اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے۔
یہ اُسی حالت کی تصویر ہے جس کا ذکر اِس سے پہلے سورۂ مزمل میں ہوا ہے۔ ’مُدَّثِّر‘ اور ’مُزَّمِّل‘ ہم معنی ہیں۔ لفظ ’مُدَّثِّر‘ ’دثار‘ سے بنا ہے۔ یہ اُس چادر کو کہتے ہیں جو سونے کے لیے اوڑھ لی جاتی ہے۔
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے۔
اوپر دیباچے میں ہم ان آیات کے نزول کا جو پس منظر بیان کر کے آئے ہیں اس پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یایھا الرسول یا یایھا النبی کہہ کر مخطاب کرنے کے بجائے یایھا المدثر کہہ کر کیوں مخاطب کیا گیا ہے۔ چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یکایک جبریل (علیہ السلام) کو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہیبت زدہ ہوگئے تھے اور اسی حالت میں گھر پہنچ کر آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا تھا کہ مجھے اڑھاؤ، مجھے اڑھاؤ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یایھا المدثر کہہ کر خطاب فرمایا۔ اس لطیف طرز خطاب سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اے میرے پیارے بندے، تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہاں گئے، تم پر تو ایک کار عظیم کا بار ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پورے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
اے کپڑا اوڑھنے والے
سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ (اِ قْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ) ہے اس کے بعد وحی میں وقفہ ہوگیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت مضطرب اور پریشان رہتے۔ ایک روز اچانک پھر وہی فرشتہ، جو غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی لے کر آیا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، جس سے آپ پر ایک خوف سا طاری ہوگیا اور گھر جاکر گھر والوں سے کہا کہ مجھے کوئی کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے جسم پر ایک کپڑا ڈال دیا، اسی حالت میں وحی نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری) اس اعتبار سے یہ دوسری وحی اور احکام کے حساب سے پہلی وحی ہے۔
اٹھ اور لوگوں کو ڈرا۔
انذار عام کے لیے کھڑے ہونے کا حکم: ’قُمْ فَاَنْذِرْ‘۔ یہ اس مہم کا بیان ہے جس کی طرف پچھلی سورہ میں ’اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا‘ (۵) (ہم تم پر آگے ایک بھاری ذمہ داری ڈالنے والے ہیں) کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ یعنی کمر بستہ ہو کر اٹھو اور پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنی قوم کو انذار کرو۔ مخالفت و مزاحمت، حالات کی نامساعدت اور ماحول کی اجنبیت کی پروا نہ کرو۔ جب تم ہمت کر کے اٹھ کھڑے ہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری راہ آسان کرے گا اور غیب سے تمہاری تائید کے اسباب فراہم ہوں گے۔ سابق سورہ میں یہ اشارہ ہم کر چکے ہیں کہ ’اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا‘ (۵) سے اسی انذار عام کے حکم کی طرف اشارہ ہے جو یہاں دیا گیا ہے۔ عام طور پر لوگوں نے ’قَوْلٌ ثَقِیْلٌ‘ سے خود وحی کو مراد لیا ہے لیکن وحی تو اس سے پہلے بھی نازل ہو چکی تھی تو یہ کہنے کے کیا معنی کہ ’ہم عنقریب تم پر ایک قول ثقیل نازل کریں گے!‘ البتہ انذار کا یہ حکم آپ کے لیے بلاشبہ ایک بہت ہی بھاری حکم تھا۔ مکہ اور طائف کے سرداروں کے کانوں میں توحید کی اذان دینا اور وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ آپ اللہ کے رسول ہو کر آئے ہیں، اگرا نھوں نے آپ کے انذار کی تکذیب کی تو اس کے عذاب کی زد میں آ جائیں گے کوئی سہل کام نہیں تھا۔ اس بھاری ذمہ داری سے آپ کا ہراس محسوس کرنا ایک امر فطری تھا۔ چنانچہ ابتداءً آپ نے اپنے کام کو اپنے خاص خاندان والوں ہی تک محدود رکھا اور ان پر بھی نہایت احتیاط کے ساتھ صرف اپنے بعض مشاہدات و تجربات کا اظہار فرما کر ان کا ردعمل معلوم کرنا چاہا جو نہایت مخالفانہ صورت میں سامنے آیا۔ چنانچہ اس دور میں آپ پر نہایت شدید فکرمندی کی حالت طاری رہی۔ جس کی تصویر ’مزّمّل‘ اور ’مدّثّر‘ کے الفاظ سے ہمارے سامنے آتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے آپ کو مبعوث فرمایا تھا وہ ہونا تھا چنانچہ پہلے (سورۂ مزمل میں) آپ کو اس صورت حال کے مقابلہ کے لیے تیاری کی ہدایت ہوئی پھر اس سورہ میں کمر باندھ کر انذار عام کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم ہوا۔
اٹھو اور انذار عام کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
