بہت جلدی مچائی ہے ایک جلدی مچانے والے نے، اُس عذاب کے لیے.
اصل میں لفظ ’سُؤَال‘ استعمال ہوا ہے، لیکن اِس کا صلہ چونکہ آیت میں ’ب‘ آیا ہے، اِس لیے عربیت کی رو سے اِسے استعجال یا استہزا کے مفہوم پر متضمن سمجھنا چاہیے۔ یعنی وہ مذاق اڑانے کے لیے جلدی مچاتے اور کہتے ہیں کہ وہ عذاب کہاں رہ گیا؟ ابھی تک آیا کیوں نہیں؟ ہم کب سے اُس کے ڈراوے سن رہے ہیں، لیکن وہ چلا تو کہیں سستانے کے لیے بیٹھ گیا ہے کہ ابھی تک یہاں نہیں پہنچا؟
مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے ، ﴿وہ عذاب﴾ جو ضرور واقع ہونے والا ہے،
اصل الفاظ ہیں سال سآئل۔ بعض مفسرین نے یہاں سوال کو پوچھنے کے معنی میں لیا ہے اور وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ پوچھنے والے نے پوچھا ہے کہ وہ عذاب، جس کی ہمیں خبردی جا رہی ہے، کس پر واقع ہوگا ؟ اور اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ کافروں پر واقع ہوگا۔ لیکن اکثر مفسرین نے اس جگہ سوال کو مانگنے اور مطالبہ کرنے کے معنی میں لیا ہے۔ نسائی اور دوسرے محدثین نے ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ نضر بن حارث بن کلدہ نے کہا تھا اللھم ان کان ھذا ہو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنا بعذاب الیم۔ (الانفال، آیت 32) ” خدایا اگر یہ واقعی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر درد ناک عذاب لے آ “۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر قرآن مجید میں کفار مکہ کے اس چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : یونس، آیات 46 تا 48، الابنیاء 36 تا 41، النمل، 67 تا 72، سبا، 26 تا 30، یسین، 45 تا 52 ۔ الملک، 24 تا 27 ۔
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔
کہتے ہیں نضر بن حارث تھا یا ابو جہل تھا جس نے کہا تھا (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 32) 8 ۔ الانفال :32) چنانچہ یہ شخص جنگ بدر میں مارا گیا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جنہوں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں اہل مکہ پر قحط سالی مسلط کی گئی تھی۔
(جلدی مچائی جلدی مچانے والے نے) کافروں کے لیے (واقع ہونے والے عذاب کی)۔ اس کا کوئی دفع کرنے والا نہیں بنے گا۔
عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کی حماقت: ’لِّلْکَافِریْنَ‘ کا تعلق ’وَاقِعٍ‘ سے بھی ہو سکتا ہے، یعنی اس عذاب کا مذاق اڑاتے ہیں جو کافروں کے لیے واقع ہونے والا ہے اور اس کو مستقل جملہ بھی قرار دے سکتے ہیں، یعنی وہ جس عذاب کا مذاق اڑا رہے ہیں وہ کافروں ہی کے لیے ہو گا اور کوئی اس کو دفع کرنے والا نہیں بنے گا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی شامت ہی ہے جو اتنی ڈھٹائی سے اس کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ وہ سیلاب فنا آیا تو آخر کس کے گھر جائے گا؟ انہی کے گھر تو جائے گا! اس کے مقابلہ کا کیا سامان انھوں نے کر رکھا ہے کہ اس طرح چیلنج کر رہے ہیں! اس کو دفع کرنے کا برتا تو کسی میں بھی نہیں ہو گا، نہ ان کے اندر اور نہ ان کے مزعومہ معبودوں کے اندر؛ تو کس برتے پر ان کو دعوت دے رہے ہیں!
