قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ

امین احسن اصلاحی

فائز المرام ہوئے وہ اہل ایمان

اہل ایمان کو فلاح دنیا و آخرت کی بشارت

لفظ ’مُؤْمِنُوْنَ‘ ہر چند عام ہے لیکن یہاں اس کے مصداق اول وہی اہل ایمان ہیں جو اس دور میں حق کی خاطر ہجرت اور جہاد کی بازیاں کھیل رہے تھے۔ فرمایا کہ وہ فائز المرام ہوئے۔ یہ بشارت ہے تو مستقبل سے متعلق، لیکن اس کو تعبیر ماضی کے صیغے سے فرمایا ہے جس سے مقصود اس کی قطعیت کا اظہار ہے اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بات کا فیصلہ ہو چکا تو گویا وہ بات واقع ہو چکی۔ یہاں جس فلاح کی بشارت ہے اس کا حقیقی ثمرہ تو فلاح آخرت ہے۔ وہی اصل چیز ہے اور اہل ایمان کا نصب العین ہمیشہ وہی ہوتی ہے، لیکن اس کے اندر تمکن فی الارض کی وہ بشارت بھی مضمر ہے جو پچھلی سورہ میں دی گئی ہے۔ لیکن اس کا ذکر چونکہ پچھلی سورہ میں وضاحت سے ہو چکا ہے اس وجہ سے اس سورہ میں اصل مقام ۔۔۔ فردوس ۔۔۔ کا ذکر ہوا۔ دوسری چیزیں اس کے تحت خود بخود آ گئیں۔

جاوید احمد غامدی

اپنی مراد کو پہنچ گئے ایمان والے

یعنی اُن کے لیے فیصلہ ہو گیا کہ لازماً فائز المرام ہوں گے۔ یہ مستقبل میں کسی بات کے واقع ہونے کی قطعیت کے اظہار کا اسلوب ہے جو ہماری زبان میں بھی موجود ہے۔ اِس بشارت کا ظہور کب ہو گا؟ اِس کی وضاحت پیرے کے آخر میں کر دی ہے کہ ہمیشہ کے لیے فردوس کی میراث پا لیں گے۔

ابو الاعلی مودودی

یقینا فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے

ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرلی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہوگئے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔

فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہوگیا، اس کی کوشش بار آور ہوئی۔ اس کی حالت اچھی ہوگئی۔

قَدْ اَفْلَحَ ” یقیناً فلاح پائی ” آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی، جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے۔ اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کردیا تھا۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ ” یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے ” تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے، تمہارے اندازے غلط ہیں، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے برے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔

 

یہ اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

جونا گڑھی

یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی

 فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کرلے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آجائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلًا اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔ 

الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ

امین احسن اصلاحی

جو اپنی نمازوں میں فروتنی اختیار کرنے والے (ہیں)

روحِ نماز کی طرف اشارہ

خشوع‘ کے معنی عاجزی، تذلل، نیاز مندی اور فروتنی کے ہیں۔ یہ لفظ مختلف شکلوں میں قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ ’خشعت الاصوات‘ اور ’تخشع قُلُوْبُھُمْ‘ وغیرہ کے استعمالات سے لفظ کی اصل روح پر روشنی پڑتی ہے اس وجہ سے جن لوگوں نے اس کے معنی مجرد ’سکون‘ کے لیے ہیں ہمارے نزدیک ان کی رائے صحیح نہیں ہے۔ یہ اس نماز کی اصل روح کی طرف اشارہ ہے جس پر مذکورہ فلاح کا انحصار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رب کے آگے آدمی کی کمر اور اس کا سر ہی نہ جھکے، بلکہ اس کا دل بھی سرفگندہ ہو جائے۔ ان اہل ایمان کی کیفیت یہی ہے کہ نمازوں میں ان کے قیام، ان کی ہیئت، ان کی آواز اور ان کے رکوع و سجود ایک ایک چیز سے ان کے دل کے خشوع کی شہادت ملتی ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ پچھلی سورہ کی آخری آیت میں ’اقامۃ صلٰوۃ‘ کی ہدایت ہوئی تھی جو نماز کے ظاہری اہتمام و التزام کی تعبیر ہے۔ اس سورہ میں نماز کی اصل روح کا ذکر ہوا اور وہ بھی اس حیثیت سے کہ یہ ان اہل ایمان کی صفت ہے جن کو فلاح کی یہ بشارت دی جا رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں

یعنی اپنے پروردگار کے آگے نیاز مندی، تذلل اور عاجزی و فروتنی کا اظہار کرنے والے ہیں۔ یہی نماز کی اصل روح ہے جو اگر نماز میں موجود ہو تو آدمی محسوس کرتا ہے کہ اُس کی کمر اور اُس کا سر ہی نہیں، اُس کا دل بھی اپنے پروردگار کے آگے سرفگندہ ہو گیا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہوں،

یہاں سے آیت 9 تک ایمان لانے والوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ گویا دلیلیں ہیں اس دعوے کی کہ انہوں نے ایمان لا کر درحقیقت فلاح پائی ہے۔ بالفاظ دیگر گویا یوں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ آخر کیوں کر فلاح یاب نہ ہوں جن کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ ان اوصاف کے لوگ ناکام و نامراد کیسے ہو سکتے ہیں۔ کامیابی انہیں نصیب نہ ہوگی تو اور کنھیں ہوگی۔

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :3

خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا، دب جانا، اظہار عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے، اعضاء ڈھیلے پڑجائیں، نگاہ پست ہوجائے، آواز دب جائے، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہوجائیں جو اس حالت میں فطرتاً طاری ہوجایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا : لو خشع قلبہ خشعت جوارحہ، ” اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا “۔

اگرچہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کردیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مددگار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کو کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیار خاص پر قائم رکھتے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے (زیادہ سے زیادہ صرف گوشہ چشم سے ادھر ادھر دیکھا جاسکتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے، مگر مالکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگاہ سامنے کی طرف رہنی چاہیے ) ۔ نماز میں ہلنا اور مختلف سمتوں میں جھکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا، یا ان کو جھاڑنا، یا ان سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یا سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے۔ تن کر کھڑے ہونا بہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا، یا قرأت میں گانا بھی آداب نماز کے خلاف ہے۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بےادبی ہے۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ حکم یہ ہے کہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل، مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جاسکتا ہے، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنا ممنوع ہے۔

 

ان ظاہر آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفس انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل سے بھی عرض کرے۔ اس دوران میں اگر بےاختیار دوسرے خیالات آجائیں تو جس وقت بھی آدمی کو انکا احساس ہو اسی وقت اسے اپنی توجہ ان سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے۔

جونا گڑھی

جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں

  خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔ 

وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ

امین احسن اصلاحی

اور جو لغویات سے احتراز کرنے والے ہیں

زندگی پر نماز کا اثر

 یہ زندگی پر نماز کا اثر بیان ہوا ہے۔ ’لغو‘ سے مراد ہر وہ قول و فعل ہے جو زندگی کے اصل مقصود ۔۔۔ رضائے الٰہی ۔۔۔ سے غافل کرنے والا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ وہ مباح ہے یا غیر مباح۔ جس نماز کے اندر خشوع ہو اس کا اثر زندگی پر لازماً یہ پڑتا ہے کہ فضول، غیر ضروری، لا یعنی، بے مقصد چیزوں سے آدمی احتراز کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر میں نے کوئی فضول قسم کی حرکت کی تو اپنے عالم الغیب مالک کو ایک روز منہ دکھانا ہے اور اس چیز کی شب و روز میں کم از کم پانچ بار اس کو یاددہانی ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا ضمیر اتنا بیدار اور حساس ہو کہ ہر غیر ضروری حرکت سے اس کی طبیعت انقباض محسوس کرے وہ کسی بڑی بے حیائی اور برائی کا مرتکب کبھی مشکل ہی سے ہو گا۔ نماز کا زندگی پر یہی اثر سورۂ عنکبوت میں یوں بیان ہوا ہے:

اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ‘۔ (۴۵)
(نماز بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے)

روکنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ ایک نہایت ہی موثر واعظ و زاجر ہے جو شب و روز میں پانچ مرتبہ انسان کو تذکیر کرتی رہتی ہے کہ دربار الٰہی کے شایان شان اعمال و کردار کیا ہیں اور انسان کو کہاں جانا ہے اور اس کے لیے اس کو کیا تیاریاں کرنی چاہییں اور اپنے آپ کو کس سانچے میں ڈھالنا چاہیے۔
آیت کا اصل مفہوم تو یہی ہے لیکن موقع کلام ایک اور ضمنی مفہوم کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ وہ یہ کہ اس میں مخالفین کی ان خرافات پر ایک تعریض بھی ہے جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت بکتے رہتے تھے۔ یہ مفہوم سورۂ قصص کی اس آیت سے نکل رہا ہے:

وَاِذَا سَمِعُوا الَّلغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ. (قصص ۵۵)
’’اور جب وہ کوئی فضول بکواس سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے ساتھ تمہارے اعمال۔‘‘

 

یہی مضمون دوسرے مقام میں ’وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا‘ (فرقان ۷۲) کے الفاظ سے ادا ہوا ہے۔ ان آیات کی روشنی میں زیربحث آیت سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ اللہ کے یہ بندے مخالفین کی ژاژخائیوں میں اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے اپنے رب کے ذکر اور اس کی آیات کے فکر میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔

جاوید احمد غامدی

جو لغویات سے دور رہنے والے ہیں

اصل میں لفظ ’اللَّغْو‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ہر اُس بات اور کام کے لیے آتا ہے جو فضول، لا یعنی اور لا حاصل ہو۔ مطلب یہ ہے کہ بڑی برائیاں تو ایک طرف، وہ اُن چیزوں سے بھی احتراز کرتے ہیں جو اپنا کوئی مقصد نہ رکھتی ہوں اورجن سے انسان کی زندگی کے لیے کوئی نتیجہ نہ نکلتا ہو۔ اِس میں ضمناً اُن لغویات کی طرف بھی اشارہ ہو گیا ہے جو اُس زمانے میں قرآن کے منکرین سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صادر ہوتی تھیں۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ایمان والے جب کوئی فضول بات سنتے ہیں تو اعراض کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اورتمھارے لیے تمھارے اعمال۔ اِسی طرح فرمایا ہے کہ جب اُن کا گزر کسی بے ہودہ چیز پر ہوتا ہے تو وقار سے گزر جاتے ہیں۔ گویا نہ لغویات میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ اُن لوگوں سے الجھتے ہیں جو اُن میں مبتلا ہوں۔

ابو الاعلی مودودی

لغویات سے دور رہتے ہیں۔

لغو ” ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لا حاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ” لغویات ” ہیں۔

معرضون ” کا ترجمہ ہم نے ” دور رہتے ہیں ” کیا ہے۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رخ نہیں کرتے۔ ان میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میں حصہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آ ہی جائے تو ٹل جاتے ہیں، کترا کر نکل جاتے ہیں، یا بہ درجہ آخر بےتعلق ہو رہتے ہیں۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ : وَ اِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَاماً ۔ (الفرقان۔ آیت 72) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں، یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں سے مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں۔

یہ چیز، جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے، دراصل مومن کی اہم ترین صفات میں سے ہے۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تلی مدت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے۔ یہ احساس اس کو بالکل اس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو۔ جس طرح اس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی کے لیے فیصلہ کن ہیں، اور اس احساس کی وجہ سے وہ ان گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ان کو کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو ان ہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی ان چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اسے تیار کرنے والی ہوں۔ اس کے نزدیک وقت ” کاٹنے ” کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے۔

 

علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع، پاکیزہ مزاج، خود ذوق انسان ہوتا ہے۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ مفید باتیں کرسکتا ہے، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جاسکتا ہے، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کرسکتا، گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کرسکتا، تفریحی گفتگوؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا۔ اس کے لیے تو وہ سوسائٹی ایک مستقل عذاب ہوتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالوں سے، غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے، گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیہ، ” وہاں تو گوئی لغو بات نہ سنے گا “۔

جونا گڑھی

جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں

 خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔ 

وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ

امین احسن اصلاحی

اور جو زکوٰۃ ادا کرتے رہنے والے (ہیں)

نماز کے بعد دین کا دوسرا ستون زکوٰۃ ہے: نماز کے بعد دین کا دوسرا ستون، جیسا کہ ہم اس کتاب میں وضاحت سے بیان کر چکے ہیں، زکوٰۃ ہے۔ سورۂ مریم اور سورۂ انبیاء میں آپ تفصیل سے پڑھ آئے ہیں کہ ہر نبی کے باب میں یہ بات وارد ہوئی ہے کہ

’وَکَانَ یاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ‘
(وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کی تعلیم دیتا تھا)

اس زکوٰۃ کی قانونی شکل ہر دین میں کچھ مختلف رہی ہے، لیکن انفاق فی سبیل اللہ کی تعبیر کے لیے یہ ایک جامع اور معروف لفظ ہے اور اس کی حیثیت دین میں نماز کے مثنیٰ اور اس کے مظہر اول کی ہے۔ نماز بندے کو خالق سے جوڑتی ہے اور زکوٰۃ بندے کو بندوں کے ساتھ مربوط کرتی ہے اور جو بندہ خلق اور خالق دونوں سے صحیح بنیاد پر مربوط ہو جائے درحقیقت وہی بندہ دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کا سزاوار ہے۔ اگرچہ یہ سورہ مکی ہے اور اسلام میں باقاعدہ اصطلاحی زکوٰۃ کا نظام بعد میں قائم ہوا، لیکن یہ لفظ مصطلحہ شرعی زکوٰۃ کے مفہوم میں نہیں، بلکہ انفاق کے مفہوم میں ہے۔ جن لوگوں نے اس کو مصدری معنی یعنی تزکیہ کے مفہوم میں لیا ہے، ان کی رائے ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ یہ لفظ جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، مکی سورتوں میں بھی نماز کے ساتھ بار بار آیا ہے اور کہیں بھی اس سے مراد تزکیہ نہیں، بلکہ انفاق فی سبیل اللہ ہی ہے جس کے برکات و ثمرات میں سے تزکیہ بھی ہے۔
نماز اور زکوٰۃ میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے: فلسفۂ دین کے پہلو سے نماز اور زکوٰۃ ایمان کے دو بازو ہیں اور ان دونوں کے درمیان قدر مشترک خدا کی شکرگزاری ہے۔ یہی شکر گزاری کا جذبہ بندے کو نماز پر ابھارتا ہے جو تمام تر شکر ہے اور یہی شکرگزاری کا جذبہ اللہ کی راہ میں انفاق اور قربانی پر ابھارتا ہے۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ زکوٰۃ درحقیقت نماز ہی کا ایک مظہر اور پہلو ہے اور دونوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے۔
پھر نماز کی روح، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ’خشوع اور خشیت بھی ہے‘ اس پہلو سے یہ ہر برائی اور بے حیائی سے، جیسا کہ سورۂ عنکبوت کے حوالہ سے اوپر واضح ہوا، روکنے والی چیز ہے۔ چنانچہ اوپر بیان ہوا کہ جن کی نمازوں میں خشوع ہوتا ہے وہ منکرات اور لغویات سے احتراز کرتے ہیں۔ اب اسی نماز کے مزید اثرات آگے بیان ہو رہے ہیں-

جاوید احمد غامدی

اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والے

زکوٰۃ سے مراد وہ مال ہے جو نظم اجتماعی کی ضرورتوں کے لیے خدا کے حکم پر اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ نماز کی طرح اِس کا حکم بھی انبیا علیہم السلام کے دین میں ہمیشہ موجود رہاہے۔ چنانچہ قرآن کے مخاطبین جانتے تھے کہ اِس کا مصداق کیا ہے۔ یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں تھی کہ اِس کی شرح و نصاب بتا کر اِس کا ذکر کیا جاتا۔ اِن سب چیزوں سے وہ اُسی طرح واقف تھے ، جس طرح نماز کے اعمال و اذکار سے واقف تھے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں اِس کی حیثیت نماز کے مثنیٰ کی ہے۔ نماز بندے کو خدا سے متعلق کرتی ہے اور یہ اُس کو بندوں سے جوڑتی ہے۔ مراد کو پہنچنے کے لیے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔

ابو الاعلی مودودی

زکوة کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔

” زکوٰۃ دینے ” اور ” زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہونے ” میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے جسے نظر انداز کر کے دونوں کو ہم معنی سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہاں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے : یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃ کا معروف انداز چھوڑ کر للِزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ کا غیر معمولی طرز بیان اختیار کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک ” پاکیزگی “۔ دوسرے ” نشو و نما “۔ کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں ان کو دور کرنا، اور اس کے اصل جوہر کو پروان چڑھانا، یہ دو تصورات مل کر زکوٰۃ کا پورا تصور بناتے ہیں۔ پھر یہ لفظ جب اسلامی اصطلاح بنتا ہے تو اس کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے۔ ایک وہ مال جو مقصد تزکیہ کے لیے نکالا جائے۔ دوسرے بجائے خود تزکیہ کا فعل۔ اگر : یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ کہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ تزکیہ کی غرض سے اپنے مال کا ایک حصہ دیتے یا ادا کرتے ہیں۔ اس طرح بات صرف مال دینے تک محدود ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر للزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ تزکیہ کا فعل کرتے ہیں، اور اس صورت میں بات صرف مالی زکوٰۃ ادا کرنے تک محدود نہ رہے گی بلکہ تزکیہ نفس، تزکیہ اخلاق، تزکیہ زندگی، تزکیہ مال، غرض ہر پہلو کے تزکیے تک وسیع ہوجائے گی۔ اور مزید براں، اس کا مطلب صرف اپنی ہی زندگی کے تزکیے تک محدود نہ رہے گا بلکہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کے تزکیے تک بھی پھیل جائے گا۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ ” وہ تزکیے کا کام کرنے والے لوگ ہیں “، یعنی اپنے آپ کو بھی پاک کرتے ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں، اپنے اندر بھی جوہر انسانیت کو نشو و نما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں بھی اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورة اعلیٰ میں فرمایا : قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّیٰ ہ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہ فَصَلّیٰ ۔ ” فلاح پائی اس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھی “۔ اور سورة شمس میں فرمایا : قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاہ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔ ” با مراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا “۔ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیے پر زور دیتی ہیں، اور یہ بجائے خود فعل تزکیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی، دونوں ہی کے تزکیے پر حاوی ہے۔

