اللہ نے اُس عورت کی بات سن لی ہے جو تم سے اپنے شوہر کے معاملے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے فریاد کیے جاتی تھی۔ اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ بے شک، اللہ سمیع و بصیر ہے
سننے سے مراد یہاں محض سن لینا نہیں ہے، بلکہ قبول کر لینا ہے۔ ہماری زبان میں بھی یہ لفظ قبول کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اِس خاتون کا نام روایتوں میں خولہ بنت ثعلبہ آیا ہے۔ اِن کے شوہر اوس بن صامت انصاری قبیلۂ اوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامت کے بھائی تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے مزاج میں کچھ تیزی تھی، پھر بڑھاپے میں کچھ چڑچڑے بھی ہو گئے تھے۔ اِس حالت میں بیوی سے ظہار کر بیٹھے۔ یہ اِسی واقعے کا ذکر ہے۔*
سورہ کی ابتدا میں یہ واقعہ سورہ کے مخاطبین کو یہ بتانے کے لیے سنایا گیا ہے کہ دین کے معاملے میں اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو بندۂ مومن کو اِس خاتون کی طرح اپنی مشکل اپنے پروردگار کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ اپنی مشکلات کو منافقوں کی طرح دین پر نکتہ چینی اور اللہ و رسول کے خلاف محاذ آرائی کا بہانہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ اِس میں الحاح و اصرار بھی ممنوع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اِسے نہایت توجہ اور شفقت سے سنتا ہے۔
اصل میں ’تُجَادِلُکَ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اِس سے پہلے عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق ایک فعل ناقص حذف ہو گیا ہے۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس خاتون کا یہ واقعہ ہے، اُنھوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ اور الحاح و اصرار کے ساتھ اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ قرآن نے یہ لفظ ’مُجَادَلَۃ‘ اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... برے معنی اِس کے کٹ حجتی کرنے اور جھگڑنے کے ہیں اور اچھے معنی اِس کے کسی سے اپنی بات محبت، اعتماد، حسن گزارش، تدلل اور اصرار کے ساتھ منوانے کی کوشش کرنے کے ہیں۔ اِس میں جھگڑنا تو بظاہر ہوتا ہے، لیکن یہ جھگڑنا محبت اور اعتماد کے ساتھ ہوتا ہے ، جس طرح چھوٹے اپنی کوئی بات اپنے کسی بڑے سے، اُس کی شفقت پر اعتماد کرکے منوانے کے لیے جھگڑتے ہیں۔ اِس مجادلۂ محبت کی بہترین مثال سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وہ مجادلہ ہے جو اُنھوں نے قوم لوط کے باب میں اپنے رب سے کیا ہے اور جس کی اللہ تعالیٰ نے نہایت تعریف فرمائی ہے... یہاں اِن خاتون کے جس مجادلہ کی طرف اشارہ ہے ، اُس کی نوعیت بالکل یہی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۸/ ۲۴۷)
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کے لیے بار بار فریاد کر رہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ مسئلے کا کوئی حل نکل آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُس وقت وحی الٰہی کی کوئی واضح رہنمائی اِس معاملے میں موجود نہیں تھی۔ چنانچہ آپ متردد تھے کہ اُنھیں کیا جواب دیں، یہاں تک کہ اُن کی فریاد اُس پروردگار نے سن لی جو سمیع و بصیر ہے، یہ تمام گفتگو جس کے سامنے ہو رہی تھی اور جو خاص توجہ اور مہربانی سے اُسے سن رہا تھا۔
_____
* احمد، رقم۲۷۳۶۰۔
اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو ا پنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے۔ اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
یہاں سننے سے محض سن لینا نہیں ہے بلکہ فریاد رسی کرنا ہے، جیسے ہم اردو زبان میں کہتے ہیں اللہ نے دعا سن لی اور اس سے مراد دعا قبول کرلینا ہوتا ہے۔
عام طور پر مترجمین نے اس مقام پر مجادلہ کر رہی تھی، فریاد کر رہی تھی، اور اللہ سن رہا تھا ترجمہ کیا ہے جس سے پڑھنے والے کا ذہن یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ وہ خاتون اپنی شکایت سنا کر چلی گئی ہوں گی اور بعد میں کسی وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آئی ہوگی، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس عورت کی بات ہم نے سن لی جو تم سے تکرار اور ہم سے فریاد کر رہی تھی، اور ہم اس وقت تم دونوں کی بات سن رہے تھے۔ لیکن اس واقعہ کے متعلق جو روایات احادیث میں آئی ہیں ان میں سے اکثر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت وہ خاتون اپنے شوہر کے ظہار کا قصہ سنا سنا کر بار بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کر رہی تھیں کہ اگر ہم دونوں کی جدائی ہوگئی تو میں مصیبت میں پڑجاؤں گی اور میرے بچے تباہ ہوجائیں گے، عین اسی حالت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس بنا پر ہم نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ترجمہ حال کے صیغوں میں کیا جائے۔
یہ خاتون جن کے معاملہ میں آیات نازل ہوئی ہیں قبیلہ خزرج کی خولہ بنت ثعلبہ تھیں، اور ان کے شوہر اَوْس بن صامِت انصاری، قبیلہ اوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامت کے بھائی تھے۔ ان کے ظہار کا قصہ آگے چل کر ہم تفصیل کے ساتھ نقل کریں گے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان صحابیہ کی فریاد کا بار گاہ الٰہی میں مسموع ہونا اور فوراً ہی وہاں سے ان کی فریاد رسی کے لیے فرمان مبارک نازل ہوجانا ایک ایسا واقعہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ کرام میں ان کو ایک خاص قدر و منزلت حاصل ہوگئی تھی۔ ابن ابی حاتم و بیہقی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک عورت ملی اور اس نے ان کو روکا۔ آپ فوراً رک گئے۔ سر جھکا کر دیر تک اس کی بات سنتے رہے اور جب تک اس نے بات ختم نہ کرلی آپ کھڑے رہے۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا امیر المومنین، آپ نے قریش کے سرداروں کو اس بڑھیا کے لیے اتنی دیر روکے رکھا۔ فرمایا جانتے بھی ہو یہ کون ہے ؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہے۔ یہ وہ عورت ہے جس کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی۔ خدا کی قسم، اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتی تو میں کھڑا رہتا، بس نمازوں کے اوقات پر اس سے معذرت کردیتا۔ ابن عبدالبر نے استعیاب میں قتادہ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ خاتون راستہ میں حضرت عمر کو ملیں تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ یہ سلام کا جواب دینے کے بعد کہنے لگیں ” اوہو، اے عمر ایک وقت تھا جب میں نے تم کو بازار عکاظ میں دیکھا تھا۔ اس وقت تم عمیر کہلاتے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمر کہلانے لگے۔ پھر ایک وقت آیا تم امیر المومنین کہے جانے لگے۔ ذرا رعیت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے اس کے لیے دور کا آدمی بھی قریبی رشتہ دار کی طرح ہوتا ہے، اور جو موت سے ڈرتا ہے اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اسی چیز کو کھودے گا جسے بچانا چاہتا ہے۔ ” اس پر جارود عَبْدِی، جو حضرت عمر کے ساتھ تھے، بولے، اے عورت، تو نے امیر المومنین کے ساتھ بہت زبان درازی کی۔ حضرت عمر نے فرمایا، انہیں کہنے دو، جانتے بھی ہو یہ کون ہیں ؟ ان کی بات تو سات آسمانوں کے اوپر سنی گئی تھی، عمر کو تو بدرجۂ اولیٰ سننی چاہیے۔ امام بخاری نے بھی اپنی تاریخ میں اختصار کے ساتھ اس سے ملتا جلتا قصہ نقل کیا ہے۔
یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے۔
یہ اشارہ ہے حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ (رض) کے واقعہ کی طرف جن کے خاوند حضرت اوس بن صامت (رض) نے ان سے ظہار کرلیا تھا ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا حضرت خولہ (رض) سخت پریشان ہوئیں اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کچھ توقف فرمایا اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث وتکرار کرتی رہیں جس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں مسئلہ ظہار اور اس کا حکم و کفارہ بیان فرمادیا گیا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کی باتیں سننے والا ہے کہ یہ عورت گھر کے ایک کونے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مجادلہ کرتی اور اپنے خاوند کی شکایت کرتی رہی مگر میں اس کی باتیں نہیں سنتی تھی لیکن اللہ نے آسمانوں پر سے اس کی بات سن لی، سنن ابن ماجہ المقدمہ۔ صحیح بخاری میں بھی تعلیقا اس کا مختصر ذکر ہے۔ کتاب التوحید۔
تم میں سے جو اپنی بیویوں سے، ظہار کر بیٹھتے ہیں وہ ان کی مائیں نہیں بن جاتی ہیں۔ ان کی مائیں تو وہی ہوں گی جنھوں نے ان کو جنا ہے۔ البتہ اس طرح کے لوگ ایک نہایت ناگوار اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ اور اللہ درگزر فرمانے والا اور بخشنے والا ہے
ظہار اور اس کا شرعی حکم: اس سلسلہ میں پہلی اصولی بات یہ فرمائی کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو اس طرح کی کوئی بات کہہ بیٹھتے ہیں اس سے ان کی بیویاں ان کی ماؤں کے حکم میں نہیں داخل ہو جاتیں۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے ان کو جنا ہے۔ ان کو جو حرمت حاصل ہوئی ہے وہ جننے کے تعلق سے حاصل ہوئی ہے جو ایک فطری اور ابدی حرمت ہے۔ یہ چیز کسی دوسری عورت کو مجرد اس بنیاد پر نہیں حاصل ہو جائے گی کہ ایک شخص نے اس کو یا اس کے کسی عضو کو اپنی ماں یا اس کے کسی عضو سے تشبیہ دے دی۔ اس طرح کی بات کسی نے کہی ہے تواس کی بات بھونڈی اور جھوٹی ہے جس پر وہ تنبیہ و تادیب کا مستحق ضرور ہے لیکن اس سے اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہو جائے گی۔
’وَاِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ‘۔ یعنی اس طرح کی منکر اور خلاف حقیقت بات اشتعال میں آ کر کوئی مسلمان اپنے منہ سے نکال بیٹھا پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تو اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ چنانچہ اس معاملے میں بھی چونکہ غلطی کے مرتکب کو اپنی غلطی کا پورا پورا احساس ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرمایا۔
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ جاہلیت میں عربوں نے جس طرح منہ بولے بیٹوں کو بالکل صلبی بیٹوں کا درجہ دے رکھا تھا اسی طرح ظہار کے معاملے میں بھی ان کا رویہ نہایت متشددانہ تھا۔ کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح کی بات کہہ گزرتا جس کا حوالہ اوپر گزرا تو رواج عام اس کی بیوی کو فی الواقع اس کی ماں ہی کی طرح حرام بنا دیتا۔ مجال نہیں تھی کہ کوئی شخص ظہار کے بعد بیوی سے زن و شو کا تعلق قائم کر سکے۔ کوئی اس طرح کی جسارت کرتا تو لوگ اس کو بالکل اسی نگاہ سے دیکھتے گویا اس نے اپنی ماں کو نکاح میں رکھ چھوڑا ہے۔ اس وجہ سے اسلام نے اس طرح کی خلاف فطرت باتوں کی اصلاح کرتے ہوئے ہر جگہ اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ فطرت کے قانون میں جس چیز کے لیے جو جگہ ہے اس کو اسی جگہ رکھو۔ اس میں رد و بدل کر کے دین فطرت کو مسخ کرنے کی کوشش نہ کرو۔ سورۂ احزاب کی تفسیر میں یہ بحث تفصیل سے گزر چکی ہے۔ یہاں بھی اس رسم بد کی اصلاح کرتے ہوئے معترضین کا منہ بند کرنے کے لیے پہلے ہی یہ بات واضح فرما دی کہ اس طرح کی ناروا باتوں سے فطرت کے قوانین نہیں بدل جاتے۔ بیوی محض کسی شخص کی ایک جھوٹ بات کی وجہ سے اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔
ایک نحوی سوال: ’مَّا ھُنَّ اُمَّھٰتِھِمْ‘ میں ایک سوال ’اُمَّھٰتِھِمْ‘ کے اعراب سے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس کو نصب کیوں ہے؟ میرے نزدیک یہاں ’مَا‘، معنی میں ’لَیْسَ‘ کے ہے۔ قرآن میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً سورۂ حاقہ میں فرمایا ہے:
’فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِزِیْنَ‘ (۴۷)
(تو کوئی بھی تم میں سے اس کو بچانے والا نہیں بنے گا)۔
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں، وہ اُن کی مائیں نہیں بن جاتی ہیں۔اُن کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے اُن کو جنا ہے۔ اِس طرح کے لوگ، البتہ بڑی ناگوار اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اِس کے باوجود) بڑا معاف کرنے والا اور مغفرت فرمانے والا ہے
ایلا کی طرح ظہار بھی عرب جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ شوہر نے بیوی کے لیے ’أنت علیّ کظھر أمی‘ (تجھے ہاتھ لگایا تو گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگایا) کے الفاظ زبان سے نکال دیے ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں بیوی کو اِس طرح کی بات کہہ دینے سے ایسی طلاق پڑ جاتی تھی جس کے بعد بیوی لازماً شوہر سے الگ ہو جاتی تھی۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ یہ الفاظ کہہ کر شوہر نہ صرف یہ کہ بیوی سے اپنا رشتہ توڑ رہا ہے، بلکہ اُسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے۔ لہٰذا اُن کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجایش ہو سکتی تھی، لیکن ظہار کے بعد اِس کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
یعنی اگر کوئی شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے یا اُس کے کسی عضو کو ماں کے کسی عضو سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اِس سے بیوی ماں نہیں ہو جاتی اور نہ اُس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا ایک امر واقعی ہے، اِس لیے کہ اُس نے آدمی کو جنا ہے۔ اُس کو جو حرمت حاصل ہوتی ہے ، وہ اِسی جننے کے تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک ابدی اور فطری حرمت ہے جو کسی عورت کو محض منہ سے ماں کہہ دینے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اِس طرح کی تشبیہ سے نہ کسی کا نکاح ٹوٹتا ہے اور نہ اُس کی بیوی ماں کی طرح حرام ہو جاتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کا جملہ اگر کسی شخص کی زبان سے نکلا ہے تو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے جس کا تصور بھی کسی آدمی کو نہیں کرنا چاہیے، کجا یہ کہ وہ اِسے زبان سے نکالے۔ اِس پر سخت محاسبہ ہو سکتا تھا، لیکن اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مغفرت فرمانے والا ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اگر اشتعال میں آ کر اِس طرح کی خلاف حقیقت بات منہ سے نکال بیٹھے اور اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو تو اللہ اُس سے درگذر فرمائیں گے۔
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ یہ لوگ ایک سخت ناپسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔
عرب میں بسا اوقات یہ صورت پیش آتی تھی کہ شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو شوہر غصے میں آ کر کہتا انتِ عَلَیّ کَظَہرِ اُمیّ ۔ اس کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ ” تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ “، لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ” تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسا ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں “۔ اس زمانے میں بھی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو ماں، بہن، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی گویا اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں۔ اسی فعل کا نام ظہار ہے۔ ظَہر عربی زبان میں استعارے کے طور پر سواری کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً سواری کے جانور کو ظہر کہتے ہیں، کیونکہ اس کی پیٹھ پر آدمی سوار ہوتا ہے چونکہ وہ لوگ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کہتے تھے کہ تجھے ظہر بنانا میرے اوپر ایسا حرام ہے جیسے اپنی ماں کو ظہر بنانا، اس لیے یہ کلمات زبان سے نکالنا ان کی اصطلاح میں ” ظِہار ” کہلاتا تھا۔ جاہلیت کے زمانہ میں اہل عرب کے ہاں یہ طلاق، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید قطع تعلق کا اعلان سمجھا جاتا تھا، کیونکہ ان کے نزدیک اس کے معنی یہ تھے کہ شوہر اپنی بیوی سے نہ صرف ازدواجی رشتہ توڑ رہا ہے بلکہ اسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے۔ اسی بناء پر اہل عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش ہو سکتی تھی، مگر ظہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
