اِنھیں بتاؤ، (اے پیغمبر) کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اِس کو) سنا تو (اپنی قوم سے جا کر) کہا: ہم نے ایک بڑا ہی دل پذیر قرآن سنا ہے۔
اِس سے واضح ہے کہ جنوں کے جو تاثرات اِس سورہ میں بیان ہوئے ہیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست جنوں کی زبان سے نہیں، بلکہ وحی الٰہی کے ذریعے سے معلوم ہوئے۔ اِس سے پہلے یہی واقعہ سورۂ احقاف (۴۶) میں بیان ہوا ہے۔ وہاں بھی اِس کا اسلوب بتاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ روداد بعد میں سنائی گئی۔اِس سے مقصود یہ تھا کہ قریش پر یہ حقیقت واضح کی جائے کہ جس قرآن کو وہ جنوں کا الہام کہہ کر رد کر رہے ہیں، اُس کے بارے میں خود جنات کیا کہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جائے کہ نااہلوں کی ناقدری سے آپ آزردہ نہ ہوں اور قریش کو بھی کچھ غیرت دلائی جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...جنوں کے اِن تاثرات کی آپ کو اِس لیے اطلاع دی گئی کہ اپنی قوم کو آپ سنا دیں کہ جس کلام بلاغت نظام کے ساتھ تمھارا سلوک یہ ہے کہ اُس کو سن کر تم کانوں میں انگلیاں دے لیتے اور اُس کے سنانے والے کے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہو، دراں حالیکہ یہ کلام تمھارے ہی لیے اترا ہے، اُس کلام کو سن کر ذی صلاحیت جنات اِس طرح اُس کے عاشق ہو جاتے ہیں کہ اپنی قوم کو اُس کی دعوت دینے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، حالاں کہ وہ براہ راست اُس کے مخاطب بھی نہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۸/ ۶۱۵)
اصل میں لفظ ’عَجَبًا‘ آیا ہے۔ یہ جس طرح انوکھے پن کے اظہار کے لیے آتا ہے، اِسی طرح کسی چیز کی اثر انگیزی اور دل پذیری کو ظاہر کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ یہ بات بھی ضمناً اِس سے معلوم ہوتی ہے کہ جن اپنے علاقے کے انسانوں کی زبان بھی پوری طرح سمجھ لیتے اور اُس کے حسن و قبح کو پرکھ سکتے ہیں۔
اے نبیؐ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: “ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر نہیں آ رہے تھے اور آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قرآن سن رہے ہیں، بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اس قصے کو بیان کرتے ہوئے صراحت فرماتے ہیں کہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کے سامنے قرآن نہیں پڑھا تھا، نہ آپ نے ان کو دیکھا تھا “۔ (مسلم۔ ترمذی۔ مسند احمد۔ ابن جریر) ۔
اصل الفاظ ہیں قرانا عجبا۔ قرآن کے معنی ہیں ” پڑھی جانے والی چیز ” اور یہ لفظ غالباً جنوں نے اسی معنی میں استعمال کیا ہوگا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اس وقت ان کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ جو چیز وہ سن رہے ہیں ان کا نام قرآن ہی ہے۔ عجب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لیے بولا جاتا ہے۔ پس جنوں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سن کر آئے ہیں جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بےنظیر ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن نہ صرف یہ کہ انسانوں کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام جن انسانی زبانیں جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے جو گروہ زمین کے جس علاقے میں رہتے ہوں اسی علاقے کے لوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں۔ لیکن قرآن کے اس بیان سے بہرحال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنہوں نے اس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اچھی جانتے تھے کہ انہوں نے اس کلام کی بےمثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اس کے بلند پایہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا۔
آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے۔
یہ واقعہ (وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ 29) 46 ۔ الاحقاف :29) کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی نخلہ صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ جنوں کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سنا۔ جس سے وہ متاثر ہوئے۔ یہاں بتلایا جا رہا ہے کہ اس وقت جنوں کا قرآن سننا، آپ کے علم میں نہیں آیا، بلکہ وحی کے ذریعے سے ان کو اس سے آگاہ فرمایا گیا،
جو ہدایت کی راہ بتاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لائے اور اب ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
قرآن کی دعوت رُشد: یہ قرآن کی اسی دل پذیری کی وضاحت ہے جس کی طرف لفظ ’عجیب‘ اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی یہ کتاب اس حق و ہدایت کی طرف رہنمائی کر رہی ہے جس کو ہر سلیم الفطرت کا دل قبول کرتا ہے۔ سورۂ احقاف کی مذکورہ بالا آیت میں ’یَہْدِیْ إِلَی الْحَقِّ وَإِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہاں اسی مضمون کے لیے جامع لفظ ’رُشْدٌ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ان تمام بنیادی عقائد اور نیکیوں پر حاوی ہے جو انسانی فطرت کے اندر ودیعت ہیں۔ انسان اپنے اختیار کے سوء اعمال سے اپنی فطرت بگاڑ نہ لے تو یہ اس کی رہنمائی صحیح سمت میں کرتی ہے اور اگر غفلت کے سبب سے ان پر کبھی حجاب بھی آ جاتا ہے تو وہ معمولی تذکیر و تنبیہ سے دور ہو جاتا ہے بشرطیکہ انسان نفس کی خواہشوں کی پیروی میں اس کی ناقدری نہ کرے۔ اس ’رُشْدٌ‘ میں سب سے اونچا مقام توحید کا ہے۔ تمام بنیادی عقائد و اعمال کا منبع بھی وہی ہے اور اسی پر ان کی صحت کا مدار بھی ہے۔
