تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

امین احسن اصلاحی

بڑی ہی عظیم اور بافیض ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں اس کائنات کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اس کائنات کے خالق سے متعلق صحیح تصور کی راہ: ’تَبَارَکَ‘ کے اندر عظمت اور برکت دونوں کے مفہوم پائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ صیغہ مبالغہ کا بھی ہے اس وجہ سے اس کے معنی ہوں گے کہ بڑی ہی باعظمت اور بافیض ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں اس کائنات کی باگ ہے۔ ’وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘ اور باعظمت و بافیض ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ہر چیز پر قادر بھی ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا اور مشکل سے مشکل کام بھی ایسا تصور نہیں کیا جا سکتا جو اس کے حیطۂ امکان سے خارج ہو۔؂۱

یہ حال بیان ہوا ہے اس مشاہدے کا جو ایک عاقل اور صاحب فکر کے سامنے آتا ہے یا آنا چاہیے جب وہ اس کائنات کی نشانیوں پر غور کرتا ہے۔ اس کی دلیل آگے آ رہی ہے۔ یہاں خلاصۂ فکر پہلے بیان کر دیا ہے تاکہ ہر شخص کے سامنے یہ حقیقت آ جائے کہ اس کائنات پر غور کرنے والا کبھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ اس کا خالق کوئی کھلنڈرا ہے یا وہ کوئی لاابالی اور غیر ذمہ دار ہے جس نے یہ دنیا پیدا تو کر ڈالی لیکن اس کو اس کے خیر و شر سے کوئی دلچسپی نہیں، یا وہ محض ایک محرک اول ہے جس سے ایک حرکت تو صادر ہو گئی لیکن اس حرکت کے نتائج سے اسے کچھ بحث نہیں، یا وہ صرف ایک خاموش علۃ العلل ہے جس کو اپنی معلولات سے علت ہونے کے سوا کوئی اور واسطہ نہیں ہے۔
اس کائنات کے خالق سے متعلق اس قسم کے تصورات میں جو لوگ مبتلا ہوئے یا تو اس وجہ سے ہوئے کہ انھوں نے اس کا صحیح تصور کرنا ہی نہیں چاہا تاکہ ان کی ہوا پرستی میں یہ تصور خلل انداز نہ ہو سکے یا کرنا تو چاہا لیکن اس کی صفات کا عکس اس کی پیدا کی ہوئی وسیع و عظیم کائنات کے آئینہ میں دیکھنے کے بجائے انھوں نے اپنی ان چھوٹی چھوٹی عینکوں سے دیکھنے کی کوشش کی جو ان کے اپنے ہاتھوں کی ایجاد تھیں۔ حالانکہ اس کا صحیح طریقہ صرف ایک ہی تھا کہ بالکل بے لوث اور غیر جانبدار ہو کر اس کی پیدا کی ہوئی کائنات کا مشاہدہ کرتے اور اس کے اندر اس کی صفات کا جلوہ دیکھتے۔ اگر ایسا کرتے تو ان پر یہ حقیقت واضح ہوتی کہ اس کا خالق بڑا ہی عظیم بھی ہے اور بڑا ہی بافیض اور حکیم بھی اور ساتھ ہی اس کی قدرت بھی بے پناہ ہے۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، کوئی کام بھی اس کے لیے مشکل یا ناممکن نہیں۔ اس تصور سے ظاہر ہے کہ ان تمام باطل تصورات کی جڑ بھی کٹ جاتی ہے جن میں مشرک قومیں مبتلا ہوئیں اور ان اوہام کے لیے بھی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے جن میں فلاسفہ اور سائنس دان مبتلا ہوئے۔
_____
؂۱ لفظ ’تَبَارَکَ‘ کے تضمنات پر سورۂ فرقان کی آیات ۱ ، ۱۰ اور ۶۱ کے تحت بحث ہو چکی ہے۔

جاوید احمد غامدی

بہت بزرگ، بہت فیض رساں ہے، وہ (پروردگار) جس کے ہاتھ میں (عالم کی) پادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

یہ اُس مشاہدے کا بیان ہے جو اِس کائنات کی نشانیوں پر غورکیا جائے تو ہر عاقل اور صاحب فکر انسان کے سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ ماننے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے کہ کائنات کا خالق نہ کھلنڈرا ہے، نہ غیر ذمہ دار اور نہ محض محرک اول اور ایک خاموش علۃ العلل، جیسا کہ بعض فلاسفہ اور سائنس دانوں نے سمجھا ہے،بلکہ بڑا ہی بزرگ، بہت فیض رساں اور اِس کے ساتھ بے پناہ قدرت والا بھی ہے۔ چنانچہ عالم کے خیر و شر سے وہ نہ غیر متعلق ہو سکتا ہے اور نہ اُس کو کسی انجام تک پہنچانا اُس کے لیے کچھ مشکل ہے۔

ابو الاعلی مودودی

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

تبارک برکت سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ برکت میں رفعت و عظمت، افزائش اور فراوانی، دوام و ثبات اور کثرت خیرات و حسنات کے مفہومات شامل ہیں۔ اس سے جب مبالغہ کا صیغہ تبارک بنایا جائے تو اسکے معنی ہوتے ہیں کہ وہ بےانتہا بزرگ و عظیم ہے، اپنی ذات وصفات و افعال میں اپنے سوا ہر ایک سے با لا تر ہے، بےحدو حساب بھلائیوں کا فیضان اس کی ذات سے ہو رہا ہے، اور اس کے کمالات لازوال ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 43 ۔ جلد سوم، المومنون، حاشیہ 14 ۔ الفرقان، حواشی 19) ۔

