تَبَّتْ يَدَآ أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ

امین احسن اصلاحی

ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے۔ اور وہ خود بھی ڈھے گیا۔

’تبت یداہ‘ کا مفہوم: ’تَبٌّ‘ کے معنی ہلاک ہونے اور خسارہ میں پڑنے کے ہیں۔ اسی سے ’تبت یدا فلان‘ کا محاورہ نکلا ہے جس کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ فلاں کے دونوں ہاتھ حصول مقصد میں ناکام وعاجز رہے۔ دونوں ہاتھوں کی ناکامی اور بے بسی کامل بے بسی کی تعبیر ہے۔ اگر کہیں کہ ’تبت یداہ‘ تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ مقابلہ کرنے سے بالکل عاجز ہو گیا۔ اسی طرح ’کسر ید‘ یعنی ہاتھ توڑ دینا، کسی کا زور توڑ دینے کی تعبیر ہے۔ فند الزمانی کا شعر ہے:

وترکنا دیار تغلب تفرا
وکسرنا من الفواۃ الجناھا

(یعنی ہم نے تغلب کے علاقہ کو چٹیل بنا کے چھوڑ دیا اور ان کے سرکشوں کے بازو توڑ دیے۔)

عبرانی زبان میں بھی، جو عربی کی بہن ہے، یہ محاورہ استعمال ہوا ہے۔ صحیفہ ذی الکفل کے باب۳ آیات ۲-۲۲ کے فقرے ملاحظہ ہوں:

’’گیارھویں برس کے پہلے مہینہ کی ساتویں تاریخ کو یوں ہوا کہ خداوند کا کلام مجھے پہنچا اور اس نے کہا کہ اے آدم زاد میں نے مصر کے بادشاہ، فرعون کا بازو توڑا اور دیکھ وہ باندھا نہیں جائے گا اور دوا کی تدبیر کر کے اس پر پٹیاں نہیں کی جائیں گی کہ تلوار پکڑنے کے لیے مضبوط ہو۔ اس لیے خداوند یہوہ یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں مصر کے بادشاہ، فرعون کا مخالف ہوں اور اس کے بازووں کو، اسے جو پرزور ہے اور اسے جو ٹوٹا تھا، توڑوں گا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گراؤں گا۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اس لفظ کے اندر ہجو و مذمت کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ صرف ابو لہب کے اقتدار کے زوال اور اس کی تباہی کی پیشین گوئی ہے۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ یہاں اس کا ذکر کنیت کے ساتھ ہوا ہے اور اہل عرب جب کسی کا ذکر کنیت کے ساتھ کرتے ہیں تو اس میں فی الجملہ احترام مدنظر ہوتا ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب: یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پورے قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں میں سے کسی کا ذکر بھی اس کے نام کی تصریح کے ساتھ نہیں ہوا پھر ابولہب ہی کی کیا خصوصیت تھی کہ اس کا ذکر اس کے نام سے ہوا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خاص اہتمام کے ساتھ اس کا ذکر کرنے کی یوں تو کئی وجہیں ہو سکتی ہیں لیکن دو باتیں خاص اہمیت رکھتی ہیں جن کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔
ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابولہب کی عداوت کی نوعیت دوسرے مخالفوں کی عداوتوں سے بہت مختلف تھی۔ قریش کے دوسرے لیڈروں کو آپ سے جو اختلاف تھا اس کی بڑی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کی دعوت کو دین آبائی کے خلاف سمجھتے تھے، یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ اس میں اپنے ذاتی اغراض ومفادات کے لئے کوئی خطرہ محسوس کرتے ہوں۔ آپ جن مکارم اخلاق کی دعوت دیتے تھے ان کی عزت ان کے دلوں میں بھی تھی۔ آپ یتیموں اور مسکینوں اور غلاموں کے ساتھ جس حسن اخلاق پر لوگوں کو ابھارتے تھے قریش کے بہت سے شریفوں کے اندر اس کے لیے بھی بڑا احترام تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ سارے کام ہوں۔ اور اس معاملہ میں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسن ظن بھی تھا اس لیے کہ وہ آپ کو تمام اعلی اوصاف سے عملاً متصف پاتے تھے۔ ان کو غصہ تھا تو اس بات پر تھا کہ اپنی دعوت میں آپ ان کے بتوں کی تحقیر کرتے ہیں۔ سورۂ کافرون کی تفسیر میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ وہ اس بات پر آمادہ تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بتوں کے معاملے میں اپنا لب ولہجہ کچھ نرم کر دیں تو وہ بھی آپ کی دعوت کے معاملہ میں اپنی روش تبدیل کر دیں گے۔
ابولہب کا ذکر نام کے ساتھ کیے جانے کے وجوہ: اس کے برعکس ابولہب کی مخالفت تمام تر اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے تھی۔ وہ بیت اللہ کے بیت المال کا نگران تھا اور اپنے زمانے میں اس نے اس طرح اس پر قبضہ کر رکھا تھا کہ اس کا بڑا حصہ یتیموں، مسکینوں اور حاجیوں کے بجائے اس کے اپنے جیب میں جاتا جس کی بدولت وہ اپنے زمانے میں قارون بن گیا۔ اس نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکارم اخلاق کی دعوت اور بیت اللہ کے مقصد تعمیر کی آیتیں سنیں؂۱ تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے احتساب کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اگر جلد سے جلد آپ کی دعوت کو دبانے کی اس نے تدبیر نہ کی تو ان تمام مفادات سے اسے دست بردار ہونا پڑے گا جن سے وہ اس وقت بے روک ٹوک بہرہ مند ہو رہا ہے۔ چنانچہ وہ کمر باندھ کے آپ کی دعوت کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے کردار کی تصویر سورۂ ھمزہ اور بعض دوسری سورتوں میں کھینچی گئی ہے۔ جن لوگوں کی مخالفت یا موافقت ذاتی اغراض سے بالا تر کسی مقصد کے لیے ہوتی ہے، اگرچہ وہ مقصد غلط ہی ہو، ان کے اندر فی الجملہ شرافت ہوتی ہے برعکس اس کے جس کی مخالفت و موافقت محض اس کی ذات کے مفاد کے اردگرد گھومتی ہے وہ شرافت سے بالکل تہی ہوتی ہے۔ یہی رمز ہے کہ ابوجہل اور ابوسفیان کی مخالفت اور ابو لہب کے انداز مخالفت میں نمایاں فرق نظر آتا ہے اور یہی فرق ہے جو سبب ہوا اس بات کا کہ اس عدو کا ذکر خاص طور پر نام لے کر کیا جائے تاکہ لوگوں پر یہ حقیقت واضح ہو کہ کس کردار کے لوگ حق کے اصلی دشمن ہوتے ہیں اور اللہ تعالی ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے حضرات انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا مزاج ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں وصل اور فصل کی بنیاد صرف اللہ کا دین ہے۔ وہ لوگ نبی کے ساتھی اور محبوب و محب بن جاتے ہیں جو اللہ کے دین کو اختیار کر لیتے ہیں اگرچہ وہ کتنے ہی دور کے ہوں اور وہ لوگ کاٹ پھینکے جاتے ہیں جو اللہ کے دین کے مخالف ہوتے ہیں، اگرچہ باعتبار نسب و رشتہ وہ نبی کے کتنے ہی قریبی ہوں۔ اسی حقیقت کے اظہار کے لیے قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے واقعات نہایت خاص اہتمام کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اسی مقصد سے یہاں ابولہب کا ذکر خاص اہتمام کے ساتھ ہوا ہے تاکہ یہ حقیقت واضح کر دی جائے کہ اللہ تعالی کے نزدیک خاندان اور نسب کوئی چیز نہیں ہے۔ ایک گڈریا رسول کا محب اور محبوب بن سکتا ہے اگر وہ اس کی دعوت قبول کر لیتا ہے اور اگر اس کا چچا بھی اس کی دعوت کو رد کر دے تو اس کا تعلق بھی اللہ اور رسول سے یک قلم ختم ہو جاتا ہے۔ سورۂ کافرون میں اہل کفر سے براء ت کا جو اعلان ہے یہ گویا اس کی عملی شہادت ہے۔
ایک اور سوال اور اس کا جواب: یہاں ایک سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ابو لہب کے اقتدار کے زوال کی پیشین گوئی کے لیے تو ’تَبَّتْ یَدَآ أَبِیْ لَہَبٍ‘ کے الفاظ بظاہر بالکل کافی ہیں، پھر اس کے بعد ’وتب‘ کا لفظ لانے کا کیا خاص فائدہ ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے ٹکڑے میں اس کی سیاسی قوت کے ٹوٹ جانے کی پیشین گوئی ہے اور اس دوسرے میں اس کی اپنی ذات کے خاتمہ کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ یہ پیشین گوئی ٹھیک ٹھیک اسی طرح پوری بھی ہوئی۔ غزوۂ بدر میں قریش کے جو سردار مارے گئے ان میں سے اس کے بہت سے خاص حامی تھے جن کی موت سے اس کی سیاسی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا۔ پھر غزوۂ بدر کے کچھ ہی بعد وہ خود چیچک میں مبتلا ہوا۔ اس بیماری کے دوران چھوت سے اندیشہ سے، نہ اس کے ساتھیوں نے اس کی خبر گیری کی نہ اس کے بیٹوں اور خاندان کے عزیزوں نے۔ اس بے کسی کے حال میں اس نے جان دی اور لاش کئی دن تک گھر ہی میں پڑی سڑتی رہی۔ بالآخر لوگوں کے طعنوں سے تنگ آ کر اس کے بیٹوں نے کرایہ کے کچھ حبشیوں کی مدد سے لاش مکہ کے بالائی حصہ میں پھنکوائی اور دور دور ہی سے اس پر پتھر وغیرہ ڈال کر ڈھانک دی۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ کسی پر پتھر پھینکنا اس پر لعنت کرنے کے ہم معنی ہے۔
علاوہ ازیں یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ غزوۂ بدر میں، قریش کے سردار پورے جوش وخروش سے شریک ہوئے، لیکن ابولہب نے بزدلی کے سبب سے شرکت نہیں کی بلکہ ایک دوسرے شخص کو، جس پر اس کا کچھ قرض آتا تھا، جس کی وصولی کی توقع باقی نہیں رہی تھی، اس نے مجبور کیا کہ وہ اس قرض کے عوض میں اس کی طرف سے جنگ میں شریک ہو۔ چنانچہ وہ شریک ہوا اور غالباً مارا بھی گیا اور یہ بزدل گھر میں بیٹھا رہا لیکن یہ تدبیر بھی بھی اس کو موت سے بچانے میں کارگر نہ ہو سکی۔ اس جنگ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، یہ چیچک میں مبتلا ہو کر نہایت ذلت کی موت مرا۔ ہمارے نزدیک ’وتب‘ کا لفظ اس کے اسی انجام کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
_____
؂۱ اس گروپ کی سورتوں میں سے بھی متعدد سورتوں میں یہ مضمون بیان ہوا ہے۔ مثلاً سورۂ بلد، سورۂ فیل اور سورۂ قریش وغیرہ میں۔