جونا گڑھی

جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں

  اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوٰۃ مفروضہ ہے، (جس کی تفصیلات یعنی اس کا نصاب اور زکوٰۃ کی شرع مدینہ میں بتلائی گئی تاہم) اس کا حکم مکے میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے، جس سے نفس اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہو۔ 

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ

امین احسن اصلاحی

اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں

شہوانی خواہشات پر قابو: یعنی یہ لوگ اپنی شہوانی خواہشات کو کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ ان کو صرف وہیں آزادی دیتے ہیں جہاں اس کا حق ان کو حاصل ہے۔

جاوید احمد غامدی

اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں

n/a

ابو الاعلی مودودی

اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،

اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں، یعنی عریانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں، یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بےلگام نہیں ہوتے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النور حواشی 30 ۔ 32 ) ۔

جونا گڑھی

جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ

امین احسن اصلاحی

بجز اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے حد تک سو اس بارے میں ان کو کوئی ملامت نہیں

یعنی بیویوں اور لونڈیوں پر۔۱؂ یہ نہیں ہوتا کہ شہوات سے اندھے ہو کر بالکل سانڈ بن جائیں اور ہر حرمت پر دست اندازی اپنا حق سمجھ لیں۔ فرمایا کہ اپنے حدود کے اندر یہ چیز مباح ہے۔ اس پر کسی کو ملامت نہیں۔ یعنی کوئی اس کو تقویٰ، دین داری اور خدا ترسی کے منافی نہ سمجھے جیسا کہ راہبانہ تصورات کے تحت عام طور پر سمجھا گیا ہے۔

_____
۱؂غلاموں اور لونڈیوں کے مسئلہ پر ہم اس کتاب میں پیچھے بھی بحث کر چکے ہیں اور آگے سورۂ نور کی تفسیر میں بھی اس پر مفصل بحث آ رہی ہے۔

جاوید احمد غامدی

اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کہ (اُن کے بارے میں) اُن پر کوئی ملامت نہیں ہے

بیویوں کے ساتھ یہاں لونڈیوں کا ذکر اِس لیے ہوا ہے کہ اُس وقت تک غلامی ختم نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ سورۂ محمد میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی ممانعت کے باوجود جوغلام پہلے سے معاشرے میں موجود تھے ، اُن کے لیے یہ استثنا باقی رکھنا ضروری تھا۔ بعد میں قرآن نے اُن کے ساتھ لوگوں کو مکاتبت کا حکم دے دیا۔ یہ اِس بات کا اعلان تھا کہ لوح تقدیر اب غلاموں کے ہاتھ میں ہے اوروہ اپنی آزادی کی تحریر اُس پر، جب چاہے، رقم کر سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں غلامی کو معیشت اور معاشرت کے لیے اُسی طرح ناگزیر سمجھا جاتا تھا، جس طرح اب سود کو سمجھاجاتا ہے۔ نخاسوں پر ہر جگہ غلاموں اور لونڈیوں کی خرید وفروخت ہوتی تھی اور کھاتے پیتے گھروں میں ہر سن و سال کی لونڈیاں اور غلام موجود تھے۔اِس طرح کے حالات میں اگر یہ حکم دیا جاتا کہ تمام غلام اور لونڈیاں آزاد ہیں تو اُن کی ایک بڑی تعداد کے لیے جینے کی کوئی صورت اِس کے سوا باقی نہ رہتی کہ مرد بھیک مانگیں اورعورتیں جسم فروشی کے ذریعے سے اپنے پیٹ کا ایندھن فراہم کریں۔یہ مصلحت تھی جس کی وجہ سے قرآن نے تدریج کا طریقہ اختیار کیا اور اِس سلسلہ کے کئی اقدامات کے بعد بالآخر سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۳۳ میں مکاتبت کا وہ قانون نازل فرما یا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اِس کے بعد نیکی اور خیر کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھنے والے کسی شخص کو بھی غلام بنائے رکھنے کی گنجایش باقی نہیں رہی۔

ابو الاعلی مودودی

سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں کہ ان پر ﴿محفوظ رکھنے میں﴾ وہ قابل ملامت نہیں ہیں،

جونا گڑھی

بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔

فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ

امین احسن اصلاحی

البتہ جو ان کے سوا کے خواہش مند ہوئے تو وہی ہیں جو حد سے تجاوز کرنے والے ہیں

البتہ وہ لوگ جو اس حد سے آگے بڑھیں گے وہ خدا کے حدود کو توڑنے والے ہیں۔ یہاں صرف ان کے جرم کا ذکر فرمایا، اس کی سزا کا ذکر نہیں فرمایا۔ سزا کا ذکر نہ کرنے میں غصہ اور نفرت کی جو شدت ہے وہ خود واضح ہے۔ع

خموشی معنئ دارد کہ درگفتن نمی آید

یہاں اس امر کو یاد رکھیے کہ موجودہ مغربی اور مغرب زدہ سوسائٹی میں جنسی آزادی پر اگر کوئی قدغن ہے تو صرف اس صورت میں ہے جب جبر و اکراہ کی نوبت آئے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو پھر ہر ایک کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔

جاوید احمد غامدی

ہاں، جو اُن کے علاوہ چاہیں تو وہی ہیں جو حد سے بڑھنے والے ہیں

مطلب یہ ہے کہ رہبانیت مقصود نہیں ہے۔ بیویوں کے ساتھ شہوانی تعلق بالکل جائز ہے۔ لیکن اُن کے سوا کسی دوسرے کے ساتھ، خواہ وہ زنا اور متعہ کی صورت میں ہو یا اغلام اوروطی بہائم کی صورت میں ، یہ تعلق بالکل ممنوع ہے۔ کسی مسلمان سے اِس کی توقع نہیں کی جاتی۔ تاہم اتنی بات واضح رہے کہ آیت کے الفاظ میں اِس کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ اِس ممانعت کو دوسروں کے ساتھ جنسی تعلق سے آگے استمنا بالید اور اِس نوعیت کے دوسرے افعال تک بھی وسیع کر دیا جائے۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ آیت میں ’عَلٰی‘ ’یُحَافِظُوْنَ‘ کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا، اِس لیے یہاں لازماً تضمین ہے اور ’حٰفِظُوْنَ‘ کے بعد ’عن الوقوع علٰی أحد‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ چنانچہ مستثنیٰ منہ استمنا کے طریقے نہیں، بلکہ افراد ہیں جن سے کوئی شخص جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے۔ آیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بیویوں اور مملوکہ عورتوں سے مباشرت کے سوا قضاے شہوت کا کوئی طریقہ جائز نہیں ہے، بلکہ یہ ہیں کہ بیویوں اور مملوکہ عورتوں کے سوا کسی سے قضاے شہوت کرنا جائز نہیں ہے۔

ابو الاعلی مودودی

البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں،

یہ جملہ معترضہ ہے جو اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو ” شرمگاہوں کی حفاظت ” کے لفظ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوت شہوانی بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خواہ جائز طریقے ہی سے کیوں نہ ہو، بہرحال نیک اور اللہ والے لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کردی جاتی کہ فلاح پانے والے اہل ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بند رہتے ہیں، راہب اور سنیاسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے ایک جملہ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کردی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہش نفس پوری کرنا کوئی قابل ملامت چیز نہیں ہے، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے۔

اس جملہ معترضہ سے چند احکام نکلتے ہیں جن کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں۔

1: شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم عام سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ایک ازواج دوسرے مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ ۔ ” ازواج ” کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف ان عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو، اور یہی اس کے ہم معنی اردو لفظ ” بیوی ” کا مفہوم ہے۔ رہا لفظ : مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ ، تو عربی زبان کے محاورے اور قرآن کے استعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے، یعنی وہ عورت جو آدمی کی ملک میں ہو۔ اس طرح یہ آیت صاف تصریح کردیتی ہے کہ منکوحہ بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی سے بھی صنفی تعلق جائز ہے، اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے۔ اگر اس کے لیے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسے ازواج سے الگ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتی۔ آج کل کے بعض مفسرین جنہیں لونڈی سے تمتع کا جواز تسلیم کرنے سے انکار ہے، سورة نساء کی آیت : وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَولاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ (آیت 25) سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لونڈی سے تمتع بھی صرف نکاح ہی کر کے کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی تحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کرلو۔ لیکن ان لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید مطلب پا کرلے لیتے ہیں، اور اسی آیت کا جو ٹکڑا ان کے مدعا کے خلاف پڑتا ہو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایات جن الفاظ میں دی گئی ہے وہ یہ ہیں :۔ فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ۔ ” پس ان ( لونڈیوں) سے نکاح کرلو ان کے سرپرستوں کی اجازت سے اور ان کو معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کرو “۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا معاملہ زیر بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیر بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کا خرچ نہ برداشت کرسکتا ہو اور اس بنا پر کسی دوسرے شخص کی مملوکہ لونڈی سے نکاح کرنا چاہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر معاملہ اپنی ہی لونڈی سے نکاح کرنے کا ہو تو اس کے وہ ” اہل ” (سرپرست) کون ہو سکتے ہیں جن سے اس کو اجازت لینے کی ضرورت ہو ؟ مگر قرآن سے کھیلنے والے صرف : فَانْکِحُوْھُنَّ کو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ہی : بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ کے جو الفاظ موجود ہیں انہیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ مزید برآں وہ ایک آیت کا ایسا مفہوم نکالتے ہیں جو اسی موضوع سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات سے ٹکراتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے خیالات کی نہیں بلکہ قرآن پاک کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو وہ سورة نساء، آیت 3 ۔ 25 سورة احزاب، آیت 50 ۔ 52 ۔ اور سورة معارج، آیت 30 کو سورة مومنون کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے۔ اسے خود معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کا قانون اس مسئلے میں کیا ہے۔ (اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء، حاشیہ 44 ۔ تفہیمات جلد دوم، صفحہ، 29 تا 324 ۔ رسائل و مسائل، جلد اول، صفحہ 324 تا 323 ) ۔