الملک کا لفظ چونکہ مطلقاً استعمال ہوا ہے اس لیے اسے کسی محدود معنوں میں نہیں لیا جاسکتا۔ لا محالہ اس سے مراد تمام موجودات عالم پر شاہانہ اقتدار ہی ہوسکتا ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں اقتدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے، بلکہ یہ لفظ محاورہ کے طور پر قبضہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی کی طرح ہماری زبان میں بھی جب یہ کہتے ہیں کہ اختیارات فلاں کے ہاتھ میں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے۔۔

یعنی وہ جو کچھ چاہے کرسکتا ہے کوئی چیز اسے عاجز کرنے والی نہیں ہے۔ کہ وہ کوئی کام کرنا چاہے اور نہ کرسکے۔

جونا گڑھی

بہت بابرکت ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

 اسی کے ہاتھ میں بادشاہی ہے یعنی ہر طرح کی قدرت اور غلبہ اسی کو حاصل ہے، وہ کائنات میں جس طرح کا تصرف کرے، کوئی اسے روک نہیں سکتا، وہ شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دے، امیر کو غریب اور غریب کو امیر کردے۔ کوئی اس کی حکمت و مشیت میں دخل نہیں دے سکتا۔ 

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

امین احسن اصلاحی

جس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو تاکہ تمہارا امتحان کرے کہ تم میں کون سب سے اچھے عمل والا بنتا ہے۔ اور وہ غالب بھی ہے اور مغفرت فرمانے والا بھی۔

صحیح تصورکے لازمی نتائج: یہ اوپر والی ہی بات دوسرے اسلوب میں فرمائی گئی ہے جس سے اس کی قدرت، حکمت اور فیض بخشی کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ فرمایا کہ وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے کسی پر بھی کسی دوسرے کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ پھر موت زندگی پرمقدم ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور اسی کے فیض سے پردۂ عدم سے عالم وجود میں آئی ہے، وہ نہ چاہتے تو کوئی چیز وجود میں نہیں آ سکتی۔

عدم کے بعد زندگی اور زندگی کے بعد پھر موت اس بات کی شہادت ہے کہ اس دنیا کا کارخانہ بے غایت و بے مقصد نہیں ہے یہ یوں ہی چلتا رہے یا یوں ہی ایک دن ختم ہو جائے۔ اگر ایسا ہو تو یہ ایک کارعبث ہو گا جو ایک حکیم و قدیر اور بافیض ہستی کی شان کے خلاف ہے بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں جس کو زندگی بخشتا ہے اس امتحان کے لیے بخشتا ہے کہ دیکھے کون اس کی پسند کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور کون اپنی من مانی کرتا ہے۔ اس امتحان کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں لوگوں کو ازسرنو زندہ کرے، ہر شخص کی نیکی اور بدی کا حساب ہو اور وہ اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پائے۔
علاوہ بریں وہ ’عزیز‘ ہے اس وجہ سے جو سزا کے مستحق ہوں گے ان کو اس کی پکڑ سے کوئی بچا نہیں سکتا اور وہ ’غفور‘ بھی ہے اس وجہ سے جو اس کی مغفرت کے مستحق ہوں گے ان کو وہ اس سے محروم نہیں فرمائے گا بلکہ وہ کسی کی سعی و سفارش کے بغیر اس کے حق دار ٹھہریں گے۔

جاوید احمد غامدی

(وہی) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگذر فرمانے والا بھی۔

یہ اوپر والی بات ہی دوسرے اسلوب میں بیان فرمائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’عدم کے بعد زندگی اور زندگی کے بعد پھر موت اِس بات کی شہادت ہے کہ اِس دنیا کا کارخانہ بے غایت و بے مقصد نہیں ہے کہ یوں ہی چلتا رہے یا یوں ہی ایک دن ختم ہو جائے۔ اگر ایسا ہو تو یہ ایک کار عبث ہو گا جو ایک حکیم و قدیر اور با فیض ہستی کی شان کے خلاف ہے، بلکہ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس دنیا میں جس کو زندگی بخشتا ہے، اِس امتحان کے لیے بخشتا ہے کہ دیکھے کون اُس کی پسند کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور کون اپنی من مانی کرتا ہے۔ اِس امتحان کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں لوگوں کو ازسرنو زندہ کرے، ہر شخص کی نیکی اور بدی کا حساب ہو اور وہ اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پائے۔‘‘(تدبر قرآن ۸/ ۴۹۱)

یعنی وہ زبردست ہے، لہٰذا آزمایش کی یہ مدت گزرنے کے بعد جو سزا کے مستحق ہوں گے، وہ اُس کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے اور درگذر فرمانے والا بھی ہے، لہٰذا جو اُس کی مغفرت کے سزاوار ہوں گے، وہ اُس سے محروم نہ رہیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔

یعنی دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اس نے اس لیے شروع کیا ہے کہ ان کا امتحان لے اور یہ دیکھے کہ کس انسان کا عمل زیادہ بہتر ہے۔ اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ اول یہ کہ موت اور حیات اسی کی طرف سے ہے، کوئی دوسرا زندگی بخشنے والا ہے نہ موت دینے والا۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق، جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا کی گئی ہے، اس کی نہ زندگی بےمقصد ہے نہ موت۔ خالق نے اسے یہاں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ زندگی اس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے امتحان کا وقت ختم ہوگیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تاکہ وہ دنیا میں کام کر کے اپنی اچھائی یا برائی کا ا ظہار کرسکے اور عملاً یہ دکھا دے کہ وہ کیسا انسان ہے۔ چوتھے یہ کہ خالق ہی دراصل اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا عمل اچھا ہے اور کس کا برا۔ لہذا جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اسے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ ممتحن کے نزدیک حسن عمل کیا ہے۔ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہوگا اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی، کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے۔

