قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ

امین احسن اصلاحی

کہہ دو، اے کافرو!

’قُلْ‘ اعلان کے مفہوم میں: ’قُلْ‘ یہاں اعلان کر دینے کے معنی میں ہے۔ اس معنی میں یہ قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ اس سورہ کا مضمون اعلان کا مقتضی تھا تاکہ جو مفسدین کفر اور اسلام کے درمیان سمجھوتے کے خبط میں مبتلا تھے وہ بھی اپنی سعئ نامراد سے مایوس ہو جائیں اور جو سادہ لوح اس طرح کی تجویزیں پیش کرنے والوں کو امن پسند اور صلح جُو گمان کر رہے تھے ان پر بھی اصل حقیقت واضح ہو جائے کہ یہ صلح و امن کی راہ نہیں بلکہ فساد کی مستقل پرورش کی راہ ہے۔

ائمۂ کفر سے خطاب: ’یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ‘ کا خطاب ظاہر ہے کہ قریش کے ان ائمۂ کفر سے ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مخاطب اول تھے لیکن آپ کی برسوں کی جدوجہد کے بعد ان کے رویہ میں کوئی تبدیلی ہوئی تو یہ ہوئی کہ انھوں نے کفر اور اسلام دونوں کا ایک ملغوبہ تیار کرنے کا مطالبہ کیا۔ رسول اتمام حجت کا کامل ذریعہ ہوتا ہے۔ اگر اس کی محنت بھی ان کو متاثر نہ کر سکی تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ پھر کوئی بھی دوسری ایسی چیز نہیں رہ گئی تھی جو ان کی حالت میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکے۔ چنانچہ ان لوگوں کے بارے میں آگے اس سورہ میں جس مایوسی کا اظہار فرمایا گیا ہے وہ بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ ان میں سے کوئی بھی اسلام لانے والا نہیں بنا بلکہ ہر ایک اپنے غرور اور انانیت کا شکار ہوا۔
دو سوال اور ان کے جواب: یہاں اس خطاب سے متعلق دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن میں عام طور پر قریش کے لیڈروں کو اس طرح کے سخت خطاب سے کہیں مخاطب نہیں کیا گیا ہے، پھر اسی سورہ کی کیا خصوصیت ہے کہ اس میں ان کو ’یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ‘ سے خطاب کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ قریش بلکہ اہل عرب بالعموم خدا کے منکر نہیں بلکہ اس کے شریک ٹھہرانے والے تھے تو قرآن نے ان کو ’اے کافرو‘ کیوں کہا، ’اے میرے مشرکو‘ سے کیوں نہیں خطاب کیا؟
ان دونوں سوالوں کے جواب اگرچہ اس کتاب میں جگہ جگہ دیے جا چکے ہیں اور تمہید میں بھی اس کی طرف اشارہ ہو چکا ہے لیکن ہم یہاں پھر ان کو صاف کیے دیتے ہیں۔
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کا جواب یہ ہے کہ حضور نے یہ انداز خطاب اس وقت اختیار فرمایا ہے جب اچھی طرح اتمام حجت کر دینے کے بعد، قوم کے رویہ سے بالکل مایوس ہو کر، اللہ تعالیٰ کے اذن سے، آپ نے ہجرت کا فیصلہ فرما لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رسول کو ہجرت کا حکم اسی وقت دیتا ہے جب قوم کے رویہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر ایمان قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے اور اس کی مکابرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اگر اس کا مزید تعاقب کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ وہ رسول کو قتل کر دے۔ اس مرحلے میں رسول کے لیے یہ بات بالکل معقول ہوتی ہے کہ وہ قوم اور قوم کے معبودوں سے اپنی کامل بیزاری کا اعلان کر کے ان سے الگ ہو جائے اور چونکہ رسول کی دعوت سے کفر اور اسلام دونوں کی اچھی طرح وضاحت ہو چکتی ہے اس وجہ سے جو بھی اس میں سے کسی ایک کو اختیار کرتا ہے، اس کے متعلق اس شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اس نے کفر یا اسلام میں سے کسی کو بے سمجھے بوجھے اختیار کیا ہے اس وجہ سے اگر اس دور میں رسول کفر پر اڑے رہنے والوں کو ’اے کافرو‘ سے خطاب کرتا ہے تو یہ خطاب بالکل برمحل، جائز اور معقول ہوتا ہے۔
اس سے ہمارے لیے یہ تعلیم نکلتی ہے کہ جو چیز کفر یا شرک ہے اس کو کفر یا شرک بتانا اور اس سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرنا تو ہر مسلمان کی ہر لمحہ ذمہ داری ہے لیکن کسی فرد یا گروہ کو کافر قرار دے کر اس سے اعلان براء ت کرنا یا اپنے جملہ روابط اس سے کاٹ لینا یا اس سے اعلان جنگ کر دینا بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کا مسئلہ بڑا ہی مشکل ہے جو اپنی ہر گمراہی کو اسلام بنائے ہوئے ہوں اور صحیح اسلام ان کے آگے پیش کرنے کا کوئی شرعی نظام موجود نہ ہو۔ اس طرح کے حالات میں صحیح راستہ یہی ہو سکتا ہے کہ آدمی غلطیوں اور گمراہیوں پر تنقید تو کرے اور لوگوں کے ان افعال میں شرکت سے اجتناب بھی کرے جو شرکت و بدعت کی نوعیت کے ہوں لیکن ان کو کافر قرار دے کر ان سے کلیۃً علیحدگی کااعلان اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے لیے مجبور نہ ہو جائے یا یہ باور کرنے کے لیے اس کے سامنے معقول وجوہ نہ آ جائیں کہ اس نے لوگوں پر حق واضح کر دیا اور یہ دوسری چیز نہایت مشکل ہے۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ شرک حقیقت میں کفر ہی ہے۔ دین میں ایمان صرف وہی معتبر ہے جو کامل توحید کے ساتھ ہو یعنی آدمی خدا کی ذات، اس کی صفات اور اس کے حقوق میں کسی دوسرے کو کسی پہلو سے بھی شریک نہ ٹھہرائے۔ اللہ تعالیٰ کسی کے ایمان اور اس کی بندگی کا محتاج نہیں ہے کہ وہ ہر قسم کا ایمان اور ہر قسم کی بندگی قبول ہی کر لے اگرچہ اس میں شرک کی ملاوٹ بھی ہو۔ وہ اپنی بندگی اپنی شرائط پر چاہتا ہے، نہ کہ دوسروں کی شرائط پر، اس وجہ سے ہر وہ عمل خدا کے ہاں غیرمقبول ہے جو صرف اسی کے لیے نہ کیا گیا ہو بلکہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کر دیا گیا ہو۔ قرآن کے فلسفہ کی رو سے اس شخص میں جو خدا کا منکر ہے اور اس شخص میں جو اس کو مانتا ہے لیکن خدائے واحد کی حیثیت سے نہیں بلکہ بہت سے دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا یا سب سے بڑے دیوتا کی حیثیت سے مانتا ہے، کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دونوں ہی خدا کے منکر یا دوسرے الفاظ میں کافر ہیں۔ اس لیے کہ شرک کے ساتھ خدا کو ماننا اس کی تمام اعلیٰ صفات کی نفی ہے اور صفات کی نفی کے ساتھ اس کو ماننا اس کے نہ ماننے کے ہم معنی ہے۔ قرآن نے یہاں ان مشرکوں کو کافر کہہ کر اسی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ شرک درحقیقت کفر ہی ہے، کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ کسی درجے میں بھی کفر کے مقابلے میں اہون یا قابل لحاظ ہے۔