رشد کا حق: ’فَاٰمَنَّا بِہٖ‘۔ یہ انھوں نے اس ’رُشْدٌ‘ کا حق بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس ہدایت سے ہمیں آگاہ فرمایا تو ہم نے اس کا یہ فطری حق سمجھا کہ ہم اس پر ایمان لائیں، چنانچہ ہم نے اس کو صدق دل سے قبول کر لیا۔
رشد کا سرچشمہ: ’وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًا‘۔ تمام رشد کا سرنامہ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، توحید ہی ہے چنانچہ انھوں نے اس رشد پر ایمان کا تقاضا یہ بیان کیا کہ اب ہمارے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ ہم کسی کو اپنے رب کا شریک ٹھہرائیں۔
یہ امر یہاں واضح رہے کہ تمام بنیادی عقائد اور نیکیاں نہ صرف انسانوں اور جنوں کے درمیان مشترک ہیں بلکہ قرآن میں یہ وضاحت ہے کہ یہ تمام کائنات میں مشترک ہیں۔ ہمارے اور جنوں کے درمیان فرق ہے تو معاشرتی احکام میں ہے۔ توحید، معاد، جزا و سزا اور فضائل و رذائل میں فرق کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ چنانچہ انہی چیزوں کا یہاں ذکر آیا ہے اور قرآن نے مکی زندگی کے ابتدائی دور میں انسانی فطرت کے انہی ابتدائی مطالبات کی لوگوں کو دعوت بھی دی۔
جو ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے، سو ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز کسی کو اپنے پروردگار کا شریک نہ ٹھیرائیں گے۔
اِس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح انسانوں کے پیغمبر تھے،اُسی طرح جنوں کے بھی پیغمبر تھے، بلکہ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حق جہاں اور جس صورت میں بھی سامنے آئے، دنیا کی ہر ذی شعور مخلوق اُسے ماننے کی مکلف ہے۔ چنانچہ جنوں کے کسی پیغمبر کی دعوت اگر ہم بھی سن سکتے تو اُس پر اُسی طرح ایمان کے مکلف ہوتے، جس طرح جنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اپنے ایمان کا اظہار کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پیغمبروں پر ہمارے ایمان کی نوعیت بھی یہی ہے۔ ہم اُن کی شریعت کے پابند تو یقیناً نہیں ہیں، لیکن اُنھیں ماننا ہمارے لیے بھی اُسی طرح ضروری ہے، جس طرح اُن کی قوموں کے لیے ضروری تھا۔
جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اِس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔”
اس سے کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ جن اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے رب ہونے کے منکر نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں بھی مشرکین پائے جاتے ہیں جو مشرک انسانوں کی طرح اللہ کے ساتھ دوسروں کو خدائی میں شریک ٹھہراتے ہیں، چنانچہ جنوں کی یہ قوم جس کے افراد قرآن سن کر گئے تھے مشرک ہی تھے۔ تیسرے یہ کہ نبوت اور کتب انسانی آسمانی کے نزول کا سلسلہ جنوں کے ہاں جاری نہیں ہوا، بلکہ ان میں سے جو جن بھی ایمان لاتے ہیں وہ انسانوں میں آنے والے انبیاء اور ان کی لائی ہوئی کتابوں پر ہی ایمان لاتے ہیں۔ یہی بات سورة احقاف آیات 29 ۔ 31 سے بھی معلوم ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ وہ جن جنہوں نے اس وقت قرآن سنا تھا، حضرت موسیٰ کے پیرو وں میں سے تھے اور انہوں نے قرآن سننے کے بعد اپنی قوم کو دعوت دی تھی کہ اب جو کلام خدا کی طرف سے پچھلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔ سورة رحمان بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس کا پورا مضمون ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے مخاطب انسان اور جن دونوں ہیں۔
جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے (اب) ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے۔
یہ قرآن کی دوسری صفت ہے کہ وہ راہ راست یعنی حق کو واضح کرتا ہے یا اللہ کی معرفت عطا کرتا ہے۔ یعنی ہم نے سن کر اس بات کی تصدیق کردی کہ واقعی یہ اللہ کا کلام ہے کسی انسان کا نہیں اس میں کفار کو توبیخ و تنبیہ ہے کہ جن تو ایک مرتبہ ہی سن کر قرآن پر ایمان لے آئے لیکن انسانوں کو خاص کر ان کے سرداروں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ کی زبان سے متعدد بار انہوں نے قرآن سنا۔ ہم کسی کو بھی اس کا شریک نہ بنائیں گے نہ مخلوق میں سے نہ کسی اور معبود کو اس لیے کہ وہ اپنی ربوبیت میں متفرد ہے۔
اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے، اس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی بنائی ہے نہ کوئی اولاد۔
یہ انھوں نے اپنے قول ’وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًا‘ کی مزید وضاحت کر دی کہ اب ہم پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی کہ ہمارے رب کی شان بیوی بچوں کی نسبتوں سے بالکل پاک اور نہایت ارفع ہے۔ نادان ہیں وہ لوگ جو اس طرح کی چیزیں اس سے منسوب کرتے ہیں۔ اس نے نہ اپنے لیے کوئی بیوی بنائی اور نہ کوئی اولاد۔
’جد‘ کے معنی عظمت، شان اور رتبہ کے ہیں۔ یعنی اس کی ذات اتنی بلند ہے کہ کوئی چیز اس کی شریک و سہیم اور ہمہ رتبہ نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنی ذات میں بالکل یکتا، بے نیاز اور ہر چیز سے مستغنی ہے۔ کسی کا یہ درجہ نہیں کہ اس کا کفو اور ہم سر ہو سکے۔
یہ قول اگرچہ جنات ہی کا ہے اس وجہ سے اس کو ’فَقَالُوْا اِنَّا سَمِعْنَا‘ کے تحت ہی ہونا چاہیے تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں براہ راست نہیں بلکہ وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوئیں اس وجہ سے اس کو ’قُلْ اُوْحِیَ إِلَیَّ أَنَّہٗ‘ کے تحت کر دیا گیا اور آگے جنات کے سارے اقوال اسی کے تحت آئیں گے۔
