وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ

امین احسن اصلاحی

شاہد ہے رات جب کہ چھا جاتی ہے

ہر چیز کے جوڑے جوڑے ہونے سے قیامت پر استدلال: یہ رات اور دن، نر اور مادہ کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس طرح کی قَسمیں جو قرآن میں آئی ہیں ان کی ہم جگہ جگہ وضاحت کرتے آ رہے ہیں کہ یہ کسی دعوے پر شہادت کے لیے آئی ہیں۔ رات اور دن، نر اور مادہ میں نسبت زوجین کی ہے اور یہ دونوں مل کر اس مقصد کو پورا کرتے ہیں جس کے لیے خالق نے ان کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے اندر خلا ہے جو جوڑے کے ساتھ مل کر ہی پورا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ان کے وجود کی نہ کوئی افادیت باقی رہتی اور نہ ان کی صلاحیتوں کی کوئی توجیہ ہو سکتی۔ قرآن نے ان اضداد کے اندر توافق کے پہلو سے توحید پر بھی دلیل پیش کی ہے جس کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے اور قیامت پر بھی شہادت پیش کی ہے جو یہاں مقصود ہے۔ مثلاً سورۂ ذاریات میں فرمایا ہے:

’وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘ (الذاریات ۵۱: ۴۹)
(اور ہم نے ہر چیز میں سے جوڑے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو)۔

یعنی اس بات کی یاددہانی حاصل کرو کہ اس دنیا کا بھی جوڑا ہے اور یہ اپنی غایت کو اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر پہنچے گی۔ اس نکتہ کی وضاحت سورۂ ذاریات کی مذکورہ آیت کے تحت ہو چکی ہے اور اس کتاب کے دوسرے مقامات میں بھی اس پر مفصل بحث ہوئی ہے۔ آگے مقسم علیہ کی وضاحت کرتے ہوئے بھی ہم اس پر روشنی ڈالیں گے۔

جاوید احمد غامدی

رات گواہی دیتی ہے، جب وہ چھا جائے

رات اور دن کی گواہی کے ساتھ ’اِذَا یَغْشٰی‘ اور ’اِذَا تَجَلّٰی‘ کے الفاظ پچھلی سورہ ۔۔۔ الشمس ۔۔۔ کی طرح یہاں بھی شب و روز کے باہمی توافق اور اُس کی نتیجہ خیزی کو نمایاں کرتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

قسم ہے رات کی جبکہ وہ چھا جائے۔

n/a

جونا گڑھی

قسم ہے رات کی جب چھا جائے،

 یعنی افق پر چھا جائے جس سے دن کی روشنی ختم اور اندھیرا ہوجائے۔

وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ

امین احسن اصلاحی

اور دن جب کہ چمک اٹھتا ہے

ہر چیز کے جوڑے جوڑے ہونے سے قیامت پر استدلال: یہ رات اور دن، نر اور مادہ کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس طرح کی قَسمیں جو قرآن میں آئی ہیں ان کی ہم جگہ جگہ وضاحت کرتے آ رہے ہیں کہ یہ کسی دعوے پر شہادت کے لیے آئی ہیں۔ رات اور دن، نر اور مادہ میں نسبت زوجین کی ہے اور یہ دونوں مل کر اس مقصد کو پورا کرتے ہیں جس کے لیے خالق نے ان کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے اندر خلا ہے جو جوڑے کے ساتھ مل کر ہی پورا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ان کے وجود کی نہ کوئی افادیت باقی رہتی اور نہ ان کی صلاحیتوں کی کوئی توجیہ ہو سکتی۔ قرآن نے ان اضداد کے اندر توافق کے پہلو سے توحید پر بھی دلیل پیش کی ہے جس کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے اور قیامت پر بھی شہادت پیش کی ہے جو یہاں مقصود ہے۔ مثلاً سورۂ ذاریات میں فرمایا ہے:

’وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘ (الذاریات ۵۱: ۴۹)
(اور ہم نے ہر چیز میں سے جوڑے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو)۔

یعنی اس بات کی یاددہانی حاصل کرو کہ اس دنیا کا بھی جوڑا ہے اور یہ اپنی غایت کو اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر پہنچے گی۔ اس نکتہ کی وضاحت سورۂ ذاریات کی مذکورہ آیت کے تحت ہو چکی ہے اور اس کتاب کے دوسرے مقامات میں بھی اس پر مفصل بحث ہوئی ہے۔ آگے مقسم علیہ کی وضاحت کرتے ہوئے بھی ہم اس پر روشنی ڈالیں گے۔

جاوید احمد غامدی

اور دن بھی، جب وہ روشن ہو

رات اور دن کی گواہی کے ساتھ ’اِذَا یَغْشٰی‘ اور ’اِذَا تَجَلّٰی‘ کے الفاظ پچھلی سورہ ۔۔۔ الشمس ۔۔۔ کی طرح یہاں بھی شب و روز کے باہمی توافق اور اُس کی نتیجہ خیزی کو نمایاں کرتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اور دن کی جبکہ وہ روشن ہو۔

n/a

جونا گڑھی

اور قسم ہے دن کی جب روشن ہو۔

 یعنی رات کا اندھیرا ختم ہوجائے اور دن کو اجالا پھیل جائے۔ 

وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور شاہد ہے نر و مادہ کی آفرینش

’وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْأُنۡثٰٓی‘ میں ’مَا‘ ہمارے نزدیک مصدریہ ہے۔ سابق سورہ کی آیت ’وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنَاہَا‘ (اشمس ۹۱: ۵) کے تحت ہم اس پر بحث کر چکے ہیں، یہاں اس کے دہرانے میں طوالت ہو گی

جاوید احمد غامدی

اور نر و مادہ کی تخلیق بھی

اصل الفاظ ہیں: ’وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی‘۔ یہ ’مَا‘ مصدریہ ہے۔ اِس کی بلاغت ہم پچھلی سورہ کے حواشی میں آیات ۱۔۶ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

اور اُس ذات کی جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا۔

n/a

جونا گڑھی

اور قسم ہے اس ذات کی جس نے نر مادہ کو پیدا کیا

 یہ اللہ نے اپنی قسم کھائی ہے، کیونکہ مرد و عورت دونوں کا خالق اللہ ہی ہے 

إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّىٰ

امین احسن اصلاحی

کہ تمہاری کمائی الگ الگ ہے

نیک اور بد دونوں کی کمائی یکساں نہیں ہو گی: یہ وہ اصل دعویٰ ہے جو اوپر کی شہادتوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ یعنی کائنات میں ہر چیز کا جوڑا جوڑا ہونا اور اپنے جوڑے ہی کے ذریعہ سے ہر چیز کا اپنی غایت اور مقصد کو پہنچنا چاہتا ہے کہ اس دنیا کا بھی جوڑا ہے اور وہ ہے آخرت جو لازماً ظہور میں آئے گی تاکہ یہ دنیا اپنی غایت اور اپنے مقصود کو پہنچے ورنہ یہ بالکل عبث اور بے غایت بن کے رہ جائے گی۔ اگر آخرت نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ خالق کے نزدیک نیکی کرنے والے اور بدی کرنے والے دونوں یکساں ہیں۔ ایک حکیم خالق کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ نیک اور بد دونوں کی جدوجہد اور کمائی کو یکساں کر دے۔

لفظ ’سعی‘ جدوجہد کے معنی میں بھی آتا ہے اور نتیجۂ جدوجہد یعنی کمائی کے معنی میں بھی۔ یہاں اسی دوسرے معنی میں ہے۔ قرآن میں اس معنی کی نظیر موجود ہے۔ مثلاً فرمایا ہے:

’وَأَنْ لَّیْْسَ لِلْإِنۡسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی ۵ وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی‘ (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰)

(اور یہ کہ انسان کو نہیں ملے گی مگر اپنی کمائی اور بے شک اس کی کمائی عنقریب ملاحظہ میں آئے گی)۔

قیامت کا اثبات اس کی ضرورت کے پہلو سے: ’شَتّٰی‘ جمع ہے ’شَتِیْتٌ‘ کی جس کے معنی متفرق اور الگ کے ہیں یعنی عقل اور فطرت کا بدیہی تقاضا ہے کہ نیکوں اور بدوں دونوں کی سعی کا نتیجہ ایک ہی شکل میں نہ برآمد ہو بلکہ ان کی جدوجہد کے اعتبار سے الگ الگ ہو۔ جنھوں نے نیکی کمائی ہو وہ اس کا صلہ فضل و انعام کی شکل میں پائیں اورجنھوں نے بدی کمائی ہو وہ اس کے انجام سے دوچار ہوں۔ گویا قیامت کا دعویٰ یہاں اس کی اصل ضرورت کے پہلو سے سامنے رکھا ہے کہ اس کا آنا اس وجہ سے ضروری ہے کہ قیامت اور جزا و سزا کے بغیر یہ دنیا ایک اندھیر نگری اور ایک کھلنڈرے کا کھیل بن کے رہ جاتی ہے چنانچہ قیامت کو نہ ماننے والوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیا ہے کہ

’أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘ (المومنون ۲۳: ۱۱۵)

(کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تم کو بالکل عبث پیدا کیا ہے، تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے!)

یہی سوال منکرین قیامت ہی سے، دوسرے مقام میں بانداز تعجب، یوں کیا گیا ہے:

’أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ ۵ مَا لَکُمْ کَیْْفَ تَحْکُمُونَ‘ (القلم ۶۸: ۳۵-۳۶)

(کیا ہم فرماں برداروں کو مجرموں کے مانند کر دیں گے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسے فیصلے کرتے ہو!)

جاوید احمد غامدی

(کہ دنیا ہے تو قیامت بھی ہے اور) جو کچھ تم کر رہے ہو، اُس کے نتائج (وہاں) لازماً الگ الگ ہوں گے

دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں: ایک نفس اور دوسرے مادہ۔ پہلی چیز کے مظاہر میں سے نر و مادہ اور دوسری کے مظاہر میں سے شب و روز کو لے کر قیامت پر استدلال فرمایا ہے۔ یہ استدلال اِس پہلو سے ہے کہ اِن چیزوں میں نسبت زوجین کی ہے اور یہ دونوں عالم کی مجموعی مصلحت کے تناظر میں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اِن میں سے ایک کو مان کر دوسرے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قیامت بھی بالکل اِسی طرح دنیا کا جوڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ قیامت کو مان کر ہی اُس کے تمام مظاہر و احوال کی توجیہ کی جا سکتی ہے۔لہٰذا دنیا ہے تو قیامت بھی ہے۔ اِن میں سے ایک کو مان کر دوسری کا انکار نہیں کر سکتے، الاّ یہ کہ انسان دنیا کو رام کی لیلا اور یزداں کی تماشاگاہ مان کر مطمئن ہو جائے اور اُس کے خالق کے بارے میں بھی یہ تصور کر لے کہ وہ کوئی علیم و حکیم ہستی نہیں ہے، بلکہ ایک کھلنڈرا ہے جو اپنی دنیا کے خیر و شر سے بے نیاز اُس کی سیر دیکھ رہا ہے۔

یہ نتیجہ ہے جس کے لیے قیامت برپا کی جائے گی۔ اِس کے لیے اصل میں ’اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ لفظ ’سَعْی‘ اِن میں نتیجۂ سعی کے مفہوم میں ہے۔ اِس مفہوم میں اِس کا استعمال عربی زبان میں معروف ہے۔ لفظ ’شَتّٰی‘ ’شتیت‘ کی جمع ہے۔ اِس کے معنی متفرق اور الگ الگ کے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یعنی عقل اور فطرت کا بدیہی تقاضا ہے کہ نیکوں اور بدوں ، دونوں کی سعی کا نتیجہ ایک ہی شکل میں نہ برآمد ہو ، بلکہ اُن کی جدوجہد کے اعتبار سے الگ الگ ہو۔ جنھوں نے نیکی کمائی ہو، وہ اُس کا صلہ فضل و انعام کی شکل میں پائیں اور جنھوں نے بدی کمائی ہو، وہ اُس کے انجام سے دوچار ہوں۔ گویا قیامت کا دعویٰ یہاں اُس کی اصل ضرورت کے پہلو سے سامنے رکھا ہے کہ اُس کا آنا اِس وجہ سے ضروری ہے کہ قیامت اور جزا و سزا کے بغیر یہ دنیا ایک اندھیر نگری اور ایک کھلنڈرے کا کھیل بن کے رہ جاتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۰۲)

ابو الاعلی مودودی

درحقیقت تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔

یہ وہ بات ہے جس پر رات اور دن اور نر و مادہ کی پیدائش کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح رات اور دن اور نر اور مادہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اور ان میں سے ہر دو کے آثار و نتائج باہم متضاد ہیں، اسی طرح تم لوگ جن راہوں اور مقاصد میں اپنی کوششیں صرف کر رہے ہو وہ بھی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مختلف اور اپنے نتائج کے اعتبار سے متضاد ہیں۔ اس کے بعد کی آیات میں بتایا گیا کہ یہ تمام مختلف کوششیں دو بڑی اقسام میں تقسیم ہوتی ہیں۔

جونا گڑھی

یقیناً تمہاری کوشش مختلف قسم کی ہے

 یعنی کوئی اچھے عمل کرتا ہے، جس کا صلہ جنت ہے اور کوئی برے عمل کرتا ہے جس کا بدلہ جہنم ہے۔ یہ جواب قسم ہے۔ 

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ

امین احسن اصلاحی

سو جس نے انفاق کیا اور پرہیز گاری اختیار کی

اس فرق کی تفصیل جو نیکوں اور بدوں کی کمائی میں ہو گا: یہ تفصیل ہے اس فرق و اختلاف کی جو لازماً نیکوں اور بدوں کی کمائی میں رونما ہو گا اور جس کو رونما ہونا چاہیے بھی۔ فرمایا کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، اپنے رب سے ڈرے گا، اچھے انجام کو سچ مانے گا اس کو تو ہم آسان راہ چلائیں اور آسانی کی منزل تک پہنچائیں گے۔

’اَعْطٰی‘ کے بعد ’وَاتَّقٰی‘ کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس انفاق سے مقصود ریاء و نمائش یا کوئی اور دنیوی چیز نہ ہو بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی تمنا اور ایک ایسے دن کا خوف ہو جس دن نیک عمل کے سوا کوئی چیز کام آنے والی نہیں بنے گی۔ اس کی وضاحت سورۂ دہر میں یوں ہوئی ہے:

یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیْرًا ۵ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہِ مِسْکِیْنًا وَیَتِیْمًا وَأَسِیْرًا ۵ إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیْدُ مِنۡکُمْ جَزَآءً وَلَا شُکُوْرًا ۵ إِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا (الدہر ۷۶: ۷-۱۰)
’’وہ اپنی نذر پوری کرتے ہیں اور ایک ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہمہ گیر ہو گی۔ وہ ضروت مند ہونے کے باوجود، مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلاتے ہیں۔ اس نعمت کے ساتھ کہ ہم تم کو صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطرکھلاتے ہیں، نہ کہ تم سے کسی بدلے کے طالب ہیں، نہ کسی شکریہ کے۔ ہم اپنے رب کی طرف سے ایک سخت اکل کھرے دن کے ظہور سے ڈرتے ہیں۔‘‘

جاوید احمد غامدی

پھر جس نے (راہ خدا میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی

یعنی ریا اور نمایش کے لیے نہیں، بلکہ خدا کے خوف اور اُس کی خوشنودی کی تمنا میں خرچ کیا۔ آیت میں ’اَعْطٰی‘ کے بعد ’اتَّقٰی‘ کے ذکر سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو رہی ہے۔