اس کے دو معنی ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بےانتہا زبردست اور سب پر پوری طرح غالب ہونے کے باوجود اپنی مخلوق کے حق میں رحیم و غفور ہے، ظالم اور سخت گیر نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ برے عمل کرنے والوں کو سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے، کسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس کی سزا سے بچ سکے۔ مگر جو نادم ہو کر برائی سے باز آجائے اور معافی مانگ لے اس کے ساتھ وہ در گزر کا معاملہ کرنے والا ہے۔

جونا گڑھی

جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔

 روح ایک ایسی غیر مرئی چیز ہے جس بدن سے اس کا تعلق واتصال ہوجائے وہ زندہ کہلاتا ہے اور جس بدن سے اس کا تعلق منقطع ہوجائے وہ موت سے ہم کنار ہوجاتا ہے اس نے یہ عارضی زندگی کا سلسلہ، جس کے بعد موت ہے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ اس زندگی کا صحیح استعمال کون کرتا ہے ؟ جو اسے ایماء و اطاعت کے لیے استعمال کرے گا اس کے لیے بہترین جزاء ہے اور دوسروں کے لیے عذاب۔ 

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ

امین احسن اصلاحی

جس نے بنائے سات آسمان تہ بہ تہ۔ تم خدائے رحمان کی صنعت میں کوئی خلل نہیں پاؤ گے۔ نگاہ دوڑاؤ، کیا تمہیں کوئی نقص نظر آتا ہے۔

مشاہدۂ کائنات کی دعوت: پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت اور جس فیض بخشی و ربوبیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس آیت میں اس کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دی ہے کہ آؤ، دیکھو اس کائنات کے خالق کی عظمت و شان، اس کی بے مثال صنعت گری اور اس کا کمال فن کہ اس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنا ڈالے اور تم اس میں کہیں ڈھونڈھے سے بھی کوئی ناہمواری یا کوئی نقص و خلل نہیں پا سکتے۔ کیا کوئی چیز آسمانوں سے بھی بڑی ہو سکتی ہے لیکن اس وسیع و عریض اور ناپیدا کنار چیز کے اندر بھی اس کے خالق کے کمال فن کا حال یہ ہے کہ مجال نہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا ماہر فن بھی کہیں انگلی رکھ سکے کہ اس جگہ کسی جوڑ بند کو ہموار کرنے میں کوئی کسر رہ گئی۔ لفظ ’تَفٰوُتٌ‘ کے معنی فرق و اختلاف اور ناہمواری کے ہیں۔ اسی مضمون کو آگے لفظ ’فُطُوْرٌ‘ سے بھی تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی نقص و خلل کے ہیں۔ اسی مضمون کی تعبیر کے لیے سورۂ قٓ آیت ۶ میں لفظ ’فُرُوْجٌ‘ استعمال فرمایا ہے:

’أَفَلَمْ یَنظُرُوْا إِلَی السَّمَآءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِن فُرُوْجٍ‘
(کیا انھوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا، ہم نے کیسا اس کو بنایا اور سنوارا اور کہیں اس میں کوئی دراڑ اور شگاف نہیں)۔

جاوید احمد غامدی

(وہی) جس نے سات آسمان بنائے، تہ بر تہ۔ رحمن کی تخلیق میں تم کوئی خلل نہ پاؤ گے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟

تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 34 ۔ جلد دوم، الرعد، حاشیہ 2 ۔ الحجر، حاشیہ 8 ۔ جلد سوم، الحج، حاشیہ 113 ۔ المومنون، حاشیہ 15 ۔ جلد چہارم، الصافات، حاشیہ 5، المومن، حاشیہ 90 ۔

اصل میں تفاوت کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ہیں، عدم تناسب۔ ایک چیز کا دوسری چیز سے میل نہ کھانا۔ انمل بےجوڑ ہونا۔ پس اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں تم کہیں بد نظمی، بےترتیبی اور بےربطی نہ پاؤ گے۔ اللہ کی پیدا کردہ اس دنیا میں کوئی چیز انمل بےجوڑ نہیں ہے۔ اس کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسب پایا جاتا ہے۔

اصل میں لفظ فطور استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں دراڑ، شگاف، رخنہ، پھٹا ہوا ہونا، ٹوٹا پھوٹا ہونا۔ مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کی بندش ایسی چست ہے، اور زمین کے ایک ذرے سے لے کر عظیم الشان کہکشانوں تک ہر چیز ایسی مربوط ہے کہ کہیں نظم کائنات کا تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ تم خواہ کتنی ہی جستجو کرلو، تمہیں اس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں مل سکتا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورة ق، حاشیہ 8 ۔

جونا گڑھی

جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (تو اسے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بےضابطگی نہ دیکھے گا دوبارہ (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے ۔

 یعنی کوئی نقص، کوئی کجی اور کوئی خلل، بلکہ بالکل سیدھے اور برابر ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک ہی ہے متعدد نہیں۔ 

بعض دفعہ دوبارہ دیکھنے سے کوئی نقص اور عیب نکل آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دعوت دے رہا ہے کہ بار بار دیکھو کہ کیا تمہیں کوئی شگاف تو نظر نہیں آتا۔ 

ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ

امین احسن اصلاحی

پھر بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ ناکام تھک کر واپس آ جائے گی۔

’ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنۡقَلِبْ إِلَیْْکَ الْبَصَرُ خَاسِأً وَہُوَ حَسِیْرٌ‘۔ اتمام حجت کے لیے پھر دعوت دی کہ ایک ہی بار نہیں بلکہ باربار ناقدانہ نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ تھک کر واپس آ جائے گی لیکن کہیں کوئی نقص یا خلل نہیں پا سکے گی۔ مطلب یہ ہے کہ جس خدا کی یہ بے مثال قدرت و حکمت اپنے سروں پر اس طرح پھیلی ہوئی دیکھتے ہو کہ نہ تم اس کا احاطہ کر سکتے اور نہ اس میں کوئی معمولی سے معمولی نقص ڈھونڈھ سکتے اس کے لیے وہ کون سا کام ہے جو دشوار ہو سکتا ہے؟ کیا مرکھپ جانے کے بعد تم کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا اور جزا اور سزا دینا یا تم کو کسی آفت ارضی و سماوی سے چشم زدن میں یہیں تباہ کر دینا اس آسمان کے پیدا کر دینے سے زیادہ مشکل کام ہے؟

جاوید احمد غامدی

پھر پلٹ کر دیکھو، کیا کوئی نقص کہیں پاتے ہو؟ پھر بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمھاری نگاہ تھک کر تمھارے پاس نامراد لوٹ آئے گی۔

یہ اُس قدرت و عظمت اور فیض بخشی و ربوبیت کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ فرمایا ہے۔مطلب یہ ہے کہ جس پروردگار کی یہ نشانیاں تم جب چاہے، اوپر نگاہ اٹھا کر دیکھ سکتے ہو، اُس کے لیے وہ کون سا کام ہے جو دشوار ہو سکتا ہے؟

ابو الاعلی مودودی

بار بار نگاہ دوڑاؤ۔ تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔

n/a

جونا گڑھی

پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی۔

 یہ مذید تاکید ہے کہ جس سے مقصد اپنی عظیم قدرت اور وحدانیت کو واضح تر کرنا ہے۔ 

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ

امین احسن اصلاحی

اور ہم نے آسمان زیریں کو چراغوں سے سجایا اور ان کو شیاطین کو سنگ سار کرنے کا ٹھکانا بھی بنایا اور ان شیاطین کے لیے دوزخ کا عذاب بھی ہم نے تیار کر رکھا ہے۔

قدرت کے پہلو بہ پہلو رحمت کے جلوے: سات آسمانوں کا حوالہ دینے کے بعد آسمان زیریں کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی جس کے عجائب کا نسبۃً آسانی سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ فرمایا کہ اس کو دیکھو کس طرح ہم نے اس کو قمقموں سے آراستہ کیا ہے! مطلب یہ ہے کہ ان قمقموں کو دیکھو گے تو تمہارے سامنے یہ پہلو بھی آئے گا کہ اس جہان کا خالق صرف قدرت والا ہی نہیں بلکہ عظیم رحمت والا بھی ہے، جس نے اس چھت کو ایسے قمقموں سے جگمگایا ہے جن کی حسن افروزی اور فیض بخشی کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اوپر ’مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ‘ میں صفت رحمان کا حوالہ آیا ہے۔ یہ اسی ایک پہلو کی طرف اشارہ ہے گویا یہ دنیا اپنے وجود سے صرف اس بات کی شہادت نہیں دیتی کہ یہ ایک عظیم قدرت والے کی پیدا کی ہوئی دنیا ہے، ساتھ ہی یہ اس بات کی بھی شہادت دیتی ہے کہ وہ نہایت رحمان، نہایت کریم اور نہایت ہی بندہ نواز بھی ہے جس نے اپنے بندوں کے لیے ایسے لاجواب قمقموں سے آراستہ چھت بنائی ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کا حوالہ بار بار آئے گا۔ ہر جگہ اس کے اس خاص پہلو پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ کلام کا اصلی حسن نگاہوں سے اوجھل رہے گا۔

ستاروں کے ایک ضمنی فائدہ کی طرف اشارہ: ’وَجَعَلْنَاہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیَاطِیْنِ‘ کے الفاظ سے ان ستاروں کے ایک اور ضمنی فائدہ کی طرف اشارہ فرما دیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ شیاطین کو سنگ سار کرنے کے لیے ٹھکانوں کا کام بھی لیتا ہے۔ یہاں بات اجمال کے ساتھ فرمائی گئی ہے۔ اس کی تفصیل قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں آئی ہے کہ ان ستاروں کے اندر اللہ تعالیٰ نے دید بان (بُرُوْجٌ) بنائے ہیں جن میں اس کے کروبی ہر وقت پہرہ دیتے ہیں۔ اگر شیاطین عالم بالا کی سن گن لینے کے لیے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان پر شہابوں کے راکٹ پھینک کر ان کو کھدیڑتے ہیں۔ ان شہابوں کی نوعیت پر سورۂ رحمان کی تفسیر میں ہم بحث کر چکے ہیں، تفصیل مطلوب ہو تو ایک نظر اس پر ڈال لیجیے۔ اس ضمنی اشارہ سے یہاں مقصود اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو اس شان و اہتمام کے ساتھ پیدا کرنے کے بعد اس کو چھوڑ نہیں دیا ہے کہ شیاطین اس کو اپنی بازی گاہ بنا لیں بلکہ اس نے اس کی نگرانی کا بھی سامان کیا ہے اور جب وہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو ان کی سرکوبی بھی ہوتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خلق بے راعی کا گلہ نہیں ہے بلکہ جس نے اس کو خلق کیا ہے وہ پوری بیداری کے ساتھ اس کی نگرانی فرما رہا ہے اور ایک دن وہ تمام جن و بشر اپنے کیفر کردار کو پہنچیں گے جو اس میں دھاندلی مچائیں گے۔ ان کے لیے دوزخ کا عذاب تیار ہے، ’وَأَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ‘۔

جاوید احمد غامدی

(تم دیکھتے نہیں کہ) چرخ زیریں کو ہم نے چراغوں سے رونق دی ہے اور اِنھی (چراغوں) کو شیطانوں کے لیے ہم نے سنگ ساری بنا دیا ہے، اور اُن کے لیے دہکتی ہوئی آگ کا عذاب بھی ہم نے مہیا کر رکھا ہے۔