یہ اُس ذمہ داری کا بیان ہے جس کی طرف پچھلی سورہ میں ’اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلاً‘ کے الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...مکہ اور طائف کے سرداروں کے کانوں میں توحید کی اذان دینا اور وہ بھی اِس دعوے کے ساتھ کہ آپ اللہ کے رسول ہو کر آئے ہیں، اگر اُنھوں نے آپ کے انذار کی تکذیب کی تو اُس کے عذاب کی زد میں آجائیں گے، کوئی سہل کام نہیں تھا۔ اِس بھاری ذمہ داری سے آپ کا ہراس محسوس کرنا ایک امر فطری تھا۔ چنانچہ ابتداءً آپ نے اپنے کام کو اپنے خاص خاندان والوں ہی تک محدود رکھا اور اُن پر بھی نہایت احتیاط کے ساتھ صرف اپنے بعض مشاہدات و تجربات کا اظہار فرما کر اُن کا ردعمل معلوم کرنا چاہا جو نہایت مخالفانہ صورت میں سامنے آیا۔ چنانچہ اِس دور میں آپ پر نہایت شدید فکر مندی کی حالت طاری رہی، جس کی تصویر ’مُزَّمِّل‘ اور ’مُدَّثِّر‘ کے الفاظ سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے آپ کو مبعوث فرمایا تھا، وہ ہونا تھا۔ چنانچہ پہلے (سورۂ مزمل میں) آپ کو اِس صورت حال کے مقابلے کے لیے تیاری کی ہدایت ہوئی، پھر اِس سورہ میں کمر باندھ کر انذار عام کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم ہوا۔‘‘ (تدبرقرآن ۹/ ۴۳)
اٹھو اور خبردار کرو۔
یہ اسی نوعیت کا حکم ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کو نبوت کے منصب پر مامور کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ انذر قومک من قبل ان یاتیھم عذاب الیم ” اپنی قوم کے لوگوں کو ڈراؤ قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آجائے “۔ (نوح۔ 1) آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور تمہارے گردو پیش خدا کے جو بندے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ان کو چونکا دو۔ انہیں اس انجام سے ڈراؤ جس سے یقیناً وہ دوچار ہوں گے اگر اسی حالت میں مبتلا رہے۔ انہیں خبردار کر دو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان کے کسی عمل کی کوئی باز پرس نہ ہو۔
کھڑا ہوجا اور آگاہ کر دے ۔
یعنی اہل مکہ کو ڈرا، اگر وہ ایمان نہ لائیں۔
اور اپنے رب ہی کی کبریائی کی منادی کر۔
توحید خالص کی منادی: یہ اس انذار کا پہلا حکم ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں توحید کو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے یعنی صرف اللہ ہی کی کبریائی و یکتائی کا اعلان۔ مفعول کی تقدیم سے یہاں حصر کا مضمون پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی اللہ کے سوا جو بھی کبریائی کے مدعی ہیں یا جن کی کبریائی کا بھی دعویٰ کیا جا سکتا ہے وہ سب باطل، تم صرف اپنے رب ہی کی عظمت و کبریائی کا اعلان کرو۔ ایک جاہلی معاشرہ میں یہ اعلان ساری خدائی سے لڑائی مول لینے کے ہم معنی تھا لیکن دین کی بنیاد چونکہ اسی کلمہ پر ہے اس وجہ سے ہر نبی کو بے درنگ یہ اعلان کرنا پڑا۔
اپنے رب ہی کی کبریائی کا اعلان کرو۔
یعنی اعلان کرو کہ وہی سب سے بڑا، سب سے یگانہ، یکتا اور بے ہَمتا ہے۔ اُس کے سوا جن کی بڑائی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ سب باطل ہیں۔
اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو۔
یہ ایک نبی کا اولین کام ہے جسے اس دنیا میں اسے انجام دینا ہوتا ہے۔ اس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں ان سب کی نفی کر دے اور ہانکے پکارے دنیا بھر میں یہ اعلان کر دے کہ اس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اذان کی ابتدا ہی اللہ اکبر کے اعلان سے ہوتی ہے۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے۔ نعرہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے زیادہ نمایاں امتیازی شعار ہے کیونکہ اس امت کے نبی نے اپنا کام ہی اللہ اکبر کی تکبیر سے شروع کیا تھا۔
اس مقام پر ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ ان آیات کی شان نزول سے معلوم ہوچکا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ بات ظاہر تھی کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر اٹھنے کا آپ کو حکم دیا جا رہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکین عرب کا سب سے بڑا تیرتھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اس کے مجاور تھے۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کردینا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ اسی لیے ” اٹھو اور خبردار کرو ” کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ ” اپنے رب کی بڑائی کا علان کرو ” اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اس کام میں تمہیں نظر آتی ہیں ان کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب ان سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی کی جاسکتی ہے۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑ جانے میں بھی ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا۔
اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔
n/a
اور اپنے دامن کو پاک رکھ۔
لفظ ’ثیاب‘ کا مفہوم: لفظ ’ثِیَابٌ‘ جمع ہے ’ثَوْبٌ‘ کی جس کے معنی کپڑے کے ہیں لیکن اس کے معنی دامن کے بھی ہو سکتے ہیں۔ بلکہ کلام عرب کے شواہد سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس مفہوم میں بھی آتا ہے جس کو ہم اپنی زبان میں ’دامن دل‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ امرء القیس کا مشہور شعر ہے:
وان تک قد ساء تک منی خلیفۃ
فسلی ثیابی من ثیابک تنسل
’’اگر میری حرکت تجھے بری ہی لگی ہے تو میرے دامن دل کو اپنے دامن دل سے جدا کر دے تو جدا ہو جائے گی۔‘‘
اس شعر میں شارحین نے ’ثیاب‘ کو دل ہی کے معنی میں لیا ہے اور یہ معنی اس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جب اس کو بطریق استعارہ ’دامن دل‘ کے مفہوم میں سمجھا جائے۔ امرء القیس ہی کا مصرعہ ہے:
ثیاب بنی عوف طھاری نقیّۃ
’’بنی عوف کے دامن بالکل پاک صاف ہیں۔‘‘
لفظ ’ثیاب‘ کے اس مفہوم کی روشنی میں آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ تم بالکل بے خوف ہو کر اپنے رب کی کبریائی اور وحدت کی منادی کرو۔ مخالفین خواہ کتنی خاک بازی کریں اور کتنا ہی زور لگائیں لیکن تم اپنے دامن دل پر نجاست شرک کا کوئی چھینٹا نہ آنے دو۔ یہ امر واضح رہے کہ قرآن نے نہایت واضح الفاظ میں مشرکوں کو نجس اور شرک کو نجاست سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ ہدایت آپ کو اس لیے فرمائی گئی کہ بعد کے مراحل میں قریش کے لیڈروں نے آپ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ وہ آپ کی سب باتیں مان لیں گے بشرطیکہ آپ بھی ان کے معبودوں کا کوئی مقام تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات نہایت سختی سے رد فرما دی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی آپ کو نہایت تاکید کے ساتھ یہی ہدایت ہوئی کہ توحید بنیاد دین ہے، اس باب میں آپ کوئی لچک ہرگز قبول نہ کریں:
’وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ‘ (القلم ۶۸: ۹)
(وہ چاہتے ہیں کہ تم کچھ نرم پڑو تو وہ بھی کچھ نرم ہو جائیں)
اور اسی مضمون کی ایک سے زیادہ آیتوں میں اس صورت حال کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ یہاں بھی اسی طرح کی ایک نہایت اہم تنبیہ ہے۔ پیغمبرؐ کو خطاب کرکے مشرکین پر گویا یہ حقیقت واضح کر دی گئی کہ شرک ایک ایسی نجاست ہے جس کا کوئی چھینٹا بھی اللہ کا رسول اپنے دامن پر گوارا کرنے والا نہیں ہے۔
اپنے دامن دل کو پاک رکھو۔
اصل میں لفظ ’ثِیَاب‘ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی کپڑے کے ہیں، لیکن کلام عرب میں یہ اُس مفہوم میں بھی آتا ہے جسے ہم اپنی زبان میں ’دامن دل‘ سے ادا کرتے ہیں۔
یعنی توحید کے معاملے میں ہر آلایش سے پاک رکھو۔آگے اِسی کو ’وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ‘ کے الفاظ سے واضح کر دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’اِس ہدایت کی ضرورت اِس لیے نہیں تھی کہ العیاذ باللہ آپ کے کسی شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ تھا۔ آپ جس طرح دور اسلام میں طاہر و مطہر رہے، اُسی طرح جاہلیت میں بھی شرک کے ہر شائبہ سے پاک رہے۔ مقصود صرف کفار و مشرکین کو آگاہ کرنا تھا کہ وہ جان لیں کہ جو منذر اُن کے پاس آیا ہے، اُس کا موقف اُن کے دین شرک کے معاملے میں کیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے اِس باب میں کن ہدایات کے ساتھ مبعوث ہوا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۵)
اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔
ان کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو، کیونکہ جسم و لباس کی پاگیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں طہارت کا ایک اعلی معیار قائم فرمائیں۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوع انسانی کو طہارت جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو ” طہارت ” کا ہم معنی ہو۔ بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں پاکی اور ناپاکی کے فرق اور پاکیزگی کے طریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
