شکر اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب اتاری اور اِس میں کوئی کج پیچ نہیں رکھا ہے
یعنی اُسی کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ کسی کے حق واجب کو اقرار و اعتراف کی زبان میں بیان کرنے کا اسلوب ہے اور قرآن میں جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ لفظ و معنی کے اعتبار سے اِس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آسکے اور نہ اِس کی رہنمائی میں صراط مستقیم سے کوئی ادنیٰ انحراف ہے کہ کوئی سلیم الفطرت انسان اُس کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔
تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔
یعنی اس میں کوئی اینچ پینچ کی بات ہے جو سمجھ میں نہ آسکے، اور نہ کوئی بات حق و صداقت کے خط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہے جسے ماننے میں کسی راستی پسند انسان کو تأمل ہو۔
تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا اور اس میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔
کہف کے معنی غار کے ہیں۔ اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس لئے اسے سورة کہف کہا جاتا ہے۔ اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (صحیح مسلم) اور اس کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لئے خاص نور کی روشنی رہے گی، اور اس کے پڑھنے سے گھر میں سکون و برکت نازل ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورة کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے ؟ تو انھیں ایک بادل نظر آیا، جس نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی سے کیا، تو آپ نے فرمایا، اسے پڑھا کرو۔ قرآن پڑھتے وقت سکینۃ نازل ہوتی ہے (صحیح بخاری)
یا کوئی کجی اور راہ اعتدال سے انحراف اس میں نہیں رکھا بلکہ اسے قیم یعنی سیدھا رکھا۔ یا قیم کے معنی، بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح کی رعایت و حفاظت کرنے والی کتاب۔
بالکل ہموار اور استوار تاکہ وہ اپنی جانب سے جھٹلانے والوں کو ایک سخت عذاب سے آگاہ کر دے اور ایمان لانے والوں کو، جو نیک اعمال کر رہے ہیں، اس بات کی خوش خبری سنا دے کہ ان کے لیے بہت اچھا اجر ہے
لينذر بأسا شديدا من لدنه ويبشر المؤمنين یہ اس کتاب کے نازل کرنے کا مقصد بیان ہوا ہے کہ یہ انکار کرنے والوں کے لیے انذار اور ایمان لانے والوں کے لیے بشارت ہے۔ پہلے ٹکڑے میں ’لِلْکَافِرِیْنَ‘ یا ’لِلْمُکَذِّبِیْنَ‘ محذوف ہے۔ اس لیے کہ آگے والے ٹکڑے میں ’مُؤْمِنِیْنَ‘ موجود ہے جو تقابل کے اصول پر اس محذوف کو خود واضح کر رہا ہے۔
فعل ’یُنْذِرَ‘ کا فاعل اللہ بھی ہو سکتا ہے اور ’عبد‘ یعنی رسول بھی۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ نے یہ کتاب خاص اپنے پاس سے اس لیے اتاری ہے کہ کافروں کو ایک عذاب شدید سے آگاہ و ہوشیار کر دے۔
دوسری صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کا رسول لوگوں کو خدا کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب شدید سے متنبہ کر دے۔
پہلی صورت میں ’مِنْ لَّدُنْہُ‘ کا لفظ اہتمام و عنایت پر دلیل ہو گا کہ اس مقصد کے لیے خدا نے خاص اپنے پاس سے اور اپنی نگرانی میں انتظام فرمایا۔ دوسری صورت میں اس سے عذاب کی شدت کا اظہار ہو گا کہ یہ عذاب کوئی ایسا ویسا عذاب نہیں ہو گا بلکہ قہر الٰہی ہو گا جس سے بچانے والا کوئی نہیں بن سکے گا۔
ہر لحاظ سے ٹھیک اور سیدھی تاکہ (جھٹلانے والوں کو) وہ اُس کی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کردے اور ایمان لانے والوں کو، جو نیک عمل کر رہے ہیں، خوش خبری سنا دے کہ اُن کے لیے بہت اچھا اجر ہے
یہ الفاظ اصل میں محذوف ہیں، اِس لیے کہ آگے ’مُؤْمِنِیْن‘ کا لفظ موجود ہے جو اِن پر دلالت کر رہا ہے۔
ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے۔
n/a
بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کر دے اور ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبریاں سنادے کہ ان کے لئے بہترین بدلہ ہے۔
مِنْ لَّدنہ، جو اس اللہ کی طرف سے صادر یا نازل ہونے والا ہے
جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