جو اِن منکروں پر آ کر رہے گا، اُسے کوئی ہٹا نہ سکے گا۔
n/a
کافروں کے لیے ہے، کوئی اسے دفع کرنے والا نہیں،
n/a
کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں
n/a
وہ مدارج والے خداوند کی طرف سے ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کے دنوں کو اپنے دنوں پر قیاس نہ کرو: یعنی وہ عذاب آئے گا تو ضرور۔ جس خدا نے اس کی دھمکی دی ہے اس کا ہر وعدہ اور اس کی ہر وعید شدنی ہے لیکن اس کی بارگاہ بہت بلند ہے۔ وہ بڑی بلندیوں، بڑے مدارج اور زینوں والا ہے۔ اس کے دربار سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ اس کے اپنے پروگرام کے مطابق ہوتے ہیں اور ان سالوں اور دنوں کے اعتبار سے بنتے ہیں جو اس کے ہاں معتبر ہیں۔ اس کے ہاں کا ایک دن انسانی تقویم کے حساب سے ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے دنوں اور سالوں کو لوگ اپنے محدود پیمانوں سے نہ ناپیں۔ انسان کی یہی تنگ نظری اس کو خدا کے فیصلوں کے بارے میں بے صبرا اور جلد باز بنا دیتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش کرتا اور اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے الگ الگ عالم بنائے ہیں اور ہر ایک کا مدار اور نظام الگ الگ ہے۔ ہم نہ تو اس کی کائنات کے سارے بھیدوں کو جان سکتے اور نہ اپنے دنوں اور اپنی گھڑیوں سے اس کے دنوں کا حساب کر سکتے۔ سورۂ حج میں اسی حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:
وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَلَنۡ یُخْلِفَ اللہُ وَعْدَہٗ وَإِنَّ یَوْمًا عِنۡدَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج ۲۲: ۴۷)
’’وہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں حالانکہ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرنے والا نہیں ہے۔ اور واضح رہے کہ تمہارے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار سالوں کے برابر ہوتا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ تمہارے پیمانے بہت چھوٹے ہیں۔ تم ہر وعدے اور ہر وعید کو اپنے دنوں کے حساب سے جانچتے ہو اس وجہ سے تمہیں محسوس ہوتا ہے کہ فلاں وعدے پر بڑی طویل مدت گزر گئی اور وہ پورا نہیں ہوا حالانکہ خدائی دنوں کے حساب سے ابھی اس پر سیکنڈ یا منٹ سے زیادہ وقت نہیں گزرا ہوتا۔
وہ اللہ کی طرف سے آئے گا جو عروج کے زینوں والا ہے۔
یہ خدا کی بلندی بارگاہ کی تعبیر ہے۔اِس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اُس کے فیصلے اُس کی شان کے مطابق اور اُس کی بارگاہ کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں، اُنھیں تھڑدلے انسانوں کے جذبات و خواہشات اور توقعات پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔
اس خدا کی طرف سے ہے جو عروج کے زینوں کا مالک ہے ۔
اصل میں لفظ ذی المعارج استعمال ہوا ہے۔ معارج، معرج کی جمع ہے جس کے معنی زینے، یا سیڑھی، یا ایسی چیز کے ہیں جس کے ذریعے سے اوپر چڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کو معارج والا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات بہت بالا و برتر ہے اور اس کے حضور باریاب ہونے کے لیے فرشتوں کو پے درپے بلندیوں سے گزرنا ہوتا ہے، جیسا کہ بعد والی آیت میں بیان فرمایا گیا ہے۔
اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے
یا درجات والا، بلندیوں والا ہے، جس کی طرف فرشتے چڑھتے ہیں۔
اس کی طرف فرشتے اور جبریل صعود کرتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ’ذِی الْمَعَارِجِ‘ ہونے کا مفہوم: یہ اللہ تعالیٰ کے ’ذِی الْمَعَارِجِ‘ ہونے کی وضاحت ہے کہ اس کی بارگاہ بلند تک پہنچنے کے لیے فرشتوں اور جبریلؑ کو بھی پچاس ہزار سال کے برابر کا دن لگتا ہے۔ ’معارج‘ کے معنی زینوں اور سیڑھیوں کے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ وراء الوراء اور وراء الوراء ہے۔ اس تک رسائی کے لیے دوسروں کا تو کیا ذکر ملائکہ اور جبریلؑ تک کا یہ حال ہے کہ اس راہ کے مراحل طے کرنے کے لیے انھیں پچاس ہزار سال کے برابر کا دن لگتا ہے۔
