زمین اورآسمانوں کی سب چیزیں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ (اللہ)، جو بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔
یہ تمہید کا جملہ ہے۔ اِس میں فعل مضارع ’یُسَبِّحُ‘ دوام و استمرار پر دلالت کرتا اور تصویر حال کا فائدہ دے رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ بادشاہ ہے، اِس لیے جب چاہتا ہے، اپنا فرمان واجب الاذعان بندوں کے لیے نازل کر دیتا ہے؛ قدوس ہے، اِس لیے بندوں کے خیر و شر سے بے نیاز نہیں ہو سکتا؛ زبردست ہے، اِس لیے اپنے فیصلوں میں کسی سے مرعوب نہیں ہوتا؛ اور حکیم ہے، اِس لیے جو کام کرتا ہے، ایک خاص مقصد سے اور اپنی اسکیم کے مطابق کرتا ہے، اُس کا کوئی فیصلہ الل ٹپ نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہود اگر امیوں میں پیغمبر کی بعثت پر معترض ہیں تو اُنھیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کس ہستی کے فیصلے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ زمین و آسمان کی سب چیزیں اُس کی تسبیح کرتی ہیں۔ وہ اِس سے پاک ہے کہ کسی کی جانب داری کرے۔ یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ اِن کی خواہشات کے علی الرغم اُس کا فیصلہ ہر حال میں نافذ ہو جائے گا۔
اللہ کی تسبیح کر ہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے۔۔۔ بادشاہ ہے، قدوس ہے، زبردست اور حکیم ہے ۔
تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورة حدید، حواشی 1، 2، الحشر، حواشی 36، 37، 41 ۔ آگے کے مضمون سے یہ تمہید بڑی گہری مناسبت رکھتی ہے۔ عرب کے یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات وصفات اور کارناموں میں رسالت کی صریح نشانیاں بہ چشم سر دیکھ لینے کے باوجود، اور اس کے باوجود کہ توراۃ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آپ کے آنے کی صریح بشارت دی تھی جو آپ کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہوتی تھی، صرف اس بنا پر آپ کا انکار کر رہے تھے کہ اپنی قوم اور نسل سے باہر کے کسی شخص کی رسالت مان لینا انہیں سخت ناگوار تھا۔ وہ صاف کہتے تھے کہ جو کچھ ہمارے ہاں آیا ہے ہم صرف اسی کو مانیں گے۔ دوسرے کسی تعلیم کو، جو کسی غیر اسرائیلی نبی کے ذریعہ سے آئے، خواہ وہ خدا ہی کی طرف سے ہو، تسلیم کرنے کے لیے وہ قطعی تیار نہ تھے۔ آگے کی آیتوں میں اسی رویہ پر انہیں ملامت کی جا رہی ہے، اس لیے کلام کا آغاز اس تمہیدی فقرے سے کیا گیا ہے۔ اس میں پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ یعنی یہ پوری کائنات اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ ان تمام نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے جن کی بنا پر یہودیوں نے اپنی نسلی برتری کا تصور قائم کر رکھا ہے۔ وہ کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ جانب داری (Favouristism) کا اس کے ہاں کوئی کام نہیں۔ اپنی ساری مخلوق کے ساتھ اس کا معاملہ یکساں عدل اور رحمت اور ربوبیت کا ہے۔ کوئی خاص نسل اور قوم اس کی چہیتی نہیں ہے کہ وہ خواہ کچھ کرے، بہرحال اس کی نوازشیں اسی کے لیے مخصوص رہیں، اور کسی دوسری نسل یا قوم سے اس کو عداوت نہیں ہے کہ وہ اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتی ہو تو وہ اس کی عنایات سے محروم رہے۔ پھر فرمایا گیا کہ وہ بادشاہ ہے، یعنی دنیا کی کوئی طاقت اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی نہیں ہے۔ تم بندے اور رعیت ہو۔ تمہارا یہ منصب کب سے ہوگیا کہ تم یہ طے کرو کہ وہ تمہاری ہدایت کے لیے اپنا پیغمبر کسے بنائے اور کسے نہ بنائے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ وہ قدوس ہے۔ یعنی اس سے بدرجہا منزہ اور پاک ہے کہ اس کے فیصلے میں کسی خطا اور غلطی کا امکان ہو۔ غلطی تمہاری سمجھ بوجھ میں ہو سکتی ہے۔ اس کے فیصلے میں نہیں ہو سکتی۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو مزید صفتیں بیان فرمائی گئیں۔ ایک یہ کہ وہ زبردست ہے، یعنی اس سے لڑ کر کوئی جیت نہیں سکتا۔ دوسری یہ کہ وہ حکیم ہے، یعنی جو کچھ کرتا ہے وہ عین مقتضائے دانش ہوتا ہے، اور اس کی تدبیریں ایسی محکم ہوتی ہیں کہ دنیا میں کوئی ان کا توڑ نہیں کرسکتا۔
ساری چیزیں) جو آسمان اور زمین میں ہیں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں (جو) بادشاہ نہایت پاک (ہے) غالب و با حکمت ہے۔
n/a
اسی نے اٹھایا ہے امیوں میں ایک رسول انہی میں سے جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور بے شک یہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔
فرمایا کہ اسی خدا نے جو اس کائنات کا حقیقی بادشا ہے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو پاک کرے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
تدبر کیجیے تو معلوم ہو گا کہ تمہید کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جو صفات گنائی ہیں انہی کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے اس رسول کی بعثت ہوئی ہے جس کا یہاں ذکر ہے۔
رسول اللہ صلعم کی بعثت اللہ تعالیٰ کی صفات کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہوئی: وہی خلق کا بادشاہ حقیقی ہے۔ اس کی اس صفت کا تقاضا یہ ہوا کہ اس نے اپنی رعیت کو اپنے احکام و ہدایات سے آگاہ کرنے کے لیے اس کی طرف اپنا رسول بھیجا جس کی صفت یہ ہے کہ ’یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ‘ وہ لوگوں کو اس کی تعلیمات و ہدایات پڑھ کر سنا رہا ہے۔
وہ پاک اور قدوس ہے اس وجہ سے اس نے یہ چاہا کہ وہ اپنے رسول اور اپنی تعلیمات کے ذریعہ سے لوگوں کو پاکیزہ بنائے چنانچہ اس کا رسول لوگوں کو عقائد و اعمال اور اخلاق کی خرابیوں سے پاک کر رہا ہے۔ (یُزَکِّیْھِمْ)۔
پھر وہ ’عزیز‘ اور ’حکیم‘ ہے اس وجہ سے اس نے ایسا رسول بھیجا ہے جو اس کے بندوں کو شریعت اور حکمت کی تعلیم دے رہا ہے۔ یہاں لفظ ’کتاب‘ شریعت اور قانون کے مفہوم میں ہے۔ شریعت اور قانون کا مؤثر نفاذ اسی کی طرف سے ہوتا ہے جو غالب و مقتدر ہو لیکن اللہ تعالیٰ صرف غالب و مقتدر ہی نہیں بلکہ ’حَکِیْم‘ بھی ہے اس وجہ سے وہ اپنے رسول کے ذریعہ سے جس قانون کی تعلیم دے رہا ہے وہ مجرد اس کے زور و اقتدار کا مظہر نہیں بلکہ اس کی حکمت اور بندوں کی دنیوی و اخروی مصلحت کا بھی مظہر ہے۔
یہ آیت بنی اسمٰعیل پر امتنان اور اظہار فضل و احسان کے محل میں ہے اس وجہ سے یہاں ان کے لیے لفظ ’اُمِّیّٖنَ‘ بطور ایک وصف امتیازی کے استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ پر اس کے محل میں بحث ہو چکی ہے لیکن اتنی بات کی یاددہانی یہاں بھی ضروری ہے کہ یہ اصطلاح اگرچہ اہل کتاب بالخصوص یہود کی وضع کردہ تھی جس میں ان کے اندر مذہبی پندار کی جھلک بھی تھی اور اہل عرب کے لیے ان کا جذبۂ تحقیر بھی نمایاں تھا، لیکن بنی اسمٰعیل چونکہ کتاب و شریعت سے ناآشنا تھے اس وجہ سے بغیر کسی احساس کہتری کے انھوں نے اس لقب کو اپنے لیے خود بھی اختیار کر لیا۔ پھر جب قرآن نے ان کے لیے اور ان کی طرف مبعوث ہونے والے رسول کے لیے اس لفظ کو بطور ایک وصف امتیازی کے ذکر فرمایا تو اس کا رتبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اہل عرب کے لیے اس نے گویا ایک تشریف آسمانی کی حیثیت حاصل کر لی جس سے قدرت کی یہ شان ظاہر ہوئی کہ جن کو ان پڑھ اور گنوار کہہ کر حقیر ٹھہرایا گیا وہ تمام عالم کی تعلیم و تہذیب پر مامور ہوئے اور جن کو اپنے حامل کتاب و شریعت ہونے پر ناز تھا وہ ’کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا‘ ’چار پائے بروکتا بے چند‘ کے مصداق قرار پائے۔
یہاں یہ لفظ عربوں کے جذبۂ شکرگزاری کو ابھارنے کے لیے استعمال ہوا ہے کہ انھیں اپنے رب کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے ان پر نظر کرم فرمائی۔ ان کی اصلاح و تربیت اور ان کو کتاب و حکمت سے بہرہ مند کرنے کے لیے انہی کے اندر سے ایک رسول مبعوث فرمایا اور جاہلیت کی اس تاریکی سے ان کو نکالا جس میں وہ اپنی امیت کے سبب سے اب تک گھرے ہوئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کو یہ نعمت مل گئی ہے وہ اس کو حرز جاں بنائیں اور کوشش کریں کہ دوسرے بھی اس کی قدر کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ناقدری کے سبب سے وہ اس سے محروم ہو کر رہ جائیں اور حاسدوں کا مقصد پورا ہو جائے۔
یہاں نبئ امی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات مذکور ہوئی ہیں ان پر سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں۔ اس پر ایک نظر ڈال لیجیے تاکہ آپ کی بعثت کے مقاصد سے متعلق جو غلط فہمیاں منکرین حدیث نے پھیلائی ہیں وہ دور ہو جائیں۔ بنی اسمٰعیل کے اندر، بعینہٖ انہی صفات کے پیغمبر اٹھائے جانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی۔ سورۂ بقرہ میں یہ دعا یوں مذکور ہے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (البقرہ ۲: ۱۲۹)
’’اے ہمارے رب! اور تو بھیجیو ان کے اندر سے ایک رسول انہی میں سے جو تیری آیتیں ان کو پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے۔ بے شک تو غالب و حکیم ہے۔‘‘
آنحضرتؐ دعائے ابراہیمی کے مظہر ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح یہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہیں اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کے بھی مظہر ہیں جو آپ نے اولاد اسمٰعیل سے متعلق فرمائی تھی۔ گویا گوناگون صفتیں آپ کے اندر جمع ہیں۔ یہ نوید مسیح ہیں اور دعائے ابراہیم ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہیں، اور پھر یہ کہ وہ تمہارے ہی اندر سے ایک فرد ہیں۔ تمہارے اور ان کے درمیان اجنبیت و غیریت کا کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ تمہیں حقیر ٹھہرانے والے تمہیں یہ طعنہ نہیں دے سکتے کہ تمہیں ان کے یا کسی اور کے واسطہ سے روشنی ملی بلکہ اللہ نے تمام خلق پر تم کو سربلند کیا کہ تمہارے ذریعہ سے سارے جہان میں اجالا کرنے کا سامان کیا۔
آنحضرتؐ کی بعثت تمام خلق کی طرف ہے: یہ امر یہاں واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اگرچہ امیوں کے اندر ہوئی لیکن آپ کی دعوت تمام خلق کے لیے ہے۔ اس مسئلہ پر مفصل بحث اس کے محل میں ہم کر چکے ہیں۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث ہوئے: ایک بعثت خاص، دوسری بعثت عام۔ آپ کی بعثت خاص بنی اسمٰعیل کی طرف ہوئی اور اس بعثت کے فرائض کی تکمیل حضورؐ نے بذات خود فرمائی۔ آپ کی بعثت عام، جو تمام خلق کی طرف ہوئی، اس کے فرائض انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو ’شہدآء اللّٰہ فی الارض‘ کے منصب پر سرفراز فرمایا جو اب قیامت تک کے لیے اس فرض کی انجام دہی پر مامور ہے ’شہدآء اللّٰہ فی الارض‘ کے ہراول دستہ کی حیثیت چونکہ امیوں ہی کو حاصل ہوئی اس وجہ سے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ جو امی تھے اللہ تعالیٰ نے انہی کے واسطہ سے تمام خلق کو روشنی دکھائی۔
’وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘۔ یہ امیوں کے جذبۂ شکر و سپاس کو ابھارنے کے لیے اس تاریکی کی طرف توجہ دلائی ہے جو ماضی میں ان پر چھائی رہی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ جاہلیت کی اس گھٹا ٹوپ تاریکی کا خیال کریں جس میں وہ گرفتار رہ چکے ہیں تب انھیں اپنے رب کے فضل و احسان کا کچھ اندازہ ہو گا کہ اس نے ان کو کس چاہ ظلمت سے نکالا اور کس آسمان رفعت و عزت پر پہنچایا!
