ایمان والو، (اپنے پروردگار سے باندھے ہوئے سب) عہد و پیمان پورے کرو۔ تمھارے لیے مویشی کی قسم کے تمام چوپائے حلال ٹھیرائے گئے ہیں، سواے اُن کے جو تمھیں بتائے جا رہے ہیں۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو حلال نہ کر لو۔ (یہ اللہ کا حکم ہے اور) اللہ جو چاہتا ہے، حکم دیتا ہے
اِس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو ایمان و اسلام کی دعوت قبول کر لینے کے بعدہر بندۂ مومن اپنے پروردگار سے اُس کی شریعت کی پابندی کے لیے باندھ لیتا ہے۔
اصل میں ’بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’اَنْعَام‘ کا لفظ عربی زبان میں بھیڑ بکری، اونٹ اور گاے بیل کے لیے معروف ہے۔ اِس کی طرف ’بَھِیْمَۃ‘ کی اضافت سے اِس میں انعام کی قسم کے وحشی چوپائے، یعنی ہرن وغیرہ بھی شامل ہو گئے ہیں۔
یعنی اُن کا حلال ہونا واضح کر دیا گیا ہے اور وہ تمام پابندیاں جو لوگوں نے اپنے اوہام کی بنا پر یا پچھلے صحیفوں کی کسی روایت کی بنا پر اپنے اوپر عائد کر رکھی تھیں، ختم ہو گئی ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’غَیْْرَ مُحِلِّی الصَّیْْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ‘۔ مطلب یہ ہے کہ تمام چوپائے حلال ہیں، مگر اِس پابندی کے ساتھ کہ حالت احرام میں شکار کو جائز کر لینے والے نہ بن جانا۔ یہ بالکل اُسی نوعیت کا حکم ہے جو یہود کو سبت سے متعلق دیا گیا تھا۔
اِس طرح کے احکام ابتلا اور امتحان کے لیے دیے جاتے ہیں۔ اِن میں بندوں کی مصلحت واضح نہیں ہوتی، اِس لیے جب تک یہ عقیدہ محکم نہ ہو کہ خدا حاکم مطلق ہے اور اُس کا کوئی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، اُس وقت تک پوری وفاداری کے ساتھ کوئی شخص اِن کی تعمیل نہیں کر سکتا۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورة میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں، اور جو بالعموم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اس بندشوں کا بیان شروع ہوجاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔
” اَنعام “ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے۔ اور ” بہیمہ “ کا اطلاق ہر چرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں ” انعام “ کہتے ہیں۔ لیکن حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے کہ ” مویشی کی قسم کے چرندہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “۔ اس سے حکم وسیع ہوجاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کے دائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی نوعیت کے ہوں۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں، اور دوسری حیوانی خصوصیات میں انعام عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے ان پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کرکے کھاتے ہیں یا مردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن کل ذی ناب من السباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دوسرے متعدد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں۔
” احرام “ اس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کردی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمولی لباس اتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے۔ اس لباس میں صرف ایک تہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں جو معمولی حالات میں حلال ہیں، مثلاً حجامت، خوشبو کا استعمال، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا شہوت وغیرہ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے۔
یعنی اللہ حاکم مطلق ہے، اسے پورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں، لیکن بندہ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کردی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے، اور اسی طرح جو اس نے حلال کردی ہے وہ بھی کسی دوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اس بنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پورے زور کے ساتھ یہ اصول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حرمت و حلت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز۔
اے ایمان والو ! عہد و پیمان پورے کرو تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ تعالیٰ جو چاہے حکم کرتا ہے۔
عقود عقد کی جمع ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہدوپیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی جن کا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عاقل و بالغ ٹھہرایا ہے اور عہد و پیماں کرنے پر معاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔
١۔ ٢ بھیمہ چوپائے (چار ٹانگوں والے) جانور کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بہم، ابہام ہے بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل وفہم میں چونکہ ابہام ہے اس لیے ان کو بہیمہ کہا کہا جاتا ہے انعام اونٹ، گائے بکری بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے یہ بھیمتہ الانعام نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں جن کی تفصیل ( سورة الانعام آیت نمبر ١٤٣ میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلًا ہرن نیل گائے وغیرہ جن کا عمومًا شکار کیا جاتا ہے یہ بھی حلال ہیں۔ حالت احرام میں ان کا دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانور ذوناب اور جو پرندے ذومخلب نہیں ہیں وہ سب حلال ہیں جیسا کہ بقرہ آیت نمبر ١٧٣ کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذوناب کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنی کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہے اور چیرتا ہو مثلا شیر چیتا کتا بھیڑیا وغیرہ اور وہ پرندے جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو مثلًا شکرہ، باز، شاہیں، عقاب وغیرہ حرام ہیں۔
١۔ ٣ ان کی تفصیل آیت نمبر ٣ میں آرہی ہے۔
اے ایمان والو! شعائر الٰہی کی بے حرمتی نہ کیجیو، نہ محترم مہینوں کی، نہ قربانیوں کی، نہ پٹے بندھے ہوئے نیاز کے جانوروں کی، نہ بیت اللہ کے عازمین کی، جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوش نودی کے طالب بن کر نکلتے ہیں۔ اور جب تم حالت احرام سے باہر آ جاؤ تو شکار کرو۔ اور کسی قوم کی دشمنی، کہ اس نے تمھیں مسجد حرام سے روکا ہے تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم حدود سے تجاوز کرو۔ تم نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو، گناہ اور تعدی میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ سخت پاداش والا ہے
شعائر کا احترام ظاہر و باطن دونوں پہلوؤں سے مطلوب ہے: ’لَا تُحِلُّوْا شَعَآءِرَ اللّٰہِ‘ بقرہ آیت ۱۵۸ کے تحت ’شَعَآءِرَ اللّٰہِ‘ پر تفصیل کے ساتھ بحث ہو چکی ہے۔ شعائر کسی اہم دینی و روحانی حقیقت کے مظہر اور پیکر ہیں۔ ان میں اصل مقصود کی حیثیت تو ان روحانی و معنوی حقائق کی ہے جو ان مظاہر کے اندر مضمر ہیں اس لیے کہ ان حقائق ہی کا احساس دلانے کے لیے ان کو بطور نشان اور علامت کے مقرر کیا گیا ہے لیکن یہ مقرر کردہ خدا کے ہیں اس وجہ سے ان کے ظاہر و باطن دونوں کا یکساں احترام مطلوب ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ ان کے احترام کے جو آداب و شرائط مقرر ہیں ان کی خلاف ورزی کرے یا جو چیزیں یا جو باتیں ان کے تعلق سے حرام ہیں ان کو جائز کرے۔ مثلاً چار مہینوں ۔۔۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب جو حج و عمرہ کے تعلق سے محترم مہینے قرار دیے گئے ہیں، ان میں لڑائی بھڑائی ممنوع ہے، اگر کوئی گروہ ان میں لڑائی چھیڑ دے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے ان حرام مہینوں کو اپنے لیے جائز کر لیا اور ان کی بے حرمتی کی۔
’ہدی‘ اور ’قلائد‘ کا مفہوم: ’ھَدی‘ قربانی کے جانوروں کو کہتے ہیں جو بطور ہدیہ خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے بیت اللہ لے جائے جاتے ہیں۔ ’قَلَاءِد‘ یعنی قربانی اور نذر و نیاز کے وہ جانور جن کو تخصیص کے طور پر پٹے باندھ دیے گئے ہیں کہ پہچانے جائیں، کوئی ان سے تعرض نہ کرے۔ ہدی کے بعد قلائد کا ذکر عام کے بعد خاص کے ذکر کی نوعیت رکھتا ہے اور مقصود اس سے تعرض کی سنگینی کو واضح کرنا ہے کہ جن جانوروں کے گلے میں خدا کی تخصیص کے پٹے بندھ گئے ان پر حملہ خاض خدا کے گلے پر حملہ کرنا ہے۔ اسی طرح آمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَام کے ساتھ ’یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَبِّھِمْ وَرِضْوَانًا‘ کی صفت کا ذکر اس نہی کو موثر بنانے کے لیے ہے کہ جو اللہ کے بندے، خدا کے فضل اور اس کی خوش نودی کی تلاش میں گھر سے نکلے ہوں ان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہونا خود خدا کے تعرض کرنے کے مترادف ہے۔
دشمن کی دشمنی بھی توہین شعائر کے لیے دلیل جواز نہیں ہے: ’وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ‘ الایۃ ، ’شَنَاٰنُ‘ کے معنی بغض و عداوت کے ہیں اور ’لَا یَجْرِمَنَّکُمْ‘ کے معنی ہیں، تمھارے لیے سبب و محرک نہ بنے، تمھیں آمادہ نہ کرے۔ قوم سے مراد یہاں قریش ہیں اور اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، اس بغض و عداوت کے سبب کی تفصیل ہے۔ یعنی قریش نے تمھیں بیت اللہ سے روک کر ہر چند تمھارے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے لیکن اس چیز کا غم و غصہ بھی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم شعائر الٰہی کے معاملے میں حدودِ الٰہی سے تجاوز کرو۔ ان کے عازمین حج کے قافلوں کو یا ان کے نذر و نیاز کے جانوروں کو کوئی گزند نہ پہنچاؤ۔
دوسروں کی انگیخت پر حدودِ الٰہی سے تجاوز تعاون علی الاثم ہے: ’وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی الایۃ‘ یہ اوپر والی بات ہی کی ایک دوسرے پہلو سے تاکید ہے یعنی جس گروہ کو اللہ نے دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اس کے لیے پسندیدہ روش یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی زیادتیوں سے مشتعل ہو کر خود اسی طرح کی زیادتیاں کرنے لگے، وہ ایسا کرے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے گناہ اور زیادتی کے کام میں تعاون کیا اور شریروں نے برائی کی جو نیو جمائی اس پر اس نے بھی چند ردّے رکھ دیے، حالانکہ اس کا کام نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرنا تھا۔ ۱
اجزا کو سمجھ لینے کے بعد آیت کے مجموعی نظام پر ایک بار پھر نظر ڈال لیجیے۔
اوپر والی آیت میں حالت احرام میں شکار کی ممانعت فرمائی تھی کہ یہ چیز احرام کے تقدس اور اس کے درویشانہ مزاج کے خلاف نیز شعار الٰہی میں سے ایک شعیرہ کی توہین ہے۔ اب اسی تعلق سے تمام شعائر الٰہی کے احترام کی پہلے بحیثیت مجموعی تاکید فرمائی پھر چند مخصوص شعائر کا حوالہ دیا۔ پھر شکار کی ممانعت سے متعلق یہ واضح فرما دیا کہ اس کا تعلق صرف حالتِ احرام سے ہے۔ احرام سے باہر آ جانے کے بعد یہ ممانعت اٹھ جائے گی۔
پھر اس اشتعال انگیز سبب کا ذکر فرمایا جو اس وقت تازہ بتازہ موجود تھا۔ اندیشہ تھا کہ مسلمان اس سے مغلوب ہو کر کوئی ایسی بات کر گزریں جو احترامِ شعائر کے منافی ہو۔ قریش نے ان کو بیت اللہ کے حج و زیارت سے محروم کر رکھا تھا۔ یہ معاملہ نہایت نازک اور صبر آزما تھا اور اب کہ مسلمانوں نے سیاسی قوت حاصل کر لی تھی خاصا اندیشہ اس بات کا تھا کہ اس عہد کے احترام میں ان سے کوئی بے اعتدالی صادر ہو جائے۔ یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ان کو مزلۂ قدم سے ہوشیار کر دے کہ دوسروں کی زیادتیاں بھی ان کے لیے کسی زیادتی کا جواز فراہم نہیں کر سکتیں۔ وہ دنیا میں شعائر الٰہی کا احترام قائم کرنے اور نیکی اور تقویٰ کے علم بردار بن کر اٹھے ہیں۔ اس وجہ سے جب تک اپنے بچاؤ کی ضرورت مجبور نہ کر دے ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی قدم نیکی اور تقویٰ کے خلاف اٹھائیں۔ اس کے بعد نکتے کی بات یہ ارشاد ہوئی کہ دوسروں کے غلط رویے سے متاثر ہو کر انہی کی سی روش اختیار کر لینا درحقیقت ان کی برپا کی ہوئی بدی میں ان کے ساتھ تعاون کرنا ہے، اور یہ چیز اہل ایمان کے شایان شان نہیں ہے اہل ایمان کے شایان شان بات یہ ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کریں۔ دشمن کے ہاتھوں بھی کوئی کام نیکی کا ہو رہا ہو تو اس میں مزاحم ہونے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ آخر میں شَدِیْدُ الْعِقَاب کا حوالہ دینے سے مقصود مسلمانوں کو سخت الفاظ میں تنبیہ ہے کہ عہد الٰہی کی حرمت سخت سے سخت حالات میں بھی قائم رکھنی ہے۔ ورنہ یاد رکھو کہ جس خدا نے تم کو اپنے عہد و میثاق سے دنیا کی امامت کی سرفرازی بخشی ہے، اس کے ہاں نقض میثاق کی پاداش بھی بڑی ہی سخت ہے۔
________
۱ یہ ملحوظ رہے کہ یہاں جس چیز سے روکا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے کے طرزِ عمل سے مشتعل ہو کر کوئی کام جارحانہ طور پر خود مسلمان بھی ایسا کر گزریں جو شعائر الٰہی کے احترام کے منافی ہو۔ اگر مسلمانوں کو اپنے تحفظ اور دفاع کے لیے مجبوراً کوئی قدم اٹھانا پڑے تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ دفاعی جنگ اشہر حرم بلکہ عین حرم میں بھی لڑی جا سکتی ہے۔ بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے۔
ایمان والو، اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو، نہ حرام مہینوں کی، نہ ہدی کے جانوروں کی، نہ (اُن میں سے بالخصوص) اُن جانوروں کی جن کے گلے میں نذر کے پٹے بندھے ہوئے ہوں، اور نہ بیت الحرام کے عازمین کی جو اپنے پروردگار کی عنایتوں اور اُس کی خوشنودی کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ہاں، جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار کر سکتے ہو۔ تمھارے لیے مسجد حرام کا راستہ کچھ لوگوں نے بند کر دیا تھا تواُن کے ساتھ اِس بنا پر تمھاری دشمنی بھی تمھیں ایسا مشتعل نہ کر دے کہ تم حدود سے تجاوز کرو۔ (نہیں، ہر حال میں حدود الٰہی کے پابند رہو) اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو، مگر گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اِس لیے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے
یہ ’شَعِیْرَۃ‘ کی جمع ہے جس کے معنی علامت کے ہیں۔ اصطلاح میں اِس سے مراد وہ مظاہر ہیں جو اللہ اور رسول کی طرف سے کسی حقیقت کا شعور قائم رکھنے کے لیے بطور ایک نشان کے مقرر کیے گئے ہوں، مثلاً حجراسود، استلام اور رمی وغیرہ۔
یہ لفظ قربانی کے اُن جانوروں کے لیے آتا ہے جو ہدیے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لیے بیت الحرام لے جائے جاتے ہیں۔
مدعا یہ ہے کہ یہ اللہ کی حرمتیں ہیں، اِن کے توڑنے میں پہل ایک بدترین جرم ہے۔ اِس کا ارتکاب کسی حال میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔ بیت الحرام پر حملہ خدا کے گھر پر حملہ ہے، جن جانوروں کے گلے میں خدا کی تخصیص کے پٹے بندھ گئے ہیں اور جو اللہ کے بندے اُس کے فضل اور اُس کی خوشنودی کی تلاش میں رخت سفر باندھ کر نکلے ہیں، اُن کو نقصان پہنچانے کے درپے ہونا خود اللہ، پروردگار عالم سے تعرض کرنے کے مترادف ہے۔ اِس وجہ سے کسی قوم کی دشمنی بھی مسلمانوں کو اِس پر آمادہ نہ کرے کہ وہ اِس معاملے میں حدود سے تجاوز کریں۔ اُن پر واضح رہنا چاہیے کہ جو پروردگار اپنے عہد و میثاق سے قوموں پر کرم فرماتا اور اُنھیں سرفرازی بخشتا ہے، اُس کے ہاں اِس عہد و میثاق کے توڑنے کی پاداش بھی بڑی ہی سخت ہے۔