اور یہ بھی کہ ہمارے رب کی شان بہت اونچی ہے، اُس نے (اپنے لیے) کوئی بیوی بنائی ہے نہ بیٹا۔
یہ اور اِس کے بعد جنوں کی سب باتیں تالیف کلام کے لحاظ سے ’اِنَّا سَمِعْنَا‘ کے تحت نہیں، بلکہ ’اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ‘ کے تحت ہیں۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
اور یہ کہ “ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے۔”
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ یہ جن یا تو عیسائی جنوں میں سے تھے۔ یا ان کا کوئی اور مذہب تھا جس میں اللہ تعالیٰ کو بیوی بچوں والا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں قرآن پاک کا کوئی حصہ پڑھ رہے تھے جسے سن کر ان کو اپنے عقیدے کی غلطی معلوم ہوگئی اور انہوں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی بلندو برتر ذات کی طرف سے بیوی بچوں کو منسوب کرنا سخت جہالت اور گستاخی ہے۔
اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے نہ اس نے کسی کو (اپنی) بیوی بنایا ہے نہ بیٹا
یعنی ہمارے رب کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی اولاد یا بیوی ہو۔ گویا جنوں نے ان مشرکوں کی غلطی کو واضح کیا جو اللہ کی طرف بیوی یا اولاد کی نسبت کرتے تھے، انہوں نے ان دونوں کمزویوں سے رب کی پاکی بیان کی۔
اور یہ کہ ہمارا بے وقوف (سردار) اللہ کے بارے میں حق سے بالکل ہٹی ہوئی باتیں کہتا رہا ہے۔
سفیہ لیڈروں کی پیروی سے اجتناب کی دعوت: ’سَفِیْہٌ‘ کے معنی بے وقوف کے ہیں۔ یہاں یہ لفظ جنوں نے اپنے سردار کے لیے استعمال کیا ہے اس لیے کہ قرآن سن لینے کے بعد اپنے سردار کی سفاہت ان پر واضح ہو گئی۔
’شَطَطٌ‘ حق و عدل سے نہایت دور ہٹی ہوئی بات کو کہتے ہیں۔
جنوں پر جب توحید کی حقیقت واضح ہو گئی تو انھوں نے اپنی قوم کو آگاہ کیا کہ ہمارا بدھو سردار اللہ تعالیٰ جل شانہٗ پر حق سے نہایت دور ہٹی ہوئی یہ تہمتیں جڑتا رہا ہے کہ اس کے بیوی بھی ہے اور اولاد بھی ہے، فلاں اور فلاں اس کے بیٹے اور فلاں اور فلاں اس کی چہیتی بیٹیاں ہیں۔ لیکن ہم نے جو قرآن سنا ہے اس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ ہمارے احمق سردار کی یہ باتیں بالکل بے بنیاد تھیں۔ چنانچہ ہم نے ان خرافات سے توبہ کر لی اور ہم قوم کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ لوگ اس طرح کی باتوں سے توبہ کریں اور اس سفیہ کے چکمے میں نہ آئیں۔
اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ جنات عوام کے طبقہ سے تھے۔ ان کے سردار جس ڈگر پر ان کو چلاتے رہے اس پر وہ چلتے رہے لیکن جب ان پر یہ حقیقت واضح ہو گئی تو انھوں نے پوری ایمانی جرأت سے ان کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردنوں سے نکال پھینکا اور اللہ کی بنائی ہوئی صراط مستقیم پر چل پڑے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے قریش کے عوام کو یہ باتیں اس لیے سنائی گئیں کہ ان کے اندر بھی اپنے احمق لیڈروں کے پھندے سے نکلنے اور اپنی عقل و بصیرت پر اعتماد کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔
اور یہ بھی کہ ہمارا یہ احمق ( سردار) اللہ کے بارے میں بالکل حق سے ہٹی ہوئی باتیں کہتا رہا ہے۔
n/a
اور یہ کہ “ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے رہے ہیں۔”
اصل میں لفظ سفیھنا استعمال کیا گیا ہے جو ایک فرد کے لیے بھی بولا جاسکتا ہے اور ایک گروہ کے لیے بھی۔ اگر اسے ایک نادان فرد کے معنی میں لیا جائے تو مراد ابلیس ہوگا۔ اور اگر ایک گروہ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جنوں میں بہت سے احمق اور بےعقل لوگ ایسی باتیں کہتے تھے۔
اور یہ کہ ہم میں ایک بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کہا کرتا تھا
(ہمارے بےوقوف) سے بعض نے شیطان مراد لیا ہے اور بعض نے ان کے ساتھی جن اور بعض نے بطور جنس ؛ یعنی ہر وہ شخص جو یہ گمان باطل رکھتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ شَطَطًا کے کئ معنی کئے گئے ہیں، ظلم، جھوٹ، باطل، کفر میں مبالغہ وغیرہ۔ مقصد، راہ اعتدال سے دوری اور حد سے تجاوز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات کہ اللہ کی اولاد ہے ان بیوقوفوں کی بات ہے جو راہ اعتدال سے دور، حد متجاوز اور کاذب و افترا پرداز ہیں۔
اور یہ کہ ہم نے گمان کیا کہ انسان اور جن خدا پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتے۔
مغالطہ پر تنبیہ: یہ اس مغالطہ کی طرف اشارہ ہے جس کے سبب سے وہ اپنے ان سرداروں کے چکر میں پھنسے رہے۔ کہا کہ ہم نے گمان کیا کہ بھلا انسان اور جنات اللہ تعالیٰ پر یہ تہمت باندھنے کی جسارت کس طرح کر سکتے ہیں کہ اس نے فلاں اور فلاں کو اپنا شریک بنایا اور ان کو مستحق عبادت ٹھہرایا ہے۔ لیکن انھوں نے یہ جسارت کی اور ہم اپنی سادگی کے سبب سے ان کے چکموں میں آ گئے۔
یہ ان کی طرف سے اپنی قوم کے عوام کو آگاہی ہے کہ اپنے ان پروہتوں کے تقدس کے فریب میں مبتلا ہو کر اپنی عقل کو معطل نہ رکھ چھوڑو بلکہ اپنی سمجھ سے کام لو۔ ایسا نہ ہو کہ مچھلی کے نام سے یہ تمہیں سانپ پکڑا دیں۔
اور یہ بھی کہ ( ہم اِس کے پیچھے صرف اِس لیے چلتے رہے کہ) ہم نے سمجھاتھا کہ کیا جن اور کیا انسان، اللہ پر کوئی بھی جھوٹ نہیں باندھ سکتا۔
n/a
اور یہ کہ “ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔”
یعنی ان کی غلط باتوں سے ہمارے گمراہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہم کبھی یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ انسان یا جن اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنے کی جرات بھی کرسکتے ہیں، لیکن اب یہ قرآن سن کر ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ فی الواقع وہ جھوٹے تھے۔
اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی باتیں لگائیں
اسی لئے ہم اس کی تصدیق کرتے رہے اور اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے رہے۔ حتٰی کہ ہم نے قرآن سنا تو پھر ہم پر اس عقیدے کا باطل ہونا واضع ہوا۔
اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو جنوں میں سے بعض کی دہائی دیتے رہے ہیں تو انھوں نے ان کی شامت ہی میں اضافہ کیا۔
انسانوں کی بعض حماقتوں کی طرف اشارہ: اسی سلسلہ میں انھوں نے اپنی قوم کے سامنے اپنا یہ انکشاف بھی بیان کیا کہ اس قرآن سے ہمیں یہ علم بھی ہوا کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ افراد کی دہائی دیتے رہے ہیں لیکن اس سے ان کو کچھ نفع پہنچنے کے بجائے ان کی شامت اور بدبختی ہی میں اضافہ ہوا۔
’رَہَقٌ‘ کے اصل معنی کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے ہیں۔ یہیں سے اس کا استعمال زیادتی، گناہ، حق تلفی اور تعدی کے معنی میں وسیع ہو گیا۔ چنانچہ آگے آیت ۱۳ میں یہ لفظ تعدی کے معنی میں آیا ہے۔
عام طور پر لوگوں نے آیت کے معنی یہ لیے ہیں کہ کچھ بے وقوف انسانوں نے جنوں کی دہائی دے کر ان کے دماغ کو عرش پر پہنچا دیا ہے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ اول تو اس کلام کا کچھ فائدہ سمجھ میں نہیں آتا ثانیاً لفظ ’رَہَقٌ‘ کے اصل مفہوم سے اس میں تجاوز بھی ہے۔ میرے نزدیک ’زَادُوْا‘ کا فاعل ’رِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ‘ اور ’ہم‘ کا مرجع ’رِجَالٌ مِّنَ الْإِنۡسِ‘ ہے یعنی بے وقوف انسانوں نے تو جنوں کی پناہ اس لیے ڈھونڈی کہ وہ ان کی آفتوں سے اپنے کو بچائیں لیکن جنوں نے جب دیکھا کہ کچھ انسان ان کے جال میں پھنسے ہیں تو انھوں نے اپنے شر سے محفوظ رکھنے کے بجائے ان کو اور تگنی کا ناچ نچایا۔
عرب کے مشرکین میں جنات سے متعلق یہ وہم تھا کہ وہ غیب کی خبریں معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں چنانچہ اسی چیز نے ان کے ہاں کہانت کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا جس کی بنیاد تمام تر، جیسا کہ اس کے محل میں وضاحت ہو چکی ہے، جھوٹ اور فریب پر تھی۔ کاہن اپنے جال میں پھنسے ہوئے بے وقوفوں میں سے جس کو ڈرا دیتے کہ فلاں خطرناک جن تم پر بہت برہم ہے، اگر تم نے اس کے لیے فلاں چیز کی قربانی یا اتنی نذر نہ گزرانی تو وہ آفت میں مبتلا کر دے گا تو وہ لازماً ان کے حکم کی تعمیل کرتا۔ یہاں تک کہ انہی کاہنوں کے حکم سے بعض بے وقوف لوگ جنوں کو راضی کرنے کے لیے اپنی اولاد تک کو، جیسا کہ سورۂ انعام میں ذکر ہے، قربان کر دیتے۔
اسی نوع کا ایک دوسرا وہم یہ پایا جاتا تھا کہ ہر وادی اور ہر پہاڑی جنوں کے کسی خاص گروہ کا مسکن ہوتی ہے۔ اگر اس وادی میں رات گزارنے کی نوبت آئے تو ضروری ہے کہ اس کے سردار جن کی پناہ حاصل کر لی جائے ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ کسی آفت میں مبتلا کر دے۔ چنانچہ دور جاہلیت میں اہل عرب جب کسی وادی میں شب گزارتے تو اس وادی کے سردار جن کی دہائی دے کر، اپنے گمان کے مطابق، اس کی پناہ حاصل کر لیتے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک خواہ مخواہ کی مصیبت تھی جس میں جنوں کے وہم نے ان کو مبتلا کر رکھا تھا۔
اسی طرح کی باتوں کی طرف ان مومن جنوں نے اشارہ کیا ہے اور ان کا مقصود یہ دکھانا ہے کہ توحید کے شعور سے محرومی کے باعث بے وقوف اور شریر جنوں میں کس طرح گٹھ جوڑ رہا ہے اور اس سے کیا کیا روحانی و مادی مفاسد ظہور میں آ رہے تھے جن کے سدباب کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ کتاب نازل فرمائی ہے۔
لفظ ’رِجَالٌ‘ کی تنکیر تحقیر اور تفخیم دونوں پر دلیل ہو سکتی ہے۔ آپ یہ معنی بھی لے سکتے ہیں کہ انسانوں کے اندر کے کچھ بے وقوف ہمارے اندر کے کچھ بے وقوفوں کی دہائی دیتے تھے اور یہ معنی بھی لے سکتے ہیں کہ انسانوں کے اندر کے کچھ شریر ہمارے اندر کے کچھ شریروں کی دہائی دیتے تھے بلکہ یہ معنی بھی اگر لیں کہ انسانوں کے اندر کے کچھ احمق ہمارے اندر کے کچھ شریروں کی دہائی دیتے ہیں تو یہ بھی عربیت کے خلاف نہیں ہو گا۔
اور یہ بھی کہ (انسان کچھ پہلے ہی سرکش تھے، پھر) انسانوں میں سے کچھ احمق (ہمارے) اِن جنوں میں سے کچھ شریروں کی دہائی دیتے رہے تو اِنھوں نے اُن کی سرکشی بڑھا دی۔
احمق اور شریر کے الفاظ ہم نے یہاں اُس تحقیر کی رعایت سے استعمال کیے ہیں جو لفظ ’رجال‘ کی تنکیر میں پوشیدہ ہے۔آیت میں جس بات کی طرف جنوں نے اشارہ کیا ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُس کی تفصیل فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’عرب کے مشرکین میں جنات سے متعلق یہ وہم تھا کہ وہ غیب کی خبریں معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ اِسی چیز نے اُن کے ہاں کہانت کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا جس کی بنیاد تمام تر ...جھوٹ اور فریب پر تھی۔ کاہن اپنے جال میں پھنسے ہوئے بے وقوفوں میں سے جس کو ڈرا دیتے کہ فلاں خطرناک جن تم پر بہت برہم ہے، اگر تم نے اُس کے لیے فلاں چیز کی قربانی یا اتنی نذر نہ گزرانی تو وہ آفت میں مبتلا کر دے گا، تو وہ لازماً اُن کے حکم کی تعمیل کرتا۔ یہاں تک کہ اِنھی کاہنوں کے حکم سے بعض بے وقوف لوگ جنوں کو راضی کرنے کے لیے اپنی اولاد تک کو، جیسا کہ سورۂ انعام میں ذکر ہے، قربانی کر دیتے۔