ابو الاعلی مودودی

تو جس نے (راہ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا۔

n/a

جونا گڑھی

جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈرا (اپنے رب سے) ۔

 یعنی خیر کے کاموں میں خرچ کرے گا اور محارم سے بچے گا۔ 

وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور اچھے انجام کو سچ مانا

’وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی‘۔ ’حُسْنٰی‘ کا موصوف لفظ ’عاقبۃ‘ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے یعنی وہ انفاق اور نیکی کے اچھے انجام پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ ان کی نیکی کے اصل محرک کا پتہ دیا ہے کہ آخرت کے خوف کے ساتھ ان کے اندر یہ ایمان بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی ہر نیکی کا بھرپور صلہ ہے۔

جس شخص کے اندر نہ آخرت کا خوف ہو نہ وہ یہ ایمان رکھتا ہو کہ آخرت میں اس کی رائی کے برابر کی نیکی کا بھی صلہ ملنے والا ہے، وہ اول تو کچھ خرچ کرنے کا حوصلہ کر سکتا ہی نہیں اور کرے گا بھی تو لازماً اپنے کسی دنیوی مفاد کو سامنے رکھ کر کرے گا۔ یہ انفاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک بالکل بے برکت ہے۔ سورۂ ماعون میں فرمایا ہے:

’اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ ۵ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ ۵ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ‘ (الماعون ۱۰۷: ۱-۳)
(تم نے دیکھا روز جزا کے جھٹلانے والے کو! یہی ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا اور مسکینوں کو کھلانے پر نہیں ابھارتا)۔

جاوید احمد غامدی

اور اچھے انجام کو سچ مانا

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور بھلائی کو سچ مانا۔

یہ انسانی مساعی کی ایک قسم ہے جس میں تین چیزیں شمار کی گئی ہیں اور غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام خوبیوں کی جامع ہیں۔ ایک یہ کہ انسان زبردستی میں مبتلا نہ ہو بلکہ کھلے دل سے اپنا مال، جتنا کچھ بھی اللہ نے اسے دیا ہے، اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں، اور خلق خدا کی مدد کرنے میں صرف کرے۔ دوسرے یہ کہ اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور وہ اخلاق، اعمال، معاشرت، معیشت، غرض اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ان کاموں سے پرہیز کرے جو خدا کی ناراضی کے موجب ہوں۔ تیسرے یہ کہ وہ بھلائی کی تصدیق کرے۔ بھلائی ایک وسیع المعنی لفظ ہے جس میں عقیدے، اخلاق اور اعمال، تینوں کی بھلائی شامل ہے۔ عقیدے میں بھلائی کی تصدیق یہ ہے کہ آدمی شرک اور دہریت اور کفر کو چھوڑ کر توحید، آخرت اور رسالت کو برحق مانے۔ اور اخلاق و اعمال میں بھلائی کی تصدیق یہ ہے کہ آدمی سے بھلائیوں کا صدور محض بےشعوری کے ساتھ کسی متعین نظام کے بغیر نہ ہو رہا ہو، بلکہ وہ خیر و صلاح کے اس نظام کو صحیح تسلیم کرے جو خدا کی طرف سے دیا گیا ہے، جو بھلائیوں کو ان کی تمام اشکال اور صورتوں کے ساتھ ایک نظم میں منسلک کرتا ہے، جس کا جامع نام شریعت الہیہ ہے۔

جونا گڑھی

اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا۔

 یا اچھے صلے کی تصدیق کرے گا، یعنی اس بات پر یقین رکھے گا کہ انفاق اور تقوی اللہ کی طرف سے عمدہ صلہ ملے گا۔ 

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ

امین احسن اصلاحی

اس کو تو ہم اہل بنائیں گے راحت کی منزل کا

’فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی‘۔ ’یُسْرٰی‘ کا موصوف بھی ’حُسْنٰی‘ کے موصوف کی طرح محذوف ہے۔ یعنی ’العاقبۃ الْیُسْرٰی‘ یہ اس سنت الٰہی کا حوالہ ہے جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ جو شخص نیکی کی راہ اختیار کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس راہ کی مشکلات آسان کرتا اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچنے کی توفیق بخشتا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

’وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوۡا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا‘ (العنکبوت ۲۹: ۶۹)
(جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کریں گے ہم ان کو اپنے راستوں کی ہدایت بخشیں گے)۔

یہاں اس کی منزل کو ’یُسْرٰی‘ سے اس لیے تعبیر فرمایا ہے کہ اس کا حساب آسان ہوگا، چنانچہ فرمایا ہے:

’فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہٖ ۵ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیْرًا‘ (الانشقاق ۷۴: ۷-۸)
(رہا وہ جس کا اعمال نامہ اس کے دہنے ہاتھ میں پکڑایا جائے گا تو اس کا حساب نہایت آسان ہو گا)۔