یعنی کائنات کا خالق صرف قدرت والا ہی نہیں، اِس کے ساتھ عظیم رحمت والا بھی ہے کہ اُس نے آسمان کی چھت کو ایسے قمقموں سے سجا دیا ہے جن کی حسن افروزی اور فیض بخشی ہر اندازے اور خیال سے باہر ہے۔

یہ اُس سنگ ساری کا بیان ہے جو شہابوں کی صورت میں اُن شیطانوں پرعالم بالا میں ہر وقت ہوتی رہتی ہے جو سن گن لینے کے لیے اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس سے مقصود اِس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس اہتمام کے ساتھ دنیا کو پیدا کرکے اُسے چھوڑ نہیں دیا ہے، بلکہ وہ برابر اُس کی نگرانی کر رہا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور اُنہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اِن شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کر رکھی ہے۔

قریب کے آسمان سے مراد وہ آسمان ہے جس کے تا روں اور سیاروں کو ہم برہنہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس سے آگے جن چیزوں کے مشاہدے کے لیے آلات کی ضرورت پیش آتی ہو وہ دور کے آسمان ہیں۔ اور ان سے بھی زیادہ دور کے آسمان وہ ہیں جن تک آلات کی رسائی بھی نہیں ہے۔

اصل میں لفظ ” مصابیح ” نکرہ استعمال ہوا ہے اور اس کے نکرہ ہونے سے خود بخود ان چراغوں کے عظیم الشان ہونے کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ کائنات ہم نے اندھیری اور سنسان نہیں بنائی ہے بلکہ ستاروں سے خوب مزین اور آراستہ کیا ہے جس کی شان اور جگمگاہٹ رات کے اندھیروں میں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہی تارے شیطانوں پر پھینک مارے جاتے ہیں، اور یہ مطلب بھی نہیں کہ شہاب ثاقب صرف شیطانوں کو مارنے ہی کے لیے گرتے ہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تاروں سے جو بےحد و حساب شہاب ثاقب نکل کر کائنات میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گھومتے رہتے ہیں، اور جن کی بارش زمین پر بھی ہر وقت ہوتی رہتی ہے، وہ اس امر میں مانع ہے کہ زمین کے شیاطین عالم بالا میں جاسکیں۔ اگر وہ اوپر جانے کی کوشش کریں بھی تو یہ شہاب انہیں مار بھگاتے ہیں۔ اس چیز کو بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ عرب کے لوگ کاہنوں کے متعلق یہ خیال رکھتے تھے اور یہی خود کاہنوں کا دعویٰ بھی تھا، کہ شیاطین ان کے تابع ہیں، یا شیاطین سے ان کا رابطہ ہے، اور ان کے ذریعہ سے انہیں غیب کی خبریں حاصل ہوتی ہیں اور وہ صحیح طور پر لوگوں کی قسمتوں کا حال بتا سکتے ہیں۔ اس لیے قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ شیاطین کے عالم بالا میں جانے اور وہاں سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کا قطعا کوئی امکان نہیں ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الحجر، حواشی 9 تا 12 ۔ الصافات، حواشی 6، 7 ۔

رہا یہ سوال کہ ان شہابوں کی حقیقت کیا ہے، تو اس کے بارے میں انسان کی معلومات اس وقت تک کسی قطعی تحقیق سے قاصر ہیں۔ تاہم جس قدر بھی حقائق اور واقعات جدید ترین دور تک انسان کے علم آئے ہیں، اور زمین پر گرے ہوئے شہابیوں کے معائنے سے جو معلومات حاصل کی گئی ہیں، ان کی بناء پر سائنس دانوں میں سب سے زیادہ مقبول نظریہ یہی ہے کہ یہ شہابیے کسی سیارے کے انفجار کی بدولت نکل کر خلا میں گھومتے رہتے ہیں اور پھر کسی وقت زمین کی کشش کے دائرے میں آ کر ادھر کا رخ کرلیتے ہیں (ملاحظہ ہو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، ایڈیشن 1967 ء۔ جلد 15 ۔ لفظ (Meteorites) ۔

جونا گڑھی

بیشک ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا اور انہیں شیطان کے مارنے کا ذریعہ بنا دیا اور شیطانوں کے لئے ہم نے (دوزخ جلانے والا) عذاب تیار کردیا۔

 یہاں ستاروں کے دو مقصد بیان کئے گئے ہیں ایک آسمانوں کی زینت کیونکہ وہ چراغوں سے جلتے ہیں دوسرا کہ شیطان آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ شرارہ بن کر ان پر گرتے ہیں۔ تیسرا مقصد ان کا یہ ہے جسے دوسرے مقامات پر بیان فرمایا گیا ہے کہ ان سے برو بحر میں راستوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ 

وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

امین احسن اصلاحی

اور جنھوں نے اپنے رب کا کفر کیا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے!