یہ ظہار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پہلا فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اس کے ایسا کہنے سے بیوی ماں نہیں ہو سکتی، نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا تو ایک حقیقی امر واقعہ ہے، کیونکہ اس نے آدمی کو جنا ہے۔ اسی بناء پر اسے ابدی حرمت حاصل ہے۔ اب آخر وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے، محض منہ سے کہہ دینے پر اس کی ماں کیسے ہوجائے گی، اور اس کے بارے میں عقل اخلاق، قانون، کسی چیز کے اعتبار سے بھی وہ حرمت کیسے ثابت ہوگی جو اس امر واقعی کی بنا پر جننے والی ماں کے لیے ہے۔ اس طرح یہ بات ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس قانون کو منسوخ کردیا جس کی رو سے ظہار کرنے والے شوہر سے اس کی بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور وہ اس کے لیے ماں کی طرح قطعی حرام سمجھ لی جاتی تھی۔
یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا اول تو ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرمناک بات ہے جس کا تصور بھی کسی شریف آدمی کو نہ کرنا چاہئے، کجا کہ وہ اسے زبان سے نکالے۔ دوسرے یہ جھوٹ بھی ہے۔ کیونکہ ایسی بات کہنے والا اگر یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے ماں ہوگئی ہے تو جھوٹی خبر دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اپنا یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ آج سے اس نے اپنی بیوی کو ماں کی سی حرمت بخش دی ہے تو بھی اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے، کیونکہ خدا نے اسے یہ اختیارات نہیں دیئے ہیں کہ جب تک چاہے ایک عورت کو بیوی کے حکم میں رکھے، اور جب چاہے اسے ماں کے حکم میں کر دے۔ شارع وہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جننے والی ماں کے ساتھ مادری کے حکم میں دادی، نانی، ساس، دودھ پلانے والی عورت اور ازواج نبی کو شامل کیا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس حکم میں اپنی طرف سے کسی اور عورت کو داخل کر دے، کجا کہ عورت کو جو اسکی بیوی رہ چکی ہے۔ اس ارشاد سے یہ دوسرا قانونی حکم نکلا کہ ظہار کرنا ایک بڑا گناہ اور حرام فعل ہے جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے۔
یعنی یہ حرکت تو ایسی ہے کہ اس پر آدمی کو بہت ہی سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے اول تو ظہار کے معاملہ میں جاہلیت کے قانون کو منسوخ کر کے تمہاری خانگی زندگی کو تباہی سے بچا لیا، دوسرے اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے وہ سزا تجویز کی جو اس جرم کی ہلکی سے ہلکی سزا ہو سکتی تھی، اور سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ سزا کسی ضرب یا قید کی شکل میں نہیں بلکہ چند ایسی عبادات اور نیکیوں کی شکل میں تجویز کی جو تمہارے نفس کی اصلاح کرنے والی اور تمہارے معاشرے میں بھلائی پھیلانے والی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام میں بعض جرائم اور گناہوں پر جو عبادات بطور کفارہ مقرر کی گئی ہیں وہ نہ محض سزا ہیں کہ عبادت کی روح سے خالی ہوں اور نہ محض عبادت ہیں کہ سزا کی اذیت کا کوئی پہلو ان میں نہ ہو، بلکہ ان میں یہ دونوں پہلو جمع کردیے گئے ہیں، تاکہ آدمی کو اذیت بھی ہو اور ساتھ ساتھ وہ ایک نیکی اور عبادت کر کے اپنے گناہ کی تلافی بھی کر دے۔
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں (یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں) وہ دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے، یقینًا یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔
یہ اظہار کا حکم بیان فرمایا ہے کہ تمہارے کہہ دینے سے تمہاری بیوی تمہاری ماں نہیں بن جائے گی اگر ماں کے بجائے کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن وغیرہ کی پیٹھ کی طرح اپنی بیوی کو کہہ دے تو یہ ظہار ہے یا نہیں ؟ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ اسے بھی ظہار قرار دیتے ہیں جب کہ دوسرے علماء اسے ظہار تسلیم نہیں کرتے پہلا قول ہی صحیح معلوم ہوتا ہے اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ پیٹھ کی جگہ اگر کوئی یہ کہے کہ تو میری ماں کی طرح ہے پیٹھ کا نام نہ لے تو علماء کہتے ہیں کہ اگر ظہار کی نیت سے وہ مذکورہ الفاظ کہے گا تو ظہار ہوگا بصورت دیگر نہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دے گا جس کا دیکھنا جائز ہے تو یہ ظہار نہیں ہوگا امام شافعی رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ ظہار صرف پیٹھ کی طرح کہنے سے ہی ہوگا۔ فتح القدیر۔
٢۔ ٢ اسی لیے اس نے کفار کو اس قول منکر اور جھوٹ کی معافی کا ذریعہ بنا دیا۔
اور جو لوگ ظہار کر بیٹھیں اپنی بیویوں سے پھر لوٹیں اسی چیز کی طرف جس کو حرام ٹھہرایا تو ایک گردن کو آزاد کرنا ہے قبل اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ یہ بات ہے جس کی تمہیں نصیحت کی جا رہی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر رہتا ہے
’ظہار‘ کا کفارہ: یہ اس کا حل بتایا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے ظہار کر بیٹھے پھر وہ اس چیزکی طرف لوٹنا چاہے جس کو اس نے حرام ٹھہرایا تواس کو اس سے پہلے کفارہ کے طور پر ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔
یعنی اس کی بیوی اس کے ظہار کے سبب سے اس کی ماں کی طرح حرام تو نہیں ہوجائے گی لیکن چونکہ نکاح و طلاق کے اثرات معاشرتی زندگی پر نہایت دور رس ہوتے ہیں اس وجہ سے اس معاملے میں جدّ و ہزل دونوں ہی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ چیز مقتضی ہے کہ ایسے شخص کو کچھ تنبیہ و تادیب کی جائے تاکہ وہ بھی آئندہ احتیاط کی روش اختیار کرے اور دوسروں کو بھی اس سے سبق حاصل ہو۔ چنانچہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیوی کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرے۔ یہاں لفظ ’رقبۃ‘ آیا ہے جس کے معنی گردن کے ہیں۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ غلام یا لونڈی کی کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ بعض فقہاء نے تو مسلم اور غیر مسلم کی کوئی قید بھی ضروری نہیں سمجھی ہے۔ دونوں میں سے جو بھی میسر ہو اس سے کفارہ ادا ہو جائے گا بس اتنی بات ہے کہ مسلم غلام میسر ہو تو اس کو ترجیح حاصل ہو گی۔
یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ غلام کی آزادی کو مقدم رکھا ہے۔ اگر غلام میسر نہ آئے تو دوسری متبادل شکلیں، جو آگے مذکور ہیں، اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے جس کا اظہار ہم نے سورۂ نور کی تفسیر میں کیا ہے کہ اسلام نے اپنے نظام میں غلاموں کی آزادی کی نہایت وسیع راہیں کھول دی تھیں یہاں تک کہ بہت سے چھوٹے بڑے گناہوں کا کفارہ بھی غلام آزاد کرنا قرار دے دیا تاکہ اس مہم کو ہر پہلو سے تقویت حاصل ہو۔
منکر بات کا ذکر ابہام کے ساتھ: ’ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا‘ میں تھوڑا سا ابہام ہے۔ اس ابہام کی وجہ یہ ہے کہ جس بات کی طرف اشارہ ہے وہ بالبداہت بھی منکر ہے اور قرآن نے بھی اس کو ’مُنْکر‘ اور ’زُور‘ قرار دیا ہے۔ ایک منکر بات کا ذکر صراحت کے ساتھ موزوں نہیں تھا اس وجہ سے قرآن نے مبہم الفاظ میں اس کی طرف اشارہ کر دیا۔ مطلب یہی ہے کہ ظہار کے بعد وہ پھر وہی کام کرنا چاہیں جس کو انھوں نے اپنی ماں کی حرمت کی طرح حرام ٹھہرایا تو ان کے لیے ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنے کا حکم ہے۔
اس ابہام کی وضاحت اول تو ’مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا‘ کے الفاظ سے بھی ہو جاتی ہے پھر بعینہٖ یہی اسلوب کلام اسی سورہ کی آیت ۸ میں بھی استعمال ہوا ہے۔ فرمایا ہے: ’ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُھُوْا عَنْہُ‘ (پھر وہ کرتے ہیں وہی کام جس سے وہ روکے گئے)۔ اسی طرح یہاں بھی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پھر وہ کریں وہی کام جس سے رکنے کا انھوں نے عہد کیا یا جس کو اپنے اوپر حرام ٹھہرایا۔ ’قَالُوْا‘ اور ’یَقُوْلُ‘ وغیرہ کے الفاظ میں بتقاضائے بلاغت و ایجاز جو ابہام ہوا کرتا ہے اس کی ایک عمدہ مثال سورۂ مریم کی آیت ۸ میں بھی ہے مزید وضاحت مطلوب ہو تو اس کی تفسیر پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔
’مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا‘ میں زور اس بات پر ہے کہ یہ کفارہ ہاتھ لگانے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔ آگے والی آیت میں بھی اس قید کا اعادہ ہے جس سے اس کا مؤکد ہونا ظاہر ہوتا ہے اس وجہ سے یہ جائز نہیں ہے کہ غلبۂ نفس سے بے بس ہو کر کفارہ ادا کرنے سے پہلے تعلق قائم کر لیا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ حدود اللہ سے، جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے، تجاوز ہو گا۔
’ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ‘۔ یہ تنبیہ ہے کہ ان باتوں کی نصیحت تمہیں تمہارے رب کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ اگر تم نے درپردہ یاعلانیہ ان کی خلاف ورزی کی تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سارے اعمال کی خبر رکھتا ہے، مطلب یہ ہے کہ جب وہ خبر رکھتا ہے تو اس کی گرفت سے نہ بچ سکو گے۔ ’ذٰلِکُمْ‘ میں اشارہ ان تمام باتوں کی طرف ہے جو اوپر بیان ہوئیں۔ یعنی نہ تو ظہار کے معاملے میں جاہلیت کے رسوم پر اصرار کرو اور نہ کفارہ سے متعلق جو ہدایت کی جارہی ہے اس سے فرار کے لیے چور دروازے اور فقہی حیلے ایجاد کرو بلکہ ہر حکم کی تعمیل اس کی صحیح سپرٹ میں کرو۔ اسی میں دین و دنیا دونوں کی فلاح ہے۔
(اِنھیں بتاؤ کہ) جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں، پھر اُسی بات کی طرف پلٹیں جو اُنھوں نے کہی تھی تو ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کیا جائے گا۔ یہ بات ہے جس کی تمھیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے پوری طرح واقف ہے
اِس جملے میں بہ تقاضاے ایجاز و بلاغت کچھ ابہام رکھا ہے جس کی وضاحت ’مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا‘ کے الفاظ سے ہو جاتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس ابہام کی وجہ یہ ہے کہ جس بات کی طرف اشارہ ہے، وہ بالبداہت بھی منکر ہے اور قرآن نے بھی اُس کو ’مُنْکَر‘ اور ’زُوْر‘ قرار دیا ہے۔ ایک منکر بات کا ذکر صراحت کے ساتھ موزوں نہیں تھا، اِس وجہ سے قرآن نے مبہم الفاظ میں اُس کی طرف اشارہ کر دیا۔ مطلب یہی ہے کہ ظہار کے بعد وہ پھر وہی کام کرنا چاہیں جس کو اُنھوں نے اپنی ماں کی حرمت کی طرح حرام ٹھیرایا تو اُن کے لیے ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنے کا حکم ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۸/ ۲۵۰)
اصل میں لفظ ’رَقَبَۃ‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی گردن کے ہیں۔اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ لونڈی یا غلام کی کوئی تخصیص نہیں ہے، دونوں میں سے جو بھی میسر ہو، اُس سے کفارہ ادا ہو جائے گا۔ غلاموں کی آزادی کے لیے جو اقدامات اسلام نے کیے، یہ بھی اُنھی میں سے ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اِسے بعد کی دونوں صورتوں پر مقدم رکھا ہے۔ غلامی ختم ہو جانے کے بعد اب ظاہر ہے کہ وہی دو صورتیں باقی رہ جائیں گی جن کا ذکر آگے ہوا ہے۔
یعنی یہ اللہ کا حکم ہے اور اللہ کی طرف سے جو حکم بھی دیا جائے اُس کی تعمیل لفظ اور معنی، دونوں کے لحاظ سے پورے اخلاص کے ساتھ ہونی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے، اُس سے کسی کی کوئی بات چھپی نہ رہے گی۔
جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی اُس بات سے رجوع کریں جو انہوں نے کہی تھی، تو قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ اِس سے تم کو نصیحت کی جاتی ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
یہاں سے ظہار کے قانونی حکم کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ظہار کے وہ واقعات نگاہ میں رہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں پیش آئے تھے، کیونکہ اسلام میں ظہار کا مفصل قانون انہی آیات اور ان فیصلوں سے ماخوذ ہے جو ان آیات کے نزول کے بعد حضور نے پیش آمدہ واقعات میں صادر فرمائے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کے بیان کے مطابق اسلام میں ظہار کا پہلا واقعہ اوس بن صامت انصاری کا ہے جن کی بیوی خَوْلَہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ محدثین نے اس واقعہ کی جو تفصیلات متعدد راویوں سے نقل کی ہیں ان میں فروعی اختلافات تو بہت سے ہیں، مگر قانونی اہمیت رکھنے والے ضروری اجزاء قریب قریب متفق علیہ ہیں۔ خلاصہ ان روایات کا یہ ہے کہ حضرت اوس بن صامت بڑھاپے میں کچھ چڑ چڑے بھی ہوگئے تھے اور بعض روایات کی رو سے ان کے اندر کچھ جنون کی سی لٹک بھی پیدا ہوگئی تھی جس کے لیے راویوں نے کانَ بِہ لَمَمٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ لَمم عربی زبان میں دیوانگی کو نہیں کہتے بلکہ اس طرح کی ایک کیفیت کو کہتے ہیں جسے ہم اردو زبان میں ” غصے میں پاگل ہوجانے ” کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اس حالت میں وہ پہلے بھی متعدد مرتبہ اپنی بیوی سے ظہار کرچکے تھے، مگر اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ بیوی سے لڑ کر ان سے پھر اس حرکت کا صدور ہوگیا۔ اس پر ان کی اہلیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا قصہ آپ سے بیان کر کے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کے لیے رخصت کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے ؟ حضور نے جو جواب دیا وہ مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔ بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں کہ ” ابھی تک اس مسئلے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے “۔ اور بعض میں یہ الفاظ ہیں کہ ” میرا خیال یہ ہے کہ تم اس پر حرام ہوگئی ہو “۔ اور بعض میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا ” تم اس پر حرام ہوگئی ہو “۔ اس جواب کو سن کر وہ نالہ و فریاد کرنے لگیں۔ بار بار انہوں حضور سے عرض کیا کہ انہوں نے طلاق کے الفاظ تو نہیں کہے ہیں، آپ کوئی صورت ایسی بتائیں جس سے میں اور میرے بچے اور میرے بوڑھے شوہر کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔ مگر ہر مرتبہ حضور ان کو وہی جواب دیتے رہے۔ اتنے میں آپ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس کے بعد آپ نے ان سے کہا (اور بعض روایات کی رو سے ان کے شوہر کو بلا کر ان سے فرمایا) کہ ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ انہوں نے اس سے معذوری ظاہر کی، تو فرمایا دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے ہوں گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اوس کا حال تو یہ ہے کہ دن میں تین مرتبہ کھائیں نہیں تو ان کی بینائی جواب دینے لگتی ہے۔ آپ نے فرمایا پھر 60 مسکینوں کو کھانا دینا پڑے گا۔ انہوں نے عرض کیا وہ اتنی مقدرت نہیں رکھتے، الا یہ کہ آپ مدد فرمائیں تب آپ نے انہیں اتنی مقدار میں سامان خوراک عطا فرمایا جو 60 آدمیوں کی دو وقت کی غذا کے لیے کافی ہو۔ اس کی مقدار مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے، اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جتنی مقدار حضور نے عطا فرمائی اتنی ہی خود حضرت خولہ نے اپنے شوہر کو دی تاکہ وہ کفارہ ادا کرسکیں (ابن جریر، مسند احمد، ابوداؤد، ابن ابی حاتم ) ۔
ظہار کا دوسرا واقعہ سلمہ بن صخر بیاضی کا ہے۔ ان صاحب پر اعتدال سے کچھ زیادہ شہوت کا غلبہ تھا۔ رمضان آیا تو انہوں نے اس اندیشہ سے کہ کہیں روزے کی حالت میں دن کے وقت بےصبری نہ کر بیٹھیں رمضان کے اختتام تک کے لیے بیوی سے ظہار کرلیا۔ مگر اپنی اس بات پر قائم نہ رہ سکے اور ایک رات بیوی کے پاس چلے گئے۔ پھر نادم ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ماجرا عرض کیا۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو اپنی بیوی کے سوا کوئی نہیں جسے آزاد کر دوں۔ فرمایا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو۔ انہوں نے عرض کیا کہ روزوں ہی میں تو صبر نہ کرسکنے کی وجہ سے اس مصیبت میں پھنسا ہوں۔ حضور نے فرمایا پھر 60 مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے کہا ہم تو اس قدر غریب ہیں کہ رات بےکھائے سوئے ہیں۔ اس پر آپ نے بنی زَرَیق کے محصل زکوٰۃ سے ان کو اتنا سامان خوراک دلوایا کہ 60 آدمیوں میں بانٹ دیں اور کچھ اپنے بال بچوں کی ضروریات کے لیے بھی رکھ لیں (مسند احمد، ابوداؤد۔ ترمذی) ۔