جاوید احمد غامدی

اُسے ہم سہج سہج راحت میں لے جائیں گے

n/a

ابو الاعلی مودودی

اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔

یہ ہے مساعی کی اس قسم کا نتیجہ۔ آسان راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق ہے، جو اس خالق کی مرضی کے مطابق ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو بنایا ہے، جس میں انسان کو اپنے ضمیر سے لڑ کر نہیں چلنا پڑتا، جس میں انسان اپنے جسم و جان اور عقل و ذہن کی قوتوں پر زبردستی کر کے ان سے وہ کام نہیں لیتا جس کو ہر طرف اس جنگ، مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش نہیں آتا جو گناہوں سے بھری ہوئی زندگی میں پیش آتا ہے، بلکہ انسانی معاشرے میں ہر قدم پر اس کو صلح و آتشی اور قدر و منزلت میسر آتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو آدمی اپنا مال خلق خدا کی بھلائی کے لیے استعمال کررہا ہو، جو ہر ایک سے نیک سلوک کر رہا ہو، جس کی زندگی جرائم، فسق و فجور اور بد کرداری سے پاک ہو، جو اپنے معاملات میں کھرا اور راستباز ہو، جو ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے اور کسی کو اس کی سیرت و کردار پر انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے، وہ خواہ کیسے ہی بگڑے ہوئے معاشرے میں رہتا ہو، بہرحال اس کی قدر ہو کر رہتی ہے، اس کی طرف دل کھنچتے ہیں، نگاہوں میں اس کی عزت قائم ہوجاتی ہے، اس کا اپنا قلب و ضمیر بھی مطمئن ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کو وہ وقار حاصل ہوتا ہے جو کبھی کسی بد کردار آدمی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی بات ہے جو سورة نحل میں فرمائی گئی ہے کہ ” مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ” ” جو شخص نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، اسے ہم اچھی زندگی بسر کرائیں گے “۔ (آیت 97) اور اسی بات کو سورة مریم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ” إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا ” ” یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے رحمان ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا ” (آیت 96) ۔ پھر یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کے لیے سرور ہی سرور اور راحت ہی راحت ہے۔ اس کے نتائج عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ابدی اور لازوال ہیں۔

اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اسے اس راستے پر چلنے کے لیے سہولت دیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ بھلائی کی تصدیق کر کے یہ فیصلہ کرلے گا کہ یہی راستہ میرے لائق ہے اور برائی کا راستہ میرے لائق نہیں ہے، اور جب وہ عملاً مالی ایثار اور تقویٰ کی زندگی اختیار کر کے یہ ثابت کر دے گا کہ اس کی یہ تصدیق سچی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس راستے پر چلنا اس کے لیے سہل کر دے گا۔ اس کے لیے پھر گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہوجائے گا۔ مال حرام اس کے سامنے آئے گا تو وہ یہ نہیں سمجھے گا کہ یہ نفع کا سودا ہے بلکہ اسے یوں محسوس ہوگا کہ یہ آگ کا انگارہ ہے جسے وہ ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ بدکاری کے مواقع اس کے سامنے آئیں گے تو وہ انہیں لطف اور لذت حاصل کرنے کے مواقع سمجھ کر ان کی طرف نہیں لپکے گا بلکہ جہنم کے دروازے سمجھ کر ان سے دور بھاگے گا۔ نماز اس پر گراں نہ ہوگی بلکہ اسے چین نہیں پڑے گا جب تک وہ وقت آنے پر وہ اس کو ادا نہ کرلے۔ زکوٰۃ دیتے ہوئے اس کا دل نہیں دکھے گا بلکہ اپنا مال اسے ناپاک محسوس ہوگا جب تک وہ اس میں سے زکوٰۃ نکال نہ دے۔ غرض ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو اس راستے پر چلنے کی توفیق و تائید ملے گی، حالات کو اس کے لیے ساز گار بنایا جائے گا، اور اس کی مدد کی جائے گی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سورة بلد میں اسی راستے کو دشوار گزار گھاٹی کہا گیا ہے اور یہاں اس کو آسان راستہ قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس راہ کو اختیار کرنے سے پہلے یہ آدمی کو دشوار گزار گھاٹی ہی محسوس ہوتی ہے جس پر چڑھنے کے لیے اسے اپنے نفس کی خواہشوں سے، اپنے دنیا پرست اہل و عیال سے، اپنے رشتہ داروں سے اپنے دوستوں اور معاملہ داروں سے اور سب سے بڑھ کر شیطان سے لڑنا پڑتا ہے، کیونکہ ہر ایک اس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور اس کو خوفناک بنا کر دکھاتا ہے، لیکن جب انسان بھلائی کی تصدیق کر کے اس پر چلنے کا عزم کرلیتا ہے اور اپنا مال راہ خدا میں دے کر اور تقوی کا طریقہ اختیار کر کے عملاً اس عزم کو پختہ کرلیتا ہے تو اس گھاٹی پر چڑھنا اس کے لیے آسان اور اخلاقی پستیوں کے کھڈ میں لڑھکنا اس کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔

جونا گڑھی

تو ہم بھی اسکو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔

 یعنی ہم بھی اس کو اس سے نیکی اور اطاعت کی توفیق دیتے اور ان کو اس کے لیے آسان کردیتے ہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے چھ غلام آزاد کیے، جنہیں اہل مکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے سخت اذیت دیتے تھے۔ (فتح القدیر) 

وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور جس نے بخالت کی اور بے پروا ہوا