جاوید احمد غامدی

ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہوا۔

اِس کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا۔ سرخ و سپید اور شعلہ رو ہونے کی وجہ سے کنیت ابولہب مشہور ہو گئی تھی۔ اِس کا انجام بیان کرتے ہوئے آگے دوزخ کے لیے ’ذَاتَ لَھَبٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اِسی رعایت سے استعمال ہوئے ہیں۔ قریش کے ائمۂ کفر میں سب سے زیادہ شقی یہی تھا۔ اِس کی مخالفت سراسر اِس کے ذاتی مفادات پر مبنی تھی۔ اِس میں نہ اِس نے کبھی رشتہ و تعلق کی پروا کی، نہ قبائلی روایات کا پاس کیا اور نہ شریفانہ اخلاق کے اصول ملحوظ رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں یہ سب کا سرخیل تھا اور لوگ زیادہ تر اِسی کے اقدامات کی پیروی کرتے تھے۔ پھر قریش کی مذہبی حکومت میں بھی اُس زمانے میں اِس کو ایسا مقام حاصل ہو گیا تھا کہ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ پوری حکومت عملاً اِس کے انگوٹھے کے نیچے آ گئی تھی۔ پچھلی سورتوں میں زیادہ تر اِسی کا کردار زیر بحث رہا ہے، اِس لیے یہی مستحق تھا کہ قریش کے ائمۂ کفر کی ہلاکت کی پیشین گوئی اِسی کا نام لے کر کی جائے۔

یعنی اُس کے اعوان و انصار ہلاک ہوئے اور اُس کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اِس مفہوم کے لیے یہ تعبیر اردو زبان میں بھی موجود ہے۔ آیت میں ماضی کا صیغہ مستقبل میں اِس پیشین گوئی کے پورا ہو جانے کی قطعیت پر دلالت کرتا ہے۔ گویا اُس کا ہونا ایسا یقینی ہے، جیسے وہ ہو چکی ہے۔ چنانچہ اِس کے کم و بیش دو سال بعد غزوۂ بدر کے موقع پر یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہو گئی اور ابوسفیان کے سوا قریش کے تمام بڑے بڑے سردار اُس غزوے میں ہلاک ہو گئے۔
ابولہب معرکۂ بدر میں شریک نہیں ہوا۔ اپنی جگہ اُس نے اپنے ایک مقروض کو اِس وعدے کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ اِس کے عوض وہ اُس کا قرض معاف کر دے گا، لیکن خدا کے عذاب سے بچنے کی یہ تدبیر بھی کارگر نہیں ہوئی اور غزوۂ بدر کے صرف سات دن بعد قرآن کی پیشین گوئی پوری ہو گئی۔ اُس کی موت نہایت عبرت ناک تھی۔ اُسے عدسہ (malignant pustule) کی بیماری ہو گئی اور وہ اِس رسوائی اور بے بسی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا کہ چھوت کے اندیشے سے اُس کے خاندان والوں، دوست احباب، یہاں تک کہ اُس کے بیٹوں نے بھی اُس کی خبر گیری نہیں کی۔ مرنے کے بعد کئی دن تک اُس کی لاش گھر میں پڑی سڑتی رہی۔ بالآخر لوگوں نے طعنے دیے تو اُس کے بیٹوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اُس کی لاش اٹھوائی اور ایک دیوار کے ساتھ رکھ کر اُسے پتھروں سے ڈھانک دیا۔* آیت میں ’تَبَّ‘ کا لفظ اُس کے اِسی انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
_____
* السیرۃ النبویہ، ابن کثیر۲/ ۴۷۹۔

ابو الاعلی مودودی

ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہو گیا وہ۔

اس شخص کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا، اور اسے ابو لہب اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کا رنگ بہت چمکتا ہوا سرخ و سفید تھا۔ لہب آگ کے شعلے کو کہتے ہیں اور ابو لہب کے معنی ہیں شعلہ۔ یہاں اس کا ذکر اس کے نام کے بجائے اس کی کنیت سے کرنے کے کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زیادہ تر اپنے نام سے نہیں بلکہ اپنی کنیت ہی سے معروف تھا۔ دوسرے یہ کہ اس کا نام عبدالعزیٰ (بندہ عزی) ایک مشرکانہ نام تھا اور قرآن میں یہ پسند نہیں کیا گیا کہ اسے اس نام سے یاد کیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اس کا جو انجام اس سورة میں بیان کیا گیا ہے اس کے ساتھ اس کی یہ کنیت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔

تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ کے معنی بعض مفسرین نے ” ٹوٹ جائیں ابولہب کے ہاتھ ” بیان کیے ہیں اور وّتَبَّ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ” وہ ہلاک ہوجائے ” یا ” وہ ہلاک ہوگیا “۔ لیکن درحقیقت یہ کوئی کوسنا نہیں ہے جو اس کو دیا گیا ہو، بلکہ ایک پیشینگوئی ہے جس میں آئندہ پیش آنے والی بات کو ماضی کے صیغوں میں بیان کیا گیا ہے، گویا اس کا ہونا ایسا یقینی ہے جیسے وہ ہوچکی۔ اور فی الواقع آخر کار وہی کچھ ہوا جو اس سورة میں چند سال پہلے بیان کیا جاچکا تھا۔ ہاتھ ٹوٹنے سے مراد ظاہر ہے کہ جسمانی ہاتھ ٹوٹنا نہیں ہے، بلکہ کسی شخص کا اپنے اس مقصد میں قطعی ناکام ہوجانا ہے جس کے لیے اس نے اپنا پورا زور لگا دیا ہو۔ اور ابو لہب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو زک دینے کے لیے واقعی اپنا پورا زور لگا دیا تھا۔ لیکن اس سورة کے نزول پر سات آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں قریش کے اکثر و بیشتر وہ بڑے بڑے سردار مارے گئے جو اسلام کی دشمنی میں ابو لہب کے ساتھی تھے۔ مکہ میں جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ پھر اس کی موت بھی نہایت عبرتناک تھی۔ اسے عدسہ ( Malignant Pustule) کی بیماری ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا، کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑ گئی اور اس کی بو پھیلنے لگی۔ آخر کار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اور انہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اور اوپر سے مٹی پتھر ڈال کر اسے ڈھانک دیا۔ اس کی مزید اور مکمل شکست اس طرح ہوئی کہ جس دین کی راہ روکنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا، اسی دین کو اس کی اولاد نے قبول کیا۔ سب سے پہلے اس کی بیٹی درہ ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ پہنچیں اور اسلام لائیں، پھر فتح مکہ پر اس کے دونوں بیٹے عتبہ اور معتب حضرت عباس کی وساطت سے حضور کے سامنے پیش ہوئے اور ایمان لاکر انہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔

جونا گڑھی

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا

یدا، ید (ہاتھ) کا تثنیہ ہے، مراد اس سے اس کا نفس ہے، جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے یعنی ہلاک اور برباد ہوجائے یہ بد دعا ان الفاظ کے جواب میں ہے جو اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق غصے اور عداوت میں بولے تھے۔ وَ تَبَّ (اور وہ ہلاک ہوگیا) یہ خبر ہے یعنی بد دعا کے ساتھ ہی اللہ نے اس کی ہلاکت اور بربادی کی خبر دے دی، چنانچہ جنگ بدر کے چند روز بعد یہ عدسیہ بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے، اسی میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ تین دن تک اسکی لاش یوں ہی پڑی رہی، حتیٰ کہ سخت بدبو دار ہوگئی۔ بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری کے پھیلنے اور عار کے خوف سے، اس کے جسم پر دور سے ہی پتھر اور مٹی ڈال کر اسے دفنا دیا۔ (ایسر التفاسیر)

مَآ أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُۥ وَمَا كَسَبَ

امین احسن اصلاحی

نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔

روپیہ کی بڑی سے بڑی مقدار بھی خدا کی پکڑ سے نہیں بچا سکتی: روپیہ کے حریص روپیہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ذہن کے اندر یہ خناس سما جاتا ہے کہ اگر روپیہ ہے تو وہ خدا کی گرفت سے بھی محفوظ ہیں۔ سورۂ ھمزہ میں زرپرست بخیلوں کی ذہنیت سے یوں پردہ اٹھایا گیا ہے:

الَّذِي جَمَعَ مَالا وَعَدَّدَهٗ۔ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهٗٓ أَخْلَدَهٗ۔ الھمزہ: ۲-۳
(جس نے مال جمع کیا اور اس کو گن گن کر رکھا گمان کرتے ہوئے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ رکھے گا۔)

ہم نے اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ یہ درحقیقت ابولہب اور اس کے ہم مشربوں کی تصویر ہے۔ اسی طرح کے لوگ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ انہیں خدا سے بھی سابقہ پیش آنے والا ہے اور وہ ان کو کسی ایسی آزمائش میں ڈال سکتا ہے جس سے روپیہ کی بےحقیقتی بالکل واضح ہو جائے گی۔ ابولہب اسی خبط میں عمر بھر پڑا رہا بالآخر اس پر وہ گردش آئی کہ اس نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا کہ روپیہ کی بڑی سے بڑی مقدار بھی خدا کی پکڑ سے انسان کو نہیں بچا سکتی۔
’وَمَا کَسَبَ‘ کی تاویل: ’وَمَا کَسَبَ‘ کی تاویل میں مفسرین سے کئی قول منقول ہیں۔ بعض لوگوں نے اس سے اس کے بیٹوں کو مراد لیا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ آخر میں، جیسا کہ اوپر ہم نے اشارہ کیا ہے، اس کے بیٹے بھی اس کے کچھ کام نہ آئے لیکن اس تاویل میں تکلف ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے اس کی وہ کمائی مراد لی ہے جو اس نے حرام راستوں سے حاصل کی، لیکن اس مفہوم کے لیے اول تو یہ لفظ کچھ موزوں نہیں ہے۔ ثانیاً ’مَآ أَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ‘ کے بعد اس کی کچھ ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ہمارے نزدیک اس سے اس کے وہ اعمال مراد ہیں جو اس نے اپنی دانست میں نیکی کے سمجھ کے کیے لیکن اس کے خبث باطن اور شرک کے سبب سے وہ بھی رائگاں ہو گئے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ وہ بیت اللہ کے شعبۂ مالیات کا انچارج تھا اس وجہ سے اسے غریبوں، مسکینوں اور حاجیوں کی خدمت کے کچھ کام کرنے ہی پڑتے تھے۔ لیکن یہ محض نمائش کے لیے مجبوراً نہ صرف اس غرض سے کیے جاتے کہ اس کی خیانتوں پر پردہ پڑا رہے۔ اس طرح کے کام خدا کے ہاں درخور اعتناء نہیں ٹھہرتے۔

جاوید احمد غامدی

نہ اُس کا مال اُس کے کام آیا اور نہ وہ (خیر) جو اُس نے کمایا۔

اِس سے وہ کام مراد ہیں جو بظاہر نیکی کے سمجھے جاتے ہیں اور بیت اللہ کے شعبۂ مالیات کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دکھانے اور اپنی خیانتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ابولہب کو بھی کرنے پڑتے تھے۔

ابو الاعلی مودودی

اُس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا وہ اُس کے کسی کام نہ آیا۔

ابو لہب سخت بخیل اور زرپرست آدمی تھا۔ ابن اثیر کا بیان ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ اس پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اس نے کعبہ کے خزانے میں سے سونے کے دو ہرن چرا لیے ہیں۔ اگرچہ بعد میں وہ ہرن ایک اور شخص کے پاس سے برآمد ہوئے، لیکن بجائے خود یہ بات کہ اس پر یہ الزام لگایا گیا، یہ ظاہر کرتی ہے کہ مکہ کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ اس کی مالداری کے متعلق قاضی رشید بن زبیر اپنی کتاب الذخائر والحف میں لکھتے ہیں کہ وہ قریش کے ان چار آدمیوں میں سے ایک تھا جو ایک قنطار سونے کے مالک تھے (قنطار دو سو اوقیہ کا اور ایک اوقیہ سوا تین تولہ کا ہوتا ہے) اس کی زرپرستی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جبکہ اس کے مذہب کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا، قریش کے تمام سردار لڑنے کے لیے گئے، مگر اس نے عاص بن ہشام کو اپنی طرف سے لڑنے کے لیے بھیج دیا اور کہا کہ یہ اس چار ہزار درہم قرض کا بدل ہے جو میرا تم پر آتا ہے۔ اس طرح اس نے اپنا قرض وصول کرنے کی بھی ایک ترکیب نکال لی، کیونکہ عاص دیوالیہ ہوچکا تھا اور اس سے رقم ملنے کی کوئی امید نہ تھی۔

مَا كَسَبَ کو بعض مفسرین نے کمائی کے معنی میں لیا ہے، یعنی اپنے مال سے جو منافع اس نے حاصل کیے وہ اس کا کسب تھے۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد اولاد لی ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ آدمی کا بیٹا بھی اس کا کسب ہے (ابو داؤد۔ ابن ابی حاتم) یہ دونوں معنی ابو لہب کے انجام سے مناسبت رکھتے ہیں۔ کیونکہ جب وہ عدسہ کے مرض میں مبتلا ہوا تو اس کا مال بھی اس کے کسی کام نہ آیا اور اس کی اولاد نے بھی اسے بےکسی کی موت مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس کا جنازہ تک عزت کے ساتھ اٹھانے کی اس اولاد کو توفیق نہ ہوئی۔ اس طرح چند ہی سال کے اندر لوگوں نے اس پیشینگوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا جو ابولہب کے متعلق اس سورة میں کی گئی تھی۔

جونا گڑھی

نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔

کمائی میں اس کی رئیسانہ حثییت اور جاہ ومنصب اور اس کی اولاد بھی شامل ہے یعنی جب اللہ کی گرفت آئی تو کوئی چیز اس کے کام نہ آئی۔

سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ

امین احسن اصلاحی

وہ بھڑکتی آگ میں پڑے گا۔

آخرت میں جس انجام سے وہ دوچار ہو گا: پچھلی دونوں آیتوں میں اس کا وہ حشر بیان ہوا ہے جو اس دنیا میں اس کے سامنے آیا۔ اب یہ اس کا وہ انجام بیان ہو رہا ہے جس سے وہ آخرت میں دوچار ہو گا۔ فرمایا کہ وہ بھڑکتی آگ میں پڑے گا۔ یہاں آگ کی صفت ’ذَاتَ لَہَبٍ‘ ہو گی۔ ’لَہَبٌ‘ کے معنی شعلہ کے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرخ و سپید شعلہ رو تھا اس وجہ سے اس نے یا تو خود یہ کنیت اختیار کی یا اس کے خوشامدیوں نے اس سے اس کو پکارا اور یہ اتنی مشہور ہوئی کہ اس کا اصل نام ۔۔۔ عبد العزّٰی ۔۔۔ غائب ہو گیا۔ قرآن نے یہاں اس کا یہ انجام بیان کر کے یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اس دنیا میں اس کو اپنی جس شعلہ روئی پر ناز رہا آخرت میں یہ اس کے لیے وبال بنے گی۔ وہ شعلوں والی آگ میں جھونکا جائے گا جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ظاہر کا حسن کوئی فخر کی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ آدمی کے لیے وبال بن سکتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ باطن کا حسن نہ ہو۔

جاوید احمد غامدی

یہ (شعلہ رو) اب شعلہ زن آگ میں پڑے گا۔

آیت میں ’ذَاتَ لَھَبٍ‘ کے الفاظ ہیں۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ یہ اُس کی کنیت کی رعایت سے آئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...قرآن نے یہاں اُس کا یہ انجام بیان کرکے یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ اِس دنیا میں اُس کو اپنی جس شعلہ روئی پر ناز رہا، آخرت میں یہ اُس کے لیے وبال بنے گی۔ وہ شعلوں والی آگ میں جھونکا جائے گا، جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ظاہر کا حسن کوئی فخر کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ آدمی کے لیے وبال بن سکتا ہے، اگر اِس کے ساتھ باطن کا حسن نہ ہو۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۶۳۶)

ابو الاعلی مودودی

ضرور وہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا۔

n/a

جونا گڑھی

وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا۔

​n/a

وَٱمْرَأَتُهُۥ حَمَّالَةَ ٱلْحَطَبِ

امین احسن اصلاحی

اس کی بیوی بھی ایندھن ڈھوتی ہوئی۔

فرمایا کہ اس کی بیوی بھی ایندھن ڈھوتی ہوئی اس کے ساتھ جہنم میں پڑے گی۔ عذاب میں اس کی بیوی کی یہ شرکت اسی صورت میں مطابق عدل ہے جب وہ بھی اس کے ان جرائم میں شریک رہی ہو جو اس کو جہنم میں لے جانے والے بنے۔ آدمی کے بیوی بچے بسا اوقات اس کے لیے ایسے جرائم کا سبب بن جاتے ہیں جو اس کی تباہی کا بھی سبب بنتے ہیں اور بیوی بچوں کی بھی۔ اسی بنا پر قرآن میں اہل ایمان کو خبردار کیا گیا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ.(التغابن ۶۴: ۱۴)
(اے ایمان والو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں بعض تمہارے دشمن بھی ہیں تو ان سے بچ کے رہو۔)

بیوی بچوں کے دشمن ہونے کی شکل یہی ہو سکتی ہے کہ ان کی بے جا خواہشوں اور فرمائشوں کی تعمیل اور ان کی غلط نازبرداریوں کے فتنہ میں مبتلا ہو کر آدمی خدا کے احکام و حدود کی پاس داری سے غافل اور بخل و خیانت کا مرتکب ہو جائے۔ بیوی بچوں کو اسی پہلو سے فتنہ قرار دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ فرمایا ہے کہ آدمی کی اولاد اس کو بخل اور بزدلی میں مبتلا کرنے والی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابولہب کی بیوی بگڑی ہوئی بیگمات کی طرح فیشن کی دلدادہ، زیورات کی شوقین، دولت کی حریص اور نمائش کی رسیا تھی۔ اس نے ابولہب کے بگڑے ہوئے مزاج کو اور بگاڑا۔ یہاں تک کہ وہ بھی اسی عذاب کی مستحق ٹھہری جس میں اس کا شوہر داخل ہوا۔
’حَمَّالَۃَ الۡحَطَبِ‘ کی تاویل: ’حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ‘ کی تاویل میں بڑا اختلاف منقول ہے۔ اکثر مفسرین کی رائے تو یہ ہے کہ یہ بطور ہجو و تحقیر، اس کی وہ حالت بیان ہوئی ہے جو اس کی اس دنیا میں تھی۔ وہ لونڈیوں کی طرح گلے میں رسی ڈال کر جنگل جاتی اور سر پر ایندھن کا گٹھڑ لاد کر لاتی۔ یہ قول سب سے زیادہ مشہور ہے لیکن یہ جتنا ہی مشہور ہے اتنا ہی خلاف عقل و قیاس ہے۔
یہ امر یاد رکھیے کہ عرب کی عنان حکومت قریش کے ہاتھ میں تھی۔ خاص طور پر بنی ہاشم تو پورے عرب کے سرتاج تھے۔ ابولہب یوں تو خاندانی صاحب ثروت و دولت تھا پھر اس زمانے میں، جس کا ذکر ہے، اس کو قریش کی مذہبی حکومت میں اتنا اونچا مقام حاصل ہو گیا تھا کہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہے کہ پوری حکومت عملاً اس کے انگوٹھے کے نیچے آ گئی تھی۔ کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اتنے بڑے دولت مند لیڈر کی بیگم لونڈیوں کی طرح ایندھن ڈھونے کا کام کرے گی! ان لوگوں کا حال تو یہ تھا کہ ایک ایک خوش حال کے پاس درجنوں لونڈیاں اور غلام ہوتے اور ان کی بیگمات کی نازک مزاجی اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانا بھی کسرشان سمجھتی تھیں۔ ان کے عام آدمی بھی اپنے بچوں کو دوسرے قبیلوں کی دائیوں سے دودھ پلواتے۔
پھر ابولہب کی بیوی بھی کوئی معمولی عورت نہیں تھی۔ یہ ام جمیل بنت حرب، خاندان بنی عبدالشمس کی ایک نہایت باعزت خاتون تھی جو ہاشمی خاندان میں بیاہی گئی۔ اس کے شوہر کا جو مرتبہ حکومت میں تھا اس کا اعتبار کیجیے تو یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ اس کو اس وقت قریش میں وہی درجہ حاصل تھا جو اس زمانے میں کسی قوم کے اندر ان بیگم صاحبہ کو حاصل ہوتا ہے جو خاتون اول کہلاتی ہیں۔
غالباً انہی اعتراضات سے بچنے کے لیے بعض لوگوں نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ وہ خاردار جھاڑیاں لا لا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ڈالتی تھی اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس کے اندر لگانے بجھانے کی عادت تھی جس کی تعبیر ’حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ‘ سے کی گئی ہے۔ یہ اقوال اس قدر کمزور اور عربیت سے اس درجہ بعید ہیں کہ ان پر تنقید کرنا محض اپنا اور قارئین کا وقت ضائع کرنا ہے، اس وجہ سے ہم ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اگر کسی کو تفصیل مطلوب ہو تو وہ مولانا فراہی علیہ الرحمۃ کی تفسیر میں ان پر تنقید پڑھ لے۔
ہمارے نزدیک ’حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ‘ ترکیب میں حال پڑا ہوا ہے اور اس کی یہ حالت اس وقت کی بیان ہوئی ہے جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ دوزخ میں پڑے گی۔ اس وقت اس کا حال اس مجرم کا سا ہو گا جواپنی سولی کا تختہ اور اپنے جلانے کا ایندھن خود اٹھائے ہوئے ہو۔
حال کے سوا کوئی اور ترکیب اس کی ازروئے عربیت صحیح نہیں ہو سکتی اور اس صورت میں وہ تمام اقوال ازخود بے معنی ہو جاتے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے اس لیے کہ حالیت کی صورت میں ان کو قبول کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
قیامت کے دن مجرموں کا جو حال ہو گا اس کی تصویر قرآن میں جگہ جگہ کھینچی گئی ہے اس پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ’حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ‘ کے الفاظ سے جو تصویر ابولہب کی بیوی کی سامنے آتی ہے وہ ٹھیک ٹھیک اسی کے مطابق ہے۔ مثلاً فرمایا ہے:

وَھُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَھُمْ عَلٰی ظُھُوْرِھِمْ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ.(الانعام ۶: ۳۱)
(اور وہ اپنے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے اور سن لو کہ نہایت ہی بری چیز ہو گی جو وہ اٹھائے ہوئے ہوں گے۔)

اس سے زیادہ وضاحت سورۂ نحل میں ہے:

لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ.(النحل ۱۶: ۲۵)
(تاکہ وہ اٹھائیں اپنے بوجھ قیامت کے دن پورے پورے اور ساتھ ہی ان لوگوں کے بوجھ کا بھی کچھ حصہ جن کو وہ بغیر کسی علم کے گمراہ کر رہے ہیں۔)

اس سے معلوم ہوا کہ وہ اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہو گی اور ابولہب کے جن گناہوں کی وہ محرک بنی ہو گی کچھ بوجھ ان کا بھی اس کو اٹھانا پڑے گا اور یہ بوجھ اس کے جلانے کے ایندھن کی صورت میں ہو گا۔
اس تفصیل سے یہ حقیقت بھی اچھی طرح واضح ہو گئی کہ ابولہب کی بیوی کے ذکر سے مقصود یہاں اس کی مذمت اور ہجو کر کے دل کو تسلی دینا نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگوں نے گمان کیا ہے، بلکہ اصل مقصود لوگوں، بالخصوص طبقۂ نسواں کو، اس کے انجام سے عبرت دلانا ہے کہ ایک بگڑی ہوئی عورت کس طرح اپنی تباہی کا بھی سامان کرتی ہے اور اپنے شوہر اور اپنی اولاد کی تباہی کا بھی۔ قرآن نے مردوں کے پہلو بہ پہلو عورتوں کا ذکر اسی لیے کیا ہے کہ ہر طبقہ اپنے طبقہ کے لوگوں کے حال اور انجام سے زیادہ بہتر طریقہ پر سبق حاصل کر سکتا ہے۔ یہ عورت دنیوی اعتبار سے چونکہ اونچے طبقہ سے تعلق رکھنے والی تھی اس وجہ سے اس کے انجام سے لونڈیاں اور بیگمات دونوں عبرت حاصل کر سکتی ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اور (اِس کے ساتھ) اِس کی بیوی بھی۔ وہ (دوزخ میں اپنے لیے) ایندھن ڈھو رہی ہو گی۔

یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ عرب کی یہ خاتون اول بھی اپنے شوہر کی طرح دولت کی حریص ، نمایش کی رسیا اور شوہر کے جرائم میں پوری طرح شریک، بلکہ اُن کے لیے سب سے بڑا محرک بنی ہوئی تھی۔
اصل الفاظ ہیں: ’حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ‘۔ تالیف کے لحاظ سے یہ حال واقع ہوئے ہیں۔ اِن میں اُس کی وہ حالت مذکور ہوئی ہے، جب شوہر کے ساتھ اُسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ گویا اُس وقت اُس کا حال اُس مجرم کا سا ہو گا جو اپنے جلانے کا ایندھن خود ہی ڈھو کر لا رہا ہو۔

ابو الاعلی مودودی

اور (اُس کے ساتھ) اُس کی جورو بھی، لگائی بجھائی کرنے والی۔

اس عورت کا نام ارویٰ تھا اور ام جمیل اس کی کنیت تھی۔ یہ ابو سفیان کی بہن تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عداوت میں اپنے شوہر ابولہب سے کسی طرح کم نہ تھی۔ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی حضرت اسماء کا بیان ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور ام جمیل نے اس کو سنا تو وہ بپھری ہوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاش میں نکلی۔ اس کے ہاتھ میں مٹھی بھر پتھر تھے اور وہ حضور کی ہجو میں اپنے ہی کچھ اشعار پڑھتی جاتی تھی۔ حرم میں پہنچی تو وہاں حضرت ابوبکر کے ساتھ حضور تشریف فرما تھے۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ، یہ آرہی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر یہ کوئی بیہودگی کرے گی۔ حضور نے فرمایا یہ مجھ کو نہیں دیکھ سکے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کے موجود ہونے کے باوجود وہ آپ کو نہیں دیکھ سکی اور اس نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہارے صاحب نے میری ہجو کی ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا، اس گھر کے رب کی قسم انہوں نے تو تمہاری کوئی ہجو نہیں کی۔ اس پر وہ واپس چلی گئی (ابن ابی حاتم۔ سیرۃ ابن ہشام۔ بزار نے حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اسی سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے) حضرت ابوبکر کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ ہجو تو اللہ تعالیٰ نے کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کی۔

اصل الفاظ ہیں حَمَّالَةَ الْحَطَبِ جن کا لفظی ترجمہ ہے ” لکڑیاں ڈھونے والی ” مفسرین نے اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس، ابن زید، ضحاک اور بعی بن انس (رض) کہتے ہیں کہ وہ راتوں کو خاردار درختوں کی ٹہنیاں لاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازے پر ڈال دیتی تھی، اس لیے اس کو لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا ہے۔ قتادہ، عکرمہ، حسن بصری، مجاہد اور سفیان ثوری (رض) کہتے ہیں کہ وہ لوگوں میں فساد ڈلوانے کے لیے چغلیاں کھاتی پھرتی تھی، اس لیے اسے عربی محاورے کے مطابق لکڑیاں ڈھونے والی کہا گیا، کیونکہ عرب ایسے شخص کو جو ادھر کی بات ادھر لگا کر فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہو، لکڑیاں ڈھونے والا کہتے ہیں۔ اس محاورے کے لحاظ سے حَمَّالَةَ الْحَطَبِ معنی ٹھیک ٹھیک وہی ہیں جو اردو میں ” بی جمالو ” کے معنی ہیں۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جو شخص گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہا ہو اس کے متعلق عربی زبان میں بطور محاورہ کہا جاتا ہے فلان یحتطب علی ظھرہ۔ ” فلاں شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لاد رہا ہے “۔ پس حَمَّالَةَ الْحَطَبِ کے معنی ہیں گناہوں کا بوجھ ڈھونے والی۔ ایک اور مطلب مفسرین نے اس کا یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ آخرت میں اس کا حال ہوگا، یعنی وہ لکڑیاں لا لا کر اس آگ میں ڈالے گی جس میں ابو لہب جل رہا ہوگا۔

جونا گڑھی

اور اس کی بیوی بھی (جائے گی) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے

یعنی جہنم میں یہ اپنے خاوند کی آگ پر لکڑیاں لا لا کر ڈالے گی، تاکہ مزید آگ بھڑکے۔ یہ اللہ کی طرف سے ہوگا۔ یعنی جس طرح یہ دنیا میں اپنے خاوند کی، اس کے کفر وعناد میں مددگار تھی آخرت میں بھی عذاب میں اس کی مددگار ہوگی۔ (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ وہ کانٹے دار جھاڑیاں ڈھو ڈھو کر لاتی اور نبی کریم کے راستے میں لا کر بچھا دیتی تھی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اس کی چغل خوری کی عادت کی طرف اشارہ ہے۔ چغل خوری کے لیے یہ عربی محاورہ ہے۔ یہ کفار قریش کے پاس جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غیبت کرتی اور انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت پر اکساتی تھی۔ (فتح الباری)