2: اِلَّا عَلیٰٓ اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ میں لفظ علیٰ اس بات کی صراحت کردیتا ہے کہ اس جملہ معترضہ میں جو قانون بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے۔ باقی تمام آیات قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر خٰلِدُوْنَ تک مذکر کی ضمیروں کے باوجود مرد و عورت دونوں کو شامل ہیں، کیونکہ عربی زبان میں عورتوں اور مردوں کے مجموعے کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو ضمیر مذکر ہی استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْن کے حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئے علیٰ کا لفظ استعمال کر کے یہ بات واضح کردی گئی کہ یہ استثنا مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ اگر ” ان پر ” کہنے کے بجائے ” ان سے ” محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں کہا جاتا تو البتہ یہ حکم بھی مرد و عورت دونوں پر حاوی ہوسکتا تھا۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عورت حضرت عمر کے زمانے میں اپنے غلام سے تمتع کر بیٹھی تھی۔ صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ میں جب اس کا معاملہ پیش کیا گیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ تاولت کتاب اللہ تعالیٰ غیر تاویلہ، ” اس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا غلط مفہوم لے لیا “۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ استثناء مردوں کے لیے خاص ہے تو پھر بیویوں کے لیے ان کے شوہر کیسے حلال ہوئے ؟ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جب بیویوں کے معاملے میں شوہروں کو حفظ فروج کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا تو اپنے شوہروں کے معاملے میں بیویاں آپ سے آپ اس حکم سے مستثنیٰ ہوگئیں۔ ان کے لیے پھر الگ کسی تصریح کی حاجت نہ رہی۔ اس طرح اس حکم استثناء کا اثر عملاً صرف مرد اور اس کی مملوکہ عورت تک محدود ہوجاتا ہے، اور عورت پر اس کا غلام حرام قرار پاتا ہے۔ عورت کے لیے اس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اس کی خواہش نفس تو پوری کرسکتا ہے مگر اس کا اور گھر کا قوام نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خاندانی زندگی کی چول ڈھیلی رہ جاتی ہے۔

3: ” البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں “، اس فقرے نے مذکورہ بالا دو جائز صورتوں کے سوا خواہش نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کردیا، خواہ وہ زنا ہو، یا عمل قوم لوط یا وطی بہائم یا کچھ اور۔ صرف ایک استمنا بالید (Masturbation) کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی اس کو قطعی حرام ٹھیراتے ہیں۔ اور حنفیہ کے نزدیک اگرچہ یہ حرام ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر شدید غلبۂ جذبات کی حالت میں آدمی سے احیاناً اس فعل کا صدور ہوجائے تو امید ہے کہ معاف کردیا جائے گا۔

4 : بعض مفسرین نے متعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ممتوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے۔ نہ اس کے لیے عدت ہے۔ نہ طلاق۔ نہ نفقہ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ۔ بلکہ چار بیویوں کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ پس جب وہ ” بیوی ” دونوں کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ ” ان کے علاوہ کچھ اور ” میں شمار ہوگی جس کے طالب کو قرآن ” حد سے گزرنے والا ” قرار دیتا ہے۔ یہ استدلال بہت قوی ہے مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکہ کے سال دیا ہے، اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمت متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آ چکا تھا جو بالاتفاق مکی ہے اور ہجرت سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی، تو کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے فتح مکہ تک جائز رکھتے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر مبنی ہے۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کردینا مشکل تھا۔ متعہ کا جب ذکر آگیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کردی جائے۔ اول یہ کہ اس کی حرمت خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اسے حضرت عمر (رض) نے حرام کیا، درست نہیں ہے۔ حضرت عمر (رض) اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے۔ چونکہ یہ حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا، اس لیے حضرت عمر (رض) نے اس کی عام اشاعت کی اور بذریعہ قانون اسے نافذ کیا۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقاً مباح ٹھہرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے اس کے لیے تو بہرحال نصوص کتاب و سنت میں سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صرف اضطرار اور شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا۔ ابن عباس، جن کا نام قائلین جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے، اپنے مسلک کی توضیح خود ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ : ماھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر (یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں) اور اس فتوے سے بھی وہ اس وقت باز آگئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے لگے ہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کردیا جائے کہ ابن عباس اور ان کے ہم خیال چند گنے چنے اصحاب نے اس مسلک سے رجوع کرلیا تھا یا نہیں، تو ان کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالت اضطرار کی حد تک جاسکتا ہے۔ مطلق اباحت، اور بلا ضرورت تمتع، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممتوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوق سلیم بھی گوارا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمہ اہل بیت کو اس سے متہم کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنا بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے۔ یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانا خوش حال طبقے کے مردوں کا حق ہو۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح کے غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ اور کیا خدا اور اس کے رسول سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کو مباح کردیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بےعزتی بھی سمجھے اور بےحیائی بھی ؟

جونا گڑھی

جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں

 اس سے معلوم ہوا کہ متعہ کی اسلام میں قطعًا اجازت نہیں اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں۔ بیوی سے مباشرت کر کے یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس کام کے لئے رہ گئی ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال ختم ہے جب کبھی حالات نے دوبارہ وجود پذیر کیا تو بیوی ہی کی طرح اس سے مباشرت جائز ہوگی۔ 

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ

امین احسن اصلاحی

اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں

امانات اور عہود کی حفاظت: ’امانات‘ سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں جو ہمارے رب نے قوتوں اور صلاحیتوں، فرائض اور ذمہ داریوں کی شکل میں یا انعامات و افضال اور اموال و اولاد کی صورت میں ہمارے حوالہ کی ہیں ۔۔۔ اور وہ امانتیں بھی اس میں داخل ہیں جو کسی نے ہمارے پاس محفوظ کی ہوں یا ازروئے حقوق ان کی ادائیگی کی ذمہ داری ہم پر عاید ہوتی ہو۔ اسی طرح عہد میں وہ تمام عہد و میثاق بھی داخل ہیں جو ہمارے رب نے ہماری فطرت سے عالم غیب میں لیے ہیں یا اپنے نبیوں کے واسطہ سے، اپنی شریعت کی شکل میں، اس دنیا میں، لیے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس وہ تمام عہد و میثاق بھی اس میں داخل ہیں جو ہم نے اپنی فطرت یا انبیاؑء کے واسطہ سے اپنے رب سے کیے ہیں یا کسی جماعت یا فرد سے اس دنیا میں کیے ہیں، خواہ وہ قولاً و تحریراً عمل میں آئے ہوں یا ہر شائستہ سوسائٹی میں بغیر کسی تحریر و اقرار کے، سمجھے اور مانے جاتے ہوں، فرمایا کہ ہمارے یہ بندے ان تمام امانات اور ان تمام عہود و مواثیق کا پاس و لحاظ رکھنے والے ہیں۔ نہ اپنے رب کے معاملہ میں خائن اور غدار ہیں نہ اس کے بندوں کے ساتھ بے وفائی اور عہد شکنی کرنے والے ہیں۔

