادشاہ ٹیٹس کو اللہ نے ان پر مسلط کردیا، اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا، ان کے اموال لوٹ لئے، مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو غارت کیا اور انھیں ہمیشہ کے لئے بیت المقدس سے جلا وطن کردیا۔ اور یوں ان کی ذلت و رسوائی کا خوب خوب سامان کیا۔ یہ تباہی ٧٠ ء میں ان پر آئی۔
کیا عجب کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے اور اگر تم پھر وہی کرو گے تو ہم بھی وہی کریں گے اور ہم نے جہنم کو تو کافروں کے لیے باڑا بنا ہی رکھا ہے
’حَصِیْر‘ کا ٹھیک ترجمہ باڑا ہے جس میں جانوروں کو بند کرتے ہیں۔
نبی صلعم کی یہود کے لیے نجات: یہ ان یہود سے خطاب ہے جو ان آیات کے نزول کے وقت موجود اور قرآن کی مخالفت میں کفار قریش کی ہمنوائی و پشت پناہی کر رہے تھے۔ ان سے خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہو چکا ہے وہ تمھیں سنایا جا چکا ہے۔ اب اگر خیریت چاہتے ہو تو اس نبی امی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت نے تمھارے لیے نجات کی جو راہ کھولی ہے، اس کو اختیار کرو، اور اپنے مستقبل کو سنوار لو۔ اگر تم نے توبہ اور اصلاح کی راہ اختیار کر لی تو خدا بھی تم پر رحم فرمائے گا اور اگر تم نے پھر اسی طرح کی حرکتیں کیں جیسی کہ پہلے کرتے آئے ہو تو ہم بھی تمھاری اسی طرح خبر لیں گے جس طرح پہلے لے چکے ہیں اور یہ بھی یاد رکھو کہ اس دنیا میں جو ذلت و رسوائی ہوئی ہے وہ تو ہو گی ہی۔ آگے تمھارے جیسے کافروں کے لیے جہنم کا باڑا ہے جس میں سارے بھر دیے جائیں گے۔
اس آیت کے تیور لحاظ رکھنے کے قابل ہیں۔ پہلے تو بات غائب کے صیغے سے فرمائی۔ پھر ’وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا‘ میں متکلم کا صیغہ آ گیا۔ پہلے ٹکڑے میں بے پروائی کا انداز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم یہ صحیح راہ اختیار کر لو گے تو اپنے ہی کو نفع پہنچاؤ گے اور اگر نہ اختیار کرو گے تو اپنی ہی شامت کو دعوت دو گے، خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ دوسرے ٹکڑے میں نہایت ہی سخت وعید ہے اس وجہ سے اول تو متکلم کا صیغہ آیا جو تہدید و وعید کے لیے زیادہ موزوں ہے پھر اس میں ابہام و اجمال بھی ہے۔ یہ تو بتایا کہ ہم لوٹیں گے، یہ نہیں بتایا کہ ہم کس شکل میں لوٹیں گے۔ یہ بات سمجھنے والوں کی سمجھ پر چھوڑ دی ہے اور اس جملے کی ساری شدت اس ابہام کے اندر مضمر ہے۔
(اب بھی)عجب نہیں، (اے بنی اسرائیل) کہ تمھارا پروردگار (ایک مرتبہ پھر) تم پر رحم فرمائے۔ لیکن (یاد رکھو)، اگر تم وہی کرو گے تو ہم بھی وہیں کریں گے اور جہنم کو تو ہم نے اِسی طرح کے منکروں کے لیے باڑا بنا رکھا ہے
یعنی جو حقائق کو اِس طرح بہ چشم سر دیکھ لینے کے بعد بھی انکار کر دیں۔ یہ اُن یہود کو براہ راست خطاب فرمایا ہے جو قرآن کی مخالفت میں منکرین قریش کے ہم نوا ہو کر اُن کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’اِس آیت کے تیور لحاظ رکھنے کے قابل ہیں۔ پہلے توبات غائب کے صیغے سے فرمائی۔ پھر ’اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا‘ میں متکلم کا صیغہ آ گیا۔ پہلے ٹکڑے میں بے پروائی کا انداز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم یہ صحیح راہ اختیار کر لو گے تو اپنے ہی کو نفع پہنچاؤ گے، اور اگر نہ اختیار کرو گے تو اپنی ہی شامت کو دعوت دو گے، خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ دوسرے ٹکڑے میں نہایت ہی سخت وعید ہے۔ اِس وجہ سے اول تو متکلم کا صیغہ آیا جو تہدید و وعید کے لیے زیادہ موزوں ہے، پھر اُس میں ابہام و اجمال بھی ہے۔ یہ تو بتایا کہ ہم لوٹیں گے، یہ نہیں بتایا کہ ہم کس شکل میں لوٹیں گے۔ یہ بات سمجھنے والوں کی سمجھ پر چھوڑ دی ہے اور اِس جملے کی ساری شدت اِس ابہام کے اندر مضمر ہے۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۴۸۳)
ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے، اور کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔
اس سے یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ اس پوری تقریر کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔ مخاطب تو کفار مکہ ہی ہیں، مگر چونکہ ان کو متنبہ کرنے کے لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند عبرتناک شواہد پیش کیے گئے تھے، اس لیے بطور ایک جملہ معترضہ کے یہ فقرے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرما دیا گیا تاکہ ان اصلاحی تقریروں کے لیے تمہید کا کام دے جن کی نوبت ایک ہی سال بعد مدینے میں آنے والی تھی۔
امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ ہاں اگر تم پھر بھی وہی کرنے لگے تو ہم دوبارہ ایسا ہی کریں گے اور ہم نے منکروں کا قید خانہ جہنم بنا رکھا ہے ۔
یہ انھیں تنبیہ کی کہ اگر تم نے اصلاح کرلی تو اللہ کی رحمت کے مستحق ہو گے۔ جس کا مطلب دنیا وآخرت کی سرخ روئی اور کامیابی ہے اور اگر دوبارہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے تم نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا تو ہم پھر تمہیں اسی طرح ذلت و رسوائی سے دو چار کردیں گے۔ جیسے اس سے قبل دو مرتبہ ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرچکے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ یہود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور وہی کردار رسالت محمدیہ کے بارے میں دہرایا جو رسالت موسوی اور رسالت عیسوی میں ادا کرچکے تھے جس کے نتیجے میں یہ یہودی تیسری مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور بصد رسوائی انھیں مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔
یعنی اس دنیا کی رسوائی کے بعد آخرت میں جہنم کی سزا اور اس کا عذاب الگ ہے جو وہاں انھیں بھگتنا ہوگا۔
بے شک یہ قرآن اس راستے کی رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان ایمان والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے
’اَقْوَمُ‘ کا مفہوم: ’اَقْوَمُ‘ کے معنی سیدھا اور مستقیم یعنی وہ راستہ جو ٹھیک فطرت اور عقل کے مطابق اور خدا تک پہنچنے اور پہنچانے والا ہے۔
یہود اور مشرکین کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت: یہ بنی اسرائیل اور مشرکین قریش دونوں کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت ہے کہ اگر خدا تک پہنچنا چاہتے ہو تو کج پیچ کی وادیوں میں بھٹکنے کے بجائے اس راستہ کو اختیار کرو جس کی طرف قرآن بلا رہا ہے۔ یہ ان لوگوں کو اجر عظیم کی خوش خبری دیتا ہے جو اس پر ایمان لا کر عمل صالح کی زندگی اختیار کریں۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کے سبب سے اس قرآن کو بھی ٹھکرا رہے ہیں ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔
(لوگو)، حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ یہ ماننے والوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں، اِس بات کی بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے
یہ خطاب یہود اور مشرکین قریش، دونوں سے ہے۔ اوپر کی تمہید کے بعد اب اُنھیں قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ جو لو گ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
n/a
یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔
اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ہم نے ان کے لیے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
یہود اور مشرکین کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت: یہ بنی اسرائیل اور مشرکین قریش دونوں کو قرآن پر ایمان لانے کی دعوت ہے کہ اگر خدا تک پہنچنا چاہتے ہو تو کج پیچ کی وادیوں میں بھٹکنے کے بجائے اس راستہ کو اختیار کرو جس کی طرف قرآن بلا رہا ہے۔ یہ ان لوگوں کو اجر عظیم کی خوش خبری دیتا ہے جو اس پر ایمان لا کر عمل صالح کی زندگی اختیار کریں۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کے سبب سے اس قرآن کو بھی ٹھکرا رہے ہیں ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔
اور یہ بھی کہ جو آخرت کو نہیں مانتے، اُن کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
n/a
اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔
مدعا یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم اس قرآن کی تنبیہ و فہمائش سے راہ راست پر نہ آئے، اسے پھر اس سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی ہے۔
اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
امین احسن اصلاحی
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی ایک شب مسجد حرام سے اس دور والی مسجد تک جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت بخشی تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک سمیع و بصیر وہی ہے
’سُبْحٰنَ‘ تنزیہہ کا کلمہ ہے
’سُبْحٰنَ‘ جیسا کہ متعدد مواقع میں تصریح ہو چکی ہے، تنزیہہ کا کلمہ ہے۔ یعنی اللہ کی ذات ہر نقص عیب سے پاک و منزہ ہے۔ اس کلمہ سے کلام کا آغاز اس موقع پر کیا جاتا ہے جہاں مقصود خدا کے باب میں کسی سوء ظن یا غلط فہمی کو رفع کرنا ہو۔ یہاں واقعۂ معراج کی تمہید اس لفظ سے اس لیے اٹھائی ہے کہ یہ واقعہ بھی خدا کے باب میں یہود اور مشرکین کے ایک بہت بڑے سوء ظن کو رفع کرنے والا تھا۔ یہ دونوں ہی گروہ خدا کے دین کے دو سب سے بڑے مرکزوں پر قابض تھے اور ان کو انھوں نے، ان کے بنیادی مقصد کے بالکل خلاف، نہ صرف شرک و بت پرستی کا اڈا بلکہ، جیسا کہ سیدنا مسیحؑ نے فرمایا ہے کہ ’تم نے میرے باپ کے گھر کو چوروں کا بھٹ بنا ڈالا ہے‘ ان کو انھوں نے چوروں اور خائنوں کا بھٹ ہی بنا ڈالا تھا۔ یہ دونوں ہی مقدس گھر بالکل خائنوں اور بے ایمانوں کے تصرف میں تھے۔۱ اور یہ ان میں اس طرح اپنی من مانی کر رہے تھے گویا ان گھروں کا اصل مالک کانوں میں تیل ڈال کر اور آنکھوں پر پٹی باندھے سو رہا ہے اور اب کبھی وہ اس کی خبر لینے کے لیے بیدار ہی نہیں ہوگا۔ معراج کا واقعہ، جیسا کہ ہم نے پیچھے اشارہ کیا ہے، اس بات کی تمہید تھا، کہ اب ان گھروں کی امانت اس کے سپرد ہونے والی ہے جو ان کے اصلی مقصد تعمیر کو پورا کرے گا اس وجہ سے اس کے بیان کاآغاز ’سُبْحٰنَ‘ کے لفظ سے فرمایا اور آیت کے آخر میں اپنی صفات ’اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘ کا حوالہ دے کر یہ واضح فرما دیا کہ جو نادان خدا کو نعوذ باللہ اندھا اور بہرا سمجھے بیٹھے تھے اب وہ اپنے کان اور اپنی آنکھیں کھولیں۔ اب ان کی عدالت کا وقت آ گیا ہے۔ حقیقی سمیع و بصیر خدا ہی ہے اور اب وہ اپنے کامل علم و خبر کی روشنی میں لوگوں کا انصاف کرے گا۔
اسرای کے معنی
’اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا‘ کے معنی شب میں سفر کرنے کے ہیں اور جب ’ب‘ کے ذریعے سے یہ متعدی ہو جائے تو اس کے معنی شب میں کسی کو کہیں لے جانے کے ہیں۔ اگرچہ اس کے مفہوم میں شب میں نکلنے یا لے جانے کا مفہوم خود داخل ہے لیکن عام استعمال میں یہ لفظ کبھی کبھی اس مفہوم سے مجرد ہو جایا کرتا ہے اس وجہ سے ’’لَیْلًا‘‘ کی قید سے اس بات کو موکد کرنا مقصود ہے کہ یہ واقعہ شب ہی میں پیش آیا۔
’عبد‘ سے مراد آنحضرت صلعم
’بِعَبْدِہٖ‘ میں ’عبد‘ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس موقع پر حضورؐ کے لیے اس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور کے غایت درجہ اختصاص، آپؐ کے ساتھ اللہ کی غایت درجہ محبت اور آپ کے کمال درجہ عبدیت کی دلیل ہے۔ گویا آپؐ کی ذات کسی اور تعریف و تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ لفظ ’عبد‘ نے خود انگلی اٹھا کر ساری خدائی میں سے اس کو ممیز کر دیا جو اس لفظ کا حقیقی محمل و مصداق ہے۔
’مسجد الحرام‘ اور ’مسجد اقصیٰ‘ سے مراد
’مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ‘ مسجد حرام سے تو ظاہر ہے کہ خانۂ کعبہ مراد ہے۔ رہی دوسری مسجد تو اس کا تعارف دو صفتوں سے کرایا ہے۔ ایک ’اقصٰی‘ دوسری ’الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ‘۔ ’اَقْصٰی‘ کے معنی ہیں دور والی۔ یہ مسجد، حرم مکہ کے باشندوں سے، جو اس کلام کے مخاطب اول ہیں کم و بیش ۴۰ دن کی مسافت پر یروشلم میں تھی اس وجہ سے اس کو اقصیٰ کی صفت سے موصوف فرمایا تاکہ ذہن آسانی سے اس کی طرف منتقل ہو سکے۔ پھر ’الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ‘ کی صفت اس کے ساتھ لگا کر اس سرزمین کی طرف بھی اشارہ کر دیا جس میں یہ مسجد واقع ہے۔ یہ اس سرزمین کی روحانی اور مادی دونوں قسم کی زرخیزیوں کی طرف اشارہ ہے۔ قدیم صحیفوں میں اس سرزمین کو دودھ اور شہد کی سرزمین کہا گیا ہے۔ جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے۔ روحانی برکات کے اعتبار سے اس کا جو درجہ تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جتنے انبیاؑء کا مولد و مدفن ہونے کا شرف اس سرزمین کو حاصل ہوا؟ کسی دوسرے علاقے کو حاصل نہیں ہوا۔
معراج کے سفر کی غایت
’لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘ یہ اس سفر کی غایت بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے اسلوب بیان کی یہ بلاغت ملحوظ رہے کہ اوپر کی بات غائب کے صیغہ سے بیان ہوئی ہے جو تفخیم شان پر دلیل ہے اور یہاں صیغہ متکلم کا آ گیا ہے جو التفات خاص کو ظاہر کر رہا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے یہ سفر اس لے کرایا تاکہ اپنے بندے کو کچھ نشانیاں دکھائیں۔ یہ نشانیاں کیا تھیں اس کا کوئی ذکر یہاں نہیں ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد وہ آثار و مشاہد اور وہ انوار و برکات ہیں جن سے یہ دونوں ہی گھر معمور تھے۔ مقصود ان کے دکھانے سے ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی واضح ہو جائے کہ اب یہ ساری امانت ناقدروں اور بدعہدوں سے چھین کر آپ کے حوالے کی جانے والی ہے۔ گویا دعوت کے اس انتہائی مشکل دور میں آپ کو اللہ کی مدد و نصرت کی جو بشارت دی جا رہی تھی معراج کے اس سفر نے اس پر ایک مزید مہر تصدیق ثبت کر دی اور جو کچھ ہونے والا تھا وہ آپ کو دکھا بھی دیا گیا۔
نبی کی رویائے صادقہ
رہا یہ سوال کہ یہ جو کچھ آپ کو دکھایا گیا رویا میں دکھایا گیا یا بیداری میں تو اس سوال کا جواب اسی سورہ میں آگے قرآن نے خود دے دیا ہے۔ فرمایا ہے:
وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْ یَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ(۶۰)
’’اور ہم نے اس رویا کو جو ہم نے تمھیں دکھائی لوگوں کے لیے فتنہ ہی بنا دی۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہاں جس رویا کی طرف اشارہ ہے اس سے اس رویا کے سوا کوئی اور رویا مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کا ذکر آیت زیر بحث میں ’لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ لفظ ’اراء ت‘ قرآن میں متعدد مقامات میں، رویا میں دکھانے کے لیے آیا بھی ہے اور مفسرین نے اس سے یہی رویا مراد بھی لی ہے۔ اس وجہ سے اس کا رویا ہونا تو اپنی جگہ پر واضح بھی ہے اور مسلم بھی لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ’رویا‘ کو خواب کے معنی میں لینا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ خواب تو خواب پریشان بھی ہوتے ہیں لیکن حضرات ابنیاء علیہم السلام کو جو رویا دکھائی جاتی ہے وہ ریائے صادقہ ہوتی ہے۔ اس کے متعدد امتیازی پہلو ہیں جو ذہن مین رکھنے کے ہیں۔
رویائے صادقہ کے امتیازی پہلو
پہلی چیز تو یہ ہے کہ رویائے صادقہ وحی الٰہی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر جس طرح فرشتے کے ذریعے سے کلام کی صورت میں اپنی وحی نازل فرماتا ہے اسی طرح کبھی رویا کی صورت میں بھی ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ یہ رویا نہایت واضح، غیرمبہم اور روشن صورت میں ’کَفَلْقِ الصُّبْح‘ ہوتی ہے جس پر نبی کو پورا شرح صدر اور اطمینان قلب ہوتا ہے۔ اگر اس میں کوئی چیز تمثیلی رنگ میں بھی ہوتی ہے تو اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر خود واضح فرما دیتا ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ جہاں واقعات و حقائق کا مشاہدہ کرانا مقصود ہو وہاں یہی ذریعہ نبی کے لیے زیادہ اطمینان بخش ہوتا ہے اس لیے کہ اس طرح واقعات کی پوری تفصیل مشاہدہ میں آ جاتی ہے اور وہ معانی و حقائق بھی ممثل ہو کر سامنے آ جاتے ہیں جو الفاظ کی گرفت میں مشکل ہی سے آتے ہیں۔
چوتھی چیز یہ ہے کہ رویا کا مشاہدہ چشم سر کے مشاہدہ سے زیادہ قطعی، زیادہ وسیع اور اس سے ہزارہا درجہ عمیق اور دور رس ہوتا ہے۔ آنکھ کو مغالطہ پیش آ سکتا ہے لیکن رویائے صادقہ مغالطہ سے پاک ہوتی ہے، آنکھ ایک محدود دائرہ ہی میں دیکھ سکتی ہے لیکن رویا بیک وقت نہایت وسیع دائرہ پر محیط ہو جاتی ہے، آنکھ حقائق و معانی کے مشاہدے سے قاصر ہے، اس کی رسائی مرئیات ہی تک محدود ہے۔ لیکن رویا معانی و حقائق اور انوار و تجلیات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے تجلی الٰہی اپنی آنکھوں سے دیکھنی چاہی لیکن وہ اس کی تاب نہ لا سکے۔ برعکس اس کے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں جو مشاہدے کرائے گئے وہ سب آپؐ نے کیے اور کہیں بھی آپ کی نگاہیں خیرہ نہیں ہوئیں۔
’اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘ کا موقع و محل اوپر واضح کیا جا چکا ہے۔ اس کے اندر حصر کا پہلو ہے۔ وہ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ حقیقی سمیع و بصیر خدا ہی ہے۔ اس کے سمع و بصر سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے۔ اگر دوسروں کو اس میں سے کوئی حصہ ملا ہے تو وہ خدا ہی کا عطا کردہ اور نہایت محدود ہے۔ مقصود ان صفات کا حوالہ دینے سے، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، مشرکین قریش اور بنی اسرائیل دونوں کو متنبہ کرنا ہے کہ خدا کو اپنی کرتوتوں سے بے خبر نہ سمجھو، وہ ہر چیز کو دیکھ اور سن رہا ہے۔
_____
۱ مسجد اقصیٰ کی حالت کا اندازہ کرنے کے لیے تو حضرت مسیحؑ کے الفاظ ہی کافی ہیں۔ اگر حرمِ ابراہیمی کی حالت کا اندازہ کرنا ہو تو فراہیؒ کی تفسیر سورۂ لہب پر ایک نظر ڈال لیجیے کہ ابو لہب نے اس میں کیا اودھم مچا رکھی تھی۔