اُسی نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اُنھیں سناتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور (اِس کے لیے) اُنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔
یعنی اُن لوگوں کے اندر جو صدیوں سے خدا کی کتاب اور نبوت سے بہرہ یاب نہیں ہوئے تھے۔ اِس سے بنی اسمٰعیل مراد ہیں۔ یہود اِسی بنا پر اُن کو امی کہتے تھے، لیکن بنی اسمٰعیل نے اِس میں چھپے ہوئے مذہبی پندار اور جذبۂ تحقیر کے باوجود اِس پر کبھی اعتراض نہیں کیا، بلکہ اِسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ قرآن نازل ہوا تو اُس نے بھی یہ لفظ اِسی طریقے سے استعمال فرمایا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...قرآن نے اُن کے لیے اور اُن کی طرف مبعوث ہونے والے رسول کے لیے اِس لفظ کو بطور ایک وصف امتیازی کے ذکر فرمایا تو اِس کا رتبہ اتنا بلند ہو گیا کہ اہل عرب کے لیے اِس نے گویا ایک تشریف آسمانی کی حیثیت حاصل کر لی جس سے قدرت کی یہ شان ظاہر ہوئی کہ جن کو ان پڑھ اور گنوار کہہ کر حقیر ٹھیرایا گیا، وہ تمام عالم کی تعلیم و تہذیب پر مامور ہوئے اور جن کو اپنے حامل کتاب و شریعت ہونے پر ناز تھا، وہ ’کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا‘ ’چارپائے برو کتابے چند‘ کے مصداق قرار پائے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۳۷۸)
بنی اسمٰعیل میں سے جو لوگ ایمان لا چکے تھے، مگر رسول کی قدر شناسی اور اتباع و اطاعت میں جن سے کوتاہیاں ہو جاتی تھیں، وہی سورہ کے مخاطبین ہیں۔ اُنھیں توجہ دلائی ہے کہ اللہ نے یہ رسول اُنھی کے اندر سے اٹھایا ہے تاکہ وہ جاہلیت کی اُس تاریکی سے نکلیں جو اب تک اُن پر چھائی رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کو یہ نعمت ملی ہے، وہ اِس پر خدا کا شکر ادا کریں ، اِسے حرز جاں بنائیں اور دوسروں کو بھی دعوت دیں کہ وہ اِس کی قدر کریں۔
یہ اُنھی مسلمانوں پرامتنان اور اظہار فضل و احسان کے لیے مزید وضاحت ہے کہ اِس رسول کے ذریعے سے جو دعوت پیش کی جا رہی ہے ، وہ اُن کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو پاکیزہ بنانے کی دعوت ہے۔ پھر اِس سے بڑھ کر اُن کے حق میں نصح و خیر خواہی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ اِس مفہوم کے لیے عربی زبان کا جو لفظ اختیار کیا گیا ہے ،وہ تزکیہ ہے۔ اِس کے معنی کسی چیز کو آلایشوں سے پاک کرنے کے بھی ہیں اور نشوونما دینے کے بھی۔ انبیا علیہم السلام انسانوں کو جس قانون و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اُس سے یہ دونوں ہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔
اصل میں ’یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’الْکِتٰب‘ قرآن کی زبان میں جس طرح خط اور کتاب کے معنی میں آتا ہے، اِسی طرح قانون کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور ’الْحِکْمَۃ‘ جب عطف ہو کر آتے ہیں تو ’الْکِتٰب‘ سے شریعت اور ’الْحِکْمَۃ‘ سے دین کی حقیقت اور ایمان و اخلاق کے مباحث مراد ہوتے ہیں۔
یہ مخاطبین کے جذبۂ شکر و سپاس کو ابھارنے کے لیے اُس تاریکی کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں وہ گھرے ہوئے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...مطلب یہ ہے کہ اگر وہ جاہلیت کی اُس گھٹا ٹوپ تاریکی کا خیال کریں جس میں وہ گرفتار رہ چکے ہیں، تب اُنھیں اپنے رب کے فضل و احسان کا کچھ اندازہ ہو گا کہ اُس نے اُن کو کس چاہ ظلمت سے نکالا اور کس آسمان رفعت و عزت پر پہنچایا!‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۳۷۹)
وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور ان کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ۔
یہاں امی کا لفظ یہودی اصطلاح کے طور پر آیا ہے، اور اس میں ایک لطیف طنز پوشیدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو یہودی حقارت کے ساتھ امی کہتے اور اپنے مقابلہ میں ذلیل سمجھتے ہیں، انہیں میں اللہ غالب و دانا نے ایک رسول اٹھایا ہے۔ وہ خود نہیں اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس کا اٹھانے والا وہ ہے جو کائنات کا بادشاہ ہے، زبردست اور حکیم ہے، جس کی قوت سے لڑ کر یہ لوگ اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں ” اُمی ” کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے اور سب جگہ اس کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جس کی پیروی وہ کرتے ہوں۔ مثلاً فرمایا : قَلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَا لْاُمِّیِّنَءَ اَسْلَمْتُمْ (آل عمران۔ 20) ۔ ” اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ ” یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں، اور ان کو اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ سے الگ ایک گروہ قرار دیا گیا ہے۔ کسی جگہ یہ لفظ خود اہل کتاب کے اَن پڑھ اور کتاب اللہ سے ناواقف لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا : وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَانِیَّ (البقرہ۔ 78) ۔ ” ان یہودیوں میں کچھ لوگ امی ہیں، کتاب کا کوئی علم نہیں رکھتے، بس اپنی آرزوؤں ہی کو جانتے ہیں “۔ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد دنیا کے تمام غیر یہودی ہیں۔ مثلاً فرمایا : ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ (آل عمران۔ 75 ) ۔ یعنی ” ان کے اندر یہ بد دیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں کا مال مار کھانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے “۔ یہی تیسرے معنی ہیں جو آیت زیر بحث میں مراد لیے گئے ہیں۔ یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ گوئیم کا ہم معنی ہے، جس کا ترجمہ انگریزی بائیبل میں Gentiles کیا گیا ہے، اور اس سے مراد تمام غیر یہودی یا غیر اسرائیلی لوگ ہیں۔
لیکن اس یہودی اصطلاح کی اصل معنویت محض اس کی اس تشریح سے سمجھ میں نہیں آسکتی۔ دراصل عبرانی زبان کا لفظ گوئیم ابتداءً محض اقوام کے معنی میں بولا جاتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے اسے پہلے تو اپنے سوا دوسری قوموں کے لیے مخصوص کردیا، پھر اس کے اندر یہ معنی پیدا کردیے کہ یہودیوں کے سوا باقی تمام اقوام ناشائستہ، بد مذہب، ناپاک اور ذلیل ہیں، حتیٰ کہ حقارت اور نفرت میں یہ لفظ یونانیوں کی اصطلاح Barbarian سے بھی بازی لے گیا جسے وہ تمام غیر یونانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ربیوں کے لٹریچر میں گوئیم اس قدر قابل نفرت لوگ ہیں کہ ان کو انسانی بھائی نہیں سمجھا جاسکتا، ان کے ساتھ سفر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ان میں سے کوئی شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آنے والا مسیح تمام گوئیم کو ہلاک کر دے گا اور جلا کر خاکستر کر ڈالے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ 64 ) ۔
قرآن مجید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفات چار مقامات پر بیان کی گئی ہیں، اور ہر جگہ ان کے بیان کی غرض مختلف ہے۔ البقرہ آیت 129 میں ان کا ذکر اہل عرب کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ آنحضور کی بعثت، جسے وہ اپنے لیے زحمت و مصیبت سمجھ رہے تھے، در حقیقت ایک بڑی نعمت ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کرتے تھے۔ البقرہ آیت 151 میں انہیں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قدر پہچانیں اور اس نعمت سے پورا پورا فیض حاصل کریں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے۔ آل عمران آیت 164 میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لیے ان کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ کتنا بڑا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اپنا رسول بھیج کر کیا ہے اور یہ لوگ کتنے نادان ہیں کہ اس کی قدر نہیں کرتے۔ اب چوتھی مرتبہ انہیں اس سورة میں دہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحاً ایک رسول کا کام ہے۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان، مضامین، انداز بیان، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں، ان کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں، اور ان کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتاب الٰہی کا منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیاء کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسول بر حق ہونا اس کے کارناموں سے علانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کردیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجائے اس قوم میں سے اٹھایا جسے تم امی کہتے ہو۔ “
یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ایک اور ثبوت ہے جو یہودیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے عرب کی سر زمین میں آباد تھے اور اہل عرب کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، اور تمدنی زندگی کا کوئی گوشہ ان سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ان کی اس سابق حالت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ چند سال کے اندر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کی جیسی کایا پلٹ گئی ہے اس کے تم عینی شاہد ہو۔ تمہارے سامنے وہ حالت بھی ہے جس میں یہ لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے مبتلا تھے۔ وہ حالت بھی ہے جو اسلام لانے کے بعد ان کی ہوگئی، اور اسی قوم کے ان لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ کیا یہ کھلا کھلا فرق، جسے ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے، تمہیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کے سوا کسی کا کارنامہ نہیں ہوسکتا ؟ بلکہ اس کے سامنے تو پچھلے انبیاء تک کے کارنامے ماند پڑگئے ہیں۔
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
اُ مِّیِّینَ سے مراد عرب ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ ان کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت دوسروں کے کے لئے نہیں تھی، لیکن چونکہ اولین مخاطب وہ تھے اس لئے اللہ کا ان پر زیادہ احسان تھا۔
اور اِنہی میں سے اُن دوسروں میں بھی جو ابھی اِن میں شامل نہیں اور اللہ غالب و حکیم ہے۔
اُن امیوں کو بانداز لطیف دعوت جو ابھی اسلام سے محروم تھے: اس کا عطف ’اُمِّیّٖن‘ پر ہے۔ یعنی جن امیوں کے اندر اس رسول کی بعثت ہوئی ہے انہی میں سے وہ دوسرے بھی ہیں جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ یہ اشارہ ان بنی اسمٰعیل کی طرف ہے جنھوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ اس سے یہ بات نکلی کہ اوپر اگرچہ لفظ ’اُمِّیّٖنَ‘ عام استعمال ہوا ہے لیکن اس سے مراد صرف وہ بنی اسمٰعیل ہیں جو مشرف باسلام ہو چکے تھے۔ چنانچہ آیت کا ٹکڑا ’وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘ اس پر دلیل بھی ہے۔ اب اس آیت میں نہایت خوب صورت اور بلیغ اسلوب سے بنی اسمٰعیل کے ان لوگوں کو بھی دعوت دے دی جو ابھی اسلام سے بیگانہ تھے۔ لفظ ’مِنْہُمْ‘ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ انہی امیوں میں سے جن کے لیے یہ آسمان نعمت اتری ہے، کچھ دوسرے بھی ہیں لیکن ابھی وہ اس سے بدکے ہوئے ہیں۔ گویا نہایت لطیف اسلوب سے ان کو دعوت دی گئی کہ جن کے لیے یہ خوان نعمت بچھایا گیا ہے اور جو سب سے پہلے موعود ہیں، حیف ہے اگر وہ اس سے محروم رہیں۔
’لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ‘ (ابھی وہ ان سے ملے نہیں ہیں) کے الفاظ کے اندر یہ بشارت بھی مضمر ہے کہ گو ابھی وہ ملے نہیں لیکن عنقریب مل جائیں گے۔ گویا یہ مستقبل قریب میں ان کے قبول اسلام کی اسی طرح کی بشارت ہے جس طرح کی بشارت سورۂ ممتحنہ کی آیت ۷ میں گزر چکی ہے۔
ہدایت کے باب میں سنت الٰہی: ’وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس سنت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو ایمان و ہدایت کے باب میں اس نے اختیار فرمائی ہے۔ وہ چاہے تو ساری خلق کو ہدایت بخش دے، وہ عزیز و غالب ہے، لیکن وہ حکیم بھی ہے اس وجہ سے وہ ہدایت انہی کو سرفراز فرماتا ہے جو اس کی حکمت کے تحت سزاوار ہوتے ہیں۔ سورۂ دہر میں اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:
’وَمَا تَشَاءُوۡنَ إِلَّا أَنۡ یَشَآءَ اللہُ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا ۵ یُدْخِلُ مَنۡ یَشَآءُ فِیْ رَحْمَتِہٖ‘ (الدہر ۷۶: ۳۰-۳۱)
(اور تمہارا چاہنا کچھ نہیں مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ بے شک اللہ ہی علم و حکمت والا ہے۔ وہی اپنی رحمت میں جس کو چاہے گا داخل کرے گا)۔