یہ باتیں متشابہات کی نوعیت کی ہیں۔ ان کی اصل حقیقت کا ادراک ہمارے لیے ناممکن ہے۔ مقصود ان سے صرف یہ تصور دینا ہے کہ خدا کے معاملات کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔ اس کے ہاں کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر کا ہوتا ہے اور بعض کاموں کے لیے اس نے پچاس ہزار سال کے برابر کے دن بھی رکھے ہیں۔ آیت زیربحث میں اسی خاص دن کی طرف اشارہ ہے۔
’روح‘ سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں۔ یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ان کی عظمت شان کے پہلو سے ہے اس لیے کہ وہ تمام ملائکہ کے سرخیل ہیں۔ یہ لفظ قرآن میں حضرت جبریل علیہ السلام کے لیے آیا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ بعض لوگوں نے اس دن قیامت کے دن کو لیا ہے اور اس کا یہ طول ان کے نزدیک اس کے ہول اور شدت کی تعبیر ہے۔ ہمارے نزدیک یہ رائے موقع و محل کے بھی خلاف ہے اور عربیت کے بھی۔ یہاں مقصود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی بلندی کا اظہار ہے نہ کہ روز قیامت کی شدت کا۔ روز قیامت کی شدت اور اس کے ہول کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ ہر چند خدا کی بارگاہ بہت بلند ہے، وہ تمام خلق سے وراء الوراء ہے لیکن وہ ساتھ ہی ہر شخص کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ وہ سب کو دیکھتا، سب کی سنتا اور سب کی نگرانی کر رہا ہے۔ ہم اگرچہ اس کو دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن وہ ہم کو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ ہماری نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں لیکن وہ ہماری نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ ’لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ‘ (الانعام ۶: ۱۰۴) اس وجہ سے نہ تو اس سے کسی کو بے خوف ہونا جائز ہے نہ مایوس۔
یہی حال فرشتوں کا ہے۔ ان کو اگرچہ اس تک صعود کے لیے پچاس ہزار سال کے برابر کا دن لگتا ہے لیکن اس کے باوجود تمام ملائکہ ہر وقت اس کی نگاہوں میں ہیں۔ وہ جب چاہے ان کو حکم دے سکتا ہے اور جب چاہے ان کو پکڑ لے سکتا ہے۔
(یہ ہر چیز کو اپنے پیمانوں سے ناپتے اور پھرجلدی مچادیتے ہیں۔ اِنھیں بتا ؤ کہ) فرشتے اور رُوح الامین (تمھارے حساب سے)پچاس ہزار سال کے برابر ایک دن میں اُس کے حضور چڑھ کر پہنچتے ہیں۔
اِس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ وہ تمام ملائکہ کے سرخیل ہیں۔ عام کے بعد خاص کا یہ ذکر اُن کے اِسی مرتبے کے پیش نظر ہے۔
یہ امور متشابہات میں سے ہے جن کی پوری حقیقت ہم یہاں نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن مطلب یہی ہے کہ اُنھیں خدا کو اپنے پیمانوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ اُس کی سلطنت میں دن پچاس پچاس ہزار سال کے بھی ہوتے ہیں۔
ملائکہ اور روح اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے ۔
روح سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں اور ملائکہ سے الگ ان کا ذکر ان کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ سورة شعراء میں فرمایا گیا ہے کہ نزل بہ الروح الامین علی قلبک (اس قرآن کو روح امین لے کر تمہارے دل پر نازل ہوئے ہیں) ۔ اور سورة بقرہ میں ارشاد ہوا ہے قل من کان عدوا لجبریل فانہ نزلہ علی قلبک (کہو کہ جو شخص جبریل کا اس لیے دشمن ہو کہ اس نے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے۔۔۔ ) ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ روح سے مراد جبریل ہی ہیں۔