جاوید احمد غامدی

تم اعلان کرو، (اے پیغمبر) کہ اے کافرو۔

یہ خطاب قریش کے ائمۂ کفر سے ہے۔ آگے کے مضمون سے واضح ہے کہ ’اے کافرو‘، کے صاف صاف الفاظ میں یہ خطاب اُس موقع پر ہوا ہے، جب اُن سے حتمی طور پر قطع تعلق اور براء ت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ اعلان براء ت رسولوں کی اُس سنت کے مطابق ہوا ہے جس کی وضاحت پچھلی سورتوں میں ہو چکی ہے کہ اللہ کے رسول اپنی قوم کو پہلے دین کی بنیادی باتوں توحید اور قیامت کی دعوت دیتے ہیں۔ اِس دعوت میں وہ قوم کو ’اپنی قوم‘ ہی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہیں اور اِس پر اُس وقت تک پوری استقامت سے جمے رہتے ہیں، جب تک قوم کے اعیان و اکابر اپنے رویے سے اُن کو مایوس نہیں کر دیتے۔ جب وہ مایوس کر دیتے ہیں اور بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ہٹ دھرم اپنی ضد سے باز آنے والے نہیں ہیں، تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کو ہجرت کا حکم ہوتا ہے اور وہ قوم سے اعلان براء ت کرکے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کر جاتا ہے۔ رسول کی ہجرت قوم کے لیے گویا آخری تنبیہ ہوتی ہے۔ اِس کے بعد اگر اُس کے رویے میں کوئی اچھی تبدیلی نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ ایک محدود مہلت دینے کے بعد قوم کے تمام مکذبین کو تباہ کر دیتا ہے، خواہ یہ تباہی رسول کی زندگی ہی میں واقع ہو یا اُس کے بعد اور خواہ اِس کے لیے اللہ تعالیٰ کوئی قہر آسمانی نازل کرے یا رسول کے ساتھیوں کی تلوار اِس کے لیے بے نیام ہو۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۶۰۱)

یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ ائمۂ قریش کی یہ تکفیر خدا کی طرف سے ہے اور اِس بنا پرکی گئی ہے کہ مخاطبین نے اتمام حجت کے درجے تک دعوت و تبلیغ اور تذکیر و تلقین کے بعد بھی رسول کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ چنانچہ معلوم ہے کہ آگے جس مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے، وہ بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ اِن مکذبین میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نہیں بنا، بلکہ سب اپنے غرور اور انانیت کا شکار ہو کر عذاب الٰہی سے دوچار ہو گئے۔ رسولوں کے بعد کوئی فرد یا جماعت بھی اِس طرح اتمام حجت نہیں کر سکتی اور نہ اُسے خدا کی طرف سے اعلان تکفیر کا اذن حاصل ہو سکتا ہے۔ اِس وجہ سے اب کوئی شخص کسی دوسرے کی تکفیر نہیں کر سکتا، الاّ یہ کہ وہ خود اپنے کفر کا اعلان کرے۔ حق کے داعی زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتے ہیں، وہ یہی ہے کہ زندگی کے آخری مرحلے تک کفر و شرک کی حقیقت لوگوں پر واضح کرتے رہیں اور اُن کے اُن افعال میں شرکت سے اجتناب کریں جو شرک و بدعت کی نوعیت کے ہوں-

ابو الاعلی مودودی

کہہ دو کہ اے کافرو۔

اس آیت میں چند باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں :

(١) حکم اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے کہ آپ کافروں سے یہ بات صاف صاف کہہ دیں، لیکن آگے کا مضمون یہ بتا رہا ہے کہ ہر مومن کو وہی بات کافروں سے کہہ دینی چاہیے جو بعد کی آیات میں بیان ہوئی ہے کہ حتی کہ جو شخص کفر سے توبہ کر کے ایمان لے آیا ہو اس کے لیے بھی لازم ہے کہ دین کفر اور اس کی عبادات اور معبودوں سے اسی طرح اپنی براءت کا اظہار کردے۔ پس لفظ قل (کہہ دو) کے اولین مخاطب تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں، مگر حکم حضور کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ آپ کے واسطے سے ہر مومن کو پہنچتا ہے۔

(٢) ” کافر ” کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے جو اس آیت کے مخاطبوں کو دی گئی ہو، بلکہ عربی زبان میں کافر کے معنی انکار کرنے والے اور نہ ماننے والے (unbeliever) کے ہیں، اور اس کے مقابلے میں ” مومن ” کا لفظ مان لینے اور تسلیم کرلینے والے (Believer) کے لیے بولا جاتا ہے، لہذا اللہ کے حکم سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ ” اے کافرو ” دراصل اس معنی میں ہے کہ ” اے وہ لوگو جنہوں نے میری رسالت اور میری لائی ہوئی تعلیم کو ماننے سے انکار کیا ہے “۔ اور اسی طرح ایک مومن جب یہ لفظ کہے گا تو اس کی مراد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے والے ہوں گے۔

(٣) اے کافرو کہا ہے، اے مشرکو نہیں کہا، اس لیے مخاطب صرف مشرکین ہی نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا رسول، اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم و ہدایت کو اللہ جل شانہ کی تعلیم و ہدایت نہیں مانتے، خواہ وہ یہود ہوں، نصاری ہوں، مجوسی ہوں، یا دنیا بھر کے کفار و مشرکین اور ملاحدہ ہوں۔ اس خطاب کو صرف قریش یا عرب کے مشرکین تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

(٣) منکرین کو اے کافرو کہہ کر خطاب کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کچھ لوگوں کو اے دشمنو یا اے مخاطبو کہہ کر مخاطب کیں۔ اس طرح کا خطاب دراصل مخاطبوں کی ذات سے نہیں ہوتا بلکہ ان کی صفت دشمنی اور صفت مخالفت کی بنا پر ہوتا ہے اور اسی وقت تک کے لیے ہوتا ہے جب تک ان میں یہ صفت باقی رہے۔ اگر ان میں سے کوئی دشمنی و مخالفت چھوڑ دے، یا دوست اور حامی بن جائے تو وہ اس خطاب کا مخاطب نہیں رہتا۔ بالکل اسی طرح جن لوگوں کو ” اے کافرو ” کہہ کر خطاب کیا گیا ہے، وہ بھی ان کی صفت کفر کے لحاظ سے نہ کہ ان کی ذاتی حیثیت سے، ان میں سے جو شخص مرتے دم تک کافر رہے اس کے لیے تو یہ خطاب دائمی ہوگا، لیکن جو شخص ایمان لے آئے وہ اس کا مخاطب نہ رہے گا۔