دوسرا مفہوم ان الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف ستھرا رکھو۔ راہبانہ تصورات نے دنیا میں مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیاہ میلا کچیلا ہو اتنا ہی زیادہ مقدس ہوتا ہے۔ اگر کوئی ذرا اجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیادار انسان ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت میل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی سے مانوس ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو۔
تیسرا مفہوم اس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو۔ تمہارا لباس ستھرا اور پاکیزہ تو ضرور ہو، مگر اس میں فخر و غرور، ریاء اور نمائش، ٹھاٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے۔ لباس وہ اولین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کرلیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ ریئسوں اور نوابوں کے لباس، بد قوارہ اور آوارہ منش لوگوں کے لباس، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کرلے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے۔
چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ابن عباس، ابراہیم نخعی، شعبی، عطاء مجاہد، قتادہ سعید بن جبیر، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاہر الثیاب و فلان طاہر الذیل، ” فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے “۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اس کے برعکس کہتے ہیں فلان دنس الثیاب، ” اس شخص کے کپڑے گندے ہیں ” اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں۔
اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر
یعنی قلب اور نیت کے ساتھ کپڑے بھی پاک رکھ۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ مشرکین مکہ طہارت کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔
اور ناپاکی کو چھوڑ۔
’رُجز‘ ’رِجز‘ اور ’رِجس‘ سب قریب المخرج اور تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس کا استعمال اس گندگی کے لیے ہوتا ہے جس کو دیکھ کر طبیعت میں ارتعاش اور گھن پیدا ہو۔ یوں تو اس سے ہر قسم کی گندگی مراد ہو سکتی ہے لیکن یہاں یہ خاص طور پر شرک کی گندگی کے لیے آیا ہے اور مقصود اسی مضمون کی تاکید ہے جو ’وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ‘ کے الفاظ سے بیان ہوا ہے۔ یعنی اپنے دامن کو شرک کے چھینٹوں سے محفوظ رکھنے کے لیے شرک کی ناپاکی سے دور رہو۔
اس ہدایت کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ العیاذ باللہ آپ کے کسی شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ تھا۔ آپ جس طرح دور اسلام میں طاہر و مطہر رہے اسی طرح جاہلیت میں بھی شرک کے ہر شائبہ سے پاک رہے۔ مقصود صرف کفار و مشرکین کو آگاہ کرنا تھا کہ وہ جان لیں کہ جو منذر ان کے پاس آیا ہے اس کا موقف ان کے دین شرک کے معاملہ میں کیا ہے اور وہ اپنے رب کی طرف سے اس باب میں کن ہدایات کے ساتھ مبعوث ہوا ہے۔
شرک کی غلاظت سے دور رہو۔
n/a
اور گندگی سے دور رہو۔
گندگی سے مراد ہر قسم کی گندگی ہے خواہ وہ عقائد اور خیالات کی ہو، یا اخلاق و اعمال کی، یا جسم و لباس اور رہن سہن کی، مطلب یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش سارے معاشرے میں طرح طرح کی جو گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں ان سب سے اپنا دامن بچا کر رکھو۔ کوئی شخص کبھی تم پر یہ حرف نہ رکھ سکے کہ جن برائیوں سے تم لوگوں کو روک رہے ہو ان میں سے کسی کا بھی کوئی شائبہ تمہاری اپنی زندگی میں پایا جاتا ہے۔
ناپاکی کو چھوڑ دے
یعنی بتوں کی عبادت چھوڑ دے۔ یہ دراصل لوگوں کو آپ کے ذریعے سے حکم دیا جا رہا ہے۔
اور اپنی سعی کو زیادہ خیال کر کے منقطع نہ کر۔
تالیف کلام کی ایک شکل اور اس کا حل: ’مَنٌّ‘ کے معنی جس طرح احسان کرنے کے آتے ہیں اسی طرح کسی چیز کو کاٹ دینے کے بھی آتے ہیں۔ سورۂ قلم میں فرمایا ہے:
’وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ‘ (۳)
(اور بے شک تمہارے لیے ایک کبھی نہ منقطع ہونے والا صلہ ہے)
یعنی جس انذار و تبلیغ کی تمہیں ہدایت کی جا رہی ہے اس کو برابر جاری رکھنا۔ یہ خیال ترک کر کے کہ اب کافی انذار کیا جا چکا، مزید کی ضرورت نہیں رہی، اس عمل کو منقطع نہ کر بیٹھنا۔ تمہارے رب کی طرف سے جو حکم دیا جا رہا ہے اس پر اس وقت تک قائم و دائم رہو جب تک رب ہی کی طرف سے اس باب میں کوئی اور ہدایت تمہیں نہ ملے۔
’تَسْتَکْثِرُ‘ یہاں نہی کا جواب نہیں ہے۔ اگر جواب ہوتا تو اس پر جزم آنا تھا۔ اگرچہ بعض قاریوں نے اس کو جزم کے ساتھ بھی پڑھا ہے لیکن متواتر قراءت صرف مصحف کی ہے اس وجہ سے ہمارے نزدیک اس کو ضمّہ کے ساتھ ہی پڑھنا اَولیٰ ہے اور اسی کے مطابق اس کی تاویل بھی ہونی چاہیے۔ اس صورت میں یہ لفظ یا تو حال کے محل میں ہو گا یا اس کو مستقل جملہ کی حیثیت دینی پڑے گی۔ میرے نزدیک یہ حال کے مفہوم میں ہے۔
لفظ ’اِسْتِکْثَارٌ‘ دو معنوں میں معروف ہے۔ ایک کسی چیز کو زیادہ کرنے اور زیادہ چاہنے کے معنی میں، دوسرے کسی چیز کو زیادہ سمجھ لینے یا زیادہ گمان کر لینے کے معنی میں۔ پہلے معنی کے لیے نظیر ’وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ‘ (الاعراف ۷: ۱۸۸) والی آیت میں ہے۔ دوسرے معنی کی وضاحت اہل لغت نے یوں کی ہے:
’استکثر الشئْ راٰہ کثیرًا او عدّہٗ کثیرا‘
(’استکثر الشئْ‘ کے معنی ہوں گے کسی چیز کو زیادہ خیال کیا یا شمار کیا)
صاحب اقرب الموارد نے اسی معنی کو پہلے لیا ہے۔ میرے نزدیک آیت میں یہ اسی معنی میں آیا ہے۔ مطلب، جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا، یہ ہو گا کہ انذار کا یہ فرض بغیر کسی وقفہ اور انقطاع کے برابر جاری رکھو، کبھی یہ گمان کر کے چھوڑ نہ بیٹھنا کہ کافی انذار ہوچکا، اب ضرورت نہیں رہی۔
یہ ہدایت اس لیے فرمائی گئی کہ رسول جس فرض انذار پر مامور ہوتا ہے اس کے متعلق سنت الٰہی جیسا کہ جگہ جگہ ہم ذکر کر چکے ہیں، یہ ہے کہ اگر قوم اس کے انذار کی پروا نہیں کرتی تو ایک خاص مدت تک مہلت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو لازماً ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ مہلت اتمام حجت کے لیے ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کسی قوم کو اس کے لیے کتنی مہلت ملنی چاہیے۔ رسول کا فرض یہ ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے کام میں لگا رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس یہ ہدایت نہ آ جائے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا، اب وہ قوم کو اس کی تقدیر کے حوالہ کر کے اس علاقے سے ہجرت کر جائے۔ اگر رسول بطور خود یہ گمان کر کے قوم کو چھوڑ کر ہجرت کر جائے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا تو اندیشہ ہے کہ حالات کا اندازہ کرنے میں اس سے اسی طرح کی غلطی صادر ہو جائے جس طرح کی غلطی حضرت یونس علیہ السلام سے صادر ہوئی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ فرمائی اور ایک سخت امتحان سے گزارنے کے بعد ان کو پھر قوم کے پاس انذار کے لیے واپس بھیجا اور اس دوبارہ انذار سے اللہ تعالیٰ نے ان کی پوری قوم کو ایمان کی توفیق بخشی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی عجلت سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی مرحلہ میں یہ آگاہی دے دی کہ تم جس فرض پر مامور کیے جا رہے ہو اس میں برابر لگے رہنا، کبھی ازخود یہ سمجھ کر چھوڑ نہ بیٹھنا کہ اب وہ فرض کافی حد تک ادا ہو چکا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلہ تمہارے کرنے کا نہیں بلکہ ہمارے کرنے کا ہے:
’فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ‘ (القلم ۶۸: ۴۸)
(پس صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو اور مچھلی والے کے مانند نہ بن جانا)
اور اس مضمون کی دوسری آیات میں آپ کو صبر و ثبات کی تعلیم دی گئی ہے اور یہاں بھی آگے والی آیت میں یہی مضمون آ رہا ہے۔
ہمارے مفسرین نے عام طور پر اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ تم کسی پر کوئی احسان اس خیال سے نہ کرنا کہ اس کا بدلہ اس سے زیادہ احسان کی صورت میں حاصل کرو، اگرچہ آیت کے الفاظ سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے لیکن سوال کلام کے موقع و محل کا بھی ہے۔ آخر اس سیاق و سباق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نصیحت کرنے کا کیا موقع ہے! ہمارا خیال ہے کہ ان حضرات سے آیت کے دونوں لفظوں کے مفہوم معین کرنے میں مسامحت ہوئی۔ ہم نے ان کی وضاحت کر دی ہے جس سے آیت کا صحیح مفہوم واضح ہو گیا ہے۔ اب اس پر مزید بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
اور (دیکھو)، اپنی سعی کو زیادہ خیال کر کے منقطع نہ کر بیٹھو۔
اصل میں لفظ ’تَسْتَکْثِرُ‘ استعمال ہوا ہے۔یہ حال کے مفہوم میں ہے۔ اِس کے معنی جس طرح زیادہ چاہنے کے ہیں، اِسی طرح زیادہ سمجھ لینے یا زیادہ خیال کرنے کے بھی ہیں۔ یہاں یہ اِسی دوسرے معنی میں آیا ہے۔
اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔
اصل الفاظ ہیں ولا تمنن تستکثر۔ ان کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں ان کا ترجمہ کر کے پورا مطلب ادا نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جس پر بھی احسان کرو بےغرضانہ کرو۔ تمہاری عطا اور بخشش اور سخاوت اور حسن سلوک محض اللہ کے لیے ہو، اس میں کوئی شائبہ اس خواہش کا نہ ہو کہ احسان کے بدلے میں تمہیں کسی قسم کی دنیوی فوائد حاصل ہوں۔ بالفاظ دیگر اللہ کے لیے احسان کرو، فائدہ حاصل کرنے کے لیے کوئی احسان نہ کرو۔
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نبوت کا جو کام تم کر رہے ہو یہ اگرچہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا احسان ہے کہ تمہاری بدولت خلق خدا کو ہدایت نصیب ہو رہی ہے، مگر اس کا کوئی احسان لوگوں پر نہ جتاؤ اور اس کا کوئی فائدہ اپنی ذات کے لیے حاصل نہ کرو۔
تیسرا مفہوم یہ ہے کہ تم اگرچہ ایک بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہو، مگر اپنی نگاہ میں اپنے عمل کو کبھی بڑا عمل نہ سمجھو اور کبھی یہ خیال تمہارے دل میں نہ آئے کہ نبوت کا یہ فریضہ انجام دے کر، اور اس کام میں جان لڑا کر تم اپنے رب پر کوئی احسان کر رہے ہو۔
اور احسان کرکے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر
یعنی احسان کرکے یہ خواہش نہ کر کہ بدلے میں اس سے زیادہ ملے گا۔
اور اپنے رب کی راہ میں ثابت قدم رہ۔
اس کا مفہوم وہی ہے جو آیت
’وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا‘ (الطور ۵۲: ۴۸)
(اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو، تم ہماری آنکھوں میں ہو)
کا ہے۔ ’صَبْرٌ‘ کے ساتھ جب ’ل‘ آئے تو اس کے معنی صبر و استقامت کے ساتھ انتظار کرنے کے ہو جاتے ہیں۔
اوپر والی آیت میں حضورؐ کو جو ہدایت ہوئی ہے اسی سے متعلق یہ ہدایت بھی ہے کہ اپنے کام کو کافی سمجھ کر کسی مرحلہ میں چھوڑ نہ بیٹھنا بلکہ صبر و استقامت کے ساتھ اس میں لگے رہنا اور اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرنا۔ اسی استقامت پر تمہاری کامیابی اور قوم پر اتمام حجت کا انحصار ہے۔
اور اپنے پروردگار کے فیصلے کے انتظار میں ثابت قدم رہو۔
اصل الفاظ ہیں: ’وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ‘۔ اِن میں ’ل‘ اِس بات پر دلیل ہے کہ ’صبر‘ یہاں انتظار کے مفہوم پر متضمن ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جب تک اللہ کا حکم نہ آجائے، تم یہ خیال کرکے کہ فرض دعوت ادا ہو گیا، اپنی قوم کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔یہ ہدایت کیوں ہوئی؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ ہدایت اِس لیے فرمائی گئی کہ رسول جس فرض انذار پر مامور ہوتا ہے، اُس کے متعلق سنت الٰہی...یہ ہے کہ اگر قوم اُس کے انذار کی پروا نہیں کرتی تو ایک خاص مدت تک مہلت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ اُس کو لازماً ہلاک کر دیتا ہے۔ یہ مہلت اتمام حجت کے لیے ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کسی قوم کو اِس کے لیے کتنی مہلت ملنی چاہیے۔ رسول کا فرض یہ ہے کہ وہ اُس وقت تک اپنے کام میں لگا رہے، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے پاس یہ ہدایت نہ آجائے کہ اُس نے اپنا فرض ادا کر دیا، اب وہ قوم کو اُس کی تقدیر کے حوالے کرکے اِس علاقے سے ہجرت کر جائے۔ اگر رسول بطور خود یہ گمان کرکے قوم کو چھوڑ کر ہجرت کر جائے کہ اُس نے اپنا فرض ادا کر دیا تو اندیشہ ہے کہ حالات کا اندازہ کرنے میں اُس سے اُسی طرح کی غلطی صادر ہو جائے جس طرح کی غلطی حضرت یونس علیہ السلام سے صادر ہوئی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو تنبیہ فرمائی اور ایک سخت امتحان سے گزارنے کے بعد اُن کو پھر قوم کے پاس انذار کے لیے واپس بھیجا اور اِس دوبارہ انذار سے اللہ تعالیٰ نے اُن کی پوری قوم کو ایمان کی توفیق بخشی۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۴۶)
اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔
یعنی یہ کام جو تمہارے سپرد کیا جا رہا ہے، بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں سخت مصائب اور مشکلات اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ پیش آئے گا۔ تمہاری اپنی قوم تمہاری دشمن ہوجائے گی۔ سارا عرب تمہارے خلاف صف آرا ہوجائے گا۔ مگر جو کچھ بھی اس راہ میں پیش آئے اپنے رب کی خاطر اس پر صبر کرنا اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دینا۔ اس سے باز رکھنے کے لیے خوف طمع، لالچ، دوستی، دشمنی، محبت ہر چیز تمہارے راستے میں حائل ہوگی۔ ان سب کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہنا۔