تیسرا واقعہ نام کی تصریح کے بغیر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اس سے مباشرت کرلی۔ بعد میں حضور سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے حکم دیا کہ اس سے الگ رہو جب تک کفارہ ادا نہ کر دو (ابوداؤد، ترمذی، نسائی۔ ابن ماجہ) ۔
چوتھا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو سنا کہ اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکار رہا ہے۔ اس پر آپ نے غصہ سے فرمایا ” یہ تیری بہن ہے ؟ ” مگر آپ نے اسے ظہار قرار نہیں دیا (ابوداؤد) ۔
یہ چار معتبر واقعات ہیں جو مستند ذرائع سے احادیث میں ملتے ہیں اور انہیں کی مدد سے قرآن مجید کے اس حکم کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے جو آگے کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔
اصل الفاظ ہیں یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا۔ لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ ” پلٹیں اس بات کی طرف جو انہوں نے کہی “۔ لیکن عربی زبان اور محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی میں بڑا اختلاف واقع ہوگیا ہے :
ایک مفہوم ان کا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک دفعہ ظہار کے الفاظ منہ سے نکل جانے کے بعد پھر ان کا اعادہ کریں۔ ظاہریہ اور بکیر بن الاشج، اور یحییٰ بن زیاد الْفَرّاء اسی کے قائل ہیں، اور عطاء بن ابی رباح سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہوا ہے۔ ان کے نزدیک ایک دفعہ کا ظہار تو معاف ہے، البتہ آدمی اس کی تکرار کرے تب اس پر کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن یہ تفسیر دو وجوہ سے صریحاً غلط ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کو بیہودہ اور جھوٹی بات قرار دے کر اس کے لیے سزا تجویز فرمائی ہے۔ اب کیا یہ بات قابل تصور ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹی اور بیہودہ بات آدمی کہے تو معاف ہو اور دوسری مرتبہ کہے تو سزا کا مستحق ہوجائے ؟ دوسری وجہ اس کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہار کرنے والے کسی شخص سے بھی یہ سوال نہیں کیا کہ آیا اس نے ایک بار ظہار کیا ہے یا دو بار۔
دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ حرکت کرنے کے عادی تھے وہ اگر اسلام میں اس کا اعادہ کریں تو اس کی یہ سزا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ظہار کرنا بجائے خود مستوجب سزا ہو اور جو شخص بھی اپنی بیوی کے لیے ظہار کے الفاظ منہ سے نکالے اس پر کفارہ لازم آجائے، خواہ وہ اس کے بعد بیوی کو طلاق دے دے، یا اس کی بیوی مر جائے، یا اس کا کوئی ارادہ اپنی بیوی سے تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو۔ فقہاء میں سے طاؤس، مجاہد، شعبی، زہری، سفیان ثوری اور قتادہ کا یہی مسلک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد اگر عورت مر جائے تو شوہر اس وقت تک اس کی میراث نہیں پا سکتا جب تک کفارہ ادا نہ کر دے۔
تیسرا مفہوم یہ ہے کہ ظہار کے الفاظ زبان سے نکالنے کے بعد آدمی پلٹ کر اس بات کا تدارک کرنا چاہے جو اس نے کہی ہے۔ بالفاظ دیگر عادَ لِمَا قالَ کے معنی ہیں کہنے والے نے اپنی بات سے رجوع کرلیا۔
چوتھا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی نے ظہار کر کے اپنے لیے حرام کیا تھا اسے پلٹ کر پھر اپنے لیے حلال کرنا چاہے۔ بالفاظ دیگر عادَ لِمَا قَالَ کے معنی یہ ہے کہ جو شخص تحریم کا قال ہوگیا تھا وہ اب تحلیل کی طرف پلٹ آیا۔
اکثر و بیشتر فقہاء نے انہی دو مفہوموں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی ہے۔
بالفاظ دیگر یہ حکم تمہاری تادیب کے لیے دیا جا رہا ہے تاکہ مسلم معاشرے کے لوگ جاہلیت کی اس بری عادت کو چھوڑ دیں اور تم میں سے کوئی شخص اس بیہودہ حرکت کا ارتکاب نہ کرے۔ بیوی سے لڑنا ہے تو بھلے آدمیوں کی طرح لڑو۔ طلاق ہی دینا ہو تو سیدھی طرح طلاق دے دو۔ یہ آخر کیا شرافت ہے کہ آدمی جب بیوی سے لڑے تو اسے ماں بہن بنا کر ہی چھوڑے۔
سورة الْمُجَادِلَة حاشیہ نمبر :10
یعنی اگر آدمی گھر میں چپکے سے بیوی کے ساتھ ظہار کر بیٹھے اور پھر کفارہ ادا کیے بغیر میاں اور بیوی کے درمیان جب سابق زوجیت کے تعلقات چلتے رہیں، تو چاہے دنیا میں کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہو، اللہ کو تو بہرحال اس کی خبر ہوگی اللہ کے مواخذہ سے بچ نکلنا ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔
جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں تو ان کے ذمے آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ہے، اس کے ذریعے تم نصیحت کئے جاتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔
اب اس حکم کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ رجوع کا مطلب، بیوی سے ہم بستری کرنا چاہیں۔
یعنی ہم بستری سے پہلے وہ کفارہ ادا کریں ١۔ ایک غلام آزاد کرنا ٢۔ اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے۔ عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو دو مد نصف صاع یعنی سوا کلو اور بعض کہتے ہیں ایک مد کافی ہے لیکن قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اس طرح کھلایا جائے کہ وہ شکم سیر ہوجائیں یا اتنی مقدار میں ان کو کھانا دیا جائے ایک مرتبہ ہی سب کو کھلانا بھی ضروری نہیں بلکہ متعدد اقساط میں یہ تعداد پوری کی جاسکتی ہے۔ فتح القدیر۔ تاہم یہ ضروری ہے جب تک یہ تعداد پوری نہ ہوجائے اس وقت تک بیوی سے ہم بستری جائز نہیں۔
پس جس کو غلام میسر نہ آئے تو اس کے اوپر لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں، ہاتھ لگانے سے پہلے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اس کے ذمہ۔ یہ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول پر تمہارا ایمان راسخ ہو۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور کافروں کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔
پھر جس کے پاس غلام نہ ہو، اُسے پے درپے دو مہینے کے روزے رکھنا ہوں گے، اِس سے پہلے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جس میںیہ ہمت بھی نہ ہو ، وہ (اِس سے پہلے) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا۔ یہ اِس لیے ہے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول کو مانو، جس طرح کہ ماننے کا حق ہے، اور (جان لو کہ) یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ (اِنھیں منکرین ہی توڑتے ہیں)، اور منکروں کے لیے بڑی دردناک سزا ہے۔
اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اور جو اس پر بھی قادر نہ ہو وہ ٠ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک سزا ہے۔
یہ ہے ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم۔ فقہائے اسلام نے اس آیت کے الفاظ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلوں، اور اسلام کے اصول عامہّ سے اس مسئلے میں جو قانون اخذ کیا ہے اس کی تفصیلات یہ ہیں :
(1) ظہار کا یہ قانون عرب جاہلیت کے اس رواج کو منسوخ کرتا ہے جس کی رو سے یہ فعل نکاح کے رشتے کو توڑ دیتا تھا اور عورت شوہر کے لیے ابداً حرام ہوجاتی تھی۔ اسی طرح یہ قانون ان تمام قوانین اور رواجوں کو بھی منسوخ کرتا ہے جو ظہار کو بےمعنی اور بےاثر سمجھتے ہوں اور آدمی کے لیے اس بات کو جائز رکھتے ہوں کہ وہ اپنی بیوی کا ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر بھی اس کے ساتھ حسب سابق زن و شَو کا تعلق جاری رکھے، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ماں اور دوسری محرمات کی حرمت ایسی معمولی چیز نہیں ہے کہ انسان ان کے اور بیوی کے درمیان مشابہت کا خیال بھی کرے، کجا کہ اس کے زبان پر لائے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلامی قانون نے اس معاملہ میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ تین بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ظہار سے عورت وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ تیسرے یہ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کرسکتا ہے۔
(2) ظہار کرنے والے شخص کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس شوہر کا ظہار معتبر ہے جو عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو، مثلاً سوتے میں بڑبڑائے، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہوگیا ہو۔ اس کے بعد حسب ذیل امور میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے :
الف۔ نشے کی حالت میں ظہار کرنے والے کے متعلق ائمہ اربعہ سمیت فقہاء کی عظیم اکثریت یہ کہتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نشہ آور چیز جان بوجھ کر استعمال کی ہو تو اس کا ظہار اس کی طلاق کی طرح قانوناً صحیح مانا جائے گا، کیونکہ اس نے یہ حالت اپنے اوپر خود طاری کی ہے۔ البتہ اگر مرض کی وجہ سے اس نے کوئی دوا پی ہو اور اس سے نشہ لاحق ہوگیا ہو، یا پیاس کی شدت میں وہ جان بچانے کے لیے شراب پینے پر مجبور ہوا ہو تو اس طرح کے نشے کی حالت میں اس کے ظہار و طلاق کو نافذ نہیں کیا جائے گا۔ احناف اور شوافع اور حنابلہ کی رائے یہی ہے اور صحابہ کا عام مسلک بھی یہی تھا۔ بخلاف اس کے حضرت عثمان کا قول یہ ہے کہ نشے کی حالت میں طلاق و ظہار معتبر نہیں ہے۔ احناف میں سے امام طحاوی اور کَرْخی اس قول کو ترجیح دیتے ہیں اور امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ مالکیہ کے نزدیک ایسے نشے کی حالت میں ظہار معتبر ہوگا جس میں آدمی بالکل بہک نہ گیا ہو، بلکہ وہ مربوط اور مرتب کلام کر رہا ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
ب۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک ظہار صرف اس شوہر کا معتبر ہے جو مسلمان ہو۔ ذمیوں پر ان احکام کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْکُمْ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کا خطاب مسلمانوں سے ہے، اور تین قسم کے کفاروں میں سے ایک کفارہ قرآن میں روزہ بھی تجویز کیا گیا ہے جو ظاہر ہے کہ ذمیوں کے لیے نہیں ہو سکتا۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک یہ احکام ذمی اور مسلمان، دونوں کے ظہار پر نافذ ہوں گے، البتہ ذمی کے لیے روزہ نہیں ہے۔ وہ یا غلام آزاد کرے یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
ج۔ کیا مرد کی طرح عورت بھی ظہار کرسکتی ہے ؟ مثلاً اگر وہ شوہر سے کہے کہ تو میرے لیے میرے باپ کی طرح ہے، یا میں تیرے لیے تیری ماں کی طرح ہوں، تو کیا یہ بھی ہوگا ؟ ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار نہیں ہے اور اس پر ظہار کے قانونی احکام کا سرے سے اطلاق نہیں ہوتا۔ کیونکہ قرآن مجید نے صریح الفاظ میں یہ احکام صرف اس صورت کے لیے بیان کیے ہیں جبکہ شوہر بیویوں سے ظہار کریں (اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِھِمْ ) اور ظہار کرنے کے اختیارات اسی کو حاصل ہو سکتے ہیں جسے طلاق دینے کا اختیار ہے۔ عورت کو شریعت نے جس طرح یہ اختیار نہیں دیا کہ شوہر کو طلاق دیدے اسی طرح اسے یہ اختیار بھی نہیں دیا کہ اپنے آپ کو شوہر کے لیے حرام کرلے۔ یہی رائے سفیان ثوری، اسحٰق بن راہویہ، ابو ثور اور لیث بن سعد کی ہے کہ عورت کا ایسا قول بالکل بےمعنی اور بےاثر ہے۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ ظہار تو نہیں ہے۔ مگر اس سے عورت پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا، کیونکہ عورت کا ایسے الفاظ کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی ہے۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی ابن قدامہ نے یہی نقل کیا ہے۔ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اگر شادی سے پہلے عورت نے یہ بات کہی ہو کہ میں اس شخص سے شادی کروں تو وہ میرے لیے ایسا ہے جیسے میرا باپ، تو یہ ظہار ہوگا، اور اگر شادی کے بعد کہے تو یہ قسم کے معنی میں ہوگا جس سے کفارۂ یمین لازم آئے گا۔ بخلاف اس کے حسن بصری، زہری، ابراہیم نخعی، اور حسن بن زیاد لُؤْلُئِ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور ایسا کہنے سے عورت پر کفارہ ظہار لازم آئے گا، البتہ عورت کو یہ حق نہ ہوگا کہ کفارہ دینے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے روک دے۔ ابراہیم نخعی اسکی تائید میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ کی صاحبزادی عائشہ سے حضرت زبیر کے صاحبزادے مصعب نے نکاح کا پیغام دیا۔ انہوں نے اسے رد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہہ دیے کہ اگر میں ان سے نکاح کروں تو ھُوَ عَلَیَّ کَظَھْرِ اَبِیْ ۔ (وہ میرے اوپر ایسے ہوں جیسے میرے باپ کی پیٹھ) ۔ کچھ مدت بعد وہ ان سے شادی کرنے پر راضی ہوگئیں۔ مدینہ کے علماء سے اس کے متعلق فتویٰ لیا گیا تو بہت سے فقہاء نے جن میں متعدد صحابہ بھی شامل تھے، یہ فتویٰ دیا کہ عائشہ پر کفارہ ظہار لازم ہے۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ابراہیم نخعی اپنی یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ اگر عائشہ یہ بات شادی کے بعد کہتیں تو کفارہ لازم نہ آتا، مگر انہوں نے شادی سے پہلے یہ کہا تھا جب انہیں نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا اس لیے کفارہ ان پر واجب ہوگیا۔
(3) جو عاقل و بالغ آدمی ظہار کے صریح الفاظ بحالت ہوش و حواس زبان سے ادا کرے اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ اس نے غصے میں، یا مذاق مذاق میں، یا پیار سے ایسا کہا، یا یہ کہ اس کی نیت ظہار کی نہ تھی۔ البتہ جو الفاظ اس معاملہ میں صریح نہیں ہیں، اور جن میں مختلف معنوں کا احتمال ہے، ان کا حکم الفاظ کی نوعیت پر منحصر ہے۔ آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ ظہار کے صریح الفاظ کون سے ہیں اور غیر صریح کون سے۔
(4) ۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار اس عورت سے کیا جاسکتا ہے جو آدمی کے نکاح میں ہو۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا غیر عورت سے بھی ظہار ہوسکتا ہے۔ اس معاملہ میں مختلف مسالک یہ ہیں :
حنفیہ کہتے ہیں کہ غیر عورت سے اگر آدمی یہ کہے کہ ” میں تجھ سے نکاح کروں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ “، تو جب بھی وہ اس سے نکاح کرے گا کفارہ ادا کیے بغیر اسے ہاتھ نہ لگا سکے گا۔ یہی حضرت عمر کا فتویٰ ہے۔ ان کے زمانہ میں ایک شخص نے ایک عورت سے یہ بات کہی اور بعد میں اس سے نکاح کرلیا۔ حضرت عمرنے فرمایا اسے کفارہ ظہار دینا ہوگا۔
مالکیہ اور حنابلہ بھی یہی بات کہتے ہیں، اور وہ اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اگر عورت کی تخصیص نہ کی گئی ہو بلکہ کہنے والے نے یوں کہا ہو کہ تمام عورتیں میرے اوپر ایسی ہیں، تو جس سے بھی وہ نکاح کرے گا اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہوگا۔ یہی رائے سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر، عطاء بن ابی رباح، حسن نصری اور اسحاق بن راہویہ کی ہے۔
شافعیہ کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے ظہار بالکل بےمعنی ہے۔ ابن عباس اور قتادہ کی بھی یہی رائے ہے۔
(5) ۔ کیا ظہار ایک خاص وقت تک کے لیے ہوسکتا ہے ؟ حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی خاص وقت کی تعیین کر کے ظہار کیا ہو تو جب تک و وقت باقی ہے، بیوی کو ہاتھ لگانے سے کفارہ لازم آئے گا، اور اس وقت کے گزر جانے پر ظہار غیر مؤثر ہوجائے گا۔ اس کی دلیل سلمہ بن صخر بیاضی کا واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنی بیوی سے رمضان کے لیے ظہار کیا تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ وقت کی تعیین بےمعنی ہے۔ بخلاف اس کے امام مالک اور ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ظہار جب بھی کیا جائے گا، ہمیشہ کے لیے ہوگا اور وقت کی تخصیص غیر مؤثر ہوگی، کیونکہ جو حرمت واقع ہوچکی ہے وہ وقت گزر جانے پر آپ سے آپ ختم نہیں ہو سکتی۔
(6) ۔ مشروط ظہار کیا گیا ہو تو جس وقت بھی شرط کی خلاف ورزی ہوگی، کفارہ لازم آجائے گا۔ مثلاً آدمی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ ” اگر میں گھر میں آؤں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی بیٹھ “۔ اس صورت میں وہ جب بھی گھر میں داخل ہوگا۔ کفارہ ادا کیے بغیر بیوی کو ہاتھ نہ لگا سکے گا۔