مقابل گروہ کے انجام کا بیان: یہ مقابل گروہ یعنی ان لوگوں کا بیان ہے جو اسی دنیا کی زندگی کو کل زندگی سمجھتے ہیں۔ جو اپنے مال پر مارگنج بن کر بیٹھے اور آخرت سے بالکل نچنت ہیں، جو نہ کسی جزا و انعام کے قائل اور نہ اس کے لیے کوئی بازی کھیلنے کا حوصلہ رکھتے۔ فرمایا کہ ان کا حشر مذکورہ بالا گروہ سے بالکل مختلف ہو گا۔ ان کو اللہ تعالیٰ اس راہ پر چلنے کے لیے ڈھیل دے دے گا جو ان کو نہایت کٹھن منزل پر لے جا چھوڑے گی۔ یہاں بھی’عُسْرٰی‘ کا موصوف محذوف ہے اور ’تیسیر‘ امہال یعنی ڈھیل دینے کے مفہوم میں ہے۔

قرآن میں یہ سنت الٰہی جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ نیکی کی راہ اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کی باگ ان کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔ ان کو اپنے نفس سے کوئی مزاحمت نہیں کرنی پڑتی اس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی راہ نہایت ہموار ہے۔ نفس کی پیروی کرتے ہوئے وہ خوش خوش زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو اس مرحلہ سے سابقہ پیش آنا ہے جس کو قرآن نے

’سَأُرْہِقُہُ صَعُوۡدًا‘ (المدثر ۷۴: ۱۷)
(میں اس کو چڑھاؤں گا ایک کٹھن چڑھائی)

سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں اسی مرحلے کی طرف اشارہ ہے۔
اس کے بالکل برعکس ان لوگوں کی زندگی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح کی راہ پر چلنے کا حوصلہ کر لیتے ہیں۔ ان کو قدم قدم پر اپنے نفس کی خواہشوں سے لڑائی کرنی پڑتی ہے اور اس لڑائی ہی سے ان کو بالتدریج وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو راہ کے عقبات عبور کرنے میں ان کو مدد دیتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ان کے سامنے

’فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ ۵ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘ (الفجر ۸۹: ۲۹-۳۰)
(شامل ہو جاؤ میرے بندوں میں اور داخل ہو جاؤ میری جنت میں۔)

کی آخری منزل آ جاتی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور جس نے بخل کیا اور بے پروائی برتی

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے) بے نیازی برتی۔

n/a

جونا گڑھی

لیکن جس نے بخیلی کی اور بےپرواہی برتی۔

 یعنی اللہ کے راہ میں خرچ نہیں کرے گا اور اللہ کے حکم سے بےپرواہی کرے گا۔ 

وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ

امین احسن اصلاحی

اور اچھے انجام کو جھٹلایا

مقابل گروہ کے انجام کا بیان: یہ مقابل گروہ یعنی ان لوگوں کا بیان ہے جو اسی دنیا کی زندگی کو کل زندگی سمجھتے ہیں۔ جو اپنے مال پر مارگنج بن کر بیٹھے اور آخرت سے بالکل نچنت ہیں، جو نہ کسی جزا و انعام کے قائل اور نہ اس کے لیے کوئی بازی کھیلنے کا حوصلہ رکھتے۔ فرمایا کہ ان کا حشر مذکورہ بالا گروہ سے بالکل مختلف ہو گا۔ ان کو اللہ تعالیٰ اس راہ پر چلنے کے لیے ڈھیل دے دے گا جو ان کو نہایت کٹھن منزل پر لے جا چھوڑے گی۔ یہاں بھی’عُسْرٰی‘ کا موصوف محذوف ہے اور ’تیسیر‘ امہال یعنی ڈھیل دینے کے مفہوم میں ہے۔

قرآن میں یہ سنت الٰہی جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ نیکی کی راہ اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کی باگ ان کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔ ان کو اپنے نفس سے کوئی مزاحمت نہیں کرنی پڑتی اس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی راہ نہایت ہموار ہے۔ نفس کی پیروی کرتے ہوئے وہ خوش خوش زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو اس مرحلہ سے سابقہ پیش آنا ہے جس کو قرآن نے

’سَأُرْہِقُہُ صَعُوۡدًا‘ (المدثر ۷۴: ۱۷)
(میں اس کو چڑھاؤں گا ایک کٹھن چڑھائی)

سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں اسی مرحلے کی طرف اشارہ ہے۔
اس کے بالکل برعکس ان لوگوں کی زندگی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح کی راہ پر چلنے کا حوصلہ کر لیتے ہیں۔ ان کو قدم قدم پر اپنے نفس کی خواہشوں سے لڑائی کرنی پڑتی ہے اور اس لڑائی ہی سے ان کو بالتدریج وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو راہ کے عقبات عبور کرنے میں ان کو مدد دیتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ان کے سامنے

’فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ ۵ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘ (الفجر ۸۹: ۲۹-۳۰)
(شامل ہو جاؤ میرے بندوں میں اور داخل ہو جاؤ میری جنت میں۔)

کی آخری منزل آ جاتی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور اچھے انجام کو جھٹلایا۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور بھلائی کو جھٹلایا۔