(٥) مفسرین میں سے بہت سے بزرگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس سورة میں ” اے کافرو ” کا خطاب قریش کے صرف ان چند مخصوص لوگوں سے تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دین کے معاملے میں مصالحت کی تجویزیں لے لے کر آرہے تھے اور جن کے متلعق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتا دیا تھا کہ یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ یہ رائے انہوں نے دو وجودہ سے قائم کی ہے۔ ایک یہ کہ آگے لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ (جس کی یا جن کی عبادت تم کرتے ہو اس کی یا ان کی عبادت میں نہیں کرتا) فرمایا گیا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ قول یہود و نصاری پر صادق نہیں آتا، کیونکہ وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ آگے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ ( اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں) اور ان کا استدلال یہ ہے کہ یہ قول ان لوگوں پر صادق نہیں آتا جو اس سورة کے نزول کے وقت کافر تھے اور بعد میں ایمان لے آئے۔ لیکن یہ دونوں دلیلیں صحیح نہیں ہیں۔ جہاں تک ان آیتوں کا تعلق ہے ان کی تشریح تو ہم آگے چل کر کریں گے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ان کا وہ مطلب نہیں ہے جو ان سے سمجھا گیا ہے۔ یہاں اس استدلال کی غلطی واضح کرنے کے لیے صرف اتنی بات کہہ دینا کافی ہے کہ اگر اس سورة کے مخاطب صرف وہی لوگ تھے تو ان کے مر کھپ جانے کے بعد اس سورة کی تلاوت جاری رہنے کی آخر کیا وجہ ہے ؟ اور سے مستقل طور پر قرآن میں درج کردینے کی کیا ضرورت تھی کہ قیامت تک مسلمان اسے پڑھتے رہیں ؟

جونا گڑھی

آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو

الکفرون میں الف لام جنس کے لیے ہے لیکن بطور خاص صرف ان کافروں سے خطاب ہے جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ کفر و شرک پر ہوگا۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے بعد کئی مشرک مسلمان ہوئے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی (فتح القدیر)

لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ

امین احسن اصلاحی

نہ میں پوجوں گا جن چیزوں کو تم پوجتے ہو۔

سمجھوتے کی پیشکش کا جواب: کفر کے سرغنوں کو خطاب کر کے یہ ان کی اس پیش کش کا جواب ہے جو وہ باہمی سمجھوتے کے لیے کر رہے تھے۔ فرمایا کہ میں ان چیزوں کو نہیں پوجوں گا جن کو تم پوجتے ہو۔ گویا پہلے ہی فقرے میں ان کی توقع کا خاتمہ کر دیا۔

عام طور پر لوگوں نے ’لَآ اَعْبُدُ‘ کو حال کے مفہوم میں لیا ہے لیکن اس کو حال کے مفہوم میں لینا صاحب کشاف کے نزدیک عربیت کے خلاف ہے اور میرے نزدیک ان کی رائے صائب ہے۔ مضارع پر جب اس طرح ’لَا‘ آئے گا تو وہ مضارع کو لازماً مستقبل کے مفہوم میں کر دے گا۔ حال کے مفہوم کے لیے ’لَا‘ نہیں بلکہ ’مَا‘ کا استعمال موزوں ہے۔
علاوہ ازیں حال سے متعلق کسی نفی یا اثبات کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ قریش میں سے ہر شخص کوعلم تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان بتوں میں سے کسی کو نہیں پوجتے۔ پھر ان کو یہ بتانے سے کیا فائدہ کہ میں ان کو نہیں پوجتا جن کو تم پوجتے ہو؟ سمجھوتے کی تجویزیں پیش کرنے سے ان کا اصلی مقصد تو یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس رویے میں کچھ لچک پیدا کریں جس میں دوسرے معبودوں کے لیے سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں رہی ہے۔ ان کی اس توقع پر ضرب لگ سکتی تھی تو اسی صورت میں لگ سکتی تھی جب ان کو آئندہ کے لیے یہ یقین دلا دیا جائے کہ خدا کی توحید کے باب میں آپ کوئی لچک قبول کرنے والے نہیں ہیں۔
سورۂ قلم کی آیت ’وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ‘؂۱ (القلم ۶۸: ۹) (وہ چاہتے ہیں کہ تم کچھ نرم پڑو تو وہ بھی نرم پڑ جائیں گے) کے تحت ہم واضح کر چکے ہیں کہ قریش اپنے جبر و ظلم کے تمام حربے آزما کر ہجرت سے کچھ پہلے پہلے یہ اندازہ کر چکے تھے کہ اسلام کی روز افزوں ترقی کو روکنا ان کے امکان میں نہیں رہا۔ اب اگر کچھ امکان ہے تو صرف یہ ہے کہ دباؤ ڈال کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘ کے اصول پر معاملہ کرنے کی طرف مائل ہوں یعنی جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ایک مقام تسلیم کرتے ہیں اسی طرح آپ ہمارے بتوں کے لیے بھی عبادت میں ایک حق تسلیم کر لیں تو یہ جھگڑا ختم ہو جائے۔ ان کو توقع تھی کہ دباؤ ڈال کر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا موقف تسلیم کرا لیں گے چنانچہ انھوں نے اپنا پورا زور صرف کر دیا یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حالات سے مجبور ہو کر ہجرت کی راہ اختیار کرنی پڑی لیکن دین کی بنیاد چونکہ توحید ہی پر ہے اس وجہ سے ہجرت کے امتحان سے گزرنا گوارا کر لیا گیا لیکن اس معاملے میں کوئی لچک گوارا نہیں کی گئی بلکہ صاف صاف ’لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ‘ کا اعلان کر دیا گیا۔
_____
؂۱ ملاحظہ ہو تدبر قرآن۔ جلد ہفتم، صفحات: ۵۱۶-۵۱۷۔

جاوید احمد غامدی

میں اُن کی عبادت نہیں کروں گا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔

اصل الفاظ ہیں:’لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ‘۔ اِن میں مضارع پر’لَآ‘ ہے۔ یہ دلیل ہے کہ یہ ایک قطعی فیصلہ ہے جس سے مستقبل میں شرک و توحید کے مابین سمجھوتے کی ہر توقع بالکل ختم کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ مجھ سے یہ امید اب کسی کو نہیں رکھنی چاہیے کہ اپنے پروردگار کی عبادت کے معاملے میں میں تمھارے ساتھ کوئی سمجھوتا کروں گا۔ اِس طرح کی خواہش اگر کسی کے دل میں ہے تو وہ اُسے ہمیشہ کے لیے ختم کر لے۔ شرک و توحید کے مابین ہرگز کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی۔ میں اِس باب میں کوئی لچک قبول کرنے والا نہیں ہوں۔ لہٰذا تمھارے تمام معبودوں سے اظہار براء ت کرتا ہوں۔