قیامت کا انکار خدا کے انکار کے ہم معنی ہے: اوپر شیاطین کے ساتھ جو معاملہ مذکور ہوا ہے اس سے یہ ان انسانوں کے انجام کے ذکر کی طرف گریز ہے جو اپنے رب کا کفر کریں گے۔ ’رب کے کفر‘ سے یہاں مراد قیامت اور جزاء و سزا کا انکار ہے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم جگہ جگہ اس کتاب میں تفصیل سے واضح کرتے آ رہے ہیں، یہ ہے کہ قیامت کے انکار سے اللہ تعالیٰ کی تمام بنیادی صفات ۔۔۔ قدرت، عدل، رحمت اور ربوبیت ۔۔۔ کی نفی ہو جاتی ہے۔ ان صفات کی نفی کر کے خدا کو ماننا اور نہ ماننا دونوں یکساں ہے۔ چنانچہ قرآن نے اسی بنیاد پر مشرکین کو جگہ جگہ کفار سے تعبیر کیا ہے حالانکہ وہ خدا کے منکر نہیں تھے۔

’وَبِئۡسَ الْمَصِیْرُ‘۔ فرمایا کہ یہ نہایت برا ٹھکانا اور مرجع ہے جو انھوں نے اپنے لیے انتخاب کیا۔ اس کے برے ہونے کے بعض پہلوؤں کی وضاحت آ گے آ رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا کفر کیا ہے، اُن کے لیے (اِسی طرح) جہنم کی سزا ہے، اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔

پروردگار کے کفر سے مراد یہاں قیامت اور جزا و سزا کا انکار ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...اِس کی وجہ ...یہ ہے کہ قیامت کے انکار سے اللہ تعالیٰ کی تمام بنیادی صفات ۔۔۔قدرت، عدل، رحمت اور ربوبیت ۔۔۔ کی نفی ہو جاتی ہے۔اِن صفات کی نفی کرکے خدا کو ماننا اور نہ ماننا، دونوں یکساں ہے۔ چنانچہ قرآن نے اِسی بنیاد پر مشرکین کو جگہ جگہ کفار سے تعبیر کیا ہے، حالاں کہ وہ خدا کے منکر نہیں تھے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۴۹۳)

اوپر شیطانوں کے ساتھ جس معاملے کا ذکر ہوا ہے، یہ اُس سے اُن انسانوں کے انجام کی طرف گریز ہے جو اپنے پروردگار کی قدرت اور رحمت کی یہ نشانیاں دیکھنے کے باوجود قیامت کا انکار کرتے ہیں اور اِس طرح گویا اپنے پروردگار کا انکار کرتے ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

یعنی انسان ہوں، یا شیطان، جن لوگوں نے بھی اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کا یہ انجام ہے (رب سے کفر کرنے کے مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 121، النساء، حاشیہ 178، جلد سوم، الکہف، حاشیہ 39، جلد چہارم، المومن، حاشیہ، 3 ۔

جونا گڑھی

اور اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے۔

n/a

إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ

امین احسن اصلاحی

جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ جوش مارتی ہو گی۔

فرمایا کہ جب یہ منکرین دوزخ میں جھونکے جائیں گے تو ان کو دیکھ کر جہنم اس طرح دھاڑے گی جس طرح بھوکا شیر شکار کو دیکھ کر دھاڑتا ہے اور وہ جوش مار رہی ہو گی۔ یعنی اس کا بھڑکنا اپنے پورے شباب پر ہو گا۔

جاوید احمد غامدی

یہ جب اُس میں ڈالے جائیں گے تو اُس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ ابل رہی ہو گی۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

جب وہ اُس میں پھینکے جائیں گے تو اسکے دھاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھا رہی ہوگی۔

اصل میں لفظ شھیق استعمال ہوا ہے۔ جو گدھے کی سی آواز کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس فقرے کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ خود جہنم کی آواز ہوگی، اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ آواز جہنم سے آ رہی ہوگی جہاں ان لوگوں سے پہلے گرے ہوئے لوگ چیخیں مار رہے ہوں گے۔ اس دوسرے مفہوم کی تائید سورة ہود کی آیت 106 سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں یہ دوزخی لوگ ” ہانپیں گے اور پھنکارے ماریں گے “۔ اور پہلے مفہوم کی تائید سورة فرقان آیت 12 سے ہوتی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ دوزخ میں جاتے ہوئے یہ لوگ دور ہی سے اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سنیں گے۔ اس بنا پر صحیح یہ ہے کہ یہ شور خود جہنم کا بھی ہوگا اور جہنمیوں کا بھی۔

جونا گڑھی

جب اس میں یہ ڈالے جائیں گے تو اس کی بڑے زور سے کی آواز سنیں گے اور وہ جوش مار رہی ہوگی ۔

 شَھِیْق، اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھا پہلی مرتبہ نکالتا ہے، یہ قبیح ترین آواز ہوتی ہے۔ جہنم بھی گدھے کی طرح چیخ اور چلا رہی اور آگ پر رکھی ہوئی ہانڈی کی طرح جوش مار رہی ہوگی۔ 

تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۖ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ

امین احسن اصلاحی

معلوم ہو گا کہ غصہ سے پھٹی پڑ رہی ہے۔ جب جب ان کی کوئی بھیڑ اس میں جھونکی جائے گی اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے، کیا تمہارے پاس اس دن سے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا!

جہنم کے جوش غضب کی تصویر: یہ جہنم کے غصہ کی تعبیر ہے کہ معلوم ہو گا کہ وہ غضب سے پھٹی پڑ رہی ہے۔ اس کے اس غیظ و غضب کی وجہ ظاہر ہے کہ یہی ہو گی کہ اس کے نزدیک اس ہولناک دن سے جن لوگوں نے بے پروا ہو کر زندگی گزاری انھوں نے بالکل آنکھیں اور کان بند کر کے زندگی گزاری۔ ورنہ اس دنیا میں نہ قیامت اور جزا و سزا کی نشانیوں کی کمی تھی اور نہ کبھی یہ منذروں سے خالی رہی۔ پس جن لوگوں نے آنکھیں اور کان رکھتے ہوئے ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا وہ ہرگز کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ جہنم کے داروغے ان کو ملامت کریں گے کہ بدبختو! کیا تمہارے پاس اس دن سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی نذیر نہیں آیا کہ تم نے اپنی یہ شامت بلائی! اس وقت یہ لوگ اعتراف کریں گے کہ اس میں تو شبہ نہیں کہ اس سے آگاہ کرنے کے لیے نذیر ہمارے پاس آئے لیکن ہم نے ان کو جھٹلا دیا اور یہ کہہ دیا کہ خدا نے کوئی چیز نہیں اتاری ہے، تم محض ہم پر دھونس جمانے کے لیے یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ تم کو خدا نے بھیجا ہے کہ ہمیں اس دن سے آگاہ کرو اور خدا کی خوشنودی کے لیے جن تیاریوں کی ضرورت ہے ان کی ہمیں تعلیم دو۔