(7) ۔ ایک بیوی سے کئی مرتبہ ظہار کے الفاظ کہے گئے ہوں تو حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ خواہ ایک ہی نشست میں ایسا کیا گیا ہو یا متعدد نشستوں میں، بہر حال جتنی مرتبہ یہ الفاظ کہے گئے ہوں اتنے ہی کفارے لازم آئیں گے، الا یہ کہ کہنے والے نے ایک دفعہ کہنے کے بعد اس قول کی تکرار محض اپنے پہلے قول کی تاکید کے لیے کی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ خواہ کتنی ہی مرتبہ اس قول کی تکرار کی گئی ہو، قطع نظر اس سے کہ اعادہ کی نیت ہو یا تاکید کی، کفارہ ایک ہی لازم ہوگا۔ یہی قول شعبی، طاؤس، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، اور اوزاعی رحمہم اللہ کا ہے حضرت علی کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر تکرار ایک نشست میں کی گئی ہو تو ایک ہی کفارہ ہوگا، اور مختلف نشستوں میں ہو تو جتنی نشستوں میں کی گئی ہو اتنے ہی کفارے دینے ہوں گے۔ قتادہ اور عمرو بن دینار کی رائے بھی یہی ہے۔
(8) دو یا زائد بیویوں سے بیک وقت اور بیک لفظ ظہار کیا جائے، مثلاً ان کو مخاطب کر کے شوہر کہے کہ تم میرے اوپر ایسی ہو جیسے میری ماں کی پیٹھ، تو حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ ہر ایک کو حلال مرنے کے لیے الگ الگ کفارے دینے ہونگے۔ یہی رائے حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، عروہ بن زبیر، طاؤس، عطاء، حسن بصری، ابراہیم نخعی، سفیان ثوری، اور ابن شہاب زہری کی ہے۔ امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) کہتے ہیں کہ اس صورت میں سب سے کے لیے ایک ہی کفارہ لازم ہوگا۔ ربیعہ، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور ابوٹور کی بھی یہی رائے ہے۔
(9) ایک ظہار کا کفارہ دینے کے بعد اگر آدمی پھر ظہار کر بیٹھے تو یہ امر متفق علیہ ہے کہ پھر کفارہ دیے بغیر بیوی اس کے لیے حلال نہ ہوگی۔
(10) ۔ کفارہ ادا کرنے سے پہلے اگر بیوی سے تعلق زن و شو قائم کر بیٹھا ہو تو ائمہ اربعہ کے نزدیک اگرچہ یہ گناہ ہے، اور آدمی کو اس پر استغفار کرنا چاہیے، اور پھر اس کا اعادہ نہ کرنا چاہیے، مگر کفارہ اسے ایک ہی دینا ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جن لوگوں نے ایسا کیا تھا ان سے آپ نے نہیں دیا تھا کہ کفارہ ظہار کے علاوہ اس پر انہیں کوئی اور کفارہ بھی دینا ہوگا۔ حضرت عمرو بن عاص، قبیصہبن ذؤَیب سعید بن جبیر، زہری اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس پر دو کفارے لازم ہوں گے۔ اور حسن بصری اور ابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ تین کفارے دینے ہوں گے۔ غالباً ان حضرات کو وہ احادیث نہ پہنچی ہوں گی جن میں اس مسئلہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ بیان ہوا ہے۔
(11) ۔ بیوی کس کس سے تشبیہ دینا ظہار ہے ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : عامر شعبی کہتے ہیں کہ صرف ماں سے تشبیہ ظہار ہے، باقی اور کسی بات پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مگ فقہاء امت میں سے کسی گروہ بےبھی ان سے اس معاملہ میں اتفاق نہیں کیا ہے، کیونکہ قرآن نے ماں سے تشبیہ کو گناہ قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن عورتوں کی حرمت ماں جیسی ہے ان کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا بیہودگی اور جھوٹ میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کا حکم وہی نہ ہو جو ماں سے تشبیہ کا حکم ہے۔
حنفیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں تمام وہ عورتیں داخل ہیں جو نسب یا رضاعت، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ابداً حرام ہیں مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ جیسے بیوی کی بہن، اس کی خالہ، اس کی پھوپھی، یا غیر عورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو، ظہار ہوگا۔ البتہ بیوی کے ہاتھ، پاؤں، سر، بال، دانت وغیرہ کو ابداً حرام عورت کی پیٹھ سے، یا بیوی کو اس کے سر، ہاتھ، پاؤں جیسے اجزائے جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہوگا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے، ظہار نہیں ہے۔
شافعیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں صرف وہی عورتیں داخل ہیں جوق ہمیشہ حرام تھیں اور ہمیشہ حرام رہیں، یعنی ماں، بہن، بیٹی وغیرہ مگر وہ عورتیں اس میں داخل نہیں ہیں جو کبھی حلال رہ چکی ہوں، جیسے رضاعی ماں، بہن، ساس اور بہو، یا کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں، جیسے سالی۔ ان عارضی یا وقتی حرام عورتوں کے ماسوا ابدی حرمت رکھنے والی عورتوں میں سے کسی کے ان اعضا کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہوگا جن کا ذکر بغرض اظہار اکرام و توقیر عادۃً نہیں کیا جاتا۔ رہے وہ اعضاء جن کا اظہار اکرام و توقیر کے کیا جاتا ہے تو ان تشبیہ صرف اس صورت میں ظہار ہوگی جبکہ یہ بات ظہار کی نیت سے کہی جائے۔ مثلاً بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی آنکھ یا جان کی طرح ہے، یا ماں کے ہاتھ، پاؤں یا پیٹ کی طرح ہے، یا ماں کے پیٹ یا سینے سے بیوی کے پیٹ یا سینے کو تشبیہ دینا، یا بیوی کے سر، پیٹھ یا ہاتھ کو اپنے لیے ماں کی پیٹھ جیسا قرار دینا، یا بیوی کو یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں جیسی ہے، ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے اور عزت کی نیت سے ہو تو عزت ہے۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ ہر عورت جو آدمی کے لیے حرام ہو، اس سے بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہے، حتی کہ بیوی سے یہ کہنا بھی ظہار کی تعریف میں آتا ہے کہ تو میرے اوپر فلاں غیر عورت کی بیٹھ جیسی ہے، نیز وہ کہتے ہیں کہ ماں اور ابدی محرمات کے کسی عضو سے بیوی کو یا بیوی کے کسی عضو کو تشبیہ دینا ظہار ہے، اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اعضاء ایسے ہوں جن پر نظر ڈالنا حلال نہ ہو، کیونکہ مان کے کسی عضو پر بھی اس طرح کی نظر ڈالنا جیسی بیوی پر ڈالی جاتی ہے، حلال نہیں ہے۔
حنابلہ اس حکم میں تمام ان عورتوں کو داخل سمجھتے ہیں جو ابداً حرام ہوں، خواہ وہ پہلے کبھی حلال رہ چکی ہوں، مثلاً ساس، یا دودھ پلانے والی ماں رہیں وہ عورتیں جو بعد میں کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں، (مثلاً سالی) ، تو ان کے معاملہ میں امام احمد کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ بھی ظہار ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ دینا ظہار کی تعریف میں آجاتا ہے۔ البتہ بال، ناخن، دانت جیسے غیر مستقل اجزاء جسم اس حکم سے خارج ہیں۔
(12) ۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی سے یہ کہنا کہ ” تو میرے اوپر میری ماں کی بیٹھ جیسی ہے ” صریح ظہار ہے کیونکہ اہل عرب میں یہی ظہار کا طریقہ تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ البتہ اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ دوسرے الفاظ میں سے کون سے ایسے ہیں جو صریح ظہار کے حکم میں ہیں، اور کون سے ایسے ہیں جن کے ظہار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قائل کی نیت پر کیا جائے گا۔
حنفیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ وہ ہیں جن میں صاف طور پر حلال عورت (بیوی) کو حرام عورت (یعنی محرمات ابدیہ میں سے کسی عورت) سے تشبیہ دی گئی ہو، یا تشبیہ ایسے عضو سے دی گئی ہو جس پر نظر ڈالنا حلال نہیں ہے، جیسے یہ کہنا کہ تو میرے اوپر ماں یا فلاں حرام عورت کے پیٹ یا ران جیسی ہے۔ ان کے سوا دوسرے الفاظ میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ اگر کہے کہ ” تو میرے اوپر حرام ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ ” تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ صریح ظہار ہے، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک ظہار کی نیت ہو تو ظہار ہے اور طلاق کی نیت ہو تو طلاق۔ اگر کہے کہ ” تو میری ماں جیسی ہے یا میری ماں کی طرح ہے ” تو حنیفہ کا عام فتویٰ یہ ہے کہ یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے، طلاق کی نیت سے طلاق بائن، اور اگر کوئی نیت نہ ہو تو بےمعنی ہے۔ لیکن امام محمد کے نزدیک یہ قطعی ہے۔ اگر بیوی کو ماں یا بہن یا بیٹی کہہ کر پکارے تو یہ سخت بیہودہ بات ہے جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصے کا اظہار فرمایا تھا، مگر اسے ظہار نہیں قرار دیا۔ اگر کہے کہ ” تو میرے اوپر ماں کی طرح حرام ہے ” تو یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے، طلاق کی نیت سے طلاق، اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے۔ اگر کہے کہ ” تو میرے لیے ماں کی طرح یا ماں جیسی ہے ” تو نیت پوچھی جائے گی۔ عزت اور توقیر کی نیت سے کہا ہو تو عزت اور توقیر ہے۔ ظہار کی نیت سے کہا ہو تو ظہار ہے۔ طلاق کی نیت سے کہا ہو تو طلاق ہے۔ کوئی نیت نہ ہو اور یونہی یہ بات کہہ دی ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک بےمعنی ہے، امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر ظہار کا تو نہیں مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا، اور امام محمد کے نزدیک یہ ظہار ہے۔
شافعیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو میرے نزدیک، یا میرے ساتھ، یا میرے لیے ایسی ہے جیسی میری ماں کی پیٹھ۔ یا تو میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ یا تیرا جسم، یا تیرا بدن، یا تیرا نفس میرے لیے میری ماں کے جسم یا بدن یا جنس کی طرح ہے۔ ان کے سوا باقی تمام الفاظ میں قائل کی نیت پر فیصلہ ہوگا۔
حنابلہ کے نزدیک ہر وہ لفظ جس سے کسی شخص نے بیوی کو یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو کو کسی ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام ہے، یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو سے صاف صاف تشبیہ دی ہو، ظہار کے معاملہ میں صریح مانا جائے گا۔
مالکیہ کا مسلک بھی قریب قریب یہی ہے، البتہ تفصیلات میں ان کے فتوے الگ الگ ہیں۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی سے یہ کہنا کہ ” میرے لیے میری ماں جیسی ہے، یا میری ماں کی طرح ہے ” مالکیوں کے نزدیک ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے، طلاق کی نیت سے ہو تو طلاق اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے۔ حنبلیوں کے نزدیک یہ بشرط نیت صرف ظہار قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص بیوی سے کہے کہ ” تو میری ماں ہے ” تو مالکیہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ بات اگر جھگڑے اور غصے کی حالت میں کہی گئی ہو تو ظہار ہے، اور پیار محبت کی بات چیت میں کہی گئی ہو تو کو یہ بہت ہی بری بات ہے لیکن ظہار نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کہے ” تجھے طلاق ہے تو میری ماں کی طرح ہے ” تو حنابلہ کے نزدیک یہ طلاق ہے نہ کہ ظہار، اور اگر کہے ” تو میری ماں کی طرح ہے تجھے طلاق ہے ” تو ظہار اور طلاق دونوں واقع ہوجائیں گے۔ یہ کہنا کہ ” تو میرے اوپر ایسی حرام ہے جیسی میری ماں کی بیٹھ ” مالکیہ اور حنابلہ دونوں کے نزدیک ظہار ہے خواہ طلاق ہی کی نیت سے یہ لفاظ کہے گئے ہوں، یا نیت کچھ بھی نہ ہو۔
الفاظ ظہار کی اس بحث میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فقہاء نے اس باب میں جتنی بحثیں کی ہیں وہ سب عربی زبان کی الفاظ اور محاورات سے تعلق رکھتی ہیں، اور ظاہر ہے کہ دنیا کی دوسری زبانیں بولنے والے نہ عربی زبان میں ظہار کریں گے، نہ ظہار کرتے وقت عربی الفاظ اور فقروں کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ زبان سے ادا کریں گے۔ اس لیے کسی لفظ یا فقرے کے متعلق اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ظہار کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں، تو اسے اس لحاظ سے نہیں جانچنا چاہیے کہ وہ فقہاء کے بیان کردہ الفاظ میں سے کس کا صحیح ترجمہ ہے، بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا قائل نے بیوی کو جنسی (Sexual) تعلق کے لحاظ سے محرمات میں سے کسی کے ساتھ صاف صاف تشبیہ دی ہے، یا اس کے الفاظ میں دوسرے مفہومات کا بھی احتمال ہے ؟ اس کی نمایاں ترین مثال خود وہ فقرہ ہے جس کے متعلق تمام فقہاء اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ عرب میں ظہار کے لیے وہی بولا جاتا تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے، یعنی اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ (تو میرے اوپر میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے ) ۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں، اور کم از کم اردو کی حد تک تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس زبان میں کوئی ظہار کرنے والا ایسے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا جو اس عربی فقرے کا لفظی ترجمہ ہوں۔ البتہ وہ اپنی زبان کے ایسے الفاظ ضرور استعمال کرسکتا ہے جن کا مفہوم ٹھیک وہی ہو جسے ادا کرنے کے لیے ایک عرب یہ فقرہ بولا کرتا تھا۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ ” تجھ سے مباشرت میرے لیے ایسی ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت “، یا جیسے بعض جہلا بیوی سے کہہ بیٹھتے ہیں کہ ” تیرے پاس آؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں “۔
(13) قرآن مجید میں جس چیز کو کفارہ لازم آنے کا سبب قرار دیا گیا ہے وہ محض ظہار نہیں ہے بلکہ ظہار کے بعد ” غور ” ہے۔ یعنی اگر آدمی صرف ظہار کر کے رہ جائے اور عود نہ کرے تو اس پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ عود کیا ہے جو کفارہ کا موجب ہے ؟ اس بارے میں فقہاء کے مالک یہ ہیں :
حنفیہ کہتے ہیں کہ عود سے مراد مباشرت کا ارادہ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض ارادے اور خواہش پر کفارہ لازم آجائے، حتیٰ کیہ اگر آدمی ارادہ کر کے رہ جائے اور عملی اقدام نہ کرے تب بھی اسے کفارہ دینا پڑے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس حرمت کو رفع کرنا چاہے جو اس نے ظہار کر کے بیوی کے ساتھ تعلق زن و شو کے معاملہ میں اپنے اوپر عائد کرلی تھی وہ پہلے کفارہ دے، کیونکہ یہ حرمت کفارہ کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی۔
امام مالک (رح) کے اس معاملہ میں تین قول ہیں، مگر مالکیہ کے ہاں ان کا مشہور ترین اور صحیح ترین قول اس مسلک کے مطابق ہے جو اوپر حنفیہ کا بیان ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار سے جس چیز کو اس نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ وہ بیوی کے ساتھ مباشرت کا تعلق تھا۔ اس کے بعد عودیہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ یہی تعلق رکھنے کے لیے پلٹے۔
امام احمد بن حنبل (رح) کا مسلک بھی ابن قدامہ نے قریب قریب وہی نقل کیا ہے جو اوپر دونوں اماموں کا بیان کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد مباشرت کے حلال ہونے کے لیے کفارہ شرط ہے۔ ظہار کرنے والا جو شخص اسے حلال کرنا چاہے وہ گویا تحریم سے پلٹنا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے حکم دیا گیا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے کفارہ دے، ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی شخص ایک غیر عورت کو اپنے لیے حلال کرنا چاہے تو اس سے کہا جائے گا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے نکاح کرے۔
امام شافعی (رح) کا مسلک ان تینوں سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کا اپنی بیوی سے ظہار کرنے کے بعد اسے حسب سابق بیوی بنائے رکھنا، یا بالفاظ دیگر اسے بیوی کی حیثیت سے روکے رکھنا عود ہے۔ کیونکہ جس وقت اس نے ظہار کیا اسی وقت گویا اس نے اپنے لیے یہ بات حرام کرلی کہ اسے بیوی بنا کر رکھے۔ لہٰذا اگر اس نے ظہار کرتے ہی فوراً اسے طلاق نہ دی اور اتنی دیر تک اسے روکے رکھا جس میں وہ طلاق کے الفاظ زبان سے نکال سکتا تھا، تو اس نے عود کرلیا اور اس پر کفارہ واجب ہوگیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک سانس میں ظہار کرنے کے بعد اگر آدمی دوسرے ہی سانس میں طلاق نہ دے دے تو کفارہ لازم آجائے گا، خواہ بعد میں اس کا فیصلہ یہی ہو کہ اس عورت کو بیوی بنا کر نہیں رکھنا ہے، اور اس کا کوئی ارادہ اس کے ساتھ تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو۔ حتیٰ کہ چند منٹ غور کر کے وہ بیوی کو طلاق بھی دے ڈالے تو امام شافعی (رح) کے مسلک کی رو سے کفارہ اس کے ذمہ لازم رہے گا۔