یہ سارا مضمون متشابہات میں سے ہے جس کے معنی متعین نہیں کیے جاسکتے۔ ہم نہ فرشتوں کی حقیقت جانتے ہیں، نہ ان کے چڑھنے کی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں، نہ یہ بات ہمارے ذہن کی گرفت میں آسکتی ہے کہ وہ زینے کیسے ہیں جن پر فرشتے چڑھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا سکتا کہ وہ کسی خاص مقام پر رہتا ہے، کیونکہ اس کی ذات زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے۔
سورة حج، آیت 47 میں ارشاد ہوا ہے ” یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔ “۔ سورة السجدہ، آیت 5 میں فرمایا گیا ہے ” وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے، پھر (اس کی روداد) اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے “۔ اور یہاں عذاب کے مطالبہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی گئی ہیں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی گئی ہے کہ جو لوگ مذاق کے طور پر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کی باتوں پر صبر کریں اور اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس کو دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ ان سب ارشادات پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لوگ اپنے ذہن اور اپنے دائرہ فکر و نظر کی تنگی کے باعث خدا کے معاملات کو اپنے وقت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں اور انہیں سو پچاس برس کی مدت بھی بڑی لمبی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک ایک اسکیم ہزار ہزار سال اور پچاس پچاس ہزار سال کی ہوتی ہے۔ اور یہ مدت بھی محض بطور مثال ہے، ورنہ کائناتی منصوبے لاکھوں اور کروڑوں اور اربوں سال کے بھی ہوتے ہیں۔ انہیں منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ وہ ہے جس کے تحت زمین پر نوع انسانی کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کے لیے ایک وقت مقرر کردیا گیا ہے کہ فلاں ساعت خاص تک یہاں اس نوع کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ کوئی انسان یہ نہیں جان سکتا کہ یہ منصوبہ کب شروع ہوا، کتنی مدت اس کی تکمیل کے لیے طے کی گئی ہے، کون سی ساعت اس کے اختتام کے لیے مقرر کی گئی ہے جس پر قیامت برپا کی جائے گی، اور کون سا وقت اس غرض کے لیے رکھا گیا ہے کہ آغاز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسانوں کو بیک وقت اٹھا کر ان کا حساب لیا جائے۔ اس منصوبے کے صرف اس حصے کو ہم کسی حد تک جانتے ہیں جو ہمارے سامنے گزر رہا ہے یا جس کے گزشتہ ادوار کی کوئی جزوی سی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے۔ رہا اس کا آغاز و انجام، تو اسے جاننا تو درکنار، اسے سمجھنا بھی ہمارے بس سے باہر ہے، کجا کہ ہم ان حکمتوں کو سمجھ سکیں جو اس کے پیچھے کام کر رہی ہیں۔ اب جو لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس منصوبے کو ختم کر کے اس کا انجام فوراً ان کے سامنے لے آیا جائے، اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اسے اس بات کی دلیل قرار دیتے کہ انجام کی بات ہی سرے سے غلط ہے، وہ درحقیقت اپنی ہی نادانی کا ثبوت پیش کرتے ہیں (مزیدتشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، الحج، حواشی 92 ۔ 93 ۔ جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ 9) ۔
جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے
روح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، ان کی عظمت شان کے پیش نظر ان کا الگ خصوصی ذکر کیا گیا ہے ورنہ فرشتوں میں وہ بھی شامل ہیں۔ یا روح سے مراد انسانی روحیں ہیں جو مرنے کے بعد آسمان پر لے جاتی ہیں جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ اس یوم کی تعریف میں بہت اختلاف ہے جیسا کہ الم سجدہ کے آغاز میں ہم بیان کر آئے ہیں۔
تو تم خوبصورتی سے صبر کرو۔
پیغمبر صلعم کو صبر جمیل کی ہدایت: عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کے مقابلہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رویہ اختیار کرنا چاہیے یہ اس کا بیان ہے۔ فرمایا کہ ان کی جلد بازی اور ان کے استہزاء پر خوبصورتی اور وقار کے ساتھ صبر کرو۔ ’خوبصورتی کے ساتھ‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے رویہ سے نہ تو دل شکستہ اور مایوس ہو نہ ان کے جواب میں کوئی عاجلانہ قدم اٹھاؤ اور نہ اپنے موقف میں کوئی کمزوری پیدا ہونے دو۔ مختلف صورتوں میں صبر کی ہدایت کے ساتھ ان باتوں کی طرف اشارے بھی فرما دیے گئے ہیں جو صبر کو صبر جمیل بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
اِس لیے، (اے پیغمبر) تم (اِن کی باتوں پر) پورے حسن و وقار کے ساتھ صبر کرو۔
اصل الفاظ ہیں: ’فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا‘۔ اِن سے کیا مراد ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...مطلب یہ ہے کہ اِن کے رویے سے نہ تو دل شکستہ اور مایوس ہو نہ اِن کے جواب میں کوئی عاجلانہ قدم اٹھاؤ اور نہ اپنے موقف میں کوئی کمزوری پیدا ہونے دو۔ مختلف صورتوں میں صبر کی ہدایت کے ساتھ اُن باتوں کی طرف اشارے بھی فرما دیے گئے ہیں جو صبر کو صبر جمیل بنانے کے لیے ضروری ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۸/ ۵۶۷)
پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، صبر کرو، شائستہ صبر ۔
یعنی ایسا صبر جو ایک عالی ظرف انسان کے شایان شان ہے۔
پس تو اچھی طرح صبر کر۔
n/a
وہ اس کو بہت دور خیال کر رہے ہیں۔
اہل بصیرت قیامت کو دور نہیں سمجھتے: ’إِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا ۵ وَنَرَاہُ قَرِیْبًا‘۔ یعنی ان لوگوں کی نظر بہت محدود ہے اس وجہ سے یہ اس عذاب کو جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے بہت دور خیال کر رہے ہیں حالانکہ ہم اس کو بہت قریب دیکھ رہے ہیں اور اصل دیکھنا ہمارا دیکھنا ہے۔ اگر ان کے اندر بھی بصیرت ہوتی تو یہ بھی اس کو قریب ہی دیکھتے لیکن ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اس وجہ سے انھیں قریب کی چیز دور دکھائی دے رہی ہے۔ وہ دن آئے گا تو یہ پٹی کھل جائے گی اور ہر شخص دیکھ لے گا کہ جس چیز کو وہ بہت دور سمجھا تھا وہ نہایت قریب نکلی۔
’فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ‘ (قٓ ۵۰: ۲۲)
(پس آج تو تیری نگاہ بہت تیز ہے)
میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔۔۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ جن کی نگاہوں میں بصارت کے ساتھ بصیرت ہوتی ہے وہ اس مغالطہ میں مبتلا نہیں ہوتے۔ صاحب بصیرت اللہ کی روشنی سے دیکھتا ہے اس وجہ سے جس طرح اللہ تعالیٰ اس دن کو قریب سے دیکھتا ہے اسی طرح مومن بھی اس کو قریب ہی دیکھتا ہے۔
یہ اُس کو دور سمجھتے ہیں۔
n/a
یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں
n/a
بیشک یہ اس (عذاب) کو دور سمجھ رہے ہیں۔
n/a
اور ہم اس کو نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔
اہل بصیرت قیامت کو دور نہیں سمجھتے: ’إِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا ۵ وَنَرَاہُ قَرِیْبًا‘۔ یعنی ان لوگوں کی نظر بہت محدود ہے اس وجہ سے یہ اس عذاب کو جس سے ان کو ڈرایا جا رہا ہے بہت دور خیال کر رہے ہیں حالانکہ ہم اس کو بہت قریب دیکھ رہے ہیں اور اصل دیکھنا ہمارا دیکھنا ہے۔ اگر ان کے اندر بھی بصیرت ہوتی تو یہ بھی اس کو قریب ہی دیکھتے لیکن ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اس وجہ سے انھیں قریب کی چیز دور دکھائی دے رہی ہے۔ وہ دن آئے گا تو یہ پٹی کھل جائے گی اور ہر شخص دیکھ لے گا کہ جس چیز کو وہ بہت دور سمجھا تھا وہ نہایت قریب نکلی۔
’فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ‘ (قٓ ۵۰: ۲۲)
(پس آج تو تیری نگاہ بہت تیز ہے)
میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔۔۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ جن کی نگاہوں میں بصارت کے ساتھ بصیرت ہوتی ہے وہ اس مغالطہ میں مبتلا نہیں ہوتے۔ صاحب بصیرت اللہ کی روشنی سے دیکھتا ہے اس وجہ سے جس طرح اللہ تعالیٰ اس دن کو قریب سے دیکھتا ہے اسی طرح مومن بھی اس کو قریب ہی دیکھتا ہے۔
اور ہم اُسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں۔
n/a
اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔
اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ یہ لوگ اسے بعید از امکان سمجھتے ہیں اور ہمارے نزدیک وہ قریب الوقوع ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو بڑی دور کی چیز سمجھتے ہیں اور ہماری نگاہ میں وہ اس قدر قریب ہے گویا کل پیش آنے والی ہے۔
اور ہم اسے قریب دیکھتے ہیں
دور سے مراد ناممکن اور قریب سے اس کا یقینی واقع ہونا ہے۔ یعنی کافر قیامت کو ناممکن سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ضرور آکر رہے گی۔
جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کے مانند ہو جائے گا۔
قیامت کے ہول کی تصویر: یہ قیامت کی ہلچل اور اس کے ہول کی تصویر ہے تاکہ جو لوگ اس کو بصیرت کی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے ہیں وہ اس تصویر کو دیکھ کر اس سے کچھ عبرت پکڑیں۔ فرمایا کہ اس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کے مانند ہو جائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کے مانند۔
لفظ ’مُہْلٌ‘ مختلف معانی میں آتا ہے۔ سورۂ کہف میں یہ لفظ گزر چکا ہے وہاں مناسب موقع معنی کی وضاحت ہم نے کر دی۔ یہ تیل اور تیل کی تلچھٹ کے معنی میں بھی آیا ہے۔ یہ معنی لیجیے تو مقصود آسمان کی رنگت کو تیل کی سرخ سیاہی مائل تلچھٹ سے تشبیہ دینا ہو گا۔ سورۂ رحمان میں بھی آسمان کی سرخی کا ذکر آیا ہے:
’فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّہَانِ‘ (الرحمٰن ۵۵: ۳۷)
(وہ کھال کی مانند سرخ ہو گا)
(یہ بھی دیکھیں گے)۔ اُس دن جب آسمان تیل کی تلچھٹ کی طرح ہو جائے گا۔
n/a
﴿وہ عذاب اس روز ہوگا﴾ جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہوجائے گا
مفسرین میں سے ایک گروہ نے اس فقرے کا تعلق فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ سے مانا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پچاس ہزار سال کی مدت جس دن کی بتائی گئی ہے اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں حضرت ابو سعید خدری سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے متعلق عرض کیا گیا کہ وہ تو بڑا ہی طویل دن ہوگا۔ اس پر آپ نے فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا میں ایک فرض نماز پڑھنے میں جتنا وقت لگتا ہے مومن کے لیے وہ دن اس سے بھی زیادہ ہلکا ہوگا “۔ یہ روایت اگر صحیح سند سے منقول ہوتی تو پھر اس کے سوا اس آیت کی کوئی دوسری تاویل نہیں کی جاسکتی تھی۔ لیکن اس کی سند میں دراج اور اس کے شیخ ابو الہثیم، دونوں ضعیف ہیں۔
یعنی بار بار نگ بدلے گا۔
جس دن آسمان مثل تیل کی تلچھٹ کے ہوجائے گا۔
n/a
اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کے مانند۔
’وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ‘۔ لفظ ’عِہْنٌ‘ کے معنی اون کے ہیں اور اس سے مراد یہاں دھنی ہوئی اون ہے، جیسا کہ سورۂ قارعہ میں فرمایا ہے:
’وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنفُوْشِ‘ (القارعہ ۱۰۱: ۵)
(اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کے مانند ہو جائیں گے)۔
یہ احوال قیامت سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں جو ازقبیل متشابہات ہیں۔ ان کی اصل حقیقت یہاں سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ لیکن ذہن اس طرف جاتا ہے کہ آسمان کی سرخی نتیجہ ہو گی جہنم کے شعلوں کے بھڑکنے کا اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کے مانند پراگندہ کر دیے جائیں گے تاکہ جو لوگ پہاڑوں کو لازوال سمجھتے رہے ہیں وہ ان کی بے ثباتی کا مشاہدہ کر لیں۔ ظاہر ہے کہ جب پہاڑوں کا یہ حال ہو گا تو دوسری چیزوں کا کیا ذکر! یہ باتیں ان نادانوں کی تنبیہ کے لیے سنائی گئی ہیں جن کو اپنی قوت و جمعیت اور اپنے قلعوں اور گڑھیوں پر بڑا ناز تھا ۔۔۔ معلوم ہوا کہ اس دن سارا شیرازہ درہم برہم ہو جائے گا اور ایک نیا عالم بالکل نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ ظہور میں آئے گا۔
اور پہاڑ دُھنی ہوئی اُون کی طرح ہوں گے۔
n/a
اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہوجائیں گے ۔
چونکہ پہاڑوں کے رنگ مختلف ہیں، اس لیے جب وہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اور بےوزن ہو کر اڑنے لگیں گے تو ایسے معلوم ہونگے جیسے رنگ برنگ کا دھنکا ہوا اون اڑ رہا ہو۔
اور پہاڑ مثل رنگین اون کے ہوجائیں گے
یعنی دھنی ہوئی روئی کی طرح، جیسے سورة القارعۃ میں ہے۔
اور کوئی دوست بھی کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔
اس دن کی نفسی نفسی کی تصویر: یعنی اس دن ہر شخص پر ایسی نفسی نفسی کی حالت طاری ہو گی کہ جو عمر بھر اس دنیا میں باہم دگر جگری دوست بنے رہے اور جنھوں نے ایک دوسرے کی خاطر جان اور اپنے مال سب کچھ قربان کیے اس دن اس طرح آنکھیں پھیر لیں گے کہ کوئی کسی کا حال پوچھنے کا بھی روادار نہ ہو گا۔
اور کوئی سچا دوست بھی (اُس وقت اپنے) کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔
n/a
اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا
n/a
اور کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔
n/a
امین احسن اصلاحی
جلدی مچائی جلدی مچانے والے نے (کافروں کے لیے) واقع ہونے والے عذاب کی۔
سوال بانداز استعجال: ’سوال‘ کے مختلف معانی پر اس کے محل میں بحث ہو چکی ہے یہاں اس کا صلہ ’ب‘ کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ استعجال یا استہزاء کے مفہوم پر متضمن ہے۔ یعنی ایک سوال کرنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کی جلدی مچائی یا اس کا مذاق اڑایا۔ قریش کے متمردین کو جب عذاب سے ڈرایا جاتا تو وہ پوچھتے کہ وہ عذاب کہاں ہے؟ عذاب آنا ہے تو آ کیوں نہیں جاتا؟ ہم کب سے اس کے ڈراوے سن رہے ہیں وہ چلا تو راہ میں کہاں لنگر انداز ہو گیا کہ اب تک وہ نہیں پہنچا؟ اس طرح کے سوالات ظاہر ہے تحقیق کے لیے نہیں بلکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو زچ کرنے اور عذاب کا مذاق اڑانے کے لیے کیے جاتے تھے۔ ان سوالوں کے اندر جلد بازی اور استہزاء دونوں کے مفہوم پائے جاتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ اس جلد بازی کا مقصد ہی مذاق اڑانا ہوتا تھا۔ ’ب‘ کے صلہ نے ’سوال‘ کے اس مضمر مضمون کو واضح کر دیا اس لیے استعجال اور استہزا دونوں کا صلہ ’ب‘ سے آتا ہے، مثلاً ’یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ‘ (العنکبوت ۲۹: ۵۴) اسی طرح ’اِسْتِھْزَآءٌ‘ کا صلہ بھی ’ب‘ ہی آتا ہے۔