یہ ایک دوسرے پہلو سے اُسی بات کی تاکید ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یعنی جس گروہ کو اللہ نے دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم کرنے کے لیے پیدا کیا ہے، اُس کے لیے پسندیدہ روش یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی زیادتیوں سے مشتعل ہو کر خود اُسی طرح کی زیادتیاں کرنے لگے۔ وہ ایسا کرے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ اُس نے گناہ اور زیادتی کے کام میں تعاون کیا اور شریروں نے برائی کی جو نیو جمائی، اُس پر اُس نے بھی چند ردّے رکھ دیے، حالاں کہ اُس کا کام نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرنا تھا۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۵۵)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خد ا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو۔ نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کر لو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ اُن جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں، نہ اُن لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہوں۔ ہاں جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار تم کرسکتے ہو۔ اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تواس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے۔
ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرز فکر و عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا ” شعار “ کہلائے گی، کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے۔ سرکاری جھنڈے، فوج اور پولیس وغیرہ کے یونیفارم، سکے، نوٹ اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں اور وہ اپنے محکوموں سے، بلکہ جن جن پر ان کا زور چلے، سب سے ان کے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں۔ گرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے شعائر ہیں۔ چوٹی اور زنار اور مندر برہمنیت کے شعائر ہیں۔ کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کا شعار ہیں۔ سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے۔ یہ سب مسلک اپنے اپنے پیرو وں سے اپنے ان شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی نظام کے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ دراصل اس نظام کے خلاف دشمنی رکھتا ہے، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے۔
” شعائر اللہ “ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں۔ ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامور ہیں، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیل کی آلودگی سے انہیں ناپاک نہ کردیا گیا ہو۔ کوئی شخص خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، اگر اپنے عقیدہ و عمل میں خدائے واحد کی بندگی و عبادت کا کوئی جزء رکھتا ہے، تو اس جزء کی حد تک مسلمان اس سے موافقت کریں گے اور ان شعائر کا بھی پورا احترام کریں گے جو اس کے مذہب میں خالص خدا پرستی کی علامت ہوں۔ اس چیز میں ہمارے اور اس کے درمیان نزاع نہیں بلکہ موافقت ہے۔ نزاع اگر ہے تو اس امر میں نہیں کہ وہ خدا کی بندگی کیوں کرتا ہے، بلکہ اس امر میں ہے کہ وہ خدا کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیوں کی آمیزش کیوں کرتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکین عرب کے درمیان جنگ برپا تھی، مکہ پر مشرکین قابض تھے، عرب کے ہر حصے سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے۔ اس وقت حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی، تمہارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو، حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جانور یہ لیے جارہے ہوں ان پر ہاتھ نہ ڈالو، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصہ باقی ہے وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بےاحترامی کا۔
” شعائر اللہ “ کے احترام کا عام حکم دینے کے بعد چند شعائر کا نام لے کر ان کے احترام کا خاص طور پر حکم دیا گیا کیونکہ اس وقت جنگی حالات کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ جنگ کے جوش میں کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی توہین نہ ہوجائے۔ ان چند شعائر کو نام بنام بیان کرنے سے یہ مقصود نہیں ہے کہ صرف یہی احترام کے مستحق ہیں۔
احرام بھی من جملہ شعائر اللہ ہے، اور اس کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کو توڑنا اس کی بےحرمتی کرنا ہے۔ اس لیے شعائر اللہ ہی کے سلسلہ میں اس کا ذکر بھی کردیا گیا کہ جب تک تم احرام بند ہو، شکار کرنا خدا پرستی کے شعائر میں سے ایک شعار کی توہین کرنا ہے۔ البتہ جب شرعی قاعدہ کے مطابق احرام کی حد ختم ہوجائے تو شکار کرنے کی اجازت ہے۔
چونکہ کفار نے اس وقت مسلمانوں کو کعبہ کی زیارت سے روک دیا تھا اور عرب کے قدیم دستور کے خلاف حج تک سے مسلمان محروم کردیے گئے تھے، اس لیے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جن کافر قبیلوں کے راستے اسلامی مقبوضات کے قریب سے گزرتے ہیں، ان کو ہم بھی حج سے روک دیں اور زمانہ حج میں ان کے قافلوں پر چھاپے مارنے شروع کردیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر انہیں اس ارادہ سے باز رکھا۔
اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو نہ ادب والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو جن لوگوں نے تمہیں مسجد احرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر امادہ نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
شعائر شعیرۃ کی جمع ہے اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسے عام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بےحرمتی اور بےتوقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج عمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ مت بنو، کہ یہ بےحرمتی ہے۔
٢۔ ٢ (اشھر الحرام) مراد حرمت والے چاروں مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ مراد یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم سے منسوخ مانا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں دونوں احکام اپنے اپنے دائرے میں ہیں جن میں تعارض نہیں۔
ھَدی ' ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے اور گلے میں پٹہ باندھتے تھے جو کے نشانی کے طور پر ہوتا تھا، مزید تاکید ہے کہ ان جانوروں کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔
یعی حج عمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو اور نہ انہیں تنگ کرو، بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکھٹے حج عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت انما المشرکون نجس الخ نازل ہوئی تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔
٢۔ ٥ یہاں مراد اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔
یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے ٦ ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جا رہا ہے۔
یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کردیا گیا ہے جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے، کاش مسلمان اس اصول کو اپنا لیں۔
تم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور حرام کیا گیا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اور وہ جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، جو چوٹ سے مرا ہو، جو اوپر سے گر کر مرا ہو، جو سینگ لگ کر مرا ہو، جس کو کسی درندے نے کھایا ہو بجز اس کے جس کو تم نے ذبح کر لیا ہو اور وہ جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ کہ تقسیم کرو تیروں کے ذریعے سے۔ یہ سب باتیں فسق ہیں۔ اب یہ کافر تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے تو ان سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو، اب میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔ پس جو بھوک میں مضطر ہو کر، بغیر گناہ کی طرف مائل ہوئے، کوئی حرام چیز کھا لے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے
’میتۃ‘ کی تفصیل: مَیْتَۃ، دَم، لَحْمَ خِنْزِیْر اور ’مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ‘ کا ذکر سورۂ بقرہ کی آیت ۱۷۳ کے تحت گزر چکا ہے۔
مُنْخَنِقَۃُ اس جانور کو کہتے ہیں جو گلا گھٹ کر مر جائے۔
مَوْقُوْذَۃُ جو چوٹ سے مر جائے۔ مثلاً کسی جانور پر دیوار گر پڑی یا وہ کسی ٹرک کے نیچے آ گیا۔
مُتَرَدِّیَۃُ جو اوپر سے نیچے گر کر مر جائے۔
نَطِیْحَۃ جو کسی جانور کی سینگ سے زخمی ہو کر مر جائے۔
مَآ اَکَلَ السَّبُعُ جس کو کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو۔
مذکورہ پانچوں چیزوں کا ذکر درحقیقت میتہ کی تفصیل کے طور پر ہوا ہے اور اس تفصیل سے گویا اس حکم کی تکمیل ہو گئی جو بقرہ اور اس سے پہلے انعام میں بیان ہو چکا ہے۔ اس تفصیل کی ضرورت اس لیے تھی کہ بعض ذہنوں میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ ایک مردار میں جو طبعی موت مرا ہو اور اس جانور میں جو کسی چوٹ یا کسی حادثہ کا شکار ہو کر اچانک مر گیا ہو، کچھ فرق ہونا چاہیے۔ چنانچہ یہ شبہ اس زمانے میں بھی بعض لوگ پیش کرتے ہیں بلکہ بہت سے لوگ تو اسی کو بہانہ بنا کر گردن مروڑی ہوئی مرغی بھی جائز کر بیٹھے۔ قران کی اس تفصیل نے اس شبہے کو صاف کر دیا۔
تھان، استھان اور مزار پر قربانی کی ممانعت: وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ، نُصب تھان اور استھان کو کہتے ہیں۔ عرب میں ایسے تھان اور استھان بے شمار تھے جہاں دیویوں، دیوتاؤں، بھوتوں، جنوں کی خوش نودی کے لیے قربانیاں کی جاتی تھیں۔ قرآن نے اس قسم کے ذبیحے بھی حرام قرار دیے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ ان کے اندر حرمت مجرد با ارادۂ تقرب و خوش نودی، استھانوں پر ذبح کیے جانے ہی سے پیدا ہو جاتی ہے، اس سے بحث نہیں کہ ان پر نام اللہ کا لیا گیا ہے یا کسی غیر اللہ کا۔ اگر غیر اللہ کا نام لینے کے سبب سے ان کو حرمت لاحق ہوتی تو ان کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اوپر ’وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ‘ کا ذکر گزر چکا ہے، وہ کافی تھا۔ ہمارے نزدیک اسی حکم میں وہ قربانیاں بھی داخل ہیں جو مزاروں اور قبروں پر پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں بھی صاحب مزار اور صاحب قبر کی خوش نودی مدنظر ہوتی ہے۔ ذبح کے وقت نام چاہے اللہ کا لیا جائے یا صاحب قبر و مزار کا، ان کی حرمت میں دخل نام کو نہیں بلکہ مقام کو حاصل ہے۔
’استقسام بالازلام‘ کی نوعیت: ’وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ، ’اِسْتِقْسَام‘ کے معنی ہیں حصہ یا قسمت یا تقدیر معلوم کرنا۔ ’ازلام‘ جوئے یا فال کے تیروں کو کہتے ہیں۔ عرب میں فال کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ گوشت یا کسی چیز کے حصے حاصل کرتے تھے۔ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ’خمر و میسر‘ کے تحت بیان کر آئے ہیں کہ عرب شراب نوشی کی مجلسیں منعقد کرتے، شراب کے نشے میں جس کا اونٹ چاہتے ذبح کر دیتے، مالک کو منہ مانگے دام دے کر راضی کر لیتے پھر اس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ گوشت کی جو ڈھیریاں جیتتے جاتے ان کو بھونتے، کھاتے، کھلاتے اور شرابیں پیتے اور بسا اوقات اسی شغل بد مستی میں ایسے ایسے جھگڑے کھڑے کر لیتے کہ قبیلے کے قبیلے برسوں کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے اور سینکڑوں جانیں اس کی نذرہوجاتیں ۔۔۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں ’اِسْتِقْسَام بِالْاَزْلَامِ‘ سے یہی دوسری صورت مراد ہے۔
ذٰلِکُمْ فِسْقٌ، ذٰلِکُمْ کا اشارہ اوپر ذکر کی ہوئی تمام چیزوں کی طرف ہے اور ’فسق‘ کا لفظ یہاں عام فقہی مفہوم میں نہیں ہے بلکہ قرآنی مفہوم میں ہے۔ قرآن میں یہ لفظ کھلی ہوئی نا فرمانی، سرکشی، کفر اور شرک سب کی تعبیر کے لیے آیا ہے۔ ابلیس کے متعلق ہے۔ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ۔
کفار سے معاشرتی انقطاع کا اعلان: اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ الایۃ، ’الیوم‘ سے مراد کوئی معین دن نہیں ہے بلکہ وہ زمانہ ہے جس میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ ہم تمہید میں اشارہ کر آئے ہیں کہ یہ سورہ تمام تر اسلام کے تکمیلی دور کے احکام و ہدایات پر مشتمل ہے۔ کفار کے اس دین سے مایوس ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ اب تک تو وہ اس طمع خام میں مبتلا رہے ہیں کہ وہ اس کو یا تو مغلوب کر لیں گے یا ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول پر کوئی ایسا سمجھوتہ کرلیں گے کہ دونوں کا نباہ ہو سکے۔ لیکن اب ان کی اس طمع خام کا خاتمہ ہو گیا۔ اب انھوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دونوں راہیں ایک دوسری سے اس طرح الگ الگ ہو گئی ہیں کہ اب ان کا کسی نقطۂ اتصال پر جمع ہونا بالکل ناممکن ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے اشتراک کو معاشرتی ارتباط میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ اگر صورت یہ پیدا ہو جائے کہ ایک کے ہاں جو چیزیں حلال و طیب ہوں دوسرے کے ہاں وہ خبیث و حرام قرار دے دی جائیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ دونوں میں مکمل معاشرتی انقطاع کا اعلان ہو گیا اور اب ان دونوں کے مل بیٹھنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے۔ قدرتی طور پر اس چیز نے ان کو اسلام اور مسلمانوں سے آخری درجے میں مایوس کر دیا۔ آخری مایوسی سے بعض مرتبہ آخری جھلاہٹ بھی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مریض کا آخری سنبھالا ہوتی ہے جس کے بعد آخری ہچکی کے سوا کوئی اور چیز باقی نہیں رہ جاتی۔ اس وجہ سے قرآن نے فرمایا کہ اب ان سے اندیشہ ناک ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب وہ زور لگائیں بھی تو ان میں دم کیا ہے۔ اب تم صرف مجھی سے ڈرو۔ ان کی کوئی پروا نہ کرو۔
تکمیل دین اور اتمامِ نعمت: ’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘ الایۃ۔ تکمیل دین سے مراد اصل دین کی تکمیل ہے اور اتمامِ نعمت سے مراد اس آخری شریعت کا اتمام ہے۔ جہاں تک اصل دین کا تعلق ہے اس کا آغاز تو حضرت آدمؑ سے ہوا ہے۔ زمانہ کی رفتار کے ساتھ ساتھ ، حالات اور حکمت الٰہی کے تقاضوں کے مطابق، مختلف انبیا و رسل پر یہ اترتا رہا یہاں تک کہ خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کامل ہو گیا۔ اس سے پہلے جو دین آئے وہ اسی دین کے اجزا تھے۔ ان کی حیثیت پورے دین کی نہیں تھی۔ پورے دین کی حیثیت صرف اسی دین کو حاصل ہے۔ اس حقیقت کے اشارات پچھلے آسمانی صحیفوں میں بھی موجود ہیں جن کے حوالے اس کتاب میں بھی گزر چکے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی اور اس قصر دین کے کونے کی آخری اینٹ ہیں۔
جہاں تک اس آخری امت پر اللہ کی نعمت کا تعلق ہے اس کا آغاز غارِ حرا کی پہلی وحی سے ہوا اور درجہ بدرجہ ۲۳ سال کی مدت میں اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا اتمام فرمایا۔ چنانچہ اس مرحلے میں آ کر ایک طرف اللہ کا دین بھی اپنے کمال کو پہنچ گیا، دوسری طرف اس امت پر اللہ تعالیٰ کی نعمت بھی پوری ہو گئی۔ اسی کا مجموعی نام اسلام ہے جو ہمیشہ سے اللہ کا دین ہے اور جو حضرت ابراہیم ؑ و حضرت اسمٰعیل ؑ کی وراثت کی حیثیت سے نبی امی اور ان کی امت کو منتقل ہوا، وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا میں اس دین کے لیے اللہ تعالیٰ کی اس پسندیدگی اور انتخاب کے اظہار سے بالواسطہ یہودیت اور نصرانیت کے لیے نا پسندیدگی کا اظہار بھی ہو گیا کہ وہ اللہ کے دین نہیں بلکہ دین سے انحراف کی مختلف شکلیں ہیں۔