یہ تھیں وہ اولین ہدایات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس وقت دی تھیں جب اس نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اٹھ کر نبوت کے کام کا آغاز فرما دیں۔ کوئی شخص اگر ان چھوٹے چھوٹے فقروں پر اور ان کے معانی پر غور کرے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ ایک نبی کو نبوت کا کام شروع کرتے وقت اس سے بہتر کوئی ہدایات نہیں دی جاسکتی تھیں۔ ان میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کو کام کیا کرنا ہے، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ اس کام کے لیے آپ کی زندگی اور آپ کے اخلاق اور معاملات کیسے ہونے چاہیں، اور یہ تعلیم بھی دی دی گئی کہ یہ کام آپ کس نیت، کس ذہنیت اور کس طرز فکر کے ساتھ انجام دیں، اور اس بات سے بھی خبردار کردیا گیا کہ اس کام میں آپ کو کن حالات سے سابقہ پیش آنا ہے اور ان کا مقابلہ آپ کو کس طرح کرنا ہوگا۔ آج جو لوگ تعصب میں اندھے ہو کر یہ کہتے کہ معاذ اللہ صرع کے دوروں میں یہ کلام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر جاری ہوجایا کرتا تھا وہ ذرا آنکھیں کھول کر ان فقروں کو دیکھیں اور خود سوچیں کہ یہ صرع کے کسی دورے میں نکلے ہوئے الفاظ ہیں یا ایک خدا کی ہدایات ہیں جو رسالت کے کام پر مامور کرتے ہوئے وہ اپنے بندے کو دے رہا ہے ؟
اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر۔
پس جب صور پھونکا جائے گا۔
انذار کا اصل موضوع: یہ ذکر ہے انذار کے اصل موضوع کا جس سے غفلت ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے قریش کی مخاصمت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ قیامت کو نہ مانتے تھے نہ ماننا چاہتے تھے۔ وہ اول تو اس کو نہایت مستبعد اور بعید از امکان سمجھتے تھے اور اگر کسی درجے میں مانتے تھے تو اپنی دنیوی کامیابیوں کو دلیل بنا کر یہ دعویٰ کرتے تھے کہ قیامت ہوئی تو جس طرح ان کو یہاں سب کچھ حاصل ہے اسی طرح وہاں بھی حاصل ہو گا اور اگر خدا نے ان پر ہاتھ ڈالا ان کے معبود اپنی سفارش سے انھیں بچا لیں گے۔ فرمایا کہ اس ہولناک دن سے ان کو اچھی طرح آگاہ کر دو کہ جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن بڑا ہی کٹھن ہو گا۔
اِس لیے کہ جب صور پھونکا جائے گا۔
n/a
اچھا، جب صور میں پھونک ماری جائے گی۔
n/a
پس جبکہ صور میں پھونک ماری جائے گی۔
n/a
تو وہ وقت نہایت کٹھن وقت ہو گا!
انذار کا اصل موضوع: یہ ذکر ہے انذار کے اصل موضوع کا جس سے غفلت ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے قریش کی مخاصمت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ قیامت کو نہ مانتے تھے نہ ماننا چاہتے تھے۔ وہ اول تو اس کو نہایت مستبعد اور بعید از امکان سمجھتے تھے اور اگر کسی درجے میں مانتے تھے تو اپنی دنیوی کامیابیوں کو دلیل بنا کر یہ دعویٰ کرتے تھے کہ قیامت ہوئی تو جس طرح ان کو یہاں سب کچھ حاصل ہے اسی طرح وہاں بھی حاصل ہو گا اور اگر خدا نے ان پر ہاتھ ڈالا ان کے معبود اپنی سفارش سے انھیں بچا لیں گے۔ فرمایا کہ اس ہولناک دن سے ان کو اچھی طرح آگاہ کر دو کہ جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن بڑا ہی کٹھن ہو گا۔
تو وہ دن بڑا ہی سخت ہو گا۔
n/a
وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا۔
جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں، اس سورة کا یہ حصہ ابتدائی آیات کے چند مہینے بعد اس وقت نازل ہوا تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے علانیہ تبلیغ اسلام شروع ہوجانے کے بعد پہلی مرتبہ حج کا زمانہ آیا اور سرداران قریش نے ایک کانفرنس کر کے یہ طے کیا کہ باہر سے آنے والے حاجیوں کو قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بد گمان کرنے کے لیے پروپیگنڈا کی ایک زبردست مہم چلائی جائے۔ ان آیات میں کفار کی اسی کارروائی پر تبصرہ کیا گیا ہے اور اس تبصرے کا آغاز ان الفاظ سے کیا گیا ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ اچھا، یہ حرکتیں جو تم کرنا چاہتے ہو کرلو، دنیا میں ان سے کوئی مقصد براری تم نے کر بھی لی تو اس روز اپنے برے انجام سے کیسے بچ نکلو گے جب صور میں پھونک ماری جائے گی اور قیامت برپا ہوگی۔ (صور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام، حاشیہ 47 ۔ جلد دوم، ابراہیم، حاشیہ 57 ۔ جلد سوم، طٰہٰ ، حاشیہ 78 ۔ الحج، حاشیہ 1 ۔ جلد چہارم، یٰسین، حواشی 46 ۔ 47 ۔ الزمر، حاشیہ 79 ۔ جلد پنجم، ق، حاشیہ 52 ۔ )
وہ دن بڑا سخت دن ہوگا۔
n/a
کافروں پر آسان نہ ہو گا!