(14) قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا کفارہ دے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو ” مَس ” کریں۔ ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں مس سے مراد چھونا ہے، اس لیے کفارہ سے پہلے صرف مباشرت ہی حرام نہیں ہے بلکہ شوہر کسی طرح بھی بیوی کو چھو نہیں سکتا۔ شافعیہ شہوت کے ساتھ چھونے کو حرام کہتے ہیں، حنابلہ ہر طرح کے تلذذ کو حرام قرار دیتے ہیں، اور مالکہ لذت کے لیے بیوی کے جسم پر بھی نظر ڈالنے کو ناجائز ٹھیراتے ہیں اور ان کے نزدیک صرف چہرے اور ہاتھوں پر نظر ڈالنا اس سے مستثنیٰ ہے۔
(15) ظہار کے بعد اگر آدمی بیوی کو طلاق دے دے تو رجعی طلاق ہونے کی صورت میں رجوع کر کے بھی وہ کفارہ دیے بغیر اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ بائن ہونے کی صورت میں اگر اس سے دوبارہ نکاح کرے تب بھی اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہوگا۔ حتیٰ کہ اگر تین طلاق دے چکا ہو، اور عورت دوسرے آدمی نکاح کرنے کے بعد بیوہ یا مطلقہ ہوچکی ہو، اور اس کے بعد ظہار کرنے والا شوہر اس سے از سر نو نکاح کرلے، پھر بھی کفارے کے بغیر وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ اسے ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر اپنے اوپر ایک دفعہ حرام کرچکا ہے، اور یہ حرمت کفارے کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی۔ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔
(16) عورت کے لیے لازم ہے کہ جس شوہر نے اس کے ساتھ ظہار کیا ہے اسے ہاتھ نہ لگانے دے جب تک وہ کفارہ ادا نہ کرے۔ اور چونکہ تعلق زن و شو عورت کا حق ہے جس سے ظہار کر کے شوہر نے اسے محروم کیا ہے، اس لیے اگر وہ کفارہ نہ عے تو بیوی عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔ عدالت اس کے شوہر کو مجبور کرے گی کہ وہ کفارہ دے کر حرمت وہ دیوار ہٹائے جو اس نے اپنے اور اس کے درمیان حائل کرلی ہے۔ اور اگر وہ نہ مانے تو عدالت اسے ضرب یا قید یا دونوں طرح کی سزائیں دے سکتی ہے۔ یہ بات بھی چاروں مذاہب فقہ میں متفق علیہ ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ مذہب حنفی میں عورت کے لیے صرف یہی ایک چارہ کار ہے، ورنہ ظہار پر خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے، عورت کو اگر عدالت اس مشکل سے نہ نکالے تو وہ تمام عمر معلق رہے گی، کیونکہ ظہار سے نکاح ختم نہیں ہوتا، صرف شوہر کا حق تمتّع سلب ہوتا ہے۔ ملکی مذہب میں اگر شورہ عورت کو ستانے کے لیے ظہار کر کے معلق چھوڑ دے تو اس پر ایلاء کے احکام جاری ہوں گے، یعنی وہ چار مہینے سے زیادہ عورت کو روک کر نہیں رکھ سکتا (احکام ایلاء کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حواشی 245 تا 247 ) ۔ شافعیہ کے نزدیک اگرچہ ظہار میں احکام ایلاء تو صرف اس وقت جاری ہو سکتے ہیں جبکہ شوہر نے ایک مدت خاص کے لیے ظہار کیا ہو اور وہ مدت چار مہینے سے زیادہ ہو، لیکن چونکہ مذہب شافعی کی رو سے شوہر پر اسی وقت کفارہ واجب ہوجاتا ہے جب وہ عورت کو بیوی بنا کر رکھے رہے، اس لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کسی طویل مدت تک اس کو معلق رکھے۔
(17) قرآن اور سنت میں تصریح ہے کہ ظہار کا پہلا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے۔ اس سے آدمی عاجز ہو تب دو مہینے کے روزوں کی شکل میں کفارہ دے سکتا ہے۔ اور اس سے بھی عاجز ہو تب 60 مسکینوں کو کھانا کھال سکتا ہے۔ لیکن اگر تینوں کفاروں سے کوئی شخص عاجز ہو تو چونکہ شریعت میں کفارے کی کوئی اور شکل نہیں رکھی گئی ہے اس لیے اسے اس وقت تک انتظار کرنا ہوگا جب تک وہ ان میں سے کسی ایک پر قادر نہ ہوجائے۔ البتہ سبت سے یہ ثابت ہے کہ ایسے شخص کی مدد کی جانی چاہیے تاکہ وہ تیسرا کفارہ ادا کرسکے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت المال سے ایسے لوگوں کی مدد فرمائی ہے جو اپنی غلطی سے اس مشکل میں پھنس گئے تھے اور تینوں کفاروں سے عاجز تھے۔
(18) قرآن مجید کفارہ میں رَقَبہ آزاد کرنے کا حکم دیتا ہے جس کا اطلاق لونڈی اور غلام دونوں پر ہوتا ہے اور اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ شیر خوار بچہ بھی اگر غلامی کی حالت میں ہو تو اسے آزاد کیے جاسکتے ہیں یا صرف مومن غلام ہی آزاد کرنا ہوگا۔ حنفیہ اور ظاہریہ کہتے ہیں غلام خواہ مومن ہو یا کافر، اس کا آزاد کردینا کفارہ ظہار کے لیے کافی ہے، کیونکہ قرآن میں مطلق رَقَبہ کا ذکر ہے، یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ مومن ہی ہونا چاہیے۔ بخلاف اس کے شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ اس کے لیے مومن کی شرط لگاتے ہیں، اور انہوں نے اس حکم کو ان دوسرے کفاروں پر قیاس کیا ہے جن میں رقبہ کے ساتھ قرآن مجید میں مومن کی قید لگائی گئی ہے۔
(19) غلام نہ پانے کی صورت میں قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا مسلسل دو مہینے کے روزے رکھے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ اس فرمان الٰہی پر عمل کرنے کی تفصیلات مختلف فقہی مذاہب میں حسب ذیل ہیں :
الف۔ اس امر پر اتفاق ہے کہ مہینوں سے مراد ہلالی مہینے ہیں۔ اگر طلوع بلال سے روزوں کا آغاز کیا جائے تو دو مہینے پورے کرنے ہوں گے۔ اگر بیچ میں کسی تاریخ سے شروع کیا جائے تو حنفیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ 60 روزے رکھنے چاہئیں۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ پہلے اور تیسرے مہینے میں مجموعی طور پر 30 روزے رکھ اور بیچ کا ہلالی مہینہ خواہ 29 کا ہو یا 30 کا، اس کے روزے رکھ لینے کافی ہیں۔
ب۔ حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ روزے ایسے وقت شروع کرنے چاہییں جب کہ بیچ میں نہ رمضان آئے نہ عیدین نہ یوم النحر اور ایام تشریق، کیونکہ کفارہ کے روزے رکھنے کے دوران میں رمضان کے روزے رکھنے اور عیدین اور یوم الجحر اور ایام تشریق کے روزے چھڑنے سے دو مہینے کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے چھڑنے سے دو مہینے کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے پڑیں گے۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ بیچ میں رمضان کے روزے رکھنے اور حرام دنوں کے روزے نہ رکھنے سے تسلسل نہیں ٹوٹتا۔
ج۔ دو مہینوں کے دوران میں خواہ آدمی کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑے یا بلا عذر، دونوں صورتوں میں حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے رکھنے ہوں گے۔ یہی رائے امام محمد باقر، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر اور سفیان ثوری کی ہے۔ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک مرض یا سفر کے عذر سے بیچ میں روزہ چھوڑا جاسکتا ہے اور اس سے تسلسل نہیں ٹوٹتا، البتہ بلا عذر روزہ چھوڑ دینے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ کفارہ کے روزے رمضان کے فرض روزوں زیادہ موکد نہیں ہیں۔ جب ان کو عذر کی بنا پر چھوڑا جاسکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں یکہ ان کو نہ چھوڑا جاسکے۔ یہی قول حضرت عبداللہ بن عباس، حسن بصری، عطاء بن ابی رَبَاح، سعید بن المسیب، عمرو بن دینار، شعبی طاؤس، مجاہر، اسحاق بن راہویہ، ابر عبید اور ابو ثور ہے۔
د۔ دومہینوں کے دوران میں اگر آدمی اس بیوی سے مباشرت کر بیٹھے جس سے اس نے ظہار کیا ہو، تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور نئے سرے سے روزے رکھنے ہوں گے کیونکہ ہاتھ لگانے سے پہلے دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(20) قرآن اور سنت کی رو سے تیسرا کفارہ (یعنی 60 مسکینوں کا کھانا) وہ شخص دے سکتا ہے جو دوسرے کرنے (دو مہینے کے مسلسل روزوں) کی قدرت نہ رکھتا ہو۔ اس حکم پر عمل درآمد کرنے کے لیے فقہاء نے جو تفصیلی احکام مرتب کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :
الف۔ ائمہ اربعہ کے نزدیک روزوں پر قادر نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی یا تو بڑھاپے کی وجہ سے قادر نہ ہو، یا مرض کے سبب سے، یا اس سبب سے کہ وہ مسلسل دو مہینے تک مباشرت سے پرہیز نہ کرسکتا ہو اور اسے اندیشہ ہو کہ اس دوران میں کہیں بےصبری نہ کر بیٹھے۔ ان تینوں عذرات کا صحیح ہونا اس احادیث سے ثابت ہے جو اَوْس بن صامت انصاری اور سلمہ بن صخر بیاضی کے معاملہ میں وارد ہوئی ہیں۔ البتہ مرض کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان تھوڑا سا اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ مرض کا عذر اس صورت میں صحیح ہوگا جب کہ یا تو اس کے زائل ہونے کی امید نہ ہو، یا روزوں سے مرض کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر روزوں سے ایسی شدید مشقت لاحق ہوتی ہو جس سے آدمی کو یہ خطرہ ہو کہ دو مہینے کے دوران میں کہیں سلسلہ منقطع نہ کرنا پڑے، تو یہ عذر بھی صحیح ہوسکتا ہے۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ اگر آدمی کا گمان غالب یہ ہو کہ وہ مستقبل میں روزہ رکھنے کے قابل ہو سکے گا تو انتظار کرلے، اور اگر گمان غالب اس قابل نہ ہو سکنے کا ہو تو مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ روزے سے مرض بڑھ جانے کا اندیشہ بالکل کافی عذر ہے۔
ب۔ کھانا صرف ان مساکین کو دیا جاسکتا ہے جن کا نفقہ آدمی کے ذمہ واجب نہ ہوتا ہو۔
ج۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ کھانا مسلمان اور ذمی، دونوں قسم کے مساکین کو دیا جاسکتا ہے، البتہ حربی اور مستامن کفار کو نہیں دیا جاسکتا۔ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ صرف مسلمان مساکین ہی کو دیا جاسکتا ہے۔
د۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ کھانا دینے سے مراد دو وقت کا پیٹ بھر کھانا دینا ہے۔ البتہ کھانا دینے کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ دو وقت کی شکم سیری کے قابل غلہ دے دینا، یا کھانا پکا کر دو وقت کھلا دینا، دونوں یکساں صحیح ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں اطعام کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خوراک دینے کے بھی ہیں اور کھلانے کے بھی۔ مگر مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ پکا کر کھلا نے کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ غلہ دے دینا ہی ضروری قرار دیتے ہیں غلہ دینے کی صورت میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ وہ غلہ دینا چاہیے جو اس شہر یا علاقے کے لوگوں کی عام غذا ہو۔ اور سب مسکینوں کو برابر دینا چاہیے۔
ھ۔ حنفیہ کے نزدیک اگر ایک ہی مسکین کو 60 دن تک کھانا دیا جائے تو یہ بھی صحیح ہے، البتہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک ہی دن اسے 60 دنوں کی خوراک دے دی جائے۔ لیکن باقی تینوں مذاہب ایک مسکین کو دینا صحیح نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک 60 ہی مساکین کو دینا ضروری ہے۔ اور یہ بات چاروں مذاہب میں جائز نہیں ہے کہ 60 آدمیوں کو ایک وقت کی خوراک اور دوسرے 60 آدمیوں کو دوسرے وقت کی خوراک دی جائے۔
و۔ یہ بات چاروں مذاہب میں سے کسی میں جائز نہیں ہے کہ آدمی 30 دن کے روزے رکھے اور 30 مسکینوں کو کھانا دے۔ دو کفارے جمع نہیں کیے جاسکتے۔ روزے رکھنے ہوں تو پورے دو مہینوں کے مسلسل رکھنے چاہییں۔ کھانا کھلانا ہو تو 60 مسکینوں کو کھلایا جائے۔
ز۔ اگرچہ قرآن مجید میں کفارہ طعام کے متعلق یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے ہیں کہ یہ کفارہ بھی زوجین کے ایک دوسرے کو چھونے سے پہلے ادا ہونا چاہیے، لیکن فحوائے کلام اس کا مقتضی ہے کہ اس تیسرے کفارے پر بھی اس قید کا اطلاق ہوگا۔ اسی لیے ائمہ اربعہ نے اس کو جائز نہیں رکھا ہے کہ کفارہ طعام کے دوران میں آدمی بیوی کے پاس جائے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ جو شخص ایسا کر بیٹھے اس کے متعلق حنابلہ یہ حکم دیتے ہیں کہ اسے از سر جو کھانا دینا ہوگا۔ اور حنفیہ اس معاملہ میں رعایت کرتے ہیں، کیونکہ اس تیسرے کفارے کے معاملے میں مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَا سَّا کی صراحت نہیں ہے اور یہ چیز رعایت کی گنجائش دیتی ہے۔
یہ احکام نقہ کی حسب ذیل کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں : فقہ حنفی : ہدایہ۔ فتح اقدیر۔ بدایع الصنائع۔ احکام القرآن للجصاص۔ فقہ شافعی : المنہاج للنوَوِی مع شرح مغنی المحتاج۔ تفسیر کبیر۔ فقہ مالکی : حادیۃ الد سوقی علی اشرح الکبری۔ ہدایۃ المجتہد۔ احکام القرآن ابن عربی۔ فقہ حنبلی : المغنی لابن قدامہ۔ فقہ ظاہری : المحلّیٰ لا بن حزُم۔
یہاں ” ایمان لانے ” سے مراد سچے اور مخلص مومن کا سا رویہ اختیار کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ آیت کے مخاطب کفار و مشرکین نہیں ہیں، بلکہ مسلمان ہیں جو پہلے ہی ایمان لائے ہوئے تھے ان کو شریعت کا ایک حکم سنانے کے بعد یہ فرمانا کہ ” یہ حکم تم کو اس لیے دیا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ” صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ جو شخص خدا کے اس حکم کو سننے کے بعد بھی جاہلیت کے پرانے رواجی قانون کی پیروی کرتا رہے اس کا یہ طرز عمل ایمان کے منافی ہوگا۔ ایک مومن کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جب زندگی کے کسی معاملہ میں اس کے لیے ایک قانون مقرر کر دے تو وہ اس کو چھوڑ کر دنیا کے کسی دوسرے قانون کی پیروی کرے، یا اپنے جنس کی خواہشات پر عمل کرتا رہے۔
یہاں کفر سے مراد منکر خدا و رسالت نہیں ہے، بلکہ وہ شخص ہے جو خدا و رسول کو ماننے کا اقرار و اظہار کرنے کے بعد بھی وہ طرز عمل اختیار کرے جو ایک کافر کے کرنے کا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ دراصل کافروں کا کام ہے اللہ اور اس کے رسول کا حکم سننے کے بعد بھی اپنی مرضی چلاتے رہیں، یا جاہلیت کے طریقوں ہی کی پیروی کرتے رہیں۔ ورنہ سچے دل سے ایمان لانے والا تو کبھی یہ رویہ اختیار نہیں کرسکتا۔ یہی بات سورة آل عمران میں بھی حج کی فرضیت کا حکم دینے کے بعد فرمائی گئی ہے کہ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ العٰلَمِیْنَ ، ” اور جو کفر کرے (یعنی اس حکم کی اطاعت نہ کرے) تو اللہ دنیا والوں سے بےنیاز ہے “۔ ان دونوں مقامات پر ” کفر ” کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے کہ جو شخص بھی ظہار کرنے کے بعد کفارہ ادا کیے بغیر بیوی سے تعلق رکھے، یا یہ سمجھے کہ ظہار ہی سے بیوی کو طلاق ہوگئی ہے، یا استطاعت کے باوجود حج نہ کرے، اسے قاضی شرع کافر و مرتد ٹھہرا دے اور سب مسلمان اسے خارج از اسلام قرار دے دیں۔ بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے لوگوں کا شمار مومنین میں نہیں ہے جو اس کے احکام کو قول یا عمل سے رد کردیں اور اس امر کی کوئی پروا نہ کریں کہ ان کے رب نے ان کے لیے کیا حدود مقرر کی ہیں، کن چیزوں کو فرض کیا ہے، کن چیزوں کو حلال کیا ہے اور کیا چیزیں حرام کردی ہیں۔
ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمے دو مہینوں کے لگا تار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے۔ یہ اس لئے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم بردری کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی وہ حدیں ہیں اور کفار ہی کے لئے دردناک عذاب ہے
n/a
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں وہ ذلیل ہوں گے جس طرح ان سے پہلے ان کے ہم مشرب ذلیل ہوئے۔ اور ہم نے نہایت واضح تنبیہات اتار دی ہیں اور کافروں کے لیے نہایت سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے
’مُحَآدَّۃ‘ کا مفہوم: ’مُحَآدَّۃ‘ کے معنی مخالفت اور دشمنی کرنے کے ہیں۔ یہ لفظ ’موآدّۃ‘ کا مقابل ہے۔ اسی سورہ میں یہ دونوں لفظ ایک ہی آیت میں نہایت خوبی سے استعمال ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے مفہوم پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ فرمایا ہے:
’لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ‘ (۲۲)
(تم کوئی ایسی قوم نہیں پا سکتے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہو پھر وہ ان لوگوں کو دوست بنائے جو اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہوں)۔
