یہ سورۂ ’حٰمٓ‘ ہے۔
پچھلی سورتوں کی طرح اِس سورہ کا نام بھی ’حٰمٓ‘ ہے۔ یہ اشتراک مطالب پر دلیل ہے اور قرآن کا ہر طالب علم اِسے تمام حوامیم میں بالکل نمایاں دیکھ سکتا ہے۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر دیا ہے۔
ح۔ م۔
n/a
حم
n/a
اس کتاب کی تنزیل خدائے عزیز و حکیم کی طرف سے ہے
سورہ کی تمہید: ’تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ ..... الاٰیۃ‘ سابق سورہ کی طرح اس سورہ کی تمہید میں بھی قرآن کی عظمت و اہمیت کا حوالہ ہے البتہ اس میں اہمیت کے بیان کا پہلو سابق سورہ سے مختلف ہے۔ لفظ ’تَنْزِیْلُ‘ پر ہم اس کے محل میں بحث کر کے بتا چکے ہیں کہ اس کے اندر تدریج و اہتمام کا مفہوم پایا جاتا ہے اور قرآن کے اتارے جانے کے معاملے میں اللہ نے جو اہتمام خاص ملحوظ رکھا ہے اس کی وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہو چکی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس اہتمام خاص کے ذکر کے ساتھ ساتھ اپنی دو صفتوں ۔۔۔ عزیز اور حکیم ۔۔۔ کا حوالہ دیا ہے۔ ’عزیز‘ کے معنی غالب و مقتدر کے ہیں اور ’حکیم‘ اس کو کہتے ہیں جس کے ہر قول و فعل میں حکمت ہو۔ ان دونوں صفتوں کے اجتماع سے یہاں دو باتیں واضح ہوئیں۔
صفات ’عزیز‘ و ’حکیم‘ کے مقتضیات: ایک یہ کہ جس خدا نے یہ کلام اس اہتمام کے ساتھ اتارا ہے وہ کوئی ضعیف و ناتواں اور عاجز و بے بس ہستی نہیں ہے بلکہ تمام کائنات کا اختیار و اقتدار اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں بلکہ تمام کائنات کے ملک حقیقی کا فرمان واجب الاذعان ہے اگر اس کا کما حقہٗ احترام نہ کیا گیا تو لوگ یاد رکھیں کہ جب وہ لوگوں کو پکڑے گا تو کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہ بن سکے گا۔
دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ عزیز اور غالب و مقتدر ہونے کے ساتھ ساتھ ’حکیم‘ بھی ہے۔ اس وجہ سے اس کا ہر قول و فعل حکمت پر مبنی ہے۔ اس کی حکمت کی شان اس کے اس حکیمانہ کلام سے واضح ہے بشرطیکہ لوگ اس پر غور کریں۔ اس کی حکمت ہی کی ایک شان یہ بھی ہے کہ اگرچہ ناقدرے اور ناشکرے اس کے کلام اور اس کے رسول کی توہین کر رہے ہیں لیکن وہ غالب و مقتدر ہونے کے باوجود ان کے پکڑنے میں جلدی نہیں کر رہا ہے بلکہ ان کو مہلت پر مہلت دیے جا رہا ہے تاکہ جن کے اندر کچھ صلاحیت ہے وہ اپنی اصلاح کر کے اپنے آپ کو اللہ کی رحمت کا مستحق بنا لیں اور جو اپنی صلاحیتیں برباد کر چکے ہیں ان پر اللہ کی حجت پوری ہو جائے۔ حساب کے دن وہ کوئی عذر نہ کر سکیں۔
اِس کتاب کی تنزیل اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔
یہ تہدید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس نے یہ کلام اتارا ہے، وہ کوئی ضعیف و ناتواں ہستی نہیں ہے، بلکہ اِس کائنات کا بادشاہ ہے اور اِس کا تمام اختیار و اقتدار اُسی کے قبضے میں ہے۔ یہ اُس کا فرمان واجب الاذعان ہے۔ اِس لیے جو لوگ اِس کی ناقدری کریں گے، وہ سوچ لیں کہ اپنے لیے کس انجام کو دعوت دے رہے ہیں۔
یہ تسلی ہے کہ اگر ناقدری کرنے والوں کو مہلت مل رہی ہے تو اِس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صرف زبردست ہی نہیں ہے، اِس کے ساتھ بڑی حکمت والا بھی ہے۔ چنانچہ اِسی بنا پر منکرین اور مکذبین کو بھی مہلت پر مہلت دیے چلا جاتا ہے۔ اِس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ جن کے اندر اصلاح کی کچھ صلاحیت ہے، وہ اِس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اپنی اصلاح کر لیں اور جو ہٹ دھرم ہیں، اُن پر اُس کی حجت ہر لحاظ سے پوری ہو جائے تاکہ قیامت کے دن وہ کوئی عذر نہ پیش کر سکیں۔
اِس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے۔
یہ اس سورے کی مختصر تمہید ہے جس میں سامعین کو دو باتوں سے خبردار کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ کتاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہو رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے وہ خدا نازل کر رہا ہے جو زبردست بھی ہے اور حکیم بھی۔ اس کا زبردست ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان اس کے فرمان سے سرتابی کی جرأت نہ کرے، کیونکہ نافرمانی کر کے وہ اس کی سزا سے کسی طرح بچ نہیں سکتا۔ اور اس کا حکیم ہونا اس کا متقاضی ہے کہ انسان پورے اطمینان کے ساتھ برضا و رغبت اس کی ہدایات اور اس کے احکام کی پیروی کرے، کیونکہ اس کی کسی تعلیم کے غلط یا نامناسب یا نقصان دہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
یہ کتاب اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے۔
n/a
آسمانوں اور زمین میں ایمان لانے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں
قرآن کی دعوت کے حق میں آفاق کے دلائل: یہ قرآن کی دعوت توحید اور اس کے انذار قیامت کے حق میں آفاق کے دلائل کی طرف اشارہ ہے تاکہ اس کا حکیمانہ کلام ہونا واضح ہو۔ فرمایا کہ قرآن لوگوں کو جس چیز کی طرف بلا رہا ہے اور جس چیز سے ڈرا رہا ہے اس کی نشانیاں آسمانوں اور زمین کے چپہ چپہ میں موجود ہیں لیکن یہ نشانیاں کارآمد ان لوگوں کے لیے ہیں جو ایمان لانے والے ہوں۔ جو لوگ ایمان لانے والے نہ ہوں وہ سب کچھ دیکھ کر بھی اندھے ہی بنے رہتے ہیں اور روز نئی نئی نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور اگر ان کی طلب کے مطابق کوئی نئی نشانی دکھا بھی دی جائے تو اس سے بھی وہ قائل نہیں ہوتے بلکہ کسی دوسری نشانی کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں۔ اصل چیز انسان کا ارادہ ہے۔ اگر اس کے اندر حقیقت کی جستجو اور منزل کی طلب ہو تو خالق کائنات نے منزل مقصود کی نشان دہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ آسمانوں میں بھی جگہ جگہ سگنل اشارے دے رہے ہیں اور زمین بھی قدم قدم پر رستہ دکھا رہی ہے لیکن جو لوگ اپنی خواہشوں ہی کے پیچھے بھٹکنا چاہتے ہیں ان کو نہ آسمان کے سگنل نظر آتے اور نہ زمین کے نشانات۔ وہ ہمیشہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں اور اسی آوارہ گردی میں ان کی زندگیاں گزر جاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔
n/a
حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے۔
تمہید کے بعد اصل تقریر کا آغاز اس طرح کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پس منظر میں اہل مکہ کے وہ اعتراضات ہیں جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش کردہ تعلیم پر کر رہے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آخر محض ایک شخص کے کہنے سے ہم اتنی بڑی بات کیسے مان لیں کہ جن بزرگ ہستیوں کے آستانوں سے آج تک ہماری عقیدتیں وابستہ رہی ہیں وہ سب ہیچ ہیں اور خدائی بس ایک خدا کی ہے۔ اس پر فرمایا جارہا ہے کہ جس حقیقت کو ماننے کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے اس کی سچائی کے نشانات سے تو سارا عالم بھرا پڑا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ تمہارے اندر اور تمہارے باہر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ساری کائنات ایک خدا اور ایک ہی خدا کی تخلیق ہے اور وہی اکیلا اس کا مالک، حاکم اور مدبر ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ آسمان و زمین میں نشانیاں کس چیز کی ہیں۔ اس لیے کہ سارا جھگڑا ہی اس وقت اس بات پر چل رہا تھا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں اور معبودوں کو بھی ماننے پر اصرار کر رہے تھے، اور قرآن کی دعوت یہ تھی کہ ایک خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے نہ معبود۔ لہٰذا بےک ہے یہ بات آپ ہی آپ موقع و محل سے ظاہر ہو رہی تھی کہ نشانیوں سے مراد توحید کی صداقت اور شرک کے بطلان کی نشانیاں ہیں۔
پھر یہ جو فرمایا کہ ” یہ نشانیاں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں ” اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بجائے خود تو یہ نشانیاں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں، لیکن انہیں دیکھ کر صحیح نتیجے پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو ایمان لانے کے لیے تیار ہوں غفلت میں پڑے ہوئے لوگ، جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں، اور ہٹ دھرم لوگ، جو نہ ماننے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں، ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے۔ چمن کی رونق اور اس کا حسن و جمال تو آنکھوں والے کے لیے ہے۔ اندھا کسی رونق اور کسی حسن و جمال کا ادراک نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے چمن کا وجود ہی بےمعنی ہے۔
آسمانوں اور زمین میں ایمان داروں کے لئے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔
n/a
اور اسی طرح خود تمہاری خِلقت اور حیوانات کے اندر بھی، جو اس نے زمین میں پھیلا رکھے ہیں، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو یقین کرنا چاہیں
انسان کی خلقت کے اندر جو نشانیاں ہیں ان کی طرف اشارہ: آسمانوں اور زمین کی نشانیوں کی طرف ایک جامع اشارہ کرنے کے بعد خود انسان کی خلقت اور اس کی پرورش کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں جو اہتمام فرمایا ہے اس کی طرف توجہ دلائی کہ انسان اگر اپنی ہی خلقت کے تمام اطوار و مراحل پر غور کرے تو اس پر خالق کی قدرت، حکمت اور ربوبیت کے وہ حقائق واضح ہوں گے کہ اس کے لیے نہ خالق کی توحید میں کسی شبہ کی گنجائش باقی رہے گی نہ وہ امکان معاد میں اور نہ جزا و سزا کے لازمی ہونے میں۔ جس خالق نے انسان کو مٹی سے اور پھر پانی کی ایک بوند سے ایسی اعلیٰ صورت بخش دی اس کے لیے اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیوں مشکل ہو جائے گا؟ جس پروردگار نے انسان کی پیدائش کے بالکل ابتدائی مرحلہ سے لے کر اس کے آخری مرحلہ تک پرورش کا یہ انتظام فرمایا آخر وہ اس کو بالکل غیر مسؤل کس طرح چھوڑ دے گا۔ جو انسان اتنی اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ وجود میں آتا ہے آخر اس کی صلاحیتوں کے باب میں اس سے پرسش کیوں نہیں ہو گی؟ پھر یہ کہ جس انسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے تمام اضداد اور تمام اجزائے مختلفہ کو سازگار بنایا آخر اس کی کیا شامت آئی ہوئی ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی دوسری چیز کو شریک کرے؟
سامان پرورش کی نشانیوں کی طرف اشارہ: ’وَمَا یَبُثُّ مِنۡ دَآبَّۃٍ‘ میں اشارہ اس سامان ربوبیت کی طرف ہے جو اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کی شکل میں انسان کے لیے مہیا فرمایا ہے۔ اگر انسان غور کرے تو اس امر میں ذرا شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان چوپایوں سے جو گوناگوں فوائد حاصل کر رہا ہے یہ اس کو محض اتفاقی واقعہ کے طور پر نہیں حاصل ہو رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہی فوائد کے لیے ان چیزوں کو وجود بخشا اور ہر اعتبار سے ان کو ان کے فوائد کے لیے موزوں بنایا ہے۔ انسان کو سواری اور باربرداری کا محتاج بنایا تو سواری اور باربرداری کے لیے نہایت موزوں جانور پیدا کیے، اس کو دودھ اور گوشت اور کھال اور اون کا ضرورت مند بنایا تو ان تمام ضروریات کے لیے الگ الگ نہایت مناسب چوپائے عطا کیے۔ یہ چیز اس بات کی صاف دلیل ہے کہ اس کائنات کا خالق نہایت مہربان ہے اور اس کی شکرگزاری واجب ہے۔ پھر اس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ جب اس نے انسان کو اس اہتمام کے ساتھ اپنی نعمتوں سے نوازا ہے تو لازم ہے کہ ایک ایسا دن بھی آئے جس دن وہ ان نعمتوں کے متعلق لوگوں سے سوال کرے، جنھوں نے ان کا حق پہچانا ہو ان کو انعام دے اور جو ان کو پا کر خدا کو بھول بیٹھے ہوں ان کو اس کفران نعمت کی سزا دے۔
ایمان لانے کے لیے اصلی چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر ایمان کا ارادہ پایا جاتا ہو: ’لِّقَوْمٍ یُوۡقِنُوۡنَ‘ میں فعل ’یُوۡقِنُوۡنَ‘ ارادۂ فعل کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی مذکورہ چیزوں کے اندر توحید و معاد اور جزا و سزا کی دلیلیں تو بے شمار ہیں لیکن مجرد دلیلوں کا وجود اس کے لیے نافع نہیں ہے جس کے اندر دلیلوں کو قبول کرنے کا ارادہ پایا جاتا ہو۔ جو شخص کسی بات کا یقین نہیں کرنا چاہتا وہ بدیہی سے بدیہی حقیقت کے خلاف بھی کچھ نہ کچھ شکوک ایجاد کر ہی لیتا ہے۔
اُن کے لیے جو ایمان لانے والے ہوں۔ اور خود تمھاری خلقت میں اور اُن حیوانات میں بھی جو اُس نے (تمھارے لیے) پھیلا رکھے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر حقیقت کی جستجو اور منزل کی سچی طلب ہو تو خالق کائنات نے زمین و آسمان میں ہر جگہ ایسے معالم رکھ دیے ہیں کہ اُن کو دیکھ کر وہ سیدھا وہاں پہنچ سکتا ہے، جہاں یہ قرآن پہنچنے کی دعوت دے رہا ہے۔
یعنی انسان اگر اِسی بات پر غور کرے کہ کس طرح پانی کی ایک بوند اُس کے جسم کے کارخانے میں اُنھی بے جان چیزوں سے پیدا ہو جاتی ہے جو وہ شب و روز کھاتا اور پیتا ہے، اور پھر اُسی بوند سے درجہ بدرجہ ترقی کرکے ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آتی ہے جو اعلیٰ سائنس کا بے نظیر شاہ کار ہے تو اُسے نہ خدا کی معرفت کے معاملے میں کوئی شبہ پیش آسکتا ہے اور نہ اُس کے حضور میں جواب دہی کے معاملے میں کوئی تردد لاحق ہو سکتا ہے۔
یہ اُس سامان ربوبیت کی طرف اشارہ ہے جو زمین پر انسان کے لیے مہیا کیا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اگر انسان غور کرے تو اِس امر میں ذرا شبہے کی گنجایش نہیں ہے کہ انسان چوپایوں سے جو گوناگوں فوائد حاصل کر رہا ہے، یہ اِس کو محض اتفاقی واقعے کے طور پر نہیں حاصل ہو رہے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اِنھی فوائد کے لیے اِن چیزوں کو وجود بخشا اور ہر اعتبار سے اِن کو اِن کے فوائد کے لیے موزوں بنایا ہے۔ انسان کو سواری اور باربرداری کا محتاج بنایا تو سواری اور باربرداری کے لیے نہایت موزوں جانور پیدا کیے، اُس کو دودھ اور گوشت اور کھال اور اون کا ضرورت مند بنایا تو اِن تمام ضروریات کے لیے الگ الگ نہایت مناسب چوپایے عطا کیے۔ یہ چیز اِس بات کی صاف دلیل ہے کہ اِس کائنات کا خالق نہایت مہربان ہے اور اُس کی شکرگزاری واجب ہے۔ پھر اِس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ جب اُس نے انسان کو اِس اہتمام کے ساتھ اپنی نعمتوں سے نوازا ہے تو لازم ہے کہ ایک ایسا دن بھی آئے جس دن وہ اِن نعمتوں کے متعلق لوگوں سے سوال کرے، جنھوں نے اِن کا حق پہچانا ہو، اُن کو انعام دے اور جو اِن کو پا کر خدا کو بھول بیٹھے ہوں، اُن کو اِس کفران نعمت کی سزا دے۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۳۰۳)
اور تمہاری اپنی پیدائش میں، اور اُن حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں) پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں۔
یعنی جو لوگ انکار کا فیصلہ کرچکے ہیں، یا جنہوں نے شک ہی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنا اپنے لیے پسند کرلیا ہے ان کا معاملہ تو دوسرا ہے، مگر جن لوگوں کے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں ہوئے ہیں وہ جب اپنی پیدائش پر، اور اپنے وجود کی ساخت پر، اور زمین میں پھیلے ہوئے انواع و اقسام کے حیوانات پر غور کی نگاہ ڈالیں گے تو انہیں بیشمار علامات ایسی نظر آئیں گی جنہیں دیکھ کر یہ شبہ کرنے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے گی کہ شاید یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر بن گیا ہو، یا شاید اس کے بنانے میں ایک سے زیادہ خداؤں کا دخل ہو۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول، النحل، حواشی ٧ تا ٩، جلد سوم، الحج، حواشی ٥ تا ٩، المومنون، حواشی ١٢۔ ١٣، الفرقان، حاشیہ ٦٩، الشعراء، حواشی ٥٧، ٥٨، النمل، حاشیہ ٨٠، الروم، حواشی ٢٥ تا ٣٢، ٧٩۔ جلد چہارم، السجدہ، حواشی 14 تا 18 ۔ یٰس، آیات 71 تا 73 ۔ الزمر، آیت 6 ۔ المومن، حواشی 97 ۔ 98 ۔ 110) ۔
اور خود تمہاری پیدائش میں اور ان جانوروں کی پیدائش میں جنہیں وہ پھیلاتا ہے یقین رکھنے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔
n/a
اور رات اور دن کی آمد و شد میں اور اس ذریعۂ رزق میں جو اللہ آسمان سے اتارتا ہے، پھر اس سے زمین کو زندہ کر دیتا ہے اس کے مر جانے کے بعد، اور ہواؤں کی گردش میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھیں
’اِخْتِلَافِ‘ کے معنی یہاں یکے بعد دیگرے رات اور دن کی آمد و شد کے ہیں۔ ساتھ ہی یہ لفظ اس اختلاف مزاج کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ کر رہا ہے جو رات اور دن کے اندر پایا جاتا ہے اور جو اس کائنات کی نشوونما اور اس کی بہبود و بقا کے لیے ضروری ہے۔ ’مِنْ رِّزْقٍ‘ سے مراد یہاں پانی ہے جو ذریعۂ رزق بنتا ہے۔ گویا مسبب سبب کے لیے استعمال ہوا ہے۔ الفاظ کا یہ طریقۂ استعمال عربی بلکہ کم و بیش ہر زبان میں معروف ہے۔
رات اور دن کی آمد و شد کے اشارات: اختلاف لیل و نہار کی دلیل قرآن میں جگہ جگہ مذکور ہوئی ہے کہ باوجودیکہ ان دونوں کے اندر نسبت ضدین کی ہے، ایک خشک ہے دوسرا گرم، ایک پرسکون ہے دوسرا پرشور، ایک تاریک ہے دوسرا روشن، تاہم ان کے اندر انسان کی پرورش کے لیے زوجین کی سی سازگاری اور موافقت پائی جاتی ہے۔ یہ اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ دونوں ایک ہی خدا کے بنائے ہوئے اور اسی کے حکم سے برابر، پوری پابندئ وقت کے ساتھ، اپنے مفوضہ فرائض کی بجا آوری میں سرگرم ہیں۔ اگر یہ الگ الگ خداؤں کی ایجاد ہوتے تو ان کے اندر جو سازگاری پائی جاتی ہے اس کا وجود میں آنا ناممکن تھا اور اگر یہ سازگاری وجود میں نہ آتی تو اس کرۂ زمین کے باشندوں کے لیے زندگی ناممکن ہو جاتی۔
بارش کی نشانیاں: یہی حال بارش کا ہے کہ وہ ہوتی تو آسمان سے ہے لیکن زندگی زمین اور اہل زمین کو بخشتی ہے۔ یہ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ آسمانوں اور زمین کے اندر ایک ہی ارادہ کارفرما ہے۔ اگر آسمان کے دیوتا الگ اور زمین کے دیوتا الگ ہوتے تو آسمان کو کیا پڑی تھی کہ وہ زمین والوں کے لیے غذا کا ذخیرہ اتارتے! پھر یہ بات بھی ہر موسم میں، ہر خاص وعام کے مشاہدہ میں آتی ہے کہ زمین بالکل خشک اور بے آب و گیاہ ہوتی ہے، اس کے کسی گوشے میں بھی زندگی کی کوئی نشانی دکھائی نہیں دیتی کہ بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی دیکھتے دیکھتے زمین کا ہر گوشہ لہلہا اٹھتا ہے۔ تو جس خدا کی یہ شانیں ہر موسم میں ہم دیکھتے ہیں اگر وہ اس دنیا کے مرکھپ جانے کے بعد اس کو دوبارہ زندہ کرنا چاہے تو کیا یہ کام اس کے لیے مشکل ہو جائے گا؟
ہواؤں کی گردش کی نشانیاں: ’وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ‘۔ یعنی ہواؤں کی گردش میں بھی خدا کی قدرت، رحمت، ربوبیت اور اس کی نقمت کی نشانیاں موجود ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی مُصَرِّف کے ہاتھ میں ان کی باگ ہے اور وہی اپنی حکمتوں کے تحت ان کو استعمال کرتا ہے۔ اگر وہ ان کو روک دے تو چشم زدن میں ساری دنیا تباہ ہو جائے۔ وہ چاہے تو ایک قوم کے لیے اس کو رحمت بنا دے اور دوسری قوم کے لیے نقمت۔ اسی ہوا کی گردش سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات بخشی اور اسی کی گردش سے فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا۔ آئے دن یہ بات مشاہدہ میں آتی رہتی ہے کہ کسان اپنی فصل کے مستقبل سے نہایت مطمئن ہوتے ہیں لیکن دفعۃً کوئی ایسی ہوا چل جاتی ہے کہ مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ ملاح اپنی کشتیوں کے بادبان کھولے ہوئے اور کسان اپنی گندم صاف کرنے کے آلات لیے ہوئے سازگار ہوا کے انتظار میں چشم براہ ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں کہ سازگار ہوا چلا دے۔ اس زمانے میں سائنس کی بدولت اگرچہ انسان کے اندر یہ زعم پیدا ہو گیا ہے کہ اس نے ابر و ہوا کو بہت حد تک اپنے قابو میں کر لیا ہے لیکن قدرت ذرا سا جھنجھوڑ دیتی ہے تو اس ادعا کا سارا بھرم کھل جاتا ہے۔ یہ باتیں اس بات کی صاف شہادت ہیں کہ ایک ہی ذات ہے جو اس کائنات کے تمام عناصر پر حکمران ہے۔ اس کے اذن کے بغیر ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔
’اٰیٰتٌ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُوۡنَ‘۔ یعنی نشانیاں تو قدم قدم پر توحید اور معاد کی موجود ہیں لیکن یہ نشانیاں نظر ان لوگوں کو آتی ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔ جو لوگ اپنی عقل سے کام نہیں لیتے یا کام لیتے ہیں تو بس اسی حد تک جس حد تک وہ ان کی مادی ضروریات کی تکمیل میں ان کا ہاتھ بٹا سکے، وہ لوگ ان نشانیوں کے اصلی جمال کے مشاہدہ سے محروم ہی رہتے ہیں۔
یہاں قرآن نے ان نشانیوں کی طرف اجمالی اشارات کیے ہیں اس وجہ سے ہم بھی اجمالی اشارات ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ پچھلی سورتوں میں یہ باتیں تفصیل سے گزر چکی ہیں اور ہم بھی ان کی وضاحت پوری تفصیل سے کر چکے ہیں۔
نشانیاں ان کے لیے کارآمد ہیں جو ان سے فائدہ اٹھائیں: اوپر کی تینوں آیات سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ اہل ایمان کے لیے تو اس کائنات کا گوشہ گوشہ توحید و معاد کی نشانیوں سے معمور ہے۔ رہے دوسرے تو ان سے بھی یہ نشانیاں مخفی نہیں ہیں بشرطیکہ ان کے اندر ماننے اور یقین کرنے کا حوصلہ اور اپنی عقل سے صحیح کام لینے کا دم داعیہ ہو۔ جو لوگ ایک حقیقت کو، خواہ وہ کتنی ہی واضح ہو، ماننا ہی نہیں چاہتے یا اپنی عقل سے وہ اصل کام لیتے ہی نہیں جس کے لیے وہ فی الحقیقت خلق ہوئی ہے، ایسے لوگوں کے اندھے پن کا کوئی علاج نہیں ہے۔
اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو یقین کرنا چاہیں۔ اور شب و روز کے بدل کر آنے میں اور اُس روزی میں جو اللہ نے (پانی کی صورت میں)آسمان سے اتاری، پھر اُس سے زمین کو اُس کے مر جانے کے بعد زندہ کر دیا اور ہواؤں کے پھیرنے میں بھی اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں۔
یہ بھی خدا کی قدرت و حکمت کی ایک بڑی نشانی ہے۔ ہماری زمین پر زندگی کی ساری لطافت اور سارا حسن رات اور دن کی باہمی سازگاری اور موافقت سے ہے۔ یہ اگرچہ ضدین ہیں، لیکن اپنی اِس سازگاری اور موافقت سے شہادت دے رہے ہیں کہ دونوں ایک ہی خدا کے بنائے ہوئے ہیں جس نے اِنھیں ہماری خدمت میں لگا دیا ہے اور یہ پوری پابندی اوقات کے ساتھ اُس کے حکم سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔
اصل میں ’رِزْق‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد ،جیسا کہ اوپر بیان ہوا،یہاں پانی ہے جو ذریعۂ رزق بنتا ہے۔ یہ سبب کے لیے مسبب کا استعمال ہے جو دنیا کی ہر زبان میں معروف ہے۔
توحید اور قیامت پر استدلال کے لیے قرآن نے جگہ جگہ اِس نشانی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ بارش اگرچہ آسمان سے ہوتی ہے، لیکن وہ رزق کے خزانے زمین والوں کے لیے لے کر آتی ہے۔ یہ اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ زمین اور آسمان ، دونوں میں ایک ہی ارادہ کارفرما ہے۔ پھر یہی نہیں، خشک اور بے آب و گیاہ زمین کو وہ جس طرح زندہ کر دیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس کا ہر گوشہ سبزے سے لہلہا اٹھتا ہے، اُس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اُس کا برسانے والا اگر یہ کہتا ہے کہ ایک دن وہ پورے عالم پر بھی اِسی طرح اپنی رحمت کی بارش برسائے گا اور زمین میں مدفون ہمارے سب آباو اجدادکو اپنے سامنے اٹھا کھڑا کرے گا تو اِس پر بھی تعجب نہ ہونا چاہیے۔ اُس کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
یعنی جس طرح وہ گردش کرتی ، کبھی رکتی، کبھی چلتی اور کبھی صر صر اور کبھی صبا بن جاتی ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...(اِس سے) صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی مصرف کے ہاتھ میں اِن کی باگ ہے اور وہی اپنی حکمتوں کے تحت اِن کو استعمال کرتا ہے۔ اگر وہ اِن کو روک دے تو چشم زدن میں ساری دنیا تباہ ہو جائے۔ وہ چاہے تو ایک قوم کے لیے اِس کو رحمت بنا دے اور دوسری قوم کے لیے نقمت۔ اِسی ہوا کی گردش سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات بخشی اور اِسی کی گردش سے فرعون اور اُس کی قوم کو ہلاک کیا۔ آئے دن یہ بات مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ کسان اپنی فصل کے مستقبل سے نہایت مطمئن ہوتے ہیں، لیکن دفعتاً کوئی ایسی ہوا چل جاتی ہے کہ مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ ملاح اپنی کشتیوں کے بادبان کھولے ہوئے اور کسان اپنی گندم صاف کرنے کے آلات لیے ہوئے سازگار ہوا کے انتظار میں چشم براہ ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں کہ سازگار ہوا چلا دے۔ اِس زمانے میں سائنس کی بدولت اگرچہ انسان کے اندر یہ زعم پیدا ہو گیا ہے کہ اُس نے ابرو ہوا کو بہت بڑی حد تک اپنے قابو میں کر لیا ہے، لیکن قدرت ذرا سا جھنجھوڑ دیتی ہے تو اِس ادعا کا سارا بھرم کھل جاتا ہے۔ یہ باتیں اِس بات کی صاف شہادت ہیں کہ ایک ہی ذات ہے جو اِس کائنات کے تمام عناصر پر حکمران ہے۔ اُس کے اذن کے بغیر ایک پتا بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۳۰۵)
اِس سے پہلے فرمایا کہ جو ایمان لانے والے ہوں، جو یقین کرنا چاہیں۔ مدعا یہ ہے کہ قرآن جن حقائق پر ایمان کی دعوت دے رہا ہے، اُن کی نشانیاں تو قدم قدم پر موجود ہیں، مگر یہ نظر اُنھی کو آتی ہیں جن کے اندر اِن کو دیکھنے اور قبول کرنے کا ارادہ پایا جاتا ہو، جو ماننے کے لیے تیار ہوں، بے یقینی کے مرض میں مبتلا نہ ہو گئے ہوں اور جو عقل سے کام لیں۔ جن کے اندر یہ صفات نہ ہوں، اُنھیں کوئی بڑی سے بڑی نشانی بھی اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔
اور شب و روز کے فرق و اختلاف میں، اور اُس رزق میں جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جِلا اٹھاتا ہے، اور ہواؤں کی گردش میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
رات اور دن کا یہ فرق و اختلاف اس اعتبار سے بھی نشانی ہے کہ دونوں پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک روشن ہے اور دوسرا تاریک، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک مدت تک بڑی تدریج دن بڑا اور رات چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہے، پھر ایک وقت جا کر دونوں برابر ہوجاتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کے فرق و اختلاف جو رات اور دن میں پائے جاتے ہیں اور ان سے جو عظیم حکمتیں وابستہ ہیں، وہ اس بات کی صریح علامت ہیں کہ سورج اور زمین اور موجودات زمین کا خالق ایک ہی ہے، اور ان دونوں کروں کو ایک ہی زبردست اقتدار نے قابو میں رکھا ہے، اور وہ کوئی اندھا بہرا بےحکمت اقتدار نہیں ہے بلکہ ایسا حکیمانہ اقتدار ہے جس نے یہ اٹل حساب قائم کر کے اپنی زمین کو زندگی کی ان بیشمار انواع کے لیے موزوں جگہ بنا دیا ہے جو نباتات، حیوانات اور انسان کی شکل میں اس نے یہاں پیدا کی ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، یونس، حاشیہ ٦٥، جلد سوم، النمل، حاشیہ ١٠٤، القصص، حاشیہ ٩٢۔ جلد چہارم، لقمان، آیت 29، حاشیہ 50 ۔ یٰس، آیت 37، حاشیہ 32)
رزق سے مراد یہاں بارش ہے، جیسا کہ بعد کے فقرے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے۔
تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، المومنون، حاشیہ ١٧، الفرقان، حواشی ٦٢ تا ٦٥، الشعراء، حاشیہ ٥، النمل، حواشی ٧٣۔ ٧٤، الروم، حواشی ٣٥۔ ٧٣۔ جلد چہارم، یٰس حواشی 26 تا 31 ۔
ہواؤں کی گردش سے مراد مختلف اوقات میں زمین کے مختلف حصوں پر اور مختلف بلندیوں پر مختلف ہوائیں چلنا ہے جن سے موسموں کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ دیکھنے کی چیز صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین کے اوپر ایک وسیع کرہ ہوائی پایا جاتا ہے جس کے اندر وہ تمام عناصر موجود ہیں جو زندہ مخلوقات کو سانس لینے کے لیے درکار ہیں، اور ہوا کے اسی لحاف نے زمین کی آبادی کو بہت سی آفات سماوی سے بچا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ یہ ہوا محض بالائی فضا میں بھر کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے چلتی رہتی ہے۔ کبھی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اور کبھی گرم۔ کبھی بند ہوجاتی ہے اور کبھی چلنے لگتی ہے۔ کبھی ہلکی چلتی ہے تو کبھی تیز، اور کبھی آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ کبھی خشک ہوا چلتی ہے اور کبھی مرطوب۔ کبھی بارش لانے والی ہوا چلتی ہے اور کبھی اس کو اڑا لے جانے والی چل پڑتی ہے۔ یہ طرح طرح کی ہوائیں کچھ یوں ہی اندھا دھند نہیں چلتیں بلکہ ان کا ایک قانون اور ایک نظام ہے جو شہادت دیتا ہے کہ یہ انتظام کمال درجہ حکمت پر مبنی ہے اور اس سے بڑے اہم مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا گہرا تعلق اس سردی اور گرمی سے ہے جو زمین اور سورج کے درمیان بدلتی ہوئی مناسبتوں کے مطابق گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے، اور مزید براں اس کا نہایت گہرا تعلق موسمی تغیرات اور بارشوں کی تقسیم سے بھی ہے۔ یہ ساری چیزیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کسی اندھی فطرت نے اتفاقاً یہ انتظامات نہیں کردیے ہیں، نہ سورج اور زمین اور ہوا اور پانی اور نباتات اور حیوانات کے الگ الگ مدبر ہیں، بلکہ لازماً ایک ہی خدا ان سب کا خالق ہے اور اسی کی حکمت نے ایک مقصد عظیم کے لیے یہ انتظام قائم کیا ہے، اور اسی کی قدرت سے یہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک مقرر قانون پر چل رہا ہے۔
اور رات دن کے بدلے میں اور جو کچھ روزی اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کردیتا ہے (اس میں) اور ہواؤں کے بدلنے میں بھی ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں ہیں ۔
آسمانوں و زمین، انسانی تخلیق، جانوروں کی پیدائش، رات دن کے آنے جانے اور آسمانی بارش کے ذریعے سے مردہ زمین میں زندگی کی لہر کا دوڑ جانا وغیرہ، آفاق وانفس میں بیشمار نشانیاں ہیں جو اللہ کی واحدنیت و ربوبیت پر دال ہیں۔
یعنی کبھی ہوا کا رخ شمال جنوب، کبھی پچھم (مشرق و مغرب) کو ہوتا ہے، کبھی بحری ہوائیں اور کبھی بری ہوائیں، کبھی رات کو، کبھی دن کو، بعض ہوائیں بارش خیز، بعض نتیجہ خیز، بعض ہوائیں روح کی غذا اور بعض سب کچھ جھلسا دینے والی اور محض گردو غبار کا طوفان، ہواؤں کی اتنی قسمیں بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا ہے اور وہ ایک ہی ہے دو یا دو سے زائد نہیں تمام اختیارات کا مالک وہی ایک ہے، ان میں کوئی شریک نہیں سارا اور ہر قسم کا تصرف وہی کرتا ہے کسی اور کے پاس ادنیٰ سا تصرف کرنے کا بھی اختیار نہیں۔
یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم تمہیں بالکل حق کے ساتھ سنا رہے ہیں تو اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے
آنحضرت صلعم کے لیے تسلی اور مخالفین کو ملامت: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور آپ کے مخالفین کو ملامت ہے۔ ’تِلْکَ‘ کا اشارہ آفاق و انفس کی انہی نشانیوں کی طرف ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئیں۔ فرمایا کہ اللہ کی توحید، اس کی قدرت و حکمت اور اس کے روز جزا و سزا کی یہ نشانیاں ہیں جو اس قرآن کے ذریعہ سے ہم تم کو، ان کے صحیح نتائج و لوازم کے ساتھ، پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ یہ نشانیاں اس قدر واضح ہیں کہ کوئی ذی ہوش ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ انہی کے واقعی نتائج و لوازم کو قرآن تسلیم کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اگر تمہارے یہ مخالفین ان نشانیوں کے بدیہی نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں تو اب ان سے زیادہ عقل اور دل کو مطمئن کرنے والی اور کون سی چیز ہو سکتی ہے جس پر ایمان لائیں گے!
’بالحق‘ کا مفہوم: ’نَتْلُوہَا عَلَیْْکَ بِالْحَقِّ‘ میں ’بِالْحَقِّ‘ سے مراد وہ قطعی اور حقیقی نتائج ہیں جو ان نشانیوں پر غور کرنے سے سامنے آتے ہیں۔ یہ قید اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جہاں تک ان نشانیوں پر غور کرنے کا تعلق ہے ان پر غور تو دوسرے بھی کرتے ہیں لیکن وہ اپنے مخصوص اور نہایت محدود زاویہ سے غور کرتے ہیں اس وجہ سے یا تو ان حقائق تک پہنچ نہیں پاتے جو ان کے اندر مضمر ہیں یا پہنچتے تو ہیں لیکن چونکہ وہ ان کے نفس کی خواہشوں کے خلاف ہیں اس وجہ سے ان کے اعتراف سے گریز کرتے ہیں۔ مثلاً آسمان و زمین کی نشانیوں پر فلکیات و ارضیات کے ماہرین بھی غور کرتے ہیں۔ انسان کی خلقت پر اناٹومی (ANATOMY) والے بھی تحقیق کرتے ہیں، حیوانات کے مختلف پہلوؤں پر علم الحیوانات والے بھی سر کھپاتے ہیں، رات اور دن کی گردش، بارشوں کے اوقات و اثرات اور ہواؤں کے تغیر و تبدل پر موسمیات والے بھی بہت کچھ ہوا باندھتے ہیں لیکن ان سب کا حال ان کی تنگ نظری کے سبب سے یہ ہے کہ یہ اپنی دوربینوں اور خوردبینوں سے تِل کو تو دیکھ لیتے ہیں لیکن تل کے اوٹ کا پہاڑ ان کو نظر نہیں آتا۔ موسمیات والے یہ پیشین گوئی تو کر دیں گے کہ آگے چوبیس گھنٹے موسم گرم و خشک رہے گا اور اس کی کوئی الٹی سیدھی توجیہ بھی کر دیں گے۔ اکثر حالات میں ان کی پیشین گوئی صحیح بھی ثابت ہوتی ہے اور بعض حالات میں ان کی پیش کردہ توجیہ سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کی نگاہ صرف ہواؤں کے تصرف کی نوعیت اور اس کے اثرات کا اندازہ کرنے تک محدود رہ جاتی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر وہ اس سوال پر غور کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتے کہ ان تصرفات کے پس پردہ حقیقی مصرف کون ہے اور اس کے حقوق و فرائض کیا ہیں! حالانکہ کائنات کے اندر یہ تمام تصرفات و تغیرات جو ہوتے ہیں یہ اسی لیے ہوتے ہیں کہ انسان اس اصل سوال تک پہنچے، اس کا حل دریافت کرے اور اگر خدا کا کوئی بندہ اس کو اس سوال کا کوئی دل نشین حل بتائے تو اس کو قبول اور اس پر عمل کرے۔ قرآن نے ان نشانیوں کے انہی پہلوؤں کو خاص طور پر بے نقاب کیا ہے جو اصل حقیقت پر روشنی ڈالنے والے ہیں اس وجہ سے اس کو ’نَتْلُوْہَا عَلَیْْکَ بِالْحَقِّ ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
دو اہم حقیقتیں: اس سے ایک بڑی اہم حقیقت یہ واضح ہوئی کہ قرآن کی دعوت جبر یا تحکم پر مبنی نہیں ہے بلکہ تمام تر آفاق و انفس کے واضح دلائل اور عقل و فطرت کے بینات پر مبنی ہے۔ جو لوگ ان کو نہیں مانتے ان کے نہ ماننے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ مخفی ہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ ان کو اپنے نفس کی خواہشوں کے خلاف پاتے ہیں اس وجہ سے ان سے درگزر کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں ظاہر ہے کہ وہ کوئی بھی ایسی بات ماننے کو تیار نہیں ہو سکتے جو ان کی خواہش کے خلاف ہے اگرچہ وہ سورج سے بھی زیادہ روشن ہو کر ان کے سامنے آئے۔
دوسری حقیقت یہ واضح ہوئی کہ اس کائنات میں سب سے زیادہ بدیہی بلکہ ابدہ البدیہیات اللہ اور اس کی نشانیاں ہیں۔ جو لوگ ان کے منکر ہیں وہ کسی بھی حقیقت کو ماننے کے اہل نہیں ہیں۔ وہ محض اپنی خواہشوں کے غلام، اپنے پیٹ اور تن کے پجاری ہیں۔ اس طرح کے لوگ اگر کچھ نئی نشانیوں اور معجزات کا مطالبہ کریں تو ان کے مطالبات لائق توجہ نہیں ہیں۔ اس طرح کے اندھوں کی آنکھیں کوئی بڑے سے بڑا معجزہ بھی نہیں کھول سکتا۔
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنھیں ہم حق کے ساتھ تمھیں سنا رہے ہیں تو اللہ اور اُس کی آیتوں کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ ایمان لائیں گے!
یعنی وہ آیتیں جن میں پیچھے انفس و آفاق کے اندر خدا کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
یعنی اُن واقعی نتائج و لوازم کے ساتھ جو اِن نشانیوں پر غور کرنے سے سامنے آتے ہیں اورجن کی وضاحت اوپر ہوئی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ انفس و آفاق کے یہی دلائل اور عقل و فطرت کے یہی بینات ہیں جو کسی عاقل کے سامنے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اگر اِن کو نہیں مانتے اور اللہ کے اور اُس کی توحید کے منکر ہو رہے ہیں جو اِس کائنات کی سب سے زیادہ بدیہی حقیقت، بلکہ ابدہ البدیہیات ہے، اور اُس کی آیتوں کا انکار کر رہے ہیں جن سے اتمام حجت کی حد تک حق واضح ہو چکا ہے تو اِن سے پھر کوئی بات بھی نہیں منوائی جا سکتی۔
یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں۔ اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔
یعنی جب اللہ کی ہستی اور اس کی وحدانیت پر خود اللہ ہی کے بیان کیے ہوئے یہ دلائل سامنے آجانے کے بعد بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اب کیا چیز ایسی آسکتی ہے جس سے انہیں دولت ایمان نصیب ہوجائے۔ اللہ کا کلام تو وہ آخری چیز ہے جس کے ذریعہ سے کوئی شخص یہ نعمت پا سکتا ہے۔ اور ایک ان دیکھی حقیقت کا یقین دلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ جو معقول دلائل ممکن ہیں وہ اس کلام پاک میں پیش کردیے گئے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی انکار ہی کرنے پر تلا ہوا ہو تو انکار کرتا رہے۔ اسکے انکار سے حقیقت نہیں بدل جائے گی۔
یہ ہیں اللہ کی آیتیں جنہیں ہم آپ کو راستی سے سنا رہے ہیں، پس اللہ تعالیٰ اور اس کی آیتوں کے بعد یہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔
یعنی اللہ کا نازل کردہ قرآن، جس میں اس کی توحید کے دلائل وبراہین ہیں۔ اگر یہ اس پر بھی ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی بات کے بعد کس کی بات ہے اور اس کی نشانیوں کے بعد کون سی نشانیاں ہیں جن پر ایمان لائیں گے۔
ہلاکی ہے ہر اس لپاٹیے گنہ گار کے لیے
یہ اسی ملامت کے مضمون کی مزید توسیع ہے کہ جن لوگوں نے اس طرح تمام حقائق تلپٹ کر دیے ہیں تاکہ اپنی گنہ گارانہ زندگی کے لیے سند جواز فراہم کریں ان کے لیے ہلاکی ہے۔
’اَفَّاکٌ‘ اور ’اَثِیْم‘: ’اَفَّاکٌ‘ کے معنی ہیں حقائق کی قلب ماہیت کر دینے والا، یعنی خدا کی نشانیاں اور اس کی آیات تو کسی اور حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہوں لیکن وہ محض اپنی خواہشات نفس کی بندگی میں اس حقیقت کی بالکل قلب ماہیت کر دے۔ اس کے مصداق اول تو قریش کے مشرکین تھے جنھوں نے محض اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی میں دین ابراہیمؑ کو مسخ کیا لیکن اس کے عام مصداق میں ہر دور کے وہ محرفین دین شامل ہیں جو اللہ کی آیات اور اس کے احکام میں اپنی خواہشات کے تحت تحریف کے مرتکب ہوئے یا ہو رہے ہیں۔
’اَثِیْمٌ‘ کے معنی گنہ گار، خاص طور پر حقوق و فرائض کے تلف کرنے والے کے ہیں۔ ’اَفَّاکٌ‘ کے ساتھ اس صفت کا جوڑ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ حقائق کے قلب ماہیت کی اس سازش کے مرتکب وہی نابکار ہوتے ہیں جو خدا کے حقوق و فرائض کے ادا کرنے سے گریز اور اپنی معصیت کی زندگی پر اصرار کرنا چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ ان بدبختوں کے لیے ہلاکی اور تباہی ہے اس لیے کہ اللہ کی آیات ان کو سنائی جا رہی ہیں لیکن یہ نہایت تکبر کے ساتھ ان کو سن کر اس طرح چل دیتے ہیں گویا کوئی بات انھوں نے سنی ہی نہیں۔ یہ اشارہ قریش کے لیڈروں کے اس رویے کی طرف ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جواب میں اختیار کرتے۔ اول تو یہ لوگ مجلس نبوی میں جانے ہی کو عار خیال کرتے لیکن کبھی پہنچ بھی جاتے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس جا کر ان کو قرآن سناتے تو اس طرح کان جھاڑ کر اٹھ جاتے گویا کوئی بات انھوں نے سنی ہی نہیں۔
تباہی ہے ہر اُس جھوٹے بد اعمال کے لیے۔
یعنی دین کے معاملے میں جھوٹے، جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں جس چیز کو چاہتے ہیں کچھ سے کچھ بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔
اصل میں لفظ ’اَثِیْم‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی حق تلفی کرنے والے کے ہیں۔ اِس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ اِن کی تمام تحریفات کے پیچھے اصلی محرک اِن کی اخلاقی پستی اور نابکاری پر اِن کا اصرار ہے کہ نہ خدا کے حقوق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ بندوں کے۔
تباہی ہے ہر اُس جھوٹے بد اعمال شخص کے لیے۔
n/a
’ ویل ’ اور افسوس ہے ہر ایک جھوٹے گنہگار پر۔
بہت گنہگار، وَیْل بمعنی ہلاکت یا جہنم کی ایک وادی کا نام۔
جو اللہ کی آیتیں سنتا ہے، اس کو پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں، پھر وہ استکبار کے ساتھ اپنی روش پر ضد کرتا ہے گویا اس نے وہ سنی ہی نہیں۔ تو ان کو ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو
فرمایا کہ ان بدبختوں کے لیے ہلاکی اور تباہی ہے اس لیے کہ اللہ کی آیات ان کو سنائی جا رہی ہیں لیکن یہ نہایت تکبر کے ساتھ ان کو سن کر اس طرح چل دیتے ہیں گویا کوئی بات انھوں نے سنی ہی نہیں۔ یہ اشارہ قریش کے لیڈروں کے اس رویے کی طرف ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جواب میں اختیار کرتے۔ اول تو یہ لوگ مجلس نبوی میں جانے ہی کو عار خیال کرتے لیکن کبھی پہنچ بھی جاتے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس جا کر ان کو قرآن سناتے تو اس طرح کان جھاڑ کر اٹھ جاتے گویا کوئی بات انھوں نے سنی ہی نہیں۔
’تُتْلٰی عَلَیْْہِ‘ کے الفاظ سے ان کے جرم کی سنگینی کا اظہار ہو رہا ہے کہ اگر دعوت حق کسی کو پہنچی نہ ہو اور وہ اس سے غافل رہ جائے تو اس کے لیے کچھ عذر ہو سکتا ہے لیکن وہ بدبخت خدا کو کیا جواب دے گا جس کے کانوں میں رسول نے خود جا کر اذان دی لیکن وہ بیدار نہ ہوا!
اصرار علی الشرک کا اصل سبب استکبار ہے: ’یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا‘ میں اصرار علی الشرک کے اصل سبب پر روشنی پڑتی ہے کہ ان کے اصرار کی اصل علت یہ نہیں ہے کہ ان پر حقیقت واضح نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ اس بات میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں کہ قوم کے سردار اور اعیان و اشراف ہو کر ایک ایسے شخص کی بالاتری اپنے اوپر تسلیم کر لیں جو دنیوی وجاہت میں ان کا ہم سر نہیں ہے۔
’فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ‘۔ یہ اس ’وَیْْلٌ‘ کی وضاحت ہے جس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوا کہ اس طرح کے تمام مستکبرین کو ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔ یہ لوگ اگر اپنے غرور کے باعث نجات کی بشارت سے اپنے کان بند کیے ہوئے ہیں تو بند رکھیں، عذاب کی خوش خبری بہرحال ان کو پہنچا دو جو اس طرح کے لوگوں کے لیے لازمی ہے۔
جو اللہ کی آیتیں سنتا ہے، وہ اُس کو پڑھ کر سنائی جا رہی ہیں، پھر بھی تکبر کے ساتھ اپنی ضد پر اڑا رہتاہے، گویا اُس نے وہ سنی ہی نہیں ہیں۔ (یہ اُس کا رویہ ہے)،سو اُسے ایک دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔
یہ جرم کی سنگینی کا اظہار ہے کہ خدا کی آیتیں پڑھ کر سنائی جارہی ہیں اور اِنھیں کوئی اور نہیں، خدا کا رسول پڑھ کر سنا رہا ہے، اِس کے باوجود اپنی نابکاریوں پر اصرار کیے چلے جا رہے ہیں۔
جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں، اور وہ اُن کو سنتا ہے، پھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اِس طرح اڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے اُن کو سنا ہی نہیں۔ ایسے شخص کو درد ناک عذاب کا مژدہ سنا دو۔
بالفاظ دیگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے اس شخص میں جو نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی آیات کو کھلے دل سے سنتا اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرتا ہے، اور اس شخص میں جو انکار کا پیشگی فیصلہ کر کے سنتا ہے اور کسی غور و فکر کے بغیر اپنے اسی فیصلے پر قائم رہتا ہے جو ان آیات کو سننے سے پہلے وہ کرچکا تھا۔ پہلی قسم کا آدمی اگر آج ان آیات کو سن کر ایمان نہیں لا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کافر رہنا چاہتا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مزید اطمینان کا طالب ہے۔ اس لیے اگر اس کے ایمان لانے میں دیر بھی لگ رہی ہے تو یہ بات عین متوقع ہے کہ کل کوئی دوسری آیت اس کے دل میں اتر جائے اور وہ مطمئن ہو کر مان لے لیکن دوسری قسم کا آدمی کبھی کوئی آیت سن کر بھی ایمان نہیں لا سکتا۔ کیونکہ وہ پہلے ہی آیات الہٰی کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کرچکا ہے۔ اس حالت میں بالعموم وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن کے اندر تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے صداقت ان کو اپیل نہیں کرتی۔ دوسرے یہ کہ وہ بد عمل ہوتے ہیں، اس لیے کسی ایسی تعلیم و ہدایت کو مان لینا انہیں سخت ناگوار ہوتا ہے جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو۔ تیسرے یہ کہ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ہمیں کوئی کیا سکھائے گا، اس لیے اللہ کی جو آیات انہیں سنائی جاتی ہیں ان کو وہ سرے سے کسی غور و فکر کا مستحق ہی نہیں سمجھتے اور ان کے سننے کا حاصل بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو نہ سننے کا تھا۔
جو آیتیں اللہ کے اپنے سامنے پڑھی جاتی ہوئی سنے پھر بھی غرور کرتا ہوا اس طرح اڑا رہے کہ گویا سنی ہی نہیں تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر (پہنچا) دیجئے۔
یعنی کفر پر اڑا رہتا ہے اور حق کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اور اسی غرور میں سنی ان سنی کردیتا ہے۔
اور جب اس کو ہماری آیات میں سے کسی بات کا علم ہوتا ہے تو اس کو مذاق بنا لیتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے
حق کی مخالفت کا عامیانہ حربہ: اوپر کی آیت میں مستکبرین کا وہ رویہ بیان ہوا ہے جو وہ اس وقت اختیار کرتے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود ان کو قرآن سنانے کی کوشش فرماتے۔ اب ان کا وہ رویہ بیان ہو رہا ہے جو اس وقت وہ اختیار کرتے جب قرآن کی کوئی بات ان کو کسی اور واسطہ سے پہنچتی۔ فرمایا کہ ان کو ہماری آیات میں سے کسی چیز کا علم ہوتا ہے تو اس کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ دوسرے ان سے متاثر نہ ہونے پائیں۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں قریش کے اندر ایسے لوگ بھی تھے جو غیرجانبدارانہ ذہن کے ساتھ قرآن کی آیتیں سنتے اور ان سے وہ متاثر بھی ہوتے۔ اس طرح کے لوگ ان آیتوں کو اپنے سرداروں کے علم میں بھی لانے کی کوشش کرتے تاکہ ان کے باب میں ان کی رائے معلوم کریں۔ ان کے سردار فوراً تاڑ جاتے کہ لوگ ان آیات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس اثر سے لوگوں کو بچانے کے لیے وہ یہ تو کر نہیں سکتے تھے کہ دلیل سے قائل کر دیں کہ قرآن کی بات میں فلاں چیز عقل یا فطرت یا حقیقت کے خلاف ہے۔ واحد تدبیر جو وہ کر سکتے تھے وہ یہی تھی کہ قرآن کی بات کا مذاق اڑائیں تاکہ اس طرح بات ہوا میں اڑ جائے اور کسی پر اس کا کوئی اثر نہ ہونے پائے۔ اس قسم کی عامیانہ حرکت اگرچہ کچھ زیادہ کارگر نہیں ہوتی تاہم وقتی طور پر کمزور رائے کے لوگ غلط فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ حربہ ہر دور کے شیاطین نے حق کے خلاف استعمال کیا ہے۔
سب سے زیادہ سخت عذاب وہ ہے جس کے ساتھ رسوائی ہو: ’اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ‘۔ ان لوگوں کے اس رویہ کا اصل محرک، جیسا کہ اوپر والی آیت میں مذکور ہوا، استکبار تھا اس وجہ سے فرمایا کہ ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ انھوں نے حق کے مقابل میں گھمنڈ کیا اس وجہ سے ان کے لیے آخرت میں رسوائی ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اگرچہ اللہ کا ہر عذاب پناہ مانگنے کی چیز ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ سخت عذاب وہ ہے جس کے ساتھ رسوائی بھی ہو۔ یہ عذاب مستکبرین کے لیے خاص ہے۔
اور ہماری آیتوں میں سے (اِسی طرح) اُسے جب کسی بات کا علم ہوتا ہے تو اُس کو مذاق بنا لیتا ہے۔ یہی ہیں جن کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔
اوپر اُس رویے کا ذکر تھا جو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں اختیار کرتے تھے، جب آپ بذات خود اُن کو قرآن سنانے کی کوشش فرماتے تھے۔ اب وہ رویہ بیان ہو رہا ہے جو اُس وقت سامنے آتا تھا، جب کوئی شخص آپ کی مجلس سے قرآن کی کوئی بات سن کر اُن تک پہنچاتا تھا اور وہ اِس اندیشے سے کہ اُن کا کوئی آدمی اِس سے متاثر نہ ہو جائے، اُس کا ٹھٹا اڑانے لگتے تھے۔
یہ سب سے زیادہ سخت عذاب ہے اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مستکبرین کے لیے خاص ہے۔
ہماری آیات میں سے کوئی بات جب اس کے علم میں آتی ہے تو وہ اُن کا مذاق بنا لیتا ہے۔ ایسے سب لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔
یعنی اس ایک آیت کا مذاق اڑانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ تمام آیات کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ مثلاً جب وہ سنتا ہے کہ قرآن میں فلاں بات بیان ہوئی ہے تو اسے سیدھے معنی میں لینے کے بجائے پہلے تو اسی میں کوئی ٹیڑھ تلاش کر کے نکال لاتا ہے تاکہ اسے مذاق کا موضوع بنائے، پھر اس کا مذاق اڑانے کے بعد کہتا ہے : اجی ان کے کیا کہنے ہیں، وہ تو روز ایک سے ایک نرالی بات سنا رہے ہیں، دیکھو فلاں آیت میں انہوں نے یہ دلچسپ بات کہی ہے، اور فلاں آیت کے لطائف کا تو جواب ہی نہیں ہے۔
وہ جب ہماری آیتوں میں سے کسی آیت کی خبر پا لیتا ہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسوائی کی مار ہے۔
یعنی اول تو وہ قرآن کو غور سے سنتا ہی نہیں اور اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑجاتی ہے یا کوئی بات اس کے علم میں آجاتی ہے تو اسے مذاق کا موضوع بنا لیتا ہے۔ اپنی کم عقلی اور نافہمی کی وجہ سے یا کفر و معصیت پر اصرار و استکبار کی وجہ سے۔
آگے ان کے جہنم ہے اور جو چیزیں انھوں نے کمائی ہیں وہ ان کے ذرا کام آنے والی نہیں بنیں گی اور نہ وہی ان کے کام آنے والے بنیں گے جو اللہ کے سوا انھوں نے اپنے لیے کارساز بنا رکھے ہیں۔ اور ان کے لیے ایک بڑا عذاب ہو گا
’مِنْ وَرَآءِ‘ کا مفہوم ہمارے اردو کے ورے اور پرے کی طرح موقع و محل سے معین ہوتا ہے۔ اس کا مطلب آگے بھی ہو سکتا ہے اور پیچھے بھی۔ فرمایا کہ ان لوگوں کے لیے آگے جہنم ہے جس میں یہ پڑیں گے اور اس میں پڑنے کے بعد نہ ان کا وہ حرام اندوختہ ان کے کچھ کام آئے گا جو ان کے استکبار اور حق سے اعراض کا سبب بنا اور نہ ان کے وہ مزعومہ شرکاء و شفعاء ہی کچھ کام آئیں گے جن کو انھوں نے اللہ کے سوا اپنا کارساز بنایا۔
’وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘۔ اور عذاب بھی کوئی ایسا ویسا نہیں ہو گا جو کسی طرح جھیلا جا سکے بلکہ بہت بڑا عذاب ہو گا۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ آج نہیں ہو سکتا۔
اِن کے آگے جہنم ہے اور جو کچھ بھی اِنھوں نے (دنیا میں) کمایا ہے، وہ اِن کے ذرا بھی کام آنے والا نہیں ہے اور نہ وہ جن کو اِنھوں نے اللہ کے سوا کارساز بنا رکھا ہے، اِن کے کچھ کام آئیں گے اور اِن کے لیے بڑا عذاب ہے۔
یعنی مال و دولت جو اِس وقت اِن کے استکبار کا باعث بن رہا ہے۔
اُن کے آگے جہنم ہے۔ جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز اُن کے کسی کام نہ آئے گی، نہ اُن کے وہ سرپرست ہی اُن کے لیے کچھ کر سکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے۔ اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔
اصل الفاظ ہیں مِنْ وَّرَآئِھِمْ جَھَنَّمُ ۔ وراء کا لفظ عربی زبان میں ہر اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو آدمی کی نظر سے اوجھل ہو، خواہ وہ آگے ہو یا پیچھے۔ اس لیے دوسرا ترجمہ ان الفاظ کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ان کے پیچھے جہنم ہے۔ ” اگر پہلے معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ بیخبر منہ اٹھائے اس راہ پر دوڑے جا رہے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہے کہ آگے جہنم ہے جس میں وہ جا کر گرنے والے ہیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ وہ آخرت سے بےفکر ہو کر اپنی اس شرارت میں مشغول ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ جہنم ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔
یہاں ولی کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک وہ دیویاں اور دیوتا اور زندہ یا مردہ پیشوا جن کے متعلق مشرکین نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو شخص اس کا متوسل ہو وہ خواہ دنیا میں کچھ ہی کرتا ہے، خدا کے ہاں اس کی پکڑ نہ ہو سکے گی، کیونکہ ان کی مداخلت اسے خدا کے غضب سے بچا لے گی۔ دوسرے، وہ سردار اور لیڈر اور امراء و حکام جنہیں خدا سے بےنیاز ہو کر لوگ اپنا رہنما اور مطاع بناتے ہیں، اور آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے ہیں، اور انہیں خوش کرنے کے لیے خدا کو ناخوش کرنے میں تامل نہیں کرتے یہ آیت ایسے لوگوں کو خبردار کرتی ہے کہ جب اس روش کے نتیجے میں جہنم سے ان کو سابقہ پیش آئے گا تو ان دونوں قسم کے سرپرستوں میں سے کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم تفسیر سورة الشوریٰ ، حاشیہ نمبر 6)
ان کے پیچھے دوزخ ہے جو کچھ انہوں نے حاصل کیا تھا وہ انہیں کچھ بھی نفع نہ دے گا اور نہ وہ (کچھ کام آئیں گے) جن کو انہوں نے اللہ کے سوا کارساز بنا رکھا تھا ان کے لئے تو بہت بڑا عذاب ہے۔
یعنی ایسے کردار کے لوگوں کے لئے قیامت میں جہنم ہے۔
امین احسن اصلاحی
یہ حٰمٓ ہے
اس سورہ کا بھی قرآنی نام ’حٰمٓ‘ ہی ہے۔ اس نام سے موسوم سورتوں کے مطالب کے اشتراک اور ان کے مزاج کی ہم رنگی پر پچھلی سورتوں کی تفسیر میں ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