اضطرار کی شرعی حد: ’فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ‘، مَخْمَصَۃ، کے معنی بھوک کے ہیں۔ بھوک سے مضطر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی بھوک کی ایسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے کہ موت یا حرام میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے سوا کوئی اور راہ بظاہر کھلی ہوئی باقی ہی نہ رہ جائے۔ ایسی حالت میں اس کو اجازت ہے کہ حرام چیزوں میں سے بھی کسی چیز سے فائدہ اٹھا کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ’غَیْرَ مُتَجَانِفٍ‘ کی قید اسی مضمون کو ظاہر کر رہی ہے جو دوسرے مقام میں ’غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ‘ سے ادا ہوا ہے۔ یعنی نہ تو دل سے چاہنے والا بنے اور نہ سدرمق کی حد سے آگے بڑھنے والا۔ ’مَخْمَصَۃ ‘کی قید سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ جہاں دوسرے غذائی بدل موجود ہوں وہاں مجرد اس عذر پر کہ شرعی ذبیحہ کا گوشت میسر نہیں آتا، جیسا کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ملکوں کا حال ہے، ناجائز کو جائز بنا لینے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ گوشت زندگی کے بقا کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔ دوسری غذاؤں سے نہ صرف زندگی بلکہ صحت بھی نہایت اعلیٰ معیار پر قائم رکھی جا سکتی ہے۔ ’غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ‘ کی قید اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ رخصت بہرحال رخصت ہے اور حرام بہرشکل حرام ہے۔ نہ کوئی حرام چیز شیر مادر بن سکتی نہ رخصت کوئی ابدی پروانہ ہے۔ اس وجہ سے یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ رفع اضطرار کی حد سے آگے بڑھے۔ اگر ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شخص کسی حرام سے اپنی زندگی بچا لے گا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اگر اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اپنے حظ نفس کی راہیں کھولے گا تو اس کی ذمہ داری خود اس پر ہے، یہ اجازت اس کے لیے قیامت کے دن عذر خواہ نہیں بنے گی۔
اجزاء کی وضاحت کے بعد آیت کے مجموعی نظام پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ یہ ان حرمتوں کی تفصیل بیان ہو رہی ہے جن کا پہلی آیت میں ’اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ‘ کے الفاظ سے حوالہ دیا گیا تھا۔ اس میں پہلے ان چیزوں کا ذکر ہوا جن کی حرمت پہلے بیان ہو چکی تھی، مزید تاکید اور تکمیل بحث کے طور پر ان کا یہاں بھی اعادہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ’میتہ‘ کی تفصیل فرمائی کہ جس طرح طبعی موت سے مرا ہوا جانور مردار ہے اسی طرح نا گہانی اور اتفاقی حوادث سے مرے ہوئے جانور بھی مردار ہیں۔ دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اسی طرح کسی درندے کا پھاڑا ہوا جانور بھی مردار ہے الا آنکہ تم نے اس کو زندہ پایا ہو اور ذبح کر لیا ہو۔ اسی طرح کسی استھان پر پیش کی ہوئی قربانی اور جوئے کے ذریعے سے تقسیم کیا ہوا گوشت بھی حرام ہے۔ جس طرح غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانور کو شرک کی آلودگی سے حرمت لاحق ہو جاتی ہے اسی طرح غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانور کو شرک کی آلودگی سے حرمت لاحق ہو جاتی ہے اسی طرح غیر اللہ کی خوش نودی اور جوئے سے تعلق سے ان چیزوں کو حرمت لاحق ہو جاتی ہے۔ حرمتوں کا یہ اعلان چونکہ کفار سے کامل معاشرتی انقطاع کے اعلان کے مترادف تھا، اس وجہ سے فرمایا کہ اب کفار تم سے اور تمھارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اب ان کے اندر یہ خم باقی نہیں رہا کہ تمھارے دین کو مغلوب کرنے یا اس کو کچھ نرم بنانے کا حوصلہ کریں۔ اب اگر وہ کچھ کریں گے بھی تو وہ بس مایوسی کا مظاہرہ ہو گا تو تم اس کی پروا نہ کرنا۔ صرف میری ہی پروا کرنا۔ اس کے بعد مسلمانوں کو بشارت دی کہ اب اللہ کا دین بھی تکمیل کی حد کو پہنچا اور تمھاری شریعت بھی اتمام کی منزل کو پہنچی اور اسلام کو خدا نے تمھارے لیے دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔ آخر میں اضطرار کی حالت میں، حرام سے فائدہ اٹھا لینے کی جو رخصت ہے اس کا ذکر فرمایا۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے ’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ الایۃ‘ حجتہ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ نازل تو اسی سلسلے میں حجتہ الوداع سے پہلے ہوئی ہے لیکن اس بشارت کا اعلان عام چونکہ حجتہ الوداع ہی کے موقع پر ہوا اس وجہ سے بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ اس کا نزول اسی موقع پر ہوا ہے۔
تم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور خدا کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے اور (اِسی کے تحت) وہ جانور بھی جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، جو چوٹ سے مرا ہو، جو اوپر سے گر کر مرا ہو، جو سینگ لگ کر مرا ہو، جسے کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو، سواے اُس کے جسے تم نے (زندہ پا کر) ذبح کر لیا۔ (اِسی طرح) وہ (جانور بھی حرام ہیں) جو کسی آستانے پر ذبح کیے گئے ہوں اور یہ بھی کہ تم (اُن کا گوشت) جوے کے تیروں سے تقسیم کرو۔ (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) یہ سب خدا کی نافرمانی کے کام ہیں۔ یہ منکر اب تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں، اِس لیے (اِن حرمتوں کے معاملے میں) اِن سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو۔ تمھارے دین کو آج میں نے تمھارے لیے پورا کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ (سو میرے اِن احکام کی پابندی کرو)، پھر جو بھوک سے مجبور ہو کر اِن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اِس کے کہ وہ گناہ کا میلان رکھتا ہو تو اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے
یہاں سے آگے اب اُنھی حرمتوں کی تفصیل ہے جن کا حوالہ اوپر ’اِلاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ‘ کے الفاظ میں دیا گیا ہے۔
اصل میں لفظ ’مَیْتَۃ‘ آیا ہے۔ یہ اِن احکام میں عرف و عادت کی رعایت سے استعمال ہوا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ عربی زبان میں اِس کا ایک لغوی مفہوم بھی ہے، لیکن یہ جب اِس رعایت سے بولا جائے تو اردو کے لفظ مردار کی طرح اِس کے معنی ہر مردہ چیز کے نہیں ہوتے۔ اِس صورت میں ایک نوعیت کی تخصیص اِس لفظ کے مفہوم میں پیدا ہو جاتی ہے اور زبان کے اسالیب سے واقف کوئی شخص، مثال کے طور پر، مردہ ٹڈی اور مردہ مچھلی کو اِس میں شامل نہیں سمجھتا۔
سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۵ میں اِس کے لیے ’دَمًا مَّسْفُوْحًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کا مفہوم وہی ہے جو عام بول چال میں اِن الفاظ سے سمجھا جاتا ہے۔ تلی اور جگر کے متعلق یہ بات اگرچہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ بھی درحقیقت خون ہیں، لیکن عرف استعمال کا تقاضا ہے کہ اِن پر اِس کا اطلاق نہ کیا جائے۔ اِسی طرح ’مَسْفُوْحًا‘ کی قید سے معلوم ہوتا ہے کہ رگوں اور شریانوں میں رکا ہوا خون بھی حرمت کے اِس حکم سے مستثنیٰ ہے۔
یہ انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے۔ اِس لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ اِسے کھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے وضاحت فرمائی ہے کہ اِس کا الحاق درندوں سے ہوگا اور اِسے حرام سمجھا جائے گا۔
اِس سے پہلے ’مَیْتَۃ‘ کی حرمت کا جو حکم بیان ہوا ہے، اُس کے بارے میں یہ شبہ بعض ذہنوں میں پیدا ہو سکتا تھا کہ طبعی موت سے مرے ہوئے اور ناگہانی حوادث سے مرے ہوئے جانور میں کیا کچھ فرق کیا جائے گا یا دونوں یکساں مردار قرار پائیں گے؟ قرآن نے جواب دیا ہے کہ دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔
اصل میں ’اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’مَیْتَۃ‘ کی تفصیل کے بعد اِن الفاظ سے واضح ہے کہ یہ صرف تذکیہ ہی ہے جس سے کسی جانور کی موت اگر واقع ہو تو وہ مردار نہیں ہوتا۔ تذکیہ انبیا علیہم السلام کی قائم کردہ سنت ہے اور بطور اصطلاح جس مفہوم کے لیے بولا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے جانور کو زخمی کر کے اُس کا خون اِس طرح بہا دیا جائے کہ اُس کی موت خون بہ جانے کے باعث ہی واقع ہو۔ جانور کو مارنے کی یہی صورت ہے جس میں اُس کا گوشت خون کی نجاست سے پوری طرح پاک ہو جاتا ہے۔ اِس کا اصل طریقہ ذبح یا نحر ہے۔ ذبح گائے، بکری اور اُن کے مانند جانوروں کے لیے خاص ہے اور نحر اونٹ اور اُس کے مانند جانوروں کے لیے۔ ذبح سے مراد یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے حلقوم اور مری (غذا کی نالی) یا حلقوم اور ودجین (گردن کی رگوں) کو کاٹ دیا جائے اور نحر یہ ہے کہ جانور کے حلقوم میں نیزے جیسی کوئی تیز چیز اِس طرح چبھوئی جائے کہ اُس سے خون کا فوارہ چھوٹے اور خون بہ کر جانور بالآخر بے دم ہو کر گر جائے۔
اوپر خدا کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے۔ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۵ میں قرآن نے واضح فرمایا ہے کہ اُس کی حرمت کا باعث خود جانور کا ’رِجْس‘، یعنی ظاہری نجاست نہیں، بلکہ ذبح کرنے والے کا ’فِسْق‘ ہے۔ خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کرنا چونکہ ایک مشرکانہ فعل ہے، اِس لیے اُسے ’فِسْق‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ علم و عقیدہ کی نجاست ہے۔ اِس طرح کی نجاست جس چیز کو بھی لاحق ہو جائے، عقل کا تقاضا ہے کہ اُس کا حکم یہی سمجھا جائے۔ قرآن نے یہ دونوں چیزیں اِسی اصول کے تحت ممنوع قرار دی ہیں۔ اِن کے لیے اصل میں ’مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘ اور ’اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِن کی تفسیر لکھتے ہیں:
’’’وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘، ’نُصُب‘ تھان اور استھان کو کہتے ہیں۔ عرب میں ایسے تھان اور استھان بے شمار تھے جہاں دیویوں، دیوتاؤں، بھوتوں، جنوں کی خوشنودی کے لیے قربانیاں کی جاتی تھیں۔ قرآن نے اِس قسم کے ذبیحے بھی حرام قرار دیے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اِن کے اندر حرمت مجرد بارادۂ تقرب و خوشنودی استھانوں پر ذبح کیے جانے ہی سے پیدا ہو جاتی ہے، اِس سے بحث نہیں کہ اِن پر نام اللہ کا لیا گیا ہے یا کسی غیراللہ کا۔ اگر غیراللہ کا نام لینے کے سبب سے اِن کو حرمت لاحق ہوتی تو اِن کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اوپر ’وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ‘ کا ذکر گزر چکا ہے، وہ کافی تھا۔ ہمارے نزدیک اِسی حکم میں وہ قربانیاں بھی داخل ہیں جو مزاروں اور قبروں پر پیش کی جاتی ہیں۔ اُن میں بھی صاحب مزار اور صاحب قبر کی خوشنودی مدنظر ہوتی ہے۔ ذبح کے وقت نام چاہے اللہ کا لیا جائے یا صاحب قبر و مزار کا، اُن کی حرمت میں دخل نام کو نہیں، بلکہ مقام کو حاصل ہے۔
’وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘، ’اِسْتِقْسَام‘ کے معنی ہیں حصہ یا قسمت یا تقدیر معلوم کرنا۔ ’اَزْلَام‘ جوے یا فال کے تیروں کو کہتے ہیں۔ عرب میں فال کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ اپنے زعم کے مطابق غیب کے فیصلے معلوم کرتے تھے اور جوے کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ گوشت یا کسی چیز کے حصے حاصل کرتے تھے۔ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ’خمر و میسر‘ کے تحت بیان کر آئے ہیں کہ عرب شراب نوشی کی مجلسیں منعقد کرتے، شراب کے نشے میں جس کا اونٹ چاہتے ذبح کر دیتے، مالک کو منہ مانگے دام دے کر راضی کر لیتے، پھر اُس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ گوشت کی جو ڈھیریاں جیتتے جاتے، اُن کو بھونتے، کھاتے، کھلاتے اور شرابیں پیتے اور بسااوقات اِسی شغل بدمستی میں ایسے ایسے جھگڑے کھڑے کر لیتے کہ قبیلے کے قبیلے برسوں کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے اور سینکڑوں جانیں اِس کی نذر ہو جاتیں ۔۔۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں ’اِسْتِقْسَام بِالْاَزْلَام‘ سے یہی دوسری صورت مراد ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۵۶)
یعنی اِس بات سے مایوس ہو گئے ہیں کہ وہ اِس دین کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گے۔
اِس ’آج‘ سے مراد کوئی معین دن نہیں ہے، بلکہ وہ زمانہ ہے جس میں یہ سورہ نازل ہوئی ہے۔
یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پہلی وحی سے جو دین تمھیں دینا شروع کیا تھا، اُسے آج پورا کر دیا ہے۔
یعنی یہودیت اور نصرانیت کو نہیں، بلکہ اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ اِس لیے کہ وہ اللہ کا دین نہیں، بلکہ دین سے انحراف کی مختلف صورتیں ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اِن محرمات سے استثنا صرف حالت اضطرار کا ہے اور وہ بھی اِس طرح کہ آدمی نہ خواہش مند ہو اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھنے والا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...’مَخْمَصَۃ‘ کی قید سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ جہاں دوسرے غذائی بدل موجود ہوں وہاں مجرد اِس عذر پر کہ شرعی ذبیحہ کا گوشت میسر نہیں آتا، جیسا کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ملکوں کا حال ہے، ناجائز کو جائز بنا لینے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ گوشت زندگی کے بقا کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔ دوسری غذاؤں سے نہ صرف زندگی، بلکہ صحت بھی نہایت اعلیٰ معیار پر قائم رکھی جا سکتی ہے۔ ’غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ‘ کی قید اِس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ رخصت بہرحال رخصت ہے اور حرام بہرشکل حرام ہے۔ نہ کوئی حرام چیز شیر مادر بن سکتی، نہ رخصت کوئی ابدی پروانہ ہے۔ اِس وجہ سے یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ رفع اضطرار کی حد سے آگے بڑھے۔ اگر اِن پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شخص کسی حرام سے اپنی زندگی بچالے گا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اگر اِس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اپنے حظ نفس کی راہیں کھولے گا تو اِس کی ذمہ داری خود اُس پر ہے۔ یہ اجازت اُس کے لیے قیامت کے دن عذر خواہ نہیں بنے گی۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۵۸)
تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو۔ سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا۔ اور وہ جو کسی آستا نے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو)۔ البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
یعنی وہ جانور جو طبعی موت مر گیا ہو۔
یعنی جس کو ذبح کرتے وقت خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو، یا جس کو ذبح کرنے سے پہلے یہ نیت کی گئی ہو کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی نذر ہے۔ (ملاحظہ ہو سورة بقرہ، حاشیہ نمبر ١٧١) ۔
یعنی جو جانور مذکورہ بالا حوادث میں سے کسی حادثے کا شکار ہوجانے کے باوجود مرا نہ ہو بلکہ کچھ آثار زندگی اس میں پائے جاتے ہوں، اس کو اگر ذبح کرلیا جائے تو اسے کھایا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حلال جانور کا گوشت صرف ذبح کرنے سے حلال ہوتا ہے، کوئی دوسرا طریقہ اس کو ہلاک کرنے کا صحیح نہیں ہے۔ یہ ” ذبح “ اور ” ذکاۃ “ اسلام کے اصطلاحی لفظ ہیں۔ ان سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے جس سے جسم کا خون اچھی طرح خارج ہوجائے۔ جھٹکا کرنے یا گلا گھونٹنے یا کسی اور تدبیر سے جانور کو ہلاک کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خون کا بیشتر حصہ جسم کے اندر ہی رک کر رہ جاتا ہے اور وہ جگہ جگہ جم کر گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔۔ بر عکس اس کے ذبح کرنے کی صورت میں دماغ کے ساتھ جسم کا تعلق دیر تک باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے رگ رگ کا خون کھنچ کر باہر آجاتا ہے اور اس طرح پورے جسم کا گوشت خون سے صاف ہوجاتا ہے۔ خون کے متعلق ابھی اوپر ہی یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حرام ہے، لہٰذا گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خون اس سے جدا ہوجائے۔