فِى جِيدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍۭ

امین احسن اصلاحی

اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسّی ہو گی۔

ابولہب کی بیوی کے گلے کا ہار قیامت کے دن: یہ اسی تصویر کی تکمیل جو اس سے پہلے والی آیت میں کھینچی گئی ہے۔ یعنی اس کی گردن میں اس طرح کی موٹی رسی پڑی ہو گی جس طرح کی رسی ایندھن ڈھونے والی لونڈیوں کی گردن میں ہوتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس آیت میں جو حالت اس کی بیان ہوئی ہے اس کو مفسرین آخرت کے متعلق مانتے ہیں، پھر تعجب ہے کہ اس سے پہلے والے ٹکڑے کو انھوں نے آخرت سے متعلق کیوں نہیں مانا جب کہ عربیت کے قاعدے سے ان دونوں کے درمیان ایسا اتصال ہے کہ ان کو کسی طرح الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔

لفظ ’مَسَدٌ‘ کھجور کے اس ریشے یا پتے یا چھلکے کے لیے بولا جاتا ہے جس سے مضبوط رسیاں بٹی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ لفظ عام طور پر مضبوط اور موٹی رسی کے لیے بھی آتا ہے، خواہ وہ کھجور کے ریشے کی ہو یا چمڑے کی یا اس قسم کی کسی اور چیز کی۔ چرخی کی رسی کے لیے اس کا استعمال عام ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مضبوط اور موٹی رسی کے معنی میں معروف ہے۔
آیت کی ظاہر تاویل یہ ہے کہ جب وہ قیامت کے دن اٹھے گی تو اس کی گردن میں ایک مضبوط رسی پڑی ہو گی جو ایندھن ڈھونے والی لونڈیوں کی گردن میں پڑی ہوئی رسی کی طرح موٹی ہو گی۔
اب غور کیجیے کہ اس صفت کے اضافے سے کیا نئے حقائق روشنی میں آتے ہیں:

۱۔ اس میں ابولہب کی بیوی کی اس حالت کی وضاحت ہے جو لفظ ’حَمَّا لَۃَ الْحَطَبِ‘ میں بیان ہوئی ہے۔
۲۔ اس میں اس ذلت کی تصویر ہے جس میں وہ قیامت کے دن گرفتار ہو گی۔
۳۔ اس میں عمل اور نتیجۂ عمل کی موافقت کی طرف اشارہ ہے کہ جس ہار کو پہن کر وہ دنیا میں اتراتی تھی قیامت کے دن وہ بالکل موٹی رسی کی شکل میں بدل جائے گا، جس کے سبب سے اس کی مثال اس لونڈی کی ہو جائے گی جو گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں چننے جا رہی ہو۔
۴۔ مغرور عورتیں آرائش کے ساتھ ساتھ نمائش کی بھی دلدادہ ہوتی ہیں اس وجہ سے سامان آرائش کے حجم اور وزن کا خاص خیال رکھتی ہیں، اس وجہ سے ضروری ہوا کہ رسی موٹی ہو۔

جاوید احمد غامدی

اُس کے گلے میں بٹی ہوئی رسی ہو گی۔

یہ ایندھن ڈھونے والی لونڈیوں کی تصویر ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جزا و سزا میں عمل اور نتیجۂ عمل کی موافقت ملحوظ رکھی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں وہ اپنے گلے میں جو قیمتی ہار پہن کر اتراتی تھی، وہی وہاں بٹی ہوئی موٹی رسی کی صورت اختیار کر لے گا جس سے اُس کی مثال اُس لونڈی کی ہو جائے گی جو گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں چننے جا رہی ہو۔

ابو الاعلی مودودی

اُس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی۔

اس کی گردن کے لیے جید کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایسی گردن کے لیے بولا جاتا ہے جس میں زیور پہنا گیا ہو۔ سعید بن المسیب، حسن بصری اور قتادہ (رض) کہتے ہیں کہ وہ ایک بہت قیمتی ہار گردن میں پہنتی تھی، اور کہا کرتی تھی کہ لات اور عزی کی قسم میں اپنا یہ ہار بیچ کر اس کی قمت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں خرچ کردوں گی۔ اسی بنا پر جید کا لفظ یہاں بطور طنز استعمال کیا گیا ہے کہ اس مزین گلے میں جس کے ہار پر وہ فخر کرتی ہے، دوزخ میں رسی پڑی ہوگی۔ یہ اسی طرح کا طنزیہ انداز کلام ہے جیسے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ” ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو۔

جو رسی اس کی گردن میں ڈالی جائے گی اس کے لیے حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی وہ رسی مسد کی قسم سے ہوگی۔ اس کے مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ خوب مضبوط بٹی ہوئی رسی کو مسد کہتے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ کھجور کی چھال سے بنی ہوئی رسی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں مونجھ کی رسی یا اونٹ کی کھال یا اس کے صوف سے بنی ہوئی رسی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد لوہے کے تاروں سے بٹی ہوئی رسی ہے۔

جونا گڑھی

اس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی۔

جید گردن۔ مسد، مضبوط بٹی ہوئی رسی۔ وہ مونج کی یا کھجور کی پوست کی ہو یا آہنی تاروں کی۔ جیسا کہ مختلف لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ وہ دنیا میں ڈالے رکھتی تھی جسے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہنم میں اس کے گلے میں جو طوق ہوگا، وہ آہنی تاروں سے بٹا ہوا ہوگا۔ مسد سے تشبیہ اس کی شدت اور مضبوطی کو واضح کرنے کے لیے دی گئی ہے۔