جھوٹے مدعیان اسلام کا کردار: اوپر کے پیرے میں، جیسا کہ واضح ہوا، ان لوگوں کا کردار بیان ہوا ہے جن کو دین کے معاملے میں کوئی مشکل پیش آئی تو وہ اس کو اللہ و رسول کے آگے ہی پیش کرتے اور اپنا شکوہ و مجادلہ اللہ و رسول ہی سے کرتے۔ اب ان کے مقابل میں یہ ان لوگوں کا کردار بیان ہو رہا ہے جو مدعی تو تھے ایمان و اسلام کے لیکن ان کا رویہ اللہ و رسول کے ساتھ مخالفت کا تھا۔ اسلام کی جو بات ان کو اپنے مفاد اور اپنی خواہشوں کے خلاف محسوس ہوتی اس کے خلاف سرگوشیوں اور خفیہ پراپیگنڈے کی مہم شروع کر دیتے تاکہ مخلص مسلمانوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے ان کے ایمان و اسلام کو بھی متزلزل کر دیں۔ ان کی ساری ہمدردیاں، جیسا کہ آگے واضح ہو گا، اسلام کے دشمنوں بالخصوص یہود کے ساتھ تھیں۔ یہ مسلمانوں کے اندر یہود کے ایجنٹ تھے اور انہی کے زیرہدایت برابر اس کوشش میں رہتے کہ جو موقع بھی ملے اس سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت زینبؓ کے معاملے میں انھوں نے جو فتنے اٹھائے ان کی تفصیلات سورۂ نور اور سورۂ احزاب کی تفسیر میں گزر چکی ہیں۔ ظہار کا مسئلہ بھی ان مسائل میں سے تھا جس کے بارے میں وہ قرآن کی رعایت کو نکتہ چینی کا ہدف بنا سکتے تھے جس سے سادہ لوحوں کے اندر غلط فہمیاں پھیل سکتی تھیں۔ دورجاہلیت میں، جیسا کہ ہم اشارہ کر چکے ہیں، اس کو لوگوں نے طلاق مغلظ کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہ اشرار آسانی سے لوگوں میں یہ سرگوشی کر سکتے تھے کہ اسلام نے نعوذ باللہ اپنے پیروؤں کے لیے ماں کے ساتھ نکاح کو بھی جائز کر دیا۔ یہ صورت مقتضی تھی کہ اس موقع پر ان شریروں کو اچھی طرح بے نقاب کر دیا جائے تاکہ کوئی فتنہ اٹھانے کی کوشش وہ کریں تو اس کا سدباب ہو سکے۔
رسول کے مخالفین کا انجام: ’کُبِتُوْا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ‘۔ ’کبت‘ کے معنی ذلیل و خوار کر کے تباہ کرنے کے ہیں۔ فرمایا کہ یہ لوگ ذلیل و خوار ہو کر ان لوگوں کی طرح تباہ ہوں گے جس طرح ان سے پہلے ان کے ہم مشرب تباہ ہو چکے ہیں۔
’وَقَدْ أَنزَلْنَا آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ‘
(اور اس دعوے کی صداقت کی نہایت واضح دلیلیں ہم قرآن میں اتار چکے ہیں)۔
یہ اشارہ ان تاریخی حقائق کی طرف ہے جو قرآن میں نہایت تفصیل سے یہ واضح کرنے کے لیے بیان ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسولوں کی مخالفت کرنے والے بالآخر ذلیل و خوار ہو کر تباہ ہوتے ہیں۔
’وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ‘ فرمایا کہ ان کافروں کے لیے بھی ایک ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ یہ اشارہ ان کافروں کی طرف ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں سرگرم تھے۔ فرمایا کہ یہ بھی بالآخر اسی طرح ذلیل و خوار ہوں گے جس طرح ان کے پیش رو ذلیل و خوار ہو چکے ہیں۔ جب ان کا کردار وہی ہے جو ان کا تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی تاریخ ان سے مختلف ہو۔ اللہ تعالیٰ کا قانون سب کے لیے ایک ہی ہے۔
قرآن کی یہ دھمکی اس وقت پوری ہو گئی جب قریش کی طاقت بھی ختم ہو گئی اور یہود بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ اس وقت ان منافقین کے لیے بھی کوئی جائے پناہ باقی نہیں رہی جو یہود کی زیرسرپرستی ریشہ دوانیاں کرتے تھے۔ ان کا حشر بھی وہی ہوا جو ان کے مرشد یہود کا ہوا۔ آگے کی سورتوں میں ان کے انجام کی عبرت انگیز تفصیل آ رہی ہے۔
ان کے عذاب کو ذلیل کرنے والا عذاب اس لیے کہا گیا کہ ان کو نہایت رسوا کن قتل و جلاوطنی اور غلامی کی سزاؤں سے دوچار ہونا پڑا اور کسی کو بھی ان کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہوئی بلکہ سب نے ان پر لعنت ہی کی۔
(اِس کے برخلاف) جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں، وہ ذلیل ہوں گے، جس طرح اُن کے پہلے ہم مشرب ذلیل ہوئے۔ (اِس کی) بہت واضح دلیلیں ہم نے (اِس قرآن میں) اتار دی ہیں، اور اِن منکروں کے لیے بڑی ذلت کی مار ہے
اشارہ ہے اُن منافقین کی طرف جن کی تمام ہمدردیاں اسلام کے دشمنوں، بالخصوص یہود کے ساتھ تھیں۔ اسلام کی جس بات کو وہ اپنے مفادات اور خواہشات کے خلاف محسوس کرتے تھے، اُس کے بارے میں سرگوشیوں اور خفیہ پروپیگنڈے کی مہم شروع کر دیتے تھے تاکہ کمزور مسلمانوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کریں اور اپنی طرح اُن کو بھی ایمان و اسلام میں رسوخ سے محروم کر دیں۔
یعنی اِن کا انجام وہی ہو گا جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کے منکرین کا ہمیشہ ہوا ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے اور اللہ اپنی سنت میں کسی کے لیے تبدیلی نہیں کرتا۔ اُس کا قانون سب کے لیے ایک ہی ہے۔
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل و خوار کر دیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں۔ ہم نے صاف صاف آیات نازل کر دی ہیں، اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔
مخالفت کرنے سے مراد اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو نہ ماننا اور ان کے بجائے کچھ دوسری حدیں مقرر کرلینا ہے۔ ابن جریر طبری اس آیت کی تفسیر یہ کرتے ہیں : ای یخالفون فی حدودہ و فرائضہ فیجعلون حدوداً غیر حدودہ۔ ” یعنی وہ لوگ جو اللہ کی حدود اور اس کے فرائض کے معاملہ میں اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کی جگہ دوسرے حدیں تجویز کرلیتے ہیں “۔ بیضاوی نے اس کی تفسیر یہ کی ہے : ای یعادو نھما ویشاقونھما اویضعون او یختارون حدوداً غیر حدودھما۔ ” یعنی اللہ اور اس کے رسول سے مخاصمت اور جھگڑا کرتے ہیں، یا ان کی مقرر کی ہوئی حدوں کے سوا دوسری حدیں خود وضع کرلیتے ہیں یا دوسروں کی وضع کردہ حدوں کو اختیار کرتے ہیں “۔ آلودی نے روح المعانی میں بیضاوی کی اس تفسیر سے اتفاق کرتے ہوئے شیخ الاسلام سعد اللہ چلپی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” اس آیت میں ان بادشاہوں اور حکام سوء کے لیے سخت وعید ہے جنہوں نے شریعت کی مقرر کردہ حدود کے خلاف بہت سے احکام وضع کرلیے ہیں اور ان کا نام قانون رکھا ہے “۔ اس مقام پر علامہ آلوسی شرعی قوانین کے مقابلے میں وضعی قوانین کی آئینی (یعنی اسلامی نقطہ نظر آئینی) حیثیت پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” اس شخص کے کفر میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے جو اس قانون کو مستحسن اور شریعت کے مقابلہ میں افضل قرار دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ یہ زیادہ حکیمانہ اور قوم کے لیے زیادہ مناسب و موزوں ہے، اور جب کسی معاملہ میں اس سے کہا جائے کہ شریعت کا حکم اس کے بارے میں یہ ہے تو اس پر غصے میں بھڑک اٹھتا ہے، جیسا کہ ہم نے بعض ان لوگوں کو دیکھا ہے جن پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے “۔
اصل میں لفظ کَبْت استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں رسوا کرنا، ہلاک کرنا، لعنت کرنا، راندہ درگاہ کردینا دھکے دے کر نکال دینا، تذلیل کرنا۔ ارشاد الہٰی کا مدعا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور اس کے احکام سے بغاوت کا جوا انجام پچھلے انبیا کی امتیں دیکھ چکی ہیں اس سے وہ لوگ ہرگز نہ بچ سکیں گے جو اب مسلمانوں میں سے وہی روش اختیار کریں۔ انہوں نے بھی جب خدا کی شریعت کے خلاف خود قوانین بنائے، یا دوسروں کے بنائے ہوئے قوانین کو اختیار کیا تب اللہ کے فضل اور اس کی نظر عنایت سے وہ محروم ہوئے، اور اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی ایسی گمراہیوں، بد درازیوں اور اخلاقی و تمدنی برائیوں سے لبریز ہوتی چلی گئی جنہوں نے بالآخر دنیا ہی میں ان کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑا۔ یہی غلطی اگر اب امت محمدیہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مقبول بارگاہ بنی رہے اور اللہ اسے ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچائے چلا جائے۔ اللہ کو نہ اپنے پچھلے رسولوں کی امت سے کوئی عداوت تھی، نہ اس رسول کی امت سے اس کا کوئی مخصوص رشتہ ہے۔
سیاق عبارت پر غور کرنے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہاں اس روش کی دو سزاؤں کا ذکر ہے۔ ایک کبُت، یعنی وہ خوای و رسوائی جو اس دنیا میں ہوئی اور ہوگی۔ دوسرے عذاب مہین، یعنی ذلت کا وہ عذاب جو آخرت میں ہونے والا ہے۔
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کئے جائیں گے جیسے ان سے پہلے کے لوگ ذلیل کئے گئے تھے اور بیشک ہم واضح آیتیں اتار چکے ہیں اور کافروں کے لئے تو ذلت والا عذاب ہے۔
کتبوا، ماضی مجہول کا صیغہ ہے مستقبل میں ہونے والے واقعے کو ماضی سے تعبیر کر کے واضح کردیا کہ اس کا وقوع اور تحقق اسی طرح یقینی ہے جیسے کہ وہ ہوچکا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہ مشرکین مکہ بدر والے دن ذلیل کیے گئے کچھ مارے گئے کچھ قیدی ہوگئے اور مسلمان ان پر غالب رہے مسلمانوں کا غلبہ بھی ان کے حق میں نہایت ذلت تھا۔
اس سے مراد گزشتہ امتیں ہیں جو اسی مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوئیں
اس دن کو یاد رکھیں جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا اور ان کو ان کے سارے اعمال سے آگاہ کرے گا۔ اللہ نے اس کو شمار کر رکھا ہے اور یہ لوگ اس کو بھلائے بیٹھے ہیں اور اللہ ہر چیز کے پاس حاضر ہے
’یَوْمَ‘ کا نصب اگرچہ ’عَذَابٌ مُّہِیْنٌ‘ سے بھی ہو سکتا ہے لیکن میرے نزدیک یہ معروف ضابطۂ عربیت کے مطابق، فعل محذوف سے منصوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں تو جو پیش آئے گا آئے گا ہی، یہ لوگ اس دن کو بھی یاد رکھیں جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھائے گا اور جو کچھ انھوں نے کیا ہو گا وہ سب ان کے آگے رکھ دے گا۔ ’جَمِیْعًا‘ کی قید اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہے کہ آج جو سازشیں اور سرگوشیاں ہو رہی ہیں ان کے تمام ارکان و عوامل جمع کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کے سامنے اس کے سارے راز بے نقاب کر دے گا کہ کس نے کیا مشورے دیے اور کس نے کس طرح اس کی تعمیل کی۔
’فَیُنَبِّئُہُمۡ‘ سے مراد ظاہر ہے کہ اس کا لازم ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کے سارے کیے دھرے سے ان کو آگاہ کرے گا تاکہ وہ اس کے نتائج بھگتیں۔
ایک مغالطہ پر تنبیہ: ’اَحْصَاہُ اللہُ وَنَسُوۡہُ‘ میں ایک بہت بڑے مغالطہ سے آگاہ فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ جس طرح یہ سب کچھ کر کے بھول گئے اللہ بھی اس کو بھول گیا ہے۔ ان لوگوں کو ان کی شرارتوں کی سزا نہیں ملی اس وجہ سے سمجھ بیٹھے کہ اللہ بھول گیا ہے لیکن اللہ نے ان کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رکھی ہے اور جزاء و سزا کے لیے ایک دن مقرر کر رکھا ہے جس دن سب کی نیکی بدی اس کے سامنے آ جائے گی۔
’وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ‘۔ یہ اس کی دلیل بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کہیں غائب نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے سامنے ہوتا ہے اور وہ ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔
یہ اُس دن کو یاد رکھیں، جب اللہ اِن سب کو اٹھائے گا، پھر اِن کا ہر عمل اِن کو بتائے گا۔ اللہ نے اُسے گن رکھا ہے اور یہ اُسے بھلائے بیٹھے ہیں اور ہر چیز اللہ کے سامنے ہے
n/a
اُس دن (یہ ذلت کا عذاب ہونا ہے) جب اللہ ان سب کو پھر سے زندہ کر کے اٹھائے گا اور انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کر کے آئے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں مگر اللہ نے ان سب کا کیا دھرا گن گن کر محفوظ کر رکھا ہے اور اللہ ایک ایک چیز پر شاہد ہے۔
یعنی ان کے بھول جانے سے معاملہ رفت گزشت نہیں ہوگیا ہے۔ ان کے لیے خدا کی نافرمانی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی ایسی معمولی چیز ہو سکتی ہے کہ اس کا ارتکاب کر کے اسے یاد تک نہ رکھیں، بلکہ اسے کوئی قابل اعتراض چیز ہی نہ سمجھیں کہ اس کی کچھ پروا انہیں ہو۔ مگر خدا کے نزدیک یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اس کے ہاں ان کا ہر کرتوت نوٹ ہوچکا ہے۔ کس شخص نے، کب، کہاں، کیا حرکت کی، اس حرکت کے بعد اس کا اپنا رد عمل کیا تھا، اور اس کے کیا نتائج، کہاں کہاں کس کس شکل میں برآمد ہوئے، یہ سب کچھ اس کے دفتر میں لکھ لیا گیا ہے۔
جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھائے گا پھر انہیں ان کے کئے ہوئے عمل سے آگاہ کرے گا جسے اللہ نے شمار کر رکھا ہے جسے یہ بھول گئے تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے ۔
یہ ذہنوں میں پیدا ہونے والے اشکال کا جواب ہے کہ گناہوں کی اتنی کثرت اور ان کا اتنا تنوع ہے کہ ان کا احصار بظاہر ناممکن ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہارے لیے یقینا ناممکن ہے بلکہ تمہیں تو خود اپنے کیے ہوئے سارے کام بھی یاد نہیں ہوں گے لیکن اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں اس نے ایک ایک کا عمل محفوظ کیا ہوا ہے۔
اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں آگے اس کی مزید تاکید ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے
کیا سمجھتے نہیں کہ اللہ جانتا ہے اس سارے کو جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے! نہیں ہوتی کوئی سرگوشی تین کے درمیان مگر ان کا چوتھا اللہ ہوتا ہے اور نہ پانچ کے مابین مگر چھٹا وہ ہوتا ہے۔ اور نہ اس سے کم یا زیادہ کی مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں پھر وہ ان کو ان کے سارے کیے سے آگاہ کرے گا قیامت کے دن۔ بے شک اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے: یہ اوپر والی بات کی مزید وضاحت ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اللہ تعالیٰ ایک ایک چیز سے باخبر ہے۔ وہ ہر ایک کے سامنے اس کا ایک ایک عمل رکھ دے گا۔ ’اَلَمْ تَرَ‘ کا خطاب یہاں عام ہے اور یہ اسلوب بیان اس موقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر شخص پر واضح ہونی چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہی اس سارے نظام کو چلا رہا ہے، اس کے ایک ایک پرزے کی حرکت اس کے اذن سے ہوتی ہے اور اسی کے حکم سے اس کے ایک ایک متنفس کی زندگی ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ آسمانوں اور زمین کی کسی چیز سے بھی وہ بے خبر رہے۔
’اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ‘
(کیا وہ نہ جانے گا جس نے سب کو پیدا کیا ہے)۔
’مَا یَکُوْنُ مِنۡ نَّجْوٰی ثَلَاثَۃٍ ..... الاٰیۃ‘۔ فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے تو یہ اللہ اور رسول کے خلاف سرگوشیاں کرنے والے یاد رکھیں کہ جب ان کے تین سرگوشیاں کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ چوتھا اللہ ہوتا ہے اور جب ان کے پانچ سرگوشیاں کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ چھٹا اللہ ہوتا ہے، علیٰ ہٰذا القیاس اس سے کم ہوں یا زیادہ اللہ ان کے پاس لازما! ہوتا ہے۔
’اَیْْنَ مَا کَانُوْا‘۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی چھپ کر سرگوشی کریں گے، اللہ وہاں ان کے پاس موجود ہو گا۔ آسمانوں اور زمین میں کوئی گوشہ وہ ایسا نہیں تلاش کر سکتے جہاں وہ اپنے آپ کو خدائے عالم الغیب سے چھپا سکیں۔
تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز سے واقف ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین سرگوشی کریں اور اُن میں چوتھا اللہ نہ ہو۔ اور پانچ سرگوشی کریں اور اُن میں چھٹا اللہ نہ ہو۔ وہ اِس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں بھی ہوں، اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر قیامت کے دن وہ اِن کا سب کیا دھرا اِنھیں بتا دے گا۔ بے شک، اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔
n/a
کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والا خواہ اِس سے کم ہوں یا زیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر قیامت کے روز وہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