اِسی نوع کا ایک دوسرا وہم یہ پایا جاتا تھا کہ ہر وادی اور ہر پہاڑی جنوں کے کسی خاص گروہ کا مسکن ہوتی ہے۔ اگر اُس وادی میں رات گزارنے کی نوبت آئے تو ضروری ہے کہ اُس کے سردار جن کی پناہ حاصل کرلی جائے، ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ کسی آفت میں مبتلا کر دے۔ چنانچہ دورجاہلیت میں اہل عرب جب کسی وادی میں شب گزارتے تو اُس وادی کے سردار جن کی دہائی دے کر اپنے گمان کے مطابق اُس کی پناہ حاصل کر لیتے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۶۱۹)
اور یہ کہ “انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح اُنہوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔”
ابن عباس (رض) کہتے کہ جاہلیت کے زمانے میں جب عرب کسی سنسان وادی میں رات گزارتے تھے تو پکار کر کہتے ” ہم اس وادی کے مالک جن کی پناہ مانگتے ہیں “۔ عہد جاہلیت کی دوسری روایات میں بھی بکثرت اس بات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلا اگر کسی جگہ پانی اور چارہ ختم ہوجاتا تو خانہ بدوش بدو اپنا ایک آدمی کوئی دوسری جگہ تلاش کرنے کے لیے بھیجتے جہاں پانی اور چارہ مل سکتا ہو، پھر اس کی نشان دہی پر جب یہ لوگ نئی جگہ پہنچتے تو وہاں اترنے سے پہلے پکار پکار کر کہتے ” کہ ہم اس وادی کے رب کی پناہ مانگتے ہیں تاکہ یہاں ہم ہر آفت سے محفوظ رہیں “۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر غیر آباد جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے میں ہے اور اس سے پناہ مانگے بغیر وہاں کوئی ٹھہر جائے تو وہ جن یا تو خود ستاتا ہے یا دوسرے جنوں کو ستانے دیتا ہے۔ اسی بات کی طرف یہ ایمان لانے والے جن اشارہ کر رہے ہیں۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین کے خلیفہ انسان نے الٹا ہم سے ڈرنا شروع کردیا اور خدا کو چھوڑ کر وہ ہم سے پناہ مانگنے لگا تو ہماری قوم کے لوگوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہوگیا، ان کا کبر و غرور اور کفر و ظلم اور زیادہ بڑھ گیا، اور وہ گمراہی میں زیادہ جری ہوگئے۔
بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے
یعنی جب جنات نے یہ دیکھا کہ انسان ہم سے ڈرتے ہیں اور ہماری پناہ طلب کرتے ہیں تو ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگیا۔
اور یہ کہ انھوں نے بھی تمہاری ہی طرح یہ گمان کیا کہ اللہ کسی کو مرنے کے بعد زندہ کرنے والا نہیں ہے۔
توحید کے بعد قیامت کا حوالہ: توحید کے بعد یہ قیامت کے باب میں انھوں نے دونوں گروہوں کی غلط فہمی کی طرف اشارہ کیا کہ جس طرح تم اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہو کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کسی کو زندہ نہیں کرے گا اسی طرح انسان بھی اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن لوگوں کی اس غلط فہمی کو بھی دور کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔
بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ جس طرح تمہارے ہاں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی کو رسول بنا کر بھیجنے والا نہیں ہے اسی طرح انسانوں کے اندر یہ بھی غلط فہمی موجود تھی۔ مطلب یہ ہے کہ اس قرآن کے نزول نے اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کیا۔
اگرچہ آیت کے الفاظ کے اندر یہ معنی لینے کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ بات کھٹکتی ہے کہ قرآن کے اولین مخاطبوں میں، خواہ بنی اسماعیل ہوں یا بنی اسرائیل، پچھلی پیشین گوئیوں کی بنا پر ایک رسول کی بعثت کا انتظار تھا۔ اگرچہ اہل کتاب نے ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کا انکار نہ کر سکے۔ بنی اسماعیل کے اندر، ان کی امیت کے سبب سے، اس رسول کا تصور کچھ واضح نہیں تھا لیکن قطعیت کے ساتھ انکار انھوں نے بھی نہیں کیا۔ چنانچہ قرآن کے بعض مقامات میں ان کو ملامت فرمائی گئی ہے کہ رسول کی بعثت سے پہلے پہلے تو تم بڑھ چڑھ کر دعویٰ کرتے تھے کہ تمہارے اندر اللہ نے کوئی رسول بھیجا تو تم اس کی دعوت کو سب سے پہلے قبول کرنے والے اور اس کی ہدایت پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے بنو گے لیکن جب اللہ نے اس نعمت سے تمہیں نوازا تو تم اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
اور یہ بھی کہ تمھاری طرح اُنھوں نے بھی یہی سمجھا کہ اللہ (مرنے کے بعد پھر) کسی کو (زندہ) نہ اُٹھائے گا۔
n/a
اور یہ کہ “انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا۔”
اصل الفاظ ہیں ان لن یبعث اللہ احدا۔ اس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ” اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھائے گا “۔ چونکہ الفاظ جامع ہیں اس لیے ان کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی رسالت اور آخرت دونوں کا انکار پایا جاتا تھا۔ لیکن آگے کے مضمون کی مناسبت سے پہلا مفہوم ہی زیادہ قابل ترجیح ہے، کیونکہ اس میں یہ ایمان لانے والے جن اپنی قوم کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ تمہارا خیال غلط نکلا کہ اللہ کسی رسول کو مبعوث کرنے والا نہیں، آسمانوں کے دروازے ہم پر اسی وجہ سے بند کیے گئے ہیں کہ اللہ نے ایک رسول بھیج دیا ہے۔
اور (انسانوں) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کرلیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا (یا کسی کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا)
n/a
اور ہم نے آسمان کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ سخت پہرہ داروں اور شہابوں سے بھر دیا گیا۔