یہ انسانی مساعی کی دوسری قسم ہے جو اپنے ہر جز میں پہلی قسم کے ہر جز سے مختلف ہے۔ بخل سے مراد محض وہ بخل نہیں ہے، جس کے لحاظ سے عام طور پر لوگ اس آدمی کو بخیل کہتے ہیں جو روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے اور اسے نہ اپنے اوپر خرچ کرتا ہے نہ اپنے بال بچوں پر، بلکہ اس جگہ بخل سے مراد راہ خدا میں اور نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال صرف نہ کرنا ہے اور اس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنی ذات پر، اپنے عیش و آرام پر، اپنی دلچسپیوں اور تفریحوں پر تو خوب دل کھول کر مال لٹاتا ہے، مگر کسی نیک کام کے لیے اس کی جیب سے کچھ نہیں نکلتا، یا اگر نکلتا بھی ہے تو یہ دیکھ کر نکلتا ہے کہ اس کے بدلے میں اسے شہرت، نام و نمود، حکام رسی، یا کسی اور قسم کی منفعت حاصل ہوگی۔ بےنیازی برتنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی دنیا کے مادی فائدوں ہی کو اپنی ساری تگ و دو اور محنت و کوشش کا مقصود بنا لے اور خدا سے بالکل مستغنی ہو کر اس بات کی کچھ پروا نہ کرے کہ کس کام سے وہ خوش اور کس کام سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ رہا بھلائی کو جھٹلانا، تو وہ اپنی تمام تفصیلات میں بھلائی کو سچ ماننے کی ضد ہے، اس لیے اس کی تشریح کی حاجت نہیں ہے، کیونکہ بھلائی کی تصدیق کا مطلب ہم واضح کرچکے ہیں۔

جونا گڑھی

اور نیک بات کو جھٹلایا۔

 یا آخرت کی جزاء وسزا اور حساب و کتاب کا انکار کرے گا۔ 

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ

امین احسن اصلاحی

اس کو ہم ڈھیل دے دیں گے کٹھن منزل کے لیے

مقابل گروہ کے انجام کا بیان: یہ مقابل گروہ یعنی ان لوگوں کا بیان ہے جو اسی دنیا کی زندگی کو کل زندگی سمجھتے ہیں۔ جو اپنے مال پر مارگنج بن کر بیٹھے اور آخرت سے بالکل نچنت ہیں، جو نہ کسی جزا و انعام کے قائل اور نہ اس کے لیے کوئی بازی کھیلنے کا حوصلہ رکھتے۔ فرمایا کہ ان کا حشر مذکورہ بالا گروہ سے بالکل مختلف ہو گا۔ ان کو اللہ تعالیٰ اس راہ پر چلنے کے لیے ڈھیل دے دے گا جو ان کو نہایت کٹھن منزل پر لے جا چھوڑے گی۔ یہاں بھی’عُسْرٰی‘ کا موصوف محذوف ہے اور ’تیسیر‘ امہال یعنی ڈھیل دینے کے مفہوم میں ہے۔

قرآن میں یہ سنت الٰہی جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ نیکی کی راہ اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کی باگ ان کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔ ان کو اپنے نفس سے کوئی مزاحمت نہیں کرنی پڑتی اس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی راہ نہایت ہموار ہے۔ نفس کی پیروی کرتے ہوئے وہ خوش خوش زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو اس مرحلہ سے سابقہ پیش آنا ہے جس کو قرآن نے

’سَأُرْہِقُہُ صَعُوۡدًا‘ (المدثر ۷۴: ۱۷)
(میں اس کو چڑھاؤں گا ایک کٹھن چڑھائی)

سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں اسی مرحلے کی طرف اشارہ ہے۔
اس کے بالکل برعکس ان لوگوں کی زندگی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح کی راہ پر چلنے کا حوصلہ کر لیتے ہیں۔ ان کو قدم قدم پر اپنے نفس کی خواہشوں سے لڑائی کرنی پڑتی ہے اور اس لڑائی ہی سے ان کو بالتدریج وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو راہ کے عقبات عبور کرنے میں ان کو مدد دیتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے ان کے سامنے

’فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ ۵ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘ (الفجر ۸۹: ۲۹-۳۰)
(شامل ہو جاؤ میرے بندوں میں اور داخل ہو جاؤ میری جنت میں۔)

کی آخری منزل آ جاتی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اُسے ہم سہج سہج سختی میں پہنچا دیں گے۔

اصل میں ’حُسْنٰی‘، ’یُسْرٰی‘ اور ’عُسْرٰی‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ صفات ہیں جن کا موصوف محذوف ہے، یعنی’الْعَاقِبَۃُ الْحُسْنٰی‘ اور ’الْعَاقِبَۃُ الْیُسْرٰی وَالْعُسْرٰی‘۔ لفظ ’تَیْسِیْر‘ ’یُسْرٰی‘ کے ساتھ توفیق اور ’عُسْرٰی‘ کے ساتھ امہال کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اُس سنت الٰہی کو واضح کر دیتا ہے جو نیکی اور بدی کا راستہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’قرآن میں یہ سنت الٰہی جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ نیکی کی راہ اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ اُن کی باگ اُن کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اُن کو اپنے نفس سے کوئی مزاحمت نہیں کرنی پڑتی، اِس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی راہ نہایت ہموار ہے۔ نفس کی پیروی کرتے ہوئے وہ خوش خوش زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ اِس کے بعد اُن کو اُس مرحلے سے سابقہ پیش آتا ہے جس کو قرآن نے ’سَاُرْھِقُہٗ صَعُوْدًا‘* (میں اُس کو چڑھاؤں گا ایک کٹھن چڑھائی) سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں اِسی مرحلے کی طرف اشارہ ہے۔
اِس کے بالکل برعکس اُن لوگوں کی زندگی ہوتی ہے جو ایمان اور عمل صالح کی راہ پر چلنے کا حوصلہ کرلیتے ہیں۔ اُن کو قدم قدم پر اپنے نفس کی خواہشوں سے لڑائی کرنی پڑتی ہے اور اِس لڑائی ہی سے اُن کو بالتدریج وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو راہ کے عقبات عبور کرنے میں اُن کو مدد دیتی ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اُن کے سامنے ’فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ، وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘** کی آخری منزل آ جاتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۰۴)