یہاں سے آیت 19 تک مسلسل منافقین کے اس طرز عمل پر گرفت کی گئی ہے جو انہوں نے اس وقت مسلم معاشرے میں اختیار کر رکھا تھا۔ وہ بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے، مگر اندر ہی اندر انہوں نے اہل ایمان سے الگ اپنا ایک جتھا بنا رکھا تھا۔ مسلمان جب بھی انہیں دیکھتے، یہی دیکھتے کہ وہ آپس میں سر جوڑے کھسر پسر کر رہے ہیں۔ انہیں خفیہ سرگوشیوں میں وہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور فتنے برپا کرنے اور ہراس پھیلانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتے اور نئی نئی افواہیں گھڑتے تھے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں دو اور تین کے بجائے تین اور پانچ کا ذکر کس مصلحت سے کیا گیا ہے ؟ پہلے دو اور پھر چار کو کیوں چھوڑ دیا گیا ؟ مفسرین نے اس کے بہت سے جوابات دیے ہیں، مگر ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ طرز بیان دراصل قرآن مجید کی عبارت کے ادبی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عبارت یوں ہوتی : مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی اثْنَیْنِ اِلَّا ھُوَ ثاَلِثُھُمْ وَلاَ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ ۔ اس میں نَجْوَی اثْنَیْن بھی کوئی خوبصورت ترکیب نہ ہوتی اور ثالث اور ثلٰثَۃٍ کا یکے بعد دیگرے آنا بھی حلاوت سے خالی ہوتا۔ یہی قباحت الاَّ ھُوَ رَابِعُھُمْ کے بعد ولاَ اَربَعَۃٍ کہنے میں بھی تھی۔ اس لیے تین اور پانچ سرگوشی کرنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد دوسرے فقرے میں اس خلا کو یہ کہہ کر بھر دیا گیا کہ وَلَٓا اَدْنیٰ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ھُوَ مَعَھُمْ ۔ سرگوشی کرنے والے خواہ تین سے کم ہوں یا پانچ سے زیادہ، بہرحال اللہ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔
یہ معیت در حقیقت اللہ جل شانہ کے علیم وخبیر، اور سمیع وبصیر اور قادر مطلق ہونے کے لحاظ سے ہے، نہ کہ معاذ اللہ اس معنی میں کہ اللہ کوئی شخص ہے جو پانچ اشخاص کے درمیان ایک چھٹے شخص کی حیثیت سے کسی جگہ چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ دراصل اس ارشاد سے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی محفوظ مقامات پر خفیہ مشورہ کر رہے ہوں ان کی بات دنیا بھر سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی اور وہ دنیا کی ہر طاقت کی گرفت سے بچ سکتے ہیں مگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں پھر قیامت کے دن انہیں اعمال سے آگاہ کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔
یعنی مذکورہ تعداد کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے نہیں ہے کہ اس میں کم یا اس سے زیادہ تعداد کے درمیان ہونے والی گفتگو سے بیخبر رہتا ہے بلکہ یہ تعداد بطور مثال ہے، مقصد یہ بتلانا ہے کہ تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ وہ ہر ایک کے ساتھ ہے اور ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔
خلوت میں ہوں یا جلوت میں، شہروں میں ہوں یا جنگلوں صحراؤں میں، آبادیوں میں ہوں یا بےآباد پہاڑوں بیابانوں میں، جہاں بھی ہوں، اس سے چھپے نہیں رہ سکتے۔
یعنی اس کے مطابق ہر ایک کو جزا دے گا نیک کو اس کی نیکیوں کی جزا اور بد کو اس کی بدیوں کی سزا۔
کیا نہیں دیکھتے ان کو جو سرگوشیوں سے روکے گئے، پھر وہ وہی کام کر رہے ہیں جن سے روکے گئے اور یہ لوگ گناہ، تعدی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں۔ اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تم کو سلام کرتے ہیں ایسے لفظ سے جس سے اللہ نے تم کو سلام نہیں بھیجا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ اس کی پاداش میں ہم کو عذاب کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں۔ ان کے لیے جہنم ہی کافی ہے۔ یہ اس میں پڑیں گے۔ پس وہ برا ٹھکانا ہے
سرگوشیوں کی اصل غایت: یہ ان کی حالت پر اظہار تعجب ہے کہ ذرا ان کی جسارت تو دیکھو کہ یہ جس نجویٰ سے روکے گئے ہیں اسی کا ارتکاب باربار کر رہے ہیں اور اس سے بڑی جسارت یہ ہے کہ یہ گناہ، تعدی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی کرتے ہیں اور ان کو نہ ذرا اپنی اس حرکت پر شرم آتی ہے اور نہ ان کو خوف خدا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کی سرگوشیوں کا آغاز ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حرکتوں پر توجہ دلائی لیکن اس کا انھوں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا بلکہ یہ شرارت بڑھتی ہی گئی۔ بالآخر ان آیات میں ان کو آخری تنبیہ فرمائی گئی۔
’وَیَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ‘۔ یعنی ان کی ساری سرگوشی میں خیر کا کوئی پہلو نہیں ہوتا حالانکہ سرگوشی، جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے، خیر کی بھی ہو سکتی ہے لیکن ان کے سینے خیر سے بالکل خالی ہیں اس وجہ سے ان کی ہر سرگوشی گناہ و تعدی اور رسول کے خلاف لوگوں کو بغاوت پر ابھارنے کے لیے ہوتی ہے۔ ’اثم‘ ان گناہوں کو کہتے ہیں جن میں حق تلفی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور ’عُدْوَانِ‘ ان گناہوں کے لیے آتا ہے جن میں تعدی، سرکشی اور طغیان کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ یہ دونوں لفظ جب ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو گناہ کی تمام اقسام پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
’مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ‘ کے الفاظ یہاں ان اشرار کی سرگرمیوں کے اصل ہدف کے اظہار کے لیے آئے ہیں کہ ان کی اس تمام تگ و دو کا مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اللہ کے رسول کے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھاریں تاکہ یہ شیرازہ درہم برہم ہو جائے۔
یہ منافقین، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا اور آگے تفصیل آ رہی ہے، یہود کے ساختہ پر داختہ تھے اور ان کی تمام سرگرمیوں کا منتہا یہ تھا کہ صحابہؓ کے اندر کوئی ایسا فتنہ برپا کریں کہ یہ گروہ ایک ناقابل شکست طاقت بننے سے پہلے پہلے ختم ہو جائے۔ ان کے ان فتنوں کی تفصیلات پیچھے بھی اس کتاب میں گزر چکی ہیں اور آگے بھی آئیں گی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے جو حزب اللہ منظم ہوئی وہ حق کے تمام دشمنوں پر غالب آ گئی۔
اشرار کی کینہ توزی: ’وَإِذَا جَاؤُوْکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللہُ‘۔ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان شریروں کی کینہ توزی کی ایک مثال بیان ہوئی ہے کہ جب یہ تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں سلام کرتے ہوئے اس لفظ کے بالکل برعکس لفظ استعمال کرتے ہیں جو اللہ نے تمہارے لیے پسند فرمایا۔ اللہ اور اس کے ملائکہ تو تمہارے اوپر رحمت اور سلام بھیجتے ہیں۱ اور ان بدبختوں کا حال یہ ہے کہ تمہیں سلام کرتے ہوئے لفظ ’السلام‘ اس طرح بگاڑ کر نکالتے ہیں کہ ’السَّلامُ عَلَیْکَ‘۔ ’اَلسَّامُ عَلَیْکَ‘ بن۲ جاتا ہے۔
’بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللہُ‘ کے الفاظ سے مقصود ان کی شقاوت کو ظاہر کرنا ہے کہ ان لوگوں کی بدبختی و محرومی میں کیا شک کی گنجائش رہی جو اس ذات اقدس کے لیے موت کی بددعا کریں جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود و سلام بھیجیں! اس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیام تسلی بھی ہے کہ اگر یہ تمہارے لیے موت کے متمنی ہیں تو رہیں، تمہارے اوپر خدا کی رحمت اور اس کے فرشتوں کی دعائے رحمت ہے تو تمہیں کسی اور کی دعا و بددعا کی کیا پروا!
یہود اور ان کے ایجنٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے لیے اپنی زبان توڑ مروڑ کر الفاظ کو جس طرح بگاڑتے تھے اس کی مثالیں سورۂ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہیں۔ ’رَاعِنَا‘ اور ’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘ کے تحت ہم ان کی اس شرارت پر روشنی ڈال چکے ہیں۔۳ اسی قسم کا تصرف لفظ ’السَّلَامُ‘ میں کر کے اس کو وہ ’اَلسَّامُ‘ کر دیتے کہ سننے والے کو دھوکا ’السَّلامُ عَلَیْکَ‘ کا ہوتا حالانکہ فی الحقیقت وہ ’اَلسَّامُ عَلَیْکَ‘ کہتے۔
’وَیَقُوْلُوْنَ فِیْ أَنفُسِہِمْ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللہُ بِمَا نَقُوْلُ‘۔ یہ ان کے اس مغالطے کی طرف اشارہ ہے جس کے سبب سے وہ اپنی ان شرارتوں میں دلیر ہوتے جا رہے تھے۔
فرمایا کہ ان کی ان شرارتوں پر چونکہ فوراً پکڑ نہیں ہو رہی ہے اس وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کی تکذیب و تضحیک میں یہ بالکل بجانب حق ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہوتے تو لازماً ان باتوں پر ہماری پکڑ ہو جاتی لیکن جب اس طرح کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا دعویٰ محض دھونس ہے۔
’حَسْبُہُمْ جَہَنَّمُ یَصْلَوْنَہَا فَبِئۡسَ الْمَصِیْرُ‘۔ فرمایا کہ ان کے لیے جہنم ہی کافی ہے جس میں وہ لازماً پڑیں گے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔ اس کے ہوتے اس دنیا میں اگر ان کے اوپر عذاب نہ بھی آئے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہی ساری کسر پوری کر دینے کے لیے کافی ہے۔
ان اشرار کو اس دنیا میں بھی عذاب کی دھمکی دی گئی ہے، جیسا کہ اوپر آیت ۵ میں اشارہ گزر چکا ہے اور آگے بھی آ رہا ہے، لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ جب جہنم موجود ہے تو اس کے ہوتے دنیا کی پکڑ سے کوئی بچ بھی گیا تو اس میں اس کے لیے اطمینان کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
شریروں کا اصل مغالطہ: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ انسان کی غفلت اور سرکشی میں سب سے زیادہ اضافہ اس کے اسی مغالطہ سے ہوتا ہے جو یہاں مذکور ہوا۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کی شرارتوں پر اس دنیا میں کوئی گرفت نہیں ہو رہی ہے تو وہ مطمئن ہو بیٹھتا ہے کہ اس پر کہیں بھی اور کبھی بھی گرفت نہیں ہو گی اور ملا جو ڈراوے سناتے پھر رہے ہیں یہ محض ان کی دھونس ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ حالانکہ یہ محض انسان کی بے بصیرتی ہے۔ اگر اعمال کے نتائج فوراً سامنے آ جانے والے ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ وہ نیکی کے سوا کبھی بدی کی جرأت کر سکتا۔ پھر تو سبھی صالح و متقی بن کے رہتے۔ اس دنیا کا اصل بھید تو یہی ہے کہ یہ دارالجزاء نہیں بلکہ دارالامتحان ہے۔ دارالجزاء آگے ہے اور وہ اس کائنات کی سب سے زیادہ واضح اور اٹل حقیقت ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو یہ سارا عالم ایک اندھیر نگری اور کسی کھلنڈرے کا کھیل بن کر رہ جائے گا حالانکہ اس عالم کا خالق کوئی کھلنڈرا نہیں بلکہ وہ بالداہت ایک عزیز و حکیم ہے۔
_____
۱ چنانچہ الاحزاب ۳۳: ۵۶ میں ارشاد ہے:
’إِنَّ اللہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ..... الاٰیۃ‘ (بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر سلام بھیجتے ہیں)۔
۲ عربی میں لفظ ’سام‘ موت کے معنی میں آتا ہے۔
۳ ملاحظہ ہو تدبر قرآن ۔ جلد اول، صفحات ۲۵۰-۲۵۲ اور ۲۸۲۔
تم نے دیکھا نہیں اُنھیں جو سرگوشیوں سے روکے گئے، پھر وہی کرتے ہیں جس سے روکے گئے؟اور (ہمیشہ) حق تلفی اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی سرگوشی کرتے ہیں۔ اور(اے پیغمبر)، جب تمھارے پاس آتے ہیں تو تمھیں اُس طرح سلام کرتے ہیں، جس طرح اللہ نے تمھیں سلام نہیں کیا ہے اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ (یہ پیغمبر ہیں تو) اللہ ہماری اِن باتوں پر ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا؟ اِن کے لیے دوزخ ہی کافی ہے۔ یہ اُس میں پڑیں گے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اِس خفیہ پروپیگنڈے کی ابتدا ہوئی تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں توجہ دلائی، مگر اُنھوں نے اِس کا کوئی اثر قبول نہیں کیا اور بدستور اِس میں مصروف رہے۔
یہ اُس اصل ہدف کی طرف اشارہ ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے یہ سرگوشیاں کی جاتی تھیں۔ اُن کا مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آمادۂ بغاوت کیا جائے تاکہ وہ بنیاد ہی ختم ہو جائے جس پر اِس نئے دین کی عمارت کھڑی کی جا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اُن کے الفاظ نقل کرنا پسند نہیں فرمایا۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ’السلام علیک‘ کا تلفظ کچھ اِس انداز سے کرتے تھے کہ سننے والا سمجھے سلام کیا ہے، مگر دراصل وہ ’السام‘ کہتے تھے جس کے معنی موت کے ہیں۔*
یہ اللہ اور اُس کے فرشتوں کی طرف سے اُس سلام و رحمت کا حوالہ ہے جس کا ذکر سورۂ احزاب (۳۳) میں ہوا ہے۔
اُن کا مدعا یہ تھا کہ چونکہ ایسا نہیں ہوتا، اِس لیے اِن کا یہ دعویٰ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔
_____
* بخاری، رقم ۵۶۷۸۔
کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کر دیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی حرکت کیے جاتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا؟ یہ لوگ چھپ چھپ کر آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں کرتے ہیں، اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اُس طریقے سے سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے تم پر سلام نہیں کیا ہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری اِن باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ اُن کے لیے جہنم ہی کافی ہے۔ اُسی کا وہ ایندھن بنیں گے۔ بڑا ہی برا انجام ہے اُن کا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو اس روش سے منع فرما چکے تھے، اس پر بھی جب وہ باز نہ آئے تب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان عتاب نازل ہوا۔
یہ یہود اور منافقین کا مشترک رویہ تھا۔ متعدد روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے السام علیک یا ابا القاسم کہا۔ یعنی السلام علیک کا تلفظ کچھ اس انداز سے کیا کہ سننے والا سمجھے سلام کہا ہے، مگر دراصل انہوں نے سام کہا تھا جس کے معنی موت کے ہیں۔ حضور نے جواب میں فرمایا وعلیکم۔ حضرت عائشہ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا موت تمہیں آئے اور اللہ کی لعنت اور پھٹکار پڑے۔ حضور نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ اے عائشہ، اللہ کو بد زبانی پسند نہیں ہے۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ، آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ؟ حضور نے فرمایا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا ؟ میں نے ان سے کہہ دیا ” اور تم پر بھی ” ) بخاری، مسلم، ابن جریر، ابن ابی حاتم) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ منافقین اور یہود، دونوں نے سلام کا یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا (ابن جریر) ۔
یعنی وہ اپنے نزدیک اس بات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقہ سے سلام کرتے اسی وقت ہم پر عذاب آجاتا۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا، حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں، لہٰذا یہ رسول نہیں ہیں۔
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا وہ پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوبارہ کرتے ہیں اور آپس میں گناہ کی اور ظلم کی زیادتی کی نافرمانی، پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا ان کے لئے جہنم کافی سزا ہے جس میں یہ جائیں گے سو وہ برا ٹھکانا ہے۔
اس سے مدینے کے یہودی اور منافقین مراد ہیں جب مسلمان ان کے پاس سے گزرتے تو یہ باہم سر جوڑ کر اس طرح سرگوشیاں اور کانا پھوسی کرتے کہ مسلمان یہ سمجھتے کہ شاید ان کے خلاف یہ کوئی سازش کر رہے ہیں یا مسلمانوں کے کسی لشکر پر دشمن نے حملہ کر کے انہیں نقصان پہنچایا ہے جس کی خبر ان کے پاس پہنچ گئی ہے مسلمان ان چیزوں سے خوف زدہ ہوجاتے چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح سرگوشیاں کرنے سے منع فرما دیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے پھر یہ مذموم سلسلہ شروع کردیا آیت میں ان کے اسی کردار کو بیان کیا جارہا ہے۔
یعنی ان کی سرگوشیاں نیکی اور تقویٰ کی باتوں میں نہیں ہوتیں، بلکہ گناہ، زیادتی اور معصیت رسول پر مبنی ہوتی ہیں مثلاً کسی کی غیبت، الزام تراشی، بےہودہ گوئی ایک دوسرے کو رسول اللہ کی نافرمانی پر اکسانا وغیرہ۔
یعنی اللہ نے سلام کا طریقہ یہ بتلایا ہے کہ تم السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہو، لیکن یہودی نبی کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس کی بجائے کہتے السام علیکم یا علیکَ (تم پر موت وارد ہو) اس لئے رسول اللہ ان کے جواب میں صرف یہ فرمایا کرتے تھے، وعلیکم یا و علیکَ (اور تم پر ہی ہو) اور مسلمانوں کو بھی آپ نے تاکید فرمائی کہ جب کوئی اہل کتاب تمہیں سلام کرے تو جواب میں و علیک کہا کرو یعنی علیکَ ما قلتَ (تو نے جو کہا ہے وہ تجھ پر ہی وارد ہو (صحیح بخاری)