ایک نئے تجربے کا حوالہ: یہ انھوں نے اپنے ایک خاص تجربہ کا حوالہ دیا جو اس کتاب کے نزول کے دور میں بالکل پہلی بار اس کائنات کے نظام میں ان کو ہوا۔ انھوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ اس دوران میں ہم نے آسمان کا جائزہ لیا تو یہ دیکھا کہ آسمان زیریں پہرہ داروں اور شہابوں سے بھر دیا گیا ہے اور ہم اس کے بعض ٹھکانوں میں عالم بالا کے اسرار کی کچھ سن گن لینے کے لیے جو بیٹھا کرتے تھے تو اب اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اگر کوئی اب اس کی کوشش کرے گا تو ایک شہاب کو اپنی گھات میں پائے گا۔
قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان فرمائی گئی ہے کہ شیاطین جن عالم غیب کی باتیں اچکنے کے لیے جب گھات لگاتے ہیں تو ان پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے۔ جنوں کے اس ذاتی تجربہ سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے اور مزید برآں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ پہلے تو گھات لگانے کی کچھ گنجائش تھی لیکن جس دور کا وہ یہ تجربہ بیان کر رہے ہیں اس دور میں آسمان کا ہر گوشہ پہرہ داروں اور شہابوں سے اس طرح بھر دیا گیا تھا کہ جنوں کے لیے دراندازی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔
جنوں نے کائنات میں اس اہم تغیر کا ذکر تو کیا لیکن قوم کے سامنے اس کا کوئی سبب وہ نہیں بتا سکے۔ اس کی وجہ آگے کی آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس اہم تبدیلی کی حکمت ان پر اچھی طرح واضح نہیں تھی۔ تاہم نزول قرآن کے واقعہ کے ساتھ اس واقعہ کو ملا کر انھوں نے لوگوں کو یہ تاثر دے دیا کہ آسمان کے نظام میں یہ تبدیلی بھی قرآن کے نزول ہی سے تعلق رکھنے والی بات ہے۔
ہمارے نزدیک ان کا یہ قیاس صحیح تھا۔ قران کے متعدد مقامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسمان میں جو پہرا اس کو شیاطین کی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے وہ نزول وحی کے زمانے میں نہایت سخت کر دیا گیا تھا تاکہ ان کو وحی میں کسی دراندازی کی راہ نہ ملے۔ یوں تو یہ پہرا ہمیشہ ہی رہا ہے۔ نزول قرآن سے پہلے بھی شیاطین پر شہابوں کی مار پڑتی رہی ہے لیکن جس طرح حکومتیں اس شاہراہ کی ہر طرف سے ناکہ بندی کر دیتی ہیں جس پر سے شاہی خزانہ لے جایا جانے والا ہو یا بادشاہ کی سواری گزرنے والی ہو اسی طرح وحی کے نزول اور جبریل امینؑ کی آمد و شد کے دور میں معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی ہر طرف سے ناکہ بندی کر دی گئی تھی تاکہ اچکوں کی ہر راہ مسدود ہو جائے۔
جنوں کی اس اطلاع کا ذکر قرآن نے یہاں مشرکین عرب کے سامنے اس لیے کیا ہے کہ وہ قرآن پر یہ الزام جو لگاتے ہیں کہ یہ کاہنوں کے طرز کا کلام ہے جو نعوذ باللہ کوئی جن پیغمبرؐ پر القاء کرتا ہے۔ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کی تردید کے لیے خود جنوں کا یہ بیان کافی ہے کہ اس دور میں آسمان سے کوئی خبر لانا تو درکنار اس کے اندر ان کے جو ٹھکانے تھے اب ان تک پہنچنا بھی ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
اور یہ بھی کہ (اِس قرآن کو سننے سے پہلے ہم کچھ تلاش میں تھے، اِس لیے کہ) ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ سخت پہرے داروں سے پٹا پڑا ہے، اور (اُس میں) شہابوں کی بارش ہو رہی ہے۔
n/a
اور یہ کہ “ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے۔”
n/a
اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پر پایا
یعنی آسمانوں پر فرشتے چوکیداری کرتے ہیں کہ آسمانوں کی کوئی بات کوئی اور نہ سن لے اور یہ ستارے آسمان پر جانے والے شیاطین پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔
اور ہم اس کے بعض ٹھکانوں میں کچھ سن گن لینے کو بیٹھا کرتے تھے پر اب جو بیٹھے گا تو وہ ایک شہاب کو اپنی گھات میں پائے گا۔
ایک نئے تجربے کا حوالہ: یہ انھوں نے اپنے ایک خاص تجربہ کا حوالہ دیا جو اس کتاب کے نزول کے دور میں بالکل پہلی بار اس کائنات کے نظام میں ان کو ہوا۔ انھوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ اس دوران میں ہم نے آسمان کا جائزہ لیا تو یہ دیکھا کہ آسمان زیریں پہرہ داروں اور شہابوں سے بھر دیا گیا ہے اور ہم اس کے بعض ٹھکانوں میں عالم بالا کے اسرار کی کچھ سن گن لینے کے لیے جو بیٹھا کرتے تھے تو اب اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ اگر کوئی اب اس کی کوشش کرے گا تو ایک شہاب کو اپنی گھات میں پائے گا۔
قرآن میں یہ بات جگہ جگہ بیان فرمائی گئی ہے کہ شیاطین جن عالم غیب کی باتیں اچکنے کے لیے جب گھات لگاتے ہیں تو ان پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے۔ جنوں کے اس ذاتی تجربہ سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے اور مزید برآں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ پہلے تو گھات لگانے کی کچھ گنجائش تھی لیکن جس دور کا وہ یہ تجربہ بیان کر رہے ہیں اس دور میں آسمان کا ہر گوشہ پہرہ داروں اور شہابوں سے اس طرح بھر دیا گیا تھا کہ جنوں کے لیے دراندازی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔
جنوں نے کائنات میں اس اہم تغیر کا ذکر تو کیا لیکن قوم کے سامنے اس کا کوئی سبب وہ نہیں بتا سکے۔ اس کی وجہ آگے کی آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس اہم تبدیلی کی حکمت ان پر اچھی طرح واضح نہیں تھی۔ تاہم نزول قرآن کے واقعہ کے ساتھ اس واقعہ کو ملا کر انھوں نے لوگوں کو یہ تاثر دے دیا کہ آسمان کے نظام میں یہ تبدیلی بھی قرآن کے نزول ہی سے تعلق رکھنے والی بات ہے۔