جاوید احمد غامدی

لگے گا کہ غضب سے پھٹی پڑرہی ہے۔ ہر مرتبہ جب کوئی بھیڑ اُس میں ڈالی جائے گی تو اُس کے نگران اُن سے پوچھیں گے: کیا تمھارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا؟

n/a

ابو الاعلی مودودی

شدت غضب سے پھٹی جاتی ہو گی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اُس کے کارندے اُن لوگوں سے پوچھیں گے “کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟”

اس سوال کی اصل نوعیت سوال کی نہیں ہوگی کہ جہنم کے کارندے ان لوگوں سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہوں کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خبردار کرنے والا آیا تھا یا نہیں، بلکہ اس سے مقصود ان کو اس بات کا قائل کرنا ہوگا کہ انہیں جہنم میں ڈال کر ان کے ساتھ کوئی بےانصافی نہیں کی جا رہی ہے۔ اس لیے وہ خود ان کی زبان سے یہ اقرار کرانا چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیخبر نہیں رکھا تھا، ان کے پاس انبیاء بھیجے تھے، ان کو بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور راہ راست کونسی ہے، اور ان کو متنبہ کردیا تھا کہ اس راہ راست کے خلاف چلنے کا نتیجہ اسی جہنم کا ایندھن بننا ہوگا جس میں اب وہ جھونکے گئے ہیں، مگر انہوں نے انبیاء کی بات نہ مانی لہذا اب جو سزا انہیں دی جا رہی ہے وہ فی الواقع اس کے مستحق ہیں۔

یہ بات قرآن مجید میں بار بار ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس امتحان کے لیے دنیا میں انسان کو بھیجا ہے وہ اس طرح نہیں لیا جا رہا ہے کہ اسے بالکل بیخبر رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہو کہ وہ خود راہ راست پاتا ہے یا نہیں، بلکہ اسے راہ راست بتانے کا جو معقول ترین انتظام ممکن تھا وہ اللہ نے پوری طرح کردیا ہے، اور وہ یہی انتظام ہے کہ انبیاء بھیجے گئے ہیں اور کتابیں نازل کی گئیں ہیں۔ اب انسان کا سارا امتحان اس امر میں ہے کہ وہ انبیاء علیم السلام اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کو مان کر سیدھا راستہ اختیار کرتا ہے یا ان سے منہ موڑ کر خود اپنی خواہشات اور تخیلات کے پیچھے چلتا ہے۔ اس طرح نبوت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی وہ حجت ہے جو اس نے انسان پر قائم کردی ہے، اور اسی کے ماننے یا نہ ماننے پر انسان کے مستقبل کا انحصار ہے۔ انبیاء کے آنے کے بعد کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کرسکتا کہ ہم حقیقت سے آگاہ نہ تھے، ہمیں اندھیرے میں رکھ کر ہم کو اتنے بڑے امتحان میں ڈال دیا گیا، اور اب ہمیں بےقصور سزا دی جا رہی ہے۔ اس مضمون کو اتنی بار اتنے مختلف طریقوں سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کا شمار مشکل ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، آیت 213، حاشیہ 230، النساء آیات 41 ۔ 42، حاشیہ 64 ۔ آیت 165، حاشیہ 208 ۔ الانعام، آیات 130 ۔ 131، 98 تا 100 جلد دوم، بنی اسرائیل، آیت 15، حاشیہ 17 ۔ جلد سوم طٰہٰ ، آیت 134 ۔ القصص، آیت 47، حاشیہ 66، آیت 59، حاشیہ 83 ۔ آیت 65 ۔ جلد چہارم، فاطر، آیت 37، المومن، آیت 50 حاشیہ 66 ۔

جونا گڑھی

قریب ہے کہ (ابھی) غصے کے مارے پھٹ جائے جب کبھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا اس سے جہنم کے دروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کوئی نہیں آیا تھا

  یا مارے غیظ وغضب کے اس کے حصے ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے یہ جہنم کافروں کو دیکھ کر غضب ناک ہوگی جس کا شعور اللہ تعالیٰ اس کے اندر پیدا فرما دے گا اللہ تعالیٰ کے لیے جہنم کے اندر یہ ادراک وشعور پیدا کردینا کوئی مشکل نہیں۔

 

جس کی وجہ سے تمہیں آج جہنم کے عذاب کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔ 

قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ

امین احسن اصلاحی

وہ جواب دیں گے کہ ایک خبردار کرنے والا آیا تو سہی لیکن ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ اللہ نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم لوگ بس ایک بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو!