’مَا کِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا‘: اس ’اجر حسن‘ میں ہمیشہ رہیں گے یعنی اس بہشت میں ہمیشہ رہیں گے جو اس ’اجر حسن‘ کے ثمرہ اور نتیجہ کے طور پر حاصل ہو گی۔ شے کو بول کر اس سے اس کے نتیجہ کومراد لینا عربیت کا ایک معروف اسلوب ہے جس کی مثالیں اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہیں اور آگے بھی آئیں گی۔
وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے
آیت میں ’فِیْہِ‘ کی ضمیر نتیجۂ اجر کے لیے ہے، یعنی بہشت بریں جو اچھے اجر کا ثمرہ اور نتیجہ ہو گا۔
جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
n/a
جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
اور ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ خدا نے اولاد بنائی ہوئی ہے آگاہ کر دے
یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے، یعنی خاص طور پر ان لوگوں کو آگاہ کر دے جو خدا کے لیے اولاد فرض کر کے ان کی عبادت میں لگے ہوئے اور ان کی شفاعت کے اعتماد پر خدا سے بالکل مستغنی ہو بیٹھے ہیں۔ اس سے مراد مشرکین عرب بھی ہیں اور نصاریٰ بھی۔ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور نصاریٰ حضرت مسیحؑ کو خدا کا بیٹا بنائے ہوئے تھے۔
اُن لوگوں کو آگاہ کر دے جو کہتے ہیں کہ خدا نے اولاد بنا رکھی ہے
یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے اوراِس میں مشرکین عرب اور نصاریٰ، دونوں شامل ہیں، اِس لیے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور نصاریٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنائے ہوئے تھے۔
اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔
یعنی جو خدا کی طرف اولاد منسوب کرتے ہیں۔ اس میں عیسائی بھی شامل ہیں اور یہود بھی اور مشرکین عرب بھی۔
اور ان لوگوں کو بھی ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے ۔
جیسے یہودیوں عیسائیوں اور بعض مشرکین (فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں) کا عقیدہ ہے۔
ان کو اس باب میں کوئی علم نہیں، نہ ان کو نہ ان کے آباء و اجداد کو۔ نہایت ہی سنگین بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہے۔ یہ محض جھوٹ ہے جو وہ بک رہے ہیں
مشرکین کی اندھی تقلید: علم سے مراد یہاں دلیل و برہان ہے۔ یعنی جن لوگوں نے خدا کے بیٹے اور بیٹیاں فرض کر کے ان کو خدا کا شریک بنا رکھا ہے انھوں نے یہ افسانہ محض اپنے جی سے گھڑا ہے۔ نہ خدا نے کہیں یہ بات کہی ہے اور نہ ان بوالفضولوں کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے۔ یہ اپنے جن آباء و اجداد کی تقلید میں یہ حماقت کر رہے ہیں ان کے پاس بھی اس کی کوئی دلیل نہیں تھی۔ محض جہالت سے انھوں نے یہ ضلالت اختیار کی اور یہ بھی جہالت ہی سے ان کی لکیر کو پیٹ رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ بڑی ہی سنگین بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر تہمت و بہتان اور اس کی غیرت کو چیلنج ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اپنی گستاخی سے باز نہ آئے تو عنقریب اپنا حشر دیکھیں گے۔
اُنھیں اِس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اُن کے باپ دادا کو بھی نہیں تھا۔ بڑی ہی سنگین بات ہے جو اُن کے مونہوں سے نکل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ محض جھوٹ کہہ رہے ہیں
n/a
اِس بات کا نہ اُنہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
یعنی ان کا یہ قول کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے، یا فلاں کو خدا نے بیٹا بنا لیا ہے، کچھ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ ان کو خدا کے ہاں اولاد ہونے یا خدا کے کسی کو متبنیٰ بنانے کا علم ہے، بلکہ محض اپنی عقیدت مندی کے غلو میں وہ ایک من مانا حکم لگا بیٹھے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں ہے کہ وہ کیسی سخت گمراہی کی بات کہہ رہے ہیں اور کتنی بڑی گستاخی اور افترا پردازی ہے جو اللہ رب العالمین کی جناب میں ان سے سرزد ہو رہی ہے۔
در حقیقت نہ تو خود انھیں اس کا علم ہے نہ ان کے باپ دادوں کو۔ یہ تہمت بڑی بری ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے وہ نرا جھوٹ بک رہے ہیں۔
اس کلمہ تہمت سے مراد یہی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جو نرا جھوٹ ہے۔
تو شاید تم ان کے پیچھے اپنے تئیں غم سے ہلاک کر کے رہو گے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے
آنحضرت صلعم کو پرمحبت تسلی: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے اور تسلی دینے کا انداز بہت پیارا ہے فرمایا کہ تم تو ان کے ایمان کے غم سے اس طرح گھلے جا رہے ہو کہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ اس کتاب پر ایمان نہ لائے تو ان کے پیچھے تم اپنے آپ کو ہلاک کر کے رہو گے! اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فرض رسالت کی ادائیگی کا احساس کتنا شدید تھا۔ آپ دعوت کے کام کے لیے اپنے رات دن ایک کیے ہوئے تھے۔ لیکن پھر بھی آپ کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ لوگ جو ایمان نہیں لا رہے ہیں تو مبادا اس میں آپؐ کی کسی کوتاہی کو دخل ہو۔ اس احساس کے باعث آپ کی مشقت اور آپ کے غم دونوں میں برابر اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت پرمحبت انداز میں ٹوکا کہ اپنی ذمہ داری کے احساس میں اس درجہ غلو صحیح نہیں ہے۔ یہ ناشکرے اور ناقدرے لوگ جو اس کتاب پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو یہ نہ سمجھو کہ اس کے سمجھنے میں ان کو کوئی دشواری پیش آ رہی ہے یا تمہاری طرف سے فرض دعوت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی ہو رہی ہے بلکہ اس کا اصل سبب کچھ اور ہے۔
پھر اگر وہ اِس بات پر ایمان نہ لائے تو شاید تم اُن کے پیچھے اپنے آپ کو غم سے ہلاک کر ڈالو گے
یہ نہایت دل نواز انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ یہ اگر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو اِس کا سبب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ سے فرض دعوت کے ادا کرنے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔ آپ تو اِس کے لیے اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دے رہے ہیں، جبکہ آپ کا کام صرف انذار و بشارت ہے اور اُس کا حق آپ نے ادا کر دیا ہے۔ اُس سے آگے آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فرض دعوت کے ادا کرنے کا احساس کس قدر شدید تھا۔
اچھا، تو اے محمدؐ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔
یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبتلا تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں، بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپکو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الہٰی ہے۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اور راتیں ایک کیے دے رہے تھے۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے۔ اپنی اس کیفیت کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ” میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو “۔ (بخاری و مسلم نیز تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء آیت ٣ ) ۔
اس آیت میں بظاہر تو بات اتنی ہی فرمائی گئی ہے کہ شاید تم اپنی جان ان کے پیچھے کھو دو گے، مگر اسی میں ایک لطیف انداز سے آپ کو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو ؟ تمہارا کام صرف بشارت اور انذار ہے، لوگوں کو مومن بنا دینا تمہارا کام نہیں ہے۔ لہٰذا تم بس اپنا فریضۂ تبلیغ ادا کیے جاؤ۔ جو مان لے اسے بشارت دے دو۔ جو نہ مانے اسے برے انجام سے متنبہ کر دو۔
پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے
بِھٰذَا الْحَدِیْثِ (اس بات) سے مراد قرآن کریم ہے۔ کفار کے ایمان لانے کی جتنی شدید خواہش آپ رکھتے تھے اور ان کے اعراض و گریز سے آپ کو سخت تکلیف ہوتی تھی، اس میں آپ کی اسی کیفیت اور جذبے کا اظہار ہے۔
روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اس کو زمین کے لیے سنگار بنایا ہے تاکہ ہم لوگوں کا امتحان کریں کہ ان میں اچھے عمل کرنے والا کون بنتا ہے