ان دو لفظوں کے اندر وہ تمام شرعی و اخلاقی، قانونی اور عرفی ذمہ داریاں آ گئیں جن کا احترام ہر شریعت میں مطلوب رہا ہے۔ یہاں یہ اوپر کی باتوں کے بعد ایک جامع بات کی حیثیت سے مذکور ہوئی ہے اور درحقیقت اسی اجمال کی تفصیل ہے جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہے۔
حکمت دین کا ایک نکتہ: یہاں حکمت دین کا یہ نکتہ نگاہ میں رہے کہ نماز ہی ان تمام امانات و عہود کی اصل محافظ ہے۔ نماز خود بھی، جیسا کہ تفسیر سورۂ بقرہ میں ہم واضح کر چکے ہیں، بندے کا اپنے رب کے ساتھ عہد و میثاق ہے جس کی تجدید ہر بندۂ مومن دن رات میں کم از کم پانچ مرتبہ کرتا رہتا ہے اور یہ ان تمام عہود و مواثیق اور امانات و فرائض کی یاددہانی بھی ہے جن کی ذمہ داری بندے پر عاید ہوتی ہے۔ ان مسائل پر ہم اس کتاب میں بھی موزوں مقامات میں بحث کر رہے ہیں اور خاص نماز کے اسرار و حقائق پر ’حقیقت نماز‘ کے عنوان سے ہم نے ایک رسالہ بھی لکھا ہے۔ تفصیل کے طالب اس کو پڑھیں۔

جاوید احمد غامدی

اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں

دین کی تمام اخلاقیات کے لیے یہ نہایت جامع تعبیر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ ’اَمٰنٰت‘ سے مراد وہ تمام امانتیں بھی ہیں جو ہمارے رب نے قوتوں اور صلاحیتوں، فرائض اور ذمہ داریوں کی شکل میں یا انعامات و افضال اور اموال و اولاد کی صورت میں ہمارے حوالے کی ہیں ۔۔۔اور وہ امانتیں بھی اِس میں داخل ہیں جو کسی نے ہمارے پاس محفوظ کی ہوں یا ازروے حقوق اُن کی ادائیگی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہو۔ اِسی طرح عہد میں وہ تمام عہد و میثاق بھی داخل ہیں جو ہمارے رب نے ہماری فطرت سے عالم غیب میں لیے ہیں یا اپنے نبیوں کے واسطے سے، اپنی شریعت کی شکل میں، اِس دنیا میں لیے ہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس وہ تمام عہد و میثاق بھی اِس میں داخل ہیں جو ہم نے اپنی فطرت یا انبیا علیہم السلام کے واسطے سے اپنے رب سے کیے ہیں یا کسی جماعت یافرد سے اِس دنیا میں کیے ہیں، خواہ وہ قولاً و تحریراً عمل میں آئے ہوں یا ہر شایستہ سوسائٹی میں بغیر کسی تحریر و اقرار کے سمجھے اور مانے جاتے ہوں۔ فرمایا کہ ہمارے یہ بندے اِن تمام امانات اور اِن تمام عہود و مواثیق کا پاس و لحاظ رکھنے والے ہیں۔ نہ اپنے رب کے معاملے میں خائن اور غدار ہیں، نہ اُس کے بندوں کے ساتھ بے وفائی اور عہد شکنی کرنے والے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۲۹۹)

ابو الاعلی مودودی

اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں، اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں،

” امانات ” کا لفظ جامع ہے ان تمام امانتوں کے لیے جو خداوند عالم نے، یا معاشرے نے، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان، یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا، اور کبھی اپنے قول وقرار سے نہ پھرے گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے : لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھد لہ ” جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا، اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا ” (بیہقی فی شعب الایمان) ۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” چار خصلتیں ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے، جب عہد کرے تو توڑ دے۔ اور جب کسی سے جھگڑے تو (اخلاق و دیانت کی) ساری حدیں پھاند جائے “۔

جونا گڑھی

جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں

  اَ مَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔ 

الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

امین احسن اصلاحی

جو فردوس کے وارث ہوں گے۔ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے

فردوس کی وراثت کے اصلی حق دار: فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جو اپنے باپ کی کھوئی ہوئی جنت کے وارث ہوں گے اور پھر ان کو اس سے نکالے جانے کا کوئی اندیشہ نہ ہو گا، جیسا کہ آدمؑ کو پیش آیا، بلکہ وہ اس میں اپنے باپ کے ساتھ ہمیشہ ہمیش رہیں اس لیے کہ وہ اس میں اپنے دشمن شیطان کو ہمیشہ کے لیے شکست دے کر داخل ہوں گے۔ فردوس جنت کے اعلیٰ ترین مقامات میں سے ہے اور یہ ان لوگوں کا حصہ ہے جو اس دنیا میں حق کی سربلندی کے لیے سر دھڑ کی بازیاں لگائیں گے۔

جاوید احمد غامدی

جو فردوس کے مالک ہوں گے۔ وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔

یہ جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے اور قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ قرآن میں یہ دو جگہ استعمال ہوا ہے،ایک یہاں اور ایک سورۂ کہف (۱۸) کی آیت ۱۰۷ میں۔ وہاں یہ جس طریقے سے استعمال ہوا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنت کے لیے علم ہو چکا ہے۔

ابو الاعلی مودودی

جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پردِیْشَا، قدیم کلدانی زبان میں پردیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا، عبرانی میں پردیس، ارضی میں پرویز، سُریانی میں فردیسو، یونانی میں پارا دئسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے لیے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل، خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورة کہف میں ارشد ہوا : کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً ، ” ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں “۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔

اہل ایمان کے وارث فردوس ہونے پر سورة طٰہٰ (حاشیہ 83 ) ، اور سورة انبیاء (حاشیہ 99 میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :11

ان آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں :

اول یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرلیں گے اور اس رویے کے پابند ہوجائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم، نسل یا ملک کے ہوں۔