جہنم کے جوش غضب کی تصویر: یہ جہنم کے غصہ کی تعبیر ہے کہ معلوم ہو گا کہ وہ غضب سے پھٹی پڑ رہی ہے۔ اس کے اس غیظ و غضب کی وجہ ظاہر ہے کہ یہی ہو گی کہ اس کے نزدیک اس ہولناک دن سے جن لوگوں نے بے پروا ہو کر زندگی گزاری انھوں نے بالکل آنکھیں اور کان بند کر کے زندگی گزاری۔ ورنہ اس دنیا میں نہ قیامت اور جزا و سزا کی نشانیوں کی کمی تھی اور نہ کبھی یہ منذروں سے خالی رہی۔ پس جن لوگوں نے آنکھیں اور کان رکھتے ہوئے ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا وہ ہرگز کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ جہنم کے داروغے ان کو ملامت کریں گے کہ بدبختو! کیا تمہارے پاس اس دن سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی نذیر نہیں آیا کہ تم نے اپنی یہ شامت بلائی! اس وقت یہ لوگ اعتراف کریں گے کہ اس میں تو شبہ نہیں کہ اس سے آگاہ کرنے کے لیے نذیر ہمارے پاس آئے لیکن ہم نے ان کو جھٹلا دیا اور یہ کہہ دیا کہ خدا نے کوئی چیز نہیں اتاری ہے، تم محض ہم پر دھونس جمانے کے لیے یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ تم کو خدا نے بھیجا ہے کہ ہمیں اس دن سے آگاہ کرو اور خدا کی خوشنودی کے لیے جن تیاریوں کی ضرورت ہے ان کی ہمیں تعلیم دو۔

’إِنْ اَنتُمْ إِلَّا فِیْ ضَلَالٍ کَبِیْرٍ‘۔ یعنی یہی نہیں کہ ہم نے ان کی کوئی بات مانی نہیں اور اپنی گمراہی پر متنبہ نہیں ہوئے بلکہ الٹے ان کو گمراہ ٹھہرایا کہ ہم نہیں بلکہ تم ایک بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہو کر ہمیں یہ ڈراوے سنا رہے ہو کہ مرکھپ جانے کے بعد ہم ازسرنو زندہ کیے جائیں گے، ہمارے ایک ایک قول و فعل کا حساب ہو گا اور ہم اور ہمارے آباء و اجداد جہنم میں پڑیں گے۔
’اَنتُمْ‘ کی ضمیر جمع ہے حالانکہ اوپر لفظ ’نَذِیْرٌ‘ واحد ہے اس سے یہ اشارہ نکل رہا ہے کہ یہ لوگ یہ اعتراف بھی کریں گے کہ یہی جواب ہم نے ہر اس شخص کو دیا جس نے ہمیں اس دن سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ خواہ وہ اللہ کا رسول رہا ہو یا اس کے ساتھی رہے ہوں۔

جاوید احمد غامدی

وہ جواب دیں گے: ہاں، ایک خبردار کرنے والا تو یقیناہمارے پاس آیا تھا، مگر ہم نے اُسے جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ اللہ نے کوئی چیز نہیں اتاری۔ (ہم نے کہہ دیا کہ) تم لوگ تو بس ایک بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔

اصل الفاظ ہیں: ’اِنْ اَنْتُمْ اِلاَّ فِیْ ضَلٰلٍ کَبِیْرٍ‘۔ اِن میں ’اَنْتُمْ‘ ضمیر جمع ہے۔ یہ اِس بات پر دلیل ہے کہ یہی جواب اُنھوں نے ہر اُس شخص کو دیا جس نے اُنھیں خبردار کرنا چاہا۔

ابو الاعلی مودودی

وہ جواب دیں گے “ہاں، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا، مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔”

یعنی تم بھی بہکے ہوئے ہو اور تم پر ایمان لانے والے لوگ بھی سخت گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

جونا گڑھی

وہ جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور ہم نے کہا اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ تم بہت بڑی گمراہی میں ہو

 یعنی ہم نے پیغمبروں کی تصدیق کرنے کی بجائے انہیں جھٹلایا، آسمانی کتابوں کا ہی سرے سے انکار کردیا حتٰی کہ اللہ کے پیغمبروں کو ہم نے کہا کہ تم بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔ 

وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ

امین احسن اصلاحی

اور وہ کہیں گے کہ ہم سننے والے یا سمجھنے والے ہوتے تو ہم دوزخ والوں میں سے نہ بنتے۔

جہنمیوں کا اعتراف کہ انھوں نے اپنی عقل سے کام نہیں لیا: اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ یہ اعتراف بھی کریں گے کہ اگر وہ بات کے سننے والے اور اپنی عقل سے کام لینے والے ہوتے تو حقیقت اتنی واضح تھی کہ وہ بھی ہدایت پر اور جنت کے حق دار ہوتے، جہنم والوں کے ساتھی نہ بنتے۔ لیکن نہ ہم نے ناصحوں کی بات سننے کے لیے اپنے کان کھولے اور نہ خود اپنی عقل سے کام لیا اس وجہ سے اس انجام بد کو پہنچے۔

جاوید احمد غامدی

اور وہ کہیں گے: اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو (آج) اِن دوزخ والوں میں نہ ہوتے۔

n/a

ابو الاعلی مودودی

اور وہ کہیں گے “کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اِس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے۔”

یعنی ہم نے طالب حق بن کر انبیاء کی بات کو توجہ سے سنا ہوتا، یا عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کی ہوتی کہ فی الواقع وہ بات کیا ہے جو وہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہاں سننے کو سمجھنے پر مقدم رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے نبی کی تعلیم کو توجہ سے سننا (یا اگر وہ لکھی شکل میں ہو تو طالب حق بن کر اسے پڑھنا) ہدایت پانے کے لیے شرط اول ہے۔ اس پر غور کر کے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا مرتبہ اس کے بعد آتا ہے نبی کی رہنمائی کے بغیر اپنی عقل سے بطور خود کام لے کر انسان براہ راست حق تک نہیں پہنچ سکتا۔

جونا گڑھی

اور کہیں گے کہ اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں (شریک) نہ ہوتے ۔

 یعنی غور اور توجہ سے سنتے اور ان کی باتوں اور نصیحتوں کو آویزہ گوش بنا لیتے، اسی طرح اللہ کی دی ہوئی عقل سے بھی سوچنے سمجھنے کا کام لیتے تو آج ہم دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔ 

Page 1 of 3 pages  1 2 3 >