_____
* المدثر ۷۴: ۱۷۔
** الفجر ۸۹: ۲۹۔۳۰۔ ’’(لوٹ) اور میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہو۔‘‘

ابو الاعلی مودودی

اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے۔

اس راستے کو سخت اس لیے کہا گیا ہے کہ اس پر چلنے والا اگرچہ مادی فائدوں اور دنیوی لذتوں اور ظاہری کامیابیوں کے لالچ میں اس کی طرف جاتا ہے، لیکن اس میں ہر وقت اپنی فطرت سے، اپنے ضمیر سے، خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین سے، اور اپنے گرد و پیش کے معاشرے سے اس کی جنگ برپا رہتی ہے۔ صداقت، امانت، شرافت اور عفت و عصمت کی اخلاقی حدوں کو توڑ کر جب وہ ہر طریقے سے اپنی اغراض اور خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب اس کی ذات سے خلق خدا کو بھلائی کے بجائے برائی ہی پہنچتی ہے، اور جب وہ دوسروں کے حقوق اور ان کی عزتوں پر دست درازیاں کرتا ہے، تو اپنی نگاہ میں وہ خود ذلیل و خوار ہوتا ہے اور جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اس سے بھی قدم قدم پر لڑ کر اسے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ اگر وہ کمزور ہو تو اس روش کی بدولت اسے طرح طرح کی سزائیں بھگتنی ہوتی ہیں، اور اگر وہ مال دار طاقتور اور با اثر ہو تو چاہے دنیا اس کے زور کے آگے دب جائے لیکن کسی کے دل میں اس کے لیے خیر خواہی، عزت اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، حتی کہ اس کے شریک کار بھی اس کو ایک خبیث آدمی ہی سمجھتے ہیں۔ اور یہ معاملہ صرف افراد ہی تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتور قومیں بھی جب اخلاق کے حدود پھاند کر اپنی طاقت اور دولت کے زعم میں بد کرداری کا رویہ اختیار کرتی ہیں، تو ایک طرف باہر کی دنیا ان کی دشمن ہوجاتی ہے اور دوسری طرف خود ان کا اپنا معاشرہ جرائم، خود کشی، نشہ بازی، امراض خبیثہ، خاندانی زندگی کی تباہی، نوجوان نسلوں کی بد راہی، طبقاتی کشمکش، اور ظلم و جور کی روز افزوں وبا سے دو چار ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ بام عروج سے گرتی ہے تو دنیا کی تاریخ میں اپنے لیے لعنت اور پھٹکار کے سوا کوئی مقام چھوڑ کر نہیں جاتی۔

اور یہ جو فرمایا گیا کہ ایسے شخص کو ہم سخت راستے پر چلنے کی سہولت دیں گے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے بھلائی کے راستے پر چلنے کی توفیق سلب کرلی جائے گی، برائی کے دروازے اس کے لیے کھول دیے جائیں گے، اسی کے اسباب اور وسائل اس کے لیے فراہم کردیے جائیں گے، بدی کرنا اس کے لیے آسان ہوگا اور نیکی کرنے کے خیال سے اس کو یوں محسوس ہوگا کہ جیسے اس کی جان پر بن رہی ہے۔ یہی کیفیت ہے جسے دوسری جگہ قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہے کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے) جیسے اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے “۔ (الانعام، آیت 125) ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے ” بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے مگر فرماں بردار بندوں کے لیے نہیں ” (البقرہ، 46) ۔ اور منافقین کے متعلق فرمایا ” وہ نماز کی طرف آتے بھی ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ کرتے بھی ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں ” (التوبہ، آیت 54) ۔ اور یہ کہ ” ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں ” (التوبہ، آیت 98) ۔

جونا گڑھی

تو ہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کردیں گے۔

 تنگی سے مراد کفر و معصیت اور طریق شر ہے، یعنی ہم اس کے لیے نافرمانی کا راستہ آسان کردیں گے، جس سے اس کے لیے خیر وسعادت کے راستے مشکل ہوجائیں گے، قرآن مجید میں یہ مضمون کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ جو خیر و رشد کا راستہ اپناتا ہے اس کے صلے میں اللہ اسے خیر و توفیق سے نوازتا ہے اور جو شر و معصیت کو اختیار کرتا ہے اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑتا ہے یہ اس کی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ نے اپنے علم سے لکھ رکھی ہے۔ (ابن کثیر) 

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >