ہم نے یہ خیر کثیر تمھیں عطا کر دیا ہے، (اے پیغمبر)۔
اصل میں لفظ ’الْکَوْثَر‘ آیا ہے۔ ’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘ کے جملے میں آگے اِس کا حق بیان ہوا ہے۔ اُس سے واضح ہے کہ اِس سے بیت الحرام مراد ہے، اِس لیے کہ یہ دونوں عبادات پوری شان کے ساتھ اِسی میں جمع ہوتی ہیں۔بصیرت کی نگاہ سے دیکھیے تو یہی معبد ہے جو ہر صاحب ایمان کے لیے خیر کثیر کا خزانہ اور دنیا میں اُس کوثر کا مجاز ہے جس کی حقیقت قیامت کے دن ایک نہر کی صورت میں سامنے آئے گی۔ یہ کوثر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو عطا کیا جائے گا۔ اِس کا ذکر متعدد روایتوں میں ہوا ہے۔ امام حمید الدین فراہی لکھتے ہیں:
’’معراج میں جو نہر کوثر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاہدہ کرائی گئی تھی، اُس کی صفات پر جو شخص بھی غور کرے گا، اُس پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ نہر کوثر درحقیقت کعبہ اور اُس کے ماحول کی روحانیمثال ہے۔ اِس کے متعلق مختلف طریقوں سے جو روایات مروی ہیں، اُن کی مشترک حقیقت یہ ہے کہ کوثر ایک نہرہے۔ اُس کے کناروں پر مجوف موتیوں کے محل ہیں۔ اُس کی زمین یاقوت و مرجان اور زبرجد کی ہے۔ اُس میں ظروف ہیں جو آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں۔ اُس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیریں اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے۔ اُس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ اُس پر چڑیاں اترتی ہیں جن کی گردنیں قربانی کے جانوروں کی طرح ہیں۔*
... اب ایک لمحہ توقف کرکے کعبہ اور اُس کے ماحول کے مشاہدات پر غور کرو۔ جب تمام اکناف عالم سے جاں نثاران توحید کے قافلے عشق و محبت الٰہی کی پیاس بجھانے کے لیے اِس چشمۂ خیر و برکت کے پاس اکٹھے ہوتے ہیں۔ کیا اُن کے احساس روحانی میں اِس مقدس وادی کے سنگ ریزے یاقوت و زمرد سے زیادہ پرجمال، اِس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار اور اِس کے ارد گرد حجاج کے خیمے مجوف موتیوں کے قبوں سے زیادہ حسین و خوبصورت نہیں ہیں؟ پھر حجاج اور اُن کے ساتھ قربانی کے اونٹوں کی قطاروں پر ایک نظر ڈالو۔ کیا یہ ایک چشمے کے کنارے لمبی گردن والی چڑیوں کا جھنڈ نہیں ہے؟‘‘(نظام القرآن ۴۹۵)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جن مقاصد کے لیے ہوئی، اُن میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ بیت اللہ کو شرک کی ہر غلاظت سے پاک کرکے ایک مرتبہ پھر دنیا والوں کے لیے اُسی توحید کا مرکز بنا دیا جائے جس کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں نے اُسے تعمیر کیا تھا۔ قرآن نے جب یہ اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خیر کثیر کا یہ خزانہ آپ کو عطا کر دیا ہے تو اِس کے معنی یہ تھے کہ قریش معزول ہوئے۔ حرم کی بدولت سرزمین عرب میں جو اقتدار اُنھیں حاصل رہا ہے، وہ اُن سے چھین لیا جائے گا اور خدا کے اِس گھر کی تولیت اُن سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو سونپ دی جائے گی۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو یہ ایک عظیم بشارت تھی جو اپنی قوم سے ہجرت و براء ت کے موقع پر آپ کو دی گئی، جبکہ دور دور تک اِس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے کہ یہ کبھی واقعہ بن سکے گی۔
_____
* بخاری، رقم ۴۵۸۳،۶۰۹۵۔ ترمذی، رقم ۲۴۶۵۔ ابن ماجہ، رقم ۴۳۲۵۔ احمد، رقم ۵۶۴۳۔ المعجم الکبیر، رقم ۲۹۶۰۔
(اے نبیؐ) ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دیا۔
کوثر کا لفظ یہاں جس طرح استعمال کیا گیا ہے اس کا پورا مفہوم ہماری زبان تو درکنار شاید دنیا کی کسی زبان میں بھی ایک لفظ سے ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کثرت سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے لغوی معنی تو بےانتہا کثرت کے ہیں، مگر جس موقع پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے اس میں محض کثرت کا نہیں بلکہ خیر اور بھلائی اور نعمتوں کی کثرت، اور ایسی کثرت کا مفہوم نکلتا ہے جو افراط اور فراوانی کی حد کو پہنچی ہوئی ہو، اور اس سے مراد کسی ایک خیر یا بھلائی یا نعمت کی نہیں بلکہ بیشمار بھلائیوں اور نعمتوں کی کثرت ہے۔ دیباچے میں اس سورة کا جو پس منظر ہم نے بیان کیا ہے اس پر ایک مرتبہ پھر نگاہ ڈال کر دیکھیے۔ حالات وہ تھے جب دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حیثیت سے تباہ ہوچکے ہیں، قوم سے کٹ کر بےیارو مددگار رہ گئے۔ تجارت برباد ہوگئی، اولاد نرینہ تھی جس سے آگے ان کا نام چل سکتا تھا۔ وہ بھی وفات پاگئی، بات ایسی لے کر اٹھے ہیں کہ چند گنے چنے آدمی چھوڑ کر مکہ تو درکنار پورے عرب میں کوئی اس کو سننا تک گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے ان کے مقدر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ جیتے جی ناکامی و نامرادی سے دو چار ہیں اور جب وفات پاجائیں تو دنیا میں کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہو، اس حالت میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمایا گیا کہ ہم نے تمہیں کوثر عطا کردیا تو اس سے خودبخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ تمہارے مخالف بیوقوف تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ تم برباد ہوگئے اور نبوت سے پہلے جو نعمتیں تمہیں حاصل تھیں وہ ھی تم سے چھن گئیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں بےانتہا خیر اور بیشمار نعمتوں سے نواز دیا ہے۔ اس میں اخلاق کی وہ بےنظیر خوبیاں بھی شامل ہیں جو حضور کو بخشی گئیں۔ اس میں نبوت اور قرآن اور علم اور حکمت کی وہ عظیم نعمتیں بھی شامل ہیں جو آپ کو عطا کی گئیں۔ اس میں توحید اور ایک ایسے نظام زندگی کی نعمت بھی شامل ہے جس کے سیدھے سادھے، عام فہم، عقل و فطرت کے مطابق اور جامع و ہمہ گیر اصول تمام عالم میں پھیل جانے اور ہمیشہ پھیلتے ہی چلے جانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اس میں رفع ذکر کی نعمت بھی شامل ہے جس کی بدولت حضور کا نام نامی چودہ سو برس سے دنیا کے گوشے گوشے میں بلند ہورہا ہے اور قیامت تک بلند ہوتا رہے گا۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ آپ کی دعوت سے بالآخر ایک ایسی عالمگیر امت وجود میں آئی جو دنیا میں ہمیشہ کے لیے دین حق کی علمبردار بن گئی، جس سے زیادہ نیک اور پاکیزہ اور بلند پایہ انسان دنیا کی کسی امت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے، اور جو بگاڑ کی حالت کو پہنچ کر بھی دنیا کی سب قوموں سے بڑھ کر خیر اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ حضور نے اپنی آنکھوں سے اپنی حیات مبارکہ ہی میں اپنی دعوت کو انتہائی کامیاب دیکھ لیا اور آپ کے ہاتھوں سے وہ جماعت تیار ہوگئی جو دنیا پر چھا جانے کی طاقت رکھتی تھی۔ اس میں یہ نعمت بھی شامل ہے کہ اولاد نرینہ سے محروم ہوجانے کی بنا پر دشمن تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا نام و نشان دنیا سے مٹ جائے گا، لیکن اللہ نے صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں آپ کو وہ روحانی اولاد عطا فرمائی جو قیامت تک تمام روئے زمین پر آپ کا نام روشن کرنے والی ہے، بلکہ آپ کی صرف ایک ہی صاحبزادی حضرت فاطمہ سے آپ کو جو جسمانی اولاد بھی عطا کی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کا سارا سرمایہ افتخار ہی حضور سے اس کا انتساب ہے۔
یہ تو وہ نعمتیں ہیں جو اس دنیا میں لوگوں نے دیکھ لیں کہ وہ کسی فراوانی کے ساتھ اللہ نے اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمائیں ان کے علاوہ کوثر سے مراد وہ دو مزید ایسی عظیم نعمتیں بھی ہیں جو آخرت میں اللہ تعالیٰ آپ کو دینے والا ہے۔ ان کو جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ تھا اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ان کی خبر دی اور بتایا کہ کوثر سے مراد وہ بھی ہیں۔ ایک حوض کوثر جو قیامت کے روز میدان حشر میں آپ کو ملے گا، دوسرے نہر کوثر جو جنت میں آپ کو عطا فرمائی جائے گی، ان دونوں کے متعلق اس کثرت سے احادیث حضور سے منقول ہوئی ہیں اور اتنے کثیر راویوں نے ان کو روایت کیا ہے کہ ان کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔
حوض کوثر کے متعلق حضور نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہیں :
(١) یہ حوض قیامت کے روز آپ کو عطا ہوگا اور اس سخت وقت میں جبکہ ہر ایک العطش العطش کر رہا ہوگا، آپ کی امت آپ کے پاس اس پر حاضر ہوگی، اور اس سے سیراب ہوگی۔ آپ اس پر سب سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور اس کے وسط میں تشریف فرما ہوں گے۔ آپ کا ارشاد ہے ھو حوض ترد علیہ امتی یوم القیمۃ۔ ” وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت قیامت کے روز وارد ہوگی “۔ (مسلم، کتاب الصلوۃ، ابو داؤد، کتاب السنہ) انا فرطکم علی الحوض۔ ” میں تم سب سے پہلے اس پر پہنچا ہوا ہوں گا ” ( بخاری، کتاب الرقاق اور کتاب الفتن، مسلم، کتاب الفضائل اور کتاب الطہارۃ۔ ابن ماجہ، کتاب المناسک اور کتاب الزہد، مسند احمد، مرویات عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، و ابوہریرہ) انی فط لکم وانا شھید علیکم وانی واللہ لانظر الی حوضی الانہ۔ ” میں تم سے آگے پہنچنے والا ہوں، اور تم پر گواہی دوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں “۔ (بخاری، کتاب الجنائز، کتاب المغازی، کتاب الرقاق) انصار کو مخاطب کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا انکم ستلقون بعدی اثرۃ فاصبروا حتی تلقونی علی الحوض۔ ” میرے بعد تم کو خود غرضیوں اور اقربا نوازیوں سے پالا پڑے گا، اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آکر حوض پر ملو “۔ (بخاری، کتاب مناقب الانصار و کتاب المغازی، مسلم کتاب الامارہ، ترمذی، کتاب الفتن) انا یوم القیامۃ عند عقر الحوض۔ ” میں قیامت کے روز حوض کے وسط کے پاس ہوں گا ” (مسلم، کتاب الفضائل) حضرت ابو برزہ اسلمی سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے حوض کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے کہا، ایک نہیں دو نہیں تین نہیں چار نہیں پانچ نہیں بار بار سنا ہے، جو اس کو جھٹلائے اللہ اسے اس کا پانی نصیب نہ کرے (ابو داؤد، کتاب السنہ) عبید اللہ بن زیاد حوض کے بارے میں روایات کو جھوٹ سمجھتا تھا، حتی کہ اس نے حضرت برزہ اسلمی، براء بن عازب اور عائذ بن عمرو کی سب روایات کو جھٹلا دیا۔ آخر کار ابو سبرہ ایک تحریر نکال کر لائے جو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے سن کر نقل کی تھی اور اس میں حضور کا یہ ارشاد درج تھا کہ الا ان موعدکم حوضی ” خبردار رہو، میری اور تمہاری ملاقات کی جگہ میرا حوض ہے ” (مسند احمد، مرویات عبداللہ بن عمرو بن عاص)
(٢) اس حوض کی وسعت مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے۔ مگر کثیر روایات میں یہ ہے کہ وہ ایلہ (اسرائیل کے موجودہ بندرگاہ ایلات) سے یمن کے صنعا تک، یا ایلہ سے عدن تک، یا عمان سے عدن تک طویل ہوگا اور اس کی چوڑائی اتنی ہوگی جتنا ایلہ سے جحفہ (جدہ اور رابغ کے درمیان ایک مقام) تک کا فاصلہ ہے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، ابوداؤد الطیالسی، حدیث نمبر 995 ۔ مسند احمد، مرویات ابوبکر صدیق و عبداللہ بن عمر۔ مسلم، کتاب الطہارۃ و کتاب الفضائل۔ ترمذی، ابواب صفۃ القیامہ۔ ابن ماجہ، کتاب الزہد۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ قیامت کے روز موجودہ بحر احمر ہی کو حوض کوثر میں تبدیل کردیا جائے گا، واللہ اعلم بالصواب۔
(٣) اس حوض کے متعلق حضور نے بتایا ہے کہ اس میں جنت کی نہر کوثر (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) سے پانی لاکر ڈالا جائے گا۔ یشخب فیہ میزابان من الجنۃ، اور دوسری روایت میں ہے یغت فیہ میزابان یمدانہ من الجنۃ، یعنی اس میں جنت سے دو نالیاں لاکر ڈالی جائیں گی جو اسے پانی بہم پہنچائیں گی۔ (مسلم، کتاب الفضائل) ایک اور روایت میں ہے یفتح نھر من الکوثر الی الحوض، جنت کی نہر کوثر سے ایک نہر اس حوض کی طرف کھول دی جائے گی (مسند احمد، مرویات عبداللہ بن مسعود)
(٤) اس کی کیفیت حضور نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اس کا پانی دودھ سے ( اور بعض روایات میں ہے چاندی سے اور بعض میں برف سے) زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا، اس کی تہہ کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہوگی، اس پر اتنے کوزے رکھے ہوں گے جتنے آسمان میں تارے ہیں، جو اس کا پانی پی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی سیراب نہ ہوگا۔ یہ باتیں تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ بکثرت احادیث میں منقول ہوئی ہیں (بخاری، کتاب الرقاق۔ مسلم، کتاب الطہارت و کتاب الفضائل۔ مسند احمد، مرویات ابن مسعود، ابن عمر، وعبداللہ بن عمرو بن العاص۔ ترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ۔ ابن ماجہ، کتاب الزھد، ابو داؤد طیالسی، حدیث 995 ۔ 2135)
(٥) اس کے بارے میں حضور نے بار بار اپنے زمانے کے لوگوں کو خبردار کیا کہ میرے بعد تم میں سے جو لوگ بھی میرے طریقے کو بدلیں گے ان کو اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا اور اس پر انہیں نہ آنے دیا جائے گا، میں کہوں گا کہ یہ میرے اصحاب میں تو مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور کہوں گا کہ دور ہو۔ یہ مضمون بھی بکثرت روایات میں بیان ہوا ہے (بخاری، کتاب الرقاق، کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب الطہارۃ، کتاب الفضائل۔ مسند احمد، مرویات ابن مسعود و ابوہریرہ۔ ابن ماجہ، کتاب المناسک۔ ابن ماجہ نے اس سلسلے میں جو حدیث نقل کی ہے وہ بڑے ہی دردناک الفاظ میں ہے۔ اس میں حضور فرماتے ہیں الا وانی فرطکم علی الحوض واکاثر بکم الامم فلا تسودوا وجھی، الا وانی مستنقذ اناسا و مستنقذ اناس منی فاقول یا رب اصیحابی، فیقول انک لا تدری ما احدثوا بعدک۔ ” خبردار رہو، میں تم سے آگے حوض پر پہنچا ہوا ہوں گا اور تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ اس وقت میرا منہ کالا نہ کروانا، خبردار رہو کچھ لوگوں کو میں چھڑاؤں گا اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جائیں گے، میں کہوں گا کہ اے پروردگار یہ تو میرے صحابی ہیں، وہ فرمائے گا تم نہیں جانتے انہوں نے تمہارے بعد کیا نرالے کام کیے ہیں “۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ یہ الفاظ حضور نے عرفات کے خطبے میں فرمائے تھے)
(٦) اسی طرح حضور نے اپنے دور کے بعد قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو بھی خبردار کیا ہے کہ ان میں سے جو بھی میرے طریقے سے ہٹ کر چلیں گے اور اس میں ردو بدل کریں گے انہیں اس حوض سے ہٹا دیا جائے گا، میں کہوں گا کہ اے رب یہ تو میرے ہیں، میری امت کے لوگ ہیں، جواب ملے گا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا تغیرات کیے اور الٹے ہی پھرتے چلے گئے۔ پھر میں بھی ان کو دفع کروں گا اور حوض پر نہ آنے دوں گا۔ اس مضمون کی بہت سی روایات احادیث میں ہیں (بخاری) کتاب المساقات، کتاب الرقاق، کتاب الفتن۔ مسلم، کتاب الطہارۃ، کتاب الصلوۃ، کتاب الفضائل۔ ابن ماجہ، کتاب الزہد۔ مسند احمد مرویات ابن عباس)
اس حوض کی روایات 50 سے زیادہ صحابہ سے مروی ہیں، اور سلف نے بالعموم اس سے مراد حوض کوثر لیا ہے۔ امام بخاری نے کتاب الرقاق کے آخری باب کا عنوان ہی یہ باندھا ہے باب فی الحوض و قول اللہ اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۔ اور حضرت انس کی ایک روایت میں تو تصریح ہے کہ حضور نے کوثر کے متعلق فرمایا ھو حوض ترد علیہ امتی۔ ” وہ ایک حوض ہے جس پر میری امت وارد ہوگی “۔
جنت میں کوثر نامی جو نہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی جائے گی اس کا ذکر بھی بکثرت روایات میں آیا ہے۔ حضرت انس سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں (اور بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں) کہ معراج کے موقع پر حضور کو جنت کی سیرا کرائی گئی اور اس موقع پر آپ نے ایک نہر دیکھی جس کے کناروں پر اندر سے ترشے ہوئے موتیوں یا ہیروں کے قبے بنے ہوئے تھے۔ اس کی تہ کی مٹی مشک اذفر کی تھی۔ حضور نے جبریل سے یا اس فرشتے سے جس نے آپ کو سیر کرائی تھی، پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا، یہ نہر کوثر ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے (مسند احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمزی، ابو داؤد طیالسی، ابن جریر) حضرت انس ہی کی روایت ہے کہ حضور سے پوچھا گیا (یا ایک شخص نے پوچھا) کوثر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ایک نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں عطا کی ہے۔ اس کی مٹی خشک ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن جریر۔ مسند احمد کی ایک اور راویت میں ہے کہ حضور نے نہر کوثر کی یہ صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا اس کی تہ میں کنکریوں کے بجائے موتی پڑے ہوئے ہیں) ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے ہیں، وہ موتیوں اور ہیروں پر بہ رہی ہے (یعنی کنکریوں کی جگہ اس کی تہ میں یہ جواہر پڑے ہوئے ہیں) اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے، اس کا پانی دودھ سے (یا برف سے) زیادہ سفید ہے، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم، دارمی، ابو داؤد طیالسی، ابن المنذر، ابن مردویہ، ابن ابی شیبہ) اسامہ بن زید کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ حضرت حمزہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہ گھر پر نہ تھے۔ ان کی اہلیہ نے حضور کی تواضع کی اور دوران گفتگو عرض کیا کہ میرے شوہر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کو جنت میں ایک نہر عطا کی گئی ہے جس کا نام کوثر ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں، اور اس کی زمین یاقوت و مرجان اور زبرجد اور موتیوں کی ہے (ابن جریر، ابن مردویہ۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اس مضمون کی کثیر التعداد روایات کا موجود ہونا اس کو تقویت پہنچاتا ہے) ان مرفوع روایات کے علاوہ صحابہ اور تابعین کے بکثرت اقوال احادیث میں نقل ہوئے ہیں جن میں وہ کوثر سے مراد جنت کی یہ نہر لیتے ہیں اور اس کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اوپر گزری ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک، حضرت عائشہ، مجاہد اور ابوالعالیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کے اقوال مسند احمد، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن مردویہ، ابن جریر، اور ابن ابی شیبہ وغیرہ محدثین کی کتابوں میں موجود ہیں۔
یقیناً ہم نے تجھے (حوض) کوثر (اور بہت کچھ) دیا ہے
کوثر، کثرت سے ہے اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں۔ ابن کثیر نے ” خیر کثیر ” کے مفہوم کو ترجیح دی ہے کیونکہ اس میں ایسا عموم ہے کہ جس مییں دوسرے معانی بھی آجاتے ہیں۔ مثلاً صحیح حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ اس سے ایک نہر مراد ہے جو جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی جائے گی۔ اس طرح بعض حدیث میں مصداق حوض بتایا گیا ہے، جس سے اہل ایمان جنت میں جانے سے قبل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک سے پانی پئیں گے۔ اس حوض میں بھی پانی اسی جنت والی نہر سے آ رہا ہوگا۔ اسی طرح دنیا کی فتوحات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفع و دوام ذکر اور آخرت کا اجر وثواب، سب ہی چیزیں ” خیر کثیر ” میں آجاتی ہیں۔ (ابن کثیر)
تو اپنے خداوند ہی کی نماز پڑھو اور اسی کے لیے قربانی کرو۔
اس ذمہ داری کا بیان جس کے ساتھ یہ عطیہ مشروط ہے: یہ اس ذمہ داری کا بیان ہے جس کے ساتھ یہ عطیہ مشروط ہے۔ ہر حق کے ساتھ ذمہ داری کا ہونا لازمی اور اس کے ادا کرنے ہی پر اس حق کے قیام و بقاء کا انحصار ہوتا ہے۔ کوئی حق بھی ذمہ داری کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ قریش کو اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی تولیت نہایت اہم ذمہ داریوں کے ساتھ سونپی تھی جس میں سے اہتمام نماز اور انفاق (جس کی ایک معروف شکل بیت اللہ کے تعلق سے قربانی بھی ہے) کو خاص اہمیت حاصل تھی لیکن انھوں نے نماز اور قربانی دونوں ضائع کر دیں۔ نماز کے ضائع کرنے کی جو شکل ہوئی اس کی تفصیل اوپر گزر چکی۔ قربانی انھوں نے یوں ضائع کی کہ شرک میں مبتلا ہو جانے کے سبب سے ان کی قربانی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں رہ گئی بلکہ اس میں ان کے شرکاء و اصنام بھی شریک ہو گئے۔ یہاں جب اس عطیۂ گرامی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشے جانے کا اعلان فرمایا تو ساتھ ہی اس گھر سے متعلق ان دو بڑی ذمہ داریوں کی یاددہانی بھی فرما دی جو اس کے مدعی متولیوں نے ضائع کر دی تھیں اور جن کے ضائع کرنے کے جرم ہی میں وہ اس منصب سے معزول کیے جانے کے مستحق قرار پائے۔
قربانی کے لیے یہاں ’نَحْرٌ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اونٹ کی قربانی کے لیے معروف ہے لیکن یہ اپنے عام استعمال میں دوسرے بہائم کی قربانی کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں خاص طور پر اس لفظ کے استعمال سے مقصود ابراہیمی قربانی کی طرف اشارہ کرنا ہے اس لیے کہ اونٹ کی قربانی ملت ابراہیم میں ایک محبوب قربانی تھی جس کو یہود نے اپنی بدعتوں کے تحت حرام قرار دے رکھا تھا۔ بعض لوگوں نے ’نَحْرٌ‘ کے معنی نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کے لیے ہیں، لیکن لفظ کے معنی اختیار کرنے میں موقع و محل کا لحاظ نہایت ضروری ہے۔ یہاں یہ معنی لینے کا کوئی محل نہیں ہے۔ نماز اور قربانی کے حکم کے لیے موزوں موقع اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ لفظ ’کوثر‘ جیسا کہ وضاحت ہو چکی ہے، یہاں اپنے مجازی مفہوم یعنی خانۂ کعبہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔
نماز کے ساتھ قرآن میں بالعموم انفاق یا زکوٰۃ کا حکم آیا ہے لیکن یہاں قربانی کا ذکر آیا ہے، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ بیت اللہ جس طرح نماز کا مرکز ہے اسی طرح قربانی کا بھی مرکز ہے اور اس قربانی کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے غرباء و مساکین اور ضیوف الٰہی کی خدمت ہوتی ہے یعنی دوسرے روحانی مقاصد کے ساتھ ساتھ قربانی سے وہ مقصد بھی پورا ہوتا ہے جو انفاق کا ہے۔
اِس لیے تم (اِس بیت عتیق میں اب) اپنے پروردگار کی نماز پڑھنا اور اُسی کے لیے قربانی کرنا۔
یہ اُس عطیۂ خداوندی کا حق بیان ہوا ہے جسے کوثر سے تعبیر کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قریش نے تو اِن دونوں عبادات میں اپنے شرکا و اصنام کو بھی شریک کر رکھا ہے، لیکن اِس گھر کی تولیت تمھیں حاصل ہو جائے تو شرک و بدعت کی ہر آلودگی سے پاک ہو کر تم اِس میں اپنے پروردگار کی نماز پڑھنا اور اُسی کے لیے قربانی کرنا۔
پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