اصل میں لفظ ” نُصُب “ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیر اللہ کی نذر و نیاز چڑھانے کے لیے لوگوں نے مخصوص کر رکھا ہو، خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مورت ہو یا نہ ہو۔ ہماری زبان میں اس کا ہم معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا سے، یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو۔
اس مقام پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں ان کی اصل بنیاد ان اشیاء کے طبی فوائد یا نقصانات نہیں ہوتے، بلکہ ان کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔ جہاں تک طبیعی امور کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ دریافت کرنا انسان کا اپنا کام ہے کہ مادی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غزائے صالح بہم پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید ہیں یا نقصان دہ ہیں۔ شریعت ان امور میں اس کی رہنمائی کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لیتی۔ اگر یہ کام اس نے اپنے ذمہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے سنکھیا کو حرام کیا ہوتا۔ لیکن آپ دیکھتے ہی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اس کا، یا ان دوسرے مفردات و مرکبات کا، جو انسان کے لیے سخت مہلک ہیں، سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز پر روشنی ڈالتی ہے وہ دراصل اس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر ہوتا ہے، اور کونسی غذائیں طہارت نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں، اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے صحیح یا غلط ہیں۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے، اور اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسر ہی نہیں ہیں، اور اسی بنا پر انسان نے اکثر ان امور میں غلطیاں کی ہیں، اس لیے شریعت صرف انہی امور میں، اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انہیں اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا برا اثر پڑتا ہے، یا وہ طہارت کے خلاف ہیں، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے۔ بر عکس اس کے جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ان کی حلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان برائیوں میں سے کوئی برائی اپنے اندر نہیں رکھتیں۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ خدا نے ہم کو ان اشیاء کی حرمت کے وجوہ کیوں نہ سمجھائے تاکہ ہمیں بصیرت حاصل ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے وجوہ کو سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ مثلاً یہ بات کہ خون، یا سور کے گوشت یا مردار کے کھانے سے ہماری اخلاقی صفات میں کیا خرابیاں رونما ہوتی ہیں، کس قدر اور کس طرح ہوتی ہیں، اس کی تحقیق ہم کسی طرح نہیں کرسکتے، کیونکہ اخلاق کو ناپنے اور تولنے کے ذرائع ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ اگر بالفرض ان کے برے اثرات کو بیان کر بھی دیا جاتا تو شبہ کرنے ولا تقریباً اسی مقام پر ہوتا جس مقام پر وہ اب ہے، کیونکہ وہ اس بیان کی صحت و عدم صحت کو آخر کس چیز سے جانچتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حرام و حلال کے حدود کی پابندی کا انحصار ایمان پر رکھ دیا ہے۔ جو شخص اس بات پر مطمئن ہوجائے کہ کتاب، اللہ کی کتاب ہے اور رسول، اللہ کا رسول ہے، اور اللہ علیم و حکیم ہے، وہ اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرے گا، خواہ ان کی مصلحت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اور جو شخص اس بنیادی عقیدے پر ہی مطمئن نہ ہو، اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جن چیزوں کی خرابیاں انسانی علم کے احاطہ میں آگئی ہیں صرف انہی سے پرہیز کرے اور جن کی خرابیوں کا علمی احاطہ نہیں ہوسکا ہے ان کے نقصانات کا تختہ مشق بنتا رہے۔
اس آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے اس کی تین بڑی قسمیں دنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حکم ان تینوں پر حاوی ہے :
(١) مشرکانہ فال گیری، جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پوچھا جاتا ہے، یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے، یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکین مکہ نے اس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہبل دیوتا کے بت کو مخصوص کر رکھا تھا۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پوچھنا ہو، یا خون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو، غرض کوئی کام بھی ہو، اس کے لیے ہُبَل کے پانسہ دار ( صاحب القداح) کے پاس پہنچ جاتے، اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہُبَل سے دعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پھر پانسہ دار ان تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا، اور جو تیر بھی فال میں نکل آتا اس پر لکھے ہوئے لفظ کو ہُبَل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔
(٢) توہم پرستانہ فال گیری، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلہ علم غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل، نجوم، جفر، مختلف قسم کے شگون اور نچھتر، اور فال گیری کے بیشمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں۔
(٣) جوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نکل آیا ہے لہٰذا ہزار ہا آدمیوں کی جیب سے نکلا ہوا روپیہ اس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمہ کے بہت سے حل صحیح ہیں، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اس حل کے مطابق نکل آیا ہو جو صاحب معمہ کے صندوق میں بند ہے۔
ان تین اقسام کو حرام کردینے کے بعد قرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے، اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے، اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صورت میں ان کی رضا مندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جاسکتا ہے۔ یا مثلاً دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہوگیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے۔ اس صورت میں ضرورت ہو تو قرعہ اندازی کی جاسکتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالعموم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرمانے تھے جبکہ دو برابر حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آجاتی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دوسرے کو ملال ہوگا۔
” آج “ سے مراد کوئی خاص دن اور تاریخ نہیں ہے بلکہ وہ دور یا زمانہ مراد ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ ہماری زبان میں بھی آج کا لفظ زمانہ حال کے لیے عام طور پر بولا جاتا ہے۔
” کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہوچکی ہے “ ، یعنی اب تمہارا دین ایک مستقل نظام بن چکا ہے اور خود اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ و قائم ہے۔ کفار جو اب تک اس کے قیام میں مانع و مزاحم رہے ہیں، اب اس طرف سے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اسے مٹا سکیں گے اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیت کی طرف واپس لے جاسکیں گے۔ ” لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو “ ، یعنی اس دین کے احکام اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں اب کسی کافر طاقت کے غلبہ و قہر اور در اندازی و مزاحمت کا خطرہ تمہارے لیے باقی نہیں رہا ہے۔ انسانوں کے خوف کی اب کوئی وجہ نہیں رہی۔ اب تمہیں خدا سے ڈرنا چاہیے کہ اس کے احکام کی تعمیل میں اگر کوئی کوتاہی تم نے کی تو تمہارے پاس کوئی ایسا عذر نہ ہوگا جس کی بنا پر تمہارے ساتھ کچھ بھی نرمی کی جائے۔ اب شریعت الہٰی کی خلاف ورزی کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ تم دوسرے کے اثر سے مجبور ہو، بلکہ اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے۔
دین کو مکمل کردینے سے مراد ُس کو ایک مستقل نظام فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نعمت تمام کرنے سے مراد نعمت ہدایت کی تکمیل کردینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچا اور مخلصانہ اقرار ثابت کرچکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجہ قبولیت عطا فرمایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کا جوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر انداز کلام سے خود بخود یہ بات نکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حدود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔
مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر سن ١٠ ہجری میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن جس سلسلہ کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صلح حُدَیبیَہ سے متصل زمانہ (سن ٦ ہجری) کا ہے اور سیاق عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلہ کلام ان فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کردیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے، وَ الْعِلْمُ عِنْدَ اللہ، کہ ابتداءً یہ آیت اسی سیاق کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہوگیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا۔
ملاحظہ ہو سورة بقرہ، حاشیہ نمبر ١٧٢۔
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو، جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو ، اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو، لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں، اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری ہو، یہ سب بدترین گناہ ہیں، آج کفار دین سے ناامید ہوگئے، خبردار ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بیقرار ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے ۔
یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ دیکھیے آیت نمبر ١٧٣۔
گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔
٣۔ ٣ کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مر گیا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھالیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر کوئی بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائے اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔
چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔
٣۔ ٥ نظیحۃ منطوحۃ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کیے وہ مر گیا۔
یعنی شیر چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جیسے ذوناب کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں مر جانے کے باوجود ایسے جانور کو کھالیا جاتا تھا۔
٣۔ ٧ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لیے ہے یعنی منخنقۃ، موقوذۃ، متردیۃ، نطیحۃ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہییں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لیے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب وحرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہے اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔
مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کر کے ایک خاص جگہ بناتے تھے۔ جسے نصب تھان یا آستانہ کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ وما اھل بہ لغیر اللہ ہی کی ایک شکل تھی اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ وماذبح علی النصب میں داخل ہیں۔
وان تستقسموا بالازلام کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے تیر مراد ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھتے تھے۔ ایک افعل (کر) دوسرے میں لاتفعل (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افعل والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا، لاتفعل والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور استمداد بغیر اللہ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کردیا گیا استقسام کے معنی طلب قسم تہیں یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔
یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔
وہ پوچھتے ہیں ان کے لیے کیا چیز حلال ٹھہرائی گئی ہے۔ کہو تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہرائی گئی ہیں۔ اور شکاری جانوروں میں سے جن کو تم نے سدھایا ہے اس علم میں سے کچھ سکھا کر جو خدا نے تم کو سکھایا تو تم ان کے اس شکار میں سے کھاؤ جو وہ تمھارے لیے روک رکھیں اور ان پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے
سدھائے ہوئے جانوروں کے پکڑے ہوئے شکار کا حکم: ’یَسْءَلُوْنَکَ مَا ذَآ اُحِلَّ لَھُمْ‘۔ سوال قرآن کے معروف اسلوب بیان کے مطابق اختصار کے ساتھ نقل ہوا ہے لیکن جواب بتا رہا ہے کہ سوال، سدھائے اور سکھلائے ہوئے جانوروں کے پکڑے ہوئے شکار سے متعلق ہے کہ اگر وہ شکار پکڑیں اور شکار ذبح کی نوبت آنے سے پہلے ہی دم توڑ دے تو اس کا کیا حکم ہے؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا ہو گا کہ اوپر والی آیت میں درندے کے پھاڑے ہوئے جانور کو صرف اس صورت میں جائز بتایا ہے جب اس کو زندہ حالت میں ذبح کر لیا جائے۔
تحریم و تحلیل کے باب میں ایک کلیہ: ’قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ‘۔ یہ جواب کا صرف ایک حصہ ہے جو ایک کلیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کا یہ بھی ایک اسلوب ہے کہ وہ کسی سوال کا جواب دیتا ہے تو اس کا آغاز بالعموم جامع بات سے کرتا ہے کہ جواب صرف سوال ہی تک محدود نہ رہ جائے بلکہ ایک وسیع دائرے میں سائل کی رہنمائی کرے۔ چنانچہ پہلے فرمایا کہ تمھارے لیے ’طیبات‘ حلال ہیں۔ ’طیبات‘ کا لفظ خبائث کا ضد ہے۔ ’طیبات‘ اچھی، ستھری اور پاکیزہ چیزوں کو کہتے ہیں۔ سوال چونکہ جانوروں سے متعلق ہے اس وجہ سے اس سے مراد وہ جانور ہوں گے جو اول تو خود اپنے مزاج، اپنی سرشت اور انسان کے لیے اپنی افادیت اور اپنے اثرات کے لحاظ سے اچھے اور پاکیزہ ہوں۔ ثانیاً ان کو اللہ کے نام پر ذبح کر لیا گیا ہو۔ اس طرح اس سے وہ تمام جانور نکل جائیں گے جو اپنے مزاج اور سرشت کے اعتبار سے انسان کے صالح مزاج سے مناسبت رکھنے والے نہ ہوں۔ مثلاً خنزیر، کتے، بندر، درندے اور شکاری پرندے وغیرہ۔ یا مزاج سے مناسبت رکھنے والے تو ہوں لیکن کسی خارجی سبب سے ان کے اندر خبیث و فساد پیدا ہو گیا ہو۔ مثلاً جانور مر گیا یا غیر اللہ کے نام پر یا کسی استھان پر اس کو ذبح کیا گیا ہو۔ یہ خبائث میں داخل ہیں۔ قرآن کے اس جواب سے یہ رہنمائی ملی کہ شکار کیے ہوئے جانوروں میں بھی حلال صرف طیبات ہیں۔ خبائث اس حلت سے خارج ہیں۔
’وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ‘۔ جوارح، شکاری یا جانوروں کو کہتے ہیں، عام اس سے کہ وہ درندوں میں سے ہوں مثلاً کتے، شیر، چیتے وغیرہ یا پرندوں میں سے مثلاً باز اور شکرے وغیرہ۔
’کلب‘ کتے کو کہتے ہیں۔ اسی سے ’تکلیب‘ بنا لیا ہے جس کے معنی کتے کو شکار کی ٹریننگ دینے کے ہیں۔ ابتداءً تو یہ لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوا لیکن پھر اس کا استعمال شکاری جانوروں کی تربیت کے لیے عام ہو گیا، خواہ کتا ہو یا شکاری درندوں اور پرندوں میں سے کوئی اور جانور۔ تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ سے اس تربیت اور ٹریننگ کی نوعیت کا اظہار ہو رہا ہے کہ تم نے اس سلیقہ سے ان کو کچھ بتایا اور سکھایا ہو جو اللہ نے تم کو سکھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر تربیت میں مربی کے ذوق، اس کے پسند و نا پسند اور اس کے مقصد تربیت کی جھلک ہوتی ہے اور اس چیز کو جس طرح زیر تربیت انسان اپناتا ہے اسی طرح اپنی جبلی استعداد کے حد تک حیوانات بھی اپناتے ہیں۔ یہ چیز سدھائے ہوئے جانوروں کو دوسرے جانوروں سے بالکل الگ کر دیتی ہے اس وجہ سے ایک عام کتے کے شکار اور ایک سدھائے ہوئے کتے کے شکار میں فرق ایک امر فطری ہے۔ بلکہ ایک مسلمان کے تربیت کردہ کتے اور ایک عیسائی کے تربیت کردہ کتے کے میلان اور سلیقہ میں بھی فرق ہو جائے گا۔ میرے نزدیک ’تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ‘ کے الفاظ سے اسی خاص سلیقہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے جو کسی سدھائے ہوئے جانور کو اس کے مسلمان مربی سے ملتا ہے۔ اپنے اس سلیقہ کی وجہ سے یہ جانور اپنے مربی کا آلہ اور جارحہ بن جاتا ہے اور اس کا کیا ہوا شکار اس کے لیے اسی طرح طیب بن جاتا ہے جس طرح اس کے اپنے ہاتھ کا ذبیحہ۔