اور امیوں میں سے اُن دوسروں میں بھی جو (ایمان لا کر) ابھی اُن میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے۔
اِس سے پیچھے اُن لوگوں کا ذکر ہے جو بنی اسمٰعیل میں سے ایمان لا چکے تھے۔ اب فرمایا ہے کہ یہ نعمت اُن کے لیے بھی ہے جنھوں نے اُن میں سے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا۔ اِس میں اگر غور کیجیے تو دعوت بھی ہے اور بشارت بھی۔ یعنی ابھی تک قبول نہیں کیا، لیکن توقع یہی ہے کہ عنقریب کر لیں گے، لہٰذا آگے بڑھیں اور اِس سعادت سے بہرہ یاب ہوں۔
یعنی زبردست ہے، اِس لیے چاہے تو ساری خلق کو ہدایت بخش دے، لیکن چونکہ حکیم بھی ہے ، اِس لیے اُنھی کو بخشے گاجو اُس کی حکمت کے تحت اِس کے سزاوار ہوں گے۔
اور (اس رسول کی بعثت) ان دوسرے لوگوں کے لیئے بھی جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں ۔ اللہ زبردست اور حکیم ہے ۔
یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت صرف عرب قوم تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کی ان دوسری قوموں اور نسلوں کے لیے بھی ہے جو ابھی آ کر اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئی ہیں مگر آگے قیامت تک آنے والی ہیں۔ اصل الفاظ ہیں وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ ۔ ” دوسرے لوگ ان میں سے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں ” اس میں لفظ منہم (ان میں سے) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دوسرے لوگ امیوں میں سے، یعنی دنیا کی غیر اسرائیلی قوموں میں سے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماننے والے ہونگے جو ابھی اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئے ہیں مگر بعد میں آ کر شامل ہوجائیں گے۔ اس طرح یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جن میں تصریح کی گئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تمام نوع انسانی کی طرف ہے اور ابد تک کے لیے ہے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات جہاں اس مضمون کی صراحت کی گئی ہے، حسب ذیل ہیں : الانعام، آیت 19 ۔ الاعراف، 158 ۔ الانبیاء، 107 ۔ الفرقان، 1 ۔ سبا، 28 (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورة سبا، حاشیہ 47) ۔
یعنی یہ اسی کی قدرت و حکمت کا کرشمہ ہے کہ ایسی ناتراشیدہ امی قوم میں اس نے ایسا عظیم نبی بیدا کیا جس کی تعلیم و ہدایت اس درجہ انقلاب انگیز ہے، اور پھر ایسے عالمگیر ابدی اصولوں کی حامل ہے جن پر تمام نوع انسانی مل کر ایک امت بن سکتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کرسکتی ہے۔ کوئی بناؤٹی انسان خواہ کتنی ہی کوشش کرلیتا، یہ مقام و مرتبہ کبھی حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ عرب جیسی پسماندہ قوم تو درکنار، دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کا کوئی ذہین سے ذہین آدمی بھی اس پر قادر نہیں ہوسکتا کہ ایک قوم کی اس طرح مکمل طور پر کایا پلٹ دے، اور پھر ایسے جامع اصول دنیا کو دے دے جن پر ساری نوع انسانی ایک امت بن کر ایک دین اور ایک تہذیب کا عالمگیر و ہمہ گیر نظام ابد تک چلانے کے قابل ہوجائے۔ یہ ایک معجزہ ہے جو اللہ کی قدرت سے رونما ہوا ہے، اور اللہ ہی نے اپنی حکمت کی بنا پر جس شخص، جس ملک، اور جس قوم کو چاہا ہے اس کے لیے انتخاب کیا ہے۔ اس پر اگر کسی بیوقوف کا دل دکھتا ہے تو دکھتا رہے۔
اور دوسروں کے لئے بھی انہی میں سے جو اب تک ان سے نہیں ملے۔ وہی غالب با حکمت ہے۔
یہ امیین پر عطف ہے یعنی بَعَثَ فِیْ اَ خِرِ یْنَ مِنْھُمْ اَخَرِ یْنَ سے فارس اور دیگر غیر عرب لوگ ہیں جو قیامت تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے ہونگے، بعض کہتے ہیں کہ عرب و عجم کے وہ تمام لوگ ہیں جو عہد صحابہ کرام کے بعد قیامت تک ہوں گے چنانچہ اس میں فارس، روم، بربر، سوڈان، ترک، مغول، کرد، چینی اور اہل ہند وغیرہ سب آجاتے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہم کی نبوت سب کے لیے ہے چنانچہ یہ سب ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔ اور اسلام لانے کے بعد یہ بھی منہم کا مصداق یعنی اولین اسلام لانے والے امیین میں سے ہوگئے کیونکہ تمام مسلمان امت واحدہ ہیں۔ اسی ضمیر کی وجہ سے بعض کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد بعد میں ہونے والے عرب ہیں کیونکہ منہم کی ضمیر کا مرجع امیین ہیں۔
یہ اللہ کا فضل ہے وہ بخشتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
یہود کے حسد پر تعریض: یہ اسی فضل عظیم کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے امّیوں پر فرمایا اور جس کا اوپر ذکر ہوا۔ ارشاد ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ وہی جس کو چاہتا ہے اس کے لیے انتخاب فرماتا ہے اور اس کا ہر چاہنا اس کی اپنی حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ کسی دوسرے کو اس میں ذرا بھی دخل نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہود کو اس پر حسد ہے تو وہ جتنا حسد کرنا چاہیں کر لیں۔ اس سے وہ اپنا ہی نقصان کریں گے، کسی دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔ خدا نے امیوں کو اپنی چیز دی، کسی دوسرے کی نہیں دی ہے کہ وہ اس پر غصہ کا اظہار کرے۔
یہ اللہ کا فضل ہے، جس کو چاہتا ہے، عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
یعنی نبوت و رسالت اللہ کا فضل ہے۔ اِس کا فیصلہ وہی کرتا ہے کہ یہ نعمت کسے عطا فرمائے گا، کوئی دوسرا اِس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔
یہ اس کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
n/a
یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے اپنا فضل دے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔
یہ اشارہ نبوت محمدی کی طرف ہوسکتا ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کی طرف بھی۔
اب لوگوں کی تمثیل جن پر تورات لادی گئی پھر انھوں نے اس کو نہ اٹھایا اس گدھے کی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو۔ کیا ہی بری تمثیل ہے اس قوم کی جس نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی!! اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
یہود کے پندار پر ضرب: یہ یہود کے پندار پر ضرب لگائی ہے کہ اگر وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ کتاب و شریعت کے حامل وہی ہو سکتے ہیں، کوئی دوسرا اس شرف میں ان کا حریف نہیں ہو سکتا، تو یہ گھمنڈ اب وہ اپنے دماغ سے نکال دیں۔ اب ان کی مثال اس گدھے کی ہے جو کتابوں کا بوجھ تو اٹھائے ہوئے ہے لیکن اسے کچھ خبر نہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے۔
’حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا‘۔ یعنی اس میں تو شبہ نہیں کہ ایک زمانے میں ان کے اوپر تورات کا بوجھ لادا گیا لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ہے کہ انھوں نے اس بارگراں کو اٹھایا نہیں۔ اس نہ اٹھانے کی وضاحت ’کَذَّبُوْا بِآیَاتِ اللَّہِ‘ کے الفاظ سے فرما دی گئی کہ تورات کی تعلیمات اور اس کے احکام پر ان کا ایمان باقی نہیں رہا، عملاً انھوں نے ان کی تکذیب کر دی۔ ظاہر ہے کہ جب ان کتابوں کے احکام کی انھوں نے تکذیب کر دی تو ان کے اجر سے تو وہ محروم ہو گئے، صرف ان کا وِزر اور گناہ ان کے سر باقی رہا اور وہ اس مثل کے مصداق ہیں کہ چارپائے بروکتا بے چند۔
’حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ‘ میں لفظ ’حُمِّلُوْا‘ نہایت بلیغ ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس تورات کے حامل ہونے پر آج ان کو ناز ہے وہ انہوں نے اس وقت بھی شوق و رغبت سے نہیں قبول کی تھی جس وقت انھیں عطا ہوئی تھی بلکہ وہ گویا ان پر زبردستی لادی گئی تھی۔ اس زبردستی لادنے کی پوری تفصیل سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہے کہ تورات کے ایک ایک حکم کو قبول کرنے میں یہود نے کس کس طرح اپنی ضد و مکابرت کا مظاہرہ کیا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس سوز و غم کے ساتھ ان کی اس حالت پر ماتم کیا ہے۔ اس کی طرف سرسری اشارہ سورۂ صف کی آیت ۵ میں بھی ہے۔
’بِئۡسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِآیَاتِ اللہِ‘۔ فرمایا کہ جن کی مثال اتنی مکروہ ہے ان کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ اپنے تقدس و تقرب الٰہی کے زعم میں مبتلا ہوں اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ ان کے ہوتے خدا کسی دوسرے کو کتاب و شریعت کا حامل نہیں بنا سکتا!
جو کتاب پر عامل نہیں وہ اس کا حامل بھی نہیں: ’کَذَّبُوْا بِآیَاتِ اللہِ‘ کے الفاظ سے اوپر کے الفاظ ’ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا‘ کی وضاحت ہو گئی کہ تورات کے نہ اٹھانے کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے اس کے احکام کی اپنے عمل سے تکذیب کر دی۔ زبان سے تو دعویٰ ہے کہ وہ اس کے حامل ہیں لیکن جب اس پر عامل نہیں تو اس کے حامل کیسے ہوئے؟
’وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ‘۔ یہ ٹکڑا بعینہٖ سورۂ صف کی آیت ۷ میں بھی گزر چکا ہے۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان کی بداعمالیوں کے سبب سے ان پر لعنت ہو چکی ہے اور اللہ نے ان کے دلوں پر، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں تفصیل گزر چکی ہے، مہر کر دی ہے، اس وجہ سے اب ان کو ہدایت نصیب ہونے والی نہیں ہے۔ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے ہیں۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ ان کو تورات دی گئی تو اس کی انھوں نے تکذیب کر دی اور اب اسی تورات کے حامل ہونے کے زعم میں اللہ کے آخری رسول کی تکذیب کر رہے ہیں کہ بھلا ان کے ہوتے کسی اور قوم کے اندر کوئی رسول کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ فرمایا کہ ایسے بدبختوں کو خدا ہدایت نہیں دیا کرتا۔ اس طرح کے لوگ ہمیشہ اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔
(یہود کیا حق رکھتے ہیں کہ اِس پر اعتراض کریں)؟ جن لوگوں پر تورات لادی گئی، پھر اُنھوں نے اُس کو نہیں اٹھایا، اُن کی مثال تو اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ کیا ہی بُری مثال ہے اُس قوم کی جس نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلا دیا ہے! (یہ ظالم ہیں) اور ایسے ظالم لوگوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔
مطلب یہ ہے کہ لینے کے لیے تیار نہیں تھے، طوعاً و کرہاً قبول کیا، گویا زبردستی وہ اُن پر لادی گئی۔ چنانچہ عملاً اُنھوں نے اُس کی تکذیب ہی کی ہے، یہ بارگراں خوش دلی کے ساتھ اُنھوں نے کبھی نہیں اٹھایا۔
اوپر فرمایا ہے کہ تورات کو نہیں اٹھایا۔ یہ اُس کی وضاحت کر دی ہے کہ زبان سے تو دعویٰ ہے کہ حامل کتاب ہیں، لیکن اپنے عمل سے مسلسل جھٹلا رہے ہیں۔
یہ اُسی سنت الٰہی کا بیان ہے جس کا حوالہ اِس سے پہلے سورۂ صف (۶۱) کی آیت ۷ میں گزر چکا ہے۔
جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا ، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے ۔ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔
اس فقرے کے دو معنی ہیں۔ ایک عام اور دوسرا خاص۔ عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم و عمل، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ اس کا حق ادا کیا۔ خاص معنی یہ ہیں کہ حامل توراۃ گروہ ہونے کی حیثیت سے جن کا کام یہ تھا کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس رسول کا ساتھ دیتے جس کے آنے کی صاف صاف بشارت توراۃ میں دی گئی تھی، مگر انہوں نے سب سے بڑھ کر اس کی مخالف کی اور توراۃ کی تعلیم کے تقاضے کو پورا نہ کیا۔
یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے۔
یعنی ان کا حال گدھے سے بھی بدتر ہے۔ وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے مغرور ہے۔ مگر یہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ توراۃ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اس کے معنی سے ناواقف نہیں ہیں۔ پھر بھی یہ اس کی ہدایات سے دانستہ انحراف کر رہے ہیں، اور اس نبی کو ماننے سے قصداً انکار کر رہے ہیں جو توراۃ کی رو سے سراسر حق پر ہے۔ یہ نافہمی کے قصور وار نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر اللہ کی آیات کو جھٹلانے کے مجرم ہیں۔
جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسی) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