اس کی مختلف تفسیریں مختلف بزرگوں سے منقول ہیں۔ بعض حضرات نے نماز سے مراد پنج وقتہ فرض نماز لی ہے، بعض اس سے بقر عید کی نماز مراد لیتے ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ بجائے خود نماز مراد ہے۔ اسی طرح وانحر یعنی نحر کرو سے مراد بعض جلیل القدر بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ نماز میں بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھ کر اسے سینے پر باندھنا ہے، بعض کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہنا ہے۔ بعض کا قول یہ ہے کہ افتتاح نماز کے وقت، اور رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھ کر رفع یدین کرنا مراد ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد بقر عید کی نماز پڑھنا اور اس کے بعد قربانی کرنا ہے۔ لیکن جس موقع پر یہ حکم دیا گیا ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو اس کا مطلب صریحا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” اے نبی، جب تمہارے رب نے تم کو اتنی کثیر اور عظیم بھلائیاں عطا کی ہیں تو تم اسی کے لیے نماز پڑھو اور اسی کے لیے قربانی کرو “۔ یہ حکم اس ماحول میں دیا گیا تھا جب مشرکین قریش ہی نہیں تمام عرب کے مشرکین اور دنیا بھر کے مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے تھے اور انہی کے آستانوں پر قربانیاں چڑھاتے تھے۔ پس حکم کا منشا یہ ہے کہ مشرکین کے برعکس تم اپنے اسی رویے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو کہ تمہاری نماز اللہ ہی کے لیے ہو اور قربانی بھی اسی کے لیے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ ” اے نبی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، سی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں “۔ (الانعام۔ 162 ۔ 163) یہی مطلب ابن عباس، عطا، مجاہد، عکرمہ، حسن بصری، قتادہ، محمد بن کعب قلرظی، ضحاک، ربیع بن انس، عطاء الخراسانی، اور بہت سے دوسرے اکابر مفسرین رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ( ابن کثیر) البتہ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مدینہ طیبہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے بقر عید کی نماز اور قربانی کا طریقہ جاری کیا تو اس بنا پر کہ آیت اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ اور آیت فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ میں نماز کو مقدم اور قربانی کو موخر رکھا گیا ہے، آپ نے خود بھی یہ عمل اختیار فرمایا اور اسی کا حکم مسلمانوں کو دیا کہ اس روز پہلے نماز پڑھیں اور پھر قربانی کریں۔ یہ اس آیت کی تفسیر نہیں ہے، نہ اس کی شان نزول ہے، بلکہ ان آیات سے حضور کا استنباط ہے، اور آپ کا استنباط بھی وحی کی ایک قسم ہے۔
پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
یعنی نماز بھی صرف اللہ کے لیے اور قربانی بھی صرف اللہ کے لیے ہے مشرکین کی طرح اس میں دوسروں کو شریک نہ کرو۔ نحر کے اصل معنی اونٹ کے حلقوم میں چھری یا نیزہ مار کر اسے ذبح کرنا۔ دوسرے جانوروں کو زمین پر لٹا کر ان کے گلوں پر چھری پھیری جاتی ہے اسے ذبح کرنا کہتے ہیں۔ لیکن یہاں نحر سے مراد مطلق قربانی ہے، علاوہ ازیں اس میں بطور صدقہ و خیرات جانور قربان کرنا، حج کے موقعے پر منیٰ میں اور عیدالاضحیٰ کے موقعے پر قربانی کرنا، سب شامل ہیں۔
تمہارا دشمن ہی منقطع ہونے والا ہے۔
قریش کے طعنوں کا جواب: یہ قریش کے لیڈروں کی ان طعن آمیز پیشین گوئیوں کا جواب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقبل سے متعلق وہ کرتے رہتے تھے۔ آپ کو کوثر دنیا اور کوثر آخرت کی بشارت دینے اور اس کی ذمہ داریاں بتانے کے بعد فرمایا کہ تمہارے دشمن کہتے ہیں کہ تمہارا کوئی مستقبل نہیں ہے، تمہاری جڑ عنقریب کٹ جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم کو دنیا اور آخرت دونوں کی نہایت شان دار فیروز مندیاں حاصل ہونے والی ہیں البتہ تمہارے ان دشمنوں کی جڑ کٹ کے رہے گی۔ ’شَانِئٌ‘ کے معنی مخالف اور عدو کے ہیں اور ’ابترٌ‘ اس کو کہتے ہیں جس کے اخلاف میں کوئی اس کا نام لیوا نہ رہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی راہ میں قریش نے اپنے جبر و ظلم کے زور سے مکہ میں تو کچھ رکاوٹیں پیدا کر رکھی تھیں لیکن اطراف بالخصوص مدینہ میں بالتدریج دعوت کو فروغ حاصل ہو رہا تھا۔ اس سے قدرتی طور پر انھوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ ان کے عوام اس صورت حال سے متاثر ہوں گے اور وہ ان وعیدوں کو سچ باور کرنے لگیں گے جو قرآن قریش کے لیڈروں بالخصوص حرم کے پروہتوں کو سنا رہا تھا۔ انھیں اندیشہ ہوا کہ اگر عوام کا اعتماد ان کی قیادت پر متزلزل ہو گیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ ان کا حسن ظن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑھے گا اور وہ آپ کو مستقبل کے متوقع لیڈر کی حیثیت سے دیکھنے لگیں گے جس سے دعوت کی کامیابی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔ اس خطرے کے سدباب کے لیے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقبل سے متعلق مایوسی پیدا کرنے والی پیشین گوئیاں پھیلانی شروع کر دیں تاکہ لوگوں کے اندر یہ خیال زور نہ پکڑنے پائے کہ آپ کا اثر روز افزوں ترقی پذیر ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مختلف قسم کی باتیں بنائیں، ازانجملہ دعوت کی طرف انصار کے میلان کو دیکھ کر انھوں یہ بات بھی پھیلانی شروع کی کہ یہ شخص اپنے نئے دین کے سبب سے اپنی قوم اور اپنے مرکز دینی (بیت اللہ) سے کٹ چکا ہے اور اب اگر اس نے ہم سے کٹ کر اجنبیوں کے اندر یعنی انصار کے اندر پناہ لی تو اس کی مثال ایک شاخ بریدہ کی ہو گی جو درخت سے جدا ہو چکی ہے اور جس کا سوکھ جانا لازمی ہے۔ ہجرت سے متصل زمانہ میں یہ قیاس لوگ کرنے لگے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اپنی قوم اور سرزمین مکہ کو چھوڑا تو آپ انصار کے پاس جائیں گے اس لیے کہ وہی اس پوزیشن میں تھے کہ آپ کی حمایت و نصرت کر سکیں۔ چنانچہ اسی بنیاد پر قریش نے انصار کے بعض قبائل کو، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے آئے تھے، یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر آپ لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں تو یہ سوچ کر بیعت کیجیے کہ یہ بیعت اسود و احمر سے جنگ کے لیے کر رہے ہیں۔ لیکن ان دھمکیوں کا انصار پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی عقیدت اور اسلام کے ساتھ ان کی محبت برابر بڑھتی گئی۔ یہ رنگ دیکھ کر اگرچہ قریش کو اپنے پروپیگنڈے میں کامیابی کی کوئی توقع باقی نہیں رہی لیکن وہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ وہ ہجرت سے پہلے بھی اپنے ہی عوام کو یہی باور کراتے رہے کہ انصار کی حمایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مبارک ثابت نہیں ہو گی اور ہجرت کے بعد بھی یہی باور کراتے رہے کہ اب ایک اجنبی ماحول میں العیاذ باللہ داعی اور دعوت دونوں کا خاتمہ ہو جائے گا، لیکن پیشین گوئی سچی قرآن کی ثابت ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعداء کی جڑ کٹ کے رہی اور حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کے کوثر سے بھی فیض یاب ہوئے اور جنت کے کوثر پر بھی آپ سب سے پہلے پہنچیں گے اور اپنی امت کی کثرت کا مشاہدہ فرمائیں گے۔