ابو الاعلی مودودی

میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔

اس میں وہ سب معبود شامل ہیں جن کی عبادت دنیا بھر کے کفار اور مشرکین کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، خواہ وہ ملائکہ ہوں، جنہوں، انبیاء اور اولیاء ہوں، زندہ یا مردہ انسانوں کی ارواح ہوں، یا سورج، چاند ستارے، جانور، درخت، دریا، بت اور خیالی دیویاں اور دیوتا ہوں۔ اس پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو بھی تو معبود مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین نے بھی قدیم زمانے سے آج تک اللہ کے معبود ہونے کا انکار نہیں کیا ہے۔ رہے اہل کتاب تو وہ اصل معبود تو اللہ ہی کو تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ان سب لوگوں کے تمام معبودوں کی عبادت سے کسی استثناء کے بغیر براءت کا اعلان کیسے صحیح ہوسکتا ہے جبکہ اللہ بھی ان میں شامل ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو معبودوں کے مجموعے میں ایک معبود کی حیثیت سے شامل کر کے اگر دوسروں کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے تو وہ شخص جو توحید پر ایمان رکھتا ہو لازما اس عبادت سے اپنی براءت کا اظہار کرے گا، کیونکہ اس کے نزدیک اللہ معبودوں کے مجموعے میں سے ایک معبود نہیں بلکہ وہی ایک تنہا معبود ہے، اور اس مجموعے کی عبادت سرے سے اللہ کی عبادت ہی نہیں ہے اگرچہ اس میں اللہ کی عبادت بھی شامل ہو۔ قرآن مجید میں اس بات کو صاف صاف کہا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت صرف وہ ہے جس کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کا شائبہ تک نہ ہو، اور جس میں انسان اپنی بندگی کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کردے۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ ۔ ” لوگوں کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بالکل یک سو ہوکر، اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کریں “۔ (البینہ۔ 5) یہ مضمون بکثرت مقامات پر قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء، آیات 145 ۔ 146 ۔ الاعراف 29 ۔ الزمر 2 ۔ 3 ۔ 11 ۔ 14 ۔ 15 ۔ المومن 14 ۔ 64 تا 66 ۔ یہی مضمون ایک حدیث قدسی میں بیان کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بڑھ کر ہر شریک کی شرکت سے بےنیاز ہوں، جس شخص نے کوئی عمل ایسا کیا جس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی اس نے شریک کیا ہو اس سے میں بری ہوں اور وہ پورا کا پورا عمل اسی کے لیے ہے جس کو اس نے شریک کیا ” (مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ) پس درحقیقت اللہ کو دو یا تین یا بہت سے خداؤں میں سے ایک قرار دینا اور اس کے ساتھ دوسروں کی بندگی و پرستش کرنا ہی تو وہ اصل کفر ہے جس سے اظہار براءت کرنا اس سورة کا مقصد ہے۔

جونا گڑھی

نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو۔

n/a

وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ

امین احسن اصلاحی

اور نہ تم پوجنے کے جسے میں پوجتا ہوں۔

ایک حقیقت نفس الامری کا اظہار: ساتھ ہی ان کو اس حقیقت نفس الامری سے بھی حضور نے آگاہ فرما دیا کہ تم جو یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ تم اس خدا کو پوجنے والے ہو یا بن جاؤ گے جس کو میں پوجتا ہوں تو تمہارا یہ گمان محض گمان ہے۔ میرے پروردگار کی بندگی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ بندگی صرف اسی کا حق ہے، اس میں کوئی دوسرا اس کا ساجھی نہیں ہے۔ تم اگر اپنے دیویوں دیوتاؤں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہو تو اس کے پرستار بھی نہیں بن سکتے۔ یہ تمہارا محض مغالطہ ہے کہ تم اپنے کوخدا کی عبادت کرنے والا سمجھتے ہو۔ خدا کی عبادت کے ساتھ کوئی اور عبادت جمع نہیں ہو سکتی۔ اس کی بندگی میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے تمام معبودوں کو باہر چھوڑ کر آؤ۔ اگر اس کی بندگی کے ساتھ تم نے ان کی بندگی بھی جمع کرنے کی کوشش کی تو اپنے معبودوں کے پرستار تو بے شک رہو گے لیکن خدا کی بندگی میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔

مشرکین کے معبودوں کے لیے ’مَا تَعْبُدُوْنَ‘ کا استعمال بالکل ٹھیک ہے اس لیے کہ وہ فرضی اور وہمی چیزوں کی پوجا کرتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے ’مَآ اَعْبُدُ‘ کا استعمال کچھ کھٹکتا ہے۔ یہ مجانست کے اسی اصول پر استعمال ہوا ہے جس کی مثالیں عربی زبان اور قرآن دونوں میں معروف ہیں۔ مثلاً ’دِنَّاھُمْ کَمَا دَانُوْا‘ یا ’جَزآؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا‘ (الشوریٰ ۴۲: ۴۰) وغیرہ۔ اس اسلوب پر اس کے محل میں مفصل گفتگو ہو چکی ہے۔؂۱
_____
؂۱ ملاحظہ ہو تدبر قرآن۔ جلد ۷، صفحہ ۱۸۱۔

جاوید احمد غامدی

اور نہ تم کبھی (تنہا) اُس کی عبادت کرو گے جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ کے لیے ’مَآ اَعْبُدُ‘کے الفاظ مجانست کے اسلوب پر آئے ہیں’لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ‘ کے بعد یہ جملہ بتا رہا ہے کہ مخاطبین کی طرف سے بھی یہ توقع ختم ہو گئی ہے کہ وہ خدا کو اُس طرح پوجنے کے لیے تیار ہو جائیں گے، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم شرک کی ہر آلایش سے پاک ہو کر خالص اُسی کو پوج رہے تھے۔ اُن کے رویے سے صاف واضح تھا کہ وہ اپنے دیوی دیوتاؤں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ وہ خدا کے پرستار نہیں بن سکتے، اِس لیے کہ خدا اپنی بندگی میں کبھی کوئی شراکت قبول نہیں کرتا۔

ابو الاعلی مودودی

اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔

اصل الفاظ ہیں مَآ اَعْبُدُ ۔ عربی زبان میں مَا کا لفظ عموما بےجان یا بےعقل چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور ذی عقل ہستیوں کے لیے مَن کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں من اعبد کہنے کے بجائے مَآ اَعْبُدُ کیوں کہا گیا ہے ؟ اس کے چار جواب عام طور پر مفسرین نے دیے ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں م٘ا بمعنی من ہے۔ دوسرے یہ کہ یہاں مَا بمعنی الذی (یعنی جو باتیں) ہے۔ تیسرے یہ کہ دونوں فقروں میں مَا مصدر کے معنی میں ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں وہ عبادت نہیں کرتا جو تم کرتے ہو، یعنی مشرکانہ عبادت، اور تم وہ عبادت نہیں کرتے جو میں کرتا ہوں، یعنی موحدانہ عبادت۔ چوتھے یہ کہ پہلے فقرے میں چونکہ مَا تَعْبُدُوْنَ فرمایا گیا ہے اس لیے دوسرے فقرے میں کلام کی مناسبت برقرار رکھتے ہوئے مَآ اَعْبُدُ فرمایا گیا ہے، لیکن دونوں جگہ صرف لفظ کی یکسانی ہے، معنی کی یکسانی نہیں ہے، اور اس کی مثالیں قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی ملتی ہیں۔ مثلا سورة بقرہ آیت 194 میں فرمایا گیا ہے : فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۔ ” جو تم پر زیادتی کرے اس پر تم ویسی ہی زیاتی کرو جیسی اس نے تم پر کی ہے ” ظاہر ہے کہ زیادتی کا ویسا ہی جواب جیسی زیادتی کی گئی ہو، زیادتی کی تعریف میں نہیں آتا، مگر محض کلام کی یکسانی کے لیے جوابا زیادتی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورة توبہ آیت 67 میں ارشاد ہوا ہے : ۭنَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ ۔ ” وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ ان کو بھول گیا “۔ حالانکہ اللہ بھولتا نہیں ہے اور مقصود کلام یہ ہے کہ اللہ نے ان کو نظر انداز فرما دیا، لیکن ان کے نسیان کے جواب میں اللہ کے لیے نسیان کا لفظ محض کلام کی یکسانی برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

یہ چاروں تاویلات اگرچہ ایک ایک لحاظ سے درست ہیں اور عربی زبان میں یہ سب معنی لینے کی گنجائش ہے، لیکن ان میں سے کسی سے بھی وہ اصل مدعا واضح نہیں ہوتا جس کے لیے من اعبد کہنے کے بجائے مَآ اَعْبُدُ کہا گیا ہے۔ دراصل عربی زبان میں کسی شخص کے لیے جب مَن کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اس کی ذات کے متعلق کچھ کہنا یا پوچھنا ہوتا ہے، اور جب مَا کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مقصود اس کی صفت کے بارے میں استفسار یا اظہار خیال ہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اردو زبان میں جب ہم کسی شخص کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب کون ہیں تو مقصد اس شخص کی ذات سے تعارف حاصل کرنا ہوتا ہے، مگر جب ہم کسی شخص کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ صاحب کیا ہیں ؟ تو اس سے یہ معلوم کرنا مقصود ہوتا ہے کہ مثلا وہ فوج آدمی ہے تو فوج میں اس کا منصب کیا ہے ؟ اور کسی درسگاہ سے تعلق رکھتا ہے تو اس میں ریڈر ہے ؟ لکچرر ہے ؟ پروفیسر ہے ؟ کس علم یا فن کا استاد ہے ؟ کیا ڈگریاں رکھتا ہے ؟ وغیرہ پس اگر اس آیت میں یہ کہا جاتا کہ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَن اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم اس ہستی کی عبادت کرنے والے نہیں ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور اس کے جواب میں مشرکین اور کفار یہ کہہ سکتے تھے کہ اللہ کی ہستی کو تو ہم مانتے ہیں، اور اس کی عبادت بھی ہم کرتے ہیں ؟ لیکن جب یہ کہا گیا کہ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن صفات کے معبود کی عبادت میں کرتا ہوں ان صفات کے معبود کی عبادت کرنے والے تم نہیں ہو۔ اور یہی وہ اصل بات ہے جس کی بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین منکرین خدا کے سوا تمام اقسام کے کفار کے دین سے قطعی طور پر الگ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آپ کا خدا ان سب کے خدا سے بالکل مختلف ہے۔ ان میں سے کسی کا خدا ایسا ہے جس کو چھ دن میں دنیا پیدا کرنے کے بعد ساتویں دن آرام کرنے کی ضرورت پیش آئی، جو رب العالمین نہیں بلکہ رب اسرائیل ہے، جس کا ایک نسل کے لوگوں سے ایسا خاص رشتہ ہے جو دوسرے انسانوں سے نہیں ہے، جو حضرت یعقوب سے کشتی لڑتا ہے اور ان کو گرا نہیں سکتا، جو عزیر نامی ایک بیٹا بھی رکھتا ہے، کسی کا خدا یسوع مسیح نامی ایک اکلوتے پیٹ؁ کا باپ ہے اور وہ دوسروں کے گناہوں کا کفارہ بنانے کے لیے اپنے بیٹے کو صلیب پر چڑھوا دیتا ہے۔ کسی کا خدا بیوی بچے رکھتا ہے، مگر بےچارے کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں، کسی کا خدا انسانی شکل میں روپ دھارتا ہے اور زمین پر انسانی جسم میں رہ کر انسانوں کے سے کام کرتا ہے۔ کسی کا خدا محض واجب الوجود، یا علت العلل یا علت اولی ( First Cause) ہے، کائنات کے نظام کو ایک مرتبہ حرکت دے کر الگ جا بیٹحا ہے، اس کے بعد کائنات لگے بندھے قوانین کے مطابق خود چل رہی ہے اور انسان کا اس سے اور اس کا انسان سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔ غرض خدا کو ماننے والے کفار بھی درحقیقت اس خدا کو نہیں مانتے جو ساری کائنات کا ایک ہی خالق، مالک، مدبر، منتظم اور حاکم ہے۔ جس نے نظام کائنات کو صرف بنایا ہی نہیں ہے بلکہ ہر آن وہی اس کو چلا رہا ہے اور اس کا حکم ہر وقت یہاں چل رہا ہے۔ جو ہر عیب، نقص، کمزوری اور غلطی سے منزہ ہے، جو ہر تشیہ اور تجسیم سے پاک ہے، ہر نظیر و مثیل سے مبرا اور ہر ساتھی اور ساجھی سے بےنیاز ہے۔ جس کی ذات، صفات، اختیارات اور استحقاق معبودیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ جو اس سے بالاتر ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو، یا کسی کو وہ بیٹا بنائے، یا کسی قوم اور نسل سے اس کا کوئی خاص رشتہ ہو جس کا اپنی مخلوق کے ایک ایک فرد کے ساتھ رزقی اور روبیت اور رحمت اور نگہبانی کا براہ راست تعلق ہے۔ جو دعائیں سننے والا اور ان کا جواب دینے والا ہے۔ جو موت اور زندگی، نفع اور ضرر اور قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کے جملہ اختیارات کا تنہا مالک ہے۔ جو اپنی مخلوق کو صرف پالتا ہی نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو اس کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق ہدایت بھی دیتا ہے۔ جس کے ساتھ ہمارا تعلق صرف یہی نہیں ہے کہ وہ ہمارا معبود ہے اور ہم اس کی پرستش کرتے ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ہمیں امر و نہی کے احکام دیتا ہے اور ہمارا کام اس کے احکام کی اطاعت کرنا ہے۔ جس کے سامنے ہم اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہیں، جو مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ اٹھانے والا ہے اور ہمارے اعمال کا محاسبہ کر کے جزا اور سزا دینے والا ہے۔ ان صفات کے معبود کی عبادت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی پیروی کرنے والوں کے سوا دنیا میں کوئی بھی نہیں کر رہا ہے۔ دوسرے اگر خدا کی عبادت کر بھی رہے ہیں تو اصلی اور حقیقی خدا کی نہیں بلکہ اس خدا کی عبادت کر رہے ہیں جو ان کا اپنا اختراع کردہ ایک خیالی خدا ہے۔

جونا گڑھی

نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔

n/a

وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ

امین احسن اصلاحی

اور نہ میں پوجنے والا ہوا جن کو تم نے پوجا۔

ماضی سے متعلق موقف کا اظہار: اوپر کا اعلان تو، جیسا کہ واضح ہوا، مستقبل سے متعلق ہے۔ اب یہ ماضی سے متعلق بھی آپ نے اپنا موقف واضح فرما دیا کہ ماضی میں بھی کبھی میں ان چیزوں کا پرستار نہیں رہا ہوں جن کی تم نے پرستش کی۔ صاحب کشاف نے اس آیت کی یہی تاویل کی ہے اور مجھے زبان اور نظام دونوں پہلوؤں سے یہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔

’وَلَآ اَنَا عَابِدٌ‘ کا جملہ اسمیہ ہے! اس وجہ سے اس کے حاضر، ماضی اور مستقبل میں سے کسی کے ساتھ مقید ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تینوں زمانوں کے ساتھ یکساں مربوط ہو سکتا ہے بشرطیکہ قرینہ ان میں سے کسی کو ترجیح نہ دے دے۔ یہاں ’مَّا عَبَدْتُّمْ‘ چونکہ ماضی ہے اس وجہ سے یہ واضح قرینہ ہے کہ ’وَلَآ اَنَا عَابِدٌ‘ کی نفی ماضی ہی سے متعلق ہے یعنی میں پہلے بھی کبھی ان چیزوں کا پوجنے والا نہیں رہا ہوں جن چیزوں کو تم نے پوجا۔
کلام کا فائدہ: اس کلام کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس اعلان براء ت کی شدت میں اس سے بڑا اضافہ ہو جائے گا جو اوپر کی آیت میں کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جب میں تمہارے ان بتوں کو اپنی زندگی کے اس دور میں بھی کبھی خاطر میں نہیں لایا جب میں شرف نبوت سے مشرف اور نور وحی سے منور نہیں ہوا تھا تو اب جب کہ میں براہ راست اپنے رب سے ہدایت حاصل کر رہا ہوں تمہاری اس ضلالت میں کس طرح مبتلا ہو سکتا ہوں۔ مطلب یہ ہوا کہ کوئی دور بھی میری اور تمہاری زندگی میں اگر ایسا گزرا ہوتا جب میں تمہارے اس دین شرک میں شریک رہا ہوتا تو تم مجھ سے یہ توقع کر سکتے تھے کہ شاید میں سابق دین پھر اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاؤں گا لیکن جب میرا دامن جاہلیت میں بھی شرک سے داغ دار نہ ہوا تو اب مجھ سے اس کی توقع تم کیسے کر رہے ہو!

جاوید احمد غامدی

اور نہ (اِس سے پہلے) میں کبھی اُن چیزوں کی عبادت کے لیے تیار ہوا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے۔

اوپر کی بات مستقبل سے متعلق تھی۔ یہ اُس پر ماضی و حال کی شہادت پیش کی ہے۔ ’لَآ اَنَا عَابِدٌ‘ جملہ اسمیہ ہے۔ اِس میں نفی ماضی سے متعلق ہے۔ ’مَا عَبَدْتُّمْ‘ کے الفاظ اِس کا واضح قرینہ ہیں۔ اِس سے، اگر غور کیجیے تو اعلان براء ت کی شدت میں بڑا اضافہ ہو گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب میں نبوت کی روشنی حاصل ہو جانے سے پہلے کبھی تمھارے معبودوں کو خاطر میں نہیں لایا تو اب جبکہ میرا پروردگار براہ راست مجھ سے ہم کلام ہے اور اُس کی کتاب مجھ پر نازل ہو رہی ہے تو میں تمھاری اِس ضلالت میں کس طرح مبتلا ہو سکتا ہوں۔ میری دعوت تمھارے سامنے ہے۔ نبوت کے بعد بھی برسوں سے تم مجھے دیکھ رہے ہو۔ تمھیں معلوم ہے کہ میں شرک کی غلاظت کے قریب بھی جانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوا۔ پھر کس طرح توقع کرتے ہو کہ آگے کبھی اِس کے لیے تیار ہو جاؤں گا؟

ابو الاعلی مودودی

اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے۔

n/a

جونا گڑھی

اور نہ میں عبادت کرونگا جسکی تم عبادت کرتے ہو۔

n/a

وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ

امین احسن اصلاحی

اور نہ تم پوجنے والے ہوئے جسے میں پوجتا آ رہا ہوں۔

آیت کا تعلق دور ماضی سے ہے: یہ آیت لفظاً تو آیت ۳ کا اعادہ ہے اس وجہ سے تکرار کا شبہ پیدا ہوتا ہے لیکن معناً یہ اس سے مختلف ہے۔ اس کا تعلق آیت ۴ کی طرح دور ماضی سے ہے جب کہ آیت ۳ کا تعلق، جیسا کہ واضح ہوا مستقبل سے ہے۔ یعنی قریش کے لیڈروں کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ تم اگر اس مغالطے میں مبتلا ہو کہ ماضی میں تم بھی اسی معبود کی پوجا کرتے رہے ہو جس کی میں پوجا کرتا رہا ہوں تو یہ محض تمہاری خام خیالی ہے۔ شرک کے ساتھ میرے معبود کی پرستش کا، جیسا کہ اوپر واضح ہوا، کوئی امکان ہی نہیں ہے اور تم شرک سے کبھی پاک نہیں ہوئے اس وجہ سے نہ میں کبھی تمہارا دینی بھائی بنا نہ تم میرے دینی بھائی بنے تو یہ توقع تم کس طرح کرتے ہو کہ اپنی اس گندگی میں لتھڑے ہوئے تم مجھے اپنا دینی بھائی بنانے میں کامیاب ہو جاؤ گے!

یہاں باوّل وہلہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مطلب آیت کا یہ ہے، جو ہم نے اختیار کیا ہے تو ’مَآ اَعْبُدُ‘ کی جگہ ’مَا عَبَدْتُّ‘ کیوں نہیں فرمایا؟ اس کا جواب صاحب کشاف نے یہ دیا ہے کہ ’مَا عَبَدْتُّ‘ اس لیے نہیں فرمایا کہ اس دور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کی اس وجہ سے آپ نے اس کا حوالہ نہیں دیا بلکہ صرف حال کا حوالہ دیا لیکن یہ جواب بالکل غلط ہے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام بعثت سے پہلے بھی فطرت سلیم پر تھے اور توحید چونکہ دین فطرت ہے اس وجہ سے وہ کبھی فطرت کے خلاف شرک میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ساتھ ہی وہ لازماً اپنے رب کی کسی نہ کسی شکل میں عبادت بھی کرتے رہے ہیں اگرچہ وہ طریقہ انھوں نے اپنے اجتہاد سے اختیار کیا ہو یا دین کی سابق روایات سے اخذ کیا ہو۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے بھی عبادت کرتے تھے۔ اگرچہ اس کا طریقہ واضح طور پر ہمارے سامنے نہیں ہے تاہم اتنی بات معلوم ہے کہ اس کی بنیاد حنیفیت پر تھی جس کی روایت حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے زمانے سے کسی نہ کسی شکل میں چلی آ رہی تھی۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک ’مَا عَبَدْتُّ‘ نہ کہنے کی وہ وجہ صحیح نہیں ہے جو صاحب کشاف نے بیان کی ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ آپ کا تعلق صرف ماضی ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ نے جس طرح ماضی میں اپنے رب ہی کی عبادت کی اسی طرح آپ حاضر میں بھی اسی کی عبادت پر قائم تھے اس وجہ سے آپ نے ’مَآ اَعْبُدُ‘ فرمایا جس سے تسلسل اور استمرار کا اظہار ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ تم اس خدا کے پوجنے والے ماضی میں بھی نہ بنے جس کی بندگی میں نے ماضی میں بھی کی اور اب بھی اس پر قائم و دائم ہوں۔

جاوید احمد غامدی

اور نہ تم کبھی (تنہا) اُس کی عبادت کے لیے تیار ہوئے، جس کی عبادت میں کرتا رہا ہوں۔