اَ سْفَار سَفْر کی جمع ہے، معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے اس لئے کتاب کو سفر کہا جاتا ہے (فتح القدیر) یہ بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے۔ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل و تحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم و شعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا " ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ١٧٩" 7 ۔ الاعراف :179) یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں، یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علماء کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں لیکن اس کے مقتضی پر عمل نہیں کرتے۔
ان سے کہو کہ اے وہ لوگو! جو یہودی ہوئے، اگر تمہارا گمان ہے کہ دوسروں کے مقابل میں تم اللہ کے محبوب ہو تو موت کے طالب بنو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔
یہود کے پندار پر ایک اور ضرب: یہ ان کے اسی پندار پر ایک اور ضرب لگائی کہ اگر تمہارا زعم یہ ہے کہ تم خدا کے محبوب ہو تو اس محبت و محبوبیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمہارے اندر خدا کی راہ میں جان دینے کا شوق و ولولہ ہو۔ محب کو سب سے زیادہ آرزو محبوب کی ملاقات کی ہوتی ہے۔ وہ اس چیز سے جان نہیں چراتا جو محبوب سے ملاقات کی راہ کھولے، لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ موت کا مقابلہ کرنے میں تم سے زیادہ بزدل کوئی نہیں۔ سورۂ صف کی آیات ۴-۵ میں ان کے حال پر جو تبصرہ فرمایا گیا ہے اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ سورۂ حشر میں بنو قریظہ اور ان کے حلیفوں کی بزدلی کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے:
لَأَنتُمْ أَشَدُّ رَہْبَۃً فِیْ صُدُوْرِہِم مِّنَ اللہِ ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ ۵ لَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا إِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ أَوْ مِنۡ وَرَآءِ جُدُرٍ بَأْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَقُلُوْبُہُمْ شَتَٰی ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ (الحشر ۵۹: ۱۳-۱۴)
’’ان کے سینوں میں تمہارا ڈر اللہ کے خوف سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سمجھ رکھنے والے لوگ نہیں۔ یہ کبھی تم سے کھلے میدان میں لڑنے کا حوصلہ نہیں کر سکتے۔ لڑیں گے تو قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کی اوٹ سے۔ ان کے اپنے اندر شدید مخاصمت ہے۔ تم ان کو متحد گمان کر رہے ہو، حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عقل سے کام لینے والے لوگ نہیں ہیں۔‘‘
سورۂ بقرہ میں یہی مضمون نسبۃً تفصیل سے اس طرح بیان ہوا ہے:
قُلْ إِن کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الآَخِرَۃُ عِنۡدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنۡ کُنۡتُمْ صَادِقِیْنَ ۵ وَلَنۡ یَتَمَنَّوْہُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَیْْدِیْہِمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظَّالِمیْنَ ۵ وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیَاۃٍ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَۃٍ (البقرہ ۲: ۹۵-۹۶)
’’کہہ دو، اگر دار آخرت کی تمام نعمتیں اللہ کے پاس، دوسروں کے مقابل میں، تمہارا ہی حق ہیں تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔ اور یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اپنی ان کرتوتوں کے سبب سے جو انھوں نے کی ہیں اور اللہ ان ظالموں سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اور تم ان کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پاؤ گے۔ یہاں تک کہ یہ مشرکوں سے بھی زیادہ زندگی کے حریص ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی تمنا ہے کہ ہزار سال جیے۔‘‘
’مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ‘ سے بنی اسمٰعیل کی طرف اشارہ ہے: آیت زیر بحث میں ’مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ‘ کے الفاظ اگرچہ عام ہیں لیکن یہاں اشارہ خاص طور پر بنی اسمٰعیل ہی کی طرف ہے۔ تورات کی پیشین گوئیوں اور نسلی رقابت کی بنا پر یہود کو سب سے زیادہ پرخاش انہی سے تھی۔ اس پرخاش کی پوری سرگزشت سورۂ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ یہ پرخاش تھی تو شروع ہی سے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، جب انھوں نے تاڑ لیا کہ وہ خطرہ سر پر آ گیا جس سے وہ اندیشہ ناک تھے تو یہ آگ پوری طرح بھڑک اٹھی۔
یہود کی بزدلی پر ان کی پوری تاریخ گواہ ہے: قرآن نے یہاں یہود کی جس بزدلی پر طنز کیا ہے اگرچہ وہ اس کے جواب میں بے حیائی سے کہہ سکتے تھے کہ ہم موت سے ڈرنے والے لوگ نہیں ہیں لیکن آدمی سے اپنا باطن مخفی نہیں ہوتا۔ انھیں محسوس ہوا کہ قرآن نے ان کی نہایت دکھتی رگ پکڑی ہے۔ چنانچہ انھوں نے خاموشی ہی میں سلامتی دیکھی۔ وہ ایک ایسی بات کی تردید کس طرح کر سکتے تھے جس کی شہادت ان کی ماضی کی تاریخ بھی دے رہی تھی اور حاضر کے واقعات بھی جس کے گواہ تھے۔
اِن سے کہو: اے لوگو، جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمھارا گمان ہے کہ دوسروں کے مقابل میں تمھی اللہ کے محبوب ہو تو موت کی تمنا کرو، اگر تم سچے ہو۔
الفاظ اگرچہ عام ہیں ، لیکن سیاق و سباق سے واضح ہے کہ اشارہ خاص طور پر بنی اسمٰعیل کی طرف ہے۔
یعنی اپنے اِس دعوے میں سچے ہو تو دنیا کی طلب اور آخرت سے فرار کیوں؟ تمھیں تو ہر معرکے میں شہادت کی تمنا کرنی چاہیے، اِس لیے کہ محب تو یہی چاہے گا کہ جلد سے جلد اپنے محبوب سے ملاقات کرے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’قرآن نے یہاں یہود کی جس بزدلی پر طنز کیا ہے، اگرچہ وہ اُس کے جواب میں بے حیائی سے کہہ سکتے تھے کہ ہم موت سے ڈرنے والے لوگ نہیں ہیں، لیکن آدمی سے اپنا باطن مخفی نہیں ہوتا۔ اُنھیں محسوس ہوا کہ قرآن نے اُن کی نہایت دکھتی رگ پکڑی ہے۔ چنانچہ اُنھوں نے خاموشی ہی میں سلامتی دیکھی۔ وہ ایک ایسی بات کی تردید کس طرح کر سکتے تھے جس کی شہادت اُن کی ماضی کی تاریخ بھی دے رہی تھی اور حاضر کے واقعات بھی جس کے گواہ تھے۔‘‘ (تدبرقرآن ۸/ ۳۸۲)
ان سے کہو، ” اے لوگوں جو یہودی بن گئے ہو، اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو ”۔
یہ نکتہ قابل توجہ ہے۔ ” اَے یہودیو ” نہیں کہا ہے بلکہ ” اَے وہ لوگو جو یہودی بن گئے ہو ” یا ” جنہوں نے یہودیت اختیار کرلی ہے ” فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل دین جو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان سے پہلے اور بعد کے انبیاء لائے تھے وہ تو اسلام ہی تھا۔ ان انبیاء میں سے کوئی بھی یہودی نہ تھا، اور نہ ان کے زمانے میں یہودیت پیدا ہوئی تھی۔ یہ مذہب اس نام کے ساتھ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ یہ اس خاندان کی طرف منسوب ہے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چوتھے بیٹے یہوداہ کی نسل سے تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد جب سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تو یہ خاندان اس ریاست کا مالک ہوا جو یہودیہ کے نام سے موسوم ہوئی، اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کرلی جو سامِریہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پھر اسیریا نے نہ صرف یہ کہ سامریہ کو برباد کردیا بلکہ ان اسرائیلی قبیلوں کا بھی نام و نشان مٹادیا جو اس ریاست کے بانی تھے۔ اس کے بعد صرف یہوداہ، اور اس کے ساتھ بن یامین کی نسل باقی رہ گئی جس پر یہوداہ کی نسل کے غلبے کی وجہ سے ” یہود ” ہی کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔ اس نسل کے اندر کاہنوں اور ربیوں اور احبار نے اپنے اپنے خیالات و نظریات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم اور مذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صدہا برس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے۔ یہ ڈھانچا چوتھی صدی قبل مسیح سے بننا شروع ہوا اور پانچویں صدی عیسوی تک بنتا رہا۔ اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی ربانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے۔ اور اس کا حلیہ بھی اچھا خاصا بگڑ چکا ہے۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو الَّذِیْنَ ھَادُوْا کہہ کر خطاب کیا گیا ہے، یعنی ” اے وہ لوگو جو یہودی بن کر رہ گئے ہو “۔ ان میں سب کے سب اسرائیل ہی نہ تھے، بلکہ وہ غیر اسرائیلی بھی تھے جنہوں نے یہودیت قبول کرلی تھی۔ قرآن میں جہاں بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیا ہے وہاں ” اے بنی اسرائیل ” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اور جہاں مذہب یہود کے پیروؤں کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اَلَّذِیْنَ ھَادُوْا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس دعوے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے سوا کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا (البقرہ۔ 111) ہمیں دوزخ کی آگ ہرگز نہ چھوئے گی، اگر ہم کو سزا ملے گی بھی تو بس چند روز (البقرہ۔ 80، آل عمران۔ 24) ۔ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (المائدہ۔ 18) ایسے ہی کچھ دعوے خود یہودیوں کی اپنی کتابوں میں بھی ملتے ہیں۔ کم از کم یہ بات تو ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی بر گزیدہ مخلوق (Chosen People) کہتے ہیں اور اس زعم میں مبتلا ہیں کہ خدا کا ان کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے جو کسی دوسرے انسانی گروہ سے نہیں ہے۔
یہ بات قرآن مجید میں دوسری مرتبہ یہودیوں کو خطاب کر کے کہی گئی ہے۔ پہلے سورة بقرہ میں فرمایا گیا تھا ” ان سے کہو، اگر آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے اللہ کے ہاں مخصوص ہے تو پھر تم موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ بلکہ تم تمام انسانوں سے بڑھ کر، حتیٰ کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر ان کو کسی نہ کسی طرح جینے کا حریص پاؤ گے۔ ان میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ ہزار برس جیے، حالانکہ وہ لمبی عمر پائے تب بھی اسے یہ چیز عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ ان کے سارے کرتوت اللہ کی نظر میں ہیں ” (آیات 94 ۔ 96) اب اسی بات کو پھر یہاں دہرایا گیا ہے۔ لیکن یہ محض تکرار نہیں ہے۔ سورة بقرہ والی آیات میں یہ بات اس وقت کہی گئی تھی جب یہودیوں سے مسلمانوں کی کوئی جنگ نہ ہوئی تھی۔ اور اس سورة میں اس کا اعادہ اس وقت کیا گیا ہے جب ان کے ساتھ متعدد معرکے پیش آنے کے بعد عرب میں آخری اور قطعی طور پر ان کا زور توڑ دیا گیا۔ ان معرکوں نے اور ان کے اس انجام نے وہ بات تجربے اور مشاہدے سے ثابت کردی جو پہلے سورة بقرہ میں کہی گئی تھی۔ مدینے اور خیبر میں یہودی طاقت بلحاظ تعداد مسلمانوں سے کسی طرح کم نہ تھی، اور بلحاظ وسائل ان سے بہت زیادہ تھی۔ پھر عرب کے مشرکین اور مدینے کے منافقین بھی ان کی پشت پر تھے اور مسلمانوں کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ لیکن جس چیز نے اس نامساوی مقابلے میں مسلمانوں کو غالب اور یہودیوں کو مغلوب کیا وہ یہ تھی کہ مسلمان راہ خدا میں مرنے سے خائف تو درکنار، تہ دل سے اس کے مشتاق تھے اور سر ہتھیلی پر لیے ہوئے میدان جنگ میں اترتے تھے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ خدا کی راہ میں لڑ رہے ہیں، اور وہ اس بات پر بھی کامل یقین رکھتے تھے کہ اس راہ میں شہید ہونے والے کے لیے جنت ہے۔ اس کے بر عکس یہودیوں کا حال یہ تھا کہ وہ کسی راہ میں بھی جان دینے کے لیے تیار نہ تھے، نہ خدا کی راہ میں، نہ قوم کی راہ میں، نہ خود اپنی جان اور مال اور عزت کی راہ میں۔ انہیں صرف زندگی درکار تھی، خواہ وہ کیسی ہی زندگی ہو۔ اسی چیز نے ان کو بزدل بنا دیا تھا۔
کہہ دیجئے کہ اے یہودیو ! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سوا تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔
جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ ' ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے چہیتے ہیں (وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ۭقُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۭيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۡ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ 18) 5 ۔ المائدہ :18) اور دعویٰ کرتے تھے کہ ' جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی یا نصرانی ہوگا ' (وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١١١۔ ) 2 ۔ البقرۃ :111)
تاکہ تمہیں وہ اعزازو اکرام حاصل ہو جو تمہارے غرور کے مطابق تمہارے لئے ہونا چاہیئے،
اس لیے کہ جس کو یہ علم ہو کہ مرنے کے بعد اس کے لیے جنت ہے وہ تو وہاں جلد پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے۔ یعنی اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اپنے دعوائے ولایت ومحبوبیت میں سچے ہو تو مسلمانوں کے ساتھ مباہلہ کرلو۔ یعنی مسلمان اور یہودی دونوں مل کر بارگاہ الہی میں دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں جو جھوٹا ہے اسے موت سے ہمکنار فرما دے۔
اور یہ ہرگز اس کے طالب نہ بنیں گے، بوجہ اپنی ان کرتوتوں کے جو وہ کر چکے ہیں۔ اور اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
یہ ان کی بزدلی کے سبب کی طرف اشارہ فرمایا کہ جس چیز نے ان کو موت سے اتنا خائف کر رکھا ہے یہ ان کے اعمال ہیں۔ یہ نبیوں کے قاتل ہیں، یہ تورات کے محرّف ہیں، اللہ کی امانتوں میں خیانت کرنے والے ہیں اور انھوں نے ان تمام نشانات ہدایت کو مٹایا ہے جن کو خلق کے سامنے اجاگر کرنے پر یہ مامور ہوئے تھے تو اب یہ کیا منہ لے کر اپنے رب کے سامنے جائیں گے! لیکن ان کو بہرحال اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور وہ ان ظالموں سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ ہر ایک کو اس کے کیے کی بھرپور سزا دے گا۔
لیکن یہ اپنے اُن کرتوتوں کی وجہ سے جو کر چکے ہیں، اُس کی ہرگز کبھی تمنا نہ کریں گے، اللہ اِن ظالموں سے خوب واقف ہے۔
اشارہ ہے یہود کے اُن اعمال کی طرف جن کی تفصیلات بقرہ سے مائدہ تک قرآن کے پہلے باب میں گزر چکی ہیں۔
لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں، اور اللہ ان ظلاموں کو خوب جانتا ہے۔
بالفاظ دیگر ان کا موت سے یہ فرار بےسبب نہیں ہے۔ وہ زبان سے خواہ کیسے ہی لمبے چوڑے دعوے کریں، مگر ان کے ضمیر خوب جانتے ہیں کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ان کا معاملہ کیا ہے، اور آخرت میں ان حرکتوں کے کیا نتائج نکلنے کی توقع کی جاسکتی ہے جو وہ دنیا میں کر رہے ہیں۔ اسی لیے ان کا نفس خدا کی عدالت کا سامنا کرنے سے جی چراتا ہے۔
یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے آگے اپنے ہاتھوں بھیج رکھے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
یعنی کفر و معاصی اور کتاب الٰہی میں تحریف و تغیر کا جو ارتکاب یہ کرتے رہے ہیں، ان کے باعث کبھی بھی یہ موت کی آرزو نہیں کریں گے
ان کو بتا دو کہ جس موت سے تم بھاگ رہے ہو وہ تم سے دوچار ہو کر رہے گی پھر تم غائب و حاضر کے جاننے والے کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے پس وہ تم کو ان سارے اعمال سے آگاہ کرے گا جو تم کرتے رہے ہو-
اوپر ’وَاللہُ عَلِیْمٌ بِالظَّالِمِیْنَ‘ میں جو تہدید مضمر تھی وہ اس آیت میں اچھی طرح کھل گئی ہے۔ فرمایا کہ موت سے بھاگتے ہو تو بھاگو، لیکن تم اس سے بھاگ کے کہاں جاؤ گے؟ وہ تمہیں پکڑ ہی لے گی۔ پھر تم اپنی تمام بداعمالیوں کے ساتھ اپنے اس خدا کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو تمام غائب و حاضر کا جاننے والا ہے۔ نہ اس سے تمہارا کوئی فعل مخفی ہے، نہ کوئی چیز تم اس سے چھپا سکو گے۔ وہ تمہارا سارا کچا چٹھا تمہارے سامنے رکھ دے گا اور تمہیں اپنے ہر جرم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔
اِنھیں بتا دو کہ جس موت سے تم بھاگ رہے ہو، وہ تمھیں آ کر رہے گی، پھر تم اُس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو غائب و حاضر کا جاننے والا ہے اور وہ تمھیں بتا دے گا جو تم کرتے رہے ہو۔
’وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ‘ میں جو تہدید اوپر مضمرتھی ، وہ قرآن نے اِس آیت میں کھول دی ہے۔
ان سے کہو، ” جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آ کر رہے گی۔ پھر تم اس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔
n/a
کہہ دیجئے ! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے کئے ہوئے تمام کام بتلا دے گا۔
n/a
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن کی نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف مستعدی سے چل کھڑے ہو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
خطاب کا ایک حکیمانہ انداز: خطاب اگرچہ عام ہے لیکن روئے سخن انہی لوگوں کی طرف ہے جن کی کمزوری پر نکیر فرمائی گئی ہے۔ عام خطاب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ زیادہ رسوائی کا احساس نہیں کرتے جن کا رویہ زیربحث ہوتا ہے بلکہ ان کے اندر سلامت روی ہوتی ہے تو وہ پردہ پوشی کو متکلم کی کریم النفسی پر محمول کرتے اور نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر تعین کے ساتھ نام لے کر ان کو سرزنش کی جائے تو اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر ضد اور انانیت کا جذبہ ابھرے۔
جمعہ اور اذان جمعہ: ’لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ‘ میں ’مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ‘ کے الفاظ ’صَّلٰوۃِ‘ کی وضاحت کے لیے ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ یہاں زیربحث خاص طور پر جمعہ کی نماز ہے۔ یہ جمعہ کی نماز ہی واحد چیز ہے جو جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں سے ممتاز کرتی ہے۔
یہاں جس اذان کا ذکر ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہی اذان مراد ہو سکتی ہے جو خطبۂ جمعہ سے پہلے دی جاتی ہے۔ روایات سے بلا اختلاف ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخینؓ کے عہد مبارک میں جمعہ کی اذان ایک ہی تھی جو خطبہ سے پہلے دی جاتی تھی۔ ایک اذان کا اضافہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں کیا جب مدینہ منورہ کی آبادی زیادہ ہو گئی۔ یہ مدینہ کے بازار میں حضرت عثمانؓ کے مکان سے دی جاتی۔ اگرچہ یہ اذان سیدنا عثمانؓ کا اضافہ ہے لیکن اس اضافے کو امت کے تمام اخیار نے، بلاکسی نکیر کے، قبول کیا۔
’فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ‘۔ ’سعی‘ کے معنی صرف دوڑنے کے نہیں آتے بلکہ یہ لفظ اصلاً کسی کام کو مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ، چوق و چوبند ہو کر، کرنے کے لیے آتا ہے۔ غلام آقا کی پکار سن کر جب مستعدی سے اس کی طرف لپکتا ہے تو یہ سعی ہے۔ فرمایا کہ جب یہ اذان سنو تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔
خطبہ اور نماز جمعہ: ’ذِکْرِ اللّٰہِ‘ یہاں خطبہ اور نماز دونوں کے لیے ایک جامع لفظ ہے۔ نماز کا ’ذکر‘ ہونا تو واضح ہے، قرآن میں جگہ جگہ نماز کو ذکر ہی سے تعبیر کیا گیا ہے، رہا جمعہ کا خطبہ تو وہ درحقیقت نماز ہی کا حصہ ہے۔ جمعہ کی نماز ظہر کی نماز کے قائم مقام ہے جس کی چار رکعتیں جمعہ کے دن تخفیف ہو کر دو رہ جاتی ہیں اور ان کی جگہ خطبہ کی شکل میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ ’ذِکْرِ اللّٰہِ‘ امام حاضرین مسجد کو مخاطب کر کے کرتا ہے اس وجہ سے وہ ساری باتیں اس کے دائرہ میں آتی ہیں جو مسلمانوں کی صلاح و فلاح سے متعلق اور جن کے لیے وقت کے حالات مقتضی ہوں۔ اس کو چند رسمی دعاؤں کی شکل میں محدود کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
خطبہ اور نماز کا اہتمام و التزام: ’وَذَرُوا الْبَیْعَ‘۔ لفظ ’بیع‘ اصلاً تو بیچنے کے معنی میں ہے لیکن یہ اپنے عام استعمال میں خرید و فروخت، دونوں ہی کے لیے آتا ہے۔ اگرچہ یہاں ذکر ’بیع‘ ہی کے چھوڑنے کا ہے لیکن جب ’بیع‘ کے چھوڑنے کا ذکر ہو جو نسبۃً زیادہ مرعوب ہے تو ’خرید‘ کا چھوڑنا تو بدرجۂ اولیٰ مطلوب ہو گا۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ دنیا کا ہر کام چھوڑ کر نماز کی طرف لپکو۔ ’بیع‘ کے ذکر کی وجہ صرف یہ ہے کہ جو واقعہ مسلمانوں کے لیے آزمائش کا سبب ہوا اور جس پر یہاں تنبیہ فرمائی گئی ہے، وہ بیع و شراء ہی سے متعلق تھا۔
’ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘۔ یعنی بظاہر تو یہ حکم تم میں سے بعضوں پر گراں گزرے گا، تم اپنے کاروبار کا نقصان محسوس کرو گے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے یہی طریقہ تمہارے لیے موجب خیر و برکت ہے۔ رزق و فضل سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس کی خوشنودی کے لیے تم کوئی نقصان گوارا کرو گے تو ابدی زندگی میں اس کا اجر اپنے رب کے پاس محفوظ کر لو گے اور ہو سکتا ہے کہ اس دنیا میں بھی وہ ایسی شکلیں پیدا کر دے کہ تمہارے ہر نقصان کی تلافی ہو جائے۔ ’اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘ یعنی تمہیں اپنے نفع نقصان کا اندازہ اس دنیا کی محدود زندگی کو سامنے رکھ کر نہیں کرنا چاہیے بلکہ آخرت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ لیکن آخرت ایسی چیز ہے کہ اس کو سمجھنا چاہو گے تب ہی سمجھو گے۔
ایمان والو، (پیغمبر کی قدر پہچانو اور) جمعہ کے دن جب (اُس کی طرف سے) نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف مستعدی سے چل کھڑے ہو اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔
یہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن روے سخن اُنھی کمزور مسلمانوں کی طرف ہے جن سے کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...عام خطاب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ زیادہ رسوائی کا احساس نہیں کرتے جن کا رویہ زیر بحث ہوتا ہے، بلکہ اُن کے اندر سلامت روی ہوتی ہے تو وہ اِس پردہ پوشی کو متکلم کی کریم النفسی پر محمول کرتے اور نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر تعین کے ساتھ نام لے کر اُن کو سرزنش کی جائے تو اندیشہ ہوتا ہے کہ اُن کے اندر ضد اور انانیت کا جذبہ ابھرے۔‘‘(تدبرقرآن۸/ ۳۸۵)
جمعہ کی اذان ایک ہی ہے جو خطبے سے پہلے دی جاتی ہے، یہ اُسی کا ذکر ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری اذان کا اضافہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کیا گیا تاکہ اذان کی آواز دور تک پہنچائی جا سکے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ مدینہ کی آبادی اُس وقت تک کافی بڑھ گئی تھی۔* اذان کا مقصد نماز کے لیے بلانا ہے، اِس لیے ضرورت ہو تو یہ ایک سے زیادہ مرتبہ بھی دی جا سکتی ہے۔
اللہ کے ذکر سے یہاں خطبہ اور نماز، دونوں مراد ہیں۔ نماز میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور خطبے میں امام اللہ کی یاددہانی کرتا ہے۔ اِس نماز کے بارے میں سنت یہ ہے کہ اِس کا خطاب اور اِس کی امامت مسلمانوں کے ارباب حل و عقد کرتے ہیں اور یہ صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جاتی ہے جو اُن کی طرف سے اِس نماز کے لیے مقرر کیے جائیں اور جہاں وہ خود یا اُن کا کوئی نمائندہ اِس کی امامت کے لیے موجود ہو۔ دعوت کی جو ذمہ داری قرآن نے ارباب حل و عقد پر عائد کی ہے، اُس کو ادا کرنے کی یہی صورت دین میں متعین کی گئی ہے۔
اصل میں لفظ ’الْبَیْع‘ آیا ہے۔اِس کے اصل معنی تو بیچنے کے ہیں، لیکن اپنے عام استعمال میں یہ خرید و فروخت، دونوں کے لیے آجاتا ہے۔ اِس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ہر کام کو چھوڑ کر پیغمبر کا خطبہ سننے اور اُن کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے آؤ۔ بیع کا ذکر صرف اِس لیے ہوا ہے کہ اُس وقت یہی چیز آزمایش کا سبب ہوئی تھی۔
_____
* بخاری، رقم ۸۷۳۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا جائے نماز کے لیئے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو ، یہ تمہارے لیئے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔
اس فقرے میں تین باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں نماز کے لیے منادی کرنے کا ذکر ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی ایسی نماز کی منادی کا ذکر ہے جو خاص طور پر صرف جمعہ کے دن ہی پڑھی جانی چاہیے۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں چیزوں کا ذکر اس طرح نہیں کیا گیا ہے کہ تم نماز کے لیے منادی کرو، اور جمعہ کے روز ایک خاص نماز پڑھا کرو، بلکہ انداز بیان اور سیاق وسباق صاف بتا رہا ہے کہ نماز کی منادی سن کر نماز کے لیے دوڑنے میں تساہُل برتتے تھے اور خریدو فروخت کرنے میں لگے رہتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت صرف اس غرض کے لیے نازل فرمائی کہ لوگ اس منادی اور اس خاص نماز کی اہمیت محسوس کریں اور فرض جان کر اس کی طرف دوڑیں۔ ان تینوں باتوں پر اگر غور کیا جائے تو ان سے یہ اصولی حقیقت قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ ایسے احکام بھی دیتا تھا جو قرآن میں نازل ہوئے، اور وہ احکام بھی اسی طرح واجب الاطاعت تھے جس طرح قرآن میں نازل ہونے والے احکام۔ نماز کی منادی وہی اذان ہے جو آج ساری دنیا میں ہر روز پانچ وقت ہر مسجد میں دی جا رہی ہے۔ مگر قرآن میں کسی جگہ نہ اس کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں، نہ کہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ نماز کے لیے لوگوں کو اس طرح پکارا کرو۔ یہ چیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقرر کردہ ہے۔ قرآن میں دو جگہ صرف اس کی توثیق کی گئی ہے، ایک اس آیت میں، دوسرے سورة مائدہ کی آیت 85 میں۔ اسی طرح جمعہ کی یہ خاص نماز جو آج ساری دنیا کے مسلمان ادا کر رہے ہیں، اس کا بھی قرآن میں نہ حکم دیا گیا ہے نہ وقت اور طریق ادا بتایا گیا ہے۔ یہ طریقہ بھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جاری کردہ ہے، اور قرآن کی یہ آیت صرف اس کی اہمیت اور اس کے وجوب کی شدت بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ اس صریح دلیل کے باوجود جو شخص یہ کہتا ہے کہ شرعی احکام صرف وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، وہ دراصل سنت کا نہیں، خود قرآن کا منکر ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے جمعہ کے بارے میں چند امور اور بھی جان لینے چاہییں۔
۔۔۔۔۔ جمعہ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اسے یوم عَرُوْبَہ کہا کرتے تھے۔ اسلام میں جب اس کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا تو اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ اگرچہ مؤرخین کہتے ہیں کہ کعب بن لُؤَیّ ، یا قُصَیّ بن کلاب نے بھی اس دن کے لیے یہ نام استعمال کیا تھا، کیونکہ اس روز وہ قریش کے لوگوں کا اجتماع کیا کرتا تھا (فتح الباری) ، لیکن اس کے اس فعل سے قدیم نام تبدیل نہیں ہوا، بلکہ عام اہل عرب اسے عروبہ ہی کہتے تھے۔ نام کی حقیقی تبدیلی اس وقت ہوئی جب اسلام میں اس دن کا یہ نیا نام رکھا گیا۔
۔۔۔ اسلام سے پہلے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کرنے اور اس کو شعار ملت قرار دینے کا طریقہ اہل کتاب میں موجود تھا۔ یہودیوں کے ہاں اس غرض کے لیے سَبْت (ہفتہ) کا دن مقرر کیا گیا تھا، کیونکہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دی تھی۔ عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممیز کرنے کے لیے اپنا شعار ملت اتوار کا دن قرار دیا۔ اگرچہ اس کا کوئی حکم نہ حضرت عیسیٰ نے دیا تھا، نہ انجیل میں کہیں اس کا ذکر آیا ہے، لیکن عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسیٰ اسی روز قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے۔ اسی بنا پر بعد کے عیسائیوں نے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا اور پھر 321 میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعہ سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کردیا۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممیز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعہ کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا۔
۔۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابو مسعود انصاری کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کی فرضیت کا حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہجرت سے کچھ مدت پہلے مکہ معظمہ ہی میں نازل ہوچکا تھا۔ لیکن اس وقت آپ اس پر عمل نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ مکہ میں کوئی اجتماعی عبادت ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے آپ نے ان لوگوں کو جو آپ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے، یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہاں جمعہ قائم کریں۔ چنانچہ ابتدائی مہاجرین کے سردار حضرت مصعب بن عمیر نے 12 آدمیوں کے ساتھ مدینے میں پہلا جمعہ پڑھا ( طبرانی۔ دارقطنی) ۔ حضرت کعب بن مالک اور ابن سیرین کی روایت یہ ہے کہ اس سے بھی پہلے مدینہ کے انصار نے بطور خود (قبل اس کے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ان کو پہنچا ہوتا) آپس میں یہ طے کیا تھا کہ ہفتہ میں ایک دن مل کر اجتماعی عبادت کریں گے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کو چھوڑ کر جمعہ کا دن انتخاب کیا اور پہلا جمعہ حضرت اسعد بن زرارہ نے بنی بیاضہ کے علاقہ میں پڑھا جس میں 40 آدمی شریک ہوئے (مسند احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، ابن حبان، عبد بن حمید، عبدالرزاق، بیہقی) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اسلامی ذوق خود اس وقت یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ ایسا ایک دن ہونا چاہیے جس میں زیادہ سے زیادہ مسلمان جمع ہو کر اجتماعی عبادت کریں، اور یہ بھی اسلامی ذوق ہی کا تقاضا تھا کہ وہ دن ہفتے اور اتوار سے الگ ہو تاکہ مسلمانوں کا شعار ملت یہود و نصاریٰ کے شعار ملت سے الگ رہے۔ یہ صحابہ کرام کی اسلامی ذہنیت کا ایک عجیب کرشمہ ہے کہ بسا اوقات ایک حکم آنے سے پہلے ہی ان کا ذوق کہہ دیتا تھا کہ اسلام کی روح فلاں چیز کا تقاضا کر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے بعد جو اولین کام کیے ان میں سے ایک جمعہ کی اقامت بھی تھی۔ مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے آپ پیر کے روز قبا پہنچے، چار دن وہاں قیام فرمایا، پانچویں روز جمعہ کے دن وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں بنی سالم بن عوف کے مقام پر تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آگیا، اسی جگہ آپ نے پہلا جمعہ ادا فرمایا (ابن ہشام) ۔
۔۔۔۔۔ اس نماز کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زوال کے بعد کا وقت مقرر فرمایا تھا، یعنی وہی وقت جو ظہر کی نماز کا وقت ہے۔ ہجرت سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر کو جو تحریری حکم آپ نے بھیجا تھا اس میں آپ کا ارشاد یہ تھا کہ : فاذا مال النھار عن شطرہ عند الزوال من یوم الجمعۃ فتقربوا الی اللہ تعالیٰ برکعتین (دارقُطنی) ۔ ” جب جمعہ کے روز دن نصف النہار سے ڈھل جائے تو دو رکعت نماز کے ذریعہ سے اللہ کے حضور تقرب حاصل کرو “۔ یہ حکم ہجرت کے بعد آپ نے قولاً بھی دیا اور عملاً بھی اسی وقت پر آپ جمعہ کی نماز پڑھاتے رہے۔ حضرت اَنَس، حضرت سلمہ بن اکوع، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت زبیر بن العوام، حضرت سہل بن سعد، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت بلال (رضی اللہ عنہم) سے اس مضمون کی روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ نماز زوال کے بعد ادا فرمایا کرتے تھے (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد، نَسائی، تِرمذی ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔ یہ امر بھی آپ کے عمل سے ثابت ہے کہ اس روز آپ ظہر کی نماز کے بجائے جمعہ کی نماز پڑھاتے تھے، اس نماز کی صرف دو رکعتیں ہوتی تھیں، اور اس سے پہلے آپ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ یہ فرق جمعہ کی نماز اور عام دنوں کی نماز ظہر میں تھا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں صلوٰۃ المسافر رکعتان، وصلوٰۃ الفجر رکعتان، و صلوٰۃ الجمعۃ رکعتان، تمام غیر قصر علیٰ لسان نبیکم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وانما قصرت الجمعۃ لاجل الخطبۃ (احکام القرآن للجصاص) ۔ ” تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے حکم کی رو سے مسافر کی نماز دو رکعت ہے، فجر کی نماز دو رکعت ہے، اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے۔ یہ پوری نماز ہے، قصر نہیں ہے۔ اور جمعہ کو خطبہ کی خاطر ہی مختصر کیا گیا ہے “۔
۔۔۔۔۔۔ جس اذان کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے، نہ کہ وہ اذان جو خطبہ سے کافی دیر پہلے لوگوں کو یہ اطلاع دینے لیے دی جاتی ہے کہ جمعہ کا وقت شروع ہوچکا ہے۔ حدیث میں حضرت سائب بن یزید کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں صرف ایک ہی اذان ہوتی تھے، اور وہ امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں بھی یہی عمل ہوتا رہا۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں جب آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے پہلے ایک اور اذان دلوانی شروع کردی جو مدینے کے بازار میں ان کے مکان زوراء پر دی جاتی تھی (بخاری، ابو داؤد، نَسائی، طبرانی) ۔
اس حکم میں ذکر سے مراد خطبہ ہے، کیونکہ اذان کے بعد پہلا عمل جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کرتے تھے وہ نماز نہیں بلکہ خطبہ تھا، اور نماز آپ ہمیشہ خطبہ کے بعد ادا فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جمعہ کے روز ملائکہ ہر آنے والے کا نام اس کی آمد کی ترتیب کے ساتھ لکھتے جاتے ہیں۔ پھر : اذا خرج الامام حضرت الملٰئکۃ یستمعون الذکر۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے نکلتا ہے تو وہ نام لکھنے بند کردیتے ہیں اور ذکر (یعنی خطبہ) سننے میں لگ جاتے ہیں ” (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی ) ۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ذکر سے مراد خطبہ ہے۔ خود قرآن کا بیان بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ پہلے فرمایا : فَاسْعَوْا الیٰ ذِکْرِ اللہِ ۔ ” خدا کے ذکر کی طرف دوڑو “۔ پھر آگے چل کر فرمایا : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْارْضِ “۔ جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ “۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے روز عمل کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے ذکر اللہ اور پھر نماز۔ مفسرین کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ ذکر سے مراد یا تو خطبہ ہے یا پھر خطبہ اور نماز دونوں۔
خطبہ کے لیے ” ذکر اللہ ” کا لفظ استعمال کرنا خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اس میں وہ مضامین ہونے چاہییں جو اللہ کی یاد سے مناسبت رکھتے ہوں۔ مثلاً اللہ کی حمد و ثنا، اس کے رسول پر درود و صلوۃ، اس کے احکام اور اس کی شریعت کے مطابق عمل کی تعلیم و تلقین، اس کے ڈرنے والے نیک بندوں کی تعریف وغیرہ، اسی بنا پر زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ خطبہ میں ظالم حکمرانوں کی مدح و ثنا یا ان کا نام لینا اور ان کے لیے دعا کرنا، ذکر اللہ سے کوئی دور کی مناسبت بھی نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ تو ذکر الشیطان ہے۔
” اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو “۔ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھاگتے ہوئے آؤ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلدی سے جلدی وہاں پہنچنے کی کوشش کرو۔ اردو زبان میں بھی ہم دوڑ دھوپ کرنا، بھاگ دوڑ کرنا، سرگرم کوشش کے معنی میں بولتے ہیں، نہ کہ بھاگنے کے معنی میں، اسی طرح عربی میں بھی سعی کے معنی بھاگنے ہی کے نہیں ہیں۔ قرآن میں اکثر مقامات پر سعی کا لفظ کوشش اور جدو جہد کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً : لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ ۔ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعیٰ لَھَا سَعْیَھَا۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ ۔ وَاِذَا تَوَلّیٰ سَعیٰ فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا۔ مفسرین نے بھی بالاتفاق اس کو اہتمام کے معنی میں لیا ہے، ان کے نزدیک سعی یہ ہے کہ آدمی اذان کی آواز سن کر فوراً مسجد پہنچنے کی فکر میں لگ جائے۔ اور معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ حدیث میں بھاگ کر نماز کے لیے آنے کی صاف ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” جب نماز کھڑی ہو تو اس کی طرف سکون و وقار کے ساتھ چل کر آؤ۔ بھاگتے ہوئے نہ آؤ، پھر جتنی نماز بھی مل جائے اس میں شامل ہوجاؤ، اور جتنی چھوٹ جائے اسے بعد میں پورا کرلو “۔ (صحاح ستہ) ۔ حضرت ابو قتادہ انصاری فرماتے ہیں، ایک مرتبہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ یکایک لوگوں کے بھاگ بھاگ کر چلنے کی آواز آئی۔ نماز ختم کرنے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی ؟ ان لوگوں نے عرض کیا۔ ہم نماز میں شامل ہونے کے لیے بھاگ کر آ رہے تھے۔ فرمایا ” ایسا نہ کیا کرو، نماز کے لیے جب بھی آؤ پورے سکون کے ساتھ آؤ۔ جتنی مل جائے اس کو امام کے ساتھ پڑھ لو، جتنی چھوٹ جائے وہ بعد میں پوری کرلو ” (بخاری، مسلم)
” خریدو فروخت چھوڑ دو ” کا مطلب صرف خریدو فروخت ہی چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ نماز کے لیے جانے کی فکر اور اہتمام کے سوا ہر دوسری مصروفیت چھوڑ دینا ہے، بیع کا ذکر خاص طور پر صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ جمعہ کے رو تجارت خوب چمکتی تھی، آس پاس کی بستیوں کے لوگ سمٹ کر ایک جگہ جمع ہوجاتے تھے، تاجر بھی اپنا مال لے لے کر وہاں پہنچ جاتے تھے۔ لوگ بھی اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے میں لگ جاتے تھے۔ لیکن ممانعت کا حکم صرف بیع تک محدود نہیں ہے، بلکہ دوسرے تمام مشاغل بھی اس کے تحت آجاتے ہیں، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ان سے منع فرما دیا ہے، اس لیے فقہاء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد بیع اور ہر قسم کا کاروبار حرام ہے۔
یہ حکم قطعی طور پر نماز جمعہ کے فرض ہونے پر دلا لت کرتا ہے۔ اول تو اذان سنتے ہی اس کے لیے دوڑنے کی تاکید بجائے خود اس کی دلیل ہے۔ پھر بیع جیسی حلال چیز کا اس کی خاطر حرام ہوجانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ فرض ہے۔ مزید برآں ظہر کی فرض نماز کا جمعہ کے روز ساقط ہوجانا اور نماز جمعہ کا اس کی جگہ لے لینا بھی اس کی فرضیت کا صریح ثبوت ہے۔ کیونکہ ایک فرض اسی وقت ساقط ہوتا ہے جبکہ اس کی جگہ لینے والا فرض اس سے زیادہ اہم ہو۔ اسی کی تائید بکثرت احادیث کرتی ہیں، جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعہ کی سخت ترین تاکید کی ہے اور اسے صاف الفاظ میں فرض قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میرا جی چاہتا ہے کہ کسی اور شخص کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دوں اور جا کر ان لوگوں کے گھر جلادوں جو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتے “۔ (مسند احمد، بخاری) حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ہم نے جمعہ کے خطبہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے : ” لوگوں کو چاہیے کہ جمعہ چھوڑ نے سے باز آجائیں، ورنہ اللہ ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دے گا اور وہ غافل ہو کر رہ جائیں گے “۔ (مسند احمد، مسلم، نسائی) حضرت ابو الجعد ضحْری، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت عبد اللہ بن ابی اَوْفیٰ کی روایات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو ارشادات منقول ہوئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص کسی حقیقی ضرورت اور جائز عذر کے بغیر، محض بےپروائی کی بنا پر مسلسل تین جمعے چھوڑ دے، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے “۔ بلکہ ایک روایت میں تو الفاظ یہ ہیں کہ ” اللہ اس کے دل کو منافق کا دل بنا دیتا ہے ” ( مسند احمد، ابو داؤد نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، حاکم، ابن حبان، بزاز، طبرانی فی الکبیر) حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” آج سے لے کر قیامت تک جمعہ تم لوگوں پر فرض ہے۔ جو شخص اسے ایک معمولی چیز سمجھ کر یا اس کا حق نہ مان کر اسے چھوڑے، خدا اس کا حال درست نہ کرے، نہ اسے برکت دے۔ خوب سن رکھو، اس کی نماز نماز نہیں، اس کی زکوٰۃ زکوٰۃ نہیں، اس کا حج حج نہیں، اس کا روزہ روزہ نہیں، اس کی کوئی نیکی نیکی نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے اللہ اسے معاف فرمانے والا ہے “۔ (ابن ماجہ، بزار) اسی سے قریب المعنیٰ ایک روایت طبرانی نے اوسط میں ابن عمر سے نقل کی ہے۔ علاوہ بریں بکثرت روایات ہیں جن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعہ کو بالفاظ صریح فرض اور حق واجب قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جمعہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو اس کی اذان سنے ” (ابو داؤد، دارقطنی) جابر بن عبداللہ اور ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے خطبہ میں فرمایا۔ ” جان لو کہ اللہ نے تم پر نماز جمعہ فرض کی ہے “۔ (بیہقی) البتہ آپ نے عورت، بچے غلام، مریض اور مسافر کو اس فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ حضرت حفصہ کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” جمعہ کے لیے نکلنا ہر بالغ پر واجب ہے ” (نسائی) ۔ حضرت طارق بن شہاب کی روایت میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ ” جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ سوائے غلام، عورت، بچے، اور مریض کے ” (ابو داؤد، حاکم) حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں : ” جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس پر جمعہ فرض ہے۔ الّا یہ کہ عورت ہو یا مسافر ہو، یا غلام ہو، یا مریض ہو ” (دار قطنی، بیہقی) قرآن و حدیث کی ان ہی تصریحات کی وجہ سے جمعہ کی فرضیت پر پوری امت کا اجماع ہے۔
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
یہ اذان کس طرح دی جائے، اس کے الفاظ کیا ہوں ؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو، جمعہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ ہر چیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں (فتح القدیر) فَاَسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہے کہ اذان کے بعد فوراً کاروبار بند کر کے آجاؤ۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری) بعض حضرات نے ذروا البیع (خریدو فروخت) چھوڑ دو سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خریدوفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی ایسا گاؤں نہیں جہاں خریدو فروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو اس لیے یہ دعوٰی خلاف واقعہ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب دنیا کے مشاغل ہیں وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کردیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے ؟ کیا کیھتی باڑی کاروبار اور مشاغل دنیا سے مخلتف چیز ہے۔
پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل کے طالب بنو اور اللہ کو زیادہ یاد رکھو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
یہود کے احترام سبت کے بالمقابل جمعہ کی پابندی آسان ہے: یعنی یہ پابندی صرف اتنی ہی دیر کے لیے ہے کہ نماز سے فارغ ہو جاؤ۔ اس کے بعد تمہیں اجازت ہے کہ تم جہاں چاہو جاؤ اور جس شکل میں چاہو اللہ کے رزق و فضل کے طالب بنو۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اتنے قلیل وقت کی پابندی بھی تم اپنے رب کی خوشنودی کے لیے گوارا نہیں کر سکتے تو پھر تمہارا ایمان و اسلام کیا ہے! یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہود پر سبت کے احترام کی پابندی پورے دن کے لیے تھی۔ لیکن اس امت پر جمعہ کے احترام کی پابندی صرف اذان سے لے کر ختم نماز تک کے لیے عائد کی گئی ہے، باقی پورے دن میں اسی طرح آزادی ہے جس طرح دوسرے دنوں میں ہے۔
’وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘۔ یعنی تمہارے لیے رزق و فضل کی جدوجہد پر کوئی بابندی نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر اس جدوجہد میں دنیا ہی مطمح نظر نہیں ہے، آخرت کی فلاح بھی مطلوب ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر قدم پر اللہ کو یاد رکھو۔ یہی یاد تمہیں شیطان کے فریبوں اور فتنوں سے بچائے گی ورنہ شیطان تمہیں اس طرح اندھا بنا دے گا کہ تم حرام و حلال کے امتیاز سے عاری ہو کر اس دنیا کے کتے بن کر رہ جاؤ گے اور پھر جہنم ہی کے ایندھن بنو گے۔
پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
یعنی پابندی صرف خطبہ اور نماز کے لیے ہے۔ اِس کے بعد تم جہاں چاہو اور جس صورت میں چاہو، اپنی معاش کے لیے جدوجہد کر سکتے ہو۔
یعنی صرف نماز ہی میں نہیں، بلکہ اٹھتے بیٹھتے، ہمہ وقت دل و دماغ کو خدا کی یاد سے معمور اور زبان کو اُس سے تر رکھو۔ یہی فلاح کا راستہ ہے۔
پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو ۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ۔ شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہوجائے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور تلاش رزق کی دوڑ دھوپ میں لگ جانا ضروری ہے۔ بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے۔ چونکہ جمعہ کی اذان سن کر سب کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہوجانے بعد تمہیں اجازت ہے کہ منتشر ہوجاؤ اور اپنے جو کاروبار بھی کرنا چاہو کرو، یہ ایسا ہی ہے جیسے حالت احرام میں شکار کی ممانعت کرنے کے بعد فرمایا : فَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا (الماعدہ۔ 2) ” جب احرام کھول چکو تو شکار کرو ” اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولنے کے بعد ضرور شکار کرو، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے بعد شکار پر کوئی پابندی باقی نہیں رہتی۔ چاہو تو شکار کرسکتے ہو۔ یا مثلاً سورة نساء میں ایک سے زائد نکاح کی اجازت فانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ کے الفاظ میں دی گئی ہے۔ یہاں اگرچہ فانْکِحُوْا بصیغۂ امر ہے۔ مگر کسی نے بھی اس کو حکم کے معنی میں نہیں لیا ہے۔ اس سے یہ اصولی مسئلہ نکلتا ہے کہ صیغۂ امر ہمیشہ وجوب ہی کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ کبھی یہ اجازت اور کبھی استحباب کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ یہ بات قرائن سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں یہ حکم کے معنی میں ہے اور کہاں اجازت کے معنی میں اور کہاں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کو ایسا کرنا پسند ہے لیکن یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ فعل فرض و واجب ہے۔ خود اسی فقرے کے بعد متصلاً دوسرے ہی فقرے میں ارشاد ہوا ہے واذْکُرُوا اللہَ کَثِیْراً ۔ ” اللہ کو کثرت سے یاد کرو “۔ یہاں بھی صیغۂ امر موجود ہے، مگر ظاہر ہے کہ یہ استحباب کے معنی میں ہے نہ کہ وجوب کے معنی میں۔
اس مقام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ قرآن میں یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح جمعہ کو عام تعطیل کا دن قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن اس امر سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعار ملت ہے جس طرح ہفتہ اور اتوار یہودیوں اور عیسائیوں کے شعار ملت ہیں۔ اور اگر ہفتہ میں کوئی ایک دن عام تعطیل کے لیے مقرر کرنا ایک تمدنی ضرورت ہو تو جس طرح یہودی اس کے لیے فطری طور پر ہفتے کو اور عیسائی اتوار کو منتخب کرتے ہیں اسی طرح مسلمان (اگر اس کی فطرت میں کچھ اسلامی حس موجود ہو) لازماً اس غرض کے لیے جمعہ ہی کو منتخب کرے گا، بلکہ عیسائیوں نے تو دوسرے ایسے ملکوں پر بھی اپنے اتوار کو مسلط کرنے میں تامل نہ کیا جہاں عیسائی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی یہودیوں نے جب فلسطین میں اپنی اسرائیلی ریاست قائم کی تو اولین کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اتوار کے بجائے ہفتہ کو چھٹی کا دن مقرر کیا۔ قبل تقسیم کے ہندوستان میں برطانوی ہند اور مسلمان ریاستوں کے درمیان نمایاں فرق یہ نظر آتا تھا کہ ملک کے ایک حصے میں اتوار کی چھٹی ہوتی تھی اور دوسرے حصے میں جمعہ کی۔ البتہ جہاں مسلمانوں کے اندر اسلامی حس موجود نہیں ہوتی وہاں وہ اپنے ہاتھ میں اقتدار آنے کے بعد بھی اتوار ہی کو سینے سے لگائے رہتے ہیں جیسا کہ ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اس سے زیادہ جب بےحسی طاری ہوتی ہے تو جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی رائج کی جاتی ہے، جیسا کہ مصطفیٰ کمال نے ٹرکی میں کیا۔
یعنی اپنے کاروبار میں لگ کر بھی اللہ کو بھولو نہیں، بلکہ ہر حال میں اس کو یاد رکھو اور اس کا ذکر کرتے رہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورة احزاب، حاشیہ 63) ۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایک ہدایت یا ایک نصیحت یا ایک حکم دینے کے بعد لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْ نَ (شائد کہ تم فلاح پا جاؤ) اور لَعَلَّکُمْ تَرْ حَمُوْنَ (شاید کہ تم پر رحم کیا جائے) کے الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ اس طرح کے مواقع پر شاید کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو معاذاللہ کوئی شک لا حق ہے، بلکہ یہ دراصل شاہانہ انداز بیان ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مہربان آقا اپنے ملازم سے کہے کہ تم فلاں خدمت انجام دو، شاید کہ تمہیں ترقی مل جائے۔ اس میں ایک لطیف وعدہ پوشیدہ ہوتا ہے جس کی امید میں ملازم دل لگا کر بڑے شوق کے ساتھ وہ خدمت انجام دیتا ہے۔ کسی بادشاہ کی زبان سے کسی ملازم کے لیے یہ فقرہ نکل جائے تو اس کے گھر خوشی کے شادیانے بج جاتے ہیں۔
یہاں چونکہ جمعہ کے احکام ختم ہوگئے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب اربعہ میں قرآن، حدیث، آثار صحابہ، اور اسلام کے اصول عامہ سے جو احکام جمعہ مرتب کیے گئے ہیں ان کا خلاصہ دے دیا جائے۔
حنفیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے۔ نہ اس سے پہلے جمعہ ہوسکتا ہے، نہ اس کے بعد۔ بیع کی حرمت پہلی اذان ہی سے شروع ہوجاتی ہے، نہ کہ اس دوسری اذان سے جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے، کیونکہ قرآن میں اِذَ نُوْ دِیَ للصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ کے الفاظ مطلقاً ارشاد ہوئے ہیں۔ اس لیے زوال کے بعد جب جمعہ کا وقت شروع ہوجائے اس وقت جو اذان بھی نماز جمعہ کے لیے دی جائے، لوگوں کو اسے سن کر خریدو فروخت چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن اگر کسی شخص نے اس وقت خریدو فروخت کرلی ہو تو وہ بیع فاسد یا جسخ نہ ہوجائے گی، بلکہ یہ صرف ایک گناہ ہوگا۔ جمعہ ہر بستی میں نہیں بلکہ صرف مصر جامع میں ہوسکتا ہے، اور مصر جامع کی معتبر تعریف یہ کہ وہ شہر جس میں بازار ہوں، قیام امن کا انتظام موجود ہو، اور آبادی اتنی ہو کہ اگر اس کی بڑی سے بڑی مسجد میں بھی نماز جمعہ کے مکلف سب لوگ جمع ہوجائیں تو اس میں سما نہ سکیں۔ جو لوگ شہر سے باہ رہتے ہوں ان پر جمعہ اس صورت میں شہر آ کر پڑھنا فرض ہے جبکہ ان تک اذان کی آواز پہنچتی ہو، یا وہ زیادہ سے زیادہ شہر سے 6 میل کے فاصلے پر ہوں۔ نماز کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں ہو۔ وہ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے اور ایسے میدان میں بھی ہو سکتی ہے جو شہر کے باہر ہو مگر اس کا یاک حصہ شمار ہوتا ہو، نماز جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتی ہے جہاں ہر شخص کے لیے شریک ہونے کا اذن عام ہو۔ کسی بند جگہ، جہاں ہر ایک کو آنے کی اجازت نہ ہو، خواہ کتنے ہی آدمی جمع ہوجائیں، جمعہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں کم از کم (بقول ابو حنیفہ) امام کے سوا تین آدمی، یا (بقول ابو یوسف و محمد) امام سمیت دو آدمی ایسے موجود ہوں جن پر جمعہ فرض ہے۔ جن عذرات کی بنا پر ایک شخص سے جمعہ ساقط ہوجاتا ہے وہ یہ ہیں : آدمی حالت سفر میں ہی، یا ایسا بیمار ہو کہ چل کر نہ آسکتا ہو، یا دونوں ٹانگوں سے معذور ہو، یا اندھا ہو (مگر امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک اندھے پر سے صرف اس وقت جمعہ کی فرضیت ساقط ہوتی ہے جبکہ وہ کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے چلا کرلے جائے) یا کسی ظالم سے اس کو جان اور آبرو کا، یا ناقابل برداشت مالی نقصان کا خطرہ ہو، یا سخت بارش اور کیچڑ پانی ہو، یا آدمی قید کی حالت میں ہو۔ قیدیوں اور معذوروں کے لیے یہ بات مکروہ ہے کہ وہ جمعہ کے روز ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ جن لوگوں کا جمعہ چھوٹ گیا ہو ان کے لیے بھی ظہر کی نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے۔ خطبہ صحت جمعہ کی شرائط میں سے ایک شرط ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی جمعہ کی نماز خطبہ کے بغیر نہیں پڑھی ہے، اور وہ لازماً نماز سے پہلے ہونا چاہیے، اور دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبہ کے لیے جب امام منبر کی طرف جائے، اس وقت سے اختتام خطبہ تک ہر قسم کی بات چیت ممنوع ہے، اور نماز بھی اس وقت نہیں پڑھنی چاہیے، خواہ امام کی آواز اس مقام تک پہنچتی ہو یا نہ پہنچتی ہو جہاں کوئی شخص بیٹھا ہو (ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص، الفقہ علی المذاہب الا ربعہ، عمدۃ القاری) ۔
شافعیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا ہے۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب دوسری اذان ہو (یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے ) ۔ تاہم اگر کوئی شخص اس وقت بیع کرے تو وہ فسخ نہیں ہوتی۔ جمعہ ہر اس بستی میں ہوسکتا ہے جس کے مستقل باشندوں میں 40 ایسے آدمی موجود ہوں جن پر نماز جمعہ فرض ہے۔ بستی سے باہر کے ان لوگوں پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا لازم ہے جن تک اذان کی آواز پہنچ سکتی ہو۔ جمعہ لازماً بستی کے حدود میں ہونا چاہیے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں پڑھا جائے۔ جو لوگ صحرا میں خیموں کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ واجب نہیں ہے۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں امام سمیت کم از کم 40 ایسے آدمی شریک ہوں جن پر جمعہ فرض ہے۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہوجاتا ہے وہ یہ ہیں : سفر کی حالت میں ہو، یا کسی مقام پر چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو، بشرطیکہ سفر جائز نوعیت کا ہو۔ ایسا بوڑھا یا مریض ہو کہ سواری پر بھی جمعہ کے لیے نہ جاسکتا ہو۔ اندھا ہو اور کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے نماز کے لیے لے جائے۔ جان یا مال یا آبرو کا خوف لاحق ہو۔ قید کی حالت میں ہو، بشرطیکہ اس کی قید اس کے اپنے کسی قصور کی وجہ سے نہ ہو۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبے کے دوران میں خاموش رہنا مسنون ہے، مگر بات کرنا حرام نہیں ہے۔ جو شخص امام سے اتنا قریب بیٹھا ہو کہ خطبہ سن سکتا ہو اس کے لیے بولنا مکروہ ہے، لیکن وہ سلام کا جواب دے سکتا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر سن کر بآواز بلند درود پڑھ سکتا ہے (مغنی المحتاج۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔
مالکیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت زوال سے شروع ہو کر مغرب سے اتنے پہلے تک ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے خطبہ اور نماز ختم ہوجائے۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگر بیع واقع ہو تو وہ فاسد ہے اور فسخ ہوگی۔ جمعہ صرف ان بستیوں میں ہوسکتا ہے جن کے باشندے وہاں مستقل طور پر گھر بنا کر رہتے ہوں، اور جاڑے گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں، اور ان کی ضروریات اسی بستی میں فراہم ہوتی ہوں، اور اپنی تعداد کی بنا پر وہ اپنی حفاظت کرسکتے ہوں۔ عارضی قیام گاہوں میں خواہ کتنے ہی لوگ ہوں اور خواہ وہ کتنی ہی مدت ٹھہریں، جمعہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔ جس بستی میں جمعہ قائم کیا جاتا ہو اس سے تین میل کے فاصلے تک رہنے والے لوگوں پر جمعہ میں حاضر ہونا فرض ہے۔ نماز جمعہ صرف ایسی مسجد میں ہو سکتی ہے جو بستی کے اندر یا اس سے متصل ہو اور جس کی عمارت بستی کے عام باشندوں کے گھروں سے کم تر درجے کی نہ ہو۔ بعض مالکیوں نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ مسجد مسقف ہونی چاہیے اور اس میں پنج وقتہ نماز کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ لیکن مالکیہ کا راجح مسلک یہ ہے کہ کسی مسجد میں صحت جمعہ کے لیے اس کا مسقف ہونا شرط نہیں ہے، اور ایسی مسجد میں بھی جمعہ ہوسکتا ہے جو صرف نماز جمعہ کے لیے بنائی گئی ہو اور پنج وقتہ نماز کا اس میں اہتمام نہ ہو۔ جمعہ کی نماز صحیح ہونے کے لیے جماعت میں امام کے سوا کم از کم 12 ایسے آدمیوں کا موجود ہونا ضروری ہے جن پر جمعہ فرض ہو۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہوجاتا ہے وہ یہ ہیں : سفر کی حالت میں ہو یا بحالت سفر کسی جگہ چار دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو۔ ایسا مریض ہو کہ مسجد آنا اس کے لیے دشوار ہو۔ اس کی ماں یا باپ یا بیوی یا بچہ بیمار ہو، یا وہ کسی ایسے اجنبی مریض کی تیمارداری کر رہا ہو جس کا اور کوئی تیماردار نہ ہو، یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار سخت بیماری میں مبتلا ہو یا مرنے کے قریب ہو۔ اس کے ایسے مال کو جس کا نقصان قابل برداشت نہ ہو خطرہ لاحق ہو، یا اسے اپنی جان یا آبرو کا خطرہ ہو، یا وہ مار یا قید کے خوف سے چھپا ہوا ہو بشرطیکہ وہ اس معاملہ میں مظلوم ہو۔ سخت بارش اور کیچڑ پانی یا سخت گرمی یا سردی مسجد تک پہنچنے میں مانع ہو۔ دو خطبے نماز سے پہلے لازم ہیں، حتیٰ کہ اگر نماز کے بعد خطبہ ہو تو نماز کا اعادہ ضروری ہے۔ اور یہ خطبے لازماً مسجد کے اندر ہونے چاہییں خطبے کے لیے جب امام منبر کی طرف آواز نہ سن رہا ہو۔ لیکن اگر خطیب اپنے خطبے میں ایسی لغو باتیں کرے جو نظام خطبہ سے خارج ہوں، یا کسی ایسے شخص کو گالیاں دے جو گالی کا مستحق نہ ہو، یا کسی ایسے شخص کی تعریفیں شروع کر دے جس کی تعریف جائز نہ ہو، یا خطبہ سے غیر متعلق کوئی چیز پڑھنے لگے، تو لوگوں کو اس پر احتجاج کرنے کا حق ہے۔ نیز خطبہ میں بادشاہ وقت کے لیے دعا مکروہ ہے الا یہ کہ خطیب کو اپنی جان کا خطرہ ہو۔ خطیب لازماً وہی شخص ہونا چاہیے جو نماز پڑھائے۔ اگر خطیب کے سوا کسی اور نے نماز پڑھائی ہو تو وہ باطل ہوگی (حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر۔ احکام القرآن ابن عربی۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔
حنابلہ کے نزدیک جمعہ کی نماز کا وقت صبح کو سورج کے بقدر ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد سے عصر کا وقت شروع ہونے تک ہے۔ لیکن زوال سے پہلے جمعہ صرف جائز ہے، اور زوال کے بعد واجب اور افضل۔ بیع کی حرمت اور سعی کے وجوب کا وقت دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو بیع ہو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتی۔ جمعہ صرف اس جگہ ہوسکتا ہے جہاں 40 ایسے آدمی جن پر جمعہ فرض ہو، مستقل طور پر گھروں میں (نہ کہ خیموں میں) آباد ہوں، یعنی جاڑے اور گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں۔ اس غرض کے لیے بستی کے گھروں اور محلوں کے باہم متصل یا متفرق ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ان سب کے مجموعہ کا نام ایک ہو تو وہ ایک ہی بستی ہے خواہ اس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر واقع ہوں۔ ایسی بستی سے جو لوگ تین میل کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا فرض ہے۔ جماعت میں امام سمیت 40 آدمیوں کی شرکت ضروری ہے۔ نماز کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ مسجد ہی میں ہو۔ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہوجاتا ہے وہ یہ ہیں : مسافر ہو اور جمعہ کی بستی میں چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو۔ ایسا مریض ہو کہ سواری پر آنا بھی اس کے لیے مشکل ہو۔ اندھا ہو، الا یہ کہ خود راستہ ٹٹول کر آسکتا ہو۔ کسی دوسرے شخص کے سہارے آنا اندھے کے لیے واجب نہیں ہے۔ سخت سردی یا سخت گرمی یا سخت بارش اور کیچڑ نماز کی جگہ پہنچنے میں مانع ہو۔ کسی ظالم کی ظلم سے بچنے کے لیے چھپا ہوا ہو۔ جان یا آبرو کا خطرہ یا ایسے مالی نقصان کا خوف ہو جو قابل برداشت نہ ہو۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں۔ خطبے کے دوران میں اس شخص کے لیے بولنا حرام ہے جو خطیب سے اتنا قریب ہو کہ اس کی آواز سن سکتا ہو۔ البتہ دور کا آدمی جس تک خطیب کی آواز نہ پہنچتی ہو، بات کرسکتا ہے۔ خطیب خواہ عادل ہو یا غیر عادل، لوگوں کو خطبہ کے دوران میں چپ رہنا چاہیے۔ اگر جمعہ کے روز عید ہوجائے تو جو لوگ عید پڑھ چکے ہوں ان پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہے۔ اس مسئلے میں حنابلہ کا مسلک ائمہ ثلاثہ کے مسلک سے مختلف ہے (غایتہ المنتہیٰ ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ) ۔
اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص پر جمعہ فرض نہیں ہے وہ اگر نماز جمعہ میں شریک ہوجائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس کے لیے پھر ظہر پڑھنا فرض نہیں رہتا۔
پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پالو۔
اس سے مراد کاروبار اور تجارت ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہوجاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔
امین احسن اصلاحی
تسبیح کرتی ہیں آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اس اللہ ہی کی جو بادشاہ، قدوس، عزیز اور حکیم ہے۔
تمہید: یہ تمہیدی آیت، معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ، پچھلی سورتوں میں بھی گزر چکی ہے۔ سابق سورہ میں صیغۂ ماضی ’سَبَّحَ‘ آیا ہے اس میں ’یُسَبِّحُ‘ ہے جو تصویر حال کا فائدہ دے رہا ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ کی چار صفات بیان ہوئی ہیں۔ ’اَلْمَلِک‘ جس کے معنی بادشاہ کے ہیں۔ ’اَلْقُدُّوۡسِ‘ جس کے معنی ہر نقص و عیب سے پاک کے ہیں۔ ’اَلْعَزِیْزِ‘ جس کے معنی، جیسا کہ بار بار واضح کیا جا چکا ہے، غالب و مقتدر کے ہیں۔ ’اَلْحَکِیْمِ‘ وہ ذات جس کے ہر قول و فعل میں حکمت ہے۔ یہ چاروں صفات آگے والی آیت کی تمہید کے طور پر یہاں آئی ہیں۔ ان کی وضاحت آیت کی تفسیر کے تحت ہی مناسب رہے گی۔