تربیت یافتہ جانور کی علامت: ’فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ‘، اِمْسَاک کے معنی روکنے اور تھامنے کے ہیں۔ جب اس کے ساتھ علیٰ آئے جیسا کہ ’اَمْسِکُ عَلَیْکَ زوجک‘ میں ہے تو اس کے اندر اختصاص کا مضمون بھی پیدا ہو جاتا ہے یعنی کسی شے کو کسی خاص کے لیے روک یا سینت رکھنا۔ اب یہ سوال کا اصل جواب ہے۔ فرمایا کہ اگر مذکورہ شرائط کے مطابق تربیت کیا ہوا جانور ہو تو اس کے کیے ہوئے شکاروں میں سے وہ شکار تمھارے لیے جائز ہو گا جو وہ خاص تمھارے لیے روک رکھے۔ چونکہ یہاں اختصاص کا مضمون پایا جاتا ہے اس وجہ سے میں ان لوگوں کے مذہب کو زیادہ قوی سمجھتا ہوں جو کہتے ہیں کہ شکاری جانور شکار میں سے کچھ کھا لے تو وہ شکار جائز نہ ہو گا۔ یہی بات بعض احادیث سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ میرے نزدیک اس معاملے میں درندے اور پرندے کے شکار کے درمیان فرق کرنے کی بھی کوئی قوی بنیاد نہیں ہے۔ اس حد تک تربیت جس طرح درندے قبول کر لیتے ہیں، تجربہ کار بتاتے ہیں کہ باز، عقاب، شاہین بھی قبول کر لیتے ہیں۔
’وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ‘ کا مفہوم: ’وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ‘ میں ضمیر مجرور کے مرجع سے متعلق سلف سے تین قول منقول ہیں۔ ایک یہ کہ شکاری جانور کو چھوڑتے وقت اس پر بسم اللہ پڑھ لیا کرو، اس قول کے قائلین کے نزدیک مرجع وَمَا عَلَّمْتُمْ ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر شکار زندہ ہاتھ آ گیا ہو تو اس کو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کر لو۔ اس گروہ کے نزدیک مرجع ’مَآ اَمْسَکْن‘ ہے۔ تیسرایہ کہ اس شکار کو کھاتے وقت اس پر بسم اللہ پڑھ لیا کرو۔ ان لوگوں کے نزدیک اس کا تعلق ’فَکُلُوْا‘ سے ہے۔ ان میں سے پہلے قول کی تائید میں ایک حدیث ہے جو بخاری میں عدی بن حاتم سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑوں اور کوئی دوسرا کتا بھی اس میں شریک بن جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام اپنے کتے پر لیا ہے، دوسرے کتے پر نہیں لیا ہے۔
دوسرے قول میں یہ ضعف ہے کہ جب اوپر یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ درندے کا کھایا ہوا شکار اگر زندہ ہاتھ آ جائے تو اس کو ذبح کر کے کھا سکتے ہو تو تربیت یافتہ جانور کے شکار سے متعلق بعینہٖ اسی حکم کا اعادہ ایک بالکل غیر ضروری بات کا اعادہ ہے۔
تیسرے قول میں اس طرح کا کوئی ضعف یا اشکال اگرچہ نہیں ہے لیکن یہ بات عام آداب طعام سے تعلق رکھنے والی بات ہے، یہاں اس کا محل سمجھ میں نہیں آتا۔
شکار بادیہ نشین قوموں کی ایک معاشی ضرورت ہے: اس سوال اور اس کے جواب کی یہ اہمیت ملحوظ رہے کہ شکار عرب میں محض ایک شوقیہ تفریح نہیں تھا بلکہ ان کے ہاں اس کو معاش کے ایک اہم ذریعے کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی معاش کا انحصار تین چیزوں پر تھا۔ گلہ بانی، تجارت، شکار۔ اس معاشی اہمیت کے سبب سے ان کے ہاں شکاری جانوروں کی تربیت کا فن بھی کافی ترقی کر گیا تھا۔ امراء القیس جب اپنے شعروں میں اپنی کتیا کا ذکر کرتا ہے تو آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کسی کتیا کا ذکر ہے یا کسی شعلہ صفت پُر فن قتالہ کا۔ اور یہ چیز کچھ عربوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کی تمام بادیہ نشین قوموں کی یہ مشترک خصوصیت ہے۔ اس وجہ سے حلت و حرمت کی اس بحث میں یہ سوال پیدا ہوا اور قرآن نے اس کا جواب دیا اور اس جواب سے یہ حقیقت نہایت واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ حلت و حرمت اور پاکی و ناپاکی کے حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے شکار، فن شکار اور شکاری جانور ہر چیز کی اسلام نے عزت بڑھائی ہے۔ ایک تربیت پائے ہوئے درندے کی یہ عزت بڑھائی کہ اس کا پکڑا ہوا شکار اگر ذبح سے پہلے ہی دم توڑ دے جب بھی طیب ہے، اس فن تربیت کی عزت یہ بڑھائی کہ اس کو تعلیم الٰہی کا ایک جزو قرار دیا، اور یہ رہنمائی دی کہ کتوں اور درندوں کی تربیت کے معاملے میں بھی ایک مسلمان کو اپنے مخصوص اسلامی نقطۂ نظر کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ گویا اسلام میں فن شکار بھی دوسروں کے فن شکار سے مختلف مزاج رکھتا ہے۔
آخر میں ’وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ‘ فرما کر اللہ کے مقرر کردہ حدود اور اس کے عہد و پیمان کے احترام کی یاد دہانی یہاں بھی فرما دی کہ شکار کی حرص و ہوس میں خدا کے حدود حلت و حرمت کو نہ بھول جانا ورنہ روز حساب بہت دور نہیں ہے۔ یہ یاد دہانی اس پہلو سے بھی بہت ضروری تھی کہ جب شکار معاشی ضرورت ہو تو اس میں بے احتیاطی کے بڑے امکانات ہیں۔
وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لیے کیا چیز حلال ٹھیرائی گئی ہے؟ کہہ دو: تمام پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جن کو اُس علم میں سے کچھ سکھا کر تم نے سدھا لیا ہے جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے، (اُن کا کیا ہوا شکار بھی حلال ہے)۔ اِس لیے جو وہ تمھارے لیے روک رکھیں، اُس میں سے کھاؤ اور (جانور کو شکار پر چھوڑنے سے پہلے) اُس پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے
یہ سوال اِس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں بعض ایسی چیزوں کی حرمت بیان ہوئی ہے جن کے حلال ہونے کا گمان ہو سکتا تھا۔ اِس کی ایک مثال درندے کے پھاڑے ہوئے جانور ہیں۔ اُن کے بارے میں جب یہ وضاحت کی گئی کہ وہ صرف اُسی صورت میں حلال ہیں جب اُن کو زندہ حالت میں ذبح کر لیا جائے تو سدھائے ہوئے جانوروں کے شکار سے متعلق بھی بعض سوالات پیدا ہو گئے۔ اِس صورت حال میں لوگوں نے پوچھا ہے کہ پھر کیا مناسب نہیں کہ اُنھیں یہ بتا دیا جائے کہ اُن کے لیے حلال کیا کیا چیزیں ہیں؟
اصل میں لفظ ’اَلْطَیِّبٰتُ‘ آیا ہے۔ یہ ’خبائث‘ کا ضد ہے۔ مدعا یہ ہے کہ وہ تمام چیزیں حلال ہیں جو اپنے مزاج اور اپنی سرشت کے لحاظ سے انسانیت کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں اور انسان کا ذوق سلیم جن کو کھانے کے لیے موزوں سمجھتا ہے، الاّ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے اُس کی کسی غلطی کی اصلاح کر دے۔
اصل میں لفظ ’الجَوَارِح‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد شکاری جانور ہیں، عام اِس سے کہ وہ درندوں میں سے ہوں یا پرندوں میں سے۔
یعنی اپنی جبلتوں کو قواعد و ضوابط کا پابند بنا لینے کا جو سلیقہ اللہ نے تمھیں سکھایا ہے، وہی سلیقہ جن جانوروں کو سدھا کر تم نے اُن کے اندر بھی پیدا کر دیا ہے۔
یہ اُس سوال کا جواب ہے جو اوپر کی آیتوں میں ’اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ‘ کی شرط سے پیدا ہوتا ہے۔ فرمایا ہے کہ سدھائے ہوئے جانور کا پھاڑنا ہی تذکیہ ہے۔ لہٰذا اُس کے شکار کو ذبح کیے بغیر کھایا جا سکتا ہے، تاہم اِس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُسے اپنے مالک کے لیے روک رکھے۔ اُس میں سے اُس نے اگر کچھ کھا لیا ہے تو اُس کا کیا ہوا شکار جائز نہ ہو گا۔ اِس کے لیے اصل میں ’مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’اَمْسَکَ‘ کے معنی روکنے اور تھامنے کے ہیں۔ اِس کے ساتھ ’عَلٰی‘ آئے تو اِس کے اندر اختصاص کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی یہی مضمون ہے کہ شکار میں سے جو وہ خاص تمھارے لیے روک رکھیں۔
اصل الفاظ ہیں: ’وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ‘۔ اِن میں ضمیر کا مرجع ہمارے نزدیک ’مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ‘ ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کا مرجع اگر ’مِمَّآ اَمْسَکْنَ‘ کو مانا جائے تو یہ محض اُس بات کا اعادہ ہوگا جو اوپر ’اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ‘ کے الفاظ میں بیان ہو چکی ہے اور اِسے اگر ’فَکُلُوْا‘ سے متعلق مانا جائے تو عام آداب طعام سے متعلق ایک بات کا محل یہاں واضح نہیں ہوتا۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو۔ جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو۔ وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھاسکتے ہو، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ مذہبی طرز خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیت کے شکار ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے۔ اس ذہنیت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلط ہوجاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلال اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنوع تو نہیں۔ یہاں قرآن اسی ذہنیت کی اصلاح کرتا ہے۔ پوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلال ہیں۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل الٹ گیا۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہے بجز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اصول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اس کے جس کی حرمت کی تصریح کردی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دنیا کی وسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا۔ پہلے حلت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دنیا اس کے لیے حرام تھی۔ اب حرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دنیا اس کے لیے حلال ہوگئی۔
حلال کے لیے ” پاک “ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ” پاک “ ہونے کا تعین کس طرح ہوگا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیزیں اصول شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوق سلیم کراہت کرے، یا جنہیں مہذب انسان نے بالعموم اپنے فطری احساس نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے۔
شکاری جانوروں سے مراد کتے، چیتے، باز، شکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے۔ سدھائے ہوئے جانور کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑا ہوا جانور حرام ہے اور سدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال۔
اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ شکار میں سے کچھ کھالیا تو وہ حرام ہوگا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا۔ یہی مسلک امام شافعی کا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا، حتٰی کہ اگر ایک تہائی حصہ بھی وہ کھالے تو بقیہ دوتہائی حلال ہے، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں۔ یہ مسلک امام مالک کا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھالیا ہو تو وہ حرام ہوگا، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہوگا۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جاسکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا۔ یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا ہے۔ اس کے برعکس حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے، کیونکہ اسے تعلیم سے یہ بات سکھائی نہیں جاسکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے۔
یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آیا میں کتے کے ذریعہ سے شکار کرسکتا ہوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تو نہ کھاؤ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا “۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کتا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کتا وہاں موجود ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ” اس شکار کو نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کتے پر لیا تھا نہ کہ دوسرے کتے پر “۔
اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کرلینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہوگا، کیونکہ ابتداءً شکار جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے۔
آپ سے دریافت کرتے ہیں ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھار رکھا ہے، یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھالو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرلیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔
اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور ہر حرام خبیث۔
جوارح جارح کی جمع ہے جو کا سب کے معنی میں ہے۔ مراد شکاری کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ مکلبین کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لیے سدھایا گیا ہو۔ سکھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے۔ جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔
ایسے سدھارے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کر کے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کے اگر اس نے مار بھی ڈالا ہو،
تب بھی مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو (صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید مسلم، کتاب الصید)
اب تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور شریف عورتیں مسلمان عورتوں میں سے اور شریف عورتیں ان اہل کتاب میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی تمھارے لیے حلال ہیں بشرطیکہ ان کو قید نکاح میں لا کر ان کے مہر ان کو دو، نہ کہ بدکاری کرتے ہوئے اور آشنائی گانٹھتے ہوئے۔ اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے گا تو اس کا عمل ڈھے جائے گا اور وہ آخرت میں نامرادوں میں ہو گا
اس آیت میں کوئی مشکل لفظ یا مشکل ترکیب نہیں ہے۔ اس کے لیے تمام اجزاء پچھلی سورتوں میں زیر بحث آ چکے ہیں۔ البتہ اس کا موقع محل اچھی طرح سمجھ لینے کا ہے۔
بریں خوان یغما چہ دشمن چہ دوست: یہ آیت اس انعام عام کا اعلان ہے جو خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعے سے تمام دنیا پر عموماً اور اہل کتاب پر خصوصا ہونے والا تھا۔ پچھلے صحیفوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متعلق جو پیشین گوئیاں وارد ہیں اور جن میں سے بعض کا حوالہ بقرہ اور آل عمران کی تفسیر میں ہم دے چکے ہیں، ان میں یہ تصریح موجود ہے کہ جب آخری نبی آئیں گے تو اہل کتاب کو طیبات و خبائث سے متعلق خدا کے امر و نہی سے آگاہ کریں گے اور حلا ل و حرام کے باب میں ان تمام پابندیوں اور بیڑیوں سے ان کو آزاد کریں گے جو انھوں نے اپنے اوپر یا تو از خود عائد کر رکھی ہیں یا ان کی سرکشی کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کر دی ہیں۔ قرآن مجید نے ان تمام پیشین گوئیوں کا حوالہ سورۂ اعراف میں ان الفاظ میں دیا ہے:
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسَوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبآءِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (الاعراف ۱۵۷:۷)
’’جو لوگ اس رسول، نبی امی کی پیروی کریں گے جس کو اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو جائز کرتا ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے اور ان سے ان کے اس بوجھ اور پابندیوں کو دور کرتا ہے جو ان پر تھیں تو جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے، اس کی تائید و نصرت کریں گے اور اس روشنی کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اتاری گئی، وہی لوگ فلاح پانے والے بنیں گے۔‘‘
