أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ

امین احسن اصلاحی

دیکھا تم نے اس کو جو جزاء و سزا کو جھٹلاتا ہے!

مکہ کا قارون: ’اَرَءَ یْتَ‘ کے اسلوب خطاب پر اس کے محل میں گفتگو ہو چکی ہے۔ یہ اسلوب کسی کی طرف تعجب اور نفرت کے ساتھ متوجہ کرنے کے لیے آتا ہے۔ لفظ ’دِیْن‘ یہاں جزاء و سزا کے معنی میں ہے جس طرح ’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘ (الفاتحہ) میں ہے۔

’اَلَّذِیْ‘ سے کون مراد ہے؟ اس کی وضاحت یہاں نہیں ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اشارہ ابولہب کی طرف ہے۔ یہ ایک نہایت مال دار بخیل تھا جو حرم کے بیت المال (رفادہ) پر سورہ کے زمانۂ نزول میں، قابض تھا۔ آگے اس کے ذلیل کردار اور اس کی تباہی کا ذکر ایک مستقل سورہ ۔۔۔ اللہب ۔۔۔ میں آ رہا ہے۔ اس سورہ کی تفسیر سے واضح ہو جائے گا کہ اس نے رفادہ کو اپنی ذاتی جائداد بنا لیا تھا۔ اس کی آمدنی اپنے ذاتی مقاصد میں اس نے استعمال کی اور اس کی بدولت مکہ کا قارون بن گیا۔
یہاں اصل مقصود کلام تو اس کی شقاوت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ جو شخص اتنا قسی القلب ہے کہ وہ یتیموں کو دھکے دیتا ہے اس سے کسی خیر کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ بیت اللہ کے کسی شعبہ کا ذمہ دار بن سکے لیکن بات ایسے اسلوب میں فرمائی ہے جس سے اس کا وہ باطن بھی سامنے آ گیا ہے جو اس کی اس قساوت کا اصل سبب ہے۔
آخرت کا منکر بے غرض انفاق نہیں کر سکتا: ’یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ‘ کی صفت اس کے باطن پر عکس ڈال رہی ہے کہ وہ آخرت اور جزاء و سزا کا جھٹلانے والا ہے۔ جو شخص آخرت کا منکر ہو گا اس کے اندر اس انفاق کا کوئی محرک سرے سے باقی رہ ہی نہیں جاتا جو خدا کی خوشنودی اور خالصۃً خدمت خلق اور ہمدردئ غرباء کے لیے ہو۔ ایسا شخص اگر کچھ خرچ کرتا ہے تو اپنی کسی ذاتی غرض یا ریاء و نمائش کے لیے کرتا ہے۔ بے غرض فیاضی صرف اسی شخص کے اندر پیدا ہوتی ہے جو آخرت کی جزاء و سزا پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہے۔ سورۂ لیل میں اس حقیقت پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے:

فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہ لِلْیُسْرٰی وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُہ لِلْعُسْرٰی.(الیل ۹۲: ۵-۱۰)
’’پس جس نے دیا اور ڈرا اور اچھے انجام کی اس نے تصدیق کی تو ہم اس کے لیے آسان راہ ہموار کریں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پروا ہوا اور اس نے اچھے انجام کی تکذیب کی تو ہم اس کو دشوار راہ پر ڈالیں گے۔‘‘

جاوید احمد غامدی

تم نے دیکھا اُس شخص کو جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے؟

یعنی ابو لہب کو جس کی شخصیت اِس باب کے آخر میں بالکل نمایاں ہو کر سامنے آ جائے گی۔

ابو الاعلی مودودی

تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟

تم نے دیکھا کا خطاب بظاہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر قرآن کا انداز بیان یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ عموما ہر صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے شخص کو مخاطب کرتا ہے۔ اور دیکھنے کا مطلب آنکھوں سے دیکھنا بھی ہے، کیونکہ آگے لوگوں کا جو حال بیان کیا گیا ہے وہ ہر دیکھنے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے، اور اس کا مطلب جاننا، سمجھنا اور غور کرنا بھی ہے۔ عربی کی طرح اردو میں بھی دیکھنے کا لفظ اس دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلا ہم کہتے ہیں کہ ” میں دیکھ رہا ہوں ” اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں جانتا ہوں یا مجھے خبر ہے۔ یا مثلا ہم کہتے ہیں کہ ” ذرا یہ بھی تو دیکھو ” اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرا اس بات پر بھی غور کرو۔ پس اگر لفظ اَرَءَيْتَ کو اس دوسرے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ” جانتے ہو وہ کیسا شخص ہے جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ” ؟ یا ” تم نے غور کیا اس شخص کے حال پر جو جزائے اعمال کی تکذیب کرتا ہے ” ؟

اصل میں يُكَذِّبُ بالدِّيْنِ فرمایا گیا ہے۔ الدین کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں آخرت کی جوائے اعمال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دین اسلام کے لیے بھی۔ لیکن جو مضمون آگے بیان ہوا ہے اس کے ساتھ پہلے معنی ہی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ اگرچہ دوسرے معنی بھی سلسلہ کلام سے غیر مطابق نہیں ہیں۔ ابن عباس نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے، اور اکثر مفسرین پہلے معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر پہلی معنی لیے جائیں تو پوری سورة کے مضمون کا مطلب یہ ہوگا کہ آخرت کے انکار کا عقیدہ انسان میں یہ سیرت و کردار پیدا کرتا ہے۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو پوری سورة کا مدعا دینا سلام کی اخلاقی اہمیت واضح کرنا قرار پائے گا۔ یعنی کلام کا مقصد یہ ہوگا کہ اسلام اس کے برعکس سیرت و کردار پیدا کرنا چاہتا ہے جو اس دین کا انکار کرنے والوں میں پائی جاتی ہے۔

انداز کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اس سوال سے بات کا آغاز کرنے کا مقصد یہ پوچھنا نہیں ہے کہ تم نے اس شخص کو دیکھا ہے یا نہیں، بلکہ سامع کو اس بات پر غور کرنے کی دعوت دینا ہے کہ آخرت کی جازا و سزا کا انکار آدم میں کس قسم کا کردار پیدا کرتا ہے، اور اسے یہ جاننے کا خواہشمند بنانا ہے کہ اس عقیدے کو جھٹلانے والے کیسے لوگ ہوتے ہیں تاکہ وہ ایمان بالآخرۃ کی اخلاقی اہمیت سمجھنے کی کوشش کرے۔

جونا گڑھی

کیا تو نے دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے ۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور استفہام سے مقصد اظہار تعجب ہے۔ رؤیت معرفت کے مفہوم میں ہے اور دین سے مراد آخرت کا حساب اور جزا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کلام میں حذف ہے۔ اصل عبادت ہے ” کیا تو نے اس شخص کو پہچانا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے ؟ آیا وہ اپنی اس بات میں صحیح یا غلط۔

فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ

امین احسن اصلاحی

وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

اسلامی معاشرہ میں یتیم کا مرتبہ: فرمایا کہ یہی شخص ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے۔ ’دَعٌّ‘ کے معنی دھکے دینے کے ہیں۔ فرمایا ہے:

’یَوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلٰی نَارِ جَھَنَّمَ دَعًّا‘ (الطور ۵۲: ۱۳)
(جس دن وہ دھکے دے دے کر جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے)

یتیموں کے ساتھ صحیح رویہ جس کی تعلیم دی گئی ہے ’اکرام‘ کا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

’کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ‘ (الفجر ۸۹: ۱۷)
(ہرگز نہیں، بلکہ تم لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے)

اسلامی معاشرہ میں، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، ضعیف اس وقت تک سب سے زیادہ قوی اور با اثر ہے جب تک اس کا حق اس کو مل نہ جائے۔ اس چیز کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد ان لوگوں کی دل سے عزت کرے جن کے حقوق ابھی ملنے ہیں۔ ان کے حقوق کی حمایت کرنا، ان کو ادا کرنے کی تلقین کرنا اور ان کو حاصل کرنے کے لیے سینہ سپر ہونا ہر باحمیت مسلمان کا فرض ہے۔

جاوید احمد غامدی

یہ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

اصل میں فَذٰلِكَ الَّذِيْ فرمایا گیا ہے۔ اس فقرے میں ف ایک پورے جملے کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ” اگر تم نہیں جانتے تو تمہیں معلوم ہو کہ وہی تو ہے جو ” یا پھر یہ اس معنی میں ہے کہ ” اپنے اسی انکار آخرت کی وجہ سے وہ ایسا شخص ہے جو “۔

اصل میں يَدُعُّ الْيَتِيْمَ کا فقرہ استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ یتیم کا حق مار کھاتا ہے اور اس کے باپ کی چھوڑی ہوئی میراث سے بےدخل کر کے اسے دھکے مار کر نکال دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ یتیم اگر اس سے مدد مانگنے آتا ہے تو رحم کھانے کے بجائے اسے دھتکار دیتا ہے اور پھر بھی اگر وہ اپنی پریشان حالی کی بنا پر رحم کی امید لیے ہوئے کھڑا رہے تو اسے دھکے دے کر دفع کردیتا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ یتیم پر ظلم ڈھاتا ہے، مثلا اس کے گھر میں اگر اس کا اپنا ہی کوئی رشتہ دار یتیم ہو تو اس کے نصیب میں سارے گھر کی خدمتگاری کرنے اور بات بات پر چھڑکیاں اور ٹھوکریں کھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں اس فقرے میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ اس شخص سے کبھی کبھار یہ ظالمانہ حرکت سرزد نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کی عادت اور اس کا مستقل رویہ یہی ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ یہ کوئی برا کام ہے جو وہ کر رہا ہے۔ بلکہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ یہ روش اختیار کیے رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یتیم ایک بےبس اور بےیارومددگار مخلوق ہے، اس لیے کوئی ہرج نہیں اگر اس کا حق مار کھایا جائے۔ یا اسے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنا کر رکھا جائے یا وہ مدد مانگنے کے لیے آئے تو اسے دھتکار دیا جائے۔

اس سلسلے میں ایک بڑا عجیب واقعہ قاضی ابو الحسن الماوردی نے اپنی کتاب اعلام النبوۃ میں لکھا ہے۔ ابو جہل ایک یتیم کا وصی تھا۔ وہ بچہ ایک روز اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے اور اس نے التجا کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اسے کچھ دیدے۔ مگر اس ظالم نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی اور وہ کھڑے کھڑے آخر کار مایوس ہو کر پلٹ گیا۔ قریش کے سرداروں نے ازا راہ شرارت اس سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاکر شکایت کر، وہ ابو جہل سے سفارش کر کے تجھے تیرا مال دلوا دیں گے۔ بچہ بےچارہ ناواقف تھا کہ ابو جہل کا حضور سے کیا تعلق ہے اور یہ بدبخت اسے کس غرض کے لیے یہ مشورہ دے رہے ہیں، وہ سیدھا حضور کے پاس پہنچا اور اپنا حال آپ سے بیان کیا۔ آپ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بد ترین دشمن ابو جہل کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ کو دیکھ کر اس نے آپ کا استقبال کیا اور جب آپ نے فرمایا کہ اس بچے کا حق اسے دے دو، تو وہ فورا مان گیا اور اس کا مال لاکر اسے دے دیا۔ قریش کے سردار تاک میں لگے ہوئے تھے کہ دیکھیں ان دونوں کے درمیان کیا معاملہ پیش آتا ہے۔ وہ کسی مزے دار جھڑپ کی امید کر رہے تھے۔ مگر جب انہوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران ہو کر ابو جہل کے پاس آئے اور اسے طعنہ دیا کہ تم بھی اپنا دین چھوڑ گئے۔ اس نے کہا خدا کی قسم، میں نے اپنا دین نہیں چھوڑا، مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں اور بائیں ایک ایک حربہ ہے جو میرے اندر گھس جائے گا اگر میں نے ذرا بھی ان کی مرضی کے خلاف حرکت کی، اس واقعہ سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عرب کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور معزز قبیلے تک کے بڑے بڑے سرداروں کا یتیموں اور دوسرے بےیارو مددگار لوگوں کے ساتھ کیا سلوک تھا، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس بلند اخلاق کے مالک تھے اور آپ کے اس اخلاق کا آپ کے بدترین دشمنوں تک پر کیا رعب تھا۔ اسی قسم کا ایک واقعہ ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ 146 پر نقل کرچکے ہیں، جو حضور کے اس زبردست اخلاقی رعب پر دلالت کرتا ہے جس کی وجہ سے کفار قریش آپ کو جادوگر کہتے تھے۔

جونا گڑھی

یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

س لیے کہ ایک تو بخیل ہے، دوسرا قیامت کا منکر ہے بھلا ایسا شخص یتیم کے ساتھ کیوں کر حسن سلوک کرسکتا ہے ؟ یتیم کے ساتھ وہی شخص اچھا برتاؤ کرے گا جس کے دل میں مال کے بجائے انسانی قدروں اور اخلاقی ضابطوں کی اہمیت ومحبت ہوگی۔ دوسرے اسے اس امر کا یقین ہو کہ اس کے بدلے میں مجھے قیامت والے دن اچھی جزا ملے گی۔

وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ

امین احسن اصلاحی

اور مسکینوں کو کھلانے پر نہیں ابھارتا۔

یہ وہی بات منفی پہلو سے فرمائی ہے کہ بھلا جو شخص یتیموں کو دھکے دے گا وہ مسکینوں کی پرورش اور ان کی خدمت و اعانت پر لوگوں کو کیا ابھارے گا! اس حقیقت کی طرف جگہ جگہ ااشارہ کیا جا چکا ہے کہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ اپنی بخیلی پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی بخیل بنے رہیں تاکہ کوئی شخص ان کو بخیل کہنے والا نہ رہے۔ ان کی خواہش کے خلاف اگر کوئی کچھ خرچ کرتا ہے تو وہ، جیسا کہ سورۂ ہمزہ کی تفسیر میں ہم بیان کر چکے ہیں، اس کو اپنے ہمز و لمز اور طعن و تشنیع کا ہدف بنا لیتے ہیں تاکہ شروع ہی میں اس کا حوصلہ پست کر دیں اور وہ اس راہ میں آگے نہ بڑھے۔

یہ امر واضح رہے کہ یہ اس شخص کا کردار بیان ہو رہا ہے جو اس زمانے میں بیت اللہ کے خاص اس شعبہ پر مسلط تھا جس کا تعلق غرباء و یتامیٰ کی خدمت سے تھا۔ مطلب یہ ہوا کہ جب چور ہی کوتوال بنا بیٹھا ہے تو اس کا جو نتیجہ نکل سکتا ہے وہ معلوم ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور مسکین کو کھلانے کے لیے نہیں ابھارتا۔

روز جزا کو جھٹلانے کے نتیجے میں یہ ابولہب کا کردار بیان ہوا ہے، دراں حالیکہ اُس زمانے میں وہ بیت اللہ کے خاص اُس شعبے کا نگران تھا جو غربا اور یتامیٰ کی خدمت کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...جو شخص آخرت کا منکر ہو گا، اُس کے اندر اُس انفاق کا کوئی محرک سرے سے باقی رہ ہی نہیں جاتا جو خدا کی خوشنودی اور خالصتاً خدمت خلق اور ہمدردی غربا کے لیے ہو۔ ایسا شخص اگر کچھ خرچ کرتا ہے تو اپنی کسی ذاتی غرض یا ریا ونمایش کے لیے کرتا ہے۔ بے غرض فیاضی صرف اُسی شخص کے اندر پیدا ہوتی ہے جو آخرت کی جزا و سزا پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۵۸۲)

ابو الاعلی مودودی

اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔

اِطعَامِ الْمِسْكِيْنِ نہیں بلکہ طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اگر اطعام مسکین کہا گیا ہوتا تو معنی یہ ہوتے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے پر نہیں اکساتا۔ لیکن طعام المسکین کے معنی یہ ہیں کہ وہ مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔ بالفاظ دیگر جو کھانا مسکین کو دیا جاتا ہے وہ دینے والے کا کھانا نہیں بلکہ اسی مسکین کا کھانا ہے، وہ اس کا حق ہے جو دینے والے پر عائد ہوتا ہے، اور دینے والا کوئی بخشش نہیں دے رہا ہے بلکہ اس کا حق ادا کر رہا ہے، یہی بات ہے جو سورة ذاریات آیت 19 میں فرمائی گئی ہے کہ وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ ” اور ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے “۔

لَا يَحُضُّ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنے نفس کو بھی اس کام پر آمادہ نہیں کرتا، اپنے گھر والوں کو بھی یہ نہیں کہتا کہ مسکین کا کھانا دیا کریں، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس بات پر اکسا تاکہ معاشرے میں جو غریب و محتاج لوگ بھوکے مر رہے ہیں ان کے حقوق پہچانیں اور اکی بھوک مٹانے کے لیے کچھ کریں۔

یہ اللہ تعالیٰ نے صرف دو نمایاں ترین مثالیں دے کر دراصل یہ بتایا ہے کہ انکار آخرت لوگوں میں کسی قسم کی اخلاقی برائیاں پیدا کرتا ہے۔ اصل مقصود ان دو ہی باتوں پر گرفت کرنا نہیں ہے کہ آخرت کو نہ ماننے سے بس یہ دو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ یتیموں کو دھتکارتے ہیں اور مسکینوں کا کھانا دینے پر نہیں اکساتے۔ بلکہ جو بیشمار خرابیاں اس گمراہی کے نتیجے میں رونما ہوتی ہیں ان میں سے دو ایسی چیزیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جن کو ہر شریف الطبع اور سلیم الفطرت انسان مانے گا کہ وہ نہایت قبیح اخلاقی رذائل ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ اگر یہی شخص خدا کے حضور اپنی حاضری اور جواب دہی کا قائل ہوتا تو اس سے ایسی کمینہ حرکتیں سرزد نہ ہوتیں کہ یتیم کا حق مارے، اس پر ظلم ڈھائے، اس کو دھتکارے، اور مسکین کو نہ خود کھلائے نہ کسی سے یہ کہے کہ اس کا کھانا اس کو دو۔ آخرت کا یقین رکھنے والوں کے اوصاف تو وہ ہیں جو سورة عصر اور سورة بلد میں بیان کیے گئے ہیں کہ وَتَوَاصَوْا بالْمَرْحَمَةِ (وہ ایک دوسرے کو خلق خدا پر رحم کھانے کی نصیحت کرتے ہیں) اور وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّ (وہ ایک دوسرے کو حق پرستی اور ادائے حقوق کی نصیحت کرتے ہیں) ۔

جونا گڑھی

اور مسکین کو کھلانے کے لئے ترغیب نہیں دیتا

یہ کام بھی وہی کرے گا جس میں مذکورہ خوبیاں ہونگی ورنہ یتیم کی طرح مسکین کو بھی دھکا ہی دے گا۔

فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ

امین احسن اصلاحی

پس ہلاکی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے۔

بیت اللہ کے پروہتوں کی بے روح نمازیں: یہ بیت اللہ کے ان پروہتوں کی نمازوں کی بے حقیقتی کی طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ یہ بیت اللہ کے متولی ہونے کے تعلق سے اپنے عوام کو دکھانے کے لیے نماز کی رسم بھی ادا کرتے ہیں لیکن ان کی نماز محض دکھاوے کی ہوتی ہے اس وجہ سے روح سے بالکل خالی، نری ریاکاری ہوتی ہے۔

یہ امر واضح رہے کہ بیت اللہ کا اصل مقصد تعمیر نماز کا قیام تھا اور اس کے جوار میں حضرت اسمٰعیل کو حضرت ابراہیم نے خاص اسی مقصد سے بسایا تھا کہ وہ اور ان کی ذریت نماز کا اہتمام رکھیں۔ اسی کی خاطر انھوں نے ان کے لیے امن اور رزق کی دعا بھی فرمائی تھی۔ سورۂ ابراہیم میں یہ دعا یوں مذکور ہے:

رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ. (ابراہیم ۴۱: ۳۷)
’’اے ہمارے رب، میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو ایک بن کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے، اے ہمارے رب، تاکہ یہ نماز کا اہتمام کریں۔‘‘

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے نماز کے قیام و اہتمام کا فریضہ جس طرح ادا فرمایا اس کی شہادت قرآن میں موجود ہے کہ

’وَکَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ‘ (مریم ۱۹: ۵۵)
(اور وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا)

اگرچہ بعد کے ادوار میں مبتدعین اور خائنوں کے تسلط کے سبب سے نماز اور زکوٰۃ دونوں کا حلیہ بالکل بگڑ گیا۔ زکوٰۃ کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل اوپر گزری۔ نماز کا جو حال ہوا اس کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ سورۂ انفال کی آیت ۳۵ میں موجود ہے:

’وَمَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّتَصْدِیَۃً‘ (الانفال ۸: ۳۵)
(بیت اللہ کے پاس ان کی نماز سیٹی اور تالی بجانا رہ گئی ہے)

تاہم اپنی بگڑی ہوئی صورت میں سہی یہ چیزیں باقی رہیں اور جس طرح ہر دور کے لیڈر اپنے عوام کو بے وقوف بنائے رکھنے کے لیے مذہبی رسوم کی نمائش کرتے رہتے ہیں اسی طرح قریش کے لیڈر بھی خاص خاص مواقع پر ان رسوم کی نمائش کرتے رہتے تھے۔ ان کی اسی نماز پر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جو اپنی نمازوں کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔

جاوید احمد غامدی

اِس لیے بربادی ہے (حرم کے پروہت) اِن نمازیوں کے لیے۔

یہ لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کہ قریش بیت اللہ کے متولی تھے اور اپنی اِس حیثیت کے پیش نظر اپنی مذہبیت کا کچھ نہ کچھ بھرم قائم رکھتے تھے۔چنانچہ ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے نمازیں بھی ادا کرلیتے تھے۔ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی قائم کردہ سنت کی جو کچھ باقیات رہ گئی تھیں، یہ نمازیں اُسی کے مطابق ادا کی جاتی تھیں۔

ابو الاعلی مودودی

پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے۔

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ یہاں ف اس معنی میں ہے کہ کھلے کھلے منکرین آخرت کا حال تو یہ تھا جو ابھی تم نے سنا، اب ذرا ان منافقوں کا حال بھی دیکھو جو نماز پڑھنے والے گروہ، یعنی مسلمانوں میں شامل ہیں۔ وہ چونکہ بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود آخرت کو جھوٹ سمجھتے ہیں، اس لیے ذرا دیکھو کہ وہ اپنے لیے کس تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔

مُصَلِّيْنَ کے معنی تو ” نماز پڑھنے والوں ” کے ہیں، لیکن جس سلسلہ کلام میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آگے ان لوگوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی درحقیقت نمازی ہونے کے نہیں بلکہ اہل صلوۃ، یعنی مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہونے کے ہیں۔

جونا گڑھی

ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے۔

n/a

الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ

امین احسن اصلاحی

جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں۔

بیت اللہ کے پروہتوں کی بے روح نمازیں: یہ بیت اللہ کے ان پروہتوں کی نمازوں کی بے حقیقتی کی طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ یہ بیت اللہ کے متولی ہونے کے تعلق سے اپنے عوام کو دکھانے کے لیے نماز کی رسم بھی ادا کرتے ہیں لیکن ان کی نماز محض دکھاوے کی ہوتی ہے اس وجہ سے روح سے بالکل خالی، نری ریاکاری ہوتی ہے۔

یہ امر واضح رہے کہ بیت اللہ کا اصل مقصد تعمیر نماز کا قیام تھا اور اس کے جوار میں حضرت اسمٰعیل کو حضرت ابراہیم نے خاص اسی مقصد سے بسایا تھا کہ وہ اور ان کی ذریت نماز کا اہتمام رکھیں۔ اسی کی خاطر انھوں نے ان کے لیے امن اور رزق کی دعا بھی فرمائی تھی۔ سورۂ ابراہیم میں یہ دعا یوں مذکور ہے:

رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ. (ابراہیم ۴۱: ۳۷)
’’اے ہمارے رب، میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو ایک بن کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے، اے ہمارے رب، تاکہ یہ نماز کا اہتمام کریں۔‘‘

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے نماز کے قیام و اہتمام کا فریضہ جس طرح ادا فرمایا اس کی شہادت قرآن میں موجود ہے کہ

’وَکَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ‘ (مریم ۱۹: ۵۵)
(اور وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا)

اگرچہ بعد کے ادوار میں مبتدعین اور خائنوں کے تسلط کے سبب سے نماز اور زکوٰۃ دونوں کا حلیہ بالکل بگڑ گیا۔ زکوٰۃ کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل اوپر گزری۔ نماز کا جو حال ہوا اس کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ سورۂ انفال کی آیت ۳۵ میں موجود ہے:

’وَمَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّتَصْدِیَۃً‘ (الانفال ۸: ۳۵)
(بیت اللہ کے پاس ان کی نماز سیٹی اور تالی بجانا رہ گئی ہے)

تاہم اپنی بگڑی ہوئی صورت میں سہی یہ چیزیں باقی رہیں اور جس طرح ہر دور کے لیڈر اپنے عوام کو بے وقوف بنائے رکھنے کے لیے مذہبی رسوم کی نمائش کرتے رہتے ہیں اسی طرح قریش کے لیڈر بھی خاص خاص مواقع پر ان رسوم کی نمائش کرتے رہتے تھے۔ ان کی اسی نماز پر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جو اپنی نمازوں کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔

جاوید احمد غامدی

جو اپنی نمازوں (کی حقیقت) سے غافل ہیں۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔

فِیْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ نہیں کہا گیا بلکہ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ کہا گیا ہے۔ اگر فی سلوتہم کے الفاظ استعمال ہوتے تو مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنی نماز میں بھولتے نہیں۔ لیکن نماز پڑھتے پڑھتے کچھ بھول جانا شریعت میں نفاق تو درکنار گناہ بھی نہیں ہے، بلکہ سرے سے کوئی عیب یا قابل گرفت بات تک نہیں ہے۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی کسی وقت نماز میں بھول لاحق ہوئی ہے۔ اور حضور نے اس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو کا طریقہ مقرر فرمایا ہے۔ اس کے برعکس عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی نماز سے غافل ہیں۔ نماز پڑھی تو اور نہ پڑھہ تو، دونوں کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کبھی پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے۔ پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ نماز کے وقت کو ٹالتے رہتے ہیں اور جب وہ بالکل ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتے ہیں۔ یا نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو بےدلی کے ساتھ اٹھتے ہیں اور بادل ناخواستہ پڑھ لیتے ہیں جیسے کوئی مصیبت ہے جو ان پر نازل ہوگئی ہے۔ کپڑوں سے کھیلتے ہیں، جمائیاں لیتے ہیں، خدا کی یاد کا کوئی شائبہ تک ان کے اندر نہیں ہوتا۔ پوری نماز میں نہ ان کہ یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں اور نہ یہ خیال رہتا ہے کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے۔ پڑھ رہے ہوتے ہیں نماز اور دل کہیں اور پڑا رہتا ہے۔ مارا مار اس طرح پڑھتے ہیں کہ نہ قیام ٹھیک ہوتا ہے نہ رکوع نہ سجود۔ بس کسی نہ کسی طرح نماز کی سی شکل بنا کر جلدی سے جلدی فارغ ہوجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ تو ایسے ہیں کہ کسی جگہ پھنس گئے تو نماز پڑھ لی، ورنہ اس عابدت کا کوئی مقام ان کی زندگی میں نہیں ہوتا، نماز کا وقت آتا ہے تو انہیں محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ نماز کا وقت ہے۔ موذن کی آواز کان میں آتی ہے تو انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ یہ کیا پکار رہا ہے، کس کو پکار رہا ہے اور کس لیے پکار رہا ہے۔ یہی آخرت پر ایمان نہ ہونے کی علامات ہیں۔ کیونکہ دراصل اسلام کے مدعیوں کا یہ طرز عمل اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ نہ نماز پڑھنے پر کسی جزا کے قائل ہیں اور نہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ کے نہ پڑھنے پر کوئٰ سزا ملے گی۔ اسی بنا پر حضرت انس بن مالک اور عطا بن دینار کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے اس نے فِیْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ نہیں بلکہ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ فرمایا۔ یعنی ہم نماز میں بھولتے تو ضرور ہیں مگر نماز سے غافل نہیں ہیں اس لیے ہمارا شمار منافقوں میں نہیں ہوگا۔

قرآن مجید میں منافقین کی اس کیفیت کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُمْ كٰرِهُوْنَ ۔ ” وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر کسمساتے ہوئے اور (اللہ کی راہ میں) خرچ نہیں کرتے مگر بادل ناخواستہ ” (التوبہ 54) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں تلک صلوۃ المنافق، تلک صلوۃ المنافق، تلک صلوۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی اذا کانت بین قرنی الشیطان قام فقر اربعا لا یذکر اللہ فیھا الا قلیلا ” یہ منافق کی نماز ہے یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، عصر کے وقتبیٹحا سورج کو دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا (یعنی غروب کا وقت آجاتا ہے) تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے جن میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے “۔ (بخاری، مسلم، مسند احمد) حضرت سعد بن ابی وقاص سے ان کے صاحبزادے مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تھا جو نماز سے غفلت برتتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کا وقت ٹال کر پڑھتے ہیں۔ (ابن جریر، ابو یعلی، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی فی الاوسط، ابن مردویہ، بیہقی فی السنن۔ ) یہ روایت حضرت سعد کے اپنے قول کی حیثیت سے بھی موقوفا نقل ہوئی ہے اور اس کی سند زیادہ قوی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کی حیثیت سے اس کی مرفوعا روایت کو بیہقی اور حاکم نے ضعیف قرار دیا ہے) حضرت مصعب کی دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے پوچھا کہ اس آیت پر آپ نے غور فرمایا ؟ کیا اس کا مطلب نماز کو چھوڑ دینا ہے ؟ یا اس سے مراد نماز پڑھتے پڑھتے آدمی کا خیال کہیں اور چلا جانا ہے ؟ خیال بٹ جانے کی حالت ہم میں سے کسی پر نہیں گزرتی ؟ انہوں نے جواب دیا نہیں، اس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت ٹال کر پڑھنا ہے (ابن جریر، ابن ابی شیبہ، ابو یعلی، ابن المنذر، ابن مردویہ، بیہقی فی السنن)

اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نماز میں دوسرے خیالات کا آجانا اور چیز ہے اور نماز کی طرف کبھی متوجہ ہی نہ ہونا اور اس میں ہمیشہ دوسری باتیں ہی سوچتے رہنا بالکل دوسری چیز۔ پہلی حالت تو بشریت کا تقاضا ہے، بلا ارادہ دوسرے خیالات آ ہی جاتے ہیں، اور مومن کو جب بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ نماز سے اس کی توجہ ہٹ گئی ہے تو وہ پھر کوشش کر کے اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ دوسری حالت نماز سے غفلت برتنے کی تعریف میں آتی ہے، کیونکہ اس میں آدمی صرف نماز کی ورزش کرلیتا ہے، خدا کی یاد کوئی ارادہ اس کے دل میں نہیں ہوتا، نماز شروع کرنے سے سلام پھیرنے تک ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا دل خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اور جن خیالات کو لیے ہوئے وہ نماز میں داخل ہوتا ہے انہی میں مستغرق رہتا ہے۔

جونا گڑھی

جو اپنی نماز سے غافل ہیں

اس مراد وہ لوگ ہیں نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے رہے پھر سست ہوگئے یا نماز کو اس کے اپنے مسنوں وقت میں نہیں پڑھتے۔ جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں یا خشوع خضوع کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ یہ سارے ہی مفہوم اس میں آجاتے ہیں اس لیے نماز کی مذکورہ ساری ہی کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔ کہاں اس مقام پر ذکر کرنے سے یہ بھی واضح ہے کہ نماز میں ان کوتاہیوں کے مرتکب وہی لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کی جزا اور حساب کتاب پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے منافقین کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے۔ (وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢؁ۡۙ) 4 ۔ النساء :142)

الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ

امین احسن اصلاحی

جو اپنی نمازوں (کی حقیقت) سے غافل ہیں۔

جاوید احمد غامدی

یہ جو (عبادت کی) نمایش کرتے۔

ابو الاعلی مودودی

جو ریا کاری کرتے ہیں۔

یہ فقرہ ایک مستقل فقرہ بھی ہوسکتا ہے اور پہلے فقرے سے متعلق بھی۔ اگر اسے ایک مستقل فقرہ قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی نیک کام بھی وہ خالص نیت کے ساتھ خدا کے لیے نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کرتے ہیں دوسروں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی تعریف ہو، لوگ ان کو نیکو کار سمجھیں، ان کے کار خیر کا ڈھنڈورا دنیا میں پٹے، اور اس کا فائدہ کسی نہ کسی صورت میں انہیں دنیا ہی میں حاصل ہوجائے۔ اور اگر اس کا تعلق پہلے فقرے کے ساتھ مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں۔ مفسرین نے بالعموم دوسرے ہی معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ پہلی نظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کا تعلق پہلے فقرے سے ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں ” اس سے مراد منافقین ہیں جو دکھاوے کی نماز پڑھتے تھے، اگر دوسرے لوگ موجود ہوتے تو پڑھ لیتے اور کوئی دیکھنے والا نہ ہوتا تو نہیں پڑھتے تھے “۔ دوسری روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں ” تنہا ہوتے تو نہ پڑھتے اور علانیہ پڑھ لیتے تھے ” (ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب) قرآن مجید میں بھی منافقین کی یہ حالت بیان کی گئی ہے کہ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ” اور جب وہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اٹھتے ہیں، لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں “۔ (النساء۔ 142)

جونا گڑھی

جو ریاکاری کرتے ہیں۔

یعنی ایسے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ہوئے تو نماز پڑھ لی بصورت دیگر نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، یعنی صرف نمود و نمائس اور ریا کاری کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔

وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ

امین احسن اصلاحی

اور ادنیٰ چیزوں میں بھی بخالت کرتے ہیں۔

نمازوں کی بے حقیقتی کی وضاحت: یہ ان کی نمازوں کی بے حقیقتی کی وضاحت ہے کہ یہ محض دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی بخیل ہیں۔ یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان کی نمازوں کے بے روح و بے جان ہونے پر دو چیزوں سے دلیل قائم کی ہے۔ ایک ان کی ریاکاری سے دوسرے ان کی خِسّت سے۔

نماز کی اصل حقیقت اخلاص ہے۔ یعنی وہ صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی خوشنودی اور رضا طلبی کے لیے پڑھی جائے۔ اس کے سوا اگر کوئی اور غرض اس میں شامل ہو جائے تو نماز بالکل باطل اور اپنے اصل مقصد کے اعتبار سے نہ صرف بے نتیجہ بلکہ نہایت مہلک ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی نمازیں اول تو ان کے فساد عقیدہ کے سبب سے اخلاص سے محروم تھیں ثانیاً وہ پڑھتے بھی، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، محض دکھاوے ہی کے لیے تھے تاکہ ان کے عوام ان کو مذہبی سمجھیں۔ اس طرح کی نماز ظاہر ہے کہ محض ایکٹنگ ہوتی ہے جس کا زندگی کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا۔ جس طرح کسی ڈرامے میں مجنوں کا پارٹ ادا کر دینے سے کوئی مجنوں نہیں بن جاتا اسی طرح اس قسم کے لوگ مسجد میں آ جانے اور رکوع و سجود اور قیام و قعود کی نمائش کر دینے سے نمازی نہیں بن جاتے۔
علاوہ ازیں ان لوگوں کی خِسّت بھی اس بات کی دلیل تھی کہ ان کی نمازیں بالکل بے روح و بے جان ہیں۔ نماز کی اصل روح اپنے رب کی شکرگزاری ہے۔ جو بندہ اپنے رب کا شکرگزار ہوتا ہے وہ خسیس و لئیم نہیں ہوتا بلکہ فیاض و کریم ہوتا ہے۔ وہ اپنے رب کی نعمتوں میں دوسروں کو شریک کرتا اور اس کو ان کا حق سمجھتا ہے۔ اس کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ جب میرے رب نے مجھے بخشا ہے تو اس کی شکرگزاری کا تقاضا یہ ہے کہ میں اس میں ان لوگوں کو شریک کروں جو اس سے محروم ہیں اور یہ جذبہ اس پر اس قدر غالب ہوتا ہے کہ بسا اوقات وہ اپنی ضرورت کو نظرانداز کر کے دوسروں کی مدد کرنے میں لذت و حلاوت محسوس کرتا ہے۔ نماز اور انفاق کے باہمی تعلق پر اس کتاب میں جگہ جگہ بحث ہو چکی ہے۔ فلسفۂ دین کے اعتبار سے جذبۂ شکر کی تحریک سے سب سے پہلے نماز وجود میں آتی ہے اور پھر نماز انفاق کے لیے محرک بنتی ہے اور پھر انہی دو چیزوں پر شریعت کا پورا نظام قائم ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور برتنے کی کوئی ادنیٰ چیز بھی کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔

اصل میں لفظ ماعون استعمال ہوا ہے۔ حضرت علی، ابن عمر، سعید بن جبیر، قتادہ، حسن بصری، محمد بن حنفیہ، ضحاک، ابن زید، عکرمہ، مجاہد، عطاء اور زہری رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود، ابراہیم نخعی، ابو مالک، (رض) ، اور بہت سے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مراد عام ضرورت کی اشیاء مثلا ہنڈیا، ڈول، کلہاڑی، ترازو، نمک، پانی، آگ، چقماق (جن کی جانشین اب دیا سلائی ہے) وغیرہ ہیں جو عموما لوگ ایک دوسرے سے عاریۃ مانگتے رہتے ہیں۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ حضرت علی کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ بھی ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی عام ضروریات کی چیزیں بھی۔ عکرمہ سے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ ماعون کا اعلی مرتبہ زکوٰۃ ہے اور ادنی ترین مرتبہ یہ ہے کہ کسی کو چھلنی، ڈول یا سوئی عاریۃ دی جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہا کرتے تھے (اور بعض روایات میں ہے کہ حضور کے عہد مبارک میں یہ کہا کرتے تھے) کہ ماعون سے مراد ہنڈیا، کلہاڑی، ڈول، ترازو، اور ایسی ہی دوسری چیزیں مستعار دینا ہے (ابن جریر، ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، نسائی، بزار، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی فی الاوسط، ابن مردویہ، بیہقی فی السنن، سعد بن عیاض ناموں کے تصریح کے بغیر قریرب قریب یہی قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ سے نقل کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے متعدد صحابہ سے یہ بات سنی تھی (ابن جریر، ابن ابی شیبہ) دیلمی، ابن عساکر اور ابو نعیم نے حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی یہ تفسیر بیان فرمائی کہ اس سے مراد کلہاڑی اور ڈول اور ایسی ہی دوسری چیزیں ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو غالبا یہ دوسرے لوگوں کے علم میں نہ آئی ہوگی، ورنہ ممکن نہ تھا کہ پھر کوئی شخص اس آیت کی کوئی اور تفسیر کرتا۔

اصل بات یہ ہے کہ ماعون چھوٹی اور قلیل چیز کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کے لیے کوئی منفعت یا فائدہ ہو۔ اس معنی کے لحاظ سے زکوٰۃ بھی ماعون ہے، کیونکہ وہ بہت سے مال میں سے تھوڑا سا مال ہے جو غریبوں کی مدد کے لیے دنیا ہوتا ہے، اور وہ دوسری عام ضرورت کی اشیاء کی بھی ماعون ہیں جن کا ذکر حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے ہم خیال حضرات نے کیا ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ماعون کا اطلاق ان تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوتا ہے جو عادۃ ہمسایے ایک دوسرے سے مانگتے رہتے ہیں۔ ان کا مانگنا کوئی ذلت کی بات نہیں ہوتا، کیونکہ غریب اور امیر سب ہی کو کسی نہ کسی وقت ان کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ البتہ ایسی چیزوں کو دینے سے بخل برتنا اخلاقا ایک ذلیل حرکت سمجھا جاتا ہے، عموما ایسی چیزیں بجائے خود باقی رہتی ہیں اور ہمسایہ ان سے کام لے کر انہیں جوں کا توں واپس دے دیتا ہے۔ اسی ماعون کی تعریف میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کے ہاں مہمان آجائیں اور وہ ہمسائے سے چارپائی یا بستر مانگ لے، یا کوئی اپنے ہمسائے کے تنور میں اپنی روٹی پکا لینے کی اجازت مانگے۔ یا کوئی کچھ دنوں کے لیے باہر جارہا ہو اور حفاظت کے لیے اپنا کوئی قیمتی سامان دوسرے کے ہاں رکھوانا چاہے۔ پس آیت کا مقصود یہ بتانا ہے کہ آخرت کا انکار آدمی کو اتنا تنگ دل بنا دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کوئی معمولی ایثار کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔

جونا گڑھی

اور برتنے کی چیز روکتے ہیں

معن شیء قلیل کہتے ہیں۔ بعض اس سے مراد زکوٰۃ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اصل مال کے مقابلے میں بالکل تھوڑی سی ہوتی ہے (ڈھائی فی صد) اور بعض اس سے گھروں میں برتنے والی چیزیں مراد لیتے ہیں جو پڑوسی ایک دوسرے سے عاریتا مانگ لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ گھریلو چیزیں عاریتا دے دینا اور اس میں کبیدگی محسوس نہ کرنا اچھی صفت ہے اور اس کے برعکس بخل اور کنجوسی برتنا، یہ منکرین قیامت ہی کا شیوہ ہے۔