اِس میں شبہ نہیں کہ تمھارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے، اُس کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔
یہ ایک عظیم پیشین گوئی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ مدعا یہ ہے کہ تمھارے دشمن تو اِس وقت تمھارے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ اِس شخص نے ایک نیا دین ایجاد کر لیا ہے، اِس کے نتیجے میں یہ اپنی قوم اور اپنے دینی مرکز بیت اللہ الحرام سے کٹ چکا ہے، یہ اب اجنبیوں میں جا کر رہے گا تو اِس کی مثال ایک شاخ بریدہ کی ہو گی جو درخت سے جدا ہو چکی ہے اور جس کا سوکھ جانا لازمی ہے ۔ لیکن اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت ، دونوں میں تمھیں شان دار فیروزمندیاں عطا فرمائے گا اور تمھارے دشمنوں کی جڑ اِس سرزمین سے ہمیشہ کے لیے کاٹ دے گا۔ تم دیکھو گے کہ اِن کا یہاں کوئی نام لیوا نہ ہو گا۔
تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔
اصل میں لفظ شانِئَكَ استعمال ہوا ہے۔ شانی شن سے ہے جس کے معنی ایسے بغض اور ایسی عداوت کے ہیں جس کی بنا پر کوئی شخص کسی دوسرے کے ساتھ بدسلوکی کرنے لگے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ ” اور اے مسلمانو ! کسی گروہ کی عداوت تمہیں اس زیادتی پر آمادہ نہ کرنے پائے کہ تم انصاف نہ کرو ” (المائدہ 8) پس شانِئَكَ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور عداوت میں ایسا اندھا ہوگیا ہو کہ آپ کو عیب لگاتا ہو، آپ کے خلاف بدگوئی کرتا ہو، آپ کی توہین کرتا ہو، اور آپ پر طرح طرح کی باتیں چھانٹ کر اپنے دل کا بخار نکالتا ہو۔
هُوَ الْاَبْتَرُ ” وہی ابتر ہے ” فرمایا گیا ہے، یعنی وہ آپ کو ابتر کہتا ہے، لیکن حقیقت میں ابتر وہ خود ہے۔ ابتر کی کچھ تشریح ہم اس سے پہلے اس سورة کے دیباچے میں کرچکے ہیں۔ یہ لفظ بتر سے ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں۔ مگر محاورے میں یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حدیث میں نماز کی اس رکعت کو جس کے ساتھ کوئی دوسری رکعت نہ پڑھی جائے بتیراء کہا گیا ہے، یعنی اکیلی رکعت۔ ایک اور حدیث میں ہے کل امر ذی بال لا یبدأ فیہ بحمد اللہ فھو ابتر۔ ” ہر وہ کام جو کوئی اہمیت رکھتا ہو، اللہ کی حمد کے بغیر شروع کیا جائے تو وہ ابتر ہے “۔ یعنی اس کی جڑ کٹی ہوئی ہے، اسے کوئی استحکام نصیب نہیں ہے، یا اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔ نامراد آدمی کو ابتر کہتے ہیں۔ ذرائع و وسائل سے محروم ہوجانے والا بھی ابتر کہلاتا ہے۔ جس شخص کے لیے کسی خیر اور بھلائی کی توقع باقی نہ رہی ہو اور جس کی کامیابی کی سب امیدیں منقطع ہوگئی ہوں وہ بھی ابتر ہے، جو آدمی اپنے کنبے برادری اور اعوان و انصار سے کٹ کر اکیلا رہ گیا ہو وہ بھی ابتر ہے۔ جس آدمی کی کوئی اولاد نرینہ نہ ہو یا مرگئی ہو اس کے لیے بھی ابتر کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پیچھے اس کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا، اور مرنے کے بعد وہ بےنام و نشان ہوجاتا ہے۔ قریب قریب ان سب معنوں میں کفار قریش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابتر کہتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی، ابتر تم نہیں ہو بلکہ تمہارے یہ دشمن ابتر ہیں۔ یہ محض کوئی ” جوابی حملہ ” نہ تھا، بلکہ درحقیقت یہ قرآن کی بڑی اہم پیشینگوئیوں میں سے ایک پیشینگوئی تھی جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ جس وقت یہ پیشینگوئی کی گئی تھی اس وقت لوگ حضور ہی کو ابتر سمجھ رہے تھے اور کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ قریش کے یہ بڑے بڑے سردار کیسے ابتر ہوجائیں گے جو نہ صرف مکہ میں بلکہ پورے عرب میں نامور تھے، کامیاب تھے، مال و دولت اور اولاد ہی کی نعمتیں نہیں رکھتے تھے بلکہ سارے ملک میں جگہ جگہ ان کے اعوان و انصار موجود تھے، تجارت کے اجارہ دار اور حج کے منتظم ہونے کی وجہ سے تمام قبائل عرب سے ان کے وسیع تعلقات تھے۔ لیکن چند سال نہ گزرے تھے کہ حالات بالکل پلٹ گئے۔ یا تو وہ وقت تھا کہ غزوہ احزاب (5 ھ) کے موقع پر قریش بہت سے عرب اور یہودی قبائل کو لے کر مدینے پر چڑھ آئے تھے اور حضور کو محصور ہو کر شہر کے گرد خندق کھود کر مدافعت کرنی پڑی تھی، یا تین ہی سال بعد وہ وقت آیا کہ 8 ھ میں جب آپ نے مکہ پر چڑھائی کی تو قریش کا کوئی حامی و مددگار نہ تھا اور انہیں بےبسی کے ساتھ ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ اس کے بعد ایک سال کے اندر پورا ملک عرب حضور کے ہاتھ میں تھا، ملک کے گوشے گوشے سے قبائل کے وفود آکر بیعت کر رہے تھے۔ اور آپ کے دشمن بالکل بےبس اور بےیارومددگار ہو کر رہ گئے تھے۔ پھر وہ ایسے بےنام و نشان ہوئے کہ ان کی اولاد اگر دنیا میں باقی رہی بھی تو ان میں سے آج کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ ابو جہل یا ابو لہب یا عاص بن وائل یا عقبہ بن ابی معیط وغیرہ اعدائے اسلام کی اولاد میں سے ہے، اور جانتا بھی ہو تو کوئی یہ کہنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے اسلاف یہ لوگ تھے۔ اس کے برعکس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل پر آج دنیا بھر میں درود بھیجا جارہا ہے۔ کروڑوں مسلمانوں کو آپ سے نسبت پر فخر ہے۔ لاکھوں انسان آپ ہی سے نہیں بلکہ آپ کے خاندان اور آپ کے ساتھیوں کے خاندانوں تک سے انتساب کو باعث شرف سمجھتے ہیں۔ کوئی سید ہے، کوئی علوی ہے، کوئی عباسی ہے، کوئی ہاشمی ہے، کوئی صدیقی ہے، کوئی فاروقی ہے، کوئی عثمانی ہے، کوئی زبیری ہے، اور کوئی انصاری۔ مگر نام کو بھی کوئی ابو جہلی یا ابو لہبی نہیں پایا جاتا۔ تاریخ نے ثابت کردیا کہ ابتر حضور نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہی تھے اور ہیں۔
یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بےنام و نشان ہے
ابتر ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مقطوع النسل یا مقطوع الذکر ہو، یعنی اس کی ذات پر ہی اس کی نسل کا خاتمہ ہوجائے یا کوئی اس کا نام لیوا نہ رہے۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد نرینہ زندہ نہ رہی تو بعض کفار نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابتر کہا، جس پر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ ابتر تو نہیں، تیرے دشمن ہی ہونگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل کو باقی رکھا گو اس کا سلسلہ لڑکی کی طرف سے ہی ہے۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد معنوی ہی ہے، جس کی کثرت پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت والے دن فخر کریں گے، علاوہ ازیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر پوری دنیا میں نہایت عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض وعناد رکھنے والے صرف صفحات تاریخ پر ہی موجود رہ گئے ہیں لیکن کسی دل میں ان کا احترام نہیں اور کسی زبان پر ان کا ذکر نہیں۔
امین احسن اصلاحی
ہم نے تم کو بخشا کوثر۔
لفظ ’کوثر‘ کی تحقیق: ’کَوْثَرٌ‘ مبالغہ ہے ’کُثْرٌ‘ کا۔ ’کُثْرٌ‘ کے معنی دولت و ثروت کے ہیں۔ اس وجہ سے ’کَوْثَرٌ‘ کے معنی ہوں گے بڑی کثرت اور بڑی برکت و ثروت والا۔ یہ تسمیہ کے لیے بھی مستعمل ہے اور بطریق صفت بھی اس کا استعمال عام ہے۔
ازروئے عربیت یہاں ’کوثر‘ کی تین تاویلیں ممکن ہیں:
۱۔ یہ اسمیت کی طرف متنقل ہو کر کسی خاص چیز کے لیے مخصوص ہو گیا ہو جس کا نام اللہ تعالیٰ نے ’کَوْثَر‘ رکھا ہو۔
۲۔ اس کو کسی ایسے موصوف محذوف کی صفت مانیے جس کے ساتھ اس کو خصوصیت ہو۔ مثلاً کہتے ہیں ’مرد عَلٰی جرد‘ یعنی ’رجال مرد عَلٰی خیر جرد‘ (نوخیز جوان اصیل گھوڑوں پر) قرآن مجید میں ہے: ’وَالذّٰرِیٰتِ‘ (الذاریات ۵۱: ۱) یعنی ’والریاح الذّٰریٰت‘ (غبار اڑانے والی ہواؤں کی قسم)۔ ......... لیکن یہ اسی صورت میں جائز ہے جب صفت اس موصوف کے لیے اس طرح مخصوص ہو کہ یا تو صفت کا ذکر کرتے ہی موصوف ذہن میں آ جائے یا کوئی واضح قرینہ اس کی طرف اشارہ کر دے۔
۳۔ تیسری شکل یہ ہے کہ اس کو اسمائے صفت کی طرح اس کے عموم ہی پر باقی رکھیے۔ اس صورت میں اس سے ہر وہ چیز مراد لی جا سکے گی جس میں خیرکثیر ہو۔ البتہ قرائن کے اشارہ سے بعض افراد صفت پر اس کی دلالت زیادہ واضح ہو گی۔
’کوثر‘ کے باب میں سلف کے اقوال: لفظ کی لغوی تحقیق کے بعد اب یہ دیکھیے کہ سلف نے اس کے کیا معنی لیے ہیں۔
ابن جریر نے ’کوثر‘ کی تاویل میں تین قول نقل کیے ہیں:
۱۔ ’کوثر‘ جنت میں ایک نہر ہے۔ یہ حضرت عائشہ، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت انس، مجاہد اور ابوالعالیہ سے مروی ہے۔
۲۔ ’کوثر‘ سے مراد خیرکثیر ہے۔ یہ حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن جبیر، عکرمہ، قتادہ، اور مجاہد سے مروی ہے۔
۳۔ ’کوثر‘ جنت میں ایک حوض ہے۔ یہ عطاء سے مروی ہے۔
ان میں سے پہلے اور تیسرے قول میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ حوض اسی نہر جاری کا ہو جس کا ذکر پہلے قول میں ہے۔ اس کے بعد صرف دو قول رہ جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے خاص چیز مراد لی جائے، مثلاً ’حوض محشر‘ یا ’نہر جنت‘۔ دوسرا یہ کہ اس کو عام رکھا جائے تاکہ ہر وہ چیز مراد لی جا سکے جس میں خیرکثیر ہو۔
استاذ امام مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حسن تدبر سے ان دونوں قولوں میں نہایت خوبی سے تطبیق پیدا کر کے دونوں کو ایک کر دیا ہے۔ انھوں نے سورہ کے موقع و محل اور اس کی اندرونی شہادتوں سے ’کوثر‘ سے مراد خانۂ کعبہ کو لیا ہے جو گوناگوں پہلوؤں سے خیرکثر کا خزانہ بھی ہے۔ اور اس دنیا میں اس نہر کوثر کا مجاز بھی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں ملنے والی ہے۔ انھوں نے جن قرائن اور شہادتوں کی روشنی میں یہ بات فرمائی ہے اس کی وضاحت اپنی تفسیر سورۂ کوثر میں فرمائی ہے۔ وہ کوثر کے باب میں اقوال سلف کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پچھلی فصلوں میں معلوم ہو چکا ہے کہ سلف نے ’کوثر آخرت‘ کے بارے میں اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ لفظ کی عمومیت اور صیغۂ ماضی کی رعایت سے وہ چیزیں بھی اس کے دائرہ میں داخل کر دی ہیں جو داخل ہو سکتی تھیں تاکہ لفظ عام، وسیع اور اپنی دلالت میں اسم بامسمّٰی (کوثر) ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے مفسرین نے اس میں جستجو اور کاوش جائز سمجھی۔۱ اگر اس کے متعلق کچھ کہنا بدعت و ضلالت ہوتا تو وہ خاموش رہتے اور سلف بھی اس میں کسی قسم کا اختلاف نہ کرتے۔ اس وجہ سے میں اگر کسی ایسی تاویل کا سراغ لگاؤں جو ’زمین کے کوثر‘ (خانۂ کعبہ) اور ’آسمان کے کوثر‘ کو ایک کر دے تو جس طرح میں سلف کو اس کی تاویل میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں پاتا اسی طرح اپنے کو بھی ان کے خلاف نہ سمجھوں گا البتہ یہ فرق ہو گا کہ انھوں نے اس کو عام قرار دے کر اس سے حوض یا نہر جنت سمجھی اور ان کے ماسوا ہر وہ چیز جس میں خیر کثیر ہو، مثلاً قرآن، حکمت، اسلام، نبوت جن کو حوض یا نہر سے کوئی مناسبت نہیں ہے، مگر میں اس سے وہ چیز مراد لوں گا جس کو حوض یا نہر سے نہایت واضح مشابہت ہے، جس کی کیفیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں اور جس کی حقیقت و روحانیت شب معراج میں آپ کے سامنے بے نقاب ہوئی۔‘‘
اس تمہید کے بعد مولانا علیہ الرحمۃ ان اشارات کی تفصیل کرتے ہیں جن سے ان کے قیاس کی تائید ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے نفوس کے اندر خدا کی طرف ایک فطری شوق و رغبت موجود ہے نفس انسانی اس چیز سے محروم رہ کر تسلی نہیں پا سکتا۔ انسان کی یہی فطرت مذاہب و ادیان کے وجود کا باعث ہوئی ہے۔ .............. اب سونچو کہ اس فطری اشتیاق اور چاہ کی موزوں تعبیر پیاس کے سوا کس چیز سے ہو سکتی ہے؟ زبور میں یہی تعبیر باربار استعمال ہوئی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو اس کو پیش نظر رکھ کر ان عاشقان الٰہی کے حال پرغور کرو جو حج کے ایام میں سراپا شوق و آرزو بن کر بیت اللہ کے اردگرد جمع ہوتے ہیں۔ کیا ان کی مثال ان خشک لب پیاسوں کی نہیں ہے جو شدید تشنگی سے مضطر ہو کر کسی حوض کے پاس جمع ہو گئے ہوں؟ اگر یہ مشابہت واضح ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خانۂ کعبہ ان کے لیے اس دنیا میں اس حوض کوثر کی مثال ہے جس پر میدان حشر میں وہ یکجا ہوں گے۔
۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مسجدوں کو نہر سے تشبیہ دی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
ارء یتم لو ان نھرًا بباب احدکم یغتسل فیہ کل یوم خمسا (الحدیث)
’’بھلا بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے اوپر کچھ میل کچیل باقی رہے گا۔‘‘
یہ تمثیل بھی اصلاً پانی ہی کی ہے۔ پانی جس طرح سیرابی کا ذریعہ ہے اسی طرح طہارت کا بھی ذریعہ ہے اور یہ معلوم ہے کہ ہماری تمام نمازوں کا سرچشمہ بیت اللہ ہے۔ اس اعتبار سے ہماری تمام مسجدیں گویا اس سرچشمہ کی نہریں ہیں جن سے ہم سیرابی اور پاکی حاصل کرتے ہیں۔
۳۔ خانہ کعبہ کے اجتماع سے جس طرح دوسری امتوں کے مقابل میں امت مسلمہ کی کثرت کا اظہار ہوتا ہے اسی طرح حوض کوثر پر اس کے اجتماع سے بھی، جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے، اس کی کثرت کا اظہار ہو گا۔ اس کثرت کے ظاہر کرنے کی بہترین شکل یہی تھی کہ کسی ایک مخصوص مقام پر اس کا اجتماع ہو۔ اس اجتماع سے دوسری امتیں اندازہ کرتی ہیں کہ زائرین بیت اللہ کا یہ متلاطم سمندر اس بحر بیکراں کا صرف ایک قطرہ ہے جو پورے کرۂ ارض پر پھیلا ہوا ہے۔ پس جس طرح حوض کوثر پر اس کے اجتماع سے دوسرے انبیاء علیہم السلام کی امتوں پر اس کی کثرت واضح ہو گی اسی طرح موسم حج میں خانہ کعبہ کے پاس اس کا اجتماع اظہار کثرت کا ایک جلوہ ہے۔ غور کرو، لفظ ’کوثر‘ ان دونوں کی مطابقت کس خوبی سے واضح کر رہا ہے۔
۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپ اپنی امت کو حوض کوثر پر وضو کے آثار سے پہچانیں گے۔ یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ خلوص قلب کے ساتھ اس گھر کی زیارت کریں گے وہی لوگ آخرت میں اس حوض پر آئیں گے جو اس گھر کی حقیقت ہے۔
۵۔ فتح مکہ کو اللہ تعالیٰ نے امت کی کثرت کا سبب بنایا چنانچہ حج اکبر کے بعد لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوئے۔
۶۔ مسجد حرام کو اللہ تعالیٰ نے مبارک (سرچشمۂ خیر و برکت) کہا ہے:
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ.(آل عمران ۳: ۹۶)
’’بلاشبہ خدا کا پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے، سرچشمۂ خیر و برکت اور لوگوں کے لیے نشان ہدایت۔‘‘
ہم نے اختصار کے خیال سے صرف چند اہم اشارات یہاں نقل کیے ہیں۔ جن لوگوں کو تفصیل مطلوب ہو وہ مولانا علیہ الرحمۃ کی تفسیر سورۂ کوثر کی مراجعت کریں۔
مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے آگے چل کر اپنی تفسیر میں یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ نہر کوثر درحقیقت کعبہ اور اس کے ماحول کی روحانی حقیقت ہے۔ ایک ضروری اقتباس اس سلسلے کا بھی ملاحظہ فرمائیے:
’’معراج میں جو نہر کوثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشاہدہ کرائی گئی اس کی صفات پر جو شخص بھی غور کرے گا اس پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ نہر کوثر درحقیقت کعبہ اور اس کے ماحول کی روحانی حقیقت ہے۔ اس کے متعلق مختلف طریقوں سے جو روایات منقول ہیں ان کی قدرمشترک یہ ہے کہ ’کوثر‘ ایک نہر ہے، اس کے کناروں پر مجوف موتیوں کے محل ہیں۔ اس کی زمین یاقوت و مرجان اور زبرجد کی ہے۔ اس میں ظروف ہیں جو آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیریں اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے۔ اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ اس پر چڑیاں اترتی ہیں جن کی گردنیں قربانی کے جانوروں کی طرح ہیں۔‘‘
آگے مولانا علیہ الرحمۃ ان مشاہدات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے زمین کے حوض کوثر اور آسمان کے حوض کوثر کی مشابہت یوں واضح فرماتے ہیں:
’’اب ایک لمحہ توقف کر کے کعبہ اوراس کے ماحول کے مشاہدات پر غور کرو۔ جب تمام اکناف عالم سے عشاق الٰہی کے قافلے، عشق و محبت الٰہی کی پیاس بجھانے کے لیے اس چشمۂ خیر و برکت کے پاس اکٹھے ہوتے ہیں کیا ان کے احساس روحانی میں اس مقدس وادی کے سنگ ریزے یاقوت و زمرد سے زیادہ خوش جمال، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار اور اس کے ارد گرد حجاج کے خیمے مجوف موتیوں کے قبّوں سے زیادہ حسین و خوبصورت نہیں ہوتے! پھر حجاج اور ان کے ساتھ قربانی کے اونٹوں کی قطاروں پر بھی نظر ڈالو۔ کیا یہ ایک چشمہ کے کنارے لمبی گردن والی چڑیوں کا جھنڈ نہیں ہے!!‘‘
اس تفصیل سے واضح ہے کہ جنت کے حوض کوثر اور خانہ کعبہ میں نسبت حقیقت اور مجاز کی ہے۔ یہی خانۂ کعبہ جنت میں حوض کوثر کی صورت میں ان لوگوں کو ملے گا جو اس پر پہنچنے کے شوق میں بیت اللہ کے حج کرتے رہے۔ سورہ کے زمانۂ نزول تک چونکہ حالات پردے میں تھے اس وجہ سے بات اشاروں میں فرمائی گئی ہے لیکن مقصد یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی جائے کہ اگرچہ آپ کے اعداء آپ کو اس گھر سے نکالنے کے درپے ہیں لیکن ہم نے یہ آپ کو بخش دیا اور یہ اس دنیا میں بھی آپ کے لیے خیر کثیر کا ضامن ہے اور آخرت کی نہر کوثر کا بھی ضامن ہے۔
_____
۱ یہ اشارہ امام رازی وغیرہ کے اقوال کی طرف ہے جن کا حوالہ مولانا فراہی نے اپنی تفسیر میں دیا ہے۔