دوم یہ کہ فلاح محض اقرار ایمان، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرلے، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہوگا۔

سوم یہ کہ فلاح محض دنیوی اور مادی خوش حالی اور محدود وقتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالت خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر رہتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوش حالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیب ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

چہارم یہ کہ مومنین کے ان اوصاف کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متن کی صداقت کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلہ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغاز میں تجربی دلیل ہے، یعنی یہ کہ اس نبی کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کرسکتی تھی۔ اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے بر حق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کشمکش آج نئی نہیں ہے بلکہ ان ہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کشمکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔

جونا گڑھی

جو فردوس کے وارث ہونگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے

 ان صفات مذکورہ کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہونگے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس، جو جنت کا اعلٰی حصہ ہے۔ جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں 

(صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین، فی سبیل اللہ، و کتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی ماء) 

وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ

امین احسن اصلاحی

اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں

یہاں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ نماز ہی سے اہل ایمان کی صفات کا ذکر شروع ہوا تھا اور اسی پر آ کر ختم ہوا۔ شروع میں نماز کا ذکر اس کی روح یعنی ’خشوع‘ کے پہلو سے ہوا اور آخر میں اس کی محافظت اس کے رکھ رکھاؤ اور اس کی دیکھ بھال کے پہلو سے ہوا، اس لیے کہ وہ برکات جو نماز کی بیان ہوئی ہیں اسی صورت میں پوری ہوتی ہیں جب ان کے اندر خشوع کی روح ہو اور اس کی برابر رکھوالی بھی ہوتی رہے۔ یہ باغ جنت کا پودا ہے جو پوری نگہداشت کے بغیر پروان نہیں چڑھتا۔ ذرا غفلت اور ناقدری ہو جائے تو یہ بے ثمر ہو کے رہ جاتا ہے، بلکہ اس کے بالکل ہی سوکھ جانے کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی حقیقی برکات سے بہرہ مند ہونے کی آرزو ہے تو شیاطین کی تاخت سے اس کو بچائیے اور وقت کی پوری پابندی کے ساتھ آنسوؤں سے ان کو سینچتے رہیے۔ تب کچھ اندازہ ہو گا کہ رب نے اس کے اندر آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے!! یہ بات کہ نماز ہی تمام دین کی محافظ ہے قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے۔ ہم نے دوسرے مقام میں ان تمام مثالوں کا حوالہ دیا ہے۔ یہ دین کی اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ نماز ہی سے تمام نیکیاں نشوونما بھی پاتی ہیں اور وہی اپنے حصار میں ان کی حفاظت بھی کرتی ہے۔ اگر وہ نماز وجود میں نہ آئے تو دوسری نیکیاں بھی وجود میں نہیں آ سکتیں۔ اور اگر نماز ہدم کر دی جائے تو دین و اخلاق کا سارا چمن تاراج ہو کر رہ جائے گا۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ جس نے نماز ضائع کر دی تو وہ باقی دین کو بدرجۂ اولیٰ ضائع کر دے گا۔

جاوید احمد غامدی

اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں

اوپر نماز ہی سے اہل ایمان کی صفات کا ذکر شروع ہوا تھا اور یہ اُسی پر ختم ہوا ہے۔ اِس سے دین میں نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ وہی درحقیقت اُن تمام مکارم اخلاق کی محافظ ہے جو دین میں مطلوب ہیں اور اِس لحاظ سے دین پر قائم رہنے کی ضمانت ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان کے حملے اُس کے بعد بھی جاری رہتے ہیں، لیکن نماز پر مداومت کے نتیجے میں اُس کے لیے مستقل طور پر انسان کے دل میں ڈیرے ڈال دینا ممکن نہیں ہوتا۔ نماز اُسے مسلسل دور بھگاتی اور ایک حصار کی طرح اُس کے حملوں سے انسان کے دل و دماغ کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطرے کی حالت میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ پیدل یا سواری پر، جس طرح ممکن ہو، اُسے لازماً ادا کیا جائے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے بعض دوسرے پہلوؤں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’... شروع میں نماز کا ذکر اُس کی روح، یعنی ’خشوع‘ کے پہلو سے ہوا اور آخر میں اُس کی محافظت ،اُس کے رکھ رکھاؤ اور اُس کی دیکھ بھال کے پہلو سے ہوا، اِس لیے کہ وہ برکات جو نماز کی بیان ہوئی ہیں، اُسی صورت حال میں حاصل ہوتی ہیں، جب اُس کے اندر خشوع کی روح ہو اور اُس کی برابر رکھوالی بھی ہوتی رہے۔ یہ باغ جنت کا پودا ہے جو پوری نگہداشت کے بغیر پروان نہیں چڑھتا۔ ذرا غفلت اور ناقدری ہو جائے تو یہ بے ثمر ہو کے رہ جاتا ہے، بلکہ اِس کے بالکل ہی سوکھ جانے کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر اِس کی حقیقی برکات سے بہرہ مند ہونے کی آرزو ہے تو شیاطین کی تاخت سے اِس کو بچائیے اور وقت کی پوری پابندی کے ساتھ آنسوؤں سے اِس کو سینچتے رہیے۔ تب کچھ اندازہ ہو گا کہ رب نے اِس کے اندر آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی ہے!‘‘(تدبرقرآن ۵/ ۲۹۹)

ابو الاعلی مودودی

اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔

اوپر خشوع کے ذکر میں ” نماز ” فرمایا تھا اور یہاں ” نمازوں ” بصیغۂ جمع ارشاد فرمایا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے وہاں جنس نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے۔ ” نمازوں کی محافظت ” کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقات نماز، آداب نماز، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کبھی بےوضو نہ پڑھ بیٹھیں۔ صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں، وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے، نہ اس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک دینا ہے۔

جونا گڑھی

جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں

 آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فانا للہ وان الیہ راجعون 

Page 1 of 12 pages  1 2 3 >  Last ›