ہمارے نزدیک ان کا یہ قیاس صحیح تھا۔ قران کے متعدد مقامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسمان میں جو پہرا اس کو شیاطین کی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے وہ نزول وحی کے زمانے میں نہایت سخت کر دیا گیا تھا تاکہ ان کو وحی میں کسی دراندازی کی راہ نہ ملے۔ یوں تو یہ پہرا ہمیشہ ہی رہا ہے۔ نزول قرآن سے پہلے بھی شیاطین پر شہابوں کی مار پڑتی رہی ہے لیکن جس طرح حکومتیں اس شاہراہ کی ہر طرف سے ناکہ بندی کر دیتی ہیں جس پر سے شاہی خزانہ لے جایا جانے والا ہو یا بادشاہ کی سواری گزرنے والی ہو اسی طرح وحی کے نزول اور جبریل امینؑ کی آمد و شد کے دور میں معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی ہر طرف سے ناکہ بندی کر دی گئی تھی تاکہ اچکوں کی ہر راہ مسدود ہو جائے۔
جنوں کی اس اطلاع کا ذکر قرآن نے یہاں مشرکین عرب کے سامنے اس لیے کیا ہے کہ وہ قرآن پر یہ الزام جو لگاتے ہیں کہ یہ کاہنوں کے طرز کا کلام ہے جو نعوذ باللہ کوئی جن پیغمبرؐ پر القاء کرتا ہے۔ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کی تردید کے لیے خود جنوں کا یہ بیان کافی ہے کہ اس دور میں آسمان سے کوئی خبر لانا تو درکنار اس کے اندر ان کے جو ٹھکانے تھے اب ان تک پہنچنا بھی ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
اور یہ بھی کہ ہم پہلے اُس کے ٹھکانوں میں سننے کے لیے جگہ پا لیتے تھے، مگر (ہم نے دیکھا کہ) اب جو کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے، اپنے لیے گھات میں ایک انگارا پاتا ہے۔
یہ قرآن کی حقانیت پر جنوں کی شہادت ہے جو ملا ء اعلیٰ میں اُس کے نزول کا اہتمام دیکھ کر اُنھوں نے دی اور واضح کر دیا کہ قریش جس کتاب کو کاہنوں کا کلام قرار دے کر رد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اُس کا منبع کہاں ہے اور وہ کس ہستی کی طرف سے اور کس شان کے ساتھ نازل ہو رہی ہے۔
اور یہ کہ “پہلے ہم سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔”
یہ ہے وہ وجہ جس کی بنا پر یہ جن اس تلاش میں نکلے تھے کہ آخر زمین پر ایسا کیا معاملہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کی خبروں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس قدر سخت انتظامات کیے گئے ہیں کہ اب ہم عالم بالا میں سن گن لینے کا کوئی موقع نہیں پاتے اور جدھر بھی جاتے ہیں مار بھگائے جاتے ہیں۔
اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لئے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے
اور آسمانی باتوں کی کچھ گن سن پا کر کاہنوں کو بتلا دیا کرتے تھے جس میں وہ اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیا کرتے تھے۔
لیکن بعثت محمدیہ کے بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا، اب جو بھی اس نیت سے اوپر جاتا ہے، شعلہ اس کی تاک میں ہوتا ہے اور ٹوٹ کر اس پر گرتا ہے۔
اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ زمین والوں کے لیے کوئی برائی چاہی گئی ہے یا ان کے رب نے ان کے لیے بھلائی چاہی ہے۔
اہل زمین کے لیے ایک مبارک قِران کی طرف اشارہ: ان جنوں پر نظام کائنات میں اس اہم تبدیلی کی اصل علت، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اچھی طرح واضح نہیں تھی اس وجہ سے انھوں نے اس کی کوئی قطعی وجہ بیان کرنے کے بجائے اس پر صرف اپنے تردد کا اظہار کیا کہ اگرچہ اس کا سبب ہم پر واضح نہیں ہے تاہم یہ زمین میں کسی اہم انقلاب کا پیش خیمہ ضرور ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ انقلاب اہل زمین کے لیے سبب شر ہو گا یا اس میں ان کے رب کی طرف سے کوئی بڑا خیر مضمر ہے تو اس کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔
اگرچہ انھوں نے بربنائے احتیاط اپنی رائے واضح نہیں کی لیکن اسلوب کلام شاہد ہے کہ اہل زمین کے لیے انھوں نے اس کو ایک فال نیک سمجھا۔ چنانچہ شر کا ذکر تو انھوں نے مجہول کے اسلوب میں کیا لیکن رشد و ہدایت کی توقع کا ذکر بصیغۂ معروف ’اَمْ أَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا‘ کے الفاظ سے کیا۔ ان دونوں اسلوبوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے ادب و احترام کے پہلو سے جو فرق ہے اس کی وضاحت سورۂ کہف کی تفسیر میں ہو چکی ہے۔ یہاں خاص طور پر جو بات نگاہ میں رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان کا ظن غالب یہ نہ ہوتا کہ اس میں اہل زمین کے لیے خیر ہے تو اس دوسرے فقرے کو بھی پہلے فقرے کی طرح مجہول کے مبہم اسلوب ہی میں کہتے۔ لیکن قرآن اور اس تبدیلی کو پہلو بہ پہلو دیکھ کر ان کا ذہن اسی طرف گیا کہ یہ دونوں واقعے اہل زمین کے لیے ایک ہی نوع کے ہیں اور یہ قِرانُ السعدین کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اور یہ بھی کہ (اُس وقت) ہم نہیں جانتے تھے کہ زمین والوں کے حق میں کوئی برائی مقصود ہے یا اُن کے پروردگار نے اُن کے لیے کسی خیر کا ارادہ کیا ہے۔
برائی کے لیے آیت میں ’اُرِیْدَ‘اور بھلائی کے لیے ’اَرَادَ بِھِمْ رَبُّھُمْ رَشَدًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ دو مختلف اسلوب کسی چیز کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرنے میں جنوں کے پاس ادب پر بھی دلالت کرتے ہیں اور اِس بات پر بھی کہ اُن کا گمان غالب یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے کسی بہت بڑی بھلائی ہی کا ارادہ کیا ہے۔ یہ بات نہ ہوتی تو پہلے فقرے کی طرح دوسرا فقرہ بھی وہ مجہول کے مبہم اسلوب میں ادا کرتے۔
اور یہ کہ “ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کا رب اُنہیں راہ راست دکھانا چاہتا ہے۔”