’عَلَی الْکَافِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ‘۔ یعنی انھوں نے اس کو بہت آسان سمجھ رکھا ہے لیکن کافروں کے لیے یہ دن آسان نہیں ہو گا۔
اوپر والی آیت میں مثبت پہلو سے کہنے کے بعد وہی بات منفی پہلو سے بھی فرما دی جس میں ان احمقوں پر نہایت بلیغ طنز بھی ہے جو اس کو ایک ناقابل اہتمام دن سمجھ کر نچنت بیٹھے تھے کہ جب وہ آئے گا تو دیکھ لیں گے۔ فرمایا کہ وہ کوئی آسان دن نہیں ہو گا، بڑا ہی کٹھن دن ہو گا۔ اس کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا ہے آج ہی کیا جا سکتا ہے۔ جس نے آج نہیں کیا وہ ہمیشہ کے لیے پکڑا گیا اور اس طرح پکڑا گیا کہ اس کو کوئی بھی چھڑانے والا نہ بنے گا۔
اِن منکروں کے لیے آسان نہ ہو گا۔
مطلب یہ ہے کہ جس دن سے تم بے خوف بیٹھے ہو کہ آئے گا تو دیکھ لیں گے، وہ کوئی آسان دن نہ ہو گا۔ وہ بڑا ہی کٹھن دن ہو گا۔
کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔
اس ارشاد سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ دن ایمان لانے والوں کے لیے ہلکا ہوگا اور اس کی سختی صرف حق کا انکار کرنے والوں کے لیے مخصوص ہوگی۔ مزید براں یہ ارشاد اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ اس دن کی سختی کافروں کے لیے مستقل سختی ہوگی، وہ ایسی سختی نہ ہوگی جس کے بعد کبھی اس کے نرمی سے بدل جانے کی امید کی جاسکتی ہو۔
جو کافروں پر آسان نہ ہوگا۔
یعنی قیامت کا دن کافروں پر بھاری ہوگا کیونکہ اس روز کفر کا نتیجہ انہیں بھگتنا ہوگا، جو جرم وہ دنیا میں کرتے رہے ہونگے۔
امین احسن اصلاحی
اے چادر لپیٹے رکھنے والے!
’مزّمّل‘ اور ’مدّثّر‘ کے خطاب کی بلاغت: ’مُدَّثّر‘ اور ’مُزّمّل‘ دونوں کے معنی جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، ایک ہی ہیں۔ ’مُدَّثّر‘ ’دِثَارٌ‘ سے ہے جو اس چادر کے لیے آتا ہے جو سونے والا اپنے اوپر لے لیا کرتا ہے۔
چادر لپیٹے رکھنا، جیسا کہ ہم نے سابق سورہ میں واضح کیا، آدمی کی فکر مندی کی ایک علامت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے بعثت میں جو مشاہدات و تجربات ہوئے اول تو وہ خود ہی گراں بار کرنے والے تھے پھر جب آپ نے ان کا اظہار اپنے خاندان والوں کے سامنے کیا اور انھوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا تو آپ کی فکرمندی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ایسی حالت میں آپ زیادہ تر چادر لپیٹے ہوئے، لوگوں سے الگ تھلگ رہتے جس طرح ایک فکرمند انسان رہتا ہے۔ آپ کی اسی فکر و پریشانی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت پیار سے آپ کو ’مزّمّل‘ اور ’مدّثّر‘ سے خطاب فرمایا تاکہ خطاب ہی سے آپ کو تسلی ہو جائے کہ رب کریم آپ کے حال سے اچھی طرح واقف ہے اور جب اس نے اس شفقت سے مخاطب فرمایا ہے تو وہ آپ کی پریشانی دور بھی فرمائے گا۔ چنانچہ سابق سورہ میں آپ کو ’مزّمّل‘ سے خطاب کر کے قیام لیل کی تاکید فرمائی گئی جس میں اس فکر و پریشانی کا علاج بھی تھا اور اس مہم کے لیے تیاری بھی جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