یہ انہی باتوں کا حوالہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ظہور میں آنے والی تھیں۔ چنانچہ آپ کے وجود باجود نے ان میں سے ایک ایک بات کی عملاً تصدیق فرما دی۔ آپ نے تمام طیب اور پاکیزہ چیزیں جائز کر دیں جن میں بعض یہود کے ہاں حرام تھیں، تمام خبیث چیزیں حرام ٹھہرائیں جن میں سے بعض یہود و نصاریٰ نے جائز بنا لی تھیں اور وہ تمام پابندیاں اور بیڑیاں ختم کر دیں جو انھوں نے یا تو از خود اپنے اوپر لادی تھیں یا ان کی ضد، سرکشی، کرپزی اور کٹ حجتی کے باعث اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد کی گئی تھیں۔ ۱ اس مرحلے میں آ کر چونکہ یہ کام مکمل ہو چکا تھا اور یہ بات بالکل واضح ہو چکی تھی کہ اہل کتاب نے جو خبیث چیزیں جائز بنائی ہیں محض اپنی بدعت سے جائز بنائی ہیں اور جو طیب چیزیں ان پر حرام ہیں وہ محض ان کی سرکشی کی سزا کے طور پر حرام ہیں، نبی امی کی بعثت کے بعد یہ پابندیاں ختم ہو گئیں تو مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی کہ حرام و حلال اور خبیث و طیب کی اس وضاحت کے بعد اب تم اہل کتاب کا کھانا کھا سکتے ہو اس لیے کہ اب تمھارے لیے کسی خبیث سے آلودہ ہو جانے کا اندیشہ نہیں رہا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی اعلان کر دیا گیا کہ تمھارا کھانا اہل کتاب کے لیے جائز ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نبی امی کی بعثت کے بعد اب وہ تمام پابندیاں ختم ہو گئیں جو ان پر عائد تھیں۔
ایک سوال اور اس کا جواب: ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہود منتظر کب تھے کہ قرآن ان کے لیے مسلمانوں کے کھانے کے جائز ہونے کا اعلان کرے، پھر اس کا فائدہ کیا، یہ تو مفت کرم داشتن کے قسم کی بات ہوئی، اس کا جواب یہ ہے کہ یہود منتظر تو تھے اور منتظر ہوتے کیوں نہ جب کہ ان کے اپنے صحیفوں میں آخری نبی کی پیشین گوئی اس تصریح کے ساتھ موجود تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو تمام اصر و اغلال سے نجات دیں گے، لیکن اس نبی کی بعثت چونکہ ان کے حریفوں یعنی بنی اسمٰعیل کے اندر ہوئی اس وجہ سے جان بوجھ کر، جیسا کہ بقرہ اور آل عمران میں وضاحت ہو چکی ہے، وہ اس کی مخالفت کے درپے ہو گئے اور حسد میں انھوں نے اپنے آپ کو ان تمام رحمتوں اور برکتوں سے محروم کر لیا جن کے سب سے پہلے حق دار وہی تھے۔ اگر وہ نبی امی پرایمان لاتے۔
پھر فرض کیجیے، بنی اسرائیل اس کے منتظرنہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ ان سے فرمایا تھا اس کو تو پورا ہونا تھا۔ ان سے جب یہ وعدہ تھا کہ آخری نبی کے ذریعے سے کھانے پینے کے معاملے میں وہ تمام پابندیاں ان سے اٹھا لی جائیں گی جو ان کی سرکشی کے سبب سے عائد ہوئی ہیں تو جب اس وعدے کے پورا کرنے کا وقت آیا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا کھانا ان کے لیے جائز کر کے یہ وعدہ پورا کر دیا۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے اس کی قدر نہیں کی تو یہ ان کی اپنی محرومی و بد قسمتی ہے۔ ان کی نالائقی کی وجہ سے آخر خدا اپنے وعدے کو کیوں فراموش کرتا؟ سورج چمکتا ہے خواہ کوئی اپنی آنکھیں بند رکھے یا کھلی رکھے۔ نسیم صبح اپنی عطر بیزیوں سے ہر مشامِ جان کو معطر کرنا چاہتی ہے اور اس کے فیض عام کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہر ایک کو فیض یاب کرے لیکن جو محروم القسمت اپنی ناک اور اپنے منہ بند کر لیتے ہیں وہ اس سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اسی طرح رب کریم نے جو سفرۂ نعمت اس امت کے ذریعے سے تمام دنیا کے آگے بچھانا چاہا تھا وہ بچھا دیا اور اس سے متمتع ہونے کی دعوت اہل کتاب کو بھی دے دی۔ انھوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو یہ ان کی اپنی بد قسمتی ہے۔
اہل کتاب کا کھانا اسلامی حدودِ حلت و حرمت کی پابندی کے ساتھ جائز ہے: اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مسلمانوں کو اہل کتاب کے کھانے پینے کی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت جو دی گئی ہے وہ اس وقت دی گئی ہے جب ان کو اس باب کی آخری ہدایات سے آگاہ کیا جا چکا ہے، جب حلال و حرام دونوں اچھی طرح واضح کر دیے گئے ہیں۔ جب اہل کتاب اور مشرکین دونوں کی بدعات کی تفصیل ان کو سنا دی گی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سارے اہتمام کا مقصد مسلمانوں کو یہ بتانا تھا کہ تم دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات رکھو لیکن حلت و حرمت کے ان حدود کی پابندی کے ساتھ جو تمھارے لیے قائم کر دیے گئے ہیں۔ اس آیت میں ’الیوم‘ کا لفظ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اب تمھیں خبیث اور طیب کا پورا امتیاز حاصل ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے تمھیں یہ اجازت دی جا رہی ہے۔ یہ خطرہ نہیں رہا کہ تم ان کے دسترخوان پر بیٹھ کر کسی حرام یا مشتبہ میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ ۲
کتابیات سے جوازِ نکاح کی شرط: اس کے بعد فرمایا کہ جس طرح تمھارے لیے شریف اور پاک دامن مسلمان عورتوں سے نکاح جائز ہے اسی طرح شریف اور پاک دامن کتابیات سے بھی نکاح جائز ہے۔ یہاں لفظ ’’مَحْصَنَات‘‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں تین معنوں میں آیا ہے اور ہم اس کے تینوں معنوں کی وضاحت دوسرے مقام میں کر چکے ہیں۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد با عزت، شریف اور اچھے اخلاق کی عورتیں ہیں۔ یعنی یہ اجازت مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ یہ عورتیں بد چلن، پیشہ ور، آوارہ اور بد قوارہ نہ ہوں۔ جس طرح تمھارے لیے ان کے دسترخوان کی صرف طیبات جائز ہیں اسی طرح ان کی عورتوں میں سے صرف محصنات جائز ہیں۔
ہمارے سلف صالحین میں سے ایک گروہ نے دارالحرب اور دارالکفر میں کتابیات سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کے جواز کے لیے دارالاسلام ہونا بھی ایک شرط ہے۔ مجھے یہ قول بہت ہی قوی معلوم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات انھوں نے فحوائے کلام سے مستنبط کی ہے۔ میں اس کے ماخذ کے لیے لفظ ’الیوم‘ کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی دخل ہے۔ اوپر ’اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘ اور ’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ‘ والی آیات بھی گزر چکی ہیں اور ’فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ‘ بھی ارشاد ہو چکا ہے، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس دور میں کفار کا دبدبہ ختم ہو چکا تھا اور مسلمان ایک ناقابل شکست طاقت بن چکے تھے۔ یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی تو وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا ہو کر تہذیب اور معاشرت اور اعمال و اخلاق میں ان سے متاثر ہوں گے۔ بلکہ توقع تھی کہ مسلمان ان سے نکاح کریں گے تو ان کو متاثر کریں گے اور اس راہ سے ان کتابیات کے عقائد و اعمال میں خوشگوار تبدیلی ہو گی اور عجب نہیں کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔
علاوہ ازیں یہ پہلو بھی قابل لحاظ ہے کہ کتابیات سے نکاح کی اجازت بہرحال علی سبیل التنزل دی گئی ہے۔ اس میں آدمی کے خود اپنے اور اس کے آل و اولاد اور خاندان کے دین و ایمان کے لیے جو خطرہ ہے، وہ مخفی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مردوں کو تو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی لیکن مسلمان عورت کو کسی صورت میں بھی کسی غیر مسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی گئی خواہ کتابی ہو یا غیر کتابی۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اجازت صرف ایک اجازت ہے۔ یہ کوئی مستحسن چیز نہیں ہے۔ اگر ماحول اسلامی تہذیب و معاشرت کا ہو اور آدمی کسی نیک چال چلن کی کتابیہ سے نکاح کر لے تو اس میں مضائقہ نہیں لیکن کافرانہ ماحول میں جہاں کفر اور اہل کفر کا غلبہ ہو اس قسم کا نکاح چاہے اس آیت کے الفاظ کے خلاف نہ ہو لیکن اس کے فحویٰ، اس کی روح اور اس کے موقع و محل کے خلاف ضرور ہے۔
یہ بات یہاں چنداں یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسلام کے بہت سے قوانین دارالاسلام کی شرط کے ساتھ مشروط ہیں۔ اسی طرح بعض رخصتیں اور اجازتیں بھی خاص ماحول اور خاص حالات کے ساتھ مشروط ہیں۔ آگے اس سلسلے کی بعض اہم باتیں بیان ہوں گی۔
’مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ‘ پر ہم تفصیل کے ساتھ سورۂ نساء کی آیات ۲۴-۲۵ کے تحت بحث کر چکے ہیں۔
’کفر بالایمان‘ کا مطلب: ’وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ‘ کفر بالایمان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا اور رسول کو ماننے کا دعویٰ بھی کرے اور ساتھ ہی خدا اور رسول کے احکام کے صریح خلاف محض اپنی خواہشات کی ابتاع میں قانون و شریعت ایجاد کر کے اس پر عمل پیرا بھی ہو۔ یہ وہی ایمان ہے جس کو قرآن نے ’نُوْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کفر و ایمان دونوں کے اس ملغوبہ کی خدا کے ہاں کوئی پوچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان صرف وہ معتبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے شرائط پر ہے۔ جو لوگ اپنے شرائط پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان ان مدعیان ایمان کے منہ پر پھینک مارا جائے گا اور اس قسم کے ایمان کے تحت کیے ہوئے سارے اعمال خدا کے ہاں ڈھے جائیں گے۔ اس پر پیچھے بھی بحث گزر چکی ہے۔
________
۱ اس کی تفصیل سورۂ انعام آیت ۱۴۶ کے تحت آ ئے گی۔
۲ اہل کتاب کے ذبیحہ کے جواز کے لیے بھی کسوٹی یہی ہے جو یہاں بیان ہوئی ہے بلکہ اصلاً تو یہ بحث، جیسا کہ سیاق کلام سے واضح ہے، ذبیحہ ہی سے متعلق ہے۔
تمام پاکیزہ چیزیں اب تمھارے لیے حلال ٹھیرا دی گئی ہیں۔ (چنانچہ) اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا اُن کے لیے حلال ہے۔ (اِسی طرح شرک و توحید کے حدود بھی واضح ہو گئے ہیں، لہٰذا) مسلمانوں کی پاک دامن عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں اور اُن لوگوں کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم اُن کے مہر اُنھیں ادا کر دیتے ہو، اِس شرط کے ساتھ کہ تم بھی پاک دامن رہنے والے ہو نہ بدکاری کرنے والے اور نہ چوری چھپے آشنائی کرنے والے۔ (اپنے ایمان کو، البتہ ہر حال میں خالص رکھو) اور (جانتے رہو کہ) جو ایمان کے منکرہوں گے، اُن کی سب محنت ضائع ہو ئی اور قیامت کے دن وہ نامرادوں میں سے ہوں گے
یعنی خبائث میں سے جن چیزوں کے بارے میں کوئی شبہ ہو سکتا تھا، اُسے پوری طرح دور کردینے کے بعد اب تمام پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال کر دی گئی ہیں اور وہ تمام پابندیاں ختم ہو گئی ہیں جو یہود نے یا تو ازخود اپنے اوپر عائد کر لی تھیں یا اُن کی ضد، ہٹ دھرمی اور سرکشی کے باعث اللہ تعالیٰ نے اُن پر لگا دی تھیں۔
مطلب یہ ہے کہ حلال و حرام اور خبیث و طیب کے ہر لحاظ سے واضح ہو جانے کے بعد اب کوئی اندیشہ نہیں رہا کہ تم کسی حرام اور خبیث چیز سے آلودہ ہو سکتے ہو، اِس لیے طیبات تمھارے دستر خوان پر ہوں یا اہل کتاب کے، دونوں کے لیے جائز ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو ایک دوسرے کاذبیحہ بھی تمھارے لیے جائز ہے۔ اہل کتاب اِسے نہ مانیں تو یہ اُن کی بدقسمتی ہے۔ تمھارے پروردگار نے تو جو وعدہ اُن سے کیا تھا، وہ تمھارا کھانا اُن کے لیے جائز کر کے پورا کر دیا ہے اور خورونوش کے معاملے میں وہ تمام پابندیاں اٹھا لی ہیں جو اُن کی سرکشی کے باعث اُن پر عائد کی گئی تھیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اُنھوں نے اِس کی قدر نہیں کی تو یہ اُن کی اپنی محرومی و بدقسمتی ہے۔ اُن کی نالائقی کی وجہ سے آخر خدا اپنے وعدے کو کیوں فراموش کرتا؟ سورج چمکتا ہے، خواہ کوئی اپنی آنکھیں بند رکھے یا کھلی رکھے۔ نسیم صبح اپنی عطربیزیوں سے ہر مشام جان کو معطر کرنا چاہتی ہے اور اُس کے فیض عام کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہر ایک کو فیض یاب کرے، لیکن جو محروم القسمت اپنی ناک اور اپنے منہ بند کر لیتے ہیں، وہ اُس سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اِسی طرح رب کریم نے جو سفرۂ نعمت اِس امت کے ذریعے سے تمام دنیا کے آگے بچھانا چاہا تھا، وہ بچھا دیا اور اُس سے متمتع ہونے کی دعوت اہل کتاب کو بھی دے دی۔ اُنھوں نے اِس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو یہ اُن کی اپنی بدقسمتی ہے۔‘‘ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسلمان نہ مشرک عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں اور نہ اپنی عورتیں مشرکین کے نکاح میں دے سکتے ہیں۔ یہ حکم جس طرح مشرکین عرب سے متعلق تھا، اِسی طرح اشتراک علت کی بنا پر یہود و نصاریٰ سے بھی متعلق ہو سکتا تھا، کیونکہ علم و عمل، دونوں میں وہ بھی شرک جیسی نجاست سے پوری طرح آلودہ تھے، تاہم اصلاً چونکہ توحید ہی کے ماننے والے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے رعایت فرمائی اور اُن کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی ہے۔ آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اُس وقت دی گئی، جب حلال و حرام اور شرک و توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ اِس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ’اَلْیَوْمَ‘ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اجازت میں شرک و توحید کے وضوح اور شرک پر توحید کے غلبے کو بھی یقیناً دخل تھا۔ لہٰذا اِس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان اِن عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ اُن سے لازماً متاثر ہوں گی اور شرک و توحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوگا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ اُن میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ یہ چیز اِس اجازت سے فائدہ اٹھاتے وقت اِس زمانے میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے۔
یعنی ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے اپنے علم و عمل میں کفروشرک اختیار کرتے یا اُن کے ساتھ مصالحت روا رکھتے ہیں۔
آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی، بشر طیکہ تم اُن کے مہر ادا کر کے نکاح میں اُن کے محافظ بنو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو۔ اور جو کسی نے ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔
اہل کتاب کے کھانے میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے۔ ہمارے لیے ان کا اور ان کے لیے ہمارا کھانا حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ اور کوئی چھوت چھات نہیں ہے۔ ہم ان کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ۔ لیکن یہ عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرما دیا گیا ہے کہ ” تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں “۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب اگر پاکی و طہارت کے ان قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطہ نظر سے ضروری ہیں، یا اگر ان کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً اگر وہ خدا کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں، یا اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیں، تو اسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں۔ اسی طرح اگر ان کے دسترخوان پر شراب یا سور یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔
اہل کتاب کے سوا دوسرے غیر مسلموں کا بھی یہی حکم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذبیحہ اہل کتاب ہی کا جائز ہے جبکہ انہوں نے خدا کا نام اس پر لیا ہو، رہے غیر اہل کتاب، تو ان کے ہلاک کیے ہوئے جانور کو ہم نہیں کھا سکتے۔
اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ نکاح کی اجازت صرف انہی کی عورتوں سے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی گئی ہے کہ وہ محصنات (محفوظ عورتیں) ہوں۔ اس حکم کی تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ ابن عباس (رض) کا خیال ہے کہ یہاں اہل کتاب سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوں۔ رہے دارالحرب اور دارالکفر کے یہود و نصاریٰ ، تو ان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں۔ حنفیہ اس سے تھوڑا اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بیرونی ممالک کے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا حرام تو نہیں ہے مگر مکروہ ضرور ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن المُسَیِّب (رض) اور حَسَن بصری رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں کہ آیت اپنے حکم میں عام ہے لہٰذا ذمی اور غیر ذمی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر محصنات کے مفہوم میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت عمر (رض) کے نزدیک اس سے مراد پاک دامن، عصمت مآب عورتیں ہیں اور اس بنا پر وہ اہل کتاب کی آزاد منش عورتوں کو اس اجازت سے خارج قرار دیتے ہیں۔ یہی رائے حسن رحمہ اللہ، شَعبِی رحمہ اللہ اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی ہے۔ اور حنفیہ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔ بخلاف اس کے امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ لونڈیوں کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے، یعنی اس سے مراد اہل کتاب کی وہ عورتیں ہیں جو لونڈیاں نہ ہوں۔
اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے کے بعد یہ فقرہ اس لیے تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اس اجازت سے فائدہ اٹھائے وہ اپنے ایمان و اخلاق سے ہوشیار رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کے عشق میں مبتلا ہو کر یا اس کے عقائد اور اعمال سے متاثر ہو کر وہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے، یا اخلاق و معاشرت میں ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔
کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ یعنی ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہی کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔
اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر عورتوں میں عام ہے۔ دوسرے اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کی ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں محتاج وضاحت نہیں۔ درآنحالانکہ ایمان کو بچانا فرض ہے، ایک جائز کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لیے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک دونوں مذکورہ چیزیں مفقود نہ ہوجائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہو سکتے ہیں ؟ واللہ اعلم۔
اے ایمان والو، جب تم تماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھوؤ اور اگر حالت جنابت میں ہو تو غسل کر لو، اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی جائے ضرور سے آیا ہو یا عورتوں سے ملاقات کی ہو، پھر پانی نہ پاؤ تو پاک جگہ دیکھ کر اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو، اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم اس کے شکر گزار ہو
وضو سے طہارت حاصل کرنے کا طریقہ ’اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ، ’قَامَ‘ کے بعد جب ’الٰی‘ آتا ہے تو اس کے معنی قصد کرنے کے ہوتے ہیں۔ یعنی جب تم نماز کا قصد کرو تو اس کے لیے طہارت حاصل کر لو۔ پھر اس طہارت کا طریقہ بتایا ہے جس پر ہم خود بھی پیچھے بحث کر چکے ہیں اور اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بھی ثابت ہے اور عقل و فطرت بھی گواہی دیتی ہے کہ ایک مرتبہ کی حاصل کردہ طہارت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک کوئی ناقض حالت پیش نہ آ جائے۔ اس وجہ سے یہ ہدایت اس حالت کے لیے ہے جب آدمی کا وضو باقی نہ ہو، اگر باقی ہو توتازہ وضو کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرکوئی شخص نشاطِ خاطر حاصل کرنے کے لیے تازہ وضو کر لے تو یہ فضیلت تو ضرور ہے لیکن شریعت کا مطالبہ نہیں ہے۔
رہے یہ سوالات کہ دھونے کا طریقہ کیا ہے۔ مذکورہ اعضا ایک ایک بار دھوئے جائیں یا دو دو تین تین بار، مل مل کے دھوئے جائیں یا صرف پانی بہا لیا جائے۔ کنپٹی، داڑھی اور کہنیوں کے معاملے میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے تو ان کا تعلق احکام سے نہیں بلکہ آداب سے ہے اور آداب سیکھنے کا بہترین ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ کی سنت سے جو باتیں ثابت ہوں خواہ اس کی شکلیں مختلف ہوں، سب میں خیر و برکت ہے۔
’وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُمْ‘ مسح، کے معنی ہاتھ پھیرنے کے ہیں اور حرف ’ب‘ اس طرح کے مواقع میں احاطہ کے مفہوم پر دلیل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے مجھے ان لوگوں کا مسلک قوی معلوم ہوتا ہے جو پورے سر کے مسح کے قائل ہیں۔ اگرچہ عمامہ وغیرہ کی صورت میں رفع زحمت کے پہلو سے سر کے جزوی حصے کا مسح بھی کافی ہے۔
’وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْن‘ اس کا عطف ’اَیْدِیْکُمْ‘ پر ہے۔ اس وجہ سے یہ ان اعضا کے تحت داخل ہے جن کے لیے دھونے کا حکم ہے۔ وضو میں اعضا کی ترتیب واضح کرنے کے لیے اس کو موخر کر دیا گیا ہے۔ جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ ترتیب فطری بھی ہے اور شرعی بھی۔ بعض لوگوں نے اس کو مسح کے تحت داخل کیا ہے لیکن یہ قول متواتر قراء ت اور متواتر سنت کے بھی خلاف ہے اور عربیت کے بھی۔ اگر پاؤں کا مسح ہوتا تو اس کے ساتھ ’اِلَی الْکَعْبَیْن‘ کی قید بالکل غیر ضروری تھی۔ چنانچہ دیکھ لیجیے، وضو میں ہاتھ دھونے کے لیے ’اِلَی الْمَرَافِقِ‘ کی قید لگائی ہے لیکن تیمم میں جہاں مسح کا حکم دیا گیا ہے ’اِلَی الْمَرَافِقِ‘ کی پابندی اڑا دی اس لیے کہ مسح میں اس قسم کی پابندی ایک بالکل غیر مفید بات تھی۔
’وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا الایۃ‘ یہ ٹکڑا معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ سورۂ نساء آیت ۴۳ میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں ہم تفصیل کے ساتھ بحث کر چکے ہیں۔
وضو اور تیمم کے احکام کی علت و حکمت: ’مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ الایۃ‘ اب یہ اس حکم کی علت و حکمت بیان ہو رہی ہے کہ اگر کچھ لوگوں نے ان پابندیوں کو سخت محسوس کیا ہو تو ان پر ان کی افادیت واضح ہو جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ غیر عادی طبائع پر غسل اور وضو کی یہ پابندی ہے بڑی شاق اور بڑی آزمائش کی چیز لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی بندوں کو مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں عائد کی ہے۔ اگر مشقت مقصود ہوتی تو بیماری اور سفر وغیرہ کی حالت میں تیمم کی اجازت کیوں مرحمت ہوتی؟ بلکہ یہ بندوں کو پاکیزہ بنانے کے لیے عائد کی گئی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خدا اور اس کے قدوسیوں کا قرب حاصل کرنے کے اہل ہو سکیں۔ اصلاً تو پاکیزگی باطن کی مطلوب ہے اور نماز باطن ہی کی پاکیزگی کے لیے فرض کی گئی ہے لیکن طاہر اور باطن میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ ظاہر کا اثر باطن پر اور باطن کا اثر ظاہر پر پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اسلام نے نماز کے لیے وضو کا حکم دیا ہے اور ناپاکی کی حالت ہو تو غسل کا۔ یہ چیز اس باطنی طہارت کے حصول میں معین ہے جو نماز کا اصل مقصود ہے۔
’وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ‘ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز کے باب میں وضو اور تیمم کے ان احکام کے بعد اللہ کی نعمت تم پر تمام کی گئی۔ سورۂ نساء میں تیمم پر بحث کرتے ہوئے ہم اشارہ کر آئے ہیں کہ یہود کے ہاں طہارت کے معاملے میں بڑی سخت قیدیں اور پابندیاں تھیں۔ اول تو ان کی شریعت کے احکام تھے ہی سخت، پھر ان پر مزید اضافہ ان کے فقہا کے تشددات نے کر دیا تھا۔ تیمم کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا اور یہ بات تو ان کے ہاں انتہائی بد دینی کی تھی کہ کوئی شخص حدث و جنابت کی حالت میں، خواہ کیسی ہی معذوری و مجبوری ہو، مجرد تیمم پر اکتفا کر کے نماز پڑھ لے۔ چنانچہ قرآن میں جب تیمم کی اجازت نازل ہوئی تو اس کا انھوں نے نہ صرف مذاق اڑایا بلکہ اس کو دلیل بنا کر یہاں تک کہنے لگے کہ ان مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ تو مکہ کے مشرکین ہیں۔ یہود کے یہ تشددات بھی منجملہ ان اصر و اغلال کے تھے جو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دور ہونے والے تھے چنانچہ تیمم کی اجازت نے طہارت کے باب میں اللہ کی نعمت کا اتمام فرمایا اور اس اتمامِ نعمت سے اس امت کو جو سہولتیں اور برکتیں حاصل ہوئیں ان پر ہر آن شکر واجب ہے۔
ایمان والو، (یہی پاکیزگی خدا کے حضور میں آنے کے لیے بھی چاہیے، لہٰذا) جب نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں بھی دھو لو، اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔ اور اگر (کبھی ایسا ہو کہ) تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے یا عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تم کوپانی نہ ملے تو کوئی پاک جگہ دیکھو اور اُس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اللہ تم پرکوئی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا، لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمھیں پاکیزہ بنائے (چنانچہ وضو اور غسل کا پابند بناتا ہے) اور (چاہتا ہے کہ) اپنی نعمت تم پر تمام کرے ،(اِس لیے مجبوری کی حالت میں تیمم کی اجازت دیتا ہے) تاکہ تم اُس کے شکرگزار ہو
یہ نماز کے لیے وضو کا طریقہ بتایا ہے کہ پہلے منہ دھویا جائے، پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے جائیں، پھر پورے سر کا مسح کیا جائے اور اِس کے بعد پاؤں دھو لیے جائیں۔ پورے سر کا مسح اِس لیے ضروری ہے کہ اِس حکم کے لیے آیت میں ’وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں اور عربیت کے ادا شناس جانتے ہیں کہ ’ب‘ اِس طرح کے مواقع میں احاطے پر دلیل ہوتی ہے۔ اِسی طرح پاؤں کا حکم، اگرچہ بظاہر خیال ہوتا ہے کہ ’وَامْسَحُوْا‘ کے تحت ہے، لیکن ’اَرْجُلَکُمْ‘ منصوب ہے اور اِس کے بعد ’اِلَی الْکَعْبَیْنِ‘ کے الفاظ ہیں جو پوری قطعیت کے ساتھ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ اِس کا عطف ’اَیْدِیَکُمْ‘ پر ہے، اِس لیے کہ یہ اگر ’بِرُءُ وْسِکُمْ‘ پر ہوتا تو اِس کے ساتھ ’اِلَی الْکَعْبَیْنِ‘ کی قید غیرضروری تھی۔ تیمم میں دیکھ لیجیے کہ جہاں مسح کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ’اِلَی الْمَرَافِقِ‘ کی قید اِسی بنا پر ختم کر دی ہے۔ چنانچہ پاؤں لازماً دھوئے جائیں گے۔ آیت میں اِن کا ذکر محض اِس وجہ سے موخر کر دیا گیا ہے کہ وضو میں اعضا کی ترتیب سے متعلق کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو جائے۔
اِس سے واضح ہے کہ جنابت کے بعد غسل ضروری ہے، اِس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اِس غسل کے لیے یہاں ’فَاطَّھَّرُوْا‘ اور اِس سے پہلے سورۂ نساء (۴) کی آیت ۴۳ میں ’تَغْتَسِلُوْا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ الفاظ تقاضا کرتے ہیں کہ جنابت کا یہ غسل پورے اہتمام کے ساتھ کیا جائے۔
اصل الفاظ ہیں: ’اَوْجَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآءِطِ‘۔ لفظ ’غائط‘ عربی زبان میں نشیبی زمین کے لیے آتا ہے۔ یہاں یہ رفع حاجت سے کنایہ ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ دیہاتی زندگی میں لوگ اِس مقصد کے لیے بالعموم نشیبی زمینوں ہی میں جاتے ہیں۔
سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی صورت میں وضو اور غسل، دونوں مشکل ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ آدمی تیمم کر سکتا ہے۔ اِس کا طریقہ اِن آیتوں میں اور اِس سے پہلے سورۂ نساء (۴) کی آیت ۴۳ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی پاک جگہ دیکھ کر اُس سے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت فرمائی ہے کہ تیمم ہر قسم کی نجاست میں کفایت کرتا ہے۔ وضو کے نواقض میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو اُس کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے اور مباشرت کے بعد غسل جنابت کی جگہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح صراحت فرمائی ہے کہ مرض اور سفر کی حالت میں پانی موجود ہوتے ہوئے بھی آدمی تیمم کر سکتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...مرض میں وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے، اِس وجہ سے یہ رعایت ہوئی ہے۔ اِسی طرح سفر میں مختلف حالتیں ایسی پیش آ سکتی ہیں کہ آدمی کو تیمم ہی پر قناعت کرنی پڑے۔ مثلاً یہ کہ پانی نایاب تو نہ ہو، لیکن کم یاب ہو، اندیشہ ہو کہ اگر غسل وغیرہ کے کام میں لایا گیا تو پینے کے لیے پانی تھڑ جائے گا یا یہ ڈر ہو کہ اگر نہانے کے اہتمام میں لگے تو قافلے کے ساتھیوں سے بچھڑ جائیں گے یا ریل اور جہاز کا ایسا سفر ہو کہ غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو۔‘‘ اِس میں شبہ نہیں کہ تیمم سے بظاہر کوئی پاکیزگی تو حاصل نہیں ہوتی، لیکن اصل طریقۂ طہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ شریعت میں یہ چیز بالعموم ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جب اصلی صورت میں کسی حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو شبہی صورت میں اُس کی یادگار باقی رکھی جائے۔ اِس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی طبیعت اصلی صورت کی طرف پلٹنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نماز کے لیے اٹھو تو چاہیے کہ اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو، سروں پر ہاتھ پھیر لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔ اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے کام لو، بس اُس پر ہاتھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو۔ اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا، مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منہ دھونے میں کلی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے، بغیر اس کے منہ کے غسل کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اور کان چونکہ سر کا ایک حصہ ہیں اس لیے سر کے مسح میں کانوں کے اندرونی و بیرونی حصوں کا مسح بھی شامل ہے۔ نیز وضو شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھو لینے چاہییں تاکہ جن ہاتھوں سے آدمی وضو کر رہا ہو وہ خود پہلے پاک ہوجائیں۔
جنابت خواہ مباشرت سے لاحق ہوئی ہو یا خواب میں مادہ منویہ خارج ہونے کی وجہ سے، دونوں صورتوں میں غسل واجب ہے۔ اس حالت میں غسل کے بغیر نماز پڑھنا یا قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورة نساء، حواشی نمبر ٦٧، ٦٨ و ٦٩) ۔
تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة نساء حاشیہ نمبر ٦٩ و ٧٠۔
جس طرح پاکیزگی نفس ایک نعمت ہے اسی طرح پاکیزگی جسم بھی ایک نعمت ہے۔ انسان پر اللہ کی نعمت اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے جبکہ نفس و جسم دونوں کی طہارت و پاکیزگی کے لئے پوری ہدایت اسے مل جائے۔
اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کہنیوں سمیت دھو لو ۔ اپنے سروں کو مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرلو ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم سے کوئی حاجت ضروری فارغ ہو کر آیا ہو، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔
منہ دھوؤ، یعنی ایک ایک دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔
مسح پورے سر کا کیا جائے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوں کا مسح کرلے۔
ارجلکم کا عطف وجوھکم پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ !
جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض اور نفاس کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے (فتح القدیر)
اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورة نساء کی آیت نمبر ٢٣ میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں پر رکنا یا رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لئے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر (رض) نے آیت سن کر کہا اے آل ابی بکر ! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لئے برکتیں نازل فرمائی ہیں یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ (تم لوگوں کے لئے سراپا برکت ہو) (صحیح بخاری)
اس لئے تیمم کی اجازت فرما دی ہے۔
اسی لئے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے دعا یاد کرلی جائے
اور اپنے اوپر اللہ کے فضل کو اور اس کے اس میثاق کو یاد رکھو جو اُس نے تم سے لیا، جب کہ تم نے اقرار کیا کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سینوں کے بھیدوں سے بھی باخبر ہے
اب یہ اس اتمامِ نعمت کا حق بتایا ہے کہ اللہ نے اپنی آخری اور کامل شریعت تم پر نازل کر کے جو فضل و انعام فرمایا ہے اور تم کو جو عزت و سرفرازی بخشی ہے، یہود کی طرح اس کو بھول نہ جانا بلکہ اس کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ ’یاد رکھنا‘ اپنے حقیقی مفہوم میں ہے۔ یعنی ظاہراً و باطناً ہر پہلو سے اس کا حق ادا کرنا۔ اس کے بعد اس ذمہ داری کی نوعیت واضح فرما دی کہ یہ تمھارے اور تمھارے رب کے درمیان ایک مضبوط میثاق کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ خدا نے تمھارے لیے دنیا و آخرت کی کامرانیوں کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ اسی میثاق پر منحصر ہیں۔ اگر تم نے اس کو توڑا تو اس کی سزا بڑی ہی سخت ہے۔ اس لیے اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ بات یاد رکھو کہ خدا دلوں کے بھیدوں سے بھی و اقف ہے۔
(اِس رعایت سے فائدہ اٹھاؤ) اور اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کو یاد رکھو اور اُس کے اُس عہد و میثاق کو بھی جو اُس نے اُس وقت تم سے ٹھیرایا جب تم نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم فرماں بردار ہیں، (اِسے یاد رکھو) اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک، اللہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے
یاد رکھنے کی یہ ہدایت اپنے حقیقی مفہوم میں ہے، یعنی ظاہر و باطن میں ہر پہلو سے اِس اتمام نعمت کا حق ادا کیا جائے۔
یعنی اِس عہد و میثاق کو یاد رکھو کہ سمع و طاعت پر قائم رہو گے تو اللہ تمھاری مغفرت کرے گا اور قیامت کے دن ایک اجر عظیم تمھیں عطا فرمائے گا۔ آگے آیت ۹ میں اِس کی وضاحت فرما دی ہے۔
اللہ نے تم کو جو نعمت عطا کی ہے اس کا خیال رکھو اور اُس پختہ عہد و پیمان کو نہ بھولو جو اُس نے تم سے لیا ہے، یعنی تمہارا یہ قول کہ، “ہم نے سنا اور اطاعت قبول کی۔” اللہ سے ڈرو، اللہ دلوں کے راز تک جانتا
ہے۔
یعنی یہ نعمت کہ زندگی کی شاہراہ مستقیم تمہارے لیے روشن کردی اور دنیا کی ہدایت و رہنمائی کی منصب پر تمہیں سرفراز کیا۔
تم پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہدہ ہوا ہے جبکہ تم نے سنا اور مانا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔
اے ایمان والو، عدل کے علم بردار بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو۔ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے باخبر ہے
میثاقِ شریعت کی ذمہ داری امت مسلمہ پر: ’کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ‘ تھوڑے سے تغیرالفاظ کے ساتھ یہ ٹکڑا سورۂ نساء کی آیت ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں اس کی وضاحت ہو چکی ہے۔ یہ اسی میثاق کی اجتماعی ذمہ داری واضح کی گئی ہے کہ مسلمانوں پر بحیثیت امت مسلمہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حق و عدل کے علم بردار بنیں جو اس آخری شریعت کی شکل میں ان کو عطا ہوا ہے۔ خود اپنے اندر اس کو قائم کریں اور اسی کی شہادت دنیا کے سامنے رکھیں۔
’وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ‘ یہ ٹکڑا اسی سورہ کی آیت ۲ میں گزر چکا ہے۔ یہ حق و عدل کی راہ کے سب سے بڑے فتنے سے آگاہ کیا گیا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی اور اس کا غلط سے غلط رویہ بھی ہمیں اس حق و عدل سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ شیطان نے راہِ حق سے گمراہ کرنے میں سب سے زیادہ جس حربے سے کام لیا وہ یہی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا حربہ ہے۔ یہود نے محض بنی اسمٰعیل اور مسلمانوں کی دشمنی میں اس تمام عہد و پیمان کو خاک میں ملا دیا جس کے وہ گواہ اور ذمہ دار بنائے گئے تھے۔ اس وجہ سے مسلمانوں سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ شیطان کے اس فتنے سے بچ کے رہیں۔ دوستوں اور دشمنوں دونوں کے لیے ان کے پاس بس ایک ہی باٹ اور ایک ہی ترازو ہو۔
’اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی‘ یہی عدل، تقویٰ سے اقرب ہے۔ یعنی تقویٰ جو تمام دین و شریعت کی روح اور اہل ایمان کے ہر قول و فعل کے لیے کسوٹی ہے۔ اس سے موافقت رکھنے والا طرزِ عمل یہی ہے کہ دشمن کی دشمنی کے باوجود اس کے ساتھ کوئی معاملہ عدل و حق سے ہٹ کر نہ کیا جائے۔ اس سے دین میں تقویٰ کا مقام واضح ہوا کہ تمام نیکیاں درحقیقت اسی کی جڑ سے ہیں۔
ایمان والو،(اِس عہد و میثاق کا تقاضا ہے کہ ) اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ، انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمھیں اِس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ تمھارے ہر عمل سے با خبر ہے
مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص نہ صرف یہ کہ حق و انصاف پر قائم رہے، بلکہ یہ اگر گواہی کا مطالبہ کریں تو جان کی بازی لگا کر اُن کا یہ مطالبہ پورا کرے۔ حق کہے، حق کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ انصاف کرے، انصاف کی شہادت دے اور اپنے عقیدہ و عمل میں حق و انصاف کے سوا کبھی کوئی چیز اختیار نہ کرے۔ یہاں تک کہ کسی قوم کی دشمنی بھی اُسے آمادہ نہ کرے کہ وہ حق و انصاف کی راہ سے ہٹ جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...شیطان نے راہ حق سے گمراہ کرنے میں سب سے زیادہ جس حربے سے کام لیا، وہ یہی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا حربہ ہے۔ یہود نے محض بنی اسمٰعیل اور مسلمانوں کی دشمنی میں اُس تمام عہد و پیمان کو خاک میں ملا دیا جس کے وہ گواہ اور ذمہ دار بنائے گئے تھے۔ اِس وجہ سے مسلمانوں سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ شیطان کے اِس فتنے سے بچ کے رہیں ۔ دوستوں اور دشمنوں، دونوں کے لیے اُن کے پاس بس ایک ہی باٹ اور ایک ہی ترازو ہو۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۴۷۱)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔
ملاحظہ ہو سورة نساء، حاشیہ نمبر ١٦٤ و ١٦٥۔
اے ایمان والو ! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
پہلے جملے کی تشریح سورة نساء آیت نمبر ١٣٥ میں دوسرے جملے کی سورة المائدۃ کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک عادلانہ گواہی کی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جو حدیث میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو میری والدہ نے کہا، اس عطیے پر آپ جب تک اللہ کے رسول کو گواہ نہیں بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد انکی خدمت میں آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اس طرح کا عطیہ دیا ہے ؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا ' اللہ سے ڈرو اور اولاد کے درمیان انصاف کرو ' اور فرمایا کہ میں ' ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا ' (صحیح بخاری)
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے
یہ مذکورہ بالا میثاق پر عمل کرنے اور نہ کرنے دونوں کا نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اس میثاق پر قائم رہیں گے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے اور جو اس کو توڑیں گے ان کے لیے جہنم ہے۔ اس سے ایک تو یہ بات نکلی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم پر اس میثاق کی ذمہ داری ڈالی ہے، اسی طرح اپنے اوپر بھی اس کے جواب میں ایک عہد کی ذمہ داری لی ہے۔ اس کا اظہار ’وَعَدَ اللَّہُ‘ کے الفاظ سے ہو رہا ہے۔ یہ رب کریم کی کتنی بڑی بندہ نوازی ہے کہ وہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی اور اپنی ہی پروردہ مخلوق کے ساتھ ایک معاہدے میں شریک ہو اور جواب میں اپنی ذات پر بھی ایک عہد کی ذمہ داری اٹھائے۔ انسان کو یہ وہ شرف بخشا گیا ہے جس میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ دوسری بات یہ نکلی کہ ایمان و عمل صالح کی تعبیر ایک جامع تعبیر ہے جس میں وہ سب کچھ شامل ہے جو پروردگار نے اپنی شریعت کی شکل میں ہمیں عطا فرمایا ہے اور جس کی پابندی کا ہم سے اقرار لیا ہے۔
اللہ نے اُن لوگوں سے وعدہ کر رکھا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں کہ اُن کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے
n/a
جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا۔
n/a
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان کے لئے وسیع مغفرت اور بہت بڑا اجر اور ثواب ہے۔
اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخ والے ہیں
یہ مذکورہ بالا میثاق پر عمل کرنے اور نہ کرنے دونوں کا نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اس میثاق پر قائم رہیں گے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے اور جو اس کو توڑیں گے ان کے لیے جہنم ہے۔ اس سے ایک تو یہ بات نکلی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم پر اس میثاق کی ذمہ داری ڈالی ہے، اسی طرح اپنے اوپر بھی اس کے جواب میں ایک عہد کی ذمہ داری لی ہے۔ اس کا اظہار ’وَعَدَ اللَّہُ‘ کے الفاظ سے ہو رہا ہے۔ یہ رب کریم کی کتنی بڑی بندہ نوازی ہے کہ وہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی اور اپنی ہی پروردہ مخلوق کے ساتھ ایک معاہدے میں شریک ہو اور جواب میں اپنی ذات پر بھی ایک عہد کی ذمہ داری اٹھائے۔ انسان کو یہ وہ شرف بخشا گیا ہے جس میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں۔ دوسری بات یہ نکلی کہ ایمان و عمل صالح کی تعبیر ایک جامع تعبیر ہے جس میں وہ سب کچھ شامل ہے جو پروردگار نے اپنی شریعت کی شکل میں ہمیں عطا فرمایا ہے اور جس کی پابندی کا ہم سے اقرار لیا ہے۔
(اِس کے برخلاف) جو منکر ہیں اور اُنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے، وہی دوزخ میں جانے والے ہیں
n/a
رہے وہ لوگ جو کفر کریں اور اللہ کی آیات کو جھٹلائیں، تو وہ دوزخ میں جانے والے ہیں۔
n/a
جن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھٹلایا وہ دوزخی ہیں۔
امین احسن اصلاحی
اے ایمان والو! اپنے عہد و پیمان پورے کرو۔ تمھارے لیے انعام کی قسم کے تمام چوپائے حلال ٹھہرائے گئے بجز ان کے جن کا حکم تم کو پڑھ کر سنایا جا رہا ہے۔ نہ جائز کرتے ہوئے شکار کو حالت احرام میں۔ اللہ حکم دیتا ہے جو چاہتا ہے
لفظ ’عقد‘ کا مفہوم اور اس کی وسعت
’اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ‘۔ عقد کا لفظ عہد و میثاق کے الفاظ کے مقابل میں عام ہے۔ اس میں قول قرار، قسم اور کسی معاملے میں گواہی کی ذمہ داری سے لے کر اس عہد و میثاق تک، جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ہوا ہے، سب آ گیا۔ چنانچہ اس سورہ میں میثاق شریعت کی پوری تاریخ بھی اس کے تمام نتائج و عواقب کے ساتھ بیان ہوئی ہے، قسم اور شہادت کی ذمہ داریاں بھی واضح کی گئی ہیں۔
’انعام‘ اور ’بہیمۃ‘ میں فرق
اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ، ’اَنْعَام‘ کا لفظ عربی میں بھیڑ بکری، اونٹ اور گائے بیل کے لیے معروف ہے۔ اس کی تصریح خود قرآن نے سورۂ انعام کی آیات ۱۴۳، ۱۴۴میں فرما دی ہے۔ ’بہیمہ‘ کا لفظ اس سے عام ہے۔ اس میں انعام کی نوع کے دوسرے چوپائے بھی داخل ہیں۔ ’انعام‘ کی طرف اس کی اضافت سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ اونٹ، گائے، بکری اور اس قبیل کے سارے ہی چوپائے، خواہ گھریلو ہوں یا وحشی، تمھارے لیے جائز ٹھہرائے گئے۔ ’’جائز ٹھہرائے گئے‘‘ سے مطلب یہ ہے کہ وہ پابندیاں جو تم نے اپنے اوہام کی بنا پر عائد کی ہیں وہ بھی ختم اور جو پچھلے صحیفوں کی روایات کی بنا پر تھیں وہ بھی کالعدم۔
’اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ‘ یہ اشارہ ہے آگے آیت ۳ میں بیان کردہ حرمتوں کی طرف۔
حالت احرام میں شکار کی ممانعت اور اس کی اہمیت
’غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ‘ یہ ان حرمتوں میں سب سے پہلی حرمت کا ذکر ہے۔ یعنی تمھارے لیے انعام کے قسم کے تمام چوپائے خواہ پالتو ہوں یا وحشی جائز ہیں بایں پابندی کہ حالتِ احرام میں شکار کو جائز کر لینے والے نہ بن جانا۔ اس کے حالیہ اسلوب بیان اور اس کے سب سے پہلے ذکر کرنے سے اس کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے جس کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے تھوڑی سی تفصیل کی ضرورت ہے۔
ہم اوپر تمہیدی گفتگو میں اشارہ کر چکے ہیں کہ اس سورہ میں جو احکام بیان ہوئے ہیں وہ تکمیلی و اتمامی نوعیت کے بھی ہیں اور ان میں امتحان و آزمائش کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ اپنے اسی پہلو سے وہ اس سورہ کے لیے، جو سورۃ المیثاق ہے، موزوں قرار پائے ہیں۔ ان پر عہد لینے کے معنی ایک طرف تو یہ ہیں کہ پوری شریعت کی پابندی کا عہد لیا گیا، دوسری طرف یہ کہ ان چیزوں پر عہد لے لیا گیا جو دوسری ملتوں کے لیے مزلۂ قدم ثابت ہو چکی تھیں۔ چنانچہ یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہ دونوں ہی پہلو ملحوظ ہیں۔
کھانے پینے کے باب میں یہاں جو حرمتیں اور حلتیں بیان ہوئیں ہیں وہ بالکل آخری نوعیت کی ہیں۔ اس سے پہلے اس باب کے بہت سے احکام بقرہ میں گزر چکے ہیں۔ بلکہ بقرہ سے بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ سو رۂ انعام میں بیان ہوئے ہیں جو ایک مکی سورہ ہے۔ ۱ صرف کچھ جزئیات و تفصیلات باقی رہ گئی تھیں جو اس سورہ میں بیان ہو گئی ہیں اور ان کے بعد یہ باب گویا بالکل مکمل ہو گیا ہے۔ یہ حقیقت آگے کی آیات سے خود اس قدر واضح ہو جائے گی کہ دلیل کی محتاج نہیں رہے گی۔
ابتلا و امتحان کے زاویہ سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ حالتِ احرام میں شکار کی ممانعت کا معاملہ بالکل اس حکم سے مشابہ ہے جو یہود کو سبت کے احترام سے متعلق دیا گیا تھا۔ ان کو سبت کے دن شکار کی ممانعت تھی لیکن وہ اس عہد کو نباہ نہ سکے بلکہ مختلف حیلے ایجاد کر کے انہوں نے اس کو جائز بنا لیا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کر دی۔ سبت کے حکم سے اس کی مشابہت خود قرآن نے اسی سورہ میں آگے آیات ۹۳۔۹۶ میں واضح کر دی ہے۔
آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اے ایمان والو، اپنے رب سے اس کی شریعت کی پابندی کا جو عہد و میثاق تم نے کیا ہے وہ پورا کرنا۔ تمھارے لیے انعام کی قسم کے تمام چوپائے، بجز ان کے جو آگے بیان کیے جا رہے ہیں، اس پابندی کے ساتھ حلال ٹھہرائے گئے کہ احرام کی حالت میں شکار نہ کرنا۔ آخر میں ’اِنَّ اللهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ‘ فرما کر اس حکم کے امتحانی پہلو کی طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ حکم تمہاری وفاداری کی جانچ کے لیے ہے، اس میں مین میکھ نکالنے اور اس سے گریز و فرار کی راہیں نہ ڈھونڈنا۔ خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے اور اس کے احکام کی بے چون و چرا اطاعت ہی میں اس کے بندوں کے لیے مصلحت کا پہلو مخفی ہوتا ہے اس وجہ سے جب تک یہ عقیدہ دل میں مضبوط نہ ہو کہ خدا کو حکم دینے کا اختیار مطلق حاصل ہے اور اس کا ہر حکم بندوں ہی کی مصلحت کے لیے ہوتا ہے اس وقت تک سچی وفاداری کے ساتھ ان کی تعمیل نہیں ہو سکتی۔
________
۱ ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ آیت ۱۷۳ اور سورۂ انعام