اس سے معلوم ہوا کہ عالم بالا میں اس قسم کے غیر معمولی انتظامات دو ہی حالتوں میں کیے جاتے تھے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہل زمین پر کوئی عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہوا اور منشائے الہی یہ ہو کہ اس کے نزول سے پہلے جن اس کی بھنک پا کر اپنے دوست انسانوں کو خبردار نہ کردیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے زمین میں کسی رسول کو مبعوث فرمایا ہو اور تحفظ کے ان انتظامات سے مقصود یہ ہو کہ رسول کی طرف جو پیغامات بھیجے جا رہے ہیں ان میں نہ تو شیاطین کسی قسم کی خلل اندازی کرسکیں اور نہ قبل از وقت یہ معلوم کرسکیں کہ پیغمبر کو کیا ہدایات دی جا رہی ہیں۔ پس جنوں کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے آسمان میں جو چوکی پہرے دیکھے اور شہابوں کی اس بارش کا مشاہدہ کیا تو ہمیں یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ ان دونوں صورتوں میں سے کون سی صورت درپیش ہے۔ آیا اللہ تعالیٰ نے زمین میں کسی قوم پر یکایک عذاب نازل کردیا ہے ؟ یا کہیں کوئی رسول مبعوث ہوا ہے ؟ اسی تلاش میں ہم نکلے تھے کہ ہم نے وہ حیرت انگیز کلام سنا جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ نے عذاب نازل نہیں کیا ہے بلکہ خلق کو راہ راست دکھانے کے لیے ایک رسول مبعوث فرما دیا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الحجر، حواشی 8 تا 12 ۔ جلد چہارم، الصافات، حاشیہ 7 ۔ جلد ششم، الملک، حاشیہ 11) ۔
ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے
یعنی اس حراست آسمانی سے مقصد اہل زمین کے لئے کسی شر کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہچانا یعنی ان پر عذاب نازل کرنا یا بھلائی کا ارادہ یعنی رسول کا بھیجنا ہے۔
امین احسن اصلاحی
کہہ دو، مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کو سنا تو انھوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ ہم نے ایک نہایت دل پذیر قرآن سنا۔
جنوں کے تاثرات کی اطلاع پیغمبرؐ کو وحی کے ذریعہ ہوئی: ’قُلْ اُوْحِیَ‘ کے الفاظ سے یہ بات صاف عیاں ہے کہ جنوں کے جو تاثرات اس سورہ میں بیان ہوئے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست جنوں کی زبانی نہیں بلکہ وحی الٰہی کے ذریعہ معلوم ہوئے۔ ان کی ایک جماعت نے سرِ راہے کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھتے سنا جس کی کشش نے ان کے دلوں کو اس طرح موہ لیا کہ وہ اس کے سننے میں ہمہ تن محو ہو گئے اور پھر اس دل پذیر کلام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ پلٹے تو اپنی قوم کو اس کی دعوت دینے اٹھ کھڑے ہوئے۔
واقعہ کو سنانے کا مقصد: یہ کس موقع کا ذکر ہے؟ اس کا کوئی قطعی جواب دینا مشکل ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ اسی واقعہ کی تفصیل ہے جس کا اجمالی ذکر سورۂ احقاف میں ہوا ہے۔ وہاں روایات کی روشنی میں اس کے موقع و محل کی وضاحت ہم کر چکے ہیں۔ جنوں کے ان تاثرات کی آپ کو اس لیے اطلاع دی گئی کہ اپنی قوم کو آپ سنا دیں کہ جس کلام بلاغت نظام کے ساتھ تمہارا سلوک یہ ہے کہ اس کو سن کر تم کانوں میں انگلیاں دے لیتے اور اس کے سنانے والے کے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہو درآنحالیکہ یہ کلام تمہارے ہی لیے اترا ہے، اس کلام کو سن کر ذی صلاحیت جنات اس طرح اس کے عاشق ہو جاتے ہیں کہ اپنی قوم کو اس کی دعوت دینے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں حالانکہ وہ براہ راست اس کے مخاطب بھی نہیں۔
لفظ ’قُلْ‘ اس بات پر دلیل ہے کہ جنوں کے ان تاثرات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقصد سے آگاہ فرمایا گیا کہ آپ قریش کے لیڈروں کو یہ سنا دیں کہ ان کو کچھ غیرت آئے۔ ضمناً اس میں آپ کے لیے تسلی بھی ہے کہ نااہلوں کی ناقدری سے آپ آزردہ نہ ہوں۔ اگر یہ لوگ اس کی قدر نہیں کر رہے ہیں تو اس میں قصور نہ اس کلام کا ہے نہ آپ کا بلکہ یہ خود ان لوگوں کے اپنے دلوں کے فساد کا نتیجہ ہے۔
جنوں کی دعوت اپنی قوم کو: ’فَقَالُوْا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا‘۔ یہ وہ دعوت ہے جو انھوں نے اس کلام کو سننے کے بعد اپنی قوم کو دی۔ یعنی اس کو سن کر وہ صرف واہ واہ کر کے نہیں رہ گئے بلکہ انھوں نے حق کی قدردانی اور اپنی قوم کی خیرخواہی کا یہ لازمی تقاضا سمجھا کہ جس نعمت آسمانی سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ مند فرمایا اس سے وہ اپنی قوم کو بھی بہرہ مند کریں۔
’عَجَبٌ‘ مصدر ہے اس وجہ سے ’عجیب‘ کے مقابل میں اس کے اندر مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ انھوں نے اس کلام کی دل پذیری، اثر انگیزی اور حکمت آفرینی کے پہلو سے استعمال کیا۔ عربی میں یہ لفظ صرف کسی شے کے انوکھے پن کے اظہار کے لیے نہیں بلکہ اس کی دل پذیری اور اثر انگیزی کے پہلو کو ظاہر کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہاں یہ اسی پہلو سے آیا ہے۔ سورۂ احقاف میں یہی بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
قَالُوْا یَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا کِتَابًا أُنۡزِلَ مِنۡ بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِیْ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ (الاحقاف ۴۶: ۳۰)
’’اے ہماری قوم کے لوگو! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد اپنے پہلے کی پیشین گوئیوں کی مصداق بنا کر نازل کی گئی ہے جو حق اور ایک بالکل سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔‘‘
اس سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جنات صرف اپنی ہی زبان نہیں بلکہ جس علاقہ سے وہ تعلق رکھتے ہیں اس علاقہ کے انسانوں کی زبان بھی سمجھتے ہیں اور ان کے اندر ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس زبان کے حسن و قبح کے اچھی طرح پرکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