پچھلے جملے نے اِس جملے کو بھی ماضی سے متعلق کر دیا ہے۔ چنانچہ ’مَآ اَعْبُدُ‘ سے پہلے یہاں ایک فعل ناقص حذف ماننا چاہیے۔ یہ استمرار پر دلالت کرے گا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ میں جس خدا کی بندگی ہمیشہ سے کرتا رہا ہوں اور اب بھی اُس پر قائم ہوں، تم ماضی میں بھی کبھی اُس کے پوجنے والے نہیں بنے۔ شرک کے ساتھ اگر تم نے اُس کی پرستش کی بھی ہے تو درحقیقت نہیں کی، اِس لیے کہ شرک کے ساتھ میرے معبود کی پرستش کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔

مفسرین میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ دونوں فقرے پہلے دو فقروں کے مضمون کی تکرار ہیں، اور یہ تکرار اس غرض کے لیے کی گئی ہے کہ اس بات کو زیادہ پر زور بنا دیا جائے جو پہلے دو فقروں میں کہی گئی تھی۔ لیکن بہت سے مفسرین اس کو تکرار نہیں مانتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ان میں ایک اور مضمون بیان کیا گیا ہے جو پہلے فقروں کے مضمون سے مختلف ہے۔ ہمارے نزدیک اس حد تک تو ان کی بات صحیح ہے کہ ان فقروں میں تکرار نہیں ہے، کیونکہ ان میں صرف ” اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ” کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اور یہ اعادہ بھی اس معنی میں نہیں ہے جس میں یہ فقرہ پہلے کہا گیا تھا۔ مگر تکرار کی نفی کرنے کے بعد مفسرین کے اس گروہ نے ان دونوں فقروں کے جو معنی بیان کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں اس کا موقع نہیں ہے کہ ہم ان میں سے ہر ایک کے بیان کردہ معنی کو نقل کر کے اس پر بحث کریں، اس لیے طول کلام سے بچتے ہوئے ہم صرف وہ معنی بیان کریں گے جو ہمارے نزدیک صحیح ہیں۔

پہلے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ ” اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے ” اس کا مضمون آیت نمبر 2 کے مضمون سے بالکل مختلف ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ ” میں ان کی عبادت نہیں کرنا جن کی عبادت تم کرتے ہو “۔ ان دونوں باتوں میں دو حیثیتوں سے بہت بڑا فرق ہے۔ ایک یہ کہ میں فلاں کام نہیں کرتا یا نہیں کروں گا کہنے میں اگرچہ انکار اور پرزور انکار ہے، لیکن اس سے بہت زیادہ زور یہ کہنے میں ہے کہ میں فلاں کام کرنے والا نہیں ہوں، کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسا برا کام ہے جس کا ارتکاب کرنا تو درکنار اس کا ارادہ یا خیال کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ” جن کی عبادت تم کرتے ہو ” کا اطلاق صرف ان معبودوں پر ہوتا ہے جن کی عبادت کفار اب کر رہے ہیں۔ بخلاف اس کے ” جن کی عبادت تم نے کی ہے ” کا اطلاب سن سب معبودوں پر ہوتا ہے جن کی عبادت کفار اور ان کے آباؤ اجداد زمانہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ اب یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ مشرکین اور کفار کے معبودوں میں ہمیشہ ردو بدل اور حذف و اضافہ ہوتا رہا ہے، مختلف زمانوں میں کفار کے مختلف گروہ مختلف معبودوں کو پوجتے رہے ہیں، اور سارے کافروں کے معبود ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی نہیں رہے ہیں۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے آج کے معبودوں ہی سے نہیں بلکہ تمہارے آباؤ اجداد کے معبودوں سے بھی بری ہوں اور میرا یہ کام نہیں ہے کہ ایسے معبودوں کی عبادت کا خیال تک اپنے دل میں لاؤں۔

جونا گڑھی

اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں۔

بعض نے پہلی آیت کو حال کے اور دوسری کو استقبال کے مفہوم میں لیا ہے، لیکن امام شوکانی نے کہا ہے کہ ان تکلفات کی ضرورت نہیں ہے۔ تاکید کے لیے تکرار، عربی زبان کا عام اسلوب ہے، جسے قرآن کریم میں کئی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ جیسے سورة رحمٰن، سورة مرسلات میں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی تاکید کے لیے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کرلوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ اور اگر اللہ نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لکھی ہے، تو تم بھی اس توحید اور عبادت الہی سے محروم ہی رہو گے۔ یہ بات اس وقت فرمائی گئی جب کفار نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معبود کی اور ایک سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے معبودوں کی عبادت کریں۔

لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ

امین احسن اصلاحی

تمہیں تمہارا دین اور مجھے میرا دین!

آشکارا اعلان براء ت: یعنی جب میرے دین اور تمہارے دین میں کوئی اشتراک ماضی میں نہ ہوا، نہ حاضر میں ہے تو آئندہ کس طرح توقع کرتے ہو کہ ہم کسی ایک نقطہ پر مجتمع ہو سکیں گے۔ اس وجہ سے سمجھوتے کی توقع بالکل لاحاصل ہے۔ میرے لیے میرا دین ہے اور تمہارے لیے تمہارا دین۔ میں اپنے طریقہ پر کام کرتا ہوں اور تم اپنے طریقہ پر کام کرو اور دیکھو کہ انجام کار میری بات سچی ثابت ہوتی ہے یا تمہاری۔ یہی بات سورۂ انعام میں یوں ارشاد ہوئی ہے:

’قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ‘ (الانعام ۶: ۱۳۵)
(کہہ دو، اے میری قوم کے لوگو، تم اپنی جگہ پر کام کرو، میں اپنی جگہ پر کام کرتا ہوں)

سورۂ ہود آیت ۹۳ اور سورۂ زمر آیت ۳۹ میں بھی دوسرے رسولوں سے یہی کلمات نقل ہوئے ہیں اور مقصود اس سے صرف اس بحث و جدال کے دروازے کو بند کرنا ہے جو مخالفین اس مقصد سے کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے موقف کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں۔ اس اعلان سے آپ نے ان کو آخری آگاہی دے دی کہ نہ آپ دین سے ذرہ برابر ہٹنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ان کے دین کے لیے ہی کوئی مقام تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔
حضرت ابراہیم کے اعلان کا اعادہ: عام طور پر لوگوں نے اس آیت کو رواداری کے مفہوم میں لیا ہے حالانکہ یہ کفار کے رویہ سے بیزاری بلکہ انجام کار کے اعتبار سے ان سے ابدی مفارقت اور اعلان جنگ کے مفہوم میں ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ وہی اعلان ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے کیا تھا، جس کا حوالہ قرآن نے ان الفاظ میں دیا ہے:

قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَءٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ.(الممتحنہ ۶۰: ۴)
’’تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ یاد کرو جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بالکل بری ہیں، ہم نے تمہارے عقیدے کا انکار کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور نفرت آشکارا ہو گئی تا آنکہ تم اللہ وحدہٗ لاشریک لہ پر ایمان لاؤ۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب کا یہ اسوۂ حسنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سامنے رکھا ہی اس لیے گیا تھا کہ اسی طرح کا اعلان براء ت آپ اور آپ کے صحابہ اپنی قوم سے کریں۔ چنانچہ اسی کی پیروی میں یہ اعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اس کے اندر رواداری کی گنجائش کس طرح پیدا ہو سکتی ہے۔ کلام کے سیاق و سباق اور نظم کی رعایت ملحوظ نہ رکھنے سے ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ بیزاری اور رواداری کے کلمہ میں امتیاز سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں اور یہ آیت اس کی ایک نہایت عبرت انگیز مثال ہے۔