یعنی وہ آپس میں یا اپنے دلوں میں کہتے کہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو اللہ تعالیٰ یقینا ہماری اس قبیح حرکت پر ہماری گرفت ضرور فرماتا۔
اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے اپنی مشیت اور حکمت بالغہ کے تحت دنیا میں ان کی فوری گرفت نہیں فرمائی تو کیا وہ آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی بچ جائیں گے ؟ نہیں یقینا نہیں جہنم ان کی منتظر ہے جس میں وہ داخل ہوں گے۔
اے ایمان والو! جب تم سرگوشی کرو تو گناہ، تعدی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی نہ کرو بلکہ نیکی اور تقویٰ کی سرگوشی کرو اور اللہ سے ڈرو جس کے حضور میں تم سب اکٹھے کیے جاؤ گے
نجویٰ کی پاکیزہ قسم: یہ مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ ’نجویٰ‘ بجائے خود کوئی بری چیز نہیں ہے۔ اجتماعی و معاشرتی زندگی میں ایسے مواقع بھی پیش آتے ہیں جب باہم دگر رازدارانہ مشورت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ شوریٰ اجتماعی زندگی کی اساسات میں سے ہے اور اس میں رازداری کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔ اگر یہ مشورت نیکی، تقویٰ اور اصلاح ذات البین کے لیے ہے تو یہ نجویٰ باعث خیر و برکت ہے اور تم جب بھی کوئی رازدارانہ مشورت کرو تو کسی مقصد خیر ہی کے لیے کرو۔ البتہ وہ نجویٰ شیطانی نجویٰ ہے جو گناہ، تعدی اور معصیت رسول کے مقصد سے یہ منافقین کرتے ہیں۔ اہل ایمان کو اس سے بچنا چاہیے اور اس اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے جس کے حضور میں سب اکٹھے کیے جائیں گے اور جو سب کے نجویٰ سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔
ایمان والو، جب آپس میں سرگوشی کرو تو حق تلفی، زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی سرگوشی نہ کرو، بلکہ خیر و تقویٰ کی سرگوشی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کے حضور میں تم سب جمع کیے جاؤ گے
n/a
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اُس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ (آپس میں راز کی بات کرنا) بجائے خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں، اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے، اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں۔ جن لوگوں کا اخلاص، جن کی راست بازی، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو، انہیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بد کرداری کے لیے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیدا کردیتی ہیں کہ ضرور کسی نئے فتنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار آدمی باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کرلیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل وتیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و ناجائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سر گوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے، یا کسی کا حق دلوانا ہے، یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے، تو یہ کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ کار ثواب ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کے لیے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے، یا کسی کا حق مارنا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجائے خود ایک برائی ہے اور اس کے لیے نجویٰ برائی پر برائی۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سلسلے میں آداب مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجیٰ اثنان دون صاحبھما فان ذالک یحزنہٗ ۔ ” جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں، کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہوگا ” (بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد) ۔ دوسری حدیث میں حضور کے الفاظ یہ ہیں فلا یتناجیٰ اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذٰالک یحزنہٗ ۔ ” دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر، کیونکہ یہ اس کے لیے باعث رنج ہوگا ” (مسلم ) ۔ اسی ناجائز سرگوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ ناجائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے۔
اے ایمان والو ! تم جب سرگوشیاں کرو تو یہ سرگوشیاں گناہ اور ظلم (زیادتی) اور نافرمانی پیغمبر کی نہ ہو بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو، جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے۔
جس طرح یہود اور منفقین کا شیوہ ہے یہ گویا اہل ایمان کو تربیت اور کردار سازی کے لیے کہا جارہا ہے کہ اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو تو تمہاری سرگوشیاں یہود اور اہل نفاق کی طرح اثم وعدوان پر نہیں ہونی چاہئیں۔
یعنی جس میں خیر ہی خیر ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مبنی ہو، کیونکہ یہی نیکی اور تقویٰ ہے
یہ سرگوشیاں شیطان کی طرف سے ہیں تا کہ وہ ایمان والوں کو غم پہنچائے حالانکہ اللہ کے اذن کے بدون وہ ان کو ذرا بھی نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔ اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے
اہل ایمان کو تسلی: یہ مومنین مخصلین کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی یہ ساری سرگوشیاں شیطان کی تحریک اور اس کی وسوسہ اندازی سے وجود میں آئی ہیں اور شیطان زیادہ سے زیادہ بس یہی کر سکتا ہے کہ اس طرح کی باتوں سے اہل ایمان کے دلوں کو ذرا رنج و ملال پہنچا دے۔ اس سے زیادہ اس کے امکان میں کچھ نہیں ہے۔ وہ اللہ کے اذن کے بدون اہل ایمان کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا تو اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ شیطان کی ان وسوسہ اندازیوں کی کوئی پروا نہ کریں بلکہ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اپنے رب پر بھروسہ رکھیں کہ وہ ان کو ہر شریر کی شرارت سے محفوظ رکھے گا۔
اِس طرح کی سرگوشیاں تو شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں کو غم زدہ کر دے، دراں حالیکہ خدا کی اجازت کے بغیر وہ اُن کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ایمان والوں کو تو ہر حال میں اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے
شیطان جو کچھ کر سکتا ہے، وہ یہی ہے کہ ایمان والوں کو کچھ رنج و ملال پہنچا دے۔اِس سے آگے اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا۔
کانا پھوسی تو ایک شیطانی کام ہے، اور وہ اس لیے کی جاتی ہے کہ ایمان لانے والے لوگ اُس سے رنجیدہ ہوں، حالانکہ بے اذن خدا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کچھ لوگوں کی سرگوشیاں دیکھ کر یہ شبہ بھی ہوجائے کہ وہ اسی کے خلاف کی جا رہی ہیں، تب بھی اسے اتنا رنجیدہ نہ ہونا چاہیے کہ محض شبہ ہی شبہ پر کوئی جوابی کارروائی کرنے کی فکر میں پڑجائے، یا اپنے دل میں اس پر کوئی غم، یا کینہ، یا غیر معمولی پریشانی پرورش کرنے لگے۔ اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ اعتماد اس کے قلب میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول اندیشوں اور خیالی خطروں سے اس کو نجات مل جائے گی اور وہ اشرار کو ان کے حال پر چھوڑ کر پورے اطمینان و سکون کو غارت کر دے، نہ کم ظرف ہوتا ہے کہ غلط کار لوگوں کے مقابلے میں آپے سے باہر ہو کر خود بھی خلاف انصاف حرکتیں کرنے لگے۔
سرگوشیاں (بری) ، پس شیطانی کام ہے جس سے ایمانداروں کو رنج پہنچے گو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ایمان والوں کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ رکھیں۔
یعنی اثم وعدوان اور معصیت رسول پر مبنی سرگوشیاں یہ شیطانی کام ہیں، کیونکہ شیطان ہی ان پر آمادہ کرتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے سے مومنوں کو غم میں مبتلا کرے۔
لیکن یہ سرگوشیاں اور شیطانی حرکتیں مومنوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں الا یہ کہ اللہ کی مشیت ہو اس لیے تم اپنے دشمنوں کی ان اوچھی حرکتوں سے پریشان نہ ہوا کرو بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو اس لیے کہ تمام معاملات کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے نہ کہ یہود اور منافقین جو تمہیں تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں سرگوشی کے سلسلے میں ہی مسلمانوں کو ایک اخلاقی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ جب تم تین آدمی اکٹھے ہو تو اپنے میں سے ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں کیونکہ یہ طریقہ اس ایک آدمی کو غم ڈال دے گا۔ صحیح بخاری۔ البتہ اس کی رضامندی اور اجازت سے ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ اس صورت میں دو آدمیوں کا سرگوشی کرنا کسی کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔
امین احسن اصلاحی
اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو تم سے جھگڑتی تھی اپنے شوہر کے بارے میں اور شکوہ کر رہی تھی اللہ سے اور اللہ سن رہا تھا تم دونوں کی گفتگو۔ اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے
’سننا‘ قبول کرنے کے معنی میں: ’قَدْ سَمِعَ اللہُ‘ کے معنی، موقع کلام دلیل ہے کہ یہاں، صرف سن لینے کے نہیں بلکہ قبول کر لینے کے ہیں۔ اس معنی میں یہ لفظ قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے اور عربی زبان میں بھی معروف ہے۔ بلکہ ہماری زبان میں بھی ’سننا‘ قبول کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
’تُجَادِلُکَ‘ سے پہلے عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق فعل ناقص محذوف ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جن خاتون کا واقعہ یہاں مذکور ہے ان کو اپنا معاملہ پیش کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باربار حاضر ہونا پڑا۔
’مُجَادلۃ‘ کا مفہوم: ’مُجَادلۃ‘ قرآن میں اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ برے معنی اس کے کٹ حجتی کرنے اور جھگڑنے کے ہیں اور اچھے معنی اس کے کسی سے اپنی بات محبت، اعتماد، حسن گزارش، تدلل اور اصرار کے ساتھ منوانے کی کوشش کرنے کے ہیں۔ اس میں جھگڑنا تو بظاہر ہوتا ہے لیکن یہ جھگڑنا محبت اور اعتماد کے ساتھ ہوتا ہے جس طرح چھوٹے اپنی کوئی بات اپنے کسی بڑے سے، اس کی شفقت پر اعتماد کر کے منوانے کے لیے جھگڑتے ہیں۔ اس مجادلۂ محبت کی بہترین مثال سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا وہ مجادلہ ہے جو انھوں نے قوم لوط کے باب میں اپنے رب سے کیا ہے اور جس کی اللہ تعالیٰ نے نہایت تعریف فرمائی ہے۔ اس کی تفصیل ہم اس کے محل میں پیش کر چکے ہیں۔ یہاں ان خاتون کے جس مجادلہ کی طرف اشارہ ہے اس کی نوعیت بالکل یہی ہے۔ اردو میں اس کا مفہوم ادا کرنے کے لیے کوئی موزوں لفظ سمجھ میں نہیں آیا اس وجہ سے میں نے ترجمہ جھگڑنا ہی کیا ہے لیکن یہ جھگڑنا خاص مفہوم میں ہے اور اس مفہوم میں یہ لفظ اردو میں بھی مستعمل ہے بشرطیکہ آدمی موقع و محل کو ملحوظ رکھ سکے۔
جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس کی نوعیت: آیت میں جن خاتون کی طرف اشارہ ہے روایات میں ان کا نام خولہ بنت ثعلبہ آیا ہے۔ ان کے شوہر اوس بن صامت انصاری تھے۔ ایک مرتبہ غصہ میں آ کر وہ بیوی کو کہہ بیٹھے کہ ’اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ امّی‘ (اب تجھ کو کبھی ہاتھ لگایا تو گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگایا)۔ زمانۂ جاہلیت میں بیوی کو اس طرح کی بات کہہ دینے سے ایسی طلاق پڑ جاتی جس کے بعد بیوی لازماً شوہر سے جدا ہو جاتی۔ اس وجہ سے حضرت خولہ کو سخت پریشانی آئی کہ اس عمر میں شوہر اور بچوں سے جدا ہو کر کہاں جائیں! بالآخر انھوں نے معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور باصرار و بالحاح آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کی اس پریشانی کا کوئی حل بتائیں۔ آپ کے سامنے وحئ الٰہی کی کوئی واضح رہنمائی اس بارے میں موجود نہیں تھی اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جواب میں کچھ توقف فرمایا جس کے سبب سے ان کو باربار اپنے معاملے کی طرف حضور کو توجہ دلانی پڑی۔
الفاظ قرآن سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں اپنے شوہر کی بھی کچھ مدافعت کی۔ حضرت اوسؓ کے مزاج میں، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، کچھ تیزی تھی جس کے سبب سے غصہ میں ان کی زبان سے ایک ناروا فقرہ نکل گیا۔ مقصد ہرگز بیوی کو طلاق دینا نہیں تھا اس وجہ سے میاں بیوی دونوں کو سخت پریشانی پیش آئی۔ حضرت خولہؓ نے یہ صورت حال بھی حضورؐ کے سامنے رکھی ہو گی تا کہ یہ بات اچھی طرح واضح ہو جائے کہ یہ فقرہ کہتے ہوئے ان کے شوہر کے ذہن میں طلاق کا کوئی خیال موجود نہ تھا محض اشتعال میں ایک فقرہ بلاقصد ان کی زبان سے نکل گیا۔
ایک سوال کا جواب: ظِہار کا ذکر سورۂ احزاب میں بھی آیا ہے، لیکن بالکل ضمناً، صرف اتنا آیا ہے کہ
’وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَکُمُ اللَّاءِیْ تُظَاہِرُونَ مِنْہُنَّ أُمَّہَاتِکُمْ‘ (الاحزاب ۳۳: ۴)
(اور تمہاری وہ بیویاں جن سے تم ظہار کرتے ہو خدا نے ان کو تمہاری مائیں نہیں بنایا ہے)
لیکن اول تو یہ ضروری نہیں کہ سورۂ احزاب سورۂ مجادلہ سے پہلے نازل ہوئی ہو۔ دوسرے نازل ہوئی بھی ہو تو اس سے صرف اتنی ہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ظہار سے کسی کی بیوی اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ یہ نہیں واضح ہوتا کہ کوئی شخص یہ حرکت کر بیٹھے تو اس سے اس کے اوپر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس کی تلافی کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے۔ اس وجہ سے حضورؐ کے سامنے سورۂ احزاب والی آیت رہی بھی ہو جب بھی آپ حضرت خولہؓ کے معاملے میں کوئی قطعی فیصلہ اسی صورت میں فرما سکتے تھے جب وحئ الٰہی آپ کی رہنمائی فرمائے۔ چنانچہ آپ نے وحئ الٰہی کے انتظار میں توقف فرمایا یہاں تک کہ ان خاتون کے اس شکوہ و مجادلہ کی برکت سے نہ صرف ان کے لیے بلکہ اللہ کے بے شمار بندوں اور بندیوں کے لیے جاہلیت کی ایک بے ہودہ رسم کے عواقب سے چھوٹنے کی ایک نہایت مبارک راہ کھل گئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرما کر ان کو اور ان کے اس مجادلہ کو زندۂ جاوید بنا دیا اور لوگوں کو سبق دیا کہ جن کو دین کے معاملے میں کوئی مشکل پیش آئے انھیں اس مومنہ خاتون کی طرح اپنی مشکل اپنے رب کے آگے پیش کرنی چاہیے، منافقون کی طرح اس کو نکتہ چینی، سرگوشی اور اللہ و رسول کے خلاف محاذ آرائی (محادّہ) کا بہانہ نہیں بنا لینا چاہیے۔
ہر مشکل کی کلید اللہ تعالیٰ سے استعانت ہے: ’وَاللہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا‘۔ یعنی یہ شکوہ و مجادلہ خاص اللہ تعالیٰ ہی سے تھا اس وجہ سے وہ خاص توجہ و مہربانی سے اس کو سنتا رہا۔ چنانچہ اس نے اپنی اس بندی کی مشکل حل کرنے کی راہ کھول دی۔ اس سے یہ بات نکلی کہ جو لوگ اپنی کوئی مشکل اپنے رب سے عرض کرتے ہیں وہ اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو نہایت توجہ و شفقت سے سنتا ہے۔ وہ سمیع و بصیر ہے اور جب وہ سنتا ہے اور ہر چیز کی قدرت بھی رکھتا ہے تو بندہ اس سے مایوس و بدگمان کیوں ہو!
یہاں یہ بات بھی یاد رکھیے کہ دنیوی و مادی مشکلات کی طرح روحانی و عقلی الجھنوں سے نکلنے کی بھی سب سے زیادہ کامیاب راہ یہی ہے کہ آدمی اس کو اپنے رب کے آگے پیش کرے۔ بسا اوقات کوئی ایسی علمی و عقلی مشکل پیش آ جاتی ہے جس کا حل کچھ سمجھ میں نہیں آتا اور اس سے دین کے معاملے میں شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں آدمی اگر اپنی مشکل اپنے رب کے آگے پیش کرے اور اس سے ہدایت کا طالب ہو تو ان شاء اللہ اس کو شرح صدر حاصل ہو جائے گا بشرطیکہ آدمی صبر کے ساتھ اپنے رب سے استعانت کرے۔ طالبین حق کا طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے لیکن جو لوگ سفلہ اور جلد باز ہوتے ہیں وہ یہ راہ اختیار کرنے کے بجائے یا تو اپنے اوہام و شکوک ہی کو دین بنا لیتے ہیں یا ان کو دین پر نکتہ چینی کا ذریعہ بنا کر اس کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا ذکر اسی سورہ میں آگے تفصیل سے آئے گا۔