منکرین کے انکار کا اصل سبب: یہ ان کے اعراض و انکار کے اصل سبب سے پردہ اٹھایا ہے۔ فرمایا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اس میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کون اپنی عقل و تمیز سے کام لے کر آخرت کا طالب بنتا ہے اور کون اپنی خواہشوں کے پیچھے لگ کر اسی دنیا کا پرستار بن کر رہ جاتا ہے۔ اس امتحان کے تقاضے سے ہم نے اس دنیا کے چہرے پر حسن و زیبائی کا ایک پرفریب غازہ مل دیا ہے۔ اس کے مال و اولاد، اس کے کھیتوں کھلیانوں، اس کے باغوں اور چمنوں، اس کی کاروں اور کوٹھیوں، اس کے محلوں اور ایوانوں، اس کی صدارتوں اور وزارتوں میں بڑی کشش اور دل فریبی ہے۔ اس کی لذتیں نقد اور عاجل اور اس کی تلخیاں پس پردہ ہیں۔ اس کے مقابل میں آخرت کی تمام کامرانیاں نسیہ ہیں اور اس کے طالبوں کو اس کی خاطر بے شمار جانکاہ مصیبتیں نقد نقد اسی دنیا میں جھیلنی پڑتی ہیں۔ یہ امتحان ایک سخت امتحان ہے۔ اس میں پورا اترنا ہر بوالہوس کا کام نہیں ہے۔ اس میں پورے وہی اتریں گے جن کی بصیرت اتنی گہری ہو کہ خواہ یہ دنیا ان کے سامنے کتنی ہی عشوہ گری کرے لیکن وہ اس عجوزۂ ہزار داماد کو اس کے ہر بھیس میں تاڑ جائیں اور کبھی اس کے عشق میں پھنس کر آخرت کے ابدی انعام کو قربان کرنے پر تیار نہ ہوں۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنی عقل و دل کی آنکھیں اندھی کر لی ہیں اور اپنی خواہشوں کے پرستار بن کے رہ گئے ہیں وہ اس نقد کو آخرت کے نسیہ کے لیے قربان کرنے پر تیار نہیں ہو سکتے اگرچہ اس کے حق ہونے پر اس کائنات کا ذرہ ذرہ گواہ ہے۔
زمین پر جو کچھ ہے، اُس کو ہم نے زمین کی زینت بنا یا ہے، اِس لیے کہ ہم لوگوں کا امتحان کریں کہ اُن میں کون اچھا عمل کرنے والا ہے
n/a
واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سر و سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔
n/a
روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی رونق کا باعث بنایا ہے کہ ہم انھیں آزمالیں کہ ان میں سے کون نیک اعمال والا ہے
روئے زمین میں جو کچھ ہے، حیوانات، جمادات، نباتات، معدنیات اور دیگر مدفون خزانے، یہ سب دنیا کی زینت اور رونق ہیں
اور ہم بالآخر اس پر جو کچھ ہے سب کو چٹیل میدان کر کے رہیں گے
اس دنیا کا انجام: ’جُرُز‘ بے آب و گیاہ زمین کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بے وقوف لوگ اس زمین کی جن چیزوں پر ریجھے ہوئے ہیں ایک وقت آئے گا کہ ہم ان ساری چیزوں کو مٹا کر اس کو چٹیل اور بے آب و گیاہ میدان کی طرح کر دیں گے۔ یہی مضمون آگے آیات ۴۶-۴۸ میں آ رہا ہے وہاں انشا ء اللہ اس کی مزید تفصیل ہو گی۔
(وہ اِسی زینت پر ریجھے ہوئے ہیں، دراں حالیکہ)ہم اُن سب چیزوں کو جو زمین پر ہیں، (ایک دن بالکل نابود کرکے اُس کو) ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں
ایمان نہ لانے کا اصل سبب کیا ہے؟ یہ اُس سے پردہ اٹھایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...فرمایا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اِس میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کون اپنی عقل و تمیز سے کام لے کر آخرت کا طالب بنتا ہے اور کون اپنی خواہشوں کے پیچھے لگ کر اِسی دنیا کا پرستار بن کر رہ جاتا ہے۔ اِس امتحان کے تقاضے سے ہم نے اِس دنیا کے چہرے پر حسن و زیبائی کا ایک پرفریب غازہ مل دیا ہے۔ اِس کے مال و اولاد، اِس کے کھیتوں کھلیانوں، اِس کے باغوں اور چمنوں، اِس کی کاروں اور کوٹھیوں، اِس کے محلوں اور ایوانوں، اِس کی صدارتوں اور وزارتوں میں بڑی کشش اور دل فریبی ہے۔ اِس کی لذتیں نقد اور عاجل اور اِس کی تلخیاں پس پردہ ہیں۔ اِس کے مقابل میں آخرت کی تمام کامرانیاں نسیہ ہیں اور اِس کے طالبوں کو اِس کی خاطر بے شمار جان کاہ مصیبتیں نقد نقد اِسی دنیا میں جھیلنی پڑتی ہیں۔ یہ امتحان ایک سخت امتحان ہے۔ اِس میں پورا اترنا ہر بوالہوس کا کام نہیں ہے۔ اِس میں پورے وہی اتریں گے جن کی بصیرت اتنی گہری ہو کہ خواہ یہ دنیا اُن کے سامنے کتنی ہی عشوہ گری کرے، لیکن وہ اِس عجوزۂ ہزار داماد کو اِس کے ہر بھیس میں تاڑ جائیں اور کبھی اِس کے عشق میں پھنس کر آخرت کے ابدی انعام کو قربان کرنے پر تیار نہ ہوں۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنی عقل و دل کی آنکھیں اندھی کر لی ہیں اور اپنی خواہشوں کے پرستار بن کے رہ گئے ہیں ،وہ اِس نقد کو آخرت کے نسیہ کے لیے قربان کرنے پر تیار نہیں ہو سکتے، اگرچہ اِس کے حق ہونے پر اِس کائنات کا ذرہ ذرہ گواہ ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۴/ ۵۵۸)
آخرکار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔
پہلی آیت کا خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تھا اور ان دونوں آیتوں کو روئے سخن کفار کی جانب ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حرف تسلی دینے کے بعد اب آپ کے منکرین کو مخاطب کیے بغیر یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہ سروسامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں پر تم فریفتہ ہو، یہ ایک عارضی زینت ہے جو محض تمہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے۔ تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ یہ سب کچھ ہم نے تمہارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے، اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف توجہ نہیں کرتے، اور اسی لیے تم کسی سمجھانے والے کی بات پر کان بھی نہیں دھرتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں بلکہ وسائل امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کر کے دنیا کی ان دلفریبیوں میں گم ہوجاتا ہے، اور کون اپنے اصل مقام (بندگی رب) کو یاد رکھ کر صحیح رویے پر قائم رہتا ہے۔ جس روز یہ امتحان ختم ہوجائے گا اسی روز یہ بساط عیش الٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی۔
اس پر جو کچھ ہے ہم اسے ایک ہموار صاف میدان کر ڈالنے والے ہیں ۔
صعیدا۔ صاف میدان۔ جرز۔ بالکل ہموار۔ جس میں کوئی درخت وغیرہ نہ ہو، یعنی ایک وقت آئے گا کہ یہ دنیا اپنی تمام تر رونقوں سمیت فنا ہوجائے گی اور روئے زمین ایک چٹیل اور ہموار میدان کی طرح ہوجائے گی، اس کے بعد ہم نیک و بد کو ان کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے۔
کیا تم نے کہف و رقیم والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ بہت عجیب خیال کیا
صیغہ واحد کا خطاب جماعت سے: ’حَسِبْتَ‘ کا خطاب ضروری نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہو بلکہ ’اَلَمْ تَرَ‘ کے خطاب کی طرح یہ عام بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے خطاب میں، جیسا کہ ہم پیچھے اپنی کتاب میں ایک سے زیادہ مقامات میں ذکر کر چکے ہیں، مخاطب گروہ کا ایک ایک شخص فرداً فرداً مراد ہوتا ہے اور جمع کے خطاب کے بالمقابل اس میں زیادہ زور ہوتا ہے۔ خود اسی سلسلۂ کلام میں آگے متعدد خطابات بصیغۂ واحد ہیں۔ لیکن ان سب میں خطاب آنحضرتؐ سے نہیں بلکہ مخاطب کردہ سے ہے۔ مثلاً ’وَتَرَی الشَّمْسَ‘ آیت ۱۷، ’وَتَحْسَبُھُمْ‘ ’لَوِ اطَّلَعْتَ‘ ’لَوَلَّیْتَ‘ ’وَلَمُلِئۡتَ‘ آیت ۱۸۔
یہ خطاب سوال کرنے والوں سے ہے: یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے یہ فرمانے کا کیا محل ہے کہ کیا تم اصحاب کہف و رقیم کو ہماری نشانیوں میں سے کچھ عجیب چیز خیال کرتے ہو؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اول تو اس سرگزشت سے واقف ہی نہیں تھے، اول اول آپ اس وحی کے ذریعہ ہی سے اس سے واقف ہوئے اور بالفرض آپ کچھ واقف رہے بھی ہوں تو اس میں آپؐ کے لیے تعجب اور حیرت کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے! اس سے کہیں زیادہ عجیب سرگزشتیں آپ کو سابق انبیائے کرام کی سنائی جا چکی تھیں۔ پھر آپؐ کے اصحاب کہف کے معاملہ کو عجیب اور نادر سمجھنے کی کیا وجہ ہو سکتی تھی! ہمارے نزدیک یہ سوال خطاب کرنے والوں سے ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ان کے پیش نظر اصل مقصد یہ تھا کہ لوگوں کی نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کی وقعت گھٹائیں کہ ہمارے ہاں تو اصحاب کہف جیسے اولیائے کبار گزرے ہیں جن کے لیے خدا کی قدرت کی نہایت عظیم شانیں ظاہر ہوئیں تو ہم کسی اور کی ہدایت و رہنمائی کے محتاج کب ہو سکتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے نبی کی ہدایت کے جس کے اندر ہم اس طرح کی کوئی بات بھی نہیں پا رہے ہیں۔ یہ بات یہاں پیش نظر رہے کہ اس دور میں یہود و نصاریٰ دونوں کھلم کھلا یہ بات کہنے لگے تھے کہ جس کو ہدایت کی طلب ہو وہ یہودی بنے یا نصرانی، یہ نیا دین بھلا کیا ہے، اس سے بہتر تو مشرکین ہی کا دین ہے! سوال اٹھانے والوں کی اس پس پردہ ذہنیت کو سامنے رکھ کر قرآن نے جواب کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ اگر تم اصحاب کہف کے ماجرے کو بہت عجیب چیز سمجھتے ہو تو یہ بہت عجیب چیز نہیں ہے۔ یہ خدا کی بے شمار نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس طرح کی نشانیاں پہلے بھی ظاہر ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ان لوگوں کے لیے ظاہر ہوں گی جن کے لیے خدا چاہے گا۔ یہ نشانیاں خدا کے اختیار میں ہیں۔ ان پر کسی خاص گروہ کا اجارہ نہیں ہے۔
آیت کے خطاب کے معاملے میں ہماری رائے یہی ہے لیکن کوئی شخص اس کا مخاطب آنحضرتؐ ہی کو قرار دینا چاہے تو اس صورت میں آیت کی تاویل یہ ہو گی کہ اگر تم معروف روایات کی بنا پر اصحاب کہف کے ماجرے کو عجیب سمجھتے ہو تو یہ کوئی عجیب چیز نہیں۔ خدا کی اس طرح کی نشانیاں پہلے بھی ظاہر ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ظاہر ہوں گی۔ اس میں گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کے لیے بشارت ہے کہ جس طرح خدا نے پہلے اپنے دین کے علم برداروں کی حفاظت کے لیے اپنی قدرت کی شانیں ظاہر کی ہیں اسی طرح تمہارے لیے بھی ہر مرحلہ میں اس کی شانیں ظاہر ہوں گی۔
اصحاب کہف و رقیم کی وجہ تسمیہ: رہا یہ سوال کہ ان لوگوں کو اصحاب کہف و رقیم کیوں کہا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرب کے اہل کتاب میں یہ لوگ اسی لقب سے معروف تھے۔ ’کہف‘ کی طرف تو ان کی نسبت ظاہر ہے کہ غار میں پناہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔ رہا ’رقیم‘ تو اس کے بارے میں ہمارے نزدیک راجح قول وہ ہے جس کی روایت عکرمہ نے حضرت ابن عباسؓ سے کی ہے کہ حضرت کعبؓ کا خیال تھا کہ رقیم اس بستی کا نام تھا، جس سے نکل کر اصحاب کہف نے غار میں پناہ لی۔ رقیم وادی کو بھی کہتے ہیں۔ ناموں کے بارے میں یہ تحقیق کہ ان کی اصل کیا ہے غیرضروری بھی ہے اور نہایت مشکل بھی۔ عجمی نام عربی کے قالب میں آ کر اس قدر بدل جاتے ہیں کہ ان کی اصل کی تحقیق کوہ کنی کے مترادف بن جاتی ہے اور مقصد تعلیم کے پہلو سے اس کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں۔ اگر یہ نام قرآن نے رکھا ہوتا تب تو اس کے معنی اور اس کی اصل کی جستجو کی ایک خاص اہمیت تھی۔ لیکن یہ نام، جیسا کہ ہم نے عرض کیا عرب کے اہل کتاب بالخصوص نصاریٰ کا اختیار کردہ ہے۔ قرآن نے اسی کو اختیار کر لیا ہے۔ دورحاضر کے بعض محققین کی رائے میں رقیم وہی شہر ہے جسے پیٹرا کے نام سے شہرت ملی اور عرب اسے بطرا کے نام سے جانتے ہیں۔
کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے بہت عجیب نشانی تھے
یہ لوگ اگر وہی ہیں جو مسیحی تاریخ میں سات سونے والے (seven sleepers) کہے جاتے ہیں تو یہ شہر افیسس (Ephesus) کا قصہ ہے جو ترکی کے مغربی ساحل پر واقع زمانۂ قدیم کا ایک مشہور شہر تھا۔ اِس کے عظیم کھنڈر آج بھی وہاں دیکھ لیے جا سکتے ہیں۔ یہ شہر بت پرستی کا ایک بڑا مرکز تھا اور یہاں چاند دیوی کی پرستش ہوتی تھی جسے ڈائنا (Diana) کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ یہ اُسی کا عظیم الشان مندرتھا جو زمانۂ قدیم کے عجائبات عالم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اِس علاقے میں اُس وقت قیصر ڈیسیس (Desius) کی حکومت تھی جو ۲۴۹ء سے ۲۵۱ء تک سلطنت روما کا فرماں روا رہا ہے۔ مسیح علیہ السلام کے پیرو اِسی کے لگ بھگ زمانے میں اپنی دعوت لے کر یہاں پہنچے۔ رومی حکمران خود بھی بت پرست تھا۔ وہ مذہب توحید کی اشاعت کو برداشت نہیں کر سکا۔ چنانچہ جو لوگ ایمان لائے، وہ بالعموم ظلم و ستم کا نشانہ بن گئے۔ جن نوجوانوں کایہ قصہ ہے،وہ شہر کے اعلیٰ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور غالباً ۲۵۰ء میں کسی وقت ایمان لا کر اِس دعوت کے مبلغ بنے۔ اُنھوں نے یہ دعوت اِس زور کے ساتھ اور علانیہ پیش کی کہ پورا ماحول اُن کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ اُنھیں سنگ سار کر دیا جائے گا۔ اِس پر وہ لوگ شہر سے باہر نکل کر ایک غار میں پناہ گیر ہو گئے۔ عربی زبان میں کہف وسیع غار کو کہتے ہیں، اُنھیں اِسی بنا پر اصحاب الکہف کہاگیا ہے۔
عرب کے اہل کتاب اُنھیں اصحاب الرقیم بھی کہتے تھے۔ رقیم کو مرقوم، یعنی لکھی ہوئی چیز کے معنی میں لے کر بعض اہل علم نے اِس سے اصحاب کہف کے غارکا کتبہ اور بعض نے سیسے کی وہ لوح مراد لی ہے جس پر اُن کے نام اور حالات بادشاہ کے حکم سے لکھ کر شاہی خزانے میں رکھے گئے تھے۔ لیکن لوح یا کتبے کے لیے اِس لفظ کا استعمال عربی زبان میں معروف نہیں ہے، اِس وجہ سے ہمارے نزدیک راجح قول اُنھی لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رقیم اُس عمارت کا نام تھا جو اصحاب کہف کی یادگار میں اُن کے غار پر بنائی گئی تھی اور جس کا ذکر قرآن میں آگے ہوا ہے۔
یہ خطاب عام ہے ۔ واحد کے صیغے سے خطاب کا یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب مخاطبین کے ایک ایک شخص کو فرداً فرداً خطاب کرنا پیش نظر ہوتا ہے۔ آیت سے واضح ہے کہ قریش کو یہ قصہ اہل کتاب سے سن کر سخت تعجب ہوا اور غالباً اُنھی کے ایما سے اُنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتحان کی غرض سے اِسے آپ کے سامنے پیش کر دیا کہ دیکھیں آپ اِس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ آگے آیات ۲۲۔۲۴ میں اشارہ ہے کہ یہ قصہ اُن کے سوال کے جواب میں سنایا گیا ہے۔ تاہم قرآن نے اِسے افسانوں کے حجاب سے نکال کر اِس کی اصل صورت میں اِس طرح سنایا ہے کہ سورہ کے مضمون سے پوری طرح ہم آہنگ ہو کر یہ اُس کے انذار و بشارت کا نہایت موثر ذریعہ بن گیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ تم اِن غاروالوں کی سرگذشت کو بہت عجیب سمجھتے ہو۔ خدا نے جو نشانیاں اپنے دین کے علم برداروں کی حفاظت کے لیے ظاہر کی ہیں، یہ بھی اُنھی میں سے ایک نشانی ہے۔ اِس طرح کی نشانیاں پہلے بھی ظاہر ہوتی رہی ہیں اور اِس وقت بھی، اگر خدا نے چاہا تو اُن اہل حق کے لیے ظاہر ہو جائیں گی جنھیں تم تعذیب کا نشانہ بنا رہے ہو۔ یہ خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور کتبے والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟
عربی زبان میں ” کہف ” وسیع غار کو کہتے ہیں اور ” غار ” کا لفظ تنگ کھوہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر اردو میں غار کہف کا ہم معنی ہے۔
الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور وہ ایلہ (یعنی عَقَبہ) اور فلسطین کے درمیان واقع تھی۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس غار پر اصحاب کہف کی یادگار میں لگایا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ” ترجمان القرآن ” میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مقام وہی ہے جسے بائیبل کی کتاب یشوع (باب ١٨۔ آیت ٢٧) میں رقم یا راقم کیا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نبطیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیڑا کا قدیم نام قرار دیتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحر لوط کی مغرب میں واقع تھا جس میں پیڑا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پیڑا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہو واہ اور ادومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا۔ اسی بنا پر جدید زمانے کے محققین آثار قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ پیڑا اور راقم ایک چیز ہیں (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا طبع ١٩٤٦ جلد ١٧۔ ص ٦٥٨) ۔ ہمارے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :8
یعنی کیا تم اس خدا کی قدرت سے، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، اس بات کو کچھ بعید سمجھتے ہو کہ وہ چند آدمیوں کو دو تین سو برس تک سلائے رکھے اور پھر ویسا ہی جوان و تندرست جگا اٹھائے جیسے وہ سوئے تھے ؟ اگر سورج اور چاند اور زمین کی تخلیق پر تم نے کبھی غور کیا ہوتا تو تم ہرگز یہ خیال نہ کرتے کہ خدا کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل کام ہے۔
کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے
یعنی یہ واحد بڑی اور عجیب نشانی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ہر نشانی ہی عجیب ہے۔ یہ آسمان و زمین کی پیدائش اور اس کا نظام، شمس و قمر اور کواکب کی تسخیر، رات اور دن کا آنا جانا اور دیگر بیشمار نشانیاں، کیا تعجب انگیز نہیں ہیں۔ کَھْف اس غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے۔ رقیم، بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے، بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع تھا بعض کہتے ہیں رَقِیْم بمعنی مَرْقُوْم ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے یا سیسے کی، جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اسے رقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر نام تحریر ہیں۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے اب الرقیب کہا جاتا ہے جو مرور زمانہ کے سبب الرقیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
جب کہ کچھ نوجوانوں نے غار میں پناہ لی اور دعا کی کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت بخش اور ہمارے اس معاملے میں ہمارے لیے رہنمائی کا سامان فرما۔
’رَشِدَ‘ کے معنی ہیں اس نے ہدایت اور استقامت پائی۔ ’رَشِدَ اَمْرَہٗ‘ کے معنی ہوں گے اس نے اپنے معاملے میں ہدایت پائی ’وَھَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا‘ کا مفہوم ہو گا کہ اے ہمارے رب ہمارے لیے اس راہ میں جو ہم نے اختیار کی ہے تو رہنمائی اور استقامت کا بدرقہ مہیا فرما۔
یہ وہ دعا ہے جو ان نوجوانوں نے اس وقت کی ہے جب انھوں نے غار میں پناہ لینے کا ارادہ کیا ہے۔ آیت کے الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ یہ نوجوان لوگ تھے۔ نوجوانوں میں جب ایک مرتبہ حق کی حمیت جاگ پڑتی ہے تو پھر نہ وہ مصالح کی پروا کرتی ہے اور نہ خطرات کی۔ لیکن ان لوگوں کے اندر صرف جوانی کا جوش ہی نہیں تھا بلکہ اللہ کی بخشی ہوئی حکمت کا نور بھی تھا۔ اس وجہ سے اس نازک مرحلہ میں انھوں نے اللہ سے رہنمائی اور استقامت کی دعا کی اور یہی بات اہل ایمان کے شایان شان ہے۔
سرگزشت کا خلاصہ بطور تمہید: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد کی دو آیتیں اصل سرگزشت کے خلاصہ (SUMMARY) کے طور پر ہیں جن میں پہلے اجمال کے ساتھ سرگزشت قاری کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ اس کے بعد پوری سرگزشت تفصیل کے ساتھ سامنے آئے گی۔ تفصیل سے پہلے اجمال کا یہ طریقہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اصل مدعا نگاہ کے سامنے رہتا ہے۔ دوسری ضمنی باتیں اس کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔ سرگزشتوں کے بیان میں یہ طریقہ قرآن نے جگہ جگہ اختیار کیا ہے۔
اُس وقت جب اُن نوجوانوں نے غار میں پناہ لی، پھر (اپنے پروردگار سے) دعا کی کہ اے ہمارے رب، ہم کو تو خاص اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے اِس معاملے میں تو ہمارے لیے رہنمائی کا سامان کر دے
یعنی غار میں آتے ہی اللہ تعالیٰ سے رہنمائی اور استقامت کے لیے دست بدعا ہو گئے، اِس لیے کہ جوش حمیت کے ساتھ وہ نور حکمت سے بھی بہرہ یاب تھے اور خوب جانتے تھے کہ اِس طرح کے مراحل میں اہل ایمان کو کیا کرنا چاہیے۔
جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہا کہ “اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے،”
n/a
ان چند نو جوانوں نے جب غار میں پناہ لی تو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کو آسان کر دے ۔
یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں اصحاب کہف کہا گیا، (تفصیل آگے آرہی ہے) انہوں نے جب اپنے دین کو بچاتے ہوئے غار میں پناہ لی تو یہ دعا مانگی۔ اصحاب کہف کے اس قصے میں نوجوانوں کے لئے بڑا سبق ہے، آجکل کے نوجوانوں کا بیشتر وقت فضولیات میں برباد ہوتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ کاش ! آج کے مسلمان نوجوان اپنی جوانیوں کو اللہ کی عبادت میں صرف کریں۔
امین احسن اصلاحی
شکر کا سزاوار ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اس نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا
’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ‘۔ سابق سورہ ۔ بنی اسرائیل ۔ جس مضمون پر ختم ہوئی تھی (ملاحظہ ہوں آیات ۱۰۵-۱۱۱) اسی مضمون سے اس سورہ کا آغاز فرمایا۔ قرآن کی صورت میں جو نعمت عظمیٰ اہل عرب پر نازل ہوئی تھی یہ اس کے حق کا اظہار ہے کہ یہ نعمت شکر کی موجب ہونی چاہیے نہ کہ کفر کی۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اس کی ناقدری کریں اور اس کی تکذیب کے لیے نت نئے بہانے تلاش کریں۔
قرآن کی سنت: ’وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا‘ ’قَیِّمًا‘: یہ اس کتاب کی صفت ہے کہ اس کتاب میں خدا نے کوئی کج پیچ نہیں رکھا ہے۔ نہ بیان کے اعتبار سے نہ معنی کے اعتبار سے۔ زبان اس کی عربی مبین ہے اور رہنمائی اس کی اس صراط مستقیم کی طرف ہے جس کے مستقیم ہونے کے دلائل عقل و فطرت اور آفاق و انفس کے ہر گوشے میں موجود ہیں اور قرآن نے ان کو اتنے گوناگوں طریقوں سے بیان کر دیا ہے کہ کوئی عقل سے کام لینے والا ان کے سمجھنے سے قاصر نہیں رہ سکتا۔ صرف وہی ان سے محروم رہیں گے جوعقل سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ قرآن کی یہی صفت سورۂ بنی اسرائیل میں بھی بیان ہوئی ہے:
’اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ‘
“بے شک یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سیدھا ہے”۔