جاوید احمد غامدی

(اِس لیے اب) تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔

یہ رواداری کا کوئی پیغام نہیں ہے، بلکہ منکرین سے انتہائی بے زاری اور ابدی مفارقت کا اعلان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں تم سے بری اور تم مجھ سے بری۔ میرے اور تمھارے درمیان اب کسی سمجھوتے یا مصالحت کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ تم اپنی بات پر قائم ہو تو میں بھی پوری استقامت کے ساتھ اپنی بات پر قائم ہوں۔ شرک اور توحید میں نہ پہلے کبھی پیوند لگا ہے، نہ اب لگ سکتا ہے، اِس لیے انتظار کرو، میں بھی انتظار کرتا ہوں۔ ہم میں سے کون حق پر ہے، اِس کا فیصلہ عنقریب آسمان سے صادرہو جائے گا۔

ابو الاعلی مودودی

تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔

یعنی میرا دین الگ ہے اور تمہارا دین الگ۔ میں تمہارے معبودوں کا پرستار نہیں اور تم میرے معبود کے پرستار نہیں۔ میں تمہارے معبودوں کی بندگی نہیں کرسکتا اور تم میرے معبود کی بندگی کے لیے تیار نہیں ہو۔ اس لیے میرا اور تمہارا راستہ کبھی ایک نہیں ہوسکتا۔ یہ کفار کو رواداری کا پیغام نہیں ہے، بلکہ جب تک وہ کافر ہیں ان سے ہمیشہ کے لیے براءت، بیزاری اور لا تعلقی کا اعلان ہے، اور اس سے مقصود ان کو اس امر سے قطعی اور آخری طور پر مایوس کردینا ہے کہ دین کے معاملہ میں اللہ کا رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کا گروہ کبھی ان سے کوئی مصالحت کرے گا، یہی اعلان براءت اور اظہار بیزاری اس سورة کے بعد نازل ہونے والی مکی سورتوں میں پے در پے کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورة یونس میں فرمایا ” اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں “۔ (آیت 41) پھر آگے چل کر اسی سورة میں فرمایا ” اے نبی، کہہ دو کہ لوگو، اگر تم میرے دین کے متعلق (ابھی تک) کسی شبہ میں ہو تو (سن لو کہ) اللہ کے سوا تم جن کی بندگی کرتے ہو میں ان کی بندگی نہیں کرتا، بلکہ صرف اس خدا کی بندگی کرتا ہوں جس کے اختیار میں تمہاری موت ہے ” (آیت 104) سورة سبا میں فرمایا ” ان سے کہو جو قصور ہم نے کیا ہو اس کی باز پرس تم سے نہ ہوگی اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی کوئی جواب طلبہ یم سے نہیں کی جائے گی، کہو ہمارا رب (ایک وقت) ہمیں اور تمہیں جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردے گا “۔ (آیات 25 ۔ 26) سورة زمر میں فرمایا ” ان سے کہو، اے میری قوم کے لوگو، تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو ٹلنے والی نہیں “۔ (آیات 39 ۔ 40) پھر یہی سبق مدینہ طیبہ میں تمام مسلمانوں کو دیا گیا کہ ” تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے، جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو، قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑگیا جب تک تم اللہ واح پر ایمان نہ لاؤ “۔ (الممتحنہ۔ آیت 4) قرآن مجید کی ان پے در پے توضیحات سے اس شبہ کی گنجائش تک نہیں رہتی کہ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو اور مجھے اپنے دین پر چلنے دو۔ بلکہ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی سورة زمر میں فرمائی گئی ہے کہ ” اے نبی ان سے کہو کہ میں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اسی کی بندگی کروں گا، تم اسے چھوڑ کر جس جس کی بندگی کرنا چاہو کرتے رہو “۔ (آیت 14)

اس آیت سے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے یہ استدلال کیا ہے کہ کافروں کے مذاہب خواہ باہم کتنے ہی مختلف ہوں لیکن کفر بحیثیت مجموعی ایک ہی ملت ہے، اس لیے یہودی عیسائی کا، اور عیسائی یہودی کا، اور اسی طرح ایک مذہب کا کافر دوسرے مذہب کے کافر کا وارث ہوسکتا ہے اگر ان کے درمیان نسب، یا نکاح یا کسی سبب کی بنا پر کوئی ایسا تعلق ہو جو ایک کی وراثت دوسرے کو پہنچنے کا مقتضی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام اوزاعی اور امام احمد اس بات کے قائل ہیں کہ ایک مذہب کے پیرو دوسرے مذہب کے پیرو کی وراثت نہیں پاسکتے۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا یتوارث اھل ملتین شتی۔ ” دو مختلف ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے “۔ (مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، دار قطنی) اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک حدیث ترمذی نے حضرت جابر سے اور ابن حبان نے حضرت عبداللہ بن عمر سے اور بزار نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔ اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے مسلک حنفی کے مشہور امام شمس الائمہ سرخسی لکتے ہیں۔ ” کفار آپس میں ان سب اسباب کی بنا پر بھی ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں جن کی بنا پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان بعض ایسی سورتوں میں بھی توارث ہوسکتا ہے جن میں مسلمانوں کے درمیان نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے بس دو ہی دین قرار دیے ہیں، ایک دین حق، دوسرے دین باطل چنانچہ فرمایا لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ ۔ اور اس نے لوگوں کے دو ہی فریق رکھے ہیں، ایک فریق جنتی ہے اور وہ مومن ہے۔ اور دوسرا فریق دوزخی ہے اور وہ بحیثیت مجموعی تمام کفار ہیں۔ اور اس نے دو ہی گروہوں کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ ( یہ دو مد مقابل فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ الحج آیت 19) یعنی ایک فریق تمام کفار بحیثیت مجموعی ہیں اور ان کا جھگڑا اہل ایمان سے ہے۔ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے اعتقاد کے مطابق باہم الگ الگ ملتیں ہیں، بلکہ مسلمانوں کے مقابلے میں وہ سب ایک ملت ہیں کیونکہ مسلمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کا اقرار کرتے ہیں اور وہ ان کا انکار کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ کافر قرار پائے ہیں اور مسلمانوں کے معاملہ میں وہ سب ایک ملت ہیں۔ حدیث لا یتوارث اھل ملتین اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، کیونکہ ملتین (دو ملتوں) کی تشریح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد سے کردی ہے کہ لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم۔ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہوسکتا ہے، (المبسوط، جلد 3، صفحات 30 ۔ 32) امام سرخسی نے یہاں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے بخاری، مسلم، نسائی، احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابو داؤد نے حضرت اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔

جونا گڑھی

تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے۔

یعنی اگر تم اپنے دین پر راضی ہو اور اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو، تو میں اپنے دین پر راضی ہوں میں اسے کیوں چھوڑوں۔ ؟ (لنا اعمالنا ولکم اعمالکم)